قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 310450
ڈاؤنلوڈ: 5326

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310450 / ڈاؤنلوڈ: 5326
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

ايسے لوگ چاہتے ہيں كہ تمام كاميابياں انھيں اتفاقا ًاور معجزانہ طور پر ہى حاصل ہوجائيں يعنى لقمہ بھى كوئي اٹھاكران كے منہ ميں ڈال دے وہ حضرت موسى عليہ السلام سے كہنے لگے :'' آپ جانتے ہيں كہ اس علاقے ميں ايك جابر اور جنگجو گروہ رہتاہے جب تك وہ اسے خالى كركے باہر نہ چلاجائے ہم تو اس علاقے ميں قدم تك نہيں ركھيں گے اسى صورت ميں ہم آپ كى اطاعت كريں گے اور سرزمين مقدس ميں داخل ہوں گے ''_(۱)

بنى اسرائيل كا يہ جواب اچھى طرح نشاندہى كرتا ہے كہ طويل فرعونى استعمارنے ان كى نسلوں پر كيسا اثر چھوڑا تھا لفظ'' لن '' جود ائمى پر دلالت كرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ لوگ سرزمين مقدس كى آزادى كے لئے مقابلے سے كس قدر خوف زدہ تھے _

چاہئے تو يہ تھا كہ بنى اسرائيل سعى وكوشش كرتے، جہادو قربانى كے جذبے سے كام اور سرزمين مقدس پر قبضہ كرليتے اگر فرض كريں كہ سنت الہى كے برخلاف بغير كسى اقدام كے ان كے تمام دشمن معجزانہ طور پر نابود ہوجاتے اور بغير كوئي تكليف اٹھائے وہ وسيع علاقے كے وارث بن جاتے تو اس كانظام چلانے اور اس كى حفاظت ميں بھى ناكام رہتے بغير زحمت سے حاصل كى ہوئي چيز كى حفاظت سے انھيں كيا سروكار ہوسكتا تھا نہ وہ اس كے لئے تيار ہوتے اور نہ اہل _

جيسا كہ تواريخ سے ظاہر ہوتا ہے آيت ميں قوم جبار سے مراد قوم ''عمالقہ'' ہے يہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے يہاں تك كہ ان كى بلند قامت كے بارے ميں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے اس سلسلے ميں مضحكہ خيز باتيں گھڑى گئيں جن كے لئے كوئي عملى دليل نہيں ہے _(۲)

____________________

(۱)سورہ مائدہ آيت ۲۲

(۲)خصوصاً '' عوج'' كے بارے ميں خرافات سے معمور ايسى كہانياں تاريخوں ميں ملتى ہيں _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايسے افسانے جن ميں سے بعض اسلامى كتب ميں بھى آگئے ہيں ، دراصل بنى اسرائيل كے گھڑے ہوئے ہيں انھيں عام طورپر '' اسرائيليات''كہا جاتا ہے اس كى دليل يہ ہے كہ خود موجودہ توريت كے متن ميں ايسے افسانے دكھائي ديتے ہيں _

۳۶۱

اس كے بعد قرآن كہتا ہے :''اس وقت اہل ايمان ميں سے دوافراد ايسے تھے جن كے دل ميں خوف خدا تھا اور اس بنا پر انھيں عظيم نعمتيں ميسر تھيں ان ميں استقامت وشجاعت بھى تھى ، وہ دور انديش بھى تھے اور اجتماعى اور فوجى نقطہ نظر سے بھى بصيرت ركھتے تھے انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كى دفاعى تجويز كى حمايت كى اور بنى اسرائيل سے كہنے لگے : تم شہر كے دروازے سے داخل ہوجائو اور اگر تم داخل ہوگئے تو كامياب ہوجائو گے ''_

ليكن ہر صورت ميں تمہيں روح ايمان سے مدد حاصل كرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ كروتاكہ اس مقصد كو پالو _''(۱)

اس بارے ميں كہ يہ دو آدمى كون تھے ؟اكثر مفسرين نے لكھا ہے كہ وہ'' يوشع بن نون'' اور'' كالب بن يوفنا''(''يفنہ ''بھى لكھتے ہيں ) تھے جو بنى اسرائيل كے نقيبوں ميں سے تھے _

جب كامياب ہو جاو تو ہميں بھى خبركرنا

بنى اسرائيل نے يہ تجويز قبول نہ كى اور ضعف وكمزورى جوان كى روح پر قبضہ كرچكى تھي، كے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسى عليہ السلام سے كہا:'' جب تك وہ لوگ اس سرزمين ميں ہيں ہم ہرگز داخل نہيں ہوں گے، تم اور تمہارا پروردگار جس نے تم سے كاميابى كا وعدہ كيا ہے،جائو اور عمالقہ سے جنگ كرو اور جب كامياب ہوجائو تو ہميں بتادينا ہم يہيں بيٹھے ہيں _(۲)

بنى اسرائيل نے اپنے پيغمبر كے ساتھ جسارت كى انتہاكردى تھي، كيونكہ پہلے تو انھوں نے لفظ ''لن'' اور'' ابداً'' استعمال كركے اپنى صريح مخالفت كا اظہار كيا اورپھر يہ كہا كہ تم اور تمہارا پروردگار جائو اور جنگ كرو، ہم تو يہاں بيٹھے ہيں ،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے وعدوں كي، تحقير كى يہاں تك كہ خدا كے ان دوبندوں كى تجويز كى بھى پرواہ نہيں كى اور شايد انھيں تو كوئي مختصر سا جواب تك نہيں ديا_

____________________

(۱)سورہ مائدہ آيت ۲۳

(۲)سورہ مائدہ آيت۲۴

۳۶۲

يہ امر قابل توجہ ہے كہ موجودہ توريت سفر اعداد باب ۱۴/ ميں بھى اس داستان كے بعض اہم حصے موجود ہيں _

حضرت موسى عليہ السلام ان لوگوں سے بالكل مايوس ہوگئے اور انھوں نے دعا كے لئے ہاتھ اٹھا ديئے اور ان سے عليحدگى كے لئے يوں تقاضا كيا : ''پروردگارميرا تو صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائي پر بس چلتا ہے : خدايا ہمارے اور اس فاسق وسركش گروہ ميں جدائي ڈال دے''_(۱)

بنى اسرائيل بيابان ميں سرگرداں

آخركار حضرت موسى عليہ السلام كى دعا قبول ہوئي اور بنى اسرائيل اپنے ان برے اعمال كے انجام سے دوچار ہوئے خدا كى طرف سے حضرت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي :''يہ لوگ اس مقدس سرزمين سے چاليس سال تك محروم رہيں گے جو طرح طرح كى مادى اورر وحانى نعمات سے مالامال ہے''_(۲)

علاوہ ازيں ان چاليس سالوں ميں انھيں اس بيابان ميں سرگرداں رہنا ہوگا اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سے فرمايا گيا ہے : ''اس قوم كے سرپر جو كچھ بھى آئے وہ صحيح ہے، ان كے اس انجام پر كبھى غمگين نہ ہونا ''_(۳)

آخرى جملہ شايد اس لئے ہو كہ جب بنى اسرائيل كے لئے يہ فرمان صادر ہوا كہ وہ چاليس سال تك سزا كے طور پر بيابان ميں سرگرداں رہيں حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں جذب ہ مہربانى پيدا ہوا ہو اور شايد انھوں نے درگاہ خداوندى ميں ان كے لئے عفوودر گذر كى درخواست بھى كى ہوجيسا كہ موجودہ توريت ميں بھى ہے_

ليكن انھيں فوراً جواب ديا گيا كہ وہ اس سزا كے مستحق ہيں نہ كہ عفوودرگذركے، كيونكہ جيسا كہ قرآن ميں ہے كہ وہ فاسق اور سركش لوگ تھے اور جو ايسے ہوں ان كے لئے يہ انجام حتمى ہے _

____________________

(۱)سورہ مائدہ آيت۲۵

(۲)سورہ مائدہ آيت۲۶

(۳)سورہ مائدہ آيت

۳۶۳

توجہ رہے كہ ان كے لئے چاليس سال كى يہ محروميت انتقامى جذبے سے نہ تھى (جيسا كہ خدا كى طرف سے كوئي سزا بھى ايسى نہيں ہوتى بلكہ وہ يا اصلاح كے لئے ہوتى ہے اور يا عمل كا نتيجہ)درحقيقت اس كا ايك فلسفہ تھا اور وہ يہ كہ بنى اسرائيل ايك طويل عرصے تك فرعونى استعمار كى ضربيں جھيل چكے تھے،اس عرصے ميں حقارت آميز رسومات،اپنے مقام كى عدم شناخت اور احساسات ذلت كا شكار ہو چكے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام جيسے عظيم رہبر كى سر پرستى ميں اس تھوڑے سے عرصے ميں اپنى روح كو ان خاميوں سے پاك نہيں كرسكے تھے اور وہ ايك ہى جست ميں افتخار،قدرت اور سربلندى كى نئي زندگى كے لئے تيار نہيں ہو پائے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام نے انھيں مقدس سرزمين كے حصول كے لئے جہاد آزادى كا جو حكم ديا تھا اس پر عمل نہ كرنے كے لئے انھوں نے جو كچھ كہا وہ اس حقيقت كى واضح دليل ہے لہذا ضرورى تھا كہ وہ ايك طويل مدت وسيع بيابانو ں ميں سرگرداں رہيں اور اس طرح ان كى ناتواں اور غلامانہ ذہنيت كى حامل موجودہ كمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجائے اور نئي نسل حريت و آزادى كے ماحول ميں اورخدائي تعليمات كى آغوش ميں پروان چڑھے تاكہ وہ اس قسم كے جہاد كے لئے اقدام كرسكے او راس طرح سے اس سرزمين پر حق كى حكمرانى قائم ہو سكے_

بنى اسرائيل كا ايك گروہ پشيمان ہوا

بنى اسرارئيل كا ايك گروہ اپنے كئے پر سخت پشيمان ہوا_انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا_خدا نے دوسرى مرتبہ بنى اسرائيل كو اپنى نعمتوں سے نوازا جن ميں سے بعض كى طرف قرآن ميں اشارہ كيا گيا ہے_

''ہم نے تمہارے سر پر بادل سے سايہ كيا''_(۱) سر خط وہ مسافر جو صبح سے غروب تك سورج كى گرمى ميں بيابان ميں چلتا ہے وہ ايك لطيف سائے سے كيسى راحت پائے گا(وہ سايہ جو بادل كا ہو جس سے انسان كے لئے نہ تو فضا محدود ہوتى ہو اور نہ جو ہوا چلنے سے مانع ہو)_

____________________

(۱)سورہء بقر آيت۵۷

۳۶۴

يہ صحيح ہے كہ بادل كے سايہ فگن ٹكڑوں كا احتمال ہميشہ بيابان ميں ہوتا ہے ليكن قرآن واضح طور پر كہہ رہا ہے كہ بنى اسرئيل كے ساتھ ايسا عام حالات كى طرح نہ تھا بلكہ وہ لطف خدا سے اكثر اس عظيم نعمت سے بہرہ ور ہوتے تھے_

دوسرى طرف اس خشك اور جلادينے والے بيابان ميں چاليس سا ل كى طويل مدت سرگرداں رہنے والوں كے لئے غذا كى كافى و وافى ضرورت تھي،اس مشكل كو بھى خداوند عالم نے ان كے لئے حل كرديا ،جيسا كہ اشاد ہوتا ہے:ہم نے'' من وسلوى '' جو لذيذ اور طاقت بخش غذا ہے تم پر نازل كيا_

ان پاكيزہ غذائوں سے جو تمہيں روزى كے طور پر دى گئي ہيں كھائو(اور حكم خدا كى نافرمانى نہ كرو اور اس كى نعمت كا شكر اداكرو_)

ليكن وہ پھر بھى شكر گزارى كے دروازے ميں داخل نہيں ہوئے(تاہم)''انہوں نے ہم پر كوئي ظلم نہيں كيا بلكہ اپنے اوپر ہى ظلم كيا ہے''_(۱)

منّ و سلوى كيا ہے؟

نبى اكرم (ص) سے منقول ايك روايت كے مطابق،آپ نے فرمايا:

''كھمبى كى قسم كى ايك چيز تھى جو اس زمين ميں اُگتى تھي''_پس معلوم ہوا كہ ''منّ''ايك ''قارچ''تھى جو اس علاقہ ميں پيدا ہوتى تھي_(۲)

____________________

(۱)سورہ بقر آيت۵۷

(۲)توريت ميں ہے كہ ''منّ''دھنيے كے دانوں جيسى كوئي چيزہے جو رات كو اس سر زمين پر آگرتى تھي،بنى اسرائيل اسے اكٹھا كركے پيس ليتے اور اس سے روٹى پكاتے تھے جس كا ذائقہ روغنى روٹى جيسا ہوتا تھا_

۳۶۵

ايك احتمال اور بھى ہے كہ بنى اسرائيل كى سرگردانى كے زمانے ميں خدا كے لطف وكرم سے جو نفع بخش بارشيں برستى تھيں ان كے نتيجے ميں درختوں سے كوئي خاص قسم كا صمغ اور شيرہ نكلتا تھا اور بنى اسرائيل اس سے مستفيد ہوتے تھے_

بعض نے كہا ہے كہ'' منّ'' سے مراد وہ تمام نعمتيں جو خدانے بنى اسرائيل كو عطا فرمائي تھيں اور سلوى وہ تمام عطيات ہيں جو ان كى راحت و آرام اور اطمينان كا سبب تھے_

''سلوى ''اگر چہ بعض مفسرين نے اسے شہد كے ہم معنى ليا ہے ليكن دوسرے تقريباًسب مفسرين نے اسے پرندے كى ايك قسم قرار ديا ہے_يہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقوں سے كثرت سے اس علاقے ميں آتا تھا اور بنى اسرائيل اس كے گوشت سے استفادہ كرتے تھے_عہدين پر لكھى گئي تفسير ميں بھى اس نظريہ كى تائيد دكھائي ديتى ہے_(۱)

البتہ بنى اسرائيل كى سرگردانى كے دنوں ميں ان پر خدا كا يہ خاص لطف وكرم تھا كہ يہ پرندہ وہاں كثرت سے ہوتا تھا تا كہ وہ اس سے استفادہ كرسكيں _ورنہ تو عام حالات ميں اس طرح كى نعمت كا وجود مشكل تھا_

بعض ديگر حضرات كے نزديك''من''ايك قسم كا طبيعى شہد ہے اور بنى اسرائيل اس بيابان ميں طويل مدت تك چلتے پھرتے رہنے سے شہد كے مخزنوں تك پہنچ جاتے تھے كيونكہ ''بيابان تيہ ''كے كناروں پر پہاڑ اور سنگلاخ علاقہ تھا جس ميں كافى طبيعى شہد نظر آجاتا تھا_

عہدين(توريت اور انجيل)پر لكھى گئي تفسير سے اس تفسير كى تائيد ہوتى ہے جس ميں ہے كہ مقدس سر زمين قسم قسم كے پھولوں اور شگوفوں كى وجہ سے مشہور ہے اسى لئے شہد كى مكھيوں كے جتھے ہميشہ پتھروں كے سوراخوں ،درختوں كى شاخوں اور لوگوں كے گھروں پر جا بيٹھتے ہيں اس طرح سے بہت فقير و مسكين لوگ بھى شہد كھا سكتے تھے_

____________________

(۱)اس ميں لكھا ہے معلوم ہونا چاہيے كہ بہت بڑى تعداد ميں سلوى افريقہ سے چل كے شمال كو جاتے ہيں _''جزيرہ كاپري'' ميں ايك فصل ميں ۱۶ہزار كى تعداد ميں ان كا شكار كيا گيا _يہ پرندہ بحيرہ قلزم كے راستے سے آتا ہے_ خليج عقبہ اور رسويز كو عبور كرتا ہے_ ہفتے كو جزيرہ سينا ميں داخل ہوتا ہے اور راستے ميں اس قدر تكان و تكليف جھيلنے كى وجہ سے آسانى سے ہاتھ سے پكڑا جا سكتا ہے، اور جب پرواز كرتا ہے تو زمين كے قريب ہوتا ہے_اس حصے كے متعلق(توريت كے)سفر خروج اور سفر اعداد ميں گفتگو ہوئي ہے_

اس تحرير سے بھى واضح ہوتا ہے كہ سلوى سے مراد وہى پر گوشت پرندہ ہے جو كبوتر كے مشابہ اور اس كے ہم وزن ہوتا ہے اور يہ پرندہ اس سر زمين ميں مشہور ہے _

۳۶۶

بيابانوں ميں چشمہ ابلنا

بنى اسرائيل پر كى گئي ايك اور نعمت كى نشاندہى كرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:''ياد كرو اس وقت كو جب موسى عليہ السلام نے(اس خشك اورجلانے والے بيا بان ميں جس وقت بنى اسرائيل پانى كى وجہ سے سخت تنگى ميں مبتلا تھے)پانى كى درخواست كي''_(۱) تو خدا نے اس درخواست كو قبول كيا جيسا كہ قرآن كہتا ہے:ہم نے اسے حكم ديا كہ اپنا عصا مخصوص پتھر پر مارو اس سے اچانك پانى نكلنے لگا اور پانى كے بارہ چشمے زور و شور سے جارى ہوگئے_(۲) بنى اسرائيل كے قبائيل كى تعداد كے عين مطابق جب يہ چشمے جارى ہوئے تو ايك چشمہ ايك قبيلے كى طرف جھك جاتا تھا جس پر بنى اسرائيل كے لوگوں ''اور قبيلوں ميں سے ہر ايك نے اپنے اپنے چشمے كو پہچان ليا_(۳) يہ پتھر كس قسم كا تھا،حضرت موسى عليہ السلام كس طرح اس پر عصا مارتے تھے اور پانى اس ميں سے كيسے جارى ہوجاتا تھا_اس سلسلے ميں بہت كچھ گفتگو كى گئي ہے_قرآن جو كچھ اس بارے ميں كہتا ہے وہ اس سے زيا دہ نہيں كہ موسى عليہ السلام نے اس پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے جارى ہوگئے_ بعض مفسرين كہتے ہيں كہ يہ پتھر ايك كوہستانى علاقے كے ايك حصے ميں واقع تھا جو اس بيابان كى طرف جھكا ہوا تھا_ سورہ اعراف آيہ۱۶۰كى تعبيراس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ابتداء ميں اس پتھر سے تھوڑا تھوڑا پانى نكلا ،بعد ميں زيادہ ہوگيا،يہاں تك كہ بنى اسرائيل كا ہر قبيلہ ان كے جانور جو ان كے ساتھ تھے اور وہ كھيتى جو انہوں نے احتمالاً اس بيابان كے ايك حصے ميں تيار كى تھى سب اس سے سيراب ہوگئے،يہ كوئي تعجب كى بات نہيں كہ كوہستانى علاقے ميں پتھر كے ايك حصے سے پانى جارى ہوا البتہ يہ مسلم ہے كہ يہ سب معجزے سے رونما ہوا_(۴)

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۶۰

(۲)سورہ بقرہ ايت ۶۰

(۳)سورہ بقرہ آيت۶۰

(۴)توريت كى سترھويں فصل ميں سفر خروج كے ذيل ميں بھى يوں لكھا ہے:

''خدا نے موسى عليہ السلام سے كہا:قوم كے آگے آگے رہو اور اسرائيل كے بعض بزرگوں كو ساتھ لے لو اور وہ عصا جسے نہر پر مارا تھا ہاتھ ميں لے كر روانہ ہو جائو_ ميں وہاں تمہارے سامنے كوہ حوريب پر كھڑا ہوجائوں گا_ اور اسے پتھر پر مارو،اس سے پانى جارى ہوجائےگا ،تاكہ قوم پى لے اور موسى عليہ السلام نے اسرائيل كے مشائخ اور بزرگوں كے سامنے ايسا ہى كيا''_

۳۶۷

بہر حال ايك طرف خداوند عالم نے ان پر من و سلوى نازل كيا اور دوسرى طرف انہيں فراوان پانى عطا كيا اور ان سے فرمايا:''خدا كى دى ہوئي روزى سے كھائو پيو ليكن زمين ميں خرابى اور فساد نہ كرو''_(۱)

گويا انہيں متوجہ كيا گياہے كہ كم از كم ان عظيم نعمتوں كى شكر گزارى كے طور پر ضدى پن،ستمگري،انبياء كى ايذا رسانى اور بہانہ بازى ترك كردو_

مختلف كھانوں كى تمنا

ان نعمات فراوان كى تفصيل كے بعد جن سے خدا نے بنى اسرائيل كو نوازا تھا_ قرآن ميں ان عظيم نعمتوں پر ان كے كفران اور ناشكر گزارى كى حالت كو منعكس كيا گيا ہے_اس ميں اس بات كى نشاندہى ہے كہ وہ كس قسم كے ہٹ دھرم لوگ تھے_شايد تاريخ دنيا ميں ايسى كوئي مثال نہ ملے گى كہ كچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الہى ہو ليكن انہوں نے اس طرح سے اس كے مقابلے ميں ناشكر ى اور نا فرمانى كى ہو_

پہلے فرمايا گيا ہے:

''ياد كرو اس وقت كو جب تم نے كہا :اے موسى ہم سے ہر گز يہ نہيں ہوسكتا كہ ايك ہى غذا پر قناعت كرليں ،(من و سلوى كتنى ہى لذيذ غذا ہو، ہم مختلف قسم كى غذا چاہتے ہيں _)(۲)

''لہذا خدا سے خواہش كرو كہ وہ زمين سے جو كچھ اگايا كرتا ہے ہمارے لئے بھى اگائے سبزيوں ميں سے،ككڑي،لہسن،مسور اور پياز''_(۳)

ليكن موسى عليہ السلام نے ان سے كہا:''كيا تم بہتر كے بجائے پست تر غذا پسند كرتے ہو''_(۴)

''جب معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر اس بيابان سے نكلو اور كسى شہر ميں داخل ہونے كى كوشش كروكيونكہ جو كچھ تم چاہتے ہو وہ وہاں ہے''_(۵) يعنى تم لوگ اس وقت اس بيابان ميں خود سازى اور امتحان كى منزل ميں ہو،يہاں مختلف كھانے نہيں مل سكتے ،جاو شہر ميں جاو تاكہ يہ چيزيں تمہيں مل جائيں ،ليكن يہ خود سازى كا پروگرام وہاں نہيں ہے_ اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے كہ خدا نے ان كى پيشانى پر ذلت و فقر كى مہر لگاديااور وہ دوبارہ غضب الہى ميں گرفتار ہوگئے

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۶۰ (۲)سورہ بقرہ آيت۶۱ (۳)سورہ بقرہ آيت۶۱

(۴)سورہ بقرہ آيت۶۱ (۵)سورہ بقرہ آيت۶۱

۳۶۸

_ يہ اس لئے ہوا كہ وہ آيات الہى كا انكار كرتے تھے اور ناحق انبياء كو قتل كرتے تھے _ يہ سب اس لئے تھا كہ وہ گناہ،سركشى اور تجاوز كے مرتكب ہوتے تھے_(۱)

عظيم وعدہ گاہ

قرآن ميں بنى اسرائيل كى زندگى كا ايك اور منظر بيان كيا گيا ہے_ ايك مرتبہ پھر حضرت موسى عليہ السلام كو اپنى قوم سے جھگڑنا پڑا ہے،حضرت موسى عليہ السلام كا خدا كے مقام وعدہ پر جانا،وحى كے ذريعے احكام توريت لينا،خدا سے باتيں كرنا،كچھ بزرگان بنى اسرائيل كو ميعاد گاہ ميں ان واقعات كے مشاہدہ كے لئے لانا،اس بات كا اظہار ہے كہ خدا كو ان آنكھوں سے ہر گز نہيں ديكھا جاسكتا_ پہلے فرمايا گيا ہے:''ہم نے موسى سے تيس راتوں (پورے ايك مہينہ)كا وعدہ كيا،اس كے بعد مزيد دس راتيں بڑھا كر اس وعدہ كى تكميل كي، چنانچہ موسى سے خدا كا وعدہ چاليس راتوں ميں پورا ہوا''_(۲)

اس كے بعد اس طرح بيان كيا گيا ہے:''موسى نے اپنے بھائي ہارون سے كہا:ميرى قوم ميں تم ميرے جانشين بن جائو اور ان كى اصلاح كى كوشش كرو اور كبھى مفسدوں كى پيروى نہ كرنا''_(۳)(۴)

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۶۱ (۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۲ (۳)سورہ اعراف آيت۱۴۳

(۴)پہلا سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ خدا نے پہلے ہى سے چاليس راتوں كا وعدہ كيوں نہ كيا بلكہ پہلے تيس راتوں كا وعدہ كيا اس كے بعد دس راتوں كا اور اضافہ كرديا_

مفسرين كے درميان اس تفريق كے بارے ميں بحث ہے، ليكن جو بات بيشتر قرين قياس ہے،نيز روايات اہل بيت عليہم السلام كے بھى موافق ہے وہ يہ ہے كہ يہ ميعاد اگر چہ واقع ميں چاليس راتوں كا تھا ليكن خدا نے بنى اسرائيل كى آزمائش كرنے كے لئے پہلے موسى عليہ السلام كو تيس راتوں كى دعوت دى پھر اس كے بعد اس كى تجديد كردى تا كہ منافقين مومنين سے الگ ہوجائيں _اس سلسلے ميں امام محمد باقر عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: جس وقت حضرت موسى عليہ السلام وعدہ گاہ الہى كى طرف گئے تو انہوں نے بنى اسرائيل سے يہ كہہ ركھا تھا كہ ان كى غيبت تيس روز سے زيادہ طولانى نہ ہوگى ليكن جب خدا نے اس پر دس دنوں كا اضافہ كرديا تو بنى اسرائيل نے كہا:موسى عليہ السلام نے اپنا وعدہ توڑ ديا اس كے نتيجہ ميں انہوں نے وہ كام كئے جو ہم جانتے ہيں (يعنى گوسالہ پرستى ميں مبتلا ہوگئے_) رہا يہ سوال كہ يہ چاليس روز يا چاليس راتيں ،اسلامى مہينوں ميں سے كونسا زمانہ تھا؟ بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مدت ذيقعدہ كى پہلى تاريخ سے لے كر ذى الحجہ كى دس تاريخ تك تھي_ قرآن ميں چاليس راتوں كا ذكر ہے نہ كہ چاليس دنوں كا_ تو شايد اس وجہ سے ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كى اپنے رب سے جو مناجاتيں تھيں وہ زيادہ تر رات ہى كے وقت ہوا كرتى تھيں _ اس كے بعد ايك اور سوال سامنے آتا ہے،وہ يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كسطرح اپنے بھائي ہارون(ع) سے كہا كہ:قوم كى اصلاح كى كوشش كرنا اور مفسدوں كى پيروى نہ كرنا،جبكہ حضرت ہارون(ع) ايك نبى برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں كى پيروى كيوں كرنے لگے؟ اس كا جواب يہ ہے كہ:يہ درحقيقت اس بات كى تاكيد كے لئے تھا كہ حضرت ہارون(ع) كو اپنى قوم ميں اپنے مقام كى اہميت كا احساس رہے اور شايد اس طرح سے خود بنى اسرائيل كو بھى اس بات كا احساس دلانا چاہتے تھے كہ وہ ان كى غيبت ميں حضرت ہارون(ع) كى رہنمائي كا اچھى طرح اثر ليں اور ان كا كہنا مانيں اور ان كے اوامر ور نواہي(احكامات)كو اپنے لئے سخت نہ سمجھيں ،اس سے اپنى تحقير خيال نہ كريں اور انكے سامنے اس طرح مطيع و فرمانبرداررہيں جس طرح وہ خود حضرت موسى عليہ السلام كے فرمانبردار تھے_

۳۶۹

ديدار پرودگار كى خواہش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى زندگى كے بعض ديگر مناظر پيش كئے گئے ہيں _ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے ايك گروہ نے حضرت موسى عليہ السلام سے بڑے اصرار كے ساتھ يہ خواہش كى كہ وہ خدا كو ديكھيں گے_ اگر ان كى يہ خواہش پورى نہ ہوئي تو وہ ہر گز ايمان نہ لائيں گے_ چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام نے ان كے ستر آدميوں كا انتخاب كيا اور انہيں اپنے ہمراہ پروردگار كى ميعادگاہ كى طرف لے گئے، وہاں پہنچ كر ان لوگوں كى درخواست كو خدا كى بارگاہ ميں پيش كيا_ خدا كى طرف سے اس كا ايسا جواب ملا جس سے بنى اسرائيل كے لئے يہ بات اچھى طرح سے واضح ہوگئي_

ارشاد ہوتا ہے:'' جس وقت موسى ہمارى ميعادگاہ ميں آئے اور ان كے پروردگار نے ان سے باتيں كيں تو انہوں نے كہا:اے پروردگار خود كو مجھے دكھلادے تاكہ ميں تجھے ديكھ لوں ''_(۱) ليكن موسى عليہ السلام نے فوراًخدا كى طرف سے يہ جواب سنا: تم ہز گز مجھے نہيں ديكھ سكتے _ ليكن پہاڑ كى حانب نظر كرو اگر وہ اپنى جگہ پر ٹھہرا رہا تب مجھے ديكھ سكو گے_

جس وقت خدا نے پہاڑ پر جلوہ كيا تو اسے فنا كرديا اور اسے زمين كے برابر كرديا_

موسى عليہ السلام نے جب يہ ہولناك منظر ديكھا تو ايسا اضطراب لاحق ہوا كہ بے ہوش ہو كر زمين پر گرپڑے_اور جب ہوش ميں آئے تو خدا كى بارگاہ ميں عرض كى پروردگاراتو منزہ ہے،ميں تيرى طرف پلٹتا ہوں ،اور توبہ كرتا ہوں اور ميں پہلا ہوں مومنين ميں سے_(۲)

حضرت موسى عليہ السلام نے رويت كى خواہش كيوں كي؟

حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولوالعزم نبى كو اچھى طرح معلوم تھا كہ ذات خداوندى قابل ديد نہيں ہے كيونكہ نہ تو وہ جسم ہے،نہ اس كے لئے كوئي مكان و جہت ہے اس كے باوجود انہوں نے ايسى خواہش كيسے كردى جو فى الحقيقت ايك عام انسان كى شان كے لئے بھى مناسب نہيں ہے؟

سب سے واضح جواب يہ ہے كہ جضرت موسى عليہ السلام نے يہ خواہش در اصل اپنى قوم كى طرف سے كى تھى كيونكہ بنى اسرائيل كے جہلاء كے ايك گروہ كا يہ اصرار تھا كہ وہ خدا كو كھلم كھلا ديكھيں گے تب ايمان لائيں گے_

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۴۳

(۲)سورہ اعراف آيت۱۴۳

۳۷۰

حضرت موسى عليہ السلام كو اللہ كى جانب سے يہ حكم ملا كہ وہ اس درخواست كو خدا كى بارگاہ ميں پيش كريں تا كہ سب اس كا جواب سن ليں ،كتاب عيون اخبار الرضا ميں امام رضا عليہ السلام سے جو حديث مروى ہے وہ بھى اس مطلب كى تائيد كرتى ہے_(۱)

الواح توريت

آخر كار اس عظيم ميعادگاہ ميں اللہ نے موسى عليہ السلام پر اپنى شريعت كے قوانين نازل فرمائے_پہلے ان سے فرمايا:''اے موسى ميں نے تمہيں لوگوں پر منتخب كيا ہے،اور تم كو اپنى رسالتيں دى ہيں ،اور تم كو اپنے ساتھ گفتگو كا شرف عطا كيا ہے''_(۲)

____________________

(۱)حضرت موسى عليہ السلام نے كس چيز سے توبہ كى ؟اس بارے ميں جوسوال سامنے آتا ہے يہ ہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام ہوش ميں آئے تو انہوں نے كيوں كہا :''ميں تو بہ كر تا ہوں ''

حالانكہ انہوں نے كوئي خلاف ورزى نہيں كى تھي_كيونكہ اگر انہوں نے يہ درخواست اپنى امت كى طرف سے كى تھى تو اس ميں ان كا كيا قصور تھا،اللہ كى اجازت سے انہوں نے يہ درخواست خدا كے سامنے پيش كى اور اگر اپنے لئے شہود باطنى كى تمنا كى تھى تو يہ بھى خدا كے حكم كى مخالفت نہ تھي،لہذا توبہ كس بات كى تھي؟دوطرح سے اس سوال كا جواب ديا جا سكتا ہے:

اول:يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كى نمائندگى كے طور پر خداسے يہ سوال كيا تھا،اس كے بعد جب خدا كى طرف سے سخت جواب ملا جس ميں اس سوال كى غلطى كو بتلايا گيا تھا تو حضرت موسى عليہ السلام نے توبہ بھى انہيں كى طرف سے كى تھي_

دوم:يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اگر چہ يہ حكم ديا گيا تھا كہ وہ بنى اسرائيل كى درخواست كو پيش كريں ليكن جس وقت پروردگار كى تجلى كا واقعہ رونما ہوا اور حقيقت آشكار ہوگئي تو حضرت موسى عليہ السلام كى يہ ماموريت ختم ہوچكى تھى اب حضرت موسى عليہ السلام كو چاہيئے پہلى حالت(يعنى قبل از ماموريت)كى طرف پلٹ جائيں اور اپنے ايمان كا اظہار كريں تاكہ كسى كے لئے جائے شبہ باقى نہ رہے،لہذا اس حالت كا اظہار موسى عليہ السلام نے اپنى توبہ اور اس جملہ ''انى تبت اليك وانا اول المو منين''سے كيا_

(۲)سورہ اعراف۱۴۴

۳۷۱

اب جبكہ ايسا ہے تو''جو ميں نے تم كو حكم ديا ہے اسے لے لو اور ہمارے اس عطيہ پر شكر كرنے والوں ميں سے ہوجائو''_(۱)

اس كے بعد اضافہ كيا گيا ہے كہ :ہم نے جو الواح موسى عليہ السلام پر نازل كى تھيں ان پر ہر موضوع كے بارے ميں كافى نصيحتيں تھيں اورضرورت كے مسائل كى شرح اور بيان تھا_

اس كے بعد ہم نے موسى عليہ السلام كو حكم ديا كہ''بڑى توجہ اور قوت ارادى كے ساتھ ان فرامين كو اختيار كرو_''(۲) اور اپنى قوم كو بھى حكم دو كہ ان ميں جو بہترين ہيں انہيں اختيار كريں _

اور انہيں خبردار كردوكہ ان فرامين كى مخالفت اور ان كى اطاعت سے فرار كرنے كا نتيجہ دردناك ہے اوراس كا انجام دوزخ ہے اور ''ميں جلد ہى فاسقوں كى جگہ تمہيں دكھلادوں گا_''(۳)(۴)

____________________

(۱)سورہ اعراف۱۴۴

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۵

(۳)سورہ اعراف آيت۱۴۵

(۴)يہاں پردو چيزوں كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے:

۱_الواح كس چيز كى بنى ہوئي تھيں :اس آيت كا ظاہر يہ ہے كہ خداوند كريم نے حضرت موسى عليہ السلام پر جو الواح نازل كى تھيں ان ميں توريت كى شريعت اور قوانين لكھے ہوئے تھے ،ايسا نہ تھا كہ يہ لوحيں حضرت موسى عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھيں اور اس ميں فرامين منعكس ہوگئے تھے_ اب رہا يہ سوال كہ يہ لوحيں كيسى تھيں ؟كس چيز كى بنى ہوئي تھيں ؟ قرآن نے اس بات كى كوئي وضاحت نہيں كى ہے صرف كلمہ''الواح'' سربستہ طور پر آيا ہے_جو در اصل''لاح يلوح''كے مادہ سے ماخوذ ہے جس كے معنى ظاہر ہونے اور چمكنے كے ہيں _چونكہ صفحہ كے ايك طرف لكھنے سے حروف نماياں ہوجاتے ہيں اور مطلب آشكار ہوجاتے ہيں ،اس لئے صفحہ كو جس پر كچھ لكھا جائے''لوح''كہتے ہيں _ليكن روايات و اقوال مفسرين ميں ان الواح كى كيفيت كے بارے ميں اور ان كى جنس كے بارے ميں گوناگوں احتمالات ذكر كئے گئے ہيں _ چونكہ ان ميں سے كوئي بھى يقينى نہيں ہے اس لئے ان كے ذكر سے ہم اعراض كرتے ہيں _

۲_كلام كيسے ہوا:قرآن كريم كى مختلف آيات سے استفادہ ہوتا ہے كہ خداوندمتعال نے حضرت موسى عليہ السلام سے كلام كيا،خدا كا موسى عليہ السلام سے كلام كرنا اس طرح تھا كہ اس نے صوتى امواج كو فضا ميں يا كسى جسم ميں پيدا كرديا تھا_ كبھى يہ امواج صوتي''شجرہ وادى ايمن ''سے ظاہر ہوتى تھيں اور كبھي''كوہ طور'' سے حضرت موسى عليہ السلام كے كان ميں پہنچتى تھيں _ جن لوگوں نے صرف الفاظ پر نظر كى ہے اور اس پر غور نہيں كيا كہ يہ الفاظ كہاں سے نكل سكتے ہيں انہوں نے يہ خيال كيا كہ خدا كا كلام كرنا اس كے تجسم كى دليل ہے_حالانكہ يہ خيال بالكل بے بنياد ہے_

۳۷۲

يہوديوں ميں گوسالہ پرستى كاآغاز

قرآن ميں افسوسناك اور تعجب خيز واقعات ميں سے ايك واقعہ كا ذكر ہوا ہے جو حضرت موسى عليہ السلام كے ميقات كى طرف جانے كے بعد بنى اسرائيل ميں رونما ہوا_وہ واقعہ ان لوگوں كى گوسالہ پرستى ہے_ جو ايك شخص بنام''سامري''نے زيور و آلات بنى اسرائيل كے ذريعے شروع كيا_

سامرى كو چونكہ اس بات كا احساس تھاكہ قوم موسى عليہ السلام عرصہ دراز محرومى اور مظلومى كى زندگى بسر كررہى تھى اس وجہ سے اس ميں ماد ہ پرستى پائي جاتى تھى اور حب زر كا جذبہ بدرجہ اتم پايا جاتا تھا_ جيسا كہ آج بھى ان كى يہى صفت ہے لہذا اس نے يہ چالاكى كى كہ وہ مجسمہ سونے كا بناياكہ اس طرح ان كى تو جہ زيادہ سے زيادہ اس كى طرف مبذول كراسكے_

اب رہا يہ سوال كہ اس محروم و فقير ملت كے پاس اس روز اتنى مقدارميں زروزيور كہاں سے آگيا كہ اس سے يہ مجسمہ تيار ہوگيا؟اس كا جواب روايات ميں اس طرح ملتا ہے كہ بنى اسرائيل كى عورتوں نے ايك تہوار كے موقع پر فرعونيوں سے زيورات مستعار لئے تھے يہ اسوقت كى بات ہے جس كے بعد ان كى غرقابى عمل ميں آئي تھي_اس كے بعد وہ زيورات ان عورتوں كے پاس باقى رہ گئے تھے_

اتنا ضرور ہے كہ يہ حادثہ مثل ديگر اجتماعى حوادث كے بغير كسى آمادگى اور مقدمہ كے وقوع پذيز نہيں ہوا بلكہ اس ميں متعدد اسباب كار فرما تھے،جن ميں سے بعض يہ ہيں :

بنى اسرائيل عرصہ دراز سے اہل مصر كى بت پرستى ديكھتے آرہے تھے_

جب دريائے نيل كو عبور كيا تو انہوں نے ايك قوم كو ديكھا جو بت كى پرستش كرتى تھي_ جيسا كہ قرآن نے بھى اس كا ذكر كيا ہے اور گذشتہ ميں بھى اس كا ذكر گزرا كہ بنى اسرائيل نے حضرت موسى عليہ السلام سے ان كى طرح كا بت بنانے كى فرمائش كى جس پر حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں سخت سرزنش كي_

حضرت موسى عليہ السلام كے ميقات كاپہلے تيس راتوں كا ہونا اس كے بعد چاليس راتوں كا ہوجانا اس سے بعض منافقوں كو يہ موقع ملاكہ حضرت موسى عليہ السلام كى وفا ت كى افواہ پھيلا ديں _

۳۷۳

قوم موسى عليہ السلام ميں بہت سے افرادكا جہل و نادانى سے متصف ہونا اس كے مقابلے ميں سامرى كى مكارى و مہارت كيونكہ اس نے بڑى ہوشيارى سے بت پرستى كے پروگرام كو عملى جامہ پہنايا، بہر حال ان تمام باتوں نے اكٹھا ہوكر اس بات كے اسباب پيدا كئے كہ بنى اسرائيل كى اكثريت بت پرستى كو قبول كرے اور''گوسالہ''كے چاروں طرف اس كے ماننے والے ہنگامہ برپاكرديں _

دودن ميں چھ لاكھ گوسالہ پرست بن گئے

سب سے بڑھ كرعجيب بات يہ ہے كہ بعض مفسرين نے يہ بيان كيا ہے كہ بنى اسرائيل ميں يہ انحرافى تبديلياں صرف گنتى كے چند دنوں كے اندر واقع ہوگئيں جب موسى عليہ السلام كو ميعاد گاہ كى طرف گئے ہوئے ۳۵/دن گزر گئے تو سامرى نے اپنا كام شروع كرديا اور بنى اسرائيل سے مطالبہ كيا كہ وہ تمام زيورات جو انہوں نے فرعونيوں سے عاريتاًلئے تھے اور ان كے غرق ہوجانے كے بعد وہ انھيں كے پاس رہ گئے تھے انہيں جمع كريں چھتيسويں ، سنتيسويں اور اڑ تيسويں دن انہيں ايك كٹھائي ميں ڈالااور پگھلاكر اس سے گوسالہ كا مجسمہ بنا ديا اور انتاليسويں دن انہيں اس كى پرستش كى دعوت دى اور ايك بہت بڑى تعداد (كچھ روايات كى بناء پر چھ لاكھ افراد) نے اسے قبول كرليااور ايك روز بعد يعنى چاليس روز گزرنے پر موسى عليہ السلام واپس آگئے _

قرآن اس طرح فرماتا ہے:

''قوم موسى نے موسى كے ميقات كى طرف جانے كے بعد اپنے زيوارات وآلات سے ايك گوسالہ بنايا جو ايك بے جان جسد تھا جس ميں سے گائے كى آواز آتى تھي_(۱)

اسے انہوں نے اپنے واسطے انتخاب كيا ''

اگرچہ يہ عمل سامرى سے سرزد ہوا تھا_(۲)

ليكن اس كى نسبت قوم موسى كى طرف دى گئي ہے اس كى وجہ يہ ہے كہ ان ميں سے بہت سے لوگوں

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۴۸

(۲)جيسا كہ سورہ طہ كى آيات ميں آياہے

۳۷۴

نے اس كام ميں سامرى كى مدد كى تھى اور وہ اس كے شريك جرم تھے اس كے علاوہ ان لوگوں كى بڑى تعداد اس كے فعل پر راضى تھى _

قرانى گفتگو كاظاہر يہ ہے كہ تمام قوم موسى اس گوسالہ پرستى ميں شريك تھى ليكن اگردوسرى ايت پر نظر كى جائے جس ميں آيا ہے كہ :

''قوم موسى ميں ايك امت تھى جو لوگوں كو حق كى ہدايت كرتى تھى اور اسى كى طرف متوجہ تھي''_(۱)

اس سے معلوم ہوگا كہ اس سے مراد تمام امت موسى نہيں ہے بلكہ اس كى اكثريت اس گوسالہ پرستى كى تابع ہوگئي تھي، جيسا كہ آئندہ آنے والا ہے كہ وہ اكثريت اتنى زيادہ تھى كہ حضرت ہارون عليہ السلام مع اپنے ساتھيوں كے ان كے مقالے ميں ضعيف وناتواں ہوگئے تھے _

گوسالہ پرستوں كے خلاف شديد رد عمل

يہاں پر قرآن ميں اس كشمكش اور نزاع كا ماجرا بيان كيا گيا ہے جو حضرت موسى عليہ السلام اور گوسالہ پرستوں كے درميان واقع ہوئي جب وہ ميعادگاہ سے واپس ہوئے جس كى طرف گذشتہ ميں صرف اشارہ كيا گيا تھا يہاں پر تفصيل كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كے اس رد عمل كو بيان كيا گيا ہے جو اس گروہ كے بيدار كرنے كے لئے ان سے ظاہر ہوا _

پہلے ارشاد ہوتا :'' جس وقت موسى غضبناك ورنجيدہ اپنى قوم كى طرف پلٹے اور گوسالہ پرستى كانفرت انگيز منظر ديكھا تو ان سے كہا كہ تم لوگ ميرے بعد برے جانشين نكلے تم نے ميرا آئين ضائع كرديا ''_(۲)

يہاں سے صاف معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام ميعاد گاہ پروردگار سے پلٹتے وقت قبل اس كے كہ بنى اسرائيل سے ملتے، غضبناك اور اندو ہگين تھے، اس كى وجہ يہ تھى كہ خدا نے ميعادگاہ ميں انہيں اس كى خبردے دى تھى _

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۱۵۹

(۲)سورہ اعراف آيت۱۵۰

۳۷۵

جيسا كہ قرآن كہتا ہے :ميں نے تمہارے پيچھے تمہارى قوم كى آزمائش كى ليكن وہ اس آزمائش ميں پورى نہ اترى اور سامرى نے انہيں گمراہ كر ديا_

اس كے بعد موسى عليہ السلام نے ان سے كہا:'' آيا تم نے اپنے پروردگار كے فرمان كے بارے ميں جلدى كى ''_(۱)

تم نے خدا كے اس فرمان، كہ اس نے ميعاد كا وقت تيس شب سے چاليس شب كرديا ، جلدى كى اور جلد فيصلہ كرديا ، ميرے نہ آنے كو ميرے مرنے يا وعدہ خلافى كى دليل سمجھ ليا، حالانكہ لازم تھا كہ تھوڑا صبر سے كام ليتے ، چند روز اور انتظار كرليتے تاكہ حقيقت واضح ہوجاتى _

اس وقت جبكہ حضرت موسى عليہ السلام بنى اسرائيل كى زندگى كے ان طوفانى وبحرانى لمحات سے گزر رہے تھے، سرسے پيرتك غصہ اور افسوس كى شدت سے بھڑك رہے تھے ،ايك عظيم اندوہ نے ان كے وجود پر سايہ ڈال ديا تھا اور انہيں بنى اسرائيل كے مستقبل كے بارے ميں بڑى تشويش لاحق تھي، كيونكہ تخريب اور تباہ كارى آسانى سے ہوجاتى ہے كبھى صرف ايك انسان كے ذريعے بہت بڑى خرابى اور تباہى واقع ہوجاتى ہے ليكن اصلاح اور تعمير ميں دير لگتى ہے _

خاص طور پر جب كسى نادان متعصب اورہٹ دھر م قوم كے درميان كوئي غلط سازبجاديا جائے تو اس كے بعد اس كے برے اثرات كا زائل كرنا بہت مشكل ہوتا ہے _

بے نظير غصہ

اس موقع پر حضرت موسى عليہ السلام كو غصہ كرنا چاہئے تھا اور ايك شديد ردّ عمل ظاہر كر ناچا ہئے تھا تاكہ بنى اسرائيل كے فاسد افكار كى بنياد گر اكر اس منحرف قوم ميں انقلاب برپا كرديں ،ورنہ تو اس قوم كو پلٹانا مشكل تھا_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۵۰

۳۷۶

قرآن نے حضرت موسى عليہ السلام كا وہ شديد ردّ عمل بيان كيا ہے جو اس طوفانى و بحرانى منظركو ديكھنے كے بعد ان سے ظاہر ہوا ،موسى عليہ السلام نے بے اختيار نہ طور پر اپنے ہاتھ سے توريت كى الواح كو زمين پر ڈال ديا اور اپنے بھائي ہارون عليہ السلام كے پاس گئے اور ان كے سر اور داڑھى كے بالوں كو پكڑكر اپنى طرف كھينچا''(۱)

حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے علاوہ ہارون عليہ السلام كو بڑى شدت سے سرزنش كى اور بآواز بلند چيخ كرپكارے:

كيا تم نے بنى اسرائيل كے عقائدكى حفاظت ميں كوتاہى كى اور ميرے فرمان كى مخالفت كى ؟''(۲)

درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كا يہ ردّ عمل ايك طرف تو ان كى اس واردات قلبي، بے قرارى اور شديد ناراضى كى حكايت كرتا ہے تاكہ بنى اسرائيل كى عقل ميں ايك حركت پيدا ہو اور وہ اپنے اس عمل كى قباحت كى طرف متوجہ ہوجائيں _

بنابريں اگرچہ بالفرض الواح توريت كا پھينك دينا قابل اعتراض معلوم ہوتا ہو، اور بھائي كى شديد سرنش نادرست ہو ليكن اگرحقيقت كى طرف توجہ كى جائے كہ اگر حضرت موسى عليہ السلام اس شديد اور پرہيجانى ردّ عمل كا اظہار نہ كرتے تو ہر گز بنى اسرائيل اپنى غلطى كى سنگينى اور اہميت كا اندازہ نہيں كرسكتے تھے ،ممكن تھا كہ اس بت پرستى كے آثاربدان كے ذہنوں ميں باقى رہ جاتے لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے جو كچھ كيا وہ نہ صرف غلط نہ تھا بلكہ امر لازم تھا_

حضرت موسى عليہ السلام اس واقعہ سے اس قدر ناراض ہوئے كہ تاريخ بنى اسرائيل ميں كبھى اس قدر ناراض نہ ہوئے تھے كيونكہ ان كے سامنے بدترين منظر تھا يعنى بنى اسرائيل خدا پرستى كو چھوڑ كر گوسالہ پرستى اختيار كرچكے تھے جس كى وجہ سے حضرت موسى عليہ السلام كى وہ تمام زحمتيں جو انہوں نے بنى اسرائيل كى ہدايت كے لئے كى تھيں سب برباد ہورہى تھيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف ۱۵۰

(۲)سورہ طہ آيت ۱۵۰

-

۳۷۷

لہذا ايسے موقع پر الواح كا ہاتھوں سے گرجانا اور بھائي سے سخت مواخذہ كرنا ايك طبعى امر تھا_

اے ميرى ماں كے بيٹے ميں بے گناہ ہوں

اس شديد رد عمل اور غيظ وغضب كے اظہارنے بنى اسرائيل پر بہت زيادہ تربيتى اثر مرتب كيا اور منظر كو بالكل پلٹ ديا جبكہ اگر حضرت موسى عليہ السلام نرم زبان استعمال كرتے تو شايد اس كا تھوڑا سا اثر بھى مرتب نہ ہوتا _

اس كے بعد قرآن كہتا ہے : ہارون عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى محبت كو برانگيختہ كرنے كے لئے اور اپنى بے گناہى بيان كرنے كے لئے كہا:

''اے ميرے ماں جائے:اس نادان امت كے باعث ہم اس قدر قليل ہوگئے كہ نزديك تھا كہ مجھے قتل كرديں لہذا ميں بالكل بے گناہ ہوں لہذا آپ كوئي ايسا كام نہ كريں كہ دشمن ہنسى اڑائيں اور مجھے اس ستمگر امت كى صف ميں قرار نہ ديں ''_(۱)

قرآن ميں جو '' ابن ام'' كى تعبير آئي ہے جس كے معنى (اے ميرى ماں كے بيٹے،كے ہيں )حالانكہ موسى عليہ السلام اورہارون عليہ السلام دونوں ايك والدين كى اولاد تھے يہ اس لئے تھا كہ حضرت ہارون چاہتے تھے كہ حضرت موسى كا جذبہ محبت بيدار كريں بہر حال حضرت موسى عليہ السلام كى يہ تدبير كار آمد ہوئي اور بنى اسرائيل كو اپنى غلطى كا احساس ہوا اور انہوں نے توبہ كى خواہش كا اظہار كيا _''

اب حضرت موسى عليہ السلام كى آتش غضب كم ہوئي اور وہ درگاہ خداواندى كى طرف متوجہ ہوئے اور عرض كى :

''پروردگارا مجھے اور ميرے بھائي كو بخش دے اور ہميں اپنى رحمت بے پاياں ميں داخل كردے، تو تمام مہربانوں سے زيادہ مہربان ہے''_(۲)

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۵۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۵۰

۳۷۸

اپنے لئے اور اپنے بھائي كے لئے بخشش طلب كرنا اس بناپر نہيں تھا كہ ان سے كوئي گناہ سرزد ہوا تھا بلكہ يہ پروردگار كى بارگاہ ميں ايك طرح كا خضوع وخشوع تھا اور اس كى طرف بازگشت تھى اور بت پرستوں كے اعمال زشت سے اظہار تنفر تھا _(۱)

____________________

(۱)قران اور موجود ہ توريت كا ايك موازنہ

جيسا كہ آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ '' گوسالہ '' كو نہ تو بنى اسرائيل نے بنايا تھا نہ حضرت ہارون عليہ السلام نے ،بلكہ بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص سامرى نے يہ حركت كى تھي، جس پر حضرت ہارون عليہ السلام جو حضرت موسى عليہ السلام كے بھائي اور ان كے معاون تھے خاموش نہ بيٹھے بلكہ انہوں نے اپنى پورى كوشش صرف كي، انہوں نے اتنى كوشش كى كہ نزديك تھا كہ لوگ انہيں قتل كرديتے _ ليكن عجيب بات يہ ہے كہ موجودہ توريت ميں گوسالہ سازى اور بت پرستى كى طرف دعوت كو حضرت ہارون عليہ السلام كى طرف نسبت دى گئي ہے، چنانچہ توريت كے سفر خروج كى فصل ۳۲ ميں يہ عبارت ملتى ہے: جس وقت قوم موسى نے ديكھا كہ موسى كے پہاڑسے نيچے اترنے ميں دير ہوئي تو وہ ہارون كے پاس اكٹھا ہوئے اور ان سے كہا اٹھو اور ہمارے لئے ايسا خدا بنائو جوہمارے آگے آگے چلے كيونكہ يہ شخص موسى جو ہم كو مصر سے نكال كريہاں لايا ہے نہيں معلوم اس پر كيا گذري، ہارون نے ان سے كہا: طلائي بندے (گوشوارے) جو تمہارى عورتوں اور بچوں كے كانوں ميں ہيں انہيں ان كے كانوں سے اتار كر ميرے پاس لاو ،پس پورى قوم ان گوشواروں كو كانوں سے جدا كر كے ہارون كے پاس لائي، ہارون نے ان گوشواروں كو ان لوگوں كے ہاتھوں سے ليا اور كندہ كرنے كے ايك آلہ كے ذريعے تصوير بنائي اور اس سے ايك گوسالہ كا مجسمہ ڈھالااور كہا كہ اے بنى اسرائيل يہ تمہارا خدا ہے جو تمہيں سرزمين مصر سے باہر لايا ہے '' اسى كے ذيل ميں ان مراسم كوبيان كيا گيا ہے جوحضرت ہارون نے اس بت كے سامنے قربانى كرنے كے بارے ميں بيان كئے تھے _

جو كچھ سطور بالا ميں بيان ہوا يہ بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى كى داستان كا ايك حصہ ہے جو توريت ميں مذكورہے اس كى عبارت بعينہ نقل كى گئي ہے حالانكہ خود توريت نے حضرت ہارون كے مقام بلندكومتعدد فصول ميں بيان كيا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے معجزات حضرت ہارون عليہ السلام كے ذريعے ظاہر ہوئے تھے (فصل ۸ از سفر خروج توريت ) اور ہارون عليہ السلام كا حضرت مو سى عليہ السلام كے ايك رسول كى حيثيت سے تعارف كروايا گيا ہے_ (فصل ۸ از سفر خروج) بہركيف حضرت ہارون عليہ السلام جو حضرت موسى عليہ السلام كے جانشين برحق تھے اور ان كى شريعت كے سب سے بڑے عالم وعارف تھے توريت ان كے لئے مقام بلند كى قائل ہے اب ذراان خرافات كو بھى ديكھ ليجئے كہ انہيں ايك بت سازہى نہيں بلكہ ايك مئوسس بت پرستى كى حيثيت سے روشناس كرايا ہے بلكہ ''عذر گناہ بد تراز گناہ'' كے مقولہ كے مطابق ان كى جانب سے ايك غلط عذر پيش كيا كيونكہ جب حضرت موسى عليہ السلام نے ان پر اعتراض كيا تو انہوں نے يہ عذر پيش كيا كہ چونكہ يہ قوم بدى كى طرف مائل تھى اس لئے ميں نے بھى اسے اس راہ پرلگاديا جبكہ قرآن ان دونوں بلند پايہ پيغمبروں كو ہر قسم كے شرك اور بت پرستى سے پاك وصاف سمجھتا ہے _ صرف يہى ايك مقام نہيں جہاں قرآن تاريخ انبياء ومرسلين كى پاكى وتقدس كا مظہرہے جبكہ موجودہ توريت كى تاريخ انبياء ومرسلين كى ساحت قدس كے متعلق انواع واقسام كى خرافات سے بھرى ہوئي ہے ہمارے عقيدہ كے مطابق حقانيت واصالت قرآن اور موجودہ توريت وانجيل كى تحريف كو پہچاننے كا ايك طريقہ يہ بھى ہے كہ ان دونوں ميں انبياء كى جو تاريخ بيان كى گئي ہے اس كا موازنہ كرليا جائے اس سے اپنے آپ پتہ چل جائيگا كہ حق كيا ہے اور باطل كيا ہے ؟

۳۷۹

طلائي گوسالہ سے كس طرح آواز پيدا ہوئي؟

سامرى جو كہ ايك صاحب فن انسان تھا اس نے اپنى معلومات سے كام لے كر طلائي گوسالہ كے سينے ميں كچھ مخصوص نل ( PIPE ) اس طرح مخفى كرديئے جن كے اندر سے دبائو كى وجہ سے جب ہوا نكلتى تھى تو گائے كى آواز آتى تھى _

كچھ كاخيال ہے كہ گوسالہ كا منہ اس طرح كا پيچيدہ بنايا گيا تھا كہ جب اسے ہوا كے رخ پرركھا جاتاہے تھا تو اس كے منہ سے يہ آوازنكلتى تھي_

قرآن ميں پڑھتے ہيں كہ جناب موسى نے سامرى سے بازپرس شروع كى اور كہا :''يہ كيا كام تھا كہ جوتونے انجام ديا ہے اور اے سامرى : تجھے كس چيزنے اس بات پر آمادہ كيا_

اس نے جواب ميں كہا :''ميں كچھ ايسے مطالب سے آگاہ ہوا كہ جو انہوں نے نہيں ديكھے اور وہ اس سے آگاہ نہيں ہوئے ''_

۳۸۰