قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 310623
ڈاؤنلوڈ: 5326

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310623 / ڈاؤنلوڈ: 5326
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

تو پھر يوسف سے عشق ميں مجھے كيوں ملامت كرتى ہو ؟

اس وقت مصر كى عورتيں پورى بازى ہار چكى تھيں ان كے زخمى ہا تھوں سے خون بہہ رہا تھا پر يشا نى كے عالم ميں وہ بے روح مجسمے كى طرح اپنى جگہ چپكى سى بيٹھى تھيں ان كى حالت كہہ رہى تھى كہ وہ بھى نے زوجہ عزيزسے كچھ كم نہيں ہيں ، كيا اس نے اس مو قع كو غنيمت سمجھا اور كہا :'' يہ ہے وہ شخص جس كے عشق پر تم مجھے طعنے ديتى تھيں ''(۱)

گو يا زوجہ عزيز چاہتى تھى كہ ان سے كہے كہ تم نے تو يوسف كو ايك مر تبہ ديكھا ہے اور يوں اپنے ہوش وحواس گنوا بيٹھى ہو تو پھر مجھے كيو نكر ملا مت كرتى ہو جبكہ ميں صبح وشام اس كے سا تھ اٹھتى بيٹھى ہوں ،زوجہ عزيز نے جو منصو بہ بنايا تھا اس ميں اپنى كا ميابى پر وہ بہت مغرور اور پورى صراحت كے سا تھ اپنے گناہ كا اعترف كيا اور كہا : جى ہاں : ''ميں نے اسے اپنى آرزو پورا كرنے كے لئے دعوت دى تھى ليكن يہ بچا رہا_''(۲)

اس كے بعد بجائے اس كے كہ اپنے گناہ پر اظہا ر ندامت كر تى يا كم از كم مہمانو ں كے سا منے كچھ پردہ پڑا رہنے ديتى اس نے بڑى بے اعتنائي اور سخت انداز ميں كہ جس سے اس كا قطعى ارا دہ ظاہر ہو تا تھا ، صراحت كے سا تھ اعلان كيا :'' اگر اس (يوسف ) نے ميرا حكم نہ ما نا اور ميرے عشق سوزاں كے سامنے سر نہ جھكا يا تو يقينا اسے قيد ميں جانا پڑے گا ''(۳) ''نہ صر ف يہ كہ ميں اسے زندان ميں ڈال دوں گى بلكہ قيد خا نے كے اندر بھى ذليل و خوار ہو گا_''(۴) فطرى امر ہے كہ جب عزيز مصر نے اس واضح خيانت پر اپنى زوجہ سے فقط يہى كہنے پر قنا عت كى كہ'' اپنے گناہ پر استغفار كر'' تو اس كى بيوى رسوائي كى اس منزل تك آپہنچى اصولى طور پر جيسا كہ ہم نے كہا ہے مصر كے فرعون اور عزيزوں كے در بار ميں ايسے مسائل كو ئي نئي بات نہ تھى _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۳۲

(۲)سورہ يوسف ۳۲

(۳)سورہ يوسف ايت ۳۲

(۴)سورہ يوسف آيت۳۲

۲۰۱

اے يوسف(ع) قبول كر لو

بعض نے تو اس مو قع پر ايك تعجب انگيز روايت نقل كى ہے وہ يہ كہ چند زنان مصر جو اس دعوت ميں مو جود تھيں وہ زوجہ عزيز كى حمايت ميں اٹھ كھڑى ہو ئيں اور اسے حق بجا نب قرارديا وہ يوسف كے گرد جمع ہو گئيں اور ہر ايك نے يوسف كو رغبت دلانے كے لئے مختلف بات كى _

ايك نے كہا : اے جوان : يہ اپنے آپ كو بچا نا ، يہ نا زو نخرے آخر كس لئے ؟ كيوں اس عاشق دلدادہ پر رحم نہيں كرتے ؟ اس خيرہ كن جمال دل آرا كو نہيں ديكھتے ؟ كيا تمہارے سينے ميں دل نہيں ہے ؟ كيا تم جوان نہيں ہو ؟ كيا تمہيں عشق وزيبا ئي سے كو ئي رغيبت نہيں اور كيا تم پتھر اور لكڑى كے بنے ہوئے ہو _

دوسرى نے كہا : ميں حيران ہوں چونكہ حسن وعشق كى وجہ سے ميرى سمجھ ميں كچھ نہيں آتا ليكن كيا تم سمجھتے نہيں ہو كہ وہ عزيز مصر اور اس ملك كے صاحب اقتدا ر كى بيوى ہے ؟ كيا تم يہ نہيں سو چتے كہ اس كا دل تمہارے ہا تھ ميں ہو تو يہ سارى حكومت تمہارے قبضے ميں ہو گى اور تم جو مقام چا ہو تمہيں مل جائے گا ؟

تيسرى نے كہا : ميں حير ان ہوں كہ نہ تم اس كے جمال زيبا كى طرف مائل ہو اور نہ اس كے مقام ومال كى طرف ليكن كيا تم يہ بھى نہيں جا نتے كہ وہ ايك خطر ناك انتقام جو عورت ہے اور انتقام لينے كى طاقت بھى پورى طرح اس كے ہاتھ ميں ہے ؟ كيا تمہيں اس كے وحشتنا ك اور تاريك زندان كا كو ئي خوف نہيں ؟ كيا تم اس قيد تنہا ئي كے عالم غربت وبيچا ر گى كے بارے ميں غور وفكر نہيں كرتے ؟

زندان كى تمنا

ايك طرف عزيز كى دھمكى اور ان آلودہ گناہ عور توں كا وسوسہ تھا كہ جو اس وقت دلالى كا كھيل كھيل رہيں تھيں اور دوسرى طرف يوسف كے لئے ايك شديد بحرانى لمحہ تھا ،ہر طرف سے مشكلات كے طوفان نے انہيں گھير ركھا تھا ليكن وہ تو پہلے سے اپنے آپ كو اسلحہ سے آراستہ كئے ہو ئے تھے نور ايمان ' پاكيز گى اور تقوى نے ان كى روح ميں ايك خاص اطمينان پيدا كر ركھا تھا وہ بڑى شجاعت اور عزم سے اپنے موقف پر اڑے

۲۰۲

رہے بغير اس كے كہ وہ ان ہوس باز اور ہو س ران عورتوں سے باتوں ميں الجھتے ،انہوں نے پرور گار كى بارگاہ كا رخ كيا اور اس طرح سے ان دعا كرنے لگے : بارالہا پر ور دگار : ''جس كى طرف يہ عورتيں مجھے دعوت ديتى ہيں اس كى نسبت قيد خانہ اپنى تمام تر سختيوں كے باوجود مجھے زيادہ محب ہے'' _(۱)

اس كے بعد چو نكہ وہ جانتے تھے كہ تمام حالات ميں خصوصاً مشكلات ميں لطف الہى كے سوا كو ئي راہ نجات نہيں كہ جس پر بھر وسہ كيا جائے ، انہوں نے اپنے آپ كو خدا كے سپر د كيا اور اس سے مدد ما نگى اور پكارے: پر ور دگارا :''اگر تو مجھے ان عور توں كے مكر اور خطر ناك منصوبوں سے نہ بچا ئے تو ميرا دل ان كى طرف مائل ہو جائے گا اور ميں جاہلوں ميں سے ہو جائوں ''(۲)

خدا وندا : ميں تيرے فرمان كا احترام كرتے ہوئے اور اپنى پاكدامنى كى حفاظت كرتے ہو ئے اس وحشت ناك قيد خا نے كا استقبال كرتا ہوں وہ قيد خانہ كہ جس ميں ميرى روح آزاد ہے اور ميرا دامن پاك ہے اس كے بدلے ميں اس ظاہر ى آزادى كوٹھوكر مارتا ہوں كہ جس ميں ميرى روح كو زندا ن ہو س نے قيد كرركھا ہو اور جو ميرے دامن كو آلودہ كرسكتى ہے _ خدا يا : ميرى مدد فرما ، مجھے قوت بخش ،اور ميرى عقل ،ايمان اور تقوى كى طاقت ميں اضافہ فر ماتا كہ ميں ان شيطانى وسو سوں پر كا ميا بى حاصل كروں _

اور چو نكہ خداوندعالم كا ہميشہ سے وعدہ ہے كہ وہ مخلص مجاہد ين كى ( چاہے وہ نفس كے خلاف برسر پيكا ر ہوں يا ظاہرى دشمن كے خلاف ) مدد كرے گا ، اس نے يوسف كو اس عالم ميں تنہا نہ چھوڑا حق تعالى كا لطف وكرم اس كى مدد كو آگے بڑھا، جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' اس كے پروردگا ر نے اس كى اس مخلصا نہ دعا كو قبول كيا، ان كے مكر اور سازشوں كو پلٹا ديا،كيو نكہ وہ سننے اور جاننے والا ہے_''( ۳)

وہ بندوں كى دعا بھى سنتا ہے اور ان كے اندر ونى اسرار سے بھى آگاہ ہے اور انہيں مشكلات سے بچا نے كى راہ سے بھى واقف ہے _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۳۳

(۲)سورہ يوسف ۳۳

(۳)سورہ يوسف ۳۴

۲۰۳

بے گنا ہى كے پاداش ميں قيد

قصر عزيز ميں يوسف كى موجود گى ميں زنان مصر كى حيران كن محفل اس شور وغو غا كے عالم ميں تمام ہوئي ،فطرى بات تھى كہ يہ خبر عزيز كے كان تك پہنچ گئي ان تمام واقعات سے واضح ہو گيا كہ يوسف كوئي معمولى انسان نہيں ہے اور اس قدر پاكيزہ ہے كہ كوئي طاقت اسے گنا ہ پر ابھار نہيں سكتى مختلف حوالوں سے اس كى پاكيزگى كى نشا نيا ں واضح ہوگئيں _

يوسف(ع) كى قميص كا پيچھے سے پھٹا ہو نا ، زنان مصر كے وسوسے كے مقابلے ميں استقامت كا مظاہرہ كرنا ، قيد خانے ميں جانے كے لئے آمادہ ہونااور زوجہ عزيز كى طرف سے قيد اور دردناك عذاب كى دھمكيوں كے سامنے سر نہ جھكا نا يہ سب اس كى پاكيز گى كى دليليں تھيں يہ ايسے دلائل تھے كہ كوئي شخص نہ اسے چھپاسكتا تھا نہ ان كا انكار كر سكتا تھا ان كا لازمى نتيجہ زوجہ عزيز مصر كى نا پا كى اور جرم تھا يہ جرم ثابت ہو نے كے بعد عوام ميں خاندان عزيز كى جنسى حوالے سے رسوائي كا خوف بڑھ رہا تھا عزيز مصر اور اس كے مشيروں كو اس كے لئے صرف يہى چارہ دكھا ئي ديا كہ يوسف كو منظر سے ہٹا ديا جا ئے ، اس طرح سے كہ لوگ اسے اور اس كے نام كوبھول جائيں اس كے لئے ان كى نظر ميں بہتر ين راستہ اسے تاريك قيد خانے ميں بھيجنا تھا كہ جسے يوسف كو بھلا بھى ديا جائے گا اور وہ يہ بھى سمجھيں گے كہ اصلى مجرم يوسف تھا اسى لئے قرآن كہتا ہے :

''جب انہوں نے ( يوسف كى پا كيز گى كى ) نشا نيا ں ديكھ ليں تو پختہ ارادہ كرليا كہ اسے ايك مدت تك قيد ميں ڈال دياجائے ''_(۱)

پہلے اس كے بارے ميں ان كا كو ئي ارادہ نہ تھا اور پہلى مر تبہ زوجہ عزيز نے يہ بات احتمال كے طور پر پيش كى تھى ، بہر حال اس طرح يوسف پاكدامنى كے گناہ ميں قيد خانے ميں پہنچ گئے اور يہ پہلى مر تبہ نہ تھا كہ ايك قابل اور لائق انسان پاكيز گى كے جرم ميں زندان ميں گيا _

____________________

(۱)سورہ يوسف ۳۵

۲۰۴

زندان كے واقعات

''يوسف كے ساتھ زندان ميں داخل ہو نے والوں ميں دو جوان بھى تھے'' _(۱)

جب انسان كسى معمول كے طريقے سے خبر وں تك رسائي حاصل نہ كر سكے تو اس كے لئے دوسرے احساسات كو استعمال كرتا ہے تاكہ حوادث كا اندازہ لگا سكے، خواب بھى اس مقصد كے لئے كا ر آمد ہو سكتا ہے _

اسى بنا ء پر دونوں جوان كہ جن كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ ايك بادشا ہ كے گھر مشروبات پر ما مور تھا اور دوسرا باورچى خا نے كا كنٹرولر دشمنوں كى چغلخورى اور بادشاہ كو زہر دينے كے الزام ميں قيد تھا ، ايك روز يوسف كے پاس آئے دونوں نے اپنا گزشتہ شب كا خواب سنا يا جو كہ ان كے لئے عجيب تھا ايك نے كہا :

'' ميں نے خواب ميں ديكھا ہے كہ شراب بنا نے كے لئے انگور نچوڑ رہا ہوں _''(۲)

''دوسرے نے كہا كہ ميں نے خواب ميں ديكھا ہے كہ ميں نے كچھ روٹيا ں سر پر اٹھا ركھى ہيں اور آسمان كے پرندے آتے ہيں اور ان ميں سے كھا تے ہيں _''(۳)

اس كے بعد انہوں نے مزيد كہا :

'' ہميں ہمارے خواب كى تعبير بتائو ، كيو نكہ ہم ديكھ رہے ہيں كہ تم نيكو كاروں ميں سے ہو_''(۴)

قيد خانہ يا مر كز تربيت

حضرت يوسف نے قيد خانے ميں آتے ہى اپنے نيك اطوار ، حسن اخلاق اور قيديوں كى دلجوئي ، خدمت اور بيمار وں كى عيادت سے يہ ظاہر كر ديا تھا كہ وہ ايك نيك اور گرہ كشا انسان ہيں اسى لئے قيدى مشكلات ميں انہى كى پنا ہ لينے تھے اور ان سے مدد ما نگتے تھے _

____________________

(۱)سورہ يوسف ۳۶

(۲)سورہ يوسف ۳۶

(۳)سورہ يوسف آيت ۳۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۳۶

۲۰۵

بہر حال وہ يوسف كہ جو قيديوں كى ہدايت اور راہنما ئي كا كو ئي مو قع ہاتھ سے نہ جانے ديتے تھے انہوں نے ان دو قيد يوں كى طرف سے تعبير خواب كے لئے رجو ع كر نے كو غنيمت جا نا اور اس بہانے سے ايسے اہم حقا ئق بيا ن كئے جو ان كے تعبير خواب سے متعلق اپنى آگاہى كے بارے ميں كہ جوان دو قيديوں كے لئے بہت اہميت ركھتے تھے ، اور تمام انسانوں كے لئے راستہ كھو لنے والے تھے آپ نے پہلے تو ان كا اعتماد حاصل كرنے كے لئے ان سے كہا : تمہارے كھا نے كا را شن آنے سے پہلے وہ ان كے خواب كى تعبير بتاديں گے_''(۱)

اس كے بعد با ايمان اور خدا پر ست يوسف كہ جن كے وجود كى گہرائيوں ميں تو حيد پورى وسعت سے جڑپكڑ چكى تھى ، نے يہ واضح كرنے كے لئے كہ امر الہى كے بغير كو ئي چيز حقيقت كا روپ اختيار نہيں كر تى ، اپنى بات كو اسى طرح سے جارى ركھا :''تعبير خواب كے متعلق ميرا يہ علم ودا نش ان امور ميں سے ہے كہ جن كى تعليم مجھے مير ے پر وردگا نے دى ہے''(۲)

نيز اس بناء پر كہ وہ يہ خيال نہ كريں كہ خدا كو ئي چيز بغير كسى بنياد كے بخش ديتا ہے ، آپ نے مزيد فرمايا: ''ميں نے ان لوگوں كا دين ومذہب ترك كرركھا ہے كہ جو خدا پر ايمان نہيں ركھتے اور آخرت كے منكر ہيں اور اس نور ايمان اور تقوى نے مجھے اس نعمت كے لائق بنايا ہے''(۳)

اس قوم وملت سے مصر كے بت پر ست لو گ يا كنعا ن كے بت پرست مراد ہيں مجھے ايسے عقائد سے الگ ہى ہو نا چا ہيئےيو نكہ يہ انسان كى پاك فطرت كے خلاف ہيں ،علاوہ ازيں ميں نے ايسے خاندان ميں پر ورش پائي ہے كہ جو وحى ونبوت كا خاندان ہے _'' ميں نے اپنے آبا ء واجداد اور بزرگوں ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) كے دين كى پيروى كى ہے_''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳۷

(۲)سورہ يوسف آيت ۳۷

(۳) سورہ يوسف آيت ۳۷

(۴)سورہ يوسف آيت ۳۸

۲۰۶

شايد يہ پہلا مو قعہ تھا كہ حضرت يوسف نے قيد يوں سے اپنا تعارف كروايا تا كہ انہيں معلوم ہو جا ئے كہ وہ وحى ونبوت كے گھر انے سے ہيں اور ديگر بہت سے قيديوں كى طرح كہ جو طا غوتى نظا موں ميں قيد ہوتے ہيں ، بے گناہ زندان ميں ڈالے گئے ہيں _

قيديوں كى تعبير خواب

جس وقت حضرت يوسف نے گذ شتہ گفتگو كے بعد ان قيد يو ں كے دلوں كو حقيقت تو حيد قبول كرنے كے لئے آمادہ كرليا تو ان كى طرف روئے سخن كرتے ہوئے كہا :'' اے ميرے قيدى سا تھيو : كيا منتشر خدا اور متفرق معبود بہتر ہيں يا يگا نہ ويكتا اور قہار اور ہر چيز پر قدر ت ركھنے والا خدا''(۱)

گو يا يوسف انہيں سمجھا نا چا ہتے تھے كہ كيوں تم فقط عالم خواب ميں آزادى كو ديكھتے ہو بيدارى ميں كيوں نہيں ديكھتے ، آخر ايسا كيوں ہے ؟ كيا اس كا سبب تمہارا انتشار ، تفر قہ بازى اور نفاق نہيں كہ جس كا سر چشمہ شرك ، بت پرستى اور ارباب متفر ق ہيں جن كى وجہ سے ظالم طاغوت تم پر غالب آگئے ہيں تم لوگ پر چم توحيد كے تلے كيوں جمع نہيں ہو تے اور ''الله واحد قھار ،، كا دامن پر ستش كيوں نہيں تھا متے تا كہ ان خودغرض ستمگروں كو اپنے معاشرے سے نكال باہر كرو كہ جو تمہيں بے گناہ اور صرف الزام كى بنيا د پر قيد ميں ڈال ديتے ہيں _

اپنے دو قيدى سا تھيوں كو رہبر ى وارشاد اور انہيں حقيقت تو حيد كى طرف مختلف پہلوئوں كے حوالے سے دعوت دينے كے بعد حضرت يوسف عليہ السلام نے ان كے خواب كى تعبير بيان كى كيو نكہ وہ دونوں اسى مقصد كے لئے آپ كے پاس آئے تھے اور آپ نے بھى انہيں وعدہ ديا تھا كہ انہيں ان كے خوابوں كى تعبير بتائيں گے ليكن آپ نے مو قع غنيمت جا نا اور تو حيد كے بارے ميں اور شرك كے خلا ف واضح اور زنداہ دلا ئل كے سا تھ گفتگو كي_

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۳۹

۲۰۷

اس كے بعد آپ نے ان دو قيدى سا تھيوں كى طرف رخ كر كے كہا :'' اے ميرے قيدى سا تھيوں : تم ميں سے ايك آزاد ہو جائے گا اور اپنے ''ارباب '' كو شراب پلانے پر ما مور ہوگا_''(۱)

'' ليكن دوسرا سولى پر لٹكا يا جا ئے گا اور اتنى دير تك اس كى لاش لٹكائي جائے گى كہ آسمانى پر ند ے اس كے سر كو نوچ نوچ كر كھا ئيں گے_ ''(۲)

ان دونوں ميں سے ايك لٹكا يا جا ئے گا ليكن حضرت يوسف نے نہ چا ہا كہ يہ نا گوار خبر اس سے زيادہ صراحت سے بيان كريں لہذا آپ نے 'تم ميں سے ايك '' كہہ كر گفتگو كى اس كے بعد اپنى بات كى تا ئيد كے لئے مزيد كہا: ''يہ معاملہ جس كے بارے ميں تم نے مجھ سے سوال كيا ہے اور مسئلہ پو چھا ہے حتمى اور قطعى ہے_''(۳)

يہ اس طرف اشارہ تھا كہ يہ خواب كى كو ئي معمولى سى تعبير نہيں ہے بلكہ ايك غيبى خبر ہے جسے ميں نے الہى تعليم سے حاصل كيا ہے لہذا اس مقام پر تردد وشك اور چون وچر ا كى كو ئي گنجائش نہيں _

جب دوسرے شخص نے يہ نا گوار خبر سنى تو وہ اپنى بات كى تكذيب كرنے لگا اور كہنے لگا : ميں نے جھوٹ بولا تھا ' ميں نے ايسا كو ئي خواب نہيں ديكھا تھا ' ميں نے مذاق كيا تھا اس كا خيا ل تھا كہ اگر وہ اپنے خواب كى ترديد كر دے گا تو اس كى سر نوشت تبديل ہو جائے گى لہذا حضر ت يوسف نے سا تھ ہى يہ بات كہہ دى كہ جس چيز كے بارے ميں تم نے دريا فت كيا وہ نا قابل تغير ہے _

يہ احتمال بھى ہے كہ حضرت يوسف كو اپنى تعبير خواب پر اس قدر يقين تھا كہ انہوں نے يہ جملہ تا كيد كے طور پر كہا _

بادشاہ كے سا منے مجھے ياد كرنا

ليكن جس وقت آپ نے محسوس كيا كہ يہ دونوں عنقريب ان سے جدا ہو جائيں گے لہذا ہو سكتا ہے

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۱

(۲)سورہ يوسف آيت ۴۱

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۱

۲۰۸

كہ ان كے ذريعے آزادى كا كو ئي در يچہ كھل جائے اور روشنى كى كوئي كرن پھو ٹے اور جس گناہ كى آپ كى طرف نسبت دى گئي تھى اس سے اپنے آپ كو بے گناہ ثا بت كريں ''آپ نے ان دو قيدى ساتھيوں ميں سے جس كے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ آزاد ہوں گے، اس سے فرمائش كى كہ اپنے مالك وصاحب اختيار ( بادشاہ ) كے پاس ميرے متعلق بات كرنا_ ''(۱) تاكہ وہ تحقيق كرے اور ميرى بے گناہى ثابت ہو جائے'' _

ليكن اس فرامو ش كا رغلام نے يوسف كا مسئلہ با لكل بھلا ديا جيسا كہ كم ظرف لوگوں كا طريقہ ہے كہ جب نعمت حاصل كر ليتے ہيں تو صاحب نعمت كو فراموش كر ديتے ہيں البتہ قرآن نے بات يوں بيان كى ہے : ''جب وہ اپنے مالك كے پاس پہنچا تو شيطان نے اس كے دل سے يوسف كى ياد بھلا دي_''(۲)

اور اس طرح يوسف فراموش كرديئے گئے ''اور چند سال مزيد قيد خانے ميں رہے _'' ( ۳)(۴)

پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے ايك روايت ميں ہے كہ آپ نے فرمايا :مجھے اپنے بھائي يوسف پر تعجب ہو تا ہے كہ انہوں نے كيونكر خالق كے بجائے مخلوق كى پناہ لى اور اس سے مدد طلب كى _

ايك اور روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے :

اس واقعے كے بعد جبرئيل يوسف (ع) كے پاس آئے اور كہا : كس نے تمہيں سب لو گوں سے زيا دہ حسين بنا يا ؟ كہنے لگے : ميرے پرور دگار نے _كہا : كس نے قافلے كو تمہارى طرف بھيجا تا كہ وہ تمہيں كنويں سے نجات دے ؟

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۲

(۲)سورہ يوسف آيت ۴۲

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۲

(۴)البتہ زندان يا ديگر مشكلات سے نجات كے لئے ايسى كوشش عام افراد كے لئے كوئي اہم مسئلہ نہيں ہے اور طبيعى اسباب سے كام لينے كے ضمن ميں ہے ليكن ايسے افراد كے لئے جو نمونہ ہوں اور ايمان و توحيد كى بلند سطح پر فائز ہوں ان كے لئے اشكال سے خالى نہيں ہو سكتى ،شايد اسى بناء پر خدا نے يوسف كے اس ''ترك اولى ''كو نظر انداز نہيں كيا اور اس كى وجہ سے ان كى قيد چند سال مزيد جارى رہي

۲۰۹

بولے : ميرے پرور دگار نے _

كہا : كس نے مصر كى عور توں كے مكر وفريب سے تمہيں دور ركھا ؟

كہنے لگے : ميرے پر ور د گار نے _

اس پر جبرئيل نے كہا : تمہارا پرور دگار كہہ رہا ہے كس چيز كے سبب تم اپنى حاجت مخلوق كے پاس لے گئے ہو اور ميرے پاس نہيں لائے ہو لہذاتمہيں چند سال اورزندان ميں رہنا چاہئے _

باد شاہ مصر كا خواب

حضرت يوسف عليہ السلام سات برس تك قيد خانے ميں تنگى وسختى ميں ايك فراموش شدہ انسان كى طرح رہے وہ خود سازى ' قيديوں كو ارشاد وہدايت ' بيماروں كى عيادت اور در د مند وں كى دلجو ئي ميں مصر وف رہے يہا ں تك كہ ايك ظاہر اً چھوٹا سا واقعہ رونما ہوا جس نے نہ صرف ان كى بلكہ مصر اور اس كے اطراف ميں رہنے والوں كى سر نوشت كو بدل كے ركھ ديا _

بادشاہ مصر كہ جس كا نام كہا جاتا ہے كہ وليدبن ريان تھا ( اور عزيز مصر اس كا وزير تھا ) اس نے ايك خواب ديكھا يہ ظاہر ا ًايك پريشا ن كن خواب تھا،دن چڑھا تو اس نے خواب كى تعبير بتانے والوں اور اپنے ساتھيوں كو جمع كيا اور كہنے لگا ميں نے خوب ميں ديكھا ہے كہ'' سات كمزورسى اور سات مو ٹى تازى گائيں ہيں اور دبلى پتلى گا ئيں ان پر حملہ آور ہو ئي ہيں اور انہيں كھا رہى ہيں نيز سات ہرے بھرے اور سات خشك شدہ گچھے ہيں اور خشك شدہ گچھے سبزگچھوں پر لپٹ گئے ہيں اور انہيں ختم كرديا ہے''( ۱)

اس كے بعد اس نے ان كى طرف روئے سخن كيا اور كہنے لگا : ''اے قوم كے سردارو : ميرے خواب كے بارے ميں اپنا نقطئہ نظر بيان كرو اگر تم خواب كى تعبير بتا سكتے ہو ''(۲) ليكن سلطان كے حواريوں نے فورا ًكہا كہ :يہ خواب پريشان ہيں اور ہم لوگ ايسے خوابوں كى تعبير نہيں جانتے ''( ۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۳

(۲) سورہ يوسف آيت ۴۴

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۴

۲۱۰

يہاں يہ سوال پيش آتا ہے كہ انہوں نے كس طرح جرا ت كى 'شاہ مصر كے سا منے اس رائے كا اظہار كريں كہ وہ اسے پريشان خواب ديكھنے كا الزام ديں ،جبكہ ان حاشيہ نشينوں كا معمول يہ ہے كہ وہ ان كى ہر چھو ٹى بڑى اور بے معنى حركت كے لئے كو ئي فلسفہ گھڑتے ہيں اور بڑى معنى خيز تفسير يں كرتے ہيں ،يہ ہو سكتا ہے كہ يہ اس لئے ہو كہ انہوں نے ديكھا تھا كہ بادشاہ يہ خواب ديكھ كر پريشان ومضطرب ہے اور وہ پريشانى ميں حق بجانب بھى تھا كيو نكہ اس نے خواب ميں ديكھا تھا كہ كمزور اور لاغر گائيں تو انا اور موٹى تازى گائوں پر حملہ آور ہوتى ہيں اور انہيں كھا رہى ہيں اور يہى صورت خشك گچھوں كى تھى ،كيا يہ اس بات كى دليل ہے كہ كمزور لوگ اچانك اس كے ہاتھ سے حكو مت چھين ليں گے لہذا انہوں نے بادشاہ كے دل كا اضطراب دور كرنے كے لئے اس سے كہا كہ خواب كسى چيز كى دليل نہيں ہو تے _

بادشاہ كے ساقى نے جناب يوسف كو ياد كيا

اس مو قع پر بادشاہ كا سا قى كہ جو چند سال قبل قيد خانے سے آزاد ہو ا تھا ' اسے قيد خانے كا خيال آيا اسے ياد آيا كہ يوسف اس خواب كى تعبير بيان كر سكتے ہيں اس نے بادشاہ كے حاشيہ نشينوں كى طرف رخ كر كے كہا:'' ميں تمہيں اس خواب كى تعبير بتا سكتا ہو ں مجھے اس كا م كے ماہر استاد كے پاس بھيجو كہ جو زندان ميں پڑا ہے تاكہ تمہيں بالكل سچ خبر لاكر دوں ''(۱)

جى ہاں اس گوشئہ زنداں ميں ايك روشن ضمير ' صاحب ايمان اور پاك دل انسان زند گى كے دن گزار ہا ہے كہ جس كا دل، حوادث آئندہ كا آئينہ ہے ، وہ ہے كہ جو اس راز سے پردہ اٹھا سكتا ہے اور اس خواب كى تعبير بيان كر سكتا ہے _

اس كى اس بات نے محفل كى كيفيت ہى بدل دى ،سب كى آنكھيں سا قى پر لگ گئيں آخر كار اسے اجازت ملى اور حكم ملا كہ جتنى جلدى ہو سكے اس كام كے لئے نكل كھڑا ہوا اور جلد نتيجہ پيش كر ے ساقى زندان ميں

____________________

(۱) سورہ يوسف ۴۵

۲۱۱

آيا اور اپنے پرانے دوست يوسف(ع) كے پاس پہنچا، وہى دوست جس نے بڑى بے وفائي كى تھى ليكن اس كى عظمت سے تو قع نہيں كہ وہ د فتر شكا يت كھول بيٹھے _اس نے حضرت يوسف سے مخاطب ہو تے ہو ئے كہا : ''يوسف اے سرا پا صداقتاس خواب كے بارے ميں تم كيا كہتے ہو كہ كسى نے ديكھا ہے كہ سات لا غر گا ئيں مو ٹى تازى كو كھا رہى ہيں نيز سات ہر ے گچھے ہيں اور سات خشك شدہ ہيں ( كہ جن ميں سے دوسرا پہلے سے لپٹ گيا ہے اور اسے نابود كر ديا ہے '')'' شايد ميں اس طرح ان لوگوں كے پاس لو ٹ كے جائوں تو وہ اس خواب كے اسرار سے آگاہ ہو سكيں ''_(۱)

بہر حال حضرت يوسف عليہ السلام نے بغير كسى شرط كے اور بغير كسى صلہ كے تقاضے كے فوراً خواب كى واضح اور نہا يت اعلى تعبير بيان كى اس ميں آپ نے كچھ چھپا ئے بغير در پيش تاريك مستقبل كے بارے ميں بتايا ساتھ ہى اس كے لئے راہنما ئي كردى اور ايك مر تب پروگرام بتا ديا آپ نے كہا:''سات سال پيہم محنت سے كا شت كا رى كرو كيونكہ ان سات برسوں ميں بارش خو ب ہو گى ليكن جو فصل كا ٹو اسے خوشوں سميت انباروں كى صورت ميں جمع كر لو سوائے كھا نے كے لئے جو تھوڑ ى سى مقدار ضرورى ہو'' _(۲)

ليكن جان لوكہ ان سات برسوں كے بعد سات برس خشك سالى ، بارش كى كمى اور سختى كے آئيں گے كہ جن ميں صرف اس ذخيرے سے استفا دہ كرنا ہو گا جو گزشتہ سالوں ميں تمام ذخير،كيا ہوگا ورنہ ہلاك ہوجائوگے البتہ خيال رہے كہ خشكى اور قحط كے ان سات سالو ں ميں تمام ذخيرہ شدہ گندم نہ كھا جا نا ''بلكہ كچھ مقدار بيج كے طور پر آئندہ كا شت كيلئے ركھ چھوڑنا كيونكہ بعد كا سال اچھا ہو گا''( ۳)

اگر خشك سالى اور سختى كے يہ سال تم سو چے سمجھے پر گرام اور پلان كے تحت ايك ايك كركے گزار لو تو پھر تمہيں كوئي خطرہ نہيں ''اس كے بعد ايك ايسا سال آئے گا كہ خوب باران رحمت ہو گى اور لوگ اس آسمانى نعمت سے خوب بہرہ مند ہوں گے ''( ۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۶

(۲)سورہ يوسف ۴۷

(۳)سورہ يوسف آيت ۴۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۴۸

۲۱۲

اس سے نہ صرف زراعت اور اناج كا مسئلہ حل ہو جا ئے گا بلكہ رس دار پھل اور روغن داردا نے بھى فراواں ہو ں گے ''كہ لوگ جن سے رس اور روغن حاصل كريں گے ''( ۱)

مصر كا قيدى يا بہترين رہبر

حضرت يوسف عليہ السلام نے خواب كى جو تعبير بيان كى وہ كس قدر جچى تلى تھى قديمى كہا نيوں ميں گائے سال كا سنبل سمجھى جا تى تھى اور اس كا توانا ہو نا فراواں نعمت كى دليل ہے جبكہ لاغر ہو نا مشكلات اور سختى كى دليل ہے سات لاغر گا ئيں سات تو انا گا ئو ں پر حملہ آور ہو ئيں تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ سختى كے سات سالوں ميں قبل كے سالوں كے ذخائر سے فائدہ اٹھا نا چاہئے اور سات خشك شدہ خوشہ يا گچھے جو سات سبز خوشوں سے لپٹ گئے تو يہ فراوانى نعمت اور خشك سالى كے دو مختلف ادوار كے لئے ايك اور دليل تھى اس ميں اس نكتہ كا اضا فہ تھا كہ اناج كو خو شوں كى شكل ميں ذخيرہ كيا جانا چا ہئے تاكہ جلد خراب نہ ہو اور سات برس تك چل سكے _ نيز يہ كہ لاغر گا ئيں اور خشك شدہ خو شوں كے سات سے زيادہ نہ تھے يہ امر اس بات كى نشاندہى كر تا ہے كہ ان سخت سات سالوں كے بعد يہ كيفيت ختم ہو جا ئے گى اور فطرى طور پر بيج كى فكربھى كر نا چاہئے اور ذخيرے كا كچھ حصہ اس كے لئے محفوظ ركھنا چا ہئے_

حضرت يوسف(ع) درحقيقت كہ عام تعبير خواب بيان كرنے والے شخص نہ تھے بلكہ ايك رہبر تھے كہ جو گوشئہ زندان ميں بيٹھے ايك ملك كے مستقبل كے لئے منصوبہ بندى كر رہے تھے اور انہيں كم از كم پند رہ برس كے لئے مختلف مراحل پر مشتمل ايك پلان دے رہے تھے اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ يہ تعبير جو ائندہ كے لئے منصوبہ بندى اور راہنمائي پر مشتمل تھي;نے جابر بادشاہ اور اس كے حواريوں كو ہلا كے ركھ ديا اور اہل مصر كے ہلاكت خيز قحط سے نجات كا سبب بنى اور اسى كے سبب حضرت يوسف كو زندا ن سے اور حكومت كو بھى خود غرض اور خود سر لوگوں سے نجات مل گئي _

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۴۹

۲۱۳

يوسف ہر الزام سے برى ہو گئے

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام نے شا ہ مصر كے خواب كى جو تعبير بيان كى وہ اس قدر جچى تلى اور منطقى تھى كہ اس نے بادشاہ اور اس كے حاشيہ نشينوں كو جذب كرليا بادشاہ نے ديكھا كہ ايك غير معروف سے قيدى نے كسى مفاد كى تو قع كے بغير اس خواب كى مشكل تعبير كس بہتر ين طريقہ سے بيان كر دى ہے اور ساتھ ہى آئندہ كے لئے نہايت جچا تلا پر وگرام بھى پيش كر ديا ہے _ اجمالا ًاس نے سمجھ ليا كہ يہ كو ئي غلام قيدى نہيں ہے بلكہ غير معمولى شخصيت ہے كہ جو كسى پر اسرار ماجر ے كے باعث قيد ميں ڈالا گيا ہے لہذا اسے اس كے ديدار كا اشتياق پيدا ہوا ليكن ايسا نہيں كہ سلطنت كا غرور ايك طرف ركھ كر وہ ديد ار يوسف كے لئے چل پڑے بلكہ'' اس نے حكم ديا كہ اسے ميرے پاس لے آئو ''(۱)

ليكن جب اس كا فرستا دہ يوسف كے پاس آيا تو بجا ئے اس كے كہ يوسف اس خوشى ميں پھولے نہ سماتے كہ سالہا سال قيدخانے كے گڑھے ميں رہنے كے بعد اب نسيم آزادى چل رہى ہے 'آپ نے بادشاہ كے نمائندہ كو منفى جواب ديا اور كہا كہ ميں اس وقت تك زندان سے باہر نہيں آئوں گا،''جب تك كہ تو اپنے مالك كے پاس جاكر اس سے يہ نہ پوچھے كہ وہ عورتيں جنھوں نے تيرے وزير( عزيز مصر كے محل ميں اپنے ہاتھ كا ٹ لئے تھے ان كاما جرا كيا تھا'' _(۲)

وہ نہيں چاہتے تھے كہ ايسے ہى جيل سے رہا ہو جا ئيں اور شاہ كى طرف سے معين كئے گئے ايك مجرم يا كم از كم ايك ملزم كى صورت ميں زندگى بسر كريں وہ چاہتے تھے كہ سب سے پہلے ان كى قيد كے سبب كے بارے ميں تحقيق ہو اور ان كى بے گناہى اور پاكدامنى پورى طرح درجہء ثبوت كو پہنچ جائے اور برائت كے بعد وہ سر بلندى سے آزاد ہوں اور ضمناً حكومت مصر كى مشينرى كى آلود گى بھى ثابت ہو جا ئے اور يہ ظاہر ہو جا ئے كہ اس كے وزير كے در بار ميں كيا گزرتى ہے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۵۰

(۲)سورہ يوسف آيت ۵۰

۲۱۴

جى ہاں : وہ اپنے عزو شرف كو آزادى سے زيادہ اہميت ديتے تھے اور يہى ہے حر يت پسند وں كا راستہ ہے_

يہ امر جاذب تو جہ ہے كہ حضرت يوسف نے اپنى گفتگو ميں اس قدر عظمت كا مظاہر ہ كيا كہ يہاں تك تيار نہ ہو ئے كہ عزيز مصر كى بيوى كا نام ليں كہ جو ان پر الزام لگا نے اور جيل بھجنے كا اصلى عامل تھى بلكہ مجمو عى طور پر زنان مصر كے ايك گروہ كى طرف اشارہ كيا كہ جو اس ما جرا ميں دخيل تھيں _

اس كے بعد آپ نے مزيد كہا : اگر چہ اہل مصر نہ جانيں اور يہا ں تك در بار سلطنت بھى بے خبر ہو كہ مجھے قيد كئے جا نے كا منصوبہ كيا تھا اور كن افراد كى وجہ سے پيش آيا ليكن '' ميرا پر وردگار ان كے مكر وفريب اور منصوبہ سے آگاہ ہے ''(۱)

شاہ كا خاص نما ئندہ اس كے پاس لوٹ آيا اور يوسف كى تجويز كہ جس سے اعلى ظرفى اور بلند نظرى جھلكتى تھى ، بادشاہ نے سنى تو وہ يوسف كى بزرگوارى سے بہت زيا دہ متا ثر ہوا لہذا اس نے فوراً اس ما جر ے ميں شريك عورتوں كو بلا بھيجا وہ حاضر ہو ئيں تو ان سے مخا طب ہو كر كہنے لگا : ''بتائو ميں ديكھوں كہ جب تم نے يوسف سے اپنى خواہش پورا كرنے كا تقاضا كيا تو اصل معا ملہ كيا تھا ''(۲)

سچ كہنا ، حقيقت بيان كرنا كہ كيا تم نے اس ميں كو ئي عيب تقصير اور گنا ہ ديكھا ہے ؟

ان كے خوابيدہ ضمير اس سوال پر اچا نك بيدار ہو گئے'' اور سب نے متفقہ طورپر يوسف كى پاكدا منى كى گواہى دى اور كہا : منزہ ہے خدا ' ہم نے يوسف ميں كو ئي گنا ہ نہيں ديكھا ''(۳)

زليخا كا اعتراف

عزيز مصر كى بيوى وہاں مو جو د تھى بادشاہ اور زنان مصر كى باتيں سن رہى تھى بغير اس كے كہ كوئي اس سے سوال كر ے، ضبط نہ كر سكى ' اس نے محسوس كيا كہ اب وہ مو قعہ آگيا ہے كہ ضمير كى سالہا سال كى شرمند گى كي

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۰

(۲)سورہ يوسف آيت ۵۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۵۱

۲۱۵

يوسف كى پاكيز گى اور اپنى گنہگارى كے ذريعہ تلافى كرے ،خصوصاًجب كہ اس نے يوسف(ع) كى بے نظير عظمت كو اس پيغام ميں ديكھ ليا تھا جوانہوں نے بادشا ہ كو بھيجا تھا ديكھ ليا كہ اپنے پيغام ميں انہوں نے اس كے بارے ميں تھوڑى سى بات بھى نہيں كى اور اشارتا ًصرف زنان مصر كے بارے ميں بات كى ہے اس كے اندار گويا ايك ہلچل مچ گئي ''وہ چيخ اٹھى : اب حق آشكارہو گيا ہے ميں نے اس سے خواہش پورى كرنے كا تقا ضا كيا تھا وہ سچا ہے''_(۱) اور ميں نے اس كے بارے ميں اگر كوئي بات كى ہے تو وہ جھوٹ تھى ، بالكل جھوٹ تھي''(۲)

زوجہ عزيز نے اپنى بات جارى ركھتے ہو ئے كہا : ميں نے يہ صريح اعتراف اس بناء پر كيا ہے ''تا كہ يوسف كو معلوم ہو جائے كہ ميں نے اس كى غيبت ميں اس كے بارے ميں خيانت نہيں كى ''( ۳)

كيونكہ اتنى مدت ميں اور اس سے حاصل ہو نے والے تجربات كے بعد ميں نے سمجھ ليا ہے'' كہ خدا خيانت كر نے والوں كے مكر و فريب كوچلنے نہيں ديتا ''(۴)

در حقيقت(۵) اس نے يوسف كى پاكيز گى اور اپنى گنہگار ى كے صر يح اعتراف كے لئے دو دليليں قائم كيں : پہلى يہ كہ اس كا ضميراور احتما لا يوسف سے اس باقى ما ندہ لگا ئو اسے اجا زت نہيں ديتا اور اسى لئے محلوں كى پر خواب زندگى كے پر دے آہستہ آہستہ اس كى آنكھوں كے سا منے سے ہٹ گئے اور وہ زندگى كى حقيقتوں كو سمجھنے لگى كے خصو صا عشق ميں شكست نے اس كے افسانوى غرور پر جو ضرب لگا ئي اس سے اس كى نگاہ حقيقت اور كھل گئي _

اس حالت ميں تعجب كى بات نہيں كہ وہ اس طرح كا صريح اعتراف كر ے_ اس نے اپنى بات جارى ركھتے ہوئے مزيد كہا : ''ميں ہر گز اپنے نفس كى برائت كا اعلان نہيں كر تى كيو نكہ ميں جانتى ہوں كہ يہ نفس امارہ مجھے برائيوں كا حكم ديتا ہے،مگر يہ كہ ميرا پروردگار رحم كرے ''_(۶)

____________________

(۱)(۲)سورہ يوسف آيت ۵۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۵۲

(۴)سورہ يوسف آيت ۵۲

(۵)اگر چہ يہ جملہ عزيز مصر كى بيوى كا ہے ' جيسا كہ ظاہر عبارت كا تقاضا ہے

(۶)سورہ يوسف آيت ۳۵

۲۱۶

اور اس كى حفاظت اور نصرت ومدد كے باعث بچ جائوں (۱ ) بہر حال اس گنا ہ پر ميں اس سے عفو وبخشش كى اميد ركھتى ہوں ''كيو نكہ ميرا پر ور د گا ر غفور ورحيم ہے ''(۲)

يوسف (ع) ،مصر كے خزانہ دار كى حيثيت سے

''بادشا ہ نے حكم ديا كہ اسے ميرے پاس لے آئوتاكہ ميں اسے اپنا مشير اور نما ئندہ خاص بنائوں ''_(۳) اور اپنى مشكلا ت حل كر نے كے لئے اس كے علم ودا نش اور انتظامى صلا حيت سے مدد لوں _

با د شا ہ كا پر جوش پيام لے كر اس كا خاص نما ئند ہ قيد خا نے ميں يوسف كے پا س پہنچا _اس نے بادشا ہ كى طرف سے سلام ودعاپہنچا يا اور بتايا كہ اسے آپ سے شديد لگا و ہو گيا ہے _اس نے مصر كى عورتوں كے بارے ميں تحقيق سے متعلق آپ كى در خواست كو عملى جا مہ پہنا يا ہے اور سب نے كھل كر آپ كى پاكدا منى اور بے گنا ہى كى گواہى دى ہے لہذا اب تا خير كر نے كى گنجا ئش نہيں رہى اٹھيے تا كہ ہم اس كے پا س چليں حضرت يوسف باد شا ہ كے پاس تشريف لائے ''ان كى آپس ميں بات چيت ہو ئي بادشا ہ نے ان كى گفتگو سنى اور آپ كى پر مغزاور نہا يت اعلى باتيں سنيں اس نے ديكھا كہ آپ كى باتيں انتہائي علم ودانش اور دانا ئي سے معمو ر ہيں اور ہما رے نزديك قابل اعتما د رہيں گے ''( ۴)

آج سے اس ملك كے اہم كا م آپ كے سپر د ہيں اور آپ كو امور كى اصلاح كے لئے كمر ہمت باندھ لينا چا ہئے كيو نكہ ميرے خواب كى جو تعبير آپ نے بيان كى ہے اس كے مطا بق اس ملك كو شديد اقتصادى بحر ان در پيش ہے اور ميں سمجھتا ہوں كہ اس بحران پر صرف آ پ ہى قابو پاسكتے ہيں _ ''حضرت يوسف نے تجويز پيش كى مجھے اس علاقے كے خزا نوں كى ذمہ دارى سونپ دى جائے كيونكہ ميں خواب كے اسرار سے بھى واقف ہوں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۳

(۲)سورہ يوسف آيت ۵۳

(۳)سورہ يوسف آيت ۵۴

(۴) سورہ يوسف آيت ۵۴

(۵) سورہ يوسف آيت ۵۵

۲۱۷

حضرت يوسف اچھى طرح جانتے تھے كہ ظلم سے بھر ے اس معا شر ے كى پر يشانيوں كى ايك اہم بنياد اس كے اقتصا دى مسائل ہيں لہذا انہوں نے سو چا كہ اب جب كہ انہيں مجبور اً آپ كى طرف آنا پڑا ہے تو كيا ہى اچھا ہے كہ مصر كى اقتصا ديات كو اپنے ہاتھ ميں لے ليں اور محروم و مستضعف عوام كى مدد كے لئے آگے بڑ ھيں اور جتنا ہو سكے طبقاتى تفاوت اور او نچ نيچ كو كم كريں مظلوموں كا حق ظالموں سے ليں اور اس وسيع ملك كى بد حالى كو دور كريں _

آپ كى نظر ميں تھا كہ خاص طور پر زرعى مسائل اس ملك ميں زيادہ اہم ہيں اس بات پر بھى توجہ ركھنا ہو گى كہ چند سا ل فراوانى كے ہوں گے اور پھر خشكى كے سال در پيش ہوں گے لہذا لوگوں كو زيادہ سے زيادہ غلہ پيدا كر نے اور پھر انہيں احتياط سے محفوظ ركھنے اور نہا يت كم خر چ كرنے پر آمادہ كرنا ہوگا تا كہ قحط سالى كے لئے غلہ ذخيرہ كيا جاسكے،لہذا اس مقصد كے لئے آپ كو يہى بہتر معلوم ہوا كہ آپ مصر كے خزانوں كواپنى سر پرستى ميں لينے كى تجويز پيش كريں _ بعض نے لكھا ہے كہ اس سال بادشاہ سخت مشكلا ت ميں گھراہو ا تھا اور كسى طرح ان سے نجات چاہتا تھا لہذا اس نے تمام امور كى باگ ڈور حضرت يوسف كے ہاتھ ميں دے دى اور خود كنار ہ كشى اختيار كرلى _

بعض دوسروں كا كہنا ہے كہ اس نے عزيز مصر كى جگہ حضرت يوسف كو اپنا وزير اعظم بناليا _يہ احتمال بھى ہے كہ(۱) وہ صر ف مصر كے خزا نہ دار بنے ہوں _(۲) بہر حال اس مقام پر خدا كہتا ہے: ''اور اس طرح ہم نے يوسف كو سرزمين مصر پر قدرت عطا كى كہ وہ جيسے چاہتا تھا اس ميں تصرف كرتا تھا''(۳)

____________________

(۱)سورہ يوسف ايت ۵۵كے ظاہر ى مفہوم كے مطابق

ليكن سورہ يوسف آيت ۱۰۰ ،اور ۱۰۱، اس امر كى دليل ہيں كہ آخر كار آپ بادشاہ ہوگے اور تمام امور مملكت كى باگ ڈور آپ كے ہاتھ آگئي اگر چہ آيت ۸۸، ميں ہے كہ يوسف كے بھا ئيوں نے ان سے كہا : (يا ايھا العزيز )_

يہ اس امر كى دليل ہے كہ آپ نے عزيز مصر كا منصب سنبھا لا مگر اس ميں كوئي مانع نہيں كہ آپ نے يہ منصب تدريجا ًحاصل كئے ہوں پہلے وزير خزانہ ہو ئے ہوں ، پھر وزير اعظم اور پھر بادشا ہ _

(۲)(۳)سورہ يوسف آيت ۵۶

۲۱۸

جى ہاں :''ہم اپنى رحمت اور ما دى ورو حا نى نعمتيں جسے چا ہتے ہيں اور اہل پاتے ہيں عطا كر تے ہيں ''(۱) اور ہم نيكوں كا اجر ہر گز ضا ئع نہيں كريں گے ''_اگر چہ اس ميں تا خير ہو جا ئے تا ہم آخر كار جوكچھ ان كہ لائق ہوانھيں ديں گے_'' كيو نكہ ہم كسى نيك كام كو فراموش نہيں كرتے ''( ۲)

ليكن اہم بات يہ ہے كہ ہم صر ف دنيادى اجرہى نہيں ديں گے بلكہ ''جو اجر انہيں آخرت ميں ملے گا وہ اہل ايمان اور صاحبان تقوى كے لے زيادہ اچھا ہے ''( ۳)

سات سال بر كت اورسات سال قحط

آخر كار جيسا كہ پيشين گوئي ہوئي تھى سات سال پے در پے بارش ہو نے كے سبب اور دريا ئے نيل كے پانى ميں اضافہ كے باعث مصر كى زرعى پيدا وار خوب تسلى بخش ہو گئي مصر كا خزانہ اور اقتصادى امور حضرت يوسف كے زير نظر تھے آپ نے حكم ديا كہ غذا ئي اجنا س كو خراب ہو نے سے بچانے كے لئے چھو ٹے بڑے گودام بنائے جائيں آپ نے عوام كو حكم ديا كہ پيدا وار سے اپنى ضرورت كے مطا بق ركھ ليں اور باقى حكمومت كو بيچ ديں اس طرح گودام غلے سے بھر گئے _

نعمت وبر كت كى فرا وانى كے يہ سات سال گزر گئے اور خشك سالى كا منحوس دور شروع ہوا يوں لگتا تھا جيسے آسمان زمين كے لئے بخيل ہو گيا ہے كھيتياں اور نخلستان خشك ہو گئے عوام كو غلے كى كمى كا سامنا كر نا پڑا ليكن وہ جانتے تھے كہ حكومت نے غلے كے ذخائر جمع كر ركھے ہيں لہذا وہ اپنى مشكلات حكومت ہى كے ذر يعے دور كرتے تھے حضر ت يوسف بھى پورى منصوبہ بندى اور پرو گرام كے تحت غلہ فروخت كر تے تھے اور عاد لا نہ طور پر ان كى ضرورت پورى كر تے _

يہ بات جاذب نظر ہے كہ حضرت يوسف (ع) نے مصر كے لوگوں ميں طبقاتى تفاوت اور لوٹ گھسوٹ كو ختم كرنے كے لئے قحط كے سالوں سے استفادہ كيا ،اپ نے زيادہ پيدا وار كے عرصے ميں لوگوں سے غذائي

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵۶

(۲) سورہ يوسف آيت ۵۶

(۳)سورہ يوسف۵۷

۲۱۹

مواد خريد ليا اورا س كے لئے تيار كئے گئے بڑے بڑے گوداموں ميں اسے ذخيرہ كر ليا ،جب يہ سال گزر گئے اور قحط كے سال شروع ہوئے تو پہلے سال اجناس كو درہم و دينا ر كے بدلے بيچا ،اس طرح كرنسى كا ايك بڑا حصہ جمع كر ليا ،دوسرے سال اسباب زينت اور جواہرات كے بدلے اجناس كو بيچا ،البتہ جن كے پاس يہ چيزيں نہ تھيں انھيں مستثنى ركھا تيسرے برس چوپايوں كے بدلے ،چوتھے برس غلاموں اور كنيزوں كے عوض، پانچويں برس عمارت كے بدلے ،چھٹے برس زرعى زمينوں اور پانى كے عوض اور ساتويں سال خود مصر كے لوگوں كے بدلے اجناس ديں ،پھر يہ سب چيز يں انھيں (عادلانہ طورپر)واپس كر ديں اور كہا كہ ميرا مقصد يہ تھا كہ عوام كو بلا و مصيبت اور بے سروسامانى سے نجات دلاو ں _

برادران يوسف (ع) مصر پہونچے

يہ خشك سالى صرف مصر ہى ميں نہ تھى ،بلكہ اطراف كے ملكوں كا بھى يہى حال تھا فلسطين اور كنعا ن مصر كے شمال مشر ق ميں تھے وہاں كے لو گ بھى انہى مشكلات سے دوچارتھے حضر ت يعقوب كا خاندان بھى اسى علاقے ميں سكو نت پذ ير تھا وہ بھى غلہ كى كمى سے دوچار ہو گيا حضر ت يعقوب (ع) نے ان حالات ميں مصمم ارادہ كيا كہ بنيا مين كے علاوہ باقى بيٹوں كو مصر كى طرف بھيجيں يوسف كى جگہ اب بنيا مين ہى ان كے پاس تھا بہر حال وہ لوگ مصر كى طرف جانے والے قافلے كے ہمر اہ ہولئے اور بعض مفسرين كے بقول اٹھا رہ دن كى مسافت كے بعدمصر پہنچے _

جيسا كہ تو اريخ ميں ہے ، ضرورى تھا كہ ملك كے باہر سے انے والے افراد مصر ميں داخل ہو تے وقت اپنى شناخت كروائيں تاكہ مامور ين حضرت يوسف كو مطلع كريں جب مامورين نے فلسطين كے قافلے كى خبر دى تو حضرت يوسف نے ديكھا كہ غلے كى درخواست كر نے والوں ميں ان كے بھائيوں كے نام بھى ہيں آپ انھيں پہچان گئے اور يہ ظاہر كئے بغير كہ وہ اپ كے بھا ئي ہيں ، اپ نے حكم ديا كہ انہيں حاضر كيا جا ئے اور جيسا كہ قران كہتا ہے : ''يوسف كے بھائي ائے اور ان كے پاس پہنچے يوسف نے انہيں پہچا ن ليا ليكن

۲۲۰