تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65321
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65321 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۲۹،۳۰،۳۱،۳۲،۳۳،۳۴،۳۵،۳۶

۲۹ ۔( انّ الذین اجرموا کانوا من الذین اٰمنوا یضحکونَ ) ۔

۳۰ ۔( و اذا مرُّوا بِهم یتغامزونَ ) ۔

۳۱ ۔( و اذا انقلبوا الیٰ اهلهم انقلبوا فکهینَ ) ۔

۳۲ ۔( و اذا را اوهم قالوا انَّ هٰوُ لآءِ لضآلُّونَ ) ۔

۳۳ ۔( و ما اُرسِلوا علیهم حٰفِظِیْنَ ) ۔

۳۴ ۔( فالیومَ الّذینَ اٰمنوا منَ الکفارِ یَضْحَکُونَ ) ۔

۳۵ ۔( علی الارآئِکِ ینظرونَ ) ۔

۳۶ ۔( هل ثوِّبَ الکفّارُ ماکانوا یَفْعَلونَ ) ۔

ترجمہ

۲۹ ۔ بدکار دنیا میں ہمیشہ مومنین پرہنستے تھے ۔

۳۰ ۔ اور جب مومنین کے پاس سے گزرتے ہیں تواشاروں سے ان کا مذاق اڑاتے ۔

۳۱ ۔ اور جب اپنے خاندان کی طرف پلٹتے تو مسرور پلٹتے ۔

۳۲ ۔ اور جس وقت مومنین کو دیکھتے توکہتے یہ گمراہ ہیں ۔

۳۳ ۔ حالانکہ وہ مومنین کی نگرانی پرکبھی مامور نہیں رہے اور نہ ان کے متکفل تھے ۔

۳۴ ۔ لیکن آج مومنین کفار پر ہنستے ہیں ۔

۳۵ ۔ جب کہ جنت کے مزین تختوں ( پلنگوں ) پر بیٹھے ہیں اور دیکھ رہے ہیں ۔

۳۶ ۔ کیا کفار نے اپنے اعمال کا اجر لے لیا ہے ؟

شال نزول

مفسرین نے ان آیا ت کے لئے دو شان نزول نقل کی ہیں ۔ پہلی یہ کہ ایک دن حضرت علی علیہ اسلام اور مومنین کی ایک جماعت کفا ر مکہ کے قریب سے گزری تو وہ حضرت علی (ع ) او ران مومنین پر ہنسنے لگے اور ان کا مذاق اڑا یا، تو مندرجہ بالا آیتیں نازل ہوئیں اور ان مذاق اڑانے والے کا فروں کی جو قیامت میں حالت ہوگی اس کو واضح کیا۔

حاکم ابو القاسم حسکانی شواہد التنزیل میں ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں ”انّ الذین اجرموا “ ” سے مراد قریش کے منافقین ہیں اور ”الذین اٰمنوا “ سے مراد علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے یاور انصار ہیں ۔(۱)

دوسری شال نزول یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات عمار ، صہیب، جناب بلال اور اسی قسم کے دوسرے غریب مومنین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو ابو جہل ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل جیسے مشرکین قریش کے تمسخر کا نشانہ بنے تھے ۔

اس دن وہ مومنین کا مذاق اڑاتے تھے لیکن آج

گذشتہ آیا ت کے بعد ، جو نیک لوگوں کے ملنے والی نعمتوں اور ثواب کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں ، زیر بحث آیا ت میں ان مصائب اور زخموں کے ایک گوشہ کی طرف ، جس سے اس جہان میں ایمان و تقویٰ کی بناپر ان کا واسطہ پڑا تھا ، اشارہ کرتاہے تا کہ واضح ہو جائے کہ وہ عظیم اجر و ثواب حساب کتاب کے بغیرنہیں ہے ۔

ان آیا ت میں کفارکی قبیح اور دل دکھانے والی تنقید اور ان سے آمنا سامنا ہونے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور کفار کے چار کے رد عمل کو بیان کرتا ہے پہلے فرمایا تاہے :

” بدکار اور کفار ہمیشہ مومنین پر ہنستے تھے “( ان الذین اجرموا کانوا من الذین اٰمنوا یضحکون ) ، تمسخر آمیز اور منبی بر حقارت ہنسی ، ایسی ہنسی جو سر کشی و تکبر اور غرور و غفلت کی وجہ سے پید اہوتی ہے اور ہمیشہ چھوٹے دماغ کے مغرور افراد ،متقی مومنین کے مقابلہ میں اس قسم کی بے وقوفانہ ہنسی سے کام لیتے ہیں ۔

ضمنی طور پر” کفروا“ کی بجائے ” اجزموا “ کی تعبیر یہ بتاتی ہے کہ کافروبے ایمان افراد اپنے گناہ آلود اعمال سے پہچانے جاتے ہیں اس لئے کہ کفر ہمیشہ سے عصیان و جرم کا سر چشمہ ہے ۔

بعد والی آیت میں ان کے قبیح طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

”جس وقت کفار مومنین کی جماعت کے قریب ہو ں تو اشاروں سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں “

( و اذا مرّوبهم یتغامزون ) ،اور اشاروں اشارو ں میں کہتے ہیں کہ ان بے سرو پا افراد کو دیکھتے ہوکہ یہ مقربین بار گاہ خدا ہو گئے ہیں ۔ ان ننگے پاو ں اور برے حال لوگوں کو دیکھو کہ یہ اپنے اوپر وحی کے نزول کے مدعی ہیں اور ناداں لوگوں کو دیکھو کہ یہ کہتے ہیں کہ بوسیدہ اور خاک شدہ ہڈیاں دوبارہ زندگی کی طرف پلٹ آئیں گی اور وہیں وہ اسی قسم کی دوسری کھوکھلی باتیں کرتے ہیں ۔

ایسا نظر آتا ہے کہ مشرکین واضح طور پر اس وقت ہنسی اڑاتے تھے جب مومنین کی کوئی جماعت ان کے پاس سے گزرتی تھی اور ان کے تمسخر آمیز اشارے اس وقت ہوتے جب وہ مومنین کی جماعت کے نزدیک سے گزرتے اور چونکہ مومنین کی جماعت کے قریب رہ کر آسانی سے ان کا مذاق نہیں اڑا سکتے تھے ، لہٰذا آنکھوں کے اشاروں سے کام لیتے تھے ۔ لیکن جہاں خود ان کا جھمگٹا ہوتا اور مومنین ان کے پاس سے گزرتے وہاں وہ زیازہ آزادی اور جسارت سے کام لیتے ۔(۲)

یتغامزون “ ۔” غمز“ (بروزن طنز) کے مادہ سے آنکھ اور ہاتھ سے ایسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے معنی میں ہے جس سے عیب جوئی کا پہلو نکلتا ہو اور بعض اوقات یہ لفظ ہر قسم کی عیب جوئی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، خواہ زبان ہی سے کیوں نہ ہو۔

اور تغامز ( باب تفاعل سے ) کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب کے سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یہ حرکت کرتے تھے اور ہر کوئی اشارہ کرکے دوسرے کو کچھ بتا تا، جس میں مذاق کا پہلو ہوتا۔ یہ تو مومنین سے آمنا سامنا ہونے پر ہوتا تھا ۔ خصوصی جلسوں میں بھی یہی طرز کار اختیار کئے رکھتے اور علیحدگی میں بھی اس سلسلہ کو جاری رکھتے ، جیسا کہ بعد والی آیت کہتی ہے :

” جس وقت وہ اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاتے تو خوش ہوتے اور جوکچھ انجام دیا ہوتا اس پر پھولے نہ سماتے“۔

( و اذا انقلبوا الیٰ اهلهم انقلبوا فکهین ) ، گویا انہیں فتح و کامیابی نصیب ہوئی ہے جس کی وجہ سے فخر و مباہات کررہے ہیں پھرمومنین سے علیحدگی کی صورت میں بھی اس مذاق کوجاری رکھتے ۔

”فکھین “ جمع ہے ” فکہ“ کی ، یہ صفت ہے مشبہ ( اور بروزن خشن ہے ) ” فکاھہ “( بر وزن قبالہ ) مذاق اڑانے کے معنی میں ہے اور اصل میں فاکھہ سے لیا گیاہے جس کے معنی پھل کے ہیں ۔

گویا یہ شوخیاں پھولوں کے مانند ہیں جس سے وہ لذت حاصل کرتے ہیں ۔ اور شیریں اور دوستانہ گفتگو کو فکاھہ کہا جاتا ہے ۔ اگر چہ اہل کا لفظ عام طور پر خاندان اور قریبی رشتہ داروں کے معنی میں ہے لیکن ممکن ہے کہ یہاں زیادہ وسیع معنی رکھتا ہو اور قریبی دوستوں کا بھی احاطہ کرے ۔

مومنین کے مقابلہ میں ان کا چھوتھا شرارت آمیز طرز عمل یہ تھا کہ جب وہ انھیں دیکھتے تو کہتے یہ گمراہ گروہ ہیں( واذا رأوهم قالوا ان هٰو لاء لضالون ) ، اس لئے کہ وہ بت پرستی اور خرافات ، جوکفار میں رائج تھیں ، انہیں یہ گمراہ راہ ہدایت ہدایت خیال کرتے تھے جبکہ مومنین نے انہیں چھوڑ دیا تھا اور توحید کی طرف پلٹ آئے تھے اور کفار کے گمان میں نقدِ دنیا کی لذت کو مومنین نے آخرت کی خاطر ادھار بیچ دیا تھا ۔

ہوسکتا ہے کہ یہ تعبیر ان مراحل میں ہو جہاں بات مذاق سے آگے بڑھ چکی ہو اور کفار اپنے آپ کو ناچار و مجبور دیکھتے ہوں کہ زیادہ سے زیادہ شدت عمل دکھائیں اس لئے کہ ہمیشہ عظیم پیغمبروں اور نئے دین و آئین کے ظہور کے وقت دشمنوں اور مخالفوں کا یہی طرز عمل ہوتا ہے کہ وہ مذاق اڑاتے تھے ۔

گویا وہ نئے دین کو اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ سنجیدگی سے اس کا سامنا کریں ۔ لیکن جب دین خدا آمادہ افراد کے دلوں میں نفوذ کرجاتا اور اس کے بہت سے پیروکار ہو جاتے توکفار خطرہ محسوس کرکے اس پر سنجیدگی سے اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے اور لڑائی پر شدت سے آمادہ رہتے اور مرحلہ بہ مرحلہ زیادہ شدت اختیار کرتے۔

مندر جہ بالا آیت ان کی انتہائی کو شش کا پہلا مرحلہ ہے جس کی بعد نوبت خوں ریز جنگوں تک پہنچ گئی۔ چونکہ مومنین عام طور پر ایسے افراد میں سے تھے جن کی کوئی اجتماعی حیثیت نہ تھی اور وہ دولت مند بھی نہیں تھے ، اس بناپر کفار انہیں چشم حقارت سے دیکھتے تھے اور ان کے ایمان کو بے قیمت شمار کرتے تھے اور ان کے دین کا مذاق اڑاتے تھے ، بعد والی آیت میں قرآن کہتا ہے :

” یہ گروہ کفاران کی زندگی کا ( مومنین کی) کبھی بھی محافظ و نگہبان اور متکفل نہیں تھا “( وما ارسلوا علیهم حافظین ) ، تو پھر کس حق کی بناپر اور کونسی منطق کی رو سے ان ہر تنقید و اعتراض کرتے تھے ؟

سورہ ہود کی آیت ۲۷ میں ہم پرھتے ہیں کہ قوم نوح کے دولتمند اور متکبر لوگوں نے آپ سے کہا( وما نراک اتبعک الاَّ الذین هم اراذلنا بادی الرأی ) ” ہم ان لوگو ں کو جنہوں نے تیرا اتباع کیا ہے ذلیل اور سادہ لوح ہونے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھتے“۔ تو اُن جناب نے کفا رکے جواب میں کہا :( ولا اقول للذین تزدری اعینکم لن یو تیهم الله خیراً الله اعلم بما فی انفسهم ) میں بالکل نہیں کہتا کہ وہ لوگ تمہاری نظر میں ذلیل و خوار ہیں ، خدا انہیں خیر نہیں دے گا ، خد اان کے دلوں سے زیادہ آگاہ ہے ۔ “ ( ہود۔ ۳۱) ۔

یہ حقیقت میں ان خود پرست اور متکبر افراد کا جواب ہے اور انہیں بتا یا جارہا ہے کہ اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ مومنین کس گروہ سے وابستہ ہیں ، تم اپنے طور پر روح دعوت دین اور پیغمبر اسلام کے آئین اور ان کے مجموعہ قوانین کو دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو۔

قیامت میں صورت حال بالکل بر عکس ہو جائے گی جیسا کہ بعد والی آیت میں فرماتاہے آج مومنین کفار پر ہنسیں گے “( فالیوم الذین اٰمنوا من الکفار یضحکون ) ۔ چونکہ قیامت انسان کے دنیاوی اعمال کا رد عمل ہے اور وہاں عدالت الہٰی کا اجر ہونا ہے اور عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں پاک دل مومن ہٹ دھرم اور مذاق اڑا نے والے کافروں پر ہنسیں ۔ یہ ان مغرور لوگوں پر ایک قسم کا عذاب ہے ۔

بعض روایات میں رسول خدا سے منقول ہے کہ روز جنت کا ایک در کفارکے سامنے کھلے گا اور وہ اس خیال سے کہ جہنم سے آزادی اور جنت میں ورود کا حکم انہیں دے دیا گیا ہے ، اس دروازہ کی طرف چل پڑیں گے ۔ جس وقت اس کے قریب پہنچیں وہ دروازہ اچانک بند ہو جائے گا ۔ اور یہ کئی مرتبہ ہو گا اور مومنین جو جنت سے ان کا نظارہ کر رہے ہوں گے ان پر ہنسیں گے ۔(۳)

لہٰذا بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :

وہ مزین پلنگوں اور تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے اور ان مناظر کو دیکھیں گے( علی الارائک ینظرون ) ۔ وہ کن چیزوں کی طرف دیکھیں گے ،اس آراو سکون و عظمت و احترام کو دیکھیں گے( جو انہیں حاصل ہو گا ) اور ان دردناک عذابوں کی طرف دیکھیں گے جن میں مغرور خود پرست کفار انتہائی ذلت اور زبوں حالی کے ساتھ گرفتار ہوں گے ۔

اور پھر اس سورہ کی آخری آیت میں ایک استفہامیہ جملے کی شکل میں فرماتا ہے :

” کیا کفار نے اپنے اعمال کا اجر اور کاموں کا ثواب لے لیا ہے “( هل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون ) (۴)

یہ بات چاہے خدا کی جانب سے ہو،یا فرشتوں کی طرف سے، یا مومنوں کی طرف سے ، یہ ایک قسم کا طعن و استہزاء ہے اور مغرور متکبر افراد کے افکار اور دعووں پر جنہیں توقع تھی کہ اپنے برے اعمال کے بدلے میں خدا کی طرف سے انعام و اکرام انہیں ملے گا ۔ اس غلط گمان اور خیالِ خام کے مقابلہ میں فرماتاہے :

”کیا انہوں نے اپنے اعمال کا ثواب اور اجر لے لیا ہے “۔ بہت سے مفسرین نے اس جملے کو ایک مستقل جملہ سمجھا ہے جبکہ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ گزشتہ آیت کا حصہ ہے یعنی مومنین مزین تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے کہ کیا کفار نے اپنے غلط اعمال کا اجر لے لیاہے ۔

جی ہاں ! وہ اگر اجرلیں تو شیطان سے لیں ، کیا وہ بے نواگر فتار انہیں کوئی اجر دے سکتے ہیں ۔

” ثوب“ ( بروزن جوف) ثوب کے مادہ سے اصل میں کسی چیز کا اپنی پچھلی حالت کی طرف پلٹنا ہے اور ثواب اس اجر کو کہا جاتا ہے جو انسان کو اس کے اعمال کے مقابلہ میں دیتے ہیں ، اس لئے کہ اس کے اعمال کا نتیجہ اس کی طرف لوٹتاہے ۔ یہ لفظ اچھی یا بری جزا کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر چہ عام طور پر موردِ خبر میں استعمال ہوتا ہے ۔(۵)

اس لئے اوپر والی آیت ایک قسم کا کفار پر طنز کرتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے اس لئے کہ وہ ہمیشہ مومنین اور آیات ِ خدا کا مذاق اڑاتے تھے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس دن اپنے مذاق کی سزا بھگتیں ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان ، جلد، ۱۰ ص۴۵۷۔ حضرت علی htitr اور مشرکین مکہ کے بارے میں ان آیات کا نازل ہونا بہت سی کتب تفسیر مثلاً قرطبی، روح المعانی ، کشاف اور تفسیر فخر رازی میں آیاہے ۔

۲۔ ” مرّوا “اور”بھم“ کی ضمیروں کے مرجع کے بارے میں مفسرین نے دو احتمال تجویز کئے ہیں ۔بعض نے پہلی ضمیر پر مشرکین کی طرف اور دوسری مومنین کی طرف پلٹائی ہے اور بعض نے اس کے بر عکس کہا ہے ۔ لیکن ہم نے جو کچھ اوپر کہاہے اس کے مطابق پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے

۳۔ در منثور، جلد ۶، ص ۳۲۸( مختصر سے فرق کےساتھ )۔

۴۔ اس آیت میں استفہام تقریری ہے ۔

۵۔ ” مفردات“ راغب مادہ ”ثوب“

ایک نکتہ

دشمنانِ حق کا مذاق اڑانے کا بزدلانہ حربہ

انبیاء کی طویل تاریخ میں ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ دشمنان خدا کا ایک حربہ مومنین کے مقابلہ میں تمسخر و استہزاء ہوتا ہے اور آیاتِ قرآنی نے اس موضوع کو با رہا پیش کیا ہے ۔ اور چونکہ تمسخر و استہزاء عام طور پر ایسے لوگوں سے صادر ہوتاہے جو مغرور ہوتے ہیں اور خود کو دوسروں سے بہتر و بر تر سمجھتے ہیں اور دوسروں کو چشم حقارت سے دیکھتے ہیں اور کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کافر، ظالم ، ہٹ دھرم اور خود پرست اہل ایمان کے مقابلہ میں اس قسم کا حربہ استعمال کریں ۔

موجودہ زمانے میں بھی یہی صورت حال ہے ، دنیا کے افسوس ناک گروہی معاملات میں کئی شکلوں میں طعن و طنز اور مذاق کی صورت حال کو جاری رکھا جا تا ہے ۔ اب بھی کوشش کی جاتی ہے کہ حق کے طرفداروں کو اس قدیمی حربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میدان چھوڑ نے پر مجبور کریں ۔ لیکن مومنین ان کے مقابلہ میں خدائی دعووں کی طرف توجہ کرکے ،جن کا ایک نمونہ اوپر والی آیت میں آیاہے ، آرام و سکون محسوس کرتے ہیں اور تاریک دل مخالفوں کے مقابلہ میں مو منین کے دلوں میں روحِ مقاومت پیدا ہوتی ہے ۔

اصولی طورپر استہزاء ، تمسخر، غمز “( اشارے) ضحک اور ہنسنا، حق کے مقابلہ میں ، جس کی طرف مندرجہ بالا آیت میں اشارہ ہو اہے ، یہ سب گناہان کبیرہ میں سے ہیں اور جہالت و غرور کی علامت ہیں ، ایک فہیم ، عاقل اور ہشیار انسان بفرض محال کسی مکتب فکر سے متعلق نہ بھی ہو ، کبھی اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کے حربوں سے مقابلہ کرتا ہے ۔

خدا وندا! ہم سب کو غرور و جہالت اور کبر و نخوت سے محفوظ فرما۔

پروردگارا !ہمیں حق طلبی، حق جوئی اور تواضع کی روح مرحمت فرما۔

بار الہٰا ! ہمارا نامہ اعمال علیین میں قرار دے اور سکتیوں کے زمرہ سے خارج کردے۔

آمین رب العالمین

سورہ مطففین کا اختتام

سورہ انشقاق

یہ سورہ مکہ میں نا زل ہوا اس کی ۲۵ آیتیں ہیں

سورہ انشقاق کے مضامین

یہ سورہ قرآن مجید کے آخری پارے کی بہت سی دوسری سورتوں کے مانند معاد و قیامت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ، شروع میں دنیا کے اختتام اور قیامت کے شروع ہونے کے ہولناک اور دل ہلادینے والے حوادث کی طرف کچھ اشارے کرتا ہے اور بعد والے مرحلہ میں قیامت ، نیکو کاروں او ربد کاروں کے اعمال کا حساب اور ان کی سر نوشت کے مسئلہ کو بیان کرتا ہے ۔

تیسرے مرحلہ میں چند ایسے اعمال و عقائد ، جو موجب عذاب الہٰی ہیں ، ان کو پیش کرتاہے اور چوتھے مرحلہ میں چند قسموں کے بعد انسان کی دنیا وی اور اخروی زندگی کے مرحلوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آخر کار پانچویں مر حلہ میں دوبارہ نیک و بد اعمال اور ان کی سزا و جزا کے بارے میں بات کرتا ہے ۔

تلاوت کی فضیلت

یہ سورہ قرآن مجید کے آخری پارے کی بہت سی دوسری سورتوں کے مانند معاد و قیامت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے ، شروع میں دنیا کے اختتام اور قیامت کے شروع ہونے کے ہولناک اور دل ہلادینے والے حوادث کی طرف کچھ اشارے کرتا ہے اور بعد والے مرحلہ میں قیامت ، نیکو کاروں او ربد کاروں کے اعمال کا حساب اور ان کی سر نوشت کے مسئلہ کو بیان کرتا ہے ۔

تیسرے مرحلہ میں چند ایسے اعمال و عقائد ، جو موجب عذاب الہٰی ہیں ، ان کو پیش کرتاہے اور چوتھے مرحلہ میں چند قسموں کے بعد انسان کی دنیا وی اور اخروی زندگی کے مرحلوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آخر کار پانچویں مر حلہ میں دوبارہ نیک و بد اعمال اور ان کی سزا و جزا کے بارے میں بات کرتا ہے ۔اس سورہ کی تلاوة کی فضیلت کے سلسلہ میں ایک حدیث پیغمبر اسلام منقول ہے (من قرأسورة انشقت اعاذه الله ان یو تیه کتابه وراء ظهره ) ، جو شخص سورہ انشقاق کو پڑھے تو خدا قیامت میں اس شر سے اس کو امان میں رکھے گا کہ اس کانامہ اعمال پس پشت سے دیا جائے۔(۱)

____________________

۱۔مجمع البیان ، جلد۱۰ ص ۴۵۸۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمٰن الرحیم )

۱ ۔( اذا السمآء ُ انشقّت ) ۔

۲ ۔( و اذنت لربها و حُقّت ) ۔

۳ ۔( و اذا الارضُ مدّت ) ۔

۴ ۔( و القت مافیها و تخلّت ) ۔

۵ ۔( و اذنت لربها و حقّت ) ۔

۶ ۔( یا ایها الانسان ُ انّک کادحٌ الیٰ ربک کدحاً فمُلٰقیهِ ) ۔

۷ ۔( فا مّا مَنْ اوتیَ کتابه بیمینه )

۸ ۔( فَسوفَ یُحَاسَب حساباً یسیراً ) ۔

۹ ۔( وینقلبُ الیٰ اهله مسروراً ) ۔

ترجمہ

رحمن و رحیم کے نام سے

۱ ۔ جس وقت آسمان پھٹ جائے گا ۔

۲ ۔ اور اپنے پروردگار کے فرمان کو تسلیم کرے گا اور سزاوار ہے کہ ایسا ہی ہو۔

۳ ۔ اور جب زمین میں وسعت پیدا ہوگی۔

۴ ۔ اور جو کچھ ا س کے اندرہے اسے باہر پھینک دے گی اور خالی ہو جائے گی ۔

۵ ۔ اور اپنے پروردگا رکے حکم کو تسلیم کرے گی اور ایسا ہی ہوگا ہونے کے لائق ہے ۔

۶ ۔ اے انسان ! تورنج و تکلیف اور سعی و کوشش کے ساتھ اپنے پروردگار کے طرف جائے گا اور اس سے ملاقات کرے گا ۔

۷ ۔ لیکن وہ شخص جس کانامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے ۔

۸ ۔ عنقریب اس کے لئے آسان حساب ہو گا ۔

۹ ۔ اور وہ خوشحالی کے ساتھ اپنے گھروں کی طرف پلٹ جائے گا۔

کمالِ مطلق کی طرف رنج آمیز سعی و کوشش

جیسا کہ ہم نے اس سورہ کے مضامین کی تشریح میں کہا ہے ، اس سورہ کے آغاز میں ہی عظیم او رعجیب دنیا کے اختتام کے حوادث کی طرف اشارہ ہو اہے۔ پر وردگارِ عالم فرماتا ہے :

” جب آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے اور آسمانی اجرام پراکندہ ہوجائیں گے او رنظام کواکب درہم و بر ہم ہو جائے گا “( اذا السماء انشقت ) ۔(۱)

اس کی نظیر جو سورہ انفطار کی آئی ہے ، اس میں فرماتا ہے :( اذاالسماء انفطرت و اذا الکواکب انتثرت ) جس وقت آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے اور ستارے پراکندہ ہوجائیں گے اور بکھر جائیں ۔ ( انفطار۔ ۱،۲) ۔اور یہ اختتام دنیا اور اس کی خرابی و فنا کا اعلان ہے ۔ اس کے بعد مزید فرماتاہے :

” اور کے پروردگار کا حکم تسلیم کیاجائے گا اور حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہئیے “( و اذنت لربها و حقت ) ، مبادایہ تصور ہوکہ انسان اس عظمت کے باوجود حکم الہٰی کا معمولی سامقابلہ بھی کرے، وہ مطیع و فرمانبردار بندے کی طرح ہے ، جس کا اس کے حکم کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم ہے ۔

” اذنت“ اصل میں ” اذن“ ( بر وزن افق) سے جو کان کے معنی میں ہے، لیا گیا ہے اور اس کے معنی کان لگاکر سننا ہےں اور یہاں اطاعت ِ فرمان کا کنایہ ہے ۔ ” حقت“ حق کے مادہ سے شائستہ لائق اور سزا وار کے معنی میں ہے ۔ کس طر ح ہوسکتا کہ وہ سر تسلیم خم نہ کرے جبکہ لمحہ بہ لمحہ وجود خدا ہی سے اس کو فیض پہنچ رہا ہو۔ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ رابطہ منقطع ہو جائے تو یہیں ختم ہو کر رہ جائے۔

جی ہاں ! آسمان و زمین نہ صرف آغاز ِ خلقت میں سورہ حٰم سجدہ کی آیت ۱۱( قالتا اتینا طائعین ) کے مطابق ، حق تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ، حق تعالیٰ کے فرمان کے مطیع تھے ، بلکہ عمر کے اختتام میں بھی ایسے ہیں ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ” حقت“ کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ قیامت کی وحشت اور اس کا خوف ایسا ہے کہ سزا وار ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور شگافتہ ہوجائیں ، لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے اور بعد والے مرحلہ میں زمین کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتا ہے :

” اور جس وقت زمین کھینچی جائے گی اور وسیع کی جائے گی “( واذا الارض مدت ) پہاڑ قرآن کی بہت سی آیات کی شہادت کے مطابق مکمل طور پر پراکندہ ہ وجائیں گے اور تمام بلندیاں اور پستیاں ختم ہوجائیں گی، زمین صاف و شفاف، وسیع و عریض اور اپنے صحن میں تمام بندوں کے حضور کے لئے آمادہ ہو جائے گی۔

جیساکہ سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۰۵ تا ۱۰۷ میں فرماتا ہے :( یسئلونک عن الجبال فقل ینسیفها ربی نسفاً فیذرها قاعاً صفصفاً ترٰی فیها عوجاً و لاامتاً ) ۔ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دے میرا پروردگار انہیں ہو امیں اڑائے گا اور بر باد کردے گا پھر زمین کو ہموار اور صاف کرے گا ، اس طرح کہ تو اس میں کوئی بلندی و پستی نہیں دیکھے گا اور اس قسم کی دادگاہ و عدالت جس میں اولین و آخرین جمع ہو ں ، اس کے لئے ایسے میدان کی ضرورت ہے ۔

بعض مفسرین نے کہا کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا ایسی زمین کو قیامت میں اس سے کہیں زیادہ وسیع کردے گا کہ جس حالت میں اب ہے ، تاکہ مخلوق کے حشر کے لئے اس میں زیادہ سے زیادہ آمادگی ہو۔(۲)

تیسرے مرحلہ میں مزیدکہتا ہے :” زمین اس چیز کو جو اس کے اندر ہے، باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی “( القت مافیها و تخلت ) ۔ مفسرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام وہ مردے ، جو مٹی اور قبروں میں آرام کر رہے ہیں ، اچانک باہر پھینک دئیے جائیں گے اور وہ لباسِ زندگی زیب تن کریں گے ۔

یہ اس کے مشابہ ہے جو سورہ زلزال میں آیا ہے( اخرجت الارض اثقالها ) ۔زمین اپنے وزنی بوجھ باہرنکالے گی۔ یا جو کچھ سورہ نازعات آیت ۱۳ ۔ ۱۴ میں آیاہے ( فانماھی زجرة واحدة فاذاھم بالساھرة)صرف ایک ہی صحیحہ ہو گا اور اس کے بعد سب کے سب صفحہ زمین پر ظاہرہو جائیں گے ۔

بعض مفسرین نے کہاکہ انسانوں کے علاوہ معدنیات اور خزانے جو زمین میں پوشیدہ ہیں ، سب کے سب زمین سے باہر آجائیں گے ۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ زمین کے اندر پگھلاہو امواد ہولناک اور وحشت ناک زلزلوں کی وجہ سے کلی طور پر باہرآکر گرے گا اور وہ تمام پستیوں کو پر کردے گا اس کے بعد زمین کے اندر کا حصہ بالکل خالی اور ساکن ہو جائے گا ۔

ان معانی کے درمیان جمع ہو نے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے :

” اس کے بعد زمین اپنے پروردگار کے سامنے سر تسلیم ختم کردے گی اور سائستہ و لائق ہے کہ سر تسلیم خم کرے “( و اذنت لربها و حقت ) ۔ یہ عظیم حوادث ، جو تمام موجوادت کے سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ لازم وملزول ہیں ، ایک طرف تو اس دنیا کے فنا ہونے کو بیان کرتے ہیں ، زمین و آسمان م انسانوں ، خزانوں اور گنجینوں کی فنا، اور دوسری طرف عالم آفرینش میں نئے عالم ہستی کے ایجاد کی دلیل ہیں ۔ اور تیسرے خدا وندِ عظیم و بزرگ کی ہر چیز خصوصاً معاد و قیامت پر قدرت کی نشانی ہیں ۔

جی ہاں ! جب یہ حوادث واقع ہوں تو انسان اپنے نیک وبد اعمال کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے ۔ ( یہ ایسا جملہ ہے جو تقدیر میں ہے ) ۔ اس کے بعد انسان کومخاطب کرتے ہوئے اور اس راہ میں جو ان کی سر نوشت ہے ، ان کے لئے واضح کرتے ہوئے فر ماتاہے :

” اے انسان تو سعی و کوشش اور رنج و تکلیف کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف بڑھ رہاہے اور آخر کار اس سے ملاقات کرے گا “( یا ایها الانسان انک کادح ٌالی ٰ ربک کدحاً فملاقیه ) ۔

” کدح“ ( بر وزن مدح ) سعی و کوشش کے معنی میں ہے ، جو رنج و تعب کے ہمراہ ہو اورجسم و جان پر اثر انداز ہو۔ اسی لئے سخت محنت کرنے والے بیل کو ، جس میں کام کرنے کے آثار ظاہر ہوں ، ” ثورینہ کدوح “ کہتے ہیں ۔

تفسیر کشاف، فخر رازی اور المعانی میں آیاہے کہ یہ لفظ اصل میں خراش کے معنی میں ہے جو کھال پر لگ جاتی ہے ۔ اسی مناسبت سی ان کوششوں پر ، جو انسانی پر اثر انداز ہوں ، اس کا اطلاق ہو اہے ۔

یہ آیت ایک بنیادی اصل کی طرف اشارہ ہے جو تمام انسانوں کی حیات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی ہمیشہ زحمت اور رنج و تعب اپنے ساتھ رکھتی ہے ۔ اگر مقصود صرف متاعِ دنیا تک پہنچنا ہی ہو ، تب بھی ، چہ جائیکہ مقصود آخرت ، سعادت جاوداں اور قرب ِ پروردگار ہو۔

دنیاوی زندگی کی یہ طبیعت اور اس کا یہ مزاج ہے یہاں تک کہ وہ افراد جو انتہائی خوش حالی سے عمر گزارتے ہیں وہ بھی رنج و زحمت اور درد و تکلیف سے بچے ہوئے نہیں ۔

پروردگار کی ملاقات کی تعبیر سے یہاں مراد چاہے قیامت کے منظر کا دیکھنا ہو ، جو اس کی حاکمیتِ مطلقہ کا مظہرہے، یا اس کی جزا و سزا کا آمنا سامنا ہو ، شہود باطن کے طریقہ سے خود اس کی ملاقات ہو۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رنج و تعب اس دن تک جاری رہے گااور اس وقت ختم ہو گا جب اس دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور انسا ن پاکیزہ عمل کے ساتھ اپنے خدا سے ملاقات کرے گا ۔

جی ہاں ! رنج و تعب کے بغیر راحت و آرام صرف وہم ہے۔ ” انسان “ کے لفظ سے خطاب ، جو ساری نوع انسانی پر حاوی ہے ،( انسان کی انسانیت پر انحصار کی طرف توجہ کرتے ہوئے ) اس حقیقت کو بیان کرتاہے کہ خدا نے ضروری یہ توانائیاں اس اشرف المخلوقات میں پیدا کی ہیں اور عنوانِ رب پرانحصار اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سعی و کوشش انسانیت کے تکامل و تربیت کے نظام الاوقات کاایک جز ہے ۔

جی ہاں ! ہم سب مسافر ہیں جنہوں نے سر حد عدم سے رختِ سفر باندھا ہ اور اقلیم وجود میں قدم رکھاہے ، ہم سب ا س کی راہ عشق کی راہ رو ہیں اور دوست کے رخ ِ انور کی مقناطیسی کشش کی بنا پر آئے ہیں ۔

اس تعبیر کی نظیر قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی آئی ہے ، مثلاً( و ان الیٰ ربک المنتهیٰ ) اور یہ تمام امور تیرے پر وردگار کی طرف لوٹتے ہیں اور تمام خظوط اسی پر منتھیٰ ہوتے ہیں ۔( نجم۔ ۴۲) نیزفرماتا ہے :( و الیٰ الله المصیر ) ” سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے “ (فاطر۔ ۱۸) ۔ اور دوسری آیات سب یہ بتاتی ہیں کہ موجودات کے تکامل کا یہ راستہ خداوند متعال کی طرف جاتا ہے لیکن یہاں تمام انسان دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ، جیسا کہ فرماتا ہے :

” لیکن یہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، عنقریب اس کا آسان حساب کتاب ہو گا“( فاما من اوتی کتابه بیمینه فسوف یحاسب حسابا ً یسیراً ) ۔

اور وہ مسرور ہوکر اپنے اہل خانہ کی طرف پلٹ جائے گا( و ینقلب الیٰ اهله مسرواً ) ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو آفرینش کے مدارِ اصلی میں ، وہی مدار جو خدانے اس انسان کے لئے اس کے سر مایوں ، طاقتوں اور توانائیوں کے لئے معین کیاہے ، حرکت کرتے ہیں اور ان کی سعی و کو شش ہمیشہ خدا کے لئے ہے اور ان کی حرکت خدا کی طرف ہے۔

وہاں ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیں گے ۔ ان کے اعمال کی پاکیز گی ، ایمان کی سحت او رقیامت میں نجات کی علامت ہے اور ہل محشر کے مقابلہ میں سر فرازی و سر بلندی کا سبب ہے ۔

جس وقت میزان عدل کے نیچے کھڑے ہوں گے ، وہ میزان جو کم سے کم میزان کو تولتی ہے ، تو خدا ان کا حساب کتاب آسان کردے گا ، ان کی لغزشوں سے در گزر کرے گا اور ایمان و عمل صالح کی وجہ سے ان کی سیات کو حسنات مین تبدیل کردے گا۔

یہ کہ ” حساب یسیر“سے مکی امراد ہے ، بعض مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد سہل و آسان حساب ہے جس میں سخت گیری و دقت نہ ہو، برائیوں سے در گزر اور حسنات کا اجر ہو ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول هے : ( ثلاث من کن فیه حاسبه الله حساباً یسیراً و ادخله الجنةبرحمته قالوا و ما هی یا رسول الله ؟ قال تعطی من حرمک و تصل من قطعک و تعفو عمن ظلمک)

تین چیزیں جس شخص میں موجود ہوں خدا اس کے حساب کو آسان کر دے گا ، اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کردے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ کونسی چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو اس کو عطا کر جو تجھے محروم کرے ، اس سے صلہ رحم جو تجھ سے قطع رحم کرے اور اس کو معاف کر جو تجھ پر ظلم کرے ۔(۳)

یہ مفہوم روایات سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ قیامت میں حساب و کتاب میں دقت و سخت گیری انسانوں کی عقل و دانش کی میزان سے تعلق رکھتی ہے ، جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فراماتے ہیں :( انمایداق الله العباد فی الحساب یوم القیامة علی ما اٰتاهم من العقول فی الدنیا ) خدا قیامت میں بندوں کے حساب وکتاب میں اس کی عقل کی مقدار کے مطابق ، جو دنیا میں بندہ کو دی گئی ہے ، سخت گیری کرے گا۔(۴)

لفظ اہل کے لئے مندرجہ بالا آیات میں مختلف تفسیریں بیان ہو ئی ہیں ، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد اس کی بیوی اور ایمان دار اولاد ہے ، مومنین جنت میں اس کے پاس پہنچیں گے اور یہ خود ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان جن سے محبت رکھتا ہے ، انہیں جنت میں دیکھے اور ان سے قریب رہے۔

بعض دوسرے مفسرین نے اہل کوجنت کی حوروں کے معنی میں لیا ہے جو مومنین کے لئے معین ہوئی ہیں ۔ بعض نے اسے صاحبان ایمان افراد کے معنی میں لیا ہے جس سے وہ دنیا میں محبت کرتا تھا ۔ ان تمام معانی کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔

____________________

۱۔ اذا حرف شرط ہے اور اس کی جزا محذوف ہے اور تقدیر میں اس طرح ہے : اذا السماء انشقتلاتی الانسان ربہ فحاسبہ و جازاہ/

۲۔ تفسیر فخر رازی در ذیل ِآیات زیرِبحث۔

۳۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔

۴۔ نور الثقلین ، جلد ۵، ص۵۳۷۔