دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید0%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
زمرہ جات:

صفحے: 228
مشاہدے: 44592
ڈاؤنلوڈ: 3829

تبصرے:

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44592 / ڈاؤنلوڈ: 3829
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

میں نہایت تیزی سے سیڑھیوں سے اوپر آیا اور سرداب کے دروازہ کو بندھا ہوا پایا، دروازہ کو کھٹکھٹایا خادم آیا اور دروازہ کو کھولا ،میں نے دیکھا کہ اذان صبح کا وقت نزدیک ہے ۔

اس سے میں نے سوال کیا کہ یہ آقا جو آج کی رات سرداب میں تھے وہ کون تھے؟

جواب دیا: سرداب میں تمہارے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میں نے کہا: یہی آقا جو ابھی سرداب سے باہر گئے ۔کہا: نہیں کوئی بھی باہر نہیں گیا،سرداب کا دروازہ تو بند ہے اور حرم اور صحن کے دروازے بھی بند ہیں۔ اس وقت میں متوجہ ہوا کہ کتنی عظیم سعادت مجھے نصیب ہوئی ہے اور مفت میں نے اسے کھو دیا۔ “

مولف نے اس واقعہ کو متعدد مرتبہ آیت اللہ میرجہانی سے مشہد اور اصفہان میں سنا تھا اور جہاں تک میرا حافظہ میرا ساتھ دے رہا ہے اسے میں نے یہاں نقل کیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ واقعہ مختصر فرق کے ساتھ بعض تحریری شکل میں کتابوں میں نشرہوا ہے ۔(۱)

گزشتہ مطالب سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نسخہ ” وعرجت بروحہ “ کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور صحیح نسخہ ”وعرجت بہ “ ہے لیکن صحیح ہونے کی بنا پر بھی تعبیر ”وعرجت بروحہ“ معراج جسمانی کے عقیدہ کے متضاد و منافی نہیں ہے اس لیے:

سب سے پہلے یہ کہ: رسول اسلام کی معراج یقینا ایک مرتبہ سے زائد ہوئی تھی،اور امام صادق کی ایک روایت کی بنیاد پر ایک سو بیس مرتبہ آنحضرت معراج پر تشریف لے گئے ہیں۔(۲)

_______________________

۱۔ گنجینہ دانشمندان ،محمد شریف رازی ،ج۲،ص۴۱۰،کرامات صالحین ،محمد شریف رازی، ص۱۱۲، شیفتگان حضرت مہدی ،احمد قاضی زاہدی ،ج۱،ص ۲۳۹، دیدار یار ،علی کرمی ،ج۳،ص ۱۰۔

۲۔ کتاب الخصال ،شیخ صدوق ،ج۲،ص ۶۰۰۔

۸۱

جس بات پر تمام مفسرین ،محدثین اور دوسرے علمائے شیعہ اتفاق نظر رکھتے ہیں یہ ہے کہ آنحضرت کی معراج جسم مبارک کے ساتھ ہوئی ،آنحضرت کی مشہور معراج وہ ہے کہ ایک رات مکہ معظمہ سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی طرف ہوئی تھی۔

معراج کا یہ موقع ”لیلة الاسراء“ و”لیلة المعراج“ سے معروف ہے معراج بے شک جسمانی ہوئی تھی، لیکن اور دوسرے مواقع ہمارے لیے واضح نہیں ہیںاور کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ ان موقعوں کو بھی ہمیں معراج جسمانی جاننا چاہیے۔

اس بیان کی بنا پر اگر تعبیر”و عرجت بروحہ“صحیح ہو تو ممکن ہے اس کو روحانی معراجوں پر حمل کریں اور دوسرے دو فقرے یعنی ”اوطاتہ“ اور ”وسخّرت لہ البراق“ کو آنحضرت کی جسمانی معراج تسلیم کریں۔

دوسرے یہ کہ: ”وعرجت بروحہ“معراج روحانی پر نص نہیں ہے بلکہ معراج جسمانی پر بھی مشتمل ہے اس لیے کہ:

سب سے پہلے یہ کہ: کسی شئے کا اثبات کرنا دوسرے چیزوں کی نفی نہیں کرتا۔

دوسرے یہ کہ :”عربی زبان میں بعض کا استعمال کل میں بہت زیادہ عام ہے ،جیسے ”رقبہ“ یعنی ”گردن“ کا استعمال خود”انسان“ کے لیے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے ۔(۱)

________________________

۱۔ سورہ نساء(۴) آیت ۹۲ ۔

۸۲

روح کا استعمال مکمل جسم و جان کے لیے عربی زبان کے علاوہ فارسی زبان میں بھی عام ہے جیسا کہ سعدی شیرازی کہتے ہیں:

جانا ھزاران آفرین بر جانت از سر تا قدم

صانع خدایی کاین وجود آورد بیرون از عدم

اے ہزاروں جانوں کے خالق! تیری جان اور مکمل وجود پر ہم قربان

ایسا صنّاع ازل کہ جس نے ہمیںپردئہ عدم سے ظاہری وجود بخشا

ہمیں معلوم ہے کہ فارسی میں”جان “عربی میں ”روح“ کے مساوی ہے(۱) اور سعدی نے کلمہ ”جانت“”از سر تا قدم“ کے قرینہ سے اپنے ممدوح کی بدن کا ارادہ کیا ہے نہ صرف اس کی روح کا۔

آیت اللہ جناب مرزا ابو الفضل تہرانی شرح زیارت عاشورا میں فقرہ ”وعلی الارواح التی حلّت بفنائک “کی شرح میں رقم طراز ہیں:

”اور کبھی روح کو ”حال و محل“یا مناسبت کے تعلق سے روح کے ساتھ جسم کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں:”شال روحہ“یا ”جرح روحہ “یعنی ”اس کا بدن شل ہو گیا“یا ”اس کا بدن زخمی ہو گیا“ عراق اور حجاز میں یہ استعمال متعارف ہے اور یہ ایک ایسا تعلق ہے جو صحیح اور اس کا استعمال کرنا فصیح سمجھا جاتا

_______________________

۱۔ لسان العرب ،ابن منظور ،ج۵،ص ۳۶۱۔

۸۳

ہے ۔اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دعائے ندبہ کی عبارت ”وعرجت بروحه الی سمائک “ میں معراج جسمانی کے اثبات کی اب کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور دلیل بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔“(۱)

سید صدر الدین محمد حسنی طباطبائی نے بھی دوسری وجہ بیان کی ہے۔(۲)

اس بیان کی بنا پر نسخہ ”وعرجت بروحه “ کا صحیح ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے لیکن اگر اسے بنا بر فرض صحیح تسلیم کر لیا جائے پھر بھی معراج جسمانی کے ساتھ بالکل ناسازگاری نہیں رکھتا۔ اور اس طرح دعائے ندبہ کے متن کے صحیح اور مستحکم ہونے پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔

۲ ۔ کیا دعائے ندبہ فرقہ کیسانیہ کے عقیدوں کو بیان کر رہی ہے ؟

کیسانیہ فرقہ کا تاریخچہ

”کیسانیہ“ ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جو پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہوا اور تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔

یہ گروہ جناب ”محمد حنفیہ “ کی امامت کا عقیدہ رکھتا تھا اور انہیں امیر المومنین ،امام حسن اور امام حسین کے بعد چوتھا امام گمان کرتا تھا۔

____________________

۱۔ شفاء الصدور ،مرزا ابو الفضل تہرانی ،ج۱،ص ۲۳۷۔

۲۔ شرح دعائے ندبہ ،سید صدر الدین حسنی طباطبائی ،ص۱۱۶۔

۸۴

”محمد حنفیہ “حضرت امیر المومنین کے فرزند ارجمند تھے اور حضرت کی ان پر خاص توجہ ہوا کرتی تھی ان کی شہرت ”حنفیہ“اس جہت سے ہے کہ ان کی ماں کا تعلق ”خولہ“ ”بنی حنیفہ“ کے قبیلہ سے تھا امیر المومنین نے انہیں آزاد کیا تھا پھر اپنے ساتھ عقد نکاح پڑھا۔(۱)

حضرت امیر المومنین اپنے اس فرزند ارجمند سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کے متعلق تحسین آمیز کلمات فرمائے کہ منجملہ ان میں سے حضرت کی یہ تعبیر مشہور ہے کہ فرمایا:

انّ المحامدة تابی ان یعصی اللّه “

”محمد لوگ اجازت نہیں دیتے کہ خدا کی نا فرمانی ہو“۔

راوی نے دریافت کیا :”یہ محمد لوگ کون ہیں ؟“ فرمایا:

محمد بن جعفر ، محمد بن ابی بکر ،محمد بن ابی حذیفہ اور محمد بن امیر المومنین ۔(۲)

علامہ مامقانی معتقد ہیں کہ حضرت امیر المومنین کا یہ قول محمد حنفیہ کی وثاقت و عدالت پر دلالت کرتا ہے ،اس لیے کہ جب تک وہ اجازت نہ دیں تب تک دوسرا شخص خدا کی نا فرمانی نہیں کرسکتا تو پھر وہ خود بغیر کسی شک و شبہ کے خدا کی نا فرمانی نہیں کریں گے ۔(۳)

________________________

۱۔ شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ج۱،ص ۲۴۵۔

۲۔ اختیار معرفة الرجال ،شیخ طوسی ،ص۷۰۔

۳۔ تنقیح المقال ،عبد اللہ مامقانی ،ج۳،ص۱۱۱۔

۸۵

جنگ جمل میں جناب محمد حنفیہ ،بہت ممتاز موقعیت و منصب کے حامل تھے ، فتح و ظفر کا پرچم ان کے با وفا ہاتھوں میں تھا ،بے مثال شجاعت و صلابت کے ساتھ دشمن کو پیچھے بھگایا ، صفوں کو درہم برہم کیااور بہترین امتحان دیا۔

جب حضرت امیر المومنین نے سپاہِ اسلام کے پرافتخار پرچم کو محمد حنفیہ کے ہاتھ میں دیا تو انہیں خطاب کر کے ایک قابل توجہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فنون جنگ کے گراں قدر نکات کی یاد آوری کی ۔(۱)

خزیمہ بن ثابت ، محمد حنفیہ کی حمد و ثنا کی غرض سے امیر المومنین کی خدمت میںحاضر ہوئے اور عرض کی:

”اگر آج پرچم اسلام دوسرے شخص کے ہاتھ میں ہوتا ،تو رسوائی نصیب ہوتی۔“(۲)

اسی جنگ میں محمد حنفیہ سے دریافت کیا گیا تھا۔

”کیسے سخت اور ہولناک حالات میں تمہارے باپ تمہیں خطرے کے منھ میں ڈال رہے ہیں اور تمہارے بھائی حسن و حسین علیہما السلام کو ہرگز ان موقعوں پر میدان جنگ میں نہیں بھیجتے؟“

محمد حنفیہ نے بہت لطیف تعبیر کے ساتھ جواب دیا تھا:

_______________________

۱۔ نہج البلاغہ ،شریف رضی ،صبحی صالح، خطبہ ۱۱، ص۵۵۔

۲۔ شرح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ۔

۸۶

”حسن و حسین علیہما السلام میرے والد گرامی کی آنکھوں کے تارے ہیں اور میں ان کا قوی ترین بازو ہوں میرے باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کے تاروں کی حفاظت کرتے ہیں ۔“(۱)

اس بیان کی بنا پر کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ جناب محمد حنفیہ دقیق طور پر اپنے بھائیوں کی قدر و منزلت سے واقف تھے اور کوئی نہ تھا جو نا حق امامت کا دعویٰ کرے۔

امام حسین کی شہادت کے بعد ،ایک گروہ ان کی امامت کا معتقد ہوا اور سب سے پہلے ”امیر مختار “ کی مرکزیت پراعتماد کرتا تھا اور لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لیتا تھا۔ لیکن محمد حنفیہ ان کے اس کام سے راضی نہیں تھے اور ان کے اس کام کی کبھی بھی تصدیق و تائید نہیں کی ۔

جب امیر مختار نے اپنی کارکردگی کی رپورٹ محمد حنفیہکی خدمت میں تحریر کی تو جناب محمد حنفیہ نے جواب نامہ میں یوں اظہار کیا:

”رحم اللّه من کفّ یده و لسانه و جلس فی بیته ،فانّ ذنوب بنی امیة اسرع الیهم من سیوف المسلمین “

”خدا اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو اپنے ہاتھ اور زبان کو محفوظ رکھے اور اپنے گھر میں بیٹھے، اس لیے کہ بنی امیہ کے تمام گناہ مسلمانوں

________________________

۱۔ وفیات الاعیان ،شمس الدین احمد بن خلکان ابن خلّکان ،ج۴،ص۱۷۲۔

۸۷

کی تلواروں سے پہلے اس کی طرف تیزی سے آتے ہیں“۔(۱)

جو افراد کوفہ سے آتے تھے اور کوفہ کے حالات کی تفصیل ان کے لیے بیان کرتے تھے تو کہتے تھے:

”میں خوش حال ہوں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں سے ہمارا انتقام لے ،لیکن میں راضی نہیں ہوں کہ تمام دنیا کا حاکم رہوں اور ایک بے گناہ انسان کا خون میری وجہ سے بہایا جائے“ ۔(۲)

جس وقت ”ابو خالد کابلی “نے جناب محمد حنفیہ سے دریافت کیا :”کیا آپ ہی واجب الاتباع امام ہیں ؟“ تو نہایت صراحت کے ساتھ جواب دیا:

”میرا تمہارا اور تمام مسلمانوں کا امام علی بن الحسین ہے“ ۔(۳)

اس وقت امر امامت تمام لوگوں کے لیے روشن کرنے کے لیے حضرت علی بن الحسین کے ساتھ گفتگو کے لیے بیٹھے اور حجر اسود کو حَکَم قرار دیا، حجر اسود نے حضرت امام سجاد کی امامت کی گواہی دی اور انہوں نے بھی تسلیم کیا۔(۴)

محمد حنفیہ نے اس سلسلہ میں ابو خالد کابلی سے کہا:

امام زین العابدین نے حجر اسود کو حَکَم قرار دیا ،حجر اسود نے مجھ سے کہا:

________________________

۱۔ مختصر تاریخ دمشق ، ج۲۳،ص ۱۰۳۔

۲۔ سیر اعلام النبلاء ،محمد ابن احمد ابن عثمان ذہبی،ج۴،ص۱۲۱۔

۳۔ اختیار معرفة الرجال ،شیخ طوسی ،ص۱۲۱، مناقب آل ابی طالب ،ابو جعفر محمد ابن شہر آشوب ،ج۴،ص ۱۲۱۔

۴۔ الامامة والتبصرة ،شیخ صدوق، ص۱۹۵ الکافی ،الکلینی ،ج۱،ص ۳۴۸، کتاب الغیبہ ،شیخ طوسی ،ص۱۸۔

۸۸

”تم اپنے بھائی کے بیٹے کے مقابل تسلیم ہو جاؤ کہ وہی (امامت کا) زیادہ حق دار ہے“۔(۱)

وہ محققین جنہوں نے حوصلہ اور دقت کے ساتھ کیسانیہ فرقہ کے تاریخچہ کی تحقیق کی ہے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ امیرمختار کو محمد حنفیہ کی طرف سے قیام کے لیے رغبت و شوق نہیں دلایا گیا،

آخری نتیجہ یہ ہے کہ محمد حنفیہ نے امیر مختار کو اس کام سے صریحی طور پر منع نہیں کیا ہے۔(۲) لیکن کمال صراحت کے ساتھ ان سے کہا:

”میں ہرگز جنگ اور خون ریزی کا حکم نہیں دیتا “۔(۳)

اور جب اس بات سے با خبر ہوئے کہ امیر مختار نے یہ اظہار کیا ہے کہ ان کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تو ان سے نفرت و بیزاری اختیار کی۔(۴) یہاں تک کہ بعض نقل تاریخ کی بنا پر ان پر لعنت بھیجنے کے لیے زبان کھولی ۔(۵)

ظ لیکن جب محمد حنفیہ عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے زمزم کے کنویں پر مقید تھے تو

____________________

۱۔ اعلام الوریٰ باعلام الھدی ،ابو علی فضل بن الحسن الطبرسی ، ج۱،ص ۴۸۶۔

۲۔ الکیسانیہ فی التاریخ و الادب ،وداد قاضی ،ص۹۱۔

۳۔ انساب الاشراف، احمد بن یحییٰ بلاذری ،ج۵،ص۲۱۸۔

۴۔ الملل و النحل ،شہرستانی ،ابو الفتح محمد بن عبد الکریم ج۱،ص ۱۴۹۔

۵۔ المقدمة ،عبد الرحمن ابن خلدون ،ص۱۹۸۔

ظ۔ ہمارے شیعہ مذہب میں ایسی تاریخ کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ جس کا ناقل معلوم نہ ہو دوسری بات یہ کہ ممکن ہے ایسی تاریخی روایت بنی امیہ کے کارندوں کی خود ساختہ ہو۔ (مترجم)

۸۹

امیر مختار کو پیغام دیا،اور امیر مختار نے چار ہزار لوگوں کو ان کی مدد کے لیے بھیجا اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو قید سے آزاد کرایا ۔(۱)

محمد حنفیہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تحقیق سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ امامت کے مدعی نہ تھے بلکہ اس سے گریزاں تھے ،جیسا کہ زہری کا بیان ہے :

”محمد لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند ، بہادر اور فتنوں سے دور تھے نیز جن چیزوں سے لوگ دل لگائے ہوئے تھے وہ ان سے پرہیز کرتے تھے ۔(۲)

جس وقت ان کے کسی چاہنے والے نے ان کو ”یا مہدی“ کے عنوان سے خطاب کیا تو وہ اس عنوان سے خوش نہیں ہوئے اور اس سے کہا:

”ہاں! میں ہدایت یافتہ ہوں اور نیکیوں کی طرف ہدایت کرتا ہوں ،لیکن میرا نام محمد اور کنیت ابو القاسم ہے ،جب مجھے آواز دو تو مجھے ان دوناموں سے پکارا کرو۔“(۳)

محمد بن حنفیہ کے مختصر کلمات اور بہت سے خطبات جو کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ، ان میں ہمیں کوئی ایسی بات نہیں ملتی کہ جس میں انہوں نے اپنی طر ف لوگوں کو دعوت دی ہو، بلکہ اس کے برعکس مطلقاً خاندان عصمت و طہارت کی طرف مکمل احتیاط کے

____________________

۱۔ مختصر تاریخ دمشق ، ابن منظور ،ج۲۳، ص۹۹۔

۲۔ تذکرة الخواص ،سبط ابن جوزی ،ص۲۶۳۔

۳۔ الکیسانیة فی التاریخ و الادب ،وداد قاضی ،ص۱۲۳۔

۹۰

ساتھ دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ،جیسے ایک خطبے کے ضمن میں فرماتے ہیں:

”الا انّ لاهل الحق دولة یاتی بها اللّٰه اذا شاء“

”اہل حق کے لیے ایک حکومت ہے کہ خداوند متعال جس وقت چاہے گا اسے فراہم کرے گا ،ہم میں سے جو شخص بھی اس حکومت کو درک کرے گا وہ سعادت کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہو گا“۔(۱)

جب ان سے اصرار کے ساتھ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی دعوت کو بیان کریں تو انہیں اس بات سے شدّت کے ساتھ منع کرتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں:

”و لامر آل محمد ابین من طلوع الشمس“

” امر آل محمد طلوع آفتاب سے زیادہ واضح و روشن ہے ۔“(۲)

قابل توجہ یہ ہے کہ ”امرنا“ یعنی ”ہمارے امر“ سے تعبیر نہیں کیا بلکہ ”امر آل محمد “ سے تعبیر کیا ہے ،اور ہم جانتے ہیں وہ پیغمبر اکرم (ص) کی نسل سے نہیں ہیں،اور ”آل محمد “ کی تعبیر خصوصی ترین معنی میں ان کے شامل حال نہیں ہوتی۔

ان کی عقل و درایت اور ہوش و ذکاوت کے لیے یہی کافی ہے کہ بادشاہ روم نے عبد الملک کو تہدید آمیز اورخوفناک خط لکھا،عبد الملک نے حجاج سے کہا کہ اس طرح کا ایک تہدید آمیز خط محمد حنفیہ کو لکھو اور اس کا جواب میرے پاس لے آؤ۔

____________________

۱۔ الطبقات الکبریٰ ،محمد ابن سعد کاتب ،ج۵،ص ۹۷۔

۲۔سیر اعلام النبلاء ، محمد احمد ابن عثمان ذہبی،ج۴،ص ۱۲۲۔

۹۱

جب محمد حنفیہ کا جواب عبد الملک کے ہاتھ میں پہنچا تو حکم دیا کہ عین اسی جیسا جواب بادشاہ روم کے پاس لکھو:

بادشاہ روم نے عبدالملک کے جواب میں لکھا:

یہ بات تمہاری اور تمہارے خاندان کی طرف سے صادر نہیں ہوئی ہے، یہ کلام تو خاندان نبوت سے صادر ہوا ہے ۔(۱)

یہی گفتار کی متانت و لطافت ،نیک رفتار و کردار میں اعتدال پسندی،اس کے علاوہ علم سے سر شار،پُر بار عقل اور دوسری اخلاقی نیکیاں باعث ہوئیں کہ لوگوں کے دل ان کی محبت سے لبریز ہوجائیں اور سب ان کے بہترین معتقد ہو جائیں نیز یہی وجہ تھی کہ امیر مختار خود کو ان سے منسوب کرتے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف موڑ سکےں ۔ لیکن جب وہ مختار کی دسیسہ کاریوں سے آگاہ ہو ئے تو ان سے نفرت کا اظہار کیا۔(۲) ظ

محمد حنفیہ اگر چہ امام حسین کی شہادت کے بعدبہت سی مشکلوں سے روبرو ہوئے، اور حجّاج ،عبد الملک اور عبد اللہ ابن زبیر کی طرف سے انہیں بیعت کی دعوت کے لیے بہت سی تہدید(دہمکی) اور طمع دی گئی انہیں خو ف دلایا ،لیکن اپنی نیک تدبیر سے کسی حد

____________________

۱۔ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، ص۱۱۰۔

۲۔ الملل و النحل، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ۔

ظ۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ناروا باتوں کو امیر مختار جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو کم کرنے کے لیے بنی امیہ کے چاہنے والوں نے اپنی خود ساختہ تاریخوں میں جگہ دی ہے جس کا ہمارے شیعہ عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (مترجم)

۹۲

تک ان کے شر سے محفوظ رہے ،یہاں تک کہ آخر میں محرم ۸۱ ھئق میں ۶۵ سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں دنیا سے رخصت ہوئے اور قبرستان بقیع میں دفن ہوئے ۔(۱)

محمد حنفیہ کے انتقال کی جگہ کے لیے تین اقوال ہیں:

۱ ۔ مدینہ

۲ ۔ طائف

۳ ۔ ایلہ (مکہ و مدینہ کے درمیان )(۲)

اور چوتھا قول بھی نقل ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ :ان کا انتقال ”رضوی“ کے مقام میں ہوا اور بقیع میں دفن کیا گیا۔(۳)

”رضوی“ایک بلند پہاڑ کا نام ہے مدینہ کے قریب جو ”یَنبُع“سے ایک منزل اور مدینہ سے سات منزل کا فاصلہ ہے ،جہاں اونچی اونچی پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں، کثرت سے درّے، درخت اور بہت سے صاف و شفاف چشمے پائے جاتے ہیں۔(۴)

محمد حنفیہ کی رحلت کے بعد،کیسانیہ فرقہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گیا کہ ان میں سے منجملہ یہ ہےں :

۱ ۔ سرّاجیّہ”حسّان سرّاج“ کے ماننے والوں نے کہا: محمد حنفیہ وفات پا

________________________

۱۔ سیر اعلام النبلاء ،محمد ابن عثمان ذہبی، ص۱۲۸۔

۲۔ تذکرة الخواص ،سبط ابن جوزی ،ص۲۶۸۔

۳۔ تنقیح المقال ،عبد اللہ مامقانی،ص۱۲۲۔

۴۔ معجم البلدان ،یاقوت حموی ،ج۳،ص۵۱۔

۹۳

چکے ہیںکوہ رضوی میں مدفون ہیں ،لیکن ایک دن رجعت کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔(۱)

۲ ۔ کرنبیّہ”ابن کرنب“ کے ماننے والوں نے کہا: محمد حنفیہ زندہ ہیں اور کوہ رضوی میں سکونت پذیر ہیں اور بغیر ظہور کیے دنیا سے نہیں جائیں گے ،دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے پُر ہوگی۔(۲)

ان کو اکثر منابع میں ”کربیّہ“ یا ”کریبّیہ“ ذکر کیا گیا ہے ۔(۳)

۳ ۔ ہاشمیہ ،”ابو ہاشم عبد اللہ “ کے ماننے والے جو محمد حنفیہ کے بعد ان کے فرزند ”عبد اللہ“ کی امامت کے معتقد ہوئے ۔(۴)

ہاشمیہ فرقہ بھی ابو ہاشم کی وفات کے بعد مختلف فرقوں میں جیسے :”مختاریّہ“ ”حارثیّہ“”روندیّہ“”بیانیّہ“ وغیرہ میں تقسیم ہو گیا۔(۵)

کیسانیہ کی اکثریت اس بات کی معتقد ہے کہ محمد حنفیہ کی وفات نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ کوہ رضوی میں مخفی ہیں ایک مدت کی غیبت کے بعد آخر میں ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

______________________

۱۔ البدء و التاریخ ،المطھّر بن طاہر مقدسی ،ج۵،ص ۱۲۹۔

۲۔ البدء والتاریخ ،المطھّر بن طاہر مقدسی،ج۵،ص ۱۲۸۔

۳۔ الکیسانیہ فی التاریخ و الادب، وداد قاضی ، ص۱۷۲۔

۴۔ الملل و النحل ، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ،ج۱،ص ۱۵۰۔

۵۔ المقالات و الفرق،سعد ابن عبد اللہ اشعری ،ص۲۶۔۴۰۔

۹۴

وہ لوگ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ محمد حنفیہ وہی مہدی موعود ہیں اور مکہ معظمہ سے ظہور کریں گے ۔(۱)

وہ لوگ کہتے ہیں:ہر دن صبح و شام محمد حنفیہ کی خدمت میں اونٹ آتے ہیں وہ ان کے دودھ اور گوشت کو کھاتے پیتے ہیں۔(۲)

سید اسماعیل حمیری ،خاندان اہل بیت کے مشہور شاعر پہلے ان کا تعلق فرقہ کیسانیہ سے تھا اور بہت سے اشعار محمد حنفیہ کی مدح میں کیسانیہ کے عقائد کی بنیاد پرنظم کیے وہ انہیں اشعار کے ضمن میں کہتے ہیں :

یا شعب رضوی ما لمن بک لا یری

و بنا الیه من الصّبابة اولق

حتی متیٰ، و الیٰ متیٰ و کم المدیٰ

یا بن الوصیّ وانت حیّ ترزق

اے غار رضوی! تمہارے اندر قیام کرنے والا کیسا ہے جو دکھائی نہیں دیتا،جب کہ ہم اس کے عشق میں دیوانے ہو گئے ہیں۔اے فرزند وصی! کب تک اور کس زمانہ تک اور کتنی مدت تک زندہ رہیں گے اور رزق کھاتے رہیں گے؟(۳)

کیسانیہ کے دوسرے مشہور شاعر،”کُثیّر عَزّه“ بھی اس سلسلہ میں کہتے ہیں :

_____________________

۱۔المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ اشعری ،ص۳۱۔

۲۔ فرقہ الشیعہ ،حسن بن موسیٰ نو بختی ، ص۲۹۔

۳۔ مروج الذہب، علی ابن حسین مسعودی، ج۲،ص۹۶۔

۹۵

تغیّب لا یری عنهم زمانا

برضوی عنده عسل و ماء

ایک مدت سے رضوی میں ان لوگوں سے مخفی ہوگئے ہیں لہذا دکھائی نہیں دیتے ان کے پاس پانی اور شہد ہے ۔(۱)

حمیری بعد میں محمد حنفیہ کے مہدی ہونے کے عقیدے سے برگشتہ ہو گئے اور حضرت امام جعفر صادق کی امامت کے معتقد ہو گئے اور مشہور شعر ”تجعفرت باسم اللّہ و اللّٰہ اکبر “ ”میں نام خدا پر جعفر میں سے ہوگیا اور اللہ بزرگ و برتر ہے“ کو اسی سلسلہ میں کہا ہے ۔(۲)

”کثیّر“ اہل بیت کے دل باختہ عاشقوں میں سے تھے، خود کو مرنے کے لیے آمادہ کیا ،کسی شخص کو تلاش کیا کہ ان کے اہل و عیال کی کفالت کرے ، اس وقت ایّام حج کے موقع پر اہل بیت سے دفاع کے سلسلے میں ولولہ خیز بیانات جاری کیے جس وقت چاہا کہ غاصبین فدک سے اظہار برائت کریں تو ان کے طرف دار لوگ کھڑے ہوئے اور ان کی طرف پتھر برسائے اور بہت بری طرح سے درجہ شہادت پر فائز کیا۔(۳)

______________________

۱۔ الدیوان ،الکُثَیر عزّہ، ج۲،ص ۱۸۶۔

۲۔ الدیوان ،سید اسماعیل حمیری ،ص۲۹۵۔طبقات الشعراء ،ابن المعتزّ،ص۳۳۔ الفصول المختارہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ، ج۲،ص ۲۹۹۔

۳۔ الاغانی ،ابو الفرج اصفہانی ،ج۱۱،ص ۴۶۔

۹۶

امیر مختار کے بعد جو کیسانیہ فرقے کے بانی کہلاتے تھے ،ان دونوں نے رزمیہ شاعری کے با معنی اور بہترین اشعار پیش کر کے کیسانیہ فرقہ کی ترقی میں بہت زیادہ موثر کردار ادا کیا۔

اس فرقہ کے ”کیسانیہ “نام کی وجہ تسمیہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:

۱ ۔ کیسان امیر مختار کا لقب تھا۔(۱)

۲ ۔ کیسان امیر مختار کی فوج کے سردار کا نام تھا۔(۲)

۳ ۔ کیسان حضرت امیر المومنین کے غلاموں میں سے ایک غلام کا نام تھا کہ جس نے امیر مختار کو امام حسین کے خون کا انتقام لینے کے لیے شوق اور رغبت دلائی تھی۔(۳)

تیسراقول ضعیف ہے، کیوں کہ کیسان امیر المومنین کے غلام تھے جو جنگ صفین میں شہید ہوچکے تھے۔(۴)

پہلا نظریہ تاریخی لحاظ سے پایہ ثبوت تک نہیں پہونچا ہے ۔

لیکن دوسرا نظریہ معتبر ہے ،اس لیے کہ تاریخی لحاظ سے اس بات میں شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ مختار کی فوج کا سردار ایک کیسان نامی شخص تھا جو ”ابو عمرہ“ کے نام

_____________________

۱۔ البدء و التاریخ ،المطھّر بن طاہر مقدسی ،ص۱۳۱۔

۲۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ اشعری ،ص۲۱۔

۳۔ الملل و النحل ، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ،ص۱۴۷۔

۴۔ الکامل فی التاریخ ،عز الدین علی ابن اثیر،ج۳،ص ۲۹۹۔

۹۷

سے مشہور تھا قبیلہ ”بجیلہ“(۱) سے جو قبیلہ ”عرینہ“کہ وہ بجیلہ کے گروہوں میں سے ایک ہے ۔(۲)

یہ کیسانیہ کے اعتقادات کے مختصر تاریخچہ کی طرف اشارہ تھا جو ۶۰ ھء کے بعد پیدا ہوا اور تیسری صدی ہجری میں ختم ہو گیا اور اس کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا۔

سید مرتضیٰ علم الہدی نے اپنی گراں قدر کتاب الفصول المختارہ میں جو کتاب العیون و المحاسن شیخ مفید سے منتخب شدہ ہے ،اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ روئے زمین پر کیسانیہ فرقہ میں سے ایک شخص بھی باقی نہیں ہے ۔(۳)

اس سے پہلے اشعری اور نوبختی نے بھی دوسری صدی ہجری کے اواخر میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ کیسانیہ کے فرقوں میں سے سوائے انگشت شمار افراد کے کوئی باقی نہیں ہے ۔(۴)

لیکن ”محمد حنفیہ “ کا ”کوہ رضوی “ سے ارتباط یہ ہے کہ ”عبد اللہ ابن زبیر “ نے جب بنی ہاشم کے مقابل میں اپنے ضعیف اور نابود ہونے کا خطرہ احساس کیا تو ”عبد اللہ ابن عباس “ کو ”طائف “ اور ”محمد حنفیہ “”کوہ رضوی“ کی طرف شہر بدر کیا۔(۵)

____________________

۱۔ انساب الاشراف ،احمد بن یحییٰ بلاذری ،ص۲۲۹۔

۲۔ جمہرة انساب العرب ،ابن حزم اندلسی ، ص۳۸۷۔

۳۔ الفصول المختار ہ ،سید مرتضیٰ علم الہدی ، ج۲،ص ۳۰۵۔

۴۔ المقالات و الفرق، سعد بن عبد اللہ اشعری ،ص۳۶، فرق الشیعہ ،حسن بن موسیٰ نوبختی ۔

۵۔ التاریخ یعقوبی ،ابن واضح یعقوبی ،ج۳،ص ۹۔

۹۸

اس بیان کی بنا پر ”محمد حنفیہ “ نے اپنی عمر کا آخری حصّہ اسی سمت میں بسر کیا ہے بعض مورخین نے کہا ہے کہ ان کا اسی جگہ انتقال ہوا ہے ۔(۱)

لیکن اکثر مورخین معتقد ہیں کہ محمد حنفیہ کی وفات مدینہ میں ہوئی اور بقیع میں مدفون ہیں۔(۲)

”عبد اللہ ابن عطا“ نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

”میں نے اپنے چچا محمد حنفیہ کو خود اپنے ہاتھ سے سپرد خاک کیا “۔(۳)

مذکورہ مطالب کی تحقیق سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ فرقہ کیسانیہ پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد پیدا ہوا اور جناب محمد حنفیہ کی امامت کا معتقد ہوا اور دوسری صدی ہجری کے اواخر میں بالکل ختم ہو گیا۔

اس بات کے پیش نظر کہ ”رضوی“ چونکہ محمد حنفیہ کے شہر بدر کی جگہ تھی،کیسانیہ کے ایک گروہ نے اس مقام کو محمد حنفیہ کی غیبت کی جگہ جانا ہے ، اس بات کا منتظر تھا کہ ایک دن وہ کوہ رضوی سے ظاہر ہوں گے اور سر زمین مکہ سے قیام کریں گے اور دنیا کو عدل و انصا ف سے بھر دیں گے ۔

اس بیان کی بنا پر ”رضوی “ کا ”مہدی موعود“ کے ساتھ اور شیعہ اثنا عشری کا حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ پر اعتقاد رکھنے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔

_____________________

۱۔ غایة النہایة ،شمس الدین ابن الجزری ،ج۲،ص۲۰۴۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ،محمد ابن سعد، ج۵،ص ۱۱۶۔

۳۔ الفصول المختارہ ،سید مرتضیٰ علم الہدی ، ج۲،ص ۲۹۸۔

۹۹

لہٰذا ”دعائے ندبہ “ کے ایک فقرہ میں لفظ”رضوی “ استعمال ہوا ہے اور حضرت ولی عصر کی قیام گاہ کے ساتھ ایک مخصوص رابطہ پایا جاتا ہے ؟!

اور اب دعائے ندبہ کا متن ملاحظہ فرمائیں:

”لیت شعری این استقرّ ت بک النّوی؟بل ایّ ارض تقلّک او ثری؟ ابرضوی او غیرها ام ذی طوی؟ عزیز علیّ ان اریٰ الخلق و لا تری“

”اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تیری قیام گاہ کہاں ہے اور کس سر زمین نے تجھے بسا رکھا ہے ؟ مقام رضوی ہے ؟یا مقام طوی ہے ؟میرے لیے یہ بہت سخت ہے کہ ساری دنیا کو دیکھوں اور تو نظر نہ آئے “(۱)

اس سوال کا جواب ہر ایک فرد کی نظر میں واضح و روشن کرنے کے لیے ”رضوی“ اور ”ذی طوی“ کی حیثیت کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے کلمات کی روشنی میں تحقیق کرتے ہیں تاکہ ان دونوں مقام کا ارتباط حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے وجود اقدس سے اور ان دونوں کاجناب محمد حنفیہ کے ساتھ عدم ارتباط کا مسئلہ واضح ہو سکے ۔

۱ ۔”کوہ رضویٰ“

”رضویٰ “”تہامہ “ کے پہاڑوں میں سے پہلا پہاڑ ہے جو ”ینبع“ سے ایک منزل اور ”مدینہ “ سے سات منزل ہے کہ بہت سی حدیثوں میں اس کا ذکر ہوا ہے

____________________

۱۔ مصباح الزائر ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۵۱۔

۱۰۰