اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں ’ایک حدیث میں پیغمبراکرم سے آیا ہے:”من قرائھا فکانما شھد مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم فتح مکہّ“”جو شخص اس کی تلاوت کرے گا وہ اس شخص کے مانند ہے جو فتح مکہّ میں پیغمبر کے ہمراہ تھے
-
ایک اور حد یث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے:” جو شخص سورہ”(
اذا جاء نصر الله والفتح
)
“ کو نا فلہ یا واجب نماز میں پڑھے گا خدا اس کو اس کے تمام دشمنوں پر فتح یاب کرے گا اور وہ قیا مت میں اس حالت میں وارد محشر ہوگا کہ اس کے ہاتھ میں ایک عہد نامہ ہوگا، جو بات کرے گا، خدا نے اسے اس کی قبر کے اندر سے باہر بھیجا ہے، اور وہ جہنم کی آگ سے امان نامہ ہے،
آیات ۱،۲،۳،
-(
بسم الله ارّحمن الرّحیم
)
۱ ۔(
اذا جاء نصرُ الله والفتحُ
)
۲ ۔(
وَ رَاَیتَ الناّس ید خُلُونَ فی دین الله افواجاَ
)
۳ ۔(
فسبح بحمد ربک واستغفرهُ انّه کان توابا
)
۔
تر جمہ
شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے
۱ ۔ جب خدا کی مدد اور کامیابی آن پہنچے۔ ۲ ۔ اور تو دیکھے گا کہ لوگ گروہ در گروہ خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں
۳ ۔ پس تم اپنے پر ور دگار کی تسبیح اور حمد بجا لاو اور اس سے استغفار کرو کہ وہ بڑا ہی تو بہ قبول کرنے والا ہے۔
جب اصلی کامیابی آن پہنچے
اس سورہ کی پہلی آیت جس میں فر ماتا ہے:”جس وقت خدا کی مدد اور کامیابی آن پہنچے“۔(اذا جاء نصر اللہ والفتح)”اور تو دیکھے گا کہ لوگ گروہ در گروہ خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں “( و رایت الناس ید خلون فی دین اللہ افواجا)۔ تو اس عظیم نعمت اور اس کا میابی ااور نصرتِ الٰہی کے شکرانے کے طور پر اپنے پر ور دگار کی تسبیح اور حمد بجا لاوء اور اس سے بخشش طلب کرو کہ وہ بڑا ہی تو بہ قبول کرنے والا ہے۔
(
فسبح بحمد ربک واستغفره انه کان توابا
)
ان تین مختصر اور پر معنی آیات میں بہت سے ایسے نکات ہیں جن میں غور کرنے سے اس سورہ کے اصلی ہدف کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے
۱ ۔پہلی آیت میں ”نصرت“ کی اضافت”خدا “کی طرف ہوئی ہے(نصر اللہ) صرف یہی ایک جگہ نہیں ہے کہ جہاں یہ اضافت نظر آرہی ہے، بلکہ قرآن کی بہت سی آیات میں یہ معنیٰ منعکس ہے منجملہ ان کے سورہ بقرہ کی آیة ۲۱۴ میں آیا ہے(
الا ان نصرالله قریب
)
” جان لو کہ خدا کی مدد قریب ہے“۔
اور سورہ آلِ عمران کی آیة ۱۲۶ اور انفال کی آیة ۱۰ میں آیا ہے۔(
وما النصر الا من عند الله
)
” نصرت تو صرف خداہی کی طرف سے ہوتی ہے“۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نصرت و کامیابی ہر حال میں خدا کے ارادہ سے ہی ہو تی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دشمن پر غلبہ حا صل کرنے کے لیے توا نا ئیوں کو مجتمع کرنا اورقدرت وطا قت مہیا کرنا ضروری ہے، لیکن ایک موّ حد آدمی نصرت کوخدا ہی کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسی بناء پر کامیابی کی صورت میں مغرور نہیں ہوتا بلکہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔
۲ ۔اس سورہ میں پہلے نصرتِ الٰہی، پھر فتح و کامرانی اور اس کے بعد اسلام کے نفوذ ووسعت اور لوگوں کے خدا کے دین میں گروہ در گروہ داخل ہونے کی بات کی گئی ہے۔ یہ تینوں ایک دوسرے کی علّت ومعلول ہیں ۔ جب تک خدا کی نصرت اور مدد نہ ہو، فتح و کامیابی حا صل نہیں ہوتی اور جب تک فتح و کامیابی حا صل نہ ہو اور راستہ کی رکاوٹیں دور نہ ہوں ،لوگ گروہ در گروہ مسلمان نہیں ہوتے ۔البتہ ان تین مرحلوں کے بعد، جن میں سے ہر ایک بہت بڑی نعمت ہے،چو تھا مرحلہ شکر اور حمد وستا ئش الٰہی کا آتا ہے۔اور دوسری طرف سے خدائی نصرت اور کامیابی اس لیے ہے کہ اصل ہدف یعنی لوگوں کاخد ا کے دین میں داخل ہونا اور عمومی ہدا یت صورت پذیر ہو۔
۳ ۔”فتح“ یہاں مطلق صورت میں بیان ہوا ہے اور ا ن قرا ئن کی بناء پر جن کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے، اس سے مُرادفتح مکہّ ہے،جس کا ایسا ہی ردِّ عمل ہواتھا اور وا قعاََ فتح مکہّ نے تاریخ اسلام میں ایک نئی فصل کا اضافہ کیا، کیو نکہ اس سے شرک کا اصلی مرکز تباہ و بر باد ہو گیا، بت توڑ دیے گئے اور بت پرستو ں کی امید مایو سی اور نا امیدی میں تبدیل ہو گئی، او ر لوگوں کے لیے اسلام پر ایمان کے راستے میں جو رو کاوٹیں تھیں وہ ہٹ گئی اسی بنا ء پر فتح مکہّ کوجز یرہ العرب میں اور اس کے بعد ساری دنیا میں اسلام کے ثبات واستقرار کا مر حلہ سمجھنا چا ہیئے۔
اور اسی لیے مشرکین کی جا نب سے فتح مکہّ کے بعد( سوائے ایک مو قع کے جس کی جلدی ہی سر کو بی ہو گئی) کسی قسم کا مقا بلہ نظر نہیں آیا او ر لوگ تمام علا قوں سے اسلام قبول کر نے کے لیے پیغمبر کی خد مت میں آئے تھے
۴ ۔تیسری آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرم کو (اور طبعاََ سب مومنین کو) تین اہم حکم دیتا ہے جو حقیقت میں اس عظیم کا میابی کاشکرانہ اور نصرتِ الٰہی کے مقابلہ میں ایک مناسب عکس العمل ہے اور اوہ تسبیح،حمد اور استغفار کا حکم ہے
”تسبیح“ کا معنی خدا کو ہر قسم کے عیب و نقص سے منزّ ّ ہ سمجھنا ہے”حمد“صفاتِ کما لیہ کے ساتھ اس کی تو صیف و تعریف کرنا ہے،اور”استغفار“ بندوں کی کو تا ہیوں اور تقصیروں کو ظاہرکرتا ہے۔ یہ عظیم کامیابی اس باتکا سبب بنی ہے کہ شرکاآلودہ افکار میں کمی ہو،خدا کا کمال و جمال زیادہ سے زیادہ ظاہر ہو اور راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگ حق کی طرف لو ٹ آئیں ۔
یہ فتح عظیم سبب بنی ہے کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ خدا اپنے اولیاء اور دوستوں کو تنہا چھوڑ دیتا ہے
(اس نقص سے پا کیز گی) اور وہ یہ بھی جان لیں کہ خدا اپنے وعدوں کے انجام دینے پر توانا ہے(اس کمال سے مو صوف ہو نا) اور بندے بھی اس کی عظمت کے مقابلہ میں اپنے نقص کا اعتراف کریں ۔
اس کے علاوہ ممکن ہے کہ انسان میں کامیابی کے وقت غیر مطلو ب ر دِّعمل پیدا ہو جائے اوروہ”غرور و تکبرّ اورخود کو برتر سمجھنے“ میں مبتلا ہو جائے یا دشمن سے”انتقام لینے اور ذاتی حساب چکانے“ کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ یہ تینوں احکام ا سے ا س بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ کامیابی کے حساّس لمحات میں خدا کی صفاتِ جلال وجمال کی یاد میں رہیں ،سب چیزوں کو اس کی طرف سے سمجھے اور استغفار میں مشغول ہو جائے تاکہ غرور و غفلت بھی اس سے زائل ہو اور وہ جذبہ انتقام سے بھی دور رہے
۵ ۔مسلمہ طور پر پیغمبر اسلام تمام انبیاء کی طرح” معصوم“تھے، پس یہ استغفار کا حکم کس لیے ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ توساری امت کے یے ایک نمونہ و اسوہ اور دستور العمل ہے کیو نکہ:
اولاََ: اس طولانی مبارزہ کے طویل زمانہ میں ، جو بہت زیادہ سالوں تک جاری رہا(تقریباََ بیس سال) اور مسلمانوں نے بہت سخت اور درد ناک دن گزارے،بعض اوقات تو حاد ثات ایسے پیچیدہ ہو جاتے تھے کہ جانیں لبوں تک پہنچ جاتی تھیں اور بعض لوگوں کے افکار میں خدائی وعدوں کے بارے میں بُرے گمان پیدا ہو جاتے تھے، جیسا کہ قرآن جنگ” احزاب“ کے بارے میں فرماتا ہے:وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنون:”اور دل گلے تک آ گئے اور تم اللہ کے بارے میں (نا مناسب) گمان کر نے لگے۔(احزاب ۱۰)
اب جب کہ کامیابی حاصل ہو گئی ہے تو وہ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ وہ سب بد گما نیاں اور بے تا بیاں غلط تھیں ، لہٰذا انہیں استغفار کر نا چا ہیئے
ثا نیاََ: انسان چا ہے جتنی بھی خدا کی حمدو ثنا کرے، پھر بھی وہ اس کے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا ، لہٰذا اُسے حمد و ثنا کے آخر میں اپنی تقصیر و کو تا ہی کی بناء پر” خدا کی بارگاہ میں “ استغفار کر نا چا ہیئے
ثا لثاََ: عام طور پرکا میابیوں کے بعد شیطانی وسوسے شروع ہو جاتے ہیں اور ایک طرف ” غرور“ اور دوسری طرف” تندورئی اور انتقام جوئی“ کی حالت پیدا ہو جاتی ہےلہٰذا اس موقع پر خدا کو یاد رکھنا چا ہیئے اور مسلسل استغفار کرتے رہنا چا ہیئے، تاکہ ان میں سے کوئی سی حالت بھی پیدا نہ ہو یا اگر پیدا بھی ہو تو بر طرف ہو جائے۔
رابعاََ: جیسا کہ ہم نے سورہ کے آغاز میں بیان کیا ہے اس کامیابی کا اعلان تقریباََ پیغمبر کی ما موریت کے اختتام اور آنحضرت کی عمر کے پورا ہونے اور لقائے محبوب کے لیے جانے کے اعلان کے معنی میں ہے اور یہ حالت”تسبیح و”حمد و”استغفار“ سے منا سبت رکھتی ہے اسی لیے روایات میں آیا ہے کہ اس سورہ کے نازل ہو نے کے بعدپیغمبر اکرم ا س جملہ کا بہت زیادہ تکرار فر ماتے تھے:
” سبحانک اللهم وبحمدک، اللهم اغفرلی انک انت التواب الرحیم
:”خدا وندا!تو پاک و منزّہ ہے ، اور میں تیری حمد و ثنا کرتا ہوں ۔ خد وندا! مجھے بخش دے کہ تو بہت ہی تو بہ کو قبو ل کرنے والا اور مہر بان ہے
۶ ۔” انہ کان توابا“ کا جملہ مسئلہ استغفار کی علّت کا بیان ہے یعنی استغفار و تو بہ کر کیو نکہ خدا بہت ہی توبہ کو قبو ل کرنے والا ہے۔ ضمنی طور پر شاید اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ جب خدا تمہاری تو بہ کو قبول کر لیتا ہے تو تم بھی کا میابی کے بعد جہا ں تک ہو سکے کو تا ہی کرنے والو ں کی توبہ کو قبول کر لو۔ اور جب تک ان سے مخا لفت کا ارادہ یا سازش کے آثار ظاہر نہ ہوانہیں اپنے سے دور نہ کرولہٰذا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھ لیا ہے۔ پیغمبر اکرم نے اس فتح مکہّ کے ما جرے میں شکست خوردہ کینہ ور دشمنوں کے مقا بلہ میں اسلامی رافت ورحمت کااعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا ہے۔
یہ صرف پیغمبر اکرم ہی کی سیرت نہیں ہے کہ آپ دشمن پر آخری اور اصلی فتح حاصل کرنے کے مو قع پر تسبیح وحمد و استغفار میں مصروف ہو گئے، بلکہ سارے ہی انبیاء کی تا ریخ میں یہ مطلب اچھی طرح نمایاں ہے۔
مثلاََ حضرت ”یو سف“ علیہ السلام جب مصر کے تختِ حکو مت پر بیٹھے اور ایک طو یل جدائی کے بعد ان کے ماں باپ اور بھا ئی ان سے آکر ملے تو عرض کی:(
ربّ قد اتیتنی من الملک وعلمتی من تاویل الاحادیث فا طر السماوات والارض انت ولیّ فی الدنیا والآخرة تو فّنی مسلماَ والحقنی با لصالحین
)
:
پرور دگار! تو نے حکومت کا ایک بڑا حصّہ مجھے دیا ہے اور تو نے مجھے خوا بوں کی تعبیر کا علم عطا کیاہے، تو ہی آسمان و زمین کو پیدا کر نے والا ہے اور تو ہی دنیا و آخرت میں میرا سر پرست ہے ۔ مجھے مسلمان کی حیثیت سے موت دینا اور صا لحین کے سا تھ ملحق کرنا“( یو سف۔ ۱۰۱)
پیغمبر خدا حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ سبا کے تخت کو اپنے سامنے حاضر دیکھا تو کہا:”هذا من فضل ربیّ لیبلونی ء اشکرام اکفر
“:”یہ میرے پرور دگار کے فضل سے ہے تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں “( نمل۔ ۴۰)
فتح مکہّ میں اسلام کی عظیم ترین فتح:
فتح مکہّ نے۔ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے۔ تاریخ اسلام میں ایک نئی فصل کا اضافہ کیا ہے اور تقریباََ بیس سال کے بعد دشمن کی مقا و متوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ۔حقیقت میں فتح مکہّ سے جزیرة العرب سے شرک و بت پرستی کی بساط لپیٹ دی گئی اور اسلام دنیا کے دوسرے مما لک کی طرف حرکت کے لیے آمادہ ہوا۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حد یبیہ کے عہد و پیمان اور صلح کے بعد کفّار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کو نظر اند ز کردیا ۔ اور پیغمبر کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیا دتی کی،آپ کے حلیفوں نے آنحضرت سے شکایت کی تو رسول اللہ نے اپنے حلفیو ں کی مدد کرنے کا ارادہ کر لیا۔
اور دوسر ی طرف مکہّ میں بت پر ستی، شرک اور نفاق کا جو مر کز قا ئم تھا اس کے ختم ہونے کے تمام حا لات فراہم ہو گئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ہر حالت میں انجام دینا ضروری تھا“ اس لیے پیغمبر خدا کے حکم سے مکہّ کی طرف جانے کے لیے آمادہ ہو گئے۔
فتح مکہّ تین مراحل میں انجام پائی:۔
پہلا مر حلہ مقد ماتی تھا،یعنی ضروری قواء اور توا نائیوں کو فرا ہم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی رو حانی قوّت وتوانائی کی مقدار و کیفیّت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کر نا تھا۔
دوسرا مر حلہ، فتح کے مرحلہ کو بہت ہی ماہرانہ اور ضا ئعات وتلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آ ثار و نتا ئج کا مرحلہ تھا۔
۱ ۔ یہ مرحلہ انتہائی دقت،باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا،خصوصاََ رسول اللہ نے مکہّ ومد ینہ کی شا ہراہ کو اس طرح سے قرق کر لیا تھا کہ اس عظیم آماد گی کی خبر کسی طرح سے بھی اہلِ مکہّ کو نہ پہنچ سکی ۔اس لیے انہو ں نے کسی قسم کی تیاری نہ کی،وہ مکمل طور پرغفلت میں پڑے رہے اور اسی وجہ سے اس مقدّس سر زمین میں اس عظیم حملے اور بہت بڑی فتح میں تقریباََ کوئی خون نہیں بہا۔
یہاں تک کہ وہ خط بھی، جو ایک ضعیف الایمان” مسلمان حا طب بن ابی بلتعہ“نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ ”مز ینہ“ کی ایک عورت ”کفود“یا ”سارہ“ نامی کے ہاتھ مکہ ّ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم کے لیے آشکار ہو گیا۔علی علیہ السلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ تیزی سے اس کے پیچھے روانہ ہوئے،اُنہونے اس عورت کومکہّ و مدینہ کی ایک در میانی منزل میں جا لیااوراس سے وہ خط لے کر خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے،جس کی داستان سورہ ممتحنہ کی پہلی آیت کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہے
بہر حال پیغمبراکرم مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقر ر کرکے ہجرت کے آٹھویں سال ما ہِ رمضان کی دس تاریخ کو مکہّ کی طرف چل پڑے،اور دس دن کے بعدمکہّ پہنچ گئے۔
پیغمبر اکرم نے راستے کے وسط میں اپنے چچاعباس (رض) کو دیکھا کہ وہ مکہّ سے ہجرت کر کے آپ کی طرف آرہے ہیں ۔ حضرت نے ان سے فر مایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ہمارے ساتھ چلیں ،اور آپ آخری مہاجر ہیں ۔
۲ ۔آخر کار مسلمان مکہّ کے قریب پہنچ گئے اور شہر کے باہر،اطراف کے بیانوں میں اس مقام پر جسے ”مرّالظہران“ کہا جا تا تھا اور جو مکہّ سے چند کلو میٹر سے زیادہ فا صلہ پر نہ تھا ،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لیے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے ) وہاں آگ رو شن کر دی ۔اہلِ مکہّ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے ۔
ابھی تک پیغمبر اکرم اور لشکرِاسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنہا ں تھیں ۔اس رات اہلِ مکہّ کا سر غنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سر غنے خبریں معلوم کرنے کے لیے مکہّ سے باہر نکلے۔اس موقع پر پیغمبر اکرم کے چچا عباس (رض) نے سو چا کہ اگررسول اللہ قہر آلودہ طریقہ پر مکہّ میں وارد ہوئے تو قریش میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔انہوں نے پیغمبر اکرم سے اجازت لی اور آپ کی سواری پر سوار ہو کر کہا کہ میں جاتا ہوں ، شاید کوئی مل جا ئے تو ا س سے کہو ں کہ اہل مکہّ کو اس ماجرے سے آگاہ کر دے تاکہ وہ آکر امان حاصل کرلیں ۔
عباس وہاں روانہ ہو کربہت قریب پہنچ گئے۔اتفا قاََاس موقع پرانہوں نے”ابو سفیان “ کی آواز سنی جو اپنے ایک دوست ”بدیل “ سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نہیں دیکھی ۔”بدیل نے“ کہا : میرا خیال ہے کہ یہ آگ قبیلہ ”خزاعہ“ نے جلائی ہوئی ہے ابو سفیان نے کہا:قبیلہ خزاعہ اس سے کہیں زیادہ ذلیل و خوار ہیں کہ وہ اتنی آگ رو شن کریں ۔
اس موقع پر”عباس“نے ” ابو سفیان “ کو پکارا۔ابو سفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کہا سچ سچ بتاؤکیابات ہے؟عباس نے جواب دیا یہ رسول اللہ ہیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمہاری طرف آرہے ہیں ۔ابو سفیان سخت پریشان ہوا اور کہا:آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ۔
عباس نے کہا: میرے ساتھ آؤاور رسول اللہ سے امان لے لو ورنہ قتل کر دیے جا ؤ گے ۔اس طرح سے عباس نے” ابو سفیان “ کواپنے ہمراہ رسول اللہ کی سواری پر ہی سوار کر لیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ کی خدمت میں پلٹ آئے ۔وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یہی کہتے کہ یہ توپیغمبر کے چچا ہیں جو آنحضرت کی سواری پر سوار ہیں کوئی غیر آدمی نہیں ہے۔یہا ں تک وہ اس مقام پرآئے جہاں عمر ابنِ خطاب (رض) تھے ۔جب عمر بن خطاب (رض) کی نگاہ ابوسفیان پر پڑی تو کہا:خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ (ابو سفیان)پر مسلط کیا ہے ،اب تیرے لیے کوئی ا مان نہیں ہے اور فوراََہی پیغمبر کی خدمت میں آکر آپ سے (ابو سفیان) کی گردن اُڑانے کی اجازت مانگی۔
لیکن اتنے میں عباس (رض) بھی پہنچ گئے اور کہا : کہ اے رسول ِ خدا میں نے اسے پناہ دے دی ہے ۔پیغمبر اکرم نے فر مایا: میں بھی سر ِدست اسے امان دیتا ہوں ۔کل آپ اسے میرے پاس لے آئیں ۔اگلے دن جب عباس (رض) اسے پیغمبر کی خدمت میں لائے تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا :”اے ابو سفیان !وائے ہو تجھ پر،کیا وہ و قت ابھی نہیں آیا کہ تو خدا ئے یگانہ پر ایمان لے آئے۔ اس نے عرض کیا :ہاں !اے رسول ِخدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے ،اگر بتوں سے کچھ ہو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا ۔
آپ نے فرمایا:”کیا وہ موقع نہیں آیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔“اس نے عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ابھی اس بارے میں میرے دل میں کچھ شک و شبہ موجود ہے۔لیکن آخر کار ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں میں سے دو آدمی مسلمان ہو گئے۔
پیغمبر اکرم نے عباس (رض)کو فر مایا:
”ابو سفیان کو اس درہ ّمیں جو مکہّ کی گزر گاہ ہے ،لے جاؤتاکہ خدا کالشکر وہاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے۔“عباس (رض) نے عرض کیا:”ابو سفیان ایک جاہ طلب آدمی ہے،اس کو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے۔پیغمبر نے فرمایا:”جو شخص ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے ،جو شخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ہے ،جو شخص اپنے گھر کے اندررہے اور دروازہ بند کر لے وہ بھی امان میں ہے۔“
بہر حال جب ابو سفیان نے اس لشکرِعظیم کو دیکھاتو اسے یقین ہو گیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہی اور اس نے عباس کی طرف رخ کرکے کہا :آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی ہو گئی ہے۔عباس نے کہا :وائے ہو تجھ پریہ سلطنت نہیں نبوت ہے۔
اس کے بعد عباس نے اس سے کہاکہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہّ والوں کے پاس جاکر انہیں لشکراسلام کامقابلہ کرنے سے ڈرا۔
ابو سفیان نے مسجد الحرام میں جا کر پکار کر کہا:
”اے جمعیت قریش محمّد اد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمہاری طرف آیا ہے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔اس کہ بعد اس نے کہا:جو شخص میرے گھرمیں داخل ہو جائے وہ امان میں ہے ،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ہے اورجو شخص اپنے گھر میں رہتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کرے وہ بھی امان میں ہے ۔
اس کے بعداس نے چیخ کر کہا :اے جمعیت قریش اسلام قبول کر لو تاکہ سالم رہواور بچ جاؤ،اس کی بیوی ”ہندہ“نے اس کی داڑھی پکڑلی اور چیخ کر کہا:اس بڈھے احمق کو قتل کر دو۔ابو سفیان نے کہا:میری داڑھی چھوڑدے۔خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تُوبھی قتل ہو جائے گی،جاکر گھر میں بیٹھ جا۔اس کے بعد پیغمبر اسلام لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے اور”ذوی طوی “ کے مقام تک پہنچ گئے،وہی بلندمقام جہاں سے مکہّ کے مکا نات صاف نظر آتے ہیں ،پیغمبر کو وہ دن یاد آگیا جب آپ مجبور ہوکر مخفی طور پرمکہ ّ سے باہر نکلے تھے،لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں ،توآپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی اور سجدہ شکر بجا لائے۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم ”حجون“میں ( مکہّ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جہاں خدیجہ کی قبر ہے)اُترے ،غسل کر کے اسلحہ اور لباسِ جنگ پہن کر اپنی سواری پر سوار ہوئے،سورہ فتح کی قرات کرتے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آواز تکبیر بلند کی ۔لشکر اسلام نے بھی نعرئہ تکبیر بلند کیا تواس سے سارے دشت وکوہ گونج اٹھے
اس کے بعد آپ اپنے اُونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لیے خانہ کعبہ کے قریب آئے۔آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سر نگوں کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:”جاء الحق وزھق ا لباطل ان الباطل کان زھوقا”حق آگیا اور باطل مٹ گیا،اور باطل ہے ہی مٹنے والا“۔
کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپرنصب تھے ،جن تک پیغمبرکا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا۔آپ نے امیرالمو منین علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپدوش مبارک پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتو ں کوزمین پر گرا کر توڑ ڈالیں ۔علی نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔
اس کے بعد آپ نے خانہ کعبہ کی کلید لے کردروازہ کھولااور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانہ کعبہ کے اندر درو دیوار پر بنی ہوئی تھیں ،محور کر دیا۔
۳ ۔اس سریع اور شاندار کامیابی کے بعد پیغمبر نے خانہ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ہاتھ ڈالا اور وہاں پر موجود اہلِ مکہّ کی طرف رخ کر کے فرمایا:
”اب بتلاؤ تم کیا کہتے ہو؟اور تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے بارے میں کیاحکم دوں گا؟انہو ں نے عرض کیا:ہم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سوااور کوئی توقع نہیں رکھتے !آپ ہمارے بزرگوار بھائی اور آپ ہمارے بزر گوار بھائی کے فر زند ہیں ۔آج آپ برسرِاقتدارآگئے ہیں ،ہمیں بخش دیجئے۔پیغمبر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اور مکہّ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے ۔پیغمبر اکرم نے فر مایا:”میں تمہارے بارے میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہی تھی کہ آج تمہارے اوپر کسی قسم کی کوئی سر ز نش اور ملامت نہیں ہے،خدا تمہیں بخش دے گا،وہ ارحم الراحمین ہے۔“
اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کر دیا اور فر مایا:”تم سب آزاد ہو،جہاں چا ہو جا سکتے ہو۔ضمنی طور پرپیغمبر نے یہ حکم دیا تھاکہ آپ کے لشکری کسی سے نہ الجھیں اور بالکل کوئی خون نہ بہایا جائے۔ایک روایت کے مطابق صرف چھ افراد کو مستثنیٰ کیا گیا تھا جو بہت ہی بد زبان اور خطر ناک لوگ تھے ۔
یہا ں تک کہ جب آپنے یہ سنا کہ لشکرِاسلام کے علمدار”سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ:الیوم یوم الملحمة”آج انتقام کا دن ہے“تو پیغمبر نے علی علیہ السلام سے فرمایا۔۔۔۔۔جلدی سے جاکر اس علم کو لے لو اور اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاو کہ :الیوم یوم المرحمة
“ آج عفو و بخشش اور رحمت کا دن ہے“۔
اور اسی طرح مکہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہو گیا ،، عفو و رحمت ِ اسلامی کی اس کشش نے، جس کی انہیں بالکل توقع نہیں تھیں ، دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ گروہ آکر مسلمان ہو گئے، اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جاپہنچی۔
اسلام کی شہرت ہرجگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ہرجیت سے دھاک بیٹھ گئی۔
بعض تاریخوں میں آیاہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”لا اله الا الله وحده،وحده انجز وعده و نصر عبده، وهزم الاحزاب و هزم الاحزاب وحده، الا ان کل مال اومأثره او دم تدعی فهو تحت قدمی هاتین
!
” خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ وہ یکتا و یگانہ ، اس نے آخر کار اپنے وعدے کو پورا کردیا ۔ اور اپنے بندے کی مدد کی ، اور اس نے خود اکیلے ہی تمام گروہوں کو شکست دے دی ۔ جان لو کہ ہرمال ، ہر امتیاز ، اور ہر وہ خون جس کا تعلق ماضی اور زمانہ جاہلیت سے ہے ، سب کے سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں ۔ ( یعنی اب اس خون کے بارے میں ، جوزمانہ جاہلیت میں بہا یا گیا تھا، یا وہ اموال جو لوٹے گئے تھے ، کوئی بات نہ کرنا) اور زمانہ جاہلیت کے تمام اعزازات اور امتیازات بھی باطل ہو گئے ہیں اور اس طرح تمام گزشتہ فائلیں بند ہو گئیں ہیں ۔
یہ ایک بہت اہم اور عجیب قسم کی پیش نہادتھی جس میں عمومی معافی کے فرمان سے حجاز کے لوگوں کو ان کے تاریک اور پر ماجرا ماضی سے کاٹ کر رکھ دیا اور انہیں اسلام کے سائے میں ایک نئی زندگی بخشی جو ماضی سے مربوط کشمکشوں اور جنجالوں سے مکمل طو رپرخالی تھی۔
اس کام نے اسلام کی پیش رفت کے سلسلہ میں حد سے زیادہ مدد کی اور یہ ہمارے آج اور آنے والے کل کے لئے ایک دستور العمل ہے ۔
خدا وندا ! تو اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ اس دیرینہ عظمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے دوستوں کے زمرہ میں قرار دے۔
بار الٰہا !ہمیں ایسی توفیق مرحمت فرماکہ ہم دنیا میں عدل ِ اسلامی حکومت کو اس طرح پھیلائیں کہ ساری دنیا کے لوگ فوج در فوج اسے دل و جان سے قبول کرلیں ۔
____________________
آمین یارب العالمین