دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید0%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
زمرہ جات:

صفحے: 228
مشاہدے: 44586
ڈاؤنلوڈ: 3829

تبصرے:

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44586 / ڈاؤنلوڈ: 3829
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

مشاہدہ کرے ،تو اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں ملک کا سفر کیا اور اس کے شہروں کا دیدار کیا ہے ۔

چوتھے یہ کہ: خود رسول اکرم ،ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں:

”زُویتْ لی الارض، فاریتُ مشارقها و مغاربها ،و سیبلغ ملک امّتی ما زُوِی لی منها“ (۱)

”زمین میرے لیے سمیٹی گئی ،پھر اس کے مشارق و مغارب کو مجھے دکھایا گیا اور عنقریب میری امت کی وسعت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک مجھے لے جایا گیا ۔ “

دوسرے حصہ کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ زمین کی کرویّت کے پیش نظر جس جگہ بھی آفتاب چمکتا ہے ”مشرق “ اور بالکل اس کے مقابل میں ”مغرب “ شمار ہوتا ہے نتیجہ میں زمین سکیڑوں مشرق و مغرب کی حامل ہوگی،لہذا قرآن کریم میں لفظ مشرق و مغرب تین :واحد ،تثنیہ ،جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے ۔

۱ ۔( رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ ) (۲)

۲ ۔( رَبُّ الْمَشْرِقَینِ وَ الْمَغْرِبَیْنِ ) (۳)

۳ ۔( فَلَا اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰارِقِ وَ الْمَغٰارِبِ ) (۴)

________________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ،ابن شہر آشوب ،ج۱،ص ۱۵۲۔

۲۔ سورہ مزمل (۷۳) آیت ۹۔

۳۔سورہ رحمن ،(۵۵)،آیت ۱۷۔ ۴۔ سورہ معارج (۷۰) آیت ۴۰۔

۱۴۱

اس بیان کی بنا پر معترض کے اعتراض کا دوسرا حصہ بھی قابل قبول نہیں ہے ۔

تیسرے حصہ کے جواب میں بھی ہم عرض کریں گے کہ مشارق و مغارب کا کاف خطاب کی ضمیر کی طرف اضافہ ہے کہ جس کا مخاطب خداوند منّان ہے لہٰذا کسی کے اعتراض کا محل باقی نہیں رہتا۔ اس لیے کہ مشارق و مغارب بھی تمام موجودات عالم کی طرح پروردگار کا خلق کیا ہوا ہے اور ہر ایک مخلوق کو اس کے خالق و مالک کی طرف اضافہ کیا جا سکتا ہے ،جیسا کہ قرآن کریم میں خداوند منّان لفظ”بیت “ کو اپنی طرف اضافہ کر کے فرماتا ہے:

( و طهّر بیتی للطائفین و القائمین و الرّکّع السجود)

”اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و پاکیزہ بناؤ۔ “(۱)

معترض نے یہ خیال کیا ہے کہ اگر لفظ مشارق و مغارب کو خداوند منّان کی طرف اضافہ کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہے کہ خدا کرہ زمین کے ایک لفظ میں فرض کیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک مشرق و مغرب تصور کیا گیا ہے ،لہذا کہتا ہے کہ لا مکان خدا کے لیے مشرق ومغرب کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتا!

________________________

۱۔ سورہ حج (۲۲) آیت ۲۶۔

۱۴۲

البتہ دشمنی اور ہٹ دھرمی، فہم سلیم اور کسی مسئلہ کو تشخیص دینے کی قدرت کوانسان سے سلب کر لیتی ہے ۔

معترض کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ جملہ :

( و اودعته علم ما کان و مایکون الی انقضاء خلقک)

”اور تمام ماضی اور مستقبل کے علوم کا اسے (یعنی پیغمبر اکرم کو) خزانہ دار بنایا۔ “

آیات قرآنی کے برخلاف ہے !

وہ کہتا ہے :یہ جملہ آیات قرآنی سے ناسازگار ہے ،اس لیے کہ اس جملہ کی بنیاد پر پیغمبر اکرم تمام دنیا کی گزشتہ ظاہری اشیاء سے اور دنیا کے ختم ہونے تک کی چیزوں سے باخبر ہیں، حالانکہ قرآن کریم نے علم قیامت کو خدا سے مخصوص کیا ہے(۱) بعض حوادث کو بھی اپنے مخصوص علوم میں شمار کیاہے ۔(۲) اور امیر المومنین نے اس علم کے مخصوص ہونے کی تاکید کی ہے(۳) اور بعض مقامات پر صریحاً فرمایا ہے کہ پیغمبر اسے نہیں جانتے(۴) اور بعض جگہوں پر صراحت کے ساتھ کہا:

________________________

۱۔ سورہ اعراف (۷) آیت ۱۸۷ ۔

۲۔ سورہ لقمان (۳۱) آیت ۳۴۔

۳۔ نہج البلاغہ ،شریف رضی ،خطبہ ۱۲۸۔

۴۔ سورہ احقاف،(۴۶)آیت ۹۔

۱۴۳

( فلا یظهر علی غیبه احداً)

”اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔“(۱)

اس اعتراض کے جواب میں ہم کہیں گے: تعبیر ”ما کان و ما یکون “(یعنی جو ہوا ہے اور جو ہونے والا ہے)بہت سی حدیثوں میں ذکر ہوئی ہے اور یہ دعائے ندبہ سے مخصوص نہیں ہے ، یہاں تک کہ شیخ کلینی نے کتاب کافی میں اس عنوان سے ایک باب مخصوص کیا ہے اور وہاں بہت سی احادیث کو جمع کیا ہے(۲)

انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے علم کے بارے میں بہت سے مسائل بیان ہوئے ہیں جو ان صفحات میں قلم بند نہیں کیے جا سکتے ہیں،ہم صرف اس کتاب کو اس اعتراض کے جواب سے خالی نہ ہونے کے لیے علامہ طباطبائی کی با برکت تحریر سے ایک فقرہ یہاں نقل کرتے ہیں آپ کہتے ہیں:

”امام عالم ہستی کے حقائق جن حالات کے تحت موجود ہوں ،اللہ تعالیٰ کی اجازت سے واقف ہیں ۔خواہ وہ حقائق محسوسات میں سے ہوں یا محسوسات کے دائرہ سے خارج ہوں ،جیسے آسمانی موجودات اور ماضی و مستقبل کے حادثات ۔

علم امام کو نقلی طور سے ثابت کرنے کے لیے ایسی متواتر روایات ہیں جو

________________________

۱۔ سورہ جن (۷۲) آیت ۲۶۔

۲۔ الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ج۱،ص ۲۶۰۔

۱۴۴

شیعہ معتبر کتابوں میں جیسے : الکافی ،الوافی ،بصائرالدرجات ،کتب شیخ صدوق اور بحار الانواروغیرہ میں محفوظ ہیں۔

ان روایات کی بنا پر جن کی کوئی حد بندی نہیں ہے امام ،الٰہی وہبی راستے سے نہ اکتسابی طریقے سے تمام شئے سے آگاہ اور باخبر ہیں اور جو بھی چاہیں اذن ِخدا سے ایک ادنی توجہ سے جان لیتے ہیں۔

لیکن قرآن کریم میں ہمارے پاس ایسی آیات بھی ہیں جو علم غیب کو خداوند متعال کی ذات سے مخصوص اور حضرت احدیت ہی میں منحصر قرار دیتی ہیں،لیکن اس آیہ کریمہ :( عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْهِرُ عَلَی غَیْبِهِ احَدًا إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ ) (۱) ” وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے مگر جس رسول کو پسند کرلے“۔ میں ایک استثناء موجود ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہونے کا معنی یہ ہے کہ غیب کو بالذات اور مستقل طور پر سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا، لیکن ممکن ہے کہ منتخب انبیاء خدائی تعلیم سے جان لیں اور ممکن ہے کہ دوسرے برگزید ہ افراد بھی پیغمبر کی تعلیم کی بنا پر اس سے واقف ہو جائیں ،جیسا کہ بہت سی ان روایات میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اور ہر ایک امام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں

____________________

۱۔ سورہ جن(۷۲) آیت ۲۷۔

۱۴۵

علم امامت کو اپنے بعد والے امام کے سپرد کرتے ہےں ۔(۱)

اور عقلی لحاظ سے بھی ایسے ادلّہ و براہین موجود ہیں کہ ان کے باعث امام اپنی نورانیت کے مقام کے لحاظ سے نیز اپنے زمانے کے کامل ترین انسان ہونے ،اسماء و صفات الٰہی کا مکمل مظہر اور موجودہ طور پر دنیا کی تمام شئے اور ہر ذاتی واقعہ سے باخبر ہیں۔اور اپنے عنصری وجود کے لحاظ سے جس طرف بھی توجہ کریں ان کے لیے حقائق روشن ہو جاتے ہیں۔“(۲)

ائمہ نور علیہم السلام سے سیکڑوں حدیث جو علم امام کے بارے میں وارد ہوئی ہےں ہم ان میں سے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

”ایک دن عمر بن فرج رخجی نے ،دجلہ کے کنارے امام جواد کی خدمت میں عرض کیا: آپ کے شیعہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ آب دجلہ کی مقداراور اس کے وزن کو جانتے ہیں۔امام نے فرمایا:”کیا خدا وند متعال اس بات پر قادر ہے کہ اس کا علم ایک مچھر کو سکھائے ؟“

عمر نے کہا:ہاں اللہ تعالیٰ قادر ہے ۔

تو فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک مچھر سے اور بہت سی مخلوقات خدا سے زیادہ عزیز و محبوب ہوں۔“(۳)

____________________

۱۔ الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ص۲۷۴۔

۲۔ بحث کوتاہی دربارہ علم امام ،سید محمد حسین طباطبائی ،ص۶۔۷۔

۳۔ الامام الجواد من المھدالی اللّحد،ص۲۸۳۔

۱۴۶

حضرت علی نے بھی اس لیے کہ سبھی علم امام کو درک کر سکیں فرمایا:

”یا اخا کلب! لیس هو بعلم غیب ،و انّما هو تعلّم من ذی علم “

”اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے ،بلکہ وہ صاحب علم سے تعلیم حاصل کرنا ہے ۔“(۱)

جس طرح کہ ان دونوں بیان میں جو دو امام معصوم سے تعبیر کیا گیا اللہ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی علم ہے جو اس کی عین ذات اور قدیم ہے ،اور انبیاء و ائمہ علیہم السلام اور فرشتوں کا علم ،ایسا علم ہے جو الہام کے ذریعے یا اور بھی دوسرے ذرائع سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا ہوا ہے ،یہ علم ان کا عین ذات نہیں بلکہ حادث ہے ۔

اس بیان کی بنا پر رسول اکرم اور ائمہ ہدی ایک وہبی علم کے ذریعہ جو کچھ دنیا میں واقعات رونما ہوتے ہیں اور جو کچھ ماضی میں پہلے ہو چکے ہیں نیز جو کچھ آئندہ ظاہر ہو ں گے اللہ کے اذن سے آگاہ ہیں۔

پروردگار کے خصوصی علوم کے متعلق جو سورہ لقمان میں ذکر ہوا ہے ،سوائے قیامت کے علم کے کہ جس کے لیے مستقل بحث کی ضرورت ہے ،ان بہت سے موارد کے پیش نظر کہ جس کی خبر ائمہ معصومین علیہم السلام نے دی ہے(۲) معلوم ہوتا ہے کہ

_____________________

۱۔ نہج البلاغہ ،شریف رضی ،خطبہ ۱۲۸۔

۲۔ نوسو مقامات سے زائد غیب کے متعلق ایسی حدیثیں موجود ہیں جو ”الاحادیث الغیبة“ نامی کتاب کی تین جلدوں میں جمع کی گئیں ہیں ۔

۱۴۷

ان کا علم بھی اللہ نے ذاتی طور پر اپنی ذات سے مخصوص قرار دیا ہے لیکن عرضی طور پر اپنی اجازت سے ائمہ اطہار علیہم السلام کے اختیار میں بھی قرار دیا ہے اور حضرت امیر المومنین کی اس کے مخصوص ہونے کی تاکید اسی پہلے معنی (ذاتی علم) کے تناظر میں ہے نہ کہ دوسرے معنی (وہبی علم) کے لیے ۔

لیکن اس قسم کی آیات جو رسول اکرم کی ذات سے غیب کی نفی کرتی ہیں جیسے آیہ :

( وَمِنْ اهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمُهُمْ)

”اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ۔ “(۱)

ان مقامات پر بھی علم کی نفی کرنا مقصود نہیں ہے ،بلکہ علم ذاتی کا نفی کرنا مراد ہے، یعنی قبل اس کے کہ اللہ اس کی تمہیں خبر دے دل کی گہرائیوں سے اس سے مطلع نہیں تھے ،یا (اس آیت کا) مقصد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان کے نفاق کی گہرائیوں سے باخبر ہے تمہیں اس حد تک آگاہی نہیں ہے ۔یا ان کے نفاق کی گہرائی و گیرائی اور وسعت مراد ہے کہ جسے اس طرح بیان کیا ہے ۔

لیکن وہ آیات کہ جن میں ”و ما ادریٰک“ (آپ کو کیا معلوم) کی تعبیر ذکر ہوئی ہے ،وہ سب ان موارد میں سے ہے ۔ کہ رسول اکرم ان کا علم رکھتے تھے ،خداوند

_______________________

۱۔ سورہ توبہ (۹) آیت ۱۰۱۔

۱۴۸

منّان نے عظمت و منزلت بیان کرنے کے لیے مذکورہ مقامات میں ”و ما ادریٰک“ کی تعبیر استعما ل کی ہے ، شیخ طوسی اور شیخ طبرسی نے سفیان سے نقل کیا ہے کہ جس مقام پر مخاطب موضوع سے باخبر ہو وہاں اس کی شان و شوکت کو بیان کرنے کے لیے ”و ما ادریٰک “ استعمال کرتے ہیں،اس لیے کہ مخاطب صرف اس کی صفت کو جانتا ہے اور کسی بات کا سننااس کے دیکھنے کے مانند کہاں ہوتا ہے(۱)

لیکن آیہ مبارکہ( عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احداً ) اس کے بعد ذیل میں مزید یوں ذکر ہوا ہے :

( الّا من ارتضیٰ من رسول ) (۲)

لہذا آیہ مبارکہ کے معنی یوں ہوں گے :

”وہ غیب کے راز کا علم رکھتا ہے کسی شخص کو اپنے راز سے آگاہ نہیں کرتا، صرف اس پیغمبر کے کہ جسے منتخب کیا ہو“۔

اس بیان کی بنا پر ، یہ آیت نہ صرف یہ کہ علم غیب کو پیغمبروں سے نفی نہیں کرتی ،بلکہ اسے منتخب پیغمبروں کے لیے ثابت کرتی ہے ۔

____________________

۱۔ التبیان ،شیخ طوسی ،ج۱۰۔ص۹۴۔ مجمع البیان شیخ طبرسی ،ج۱۰،ص۵۱۶۔

۲۔ سورہ جن (۷۲) آیت ۲۶۔

۱۴۹

اس بات کی دلیل دوسری آیت ہے کہ جہاں فرماتا ہے :

(و ما کان اللّه لیطلعکم علی الغیب ،و لکن ) منتخب کر لیتا ہے “(۱)

لهٰذا دعائے ندبه کا مذکوره فقره ،مکمل طور پر آیات قرآن سے سازگار اور موافق ہے

( اللّه یجتبی من رسله من یشاء)

”اور اللہ تعالیٰ تم کو غیب سے مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے

۴ ۔ معترض نے چوتھے جملہ پر اعتراض کا جو دعوی کیاہے کہ وہ قرآن کریم سے سازگار نہیں ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

”ثم جعلت اجر محمدٍ صلواتک علیہ و آلہ مودّتھم فی کتابک“

( قُلْ لاَاسْالُکُمْ عَلَیْهِ اجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی)

پھر تو نے مرکز رحمت محمد و آل محمد علیہم السلام کا اجر اپنی کتاب میں ان کی مودّت کو قرار دے کر اعلان کردیا اے پیغمبر! کہہ دو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔“(۲)

_______________________

۱۔ سورہ آل عمران (۳) آیت۱۷۹۔

۲۔ سورہ شوریٰ (۴۲) آیت ۲۳۔

۱۵۰

معترض کہتا ہے : دعائے ندبہ کا یہ فقرہ قرآن کے منافی ہے ،چونکہ:

سب سے پہلے یہ کہ :یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور اس وقت ابھی امام حسن اور امام حسین پیدا نہیں ہوئے تھے نیز اصولی طور پر اہل بیت اور آیہ تطھیر درکار نہیں تھی۔

دوسرے یہ کہ:خود مشرکین پیغمبر کو تسلیم نہیں کرتے تھے تاکہ پیغمبر ان سے اپنی خاندان والوں کی محبت کا مطالبہ کرتے۔

تیسرے یہ کہ: دوسری آیت میں فرمایا: ”میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا “(۱) لہٰذایہ آیت منسوخ ہو جائے گی ورنہ تناقض و تضاد لازم آئے گا۔

چوتھے یہ کہ:” قربیٰ “کا معنی پیغمبر کے رشتہ دار نہیں ہیں،بلکہ مندرجہ ذیل تین معانی میں سے کوئی ایک ہے :

۱ ۔ مطلقاً تمام رشتہ داریاں ،یعنی صلہ ارحام مراد ہے۔

۲ ۔ پیغمبر کی قریش کے ساتھ رشتہ داری ،یعنی اگر ایمان بھی نہیں لاتے پھر بھی تو میری رشتہ داری کے حقوق کی رعایت کرو۔

۳ ۔ پروردگار سے نزدیکی ،یعنی میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔

پہلے حصہ کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ معترض صاحب! آپ نے تفسیروں کی طرف رجوع کرنے سے پہلے اپنی بات کہی ہے ،ورنہ مفسرین نے تصریح

____________________

۱۔ سورہ ص(۳۸) آیت ۸۶۔

۱۵۱

کی ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر علامہ طبرسی جو صف اول کے مفسرین میں سے ہیں انہوں نے سورہ شوریٰ کی ابتدا میں تحریر کیا ہے :

سورہ شوری مکہ میں نازل ہوئی سوائے چار آیتوں کے جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں منجملہ ان میں سے یہ آیہ مبارکہ:( قل لا اسئلکم علیه اجراً الّا المودة فی القربیٰ ) ہے(۱)

انہوں نے اس بات کو ابن عباس اور قتادہ سے نقل کیا ہے(۲)

اگر شیعہ مفسرین کو نظر انداز کریں تو اہل سنت کے بہت سے مفسرین نے بھی تصریح کی ہے کہ یہ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں منجملہ ان میں سے یہ ہیں:

۱ ۔ علامہ زمخشری (متوفیٰ ۵۲۸ ھئق) سورہ شوری کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں ”یہ سورہ مکی ہے سوائے ان آیات ۲۳ سے ۲۷ تک جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔“(۳)

۲ ۔علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ ھئق)سورہ شوریٰ کے آغاز میں ابن عباس اور قتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ سورہ شوریٰ مکہ میں نازل ہوئی ،سوائے چار آیتوں کے، کہ جس سے مراد( قل لا اسئلکم علیه اجراً الّا المودّة فی القربیٰ ) سے لے کر آخر تک کی آیات ہیں(۴)

_______________________

۱۔ سورہ شوریٰ(۴۲) آیت ۲۳۔ ۲۔ مجمع البیان ،شیخ طبرسی ،ج۹،ص۳۱۔

۳۔الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل ،محمود بن عمر زمخشری ،ج۴،ص ۲۰۸۔

۴۔ الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمد قرطبی ،ج۱۶،ص۱۔

۱۵۲

۳ ۔مصر کے عظیم مفسر ”شیخ احمد مصطفی المراغی (متوفی ۱۳۷۱ ھئق) سورہ شوری کے آغاز میں رقم طراز ہیں:

”یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ،سوائے ان آیات ۲۳ سے ۲۷ تک جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔“(۱)

۴ ۔ ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری (متوفی ۴۶۸ ھئق) اس آیت کی شان نزول میں تحریر کرتے ہیں:

”جس وقت رسول اکرم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انصار کا ایک گروہ آپس میں جمع ہوا اور کہا:اللہ تعالیٰ نے اس پیغمبر کے ذریعہ ہماری ہدایت فرمائی، اور ان کا ہاتھ مالِ دنیا سے خالی ہے ،مناسب یہ ہے کہ اپنے مال و دولت کا ایک حصہ جمع کر کے ان کے اختیار میں دے دیں تاکہ مشکلات پیش آنے کے وقت ان کا ہاتھ کھلا رہے ۔

جب وہ لوگ آنحضرت کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے یہ پیش کش آنحضرت کے سامنے رکھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔“(۲)

۵ ۔ امام فخر رازی (متوفی ۶۰۶ ھئق) نے اس بات کو ابن عباس سے نقل کیا اور مزید تحریر کیا :

_______________________

۱۔ تفسیر المراغی ،احمد مصطفی المراغی ،ج۹،ص۱۳۔

۲۔ اسباب النزول ،ابو الحسن علی بن احمد نیشاپوری (واحدی) ،ص۲۵۱۔

۱۵۳

” لہٰذا اپنے مال و دولت کی کچھ مقدار کو جمع کیا اور آنحضرت کی خدمت میں لائے، رسول اکرم نے ان کے اس مال و دولت کو انہیں واپس کر دیا پھر آیہ( قل لا اسئلکم علیه اجراً ) نازل ہوئی ۔“(۱)

اس بیان کی بنا پر اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور معترض کے اعتراض کا پہلا حصہ ختم ہو جائے گا۔

اس کے اعتراض کا دوسرا حصہ بھی بنیادی طور پر جڑ سے ختم ہو جائے گا،اس لیے کہ اس آیت میں انصار کو خطاب کیا گیا ہے نہ کہ مشرکوں کو۔

لیکن معترض کے تیسرے حصےکے جواب میں ہم کہیں گے کہ قرآن کریم کے چھ سوروں میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی تبلیغ رسالت کے مقابل میں لوگوں سے اجر نہیں چاہتے اور وہ آیات یہ ہیں:

۱ ۔( قُلْ لاَاسْالُکُمْ عَلَیْهِ اجْرًا إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ ) (۲)

۲ ۔( قُلْ مَا اسْالُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اجْرٍ إِلاَّ مَنْ شَاءَ انْ یَتَّخِذَ إِلَی رَبِّهِ سَبِیلًا ) (۲)

_______________________

۱۔ التفسیر الکبیر ،فخر رازی ،ج۲۷، ص۱۶۴۔

۲۔ سورہ انعام (۶) آیت ۹۰۔

۳۔ سورہ فرقان (۲۵) آیت ۵۷۔

۱۵۴

۳ ۔( قل ما سالتکم من اجر فهو لکم ان اجری الّا علی الله ) (۱)

۴ ۔( قُلْ مَا اسْالُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اجْرٍ وَمَا انَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ ) (۲)

۵ ۔( امْ تَسْالُهُمْ اجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ ) (۳)

۶ ۔( امْ تَسْالُهُمْ اجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ ) (۴)

ان چھ آیتوں کے مقابل میں قرآن کریم کے چھ سورے جو صراحت رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم تبلیغ رسالت کے بدلے لوگوں سے اجر و مزدوری نہیں طلب کرتے، سورہ مبارکہ شوری میں ذکر ہوا ہے :

( قل لا اسئلکم علیه اجرا الّا المودّة فی القربی ) (۵)

________________________

۱۔ سورہ سبا(۳۴) آیت۴۔

۲۔ سورہ ص(۳۸) آیت ۸۶۔

۳۔ سورہ طور(۵۲) آیت ۴۰۔

۴۔ سورہ قلم (۶۸) آیت ۴۶۔

۵۔ سورہ شوری (۴۲) آیت ۲۳۔

۱۵۵

معترض کہتا ہے :قرآن اللہ کا کلام ہے اس کی آیات کے درمیان تناقض و تضاد نہیں پایا جانا چاہیے، لہذا یہ آیت گزشتہ آیات کے ذریعہ منسوخ ہوئی ہے ۔

جواب میں ہم یہ عرض کریں گے: جیسا کہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا کہ شیعہ مفسرین کے علاوہ عظیم سنی مفسرین نے بھی جیسے فخر رازی ،زمخشری ،قرطبی اور مراغی نے تصریح کی ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ چھ سوروں کے لیے تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئے ہیں،لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ مدنی آیات مکی آیات کے ذریعے منسوخ ہو؟!

علامہ قرطبی نے نسخ کے قول کو ضحّاک سے نقل کیا ہے ،پھر فرمایا ہے:

”ثعلبی نے کہا ہے :یہ بات بے بنیاد ہے ،کتنی بری بات ہے کہ کوئی یہ کہے :اللہ تعالیٰ سے اس کے پیغمبر اور اہل بیت پیغمبر کی اطاعت و مودت کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے؟! حالانکہ پیغمبر اکرم نے فرمایاہے: ”من مات علی حبّ آل محمد مات شهید(۱) جو شخص محبت آل محمد علیہم السلام پر مر جائے وہ شہید مرا ہے “۔

لیکن تناقض و تضاد کا مسئلہ ،تمام لوگوں کے لیے روشن ہے کہ اس آیت اور گزشتہ آیات میں کسی قسم کا کوئی تناقض و تضاد نہیں پایا جاتا ، اس لیے کہ اگر اس آیت میں مال دنیا سے کوئی چیز حکومت و سلطنت یا اسی طرح کی کوئی دوسری شئے طلب کی ہوتی تو اجر شمار کیا جاتا اور پہلی آیات کے ساتھ تضاد پیدا ہوتا۔ لیکن جو کچھ اس آیہ کریمہ میں طلب کیا ہے وہ خاندان پیغمبر کی محبت ہے جو

____________________

۱۔ الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمد قرطبی ،ج۱۶،ص۲۲۔

۱۵۶

اجر شمار نہیں ہوتی پھر یہ بھی ہے کہ قرآنی نص کے مطابق اس میں لوگوں ہی کا فائدہ ہے(۱)

طباطبائی نے اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی ہے ،لہذا ہم محترم قارئین کو تفسیر المیزان کے مطالعہ کی تاکید کرتے ہیں(۲)

لیکن معترض نے ”قربیٰ“ کے جو مختلف معانی بیان کیے ہیں انہیں بھی علامہ طباطبائی نے تفصیل سے درج کیا ہے ،قارئین کرام وہاں رجوع فرمائیں(۳)

نتیجے کے طور پر ”مودت قربی“ کا صحیح اور معقول معنی خاندان عصمت و طہارت سے صرف اظہار عقیدت و محبت ہے ۔

اس سلسلے میں اگر ہم ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقولہ احادیث اور مفسرین کے اقوال نقل کریں تو اس مثنوی کے لیے بھی ستّر مَن کاغذ درکار ہوں گے ،لہذا صرف اہل سنت کی تفسیروں میں بعض موجودہ احادیث کو جو مولف کے اپنے ذاتی مخصوص کتاب خانہ میں موجود ہیں اسے نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱ ۔ طبرانی (متوفی ۳۶۰ ھئق) اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ابن عباس

____________________

۱۔ سورہ سبا(۳۴) آیت ۴۷۔

۲۔ رجوع کریں ،المیزان فی تفسیر القرآن ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۶۔

۳۔ رجوع کریں ،المیزان فی تفسیر القرآن ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۶۔

۱۵۷

سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

جب آیہ مبارکہ( قل لا اسئلکم علیه اجرا الّا المودّة فی القربیٰ ) نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا:

”یا رسول اللہ ! آپ کے وہ قرابت دار کون لوگ ہیں کہ جن کی مودت ومحبت ہمارے لیے واجب قرار دی گئی ہے؟ فرمایا: ”علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند ہیں“(۱)

۲ ۔ ابن مغازلی (متوفی ۴۸۳ ھئق) اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

”مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں کہ جن کی مودت ومحبت ہمارے لیے واجب قرار دی ہے؟ فرمایا: ”علی فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند ہیں“(۲)

۳ ۔ حسکانی (جو پانچویں صدی ہجری کے بزرگوں میں سے ہیں) نے مذکورہ حدیث کو سات طریقوں سے اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ابن عباس سے انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے(۳)

۴ ۔ زمخشری (متوفی ۵۲۸ ھئق) نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت

_______________________

۱۔ المعجم الکبیر ،ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،ج۱۱،ص ۳۵۱۔

۲۔ مناقب علی بن ابی طالب ،ابو الحسن علی بن محمد ابن مغازی ،ص۳۰۹۔

۳۔ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل ،عبید اللہ بن عبد اللہ حسکانی ،ج۲،ص ۱۸۹،۱۹۶۔

۱۵۸

نازل ہوئی تو عرض کیا: یا رسول اللہ !آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں کہ جن کی مودت ومحبت ہمارے لیے واجب قرار دی گئی ہے؟ فرمایا: ”علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند ہیں“(۱)

۵ ۔ اخطب خوارزم (متوفی ۵۶۸ ھئق) نے مذکورہ حدیث کو ابن عباس کے طریقہ سے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے(۲)

۶ ۔ امام فخر رازی (متوفی ۶۰۶ ھئق) نے مذکورہ احادیث کو تفسیر الکشّاف سے نقل کیا ہے ،پھر قرآنی آیات اور رسول اکرم کی روایات سے خاندان عصمت و طہارت کی محبت و مودت پر استنادو استدلال پیش کیا ہے(۳)

۷ ۔ گنجی شافعی (متوفی ۶۵۸ ھئق) نے مذکورہ حدیث کو اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے(۴)

۸ ۔ قرطبی (متوفی ۶۷۱ ھئق) نے بھی اس حدیث کو سعید ابن جبیر کے طریقہ سے ابن عباس سے ،انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے۔(۵)

_____________________

۱۔ الکشّاف عن حقائق غوامض التنزیل ،محمود بن عمر الزمخشری ،ج۴،ص ۲۲۰۔

۲۔ مقتل الحسین ،موفق بن احمد الخوارزمی ،ج۱،ص ۵۷۔

۳۔ التفسیر الکبیر ،فخر رازی ،ج۲۷،ص۱۶۶۔

۴۔ کفایة الطالب ،محمد بن یوسف گنجی ،شافعی ،ص۹۱۔

۵۔ الجامع لاحکام القرآن ،محمد بن احمد القرطبی ،ج۱۶،ص۲۲۔

۱۵۹

۹ ۔ محب الدین طبری (متوفی ۶۹۴ ھئق) نے بھی مذکورہ حدیث کو احمد ابن حنبل کے طریقہ سے ،ابن عباس سے ،انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے(۱)

۱۰ ۔ نظام الدین نیشاپوری (متوفی ۷۲۸ ھئق) نے بھی اپنی تفسیر میں جوتفسیر طبری کے حاشیہ کے ساتھ طبع ہوئی ،مذکورہ حدیث کو سعید ابن جبیر کے طریقہ سے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے(۲)

۱۱ ۔ ہیثمی (متوفی ۸۰۷ ھئق) نے اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ مذکورہ حدیث کو پیغمبر عظیم الشان سے روایت کی ہے(۳)

۱۲ ۔ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ ھئق) نے بھی اس حدیث کو مختلف طرق کے ساتھ ابن عباس سے انہوں نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ہے۔(۴)

۱۳ ۔ ابن حجر (متوفی ۹۷۴ ھئق) نے بھی مختلف طرق سے مذکورہ حدیث کو ابن عباس سے، انہوں نے رسول اکرم سے روایت کی ہے۔(۵)

____________________

۱۔ غرائب القرآن ورغائب الفرقان ،در حاشیہ تفسیر طبری ،نظام الدین حسن بن محمد نیشاپوری ،ج۱۱،ص۳۵۔

۲۔ مجمع الزوائد ،نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی ،ج۷،ص۱۰۳، ج۹،ص۱۶۸۔

۳۔ الدّر المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۷۔

۴۔ الصواعق المحرقہ ،احمد بن حجر الہیتمی ، ص۱۷۰۔

۵۔ ذخائر العقبیٰ ،محب الدین طبری ،ص۲۵۔

۱۶۰