تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65348
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65348 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲

۶ ۔( یا ایها الانسان ما غرک بربک الکریم ) ۔

۷ ۔( الذی خلقک فسوّٰک فعدلک ) ۔

۸ ۔( فی ایّ صورةٍ ما شآء رکّبک ) ۔

۹ ۔( کلّا بل تکذّبون بالدّین ) ۔

۱۰ ۔( و انّ علیکم لحٰفظین ) ۔

۱۱ ۔( کراماً کاتبین ) ۔

۱۲ ۔( یعلمون ما تفعلون ) ۔

ترجمہ

۶ ۔ اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے کریم پر وردگار کے مقابلہ میں مغرور کردیاہے ؟

۷ ۔ وہ خدا جس نے تجھے پیدا کیا ، پھر تجھے درست کیا ، پھر تجھے اعتدال پر رکھا۔

۸ ۔ اور جس شکل میں چاہتاتھا تجھے مرکب کیا ۔

۹ ۔ جیسا تم خیال کرتے ہو ویسا نہیں ہے ، بلکہ تم روز جز ا کے منکر ہو ۔

۱۰ ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تم پر نگہبان مقرر کئے گئے ہیں ۔

۱۱ ۔ بلند منزلت والے اور لکھنے والے ( تمہارے نیک و بد اعمال کے )۔

۱۲ ۔ وہ جانتے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو۔

اے انسان تجھے کس چیز نے مغرور کردیا ہے ؟

گذشتہ آیتوں کے بعد جو قیامت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں زیر بحث آیتوں میں انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اور اس کو خدا کے سامنے اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پہلے اسے مخاطب کیا ہے اور تیز ڈانٹ ڈپت کے ساتھ جس میں ایک طرح کا لطف و کرم بھی ملا ہوا ہے ، فرماتا ہے :

” اے انسان تجھے کس چیز نے تیرے کریم پروردگار سے غافل کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں مغرور کیا ہے “( یاایها الانسان ماغرک بربک الکریم ) ۔

یہاں انسان کا اس کی انسانیت کے لحاظ سے جس میں اس جہان کے باقی موجودات کے مقابلہ میں تمام امتیازات کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے ، مخاطب کیا ہے ، اس کے بعد اس سے اس خدا کے سامنے پیش کیا ہے جو رب بھی ہے اور کریم بھی ہے ، جس نے اپنی ربوبیت کے تقا ضے سے ہمیشہ اسے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور اس کی تربیت و تکامل و ارتقاء کا ذمہ لیا ہے اور اپنے تقاضائے کرم سے اپنے خوان نعمت پر جگہ دی ہے ۔ اور اپنی تمام مادی اور معنوی نعمتوں سے سرفرازکیاہے بغیر اس بات کے کہ اس سے کوئی توقع رکھتاہو اور ان تمام نعمتوں کا اجر اس سے طلب کرے ، حتیٰ کے اس کی خطاو ں سے بھی چشم پوشی کرتا ہے اور اپنے لطف و کرم سے اسے مورد عفو و بخشش قرار دیتا ہے ۔

کیا یہ مناسب ہے کہ قسم کا وجود ایسے پروردگار کے مقابلہ میں جسارت و غرور سے کام لے لیایا ایک لمحہ کے لئے بھی اسے غافل ہو اور ا س کے فرمان کی انجام دہی میں جو خود اس کی سعادت کا ضامن ہے ، قصورو کوتاہی کا ارتکاب کرے ۔

اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے مروی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت کے موقع پر فرمایا: ( غرّہ جھلہ) اس کی جہالت و نادانی سے اسے مغرورو جاہل بنا یا ہے ۔(۱)

یہاں واضح ہو جاتا ہے کہ مقصد یہ ہے کہ اپنی ربوبیت و کرم پر انحصار کرتے ہوئے وہ انسان کے غرور و غفلت کو ختم کرے ۔ اس طرح سے جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے کہ مقصود کلام یہ ہے کہ آدمی کو تلقین کی جائے کہ خدا سے عذر خواہی کے سلسلہ میں وہ جواب میں کہے” تیرے کرم نے مجھے مغرور کیا ہے “۔

نیز جو کچھ فضل بن عیاض سے نقل ہو اہے کہ ا س سے سوال کیا گیا کہ اگر تجھے خدا قیامت کے دن اپنے حضور میں طلب کرے اور تجھ سے سوال کرے ۔” ما غرک بربک الکریم “ تو جواب میں تو کیا کہے گا ۔ اس نے کہا میں جواب میں کہوں گا ’ ’غرنی ستورک المرخاة“ جو پردے تونے میرے گناہ پر ڈالے ہوئے تھے انہوں نے مجھے غافل و مغرور کیا ہے ۔

یہ سب مفہوم آیت کے ساتھ ساز گار نہیں ہے بلکہ آیت کے مفہوم کے تضاد سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کہ مقصودِ آیت غرور کو ختم کرنا ہے اور خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے ، نہ یہ کہ نیا پردہ غفلت کے پردوں پر ڈالنا ہے اس بناپر مناسب نہیں ہے کہ آیت کو اس کے مقصد سے دور لے جائیں اور اس کی متضاد کیفیت سے نتیجہ کلام اخذ کریں ۔

”غرک “ غرور کے مادہ سے اصل میں بیداری کے موقع پرغفلت کے معنی میں ہے دوسرے لفظوں میں ایسے مقام پر غفلت سے کام لینا جہاں غفلت کرنا بالکل نامناسب ہے ہو، اور چونکہ غفلت بعض اوقات جسارت یا احساس برتری کا سبب بنتی ہے لہٰذا غرور کے لفظ کی ان معانی سے بھی تفسیر ہوئی ہے اور شیطان کو اسی وجہ سے غرور(بروزب شرور) کہتے ہیں وہ انسان کو اپنے وسوسوں سے فریب دیتا ہے اور اسے غافل و مغرور کردیتا ہے ۔

” کریم “ کی تفسیر میں مفسرین نے انواع و اقسام کی تعبیریں پیش کی ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ کریم وہ بخشنے والاہے جس کے تمام افعال احسن ہیں اور وہ کبھی اتنی بخشش کے ہوتے ہوئے نفع و نقصان کا خیال نہیں کرتا ۔

بعض نے کہا کہ کریم وہ شخص جو طلب سے زیاد ہ بخش دے ، بعض مفسرین نے کہاہے کہ کریم وہ شخص ہے جو تھوڑی سی متاع کو قبو ل کرلیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں زیادہ قیمت دیتا ہے لیکن حقیقت میں یہ سب چیزیں کریم کے مفہوم میں شامل ہیں ۔

خدا کے کرم کے سلسلہ میں بس اتنا کافی ہے کہ وہ صرف گناہگاروں کو معاف کر کے راضی نہیں ہوتا بلکہ شائستہ افراد کے گناہوں کو حسنات میں تبدیل کردیتا ہے ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں عجیب وغریب جملہ ارشاد فرماتے ہیں :

یہ آیت سننے والے کے سامنے بہت مضبوط دلیل ہے اور ایسے شخص کے سامنے جسے جہالت و نادانی نے مغرورکردیا ہو قاطع عذر ہے۔ خدا فرماتا ہے :

” اے انسان تجھے کس چیز نے گناہ کرنے پر جرأت دلائی ہے اور کس چیز نے تجھے تیرے پر وردگار کے مقابلہ میں مغرور کردیا ہے اور کس چیز نے اپنی ہلاکت کےساتھ تعلق پیدا کردیا ہے ؟ کیا تیری اس بیماری کےلئے صحت مند ہونا نہیں ہے ، تیرے اس خواب کے لئے بیداری نہیں ہے ۔ توخود پر کم ازکم اتنا تو رحم کر جتنا تو دوسروں پر کرتا ہے ۔

تو جب کسی کو جلانے والے سورج کی دھوپ میں دیکھے تو اس پر سایہ کرتا ہے ، جب کسی بیمار کو دیکھے کہ دردو تکلیف نے اسے سخت نالاں کردیا ہے توتوُ اس پر رحم کھاکر آنسو بہاتا ہے تو وہ کیا شئے ہے جس نے اپنی بیماری پرتجھے ایک طرح کا صبر کرنے والا بنادیا ہے اور اپنی مصیبت پرمطمئن کردیا ہے اور خود پر گریہ کرنے سے بعض رکھا ہے ۔

حالانکہ تیرے نزدیک عزیز ترین افراد میں سے تو خود ہے تو پھر کس طرح رات کو نزول بلا کے خوف نے تجھے بیدار نہیں کیا حالانکہ گناہ و مصیبت میں تو غوطہ زن ہے اور اس کے غلبہ سے باہر بھی نہیں ہے ۔

آ اور اس غفلت کی بیماری کا عزم ِ صمیم کی دوا سے علاج کر اور اس خواب غفلت کو جس نے تیری آنکھوں کو گھیر رکھا ہے ۔ بیداری سے بر طرف کر ۔آخدا کا مطیع و فرمانبردار بن جا اور ا س کی یاد سے مانوس ہو ۔

اچھی طرح سے جان لے کہ تیرے خدا سے غفلت کرنے کے موقع پر وہ نعمتیں دینے پر تجھ سے عنایت کرتاہے اور تجھے اپنے عفوو کرم کی طرف بلا تاہے اور اپنی بر کتوں کے زیر سایہ تجھے دیکھنا چاہتا ہے حالانکہ تونے اس کی طرف پشت کر رکھی ہے اور دوسرے کی طرف رخ کررکھا ہے ۔

بزرگ و عظیم ہے وہ خدا جو باوجود اس عظیم قدرت کے کریم ہے لیکن تو باوجود اس ضعف و حقارت کے اس مصیبت پر کس قدر جری ہے ۔(۲)

اس کے بعد اس غافل انسان کو بیدار کر نے کے لئے اپنے لطف و کرم کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتا کرتے ہوئے فرماتا ہے :

”وہ خدا جس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر تیرے وجود کی دستگاہ کو منظم کیا اور تجھے اعتدال بخشا“( الذی خلقک فسوّاک فعدلک ) ۔(۳)

اور اس طرح خلقت کے چار مرحلوں کو یعنی اصل خلقت ، پھر اس کی تنظیم ، پھر اس میں اعتدال ، آخر میں ترتیب بندی کو چار مختصر سی پر معنی عبارتوں میں بیان کرتاہے ۔

پہلے مرحلے میں اصل خلقت انسانی قرار پائی ہے کہ اسے ناچیز و حقیر نطفہ سے رحم کے ظلمت کدے میں خلق کیا۔ بعد کے مرحلہ میں جو تسویہ و تنظیم کا مرحلہ ہے اس کے پیکر کے اعضاء میں ہر عضو کو تنظیم کے ساتھ موزوں کیا ۔

آنکھ ،کان ،دل ، رگیں اور باقی اعضاء جن میں سے اگر انسان ہر ایک کی ساخت ، بناوٹ اور نظام پر غور و فکر کرے اور خد اکے لطف و کرم کو ان میں سے ایک ایک میں دیکھے تو علم و قدرت اور لطف و کرم کی ایک دنیا اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھے گا۔

وہ نعمتیں کہ ہزارہا سال گزرے نے کے بعد بھی ماہرین علوم طبعی ان کے بارے میں غور و فکرکرتے ہیں اور لکھتے ہیں لیکن ابھی آغاز کار ہے اور وہ ابھی تحقیق کی ابتداء ہی میں ہیں ۔

اس کے بعد ایک تیسری نعمت کو موضوع گفتگو بناتا ہے اور وہ اعضاء جسم انسانی کے درمیان اعتدال و ہم آہنگی ہے جسم انسانی دو حصوں پر مبنی پیدا کیا گیا ہے جو دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں ۔ ہاتھ ، پاو ں ، آنکھ ، کان ، استخواں ، عروق و اعصاب و عضلات جسم کے دونوں حصوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں ۔

علاوہ از این مختلف اعضاء بھی ایک دوسرے کے کام کی تکمیل کرتے ہیں ۔ مثلاًسانس لینے کا نظام گردش خون کی مدد کرتا ہے اور گردش خون کا نظام تنفس کے ساتھ کر کے غذا کے لقمے کونگلنے کےلئے اور دانت، زبان ،لعاب دہن کے غدود اور اطراف دہن کے عضلات اور گلا یہ سب ایک دوسرے کے دست بدست کام کرتے ہیں ، یہاں تک لقمہ ہاضمہ کے نظام میں داخل ہو جاتا ہے ۔

اس کے بعد بھی بہت سی ہم آہنگیاں صورت پذیر ہوتی ہیں تاکہ غذا جزوِ بدن ہوسکے اور قوت و حرکت و سعی کو شش کو پیدا کرے۔

یہ سب ”فعدلک“ کے جملہ میں پنہاں ہیں ۔ بعض اس جملہ کو تمام انواع حیوانات میں سے انسان کے سیدھے قد کی طرف ، جو اس کے بہت ہی فضیلت کا باعث ہے ، اشارہ سمجھتے ہیں ۔یہ معانی بعد والے مرحلے کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں لیکن پہلے معانی زیادہ جامع ہیں ۔

انجام کار آخری مرحلہ، دوسرے موجودات کے مقابلہ میں اس کی ترکیب اور صورت پذیری کا آن پہنچتاہے ۔ جی ہاں ! خدا نے نوع انسان کو دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں موزوں تر بنایا ہے اور اسے عمدہ شکل عنایت کی ہے اور ایسی سیرت دی ہے جس میں زیبائی و خوبصورتی کے ساتھ فطری بیداری بھی ہے اور ایسی ترکیب جو علم ، آگاہی، تعلیم و تربیت کو قبول کرنے پر آمادہ ہے ۔

اس سے قطع نظر افرادِ انسانی کی صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیساکہ سورہ روم کی آیت ۲۲ میں آیاہے :”تمہارے رنگوں اور زبانوں کا اختلاف خدا کی آیات میں سے ہے “۔’ ’( و من اٰیاته خلق السماوات و الارض و اختلاف السنتکم و الوانکم ) اگر یہ اختلاف نہ ہوتا تو نوعِ بشر کی اجتماعی زندگی کا نظام معطل ہو جاتا۔

اس اختلاف ِ ظاہری کے علاوہ استعداد، ذوق اور سلیقے کے اختلاف قرار دئیے ہیں ۔ اور ان کی دو صورتیں بنائیں جن کا اس کی حکمت تقاضا کرتی تھی تاکہ ان کے مجموعہ سے ایک صحیح و سالم معاشرہ وجود میں آئے جو اپنی تمام ضرورتوں کو پورا کرے اور انسانوں کے ظاہری و باطنی قوہ ایک دوسرے کے تکمیل کنندہ بنےں ۔ اور مجموعی طور پر ، جیساکہ سورہ ( تین ) کی آیت ۴ میں آیاہے -”( لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ) “ خد انے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان آیتوں میں اور بہت سی دوسری قرآنی آیات کی طرح خدا اس بھلادینے والے اور مغرور انسان کو اپنی معرفت کی راہ دکھا تا ہے اور یہ کہتاہے کہ رحم مادر سے لیکر اپنے پیدا ہونے تک کے زمانے کا اور اس وقت سے لیکر مکمل نشو و نما کی منزل تک پہنچنے کے عہد کا بغور مطالعہ کرے اور یہ دیکھے کہ منعم حقیقی کی جانب سے ہر قدم پر ایک نئی نعمت اس کے پاس آئی ہے ۔ اس طرح اس کو معلوم ہوگا کہ وہ دوسرسے پیر تک خالق کے احسانات کے بوجھ تلے دباہو اہے ،اس کو چاہئیے کہ غرو ر و غفلت کو خیرباد کہے او رپر وردگار عالم کی محبت کا طوق اپنی گردن میں ڈالے ۔

اساس کے بعد قرآن ان کے غرور و غفلت کو موضوع گفتگو بنا کر کہتاہے : ” جیساکہ تم گمان کرتے ہوایسا نہیں ہے تم روز جز ا کے منکر ہو “( کلا بل تکذبون بالدین ) ۔ ” نہ تو خد اکا کرم تمہارے غرور کا سبب ہے اور نہ اس کی نعمتوں کا سلسلہ بلکہ ا سکا اصلی سبب تمہارا روز قیامت پر ایمان نہ لانا۔(۱)

۱ ۔ کلا حرف ردع ہے اور پہلے سے ذکر شدہ یا تو ہم شدہ مطلب کے انکار کے لئے ہے اور یہ ”کلّا“اس آیت میں کس چیز کی نفی کرتا ہے ، اس سلسلہ میں مفسرین نے کئی احتمال پیش کئے ہیں ۔ سبسب سے پہلے وہی احتمال ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے یعنی یہاں کلّا غرور و غفلت کے تمام سر چشموں کی نفی کرتاہے سوائے قیامت کی تکذیب اور انکار کے جس کا ” بل“ کے بعد ذکر ہواہے ۔ راغب نے مفردات میں ( بلکہ مادہ کے سلسلے میں )ان معانی کو منتخب کیا ہے اور اوپر والی آیت بیان کر نےکے بعد کہتا ہے( کانّه قیل لیس ههنا مایقضیٰ ان یغرهم به تعالیٰ و لکن تکذیبهم هو الذی حملهم علی ما ارتکبوه ) گویا کہاگیا ہے کہ یہاں کوئی ایسی چیز نہیں جو انھیں اللہ کے مقابلہ میں مغرور کر ے لیکن ان کا تکذیب کرنا وہ ہے جس نے اس کا ارتکاب کیاہے ۔

جی ہاں اگر مغرور اور غافل افراد کی حالت پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اصلی سبب یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے افراد کی روح کی گہرائیوں میں قیامت کے بارے میں شک یا اس کا انکار پوشیدہ ہے ، اور باقی امورتو صرف بہانے ہیں ۔ لہٰذا اگران کے دلوں میں قیامت پر ایمان پید اہو جائے تو یہ غرور اور غفلت سب ختم ہو کر رہ جائے ۔ دین دین سے مراد یہاں جز ا اور روز جز ا ہے اور یہ بعض مفسرین نے احتمال پیش کیا ہے کہ یہاں مراد دین اسلا م ہے بعید نظر آتا ہے اس لئے کہ ان آیتوں میں گفتگو کا جو محور ہے وہ معاد و قیامت ہے اس کے بعد اسباب غرور و غفلت کو ختم کرنے اور قیامت پر ایمان تقویت دینے کے لئے مزید کہتاہے : ” اس میں شک نہیں ہے کہ تم پر نگراں مقرر کئے گئے ہیں “( و انّ علیکم لحافظین )

ایسایسے نگران و نگہبان جو پروردگا رکی بارگاہ میں مقرب و محترم ہیں اوروہ ہمیشہ تمہارے اعمال کو تحریر کرتے ہیں( کراماً کاتبین ) ۔ اور جو کچھ تم انجام دیتے ہواس سے آگاہ ہیں اور سب کچھ اچھی طرح جانتے ہیں ۔( یعلمون ما تفعلون )

”حافظین “ سے مراد یہاں وہ فرشتے ہیں جو انسانوں کے اعمال کی کی نگرانی پو مامور ہیں ، اس سے قطع نظر کہ اعمال اچھے ہوں یا برے ۔ ان فرشتوں کو سورہ ق کی آیت ۱۸ میں رقیب و عتید سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

( ما یلفظ من قول الا لدیه رقیب و عتید ) انسان کوئی بات نہیں کرتامگر یہ کہ اس کے پاس فرشتہ ہے جو نگرانی کا فرض انجام دینے کے لئے مستعد ہے ۔ اسی سورہ ق کی اس سے پہلے کی آیت میں فرماتا ہے :

( اذیتلق المتلقیان عن الیمین و عن الشمال قعید ) ” یا دکر اس وقت کو جب وہ دو فرشتے جو دائیں بائیں سے تجھے پکڑے ہوئے ہیں ، تیرے اعمال ثبت کرتے ہیں ۔ “ قرآن کی دوسری آیتوں میں بھی ان فرشتوں کی طرف اشارہ ہو اہے جو نگرانِ اعمال ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا ہر شخص سے پہلے اور ہر شخص سے بہتر اعمال انسانی کا شاہد و ناظر ہے لیکن اس نے مزید تاکید کے لئے اور زیادہ احساس ذمہ داری پید اکرنے کے لئے نگران فرشتے مقرر کئے ہیں ۔ ان کے علاوہ کچھ اور نگران بھی ہیں جو انسان کو ہر طرف سے گھیر ہوئے ہیں جن سب کا قیامت کی داد گاہ کے گواہوں کے عنوان کے ماتحت سات حصوں میں جلد ۱۱ کے صفحہ ۴۰۵ تا ۴۱۰۹ پر ہم نے ذکر کیا ہے ( سورہ حم سجدہ ) کی آیت ۲۰ اور ۲۱ کے ذیل میں ) یہاں کی طرف فہرست وار اشارہ کیا جاتاہے ۔

پہلا گواہ خدا ہے جو فرماتا ہے :” جو عمل انجام دیتے ہو ہم اس کے ناظر و شاہد ہیں “ ( یونس۔ ۶۱) ۔

” ا” اس بعد انبیاء و اوصیاء ہیں “( نساء۔ ۴۱) ۔ اس کے بعد” زبان ، ہاتھ، پاو ں اور پیکر انسان کے تمام اعضاؤ جوارح“ (نور۔ ۲۴) ایک گواہ جسم کی کھا ل ہے ( حم سجدہ ۔ ۲۱) ۔ اور گواہ فرشتے ہیں ( ق۔ ۲۱) اور زیر بحث آیت اس کے بعد وہ زمین جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے اور اس پر اطاعت کی جاتی ہے اور گناہ ہوتے ہیں ( زلزال ۔ ۴) اورآخر میں وہ وقت و زمانہ جس میں اعمال انجام پاتے ہیں ( سفینة البحارجلد ۲ مادہ یوم ) ۔

احتیاج طبرسی میں ہے ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ انسانوں کے نیک و بد اعمال تحریر کرنے پر جو فرشتے مامور ہیں ان کا کیا سبب ہے جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ خدا وندعالم السِر وما هو اخفی ہے یعنی وہ ہر چیزجس سے زیادہ پوشیدہ کو ئی چیز نہیں ہے وہ اسے جانتا ہے تو امام نے جواب میں فرمایا :

استعبدهم بذالک و جعلهم شهوداً علیٰ خلقه لیکون العباد لملازمتهم ایا هم اشد علی طاعةالله مواظبة و عن معصیة اشد انقبا ضاً وکم من عبدیهم بمعصیة فذکرمکانهما فادعوی وکف فیقول ربی یرانی و حفظنی علی بذالک تشهد و ان الله برأفته و لطفه وکلهم بعباده یذبون عنهم مردة الشیاطین و هو ام الارض و اٰفات کثیرة من حیث لایرو ن باذن الله الیٰ ان یجی ء امر الله عزوجل ۔

خدانے فرشتوں کو اپنی عبادت کے لئے بلا یا اور انہیں اپنے بندوں پر گواہ قرار دیا تاکہ بندے ان کی نگرانی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ خداکی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے انہیں زیادہ سے زیاد ہ پریشانی اور دکھ ہو ۔ بہت ایسے بندے ہیں جو گناہ کا پختہ ارادہ کرلیتے ہیں اورپھر اس فرشتے کو یاد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہ سے باز رکھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماراپروردگار ہمیں دیکھتا ہے اور نگران فرشتے بھی گواہی دیں گے ۔ اس کے علاوہ خدا نے ہمیں اپنی رحمت اور مہر بانی سے انہیں بندوں پر مامورکیاہے تاکہ حکم خدا نے سرکشی کرنے والے شیاطین کو ان سے دور رکھیں اور زمین کے جانوروں اور بہت سی آفات و بلیات کو جنہیں بندے اس وقت تک نہیں دیکھتے جب تک حکم خدا یعنی ان کی موت نہ آجائے۔

اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ وہ تحریر اعمال کی ذمہ داری کے علاوہ ناگوار حادثوں ، مصیبتوں اور شیاطین کے وسوسوں سے انسانوں کو محفوظ رکھنے پر بھی مامور ہیں ( خدا کے فرشتوں کی مختلف ذمہ داریوں کے بارے میں ایک تفصیلی بحث جلد ۱۰ ص ۱۶۸ تا ۱۷۲ سورہ فاطر کی ا ٓیت ۱ کے ذیل میں آچکی ہے )۔

قابقابل توجہ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات ان فرشتوں کی تعریف و توصیف میں کہتی ہےں وہ کریم اور بزرگ فرشتے پروردگار کی بارگاہ میں بلند مقام کے حامل ہیں تاکہ انسان اپنے اعمال پر زیادہ توجہ دیں ، اس لئے کہ انسان کے اعمال کی نگرانی کرنے والا جس قدر بلند شخصیت رکھتا ہے انسان اس کا زیادہ لحاظ کرتا ہے اور گناہ کے انجام دینے سے زیادہ شرمندہ ہوتاہے ،۔ کاتبین کی تعبیر در حقیقت اس بات کی تاکید ہے کہ وہ حافظہ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ باریک بینی کے ساتھ لکھتے ہیں ، اس انداز سے کہ کبھی کوئی چیز اس سے نظر انداز نہیں ہوتی اور ہر وہ چھوٹے بڑے عمل کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں( یعلمون ماتفعلون ) ” جو کچھ تم انجام دیتے ہو وہ اسے جانتے ہیں “۔

یہ اس حقیقت پر ایک مزید تاکید ہے کہ وہ تمہارے اعمال سے بغیر استثناء آگاہ ہےں اور ان کا لکھنا اسی آگاہی کی بنیاد پر ہے ۔ یہ تمام تعبیریں انسان کے اختیار اور ارادے کی آزادی کو بیان کرتی ہیں اس لئے کہ اگر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہ ہوتا تو اعمال کے تحریر کرنے والے فرشتوں کے مقرر کرنے کا اور ان سب تنبیہوں کا کوئی صحیح مفہوم نہ ہوتا ۔ > اور پھر یہ سب چیزیں اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ حساب و کتاب کا ہونا اور جزا و سزا کا ملنا قطعی اور حتمی ہے ، اس لئے کہ خدا نے اسے حد سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اس حقیقت کی طرف توجہ اور اس پر ایمان اس مقصد کے لئے ہے کہ انسان کی تربیت کرے اور اسے اس کی ذمہ داریوں سے آشنا کرے اور غلط کاموں پر حد سے زیادہ روکنے والا اثر ڈالے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص ۴۴۹۔ یہی حدیث در المنثور، روح البیان ، روح المعانی اور قرطبی میں بھی زیر بحث آیت کے ذیل میں نقل ہوئی ہے

۲خطبہ البلاغہ، ۳۔۔ ”ما شاء “ میں ما زائدہ ہے ، بعض مفسرین نے پیش کیا ہے کہ ما شرطیہ ہے لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے ۔

۴۔ بعض مفسرین روح البیان اور روح المعانی کے مو لف نے کہا ہے کہ ” واو یہاں حالیہ ہے لیکن استینافیہ کا احتمال زیادہ مناسب ہے ۔

۵۔نور الثقلین، جلد۵ ص۵۲۲۔

ثبت اعمال کے مامورین

نہ صرف اوپر آیات میں بلکہ بہت سی دوسری قر آنی آیات میں اور اسلامی روایات میں ان معانی کی طرف اشارہ ہو اہے کہ خدا نے ہر انسان پر نگہبان و نگران مقرر کئے ہیں جو اس کے اعمال قطع نظر اس کے کہ وہ اچھے ہوں یا برے ، تحریرکرتے ہیں اور اس کا اعمال نامہ روز جزا کے لئے تیار کرتے ہیں ۔

ان فرشتوں کی خصوصیات کے بارے میں معنی خیز اور خبر داروہشیار کرنے والی تعبیریں اسلامی رویات میں وارد ہوئی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ کسی شخص نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سوال کیاکہ جو انسان کے اعمال تحریر کرنے پر مامور ہیں کیا وہ انسان کے ارادہ اور نیک یا بد کام کرنے کے باطنی عزم سے بھی باخبر ہوتے ہیں تو امام نے جواب میں فرمایا :

”کیا بچے کھچے اور گندے پانی کے کنویں کی بو اور عطر کی خوشبو ایک جیسی ہوتی ہے “۔ راوی نے عرض کیا نہیں ۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا :

”کہ جب انسان کو ئی اچھا کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو اس کا سانس خوشبو دار ہو جاتاہے تو وہ فرشتہ جو دائیں طرف ہے ( اور حسنات کے ثبت کرنے پر مامور ہے ) بائیں طرف والے فرشتے سے کہتا، اٹھ کھڑا ہو کہ اس نے نیک کام کا ارادہ کیاہے اور جب وہ اس کام کو انجادیتا ہے تو اس انسان کی زبان اس فرشتے کا قلم بن جاتی ہے اور لعاب دہن سیاہی بن جاتاہے ، لیکن جب انسان گناہ کا ارادہ کرتاہے تو اس کاسانس بد بو دار ہو جاتاہے ، اس وقت بائیں طرف کا فرشتہ دائیں طرف والے فرشتے سے کہتاہے ،اٹھ کھڑا ہو کہ اس نے معصیت و نافرمانی کا ارادہ کیاہے اور جب وہ نافرمانی انجام دیتا ہے تو اس کی زبان اس فرشتے کاقلم اور لعاب دہن سیاہی بن جاتاہے اور وہ اسے لکھ دیتاہے ۔(۱)

یہ حدیث اچھی طرح بتاتی ہے کہ انسان کی نیت اس کے وجود پر اچھی طرح اثر انداز ہوتی ہے اور فرشتے اس کے اندرونی اسرار سے باہر کے آثار کے ذریعہ آگاہ ہوجاتے ہیں اور اگر آگاہ نہ ہو ں تو انسان کے اعمال کو اچھی طرح ضبط تحریر میں نہیں لاسکتے ، اس لئے کہ نیت کی کیفیت عمل کی آلودگی اور خلوص کے سلسلہ میں حد سے زیادہ موثر ہوتی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام نے مشہورحدیث میں فرمایا ہے :

( انما الاعمال بالنیات ) ۔ اعمال نیتوں سے وابستہ ہیں ، دوسرے یہ کہ فرشتہ خود انسان سے لیتے ہیں اور اسی پر خرچ کرتے ہیں ۔ ہماری زبان انکا قلم اور ہمارا لعاب دہن ان کی سیاہی ہے ۔

۲ ۔ وہ مامور ہیں کہ جب انسان نیک کام کی نیت کرے تو اسے ایک نیکی کی حیثیت سے تحریر کریں اور جس وقت اسے انجام دیدے تو دس نیکیاں لکھ دیں ۔ لیکن جب انسان گناہ کا ارادہ کرتاہے تو جب تک عمل نہ کرے کوئی چیز اس کے خلاف نہیں لکھتے اور گناہ کے ارتکاب کے بعد بھی صرف ایک ہی گناہ لکھتے ہیں ۔(۲)

یہ تعبیر انسان پر خدا کے انتہائی لطف و کرم کو بیا ن کرتی ہے کہ گناہ کی نیت کو وہ بخش دیتا ہے اور فعل گناہ کی عدل کے مطابق سزا دیتا ہے نہ کہ میزان عدل کے مطابق اور یہ نیک اعمال کی تشویق ہے ۔

۳ ۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ان دونوں فرشتوں کے موجود ہونے اور دس گنا حسنات کی سزا لکھنے کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا:

جب انسان کسی برے کا م کو انجام دیتاہے دائیں طرف کا فرشتہ بائیں طرف کے فرشتے سے کہتا ہے اس گناہ کے لکھنے میں جلدی نہ کر شاید اس کے بعد کوئی نیک کام انجام دے جو اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے جیساکہ خدائے عظیم فرماتا ہے :( ان الحسنات یذهبن السیّئات ) ”نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں “۔

یا یہ کہ تو بہ و استغفار کرے اور ( گناہ کا اثر ختم ہو جائے )۔ گناہ کافرشتہ سات گھنٹہ تک گناہ کے لکھنے سے رکا رہتاہے ، اگر اس گناہ کے بعد کوئی استغفار یانیک کام نہ ہو تو پھر حسنات والا فرشتہ سیئات والے فرشتہ سے کہتا ہے کہ اس بد بخت محروم کا گناہ لکھ دے ۔(۳)

۴ ۔ ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب مومنین کسی خصوصی مجلس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں تو محافظین اعمال ایک دوسر سے کہتے ہیں کہ ہم ان سے دور ہو جائیں ۔ شاید ان کا کوئی راز ہے جسے خدا نے پوشیدہ رکھا ہے ۔(۴)

۵ ۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے خطبہ میں جس میں لوگوں کو تقویٰ اور خوف ِخدا کی دعوت دیتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ :

” اے بندگان خدا ! جان لوکہ خود تم میں سے کچھ نگران تم پر مقرر کئے گئے ہیں ،وہ تمہارے بد ن کے اعضاء ہیں اور یہ بھی جان لوکہ سچے حساب کرنے والے تمہارے اعمال کو لکھتے ہیں یہاں تک کہ تمہارے سانسوں کی تعداد کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔ نہ شب ِ تاریک کی سیاہی تمہیں ان سے پوشیدہ رکھ سکتی ہے اور نہ محکم اور بند دروازے ۔ اور آج کل کس قدر قریب ہے ۔(۵)

____________________

۱۔ اصول کافی ، جلد ۲ باب من یہم بالحسنة اوالسیئة حدیث ۳۔

۲۔ اصول کافی ، جلد ۲ باب من یہم بالحسنة اوالسیئة حدیث ۳۔

۳۔ اصول کافی ، جلد ۲ باب من یہم بالحسنة اوالسیئة حدیث ۴۔

۴۔ اصول کافی مطابق نقل نو الثقلین ، جلد ۵ ص۱۱۰۔

۵- نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۷۔