قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 310525
ڈاؤنلوڈ: 5326

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310525 / ڈاؤنلوڈ: 5326
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

يہ بات گواہى ديتى ہے كہ رسول اللہ (ص) ہرگز خواب يا مكا شفہ روحانى كے مدعى نہ تھے ورنہ مخالفين اس قدر شور وغوغا نہ كرتے _

يہ جو حسن بصرى سے روايت ہے كہ : ''يہ واقعہ خواب ميں پيش آيا ''_

اور اسى طرح جو حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ : ''خداكى قسم بدن رسول اللہ (ص) ہم سے جدا نہيں ہوا صرف آپ كى روح آسمان پر گئي'' ايسى روايات ظاہر ًاسياسى پہلو ركھتى ہيں _

معراج كا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ معراج كا مقصد يہ نہيں كہ رسول اكرم (ص) ديدار خدا كے لئے آسمانوں پر جائيں ، جيسا كہ سادہ لوح افرادخيال كرتے ہيں ، افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ بعض مغربى دانشور بھى ناآگاہى كى بناء پر دوسروں كے سامنے اسلام كا چہرہ بگاڑكر پيش كرنے كے لئے ايسى باتيں كرتے ہيں ان ميں سے ايك مسڑ'' گيور گيو'' بھى ہيں وہ بھى كتاب ''محمد وہ پيغمبر ہيں جنہيں پھرسے پہچاننا چاہئے''(۱) ميں كہتے ہيں :

''محمد اپنے سفر معراج ميں ايسى جگہ پہنچے كہ انہيں خدا كے قلم كى آواز سنائي دي، انہوں نے سمجھا كہ اللہ اپنے بندوں كے حساب كتاب ميں مشغول ہے البتہ وہ اللہ كے قلم كى آواز تو سننے تھے مگر انہيں اللہ دكھائي نہ ديتا تھا كيونكہ كوئي شخص خدا كو نہيں ديكھ سكتا خواہ پيغمبر ہى كيوں نہ ہوں ''يہ عبارت نشاندھى كرتى ہے كہ قلم لكڑى كا تھا، ايسا كہ كاغذ پر لكھتے وقت لرزتاتھا اور اواز پيدا كرتا تھا، اسى طرح كى اور بہت سارے خرافات اس ميں موجود ہيں ''_ جب كہ مقصد معراج يہ تھا كہ اللہ كے عظيم پيغمبر كائنات ميں بالخصوص عالم بالا ميں موجود عظمت الہى كى نشانيوں كا مشاہدہ كريں اور انسانوں كى ہدايت ورہبرى كے لئے ايك نيا ادراك اور ايك نئي بصيرت حاصل كريں _

____________________

(۱)مذكورہ كتاب كے فارسى ترجمے كا نام ہے '' محمد پيغمبرى كہ از نوبايد شناخت '' ص ۱۲۵ ديكھئے

۵۰۱

يہ ھدف واضح طورپر سورہ بنى اسرائيل كى پہلى ايت اور سورہ نجم كى ايت ۱۸ ميں بيان ہوا ہے_

امام صادق عليہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگيا تو آپ نے فرمايا :

''خدا ہرگز كوئي مكان نہيں ركھتا اور نہ اس پر كوئي زمانہ گزرتاہے ليكن وہ چاہتا تھا كہ فرشتوں اور آسمان كے باسيوں كو اپنے پيغمبر كى تشريف آورى سے عزت بخشے اور انہيں آپ كى زيارت كا شرف عطاكرے نيزآپ كو اپنى عظمت كے عجائبات دكھائے تاكہ واپس آكر آپ انہيں لوگوں سے بيان كريں ''_

معراج اور سائنس

گزشتہ زمانے ميں بعض فلاسفہ بطليموس كى طرح يہ نظريہ ركھتے تھے كہ نو آسمان پياز كے چھلكے كى طرح تہہ بہ تہہ ايك دوسرے كے اوپر ہيں واقعہ معراج كو قبول كرنے ميں ان كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ان كا يہى نظريہ تھا ان كے خيال ميں اس طرح تويہ ماننا پڑتا ہے كہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس ميں مل گئے_(۱)

ليكن'' بطليموسى ''نظريہ ختم ہو گيا تو اسمانوں كے شگافتہ ہونے كا مسئلہ ختم ہوگيا البتہ علم ہئيت ميں جو ترقى ہوئي ہے اس سے معراج كے سلسلے ميں نئے سوالات ابھر ے ہيں مثلاً;

۱)ايسے فضائي سفر ميں پہلى بار ركاوٹ كشش ثقل ہے كہ جس پر كنٹرول حاصل كرنے كے لے غير معمولى وسائل و ذرائع كى ضرورت ہے كيونكہ زمين كے مداراور مركز ثقل سے نكلنے كے لئے كم از كم چاليس ہزار كلو ميٹر فى گھنٹہ رفتار كى ضرورت ہے _

۲)دوسرى ركاوٹ يہ ہے كہ زمين كے باہر خلا ميں ہوا نہيں ہے جبكہ ہوا كے بغير انسان زندہ نہيں رہ سكتا _

____________________

(۱)بعض قديم فلاسفہ كا نظريہ يہ تھا كہ اسمانوں ميں ايسا ہونا ممكن نہيں ہے _اصطلاح ميں وہ كہتے تھے كہ افلاك ميں --''خرق ''(پھٹنا)اور ''التيام''(ملنا)ممكن نہيں

۵۰۲

۳)تيسرى ركاوٹ ايسے سفر ميں اس حصہ ميں سورج كى جلادينے والى تپش ہے جبكہ جس حصہ پر سورج كى مستقيماً روشنى پڑرہى ہے اور اسى طرح اس حصے ميں جان ليوا سردى ہے جس ميں سورج كى روشنى نہيں پڑرہى ہے_

۴) اس سفر ميں چوتھى ركاوٹ وہ خطرناك شعاعيں ہيں كہ جو فضا ئے زمين كے اوپر موجود ہيں مثلا كا سمك ريز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ريز ultra violet ravs اور ايكس ريز x ravs يہ شعاعيں اگر تھوڑى مقدار ميں انسانى بدن پر پڑيں تو بدن كے آرگانزم otganism كے لئے نقصان دہ نہيں ہيں ليكن فضائے زمين كے باہر يہ شعاعيں بہت تباہ كن ہوتى ہيں (زمين پر رہنے والوں كے لئے زمين كے اوپر موجود فضاكى وجہ سے ان كى تپش ختم ہوجاتى ہے )

۵) ايك اور مشكل اس سلسلہ ميں يہ ہے كہ خلاميں انسان بے وزنى كى كيفيت سے دوچار ہوجاتا ہے اگرچہ تدريجاًبے وزنى كى عادت پيدا كى جاسكتى ہے ليكن اگر زمين كے باسى بغير كسى تيارى اور تمہيد كے خلا ميں جا پہنچيں تو بےوزنى سے نمٹنا بہت ہى مشكل ہے _

۶) آخرى مشكل اس سلسلے ميں زمانے كى مشكل ہے اور يہ نہايت اہم ركاوٹ ہے كيونكہ دورحاضر كے سان سى علوم كے مطابق روشنى كى رفتار ہر چيز سے زيادہ ہے اور اگر كوئي آسمانوں كى سير كرنا چاہے تو ضرورى ہو گاكہ اس كى رفتار سے زيادہ ہو _

ان سوالات كے پيش نظر چندچيزوں پر توجہ

ان امور كے جواب ميں ان نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے _

۱_ہم جانتے ہيں كہ فضائي سفر كى تمام تر مشكلات كے باوجود آخر كار انسان علم كى قوت سے اس پر دسترس حاصل كرچكا ہے اور سوائے زمانے كى مشكل كے باقى تمام مشكلات حل ہوچكى ہيں اور زمانے والى مشكل بھى بہت دور كے سفر سے مربوط ہے _

۵۰۳

۲_اس ميں شك نہيں كہ مسئلہ معراج عمومى اور معمولى پہلو نہيں ركھتا بلكہ يہ اللہ كى لامتناہى قدرت و طاقت كے ذريعے صورت پذير ہوا اور انبياء كے تمام معجزات اسى قسم كے تھے زيادہ واضح الفاظ ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ معجزہ عقلاً محال نہيں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھى عقلاً ممكن ہے ، توباقى معاملات اللہ كى قدرت سے حل ہوجاتے ہيں _

جب انسان يہ طاقت ركھتا ہے كہ سائنسى ترقى كى بنياد پر ايسى چيزيں بنالے جو زمينى مركز ثقل سے باہر نكل سكتى ہيں ، ايسى چيزيں تيار كرلے كہ فضائے زمين سے باہر كى ہولناك شعاعيں ان پر اثر نہ كرسكيں اور ايسے لباس تيار كرلے كہ جو اسے انتہائي زيادہ گرمى اور سردى سے محفوظ ركھ سكيں اور مشق كے ذريعے بے وزنى كى كيفيت ميں رہنے كى عادت پيدا كرلے ،يعنى جب انسان اپنى محدود قوت كے ذريعے يہ كام كرسكتا ہے تو پھر كيا اللہ اپنى لا محدود طاقت كے ذريعہ يہ كام نہيں كرسكتا ؟

ہميں يقين ہے كہ اللہ نے اپنے رسول كو اس سفر كے لئے انتہائي تيز رفتار سوارى دى تھى اور اس سفرميں در پيش خطرات سے محفوظ رہنے كے لئے انہيں اپنى مدد كا لباس پہنايا تھا ،ہاں يہ سوارى كس قسم كى تھى اور اس كا نام كيا تھا براق ؟ رفرف ؟ يا كوئي اور ؟يہ مسئلہ قدرت كاراز ہے، ہميں اس كا علم نہيں _

ان تمام چيزوں سے قطع نظر تيز تريں رفتار كے بارے ميں مذكورہ نظريہ آج كے سائنسدانوں كے درميان متزلزل ہوچكا ہے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشہور نظريہ پر پختہ يقين ركھتا ہے _

آج كے سائنسداں كہتے ہيں كہ امواج جاذمہ rdvs of at f fion زمانے كى احتياج كے بغير آن واحد ميں دنيا كى ايك طرف سے دوسرى طرف منتقل ہوجاتى ہيں اور اپنا اثر چھوڑتى ہيں يہاں تك كہ يہ احتمال بھى ہے كہ عالم كے پھيلائو سے مربوط حركات ميں ايسے منظومے موجودہيں كہ جوروشنى كى رفتارسے زيادہ تيزى سے مركز جہان سے دور ہوجاتے ہيں (ہم جانتے ہيں كہ كائنات پھيل رہى ہے اور ستارے اور نظام ہائے شمسى تيزى كے ساتھ ايك دوسرے سے دور ہورہے ہيں )(غور كيجئے گا)مختصر يہ كہ اس سفر كے لئے جو بھى مشكلات بيان كى گئي ہيں ان ميں سے كوئي بھى عقلى طور پر اس راہ ميں حائل نہيں ہے اور ايسى كوئي بنياد نہيں كہ

۵۰۴

واقعہ معراج كو محال عقلى سمجھا جائے اس راستے ميں درپيش مسائل كو حل كرنے كے لئے جو وسائل دركار ہيں وہ موجود ہوں تو ايسا ہوسكتا ہے _

بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلى دلائل كے حوالے سے ناممكن ہے اور نہ دور حاضر كے سائنسى معياروں كے لحاظ سے ، البتہ اس كے غير معمولى اور معجزہ ہونے كو سب قبول كرتے ہيں لہذا جب قطعى اور يقينى نقلى دليل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول كرلينا چاہئے_

شب معراج پيغمبر (ص) سے خداكى باتيں

پيغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال كيا :

پروردگار ا: كونساعمل افضل ہے ؟

خدا وند تعالى نے فرمايا :

'' كوئي چيز ميرے نزيك مجھ پر توكل كرنے ، اور جو كچھ ميں نے تقسيم كركے ديا ہے اس پر راضى ہونے سے بہتر نہيں ہے ،اے محمد جولوگ ميرى خاطر ايك دوسرے كو دوست ركھتے ہيں ميرى محبت ان كے شامل حال ہوگى اور جو لوگ ميرى خاطر ايك دوسرے پر مہربان ہيں اور ميرى خاطر دوستى كے تعلقات ركھتے ہيں انھيں دوست ركھتا ہوں علاوہ بر ايں ميرى محبت ان لوكوں كے لئے جو مجھ پر توكل كريں فرض اور لازم ہے اور ميرى محبت كے لئے كوئي حد او ركنارہ اوراس كى انتہا نہيں ہے ''_

اس طرح سے محبت كى باتيں شروع ہوتى ہيں ايسى محبت جس كى كوئي انتہا نہيں ،جو كشادہ اور اصولى طور پر عالم ہستى ميں اسى محور محبت پر گردش كررہا ہے _

ايك اور ددسرے حصہ ميں يہ آيا ہے _

''اے احمد بچوں كى طرح نہ ہونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق كو دوست ركھتے ہيں اور جب انہيں كوئي عمدہ اور شيريں غذا ديدى جاتى ہے تو وہ مغرور ہوجاتے ہيں اور ہر چيز كو بھول جاتے ہيں ''_

۵۰۵

پيغمبرنے اس موقع پر عرض كيا :

پروردگارا :مجھے كسى ايسے عمل كى ہدايت فرماجو تيرى بارگاہ ميں قرب كا باعث ہو _

فرمايا : رات كو دن اور دن كو رات قرار دے _

عرض كيا : كس طرح ؟

فرمايا : اس طرح كے تيرا سونا نماز ہو اور ہرگز اپنے شكم كو مكمل طور پر سير نہ كرنا _

ايك اور حصہ ميں آيا ہے :

''اے احمد ميرى محبت فقيروں اور محروموں سے محبت ہے ،ان كے قريب ہوجاو اور ان كى مجلس كے قريب بيٹھو كہ ميں تيرے نزديك ہوں اور دنيا پرست اور ثروت مندوں كو اپنے سے دور ركھو اور ان كى مجالس سے بچتے رہو ''_

اہل دنيا و آخرت

ايك اور حصہ ميں آياہے:

''اے احمد دنيا كے زرق برق اور دنيا پرستوں كو مبغوض شمار كر اور آخرت كو محبوب ركھ'' عرض كرتے ہيں :

پروردگارا :اہل دنيا اور اہل آخرت كون ہيں ؟

فرمايا :''اہل دنيا تو وہ لوگ ہيں جو زيادہ كھاتے ہيں زيادہ ہنستے ہيں زيادہ سوتے ہيں اور غصہ كرتے ہيں اور تھوڑا خوش ہوتے ہيں نہ ہى تو برائيوں كے مقابلہ ميں كسى سے عذر چاہتے ہيں _اور نہ ہى كسى عذر چاہنے والے سے اس كا عذر قبول كرتے ہيں اطاعت خدا ميں سست ہيں اور گناہ كرنے ميں دلير ہيں ، لمبى چوڑى آرزوئيں ركھتے ہيں حالانكہ ان كى اجل قريب آپہنچى ہے مگر وہ ہر گز اپنے اعمال كا حساب نہيں كرتے ان سے لوگوں كو بہت كم نفع ہوتا ہے، باتيں زيادہ كرتے ہيں احساس ذمہ دارى نہيں ركھتے اور كھانے پينے سے ہى غرض ركھتے ہيں _

۵۰۶

اہل دنيا نہ تو نعمت ميں خدا كا شكريہ ادا كرتے ہيں اورنہ ہى مصائب ميں صبر كرتے ہيں _ زيادہ خدمات بھى ان كى نظر ميں تھوڑى ہيں (اور خود ان كى اپنى خدمات تھوڑى بھى زيادہ ہيں ) اپنے اس كام كے انجام پانے پر جو انہوں نے انجام نہيں ديا ہے تعريف كرتے ہيں اور ايسى چيز كا مطالبہ كرتے ہيں جو ان كا حق نہيں ہے _ ہميشہ اپنى آرزوئوں اور تمنا وں كى بات كرتے ہيں اور لوگوں كے عيوب تو بيان كرتے رہتے ہيں ليكن ان كى نيكيوں كو چھپاتے ہيں _

'' عرض كيا :پروردگارا :كيا دنيا پرست اس كے علاوہ بھى كوئي عيب ركھتے ہيں ؟

''فرمايا : اے احمد ان كا عيب يہ ہے كہ جہل اور حماقت ان ميں بہت زيادہ ہے جس استاد سے انہوں علم سيكھا ہے وہ اس سے تواضع نہيں كرتے اور اپنے آپ كو عاقل كل سمجھتے ہيں حالانكہ وہ صاحبان علم كے نزديك نادان اور احمق ہيں '' _

اہل بہشت كے صفات

خدا وند عالم اس كے بعد اہل آخرت اور بہشتيوں كے اوصاف كو يوں بيان كرتا ہے : ''وہ ايسے لوگ ہيں جو با حيا ہيں ان كى جہالت كم ہے ، ان كے منافع زيادہ ہيں ،لوگ ان سے راحت و آرام ميں ہوتے ہيں اور وہ خود اپنے ہاتھوں تكليف ميں ہوتے ہيں اور ان كى باتيں سنجيدہ ہوتى ہيں ''_

وہ ہميشہ اپنے اعمال كا حساب كرتے رہتے ہيں اور اسى وجہ سے وہ خود كو زحمت ميں ڈالتے رہتے ہيں ان كى آنكھيں سوئي ہوئي ہوتى ہيں ليكن ان كے دل بيدار ہوتے ہيں ان كى آنكھ گرياں ہوتى ہے اور ان كا دل ہميشہ ياد خدا ميں مصروف رہتا ہے جس وقت لوگ غافلوں كے زمرہ ميں لكھے جارہے ہوں وہ اس وقت ذكر كرنے والوں ميں لكھے جاتے ہيں _

نعمتوں كے آغاز ميں حمد خدا بجالاتے ہيں اور ختم ہونے پر اس كا شكر ادا كرتے ہيں ، ان كى دعائيں بارگاہ خدا ميں قبول ہوتى ہيں اور ان كى حاجتيں پورى كى جاتى ہيں اور فرشتے ان كے وجود سے مسرور اور خوش

۵۰۷

رہتے ہيں (غافل )لوگ ان كے نزديك مردہ ہيں اور خدا اُن كے نزديك حى و قيوم اور كريم ہے (ان كى ہمت اتنى بلند ہے كہ وہ اس كے سوا كسى كے اوپر نظر نہيں ركھتے )

لوگ تو اپنى عمر ميں صرف ايك ہى دفعہ مرتے ہيں ليكن وہ جہاد باالنفس اور ہواوہوس كى مخالفت كى وجہ سے ہر روز ستر مرتبہ مرتے ہيں (اور نئي زندگى پاتے ہيں )

جس وقت عبادت كے ليئےيرے سامنے كھڑے ہوتے ہيں تو ايك فولادى باندھ اور بنيان مرصوص كے مانند ہوتے ہيں اور ان كے دل ميں مخلوقات كى طرف كوئي توجہ نہيں ہوتى مجھے اپنى عزت و جلال كى قسم ہے كہ ميں انہيں ايك پاكيزہ زندگى بخشونگا اور عمر كے اختتام پر ميں خود ان كى روح كو قبض كروں گا اور ان كى پرواز كے لئے آسمان كے دروازوں كو كھول دوں گاتمام حجابوں كو ان كے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حكم دوں گا كہ بہشت خود اپنے ان كے لئے آراستہ كرے ''اے احمد عبادت كے دس حصہ ہيں جن ميں سے نو حصے طلب رزق حلال ميں ہيں جب تيرا كھانا اور پينا حلال ہوگا تو تيرى حفظ و حمايت ميں ہوگا''

بہترين اور جاويدانى زندگي

ايك اور حصہ ميں آيا ہے:

''اے احمد كيا تو جانتا ہے كہ كونسى زندگى زيادہ گوارا اور زيادہ دوام ركھتى ہے''؟

عرض كيا : خداوندا: نہيں _

فرمايا: گوارا زندگى وہ ہوتى ہے جس كا صاحب ايك لمحہ كے لئے بھى ميرى ياد سے غافل نہ رہے، ميرى نعمت كو فراموش نہ كرے ، ميرے حق سے بے خبر نہ رہے اور رات دن ميرى رضا كو طلب كرے_

ليكن باقى رہنے والى زندگى وہ ہے جس ميں اپنى نجات كے لئے عمل كرے ، دنيا اس كى نظر ميں حقير ہو اور آخرت بڑى اور بزرگ ہو، ميرى رضا كو اپنى رضا پر مقدم كرے، اور ہميشہ ميرى خوشنودى كو طلب كرے، ميرے حق كو بڑا سمجھے اور اپنى نسبت ميرى آگاہى كى طرف توجہ ركھے_

ہرگناہ اور معصيت پر مجھے ياد كرليا كرے ، اور اپنے دل كو اس چيز سے جو مجھے پسند نہيں ہے پاك

۵۰۸

ركھے، شيطانى وسو سوں كو مبغوض ركھے ،اور ابليس كو اپنے دل پر مسلط نہ كرے _

جب وہ ايسا كرے گا تو ميں ايك خاص قسم كى محبت كو اس كے دل ميں ڈال دوں گا اس طرح سے كہ اس كا دل ميرے اختيار ميں ہوگا ، اس كى فرصت اور مشغوليت اس كا ہم وغم اور اس كى بات ان نعمتوں كے بارے ميں ہوگى جو ميں اہل محبت كو بخشتا ہوں _ ميں اس كى آنكھ اور دل كے كان كھول ديتا ہوں تاكہ وہ اپنے دل كے كان سے غيب كے حقائق كو سننے اور اپنے دل سے ميرے جلال وعظمت كو ديكھے'' :

اور آخر ميں يہ نورانى حديث ان بيدار كرنے والے جملوں پر ختم ہوجاتى ہے :

'' اے احمد اگر كوئي بندہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمين كے برابر نماز ادا كرے ،اور تمام اہل آسمان وزمين كے برابر روزہ ركھے، فرشتوں كى طرح كھانانہ كھائے اور كوئي فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتہائي زہد اور پارسائي كى زندگى بسر كرے) ليكن اس كے دل ميں ذرہ برابر بھى دنيا پرستى يا رياست طلبى يازينت دنيا كا عشق ہو تو وہ ميرے جاودانى گھر ميں ميرے جوار ميں نہيں ہوگا اور ميں اپنى محبت كو اس كے دل سے نكال دوں گا ،ميرا سلام ورحمت تجھ پر ہو ،والحمد للہ رب العالمين ''

يہ عرشى باتيں __جو انسانى روح كو آسمانوں كى طرف بلند كرتى ہيں ، اور آستان ہ عشق وشہود كى طرف كھينچتى ہيں _حديث قدسى كا صرف ايك حصہ ہے _

مزيد براں ہميں اطمينان ہے كہ پيغمبر نے اپنے ارشادات ميں جو كچھ بيان فرمايا ہے ان كے علاوہ بھي، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال كى شب ميں ، ايسى باتيں ، اسرارورموز اور اشارے آپ كے اور اپ كے محبوب كے درميان ہوتے ہيں جن كو نہ تو كان سننے كى طاقت ركھتے ہيں اور نہ عام افكار ميں ان كے درك كى صلاحيت ہے، اور اسى بناپر وہ ہميشہ پيغمبر كے دل وجان كے اندر ہى مكتوم اور پوشيدہ رہے ، اور آپ كے خواص كے علاوہ كوئي بھى ان سے آگاہ نہيں ہوا _

۵۰۹

ہجرت پيامبر اكرم (ص)(۱)

مختلف قبائل قريش اور اشراف مكہ كا ايك گروہ جمع ہوا تاكہ وہ'' دار الند وہ'' ميں ميٹنگ كريں اور انہيں رسول اللہ كى طرف سے درپيش خطرے پر غور وفكر كريں _

(كہتے ہيں ) اثنائے راہ ميں انہيں ايك خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شيطان تھا (يا كوئي انسان جو شيطانى روح وفكر كا حامل تھا)_

انہوں نے اس سے پوچھا : تم كون ہو؟

كہنے لگا : اہل نجد كا ايك بڑا بوڑھا ہوں ، مجھے تمہارے اراداے كى اطلاع ملى تو ميں نے چاہا كہ تمہارى ميٹنگ ميں شركت كروں اور اپنا نظريہ اور خير خواہى كى رائے پيش كرنے ميں دريغ نہ كروں _

كہنے لگے : بہت اچھا اندر آجايئے _

اس طرح وہ بھي'' دارالندوة''ميں داخل ہوگيا _

حاضرين ميں سے ايك نے ان كى طرف رخ كيا اور ( پيغمبر اسلام (ص) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ) كہا : اس شخص كے بارے ميں كوئي سوچ بچار كرو ، كيونكہ بخدا ڈر ہے كہ وہ تم پر كامياب ہوجائے ( اور تمہارے دين اور تمہارى عظمت كو خاك ميں ملادے گا )

____________________

(۱)سورہ انفال ايت ۳۰ كے ذيل ميں واقعہ ہجرت بيان ہوا ہے

۵۱۰

ايك نے تجويز پيش كى : اسے قيد كردو يہاں تك كے زندان ہى ميں مرجائے _

بوڑھے نجدى نے اس تجويز پراعتراض كيا اور كہا : اس ميں خطرہ يہ ہے كہ اس كے طرف دار ٹوٹ پڑيں اور كسى مناسب وقت اسے قيد خانے سے چھڑا كر اس سرزمين سے باہر لے جائيں لہذا كوئي اور بنيادى بات كرو _

ايك اورشخص نے كہا: اسے اپنے شہرسے نكال دو تاكہ تمہيں اس سے چھٹكارامل جائے كيونكہ جب وہ تمہارے درميان سے چلا جائے گا تو پھر جو كچھ بھى كرتا پھرے تمہيں كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا اور پھر وہ دوسروں ہى سے سروكار ركھے گا _

اس بوڑھے نجدى نے كہا : واللہ يہ نظريہ بھى صحيح نہيں ہے ، كہا تم اس كى شيريں بيانى ،قدرت زبان اور لوگوں كے دلوں ميں اس كے نفوذ نہيں ديكھتے؟ اگر ايسا كروگے تو وہ تمام دنيائے عرب كے پاس جائے گا اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں گے اور پھر وہ ايك انبوہ كثير كے ساتھ تمہارى طرف پلٹے گا اور تمہيں تمہارے شہروں سے نكال باہر كرے گا اور بڑوں كو قتل كردےگا _

مجمع نے كہا بخدا يہ سچ كہہ رہاہے كوئي اور تجويزسو چو_

ابوجہل كى رائے

ابوجہل ابھى تك خاموش بيٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع كى اور كہا : ميرا ايك نظريہ ہے اور اس كے علاوہ ميں كسى رائے كو صحيح نہيں سمجھتا _

حاضرين كہنے لگے :وہ كيا ہے ؟

كہنے لگا : ہم ہر قبيلے سے ايك بہادر شمشير زن كا انتخاب كريں اور ان ميں سے ہر ايك ہاتھ ميں ايك تيز تلوار دے ديديں اور پھر وہ سب مل كر موقع پاتے ہى اس پر حملہ كريں جب وہ اس صورت ميں قتل ہوگا تو اس كا خون تمام قبائل ميں بٹ جائے گا اور ميں نہيں سمجھتا كہ بنى ہاشم تمام قبائل قريش سے لڑسكيں گے لہذا مجبورا اس

۵۱۱

صورت ميں خون بہا پر راضى ہوجائيں گے اور يوں ہم بھى اس كے آزار سے نجات پاليں گے_

بوڑھے نجدى نے (خوش ہوكر ) كہا: بخدا : صحيح رائے يہى ہے جو اس جواں مرد نے پيش كى ہے ميرا بھى اس كے علاوہ كوئي نظريہ نہيں _

اس طرح يہ تجويز اتفاق رائے سے پاس ہوگئي اور وہ يہى مصمم ارادہ لے كروہاں سے اٹھے _

حضرت على عليہ السلام نے اپنى جان كو بيچ ڈالي

جبرئيل نازل ہوئے اور پيغمبر اسلام (ص) كو حكم ملا كہ وہ رات كو اپنے بستر پر نہ سوئيں ،پيغمبر اكرم (ص) رات كو غار ثور كى طرف روانہ ہوگئے اور حكم دے گئے كہ على آپ كے بستر پر سوجائيں (تاكہ جو لوگ دروازے كى درازسے بستر پيغمبر (ص) پر نظر ركھے ہوئے ہيں انہيں بستر پر سويا ہوا سمجھيں اور آپ كو خطرے كے علاقہ سے دور نكل جانے كى مہلت مل جائے )_

اہل سنت كے مشہور مفسر ثعلبى كہتے ہيں كہ جب پيغمبراسلام (ص) نے ہجرت كرنے كا پختہ ارادہ كرليا تو اپنے قرضوں كى ادائيگى اور موجود امانتوں كى واپسى كے لئے حضرت على عليہ السلام كو اپنى جگہ مقرر كيا اور جس رات آپ غار ثور كى طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشركين آپ پر حملہ كرنے كے لئے آپ كے گھر كا چاروں طرف سے محاصرہ كئے ہوے تھے، آپ نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ آپ كے بستر پر ليٹ جائيں ، اپنى مخصوص سبز رنگ كى چادر انہيں اوڑھنے كو دى ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائيل اور ميكائيل پر وحى كى كہ ميں نے تم دونوں كے درميان بھائي چارہ اور اخوت قائم كى ہے اور تم ميں سے ايك كى عمر كو زيادہ مقرر كيا ہے تم ميں سے كون ہے جو ايثار كرتے ہوئے دوسرے كى زندگى كو اپنى حيات پر ترجيح دے ان ميں سے كوئي بھى اس كے لئے تيار نہ ہوا تو ان پروحى ہوئي كہ اس وقت على ميرے پيغمبر كے بستر پر سويا ہوا ہے اور وہ تيار ہے كہ اپنى جان ان پر قربان كردے، زمين پرجائو اور اس كے محافظ ونگہبان بن جائو ،جب جبرئيل ،حضرت على عليہ السلام كے سرہانے آئے اور ميكائيل پائوں كى طرف بيٹھے تو جبرئيل كہہ رہے تھے: سبحان اللہ، صدآفرين آپ پر اے على عليہ السلام كہ خدا آپ كے ذريعے فرشتوں پر فخر ومباہات كررہاہے ،اس موقع پر آيت نازل

۵۱۲

ہوئي ''كچھ لوگ اپنى جان خدا كى خوشنودى كے بدلے بيچ ديتے ہيں اور خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے'' اور اسى بناء پروہ تاريخى رات '' ليلة المبيت''(شب ہجرت) كے نام سے مشہور ہوگئي _

ابن عباس كہتے ہيں :جب پيغمبر (ص) مشركين سے چھپ كر ابوبكر كے ساتھ غار كى طرف جارہے تھے يہ ايت على عليہ السلام كے بارے ميں نازل ہوئي جو اس وقت بستر رسول (ص) پر سوئے ہوئے تھے _

ابوجعفر اسكافى كہتے ہيں :جيسے ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ، جلد ۳ ص ۲۷۰ پر لكھا ہے :

پيغمبر (ص) كے بستر پر حضرت على عليہ السلام كے سونے كا واقعہ تو اتر سے ثابت ہے اور اس كا انكار غير مسلموں اور كم ذہن لوگوں كے علاوہ كوئي نہيں كرتا(۱)

جب صبح ہوئي تومشركين گھر ميں گھس آئے _ انہوں نے جستجو كى تو حضرت على عليہ السلام كو پيغمبر(ص) كى جگہ پر ديكھا _ اس طرح سے خدا نے ان كى سازش كو نقش برآب كرديا _

وہ پكارے: محمد كہاں ہے ؟

آپ نے جواب ديا : ميں نہيں جانتا _

وہ آپ كے پائوں كے نشانوں پر چل پڑے يہاں تك كہ غار كے پاس پہنچ گئے ليكن (انہوں نے تعجب سے ديكھا كہ مكڑى نے غار كے سامنے جالاتن ركھاہے ايك نے دوسرے سے كہا كہ اگر وہ اس غار ميں ہوتے تو غاركے دہانے پر مكڑى كا جالا نہ ہوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے )

پيغمبر (ص) تين دن تك غار كے اندر رہے ( اور جب دشمن مكہ كے تمام بيابانوں ميں آپ كو تلاش كرچكے اور تھك ہار كرمايوس پلٹ گئے تو آپ مدينہ كى طرف چل پڑے )_

____________________

(۱)الغدير، جلد ۲ ص۴۵ پر ہے كہ غزالى نے احياء العلوم ج۳ ص ۲۳۸ پر، صفورى نے نزہتہ المجالس ج۲ ،ص ۲۰۹ پر، ابن صباغ مالكى نے فصول المہمہ، ميں سبط ابن جوزى نے تذكرہ الخواص ص ۲۱ پر ، امام احمد نے مسندج ا ص ۳۴۸ پر، تاريخ طبرى جلد ۲ ص۹۹ پر، سيرة ابن ہشام ج ۲، ص ۲۹۱ پر، سيرة حلبى ج ۱ ص ۲۹ پر، تاريخى يعقوبى ج۲ ص ۲۹ پرليلة المبيت كے واقعہ كو نقل كيا ہے

۵۱۳

قبلہ كى تبديلي

بعثت كے بعد تيرہ سال تك مكہ ميں اور چند ماہ تك مدينہ ميں پيغمبر اسلام (ص) حكم خدا سے بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے رہے ليكن اس كے بعد قبلہ بدل گيا اور مسلمانوں كو حكم ديا گيا كہ وہ مكہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں _

مدينہ ميں كتنے ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھى جاتى رہي؟ اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے، يہ مدت سات ماہ سے لے كر سترہ ماہ تك بيان كى گئي ہے ليكن يہ جتنا عرصہ بھى تھا اس دوران يہودى مسلمانوں كو طعنہ زنى كرتے رہے كيونكہ بيت المقدس دراصل يہوديوں كا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے كہتے تھے كہ ان كا اپنا كوئي قبلہ نہيں بلكہ ہمارے قبلہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے ہيں اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہم حق پر ہيں _

يہ باتيں پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كے لئے ناگوار تھيں ايك طرف وہ فرمان الہى كے مطيع تھے اور دوسرى طرف يہوديوں كے طعنے ختم نہ ہوتے تھے، اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) آسمان كى طرف ديكھتے تھے گويا وحى الہى كے منتظر تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كا خانہ كعبہ سے خاص لگائو

پيغمبر اكرم (ص) خصوصيت سے چاہتے تھے كہ قبلہ، كعبہ كى طرف تبديل ہوجائے اور آپ انتظار

۵۱۴

ميں رہتے تھے كہ خدا كى طرف سے اس سلسلہ ميں كوئي حكم نازل ہو، اس كى وجہ شايد يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو حضرت ابراہيم عليہ السلام اور ان كے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ايں كعبہ توحيد كا قديم ترين مركز تھا، آپ(ص) جانتے تھے كہ بيت المقدس تو وقتى قبلہ ہے ليكن آپ كى خواہش تھى كہ حقيقى و آخرى قبلہ جلد معين ہوجائے_

آپ چونكہ حكم خدا كے سامنے سر تسليم خم تھے،پس اپ يہ تقاضا زبان تك نہ لاتے صرف منتظر نگاہيں آسمان كى طرف لگائے ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كو كعبہ سے كس قدر عشق اور لگائو تھا_

اس انتظار ميں ايك عرصہ گذرگيا يہاں تك كہ قبلہ كى تبديلى كا حكم صادر ہوا ايك روز مسجد ''بنى سالم'' ميں پيغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے دوركعتيں پڑھ چكے تھے كہ جبرئيل كو حكم ہوا كہ پيغمبر كا بازو تھام كر ان كارخ انور كعبہ كى طرف پھيرديں _

مسلمانوں نے بھى فوراً اپنى صفوں كا رخ بدل ليا،يہاں تك كہ ايك روايت ميں منقول ہے كہ عورتوں نے اپنى جگہ مردوں كو دى اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں كو ديدى ،(توجہ رہے كہ بيت المقدس شمالى سمت ميں تھا ،اور خانہ كعبہ جنوبى سمت ميں تھا_)

اس واقعے سے يہودى بہت پريشان ہوئے اور اپنے پرانے طريقہ كے مطابق ،ڈھٹائي، بہانہ سازى اور طعنہ بازى كا مظاہرہ كرنے لگے پہلے تو كہتے تھے كہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہيں كيونكہ ان كا كوئي اپنا قبلہ نہيں ، يہ ہمارے پيروكار ہيں ليكن جب خدا كى طرف سے قبلہ كى تبديلى كا حكم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض درازكى چنانچہ قرآن كہتا ہے_

''بہت جلد كم عقل لوك كہيں گے ان (مسلمانوں ) كو كس چيز نے اس قبلہ سے پھيرديا جس پر وہ پہلے تھے''_(۱)

مسلمانوں نے اس سے كيوں اعراض كيا ہے جو گذشتہ زمانہ ميں انبيائے ماسلف كا قبلہ رہا ہے، اگر

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۱۴۲

۵۱۵

پہلا قبلہ صحيح تھا تو اس تبديلى كا كيا مقصد،اور اگر دوسرا صحيح ہے تو پھرتير ہ سال اور پندرہ ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے كيوں نماز پڑھتے رہے ہيں _؟

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو حكم ديا:

''ان سے كہہ دو عالم كے مشرق ومغرب اللہ كے لئے ہيں وہ جسے چاہتا ہے سيدھے راستے كى ہدايت كرتا ہے''_(۱)

تبديلى قبلہ كا راز

بيت المقدس سے خانہ كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى ان سب كے لئے اعتراض كا موجب بنى جن كا گمان تھا كہ ہر حكم كو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ہمارے لئے ضرورى تھا كہ كعبہ كى طرف نماز پڑھيں تو پہلے دن يہ حكم كيوں نہ ديا گيا اور اگر بيت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبياء كا بھى قبلہ شمار ہوتا ہے توپھراسے كيوں بدلاگيا_؟

دشمنوں كے ہاتھ بھى طعنہ زنى كا موقع آگيا، شايد وہ كہتے تھے كہ پہلے تو انبياء ماسبق كے قبلہ كى طرف نماز پڑھتا تھا ليكن كاميابيوں كے بعد اس پر قبيلہ پرستى نے غلبہ كرليا ہے لہذا اپنى قوم اور قبيلے كے قبلہ كى طرف پلٹ گيا ہے ياكہتے تھے كہ اس نے دھوكا دينے اور يہودو نصارى كى توجہ اپنى طرف مبذول كرنے كے لئے پہلے بيت المقدس كو قبول كرليا اور جب يہ بات كار گرنہ ہوسكى تو اب كعبہ كى طرف رخ كرليا ہے _

واضح ہے كہ ايسے وسوسے اور وہ بھى ايسے معاشرے ميں جہاں ابھى نور علم نہ پھيلا ہو اور جہاں شرك وبت پرستى كى رسميں موجود ہوں كيسا تذبذب واضطراب پيدا كرديتے ہيں اسى لئے قرآن صراحت سے كہتا ہے كہ'' يہ مومنين اورمشركين ميں امتياز پيدا كرنے والى ايك عظيم آزمائش تھي''_(۲)

ممكن ہے كہ قبلہ كى تبديلى كے اہم اسباب ميں سے درج ذيل مسئلہ بھى ہو خانہ كعبہ اس وقت

____________________

(۱)سورہ بقرہ آيت۱۴۲

(۲)سورہ بقرہ ايت ۱۴۳

۵۱۶

مشركين كے بتوں كامركز بنا ہوا تھا لہذا حكم ديا گيا كہ مسلمان وقتى طور پر بيت المقدس كى طرف رخ كركے نمازپڑھ ليا كريں تاكہ اس طرح مشركين سے اپنى صفيں الگ كرسكيں _

ليكن جب مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد اسلامى حكومت وملت كى تشكيل ہوگئي اور مسلمانوں كى صفيں دوسروں سے مكمل طور پر ممتاز ہوگئيں تو اب يہ كيفيت برقرار ركھنا ضرورى نہ رہا ،لہذا اس وقت كعبہ كى طرف رخ كرليا گيا جو قديم ترين مركز توحيد اور انبياء كا بہت پرانا مركز تھا _

ايسے ميں ظاہر ہے كہ جو كعبہ كو اپنا خاندانى معنوى اور روحانى سرمايہ سمجھتے تھے بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ان كے لئے مشكل تھا اور اسى طرح بيت المقدس كے بعد كعبہ كى طرف پلٹنا، لہذا اس ميں مسلمانوں كى سخت آزمائش تھى تاكہ شرك كے جتنے آثار ان ميں باقى رہ گئے تھے اس كٹھالى ميں پڑكر جل جائيں اور ان كے گذشتہ شرك آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائيں _

جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں اصولى طور پر تو خدا كے لئے مكان نہيں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں ميں اتحاد كا ايك رمزہے اور اس كى تبديلى كسى چيز كود گرگوں نہيں كرسكتى ، اہم ترين امر تو خدا كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے اور تعصب اورہٹ دھرمى كے بتوں كو توڑناہے _

۵۱۷

جنگ بدر(۱)

جنگ بدركى ابتداء يہاں سے ہوئي كہ مكہ والوں كا ايك اہم تجارتى قافلہ شام سے مكہ كى طرف واپس جارہا تھا اس قافلے كو مدينہ كى طرف سے گزرنا تھا اہل مكہ كا سردار ابوسفيان قافلہ كا سالار تھا اس كے پاس ہزار دينار كا مال تجارت تھا پيغمبر اسلام نے اپنے اصحاب كو اس عظيم قافلے كى طرف تيزى سے كوچ كا حكم ديا كہ جس كے پاس دشمن كا ايك بڑا سرمايہ تھا تاكہ اس سرمائے كو ضبط كركے دشمن كى اقتصادى قوت كو سخت ضرب لگائي جائے تاكہ اس كا نقصان دشمن كى فوج كو پہنچے _(۲)

____________________

(۱)واقعہ جنگ بدر سورہ انفال آيات ۵ تا ۱۸كے ذيل ميں بيان ہوئي ہے _

(۲)پيغمبراور ان كے اصحاب ايسا كرنے كا حق ركھتے تھے كيونكہ مسلمان مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كركے آئے تو اہل مكہ نے ان كے بہت سے اموال پر قبضہ كرليا تھا جس سے مسلمانوں كو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہذا وہ حق ركھتے تھے كہ اس نقصان كى تلافى كريں _اس سے قطع نظر بھى اہل مكہ نے گذشتہ تيرہ برس ميں پيغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں سے جو سلوك رواركھا اس سے بات ثابت ہوچكى تھى وہ مسلمانوں كو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے كے لئے كوئي موقع ہاتھ سے نہيں گنوائيں گے يہاں تك كہ وہ خودپيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے پر تل گئے تھے ايسا دشمن پيغمبر اكرم (ص) كے ہجرت مدينہ كى وجہ سے بے كار نہيں بيٹھ سكتا تھا واضح تھا كہ وہ قاطع ترين ضرب لگانے كے لئے اپنى قوت مجتمع كرتا پس عقل ومنطق كا تقاضا تھا كہ پيش بندى كے طورپر ان كے تجارتى قافلے كو گھير كر اس كے اتنے بڑے سرمائے كو ضبط كرليا جاتا تاكہ اس پر ضرب پڑے اور اپنى فوجى اور اقتصادى بنياد مضبوط كى جاتى ايسے اقدامات آج بھى اور گذشتہ ادوار ميں بھى عام دنيا ميں فوجى طريق كار كا حصہ رہے ہيں ،جولوگ ان پہلوئوں كو نظر اندازكركے قافلے كى طرف پيغمبر كى پيش قدمى كو ايك طرح كى غارت گرى كے طور پر پيش كرنا چاہتے ہيں ياتو وہ حالات سے آگاہ نہيں اور اسلام كے تاريخى مسائل كى بنيادوں سے بے خبر ہيں اور يا ان كے كچھ مخصوص مقاصد ہيں جن كے تحت وہ واقعات وحقائق كو توڑمروڑكر پيش كرتے ہيں

۵۱۸

بہرحال ايك طرف ابوسفيان كو مدينہ ميں اس كے ذريعے اس امر كى اطلاع مل گئي اور دوسرى طرف اس نے اہل مكہ كو صورت حال كى اطلاع كے لئے ايك تيز رفتار قاصد روانہ كرديا كيونكہ شام كى طرف جاتے ہوئے بھى اسے اس تجارتى قافلہ كى راہ ميں ركاوٹ كا انديشہ تھا _

قاصد ،ابوسفيان كى نصيحت كے مطابق اس حالت ميں مكہ ميں داخل ہوا كہ اس نے اپنے اونٹ كى ناك كوچير ديا تھا اس كے كان كاٹ ديئے تھے ، خون ہيجان انگيز طريقہ سے اونٹ سے بہہ رہا تھا ،قاصد نے اپنى قميض كو دونوں طرف سے پھاڑديا تھا اونٹ كى پشت كى طرف منہ كركے بيٹھا ہوا تھا تاكہ لوگوں كو اپنى طرف متوجہ كرسكے ، مكہ ميں داخل ہوتے ہى اس نے چيخنا چلانا شروع كرديا :

اے كا مياب وكامران لوگو اپنے قافلے كى خبر لو، اپنے كارواں كى مدد كرو _ ليكن مجھے اميد نہيں كہ تم وقت پر پہنچ سكو ، محمد اور تمہارے دين سے نكل جانے والے افراد قافلے پر حملے كے لئے نكل چكے ہيں _

اس موقع پر پيغمبر (ص) كى پھوپھى عاتكہ بنت عبدالمطلب كا ايك عجيب وغريب خواب تھا مكہ ميں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں كے ہيجان ميں اضافہ كرہا تھا _ خواب كا ماجرايہ تھا كہ عاتكہ نے تين روزقبل خواب ميں ديكھاكہ :

ايك شخص پكاررہا ہے كہ لوگو اپنى قتل گاہ كى طرف جلدى چلو، اس كے بعد وہ منادى كوہ ابوقيس كى چوٹى پر چڑھ گيا اس نے پتھر كى ايك بڑى چٹان كو حركت دى تو وہ چٹان ريزہ ريزہ ہوگئي اور اس كا ايك ايك ٹكڑا قريش كے ايك ايك گھرميں جاپڑا اور مكہ كے درے سے خون كا سيلاب جارى ہوگيا _

عاتكہ وحشت زدہ ہوكر خواب سے بيدار ہوئي اور اپنے بھائي عباس كو سنايا _ اس طرح خواب لوگوں تك پہنچاتو وہ وحشت وپريشانى ميں ڈوب گئے _ ابوجہل نے خواب سنا تو بولا : يہ عورت دوسرا پيغمبر ہے جو اولادعبدالمطلب ميں ظاہر ہوا ہے لات وعزى كى قسم ہم تين دن كى مہلت ديتے ہيں اگر اتنے عرصے ميں اس خواب كى تعبير ظاہر نہ ہوئي تو ہم آپس ميں ايك تحرير لكھ كر اس پر دستخط كريں گے كہ بنى ہاشم قبائل عرب ميں سے سب سے زيادہ جھوٹے ہيں تيسرا دن ہوا تو ابوسفيان كا قاصد آپہنچا ، اس كى پكار نے تمام اہل مكہ كو ہلاكو ركھ ديا_

۵۱۹

اور چونكہ تمام اہل مكہ كا اس قافلے ميں حصہ تھا سب فوراً جمع ہوگئے ابوجہل كى كمان ميں ايك لشكر تيار ہوا ، اس ميں ۵۰ ۹/ جنگجو تھے جن ميں سے بعض انكے بڑے اور مشہور سردار اور بہادر تھے ۷۰۰/ اونٹ تھے اور ۱۰۰/ گھوڑے تھے لشكر مدينہ كى طرف روانہ ہوگيا _

دوسرى طرف چونكہ ابو سفيان مسلمانوں سے بچ كر نكلنا چاہتاتھا ،لہذا اس نے راستہ بدل ديا اور مكہ كى طرف روانہ ہو گيا_

۳۱۳/ وفادار ساتھي

پيغمبر اسلام (ص) ۳۱۳ /افراد كے ساتھ جن ميں تقريباً تمام مجاہدين اسلام تھے سرزمين بدركے پاس پہنچ گئے تھے يہ مقام مكہ اور مدينہ كے راستے ميں ہے يہاں آپ كو قريش كے لشكر كى روانگى كى خبر ملى اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كہ كيا ابوسفيان كے قافلہ كا تعاقب كيا جائے اور قافلہ كے مال پر قبضہ كيا جائے يا لشكر كے مقابلے كے لئے تيار ہواجائے؟ ايك گروہ نے دشمن كے لشكر كامقابلہ كرنے كو ترجيح دى جب كہ دوسرے گروہ نے اس تجويز كو ناپسند كيا اور قافلہ كے تعاقب كو ترجيح دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ ہم مدينہ سے مكہ كى فوج كا مقابلہ كرنے كے ارادہ سے نہيں نكلے تھے اور ہم نے اس لشكر كے مقابلے كے لئے جنگى تيارى نہيں كى تھى جب كہ وہ ہمارى طرف پورى تيارى سے آرہا ہے _

اس اختلاف رائے اور تردد ميں اس وقت اضافہ ہوگيا جب انہيں معلوم تھاكہ دشمن كى تعداد مسلمانوں سے تقريبا تين گنا ہے اور ان كا سازوسامان بھى مسلمانوں سے كئي گنا زيادہ ہے، ان تمام باتوں كے باوجود پيغمبر اسلام (ص) نے پہلے گروہ كے نظريے كو پسند فرمايا اور حكم ديا كہ دشمن كى فوج پر حملہ كى تيارى كى جائے _

جب دونوں لشكر آمنے سامنے ہوئے تودشمن كو يقين نہ آيا كہ مسلمان اس قدر كم تعداد اور سازو سامان كے ساتھ ميدان ميں آئے ہوں گے ،ان كا خيال تھا كہ سپاہ اسلام كا اہم حصہ كسى مقام پر چھپاہوا ہے تاكہ وہ غفلت ميں كسى وقت ان پر حملہ كردے لہذا انہوں نے ايك شخص كو تحقيقات كے لئے بھيجا، انہيں جلدى معلوم

۵۲۰