قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 310595
ڈاؤنلوڈ: 5326

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310595 / ڈاؤنلوڈ: 5326
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

حضرت نوح عليہ السلام

قرآن مجيد،بہت سى آيات ميں نوح كے بارے ميں گفتگو كرتا ہے اور مجمو عى طور پر قرآن كى انتيس سورتوں ميں اس عظيم پيغمبر كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے ،ان كانا م۴۳/ مرتبہ قرآن ميں آيا ہے _

قرآن مجيد نے ان كى زندگى كے مختلف حصوں كى باريك بينى كے ساتھ تفصيل بيان كى ہے ايسے جوزيادہ تر تعليم وتربيت اور پندو نصيحت كے پہلوئوں سے متعلق ہيں _

مورخين ومفسرين نے لكھا ہے كہ نوح كا نام '' عبد الغفار ''يا عبد الملك''يا''عبدالاعلى '' تھااور ''نوح'' كا لقب انھيں اس لئے ديا گيا ہے ، كيونكہ وہ سالہا سال اپنے اوپر يا اپنى قوم پر نوحہ گريہ كرتے رہے _آپ كے والد كا نام ''لمك ''يا'' لامك ''تھا اور آپ كى عمر كى مدت ميں اختلاف ہے ،بعض روايات ميں ۱۴۹۰ /اور بعض ميں ۲۵۰۰ /سال بيان كى گئي ہے ، اور ان كى قوم كے بارے ميں بھى طولانى عمريں تقريبََا۳۰۰/ سال تك لكھى گئي ہيں ،جوبات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ آپ نے بہت طولانى عمر پائي ہے، اورقرآن كى صراحت كے مطابق آپ۵۰ ۹/ سال اپنى قوم كے درميان رہے ( اور تبليغ ميں مشغول رہے)_

نوح كے تين بيٹے تھے ''حام''''سام'' يافث ''اور مو رخين كا نظريہ يہ ہے كہ كرئہ زمين كى اس وقت كى تمام نسل انسانى كى بازگشت انھيں تينوں فرزندوں كى طرف ہے ايك گروہ ''حامي'' نسل ہے جو افريقہ كے علاقہ ميں رہتے ہيں دوسرا گروہ ''سامى ''نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قريب كے علاقوں ميں رہتے ہيں اور ''يافث '' كى نسل كو چين كے ساكنين سمجھتے ہيں _

۴۱

۹۵۰/سال تبليغ ۷/مومن

اس بارے ميں بھى ،كہ نوح (ع) طوفان كے بعد كتنے سال زندہ رہے ،اختلاف ہے بعض نے ۵۰ /سال لكھے ہيں اور بعض نے ۶۰ /سال _(۱) نوح عليہ السلام كا ايك اور بيٹا بھى تھا جس كا نام ''كنعان ''تھا جس نے باپ سے اختلاف كيا، يہاں تك كہ كشتى نجات ميں ان كے ساتھ بيٹھنے كے لئے بھى تيار نہ ہوا اس نے برے لوگوں كے ساتھ صحبت ركھى اور خاندان نبوت كے ا قدار كو ضائع كرديا اور قرآن كى صراحت كے مطابق آخر كاروہ بھى باقى كفار كے مانند طوفان ميں غرق ہوگيا _اس بارے ميں كہ اس طويل مدت ميں كتنے افراد نوح(ع) پر ايمان لائے ،اور ان كے ساتھ كشتى ميں سوار ہوئے ،اس ميں بھى اختلاف ہے بعض نے ۸۰/اور بعض نے ۷/ افراد لكھے ہيں _

نوح عليہ السلام كى داستان عربى اور فارسى ادبيات ميں بہت زيادہ بيان ہوئي ہے ، اور زيادہ تر طوفان اور آپ كى كشتى نجات پر تكيہ ہوا ہے _ نوح عليہ السلام صبر وشكر اور استقامت كى ايك داستان تھے ، اور محققين كا كہنا ہے كہ وہ پہلے شخص ہيں جنھوں نے انسانوں كى ہدايت كےلئے وحى كى منطق كے علاوہ عقل واستدلال كى منطق سے بھى مددلى (جيسا كہ سورہ نوح كى آيات سے اچھى طرح ظاہر ہے ) اور اسى بناء پر آپ اس جہان كے تمام خدا پرستوں پر ايك عظيم حق ركھتے تھے _

قوم نوح عليہ السلام كى ہلا دينے والى سرگزشت

اس ميں شك نہيں كہ حضرت نوح عليہ السلام كا قيام اور ان كے اپنے زمانے كے متكبروں كے ساتھ شديد اور مسلسل جہاد اور ان كے برے انجام كى داستان تاريخ بشر كے فراز ميں ايك نہايت اہم اور بہت عبرت انگيز درس كى حامل ہے_

____________________

(۱)يہود كے منابع (موجودہ توريت ميں بھى نوح كى زندگى كے بارے ميں تفصيلى بحث آئي ہے ،جو كئي لحاظ سے قرآن سے مختلف ہے اور توريت كى تحريف كى نشانيوں ميں سے ہے ، يہ مباحث توريت كے سفر''تكوين ''ميں فصل ۶،۷،۸ ،۹ اور ۱۰ ميں بيان ہوئے ہيں _

۴۲

قرآن مجيد پہلے مرحلے ميں اس عظيم دعوت كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ''ہم نے نوح كو ان كى قوم كى طرف بھيجا اور اس نے انھيں بتايا كہ ميں واضح ڈرانے والا ہوں ''_(۱)

اس كے بعد اپنى رسالت كے مضمون كو صرف ايك جملہ ميں بطور خلاصہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ميرا پيغام يہ ہے كہ '' اللہ ''كے علاوہ كسى دوسرے كى پرستش نہ كرو(۲) پھر بلا فاصلہ اس كے پيچھے اسى مسئلہ انذاراور اعلام خطر كوتكرار كرتے ہوئے كہا :''ميں تم پر درد ناك دن سے ڈرتا ہوں ''_(۳)

اصل ميں اللہ (خدا ئے يكتا ويگانہ ) كى توحيد اور عبادت ہى تمام انبياء كى دعوت كى بنياد ہے _

اب ہم ديكھيں گے كہ پہلا ردّ عمل اس زمانے كے طاغوتوں ،خود سروں اور صاحبان زرو زوركا اس عظيم دعوت اور واضح اعلام خطركے مقابلے ميں كيا تھامسلماََسوائے كچھ بيہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنياد استدلالوں كے علاوہ كہ ان كے پاس كچھ بھى نہيں تھا جيساكہ ہر زمانے كے جابروں كے طريقہ ہے _

انہوں نے حضرت نوح كى دعوت كے تين جواب دئے : ''قوم نوح(ع) كے سردار اور سرمايہ داركا فرتھے انہوں نے كہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جيسا انسان ديكھتے ہيں ''_(۴)

حالانكہ اللہ كى رسالت اور پيغام تو فرشتوں كو اپنے كندھوں پر لينا چاہيئے نہ كہ ہم جيسے انسانوں كو ،اس گمان كے ساتھ كہ انسان كا مقام فرشتوں سے نيچے ہے يا انسان كى ضرورت كو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے_

امام زادوں كو زائرين كى تعداد سے پہچاناجاتا ہے

ان كى دوسرى دليل يہ تھى كہ : انہوں نے كہا : اے نوح(ع) :'' ہم تيرے گردوپيش اور ان كے درميان كہ جنہوں نے تيرى پيروى كى ہے سوائے چند پست ، ناآگاہ اور بے خبرتھوڑے سن وسال كے نوجوانوں كے كہ جنہوں نے مسائل كى ديكھ بھال نہيں كى كسى كو نہيں ديكھتے ''_

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۲۵

(۲)(۳)سورہ ہود آيت ۲۶

(۴)سورہ ہود آيت۲۷

۴۳

كسى رہبر اور پيشوا كى حيثيت اور اس كى قدر ورقيمت اس كے پيروكاروں سے پہچانى جاتى ہے اور اصطلاح كے مطابق صاحب مزار كو اس كے زائرين سے پہچانا جاتا ہے جب ہم تمہارے پيروكاروں كو ديكھتے ہيں تو ہميں چند ايك بے بضاعت،گمنام،فقير اور غريب لوگ ہى نظر آتے ہيں جن كا سلسلہ روز گار بھى نہايت ہى معمولى ہے تو پھر ايسى صورت ميں تم كس طرح اميد كر سكتے ہو كہ مشہور و معروف دولت مند اور نامى گرامى لوگ تمہارے سامنے سر تسليم خم كرليں گے_؟

ہم اور يہ لوگ كبھى بھى ايك ساتھ نہيں چل سكتے ہم نہ تو كبھى ايك دستر خوان پر بيٹھے ہيں اور نہ ہى ايك چھت كے نيچے اكھٹے ہوئے ہيں تمہيں ہم سے كيسى غير معقول توقع ہے_

يہ ٹھيك ہے كہ وہ اپنى اس بات ميں سچے تھے كہ كسى پيشوا كو اس كے پيروكاروں سے پہچانا جاتا ہے ليكن ان كى سب سے بڑى غلطى يہ تھى كہ انھوں نے شخصيت كے مفہوم اور معيار كو اچھى طرح نہيں پہچانا تھا_ان كے نزديك شخصيت كا معيارمال و دولت لباس اور گھر اور خوبصورت اور قيمتى سوارى تھا ليكن طہارت،تقوى ،حق جوئي جيسے اعلى انسانى صفات سے غافل تھے جو غريبوں ميں زيادہ اور اميروں ميں كم پائي جاتى ہيں _

طبقاتى اونچ نيچ بدترين صورت ميں ان كى افكار پر حكم فرما تھي_ اسى لئے وہ غريب لوگوں كو''اراذل''، ذليلسمجھتے تھے_

اور اگر وہ طبقاتى معاشرے كے قيد خانے سے باہر نكل كر سوچتے اور باہر كى دنيا كو اپنى آنكھوں سے ديكھتے تو انھيں معلوم ہوجاتا كہ ايسے لوگوں كا ايمان اس پيغمبر كى حقانيت اور اس كى دعوت كى سچائي پر بذات خود ايك دليل ہے_

اور يہ جو انہيں ''بادى الرا ى ''(ظاہر بين بے مطالعہ اور وہ شخص جو پہلى نظر ميں كسى چيز كا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے ) ;كا نام ديا ہے حقيقت ميں اس بناء پر ہے كہ وہ ہٹ دھرمى اور غير مناسب تعصبات جو دوسروں ميں تھے وہ نہيں ركھتے تھے بلكہ زيادہ تر پاك دل نوجوان تھے جوحقيقت كى پہلى كرن كو جوان كے دل پر پڑتى تھى جلدى محسوس كرليتے تھے وہ اس بيدارى كے ساتھ جو كہ حق كى تلاش سے حاصل ہوتى ہے ،صداقت كى

۴۴

نشانياں ،انبياء كے اقوال وافعال كا ادراك كرليتے تھے _(۱)

ان كاتيسرا اعتراض يہ تھا كہ قطع نظر اس سے كہ تو انسان ہے نہ كہ فرشتہ ، علاوہ ازيں تجھ پر ايمان لانے والے نشاندہى كرتے ہيں كہ تيرى دعوت كے مشتملات صحيح نہيں ہيں ''اصولى طور پر تم ہم پر كسى قسم كى برترى نہيں ركھتے كہ جس كى بناء پر ہم تمہارى پيروى كريں ''_(۲) ''لہذا ہم گمان كرتے ہيں كہ تم جھوٹے ہو''_(۳)

حضرت نوح عليہ السلام كے جوابات

قرآن ميں ان بہانہ جو اورا فسانہ ساز افراد كو حضرت نوح(ع) كى طرف سے ديئے گئے جوابات ذكركيے گئے ہيں پہلے ارشاد ہوتا ہے:

اے قوم :'' ميں اپنے پرورد گار كى طرف سے واضح دليل اور معجزہ كا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت وپيغام كى انجام دہى كى وجہ سے اپنى رحمت ميرے شامل حال كى ہے اور يہ امر اگر عدم توجہ كى وجہ سے تم سے مخفى ہوتو كيا پھر بھى تم ميرى رسالت كا انكار كرسكتے ہو اور ميرى پيروى سے دست بردار ہوسكتے ہو''_(۴)

يہ جواب قوم نوح(ع) كے مستكبرين كے تين سوالوں ميں سے كس كے ساتھ مربوط ہے؟ مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے ليكن غور وخوض سے واضح ہو جاتا ہے كہ يہ جامع جواب تينوں اعتراضات كا جواب بن سكتا ہے كيونكہ ان كا پہلا اعتراض يہ تھا كہ تم انسان ہو آپ نے فرمايا يہ بجاہے كہ ميں تمہارى طرح كا ہى انسان ہوں ليكن اللہ تعالى كى رحمت ميرے شامل حال ہوئي ہے اور اس نے مجھے كھلى اورواضح نشانياں دى ہيں اس بناء پر ميرى انسانيت اس عظيم رسالت سے مانع نہيں ہوسكتى اور يہ ضرورى نہيں كہ ميں فرشتہ ہوتا _

ان كا دوسرا اعتراض يہ تھا كہ تہارے پيروكار بے فكر اور ظاہر بين افراد ہيں _آپ نے فرمايا تم بے فكر

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۲۷

(۲) سورہ ہود آيت ۲۷

(۳) سورہ ہود۲۷

(۴) سورہ ہو دآيت۲۸

۴۵

اور بے سمجھ ہو جو اس واضح حقيقت كا انكار كرتے ہوحالانكہ ميرے پاس ايسے دلائل موجود ہيں جو ہر حقيقت كے متلاشى انسان كے لئے كافى ہيں اور اسے قائل كرسكتے ہيں مگر تم جيسے افراد جو غرور ،خود خواہى ،تكبر اور جاہ طلبى كا پردہ اوڑھے ہوئے ہيں ان كى حقيقت بين آنكھ بيكار ہوچكى ہے _

ان كا تيسرا اعتراض يہ تھا كہ وہ كہتے تھے : ہم كوئي برترى اور فضيلت تمہارے لئے اپنى نسبت نہيں پاتے، آپ نے فرمايا: اس سے بالاتركون سى برترى ہوگى كہ خدانے اپنى رحمت ميرے شامل حال كى ہے اور واضح مدارك ودلائل ميرے اختيار ميں ديئے ہيں اس بناء پر ايسى كوئي وجہ نہيں كہ تم مجھے جھوٹا خيال كرو كيونكہ ميرى گفتگو كى نشانياں ظاہر ہيں _

''كيا ميں تمہيں اس ظاہر بظاہر بينہ كے قبول كرنے پر مجبور كرسكتا ہوں جبكہ تم خود اس پر آمادہ نہيں ہو اور اسے قبول كرنا بلكہ اس كے بارے ميں غوروفكر كرنا بھى پسند نہيں كرتے ہو'' _(۱)

ميں كسى صاحب ايمان كو نہيں دھتكارتا

''اے قوم :ميں اس دعوت كے بدلے تم سے مال وثروت اور اجرو جزا كا مطالبہ نہيں كرتا''_(۲)

يہ امراچھى طرح سے نشاندہى كرتاہے كہ اس پروگرام سے ميرا كوئي مادى ہدف نہيں ،ميں سوائے خدا كے معنوى وروحانى اجر كے سواكچھ بھى نہيں سوچتا اور كوئي جھوٹا مدعى ايسا نہيں ہوسكتا جو اس قسم كے سردرد ،ناراحتى اور بے آرامى كو يوں ہى اپنے لئے خريد لے اور يہ سچے رہبروں كى پہچان كے لئے ايك ميزان ہے،ان جھوٹے موقع پرستوں كے مقابلے ميں ، كہ وہ جب بھى كوئي قدم اٹھاتے ہيں بالواسطہ يابلا واسطہ طور پر اس سے ان كا كوئي نہ كوئي مادى ہدف اور مقصد ہوتا ہے _

اس كے بعد ان كے جواب ميں جنہيں اصرار تھا كہ حضرت نوح عليہ السلام، اپنے اوپر ايمان لانے والے غريب حقير اور كم عمر افراد كو خود سے دور كرديں حضرت نوح(ع) ( حتمى طور پر فيصلہ سناتے ہوئے )كہتے ہيں :

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۲۸

(۲)سورہ ہودميں ۲۹

۴۶

''كيونكہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات كريں گے اوردوسرے جہان ميں اس كے سامنے ميرے ساتھ ہوں گے''_(۱)

آخر ميں انہيں بتايا گيا ہے :'' ميں سمجھتا ہو ں كہ تم جاہل لوگ ہو''_(۲)

''اے قوم اگر ميں ان باايمان لوگوں كو دھتكاردوں تو خدا كے سامنے (اس عظيم عدالت ميں بلكہ اس جہان ميں ) كون ميرى مدد كرے گا ''_( ۳) ''كيا تم كچھ سوچتے سمجھتے نہيں ہو'' _(۴) جان لو كہ جو كچھ ميں كہتا ہوں عين حقيقت ہے_

خدائي خزانے ميرے قبضہ ميں نہيں ہيں

اپنى قوم كے مہمل اعتراضات كے جواب ميں حضرت نوح(ع) آخرى بات كہتے ہيں كہ اگر تم خيال كرتے ہو اور توقع ركھتے ہوكہ وحى اور اعجاز كے سواء ميں تم پر كوئي امتياز يا برترى ركھوں ،تو يہ غلط ہے ميں صراحت سے كہنا چاہتا ہوں ''ميں نہ تم سے كہتا ہوں كہ خدا ئي خزانے ميرے قبضے ميں ہيں اور نہ ہر كام جب چاہوں انجام دے سكتاہوں '' نہ ميں غيب سے آگاہى كا دعوى كرتا ہوں ''اور نہ ميں كہتا ہوں كہ ميں فرشتہ ہوں ''_(۵)

ايسے بڑے اور جھوٹے دعوے جھوٹے مدعيوں كے ساتھ مخصوص ہيں اور ايك سچا پيغمبر كبھى ايسے دعوے نہيں كرے گا كيونكہ خدائي خزانے اورعلم غيب صرف خدا كى پاك ذات كے اختيار ميں ہيں اور فرشتہ ہونا بھى ان بشرى احساسات سے مناسبت نہيں ركھتا لہذا جو شخص ان تين ميں سے كوئي ايك دعوى كرے يا يہ سب دعوے كرے تو يہ اس كے جھوٹے ہونے كى دليل ہے _

آخر ميں دوبارہ مستضعفين كا ذكر كرتے ہوئے تاكيد اََكہا گيا ہے ''ميں ہرگز ان افراد كے بارے

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۲۹

(۲) سورہ ہود ۲۹

(۳) سورہ ہو دآيت۳۰

(۴)سورہ ہود۳۰

(۵)سورہ ہو دآيت۳۱

۴۷

ميں جو تمہارى نگاہ ميں حقير ہيں ،نہيں كہہ سكتا كہ خدا انہيں كو ئي جزائے خير نہيں دے گا''(۱) بلكہ اس كے برعكس اس جہان اور اس جہان كى خير، انھيں كے لئے ہے اگر چہ ان كاہاتھ مال ودولت سے خالى ہے يہ تو تم ہو جنہوں نے خام خيالى كى وجہ سے خير كو مال ومقام يا سن وسال ميں منحصر سمجھ ليا ہے اور تم حقيقت سے بالكل بے خبر ہو _

اور بالفرض اگر تمہارى بات سچى ہو اور وہ پست اور اوباش ہوں تو خدا ان كے باطن سے آگا ہ ہے _

ميں تو ان ميں ايمان اور صداقت كے سوا كچھ نہيں پاتا ،لہذاميرى ذمہ دارى ہے كہ ميں انہيں قبول كرلوں ، ميں توظاہر پر مامور ہوں اور بندہ شناس خدا ہے _''اور اگر ميں اس كے علاوہ كچھ كروں تو يقينا ظالموں ميں سے ہو جائوں گا ''_(۲)

كہاں ہے عذاب ؟

قرآن ميں حضرت نوح عليہ السلام اور ان كى قوم كے درميا ن ہونے والى باقى گفتگو كى طرف اشارہ ہوا ہے قرآن ميں پہلے قوم نوح(ع) كى زبانى نقل ہے كہ انہوں نے كہا :

''اے نوح :تم نے يہ سب بحث وتكراراور مجادلہ كيا ہے اب بس كرو ،تم نے ہم سے بہت باتيں كى ہيں اب بحث مباحثے كى گنجائش نہيں رہي،''اگرسچے ہو تو خدائي عذابوں كے بارے ميں جو سخت وعدے تم نے ہم سے كئے ہيں انہيں پورا كردكھائو اور وہ عذاب لے آئو'_(۳)

يہ بعينہ اس طرح سے ہے كہ ايك شخص ياكچھ اشخاص كسى مسئلے كہ بارے ميں ہم سے بات كريں اور ضمناََہميں دھمكياں بھى ديں اور كہيں كہ اب زيادہ باتيں بند كرو اور جو كچھ تم كرسكتے ہو كرلو اور دير نہ كرو ،اس طرف اشارہ كرتے ہوئے كہ ہم نہ تو تمہارے دلائل كو كچھ سمجھتے ہيں نہ تمہارى دھميكوں سے ڈرتے ہيں اور نہ اس سے زيادہ ہم تمہارى بات سن سكتے ہيں _ انبيا ء الہى كے لطف ومحبت اور ان كى وہ گفتگو جو صاف وشفاف اور خوشگوار پانى كى طرح ہو تى ہے اس طرزعمل كا انتخاب انتہائي ہٹ دھرمى تعصب اور جہالت كى ترجمانى كرتا ہے_

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۳۱

(۲)سورہ ہو دآيت۳۱

(۳)سورہ ہو دآيت۳۲

۴۸

قوم نوح عليہ السلام كى اس گفتگو سے ضمناً يہ بھى اچھى طرح سے واضح ہوتاہے كہ آپ نے ان كى ہدايت كے لئے بہت طويل مدت تك كوشش كى اور انہيں ارشاد وہدايت كے لئے آپ نے ہرموقع سے استفادہ كيا، آپ نے اس قدر كوشش كى كہ اس گمراہ قوم نے آپ كى گفتار اور ارشادات پر اكتاہٹ كا اظہار كيا_

حضرت نوح عليہ السلام كے بارے ميں قرآن حكيم ميں جوديگر تفصيل آئي ہے اس سے بھى يہ حقيقت اچھى طرح سے واضح ہوتى ہے ، يہ مفہوم تفصيلى طور پر بيان ہوا ہے:'' پروردگارا : ميں نے اپنى قوم كو دن رات تيرى طرف بلايا ليكن ميرى اس دعوت پر ان ميں فرار كے علاوہ كسى چيزكا اضافہ نہيں ہوا ميں نے جب انہيں پكارا تاكہ تو انہيں بخش دے، توانہوں نے اپنى انگلياں اپنے كانوں ميں ٹھونس ليں اور اپنے لباس اپنے اوپر لپيٹ لئے انہوں نے مخالفت پر اصراركيا اورغرور تكبركا مظاہرہ كيا ميں نے پھر بھى انہيں دعوت دى ،ميں نے پيہم اصرار كيا مگر انہوں نے كسى طرح بھى ميرى باتوں كى طرف كان نہ دھرے ''_(۱)

حضرت نوح عليہ السلام نے اس بے اعتنائي، ہٹ دھرمى اوربے ہودگى كا يہ مختصر جواب ديا : خدا ہى چاہے تو ان دھمكيوں اور عذاب كے وعدوں كو پورا كرسكتا ہے ''_(۲)

ليكن بہرحال يہ چيز ميرے اختيار سے باہر ہے اور ميرے قبضہ قدرت ميں نہيں ہے ميں تو اس كا رسول ہوں اور اس كے حكم كے سامنے تسليم ہوں ، لہذا سزا اور عذاب كى خواہش مجھ سے نہ كر و، ليكن يہ جان لو كہ جب عذاب كا حكم آپہنچے گاتو پھر تم اس كے احاطہ قدرت سے نكل نہيں سكتے اور كسى پناہ گا ہ كى طرف فرار نہيں كر سكتے '' _(۳)

معاشرے كو پاك كرنے كا مرحلہ

قرآن مجيد ميں حضرت نوح(ع) كى سرگذشت بيان ہوئي ہے اس كے در حقيقت مختلف مراحل ہيں ان

____________________

(۱) نوح آيات ۵ تا۱۳

(۲)سورہ ہو دآيت۳۳

(۳) سورہ ہو دآيت۳۳

۴۹

ميں سے ہرمرحلہ متكبرين كے خلاف حضرت نوح كے قيام كے ايك دور سے مربوط ہے پہلے حضرت نوح(ع) كى مسلسل اور پر عزم دعوت كے مرحلے كا تذكرہ تھا جس كے لئے انہوں نے تمام تروسائل سے استفادہ كيا يہ مرحلہ ايك طويل مدت پر مشتمل تھا اس ميں ايك چھوٹا ساگروہ آپ پر ايمان لايا، يہ گروہ ويسے تو مختصر ساتھا ليكن كيفيت اور استقامت كے لحاظ سے بہت عظيم تھا _

قرآن ميں اس قيام كے دوسرے مرحلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ مرحلہ دور تبليغ كے اختتام كا تھا جس ميں خدا كى طرف سے معاشرے كوبرے لوگوں سے پاك كرنے كى تيارى كى جانا تھى پہلے قرآن ميں ارشاد ہوتاہے_ ''نوح(ع) كو وحى ہوئي كہ جو افراد ايمان لاچكے ہيں ان كے علاوہ تيرى قوم ميں سے كوئي ايمان نہيں لائے گا ''_(۱)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ صفيں بالكل جدا ہو چكى ہيں ، اب ايمان اوراصلاح كى دعوت كا كوئي فائدئہ نہيں اور اب معاشرے كى پاكيز گى اور آخرى انقلاب كے لئے تيار ہو جانا چاہئے اس گفتگو كے آخر ميں حضرت نوح كى تسلى اور دلجوئي كے لئے فرمايا گياہے :''اب جب معاملہ يوں ہے تو جو كام تم انجام دے رہے ہو اس پر كوئي حزن وملال نہ كرو''_(۲)

مربوطآيت سے ضمنى طور پر معلوم ہوتا ہے كہ اللہ اسرار غيب كا كچھ حصہ جہاں ضرورى ہوتا ہے اپنے پيغمبر كے اختيار ميں دے ديتا ہے جيسا كہ حضرت نوح عليہ السلام كو خبر دى گئي ہے كہ آئندہ ان ميں سے كوئي اور شخص ايمان نہيں لائے گا ،بہر حال ان گناہگار اور ہٹ دھرم لوگوں كو سزا ملنى چاہئے ، ايسى سزا جو عالم ہستى كو ان كے وجود كى گندگى سے پاك كردے اور مومنين كو ہميشہ كے لئے ان كے چنگل سے نجات دےدے، ان كے غرق ہونے كا حكم ہوچكا ہے ليكن ہر چيز كے لئے كچھ وسائل واسباب ہوتے ہيں لہذا نوح كو چاہئے كہ وہ سچے مومنين كے بچنے كے لئے ايك مناسب كشتى بنائيں تاكہ ايك تو مومنين كشتى بننے كى اس مدت ميں اپنے طريق كار ميں پختہ تر ہوجائيں اور دوسروں كے لئے بھى كا فى اتمام حجت ہوجائے _

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۲۱

(۲)سورہ ہو دآيت۳

۵۰

كشتى نوح عليہ السلام

''ہم نے نوح عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ ہمارے حضور ميں اور ہمارے فرمان كے مطابق كشتى بنائيں ''_(۱)

لفظ (وحينا) سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ حضرت نوح كشتى بنانے كى كيفيت اور اس كى شكل وصورت كى تشكيل بھى حكم خدا سے سيكھ رہے تھے اور ايساہى ہونا چاہئے تھا كيونكہ حضرت نوح آنے والے طوفان اور اس كى كيفيت ووسعت سے آگا ہ نہ تھے كہ وہ كشتى اس مناسبت سے بنا تے اور يہ وحى الہى ہى تھى جو بہترين كيفيتوں كے انتخاب ميں ان كى مدد گار تھى _

آخر ميں حضرت نوح عليہ السلام كو خبردار كيا گيا ہے :'' آج كے بعد ظالم افراد كے لئے شفاعت اور معافى كا تقاضانہ كرنا كيونكہ انہيں عذاب دينے كا فيصلہ ہوچكا ہے اور وہ حتماَ غرق ہوجائيں گے''_(۲)

كشتى بنارہے ہو دريابھى بنائو

اب چندجملے قوم نوح عليہ السلام كے بارے ميں بھى سن ليں :وہ بجائے اس كے كہ ايك لمحہ كے لئے حضرت نوح(ع) كى دعوت كو غور سے سنتے ، اسے سنجيدگى سے ليتے اور كم ازكم انہيں يہ احتمال ہى ہوتا كہ ہو سكتا ہے كہ حضرت نوح كے بار باركے اصرار اور تكرار دعوت كا سر چشمہ وحى الہى ہى ہو اور ہو سكتا ہے طوفان اور عذاب كا معاملہ حتمى اور يقينى ہى ہو، الٹا انہوں نے تمام مستكبر اور مغرور افراد كى عادت كا مظاہرہ كيا اور تمسخرواستہزاء كا سلسلہ جارى ركھا _ ان كى قوم كا كوئي گروہ جب كبھى ان كے نزديك سے گزرتا اور حضر ت نوح اور ان كے اصحاب كو لكڑياں اور ميخيں وغيرہ مہيا كرتے ديكھتا اور كشتى بنانے ميں سرگرم عمل پاتا تو مذاق اڑاتا اور پھبتياں كستے ہوئے گزر جاتا ''_(۳)

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۳۷

(۲) سورہ ہو دآيت۳۷

(۳)سورہ ہو دآيت۳۸

۵۱

كہتے ہيں كہ قوم نوح عليہ السلام كے اشراف كے مختلف گروہوں كے ہردستے نے تمسخر اور تفريح وطبع كے لئے اپناہى ايك انداز اختيار كرركھا تھا _

ايك كہتاتھا:''اے نوح(ع) دعوائے پيغمبرى كا كاروبار نہيں چل سكا تو بڑھئي بن گئے، دوسرا كہتا تھا :كشتى بنا رہے ہو؟ بڑا اچھا ہے البتہ كشتى كے لئے دريا بھى بنائو، كبھى كوئي عقلمندديكھا ہے جو خشكى كے بيچ ميں كشتى بنائے؟

ان ميں سے كچھ كہتے تھے : اتنى بڑى كشتى كس لئے بنارہے ہو اگر كشتى بنانا ہى ہے تو ذرا چھوٹى بنالو جسے ضرورت پڑے تو دريا كى طرف لے جانا تو ممكن ہو _

ايسى باتيں كرتے تھے اور قہقہے لگا كرہنستے ہوئے گزر جاتے تھے يہ باتيں گھروں ميں ہوتيں _كام كاج كے مراكز ميں يہ گفتگو ہوتيں گويا اب بحثوں كا عنوان بن گئي وہ ايك دوسرے سے حضرت نوح اور ان كے پيروكاروں كى كوتاہ فكرى كے بارے ميں باتيں كرتے اور كہتے : اس بوڑھے كو ديكھو آخر عمر ميں كس حالت كو جاپہنچا ہے اب ہم سمجھے كہ اگر ہم اس كى باتوں پر ايمان نہيں لائے تو ہم نے ٹھيك ہى كيا اس كى عقل تو بالكل ٹھكانے نہيں ہے _

دوسرى طرف حضرت نوح عليہ السلام بڑى ا ستقامت اور پامردى سے اپناكام بے پناہ عزم كے ساتھ جارى ركھے ہوئے تھے اور يہ ان كے ايمان كانتيجہ تھا وہ ان كو رباطن دل كے اندھوں كى بے بنياد باتوں سے بے نيازاپنى پسند كے مطابق تيزى سے پيشرفت كررہے تھے اور دن بدن كشتى كا ڈھانچہ مكمل ہو رہا تھا كبھى كبھى سراٹھا كران سے يہ پرمعنى بات كہتے: ''اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توہم بھى جلدى ہى اسى طرح تمہارا مذاق اڑائيں گے''_(۱)

وہ دن كہ جب تم طوفان كے درميان سرگرداں ہوكر ،سراسيمہ ہوكر ادھر ادھر بھاگو گے اور تمہيں كوئي پناہ گاہ نہيں ملے گى موجوں ميں گھرے فرياد كرو گے كہ ہميں بچالو جى ہاں اس روز مومنين تمہارى غفلت اور

____________________

(۱)سورہ ہود ايت۳۸

۵۲

جہالت پر مذاق اڑائيں گے''اس روز ديكھنا كہ كس كے لئے ذليل اور رسوا كرنے والا عذاب آتا ہے اور كسے دائمى سزا دامن گير ہوتى ہے ''_(۱)

اس ميں شك نہيں كہ كشتى نوح كوئي عام كشتى نہ تھى كيونكہ اس ميں سچے مو منين كے علاوہ ہر نسل كے جانور كو بھى جگہ ملى تھى اور ايك مدت كے لئے ان انسانوں اور جانوروں كو جو خوراك دركار تھى وہ بھى اس ميں موجود تھى ايسى لمبى چوڑى كشتى يقينا اس زمانے ميں بے نظير تھى يہ ايسى كشتى تھى جو ايسے دريا كى كوہ پيكر موجود ميں صحيح وسالم رہ سكے اور نابود نہ ہو جس كى وسعت اس دنيا جتنى ہو، اسى لئے مفسرين كى بعض روايات ميں ہے كہ اس كشتى كا طول ايك ہزار دو سو ذراع تھااور عرض چھ سو ذراع تھا (ايك ذراع كى لمبائي تقريباََآدھے ميڑكے برابر ہے ) _

بعض اسلامى روايات ميں ہے كہ ظہور طوفان سے چاليس سال پہلے قوم نوح(ع) كى عورتوں ميں ايك ايسى بيمارى پيدا ہو گئي تھى كہ ان كے يہاں كوئي بچہ پيدا نہيں ہوتا تھا يہ دراصل ان كے لئے سزا كى تمہيد تھى _

آغاز طوفان

گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھا ہے كہ كس طرح حضرت نوح عليہ السلام اور سچے مومنين نے كشتى نجات بنانا شروع كى اور انہيں كيسى كيسى مشكلات آئيں اور بے ايمان مغرور اكثريت نے كس طرح ان كا تمسخراڑايا اس طرح تمسخر اڑانے والوں نے كس طرح اپنے آپ كو اس طوفان كے لئے تياركيا جو سطح زمين كو بے ايمان مستكبرين كے منحوس وجود سے پاك كرنے والا تھا _

يہاں پر اس سرگزشت كے تيسرے مرحلے كے بارے ميں قرآن گويا اس ظالم قوم پر نزول عذاب كى بولتى ہوئي تصوير كو لوگوں كے سامنے پيش كررہا ہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے :''يہ صورت حال يونہى تھى يہاں تك كہ ہماراحكم صا در ہوا اور عذاب كے آثار

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۳۹

۵۳

ظاہر ہونا شروع ہوگئے پانى تنور كے اندر سے جو ش ما رنے لگا''_(۱)

اس بار ے ميں كہ طوفان كے نزديك ہونے سے تنور سے پانى كا جوش مارنا كيامناسبت ركھتا ہے مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے_(۲)

موجودہ احتمالات ميں سے يہ احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے كہ يہاں '' تنور'' اپنے حقيقى اور مشہور معنى ميں آيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد كوئي خاص تنور بھى نہ ہو بلكہ ممكن ہے كہ اس سے يہ نكتہ بيان كرنا مقصود ہوكہ تنور جو عام طوپر آگ كا مركزہے جب اس ميں سے پانى جوش مارنے لگا تو حضرت نوح اور ان كے اصحاب متوجہ ہوئے كہ حالات تيزى سے بدل رہے ہيں اور انقلاب قريب تر ہے يعنى كہاں آگ اور كہاں پانى بالفاظ ديگر جب انہوں نے يہ ديكھا كہ زيرزمين پانى كى سطح اس قدراوپر آگئي ہے كہ وہ تنور كے اندر سے جو عام طور پر خشك ،محفوظ اور اونچى جگہ بنايا جاتا ہے ، جوش ماررہا ہے تو وہ سمجھ گئے كہ كوئي اہم امر درپيش ہے اور قدرت كى طرف سے كسى نئے حادثے كاظہور ہے _ اور يہى امر حضرت نوح اور ان كے اصحاب كے لئے خطرے كا الارم تھا كہ وہ اٹھ كر كھڑے ہوں اور تيار رہيں _

شايد غافل اور جاہل قوم نے بھى اپنے گھر وں كے تنور ميں پانى كو جوش مارتے ديكھا ہو بہرحال وہ ہميشہ كى طرح خطرے كے ان پر معنى خدائي نشانات سے آنكھ كان بند كيے گزرگئے يہاں تك كہ انہوں نے اپنے آپ كو ايك لمحہ كے لئے بھى غور وفكر كى زحمت نہ دى كہ شايد شرف تكوين ميں كوئي حادثہ پوشيدہ ہواور شايد حضرت نوح(ع) جن واقعات كى خبر ديتے تھے ان ميں سچائي ہو _

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۳۰

(۲) بعض نے كہا ہے كہ تنور سے پانى كا جوش مارنا خدا كى طرف سے حضرت نوح كے لئے ايك نشانى تھى تاكہ وہ اصل واقعہ كى طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پروہ اور ان كے اصحاب ضرورى اسباب ووسائل لے كر كشتى ميں سوار ہوجائيں بعض نے كہا ہے كہ يہاں ''تنور'' مجازى اور كنائي معنى ميں ہے جو اس طرف اشارہ ہے كہ غضب الہى كے تنورميں جوش پيدا ہوا اوروہ شعلہ ورہوا اوريہ تباہ كن خدائي عذاب كے نزيك ہونے كے معنى ميں ہے ايسى تعبير فارسى اور عربى زبان ميں استعمال ہوتى ہيں كہ شدت غضب كو آگ كے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبيہ دى جاتى ہے _

۵۴

اس وقت نوح(ع) كو ''ہم نے حكم ديا كہ جانوروں كى ہرنوع ميں سے ايك جفت (نراور مادہ كا جوڑا) كشتى ميں سوار كرلو '' _تاكہ غرقاب ہو كر ان كى نسل منقطع نہ ہوجائے _

اور اسى طرح اپنے خاندان ميں سے جن كى ہلاكت كا پہلے سے وعدہ كيا جاچكا ہے ان كے سواباقى افرادكو سوار كرلو نيز مومنين كو كشتى ميں سوار كرلو ''_(۱)

نوح عليہ السلام كا بيٹابدكاروں كے ساتھ

رہا يہ قرآن ايك طرف حضرت نوح(ع) كى بے ايمان بيوى اور ان كے بيٹے كنعان كى طرف اشارہ كرتا ہے جن كى داستان آئندہ صفحات ميں آئے گى جنہوں نے راہ ايمان سے انحراف كيا اور گنہگاروں كا ساتھ دينے كى وجہ سے حضرت نوح سے اپنا رشتہ توڑليا وہ اس كشتى نجات ميں سوار ہونے كا حق نہيں ركھتے تھے كيونكہ اس ميں سوار ہونے كى پہلى شرط ايمان تھى _

دوسرى طرف يہ قرآن اس جانب اشارہ كرتاہے كہ حضرت نوح نے جو اپنے دين وآئين كى تبليغ كے لئے سالہاسال بہت طويل اور مسلسل كوشش كى اس كا نتيجہ بہت تھوڑے سے افراد مومنين كے سوا كچھ نہ تھا بعض روايات كے مطابق ان كى تعداد صرف اسي(۸۰) افرادتھى يہاں تك كہ بعض نے تو اس سے بھى كم تعداد لكھى ہے اس سے پتہ چلتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر نے كس حد تك استقامت اور پامردى كا مظاہرہ كيا ہے كہ ان ميں سے ايك ايك فرد كے لئے اوسطاََ كم از كم د س سال زحمت اٹھائي اتنى زحمت تو عام لوگ اپنى اولاد تك كى ہدايت اورنجات كے لئے نہيں اٹھاتے _

اللہ كا نام لے كركشتى پرسوارہوجائو

بہرحال حضرت نوح(ع) نے جلدى سے اپنے وابستہ صاحب ا يمان افراد اور اصحاب كوجمع كيا اورچونكہ طوفان اور تباہ كن خدائي عذابوں كا مرحلہ نزديك آرہا تھا ،''انہيں حكم دياكہ خدا كے نام سے كشتى پرسوار ہوجائو

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۴۰

۵۵

اور كشتى كے چلتے اور ٹھہرتے وقت خدا كا نام زبان پر جارى كرو اور اس كى ياد ميں رہو''_(۱)

بالآخرآخرى مرحلہ آپہنچا اور اس سر كش قوم كے لئے عذاب اورسزا كافرمان صادرہوا تيرہ وتار بادل جو سياہ رات كے ٹكڑوں كى طرح تھے سارے آسمان پرچھا گئے اور اس طرح ايك دوسرے پرتہ بہ تہ ہوئے كہ جس كى نظيراس سے پہلے نہيں ديكھى گئي تھى پے درپے سخت بادل گرجتے خيرہ كن بجلياں پورے آسمان پر كوندتيں آسمانى فضاگويا ايك بہت بڑے وحشتناك حادثے كى خبردے رہى تھى _

بارش شروع ہوگئي اور پھر تيزسے تيزترہوتى چلى گئي بارش كے قطرے موٹے سے موٹے ہوتے چلے گئے جيسا كہ قرآ ن كہتاہے :

''گويا آسمان كے تمام دروازے كھل گئے اورپانى كا ايك سمندر ان كے اندرسے نيچے گرنے لگا''_(۲)

دوسرى طرف زير زمين پانى كى سطح اس قدر بلند ہوگئي كہ ہر طرف سے پرجوش چشمے ابل پڑے، يوں زمين وآسمان كا پانى آپس ميں مل گيا اور زمين ،پہاڑ،دشت ،بيابان اور درہ غرض ہر جگہ پانى جارى ہوگيا بہت جلد زمين كى سطح ايك سمندر كى صورت اختيار كرگئي تيز ہوا ئيں چلنے لگيں جن كى وجہ سے پانى كى كوہ پيكر موجيں امنڈنے لگيں اس عالم ميں ''كشتى نوح كوہ پيكر موجوں كا سينہ چيرتے ہوئے آگے بڑھ رہى تھى ''_(۳)

پسر نوح كا درد ناك انجام

پسر نوح(ع) ايك طرف اپنے باپ سے الگ كھڑا تھا نوح(ع) نے پكارا: ''ميرے بيٹے،ہمارے ساتھ سوارہوجائو اور كافروں كے ساتھ نہ ہوورنہ فناہوجائوگے ''_(۴)

پيغمبر بزر گوارحضرت نوح(ع) نے نہ صرف باپ كى حيثيت سے بلكہ ايك انتھك پر اميد مربى كے طور پر

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت ۴۱

(۲) سورہ قمر آيت۱۱

(۳) سورہ ہودآيت ۴۲

(۴) سورہ ہو دآيت۴۳

۵۶

آخرى لمحے تك اپنى ذمہ دارى سے دست بردارى نہ كى ،اس اميدپر كہ شايد ان كى بات سنگدل بيٹے پر اثر كرجائے ليكن افسوس كہ برے ساتھى كى بات اس كے لئے زيادہ پرتاثير تھى لہذا دلسوز باپ كى گفتگو اپنا مطلوبہ اثر نہ كرسكي، وہ ہٹ دھرم اور كوتاہ فكر تھا اسے گمان تھا كہ غضب خداكا مقابلہ بھى كيا جاسكتا تھا اس لئے اس نے پكار كركہا :'' اباميرے لئے جوش ميں نہ آئو ميں عنقريب پہاڑپر پناہ لے لوں گا جس تك يہ سيلاب نہيں پہنچ سكتا''_(۱)

نوح(ع) پھربھى مايوس نہ ہوئے دوبارہ نصيحت كرنے لگے كہ شايد كوتاہ فكر بيٹا غرور اور خود سرى كے مركب سے اترآئے اور راہ حق پرچلنے لگے_انہوں نے كہا :''ميرے بيٹے آج حكم خدا كے مقابلے ميں كوئي طاقت پناہ نہيں دے سكتى ،نجات صرف اس شخص كے لئے ہے رحمت خدا جس كے شامل حال ہو ''_(۲) پہاڑتو معمولى سى چيزہے خود كرہ ارض بھى معمولى سى چيز ہے سورج اور تمام نظام شمسى اپنے خيرہ كن عظمت كے باوجود خدا كى قدرت لايزال كے سامنے ذرئہ بے مقدار سے زيادہ حيثيت نہيں ركھتا _

اسى دوران ايك موج اٹھى اور آگے آئي،مزيد آگے بڑھى اور پسر نوح كو ايك تنكے كى طرح اس كى جگہ سے اٹھايا اوراپنے اندر درہم برہم كرديا،''اور باپ بيٹے كے درميان جدائي ڈال دى اور اسے غرق ہونے والوں ميں شامل كرديا ''_(۳)

اے نوح عليہ السلام تمہارا بيٹا تمہارے اہل سے نہيں ہے

جب حضرت نوح(ع) نے اپنے بيٹے كو موجوں كے درميان ديكھا تو شفقت پدرى نے جوش مارا انہيں اپنے بيٹے كى نجات كے بارے ميں وعدہ الہى ياد آيا انہوں نے درگاہ الہى كا رخ كيا اور كہا :''پروردگار ا ميرا بيٹا ميرے اہل اور ميرے خاندان ميں سے ہے اور تو نے وعدہ فرماياتھا كہ ميرے خاندان كو طوفان اور ہلاكت سے نجات دے گا اور تو تمام حكم كرنے والوں سے برترہے اور تو ايفائے عہد كرنے ميں محكم ترہے ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ ہو دآيت۴۳

(۲) سورہ ہو دآيت۴۳

(۳) سورہ ہو دآيت۴۳

(۴) سورہ ہو دآيت۴۵

۵۷

يہ وعدہ اسى چيز كى طرف اشارہ ہے جو سورہ ہود ميں موجود ہے جہاں فرمايا گيا ہے :

''ہم نے نوح(ع) كو حكم ديا كہ جانوروں كى ہر نوع ميں سے ايك جوڑا كشتى ميں سوار كرلو اور اسى طرح اپنے خاندان كو سوائے اس شخص كے جس كى نابودى كے لئے فرمان خدا جارى ہوچكا ہے ''_(۱)

حضرت نوح(ع) نے خيال كيا كہ ''سوائے اس كے كہ جس كى نابود ى كے لئے فرمان خدا جارى ہوچكا ہے ،اس سے مرادصرف ان كى بے ايمان اور مشرك بيوى ہے اور ان كا بيٹا كنعان اس ميں شامل نہيں ہے لہذاانہوں نے بارگاہ خداوندى ميں ايسا تقاضاكيا ليكن فورا ًجواب ملا (ہلادينے والا جواب اور ايك عظيم حقيقت واضح كرنے والا جواب )''اے نوح وہ تيرے اہل اور خاندان ميں سے نہيں ہے ،بلكہ وہ غيرصالح عمل ہے''_(۲)

وہ نالائق شخص ہے اور تجھ سے مكتبى اور مذہبى رشتہ ٹوٹنے كى وجہ سے خاندانى رشتے كى كوئي حيثيت نہيں رہي_

''اب جبكہ ايسا ہے تو مجھ سے ايسى چيزكا تقاضانہ كر جس كے بارے ميں تجھے علم نہيں ،ميں تجھے نصيحت كرتا ہوں كہ جاہلوں ميں سے نہ ہوجا ''_(۳)

حضرت نوح(ع) سمجھ گئے كہ يہ تقاضا بارگاہ الہى ميں صحيح نہ تھا اور ايسے بيٹے كى نجات كو خاندان كى نجات كے بارے ميں خدا كے وعدے ميں شامل نہيں سمجھنا چاہئے تھا لہذا آپ نے پروردگار كا رخ كيا اور كہا :

''پروردگار ا : ميں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس امر سے تجھ سے كسى ايسى چيز كى خواہش كروں جس كا علم مجھے نہيں ،اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور اپنى رحمت ميرے شامل حال نہ كى تو ميں زياں كاروں ميں سے ہوجائوں گا ''_(۴)

____________________

(۱) سورہ ہو دآيت۴۰

(۲) سورہ ہو دآيت۴۶

(۳)سورہ ہو دآيت۴۶

(۴)سورہ ہو دآيت۴۷

۵۸

اس داستان كا اختتام

آخركار پانى كى ٹھاٹھيں مارتى ہوئي لہروں نے تمام جگہوں كو گھيرليا پانى كى سطح بلند سے بلند تر ہوتى چلى گئي جاہل گنہگاروں نے يہ گمان كيا كہ يہ ايك معمولى سا طوفان ہے وہ اونچى جگہوں اور پہاڑوں پر پناہ گزين ہو جائيں گے، ليكن پانى ان كے اوپر سے بھى گزر گيا اور تمام جگہيں پانى كے نيچے چھپ گئيں ان طغيان گروں كے جسم ،ان كے بچے كچے، گھراور زندگى كا سازوسامان پانى كى جھاگ ميں نظر آرہا تھا _

حضرت نوح(ع) نے زمام كشتى خدا كے ہاتھ ميں دى موجيں كشتى كوادھر سے ادھرلےجاتى تھيں روايات ميں آيا ہے كہ كشتى پورے چھ ماہ سرگرداں رہى يہ مدت ابتدائے ماہ رجب سے لے كر ذى الحجہ كے اختتام تك تھى ايك اورروايت كے مطابق دس رجب سے لے كر روزعاشورہ تك كشتى پانى كى موجوں ميں سرگرداں رہي_

اس دوران كشتى نے مختلف علاقوں كى سيركى يہاں تك كہ بعض روايات كے مطابق سرزمين مكہ اور خانہ كعبہ كے اطراف كى بھى سيركي، آخر كارعذاب كے خاتمے كا اور زمين كے معمول كى حالت ميں لوٹ آنے كا حكم صادر ہوا ،قران ميں اس فرمان كى كيفيت ،جزئيات اور نتيجہ بہت مختصر مگرانتہائي عمدہ اور جاذب وخوبصورت عبارت ميں چھ جملوں ميں بيان كيا گيا ہے : پہلے ارشاد ہوتا ہے :''حكم دياگيا كہ اے زمين:اپنا: پانى نگل جا،اورآسمان كو حكم ہوا'اے آسمان ہاتھ روك لے،،_

''پانى نيچے بيٹھ گيا ''

''اوركام ختم ہوگيا''

''اوركشتى كو ہ جو دى كے دامن سے آلگي'' _

''اس وقت كہا گيا : دور ہوظالم قوم ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ ہودايت ۴۴

۵۹

مندر جہ بالا قرآنى تعبيرات مختصر ہوتے ہوئے بھى نہايت مو ثراوردلنشين ہيں ،يہ بولتى ہوئي زندہ تعبيرات ہيں اورتمام ترزيبائي كے باوجود ہلا دينے والى ہيں بعض علماء عرب كے بقول مذكورہ آيت قرآن ميں سے فصيح ترين اوربليغ ترين آيت ہے _(۱)

كوہ جودى كہاں ہے ؟

بہت سے مفسرين نے كہا ہے كہ كو ہ جو دى جس كے كنارے كشتى نوح(ع) آكر لگى تھى اور جس كا ذكر قرآن ميں آيا ہے وہى مشہور پہاڑہے جو موصل كے قريب ہے ،بعض دوسرے مفسرين نے اسے حدود شام ميں يا '' آمد '' كے نزيك يا عراق كے شمالى پہاڑسمجھا ہے_

كتاب مفردات راغب نے كہا ہے كہ يہ وہ پہاڑ ہے جو موصل اور الجزيرہ كے درميان ہے ''الجزيرہ'' شمالى عراق ميں ايك جگہ ہے اور يہ ''الجزائر''يا ''الجزيرہ ''نہيں جو آج كل مشہور ہے ،بعيد نہيں كہ ان سب كى بازگشت ايك ہى طرف ہو كيونكہ موصل ،آمد اور الجزيرہ سب عراق كے شمالى علاقوں ميں ہيں اور شام كے نزديك ہيں _بعض مفسرين نے يہ احتمال ظاہر كيا ہے كہ جودى سے مراد ہر مضبوط پہاڑ اور محكم زمين ہے، يعنى كشتى نوح ايك محكم زمين پر لنگر انداز ہوئي جو اس كى سواريوں كے اترنے كے لئے مناسب تھى ليكن مشہور معروف وہى پہلا معنى ہے(۲)

____________________

(۱)روايات اور تو اريخ ميں اس كى شہادت موجود ہے، لكھا ہے : كچھ كفارقريش قرآن سے مقابلے كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے انہوں نے مصمم ارادہ كرليا كہ قرآنى آيات جيسى كچھ آيات گھڑيں ان سے تعلق ركھنے والوں نے انہيں چاليس دن تك بہترين غذائيں مہيا كيں ،مشروبات فراہم كيے اور ان كى ہر فرمائش پورى كى خالص گندم كا ميدہ ،بكرے كا گوشت ،پرانى شراب غرض سب كچھ انہيں لاكر ديا تا كہ وہ آرام وراحت كے ساتھ قرآنى آيات جيسے جملوں كى تركيب بندى كريں ليكن جب وہ مذكورہ آيت تك پہنچے تو اس نے انہيں اس طرح سے ہلاكر ركھ ديا كہ انہوں نے ايك دوسرے كى طرف ديكھ كركہا كہ يہ ايسى گفتگو ہے كوئي كلام اس سے مشا بہت نہيں ركھتا ،يہ كہہ كر انہوں نے اپناہ ارادہ ترك كرديا اور مايوس ہوكر ادھر ادھرچلے گئے _

(۲)مزيد نفصيلات كے لئے رجوع كريں تفسير نمونہ جلد۵ ۲۶۹

۶۰