قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   0%

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه   مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 667

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 667
مشاہدے: 310491
ڈاؤنلوڈ: 5326

تبصرے:

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 667 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 310491 / ڈاؤنلوڈ: 5326
سائز سائز سائز
قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

قصص القرآن-منتخب از تفسير نمونه

مؤلف:
اردو

ابوسفيان كى بيوى ہندہ كى بيعت كا ماجرا

فتح مكہ كے واقعہ ميں جن عورتوں نے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر بيعت كى ان ميں سے ايك ابو سفيان كى بيوي''ہندہ''تھي، يعنى وہ عورت جس كى طرف سے تاريخ اسلام بہت سے دردناك واقعات محفوظ ركھے ہوئے ہے،ا ن ميں سے ايك ميدان احد ميں حمزہ سيدالشہداء (ع) كى شہادت كا واقعہ ہے كہ جس كى كيفيت بہت ہى غم انگيز ہے _

اگرچہ آخركاروہ مجبور ہوگئي كہ اسلام اور پيغمبر اسلام (ص) كے سامنے گھٹنے ٹيك دے او رظاہراً مسلمان ہو جائے ليكن اسكى بيعت كا ماجرا بتاتا ہے كہ وہ حقيقت ميں اپنے سابقہ عقائد كى اسى طرح وفادار تھى ،لہذا اس ميں تعجب كى كوئي بات نہيں ہے كہ بنى اميہ كا خاندان اور ہندہ كى اولادنے پيغمبر (ص) كے بعد اس قسم كے جرائم كا ارتكاب كيا كہ جن كى سابقہ زمانہ ميں كوئي نظير نہيں ملتى _

بہر حال مفسرين نے اس طرح لكھا ہے كہ ہند ہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئي جب آپ كوہ صفا پر تشريف فرما تھے اور عورتوں كى ايك جماعت ہندہ كے ساتھ تھي، جب پيغمبر (ص) نے يہ فرماياكہ ميں تم عورتوں سے اس بات پر بيعت لتيا ہوں كہ تم كسى چيز كو خدا كا شريك قرار نہيں دو گي، تو ہندہ نے اعتراض كيا او ركہا:''آپ ہم سے ايسا عہد لے رہے ہيں جو آپ نے مردوں سے نہيں ليا ، (كيونكہ اس دن مردوں سے صرف ايمان اورجہاد پربيعت لى گئي تھى _)

پيغمبر (ص) نے اس كى بات كى پرواہ كئے بغير اپنى گفتگو كو جارى فرمايا:''كہ تم چورى بھى نہيں كرو گي،''ہند ہ نے كہا: ابو سفيان كنجوس اوربخيل آدمى ہے ميں نے اس كے مال ميں سے كچھ چيزيں لى ہيں ، ميں نہيں جانتى كہ وہ انھيں مجھ پر حلال كرے گا يا نہيں ابو سفيان موجود تھا ،اس نے كہا: جو كچھ تو نے گذشتہ زمانہ ميں ميرے مال ميں سے لے ليا ہے وہ سب ميں نے حلال كيا ،(ليكن آئندہ كے لئے پابندى كرنا _)

اس موقع پر پيغمبر (ص) ہنسے اور ہندہ كو پہچان كر فرمايا:''كيا تو ہندہ ہے''؟ اس نے كہا :جى ہاں ،يا

۶۰۱

رسول اللہ پچھلے امور كو بخش ديجئے خدا آپ كو بخشے ''_

پيغمبر (ص) نے اپنى گفتگو كو جارى ركھا:''او رتم زنا سے آلودہ نہيں ہوگي،''ہندہ نے تعجب كرتے ہوئے كہا:''كيا آزاد عورت اس قسم كا عمل بھى انجام ديتى ہے؟''حاضرين ميں سے بعض لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اس كى حالت سے واقف تھے اس كى اس بات پر ہنس پڑے كيونكہ ہندہ كا سابقہ زمانہ كسى سے مخفى نہيں تھا_

پھر پيغمبر (ص) نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے فرمايا:

''اور تم اپنى اولاد كو قتل نہيں كروگى ''_

ہند نے كہا:''ہم نے تو انھيں بچپن ميں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انھيں قتل كرديا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ہيں ''_( اس كى مراد اس كا بيٹا ''حنظلہ''تھا جو بدر كے دن على عليہ السلام كے ہاتھوں ماراگيا تھا_)

پيغمبر (ص) نے اس كى اس بات پر تبسم فرمايا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمايا:

''تم بہتان او رتہمت كو روا نہيں ركھوگى ''_

تو ہندہ نے كہا:''بہتان قبيح ہے او رآپ ہميں صلاح و درستى ،نيكى او رمكارم اخلاق كے سوا او ركسى چيز كى دعوت نہيں ديتے''_

جب آپ نے يہ فرمايا:

''تم تمام اچھے كاموں ميں ميرے حكم كى اطاعت كروگى ''_تو ہندہ نے كہا:''ہم يہاں اس لئے نہيں بيٹھے ہيں كہ ہمارے دل ميں آپ كى نافرمانى كاارادہ ہو''_

(حالانكہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہيں تھا، ليكن تعليمات اسلامى كے مطابق پيغمبر (ص) اس بات كے پابند تھے كہ ان كے بيانات كو قبول كرليں _

۶۰۲

۱۰ حضرت رسول اكرم (ص)

پيغمبر (ص) كے خطوط دنيا كے بادشاہوں كے نام

تاريخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے كہ جب سرزمين حجاز ميں اسلام كافى نفوذ كرچكا تو پيغمبراكرم(ص) نے اس زمانے كے بڑے بڑے حكمرانوں كے نام كئي خطوط روانہ كيے _ ان ميں بعض خطوط ميں كا سہارا ليا گيا ہے ،جس ميں آسما نى اديان كى قدر مشترك كا تذكرہ ہے_

مقوقس(۱)

كے نام خط مقوقس مصر كا حاكم تھا پيغمبر اسلام (ص) نے دنيا كے بڑے بڑے بادشاہوں او رحكام كو خطوط لكھے او رانہيں اسلام كى طرف دعوت دي،حاطب بن ابى بلتعہ كو حاكم مصر مقوقس كى طرف يہ خط دے كرروانہ كيا_

بسم اللّه الرحمن الرحيم

من: محمد بن عبداللّه

الي: المقوقس عظيم القبط

سلام على من اتبع الهدى ،اما بعد:''فانى ادعوك بدعايةالاسلام

اسلم تسلم،يو تك اللّه اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم

____________________

(۱)''مقوقس''(بہ ضم ميم وبہ فتحہ ہردو ''قاف'')''ہرقل ''بادشاہ روم كى طرف سے مصر كا والى تھا_

۶۰۳

القبط ، . يا اهل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّه ولا نشرك به شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون'' _

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے _

از _ _ _ محمد بن عبد اللہ

بطرف_ _ _ قبطيوں كے مقوقس بزرگ _

حق كے پيروكاروں پر سلام ہو_

ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں _ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو قبطيوں كے گناہ تيرے ذمہ ہوں گے __اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں ''_

پيغمبر (ص) كا سفير مصر كى طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملى كہ حاكم مصر اسكندريہ ميں ہے لہذا وہ اس وقت كے ذرائع آمد ورفت كے ذريعے اسكندريہ پہنچا او رمقوقس كے محل ميں گيا، حضرت كا خط اسے ديا ، مقوقس نے خط كھول كر پڑھا كچھ دير تك سوچتا رہا، پھر كہنے لگا:''اگر واقعاً محمد(ص) خدا كا بھيجا ہوا ہے تو اس كے مخالفين اسے اس كى پيدائش كى جگہ سے باہر نكالنے ميں كيوں كامياب ہوئے او روہ مجبور ہوا كہ مدينہ ميں سكونت اختيار كرے؟ ان پر نفرين او ربد دعا كيوں نہيں كى تاكہ وہ نابود ہو جاتے؟''

پيغمبر (ص) كے قاصد نے جواباً كہا:

''حضرت عيسى عليہ السلام خدا كے رسول تھے اور آپ بھى ان كى حقانيت كى گواہى ديتے ہيں ، بنى اسرائيل نے جب ان كے قتل كى سازش كى توآپ نے ان پر نفرين اور بد دعا كيوں نہيں كى تاكہ خدا انہيں

۶۰۴

ہلاك كرديتا؟

يہ منطق سن كر مقو قس تحسين كرنے لگا اور كہنے لگا :

''احسنت انت حكيم من عند حكيم ''

''افرين ہے ،تم سمجھ دار ہو اور ايك صاحب حكمت كى طرف سے ائے ہو ''

حاطب نے پھر گفتگو شروع كى اور كہا :

''اپ سے پہلے ايك شخص (يعنى فرعون )اس ملك پر حكومت كرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں ميں اپنى خدائي كا سودا بيچتا رہا ،بالاخر اللہ نے اسے نابود كر ديا تاكہ اس كى زندگى اپ كے لئے باعث عبرت ہو ليكن اپ كوشش كريں كہ اپ كى زندگى دوسروں كے لئے نمونہ بن جائے''_

''پيغمبر (ص) نے ہميں ايك پاكيزہ دين كى طرف دعوت دى ہے ، قريش نے ان سے بہت سخت جنگ كى او ران كے مقابل صف آراء ہوئے، يہودى بھى كينہ پرورى سے ان كے مقابلے ميں آكھڑے ہوئے او راسلام سے زيادہ نزديك عيسائي ہيں _ ''

مجھے اپنى جان كى قسم جيسے حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت عيسى عليہ السلام كى نبوت كى بشارت دى تھى اس طرح حضرت عيسى عليہ السلام حضرت محمد كے مبشر تھے ، ہم آپ لوگوں نے تو ريت كے ماننے والوں كو انجيل كى دعوت دى تھى ،جوقوم پيغمبرحق كى دعوت كو سنے اسے چاہئے كہ اس كى پيروى كرے ،ميں نے محمد كى دعوت آپ كى سرزمين تك پہنچادى ہے، مناسب يہى ہے كہ آپ او رمصرى قوم يہ دعوت قبول كر لے''_

حاطب كچھ عرصہ اسكندريہ ہى ميں ٹھہرا تاكہ رسول اللہ (ص) كے خط كا جواب حاصل كرے ،چند روز گزر گئے، ايك دن مقوقس نے حاطب كو اپنے محل ميں بلايا او رخواہش كى كہ اسے اسلام كے بارے ميں كچھ مزيد بتايا جائے_

حاطب نے كہا:

''محمد (ص) ہميں خدانے يكتا ئي پرستش كى دعوت ديتے ہيں او رحكم ديتے ہيں كہ لوگ روزوشب

۶۰۵

ميں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قريبى رابطہ پيدا كريں او رنماز پڑھيں ،پيمان پورے كريں ،خون او رمردار كھانے سے اجتناب كريں ''_

علاوہ ازيں حاطب نے پيغمبر اسلام (ص) كى زندگى كى بعض خصوصيات بھى بيان كيں _

مقوقس كہنے لگا:

''يہ تو بڑى اچھى نشانياں ہيں _ ميرا خيال تھا كہ خاتم النبيين سرزمين شام سے ظہور كريں گے جو انبياء عليہم السلام كى سرزمين ہے،اب مجھ پر واضح ہوا كہ وہ سر زمين حجاز سے مبعوث ہوئے ہيں ''_

اس كے بعد اس نے اپنے كاتب كو حكم ديا كہ وہ عربى زبان ميں اس مضمون كا خط تحرير كرے:

بخدمت : محمد بن عبد اللہ _

منجانب: قبطيوں كے بزرگ مقوقس _

''آپ پر سلام ہو،ميں نے آپ كاخط پڑھا ،آپ كے مقصد سے باخبر ہوااو رآپ كى دعوت كى حقيقت كو سمجھ ليا،ميں يہ تو جانتا تھا كہ ايك پيغمبر (ص) ظہور كرے گا ليكن ميرا خيال تھا كہ وہ خطہ شام سے مبعوث ہوگا، ميں آ پ كے قاصد كا احترام كرتا ہوں ''_

پھر خط ميں ان ہديوں اور تحفوں كى طرف اشارہ كيا جواس نے آپ كى خدمت ميں بھيجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام كيا_

''آپ پر سلام ہو''

تاريخ ميں ہے كہ مقوقس نے كوئي گيارہ قسم كے ہديے پيغمبر (ص) كے لئے بھيجے ، تاريخ اسلام ميں ان كى تفصيلات موجود ہيں ،ان ميں سے ايك طبيب تھا تاكہ وہ بيما ر ہونے والے مسلمانوں كا علاج كرے، نبى اكرم (ص) نے ديگر ہديئے قبول فرمايائے ليكن طبيب كو قبول نہ كيا او رفرمايا:''ہم ايسے لوگ ہيں كہ جب تك بھوك نہ لگے كھانا نہيں كھاتے او رسير ہونے سے پہلے كھانے سے ہاتھ روك ليتے ہيں ، يہى چيز ہمارى صحت و سلامتى كے لئے كافى ہے، شايد صحت كے اس عظيم اصول كے علاوہ پيغمبر اسلام (ص) اس طبيب كى وہاں

۶۰۶

موجودگى كو درست نہ سمجھتے ہوں كيونكہ وہ ايك متعصب عيسائي تھا لہذا آپ نہيں چاہتے تھے كہ اپنى او رمسلمانوں كى جان كا معاملہ اس كے سپرد كرديں _

مقوقس نے جو سفير پيغمبر (ص) كا احترام كيا،آپ كے لئے ہديے بھيجے او رخط ميں نام محمد اپنے نام سے مقدم ركھا يہ سب اس بات كى حكايت كرتے ہيں كہ اس نے آپ كى دعوت كو باطن ميں قبول كرليا تھا يا كم از كم اسلام كى طر ف مائل ہوگيا تھا ليكن اس بناء پركہ اس كى حيثيت او روقعت كو نقصان نہ پہنچے ظاہرى طو رپراس نے اسلام كى طرف اپنى رغبت كا اظہار نہ كيا _

قيصر روم كے نام خط

بسم اللّه الرحمن الرحيم

من:محمد بن عبداللّه

الي: هرقل عظيم الرّوم

سلام على من اتبع الهدى

اما بعد:فانى ادعوك بدعايةالاسلام_

اسلم تسلم،يو تك اللّه اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم القبط،___يا اهل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّه ولا نشرك به شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّه ،فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون'' _

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے_

منجانب: محمدبن عبد اللہ _

۶۰۷

بطرف: ہرقل بادشاہ روم_

''اس پر سلام ہے جو ہدايت كى پيروى كرے_ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں _ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو اريسوں كا گناہ بھى تيرى گردن پر ہوگا_اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں ''_

قيصر كے پاس نبى اكرم (ص) كا پيغام پہنچانے كے لئے ''دحيہ كلبي'' مامور ہوا سفيرپيغمبر(ص) عازم روم ہوا_

قيصركے دارالحكومت قسطنطنيہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا كہ قيصربيت المقدس كى زيارت كے ارادے سے قسطنطنيہ چھوڑ چكا ہے، لہذا اس نے بصرى كے گور نر حادث بن ابى شمر سے رابطہ پيداكيا اور اسے اپنامقصد سفر بتايا ظاہراً پيغمبر اكرم (ص) نے بھى اجازت دے ركھى تھى كہ دحيہ وہ خط حاكم بصرى كو ديدے تاكہ وہ اسے قيصرتك پہنچادے سفير پيغمبر (ص) نے گورنر سے رابطہ كيا تو اس نے عدى بن حاتم كو بلايا اور اسے حكم ديا كہ وہ دحيہ كے ساتھ بيت المقدس كى طرف جائے اور خط قيصر تك پہنچا دے مقام حمص ميں سفير كى قيصر سے ملاقات ہوئي ليكن ملاقات سے قبل شاہى دربار كے كاركنوں نے كہا:

''تمہيں قيصر كے سامنے سجدہ كرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہارى پرواہ نہيں كرے گا ''

دحيہ ايك سمجھدار آدمى تھا كہنے لگا :

''ميں ان غير مناسب بدعتوں كوختم كرنے كے لئے اتنا سفر كر كے آيا ہوں _ ميں اس مراسلے كے بھيجنے والے كى طرف سے آيا ہوں تا كہ قيصر كو يہ پيغام دوں كہ بشر پرستى كو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد كے سواكسى كى عبادت نہيں ہونى چاہيے ، اس عقيدے كے باوجود كيسے ممكن ہے كہ ميں غير خدا كے لئے سجدہ

۶۰۸

كروں ''_

پيغمبر (ص) كے قاصد كى قوى منطق سے وہ بہت حيران ہوئے ،درباريوں ميں سے ايك نے كہا:

''تمہيں چاہئے كہ خط بادشاہ كى مخصوص ميز پر ركھ كر چلے جائو، اس ميز پر ركھے ہوئے خط كو قيصر كے علاوہ كوئي نہيں اٹھا سكتا''_

دحيہ نے اس كا شكريہ اداكيا ،خط ميز پر ركھا اورخودواپس چلا گيا،قيصر نے خط كھولا ،خط نے جو''بسم اللہ'' سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ كيا اور كہنے لگا_

''حضرت سليمان عليہ السلام كے خط كے سوا آج تك ميں نے ايسا خط نہيں ديكھا ''

اس نے اپنے مترجم كو بلايا تا كہ وہ خط پڑھے او راس كا ترجمہ كرے ،بادشاہ روم كو خيال ہوا كہ ہو سكتا ہے خط لكھنے والا وہى نبى ہو جس كاوعدہ انجيل او رتوريت ميں كيا گيا ہے، وہ اس جستجو ميں لگ گيا كہ آپ كى زندگى كى خصوصيات معلوم كرے، اس نے حكم ديا كہ شام كے پورے علاقے ميں چھان بين كى جائے،شايد محمد كے رشتہ داروں ميں سے كوئي شخص مل جائے جو ان كے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفيان او رقريش كا ايك گروہ تجارت كے لئے شام آيا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم كامشرقى حصہ تھا، قيصر كے آدميوں نے ان سے رابطہ قائم كيا او رانہيں بيت المقدس لے گئے،قيصر نے ان سے سوال كيا :

كيا تم ميں سے كوئي محمد كا نزديكى رشتہ دار ہے ؟

ابو سفيان نے كہا :

ميں اور محمد ايك ہى خاندان سے ہيں او رہم چوتھى پشت ميں ايك درسرے سے مل جاتے ہيں _

پھرقيصر نے اس سے كچھ سوالات كئے دونوں ميں يوں گفتگو ہوئي''

قيصر: اس كے بزرگوں ميں سے كوئي حكمران ہوا ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا نبوت كے دعوى سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب كرتا تھا؟

۶۰۹

ابوسفيان: ہاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے_

قيصر: كونسا طبقہ اس كا مخالف ہے اور كونسا موافق؟

ابوسفيان: اشراف اس كے مخالف ہيں ، عام او رمتوسط درجے كے لوگ اسے چاہتے ہيں _

قيصر: اس كے پيروكاروں ميں سے كوئي اس كے دين سے پھرا بھى ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا اس كے پيروكار روز بروز بڑھ رہے ہيں ؟

ابوسفيان:ہاں _

اس كے بعد قيصر نے ابوسفيان او راس كے ساتھيوں سے كہا:

''اگر يہ باتيں سچى ہيں تو پھر يقينا وہ پيغمبر موعود ہيں ، مجھے معلوم تھا كہ ايسے پيغمبر كا ظہور ہوگا ليكن مجھے يہ پتہ نہ تھا كہ وہ قريش ميں سے ہوگا، ميں تيار ہوں كہ اس كے لئے خضوع كروں او راحترام كے طور پر اس كے پائوں دھوو ں ،ميں پيش گوئي كرتا ہوں كہ اس كا دين او رحكومت سرزمين روم پر غالب آئے گي''_

پھر قيصر نے دحيہ كو بلايا او راس سے احترام سے پيش آيا، پيغمبر اكرم (ص) كے خط كا جواب لكھا او رآپ كے لئے دحيہ كے ذريعے ہديہ بھيجااورآپ كے نام اپنے خط ميں آپ سے اپنى عقيدت او رتعلق كا اظہار كيا_

يہ بات جاذب نظر ہے كہ جس وقت پيغمبرا كرم (ص) كا قاصد آنحضرت(ص) كا خط لے كر قيصر روم كے پاس پہونچا تو اس نے خصوصيت كے ساتھ آپ كے قاصد كے سامنے اظہار ايمان كيا يہاں تك كہ وہ روميوں كو اس دين توحيد و اسلام كى دعوت دينا چاہتا تھا، اس نے سوچا كہ پہلے ان كى آزمائش كى جائے، جب اس كى فوج نے محسوس كيا كہ وہ عيسائيت كو ترك كردينا چاہتا ہے تو اس نے اس كے قصر كا محاصرہ كرليا، قيصر نے ان سے فوراً كہا كہ ميں تو تمہيں آزمانا چاہتا تھا اپنى جگہ واپس چلے جائو_

۶۱۰

جنگ ذات السلاسل

ہجرت كے آٹھويں سال پيغمبراكرم (ص) كو خبر ملى كہ بارہ ہزار سوار سرزمين ''يابس''ميں جمع ہيں ، اور انہوں نے ايك دوسرے كے ساتھ يہ عہد كيا ہے كہ جب تك پيغمبراكرم (ص) او رعلى عليہ السلام كو قتل نہ كرليں او رمسلمانوں كى جماعت كو منتشر نہ كرديں آرام سے نہيں بيٹھيں گے _ پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے اصحاب كى ايك بہت بڑى جماعت كو بعض صحابہ كى سركردگى ميں ان كى جانب روانہ كيا ليكن وہ كافى گفتگو كے بعد بغير كسى نتيجہ كے واپس آئے_

آخر كار پيغمبر اكرم (ص) نے على عليہ السلام كو مہاجرين وانصار كے ايك گروہ كثير كے ساتھ ان سے جنگ كرنے كے لئے بھيجا، وہ بڑى تيزى كے ساتھ دشمن كے علاقہ كى طرف روانہ ہوئے او ررات بھر ميں سارا سفر طے كر كے صبح دم دشمن كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا، پہلے تو ان كے سامنے اسلام كو پيش كيا، جب انہوں نے قبول نہ كيا تو ابھى فضا تاريك ہى تھى كہ ان پر حملہ كرديا اور انہيں درھم برھم كر كے ركھ ديا،ان ميں سے كچھ لوگوں كو قتل كيا ، ان كى عورتوں اور بچوں كو اسير كرليا او ربكثرت مال غنيمت كے طور پر حاصل كيا_

سورہ ''والعاديات''نازل ہوئي حالانكہ ابھى سربازان اسلام مدينہ كى طرف لو ٹ كر نہيں آئے تھے ،پيغمبر خدا (ص) اس دن نماز صبح كے لئے آئے تو اس سورہ كى نماز ميں تلاوت كي،نمازكے بعد صحابہ نے عرض كيا، يہ تو ايسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تك سنا نہيں ہے_ آپ نے فرمايا: ہاں على عليہ السلام دشمنوں پر فتح ياب ہوئے ہيں اور جبرئيل نے گزشتہ رات يہ سورہ لاكر مجھے بشارت دى ہے_ كچھ دن كے بعد على عليہ السلام غنائم او رقيديوں كے ساتھ مدينہ ميں وارد ہوئے_(۱)

____________________

(۱)بعض كا نظريہ يہ ہے كہ يہ واقعہ اس سورہ كے واضح مصاديق ميں سے ايك ہے،يہ اس كا شان نزول نہيں ہے_

۶۱۱

جنگ حنين(۱)

اس جنگ كى ابتداء يوں ہوئي كہ جب ''ہوازن'' جو بہت بڑا قبيلہ تھا اسے فتح مكہ كى خبر ہوئي تو اس كے سردار مالك بن عوف نے افراد قبيلہ كو جمع كيا او ران سے كہا كہ ممكن ہے فتح مكہ كے بعد محمد ان سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو، كہنے لگے كہ مصلحت اس ميں ہے كہ اس سے قبل كہ وہ ہم سے جنگ كرے ہميں قدم آگے بڑھا نا چاہئے _

رسول اللہ (ص) كو يہ اطلاع پہونچى تو آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ سر زمين ہوازن كى طرف چلنے كو تيار ہو جائيں _

۱ ہجرى رمضان المبارك كے آخرى دن تھے يا شوال كا مہينہ تھا كہ قبيلہ ہوازن كے افراد سردار ''مالك بن عوف ''كے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتيں بھى اپنے ساتھ لے آئے تاكہ مسلمانوں سے جنگ كرتے دقت كسى كے دماغ ميں بھاگنے كا خيال نہ آئے،اسى طرح سے وہ سرزمين ''اوطاس'' ميں وارد ہوئے_

پيغمبر اسلام (ص) نے لشكر كا بڑا علم باندھ كر على عليہ السلام كے ہاتھ ميں ديا او روہ تمام افراد جو فتح مكہ كے موقع پر اسلامى فوج كے كسى دستے كے كمانڈر تھے آنحضرت (ص) كے حكم سے اسى پرچم كے نيچے حنين

____________________

(۱)ذيل آيات ۲۵ تا ۲۷ سورہ توبہ

۶۱۲

كے ميدان كى طرف روانہ ہوئے _

رسول اللہ (ص) كو اطلاع ملى كہ ''صفوان بن اميہ'' كے پاس ايك بڑى مقدار ميں زرہيں ہيں آپ نے كسى كو اس كے پاس بھيجا اور اس سے سو زرہيں عاريتاً طلب كي، صفوان نے پوچھا واقعاً عاريتاً يا غصب كے طور پر _ رسول اللہ (ص) نے فرمايا: عاريتاً ہيں اور ہم ان كے ضامن ہيں كہ صحيح و سالم واپس كريں گے _

صفوان نے زرہيں عاريتاً پيغمبر اكرم (ص) كودےديں اورخود بھى آنحضرت (ص) كے ساتھ چلا _

فوج ميں كچھ ايسے افراد تھے جنہوں نے فتح مكہ كے موقع پر اسلام قبول كيا تھا، ان كے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدين اسلام تھے جو پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ فتح مكہ كے لئے آئے تھے ، يہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتى ہے، يہ سب ميدان جنگ كى طرف چل پڑے _

دشمن كے لشكر كا مورچہ

''مالك بن عوف'' ايك مرد جرى او رہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبيلے كو حكم ديا كہ اپنى تلواروں كے نيام توڑ ڈاليں او رپہاڑ كى غاروں ميں ، دروں كے اطراف ميں او ردرختوں كے درميان لشكر اسلام كے راستے ميں كمين گاہيں بنائيں اور جب اول صبح كى تاريكى ميں مسلمان وہاں پہنچيں تو اچانك اور ايك ہى بار ان پر حملہ كرديں اور اسے فنا كرديں _

اس نے مزيد كہا :محمد كا ابھى تك جنگجو لوگوں سے سامنا نہيں ہوا كہ وہ شكست كا مزہ چكھتا _

رسول اللہ (ص) اپنے اصحاب كے ہمراہ نماز صبح پڑھ چكے تو آپ (ص) نے حكم ديا كہ سر زمين حنين كى طرف چل پڑيں ،اس موقع پر اچانك لشكر'' ہوازن'' نے ہر طرف سے مسلمانوں پرتيروں كى بوچھار كر دي، وہ دستہ جو مقدمہ لشكر ميں تھا (اور جس ميں مكہ كے نئے نئے مسلمان بھى تھے ) بھاگ كھڑا ہوا، اس كے سبب باقى ماندہ لشكر بھى پريشان ہوكر بھاگ كھڑا ہوا _

خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن كے ساتھ انہيں ان كى حالت پر چھوڑ ديا او روقتى طور پر ان كى

۶۱۳

نصرت سے ہاتھ اٹھاليا كيونكہ مسلمان اپنى كثرت تعداد پر مغرور تھے، لہذا ان ميں شكست كے آثار اشكار ہوئے، ليكن حضرت على عليہ السلام جو لشكر اسلام كے علمبردار تھے وہ مٹھى بھر افراد سميت دشمن كے مقابلے ميں ڈٹے رہے او راسى طرح جنگ جارى ركھے رہے _

اس وقت پيغمبر اكرم (ص) قلب لشكر ميں تھے، رسول اللہ كے چچا عباس بنى ہاشم كے چند افراد كے ساتھ آپ (ص) كے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، يہ كل افراد نو سے زيادہ نہ تھے دسويں ام ايمن كے فرزند ايمن تھے، مقدمہ لشكر كے سپاہى فرار كے موقع پر رسول اللہ (ص) كے پاس سے گزرے تو آنحضرت(ص) نے عباس كو جن كى آواز بلند او رزور دار تھى كو حكم ديا كہ اس ٹيلے پر جو قريب ہے چڑھ جائيں او رمسلمانوں كو پكاريں :

''يا معشر المھاجرين والانصار يا اصحاب سورةالبقرة يا اھل بيعت الشجرة الى اين تفرون ھذا رسول اللہ _ ''

اے مہاجرين وانصار اے سورہ بقرہ كے ساتھيو

اے درخت كے نيچے بيعت كرنے والوكہاں بھاگے جارہے ہو؟ رسول اللہ (ص) تو يہاں ہيں _ مسلمانوں نے جب عباس كى آواز سنى تو پلٹ آئے اور كہنے لگے:لبيك لبيك

خصوصاً لوٹ آنے والوں ميں انصار نے پيش قدمى كى او رفوج دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ كيا اور نصرت الہى سے پيش قدمى جارى ركھى يہاں تك كہ قبيلہ ہوازن وحشت زدہ ہوكر ہر طرف بكھر گيا، مسلمان ان كا تعاقب كررہے تھے، لشكر دشمن ميں سے تقريباً ايك سو افراد مارے گئے ،ان كے اموال غنيمت كے طور پر مسلمانوں كے ہاتھ لگے او ركچھ ان ميں سے قيدى بنا لئے گئے _

لكھا ہے كہ اس تاريخى واقعہ كے آخر ميں قبيلہ ہوازن كے نمائندے رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے او راسلام قبول كرليا،پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائي، يہاں تك كہ ان كے سر براہ مالك بن عوف نے بھى اسلام قبو كر ليا، آپ (ص) نے اس كا مال او رقيدى اسے واپس كرديئےو راس كے قبيلہ كے مسلمانوں كى سردارى بھى اس كے سپرد كردى _

۶۱۴

درحققت ابتداء ميں مسلمانوں كى شكست كا اہم عامل غرور و تكبر جو كثرت فوج كى وجہ سے ان ميں پيدا ہوگيا تھا، اسكے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں كا وجود تھا جن ميں سے بعض فطرى طور پر منافق تھے ، كچھ ان ميں مال غنيمت كے حصول كے لئے شامل ہوگئے تھے او ربعض بغير كسى مقصد كے ان ميں شامل ہوگئے تھے_

نہائي كاميابى كا سبب حضرت رسول اكرم (ص) ، حضرت على عليہ السلام اور بعض اصحاب كا قيام تھا، اور پہلے والوں كا عہد و پيمان اور خدا پر ايمان اور اس كى مدد پر خاص توجہ باعث بنى كہ مسلمانوں كو اس جنگ ميں كاميابى ملي_

بھاگنے والے كون تھے ؟

اس بات پر تقريباً اتفاق ہے كہ ميدان حنين ميں سے اكثريت ابتداء ميں بھاگ گئي تھي، جو باقى رہ گئے تھے ان كى تعداد ايك روايت كے مطابق دس تھى او ربعض نے تو ان كى تعداد چار بيان كى ہے بعض نے زيادہ سے زيادہ سو افراد لكھے ہيں _

بعض مشہور روايات كے مطابق چونكہ پہلے خلفاء بھى بھاگ جانے والوں ميں سے تھے لہذا بعض اہل سنت مفسرين نے كوشش كى ہے كہ اس فرار كو ايك فطرى چيز كے طور پر پيش كيا جائے _ المنار كے مو لف لكھتے ہيں : ''جب دشمن كى طرف سے مسلمانوں پر تيروں كى سخت بوچھارہوئي توجو لوگ مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ مل گئے تھے، اورجن ميں منافقين اورضعيف الايمان بھى تھے اور جو مال غنيمت كے لئے آگئے تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے اور انہوں نے ميدان ميں پشت دكھائي تو باقى لشكر بھى فطرى طور پر مضطرب او رپريشان ہوگيا وہ بھى معمول كے مطابق نہ كہ خوف و ہراس سے ،بھاگ كھڑے ہوئے اوريہ ايك فطرى بات ہے كہ اگر ايك گروہ فرار ہو جائے تو باقى بھى بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہيں ، لہذا ان كا فرار ہونا پيغمبر (ص) كى مدد ترك كرنے او رانہيں دشمن كے ہاتھ ميں چھوڑ جانے كے طور پر نہيں تھا كہ وہ خداكے غضب كے مستحق ہوں ، ہم اس بات كى تشريح نہيں كرتے او راس كا فيصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہيں ''_

۶۱۵

جنگ تبوك

''تبوك''(۱) كا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پيغمبر (ص) نے اپنى جنگوں ميں پيش قدمى كى _ ''تبوك''اصل ميں ايك محكم اور بلند قلعہ كا نام تھا _ جو حجاز او رشام كى سرحد پر واقع تھا اسى وجہ سے اس علاقے كو سر زمين تبوك كہتے تھے _

جزيرہ نمائے عرب ميں اسلام كے تيز رفتار نفوذ كى وجہ سے رسول اللہ (ص) كى شہرت اطراف كے تمام ممالك ميں گونجنے لگى باوجود يہ كہ وہ اس وقت حجازكى اہميت كے قائل نہيں تھے ليكن طلوع اسلام اور لشكر اسلام كى طاقت كہ جس نے حجاز كو ايك پرچم تلے جمع كرليا، نے انھيں اپنے مستقبل كے بارے ميں تشويش ميں ڈال ديا _

مشرقى روم كى سرحد حجاز سے ملتى تھى اس حكومت كو خيال ہوا كہ كہيں اسلام كى تيز رفتار ترقى كى وہ پہلى قربانى نہ بن جائے لہذا اس نے چاليس ہزار كى زبردست مسلح فوج جو اس وقت كى روم جيسى طاقتور حكومت كے شايان شان تھي' اكھٹى كى اور اسے حجاز كى سرحد پر لاكھڑا كيا يہ خبر مسافروں كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) كے كانوں تك پہنچى رسول اللہ (ص) نے روم اور ديگر ہمسايوں كودرس عبرت دينے كے لئے توقف كئے بغير تيارى كا حكم صادر فرماياآپ كے مناديوں نے مدينہ اور دوسرے علاقوں تك آپ(ص) كا پيغام پہنچايا تھوڑے ہى عرصہ

____________________

(۱) واقعہ جنگ تبوك سورہ توبہ آيت ۱۱۷ كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

۶۱۶

ميں تيس ہزار افراد روميوں سے جنگ كرنے كے لئے تيار ہوگئے ان ميں دس ہزار سوار اور بيس ہزار پيادہ تھے _

موسم بہت گرم تھا، غلے كے گودام خالى تھے اس سال كى فصل ابھى اٹھائي نہيں گئي تھى ان حالات ميں سفر كرنا مسلمانوں كے لئے بہت ہى مشكل تھا ليكن چونكہ خدا اور رسول كافرمان تھا لہذا ہر حالت ميں سفر كرنا تھا اور مدينہ اور تبوك كے درميان پرُ خطر طويل صحرا كو عبور كرنا تھا _

لشكر ى مشكلات

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ ''جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر ) كے نام سے مشہور ہوا _

تاريخ اسلام نشاندہى كرتى ہے كہ مسلمان كبھى بھى جنگ تبوك كے موقع كى طرح مشكل صورت حال، دبائو اور زحمت ميں مبتلا نہيں ہوئے تھے كيونكہ ايك تو سفر سخت گرمى كے عالم ميں تھا دوسرا خشك سالى نے لوگوں كو تنگ اور ملول كرركھا تھا اور تيسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے كے دن تھے اور اسى پر لوگوں كى سال بھر كى آمدنى كا انحصار تھا_

ان تمام چيزوں كے علاوہ مدينہ اور تبوك كے درميان بہت زيادہ فاصلہ تھا اور مشرقى روم كى سلطنت كا انھيں سامنا تھا جو اس وقت كى سپر پاور تھي_

مزيد برآں سوارياں اور رسد مسلمانوں كے پاس اتنا كم تھا كہ بعض اوقات دوافراد مجبور ہوتے تھے كہ ايك ہى سوارى پربارى بارى سفر كريں بعض پيدل چلنے والوں كے پاس جوتاتك نہيں تھا اور وہ مجبور تھے كہ وہ بيابان كى جلانے والى ريت پرپا برہنہ چليں آب وغذا كى كمى كا يہ عالم تھا كہ بغض اوقات خرمہ كا ايك دانہ چند آدمى يكے بعد ديگرے منہ ميں ركھ كر چوستے تھے يہاں تك كہ اس كى صرف گٹھلى رہ جاتى پانى كا ايك گھونٹ كبھى چند آدميوں كو مل كر پينا پڑتا _

۶۱۷

يہ واقعہ نوہجرى يعنى فتح مكہ سے تقريبا ايك سال بعد رونماہوا _مقابلہ چونكہ اس وقت كى ايك عالمى سوپر طاقت سے تھا نہ كہ عرب كے كسى چھوٹے بڑے گروہ سے لہذا بعض مسلمان اس جنگ ميں شركت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال ميں منافقين كے زہريلے پر وپيگنڈے اور وسوسوں كے لئے ماحول بالكل ساز گار تھا اور وہ بھى مومنين كے دلوں اور جذبات كوكمزور كرنے ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہيں كررہے تھے _

پھل اتارنے اور فصل كاٹنے كا موسم تھا جن لوگوں كى زندگى تھوڑى سى كھيتى باڑى اور كچھ جانور پالنے پر بسر ہوتى تھى يہ ان كى قسمت كے اہم دن شمار ہوتے تھے كيونكہ ان كى سال بھر كى گزر بسر انہيں چيزوں سے وابستہ تھےں _

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں مسافت كى دورى اور موسم كى گرمى بھى روكنے والے عوامل كى مزيد مدد كرتى تھى اس موقع پر آسمانى وحى لوگوں كى مدد كے لئے آپہنچى اور قرآنى آيات يكے بعد ديگر ے نازل ہوئيں اور ان منفى عوامل كے سامنے آكھڑى ہوئيں _

تشويق ، سرزنش، اور دھمكى كى زبان

قرآن جس قدر ہوسكتى ہے اتنى سختى اور شدت سے جہاد كى دعوت دتياہے _ كبھى تشويق كى زبان سے كبھى سرزنش كے لہجے ميں اوركبھى دھمكى كى زبان ميں ان سے بات كرتا ہے،اور انہيں آمادہ كرنے كے لئے ہر ممكن راستہ اختيار كرتا ہے_ پہلے كہتا ہے:'' كہ خدا كى راہ ميں ،ميدان جہاد كى طرف حركت كرو تو تم سستى كا مظاہرہ كرتے ہو اور بوجھل پن دكھاتے ہو ''_(۱)

اس كے بعد ملامت آميز لہجے ميں قرآن كہتا ہے : ''آخرت كى وسيع اور دائمى زندگى كى بجائے اس دنياوى پست اور ناپائيدار زندگى پر راضى ہوگئے ہو حالانكہ دنياوى زندگى كے فوائد اور مال ومتاع آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں كوئي حيثيت نہيں ركھتے اور بہت ہى كم ہيں ''_(۲)

____________________

(۱)سورہ توبہ آيت ۳۸

(۲)سورہ توبہ آيت ۳۸

۶۱۸

ايك عقلمند انسان ايسے گھاٹے كے سودے پر كيسے تيار ہوسكتا ہے اور كيونكہ وہ ايك نہايت گراں بہامتاع اور سرمايہ چھوڑكر ايك ناچيز اور بے وقعت متاع كى طرف جاسكتاہے _

اس كے بعد ملامت كے بجائے ايك حقيقى تہديد كا اندازاختيار كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے :'' اگر تم ميدان جنگ كى طرف حركت نہيں كرو گے تو خدا دردناك عذاب كے ذريعے تمہيں سزادے گا''_(۱)

''اور اگر تم گمان كرتے ہو كہ تمہارے كنارہ كش ہونے اور ميدان جہاد سے پشت پھيرنے سے اسلام كى پيش رفت رك جائے گى اور آئينہ الہى كى چمك ماند پڑجائے گى تو تم سخت اشتباہ ميں ہو ،كيونكہ خدا تمہارے بجائے ايسے صاحبان ايمان كو لے آئے گا جو عزم مصمم ركھتے ہوں گے اور فرمان خدا كے مطيع ہوں گے''_(۲)

وہ لوگ كہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہيں نہ صرف ان كى شخصيت بلكہ انكا ايمان، ارادہ،دليرى اور فرماں بردارى بھى تم سے مختلف ہے لہذا '' اس طرح تم خدا اور اس كے پاكيزہ دين كو كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتے'' _(۳)

تنہاوہ جنگ جس ميں حضرت على نے شركت نہ كي

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكّڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ'' جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر )كے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختيوں كو جھيلا اور ماہ شعبان كى ابتداء ميں ہجرت كے نويں سال سرزمين ''تبوك'' ميں پہنچا جب كہ رسول اللہ حضرت على كو اپنى جگہ پر مدينہ ميں چھوڑآئے تھے يہ واحد غزوہ ہے جس ميں حضرت على عليہ السلام شريك نہيں ہوئے _

رسول اللہ كايہ اقدام بہت ہى مناسب اور ضرورى تھا كيونكہ بہت احتمال تھا كہ بعض پيچھے رہنے

____________________

(۱) سورہ توبہ آيت ۳۹

(۲)سورہ توبہ آيت ۳۹

(۳)سور ہ توبہ آيت ۳۹

۶۱۹

والے مشركين يامنا فقين جو حيلوں بہانوں سے ميدان تبوك ميں شريك نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان كى فوج كى طويل غيبت سے فائدہ اٹھائيں اور مدينہ پر حملہ كرديں ، عورتوں اور بچوں كو قتل كرديں اور مدينہ كو تاراج كرديں ليكن حضرت على كا مدينہ ميں رہ جانا ان كى سازشوں كے مقابلے ميں ايك طاقتور ركاوٹ تھى _

بہرحال جب رسول اللہ تبوك ميں پہنچے تو وہاں آپ كو رومى فوج كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا عظيم سپاہ اسلام چونكہ كئي جنگوں ميں اپنى عجيب وغريب جرا ت وشجاعت كا مظاہرہ كرچكى تھي، جب ان كے آنے كى كچھ خبر روميوں كے كانوں تك پہنچى تو انھوں نے اسى كو بہتر سمجھا كہ اپنے ملك كے اندرچلے جائيں اور اس طرح سے ظاہر كريں كہ مدينہ پر حملہ كرنے كے لئے لشكر روم كى سرحدوں پر جمع ہونے كى خبر ايك بے بنياد افواہ سے زيادہ كچھ نہ تھى كيونكہ وہ ايك ايسى خطرناك جنگ شروع كرنے سے ڈرتے تھے جس كا جواز بھى ان كے پاس كوئي نہ تھا ليكن لشكر اسلام كے اس طرح سے تيز رفتارى سے ميدان تبوك ميں پہنچنے نے دشمنان اسلام كو كئي درس سكھائے، مثلاً:

۱_يہ بات ثابت ہوگئي كہ مجاہدين اسلام كا جذبہ جہاد اس قدر قوى ہے كہ وہ اس زمانے كى نہايت طاقت ور فوج سے بھى نہيں ڈرتے_

۲_ بہت سے قبائل اور اطراف تبوك كے امراء پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ كرنے كے عہدوپيمان پر دستخط كيے اس طرح مسلمان ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے _

۳_ اسلام كى لہريں سلطنت روم كى سرحدوں كے اندر تك چلى گئيں اور اس وقت كے ايك اہم واقعہ كے طور پر اس كى آواز ہر جگہ گونجى اور روميوں كے اسلام كى طرف متوجہ ہونے كے لئے راستہ ہموار ہوگيا _

۴_ يہ راستہ طے كرنے اور زحمتوں كو برداشت كرنے سے آئندہ شام كا علاقہ فتح كرنے كے لئے راہ ہموار ہوگئي اور معلوم ہوگيا كہ آخركار يہ راستہ طے كرنا ہى ہے _

يہ عظيم فوائد ايسے تھے كہ جن كے لئے لشكر كشى كى زحمت برداشت كى جاسكتى تھى _

۶۲۰