دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید0%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
زمرہ جات:

صفحے: 228
مشاہدے: 44613
ڈاؤنلوڈ: 3829

تبصرے:

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44613 / ڈاؤنلوڈ: 3829
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

سوال نہیں قرار دے سکتا۔

لیکن دعائے ندبہ کے متعلق جو ایک مشہور ترین ، شجاعت آفرین اور ولولہ انگیز ترین اسلامی دعاؤں میں سے ہے ،ایسی ناروا تہمت کبھی بھی کار گر نہیں ہو سکتی۔

اس دعا میں ایک قابل توجہ تحقیق اور طولانی بحث کے بعد جنگ بدر،حنین ،خیبر، جمل ،صفین اور نہروان کے نتائج سامنے آتے ہیں وہ خاند ان عصمت و طہارت کے مظلوموں کی مدد کرنے والے کو بیان کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں:

ظلم و استبداد کے قصروں کو ویران کرنے والا کہاں ہے؟

فسق و معصیت اور سرکشی کرنے والوں کو تباہ کرنے والا کہاں ہے؟

پھر کلمہ ”این “ ”کہاں ہے ؟“کی ۳۸ مرتبہ تکرار ہوئی ہے اور ۳۸ فقروں میں سے ایک ایک فقرہ میں طول تاریخ میں ناحق بہائے گئے خون کا انتقام لینے والے کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

یہ کتنی جواں مردی اور انصاف سے دور کی بات ہے کہ اس دعا کو اس کے مشہور اور شجاعت آفرین مضامین کے باوجود اسے نشہ آور اور لوگوں کے لیے تریاک سے متعارف کرائیں!

کتنا مناسب اور بہتر ہے کہ شب جمعہ دعائے کمیل سے مخصوص اور جمعہ کی صبح دعائے ندبہ سے کہ شب جمعہ ،شب رحمت ،شب استغفار ،شب انابہ و توبہ ہے۔ اور دعائے کمیل کے بہترین مناجات و استغفار کے الفاظ جو دل کے سیاہ نقطہ اور اصلاح طلب روح انسان کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے ہیں،اور جمعہ کا دن جو روز موعود ،روز انتظار ، تمام منتظرین کی آمادگی کا دن اور عاشقین کو دعوت دینے کا بھی دن ہے صاف و شفّاف تعبیروں میں کہا جائے : ولولہ خیز ،آگاہی بخش ،حرکت آفرین ،الہام بخش اور بہترین سیاسی و اعتقادی نکات سے آغاز ہوا اور پورے دن کے لمحات لحظہ بہ لحظہ تحرّک و نشاط سے نشاة پائے ہیں وہ اسی دعائے پُر فیض کی برکت میں مزید اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔

۱۲۱

۴ ۔ کیا دعائے ندبہ بدعت ہے؟

معترض کہتا ہے: دعائے ندبہ بدعت ہے ،اس لیے کہ بدعت ان اعمال اور عقائد کو کہا جاتا ہے جو اسلام میں نہیں تھے ،زمانہ پیغمبر اور ائمہ کے بعد پیدا ہوئے ہوں اور انہیں ان کی طرف منسوب کیا جائے ،جیسے یہی دعائے ندبہ جو رسول اکرم اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے زمانہ میں نہیں تھی ،اور کسی بھی شخص نے اس زمانے میں اس دعا کو نہیں پڑھا اور کسی بھی منبع میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے ۔

بدعت کا معنی ایک چیز کا دینی احکام میں داخل کرنا جو پیغمبر اکرم اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام سے خصوصی طور پر اس چیز کے متعلق کوئی حکم بیان نہ ہوا ہو اور عمومات میں بھی وہ شامل نہ ہوں۔

بعض منحرف جماعتوں نے بدعت کے معنی کو بہت وسیع کر دیا ہے اور بہت سے سنت کے مصادیق کو بدعت کا نام دے دیا ہے ،جیسے وہابیوں نے زیارت اہل قبور ، عزیزوں کے سوگ میں گریہ کرنا، قبر کی تعمیر ، اولیائے الٰہی کی قبروں کی بارگاہ کے اوپر گنبد بنانا، مجالس عزا برپا کرنا اور اس طرح کے دوسرے امور کو بدعت شمار کیا ہے جب کہ ان میں سے ہر ایک معتبر دلائل اور مورد اعتماد اسناد کے ساتھ خود رسول اکرم سے ہمیں ملے ہیں اور عمومات شرعی میں بھی وہ شامل ہیں اس سلسلے میں مربوطہ کتابوں میں تفصیلی بحث موجود ہے ۔

لیکن دعائے ندبہ کے متعلق :سب سے پہلے یہ کہ: بالخصوص یہ امام معصوم سے صادر ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے کتاب کے دوسرے حصے میں تفصیلی گفتگو کی ۔

دوسرے یہ کہ: اگر کوئی خاص دلیل بھی ہمارے پاس نہ ہوتی تو وہ عمومات میں شامل ہوتی اس لیے کہ اس دعا کا متن حمدوثنائے الٰہی ، رسول اکرم اور اہل بیت عصمت و طہارت پردرود و سلام نیز ذکر فضائل و مناقب اہل بیت علیہم السلام پر مشتمل ہے جو سب کچھ شریعت مقدسہ کی نظر میں مطلوب ہے اور ہمارے پاس اور بھی بہت سے عمومات ہیں کہ ان کا ہمیں حکم دیا ہے اور اسے سب کو انجام دینے کا شوق و جذبہ فراہم کیا ہے ۔

۱۲۲

تیسرے یہ کہ: اگر بالفرض کوئی شخص اس متن کو اس کے ذاتی خصوصیات کے ساتھ اسے انشاء کرتا پھر بھی اس میں کوئی اعتراض نہیں تھا، کیونکہ خطبہ کا انشاء کرنا، قصیدہ ،دعا،مناجات اور ہر وہ دوسرا متن جو صحیح مطالب اور عقائد پر مشتمل ہو تو شرعاً اس میں کوئی مانع نہیں ہے جیسا کہ مختلف روایات میں امام جعفر صادق سے یہ روایت ذکر ہوئی ہے کہ فرمایا:

”انّ افضل الدّعاء ماجری علی لسانک “

”بہترین دعاؤں میں سے وہ دعا ہے جو تمہاری زبان پر جاری ہوئی ہے۔“(۱)

وہ چیز جو قابل اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دعا کو انشا کرے تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے معصوم کی طرف منسوب کرے اور وہ اس کے پڑھنے کا کسی خاص وقت یا جگہ میں مستحب ہونے کا فتویٰ بھی نہیں دے سکتا۔ اور اگر ایک دعا معصوم سے صادر ہوئی ہو تو اس میں تصرف نہیں کر سکتا کہ اس میں کسی چیز کا اضافہ کرے ۔لہذا علماء و محدثین کبار نے دعاؤں اور زیارتوں کی کتابوں میں بہت زیادہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ نسخہ بدل کو تحریر کریں تاکہ خطی نسخوں کے درمیان موجودہ (لفظی) اختلافات ختم نہ ہوں ،اور آئندہ نسلیں مزید تحقیق و تلاش کے ساتھ زیادہ قابل اعتماد متن کو حاصل کر سکیں۔

اس لحاظ سے اگر مفاتیح الجنان کے متعلق دقت و تحقیق کریں ،تو آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کے صفحات میں سے ہر صفحہ میں مختلف نسخہ بدل اس کے اطراف میں تحریر شدہ مل جائیں گے ،تاکہ صحیح متن اور ماثور عبارت ضایع نہ ہو۔

محدث قمی نے زیارت وارثہ کے بعد ایک مفصل بحث کی ہے کہ ایک کتاب میں زیارت وارثہ کے متن میں ایک جملہ کا اضافہ کیا گیا ہے اور اس سے شدید منع کیا ہے

_______________________

۱۔ الامان من اخطار الاسفار، سید علی بن موسیٰ ابن طاووس، ص۱۹۔

۱۲۳

نیز ہوشیار کیا ہے ۔(۱)

محدث نوری نے اس سلسلے میں ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے ،اس میں تمام طبقے کے لوگوں کو بالخصوص صاحبان منبر کو معصوم کے ماثورہ کلمات سے کم و بیش کرنے سے منع کیا ہے(۲)

۵ ۔ کیا دعائے ندبہ عقل کے منافی ہے؟

معترض کہتا ہے : اس دعا کو لوگ ہزاروں جگہ ،مساجد،امام بارگاہوں ،مشاہد مشرفہ ،مقامات مقدسہ اور اپنے اپنے گھروں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر پڑھتے ہیں ،کیا امام زمانہ ان تمام جگہوں پر حاضر و ناظر ہیں؟

پھر مزید کہتا ہے : کتاب کافی میں باب زیارة النبی میں منقول ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

”میں اپنی امت کے سلام کو دور کی مسافت سے نہیں سنتا بلکہ ملائکہ الٰہی اسے مجھ تک پہنچاتے ہیں!“

اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ سب سے پہلے یہ : معترض صاحب! کتاب کافی کی حدیث کو آپ نے تحریف کر دیا ہے الکافی میں دو حدیث اس سلسلے میں موجود ہے کہ ان کے متن کو ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں:

________________________

۱۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی ،ص۵۲۴۔

۲۔ لو لو و مرجان ،حسین بن محمد تقی نوری ۔

۱۲۴

۱ ۔ امام جعفر صادق نے اپنے اصحاب کو خطاب کر کے فرمایا:

”مرّوا بالمدینة فسلّموا علی رسول اللّٰه (صلّی اللّٰه علیه واٰله) من قریب ،و ان کانت الصلاة تبلغه من بعید“

”اپنا راستہ مدینہ کی طرف سے قرار دو اور رسول اکرم کو نزدیک سے سلام کرو، اگر چہ دور سے بھی درود وسلام آنحضرت تک پہنچتا ہے۔“(۱)

۲ ۔ دوسری حدیث میں فرمایا:

”صلّوا الی جانب قبر النّبی (صلّی اللّٰه علیه و آله) و ان کانت صلاة المومنین تبلغه اینما کانوا“

”قبر پیغمبر کے کنارے درود و سلام بھیجو، اگر چہ مومنین جہاں کہیں بھی ہوں ان کا درود و سلام آنحضرت کی خدمت میں پہنچتا ہے۔“(۲)

معترض کے نقل کے برخلاف ،دونوں مبارک حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ دنیا کے جس گوشہ و کنار میں حضرت رسول اکرم پر درود و سلام بھیجا جائے آنحضرت تک پہنچتا ہے،اگر چہ بہتر یہ ہے کہ مومنین رخت سفر باندھیں اور سر زمین

________________________

۱۔ الکافی ، محمد بن یعقوب الکلینی ،ج۴،ص۵۵۲۔

۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی ،ج۴،ص۵۵۲۔

۱۲۵

مدینہ منورہ میں زیارت سے شرف یاب ہوں اور نزدیک سے اظہار عقیدت کریں۔

دوسرے یہ کہ :بہت سی حدیثوں کے مطابق تمام دنیا امام کے مقابل میں ان کی ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح نمایاں ہے اور دنیا کے مشرق و مغرب کی کوئی بھی شئے ایسی نہیں ہے جو امام سے پوشیدہ ہو، جیسا کہ امام جعفر صادق اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

”انّ الدنیا لتمثّل للامام فی مثل فلقة الجوز، فلا یعزب منها شئی ،و انّه لیتنا و لهامن اطرافها کما یتناول احدکم من فوق مائد ته ما یشاء “

”تمام دنیا امام کے مقابل میں ایک اخروٹ کے ٹکڑے کی طرح جلوہ نما ہوتی ہے ،اس کی کوئی شئے امام سے پوشیدہ نہیں،امام اس کے جس گوشہ میں چاہیں تصرف کریں جس طرح تم میں سے کوئی بھی شخص اپنے دسترخوان سے جو چاہتا ہے اٹھالیتا ہے ۔“(۱)

دوسری حدیث میں فرمایا:

”انّه اذا تناهت الامور الی صاحب هذا الامر رفع اللّٰه تبارک و تعالیٰ له کلّ منخفض من الارض ،و خفض له کلّ مرتفع ،حتیٰ تکون الدنیا عنده بمنزلة راحته ، فایّکم لو کانت فی راحته شعرة لم یبصرها “۔

____________________

۱۔ الاختصاص ،محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید) ص۲۱۷۔

۱۲۶

”جب صاحب الامر کی حکومت ہو گی تو اللہ صاحب برکت و برتر زمین کی ہر پست جگہ کو بلند اور ہر بلند جگہ کو پست کر دے گا تاکہ آپ کے سامنے یہ دنیا ایک ہتھیلی کے مانند ہوجائے اور تم میں سے کون ایسا شخص ہے جس کی ہتھیلی پر بال رکھا ہوا ہو اور وہ اسے نہ دیکھ سکے؟!(۱)

مجھے نہیں معلوم کہ ہم امام ،حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے احاطہ علمی کو کس پیرایے میں بیان کریں تاکہ معترض صاحب کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ حضرت بقیة اللہ دنیا کے اطراف و اکناف میں تمام مجالس دعائے ندبہ کا مشاہدہ فرماتے ہےں اور ان کی ”یابن الحسن “ کی صداؤں کو سنتے ہےں اور شرکاء میں سے ہر ایک کے خلوص کی مقدار اوران کے ایک ایک حاضر ہونے والے کی نیت و جذبہ سے آگاہ ہےں اور ان میں سے ہر ایک کے خلوص کی مقدار بھر اپنی معرفت عنایت فرماتے ہےں ۔

مگر معترض صاحب نے آیہ مبارکہ:

( وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ)

”اور پیغمبر کہہ دیجیے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو اللہ، اس کا رسول ، اور صاحبان ایمان دیکھ رہے ہیں۔“(۲)

____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۵۲،ص۳۲۸۔

۲۔ سورہ توبہ (۹) آیت ۱۰۵۔

۱۲۷

نہیں پڑھی ہے اور عرض اعمال کے معتقد نہیں ہیں اور انہیں اتنا علم نہیں ہے کہ بہت سی روایتوں کی بنیاد پر اس آیت میں مومنون سے مراد ائمہ معصوم علیہم السلام ہیں(۱)

مگر اس نے رسول اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے گواہ ہونے سے متعلقہ آیات کو قرآن کریم میںنہیں پڑھا ہے(۲) اور نہیں جانتا کہ گواہوں سے مراد،ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں؟(۳) مگر کیا ایسا ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام جس چیز کو نہ دیکھے ہوں اس کی گواہی دیں؟!

ایک مقام پر رسول اکرم عام مُردوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”حتّی انّه لیسمع قرع نعالهم“

”مردے راستہ چلنے والوں کے جوتے چپل کی آواز تک سنتے ہیں“۔(۴)

لہٰذا وہ کیسے اس بات کو کہنے کی جرات کرتا ہے کہ رسول اکرم دور سے لوگوں کے درود و سلام کو نہیں سنتے!!

کس قدر حماقت کی بات ہے کہ انسان تصور کرے کہ روزانہ دنیا کے گوشہ و کنار میں تمام بسنے والے ایک ارب سے زیادہ مسلمان اپنی واجب اور مستحب نمازوں میں کہیں:

”السّلام علیک ایّها النّبی و رحمة اللّه و برکاته “

____________________

۱۔ الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی،ج۱،ص۲۱۹۔

۲۔ سورہ نساء(۴) آیت ۴۵، سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۳۸، سورہ حج(۲۲) آیت ۷۸۔

۳۔ الکافی ،محمد بن یعوب الکلینی ،ج۱،ص ۱۹۰۔

۴۔ صحیح بخاری ،محمد بن اسماعیل بخاری ج۲،ص ۱۱۳۔

۱۲۸

اور رسول اسلام ان میں سے کسی کے سلام کو نہ سنیں اور تمام مسلمان ان سلاموں کو جو حکم الٰہی کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں ،لغو اور عبث انجام دیے ہوں!

وہ احکام جو دور سے رسول اکرم کی زیارت کے لیے وارد ہوئے ہیں اور دور سے پیغمبر اکرم کا بہت طولانی زیارت نامہ امام صادق سے نقل ہوا ہے(۱) کیا (نعوذ باللہ ) یہ سب لغو اور عبث ہے؟

اس شخص کے لیے کہ جس کی مسافت طولانی ہے اس قدر روایات ائمہ علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں ؟اور جو شخص حضرت سید الشہداء کی زیارت کی شرف یابی کی طاقت نہیں رکھتا ،وہ صحرا میں یا چھت پر جا کر کربلا کی طرف رخ کر کے حضرت کی دور سے زیارت کرے(۲) کیا یہ سب عبث اور بے کار ہے؟

جوافراد ان مسائل میں شک و شبہ رکھتے ہیں اور اہل کینہ و عداوت نہیں ہیں انہیں چاہیے کہ امام شناسی کے درس کا ایک مکمل کورس پڑھیں اور اپنے عقائد کو اپنے امام زمانہ کے متعلق صحیح کریں تا کہ یہ مبارک حدیث ان کے شامل حال نہ ہو:

”من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة“

”جو شخص امام زمانہ کی معرفت کے بغیر دنیا سے چلا جائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔“(۳)

_______________________

۱۔ مصباح الزائر، سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس، ص ۶۶۔

۲۔ کامل الزیارات،ابو القاسم جعفر بن محمد ابن قولویہ ،ص۳۰۱۔

۳۔ کتاب او خواھد آمد میں اس مبارک حدیث کے دسیوں شیعہ و سنی منابع کو ہم نے ذکر کیا ہے ۔ (ص۷۳ ،۹۲ ) ۔

۱۲۹

جو بہت بڑا خسارہ ہے اور ہرگز اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔

تیسرے یہ کہ: دعائے ندبہ کی شرط حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کا مجالس دعائے ندبہ میں حاضر رہنے کی نہیں ہے ،جو شخص یہ کہتا ہے کہ امام عصر کو ان مجالس میں ضرور حاضر رہنا چاہیے ورنہ دعائے ندبہ کا پڑھنا عقل کے خلاف ہے ،وہ ایسا ہی ہے کہ کہے چونکہ کروڑوں مسلمان اپنی نمازوں میں کہتے ہیں ”السّلام علیک ایّھا النبی و رحمة اللّٰہ و برکاتہ “ لہذا پیغمبر اکرم (ص) کو ایک ہی لمحہ میں کروڑوں جگہ حاضر رہنا چاہیے اور یہ غیر ممکن ہے ، لہذا یہ نمازیں بھی غیر معقول ہیں!۔

چوتھے یہ کہ : دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں:

” بنفسی انت من مغیّب لم یخل منّا“

”میری جان قربان! تو ایسا غائب ہے جو کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوا“۔

اس بیان کی بنا پر اور ہمارے ضروری اعتقاد کے مطابق ،ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر حضرت حجت کے زیر نظر اور ان کے لطف و عنایت کے ماتحت ہیں اور ہماری کوئی چیز حضرت کے لیے پوشیدہ نہیں ہے اور ہمیشہ ہر حال میں ہم ان کے احاطہ علمی میں ہوتے ہیں یعنی وہ ہمارے حالات سے باخبر ہیں۔اور اتنی ہی بات دعائے ندبہ کے معقول ہونے اور ”یابن الحسن- “ سے لوگوں کا انہیں خطاب کرنا صحیح ہونے کے لیے کافی ہے۔ اور اگر فرشتے رسول اسلام یا ائمہ نور کی خدمت میں سلام پہنچانے کے لیے معین ہوئے ہیں تو یہ ان کے استقبال اور خدمت کرنے کے آداب و رسوم کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے ہے بالکل جیسے فرشتے بندوں کے اعمال تحریر کرنے کے لیے معین ہوئے ہیں،حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام مخفی اور آشکار اعمال سے باخبر ہے۔

۱۳۰

۶ ۔ کیا دعائے ندبہ بارہ ائمہ کی امامت کے عقیدے سے ناسازگار ہے؟

جن دنوں میں دعائے ندبہ پر اعتراض کرنے کا بازار گرم تھا مولفین میں سے ایک مشہور مولف نے یوں لکھا:

دعائے ندبہ کے متن کے دقیق مطالعہ سے کہ جس میں ہمارے ائمہ کے نام کی ترتیب و ار تصریح نہیں ہوئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت امیر علیہ السلام کے تفصیلی فضائل و مناقب کے فوراًبعد اور بغیر واسطہ کے امام غائب کو خطاب کرتے ہیں،اور یہی سوال بار بار ذہن میں آتا ہے(۱)

مولف مذکور نے ”رضویٰ“ اور ”ذی طویٰ“ جیسے الفاظ کا دعاء ندبہ میں استعمال ہونے سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دعائے ندبہ کیسانیہ عقائد سے نشاة پائی ہے اور دعائے ندبہ کے مخاطب کو مہدی منتظر ارواحنا فداہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو تصور کیا ہے،اس وقت مذکورہ فقرہ کو اپنے دعوی کی دوسری دلیل گمان کیا ہے ۔

ہم نے اس بات کا واضح جواب چوتھے سوال کے ذیل میں تفصیلی طور پر بیان کر دیا ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی ۔

________________________

۱۔انتظار مذہب اعتراض ،علی شریعتی ، ص۱۰۔

۱۳۱

۷ ۔ کیا دعائے ندبہ کا معصوم سے صادر ہونا معقول ہے؟

معترض کہتا ہے :دعائے ندبہ کا ائمہ معصومین علیہم السلام میں سے کسی ایک معصوم سے صادر ہونا ہرگز ممکن نہیں ہے ، کیونکہ سب سے پہلے یہ کہ: حضرت مہدی بھی اس زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے ،وہ امام جو مکمل عقل کی طاقت رکھتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے فرد کو مورد خطاب قرار دے اور اس کے فراق میں آنسو بہائے ؟

دوسرے یہ کہ :اس کی جائے سکونت کے متعلق ”لیت شعری“ ”یعنی اے کاش، مجھے معلوم ہوتا!“ امام معصوم کے مقام و منزلت سے سازگار نہیں ہے ۔

ہم پہلے سوال کے جواب میں کتاب کے پہلے حصے میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں، اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے فقرات منجملہ حضرت امام صادق کے قول کو نقل کیا کہ حضرت کی ولادت سے ایک صدی پہلے انہوں نے حضرت کو مخاطب کر کے فرمایا:

” سیّدی! غیبتک نفت رقادی و ضیّقت علیّ مهادی ،و ابتزّت منّی راحة فوادی “

”اے میرے سید و سردار ! آپ کی غیبت نے میری آنکھوں سے نیند اڑا دی، عرصہ حیات مجھ پر تنگ کر دیا ہے میرے دل کا سکون جاتا رہا ہے “(۱)

اس بیان کی بنا پر اگر مورد نظر شخص ایک معمولی فرد نہ ہو، بلکہ سب سے خوشنما، دل کش اور ہر دل عزیز شخصیت کا مالک ہو، تو مناسب ہے کہ اس کی ولادت سے

____________________

۱۔ کتاب الغیبة ، محمد بن حسن شیخ طوسی ، ص۱۶۷۔

۱۳۲

صدیوں پہلے ہی اس کے لیے عقل مند افراد اور امام معصوم گریہ و زاری کریں۔

اور یہ معنی حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ حضرت کے جدّ بزرگوار سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین کے لیے بھی واقع ہوا ہے اور تمام انبیاء الٰہی حضرت آدم سے حضرت قائم تک ،سب نے حضرت کے مصائب پر حسرت آمیز آنسو بہائے ہیں(۱)

اس بیان کی بنا پر اس شخص کو مخاطب قرار دینا جو ابھی دنیا میں نہیں آیا ہے اس کے فراق میں گریہ وزاری کرنا یا اس کے مصائب پر رونا کسی بھی عقل سلیم کے نزدیک کوئی تضاد نہیں رکھتا، اگر چہ اسے بیمار دل افراد اپنے ذوق کی بنا پر ساز گار نہ پائیں۔

لیکن سوال کے دوسرے حصہ کے متعلق ہم یہ ضرور کہیں گے کہ جملہ ”لیت شعری“ ”اے کاش مجھے معلوم ہوتا !“ بعنوان سوال حقیقی نہیں ہے ،بلکہ ایک ادبی

____________________

۱۔ ہم اس مقام پر گزشتہ انبیاء کے گریہ وزاری کو جنہوں نے حضرت کی ولادت کے دسیوں سال پہلے امام حسین کے مصائب پر اشک بہائے اشارہ کرتے ہیں:

۱۔ حضرت آدم (بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۴۴، ص۲۴۵)۔

۲۔ حضرت نوح (بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۴۴،ص ۲۴۳)۔

۳۔حضرت ابراہیم (معانی الاخبار ،شیخ صدوق ،ص۲۰۱)۔

۴۔حضرت سلیمان ،بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۴۴،ص ۲۴۴۔

۵۔ حضرت خضر ،تفسیر قمی ،ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی ، ج۲، ص۳۸۔

۶۔ حضرت موسیٰ ،امالی شیخ صدوق، شیخ صدوق ،ص۷۹۔

۷۔ حضرت عیسیٰ ،امالی شیخ صدوق ،شیخ صدوق ، ص۵۹۸۔

۱۳۳

ظریف جملہ ہے جو اپنے اندر بہت سے ادبی ظریف نکات کا حامل ہے اور اسی جیسی عبارت اس زیارت نامہ میں بھی نقل ہوئی ہے جیسے سید ابن طاووس اور علامہ مجلسی نے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے لیے نقل کیا ہے جس میں ذکر ہوا ہے:

” لیت شعری این استقرّت بک النّوی “ ”اے کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ تیری قیام گاہ کہاں ہے ؟“(۱)

اس بیان کی بنا پر یہ جملہ صرف دعائے ندبہ سے مخصوص ہے اور سرداب مقدس کے زیارت نامہ میں بھی ذکر ہوا ہے اور اس قسم کا ظاہری سوال مقام عصمت و امامت سے تضاد نہیں رکھتا۔

۸ ۔ کیا دعائے ندبہ کے فقرات قرآن کے مخالف ہیں؟

معترض کہتا ہے : دعائے ندبہ کے بعض فقرات قرآن کے ساتھ نا سازگار ہیں:

۱ ۔ دعائے ندبہ کا یہ جملہ جس میں کہا گیا ہے :

”وسالک لسان صدق فی الآخرین فاجبته و جعلت ذلک علیّاً“

”اور انہوں نے (حضرت ابراہیم علیہ السلام ) نے آخری دور میں صداقت کی زبان کا سوال کیا تو تو نے ان کی دعا قبول کر لی اور اسے

____________________

۱۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسیٰ ابن طاووس ، ص۴۲۳، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲، ص۸۷۔

۱۳۴

”علی “”بلند مرتبہ“ قرار دیا۔“

قرآن اور حضرت ابراہیم پر بہتان ہے ،اس لیے کہ قرآن کریم میں ”لسان صدق“ سے مراد نیک نام ہے نہ کہ حضرت علی علیہ السلام ۔

جواب میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ مطلب قرآن کریم کے دو سورو ں کی دو آیتوں کے ضمن میں بیان ہوا ہے :

۱ ۔ سورہ مبارکہ شعراء میں حضرت ابراہیم کی زبانی نقل ہوا ہے کہ:

( وَاجْعَلْ لِی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ)

”اور میرے لیے آئندہ نسلوں میں سچی زبان قرار دے ۔ “

۲ ۔ سورہ مبارکہ مریم میں حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کے دو افراد اسحاق و یعقوب کے متعلق فرماتا ہے :

( وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا)

”اور پھر انہیں اپنی رحمت کا ایک حصہ بھی عطا کیا اور ان کے لیے صداقت کی بلند ترین زبان بھی قرار دے دیں ۔“(۲)

اس بیان کی بنا پر دعائے ندبہ کا مذکورہ فقرہ جو قرآن کریم کی ان دونوں آیات کے

____________________

۱۔ سورہ شعراء (۲۶) آیت ۸۴۔

۲۔ سورہ مریم ،(۱۹) ،آیت ۵۰۔

۱۳۵

تناظر میں ہے اور ان سے بہت اچھا اقتباس ہے ،نہ صرف یہ کہ بہتان نہیں ہے ،بلکہ ان کا مطلوب و مقصود تھا جو قرآن کی تعبیر میں ”لسان صدق“ کے عنوان سے بیان ہوا،دعا میں بھی وہی تعبیر ذکر ہوئی ہے اور پروردگار کا مستجاب کرنا کہ جو قرآن کی تعبیر میں ”علیا“ کے عنوان سے بیان ہوا دعا میں بھی وہی تعبیر ذکر ہوئی ہے ۔

بہت سی روایات کے پیش نظر جو ائمہ نور علیہم السلام سے ان دونوں آیات کی تفسیر میں ذکر ہوئی ہے کہ آیہ مبارکہ میں لفظ ”علیاً“ سے مراد حضرت علی ہیں۔اب ہم بعض روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ شیخ صدوق طاب ثراہ نے ایک بہت طولانی حدیث کے ضمن میں امام صادق سے روایت کی ہے کہ اس آیہ مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں(۱)

۲ ۔ علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے ،انہوں نے امام حسن عسکری سے روایت کی ہے کہ اس آیہ مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد امیر المومنین ہیں ۔(۲)

۳ ۔ ہاشم ،علی ابن ابراہیم کے جدّبزرگوار کہتے ہیں: میں نے امام حسن عسکری کی خدمت اقدس میںخط لکھا ،اور اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کے متعلق حضرت سے سوال کیا ،انہوں نے خط لیا اور اس کے نیچے تحریر فرمایا:

____________________

۱۔ کمال الدین وتمام النعمة ،شیخ صدوق ،ج۱،ص ۱۳۹۔

۲۔ تفسیر قمی ،ابو الحسن علی بن ابراہیم قمی ،ج۲،ص ۵۱۔

۱۳۶

”خداوند متعال تجھے توفیق عطا فرمائے اور تجھے بخش دے ،اس سے مراد امیر المومنین علی ہیں ۔“(۱)

۴ ۔ یونس بن عبد الرحمن نے امام رضا کی خدمت اقدس میں عرض کیا: ایک گروہ نے مجھ سے سوال کیا کہ امیر المومنین کا مقدس نام قرآن میں کہاں ذکر ہوا ہے؟ میں نے ان سے کہا:آیہ مبارکہ( وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا ) ‘ فرمایا: تم نے سچ کہا یہ مطلب اسی طرح ہے ۔“(۲)

۵ ۔ ابو بصیر، امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیہ مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔(۳)

۶ ۔ مفضّل نے بھی امام صادق سے ایک مفصل حدیث کے ضمن میںروایت کی ہے کہ اس آیہ کریمہ میں ”علیاً“ سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب ہیں(۴)

اس بیان اور بہت سی روایات کی بنا پر کہ ہم نے ان میں سے چند روایات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ آیہ کریمہ( وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا ) میں(۵)

____________________

۱۔ تاویل الآیات الظاہرہ ،سید شرف الدین علی نجفی ،ج۱،ص ۳۰۴۔

۲۔ البرہان فی تفسیر القرآن ،سید ہاشم بحرانی ،ج۳،ص ۷۱۷۔

۳۔ مناقب آل ابی طالب ،ابن شہر آشوب ،ج۳،ص۱۲۹۔

۴۔ معانی الاخبار ،شیخ صدوق ، ص۱۲۹۔

۵۔ سورہ مریم (۱۹) ،آیت ۵۰۔

۱۳۷

”علیاً“ سے مراد امیر المومنین ہیں ،لہذا اگر دعائے ندبہ میں ”لسان صدق“ کو حضرت امیر المومنین کے وجود مقدس سے تفسیر کیا جائے تو یہ بالکل واقع کے مطابق ہے اورکسی قسم کے بہتان اور تہمت کی بات نہیں ہے ۔حالانکہ دعائے ندبہ میں آنحضرت کی تصریح نہیں ہوئی ہے، بلکہ آیہ کریمہ کی طرح ”وجعلتَ ذلک علیّاً“ ذکر ہوا ہے ۔لہذا اگر قرآن میں ”علیّاً“ سے مراد حضرت علی ہیں تو یہاں بھی وہی حضرت مراد ہیں ،اور اگر قرآن میںا س کا لغوی معنی استعمال ہوا ہوتا تو یہاں بھی وہی مراد ہوتا۔

اس حصہ کے آخر میں ہم مزید یہ کہتے ہیں کہ اس آیہ کریمہ میں ”علیّاً “ کی تفسیر حضرت علی ہیں ، یہ صرف شیعوں کی احادیث سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علامہ بحرانی نے عامّہ کے طرف سے بھی روایت نقل کی ہے کہ اس آیہ کریمہ میں ”لسان صدق“ سے مراد حضرت علی ہیں(۱)

قابل توجہ یہ ہے کہ حافظ حسکانی نے بھی ایک حدیث کے ذیل میں اسی معنی کا استفادہ کیا ہے(۲)

۲ ۔ معترض کا دوسرا اعتراض اس جملہ پر ہے :

”و اوطاته مشارقک ومغاربک “

________________________

۱۔ رجوع کریں:اللّوامع النّورانیہ ،سید ہاشم بحرانی ،ص۲۶۹۔

۲۔ شواہد التنزیل ،عبید اللہ بن عبد اللہ حسکانی ،ج۱،ص ۴۶۳۔

۱۳۸

”اور ان کے لیے تمام مشرق و مغرب کو ہموار کر دیا۔ “

وہ کہتا ہے : دعا کا یہ فقرہ بھی قرآن کریم کے ساتھ سازگار نہیں ہے ،اس لیے کہ:

سب سے پہلے یہ کہ : پیغمبر اکرم نے قرآن کریم کی نص کے مطابق مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک سفر کیا نہ کہ دنیا کے مشرق و مغرب میں ۔

دوسرے یہ کہ: زمین میں مشرق و مغرب ایک سے زیادہ نہیں ہیں۔

تیسرے یہ کہ:اگر زمین کے لیے بھی بہت سے مشرق و مغرب متصور ہوں تو لا مکان خدا کے لیے مشرق و مغرب کا کوئی تصور نہیں ہے تاکہ لفظ مشارق و مغارب کو اس سے منسوب کیا جائے ۔

پہلے حصہ کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جو کچھ رسول اکرم کی رات کی سیر سورہ مبارکہ ”اسراء“ میں بیان ہوئی(۱) صرف اس رات کی سیر کا ایک حصہ ہے اور اس کا دوسرا حصہ کہ جسے معراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ضروری اعتقادات میں سے ہے سورہ مبارکہ ”نجم“ میں بیان ہوا ہے۔(۲) اور یہ رات کے وقت کی سیر مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ کے درمیان محدود نہیں ہے ،تاکہ معترض یہ کہے کہ یہ رات کے وقت کی سیر دنیا کے تمام مشرق و مغرب میں نہیں تھی۔

بلکہ یہ سیر نہ صرف یہ کہ نظام شمسی سے آگے ہوئی یہاں تک کہ ساتویں آسمان کی سیر کی(۱) بلکہ ساتویں آسمان سے بھی آگے سِدْرَةُ المنتہیٰ کی منزل تک ختم ہوئی۔(۲)

________________________

۱۔ سورہ اسراء(۱۷) آیت ۱۔

۲۔ سورہ نجم (۵۳) آیت ۹۔ ۱۸۔

۱۳۹

رسول اکرم کی معراج بلا شک وشبہ ، عنصری بدن کے ساتھ بیداری کی حالت میں ہوئی اصطلاحاً جسمانی معراج ہوئی ہے۔(۳) جیسا کہ کتاب کے دوسرے حصہ میں اس کے متعلق گفتگو کر چکے ہیں۔(۴)

جب رسول اکرم نے ایک رات کے سفر میں نظام شمسی سے آگے آسمانوں کی طرف سفر کیا تو ”و اوطاتہ مشارقک و مغاربک “ کی تعبیر واضح طور پر محقق ہوئی ،اس لیے کہ سب سے پہلے یہ کہ : مشارق ومغارب تمام آسمانی کُر ے کا سفر کیا ہے ۔

دوسرے یہ کہ: جس شخص نے مکہ اور بیت المقدس کے درمیان تیس منزل کا ایک رات میں سفر طے کیا ہو، پھر کرہ خاکی کا آسمانی کُرے کے دیدار کے قصد سے سفر طے کیا ہو تو اس پر یہ بات صادق آتی ہے کہ اس نے زمین کے تمام مشارق و مغارب کا سفر طے کیا ہے ۔

تیسرے یہ کہ:اگر کوئی شخص ایک ملک کا سفر کرے اور اس کے بڑے شہروں کا

________________________

۱۔ السیرة النبویّہ،ابو محمد عبد الملک ابن ہشام ،ج۲،ص ۲۵۵۔

۲۔ مجمع البیان ، ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی ،ج۹،ص۲۶۵۔

۳۔ التبیان ،شیخ طوسی ،ج۹،ص۴۲۴،اعتقادات ،محمد باقر مجلسی ،ص۳۴۔

۴۔ معراج اور منحرف لوگوں کے اعتراضات کے جواب کے مسئلہ میں رجوع کریں: ہمہ می خواھند بدانند، ناصر مکارم شیرازی ۔ فروغ ابدیت ،جعفر سبحانی ،ج۱،ص ۳۰۵۔۳۲۰۔

۱۴۰