قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 310598
ڈاؤنلوڈ: 5326

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310598 / ڈاؤنلوڈ: 5326
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

اس عالم ميں ''وہ يو سف كے پاس پہنچے اور اس وقت انتہائي پر يشانى كے عالم ميں انہوں نے اس كى طرف رخ كيا اور كہا : ''اے عزيز : ہميں اور ہمارے خاندان كو قحط ، پر يشا نى اور مصيبت نے گھير ليا ہے ''_(۱) اور ہمارے پاس صرف تھوڑى سى كم قيمت پو نچى ہے ''_( ۲) '' ليكن پھر بھى ہميں تيرے كرم اورشفقت پر بھروسہ ہے ''اورہميں تو قع ہے كہ تو ہما را پيما نہ بالكل پورا كرے گا '' _(۳) ''اور اس معاملہ ميں ہم پر احسان كرتے ہوئے بخشش كر ''_(۴)

''اور اپنا اجر و ثواب ہم سے نہ لے بلكہ اپنے خدا سے لے كيو نكہ'' خدا كريموں اور صدقہ كر نے والوں كو اجر خير ديتا ہے''_(۵) يہ امر قابل تو جہ ہے كہ برادران يو سف كو باپ نے تا كيد كى تھى كہ پہلے يو سف اور اس كے بھا ئي كے لئے جستجو كر يں اور بعد ميں اناج كا تقاضہ كريں شا يد اسكى وجہ يہ ہو كہ انہيں يو سف كے ملنے كى اميد نہ تھى يا ممكن ہے انہوں نے سوچا ہو كہ بہتر ہے كہ اپنے كو اناج كے خريداروں كے طور پر پيش كريں جو كہ زيادہ طبيعى اور فطرى ہے اور بھا ئي كى آزادى كا تقاضا ضمناً رہنے ديں تاكہ يہ چيز عزيز مصر پر زيادہ اثرانداز ہو ،بعض نے كہا كہ(تصدق علينا)سے مراد وہى بھائي كى آزادى ہے ورنہ وہ اناج بغير معاوضہ كے حاصل نہيں كر نا چا ہتے تھے كہ اسے (تصدق )قرار ديا جا تا _

جناب يو سف نے روتے ہو ئے باپ كے خط كو چو ما

روايات ميں بھى ہے كہ بھائي باپ ،كى طرف سے عزيز مصر كے نام ايك خط لے كر آئے تھے اس خط ميں حضرت يعقوب نے عزيز مصر كے عدل وانصاف كا تذ كرہ كيا اپنے خاندان سے اس كى محبتوں اور شفقتوں كى تعريف كى پھر اپنا اور اپنے خاندان نبوت كا تعارف كروايا اپنى پر يشانيوں كا ذكر كيا اور ساتھ ہى اس كے ضمن ميں اپنے بيٹے يو سف اور دوسرے بيٹے بنيامين كے كھو جا نے اور خشك سالى سے پيدا ہونے والي

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۸

(۲) سورہ يوسف آيت ۸۸

(۳)سورہ يوسف آيت۸۸

(۴)سوره يوسف آيت ۸۸

(۵) سورہ يوسف آيت ۸۸

۲۴۱

مصيبتوں كا ذكر كيا خط كے آخر ميں اس سے خواہش كى گئي تھى كہ بنيا مين كو آزاد كر دے اور تاكيد كى تھى كہ ہمارے خاندان ميں چورى وغيرہ ہر گز نہ تھى اور نہ ہو گى _

جب بھا ئيوں نے باپ كا خط عزيز مصر كو ديا تو انہوں نے اسے لے كر چو ما اور اپنى آنكھوں پر ركھا اور رونے لگے گريہ كا يہ عالم تھا كہ قطرات اشك ان كے پيرا ہن پر گر نے لگے ( يہ ديكھ كر بھا ئي حيرت وفكر ميں ڈوب جا تے ہيں كہ عزيز كو ان كے باپ سے كيا لگائو ہے وہ سوچتے ہيں كہ ان كے باپ كے خط نے اس ميں ہيجان واضطراب كيوں پيدا كر ديا ہے شايد اسى مو قع پر ان كے دل ميں يہ خيال بجلى كى طرح اتر ا ہو كہ ہو نہ ہو يہى خود يو سف ہو اور شايد باپ كے اسى خط كى وجہ سے يو سف اس قدر بے قرار ہو گئے كہ اب مزيد اپنے آپ كو عزيز مصر كے نقاب ميں نہ چھپا سكے اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ بہت جلد بھا ئيوں سے بھائي كى حيثيت سے اپنا تعارف كروايا_

كيا تو وہى يو سف ہے ؟

اس موقع پر جبكہ دور آزمائش ختم ہورہا تھا اور يوسف بھى بہت بے تاب اور سخت پريشان نظر آرہے تھے،تعارف كے لئے گفتگو كا آغاز كر تے ہوئے بھا ئيوں كى طرف رخ كر كے آپ نے كہا :'' تمہيں معلوم ہے كہ جب تم جاہل ونادان تھے تم نے يوسف اوراس كے بھا ئي كے ساتھ كيا سلوك كيا''_(۱)

حضر ت يوسف كى عظمت اور شفقت ملا حظہ كيجئے كہ اولاً تو ان كا گناہ مجمل طور پر بيان كيا اور كہا (ما فعلتم )''جو كچھ تم نے انجا م ديا '' اور ثانيا ًانہيں عذر خواہى كا راستہ دكھا يا كہ تمہارے يہ اعمال وافعال جہا لت كى وجہ سے تھے اور اب جہا لت كا زمانہ كذر گيا ہے اور اب تم عاقل اور سمجھد ار ہو _

ضمناً اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے كہ گز شتہ زمانے ميں انہوں نے صرف يو سف پر ظلم نہيں ڈھا يا تھا بلكہ بنيا مين بھى اس دور ميں ان كے شرسے محفوظ نہيں تھے اور انہوں نے اس كے لئے بھى اس زمانہ ميں

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۹

۲۴۲

مشكلات پيدا كى تھيں جب بنيامين مصر ميں يو سف كے پاس تھے شايدان دنوں ميں انہوں نے ان كى كچھ بے انصا فياں اپنے بھا ئي كو بتا ئي ہوں _

بعض روايات ميں ہے كہ وہ زيا دہ پر يشان نہ ہوں اور يہ خيال نہ كريں كہ عزيز مصر ہم سے انتقام لينے والا ہے يو سف نے اپنى گفتگو كو ايك تبسم كے ساتھ ختم كيا اس تبسم كى وجہ سے بھا ئيوں كو حضرت يو سف كے خوبصورت دانت پورى طرح نظر آگئے جب انہوں نے خوب غور كيا تو انہيں محسوس ہوا كہ يہ دانت ان كے بھائي يو سف سے عجيب مشا بہت ركھتے ہيں ،اس طرح بہت سے پہلو جمع ہو گئے ايك طرف تو انہوں نے ديكھا كہ عزيز مصر يو سف كے بارے ميں اور اس پر بھائيوں كى طرف سے كئے گئے مظالم كے بارے ميں گفتگو كر رہا ہے جنہيں سوائے ان كے اور يوسف (ع) كے كو ئي نہيں جا نتا تھا _

دوسرى طرف انہوں نے ديكھا كہ يعقوب كے خط نے اسے اس قدر مضطر ب كر ديا ہے جيسے اس كا يعقوب سے كوئي بہت ہى قريبى تعلق ہو ،تيسرى طرف وہ اس كے چہرے مہر ے پر جتنا غور كرتے انہيں اپنے بھائي يو سف سے بہت زيادہ مشا بہت دكھا ئي ديتى ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ يوسف عزيز مصر كى مسند پر پہنچ گيا ہو وہ سو چتے كہ يو سف كہا ں اور يہ مقام كہا ں ؟ لہذا انہوں نے شك وتردد كے لہجہ ميں ''كيا تم خود يو سف تو نہيں _(۱)

اس موقع بھا ئيوں پر بہت زيادہ حساس لمحا ت گذرا كيونكہ صيح طور پہ معلوم بھى نہ تھا كہ عزيز مصران كے سوال كے جواب ميں كيا كہے گا كيا سچ مچ وہ پر دہ ہٹا دے گا اور اپنا تعارف كروائے گا يا انہيں ديوانہ اور بے وقوف سمجھ كر خطاب كر ے گا كہ انہوں نے ايك مضحكہ خيز بات كى ہے گھڑياں بہت تيزى سے گزررہى تھيں انتظار كے روح فر سالمحے ان كے دل كو بوجھل كر رہے تھے ليكن حضرت يو سف نے نہ چاہا كہ يہ زمانہ طويل ہو جائے اچانك انہوں نے حقيقت كے چہر ے سے پر دہ ہٹا يا اور كہا :'' ہا ں ميں يو سف ہو ں اور يہ ميرا بھائي بنيامين ہے ''_( ۲)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۰

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۰

۲۴۳

ليكن اس بناء پركہ وہ خدا كى نعمت كا شكر ادا كريں كہ جس نے يہ سب نعمات عطافرمائي تھيں اور ساتھ ہى بھا ئيوں كو بھى ايك عظيم درس ديں انہوں نے مزيد كہا :'' خدا نے ہم پر احسان كيا ہے جو شخص بھى تقوى اور صبر اختيا ر كرے گا خدا اسے اس كا اجر وثواب دے گا كيو نكہ خدا نيكو كاروں كا اجر ضائع نہيں كرتا ''(۱) كسى كو معلوم نہيں كہ ان حساس لمحات ميں كيا گزرى اور جب ديسوں سال بعد بھا ئيوں نے ايك دوسرے كو پہنچانا تو كيسا شور وغل بپا كيا وہ كسى طرح آپس ميں بغل گير ہو ئے اور كس طرح سے ان كى آنكھوں سے خوشى كے آنسو ٹپك پڑے _ ان تمام چيزوں كے باوجود بھا ئي اپنے آپ ميں شرمندہ تھے وہ يو سف كے چہرے كى طرف نظر بھر كے نہيں ديكھ پا رہے تھے وہ اسى انتظار ميں تھے كہ ديكھيں ان كا عظيم گناہ بخشش وعفو كے قابل ہے يا نہيں لہذا انہوں نے بھائي كى طرف رخ كيا اور كہا :'' خدا كى قسم :اللہ نے تجھے ہم پر مقدم كيا ہے''(۲) اور تجھے ترجيح دى ہے اور علم وحلم اور عقل وحكومت كے لحا ظ سے تجھے فضيلت بخشى ہے يقينا ہم خطاكا ر اور گناہ گار تھے''_(۳)

آج رحمت كا دن ہے

ليكن يوسف نہيں چا ہتے تھے كہ بھا ئي اس طرح شر مسار رہيں خصو صاً جب كہ يہ ان كى اپنى كا ميابى و كا مرانى كا مو قع تھا يا يہ كہ احتمالاً بھا ئيوں كے ذہن ميں يہ بات آئے كہ يو سف اس مو قع پر انتقام لے گا لہذا فور اًيہ كہہ كر انہيں مطمئن اور پر سكون كرديا كہ ''آج تمہيں كو ئي سر ز نش اور تو بيخ نہيں ہوگي''(۴) تمہارى فكر آسودہ رہے اور وجد ان كو را حت رہے اورگذشتہ گنا ہوں پر غم نہ كرو _ اس بناء پر كہ انہيں بتايا جا ئے كہ انہيں نہ صرف يو سف كا حق بخش ديا گيا ہے بلكہ ان كى ند امت وپشيمانى كى وجہ سے اس سلسلے ميں خدائي حق بھى قابل بخشش ہے ، مزيد كہا :'' اللہ بھى تمہيں بخش دے گا كيو نكہ وہ ارحم الرحمين ہے ''_(۵)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۰ (۲) سورہ يوسف آيت ۹۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۹۱ (۴) سورہ يوسف آيت ۹۲

(۵) سورہ يوسف آيت ۹۲

۲۴۴

يہ حضرت يو سف (ع) كى انتہائي عظمت كى دليل ہے كہ نہ صرف اپنا حق معاف كر ديا بلكہ اس بات پر بھى تيار نہ ہوئے كہ انہيں تھوڑى سى بھى سر زنش كى جا ئے ،چہ جائيكہ بھا ئيوں كو كوئي سزا ديتے بلكہ حق الہى كے لحاظ سے بھى انہيں اطمينان دلا يا كہ خدا غفور اور بخشنے والاہے بلكہ يہ بات ثابت كرنے كے لئے يہ استد لال پيش كيا كہ وہ ارحم الرا حمين ہے

اس مو قع پر بھائيوں كو ايك اور غم بھى ستارہا تھا اور وہ يہ كہ باپ اپنے بيٹوں كے فراق ميں نابينا ہو چكا ہے اور اس كا اس طرح رہنا پورے خاندان كے لئے ايك جانكا ہ رنج ہے اس كے علاوہ ان كے جر م پر ايك مسلسل دليل ہے لہذا يوسف (ع) نے اس عظيم مشكل كے حل كے لئے بھى فرمايا: ''ميرا يہ پيراہن لے جائو اور ميرے باپ كے چہرے پر ڈال دو تاكہ وہ بينا ہوجائے'' _(۱) '' اس كے بعد سارے خاندان كے ہمراہ ميرے پاس آجائو''_(۲)

يوسف (ع) كى قيمص كون لے كر گيا؟

حضرت يوسف (ع) نے كہا: ميرا شفا بخش كرتہ باپ كے پاس وہى لے جائے جو خون آلود كرتہ لے كر گيا تھا تاكہ جيسے اس نے باپ كو تكليف پہنچائي اورپريشان كيا تھا اس مرتبہ كے اسے خوش وخرم كرے_

لہذا يہ كام ''يہودا'' كے سپرد ہوا كيونكہ اس نے بتايا تھا كہ وہ ميں ہوں جو خون آلود كرتہ لے كرباپ كے پاس گيا تھا اور ان سے كہا تھا كہ آپ كے بيٹے كو بھيڑيا كھا گيا ہے_اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ اگرچہ حضرت يوسف (ع) اس قدر مشكلات اور مصائب ميں گرفتار رہے ليكن اخلاقى مسائل كى باريكيوں سے غافل نہيں رہتے تھے_

يوسف (ع) كى عظمت

اس ماجرے كے بعد حضرت يوسف (ع) كے بھائي ہميشہ شرمسار رہتے تھے انھو ں نے كسى كو يوسف (ع) كے

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۳

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۳

۲۴۵

پاس بھيجا اور كہلايا كہ آپ ہر صبح وشام ہميں اپنے دسترخوان پر بٹھاتے ہيں او رآپ كا چہرہ ديكھ كر ہميں شرم وخجالت محسوس ہوتى ہے كيونكہ ہم نے آپ كے ساتھ اس قدر جسارتيں كى ہيں _

اس بناء پر كہ انھيں نہ صرف ذرہ بھر احساس شرمندگى نہ ہو بلكہ يوسف (ع) كے دسترخوان پر اپنى موجودگى كو يوسف (ع) كى ايك خدمت محسوس كريں ، حضرت يوسف نے انھيں بہت ہى عمدہ جواب ديا، آپ نے كہا:مصر كے لوگ اب تك مجھے ايك زر خريد غلام كى نظر سے ديكھتے تھے اور ايك دوسرے سے كہتے تھے:''پاك ہے وہ ذات جس نے اس غلام كو كہ جو بيس درہم ميں بيچا گيا اس مقام تك پہنچايا_''

ليكن اب جب كہ تم لوگ آگئے ہو اور ميرى زندگى كى كتاب اس كے سامنے كھل گئي ہے تو وہ سمجھنے لگے ہيں كہ ميں غلام نہيں ہوں بلكہ ميں خاندان نبوت سے تعلق ركھتا ہوں اور ابراہيم خليل اللہ كى اولاد ميں سے ہوں اور يہ ميرے لئے باعث افتخار ہے_

آخر كار لطف الہى نے اپنا كام كرڈالا

فرزندان يعقوب (ع) خوشى سے پھولے نہ سماتے تھے، وہ خوشى خوشى يوسف (ع) كا پيراہن اپنے ساتھ لے كر قافلے كے ساتھ مصر سے چل پڑے، ادھر ان بھائيوں كے لئے زندگى كے شرين ترين لمحات تھے اُدھر شام كے علاقہ كنعان ميں بوڑھے باپ كا گھر غم واندوہ ميں ڈوبا ہوا تھا، سارا گھرانہ افسردہ اور غم زدہ تھا_

ليكن ادھر يہ قافلہ مصر سے چلا اور اُدھر اچانك يعقوب (ع) كے گھر ميں ايك واقعہ رونما ہوا جس نے سب كو تعجب ميں ڈال ديا، يعقوب (ع) كا جسم كانپ رہا تھا، انھوں نے بڑے اطمينان اور اعتماد سے پكار كر كہا:''اگر تم بدگوئي نہ كرو اور ميرے طرف نادانى اور جھوٹ كى نسبت نہ دو تو ميں تم سے كہتا ہوں كہ مجھے اپنے پيارے يوسف (ع) كى خوشبو آرہى ہے''_(۱)

ميں محسوس كررہا ہوں كہ رنج وغم اور زحمت ومشكل كى گھڑياں ختم ہونے كو ہيں اور

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۹۴

۲۴۶

وصال وكاميابى كا زمانہ آنے كو ہے، خاندان يعقوب (ع) اب لباس ماتم اتاردے گا اور لباس مسرت زيب تن كرے گا،ليكن ميرا يہ خيال نہيں كہ تم ان باتوں پر يقين كرو گے_

لفظ''فصلت''سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) ميں يہ احساس اسى وقت پيدا ہوا جب قافلہ مصر سے چلنے لگا ،_

قاعدتاً حضرت يعقوب كے پاس اس وقت ان كے پوتے پوتياں اور بہو ئيں وغير ہ تھيں انہوں نے بڑے تعجب اور گستا خى سے اور پورے يقين سے يعقوب سے كہا :'' بخدا آپ اسى پرانى گمراہى ميں ہيں ''_(۱)

يعنى اس سے بڑھ كر گمراہى كيا ہو گى كہ يو سف كى موت كو سا لہا سال گزر گئے ہيں اور ابھى آپ كا خيال ہے كہ وہ زندہ ہے اور اب آپ يہ كہہ رہے ہيں كہ مصر كى طرف سے مجھے يوسف كى خوشبو آرہى ہے ، مصر كہا ں اور شام وكنعان كہا ں ،كيا يہ اس بات كى دليل نہيں كہ آپ ہميشہ خواب وخيا ل كى دنيا ميں رہتے ہيں اور اپنے خيالات وتصورات كو حقيقت سمجھتے ہيں ، آپ يہ كيسى عجيب وغريب بات كہہ رہے ہيں بہرحال آپ تو پہلے بھى اپنے بيٹوں سے كہہ چكے ہيں كہ مصر كى طرف جا ئو اور مير ے يو سف كو تلاش كرو _

اس سے ظاہر ہو تا ہے كہ يہاں ضلالت وگمراہى سے مراد عقيدہ اور نظر يہ كى گمراہى نہيں ہے بلكہ يوسف سے متعلق مسائل كے سمجھنے ميں گمراہى مراد ہے _

بہركيف ان الفاظ سے ظاہر ہو تا ہے كہ وہ لوگ اس عظيم كہن سال اور روشن ضمير پيغمبر سے كيسا شديد اورجسا رت آميز سلوك كر تے تھے _

ايك جگہ انہوں نے كہا : ہمارا باپ ''ضلال مبين ''( كھلى گمراہى )ميں ہے اور يہا ں انہوں نے كہا: تم اپنى اسى دير ينہ گمرا ہى ميں ہو _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۵

۲۴۷

وہ پير كنعان كے دل كى پاكيزگى اور روشنى سے بے خبر تھے ان كا خيال تھا كہ اس كا دل بھى انہى كے دل كى طرح تاريك ہے انہيں يہ خيال نہ تھا كہ آيندہ كے واقعات اور دور ونزيك كے مقامات اس كے آئينہ دل ميں منعكس ہو تے ہيں _

قافلہ كنعان پہو نچتا ہے

كئي رات دن بيت گئے يعقوب اسى طرح انتظار ميں تھے ايسا پر سوز انتظار كہ جس كى گہرائي ميں مسرت وشاد مانى اور سكون واطمينان مو جزن تھا حالانكہ ان كے پاس رہنے والوں كو ان مسائل سے كو ئي دلچسپى نہ تھى اور وہ سمجھتے تھے كہ يو سف كا معا ملہ ہميشہ كے لئے ختم ہو چكا ہے معلوم نہيں يعقوب پر يہ چند دن كس طرح گز ريں گے_ آخر ايك دن آيا جب آوزآئي وہ ديكھو مصر سے كنعان كا قافلہ آيا ہے گزشتہ سفروں كے بر خلاف فرزند ان يعقوب شاداں وخرّم شہر ميں داخل ہوئے اور بڑى تيزى سے باپ كے گھر پہنچ گئے سب سے پہلے ''بشير ''بوڑھے يعقوب كے پاس آيا وہي'' بشير '' (جو وصال كى بشارت لايا تھا اور جس كے پاس يو سف كا پير اہن تھا ) اس نے آتے ہى پير اہن يعقوب كے چہر ے پر ڈال ديا _

يعقوب كى آنكھيں تو بے نور تھيں وہ پير اہن كو ديكھ نہ سكتے تھا انہوں نے محسوس كيا كہ ايك آشنا خو شبو ان كى مشام جان ميں اتر گئي ہے يہ ايك پُركيف زريں لمحہ تھا گويا ان كے وجود كا ہر ذرہ روشن ہو گيا ہو آسمان وزمين مسكرا اٹھے ہوں ہر طرف قہقہے بكھر گئے ہوں نسيم رحمت چل اٹھى ہوا اور غم واند وہ كا گر د وغبار لپيٹ كر لے جارہى ہو، درود يوار سے خوشى كے نعرے سنا ئي دے رہے تھے اور يعقوب كى آنكھيں روشن ہو گئي ہيں اور وہ ہر جگہ ديكھ رہے ہيں دنيا اپنى تمام تر زيبا ئيوں كے ساتھ ايك مر تبہ پھر ان آنكھوں كے سامنے تھى جيسا كہ قرآن كہتا ہے :'' جب بشارت دينے والا آيا تو اس نے وہ (پيراہن ) ان كے چہرے پر ڈال ديا تو اچا نك وہ بينا ہو گئے''_(۱)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۶

۲۴۸

بھا ئيوں اور گر دو پيش والوں كى آنكھوں سے خوشى كے آنسو امنڈ آئے اور يعقوب نے پورے اعتماد سے كہا : ''ميں نہ كہتا تھا كہ ميں خدا كى طرف سے ايسى چيزيں جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جا نتے ''(۱) اس معجزے پر بھا ئي گہرى فكر ميں ڈوب گئے ايك لمحے كے لئے اپنا تاريك ماضى ان كى آنكھوں كے سامنے گھوم گيا ، خطا ،گنا ہ ، اشتباہ اور تنگ نظر ى سے پُر ماضى ليكن كتنى اچھى بات ہے كہ جب انسان اپنى غلطى كو سمجھ لے تو فوراً اس كى اصلاح اور تلافى كى فكر كرے فرزند ان يعقوب بھى اسى فكر ميں گم ہو گئے انہوں نے باپ كا دامن پكڑليا اور كہا :''بابا جا ن خدا سے درخواست كيجئے كہ وہ ہمارے گنا ہوں اور خطائوں كو بخش دے كيو نكہ ہم گنہگار اور خطا كار تھے_''(۲)

بزرگور اور با عظمت بوڑھا جس كا ظرف سمندر كى طرح وسيع تھا ، اس نے كوئي ملامت وسرزنش كئے بغير ان سے وعدہ كيا كہ'' ميں بہت جلدى تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب كروں گااور مجھے اميد ہے كہ وہ تمہارى تو بہ قبول كرلے گا اور تمہارے گناہوں سے صرف نظر كرے گا ''كيونكہ وہ غفور ورحيم ہے_''(۳)(۴)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۶

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۷

(۳) سورہ يوسف آيت ۹۸

(۴)يہاں پر چند سوال پيدا ہو تے ہيں :

۱_يعقوب نے پيراہن يو سف كى خو شبو كيسے محسو س كى ؟

يہ سوال بہت سے مفسر ين نے اٹھا يا ہے اور اس پر بحث كى ہے عام طور پر مفسرين نے اسے يعقوب يا يو سف كا معجزہ قرار ديا ہے ليكن چو نكہ قرآن نے اسے اعجاز يا غير اعجا ز ہو نے كے لحاظ سے پيش نہيں كيا اور اس سلسلے ميں خا مو شى اختيار كى ہے اس كى سائنس توجيہ معلوم كى جاسكتى ہے_ موجودہ زمانے ميں ''ٹيلى پيتھي'' ايك مسلمہ علمى مسئلہ ہے ( اس ميں يہ بات تسليم كى گئي ہے كہ ايك دوسرے سے دور رہنے والے كے درميان فكرى ارتباط اور روحانى رابطہ ہوسكتا ہے اسے ''انتقال فكر'' كہتے ہيں ) ايسے افراد جو ايك دوسرے سے نزديكى تعلق ركھتے ہيں يا جو بہت زيادہ روحانى طاقت ركھتے ہيں يہ تعلق ان كے درميان پيدا ہوتا ہے شايد ہم ميں سے بہت سے افراد نے اپنى روز مرہ كى زندگى ميں اس كا سامنا كيا ہو كہ بعض اوقات كسى كى والدہ يا بھائي اپنے اندر بلاسبب بہت زيادہ اضطراب او رپريشانى محسوس كرتے ہيں اور زيادہ دير نہيں گذر تى كے كہ خبر پہنچتى ہے كہ اس كے بيٹے يا بھائي كو فلاں دور دراز علاقے ميں ايك ناگوار حادثہ پيش آيا ہے_ ماہرين اس قسم كے احساس كو ٹيلى پيتھى اور دور دراز كے علاقوں سے انتقال فكرى كا عمل قرار ديتے ہيں _ حضرت يعقوب (ع) كے واقعہ ميں بھى ممكن ہے كہ يوسف (ع) سے شديد محبت اور آپ كى روحانى عظمت كے سبب آپ ميں وہى احساس پيدا ہوگيا جو يوسف كا كرتہ اٹھاتے وقت بھائيوں ميں پيدا ہوا تھا_

۲۴۹

البتہ يہ بات بھى ہر طرح ممكن ہے كہ اس واقعہ كا تعلق انبياء كے دائرہ علم كى وسعت سے ہو ، بعض روايات ميں بھى انتقال فكر كے مسئلہ كى طرف جاذب نظر اور عمدہ اشارہ كيا گيا ہے مثلاً: كسى نے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے عرض كيا : كبھى ايسا ہوتا ہے كہ ميں بغير كسى مصيبت يا ناگوار حادثہ كے غمگين ہوجاتا ہوں يہاں تك كہ ميرے گھروالے اور ميرے دوست بھى اس كے اثرات ميرے چہرے پر ديكھ ليتے ہيں _

امام عليہ السلام نے فرمايا: ہاں ، خدا نے مومنين كو ايك ہى بہشتى طينت سے پيدا كيا ہے اور اس كى روح ان ميں پھونكى ہے لہذا مومنين ايك دوسرے كے بھائي ہيں جس وقت كسى ايك شہر ميں ان ميں سے كسى ايك بھائي كو كوئي مصيبت پيش آتى ہے تو باقى افراد پر اس كا اثر ہوتا ہے_ بعض روايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ يہ كرتہ كوئي عام كرتہ نہ تھا بلكہ ايك جنتّى پيراہن تھا جو حضرت ابراہيم عليہ السلام كى طرف سے خاندان يعقوب (ع) ميں يادگار كے طور پر چلاآرہا تھا اور جو شخص حضرت يعقوب (ع) كى طرح بہشتى قوت شامہ ركھتا تھا وہ اس كى خوشبو دور سے محسوس كرليتا تھا_

۲_انبياء كے حالات ميں فرق_

يہاں پر ايك اور مشہور اعتراض سامنے آتا ہے فارسى زبان كے اشعار ميں بھى يہ اعتراض بيا ن كيا گيا ہے، كسى نے يعقوب (ع) سے كہا:

زمصرى بوى پيراہن شنيدي

چرا در جاہ كنعانش نہ ديدي

يعنى آپ نے مصر سے پيراہن كى خوشبو سونگھ لى ليكن آپ كو كنعان كے كنويں ميں يوسف كيوں نہ دكھائي دئے؟

كيسے ہوسكتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر نے اتنے دور دراز كے علاقے سے يوسف (ع) كى قميص كى خوشبو سونگھ لى جب كہ بعض نے يہ فاصلہ اسّى فرسخ لكھا ہے اور بعض نے دس دن كى مسافت بيان كى ہے ليكن اپنے علاقہ كنعان كے اندر جب كہ يوسف كو اس كے بھائي كنويں ميں پھينك رہے تھے اور ان پر وہ واقعات گزرہے تھے اس سے يعقوب (ع) آگاہ نہ ہوئے؟

قبل اس كے انبياء اور ائمہ عليہم السلام كے علم غيب كى حدود كے بارے ميں جو كچھ كہا جاچكا ہے اس كى طرف توجہ كرتے ہوئے اس سوال كا جواب ہرگز مشكل نہيں رہتا،امور غيب كے متعلق ان كا علم پروردگار كے ارادے اور عطاكئے ہوئے علم پر منحصر ہے جہاں خدا چاہتا ہے وہ جانتے ہيں ، چاہے واقعہ كا تعلق كسى بہت دور دراز علاقے سے ہو اور جہاں وہ نہ چاہے نہيں جانتے چاہے معاملہ كسى نزديك ترين علاقے سے مربط ہو جيسے كسى تاريك رات ميں ايك قافلہ كسى بيابان سے گزررہا ہو آسمان كو بادلوں نے ڈھانپ ركھا ہو ايك لمحہ كے لئے آسمان سے بجلى چمك اٹھے اور بيابان كى تمام گيرائياں او رگہرائياں روشن ہوجائيں اور تمام مسافر ہر طرف سب كچھ ديكھ ليں ليكن دوسرے لمحہ وہ بجلى خاموش ہوجائے او رپھر تاريكى ہر طرف چھا جائے اسى طرح سے كہ كوئي چيز نظر نہ آئے_

شايد امام جعفر صادق عليہ السلام سے علم امام كے بارے ميں مروى يہ حديث اسى مفہوم كى طرف اشارہ كرتى ہے ، آپ فرماتے ہيں :

''جعل الله بينه وبين الامام عموداً من نور ينظر الله به الى الامام وينظر الامام به اليه، فاذا راد علم شى ء نظر فى ذالك النور فعرفه ''

خد انے اپنے اور امام وپيشوائے خلق كے درميان نور كا ايك ستون بنايا ہے اسى سے خدا امام كى طرف ديكھتا ہے اور امام بھى اسى طريق سے اپنے پروردگار كى طرف ديكھتا ہے اور جب امام كوئي چيز جاننا چاہتا ہے تو نور كے اس ستون ميں ديكھتا ہے اور اس سے آگاہ ہوجاتا ہے_

۲۵۰

ايك شعر جو پہلے ذكر كيا گيا ہے اس كے بعد سعدى كے مشہور اشعار ميں اسى روايات كے پيش نظر كہا گيا ہے:

بگفت احوال ما برق جہان است

گہى پيدا ودگر دم نہان است

گہى بركارم اعلا نشينم

گہى تاپشت پاى خود نبينم

يعنى اس نے كہا ہمارے حالات چمكنے والى بجلى كى طرح ہيں جو كبھى دكھائي ديتى ہے اور كبھى چھپ جاتى ہے_

كبھى ہم آسمان كى بلنديوں پر بيٹھتے ہيں اور كبھى اپنے پائوں كے پيچھے بھى كچھ دكھائي نہيں ديتا_

اس حقيقت كى طرف توجہ كرتے ہوئے تعجب كا مقام نہيں كہ ايك دن مشيت الہى كى بناء پر يعقوب (ع) كى آزمائش كے لئے اپنے قريب رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ نہ ہوں اور كسى دوسرے دن جب كہ دور آزمائش ختم ہوچكا تھا اور مشكلات كے دن بيت چكے تھے انھوں نے مصر سے قميص يوسف كى مہك سونگى لى ہو_

۳_بينائي كيسے لوٹ آئي؟

بعض مفسرين نے يہ احتمال ديا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) كى آنكھ كا نور بالكل ختم نہيں ہوا تھا بلكہ ان كى آنكھيں كمزور ہوگئي تھيں او ربيٹے كى ملاقات كے امكانات پيدا ہوئے تو ان ميں ايك ايسا ہيجان پيدا ہوا كہ وہ پہلى حالت پر واپس آگئيں ، ليكن آيات كا ظہور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ بالكل نابينا ہوگئے تھے يہاں تك كہ ان كى آنكھيں سفيد ہوچكى تھيں لہذا ان كى بينائي معجزانہ طور پر واپس ہوئي_ قرآن كہتا ہے: (فارتد بصيرا)

۲۵۱

يوسف (ع) ، يعقوب اور بھائيوں كى سرگزشت كا اختتام

عظيم ترين بشارت لئے ہوئے مصرسے قافلہ كنعان پہنچا بوڑھے يعقوب بينا ہو گئے عجيب جو ش وخروش تھا سا لہا ل سال سے جو گھرانا غم واندوہ ميں ڈوبا ہوا تھا وہ خوشى اور سرور ميں ڈوب گيا ان سب نعمات الہى پر وہ پھولے نہيں سما تے تھے_

يو سف كى فرمائش كے مطا بق اس خاندان كو اب مصر كى طرف روا نہ ہو نا تھا سفر كى تيارى ہر لحا ظ سے مكمل ہو گئي يعقوب ايك مر كب پر سوارہو ئے_

جب كہ ان كے مبارك لبوں پر ذكر و شكر خدا جارى تھا اور عشق وصال نے انہيں اس طرح سے قوت وتو انا ئي بخشى تھى كہ گو يا وہ نئے سرے سے جوان ہو گئے تھے _

بھا ئيوں كے گزشتہ سفر تو خوف وپر يشانى سے گزر ے ليكن ان كے بر خلاف يہ سفر ہر قسم كے فكر وانديشہ سے خالى تھا يہا ں تك كہ اگر سفر كى كوئي تكليف تھى بھى تو اس انتظار ميں پنہاں مقصد كے سامنے اس كى كوئي حقيقت نہ تھى _

وصال كعبہ چناں مى دواندم بششاب

كہ خا رہاى مغيلاں حريرمى آيد

كعبہ مقصود كے وصال نے مجھے اتنا تيز دوڑا يا كہ خار مغيلاں ريشم معلوم ہو تے تھے _

۲۵۲

رات اور دن گو يا بڑى آہستگى سے گزررہے تھے كيو نكہ اشتياق وصال ميں ہر گھڑى ايك دن بلكہ ايك سال معلوم ہو رہى تھى مگر جو كچھ بھى تھا آخر گزرگيا مصر كى آبادى دور سے نما ياں ہو ئيں مصر كے سر سبز كھيت ، آسمان سے باتيں كر نے والے درخت اور خوبصور ت عمارتيں دكھا ئي دينے لگيں ،ليكن قرآن اپنى دائمى سيرت كے مطابق ان سب مقدما ت كو كہ جو تھوڑے سے غور وفكر سے واضح ہو جاتے ہيں حذف كر تے ہوئے كہتا ہے: ''جب وہ يو سف كے پاس پہنچے تو يو سف اپنے ماں باپ سے گلے ملے _''(۱)

آخر كار يعقوب كى زندگى كا شيريں تر ين لمحہ آگيا ديدار وصال كا يہ لمحہ فراق كے كئي سالوں بعد آيا تھا خدا كے سوا كو ئي نہيں جانتا ، كہ وصال كے يہ لمحات يعقوب اور يوسف پر كيسے گذرے ان شيريں لمحات ميں ان دونوں كے احساسات و جذبات كيا تھے، عالم شوق ميں انھوں نے كتنے آنسو بہائے اور عالم شوق ميں كيا نالہ و فرياد ہوا_

جناب يو سف كے خواب كى تعبير

''پھر يو سف نے سب سے كہا سر زمين مصر ميں قدم ركھيں كہ انشا ء اللہ يہا ں آپ بالكل امن وامان ميں ہوں گے''(۲) كيو نكہ مصر يو سف كى حكومت ميں امن وامان كا گہوارہ بن چكا تھا_

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ يو سف اپنے ماں باپ كے استقبال كے لئے شہر كے دروازے كے باہر تك آئے تھے اور شايد جملہ (ادخلو ا على يو سف ) كہ جو در واز ے سے باہر سے مر بوط ہے ، اس طرف اشارہ ہے كہ يو سف نے حكم ديا تھا كہ وہا ں خيمے نصب كئے جا ئيں اور ما ں باپ اور بھا ئيوں كى پہلے پہل وہاں پذيرائي كى جائے ،جب بارگا ہ يو سف ميں پہنچے ''تو اس نے اپنے ماں باپ كو تخت پر بٹھا يا ''(۳) نعمت الہى كى اس عظمت اور پرور دگار كے لطف كى اس گہرائي اور وسعت نے بھائيوں اور ماں باپ كو اتنا متا ثر كيا كہ وہ سب كے سب ''اس كے سامنے سجدے ميں گر گئے_ ''(۴)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۹

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۹

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۰۰

(۴) سورہ يوسف آيت ۱۰۰

۲۵۳

اس مو قع پر يو سف نے باپ كى طرف رخ كيا ''اور عر ض كيا : ابان جان : يہ اسى خواب كى تعبير ہے جو ميں نے بچپن ميں ديكھا تھا ''(۱) كيا ايسا ہى نہيں كہ ميں نے خواب ميں ديكھا كہ سورج ، چاند اور گيار ہ ستارے ميرے سامنے سجدہ كر رہے ہيں ديكھئے : جيسا كہ آپ نے پيشين گو ئي كى تھى ''خدا نے اس خواب كو واقعيت ميں بدل ديا ہے ''(۲) ''اور پر وردگار نے مجھ پر لطف و احسان كيا ہے كہ اس نے مجھے زندان سے نكا لا ہے ''_(۳)

يہ بات قابل تو جہ ہے كہ حضرت يو سف نے اپنى زندگى كى مشكلات ميں صر ف زندان مصر كے بارے ميں گفتگو كى ہے ليكن بھائيوں كى وجہ سے كنعان كے كنوئيں كى بات نہيں كى ،اس كے بعد مزيد كہا :'' خدا نے مجھ پر كس قدر لطف كيا كہ آپ كو كنعان كے اس بيابان سے يہاں لے آيا جب كہ شيطان ميرے اور ميرے بھا ئيوں كے در ميان فساد انگيز ى كر چكا تھا _''(۴)

يہاں يو سف ايك مر تبہ پھر اپنى وسعت قلبى اور عظمت كا ايك نمو نہ پيش كر تے ہيں يہ نہيں كہتے كہ كو تا ہى كس شخص نے كي،بلكہ اس طرح سربستہ اور اجمالى طور پر كہتے ہيں كہ شيطان نے اس كا م ميں دخل اندا زى كى اور وہ فساد كا باعث بنا كيو نكہ وہ نہيں چا ہتے تھے كہ بھا ئيوں كى گزشتہ خطائوں كا گلہ كريں ،وہ جا نتا ہے كہ كون حا جت مند ہيں اور كو ن اہل ہيں '' كيونكہ وہ عليم وحكيم ہے '' _( ۵)

اس كے بعد يو سف، حقيقى مالك الملك اور دائمى ولى نعمت كى طرف رخ كر تے ہيں اور شكر اور تقاضے كے طور پر كہتے ہيں : ''پر ور دگار تونے ايك وسيع حكو مت كا ايك حصہ مجھے مر حمت فرمايا ہے '' _(۶) ''اور تو نے مجھے تعبير خواب كے علم كى تعليم دى ہے ''_(۷) اور اسى علم نے جو ظاہر اً سا دہ اور عام ہے ميرى زندگى اور تيرے بندوں كى ايك بڑى جما عت كى زندگى ميں كس قسم كا انقلا ب پيدا كر ديا ہے اور يہ علم كس قدر پر بر كت ہے_

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۰۰ (۲) سورہ يوسف ايت۱۰۰

(۳) سورہ يوسف آيت ۱۰۰ (۴)سورہ يوسف آيت ۱۰۰

(۵) سورہ يوسف آيت ۱۰۰ (۶) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

(۷) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

۲۵۴

''تو وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين كو ايجاد كيا ہے ''_(۱)

اور اسى بناء پر تمام چيزيں تيرى قدرت كے سامنے سر تسليم خم كئے ہو ئے ہيں ''پروردگار دنيا وآخرت ميں تو مير ا ولى ناصر مد بر اور محا فظ ہے ''_(۲)

'' مجھے اس جہا ن سے مسلمان اور اپنے فرمان كے سامنے سر تسليم خم كئے ہو ئے لے جا، اور مجھے صالحين سے كر دے ''_(۳)

ميں تجھ سے ملك كے دوام اور اپنى مادى حكو مت اور زند گى كى بقا ء كا تقا ضا نہيں كر تا كيو نكہ يہ تو سب فانى ہيں اور صرف ديكھنے ميں دل انگيز ہيں بلكہ ميں تجھ سے يہ چا ہتا ہو ں كہ ميرى عا قبت اور انجا م كا ر بخير ہو اور ميں تيرى راہ ميں ايمان وتسليم كے ساتھ ہوں اور تيرے لئے جان دوں اور صالحين اور تيرے باخلوص دو ستوں كى صف ميں قرار پائوں ميرے لئے يہ چيزيں اہم ہيں _

باپ كو سرگزشت نہ سنانا

جس وقت يعقوب (ع) يوسف (ع) سے ملاقات كے لئے پہنچے تو ان سے كہا: ميرے بيٹے ميرا دل چاہتا ہے كہ ميں پورى تفصيل جانوں كہ بھائيوں نے تمہارے ساتھ كيا سلوك كيا_

حضرت يوسف (ع) نے باپ سے تقاضا كيا كہ وہ اس معاملہ كو جانے ديں ليكن يعقوب (ع) نے انھيں قسم دے كر كہا كہ بيان كريں _

يوسف (ع) نے واقعات كا كچھ حصہ بيان كيا يہاں تك كہ بتايا : بھائيوں نے مجھے پكڑليا او ركنويں كے كنارے بٹھايا مجھے حكم ديا كہ كرتا اتاردوں تو ميں نے ان سے كہا: ميں تمہيں اپنے باپ يعقوب كے احترام كى قسم ديتا ہوں كہ ميرے بدن سے كرتا نہ اتاروں اور مجھے برہنہ نہ كرو، ان ميں سے ايك كے پاس چھرى تھى اس نے وہ چھرى نكالى اور چلاكر كہا: كرتا اتاردے_

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

(۲) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

۲۵۵

يہ جملہ سنتے ہى يعقوب كى طاقت جواب دے گئي انھوں چيخ مارى او ربے ہوش ہوگئے جب وہ ہوش ميں آئے تو بيٹے سے چاہا كہ اپنى بات جارى ركھے ليكن يوسف (ع) نے كہا: آپ كو ابراہيم (ع) ، اسماعيل (ع) اور اسحاق (ع) كے خدا كى قسم مجھے اس كام سے معاف ركھيں _

جب يعقوب (ع) نے يہ جملہ سنا تو اس معاملہ سے صرف نظر كرليا_

يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ يوسف (ع) ہرگز نہيں چاہتے تھے كہ ماضى كے تلخ واقعات اپنے دل ميں لائيں يا باپ كے سامنے انھيں دھرائيں اگرچہ يعقوب (ع) كى جستجو كى حسّ انھيں مجبور كرتى تھي_

۲۵۶

۴ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت شعيب عليہ السلام

حضرت شعيب (ع) كى سر زمين''مدين''

يہاں گفتگو قوم شعيب اور اہل مدين كى ہے يہ وہى لوگ ہيں جنہوں نے توحيد كا راستہ چھوڑ ديا تھا اورشرك وبت پرستى كى سنگلاخ زمين ميں سرگرداں ہوگئے تھے يہ لوگ نہ صرف بتوں كو پوجتے تھے بلكہ درہم ودينار اور اپنے مال وثروت كى بھى پرستش كرتے تھے اور اسى لئے وہ اپنے كاروبار اور بارونق تجارت كو نادرستي،كم فروشى اور غلط طريقوں سے آلودہ كرتے تھے _

ابتداء ميں فرمايا گيا ہے :'' مدين كى طرف ہم نے ان كے بھائي شعيب كو بھيجا'' _(۱)(۲)

مدين (بروزن'' مريم'') حضرت شعيب اور ان كے قبيلے كى آبادى كا نام ہے يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں واقع ہے اس كے لوگ اولاد اسماعيل ميں سے تھے مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كياكرتے تھے_

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۴

(۲)جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں لفظ''اخاھم'' (ان كا بھائي ) اس بناء پر ہے كہ اپنى قوم سے پيغمبروں كى انتہائي محبت كو بيان كيا جائے نہ صرف اس بناء پر كہ وہ افرادان كے گروہ اور قبيلے سے تھے بلكہ اس لئے كہ وہ ان كے خير خواہ اور ہمدرد بھائي كى طرح تھے_

۲۵۷

آج كل شہر مدين كا نام ''معان'' ہے بعض جغرافيہ دانوں نے خليج عقبہ كے درميان سے كوہ سينا تك زندگى بسر كرنے والوں پر مدين كے نام كا اطلاق كيا ہے ،توريت ميں بھى لفظ'' مديان '' آيا ہے ليكن بعض قبائل كے لئے (البتہ ايك ہى لفظ شہراور اہل شہر پر عام طور پر استعمال ہوجاتاہے )

قوم شعيب كى اقتصادى برائياں

اس پيغمبر اور ہمدرو ومہربان بھائي نے جيسا كہ تمام انبياء كا آغاز دعوت ميں طريقہ ہے پہلے انہيں مذہب كے اساسى ترين ركن '' توحيد'' كى طرف وعوت دى اور كہا : اے قوم : ''يكتا ويگانہ خدا كى پرستش كرو، كہ جس كے نے علاوہ تمہارا كوئي معبود نہيں ہے ''_(۱)

اس وقت اہل مدين ميں ايك اقتصادى خرابى شديد طور پر رائج تھى جس كا سر چشمہ شرك اور بت پرستى كى روح ہے اس كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے :''خريد وفروخت كرتے وقت چيزوں كا پيمانہ اور وزن كم نہ كرو :''(۲)

كم فروشى كے ذريعے فساد اور برائي ، لوگوں كے حقوق غصب كرنے كا فساد اور حقوق پر تجاوز كا فسانہ، معاشرتى ميزان اور اعتدال كو درہم برہم كرنے كا فساد ،اموال اورا شخاص پر عيب لگانے كا فساد _ خلاصہ يہ كہ لوگوں كى حيثيت، آبرو، ناموس اور جان كے حريم پر تجاوز كرنے كا فساد _

'' لاتعشوا'''' فساد نہ كرو'' كے معنى ميں ہے اس بناء پر اس كے بعد ''مفسدين'' كا ذكر زيادہ سے زيادہ تاكيد كى خاطر ہے _

قرآن مجيد ميں موجود آيات سے يہ حقيقت اچھى طرح سے واضح ہوتى ہے كہ توحيد كا اعتقاد اور آئيڈيالوجى كا معاملہ ايك صحيح وسالم اقتصاد كے لئے بہت اہميت ركھتا ہے نيز آيات اس امر كى نشاندہى كرتى ہيں كہ اقتصادى نظام كا درہم برہم ہونا معاشرے كى وسيع تباہى اور فساد كا سرچشمہ ہے _

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۴

(۲)سورہ ہود آيت ۸۴

۲۵۸

آخر ميں انھيں يہ گوش گزار كيا گيا ہے كہ ظلم وستم كے ذريعے اور استعمارى ہتھكنڈوں سے بڑھنے والى دولت تمہارى بے نيازى اور استغناء كا سب نہيں بن سكتى بلكہ حلال طريقے سے حاصل كيا ہوا جو سرمايہ تمہارے پاس باقى رہ جائے چاہے وہ تھوڑاہى ہو اگر خدا اور اس كے رسول پر ايمان كے ساتھ ہو تو بہترہے _(۱)

ہٹ دھرموں كى بے بنياد منطق

اب ہم ديكھتے ہيں كہ اس ہٹ دھرقوم نے اس آسمانى مصلح كى دعوت كے جواب ميں كيا رد عمل ظاہر كيا _

وہ جو بتوں كو اپنے بزرگوں كے آثار اور اپنے اصلى تمدن كى نشانى خيال كرتے تھے اور كم فروشى اور دھوكا بازى سے معاملات ميں بڑے بڑے فائدے اور مفادات اٹھاتے تھے حضرت شعيب كے جواب ميں كہنے لگے: اے شعيب : كيا تيرى نماز تجھے حكم ديتى ہے كہ ہم انہيں چھوڑديں كہ جن كى ہمارے آبائو اجداد پرستش كرتے تھے اور يا اپنے اموال كے بارے ميں اپنى آزادى سے ساتھ دھو بيٹھيں تو تو ايك بردبار حوصلہ مند اور سمجھ دار آدمى ہے تجھ سے يہ باتيں بعيد ہيں _(۲)(۳)

اس ظالم اور ستم گر قوم نے جب خود كوشعيب عليہ السلام كى منطقى باتوں كے مقابلے ميں بے دليل ديكھا تو اپنى برائيوں كو جارى و سارى ركھنے كے لئے ان پر تہمتوں كى بوچھاڑكردى _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۶

(۲)سورہ ہود آيت ۸۷

(۳)يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ انہوں مو حضرت شعيب كى نماز كا ذكر كيوں كيا ؟ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ يہ اس بناء پر تھا كہ حضرت شعيب زيادہ نماز پڑھتے تھے اور لوگوں سے كہتے تھے كہ نماز انسان كو برے اور قبيح اعمال سے روكتى ہے ليكن وہ لوگ جو نماز اور ترك منكرات كے رابطے كو نہ سمجھ سكے انہوں نے اس بات كا تمسخر اڑايا اور كہا كہ كيا يہ ذكر واذكار اور حركات تجھے حكم ديتى ہيں كہ ہم اپنے بزرگوں كے طور طريقے اور مذہبى ثقافت كو پائوں تلے روندديں يا اپنے اموال كے بارے ميں اپنا اختيار گنوابيٹھيں _

۲۵۹

سب سے پہلے وہى پراناليبل جو مجرم اور ظالم لوگ ہميشہ سے خدا كے انبياء پرلگاتے رہے ہيں آپ پر بھى لگايا اور كہا : ''توتو بس پاگل ہے''_(۱)

تيرى گفتگو ميں كوئي منطقى اور مدلل بات دكھائي نہيں ديتى تيرا خيال ہے كہ ايسى باتيں كركے تو ہميں اپنے مال ميں آزادى عمل سے روك دے ،اس كے علاوہ '' تو بھى تو صرف ہمارى طرح كا ايك انسان ہے '' _(۲) كيا تو سمجھتا ہے كہ ہم تيرى اطاعت كريں گے آخر تجھے ہم پر كون سى فضيلت اور برترى حاصل ہے_

''تيرے بارے ميں ہمارايہى خيال ہے كہ تو ايك جھوٹا شخص ہے ''_(۳)

ان كى يہ گفتگو كيسى تضادات پر مبنى ہے كبھى تو انھيں ايسا جھوٹا اور مفادپرست انسان كہتے تھے جود عوائے نبوت كى وجہ سے ان پر فوقيت حاصل كرنا چاہتاہے اور كبھى انھيں مجنون كہتے تھے ان كى آخرى بات يہ تھى كہ بہت اچھا '' اگر توسچا ہے تو ہمارے سر پر آسمان سے پتھربرسا اور ہميں اس مصيبت ميں مبتلا كردے جس كى ہميں دھمكى دے رہاہے تاكہ تجھے معلوم ہوجائے كہ ہم ايسى دھمكيوں سے نہيں ڈرتے ''_(۴) يہ الفاظ كہہ كرانھوں نے اپنى ڈھٹائي اوربے حيائي كى انتہا كردى اور اپنے كفرو تكذيب كا بدترين مظاہرہ كيا _

جناب شعيب(ع) كا جواب

ليكن جنہوں نے ان كى باتوں كو حماقت پرحمل كيا تھا اور ان كى بے عقلى كى دليل قرار دياتھا حضرت شعيب نے ان سے كہا:''اے ميرى قوم :(اے وہ لوگو: كہ تم مجھ سے ہو اور ميں تم سے ہوں اور جو كچھ ميں اپنے لئے پسند كرتا ہوں وہى تمہارے لئے بھى پسند كرتاہوں ) اگر خدا نے مجھے واضح دليل وحى اور نبوت دى ہو اوراس كے علاوہ مجھے پاكيزہ روزى اور حسب ضرورت مال ديا ہوتو كيا اس صورت ميں صحيح ہے كہ ميں اس كے فرمان كى مخالفت كروں يا تمہارے بارے ميں كوئي غرض ركھوں اور تمہارا خير خواہ نہ بنوں ''_(۵)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۸۵ (۲)سورہ شعراء آيت ۱۸۵

(۳) سورہ شعراء آيت ۱۸۶ (۴)سورہ شعراء آيت۱۸۷

(۵)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۰