دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید0%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
زمرہ جات:

صفحے: 228
مشاہدے: 44589
ڈاؤنلوڈ: 3829

تبصرے:

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44589 / ڈاؤنلوڈ: 3829
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

۱۴ ۔ ابو نعیم اصفہانی (متوفی ۴۳۰ ھئق) جابر ابن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ:

”ایک اعرابی پیغمبر اکرم کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور عرض کیا:” یا محمد! مجھے اسلام بتائیں“ فرمایا: گواہی دیتے ہو کہ سوائے خدائے وحدہ لاشریک کے کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں“ اس نے دریافت کیا:”تبلیغ رسالت کے مقابل میں آپ مجھ سے کون سا اجر چاہتے ہیں؟“ فرمایا: ”کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ قرابت داروں سے مودت و محبت کرو“ اس اعرابی نے سوال کیا:” اپنے قرابت داروں سے ،یاآپ کے قرابت داروں سے ؟“ فرمایا: میرے قرابت داروںسے “۔

اعرابی نے کہا:” اپنا ہاتھ مجھے دیجیے میں بیعت کروں گا ،جو شخص آپ کو اور آپ کے قرابت داروں کو دوست نہ رکھے اس پر خدا کی لعنت ہو“(۱)

۱۵ ۔ سیوطی(متوفی ۹۱۱ ھئق) نے بھی مجاہد کے طریقے سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:

”لا اسئلکم علیه اجراً الّا المودّة فی القربی؛ان تحفظونی فی اهل بیتی و تودّوهم بی

_______________________

۱۔ حلیة الاولیاء ،ابو نعیم اصفہانی،ج۳،ص ا۲۰۔

۱۶۱

”یعنی یہ کہ سوائے اپنے قرابت داروں کی مودت و محبت کے تبلیغ رسالت کے بدلے تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور وہ یہ ہے کہ میرے اہل بیت کا احترام کر کے میرے احترام کو محفوظ رکھو اور ان سے میری وجہ سے دوستی و محبت رکھو“(۱)

۱۶ ۔ حاکم نیشاپوری (متوفی ۴۰۵ ھئق) نے اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی کی شہادت کے دن ایک مفصل خطبہ کے ذیل میں فرمایا:

”میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مودت و محبت کو تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے پیغمبر سے فرمایا:( قل لا اسئلکم علیه اجرا الّا المودّة فی القربیٰ ) (۲)

۱۷ ۔ محمد بن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ ھئق) اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ:

”جب امام زین العابدین کو اسیر کر کے شام میں داخل کیا گیا تو ان کو ایک چبوترہ پر روکا گیا ایک ضعیف العمر آپ کے پاس آیا اور کہا:”خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تمہارے مردوں کو ہلاک کیا اور فتنے کو جڑسے اکھاڑ

_______________________

۱۔ الدر المنثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۷۔

۲۔ المستدرک علی الصحیحین فی الحدیث ،ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ حاکم نیشاپوری ،ج۳،ص ۱۷۲۔

۱۶۲

پھینکا گیا“ امام سجاد نے دریافت فرمایا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟کہا : ہاں! ”کیا ”آل حامیم“ پڑھا ہے ؟“ کہا نہیں ،پھر دریافت فرمایا: کیا اس آیت کی تلاوت کی ہے( قل لا اسئلکم علیه اجرا الّا المودّة فی القربی ) ؟ کہا : ”کیا آپ وہی لوگ ہیں؟“ فرمایا: ”ہاں“۔(۱)

۱۸ ۔ احمد حنبل (متوفی ۲۴۱ ھئق) مفسرین کے اقوال کو شمار کرتے وقت سعید بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”قربیٰ آل محمد“

(مودت سے مراد) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ ) کے قرابت دار ہیں(۲)

۱۹ ۔بخاری (متوفی ۲۵۶ ھئق) طبری ،قرطبی اور سیوطی نے بھی عین اسی عبارت کو سعید ابن جبیر سے نقل کیا ہے(۳)

پھر فخر رازی نے اس کے اثبات کے لیے ایک لطیف تحقیق پیش کی ہے(۴)

اس بیان کی بنا پر دوست اور دشمن کے لیے یہ بات روشن ہو جائے گی کہ قرابت

_______________________

۱۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن ،ابو جعفر محمد بن جریرطبری ،جزء ۲۵، ص۱۶۔

۲۔ المسند ، احمد ابن حنبل ، ج۱،ص ۲۸۶۔

۳۔ الصحیح ،اسماعیل ابن ابراہیم البخاری ،ج۶،ص۱۶۲،ابو جعفر محمد بن حریر طبری گزشتہ حوالہ ،ج۱۱،ص۱۷، تفسیر محمد ابن احمد قرطبی ،ج۱۶، ص۲۱، در منثور ،جلال الدین سیوطی ،ج۶،ص۵۔

۴۔ تفسیر کبیر ،فخر رازی ،ج۲۷،ص۱۶۶۔

۱۶۳

داروں کی مودت ومحبت سے مراد خاندان پیغمبر کی مودت و محبت ہے اور گزشتہ مصادر صرف اہل سنت کی تفسیروں کا ایک گوشہ تھا جو مولف کے ذاتی مخصوص کتاب خانہ میں موجود ہے ۔ اور اگر کوئی شخص اس سلسلے میں تحقیق کرے تو اسے اس کے دسیوں برابر مطالب دست یاب ہو جائیں گے۔

لیکن دوسرے معانی جو معترض نے بعض منحرف افکار کی پیروی کرتے ہوئے ذکر کیے ہیں وہ آیہ کریمہ کے مقصد اور ذوق سلیم سے دور ہےں ،جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفصیلی تحقیق پیش کی ہے(۱)

نتیجے کے طور پر دعائے ندبہ کا یہ فقرہ بھی قرآن کے منافی و متضاد نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر آیات قرآن، مفسرین کے اقوال ،مفسرین کی روایات اور شریعت مقدسہ کے دوسرے معیاروں کے عین مطابق ہے ۔

۹ ۔ کیا دعائے ندبہ کے مضامین شرک آمیز ہیں؟

معترض کہتا ہے :خداوند متعال نے قرآن کریم کی سکیڑوں آیات میں فرمایا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کونہ پکارو ،اور غیر خدا کو پکارنا کفر و شرک ہے ۔ہمارے پاس اس کا کوئی منبع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم یا ائمہ معصومین علیہم السلام سے کسی امام نے یہ فرمایا ہو کہ اپنی حاجتوں کو ہم سے طلب کرو۔لہٰذا دعائے ندبہ جو کہتی ہے :امام زمانہ کو

________________________

۱۔ المیزان ،سید محمد حسین طباطبائی ،ج۱۸، ص۴۳۔

۱۶۴

پکارو اورفریاد کرو ،یہ کفر و شرک ہے ۔

ہم جواب میں عرض کریں گے کہ سب سے پہلے یہ کہ:

اولیائے خدا سے توسل اختیار کرنا قرآن و سنت کی نظر میں کوئی اشکال نہیں رکھتا بلکہ قرآن کریم نے بہت سے سوروں میں اس کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نمونہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

( یا ایها الذین آمنوا اتقواللّه و ابتغوا الیه الوسیلة و جاهدوا فی سبیله لعلکم تفلحون)

”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جھاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہو جاؤ۔“(۱)

اس آیہ کریمہ میں خداوند منان مومنین کو صراحت کے ساتھ حکم دیتا ہے کہ اللہ تک جانے کا وسیلہ تلاش کرو۔

بہت سی حدیثوں میں اولیائے الٰہی سے توسل کی کیفیت تعلیم دی گئی ہے کہ ہم ان میں سے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

عثمان بن حنیف روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص رسول اکرم کی خدمت اقدس میں شرف یاب ہوا اور ان سے دعا کرنے کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صحت و عافیت عنایت فرمائے ۔

________________________

۱۔ سورہ مائدہ (۵) آیت ۳۵۔

۱۶۵

پیغمبر اکرم نے اسے تعلیم فرمایا کہ نئے سرے سے وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو پھر کہو:

الّلّهم انّی اسئلک و اتوجه الیک بنبیّک نبیّ الرّحمة ، یا محمد انّی اتوجّه بک الی ربّی فی حاجتی لتقضی، اللّهم شفّعه فیّ

”خدایا ! میں تیرے پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہو رہا ہوں۔اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ پیدا کر رہا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ پروردگار! ان کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما۔“(۱)

رسول اکرم کی یہ حدیث ایک حاجت مند انسان کو اس بات کی تعلیم دے رہی ہے کہ وہ پیغمبراکرم کو کس طرح اپنا شفیع قرار دے اور آنحضرت کے وسیلہ سے خداوند منان سے اپنی حاجت کو طلب کرے ۔

اس حدیث کو حاکم نے مستدرک میں نقل کر کے یہ تصریح کی ہے کہ بخاری اورمسلم کی حدیث شناسی کے تمام معیار کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے ۔ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے(۲)

________________________

۱۔ مستدرک ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ،حاکم نیشاپوری ،ج۱،ص ۳۱۳۔

۱۶۶

۲ ۔ تلخیص المستدرک ،شمس الدین احمد بن محمد ذہبی ،مستدرک کے ذیل میں ۔

ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے(۱)

اس بیان کی بنا پر اولیائے الٰہی میں کسی ایک سے توسل اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ کفر و شرک نہیں ہے بلکہ قرآن کریم ،احادیث رسول (ص) سے ہم آہنگ اور اکابر محدثین کے نزدیک قابل قبول ہے ۔

ہم نے معترض کی غرض و مقصد کو واضح کرنے کے لیے دعائے ندبہ کو چھ مخصوص حصوں میں تقسیم کیا اور ان چھ حصوں کے مضامین پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے تاکہ معلوم ہو کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے کسی بھی فقرہ میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کے وجود اقدس سے حاجت نہیں طلب کی گئی ہے ۔

وہ دعائے ندبہ جو اس کتاب میں تحریر کی گئی ہے ۱۴۸ سطروں پر مشتمل ہے اور اس کا پہلا حصہ پہلی سطر سے ۱۹ سطر تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ پروردگار کی حمد و ثنا اس کی عظیم نعمتوں کے مقابلے میں جیسے ارسال رسل انزال کتب (رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے) کا حامل ہے اور جملہ ”الحمد للّٰہ ربّ العالمین“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

دوسرا حصہ بیسویں سطر سے ۳۶ تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ نبوت خاصہ، بعثتِ رسول اکرم کی عظیم نعمت اور آنحضرت کے بعض فضائل و مناقب سے مخصوص ہے اور جملہ ” الی ان انتھیت بالامر الی حبیبک و نجیبک “سے آغازہوتا ہے۔

________________________

۱۔ السنن ،ابو عبد اللہ ابن ماجہ ،ج۱،ص ۴۴۱۔

۱۶۷

اس کا تیسرا حصہ چھتیسویں سطر سے ۵۸ سطر تک تمام ہوتا ہے ،یہ حصہ نصب امامت ،غدیر خم کے تاریخی واقعہ اور مولائے متقیان امیر المومنین علی بن ابی طالب کے فضائل و مناقب کے ذکر سے مخصوص ہے اور جملہ ” فلمّا انقضت ایّامہ ،اقام ولیّہ علی بن ابی طالب علیہ السلام “سے آغاز ہوتا ہے ۔

اس کا چوتھا حصہ انسٹھویں سطرسے ۷۲ سطر تک اختتام پذیر ہوتا ہے ،یہ حصہ عترتِ طاہرہ پر کیے گئے مصائب پر مشتمل ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے آثار و برکات سے امت کی محرومیت کے اشک ِحسرت و ندامت سے مخصوص ہے اور جملہ”و لمّا قضیٰ نحبہ“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

اس کا پانچواں حصہ بہترویں سطر سے ۱۲۱ سطر تک اختتام پذیر ہوتا ہے اور دوران غیبت کے طولانی ہونے کے تاثرات اور افسوس ناک ہونے کے اظہار پر مشتمل ہے ،درد ہجران اور دیدار یار کے اظہارِ شوق سے مخصوص ہے اور جملہ ”این بقیّة اللّٰہ الّتی لا تخلو من العترة الھادیة“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

اس کا چھٹا حصہ ایک سو بائیسویں سطر سے ۱۴۸ سطر تک دعائے ندبہ کے آخری حصہ پر مشتمل ہے اور خداوند قاضی الحاجات کی بارگاہ میں دعا و مناجات سے مخصوص ہے اور جملہ” الّلھمّ انت کشّاف الکرب والبلوی“ سے آغاز ہوتا ہے ۔

دعائے ندبہ کے اس حصے میں اس بات کے پیش نظر کہ حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کو بارگاہ رب العزّت میں شفیع قرار دیا گیا ہے ،اس کے چند فقرات کو یہاں ذکر کر رہے ہیں تاکہ معترضین کا مقصد مزید واضح ہو جائے :

۱۶۸

خدایا! ان کے ذریعہ حق کو قائم کر۔

باطل کو ان کے ذریعہ فنا کر دے ۔

اپنے دوستوں کو ان کے ذریعہ حاکم قرار دے ۔

اپنے دشمنوں کو ان کے ذریعہ ذلیل و رسوا کر ۔

ان کی برکت سے ہماری نماز کو مقبول بنا دے ۔

ان کی خاطر ہمارے گناہوں کو بخش دے ۔

ان کے احترام میں ہماری دعائیں مستجاب قرار دے ۔

ان کی برکت سے ہمارے رزق میں وسعت عطا فرما۔

ان کی خاطر ہمارے رنج و غم کو دور کر دے ۔

ان کے احترام میں ہماری حاجتوں کو پوری فرما۔

اس طرح خداوند منان سے حاجت طلب کرنا اور خالق دو جہاں کی بارگاہ میں حجت زمانہ کو شفیع قرار دینا کیا آیات قرآن اور رسول اسلام سے منقولہ احادیث سے ہم آہنگ نہیں ہے؟!تو پھر کیوں حسد و کینہ رکھنے والے اس کو کفر و شرک سے تعبیر کرتے ہیں؟!

۱۰ ۔ کیا مہدیّہ (نامی مقامات) کی تعمیر کرانا بدعت ہے ؟

معترضین دعائے ندبہ برقرار کرنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کی تعمیر کرانا حرام اور بدعت جانتے ہیں!

”مہدیّہ“”قائمیّہ“ ،”منتظریّہ“ یا اسی جیسے دوسرے نام سے کسی مقام کی تعمیر کرانا بالکل بارگاہ حضرت ابا عبد اللہ الحسین میں اظہار عقیدت اور مجلس کے لیے ”حسینیہ“ بنانے کی طرح ہے ۔

۱۶۹

اسی طرح سے کہ ایک جگہ”دارالشفاء“ کے نام سے بیماروں کے علاج کے لیے بنائی جائے ،”دار الایتام“ یتیموں کی حفاظت کے لیے ”دار الحفّاظ“ حافظین قرآن کی تربیت کے لیے،”دار التجوید“ تجوید قرآ ن کی تعلیم کے لیے ”دار القرآن “ قرآن کی تعلیمات عام کرنے کے لیے ”دار الحدیث “ احادیث اہل بیت کو نشر کرنے کے لیے اور اسی طرح کی دوسری جگہ تعمیر کرانے میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے ۔دعائے کمیل ،دعائے ندبہ ،زیارت عاشورا وغیرہ کو برقرار کرنے کے لیے بھی کسی جگہ کے تعمیر کرانے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اس بیان کی بنا پر، ”مہدیّہ“ ،”قائمیّہ“ ،”منتظریّہ“اور اسی طرح کی دوسری جگہوں کے تعمیر کرانے کی شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس آیہ مبارکہ کے ایک مصداق میں شامل ہے :

( تعاونوا علی البرّ و التقویٰ)

”نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ “(۱)

لہٰذا طول تاریخ اسلام میں ہر وہ مرکز جو بہ عنوان ”دار الکتب“، ”دار الحکمة“ ، ”‘دار العلم‘ ، ”دار الشفا“، ”دار القرّاء“، ”دار الحفّاظ“ اور اسی جیسی کوئی اور جگہ بنائی گئی ہو تو وہ کبھی بھی قابل اعتراض واقع نہیں ہوئی ہے ۔

سب سے زیادہ قدیم مقام کی تاسیس جو گزشتہ زمانے میں ایک امام معصوم کے ذریعہ عمل میں آئی اور اس آخری زمانہ تک محفو ظ تھی ،”بیت الاحزان “ حضرت فاطمہ زہرا تھا جو حضرت امیر المومنین کے ذریعہ رحلت پیغمبر اکرم کے بعد تعمیر کرایا گیا۔

استاد توفیق ابو علم ،مشہور مصری رائٹر اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں:

”حضرت علی نے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے بقیع میں ایک گھر بنایا کہ جسے ”بیت الاحزان “کہا جاتا ہے ۔یہ گھر ہمارے زمانے تک باقی ہے“۔(۲)

مجد الدین فیروزآبادی (متوفی ۸۱۶ ھئق) صاحب قاموس اللغة ”بیت الاحزان “ کی وجہ تسمیہ میں رقم طراز ہیں:

”کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا اپنے پدربزرگوار حضرت سید المرسلین کی رحلت کے بعد وہاں پناہ حاصل کر تی تھیں اور گریہ و نالہ میں مشغول ہوتی تھیں۔“(۳)

ابن جبیر، تاریخ اسلام کا مشہور سیّاح (متوفی ۶۱۴ ھئق) کہ جس نے چھٹی صدی

_____________________

۱۔ سورئہ مائدہ (۵)، آیت ۲۔

۲۔اہل البیت ،ابو علم ،ص۱۶۷۔

۳۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۱۸۔

۱۷۰

ہجری میں مدینہ منورہ کا دیدار کیا تھا تحریر کرتا ہے :

”عباس بن عبد المطلب کے گنبد کے پیچھے ،دخترِ پیغمبر فاطمہ زہرا کا بیت الشرف واقع ہے جسے ”بیت الحزن “کہا جاتا ہے ،مشہور یہ ہے کہ:

یہ وہی جگہ ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ زہرا وہاں جایا کرتی تھیں اور اس جگہ عزاداری اور گریہ و ماتم میں مشغول رہتی تھیں۔(۱)

مرزا حسین فراہانی جنہوں نے چودہویں صدی ہجری کے آغاز میں مدینہ منورہ کا دیدار کیا تھا تحریر کرتے ہیں:

”ائمہ بقیع کے گنبد کے پیچھے ایک چھوٹا گنبد ہے جو حضرت فاطمہ زہرا کا ”بیت الاحزان “ ہے اور اس میں ایک آ ہنی چھوٹی ضریح ہے ۔“(۲)

فراہانی کے بعد رفعت پاشا کی فوج کا سردار (متوفی ۱۳۵۳ ھئق) جس نے ۱۳۲۰ ھئق سے ۱۳۲۵ ھئق تک مصریوں کے امیر الحاج ہونے کی حیثیت سے مدینہ منورہ کا مشاہدہ کیا، تحریر کرتا ہے ۔

”وہاں ایک گنبد ہے جس کا نام ”قبّة الحزن“ ہے کہا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا اپنے پدربزرگوار کی رحلت کے بعد وہاں پناہ گزیں ہوتی تھیں اور وہاں گریہ و ماتم کرتی تھیں۔“(۳)

____________________

۱۔ وفاء الوفاء ،باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۱۸۔ ۔

۲۔ سفر نامہ ،مرزا حسین فراہانی ،ص۲۸۶۔

۳۔ مرآة الحرمین ،ابراہیم رفعت پاشا، ج۱،ص ۴۲۶۔

۱۷۱

سمہودی بھی غزالی سے نقل کرتے ہیں جو اعمال بقیع کے بیان کے ضمن میں رقم طراز ہیں:

”مسجد حضرت فاطمہ میں نماز پڑھو۔ “

پھر مزید تحریر کرتے ہیں:

اور وہ وہی ”بیت الحزن “ کی مشہور جگہ ہے جہاں حضرت فاطمہ زہرا پدربزرگوار کی رحلت کے غم و اندوہ کے دنوں میں وہاں قیام کرتی تھیں اور گریہ و ماتم میں مصروف رہتی تھیں(۱)

اس بیان کی بنا پر ”بیت الاحزان “ ۱۱ ھئق میں مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کے دست ِ مبارک سے تعمیر ہوا، بعد میں اس کے اوپر ضریح اور گنبد بنایا گیا،اور تمام صدیوں اور زمانوں میں مدینہ منورہ کے زائرین کی زیارت گاہ اور محل عبادت بنا رہا اور کبھی بھی کسی کے مورد اعتراض نہیں قرار پایا، یہاں تک کہ ۸ شوال ۱۳۴۴ ھئق میں وہابیوں کے شر پسند ہاتھوں سے منہدم اور برباد کیا گیا۔

اگر کوئی مقام بنام ”بیت المہدی“ ،”دار المہدی“، ”مہدیّہ“، ”قائمیّہ“، ”منتظریّہ“وغیرہ تعمیر کرایا جائے اور اس میں دعائے ندبہ برگزار ہو تو نہ صرف یہ کہ بدعت نہیں ہے بلکہ آیہ کریمہ ”تعاونوا علی البرّ و التّقوی“(۲) کے ایک مصداق میں شامل ہے ۔

_______________________

۱۔ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،نور الدین علی بن احمد سمہودی ،ج۳،ص ۹۰۷۔

۲۔ سورئہ مائدہ (۵) آیت ۲۔

۱۷۲

تیسری فصل

دعائے ندبہ کے متعلق چند نکات

پہلا نکتہ :

دعائے ندبہ کے بعض نکات سے چند عظیم شیعہ فقہا کا استناد کرنا ۔

عالم تشیّع کے بزرگ فقہاء نے اپنی استدلالی کتابوں میں دعائے ندبہ کے بعض حصے کو بطور شاہد و استناد پیش کیا ہے کہ جس میں سرِ فہرست استاد الفقہا و المجتہدین آیت اللہ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمة اللہ علیہ (متوفی ۱۲۸۱ ھئق) ہیں ۔

انہوں نے کتاب المکاسب میں جو حوزہ علمیہ کی درسی کتاب ہے ،اس سلسلے میں کہ کیا ابتدائی التزامات (معاہدوں) پر شرط ، صادق آتی ہے یا نہیں دعائے ندبہ کے ایک حصہ کو جس کی عبارت یہ ہے :

قوله علیه السلام فی اوّل دعاء الندبه “بطور شاہد پیش کیا ہے۔(۱)

________________________

۱۔ المکاسب ،شیخ مرتضیٰ انصاری، ص۲۱۶۔

۱۷۳

اور یہ اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ شیخ انصاری دعائے ندبہ کو امام معصوم علیہم السلام سے ماثور جانتے ہوئے اس سے استناد کرتے ہیں اور اسے ”قولہ علیہ السلام“ ”امام علیہ السلام “ کے قول سے تعبیر کرتے ہیں ۔

شیخ انصاری کے بعد ،کتاب المکاسب کی شرح اور حاشیہ تحریر کرنے والوں نے جو سبھی اپنے زمانے کے مراجع کرام میں سے تھے ،مکاسب کے اس مذکورہ حصہ کی شرح میں انہوں نے دعائے ندبہ سے استناد کیا ہے اور دعائے ندبہ کو امام معصوم سے استناد کرنے کے موقع پر شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ہے کہ ہم ان میں سے بعض افراد کے اسماء کو اپنے صفحات کی زینت قرار دے رہے ہیں:

۱ ۔ آیت اللہ الحاج شیخ محمد حسن مامقانی ،(متوفی ۳۲۳ اھئق)(۱)

۲ ۔ آیت اللہ الحاج ملّا محمد کاظم خراسانی ،صاحب کفایہ (متوفی ۱۳۲۹ ء ھ ق)۔

۳ ۔ آیت اللہ الحاج سید محمد کاظم یزدی صاحب عروة الوثقیٰ (متوفی ۱۳۳۷ ھئق)۔

۴ ۔ آیت اللہ الحاج مرزا علی ایروانی (متوفی ۱۳۵۴ ھئق)(۲)

۵ ۔ آیت اللہ الحاج شیخ محمد حسین اصفہانی ،(متوفی ۱۳۶۱ ھئق) ۔

۶ ۔ آیت اللہ الحاج مرزا فتّاح شہیدی (متوفی ۱۳۷۲ ھئق)(۳)

________________________

۱۔ غایة الآمال ،الشیخ حسن مامقانی ،ج۲،ص ۲۔

۲۔ التعلیقةعلی المکاسب ،ایروانی ،ج۲،ص ۵۔

۳۔ ھدایة الطالب الی اسرار المکاسب ،مرزا فتّاح شہیدی ، ص۴۱۰۔

۱۷۴

۷ ۔ آیت اللہ الحاج سید محمد شیرازی (ہم عصر)(۱)

اس بیان کی بنا پر ان تمام بڑے فقہا کہ جنہوں نے کتاب المکاسب پر شرح یا حاشیہ تحریر کیا ہے ان سب نے شیخ انصاری کی بات کا یقین اور اسے صحیح تسلیم کیا ہے اور جملہ ”قولہ علیہ السلام“ ”قول امام علیہ السلام“ ،پر اعتراض نہیں کیا ہے ۔ نتیجے کے طور پر دعائے ندبہ کے ماثور و منقول ہونے کی سب نے امضاء و تائید کی ہے۔

دوسرا نکتہ :

کیا یہ بات ممکن ہے کہ دعائے ندبہ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی خود ساختہ ہو؟

ہم جواب میں عرض کریں گے کہ یہ احتمال بہت سی دلیلوں سے بعید ہے :

۱ ۔دعائے ندبہ کی سند کو تفصیل کے ساتھ ہم نے بیان کیا۔

۲ ۔ اس کی قوّت سند اور اعتبار کو علامہ مجلسی سے ہم نے نقل کیا۔

۳ ۔ امام معصوم سے اس کے ماثور و منقول ہونے کے شواہد و دلائل کو ہم نے بیان کیا۔

۴ ۔ امام جعفر صادق سے اس کے منقول ہونے کے شواہد و دلائل کو ہم نے بیان کیا۔

۵ ۔ شیخ انصاری کے استناد اور ان کا دعائے ندبہ کی پیروی کرنے کو نیز اس کے ماثور ہونے کے سلسلے میں دوسرے عظیم فقہا کے اقوال کو ہم نے نقل کیا۔

_______________________

۱۔ ایصال الطالب الی المکاسب ،سید محمد حسینی شیرازی ،ج۱۱،ص۴۳۔

۱۷۵

۶ ۔ سب سے پہلے جس نے دعائے ندبہ کو اپنی تحریر و تالیف میں ذکر کیا وہ ”بزوفری“ شیخ مفید کے استاد ہیں ،کہ جنہوں نے چار عظیم عیدوں میں دعائے ندبہ پڑھنے کے مستحب ہونے کا فتوی دیا ہے ۔(۱) لہذا اگر بزوفری کو اس دعا کے متعلق امام معصوم سے صادر ہونے کا اطمیان نہ ہوتا تو کبھی بھی اس کے مستحب ہونے کا فتوی نہ دیتے ،کیونکہ کسی شئے کے مستحب ہونے کا فتوی دینے کے لیے شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔

۷ ۔ ابن ابی قرّہ ،ابن مشہدی ، سید ابن طاووس ، محدث نوری ،محمدث قمی اور بہت سے فقہاء و محدثین نے بزوفری کے اس فتوی کو نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کو تسلیم کیا ہے(۲)

۸ ۔ علامہ مجلسی نے اس کی سند کو معتبر قرار دینے کی تصریح کرنے کے بعد خود دعائے ندبہ کا چار عظیم عیدوں میں پڑھنے کے مستحب ہونے کا فتویٰ دیا ہے ۔(۳)

_______________________

۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۵۷۳۔

۲۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۵۷۳۔ مصباح الزائر، سید علی بن موسیٰ ابن طاووس، ص ۴۴۶، حسین بن محمد تقی نوری، ص ۶۴۸، مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، طبع رسالت، ص ۶۵۰۔

۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ،ص۴۸۶۔

۱۷۶

۹ ۔ اگر یہ دعا علماء میں سے کسی ایک کے ذریعہ انشاء ہوئی ہوتی تو یقینا اس کی تصریح کرتے ، اس لیے کہ علمائے شیعہ کا یہ شیوہ رہا ہے کہ اگر کوئی دعا یا زیارت نامہ کو انشاء کرے تو اس کی تصریح کرتے ہیں ۔

اور اب ہم چند چیزوں کی طرف بعنوان مثال اشارہ کرتے ہیں :

۱ ۔ شیخ صدوق نے ، حضرت فاطمہ زہرا کے زیارت نامہ کے متعلق(۱)

۲ ۔ سید ابن طاووس نے رویت ہلال کی دعا کے متعلق ۔(۲)

۳ ۔ فخر المحققین نے ، محدّث نوری کے نقل کے مطابق ”دعائے عدیلہ“ کے متعلق ۔(۳)

۴ ۔ آقا جمال خوانساری نے ، حضرت عبد العظیم کے زیارت نامہ کے متعلق(۴)

۵ ۔ محدث قمّی نے ،حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ کے متعلق(۵)

________________________

۱۔ من لایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق ،ج۳،ص ۵۷۳۔

۲۔ اقبال الاعمال ،سید ابن طاووس ،ص۳۰۷۔

۳۔ مستدرک الوسائل ،حسین بن محمد تقی نوری ،طبع سنگی ،ج۱،ص ۹۳ ۔

۴۔ المزار ،جمال خوانساری ،ص۱۰۹۔

۵۔ مفاتیح الجنان ،شیخ عباس قمی ،طبع رسالت ،ص۶۳۴۔

۱۷۷

تیسرا نکتہ :

اعتراض کرنے والا کون ہے ؟

ابتدائی دنوں میں کہ جب دعائے ندبہ قابل توجہ منابع میں جیسے المزار الکبیر ، المزار القدیم ،الاقبال ،مصباح الزائر اور بحار الانوار وغیرہ میں نقل ہوئی اور عاشقین و قارئین کی دست رس میں قرار پائی تو خاندان عصمت و طہارت کے عقیدت مندوں نے بغیر کسی خوف کے جمعہ کے دنوں میں صبح کے وقت اور دوسری اسلامی عیدوں میں اس کے پڑھنے کی طرف سبقت حاصل کی اور سبقت کرتے رہتے ہیں ،کوئی شک و شبہ بھی نہیں رکھے کہ اس کا متن امام معصوم سے صادر ہوا ہے ، اس کا زمانہ غیبت میں پڑھنا شیعہ منتظر کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی خاص عنایت و توجہ کا مرکز ہے ۔ اس طریقے سے ،علمائے اعلام اور اسلام کے پاسبانوں نے اس کی سند کے متعلق بحث و تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔یہاں تک کہ تقریباً تیس سال پہلے ایک کتابچہ بغیر کسی نام و نشان کے ”بررسی دعائے ندبہ “ (یعنی دعائے ندبہ کی تحقیق) کے نام سے ایک نامعلوم مولف جس کا مستعار (دوسرے سے مانگاہوا) نام ”علی احمد موسوی“ ہے تہران میں نشر ہوا کہ جس نے اس کی سند میں شک و شبہ کا اظہار کیا ،اس کے مطالب پر ناجواں مردانہ دھاوا بول دیا تھا۔ اس لحاظ سے عہد کیے ہوئے علماء اور درد آشنا پاسبانوں نے خود کو ذمہ دار سمجھا کہ اس ناجواں مردانہ دھاوا بولنے والے کو بغیر جواب دیے خاموش نہیں بیٹھیں گے ،لہٰذا دعائے ندبہ کی سند، متن اور دوسرے مختلف پہلوؤوں سے دفاع سے متعلق بہت سی گراں قدر کتابیں تحریر کیں اور اس کے کھوکھلے اعتراضات کا جواب دیا کہ اس کے بعض عناوین سے آپ اس کتاب میں آشنا ہوں گے ۔

۱۷۸

چوتھا نکتہ :

کیا دعائے ندبہ ناحیہ مقدسہ (امام زمانہ ) کی طرف سے صادر ہوئی ہے؟

جیسا کہ ہم نے کتاب کے دوسرے حصہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا، دعائے ندبہ کو حضرت امام جعفر صادق سے صادر ہونے کا شرف حاصل ہے ،جیسا کہ علامہ مجلسی اور بعض بزرگوں نے اس بات کی تصریح کی ہے ۔(۱) اور سید ابن طاووس کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔(۲) لیکن ”محمد بن ابی قرّہ“ کی تعبیر کہ جس نے کہا ہے :

”کتاب”بزوفری“ میں ذکر ہوا ہے کہ یہ دعا صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کے لیے ہے ۔“(۳)

_______________________

۱۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ،ص۳۹۴، مکیال المکارم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳ ،شرح دعائے ندبہ ، سید صدر الدین مدرس ،ص۱۔

۲۔ اقبال الاعمال ، سید ابن طاووس ،ص۲۹۵۔ ۳۔ المزار الکبیر ، ابن مشہدی ،ص۵۷۳، مصباح الزائر ،سید ابن طاووس،ص۴۴۶، زوائد الفوائد ، سید علی بن علی بن موسیٰ ابن طاووس (فرزند ابن طاووس ) خطی نسخہ ،ص۴۹۳۔

۱۷۹

بعض ہم عصرلوگوں نے یہ تصور کیا ہے کہ یہ دعا ناحیہ مقدسہ (حضرت بقیة اللہ)کی طرف سے صادر ہوئی ہے(۱)

پانچواں نکتہ:

دعائے ندبہ اور وہ زیارت جو ”ندبہ “ کے نام سے مشہور ہے ۔

دعائے ندبہ کے علاوہ سرداب مقدس کے زیارت ناموں میں سے ایک زیارت نامہ ”ندبہ “ کے نام سے بھی موجود ہے اور وہ زیارت ”زیارت آل یٰسین “ کے نام سے مشہور ہے ۔

سید ابن طاووس اپنی مبارک کتاب مصباح الزائر میں سرداب مقدس کی زیارتوں کو شمار کرتے ہوئے ”زیارت آل یٰسین “ کو اس عنوان سے بیان کرتے ہیں:

”ہمارے مولا حضرت صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کی دوسری زیارت جو زیارت ”ندبہ “ کے نام سے مشہور ہے جو قداست ”ناحیہ مقدسہ“ کے عنوان سے مالا مال ہے اس نے ابو جعفر محمد ابن عبد اللہ حمیری کے لیے صدور کا شرف حاصل کیا، اور حکم دیا گیا ہے کہ سرداب مقدس میں پڑھی جائے: ”بسم اللّٰه الرّحمن الرحیم ،لا لامر ه تعقلون، ولا من اولیائه تقبلونسلام علی آل یاسین(۲)

________________________

۱۔ہفدہ رسالہ ،محمد تقی شوشتری ،ص۳۴۳، دہ رسالہ ،رضا استادی ،ص۲۸۴، ۳۱۰۔

۲۔مصباح الزائر ،سید ابن طاووس ،ص۴۳۰۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۹۲۔

۱۸۰