تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65345
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65345 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سور ہ الفلق

یہ سورہ مکّہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۵ آیات ہیں ۔

سورئہ ”فلق “کے مطالب

ایک جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہو ااگر چہ مفسرین کی ایک دوسری جماعت اسے ”مدنی “سمجھتی ہے ۔اس سورہ کے مطالب ایسی تعلیمات ہیں جو خدا نے پیغمبر کو با لخصوص،اور سب مسلمانوں کو با لعموم ،تمام اشرار کے شر سے ،اس کی ذات پاک سے پناہ مانگنے کے سلسلہ میں دی ہیں تاکہ خود کو اس کے سپرد کر دیں اور اس کی پناہ میں ہر صاحب شر موجود کے شر سے امان میں رہیں ۔اس سورہ کے شان نزول کے بارے میں اکثر کتب تفاسیر میں کچھ روایات نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق بعض یہودیوں نے پیغمبر اکرم پر جادو کر دیا تھا ،جس سے آپ بیمار ہو گئے تھے ۔جبر ئیل نازل ہوئے اور جس کنو یں میں جادو کے آ لات چھپا ئے ہوئے تھے اس جگہ کی نشا ن دہی کی ،اسے باہر نکالاگیا ،پھر اس سورہ کی تلاوت کی تو پیغمبر کی حالت بہتر ہو گئی ۔لیکن مرحوم طبرسی اور بعض دوسرے محقیقن نے اس قسم کی روایات کو ، جن کی سند صرف ”ابن عباس (رض)“اور عا ئشہ (رض)تک منتہی ہوتی ہے ،قابل اعتراض سمجھا ہے اور درست قرار نہیں دیا ،کیو نکہ :

اوّلاَ۔یہ سورہ مشہور قو ل کے مطابق مکی ہے اور اس کا لب و لہجہ بھی مکی سورتوں والا ہے ،جب کہ پیغمبر کا یہو دیوں سے واسطہ مدینہ میں پڑا اور خود یہی بات اس قسم کی روایات کی عدم اصالت کی ایک دلیل ہے ۔

دوسری طرف اگر پیغمبر اکرم پر جادو گر اتنی آسانی کے ساتھ جادو کر لیا کریں کہ وہ بیمار پڑ جائیں اور بستر علالت پردراز ہو جائیں تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کو آپ کے عظیم ہدف اور مقصد سے آسانی روک دیں ۔مسلمہ طور پر وہ خدا جس نے آپ کو اس قسم کی ماموریت اور عظیم رسالت کے لیے بھیجا ہے ،وہ آپ کو جادوگروں کے جادو کے نفوذسے بھی محفو ظ رکھے گا تا کہ نبوت کا بلند مقام ان کے ہاتھ میں بازیجہ اطفال نہ بنے ۔

سوم ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ جادو پیغمبر کے جسم میں اثر انداز ہو سکتا ہے ،تو پھر ممکن ہے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ وہم پیدا ہو جائے کہ جادو آپ کی روح میں بھی اثر انداز ہو سکتا ہے،اور یہ ممکن ہے کہ آپ کے افکار جادو گرو ں کا شکار ہو جائے ۔ یہ معنی پیغمبر اسلام پر اعتماد کی اصل کو عام لو گوں کے افکار میں متز لزل کر دیں گے ۔

اس لیے قرآن مجید اس معنی کی نفی کرتا ہے کہ پیغمبر پر جادو کیا گیا ہو ،فر ماتا ہے :”( و قال الظالمون ان تبتعون الا رجلا مسحورا انظر کیف ضر بو ا لک الا مثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا ) “”اور ظالموں نے کہا تم ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو ،دیکھو تو سہی!تیرے لیے انہوں نے کیسی کیسی مثالیں بیان کی ہیں اور ایسے گمراہ ہوئے ہیں کہ راستہ پا ہی نہیں سکتے ۔“(فر قان ۔ ۸ ، ۹)

”مسحور “چا ہے یہاں اس شخص کے معنی میں ہو جس پر عقلی لحاظ سے جادو کیا گیا ہو یا اس کے جسم پر ،دونوں صورتوں میں ہمارے مقصود پر د لالت کرتا ہے ۔ بہر حال ایسی صورت مشکوک روایات کے ساتھ مقام نبو ت کی قدرت پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی فہم آیات کے لیے ان پر تکیہ کیا جا سکتا ہے ۔

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی فضیلت میں پیغمبر اکرم سے نقل ہو ا ہے ،آپ نے فر مایا :

انزلت علی اٰیات لم ینزل مثلهن :المعوذتان :“

”مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ ان کی مثل اور مانند اور نازل نہیں ہوئیں ،اور وہ دو سورتیں ”فلق “اور ”ناس “ہیں ۔(۱) ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے :

”جو شخص نماز ”وتر “میں سورہ ”فلق “و ناس “اور( قل هو الله احد ) “کو پڑھے گا ،تو اس کو یہ کہا جائے گا کہ اے بندئہ خدا تجھے بشارت ہو ،خدا نے تیری نماز وتر قبول کر لی ہے ۔“(۲) ایک اور روایت میں پیغمبر اکرم سے بھی آیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی سے فر مایا :”کیا تو چا یتا ہے کہ میں تجھے ایسی دو سورتوں کی تعلیم دو ں جو قرآن کی سورتوں میں سب سے زیادہ افضل و برتر ہیں ؟اس نے عرض کیا :ہاں !اے رسول اللہ ۔تو حضرت نے اسے معوذ تین (سورہ فلق و ناس )کی تعلیم دی ۔اس کے بعد ان دونوں کی نماز صبح میں قرات کی اور اس سے فرمایا ،جب تو بیدار ہویا سونے لگے تو ان کو پڑھا کر ۔(۳) یہ بات واضح ہے کہ یہ سب کچھ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی روح و جان اور عقیدہ و عمل کو اس کے مطا لب کے ساتھ ہم آہنگ کریں ۔

____________________

۱۔ ”نور الثقلین “جلد ۵ص ۷۱۶و ”مجمع البیان “جلد ۱۰ ،ص ۵۶۷۲۔”نور الثقلین “جلد ۵ ص ۷۱۶و” مجمع البیان “جلد ۱۰ ،ص ۵۶۷

۳۔”نور الثقلین “جلد ۵ ص۷۱۶ و ”مجمع البیان “جلد ۱۰ ،ص ۵۶۷

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( قل اعوذ برب الفلق ) ۲ ۔( من شر ما خلق ) ۳ ۔( و من شر غا سق اذا وقب )

۴ ۔( ومن شر النفٰثٰت فی العقد ) ۵ ۔( و من شر حا سداذا حسد )

تر جمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

۱ ۔ کہہ دیجئے میں سفیدہ صبح کے پر وردگار کی پناہ ما نگتا ہوں ۔

۲ ۔ ان تمام چیزوں کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہیں ۔

۳ ۔اور ہر مزاحمت کرنے والے موجود کے شر سے جب کہ وہ وارد ہو ۔

۴ ۔ اور ان کے شر سے جو گرہوں میں دم کرتے ہیں ۔(اور ہر طرح کے ارادہ کو کمزور کر دیتے ہیں )۔

۵ ۔ اور ہر حسد کرنے والے کے حسد سے جب وہ حسد کرے ۔

میں سپیدئہ صبح کے پر وردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔

قرآن اس سورہ کی پہلی آیت میں خود پیغمبر کو ایک نمونہ اور پیشوا کے عنوان سے اس طرح حکم دیتا ہے : کہہ دیجئے ،میں سفیدئہ صبح کے پرور دگا رسے پناہ مانگتا ہوں جو رات کی سیاہی کو چیر دیتا ہے ۔( قل اعوذبرب الفلق ) ۔ ان تمام چیزوں کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہیں ۔( من شر ما خلق ) ۔

تمام شریر موجودات کے شر سے ،شریر انسانوں سے ،جنوں ،حیوانات،شر کے پیش آنے والے واقعات اور نفس اماّرہ کے شر سے ۔”فلق “(بروزن شفق )”فلق “(بر وزن خلق )کے مادہ سے اصل میں کسی چیز میں شگاف کرنے اور ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کے معنی میں ہے ،اور چونکہ سفیدئہ صبح کے پھوٹنے کے وقت رات کا سیاہ پردہ چاک ہو جاتاہے ۔لہٰذا یہ لفظ طلوع صبح کے معنی میں استعمال ہوا ۔جیسا کہ”فجر “کا بھی اسی منا سبت سے طلوع صبح پر اطلاق ہوتا ہے ۔

بعض اسے تمام موالید اور تمام زندہ موجودات کے معنی میں سمجھتے ہیں ،چاہے وہ انسان ہو یا حیوان و نبا تات کیو نکہ ان موجودات کا پیدا ہونا ،جو دانہ یا گٹھلی وغیرہ کے شگافتہ ہونے سے صورت پذیر ہوتا ہے ،وجود کے عجیب ترین مراحل میں سے ہے اور حقیقت میں تولد کے وقت اس موجود میں ایک عظیم تحرک رونما ہوتا ہے اور وہ ایک عالم سے دوسرے عالم میں قدم رکھتا ہے ۔

سورئہ انعام کی آیہ ۹۵ میں آیا ہے :”ا ن الله فالق الحب والنوی یخرج الحی من ا لمیت و مخرج ا لمیت من الحی “”خدا دانہ اور گٹھلی کا شگافتہ کرنے والا ہے ،جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے ۔

بعض نے ”فلق “کے مفہوم کو اس سے بھی زیادہ وسیع معنی میں لیا ہے اور اس کا ہر قسم کی آفر ینش وخلقت پر اطلاق کیا ہے ،کیو نکہ ہر موجود کی آفر ینش وخلقت سے عدم کا پردہ چاک ہو جاتا ہے ،اور وجود کا نور ظاہر و آشکار ہو جاتاہے ۔

ان تینوں معا نی (طلوع صبح،زندہ موجودات کا تولد ،اور ہر موجود کی خلقت و آفر ینش )میں سے ہر ایک عجیب و غریب وجود میں آنے والی چیز ہے جو پروردگار اور اس کے خالق و مدبر کی عظمت کی دلیل ہے ،اور اس وصف کے ساتھ خدا کی تو صیف ایک عمیق مفہوم و مطلب رکھتی ہے ۔

بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ :”فلق “دوزخ میں ایک کنواں یا زندان ہے ،اور وہ جہنم کے وسط میں ایک شگاف کی مانند دکھائی دیتا ہے ۔

یہ رو ا یت ممکن ہے اس کے مصادیق میں سے ایک مصداق کی طرف اشارہ ہو ،لیکن یہ ”فلق “کے وسیع مفہوم کو محدود نہیں کرتی ۔”من شر ما خلق “کی تعبیر کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ آفر ینش و خلقت الٰہی اپنی ذات میں کوئی شر رکھتی ہے کیو نکہ آفر ینش خلقت تو ایک ایجاد ہی ہے ،ور ایجاد وجود خیر محض ہے ،قرآن کہتا ہے :( الذی احسن کل شیء خلقه ) ”وہی خدا جس نے چیز کو بھی پیدا کیا بہتراور زیادہ سے زیادہ اچھا کر کے پیدا کیا “(الم سجدہ ۔ ۷)

بلکہ شر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مخلوقات قوانین آفر ینش سے منحرف ہو جائیں اور معینہ راستے سے الگ ہو جائیں ۔مثلاََ ڈنک جانوروں کے کاٹنے والے دانت ایک دفاعی حربہ ہیں ،جنہیں وہ اپنے دشمنوں کے مقا بلہ میں استعمال کرتے ہیں اب اگر یہ ہتھیار اپنے مو قع و محل پر ہوں تو خیر ہی خیر ہیں ،لیکن اگر یہ بے موقع اور دوست ہی کے مقابلہ میں استعمال ہونے لگیں تو پھر شر اور برائی ہیں ۔

بہت سے ایسے امور ہیں ،جنہیں ہم ظاہر میں شر سمجھتے ہیں ،لیکن وہ با طن میں خیر ہیں ،مثلاََبیدار کرنے والے اور ہو شیار و خبر دار کرنے والے حوادث بلائیں اور مصائب ،جو انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرکے خدا کی طرف متو جہ کرتے ہیں ،یہ مسلمہ طور پر شر نہیں ہیں ۔

اس کے بعد اس مطلب کی تو ضیح و تفسیر میں مزید کہتا ہے :”اور ہر مزاحمت کرنے والے موجود کے شر سے جب کہ وہ وارد ہو تا ہے ۔“( و من شر غاسق اذا وقب ) ۔

”غاسق “”غسق “( بر وزن شفق )کے مادہ سے ”مفر دات “میں ”راغب “کے قول کے مطابق ،رات کی ظلمت کی اس شدت کے معنی میں ہے جو آدھی رات کے وقت ہوتی ہے ،اسی لیے قرآن مجید نماز مغرب کے اختتام کے وقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتا ہے :الیٰ غسق اللیل ،اور یہ جو لغت کی بعض کتا بوں میں ”غسق“ کی آغاز شب کی تا ریکی کے معنی میں تفسیر ہوئی ہے ،بعید نظر آتا ہے ،خصوصاََجب کہ اس کا اصلی ریشہ اور جڑ،امتلا ء(پُر ہونے )اور بہنے کے معنی میں ہے ،اور مسلمہ طور پر رات کی تاریکی اس وقت زیادہ یعنی پُر اور لبریز ہوتی ہے جب آدھی رات ہو جائے ۔اس کے مفا ہیم میں سے ایک ،جو اس کا معنی کا لازمہ ہے ،ہجوم کرنا اور حملہ آور ہونا ہے ،اس لیے یہ معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔

اس بناء پر زیر بحث آیت میں ”غاسق “کا معنی یاتو حملہ کرنے والا شخص ہے ،یا ہر وہ شریر موجود ہے جو حملہ کر نے کے لیے رات کی تا ریکی سے فائدہ اُٹھا تا ہے ،کیو نکہ نہ صرف درندے اور ڈنک مارنے والے جانور ہی رات کے وقت اپنے بلوں اور ٹھکانوں سے باہر نکل آتے ہیں ،بلکہ شریرو ناپاک اور پلید افراد بھی اپنے برے مقا صد کے لیے عام طور پر رات کی تاریکی سے فائد ہ اُٹھاتے ہیں ۔

”وقب “(بر وزن شفق )”وقب “(بر وزن نقب )کے مادہ سے گڑھے اور خندق کے معنی میں ہے ۔اس کے بعد اس کا فعل گڑھے میں داخل ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔گویا شریر اور نقصان پہنچانے والے موجودات رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے نقصان پہنچانے والے گڑھے کھود کر اپنے پلید اور گندے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اقدام کرتے ہیں ۔یا یہ ہے کہ یہ تعبیر ”نفوذ کرنے “کی طرف اشارہ ہے ۔

اس کے بعد مزید کہتا ہے :”اور ان کے شر سے جو گر ہوں میں دم کرتے ہیں ۔“( و من شر النفا ثات فی العقد ) ۔

”نفا ثات “”نفث“(بر وزن حبس )کے مادہ سے اصل میں تھو ڑی سی مقدار میں تھو کنے کے معنی میں ہے ۔اور چو نکہ یہ کام پھو نک مارنے کے ساتھ انجام پاتا ہے ،لہٰذا”نفث “”نفخ“(پھو نکنے اور دم کرنے )کے معنی میں آیا ہے ۔

لیکن بہت سے مفسرین نے ”نفا ثات “کی ”جادو گر عورتوں “کے معنی میں تفسیر کی ہے ۔(نفاثات جمع مونث ہے اور اس کا مفرد ”نفا ثہ “”نفث “کے مادہ سے صیغہ مبالغہ ہے )وہ عورتیں کچھ اوارد پڑ ھتی تھیں اور گر ہوں پر دم کیا کرتی تھیں اور ا س طرح سے وہ کرتی تھیں ،لیکن کچھ لوگ اسے وسوسے پیدا کرنے والی عورتوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔جو مسلسل مردوں کے ،خصو صاََجو اپنے شو ہروں کے کان بھرتی رہتی تھیں ،تاکہ مثبت کاموں کے انجام دینے میں ان کی آہنی عزم کو کمزور کر دیں اور اس قسم کی عورتوں کے وسوسوں نے طول تاریخ میں کیسے کیسے حوادث پیدا کیے ،کیسی کیسی آگ بھڑ کائی ،اور کیسے کیسے استوار و مظبوط ارادوں کو کمزور کر کے رکھ دیا ۔

”فخر ر ازی“ کہتا ہے :عورتیں مردوں کے دلوں میں اپنی محبت کے نفوذ کی بناء پر تصرف کر لیتی ہیں ۔(۱)

یہ معنی ہمارے زمانہ میں ہر وقت سے زیادہ ظاہر ہے کیو نکہ دنیا کے سیا ست دانوں میں جا سو سوں کے نفو ذ کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ جا سوسہ عورتوں سے فائدہ اُٹھانا ہے ،کیو نکہ ان ”( نفا ثات فی العقد ) “کے ذریعے پو شیدہ بھیدوں کے صندوقوں کے تالے کھل جاتے ہیں اور وہ ا تنہائی مر موز اور پو شیدہ مسائل سے با خبر ہو جاتی ہیں ،اور انھیں دشمن کے حوالے کر دیتی ہیں ۔

بعض نے نفاثات کی ”نفو س شریرہ “یا ”وسوسے پیدا کرنے والی جماعتوں “کے ساتھ بھی تفسیر کی ہے جو اپنے مسلسل پرو پیگنڈوں کے ذر یعے پختہ ارادوں کی گر ہوں کو کمزور کر دیتے ہیں ۔

بعید نہیں ہے کہ یہ آیت ایک عام اور جامع مفہوم رکھتی ہو جو ان تمام معا نی کو شامل ہو ،یہاں تک کہ سخن چینی کرنے والوں اور چغل خوروں کی باتوں کو بھی ،جو محبت کے مرا کز کو سست ،کمزور اور ویران کر دیتے ہیں ۔

البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ سا بقہ شان نزول سے قطع نظر ،آیت میں کوئی ایسی نشانی موجود نہیں ہے کہ اس سے خصو صیت کے ساتھ جادو گروں کا جادو مراد ہو اور بالفرض اگر ہم آیت کی اس طرح تفسیر بھی کریں ،تو بھی یہ اس شان نزول کی صحت پر دلیل نہیں ہوگی ۔بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ پیغمبر اکرم جادو گروں کے شر سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں ۔اسی طرح سے جیسے صحیح و سالم افراد سر طان کی بیماری سے پناہ ما نگتے ہیں ،چا ہے وہ ہر گز بھی اس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں ۔

اس سورہ کی آخری آیت میں فر ماتا ہے :اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ۔“( ومن شر حاسد اذا حسد ) ۔

یہ آیت اس بات کی نشا ن دہی کرتی ہے کہ حسد بد ترین اور قبیح ترین صفات رذیلہ میں سے ہے ،کیو نکہ قرآن نے اسے درندہ جانوروں ،ڈسنے والے سا نپوں اور وسوسے ڈالنے والے شیا طین کے کاموں کے ساتھ قرار دیا ہے

____________________

۱۔”تفسیر فخر رازی “جلد ۳۲ ص ۱۹۶

۱- ۔شرو فساد کے اہم ترین سر چشمے

اس سورہ کے آغاز میں پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ وہ تما م شریر مخلو قات کے شر سے خدا کی پناہ ما نگیں ،اس کے بعد اس کی وضاحت میں تین قسم کے شروں کی طرف اشارہ کرتا ہے :

۱ ۔ ان تا ریک دل حملہ کرنے والوں کے شر سے جو تاریکیوں سے فائد ہ اُٹھاتے ہوئے حملہ آور ہو تے ہیں ۔

۲ ۔ان وسوسہ پیدا کرنے والوں کے شر سے جو اپنی باتوں اور برے پرو پیگنڈوں سے ،ارادوں ،ایمانوں ،عقیدوں محبتوں اور رشتو ں کو سست اور کمزور کر دیتے ہیں ۔

۳ ۔اور حسد کرنے والوں کے شر سے ۔

اس ا جمال و تفصیل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے شرور و آفات کا سر چشمہ یہی ہیں ،اور شر و فساد کے اہم ترین منابع یہی تینوں ہیں ۔اور یہ بات بہت ہی پُر معنی اور قابل غور ہے ۔

۲ ۔آیات کا تنا سب

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس سورہ کی پہلی آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ شر والی تمام موجودات کے شر سے ”فلق“کے پرور دگار سے پناہ مانگ ۔”رب فلق “کا انتخاب شاید اس بناء پر ہے کہ شریر موجودات،سلا متی و ہدایت کے نور اور روشنی کو منقطع کر دیتے ہیں ،لیکن فلق کا پروردگار ظلمتوں اور تاریکیوں کو شگا فتہ کرنے والا ہے

۳ ۔ جادو کی تاثیر

ہم نے پہلی جلد میں ، سورہ بقرہ کی آیہ ۱۰۲ و ۱۰۳ کے ذیل میں ،گز شتہ اور موجود زمانہ میں جادو کی حقیقت کے بارے میں ،اور اسلام کی نظر میں جادو کے حکم ،اور اس کے اثر کرنے کی کیفیت کے سلسلے میں تفصیلی بحث کی ہے ،اور ان مباحث میں ہم نے جادو کی تاثیر کو اجمالی طور پر قبول کیا ہے ،لیکن اس صورت میں نہیں ، جیسا کہ خیا لی پلاؤ پکانے والے ،اور بہیودہ لوگ اس کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ۔زیادہ وضاحت کے لیے اسی بحث کی طرف رجوع کریں ۔

لیکن وہ نکتہ جس کا ذکر کرنا یہا ں ضروری ہے یہ ہے کہ اگر وہ زیر بحث آیات میں پیغمبر اکرم کو یہ حکم دے رہا ہے کہ جادو گروں کے جادو یا اس کے مانند چیزوں سے خدا کی پناہ مانگو تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ پیغمبر پر انہو ں نے جادو کر دیا تھا ۔ بلکہ اس کی ٹھیک مثال یہ ہے کہ پیغمبر کی غلطی اور خطا و گناہ سے بھی خدا کی پناہ ما نگتے تھے ۔یعنی خدا کے لطف سے استفادہ کرتے ہوئے ان خطرات سے بچے رہیں ۔اور خدا کا لطف نہ ہوتا تو آپ پر جادو کے اثر کرنے کا امکان تھا یہ بات تو ایک طرف رہی ۔

دوسری طرف ہم پہلے بھی یہ بیان کر چکے ہیں کہ اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ ”( النفا ثات فی العقد ) “سے مراد جادو گر ہوں ۔

۴ ۔ حا سدوں کا شر

”حسد “ایک بری شیطانی عادت ہے جو مختلف عوامل جیسے ایمان کی کمزوری ، تنگ نظری اور بخل کی وجہ سے انسان میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا مطلب دوسرے شخص کی نعمت کے زوال کی در خواست اور آرزو کرنا ہے حسد بہت سے گناہان ِ کبیرہ کا سر چشمہ ہے۔

حسد، جیسا کہ روایات میں وارد ہواہے ،انسان کے کے ایمان کو کھا جاتا ہے اور اسے ختم کر دیتا ہے ،جیسا کہ آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

ان الحسد لیائکل الایمان کما تأکل النار الحطب(۱)

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :

اٰفةالد ین الحسد والعجب والفجر

”حسد “”خود کو بڑا سمجھنا “اور ایک دوسرے پر ”فخر “کرنا ،دین کے لیے آفت ہے ۔(۲)

اس کی وجہ یہ ہے کہ حسد کرنے والا حقیقت میں خدا کی حکمت پر اعتراض کرتا ہے کہ اس نے کچھ افراد کو نعمت سے کیو ں نواز ہے ؟اور انہیں اپنی عنایت کا مشمو ل کیوں قرار دیا ہے ؟ جیسا کہ سورئہ نساء کی آیہ ۵۴ میں آیا ہے :”( ام یحسدون الناس علی ما اٰتهم الله من فضله ) ۔“

حسد کا معاملہ ممکن ہے کہ اس حد تک پہنچ جائے کہ محسود سے نعمت کے زوال کے لیے حاسد خود کو پانی اور آگ تک میں ڈال کرنابود کر لے ،جیسا کہ اس کے نمونے داستانوں اور تواریخ میں مشہور ہیں ۔

حسد کی مذ مت میں بس یہی کافی ہے کہ دنیا میں جو سب سے پہلا قتل ہوا وہ ”قابیل “کی طرف سے”ہا بیل “پر ”حسد“کرنے کی وجہ سے ہوا تھا ۔

”حسد کرنے والے “ہمیشہ ہی انبیاء و اولیاء کی راہ میں رکاو ٹیں ڈالتے رہے ہیں ،اسی لیے قرآن مجید پیغمبر کو یہ حکم دے رہا ہے کہ وہ حاسدوں کے شر سے خدا اور رب فلق سے پناہ مانگیں ۔

اگر چہ اس سورہ میں اور بعد والے سورہ میں خود پیغمبر کی ذات مخا طب ہے ،لیکن مسلمہ طور پر اس سے نمونہ اور اسوہ مراد ہے ،اور سب لوگوں کو حا سدوں کے شر سے خدا کی پناہ مانگنی چا ہیئے ۔

خدا وند!ہم بھی حا سدوں کے شر سے تیری مقدس ذات سے پناہ ما نگتے ہیں ۔

پروردگارا!ہم تجھ سے یہ در خواست کرتے ہیں کہ تو ہمیں بھی دوسروں پر حسد کرنے سے محفو ظ رکھ ۔

بار الہٰا!ہمیں نفا ثات فی العقد اور راہ حق میں وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے بھی محفوظ رکھ ۔

اٰمین یا رب العالمین

____________________

۱۔”بحار ا لا نوار “جلد ۷۳،ص ۲۳۷

۲۔ ”بحارالانوار “ جلد ۷۳ ،ص ۲۴۸

سورہ الناس

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔اس میں ۶ آیات ہیں ۔

سورئہ الناس“ کے مطالب

انسان ہمیشہ انسانی وسوسوں کی زد میں ہے اور شیا طین جن و انس کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اس کے قلب و روح میں نفوذ کریں ۔انسان کا مقام علم میں جتنا بالا ہوتا جا تا ہے اور اس کی حیثیت اجتماع اور معاشرے میں جتنی بڑ ھتی جاتی ہے ،شیا طین کے وسوسے اتنے ہی زیادہ شدید ہوتے چلے جاتے ہیں ،تاکہ اس کو راہ حق سے منحرف کر دیں اور ایک دانش ور عالم کے فساد و خرابی سے سارے جہان کو تباہ و بر باد کر ڈالیں ۔

یہ سورہ پیغمبر اکرم کو ایک نمونہ و اسوہ کے طور پر اور پیشواوررہبر کی حیثیت سے یہ حکم دے رہی ہے کہ تمام وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے خدا کی پناہ طلب فر مائیں ۔

اس سورہ کے مطالب ایک لحاظ سے سورہ ”فلق “سے مشابہ ہیں ، اور دونوں میں ہی شرو ر وآفات سے خدا وند بزرگ کی پناہ مانگنے کو بیان کیا گیا ہے ،اس فرق کے ساتھ کہ سورہ فلق میں شرور کے مختلف انواع و اقسام بیان کیے گئے ہیں ،لیکن اس سورہ میں صرف نظر نہ آنے والے وسوسہ گروں (وسواس الخناس )پر تکیہ ہوا ہے ۔

اس بارے میں بھی کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ہے یا مد ینہ میں ، مفسرین کے در میان اختلاف ہے ۔ایک گروہ اسے” مکی “سمجھتا ہے جب کہ دوسری جماعت اسے ”مدنی “شمار کرتی ہے۔ لیکن ا س کی آیات کا لب و لہجہ ”مکی “سورتوں سے زیادہ ملتا جلتا ہے ۔

اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ روایات کے مطابق یہ سورہ اور سورہ فلق اکٹھے نازل ہوئے ہیں ،

اور سورہ فلق ایک کثیر جماعت کے نظریہ کے مطابق مکی ہے چنا نچہ بہت ممکن ہے کہ یہ سورہ مکی ہی ہو ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

س سورہ کی تلاوت کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں ،منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم سخت بیمار پڑ گئے تو(خدا کے دو عظیم فر شتے )جبر ئیل و میکا ئیل آپ کے پاس آئے ۔جبرئیل تو پیغمبر کے سر کی طرف بیٹھ گئے اور میکا ئیل پاؤں کی طرف ۔جبر ئیل نے سورہ ”فلق “کی تلاوت اور پیغمبر اکرم کو اس کے ذر یعے خدا کی پناہ میں دے دیا اور میکا ئیل نے سورہ ”( قل اعوذ برب الناس ) “کی تلاوت کی ۔(۱)

ایک روایت میں جو امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی اور ہم اس کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں ،یہ آیا ہے کہ :

”جو شخص نماز وتر میں ”معو ذتین “(سورہ فلق و ناس)اور ”( قل هو الله احد ) “کی تلاوت کرے گا تو اس سے کہا جائے گا ،اے بندئہ خدا !تجھے بشارت ہو کہ خدا نے تیری نماز وتر کو قبول کر لیا ہے “!(۲)

____________________

۱۔”نورالثقلین “جلد ۵،ص۷۶۴۵و ”مجمع البیان “جلد ۱۰ ص ۵۶۹

۲۔”نور الثقلین “جلد۵،ص ۷۶۴۵و ”مجمع البیان “جلد ۱۰ ص ۵۶۹

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶

( بسم ا لله الر حمن الرحیم )

۱ ۔( قل اعوذبرب الناس ) ۲ ۔( ملک الناس ) ۳ ۔( الهٰ الناس ) ۴ ۔( من شر الو سواس الخناس )

۵ ۔( الذی یو سوس فی صدور الناس ) ۶ ۔( من الجنةوالناس )

تر جمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

۱ ۔ کہہ دیجئے میں لوگو ں کے پرور دگار کی پناہ ما نگتا ہوں ۔ ۲ ۔لوگوں کے مالک و حا کم کی ۔

۳ ۔لوگو ں کے خدا اور معبود کی ۔ ۴ ۔خناس کے وسوسوں کے شر سے ۵ ۔جو انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈا لتاہے۔

۶ ۔چا ہے وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے ۔

لوگوں کی پروردگار کی پناہ ما نگتا ہوں

اس سور ہ میں ،جو قرآن مجید کا آخری سورہ ہے ،لوگوں کے لیے نمونہ اور پیشواہونے کے لحاظ سے خود پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فر ماتا ہے :”کہہ دیجئے ،میں لوگوں کے پرور دگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔“( قل اعوذ برب الناس )

”لوگوں کے مالک و حاکم کی ۔“( ملک الناس ) ۔

”لوگوں کے خدا و معبود کی ۔“( الٰه الناس ) ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں خدا کے عظیم او صاف میں سے تین اوصاف (ربو بیت ،ملکیت اور الو ہیت ) کا ذکر ہوا ہے جو سب کی سب براہ ِراست انسان کی تر بیت اور وسوسے ڈالنے والوں کے چنگل سے نجات کے ساتھ ار تبا ط رکھتی ہیں ۔

البتہ خدا سے پناہ ما نگنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان صرف زبان سے یہ جملہ کہے ،بلکہ فکر و نظر اور عقیدہ و عمل کے ساتھ بھی انسان خود کو پناہ میں قرار دے ۔شیطانی راستوں ،شیطانی پرو گراموں ،شیطانی افکار و تبلیغات ،شیطانی مجالس و محا فل سے خود کو دور رکھے ،اور رحمانی افکار و تبلیغات کے راستے کو اختیار کرے ۔ورنہ وہ انسان جو عملی طور پر ان وسوسوں کے طو فان میں ٹہرا رہے گا وہ صرف اس سورہ کے پڑھنے اور ان الفاظ کے کہنے سے کہیں نہیں پہنچے گا ۔

وہ ”( رب الناس ) “کہنے کے ساتھ پرور دگار کی ربوبیت کا اعتراف کرتا ہے اور خود کو اس کی تر بیت میں قرار دیتا ہے ۔

( ملک الناس ) “کہنے سے خود کو اس کی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کے فر مان کا بندہ ہو جاتا ہے ۔

اور ”( الٰه الناس ) “کے کہنے سے اس کی عبو دیت کے راستہ میں قدم رکھ دیتا ہے اور اس کے غیر کی عبادت سے پر ہیز کرتا ہے ۔اس میں شک نہیں ہے کہ جو شخص ان تینوں صفات پر ایمان رکھتا ہو اور خود کو ان تینوں کے ساتھ ہم آہنگ کر لے ،وہ وسوسہ ڈالنے و الوں کے شر سے امان میں رہے گا ۔

در حقیقت یہ تینوں اوصاف تین اہم تربیتی درس،پیش رفت کے تین پرو گرام اور وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے نجات کے تین ذریعے ہیں اور یہ سورہ انسان کا ان کے مقابلہ میں بیمہ کر دیتا ہے ۔

اسی لیے بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے:”وسوسے ڈالنے والے خناس کے شر سے “( من شر لو سواس الخناس ) ۔

”وہی جو انسان کے سینوں میں وسوسے ڈالتے ہیں ۔“( الذی یو سوس وصدور الناس ) ۔

”جنوں اور انسانوں میں سے وسوسے ڈالنے والے ۔“( من الجنته والناس ) ۔

”وسواس“کا لفظ”مفر دات “میں ” راغب “کے قول کے مطابق اصل میں ایسی آہستہ آواز ہے جو آلات زینت کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے ۔

اس کے بعد ہر آہستہ آواز پر بولا جانے لگا اور اس کے بعد ایسے نا مطلوب اور برے افکار و خیالات پر،جو انسان کے دل و جان میں پیدا ہوتے ہیں ،اور ایسی آہستہ آواز کے مشابہ جو کان میں کہی جاتی ہے ،اطلاق ہوا ہے ۔

”وسواس “مصدری معنی رکھتا ہے ،بعض اوقات ”فاعل“(وسوسہ ڈالنے والا )کے معنی میں بھی آتا ہے ،اور زیر بحث آیت میں یہی معنی ہے ۔

”خناس “”خنوس “(بر وزن خسوف )کے مادہ سے ،صیغہ مبا لغہ ہے ،جو جمع ہونے اور پیچھے جانے کے معنی میں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب خدا کا نام لیا جاتا ہے تو شیا طین پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور چو نکہ یہ کام پنہاں ہونے کے ساتھ توام ہے ،لہٰذا یہ لفظ”اختفاء“کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

اس بناء پر آیات کا مفہوم اس طرح ہو گا :”کہہ دیجئے میں شیطان صفت وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے ،جو خدا کے نام سے بھاگتا ہے اور پنہاں ہو جاتا ہے ،خدا کی پنہاں ما نگتا ہوں ۔“

اصولاََ” شیا طین “اپنے پرو گراموں کو چھپ کر کرتے ہیں اور بعض اوقات انسان کے دل کے کان میں اس طرح سے پھو نک مارتے ہیں کہ انسان یہ یقین کر لیتا ہے کہ یہ فکر خود اسی کی فکر ہے اور خود اسی کے دل میں خود بخود پیدا ہوئی ہے ،یہی بات اس کے بہکنے اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے ۔شیاطین کا کام زینت دینا ،باطل کو حق کے لعاب میں چھپانا ،جھوٹ کو سچ کے چھلکے میں لپیٹ کر گناہ کو عبادت کے لباس میں اور گمراہی کو ہدایت کے سر پوش میں پیش کر نا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ وہ بھی مخفی ہوتے ہیں اور ان کے پرو گرام بھی پنہاہ ہوتے ہیں ،اور یہ راہ حق کے ان تمام رہ روؤں کے لیے ایک تنبیہہ ہے جو یہ تو قع نہیں رکھتے کہ شیاطین کو ان کے اصلی چہرے اور قیا فہ میں دیکھیں ،یا ان کے پروگر ا موں کو انحرافی شکل میں مشا ہدہ کریں ۔سو چنے کی بات ہے ،وسوسے ڈالنے والے خناس ہوتے ہیں اور ان کا کام چھپانا ،جھو ٹ بولنا،دھوکا دینا، ریا کاری کرنا،ظاہر سازی اور حق کو پو شید ہ کرنا ہے ۔

اگر وہ اصلی چہرے میں ظاہر ہو جائیں ،اگر وہ باطل کو حق کے ساتھ نہ ملائیں ،اگر وہ صریح اور صاف بات کریں تو علی علیہ السلام کے قول کے مطابق لم یخف علی المرتادین :خدا کی راہ پر چلنے والوں پر مطلب مخفی نہیں رہتا ۔

وہ ہمیشہ کچھ حصہ تو ”اس“سے لیتے ہیں ،اور کچھ حصہ ”اس “سے اور انہیں آپس میں ملا دیتے ہیں ،تاکہ لوگوں پر مسلط ہو سکیں ،جیساکہ امیر المومنین علیہ السلام اسی گفتگوکو جاری رکھتے ہوئے فر ماتے ہیں :فهنالک یستولی الشیطان علی او لیائه(۱)

( الذی یو سوس فی صدور الناس ) “کی تعبیر ،اور لفظ ”وسوسہ “کا انتخاب ،اور لفظ ”صدور “(سینے )بھی اسی معنی کی تا کید ہیں ۔

یہ سب کچھ تو ایک طرف ،دوسری طرف سے ”من الجنةوالناس “کا جملہ خبر دار کرتا ہے کہ ”وسوسے“ڈالنے والے خناس ،صرف ایک ہی گروہ ،ایک ہی جماعت ،ایک ہی طبقہ ،اور ایک ہی لباس میں نہیں ہوتے ،بلکہ یہ جن و انس میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر لباس اور ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں ۔لہٰذا ان سب پر نظر رکھنی چا ہیئے اور ان سب کے شر سے خدا کی پناہ ما نگنی چا ہیئے ۔

نا مناسب دوست ،منحرف ہم نشین ،گمراہ اور ظالم اور پیشوا ،جبار اور طاغوتی کا رندے ،فاسد مقر رین اور لکھنے والے ،ظاہر فر یب الحادی والتقاطی مکاتب اور اجتماعی طور پر وسوسے ڈالنے والوں کے وسائل ارتباط سب کے سب ”وسو اس خناس “کے وسیع مفہوم میں داخل ہیں کہ جن کے شر سے انسان کو خدا کی پناہ ما نگنی چا ہیئے ۔

____________________

۱۔ ”نہج البلاغہ “خطبہ ۵۰