دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید0%

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید مؤلف:
زمرہ جات: ادعیہ اور زیارات کی کتابیں
صفحے: 228

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین علی اکبر مہدی پور
زمرہ جات:

صفحے: 228
مشاہدے: 44615
ڈاؤنلوڈ: 3829

تبصرے:

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 228 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44615 / ڈاؤنلوڈ: 3829
سائز سائز سائز
دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید

مؤلف:
اردو

(امام حسن عسکری ) سے اور جمعہ کا دن میرے فرزند کے بیٹے (حضرت مہدی ) سے مخصوص ہے ۔“(۱)

یہ امام حسن عسکری کی ذات گرامی ہے کہ سامرا کے زندان میں اپنے فرزند ارجمند کی یاد میں نغمہ سرائی کرتے ہوئے اس بیت کو پڑھتے ہیں:

من کان ذا عضد یدرک ظلامته

انّ الذّلیل الذی لیست له عضد

یعنی : جو قوت بازو کا حامل ہوتا ہے وہ اپنے حقوق اخذ کرلیتا ہے

بے شک ذلیل وہ شخص ہوتا ہے جس کا کوئی قوت و بازو نہ ہو

زندان میں ساتھ رہنے والا شخص دریافت کرتا ہے:

”کیا آپ کا کوئی بیٹا ہے؟“

فرماتے ہیں:

”ای واللّه سیکون لی ولد یملا الارض قسطاً، فامّا الآن فلا “

”ہاں!خدا کی قسم! میرے لیے ایک فرزند ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا لیکن ابھی میرا کوئی فرزند نہیں ہے ۔ “

اس وقت درج ذیل شعر کو بطور مثال پیش کیا:

________________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة، شیخ صدوق ، ج۲، ص ۳۸۳۔

۲۱

لعلّک یوما ان ترانی کانّما

بنیّ حوالیّ الاسود اللّوابد

یعنی: تم شاید مجھے ایک دن دیکھو گے جب میرے بیٹے شیروں کی طرح کہ ان کے بال ان کی گردن پر آویزاں ہوں گے اور وہ میرے اطراف میں جمع ہوئے ہوں گے۔“(۱)

اور جب آفتاب امامت افق سامرا سے طلوع ہوا تو احمد ابن اسحاق سے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ کا شکر کہ مجھے دنیا سے نہ اٹھایا یہاں تک کہ میرے اس فرزند کا دیدار کرایا جو میرا جانشین ہے اور لوگوں میں خلقت اور سیرت میں رسول خدا سے سب سے زیادہ مشابہ ہے ۔“(۲)

ولادت کے دوسرے دن جب حکیمہ خاتون نے گہوارہ کو خالی پایا تو دریافت کیا: میرے آقا و مولا کہاں گئے ؟

فرمایا:

”یا عمّة استودعناه الذی استودعت امّ موسیٰ “

اے پھوپھی جان! میں نے ان کو اس ذات کے سپرد کر دیا ہے کہ جس کے سپرد مادر موسیٰ نے موسیٰ کو کیا تھا۔ “(۳)

________________________

۱۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۵۱، ص ۱۶۲۔

۲۔ اعلام الوریٰ باعلام الھدی، ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی، ص ۲۹۱۔

۳۔ کتاب الغیبة ، شیخ طوسی، ص ۲۳۷۔

۲۲

یہ حضرت بقیة اللہ ہیں جو ہمیشہ زمانہ غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے اکثر اپنی ملاقات سے مشرف ہونے والوں سے سوز گداز کی حالت میں تعجیل فرج کے متعلق دعا کرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں اور توقیع مبارک میں کہتے ہیں:

” واکثر وا الدعاء بتعجیل الفرج ،فانّ ذلک فرجکم “

”تعجیل فرج و کشائش کے لیے کثرت سے دعا کرو کہ اس میں تمہارے لیے کشائش و آسائش ہے ۔ “(۱)

محمد بن عثمان ۔ دوسرے نائب خاص۔ حضرت کا ”باب المستجار“ میں دیدار کرتے ہیں کہ وہ غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعاگو ہیں :

”اللهم انتقم من اعدائی “

خدایا ! میرے دشمنوں سے میرا انتقام لے ۔(۲)

اور جب حضرت کی خدمت میں آخری مرتبہ پہونچتے ہیں تو حضرت کے وجود اقدس کا خانہ کعبہ کے کنارے مشاہدہ کرتے ہیں کہ پروردگار کی طرف دست بدعا ہو کر عرض کرتے ہیں :

”اللهم انجزلی ما وعدتنی “

”خدایا ! جو مجھ سے وعدہ ہے کیا وفا کر “(۳)

________________________

۱۔ الاحتجاج، ابو علی الفضل بن حسن طبرسی، ج۲، ص ۴۷۱۔ کتاب الغیبة، شیخ طوسی ، ص ۲۹۲۔

۲۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج۵۲، ص ۳۰۔

۳۔ اعیان الشیعہ، السید محسن الامین العاملی، ج۲، ص ۷۱۔

۲۳

یہ مختصر اشارہ ائمہ دین کی سیرت اور مذہب کے پاسبانوں کے متعلق تھا جو گزشتہ انبیاء، خود ذات پیغمبر اکرم ،امیر المومنین اور بقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام آفتاب امامت کے طلوع ہونے سے صدیوں پہلے شدید عشق و محبت اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور حضرت کے فراق میں تڑپ رہے تھے نیز کبھی اس ماں کی طرح آنسو بہاتے تھے جس نے اپنے جواں سال بچہ کا داغ دیکھا ہو ،ان کی یاد کے ذریعے عشق و محبت کا اظہار کرتے تھے ، ان کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے اور جو افراد حضرت کے جمال آرائے عالم کے دیدار کی توفیق حاصل کریں گے ان پر رشک کرتے تھے ۔ ائمہ دین نہ صرف یہ کہ خود حضرت کے فراق میں تڑپتے تھے بلکہ حضرت کے شیعوں اور عاشقوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ بھی ہمیشہ عزیز زہرا کے غائب فرزند کی یاد میں رہ کر ان کی جدائی میں اشک بہائیں اور نالہ وشیون بلند کریں اور خود کثرت سے انہیں دعاؤں کی تعلیم دیتے تھے کہ جسے وہ خاص اوقات میں پڑھیں اور آئندہ نسلوں کو سپرد کریں کہ ان دعاؤں کو وہ زمانہ غیبت میں پڑھا کریں ۔یہ دعائیں حدیثی اور فقہی مصادر میں مختلف زمانوں اور صدیوں میں ضبط تحریر میں آچکی ہیں اور حضرت تمام کے شیعہ عاشق، مشاہد ِمشرفہ اور مقامات مقدسہ میں مختلف اوقات میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے اظہار عقیدت کے وقت ان دعاؤں کے ذریعہ اپنے آقاومولا سے راز دل کہتے ہیں ،غیبت کے طولانی ہونے کا شکوہ کرتے ہیں ، آپ کے جمال پر نور کے شوق دیدار کا اظہار کرتے ہیں اپنے کعبہ مقصود کے فراق میں نالہ و شیون کی صدائیں بلند کرتے ہیں ۔ مرحوم سید محمد تقی موسوی اصفہانی (متوفیٰ ۱۳۴۸ ھئق) جو اپنے زمانے میں مایہ افتخار و سر بلندی تھے انہوں نے اپنی مکمل قوت و تلاش سے ان دعاؤں کی جمع آوری کی اور ایک سو سے زائد فقرات ائمہ نور سے ماثورہ دعاؤں کو اس سلسلے میں بھی جمع کیا ہے اور اپنی گراں قدر کتاب مکیال المکارم کو دل سوختہ اور درد آشنا شیعوں کے اختیار میں قرار دیا ۔(۱)

مولف کتاب کے مقدمہ میں وضاحت فرماتے ہیں کہ میں ایک شب عالم خواب میں ،حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے فرمایا:

”اس کتاب کو تحریر کرو ،عربی میں لکھو اور اس کا نام ”مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم “رکھو۔“(۲)

یہ کتاب حسن اتفاق سے فارسی میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے اور عام قارئین کی دست رس میں ہے ۔(۳)

ان دعاؤں میں سب سے جذّاب ،قابل توجہ ،جامع ترین اور پر سوز ترین دعا”دعائے ندبہ“ ہے جسے حضرت کے عاشقین ہر جمعہ کی صبح ہر شہر اور دیہات میں

________________________

۱۔مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۲۔۱۰۳۔۲۔ گذشتہ حوالہ ،ج۱،ص ۴۔

۳۔ رجوع کریں۔ مکیال المکارم ،سید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ترجمہ سید مہدی حائری ۔

۲۴

جمع ہو کر خاص سوز و گداز کے ساتھ اس دعا کو پڑھتے ہیں اور اپنے محبوب اور ہر دل عزیز سے اپنے راز دل کو بیان کرتے ہیں نیز اپنے بہترین لحن اور یابن الحسن کے نغموں کی صدائے بازگشت کو بہت زیادہ نورانی اور معنوی فضا میں سنتے ہیں ، ساتوں آسمان کے فرشتوں کو گواہ بناتے ہیں کہ غیبت کی تاریک شب سے عاجز اور تھک چکے ہیں اور صبح ِامید کے اشتیاق میں لحظہ شماری کر رہے ہیں ۔

امام محمد باقر آیہ کریمہ

( و اللیل اذا یغشیٰ و النهار اذا تجلیّٰ ) (۱)

”رات کی قسم جب وہ دن کو ڈھانپ لے اور دن کے قسم جب وہ چمک جائے ۔ “

کی تفسیر میںفرمایا:

”اس جگہ ”و اللیل اذا یغشیٰ “ سے مراد باطل حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں امیر المومنین کی ولایت و خلافت کے مقابلے میں قیام کیا ،عرصہ عالم کو اپنی جولان گاہ قرار دیا اور ”والنھار اذا تجلیٰ “سے مراد ہم اہل بیت میں سے امام قائم کے ظہور کا دن ہے کہ جب وہ ظہور کریں گے تو باطل حکومتوں کا صفحہ ہستی سے خاتمہ ہو جائے گا۔“(۲)

________________________

۱۔ سورہ لیل (۹۲) آیت ۱،۲۔

۲۔ تفسیر القمی، علی بن ابراہیم قمی، ج۲، ص ۴۲۵۔

۲۵

دعائے ندبہ ہر جمعہ کی صبح میں مستکبرین عالَم سے اعلان نفرت اور ظلم و استبداد کے محلوں کو ویران کرنے والے کے ساتھ اور ایک عالمی حکومت عدالت و آزادی کی بنیاد پر قائم کرنے والے سے تجدید بیعت کا نام ہے۔

دعائے ندبہ امام برحق مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق نے اپنے دوستوں اور شیعوں کو تعلیم دی اور انہیں حکم دیا کہ اس دعا کو چارعظیم عیدوں یعنی عید فطر ،عید قربان ،عید غدیر اور عید جمعہ کے دنوں میں پڑھا کریں اور ہمیں حکم دیا کہ زمانہ غیبت میں اس دعا کے ذریعہ اپنے امام ، محبوب آقا و مولا اور اپنے مقتدا کے ساتھ درد دل اور تجدید عہد کریں۔

گزشتہ انبیاء، رسول اسلام، ائمہ معصومین اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے مذکورہ عبارتوں پر توجہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا کثرت سے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنے کا حکم دینا نیز ائمہ معصومین سے وارد شدہ دعاؤں کی تالیف و جمع آوری یہ تمام امور انتظار کے بہت زیادہ طولانی ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں اور ائمہ معصومین کے امام غائب کے شوق دیدار کے پائے جانے کے ظریف نکات پر مشتمل ہیں۔ مزید ان کی طولانی غیبت کی شکایت بھی ہے ،پھر ایک اور مرتبہ دعائے ندبہ کے سب سے پہلے اعتراض کرنے والوں کے جواب کو دقت سے مطالعہ کرتے ہیں:

”کیا معقول ہے کہ ایک فرد کی ولادت سے پہلے اس کی جدائی میں گریہ و نالہ کیا جائے ؟!“

مزید وضاحت :دعائے ندبہ امام جعفر صادق سے منقول ہے امام صادق ۱۴۸ ھئق میں شہید ہوئے اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ ۲۵۵ ھئق میں پیدا ہوئے۔

لہٰذا جس وقت امام جعفر صادق نے دعائے ندبہ کو انشاء فرمایا تو اسے حضرت ولی عصر کی ولادت سے سو سال پہلے انجام دیا لہذا کس طرح ممکن ہے کہ انسان ایک ایسے انسان کی بہ نسبت جو ایک صدی کے بعد پیدا ہو گا اس کے لیے گریہ وزاری کرے ،اس کے فراق میں آنسو بہائے اور نالہ و فریاد بلند کرے؟!

۲۶

جواب میں ہم عرض کریں گے: اگر یہ معنی معمولی اور عام افراد کے متعلق تصور کریں تو معترض حق بہ جانب ہے اور ہرگز معقول نہیں ہے کہ ایک عاقل انسان اپنے چھٹے پوتے کے لیے گریہ و زاری کرے اور اس کے فراق میں حسرت آمیز آنسو بہائے ،لیکن اگر مورد نظر ایسا فرد ہو جو دنیا کی خلقت کا باعث ہو اور سب سے خوش نما ، دل کش اور ہر دل عزیز شخصیت کا مالک ہو اور تمام انبیاء الٰہی نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے آنے کی اپنے پیروکاروں کو خوش خبری دی ہو،اور اپنی امت کو اس کے انتظار کا حکم دیا ہو،اس کی طولانی غیبت کے متعلق گفتگو کی ہو، تو یہ بہت ہی فطری اور منطقی بات ہو گی کہ درد آشنا افراد زمانے اور صدیوں کی طویل مدت میں اس کے آنے کے انتظار میں لحظہ شماری کریں ، اس کے فراق میں حسرت آمیز اشک بہائیں اور اس کی طولانی غیبت کی وجہ سے گریہ و زاری کریں ۔

اس بات کے متعلق پہلے حصہ میں تفصیلی گفتگو اور گزشتہ انبیاء کے بیش بہا نمونے، رسول اسلام (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل کر چکے ہیں اور سدید صیرفی کی وہ روایت کہ جس میں وہ اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ امام جعفر صادق کی خدمت میں مشرف ہوئے اور حضرت کو زمین پر بیٹھے ہوئے دیکھا جیسے کوئی ماں اپنے فرزند کی میت پر گریہ اور نالہ و فریاد کرتی ہے ، جب اس کی وجہ دریافت کی تھی تو ایک جاں گداز بیان میں فرمایا کہ حضرت قائم کی طولانی غیبت اور مومنین کی اس دوران پریشانی کے پیش نظر یہ میرے اشک جاری ہیں ۔(۱) اب چند نکات کی اس سلسلے میں یاد آوری کرتے ہیں:

۱ ۔ امام محمد باقر نے زرارہ سے فرمایا:”جمعہ کے دن قبل اس کے کہ اپنے لیے دعا کرو اپنی نماز کے قنوت میں پڑھو:

”اللّٰهم انّا نشکو الیک فقد نبیّنا و غیبة ولیّنا و شدّة الزمان علینا ووقوع الفتن و تظاهر الاعداء و کثرة عدوّنا و قلّة عددنا ،فافرج ذلک یا ربّ عنّا بفتح منک تعجّله و نصرمنک تعزّه و امام عدل تظهر ه ، اله الحق آمین

”پروردگارا! ہم لوگ اپنے نبی کے جدا ہونے کی تجھ سے شکایت کرتے ہیں اور اپنے ولی عصر کی غیبت کی اور زمانے کی سختیوں کی ،اور ہر طرف فتنوں کے برپا ہونے کی اور دشمنوں کے غلبے کی ،اعداء کی کثرت اور زیادتی و فراوانی دشمن کی ، اور اپنی تعداد میں کمی کی (شکایت کرتے ہیں)

________________________

۱۔ کمال الدین و تمام النعمة ،شیخ صدوق ،ج۲،ص۳۵۳۔

۲۷

اے اللہ ! اپنی طرف سے ان کی کشادگی کو جلد کھول دے۔ اور اپنی طرف سے عطا کردہ صبر کے ذریعے آسانی پیدا کر دے اور امام عادل کو ظاہر فرما اے معبود بر حق۔“(۱) آمین

۲ ۔ اسی قسم کی عبارت امام المتقین امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہوئی ہے کہ جسے اپنے قنوت میں پڑھا کرتے تھے :

”اللّٰهم انّا نشکوالیک فقد نبیّنا و غیبة امامنا ففرّج ذلک اللّهم بعدل تظهره و امام حق نعرفه “

”خدایا! ہم لوگ اپنے نبی کے جدا ہونے کی تجھ سے شکایت کرتے ہیں اور اپنے امام عصر کی غیبت کی لہذا ایسی کشادگی فراہم فرما جو ایسی عدالت کے ہمراہ ہو جسے عام کیا جا رہا ہو اور اس امام بر حق کے ساتھ ہو کہ جس کی ہم شناخت رکھتے ہیں “(۲)

۳ ۔ شہید اول اس کو کتاب ذکری میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ابن ابی عقیل نے امیر المومنین کے اس قنوت کو دعاؤں سے منتخب کر کے کہا ہے :

”مجھ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ امام جعفر صادق اپنے شیعوں کو حکم دیتے تھے کہ کلمات فرج کے بعد اس دعا کو قنوت میں پڑھا کریں“۔(۳)

________________________

۱۔ مصباح المتھجد ،شیخ طوسی ،ص۳۶۶۔

۲۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،مرزا حسین نوری طبرسی ،ج۴،ص ۴۰۴۔

۳۔ الذکری ،شہید اول ،ص۱۸۴۔

۲۸

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت علی امام موعود کی ولادت باسعادت سے دو صدی پہلے اپنی نماز کے قنوت میں اس قبلہ موعود کی غیبت کے متعلق خدا سے شکایت کرتے ہیں اور تمام عالم اسلام کی مشکلات کے حل اور اس عالمی مصلح کے ظہور کے لیے خدائے منان سے درخواست کرتے ہیں ۔

امام محمد باقر اس متن کو اپنی نماز کے قنوت میں پڑھتے ہیں اور زرارہ کو حکم دیا کہ اسے جمعہ کے دن ہر قنوت میں پڑھا کریں اور اسی طرح امام صادق اپنے شیعوں کو حکم دیتے ہیں کہ قنوت میں کلمات فرج کے بعد اس دعا کو پڑھا کریں۔

۴ ۔ آٹھویں امام حضرت علی رضا بھی اپنے شیعوں کو حکم دیتے ہیں کہ جمعہ کے دنوں میں نماز ظہر کے قنوت میں اس سلسلے میں ایک دعا پڑھا کریں۔(۱)

۵ ۔ امام جواد (تقی ) نے اپنی نماز کے قنوت میں تعجیل فرج کے لیے دعا کی ،اس کعبہ مقصود کے پیروکاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں :

”فاصبحوا ظاهرین والی الحق داعین و للامام المنتظر القائم بالقسط تابعین“

”وہ لوگ کامیاب ہوئے ،حق کی طرف دعوت دیتے ہیں اور امام منتظر جو عدل و انصاف کو قائم کرنے والے ہیں ان کی پیروی کرتے ہیں“ ۔(۲)

____________________

۱۔ جمال الاسبوع ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۱۳۔

۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۸۵،ص ۲۲۶۔

۲۹

۶ ۔ امام ہادی (نقی ) بھی اپنی نماز کے قنوت میں تعجیل فرج کے لیے دعا کرتے تھے ۔(۱)

۷ ۔امام حسن عسکری اپنی نماز کے قنوت میں بہت عظیم دعا اپنے فرزند ارجمند کے تعجیل فرج کے لیے پڑھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے تھے کہ غیبت کی تاریک شب ختم ہونے کے بعد عدالت کے روز روشن کو ظاہر فرما۔(۲)

۸ ۔ جس وقت اہل قم نے ”موسیٰ بن بغی“ عامل متوکل کے مظالم کی امام حسن عسکری کی خدمت میں شکایت کی تو امام نے ان سے فرمایا : نماز مظلوم پڑھیں اور مذکورہ دعا کو اس کے قنوت میں پڑھیں۔“(۳)

۹ ۔ امام محمد باقر اپنی نماز کے قنوت میں غیبت کے طولانی ہونے کی بنا پر نالہ و شیون کرتے ہیں اور پروردگار کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

اللّهمّ فانّ القلوب قد بلغت الحناجر ، والنّفوس قد علت التّراقی والاعمار قد نفدت با لانتظار “

”خدایا! قلوب حنجروں تک پہنچ گئے ہیں اور سانسیں سینوں میں مقید ہو گئی ہیں اور عمریں انتظار کی بنا پر اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ “

اس وقت اللہ تعالیٰ سے مومنین کی آرزوؤں کی تکمیل کے خواہاں ہوتے ہیں کہ

____________________

۱۔ مھج الدعوات ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۶۲۔

۲۔ مھج الدعوات ،سید علی ابن موسیٰ ابن طاووس ،ص۶۴۔

۳۔ مکیال المکارم، محمد تقی موسوی اصفہانی، ج۲، ص ۸۵۔

۳۰

مومنین کو ان کی آرزوؤں تک پہونچا دے ،دین کو نصرت عطا فرمائے ،اپنی حجت کو ظاہر کرے اور اس کے قوت بازو کے ذریعے دشمنوں سے انتقام لے ۔(۱)

۱۰ ۔ یحییٰ بن فضل نوفلی کہتے ہیں :بغداد میں امام موسیٰ کاظم کی خدمت اقدس میں پہنچا ، جب نماز عصر پڑھ چکے تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کر کے عرض کیا:

ایک مفصل دعا کو نقل کیا ،آخر میں مزید عرض کرتے ہیں:

”و ان تعجّل فرج المنتقم لک من اعداء ک وانجزله ما وعد ته یا ذالجلال و الاکرام

”اور یہ کہ منتقم حقیقی کے ظہور میں تعجیل فرما، جو تیرے دشمنوں سے انتقام لے گا، لہذا جو اس سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر، اے صاحب جلالت و کرامت والے خدا!“

نوفلی نے دریافت کیا: یہ دعا کس کے حق میں ہے؟

فرمایا: مہدی آل محمد کے حق میں ہے ۔

اس وقت حضرت کے بعض اوصاف کو شمار کرتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں:

”بابی القائم بامر اللّه “

”میرے باپ اس بزرگوار پر فدا ہو جائیں جو حکم خدا سے قیام کریں گے۔ “(۲)

________________________

۱۔ مھج الدعوات، سید علی ابن موسی ابن طاووس، ص ۵۲۔

۲۔ فلاح السائل ،سید علی ابن موسیٰ ، ابن طاووس ،ص۲۰۰۔

۳۱

یہ سمندر کی رطوبت ،خرمن کا ایک خوشہ اور جو ائمہ معصومین نے دعا کے اوقات میں اپنی نمازوں کے قنوت یا تعقیبات میں گم گشتہ یوسف زہرا کے متعلق شکوے کیے تھے، ان کے فراق میں نالہ و فریاد بلند کی تھی مومنین کی عصر غیبت میں پریشانیوں پر سیلِ اشک جاری کیے ان کے تعجیل ظہور کے لیے دست نیاز بارگاہ رب العزت میں بلند کیا،اور بہت ہی عظیم تعبیروں کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں فرمایا۔ اگر ان تمام موارد کو ہم شمار کرنا چاہیں تو اس (مثنوی) کو تحریر کرنے کے لیے ستّر من کاغذ درکار ہو گا۔

ہم یہاں مزید یہ کہتے ہیں کہ انتظار کی یہ حالت اور شوق، ائمہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ بہت سے ایسے اصحاب جو رسول اکرم اور ائمہ دین کے زیر تربیت پروان چڑھے حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی بہترین حکومت سے آشنا ہوئے ،جان لیوا عشق حاصل کیا، وہ شب و روز حضرت کے فراق میں اشک بہاتے تھے ،ان میں سے ایک مثا ل جناب سلمان کی ہے ۔(۱)

قابل توجہ یہ ہے کہ یہ سوز و گداز اصحاب پیغمبر اور ائمہ ہدیٰ کے اصحاب ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ بعض اکابر اہل سنت بھی اس عشق و محبت سے بہرہ مند تھے کہ ان میں سے ایک کی مثال ”عبادا بن یعقوب رواجنی “ کی ہے ۔

رواجنی اہل سنت کے بزرگوں میں سے تھے ،بخاری ،ترمذی ،ابن ماجہ ،ابو حاتم،

________________________

۱۔دلائل الامامة ،محمد بن جریر طبری،ص۴۴۹۔

۳۲

بزّاز اور دوسرے محدثین اہل سنت نے ان سے روایت نقل کی ہے اور تمام اہل رجال نے ان کی وثاقت و صداقت کی تاکید کی ہے ۔(۱)

ان کا انتظار ،شوق دیدار اور سوز و گداز، گریہ و زاری ہی پر ختم نہیں ہوتا ،بلکہ ایک شمشیر آمادہ کیے ہوئے تھے کہ اگر امام مہدی کے زمانہ کو درک کریں گے تو اس شمشیر کے ذریعہ حضرت کی رکاب میں (دشمنوں سے ) جنگ کریں گے ۔

منقول ہے کہ قاسم ابن زکریّا حدیث سننے کے لیے رواجنی کی خدمت میں گئے، جب ان کے سر کے پاس ایک تلوار رکھی ہوئی مشاہدہ کی تو دریافت کیا، یہ کس کی تلوار ہے ،رواجنی نے جواب دیا:

”میں نے اسے اس لیے آمادہ کیا ہے کہ حضرت مہدی کے حضور میں اس تلوار کو چلاؤں“۔(۲)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ رواجنی کی وفات ۲۵۰ ھء ق میں واقع ہوئی ۔(۳) اور حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی ولادت ۲۵۵ ھئق میں واقع ہوئی ہے ۔

اس سے بھی زیادہ توجہ کے قابل یہ نکتہ ہے کہ ان کی ایک کتاب بطور یادگار باقی ہے جس کا نام اخبار المہدی المنتظر ہے ۔(۴)

_______________________

۱۔ سیر اعلام النبلاء ،محمد بن احمد بن عثمان ذہبی ،ج۱۱،ص ۵۳۷۔

۲۔میزان الاعتدال ،محمد بن احمد بن عثمان ذہبی ،ج۲،ص ۳۷۹۔

۳۔ التاریخ الکبیر ،محمد بن اسماعیل بخاری ،ج۶،ص۴۴۔

۴۔ الاعلام، خیر الدین زرکلی ،ج۳،ص ۲۵۸۔

۳۳

رواجنی کی کتاب کی اہمیت اس جہت سے ہے کہ اسے حضرت بقیة اللہ کی ولادت باسعادت سے پہلے تحریر کیا ہے ۔

جس مقام پر ایک سنی مسلک شخص اس مہرتاباں کی ولادت سے پہلے اس سے عشق و محبت کا اظہار کرے اس کے فراق میں اشک فشانی کرے اس کے حریم سے دفاع کرنے کے لیے اسلحہ آمادہ کرے،اور ایک مقام پر سلمان جیسی شخصیت ان کی ولادت سے صدیوں پہلے ان کے فراق میں گریہ کرے ،اور جہاں ائمہ معصومین امیرالمومنین سے لے کر امام حسن عسکری تک اپنی نمازوں کے قنوت میں تعجیل فرج کے لیے دعا کریں ان کی طولانی غیبت کا شکوہ کریں،اور ایک سو سے زائد شیعوں کو تعلیم دیں اور یہ حکم دیں کہ زمانہ غیبت میں اسے پڑھنا ضروری سمجھیں۔(۱) پھر بھی اگر کوئی شخص دعائے ندبہ کا امام جعفر صادق سے صادر ہونے میں شک و شبہ کرے اور یہ کہے :”کیا یہ بات معقول ہے کہ امام صادق اس شخص کے لیے جس کی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے اشک بہائےں ؟!“ ایسا انسان یا نادان ہے یا غرض دار شخص ہے ،اس لیے کہ دعائے ندبہ سیکڑوں دعاؤں میں سے ایک ہے کہ جس کی زمانہ غیبت میں پڑھنے کی ائمہ معصومین علیہم السلام نے تاکید کی ہے ۔

آخر میں ہم یہ بھی یاد آوری کراتے ہیں کہ ہرگز کسی نے بھی اس بات کا دعوی نہیں کیا ہے کہ امام صادق دعائے ندبہ پڑھتے ہیں بلکہ شیعوں کو حکم دیا ہے کہ اس دعا کو

_______________________

۱۔ مکیال المکارم ،محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۲۔ ۱۰۳۔

۳۴

چارعظیم عیدوں میں پڑھا کریں اس لحاظ سے دعائے ندبہ زمانہ غیبت میں شیعوں کے لیے ایک دستور العمل ہے ۔

لیکن اس بنیاد پر جو کچھ کہا گیا ہے ،اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ائمہ اپنے زمانے میں دعائے ندبہ پڑھا کرتے تھے تو کوئی مانع نہیں ۔ نہ ہی خلاف عقل ہے اور نہ ہی خلاف ذوق ۔

مگر کیا ایسا نہیں ہے کہ امام سجاد نے عرفہ کے دن صحرائے عرفات میں مشہور دعائے عرفہ میں اس پُر سوز و گداز دعا کے بعض حصے کو حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ سے مخصوص کیا ہے اور فرماتے ہیں :

و اصلح لنا امامن اللّهم املا الارض به عدلاً و قسطاً و اجعلنی من خیار موالیه و شیعته و ارزقنی الشهادة بین یدیه(۱)

”خدایا! ہمارے امام کے امر (قیام و حکومت) کے اسباب عطا فرما خدایا! زمین کو ان کے دست مبارک کے ذریعے عدل و انصاف سے بھر دے خدایا! ہمیں ان کے بہترین دوستوں اور شیعوں میں قرار دے اور ہمیں ان کی رکاب میں شہادت کی توفیق کرامت فرما “

امام سجاد نے اس دعا کو مزید اوصاف اور مخصوص سوز و گداز کے ساتھ اس دعا کو

_______________________

۱۔ مصباح المتھجّد،محمد بن حسن طوسی، شیخ طوسی ،ص۶۹۸۔

۳۵

صحرائے عرفات میں پڑھا اور ہر سال لاکھوں حاجی اس دعا کو عرفہ کے دن ہزاروں آہ و نالہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔

یہ کیسی جرات اور گستاخی ہے کہ بعض بد اندیش لوگوں کے سامنے جیسے ہی دعائے ندبہ کا نام دورانِ گفتگو آتا ہے تو اسے غیر معقول اور غیر منطقی شمار کرنے لگتے ہیںا ور دوسری سیکڑوں دعا جو اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں اس میں شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتے ۔

شیعیان واقعی اور عاشقان حقیقی پر لازم ہے کہ دشمن شکن دعائے ندبہ کی مجالس میں سرگرم عمل ہوکر کج فکروں کو عملی جواب دیں ۔

۳۶

۲ ۔ دعائے ندبہ کی سندی تحقیق

اعلیٰ معارف، درخشاں حقائق ، روشن معانی اور عمیق مطالب جو بدیع و نوآوری کے اسلوب ، بہترین و منطقی بیان بہت فصیح اور عظیم فقرات اس مبارک دعا میں وارد ہوئے ہیں ،جو ہمیں ہر قسم کی سند اور حوالے سے بے نیاز کرتے ہیں کہ ایسے روشن حقائق اور درخشاں نکات ، ہرگز کسی اور منبع و مصدر سے صادر نہیں ہو سکتے اس کا سرچشمہ سوائے ولایت اور خاندان عصمت و طہارت حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے صاف و شفاف چشمے کے کچھ اور نہیں ہو سکتا ، لیکن عاشقوں کی جماعت کے دل کی نورانیت کے لیے دعائے ندبہ کی نورانی مجالس کو ہر جمعہ کی صبح میں ،دعائے ندبہ کے استوار اور مستحکم منابع و مصادر کو زمانے کے تسلسل کے اعتبار سے ہم یہاں ذکر کررہے ہیں :

۱ ۔ ابو جعفر محمد بن حسین ابن سفیان بزوفری

سب سے پہلے با وثوق اور مورد اعتماد شخص کہ جنہوں نے دعائے ندبہ کی سند کو اپنے مکتوب میں برحق رہنما مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے وہ ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری ہیں ۔

”بزوفری “”بزوفر“ نامی دیہات جو ”قوسان “ کے اطراف میں ”بغداد “ کے نزدیک ”موفّقی“ نہر کے ساحل پر دریائے دجلہ کے مغرب میں واقع ہے ۔(۱)

”بزوفری“ کا شمارشیخ مفید کے اساتذہ میں ہوتا ہے اور شیخ مفید نے ان سے کثرت سے روایت نقل کی ہے ۔ محدث نوری شیخ مفید کا نام شمار کرتے وقت ان کا نام ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”ابو علی ۔فرزند شیخ طوسی ۔نے امالی میں متعدد مرتبہ اپنے والد شیخ طوسی سے ،انہوں نے شیخ مفید سے ان سے روایت کی ہے اور ان کے لیے مغفرت طلب کی ہے ۔“(۲)

جناب آقابزرگ تہرانی کہتے ہیں:

”ان کی وثاقت و صداقت شیخ مفید کا ان سے کثرت سے نقل کرنا، ان

_______________________

۱۔ معجم البلدان ،یاقوت بن عبد اللہ حموی بغدادی ،ج۱،ص ۴۱۲۔

۲۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،حسین ابن محمد تقی نوری طبرسی ، ج۲۱، ص۲۴۴۔

۳۷

کے لیے طلب مغفرت کرنے سے واضح و آشکار ہے ۔“(۱)

شیخ طوسی تہذیب الاحکام اور استبصار کی مشیخہ میں ان کا نام ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”میں نے جو روایت احمد ابن ادریس سے نقل کی ہے ،اسے شیخ مفید نے ”حسین بن عبید اللہ غضائری “ سے نقل کی ہے کہ دونوں نے ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے روایت نقل کی ہے ۔“(۲)

بے مثال محقق،حجت تاریخ ،جناب آقا بزرگ تہرانی ان کی کتاب کے متعلق بحث کرتے وقت کہتے ہیں :

”کتاب الدعاء ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے ،شیخ مفید کے اساتذہ سے ،کہ شیخ مفید نے ان سے احادیث کو نقل کیا ہے یہ حدیثیں امالی شیخ طوسی میں شیخ مفید کے طریق سے ان سے روایت کی گئی ہےں ۔

پھر کہتے ہیں :

”انہوں نے دعائے ندبہ کو اس کتاب میں ذکر کیا ہے ،محمد ابن ابی قرّہ نے ان سے روایت کی ہے اور محمد بن مشہدی نے اپنی کتاب مزار میں

________________________

۱۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طہرانی ،ج۱،ص ۱۹۴۔

۲۔ تہذیب الاحکام شیخ طوسی ،ج۱۰،ص ۳۵۔ الاستبصار ،ج۴،ص ۳۰۴،(المشیخہ)۔

۳۸

ان سے روایت کی ہے “ ۔(۱)

۲ ۔ ابو الفرج محمد ابن علی ابن یعقوب ابن اسحاق ابن ابی قرّہ قُنّائی

دوسرے مورد اعتماد شخص کہ جنہوں نے دعائے ندبہ کی سند کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے وہ محمد بن علی بن ابی قرّہ ہیں کہ انہوں نے ”کتاب الدعاء“ میں بزوفری کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔

علامہ تہرانی فرماتے ہیں :

”محمد بن مشہدی مزار میں اور سید ابن طاووس نے اقبال اور دوسری کتابوں میں کثرت سے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔ “(۲)

محمد بن ابی قرّہ نجاشی کے اجازہ روّاة میں شمار ہوتے ہیں ۔(۳)

قدمائے اہل رجال میں سے مرحوم نجاشی اپنی کتاب رجال میں کہتے ہیں:

”ابو الفرج ،محمد بن علی بن یعقوب بن اسحاق بن ابی قرّہ قنائی موثق تھے، کثرت سے روایات کو سنا بہت سی کتابیں تالیف کیںمنجملہ ان میں سے یہ ہے : عمل یوم الجمعہ ،عمل الشھور، معجم رجال ابی مفضل اور کتاب تھجّد کہ ان سب کی مجھے خبر دی ہے اور مجھے ان کی روایت نقل کرنے کا اجازہ دیا ہے ۔(۱)

_______________________

۱۔ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۶۶۔

۲۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۶۶۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی (چوتھی صدی ہجری) ص ۲۶۶۔

۳۔ طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی (پانچویں صدی ہجری) ص ۱۸۲۔

۳۹

نجاشی نے ان کا لقب ”قنّائی “ذکر کیا ہے ،لیکن علامہ حلّی نے انہیں کبھی ”قنّائی“ اور کبھی ”قنّابی“ سے تعبیر کیا ہے ۔(۲) اور ان کی وثاقت کو ثابت کیا ہے(۳) اور نمازی علیہ الرحمہ کہتے ہیں:

”تمام اہل رجال کا ان کی وثاقت پر اتفاق ہے ۔“(۴)

۳ ۔ محمد ابن جعفر ابن علی ابن جعفر مشہدی حائری

ابن مشہدی چھٹی صدی ہجری کے ایک جلیل القدر علماء میں شمار ہوتے تھے جو تقریباً ۵۱۰ ھئق میں پیدا ہوئے اور ۵۸۰ ھء ق سے پہلے دنیا سے رحلت کر گئے ۔

صاحب معالم نے اجازہ کبیرمیں ان کے اساتذہ کی مخصوص تعداد کو شمار کیا ہے کہ منجملہ ان میں سے یہ ہیں: ورّام(صاحب مجموعہ ورّام) ، شاذان ابن جبرئیل ،ابن زہرہ، ابن شہر آشوب وغیرہ ۔(۵)

ان کی گراں قدر کتاب بطور یادگار موجود ہے جو مزار کبیر اور مزار ابن مشہدی سے مشہور ہے خوش نصیبی سے اس کے بہت سے خطی نسخے ہمارے زمانے تک محفوظ رہے ہیں :

________________________

۱۔ رجال نجاشی ،ص۳۹۸۔

۲۔ ایضاح الاشتباہ ،حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی)،ص۲۶۶،۲۸۷۔

۳۔ رجال(خلاصہ ) حسن بن یوسف حلی (علامہ حلی) ،ص۱۶۴۔

۴۔ مستدرکات علم رجال الحدیث ،شیخ علی نمازی ،ج۷،ص۲۵۱۔

۵۔ طبقات اعلام الشیعہ ،قرن ششم آغا بزرگ تہرانی ،ص۲۵۲۔

۴۰