امامت و رہبری

امامت و رہبری0%

امامت و رہبری مؤلف:
زمرہ جات: امامت

امامت و رہبری

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 11178
ڈاؤنلوڈ: 3885

تبصرے:

امامت و رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11178 / ڈاؤنلوڈ: 3885
سائز سائز سائز
امامت و رہبری

امامت و رہبری

مؤلف:
اردو

تیسری بحث

مسئلہ امامت کی کلامی تحقیق:

امامت کی بحث میں علماء شیعہ کی منطق کیا ہے اور اگر دوسرے اس بارے مٰن کچھ کہتے ہیں تو کیا کہتے ہیں اسے پورے طور سے روشن و واضح کرنے کے لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس سلسلہ میں خواجہ مصیر الدین طوسی کی تحریرکردہ اصل عبارت ضروری وضاحت کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کروں ۔ یہ متن عبارت بہت ہی مختصر اور خلاصہ ہے اور ان کے عہد کے بعد شیعہ اور اہل سنت دونوں فرقوں کے علماء کے درمیان مورد ذکر ہی ہے۔

آپ نے اس کتاب کانام ضرور سنا ہوگا ۔ خواجہ کی تصنیف کردہ یہ کتاب "تجرید " کے نام سے مشہور ہے اس کاایک حصہ علم منطق پر مبنی ہے جسے "منطق تجرید " کہتے ہیں اور دوسرا حصہ علم کلام میں ہے جس میں توحید ، نبوت ، امامت ، معاد جیسے مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔ توحید کا باب زیادہ تر فلسفیانہ طرز کاہے ، اوراس باب میں خواجہ نے فلاسفہ کی روش پر بحث کی ہے ۔ علامہ حلی نے اس کتاب کے دونوں حصوں کی شرح فرمائی ہے ۔ علامہ حلی بھی، جن کے بارے میں آپ نے یقیقناً بہت کچھ سنا ہوگا ، عالم اسلام کے عظیم ترین فقہامیں شمار ہوتے ہیں ۔ انھیں نہ صرف فقہائے شیعہ میں بلند مقام حاصل ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے فقہا میں ایک عظیم درجہ پر فائز ہیں ۔ وہ منطق ، فلسفہ ، کالم اور ریاضت وغیرہ میں خواجہ نصیر الدین طوسی کے شاگرد تھے اور فقہ میں آپ کو محقق حلی صاحب کتاب " شرائع الاسلام " سے شرف تلمذ حاصل تھا ۔ جو خود بھی دنیائے شیعت میں صف اول کے فقیہ تھے ۔ علامہ اور خواجہ دنیائے علم میں نادر روزگار شمار کئے گئے ہیں ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی دنیا کے صف اول کے ریاضی دانوں میں گنے جاتے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے اخباروں میں اعلان ہوا ہے کہ چاند کے کچھ حصوں کو چند ایرانی ریاضی دانوں کے نام دیئے گئے ہیں ، مثلاً عمر خیام ابن سینا ، اور خواجہ نصرالدین ۔ اس کے وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے کرۂ ماہ کے بارے میں بعض فرضیات قائم کئے تھے ۔ علامہ بھی اپنے فن یعنی فقہ میں بلاشبہ نادر زمانہ ہیں ۔ آپ نے بے شمار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام"تذکرہ افقہا" ہے ، جو دوجلدوں پر مشتمل ہے ۔ حقیقت میں جب انسان اس کتاب کامطالعہ کرتا ہے توان کے تبحر علمی پر دنگ رہ جاتا ہے ۔

"تذکرۃ افقہا" ایک فقہی کتاب ہے ، لیکن اس میں صرف شیعہ فقہ ہی باین نہیں ہوئٰ ہے بلکہ ہر مسئلہ میں تمام علماء اہل سنت کے فتوے بھی نقل کئے گئے ہیں ۔ا ور لطف یہ ہے کہ اس میں نہ صرف اہل سنت کے چاروں امام ، ابوحنیفہ ، شافعی ، مالک اور احمد حنبل کے فتوے موجود ہیں مذہب کے ان چار اماموں میں منحصر ہونے سے پہلے کے تمام بزرگ فقہا کے فتاوے بھی اس میں نقص کئے گئے ہیں ۔ ہر مسئلہ کے تحت یہ صراحت موجود ہے کہ یہاں ابوحنیفہ نے یوں کہا ہے ، شافعی یہ کہتے ہیں اور ہم امامیہ کا قول یہ ہے ۔ اکثر کسی مسئلہ کی کاٹ یا نکتہ چینی بھی کرتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر شافعی نے ایک جگہ یہ کہا ہے ، دوسری جگہ اس کے مخالف مطالب بیان کیا ہے ۔ پہلے یہ کہا اور بعد میں اپمے قول سے عدوں کرکے دوسری بات کہی ہے ۔ آقائے شیخ محمد تقی فرماتے تھے جب تذکرہ جیسی کتاب چھاپنی ہوئی تو تمام مذاہب اہل سنت کے قابل و ماہر علماء کو بلایا گیا ۔ انھیں یہ کتاب دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ کیسا شخص ہے ، جو ہمارے اقوال و مسائل پر ہم سے بھی زیادہ حاوی ہے ۔ آپ ایسی ہی غیر معمولی استعداد کے حامل تھے ۔

ان ہی علامہ نے کتاب تجرید کی شرح لکھی ہے ۔ منچق کا حصہ "الجوہر النضید " کے نام سے مشہور ہے جو منطق کی ایک بہترین کتاب ہے ، اور علم کلام کے حصہ کی شرح کانام " کشف المراد " ہے جسے آج کل شرح تجرید کہتے ہیں ۔ منطق اور کلام دونوں میں علامہ کی شرح بہت مختصر ہے ۔ ان کے بعد اس کتاب پر برابر شرحیں اور حاشیے لکھے جاتے رہے کسی نے اس کی رد کی تو کسی نے تائید ، اور شاید دنیائے اسلام میں کوئی کتاب ایسی نہ ہوگی جو "تجرید " کلے برابر بحث کا موضوع بنی ہو ۔ یعنی اس کتاب کے متن پر جتنی شرحیں اورحاشیے لکھے گئے کسی اور کتاب پر نہیں لکھے لگے ۔ ہر زمانہ میں یا اس کی رد میں شرحیں لکھی جاتی رہیں یا تائید میں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب خواجہ نے شیعی مزا ق کے مطابق مسائل و مطالب بیان کرنا چاہا ہے تو بڑے ہی مختصر اور جامع انداز میں اجمالی طور پر اشاروں میں بات کہتے ہوئے سرسری طور پر گزر گئے ہیں ۔ آپ نے کتاب تجرید کے آخری ابواب میں امامت کے موضوع پر بحث فرمائی ہے ۔ یہ بحث چونکہ تمام علماء شیعہ کی نگاہ میں مورد قبول واقع ہوئی ہے لہٰذا اس سے سمجھتا ہے کہ امامت کے سلسلہ میں علماء شیعہ کی منطق یہ کیا ہے ۔ اس وقت جو کتاب میرے پیش نظر ہے ۔ کتاب تجرید پر ملا علی قوشجی کی شرح ہے ۔ ملا علی قوشجی اہل سنت کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے ہیں ۔ فطری بات یہہے کہ چانکہ وہ مخالف نظریہ رکھتے ہیں لہٰذا اس میں اہل سنت کے نظریات کو منعکس کرتے ہیں اورزیادہ تر خواجہ نصرالدین کی رد کرتے نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ اس کتاب میں خواجہ کے شیعہ نظریات کے ساتھ اہل سنت کے نظریات بھی بیان ہوئے ہیں ۔

امامت کی تعریف:

اس میں سب سے پہلی بات جو امامت کے سلسلہ میں باین کی گئی ہے ، وہ امامت کی تعریف ہے ۔ اس تعریف میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کہتے ہیں : ( الامامۃ ) "ریاسة عامة فی امور الدین و الدنیا " یعنی (امامت ) دینی و دنیاوی امور میں ریاست وامارت عامہ کو کہتے ہیں ۔ خواجہ نصرالدین علم کلام کی تعبیر میں فرماتے ہیں : " الامام لطف " یعنی امام لطف پروردگار ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امامت بھی نبوت کےمانند ان مسائل میں سے ہے جو بشری حدود و اختیارات سے بالاتر ہیں ، یہی وجہ ہے کہ" امام (ع) کا انتخاب " بھی انسانی استطاعت اور قوت سے باہر کی چیز ہے ۔ اسی لئے اس کا تعین خدا کی طرف سے ہے ۔ امامت بھی نبوت کی طرح ہے جسے خدا کی جانب سے وحی کے ذریعہ معین و مقرر ہونا چاہئے ۔ بس ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست خدا کی جانب سے وحی کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور اس کا تعلق بھی خدا سے براہ راست ہوتا ہے جبکہ امامت کی تعیین خدا کی طرف سے پیغمبر کے ذریعہ عمل میں آتی ہے ۔

امامت کے بارے میں شیعہ عقلی دلیل:

خواجہ نصرالدین اس مقام پر اس ایک جملہ سے زیادہ کچھ بیان نہیں کرتے ۔ لیکن علماء شیعہ اس سلسلہ میں جو وضاحت فرماتے ہیں ۔اسکی بنیاد وہی ہےجسے میں پہلے عرض کرچکا ہوں ۔ پہلے ایک تاریخ بحث پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سر دست بحث حضرت علی (ع) کی امامت میں ہے اگر یہ ثابت ہوگئی تو بقیہ ائمہ کی امامت بھی پہلے امام کی نص سے تمسک کے ذریعہ بد درجہ اولیٰ ثابت ہوجا ۴ ے گی ۔ شیعہ علماء کہتے ہیں کہ یہ بات روشن وواضح ہے کہ دین اسلام دین خاتم ہے اور یہ طے ہے کہ اس کے بعد اب کوئی دوسری شریعت آنے والی نہیں ہے ۔ اور یہ ایسا کلی اور جامع دین ہے جو انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ اس دین کی حقیقت بھی یہی ثابت کرتی ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتا ہے اور تمام مسائل میں دخیل ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں ، کیا حیات پیغمبر اکرم (ص) کی تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ انھیں ذاتی طور پر اس قدر فرصت میں ملی ہو اور مواقع فراہم ہوئے ہوں کہ انھوں نے تمام اسلام لوگوں کو تعلیم فرمادیا ہو ؟ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس تئیس سالہ زندگی میں پیغمبر کو اس قدر فرصت اور موقع حاصل نہ ہوسکا۔ یقیناً پیغمبر اسلام (ص) نے خود کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور بہت سی باتیں تعلیم فرمادیں ۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی مکی و مدنی زندگی اوراس میں آپ کی مصروفیات ، مشکلات اور دشواریوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات ماننی پڑے گی کہ بلاشبہ یہ مختصر سی مدت پورے احکام اسلام کو کامل طور پر تمام لوگوں میں بیان کرنے کے لئے ناکافی تھی ۔ ساتھ ہی اس کابھی امکان نہیں ہے کہ یہ دین جو خاتم ہے ناقص بیان کیا گیا ہو ۔ چنانچہ ایسے کسی ایک یا چند افراد کا اسحاب پیغمبر میں ہونا ضروری ہے، جنھوں نے کامل و تام اسلام پیغمبر سے حاصل کر لیا ہو اورجو پیغمبر اسلام سے پورے آراستہ و پیراستہ شاگرد رہے ہوں تاکہ آپ کے رخصت ہونے کے بعد اسلام کے بیان اوراس کی وضاحت میں آپ ہی کے مثل و نظیر ہوں ۔ بس فرق یہ ہو کہ پیغمبر وحی کے ذریعہ دین بیان فرماتے تھے اور یہ افراد پیغمبر سے علوم حاصل کرکے بیان کرنے والے ہوں اس کے بعد علماء فرماتے ہیں ، چونکہ آپ (اہل سنت نے پیغمبر کے بعد کسی ایسے شخص کا سراغ حاصل نہیں کیا جب یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ وہ مسائل جن کا حکم جاننا ضرورہ ہو لیکن اس سلسلہ میں کوئی حدیث پیغمبر( ص) سے ہم تک نہ پہنچی ہو تو کیا کریں ؟ کہنے لگے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ایک موضوع کا دوسرے موضوع سے مقایسہ کرکے تلنّی اور گمانی مشابہت کی بنیاد پر ایسے مسائل کا حکم استنباط کیا جائے یہ بات علماء شیعہ کی کہی ہوئی نہیں ہے بلکہ حضرت علی (ع) کے عہد سے یہ صورت شروع ہوچکی تھی نہج البلاغہ اور دیگر ائمہ کرام کے اقوال میں بھی اس روش پر صاف اعتراف موجود ہیں کہ یہ کیا باطل خیال ہے ؟ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : "ام انزل الله دینا ناقصاً "؟کیا خداوند عالم نے ناقص دین نازل فرمایا ہے جس میں انسان کی اپنی ناقص رائے کی بھی ضرورت ہے؟ دیگر تمام ائمہ علیہم السلام نے بھی اس مسئلہ پر بڑا زور صرف کیا ہے کہ دین میں کسی طرح کا نقص ہے ہی نہیں کہ ہم سوچیں کہ بعض مسائل میں نقص ہایا جاتا ہے ، اور چونکہ بعض دینی مسائل میں نقص پایا جاتا ہے لہٰذا ہم اپنی رائے اور گمان کے ذریعہ ان کا حکم معلوم کریں ۔ اصول کافی میں (با ب الردّ الی الکتاب والسنة وانه لیس شئی من الحلال والحرام الاوقد جاء فیه کتاب اوسنة ) کے نام سے مستقل ایک باب موجود ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ کتاب و سنت میں کم ازکم اس کی صورت میں موجود نہ ہو ۔ تمام کلی مسائل ذکر ہوچکے ہیں صرف ان کا مصداق تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ شیعی نقطہ نظر سے اجتہاد اسی کو کہتے ہیں ۔ یعنی اسلام کے تمام کلی احکام موجود ہیں ۔ مجتہد کا کام یہ ہء کہ ان کلیات کو جزئیات پر منطبق کرتاچلاجائے لیکن قیاس یہ ہے کہ کلیات بھی کافی نہیں ہیں ، مسائل سے مشابہت رکھنے والے احکام کو دیکھ کر گمان اور قیاس کے ذریعہ فقط اندازہ کی بنیاد پر مسئلہ کاحکم حاصل کیا جائے ۔

چنانچہ(علماء شیعہ )کہتے ہیں کہ ہم دونوں کو اس کا اعتراف ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی تئیس سالہ زندگی میں اسلام کے تمام احکام کلی طور پر سہی لوگوں سے بیان نہیں کرسکتے ۔ البتہ آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) یوں ہی سب کچھ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے اور ہم کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ جس دلیل کے تحت پیغمبر (ص) لوگوں پر مبعوث ہوئے تھے اسی دلیل سے پیغمبر (ص) کی جانب سے بھی کچھ افراد معین ہوئے جو قدسی صفات کے حامل تھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کے تمام حقائق ان میں کی پہلی فرد یعنی حضرت علی(ع) کو تعلیم کر دئے اور یہافراد بھی ہر سوال کا جواب دینے کی پورے طور سے صلاحیت و آمادگی رکھتے تھے ۔ حضرت علی (ع) ہمیشہ فرمایا کرتھ تھے ، مجھ سے اسلام کے بارے میں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو تا کہ میں اسے باین کردوں ۔

امام یعنی احکام دین کا ماہر:

اب ہم اس مفہوم کو آج کی زبان میں بیان کرتے ہیں ۔( علماء شیعی کہتے ہیں کہ یہ جو آپ ان خصوصیات کے حامل امام کے وجود کے منکر ہیں تو در حقیقت آ اسلام کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں ۔ ایک معمولی مشین بھی جب کہیں بھیجی جاتی ہے تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کاماہر بھی اسکے ہمراہ بھیجا جائے مثال کے طور پر اگر امریکہ نارویں اپنے فینٹم یا بگ جیسے جنگی جہاد کسی ایسے ملک کو دیتے ہیں جہاں کے لوگ اس کی مشیزی سے واقف نہیں ہوتے تو لوگوں کو اس کی باریکیوں سے آگاہ کرنے کے لئے ماہرین بھی ان کے ہمراہ روانہ کرتے ہیں ۔ ہاں کوئی عام اور سادہ سی چیز ہوتو اس کی ضرورت نہیں پڑتی مثلاًاگر کوئی ملک کسی کو کپڑا فرخت کرے تو اس کے لئے ماہرین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اب آپ کیا خیال کرتے ہیں ؟ کیا وہ ایک کپڑے کی مانند سادہ اور معمولی ہے کہ جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے تو اس کے ہمراہ کسی ماہر شخص کی ضرورت نہیں پڑتی ؟ یا اسے ایک پیچیدہ مشین کی طرح سمجھتے ہیں کہ جب وہ کسی دورسرے ملک میں بر آمد ہوتی ہے ، اس کے ہمراہ اس کے ماہرین کا بھیجا جانا بھی ضرورت ہوتا ہے تاکہ وہ ایک مدت تک وہاں کے لوگوں کو اس کی باریکیوں سے آگاہ کرسکیں ؟

امام یعنی امر دین کا ماہر جان کار ، ایسا حقیقی ماہر جو کسی گمان یا شبہ میں نہہ پڑتا ہو اور نہ اس سے کسی خطا کا امکان ہو ۔ پیغمبر اسلام (ص) انسانوں کے لئے اسلام لے کر آئے ہیں ۔ اب ضروری یہ ہے کہ ازکم ایک مدت تک خداوند عالم کی طرف سے دین کے ماہر افراد لوگوں کے درمیان موجود رہیں تاکہ لوگوں کو اچھی طرح سے اسلام بتا اور سمجھا سکیں ۔ ایسے شخص کو پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کے لئے معین فرمایا ہے ۔ علماء شیعہ نے اس مطلب کو "لطف " سے تعبیر کای ہے ۔ یعنی یہ تعیین ، لطف پروردگار ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ اقدام انسان کی ہدایت کے لئے مفید ہے۔ کیونکہ پیغمبر کے بعد خدا کی جانب سے انسان کی راہ بند ہے ۔ اب لطف الہٰی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی جانب سے عنایت انسان کے شامل حال ہو ، ویسے ہی جس طرح نبوت کے سلسلہ میں اس کی عنایت کو لطف کہتے ہیں ، یہ بات اصول شیعہ میں سے ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے جسے دوسرے الفاظ میں امامت کے موضوع پر شیعوں کی عقلی دلیل بھی کہا جاسکتا ہے ۔

عصمت کا مسئلہ:

یہاں عصمت کامسئلہ پیش آتا ہے ۔ جب شیعہ امام(۱۱) کو شریعت کے محافظ و نگہبان اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے سلسلہ میں ایک مرجع و منبع تسلیم کرتے ہیں ، تو جس طرح وہ پیغمبر کے لئے عصمت کے قائل ہیں یوں ہی امام کو بھی معصوم جانتے ہیں ۔ پیغمبر کی عصمت کے سلسلہ میں کوئی شخص شک وشبہ نہیں کرتا اور یہ ایک واضح سی بات ہے ۔اگر ہمارے لئے یہ بات یقینی ہوجائے کہ یہ پیغمر کا قول ہے تو ہم اس کی صحت میں شک نہیں کرتے ، اور صاف کہ دیتے ہیں کہ یہ ارشاد پیغمبر (ص) ہے تو درست اور حق ہے ۔ ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ یہاں پیغمبر(ص) نے اشتباہ یا غلطی کی ہے ۔ جس شخص کو خدا وند عالم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہو جبکہ لوگ الٰہی ہدایت کے محتاج ہوں ، وہ شخص ہر گز ایسا انسان نہیں ہو سکتا جو خود خطا کار یا گناہ گار ہوں ۔ خطا دوطرح کی ہوتی ہے : ایک یہ کہ عمداً اور جان بوجھ کر خطا کی جائے ۔ مثال کے طور پر خدا وند عالم پیغمبر (ص) کو حکم دے کہ فلاں پیغام پہنچا دو اور پیغمبر یہ دیکھے کہ اس کی اپنی مصلحت یا منفعت کا" تقاضا" کچھ اور ہے ۔ اور اس بات کو دوسرے انداز سے لوگوں سے بیان کرے ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات نبوت کے سراسر خلاف ہے ۔ اگرہم امامت کی تعریف یوں کریں کہ امامت دین کے بیان کرنے میں نبوّت کی متمّم ہے ، یعنی اس دلیل سے اس کا وجود لازم ہے کہ احکام دین کے بیان کرنے کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کا معصوم اور گناہوں سے بری ہونا ضروری ہے اسی دلیل سے امام کو بھی معصوم ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی کہے امام کو معصوم ہونا لازم نہیں ہے ، اگر وہ کوئی غلطی یا اشتباہ کرے گا تو کوئی دوسرا اسے آگاہ کردے گا ۔ تو ہم یہ کہیں گے کہ پھر ہم اسی دوسرے شخص کی طرف رجوع کریں گے ۔ اور اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو آخر کار کوئی نہ کوئی شخص ایسا ہوگا ہی جو ( معصوم ہونے کے اعتبار سے ) شریعت کا حقیقی محافط ہوگا ۔ اس کے علاوہ ( بقول شخصے ) اگر امام خطا کارو گنہگار ہوتو دوسروں کا فریضہ ہے کہ اسے راہ راست پر لائیں ۔ جبکہ دوسروں کا فیضہ یہ ہے کہ امام کے مطیع و مرمانبردار رہیں ۔ یہ دونوں باتیں آپس میں میل نہیں کھاتیں۔

تنصیص و تعیین کا مسئلہ:

(علماء شیعہ )مسئلہ عصمت کے ذریعہ تنصیص و تعیین کے مسئلہ کو ثابت کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس قضیہ کی کلامی صورت یہ ہے کہ اس سلسلہ کو خداسے شروع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امامت خدا کی جانب سے بندوں پر لطف ہے ۔ اور چونکہ لطف ہے لہٰذا اس کاوجود بھی لازمی و ضروری ہے ۔ اور یہ لطف چونکہ بغیر عصمت کے ممکن نہیں ہے لہٰذا امام کو معصوم ہونا چاہئے اوراسی دلیل کے تحت منصوص بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ یہ امر ( عصمت ) ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے عام انسان تشخیص دے سکیں ۔ بالکل یوں ہی جیسے پیغمبر کی تشخیص عوام یا بندے نہیں کرسکتے بلکہ یہ خدا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کو پیغمبری کے لئے معین کرتا ہے اور اسے دلا ئل و آثار اور معجزات کے ذریعہ پہچنواتا ہے ۔ امام کی تعیین بھی انسانوں کےہاتھ میں نہیں ہے ، وہ بھی خدا کی جانب سے معین ہونا چاہئے ۔ بس یہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پیغمبر(ص) کے تعارف کی منزل میں کوئی دوسراشخص دخیل نہیں ، لہٰذا معجزات کے ذریعہ اس کاتعارف کرایا جانا چاہئے ۔ لیکن امام ، پیغمبر کے ذریعہ پہچنوایا جاتا ہے ۔ یہیں سے (علماء شیعہ ) تنصیص کے مرحلہ میں قدم رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذکورہ معنی کے تحت امامت نص کے ذریعہ پیغمبر (ص) کی جانب سے معین ہونی چاہئے نہ کہ عوام کی طرف سے منتخب ۔ بنا بر ایں لطف کے مسئلہ سے مسئلۂ عصمت تک اور مسئلہ عصمت سے تنصیص کے مسئلہ تک پہنچتے ہیں ۔ یہاں تک پہنچتے ہیں تو اب چھوتا زینہ بھی طے کریں اور وہ یہ کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس کا علی(ع) کی ذات سے کیا تعلق ہے ؟ یہاں ( خواجہ نصرالدین طوسی ) فرماتے ہیں : " وھما مختصان بعلّی " یعنی یہ دونوں باتیں ( معصوم اور منصوص ہونا ) علی علیہ السلام سے مخصوص ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کسی ایک شخص نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے کہ "علی (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا منصوص نہیں ہے " یعنی بحث یہ نہیں ہے کہ دوسرے کہتے ہوں کہ پیغمبر (ص) نے کسی اور کو معین فرمایا ہے اور ہم کہیں کہ پیغمبر (ص) نے علی(ع) کو معین فرمایا ہے ۔ بلکہ بحث یہ ہے کہ آیا پیغمبر )ص) نے کسی کو معین بھی فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر معین فرمایا ہے تواس صورت میں علی (ع) کے علاوہ کوئی اور شخص سامنے نہیں آتا۔ یا کسی کو سرے سے معین ہی نہیں فرمایا ؟ اس صورت میں ہم کہیں گے کہ نص وتنصیص لازم و واجب ہے اور پیغمبر (ص) نے یہ فریضہ انجام دیتے ہوئے ایک شخص کو لوگوں پر معین فرمایا ہے اور وہ شخص علی (ع) کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ دوسروں نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے بلکہ اس سے انکار ہی کرتے رہے ہیں ۔ حتی خلفاء بھی ( اپنے سلسلہ میں ) تنصیص و تعیین کا ادعا نہیں کرتے پھر دوسروں کا کیا ذکر ہے ۔ حد یہ ہے کہ خلفاء کے پیروبھی ان کی تنصیص و تعیین کے مدعی نہیں ہیں ۔ چنانچہ نص کے سلسلہ میں علی (ع) کے علاوہ کسی اور کی بحث ہی نہیں ہے ۔

عصمت کے سلسلہ میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے ۔ خلفاء اپنی عصمت کا نہ صرف ادعا نہیں کرتے تھے بلکہ صاف لفظوں میں اپنے اشتباہات اور غلطیوں کا اعتراف بھی کرلیتے تھے اور خود اہل سنت بھی ان کی عصمت کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم عرض کرچکے ہیں مسئلہ امامت ان کی نطر میں حکومت کا ہم معنی ہے۔ اور حکومت کے مسئلہ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ حاکم اشتباہ یا گناہ نہ کرے ۔ بلکہ ان ہی کے کہنے کے مطابق یہ افراد اشتباہ بھی کرتے تھے اور گناہ کے مرتکب بھی ہوتے تھے لیکن ایک عادل انسان کی حدیں جو پیش نمازی کی لیاقت رکھتا ہے اہل سنت ان کے لئے اس سے زیادہ مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ لہٰذا اس جملہ کی عام طور سے اہل سنت نے روایت کی ہے اور " ملا قوشجی " بھی اسے قبول کرتے ہیں کہ ابوبکر کہا کرتے تھے : ان لی شیطاناًیعترینی " ایک شیطان اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہے اور مجھے بہکا دیتا ہے ۔ لوگو : اگر مجھے غلط راہ پر چلتے ہوئے دیکھو تو مجھے راہ راست پر لاکر کھڑا کردو ۔ گویا آپ خود اپنے اشتباہ و گناہ کا اعتراف کیا کرتے تھے ۔ عمر نے بہت سی جگہوں پر( اور بعض محققین کے مطابق ستر مقامات پر بہر حال شیعہ ، سنی دونوں اس پر متفق ہیں کہ بہت سی جگہوں پر) فرمایا : "لولا علی لهلک عمر " اگر علی (ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ کوئی حکم دیتے تھے بعد میں حضرت علی(ع) آکر انھیں کی غلطی سے آگاہ کرتے تھے اور وہ اسے مان لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ نہ خود خلفاء اپنی عصمت کے دعویدار ہیں اور نہ دوسرے ان کی عصمت کے مدعی ہیں ۔

اگر مسئلہ امامت کو اسی اعلیٰ سطح یعنی لطف، عصمت اور تنصیص کے معیار پر دیکھا جائے تو سوائے علی(ع) کوئی اور اس کا دعویدار نظر ہی نہیں آتا ۔ یہاں تک تو مسئلہ امامت کی کلامی بحث تھی یعنی جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں بات اوپر سے شروع ہعتی ہے اور وہ یہ کہ جس دلیل سے نبوت لازم اور لطف پروردگار ہے یوں ہی امامت بھی لازم اور لطف خداہے تا آخر جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں اگر چہ بات یہیں پر کامل ہوجاتی ہے پھر بھی ہم ذرا اور آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا عملی طور پر بھی ایساہوا ہے اور پیغمبر (ص) نے علی(ع) کو امام منصوص فرمایا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ یہاں سے نصوص کی بحث شروع ہوتی ہے ۔ یہاں میں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ہم میں بعض کہتے ہیں کہ آخر ہمیں کلامی روش اپنانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس بلندی سے مسئلہ شروع کریں ؟ ہم نیچے ہی سے کیوں نہیں چلتے جہاں سے یہ مسئلہ وجود میں آیا ہے ۔ متکلمین اوپر سے چلتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں لیکن اگر ہم اس مشرب کی بنیاد پر گفتگو کریں تو بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ امامت خدا کا لطف ہے یو نہیں ، اور چونکہ لطف ہے اس لئے امام کو معصوم ہونا چاہئے اور جب معصوم ہے تو منصوص بھی ہونا چاہئے ؟ یہ " چاہئے چاہئے " خدا کے فرائض مشخص کرنے کے مترادف ہے ۔ ہم خدا کی ذمہ داریاں معین کرنا نہین چاہتے ، بلکہ ہمیں تو سیدھے سیدھے یہ دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو منصوص فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر فرمایا ہے تو یہی ہمارے لئے کافی ہے ۔ اس کے لطف ہونے اور عصمت و تنصیص کو عقلاً ثابت کرنے کے بغیر بھی مسئلہ حل ہے ۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو معین بھی کیا ہے یا نہیں ؟ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ شیعہ اس سلسلہ میں کیا استدلال پیش کرتے ہیں ؟ ان دلائل کو ہم سر بستہ ذکر کرنے پر مجبور ہیں ۔ کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شیعوں کو اہل سنت آنحضرت (ص) کی جانب سے نص کی صورت میں یا تو قبول نہیں کرتے ( البتہ صاف انکار بھی نہیں کرتے بلکہ کہ دیتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے متواتر نہیں ہے ) یا پھر ان کے معانی و مفاہیم کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے وہ معنی نہیں جو آپ مراد لیتے ہیں ۔

رسول اکرم (ص) کی جانب سے علی(ع) کی امامت پر نصوص کی تحقیق

پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : " سلموا علیّ بامرۃ المومنین " علی امیر المومنین کی حیثیت سے سلام کرو۔ یہ جملہ واقعہ غدیر سے متعلق ہے ۔ البتہ حدیث غدیر کے اس جملہ کو علاحدہ ذکر کرتے ہیں ۔ اہل سنت اس جملہ کو متواتر حدیث کی شکل میں نہیں مانتے ۔ بعد کے علماء شیعہ نے جو کام کئے ہیں ان میں یہی ثابت کیا ہے کہ اس طرح کی حدیثیں متواتر ہیں تجرید میں مذکورہ عبارت سے زیادہ کچھ اور ذکر نہیں ہوا ہے اوریہ حدیث ارسال مسلّم قراردی گئی ہے ۔ شارح ( ملا علی قوشجی) بھی کہتے ہیں کہ ہم اسے قبول نہیں کرتے کہ یہ حدیث متواتر ہوگی ، بلکہ یہ خبر واحد ہے ، بعض نے اسے نقل کیا ہے ، سب نے نقل بھی نہیں کیا ہے ۔ " عبقا ت الانوار، اور الغدیر" جیسی کتابوں مین ان حدیثوں کو متواتر ثبت کیا گیا ہے ۔ ان دونوں کتابوں میں خصوصیت سے الغدیر میں حدیث غدیر کے ناقلین طبقہ بہ طبقہ پہلی صدی سے چودہ صدی تک ذکر کئے گئے ہیں ۔ ابتدا میں ساٹھ سے کچھ زیادہ نام اصحاب پیغمبر (ص) کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ( یہ سب کے سب اہل سنت کی کتابوں سے مندرج ہیں ) اس کے بعد تابعین کا طبقہ ہے جنھوں نے اصحاب سے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ یہ لوگ تقریباً پہلی صدی سے مربوط ہیں ۔ بعد کی صدیوں میں بھی طبقہ بہ طبقہ افراد کا ذکر ہے ۔" الغدیر " میں خاص طور سےجو کام انجام دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے ادبی پہلو سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ بہت اہم کام ہے ۔" عبقا ت الانوار " اور اس طرح کی دوسری کتابوں میں زیادہ تر اسپر زور دیاگیا ہے کہ مختلف صدیوں میں کن کن لوگوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ لیکن " الغدیر" میں واقعۂ غدیر کے ادبی پہلو کو بھی اجاگر کرکے اس سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے کیونکہ ہر زمانہ میں جو خاص بات لوگوں میں مشہور ہوتی ہے شعراء اپنے اشعار میں اس کی عکاسی ضرور کرتے ہیں ۔ شعر ان ہی چیزوں کو اپنے اشعار میں منعکس کرتے ہیں جو ان کے زمانہ میں پائی جاتی ہیں ۔ خود صاحب " الغدیر" کہتے ہیں کہ اگر اہل سنت کے مطابق غدیر کا مسئلہ چوتھی صدی ہجری کا مسئلہ ہوتا تو پہلی ، دوسری اور تیسری صدی ہجری میں شعرانے اس موضوع پر اس قدر شعر نہ کہے ہوتے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صدی میں مسئلہ غدیر اس عہد کے ادبیات کا جزو بنا ہوا ہے ۔ بنا بر ایں ہم اس حدیث سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں ۔ اور یہ تاریخی اعتبار سے واقعہ کے اثبات کی بہترین روش ہے ۔ ہم اکثر و بیشتر کسی تاریخی واقعہ یا موضوع کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شعراء و ادباء کی طرف رجوع کرتے ہیں اورجب دیکھتے ہیں کہ ہر صدی کے شعراء و ادبانے اس موضوع کو اپنے ادبیات میں منعکس کیا ہے تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہ فکر ان لوگوں کے زمانہ میں بھی موجود تھی ۔ صاحب "عبقات " نے بھی اکثر ایک حدیث پر پوری ایک کتاب لکھ ڈالی ہے اوراس میں راویوں کے ذکر کے ساتھ ان کی چھان بین کی ہے کہ یہ راوی معتنر ہے یا غیر معتبر ، فلاں شخص نے یہ بات کہی ہے ، صحیح ہے گویا شجروں سے بھرا ہوا ایک توانا درخت کھڑا کردیا ہے جسے دیک کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس شخص نے کتنی تحقیق کی ہے ۔

ایک اور جملہ جو پیغمبر سے ہی نقل کیا گیا ہے ۔ اس میں آنحضرت (ص) نے علی(ع) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ،"انت الخلیفۃ بعدی " تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو ۔ ان دو جملوں کے علاوہ بھی اس ضمن میں اوربہت سے جملے ہیں ۔

"سیرت ابن ہشام " ایک کتاب ہے جو دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی ہے ۔خود ابن ہشام تو بظاہر تیسری صدی ہجری کے ہیں لیکن اصل سیرت ابن اسحاق کی ہے جو دوسری صدی کے اوائل میں موجود تھے ۔ ابن ہشام نے ان ہی کی کتاب کی تلخیص و تدوین کی ہے ۔ یہ وہ کتاب ہے جس پر اہل سنت بھر پور اعتماد کرتے ہیں۔ اس میں دو واقعےنقل ہیں جن کو (تجرید ) میں تو نقل نہیں کیا گیا ہے لیکن چونکہ موضوع وہی ہےلہٰذا میں انھیں نقل کئے دیتا ہوں ۔

دعوت ذوالعشیرہ:

واقعہ یہ ہے کہ اوائل بعثت میں پیغمبر اکرم (ص) پر آیت نازل ہوئی : "انذر عشیرتک الاقربین(۱۲) اے رسول(ص) اپنے خاندان والوں کو ڈرایئے (دعوت اسلام دیجئے ) پیغمبر اسلام (ص) نے ابھی اس حیثیت سے عمومی تبلیغ و دعوت شروع نہیں کی تھی ۔ سب جانتے ہیں کہ اس وقت علی (ع) کافی کم سن تھے اور پیغمبر (ص) کے گھر میں ہی رہتے تھے ( علی (ع) بچپن سے ہی پیغمبر کے گھر میں ان کے زیر سایہ پروان چڑھ رہے تھے جس کا ایک الگ واقعہ ہے ) چنانچہ رسول اکرم (ص) نے علی(ع) سے فرمایا ۔ کچھ کھانے کا انتظام کرو اور بنی ہاشم و بنی عبدا لمطلب کو دعوت دیدو ۔ علی (ع) نے گوشت سے غذا درست کی اور کچھ دودھ کا بھی انتظام کیا جسے کھانے کے بعد لوگوں نے پیا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اسلام کی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا رسول ہوں اور خدا کی جانب سے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ مجھے مامور کیا گیاہے کہ پہلے تم لوگوں کو دعوت حق دوں ، اگر تم نے میری بات مانی تو دنیا و آخرت کی سعادت تمہارا نصیب ہوگی ۔ ابو لہب ، جو پیغمبر (ص) چچا تھا ، اس نے جب یہ جملہ سنا آگ بگولہ ہوگیا اور بولا ، تم نے ہمیں اسی لئے بلایا ہے کہ ہم سے یہ فضول باتیں کہو؟ بہر حال اس نے ہنگامہ بر پاکرکے جلسہ کو درہم برہم کردیا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کو دوسری مرتبہ پھر دعوت کا انتظام کرنے اور لوگوں کو بلانے کا حکم دیا ۔ خود امیرالمومنین (ع) جو اس واقعہ کے راوی بھی ہیں ،فرماتے ہیں ، یہ لوگ تقریباً چالیس افراد تھے ۔ دوسری مرتبہ پیغمبر(ص) نے ان لوگوں سے فرمایا ، تم میںسے جو شخص سب سے پہلے میری دعوت قبول کرے گا ۔ میرے بعد میرا وصی ، وزیر اور جانشین ہوگا ۔ علی(ع) کے سوا کسی اور نے پیغمبر (ص) کی بات کا مثبت جواب نہ دیا اورجتنی مرتبہ پیغمبر نے اعلان کیا اتنی مرتبہ علی(ع) اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے ۔ آخر پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میرے بعد تم ہی میرے وصی ، وزیر اورجانشین ہوگے۔

ایک سردار قبیلہ کی پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات:

دوسرا واقعہ کہ یہ بھی سیرت ابن ہشام میں ہے ، مذکور واقعہ سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ وہ زمانہ جب پیغمبر (ص) ابھی مکہ میں تھے اور قریش آپ کی تبلیغات میں اڑ چنیں ڈالتے تھے ۔ حالات بہت سخت اور دشوار تھے ۔ پھر بھی یہ لوگ محترم(۱۳) مہینوں میں پیغمبر (ص) کو پریشان نہیں کرتے تھے یاکم ازکم زیادہ اذیتیں نہیں دیتے تھے ۔ یعنی جسمانی اذیتیں نہیں دیتے تھے لیکن تبلیغات میں رکاوٹیں ضرور پیدا کرتے تھے ۔ رسول اکرم (ص) ہمیشہ ان موقعوں سے فائدہ اٹھاتے اورجب لوگ رعفات کے بازار عکاظ میں جمع ہوجاتے( اس وقت بھی حج کئے جاتے تھے لیکن اس کا مخصوص انداز ہواکرتا تھا) تو وہاں پہنچ کر مختلف قبائل کے درمیان گھوم گھوم کر لوگوں کو دعوت حق دیاکرتے تھے ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس ہنگامہ میں ابو لہب سایہ کی طرح پیغمبرکے پیچھے کگا رہتا تھا اور جو کچھ پیغمبر (ص) فرماتے تھے وہ جواب میں لوگوں سے کہا کرتا تھا یہ ( معاذاللہ ) جھوٹ بول رہے ہیں ، ان کی باتوں میں نہ آنا۔ ایک قبیلہ کا سردار جو بہت ذہین اور چالاک تھا پیغمبر (ص) سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اپنے قبیلہ والوں سے کہنے لگا ، اگر یہ شخص ہم میں سے ہوتا تو" لاکلت بہ العرب " یعنی میں اس شخص میں وہ استعداد دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ ہم میں سے ہوتا تو" میں اس کے ذریعہ پورے عرب کو کھاجاتا ۔" چنانچہ اس نے پیغمبر اکرم (ص) سے کہا کہ میں اورمیری قوم آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں ( بلا شبہ ان کا ایمان حقیقی ایمان نہ تھا ) لیکن ایک شرط ہے : آپ بھی ہم سے یہ وعدہ کیجئے کہ اپنے بعد کے لئے مجھے یا ہم میں سے کسی شخص کو اپنا نائب و وصی معین کریں گے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا میرے بعد کون میرا جانشین ہوگا یہ مجھ سے مربوط نہیں ہے ۔ اس کا تعلّق خدا سے ہے ( یعنی وہ جسے چاہےگا میرا جانشین مقرر کرے گا ) یہ وہ بات ہے جو اہل سنت کی تاریخی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے ۔

حدیث غدیر اوراس کا متواتر ہونا:

ایک اور دلیل جسے شیعوں نے ذکر کیا ہے حدیث غدیر ہے ۔ (خواجہ نصیرالدین ) فرماتے ہیں : " ولحدیث الغدیر المتواتر" حدیث گدیر ، جو متواتر ہے ۔"متواتر" علم کی ایک اصطلاح ہے کہتے ہیں کہ خبرواحد اور خبر متواتر ۔ خبر واحد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کاناقل کوئی ایک شخص ہو بلکہ اس سے مراد ایسی خبر یا حدیث ہے جس کا نقل کیا جانا یقین کیا جانا یقین کی حد کو نہ پہنچا ہو یعنی اس کے سننے سے یقین نہ پیدا ہوتا ہو ۔ چاہے اس کا ناقل ایک ہو یا دس ہوں ۔ مثال کے طور پر ایک شخص آپ سے بیان کرتا ہے کہ میں نے فلاں خبر ریڈیو سے سنی ہے ۔ آپ کو گمان تو ہوجاتا ہے یہ بات صحیح ہوگی ۔ لیکن ابھی آپ منتظر ہیں کہ دیکھیں دوسرے کیا کہتے ہیں ۔ وہی بات آپ دوسرے سے سنتے ہیں ۔ آپ کا گمان اور قوی ہوجاتا ہے ۔ بعد میں آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ وہی بات کہہ رہے ہیں اب آپ یہ احتمال نہیں دے سکتے کہ یہ سب کے سب جھوٹ بولنے کا خیال ہی درست نہ ہو ، کیونکہ ایک حد تک تو ممکن ہے چند افراد کسی بات پر اتفاق کرلیں۔ لیکن اگر اس حد سے زیادہ ہوں تو با ہم اتفاق کرلینے کا امکان ختم ہوجاتا ہے ۔ تواتر کے معنی یہ ہے کہ ( نقل خبر کی تعداد) آپس میں اتفاق کرلینے کی امکانی حد سے کہیں زیادہ ہو ۔ مثلاً اسی مذکورہ مثال میں یہ تو ممکن ہے کہ دس آدمی باہم تفاہم کرکے کہیں کہ ہم نے فلاں خبر ریڈیو سے سنی ہے ۔ یہ دو سو افراد تک بھی ممکن ہے ۔ لیکن اکثر قضیہ اس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ اس میں اتفاق و باہمی تفاہم کا احتمال یا امکان ہی نہیں رہ جاتا ۔ مثلا ً آپ کے شہر کے جنوب میں چلے جائٰیں اور وہاں آپ سے کوئی کہے کہ ریڈیو نے فلاں خبر دی ہے ، پھر آپ مشرق میں جائیں وہاں بھی کچھ افراد اسی خبر کو نقل کرتے ہوئے نظر آئیں ۔ یوں ہی آپ مغرب و شمال میں جائیں اور وہاں بھی وہی بات سنیں اب آپ یہ احتمال نہیں دے سکتے کہ سب نے آپس میں تفاہم کرکے ایک بات کہی ہے اسی کو تواتر کہتے ہیں ۔ شیعہ اس کے دعویدار ہیں کہ حدیث غدیر اس قدر نقل ہوئی ہے کہ اس میں باہمی تفاہم یا تبانی کا امکان ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اورہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مثلاً اصحاب پیغمبر (ص) میں سے چالیس افراد نے باہم ایکا کرکے ایک جھوٹی بات گڑھ لی ہے ۔ خصوصاً جبکہ اس کی خبر کے بہت سے نقل کرنے والے دشمنانِ علی(ع) میں شمار ہوتے رہے ہیں ۔ یا اگر دشمن نہیں ہیں توان کے طرفدار بھی شمار نہیں ہوتے اگر اس حدیث کے نقل کرنے والے صرف سلمان ، ابوذر اور مقداد جیسے افراد ہوتے جو علی (ع) کے گرد سایہ کی طرح موجود رہتے تھے ، تو کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ یہ افراد علی(ع) سے بے انتہا محبت رکھتے ہیں لہٰذا ان سب نے مل جل کر ایک بات کہ دی ہے ۔ جبکہ اس کبر کے نقل کرنے والے ایسے افراد ہیں جن کو علی(ع) سے کوی لگاؤ نہیں تھا ۔ ملا علی قوشجی وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے متواتر نہیں ہے ۔ جبکہ شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ خبر متواتر ہے اور دلیل میں کتابیں پیش کرتے ہیں ۔

حدیث غدیر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :الست اولیٰ بکم من انفسکم (۱۴) قالو بلی" کیا میں تم سب سے زیادہ خود تم پر اولویت نہیں رلھتا ؟

سب نے مل کر کہا : ہاں یا رسول اللہ ، تو آپ نے فرمایا :من کنت مولوه فهٰذا علی مولاه ، ظاہر ہے کہ پیغمبر (ص) اس حدیث کے ذریعہ علی (ع) کے لئے لوگوں پر اپنی جیسی اولویت کا اعلان کر ہرے ہیں ۔

حدیث منزلت:

یہ حدیث جسے خواجہ نصرالدین طوسی متواتر فرماتے ہیں اور ملاعلی قوشجی اس سے ایک دم انکار تو نہیں کرتے البتہ اسے خبر واحد قرار دیتے ہیں ۔ اس پر بھی میر حامد حسین نے عبقات میں اور علامہ امینی نے الغدیر میں اور خاص طورسے میر حامد حسیننے پوری ایک جلد میں بحث کی ہے ۔ ( صاحب الغدیر نے حدیث غدیر کے علاوہ دوسری حدیثوں پر زیادہ کام نہیں کیا ہے ) اس حدیث کو حدیث منزلت کہتے ہیں ، جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے علی (ع) کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا : انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الّا انّہ لانبیّ بعدی " تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ آنحضرت (ص) نے یہ جملہ اس وقت فرمایا جب آپ غزوہ تبوک کے لئے تشریف لے جارہے تھے ۔ غزوۂ تبوک کوئی جنگ نہ تھی بلکہ صرف ایک لشکر تھی ۔ یہ لشکر کشی غزوۂ موتہ کے بعد عمل میں آئی ، جو عرب اور رومیوں کے درمیان عہد پیغمبر(ص) میں پہلی اور آخری جنگ تھی ۔ اور مدینہ کے شمال میں لڑی گئی تھی ۔ مشرقی روم کی شہنشاہیت کامرکز اسلامیوں یعنی (قسطنطنیہ ) تھا ۔ شام کا علاقہ بھی ان ہی کی حمایت اور سر پرستی میں تھا ۔ رومی شام میں جمع ہوکر مدینہ پر حملہ کے لئے تیاریاں کررہے تھے ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے مناسب سمجھ اکہ روم کی سر حد تک ایک لشکر کشی کی جائے ۔ چنانچہ آپ نے یہ اقدام فرمایا جو غزوۂ تبوک کے نام سے مشہور ہے ۔

سیاست دونوں کے بقول پیغمبر (ص) اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے روم کی سر حد تک تشریف لے گئے تھے کہ آؤ ہم بھی آمادہ ہیں اور پھر واپس ہولئے ۔ آنحضرت اس سفر میں علی (ع) کو اہنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ آپ کو مدینہ میں اپنا جانشین بناکر چھوڑ گئے تھے ۔ علماء شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے یہ اقدام اس وجہ سے فرمایا تھا کہ جانتے تھے کوئی جنگ نہیں لڑے جائے گی ۔ علی جب مدینہ میں اکیلے رہ گئے تو بہت افسردہ اور دل تنگ ہوئے آپ نے آنحضرت سے عر ض کی : یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنے ساتھ نہ لے جا کر یہاں عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑے جارہے ہیں ؟ اس پر حضرت نے فرمایا : "اماترضیٰ ان تکون ( یا انت ) منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انه لانبیّ بعدی (گویا آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں نے تم کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ہے ۔ یوں ہی چھوڑے نہیں جارہاہوں ) یعنی سوائے نبوت کے جو جو نسبت ہارون کو موسیٰ سے تھی وہ تمہیں مجھ سے ہے ،جب ہم ہارون اور موسیٰ کے درمیان نسبتوں کا جائزہ لینے کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ موسیٰ ابتدائے کار میں ہی یعنی پیغمبری عطا کئے جانے کے فوراً بعد خداسے یہ درخواست کرتے ہیں : ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی ( یہاں تک تو صرف اپنے لئے دعا ہے ۔ اس کا ہمارے موضوع میں سے کوئی ربط نہیں ہے ) واجعل لی ونیراً من اھلی ( اصل میں وزیر کے معنی ہمارے اور مدد کے ہیں ، وزیر یعنی بوجھ ، سنگینی ، وزیر یعنی جو ایک حد تک بوجھ بتائے ۔ یہ اصلاح بھی بعد میں اسی لئے مشہور اور رائج ہوئی کہ وزیر بادشاہ کا معاون ہوا کرتا ہے ) اے معبود ! میرے لئے میرے خاندان سے معاون و مددگار معین فرما۔ پھر خود ہی پیشکش کرتے ہیں ۔ "ھارون اخی " میرے بھائی ہارون کو ( میرا وزیر معین کردے ) "اشدد لہ ازری " اور اس کے ذریعہ سے میری پشت محکم کردے ۔" واشرکہ فی امری " اور اسے اس کام میں میرا شریک قرار دے ۔"( کی نسبحک کثیراً و نذکرک کثیرا ) "(۱۵) ۔ تاکہ ہم دونوں بیش از بیش تیری تسبیح پڑھیں اور تجھے یاد کریں ۔ یعنی تیرے دین کو زیادہ سے زیادہ رواج بخشیں ۔

دوسری جگہ قرآن ( مذکور واقعہ کے بعد) فرماتا ہے کہ موسیٰ نے ہارون سے کہا :"( یاهارون اخلفنی فی قومی ) (۱۶) " اے ہارون ! میری قوم میں میرے جانشین بن کررہو۔

چنانچہ جب پیغمبر(ص) فرماتے ہیں :" انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ " تو اس سے حضرت کی مراد یہ ہے کہ وہ تمام نسبتیں جو قرآن کی روشنی میں ہارون کو موسی سے تھیں ( مثلاً ان کے وزیر تھے ، ان کی پیٹھ ان سے محکم تھی ، شریک کار تھے ،ا ور ان کی قوم میں ان کے جانشین تھے ) وہ سب تمہیں مجھ سے ہیں الاانہ لس نبی بعدی یعنی سوائے نبوت کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔: اگر پیغمبر اکرم (ص) الاانہ لابنی بعدی نہ فرماتے تو یہ کہا جاتا کہ پیغمبر نے کسی ایک پہلو یا کسی مخصوص شباہت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ لیکن جب آپ صرف نبوت کا استشناء فرماتے ہیں تو گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام پہلوؤں میں یہ نسبت برقرار ہے ( البتہ تمام اجتماعی مراحل میں ، طبیعی و فطری نسبت کے تحت نہیں کہ "موسیٰ و اہرون بھی بھائی تھے ۔ تم اور ہم بھی بھائی ہیں : بلکہ جو نسبت ہارون کو خدا کی طرف سے موسیٰ کے ذریعہ تمام مراحل میں حاصل تھی ، وہی تمھیں مجھ سے حاصل ہے ۔

اہل سنت اس کاجواب دیتے ہیں کہ اگر ایسی کوئی حدیث متواتر ہوتی تو ہم مان لہتے لیکن یہ متواتر نہین ہے بلکہ خبر واحد ہے ۔ لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ میر حامد حسین جیسے علماء نے اپنی کتابوں میں اہل سنت کے جوانوں سے ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے ۔

سوال وجواب:

سوال : گزشتہ جلسہ کی اختتامی اور آج کے جلسہ کی ابتدائی گفتگو سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا ہے اس نے میرے ذہن میں حکومت و امامت کے درمیان ایک طرح سے حد بندی کی لکیر کھینچ دی ہے اوروہ اس طرح کہ آقای مطہری نے فرمایا کہ امامت کے کچھ فرائض ہیں جن کا ایک شعبہ حکومت بھی ہے ۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ حکومت کے علاوہ اس کے دوسرے کون سے شعبے ہیں جن میں حکومت شامل اور دخیل نہیں ہے ۔ ہم اب تک اسلام سے جو کچھ سمجھے ہیں وہ یہ کہ ہماری دنیا و آخرت یا دینوی اور آخروی اعمال کےے درمیان حد فاصل نہیں ہے جو کچھ اخروی اعمال کے عنوان سے بیان کیا جا تا ہے وہ ہمارے دنیاوی اعمال کی ضمانت بن کر خود ہماری زندگی میں دخیل ہے اور ہمارے دنیاوی اعمال ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کو ارتقاع و کمال کی طرف لے جاتے ہیں ساتھ ہی معاشرہ میں ایک اجتماعی حکومت برقرار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں بھی ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ خدا ان ہی کو بلند مقام عطاکرتا ہےجو اپنے عبادی اعمال کء ذریعہ اپنی دینوی زندگی کو سنوارتے ہیں ۔ عدل و انصاف کی حاکمیت قائم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اور قرآن میں جہاد کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں بھی یہی بات نظر آتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے تمام ارشادات اوران کی پاکیزہ سیرتیں یہ ظاہر کرتی رہتی ہیں یہ حضرات اپنے حقوق حقہ حاکمیت اورحکومت حاصل کرنے کی مسلسل جد جہد کرتے رہے چاہے وہ اعلانیہ جہاد کرتے رہے یا قید خانوں یا مخفی گاہوں میں خاموشی کے ساتھ ان تحریکوں کی سربراہی کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ میں امامت کے لئے حکومت کے علاوہ دوسرے فرائض کی توجیہ نہیں کرپاتا کیونکہ ان کی حکومت ہی امامت کی تمام اعمال کی توجیہ کرسکتی ہے۔ برائے مہربانی وضاحت فرمادیں ؟

جواب :حد بندی کی بات تو آپ نے خود اٹھائی ہے ، میں نےاس لفظ کا ہی استعمال نہیں کیا اورنہ اسے صحیح سمجھتا ہوں ۔ میں نے عرض کیا تھا کہ امامت شیعوں کے یہاں حکومت سے بھی بالاتر ایسا مرتبہ و مقام ہے جو کا ایک پہلو حکومت بھی ہے وہ اعلیٰ منزلت تو معصوم وبے خطا ہونے کی حیثیت سے اسلام بیان کرنا اور اس کی وضاحت کرنا اور احکام دین کے لئے ان کا مرجع و منبع قرار پانا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) کی ایک شان حکومت و حاکمیت بھی تھی ۔ یہ تو کوئی حد بندی نہیں ہوئی ۔ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں پر حاکم تھے لیکن یہ حکومت انسانوں کی طرف سے ان کو نہیں ملی تھی اور نہ انسانوں نے انھیں یہ حق دیا تھا ۔ بلکہ یہ خدا داد حق تھا ، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں میں سب سے مافوق اور بلند تھے ( دوسرے لفظوں میں پیغمبر (ص) تھے ) کیونکہ احکام الٰہی کے بیان کرنے والے اور عالم غیب سے معنوی رابطہ رکھنے والے تھے ۔ میں نے نہ تو دنیا و آخرت کے درمیان کسی فاصلہ یا حد بندی کا اظہار کیا ہے اورنہ ہی حاکم وامام کے درمیان کسی جدائی کا قائل ہوں کہ یہ کہوں ، امام لوگوں کی آخرت کا ذمہ دار ہے اورحاکم لوگوں کی دنیا کے لئےہے ۔ اگر میں نے یہ کہا ہوتا تو آپ کا اعتراض بجاتھا ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں امامت کا مسئلہ ہی دوسرا ہے ۔ اگر وہ ثابت ہوجائے تو حکومت خود بخود ثابت ہوجائے گی ۔ ہم در اصل نبوت کی ایسی جانشین کے قائل ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی حکومت کا سوال ہی نہیں اٹھتا ، جس طرح پیغمبر (ص) کی موجودگی میں کسی غیر کی حکومت کی بات مہمل ہے ، اسی طرح شیعوں کے یہاں بیان شدہ امام کی موجودگی میں کسی دوسرے کی حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آج کل رائج معنی کے مطابق حکومت اسی وقت ممکن ہے جب ہم فرض کرلیں کہ دنیا میں کوئی امام موجود ہی نہ ہو یا ہمارے زمانہ کی طرح امام پردۂ غیب میں ہو۔ ورنہ امام کی موجودگی اور اس کے ظہور کے وقت شیعہ جس سطح کی امامت کے قائل ہیں حکومت کا مسئلہ خود بخود روشن اور حل شدہ ہے ۔

سوال : اہل سنت غدیر خم والی روایت کو خبر واحد قرار دیتے ہیں اور متواتر نہیں جانتے یا آپ کی بیان کردہ اس روایت کو جس میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ : علی کو سلام کرو کیوں کہ وہ تمہارے امیر ہیں ؟

جواب : روایت غدیر کے اس فقرہ میںمن کنت مولاه فهٰذا علی مولاه کے سلسلہ میں تو شاید اہل سنت بھی اس کے متواتر ہونے سے انکار کرسکتے، اگر چہ ملا علی قوشجی یہی کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی متواتر نہیں ہے ۔ در اصل یہ جملہ اتنا زیادہ نقل ہوا ہے کہ اہل سنت کو بھی اس کے ( تواترسے ) انکار کی مجال نہیں ہے ( ۱) اس جملہ کے بہت زیادہ نقل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں آنحضرت کے اقوال اسی وقت لکھ کر محفوظ مہیں کئے جاتے تھے بلکہ ذہنوں میں محفوظ کر لئے جاتے تھے ۔ لہٰذا فطری طور پر اس حدیث کا وہی جملہ سب سے زیادہ یاد رہا جس میں علی(ع) کا نام موجود تھا : من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ۔ بہت سے لوگوں نے اس روایت کے پہلے حصہ کو بھی نقل کیا ہے جس میں پیغمب رفرماتے ہیں : "الست اولیٰ بکم من انفسکم " شیعہ اس حصہ کو بھی متوتر جانتے ہیں ۔ لیکن حدیث : "سلّموا علیٰ علیّ بامرة امیرالمومنین " کے تواتر کو اہل سنت ، کسی صورت قبول نہیں کرتے بلکہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ۔ اور شاید ہم بھی اس کے متواتر ہونے کو پورے طور سے ثابت نہ کر پائیں ( مین اس سلسلہ میں زیادہ نہیں جانتا ) اور کوئی ضروری بھی نہیں ہے ۔ لیکن اس حدیث اک اصل حصہ کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا :" الست اولیٰ بکم من انفسکم " اور لوگوں نے عرض کیا "بلیٰ" ہاں یارسول اللہ (ص) اس کے بعد حضرت نے فرمایا :من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه اللٰهم وال من والاه وعاد من عاداه ( ۲) سفینۃ البحار ۔ جلد ۲ ، ص ۲۰۶ ۔ اس کا تواتر ہماری نظر میں واضح اور بد یہی ہے ۔جبکہ اہل سنت اس سلسلہ میں اختلاف نظر رکھتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے ، بعض کہتے ہیں کہ خبر واحد ہے ۔ اور بعض اسے متواتر تو جانتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو شیعہ بیان کرتے ہیں بلکہ اس کا میں پیغمبر (ص) نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص مجھے دوست رکھتا ہے وہ علی کو بھی دوست رکھے ۔ ہم کہتے ہیں کہ کہ یہ کون سی بات ہے کہ پیغمبر غدیر خم میں لوگوں کو جمع کریں اور یہ فرمائیں کہ جو مجھے دوست رکھتا ہے علی کو بھی دوست رکھے ! آخر یہ کون سی خاص بات ہوئی کہ علی کو صرف دوست رکھو ؟ ! جبکہ اس سے قبل خود حضرت فرماچکے ہیں : "الست اولیٰ بکم من انفسکم " کلمۂ مولا بنیادی طور پر کسی بھی جگہ دوست کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔

سوال : کیا آیت : "الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً " واقعہ غدیر کے بعد نازل ہوئی ہے ؟

جواب : نہیں ، غدیر خم ہی میں نازل ہوئی ہے ۔

____________________

(۱۱) شیعہ زیادہ تر امامت کے دینی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ آج کل جہاں امامت کا مسئلہ سامنے آتا ہے اسے فوراً مسئلہ حکومت کے مساوی قرار دے دیتے ہیں جس میں مسئلہ کا دنیا وی پہلو نمایاں ہوتا ہے ، یہ صحیح نہیں ہے ، مسئلہ امامت کا بڑا حصہ دینی پہلو کا حامل ہے ۔ اصل میں امامت اور حکومت میں نوی اعتبار سے عموم خصوص من وجہ جیسا ارتباط پایا جاتا ہے ۔ امامت بذات خود ایک مستقل مسئلہ ہے اور حکومت کے جو امامت کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے ، ایک دوسرامسئلہ ہے غیبت امام کے زمانہ میں حکومت کے سلسلہ میں تو گفتگو کی جاتی ہے لیکن امامت کی بات سامنے نہیں آتی ۔ امامت کو حکومت کے مساوی قرار نہیں دینا چاہئے ۔ علماء کی تعبیر میں امامت سے مراد دین و دنیا دونوں کی رہبری ہے ۔ اور چونکہ امام دین کا رہبر ہوتا ہے لہٰذا قہری طور پر دنیا کا بھی حاکم ہے ۔ مثلاً خود پیغمبر جو دین کے رہبر تھے ہی ، ساتھ ہی تبعی طور پر دنیا حاکم بھی تھے ۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ کسی زمانہ میں امام موجود نہ ہو یا پردۂ غیب میں ہو اورا س عنوان سے دین کی رہبری کا مسئلہ در پیش نہ ہو ۔ اس وقت دنیاوی حاکمیت کا مسئلہ سامنے آئے گا کہ اس پر کے حاکم ہونا چاہئے ۔ امام کی موجودگی میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

(۱۲) سورہ شعراء ۲۱۴

(۱۳) ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم چونکہ ماہ حرام تھے ۔ لہٰذا یہ آزادی کے مہینے ہوتے تھے یعنی ان مہینوں میں جنگیں رک جاتی تھیں ۔ دشمن ایک دوسرے سے انتقام نہیں لیتے تھے ۔ اور آپس میں آمد ورفت معمول پر آجاتی تھی ۔ لوگ عکاظ کے بازار میں جمع ہوتے تھے ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل کو بھی پاجاتا تھا ، جس کی ایک مدت سے تلاش رہی ہے ، تو ان حرام مہینوں کے احترام میں اس سے کوئی تعرض نہیں کرتا تھا۔

(۱۴) یہاں پیغمبر اسلام کا ارشاد قرآن کے ( سورۂ احزاب آیت نمبر ۶) کی طرف ہے جس میں ارشاد ہے:النبی اولی بالمومنین من انفسهم پیغمبر کا تعلق چونکہ خدا کی ذات سے ہے لہٰذا وہ تمام لوگوں کو جان و مال پر ان سے زیادہ اولویت رکھتے ہیں ۔ اگر چہ ہر شخص اپنے مال اور اپنی جان کا خود مختار سے زیادہ با اختیار ہیں ۔ البتہ معاذاللہ پیغمبر (ص) کبھی کوئی کام اپنے ذاتی نفع کے تحت انجام نہیں دیتے ۔ وہ خدا وند عالم کی طرف سےا سلامی معاشرہ کے نمائندہ ہیں ۔ یہاں عام لوگوں اور پیغمبر (ص) میں فرق یہ ہے کہ لوگ اپنی جان ومال کے مختار اپنی ذات کے لئے ہیں جبکہ پیغمبر اسلامی معاشرہ کی فلاح کے تحت یہ اختیار رکھتا ہے ۔

(۱۵) سورہ طہ آیت ۲۵سے ۲۴ تک

(۱۶) سورہ اعراف آیت نمبر ۱۴۲ ۔ پوری آیت یوں ہے :قال موسیٰ لا خیه هارون اخلفنی فی قومی