فطرت

فطرت 0%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 21273
ڈاؤنلوڈ: 4077

تبصرے:

فطرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21273 / ڈاؤنلوڈ: 4077
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

گسٹ کانٹ اور اسپنسر کا نظریہ

مذہب جہالت کا نتیجہ ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مذہب جہالت کا نتیجہ ہے‘ مجموعی طور پر یہ بات دو طریقوں سے بیان ہوئی ہے۔

اگسٹ کانٹ کا نظریہ اسپنسر اور دوسرے لوگوں کے نظریے سے مختلف ہے‘ اگسٹ کانٹ کا نظریہ تعلیل حوادث پر مبنی ہے۔ اس کی مراد یہ ہے کہ طبیعی طور پر انسان اصول علت و معلول کو تسلیم کرتا ہے‘ البتہ پہلے پہل کے انسان حوادث و واقعات کی اصل علت کو نہیں جانتے تھے‘ لہٰذا ان واقعات کو موجودات غیبی‘ خداؤں اور ایسی دوسری چیزوں سے منسوب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بارش ہوتی تھی تو اس کی اصلی علت کو نہ جاننے کی وجہ سے کہتے تھے کہ بارش کے خدا ”دیوتا“ نے بھیجا ہے۔ طوفان آ جاتا تو کیونکہ اس کی بھی علت نہ جانتے تھے‘ کہتے تھے‘ طوفان کے خدا نے اسے بھیجا ہے۔ اسی طرح سے وہ دیگر حوادث و واقعات کی جیسے ہم توحید کے باب میں کہتے ہیں کہ یہ بات فقط شناخت کے مرحلے سے مربوط ہے۔

اسپنسر اور دوسرے لوگ اس بات کو ایک اور طرح سے بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ انسان روح اور بین کی دوگانگی کے حوالے سے اپنے وجود کے دو پہلوں کا معتقد ہے‘ اس لئے کہ اس نے خواب میں لوگوں خصوصاً مردہ لوگوں کو جب دیکھا تو اس نے سوچا کہ یہ خواب میں آنے والا ایک موجود ہے‘ جو خارج میں ایک حقیقت رکھتا ہے‘ کیونکہ مردے کا جسم تو مٹی میں مل چکا ہے‘ لہٰذا وہ اس بات کا معتقد ہو گیا کہ اس کی ایک روح ہے۔ چنانچہ وہ اس بات کا معتقد ہو گیا کہ ہم تمام انسانوں کی روح بھی ہے اور بدن بھی اور پھر اس نے سوچا کہ دریا کی بھی روح ہے‘ طوفان کی بھی روح ہے اور سورج میں بھی روح اور جان ہے۔

پھر جب انسان کو کوئی مشکل پیش آتی‘ قدرتی توانائیوں سے سامنا ہوتا تو وہ بالکل ویسا ہی کرتا جیسا وہ کسی بااقتدار انسان کے سامنے کرتا تھا کہ اسے ہدیہ و نذر پیش کرتا تھا اور کوئی چاپلوسی سے کام لیتا تھا وغیرہ‘ یعنی پرستش اور عبادت کو اس نے قدرتی توانائیوں کے لئے بھی انجام دینا شروع کر دیا۔ دراصل اسپنسر اس امر کی توجیہ کرنا چاہتا ہے کہ پہلی بار عبادت کہاں سے پیدا ہوئی‘ یعنی عبادت کا نقطہ آغاز کیا ہے؟ اس کے نزدیک یوں قدرتی توانائیوں کی پرستش کا سلسلہ وجود میں آیا۔

لہٰذا اگسٹ کانٹ فقط نظری اور فکری حوالے سے استدلال پیش کرتا ہے‘ جبکہ اسپنسر پرستش کی بنیاد کو بیان کرتا ہے کہ پہلی بار پرستش کہاں سے شروع ہوئی۔ اس کے نزدیک عالم طبیعت (کائنات) کی توانائیوں کی وجہ سے یہ سلسلہ شروع ہوا کہ جیسے انسان اپنے سے زیادہ طاقت ور انسانوں کی چاپلوسی‘ خوشامد اور جی حضوری کرے اور ان کے لئے ہدیے اور تحائف لے جائے‘ اسی طرح ان کے لئے بھی تحفے تحائف لے جانے اور قربانی کرنے لگے اور جیسے انسانوں کی خوشامد اور جی حضوری کرتے تھے‘ ان کی بھی عبادت کرنے لگے اور ان کا بھی ذکر و ثناء کرنے لگے۔

اس نظریے کے مطابق جب جہالت ختم ہو جائے گی کہ اگسٹ کانٹ کا کہنا ہے‘ انسان جب ان چیزوں کے اسباب کو جان لے گا اور سمجھ لے گا کہ ایسا نہیں ہے اور یہ کوئی جاندار چیزیں نہیں ہیں‘ سمندر بے جان ہے‘ زمین بے جان ہے‘ بارش بے جان ہے‘ یہاں تک کہ خود انسان ایک روح نہیں رکھتا‘ اس نظریے کے بارے میں بھی لازمی طور پر شک و شبہ میں پڑ جائے گا یا اس کے درست ہونے کا انکار کر دے گا۔ اس صورت میں پرستش اور عبادت کی کوئی بحث ہی باقی نہیں رہے گی‘ یعنی علم کی وسعت کے ساتھ ساتھ مذہب بھی ختم ہو جائے گا۔

مذکورہ مقالے کا مصنف جواب دیتا ہے کہ یہ بات دلائل کی بنیاد پر درست نہیں ہے‘ ایک یہ کہ تجربہ نے اس کے خلاف ثابت کر دیا ہے کہ جاہلوں میں مذہب بھی موجود ہے اور لامذہبیت بھی‘ اسی طرح عالموں میں بھی مذہب موجود ہے اور لامذہبیت بھی۔ یعنی مسئلہ مذہب و لامذہبیت‘ علم و جہل سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتا‘ اگر مذہب جہالت کا نتیجہ ہوتا تو پھر لوگ جتنے زیادہ جاہل ہوتے‘ اتنے ہی زیادہ مذہبی ہوتے اور جتنے زیادہ علم والے ہوتے‘ اتنے ہی لامذہب ہوتے۔ لہٰذا پہلے درجے کے علماء کو لازمی طور پر لامذہب ہونا چاہئے‘ جبکہ عملاً ایسا نہیں ہے اور پھر وہ کئی نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ڈارون بھی لامذہب نہ تھا (انور خامنہ ای کے مقالے میں ایک نکتہ ہے کہ جس کے بارے میں‘ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اس نے دو اشعار کو بطور سند ذکر کیا ہے اور ان سے جو مفہوم اس نے اخذ کیا ہے‘ میری نظر میں وہ درست نہیں۔ ایک مولانا روم کا یہ شعر ہے ۱۱

ابلھی شو تا بمانی دین درست

”بے وقوف بن جا‘ اگر دین کو صحیح رکھنا ہے۔“

باوجود اس کے کہ ابوالعلاء معری کے بارے میں کچھ نظریات ہیں‘ البتہ کم از کم بعید ہے کہ اس نے یہ شعر اس مقصد کے لئے کہا ہے:

اثنان اهل الارض ذو عقل بلا دین وآخر دین لا عقل له

”اہل زمین کے دو گروہ ہیں یا تو دین دار ہیں کہ جو عقل نہیں رکھتے اور یا پھر عقلمند ہیں کہ جو دین نہیں رکھتے۔“

میرا خیال یہ ہے کہ ان دونوں اشعار میں ایسے دینداروں پر ایک طنز ہے کہ جو مثلاً کفر کا فتویٰ دیتے پھرتے تھے۔ یہ ان کا جواب تھا‘ ایسا نہیں کہ جیسا یہ ماہرین عمرانیات سمجھتے ہیں اور ان کا نظریہ یہ تھا کہ دین جہالت کی پیداوار ہے)۔

ابوالعلاء معری اگرچہ حکیم اور فلسفی تھا‘ لیکن شاعر مزاج بھی تھا‘ وہ ایسا شخص تھا کہ جو مختلف حالات میں مختلف باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نے ابوالعلاء کے بارے میں زیادہ مطالعہ نہیں کیا‘ البتہ میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے‘ اس کے مطابق بہت قوی ہے اور ایسی باتیں بھی مل جاتی ہیں جو ان چیزوں کے خلاف ہیں۔

رہی بات ”مولوی“ کے شعر کی‘ تو مجھے مذکورہ شعر کہیں نہیں ملا‘ البتہ ”مولوی“ کے بارے میں کوئی ایسی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرا بہت قوی اندازہ یہ ہے کہ ”مولوی“ چونکہ عارف ہے اور اس لحاظ سے فلسفیوں سے اس کی ٹھنی رہتی ہے‘ وہ نظریہ تسلیم کو بیان کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ جب تک انسان کا حقیقت کے سامنے سر تسلیم ختم نہ ہو‘ اس تک پہنچ نہیں سکتا۔ اپنا سب کچھ چھوڑ کر حقیقت کے پاس آ جائے اور ایک عارف کی فکر ہمیشہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ کہتا ہے:

” اپنی خود ”میں“ کو ایک طرف رکھ دو آگے بڑھو۔“

ایک حدیث کہ جس کا حدیث ہونا مسلم نہیں ہے:

علیکم بدین العجائز

”تمہیں عاجزوں کا دین اپنانا چاہئے۔“

مولوی نے اس حدیث تک کو نقل کیا ہے اور اس کے اس معنی میں دلائل دیئے ہیں‘ یعنی اس کی نگاہ میں ”عجائز“ ”عجز“ سے ہے‘ جس سے مراد ”انکساری کی حالت“ ہے۔ مولانا روم کے بہت سے اشعار میں عقل کی مذمت کی گئی ہے‘ جس عقل کی مذمت کی گئی ہے‘ وہ فلسفیانہ عقل ہے کہ جو عشق عارفانہ کے مقابلے میں ہے‘ یعنی عقل و عشق کا تضاد بیان کرتے ہوئے اس نے عقل کی مذمت کی ہے‘ عشق سے وابستگی اختیار کی ہے۔ البتہ عرفان یہی کچھ کہتا ہے:

آزمودم عقل دور اندیش را

بعد از این دیوانہ سازم خویش را

وہ کچھ اس طرح کی بات کرتا ہے‘ نہ کہ ان کی بات مشکل گھڑی میں عقل دور اندیشی کام نہ آئی‘ میں نے مجبور ہو کر دیوانگی کا راستہ اپنا لیا۔

رُسل کا نظریہ: ۱ دین کمزوری اور خوف کا نتیجہ ہے

انور خامنہ ای کے بقول مذہب کی پیدائش کے بارے میں ایک اور نظریہ یہ ہے کہ مذہب انسان کی کمزوری اور ناتوانی کی پیداوار ہے اور یہ دراصل مسئلہ خوف ہے۔

اس مسئلے پر جس نے سب سے زیادہ زور دیا ہے‘ شاید وہ ”رُسل“ ہے۔ اس سے نقل کی گئی عبارات میں سے کچھ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

رسل کی کتاب ”تعلیم و تربیت“ اور سماجی نظم سے ”برگزیدئہ افکار رُسل“ میں نقل کیا گیا ہے:

”اللہ اور حیات بعد از ممات پر اعتقاد‘ ہمارے لئے ”متشلگین“ (شکل کی بناء پر سوچنے والے لوگ) کی نسبت کم تر جرات کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا امکان مہیا کرتا ہے‘ یعنی دین پر اعتقاد زیادہ کم ہمت اور بزدل بنا دیتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ان مذہبی احکام پر ایمان‘ اسی عمر میں کھو بیٹھتے ہیں‘ جس میں یاس و ناامیدی ”قنوطیت“ انسان پر جلد غالب آ جاتی ہے‘ لہٰذا جن لوگوں نے مذہبی تربیت بالکل حاصل نہ کی ہو‘ ان کی نسبت انہیں زیادہ سخت ناکامیوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مسیحیت ایسے دلائل پیش کرتی ہے کہ جس کی بناء پر وہ دعوت دیتی ہے کہ ہم موت یا کائنات سے نہ ڈریں‘ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جرات و بے باکی کی صفت پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی‘ جبکہ مذہب کی طرف رجحان کا بہت سا حصہ انسان کے خوف ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مذہب کے حامی اس فکر و خیال کی بناء پر کہ خوف کی بعض اقسام کو خیال میں نہیں لانا چاہئے‘ رجحان کا اظہار کرتے ہیں۔ میری نظر میں یہ لوگ اس حوالے سے سخت غلطی پر ہیں۔ اس سے قطع نظر جو شخص مختلف قسم کے خوف سے بچنے کے لئے پرمسرت اعتقادات کا سہارا لیتا ہے‘ اسے نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے زندگی گزارنے کی ممکن طور پر بہترین راہ اپنائی ہے۔ جب تک مذہب خوف کا سہارا لیتا رہے گا‘ انسانی مقام و مرتبہ کم ہوتا رہے گا۔“

نیز ”رُسل“ کی کتاب ”انسانی سماج“ (اجتماع انسانی) سے نقل کیا گیا ہے کہ میرا خیال ہے کہ جو انسان زندگی کے ہولناک امور کو افسانوی رنگ دے کر برداشت نہیں کر سکتا‘ وہ ایک کمزور اور خوفزدہ موجود ہے۔ ایسا انسان اپنے وجود کے ایک حصہ میں خود اس حقیقت کا معترف ہے کہ جو کچھ وہ قبول کر رہا ہے وہ افسانہ ہے اور داستان کے علاوہ کچھ نہیں اور اس نے اسے صرف اطمینان قلب کی خاطر قبول کر رکھا ہے‘ لیکن ایسے افکار کا سامنا کرنے کی وہ ہرگز جرات و بہادری نہیں رکھتا‘ یہاں تک کہ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے افکار کے غیر منطقی ہونے کو جانتا ہے‘ لہٰذا وہ ان کے بارے میں تعصب سے کام لیتا ہے اور ان کے بارے میں بحث و مباحثہ سے گریزاں رہتا ہے۔

بہ بالفاظ دیگر انسان نے کچھ ایسے مظاہر ( Phenomans ) دیکھے ہیں کہ جن سے وہ خود خوف زدہ ہوا اور اس خوف کی وجہ سے اسے اس بات کی ضرورت پڑی کہ اپنے اس داخلی اضطراب اور پریشانی کو کسی طرح سکون اور اطمینان میں تبدیل کرے۔ وہ علم اور ان مظاہر کی حقیقی شناخت حاصل نہ کر سکا کہ جو اس کی پریشانی کے خاتمے کے لئے مناسب راہ حل ہوتی۔ وہ مجبور ہوا کہ حقیقی علاج کی بجائے کسی خواب آور دل خوش کن چیز کا سہارا لے‘ مثلاً قضاء و قدر پر اعتقاد کے ذریعے اس نے اپنی زندگی کی ناہمواریوں کا حل تلاش کیا۔ بہشت پر اعتقاد کے ذریعے اس نے سوچا کہ اگر یہاں ہمیں خوشیاں حاصل نہیں تو اس کے عوض میں بہشت ہے‘ یوں ناہمواریوں کو اس نے اپنے لئے آسان بنا لیا اور اسی طرح باقی چیزیں ہیں۔“

تحقیق و تنقید

ہم اپنی اسی گزشتہ گفتگو کی طرف لوٹتے ہیں‘ شاید اس کی صحیح وضاحت نہیں ہو سکی۔ ہمارے علماء اصول کی اصطلاح میں کہا جا تا ہے کہ فلاں دلیل‘ فلاں دلیل پر حاکم ہے یا کہتے ہیں کہ اس دلیل پر وارد ہے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ دو دلیلیں کبھی ایک دوسرے سے متعارض و مخالف نہیں ہو سکتیں‘ کیونکہ ایک دلیل کسی ایک شرط پر مبنی ہے‘ جب دوسری دلیل آتی ہے تو وہ پہلی دلیل کی شرط کو ختم کر دیتی ہے‘ جب شرط ختم ہو جاتی ہے تو اس کے سہارے پر قائل دلیل خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ نہ یہ کہ دو دلیلیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں‘ ان کے لئے ٹکراؤ کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر اس مسئلہ کی تفصیل میں چلا جاؤں تو اپنی اصلی بحث سے دور ہو جاؤں گا‘ جو افراد اس میں کچھ دخل رکھتے ہیں وہ اس مسئلہ کو جانتے ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ان لوگوں کے مفروضے کی بنیاد ہی یہ ہے کہ دین کی پیدائش منطق کی بنیاد پر نہیں ہو سکتی۔ اب اس صورت حال میں ہم غیر منطقی امور یعنی خوف جہالت وغیرہ کا جائزہ لیتے ہیں۔

ان لوگوں سے یہ کہا جانا چاہئے کہ کسی انسان کی کوئی فکر ہرچند کہ باطل ہی کیوں نہ ہو‘ لیکن اس فکر کی طرف بھی انسانی رجحان کی بنیاد انسانی منطق ہی ہے۔ مثال کے طور پر چند ہزار سال قبل انسان یہ سوچتا تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور زمین ساکن ہے۔ کیا ہمیں کبھی اس سوال کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا وجہ ہوئی کہ انسان اس بات کا معتقد ہوا کہ زمین مرکز ہے اور سورج اور ستارے زمین کے گرد گردش کر رہے ہیں؟ کیا یہ موت کا ڈر تھا اور یا ایسی ہی کوئی اور وجہ تھی؟ ہرگز نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ انسان کی فکر اور منطق نے اسے یہ نظریہ اپنانے پر مائل کیا تھا‘ فکر اور منطق کے علاوہ کوئی اور عامل اس نظریے کے اختیار کرنے میں دخل انداز نہ تھا۔ اگرچہ یہ نظریہ درست نہ تھا مگر انسان دیکھتا تھا اور ظاہری طور پر اسے یہی دکھائی دیتا تھا کہ سورج اور ستارے زمین کے گرد گردش کرتے ہیں۔ جیسا وہ دیکھتا تھا وہی کچھ کہتا تھا‘ اس مسئلہ میں انسان کے دیکھنے اور اس کی فکر کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی‘ خارج سے یا ماوراء سے اس کے پاس کوئی دلیل نہ تھی۔ یہ بات تیرہ ( ۱۳) کے عدد کی نحوست پر اعتقاد کے مانند نہ تھی کہ کہا جا سکے کہ اس مقام پر عقل انسانی کے علاوہ کوئی اور عامل کار فرما تھا۔

ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ کیا انسان وہی چند ہزار سال پہلے کا انسان ہے؟ اگر انبیاء کے مسئلے کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو بھی خوش قسمتی سے آج علم فن و صنعت یہاں تک کہ فکر و نظر میں انسان کے چند ہزار سال پہلے کے جو آثار ملے ہیں‘ ان میں سے بعض تو بہت ہی اعلیٰ سطح کے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ جن تک آج رسائی نہیں ہے۔ قدیم ترین کتابیں کہ جو چین وغیرہ سے ملی ہیں‘ ایسے فلسفیانہ افکار پر مبنی ہیں کہ جو اس قدر دقیق اور بلند ہیں کہ آج کے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ اہرام مصر کے بارے میں پروفیسر ہشترودی جیسے آج کے لوگ باور نہیں کر سکتے کہ یہ اس زمانے کے انسانوں کے ہاتھوں بنے ہیں‘ یعنی یہ فن اور صنعت کی ترقی کا ایسا نمونہ ہے کہ کہتے ہیں کہ انہیں دیگر سیاروں سے آ کر انسانوں نے بنایا ہے۔ ہاں! کیا انسان وہی گزشتہ زمانے کا انسان اتنی بھی فکر نہ رکھتا تھا کہ اس کی عقل اسے مذہب اور خدا کی طرف لے جاتی؟

یہ جو آپ کہتے ہیں کہ حوادث اور واقعات کے بارے میں سوچتا تھا اور کہتا تھا کہ ان کی کوئی علت یا سبب ہے۔ تو بہت خوب! وہ ایک قدم اور اٹھا لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ خود وہ علت کیا ہے؟ یہ ایک آسان سا قدم ہے کہ جسے انسانی فکر اٹھا سکتی ہے‘ اسی پہلے قدم پر نہیں ٹھہرتی اور یوں کہہ کے نہیں رک سکتی کہ اس کا نام ”الہ“ اور خدا ہے‘بلکہ فکر کہتی ہے یہ جو بارش ہے‘ کوئی چیز ہے کہ جو اسے برساتی ہے۔ پھر فکر اس چیز کی کھوج میں نکل پڑتی ہے کہ خود وہ چیز کیسی ہے؟ یہ بات انسان کے ابتدائی افکار کا حصہ ہے‘ اس کے لئے کوئی ایسا انسان نہیں چاہئے کہ جو مدرسہ گیا ہو اور تعلیم حاصل کی ہو‘ بلکہ ہر انسان جلد ہی اس بات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں‘ یہ مقہور و مربوب کی صورت میں ہے۔

قرآن اور معرفت خدا

دیکھئے کہ قرآن ابراہیم کی داستان کو کس اعجاز آمیز پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ وہ ابراہیم کو جو قدیم ترین انبیاء میں سے ہیں‘ یہاں تک کہ وہ مسیحأت اور یہودیت سے بھی پہلے ہیں۔ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام ابھی بالکل نوجوان تھے‘ وہ بعض خاص وجوہ کی بناء پر معاشرے سے الگ تھلگ رہے تھے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی نکتہ ہے کہ قرآن بیان کرتا ہے کہ ابراہیم کچھ خاص وجوہات کی بناء پر معاشرے سے دور رہے تھے اور اپنا بچپن انہوں نے غار میں بسر کیا تھا (میں نے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی ہے کہ قرآن کی حی ابن یقظان ابراہیم ہے۔ حی ابن یقظان یعنی ایک ایسا انسان کہ جسے فلسفی حضرات فرض کرتے ہیں کہ وہ غار میں ہو اور ایک ایسی جگہ پر ہو کہ جہاں وہ کسی انسان کو نہ دیکھ پائے اور کسی سے کوئی فکر حاصل نہ کرے‘ اسی حالت میں بڑا ہو‘ پھر اسی حالت میں وہ دنیا کے سامنے آ جائے اور دیکھا جائے کہ وہ کس طرح سے سوچتا ہے؟ لیکن قرآن کا اپنا ایک حی ابن یقظان ہے کہ جو ایک حقیقی انسان بھی ہے)۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ اس دنیا کو دیکھا‘ چمکتے ستارہ پر نظر پڑی تو اس نے ہر چیز سے زیادہ انہیں اپنی طرف جذب کر لیا‘ کہنے لگے:

هذا ربی

اب چاہے یہ سوالیہ انداز ہو یا قبول کرنے کی صورت میں ”میرا رب مجھے چلانے والا ہے‘ مجھے پالنے والا‘ میری تدبیر کرنے والا۔“

پھر انہوں نے دیکھا کہ کچھ دیر بعد اس کی جگہ کچھ تبدیل ہو گئی اور وہ ڈوب گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے اندر کی طبیعت ان سے کہتی ہے کہ اپنے رب کی جستجو کر۔ وہ طبیعت اور حالت مقہور و مربوب اور مسخر ہونے کی ہے‘ جسے انہوں نے ”ھذا ربی“ کہا تھا‘ اسے بھی اسی حالت سے دوچار پایا‘ تو کہنے لگے:

لا احب الآفلین

”مجھے ان ڈوب جانے والوں کی تو خواہش نہیں ہے۔“

چاند پر نظر پڑی تو وہ بڑا نظر آیا‘ کہنے لگے:

هذا ربی

اور جب دیکھا کہ وہ خود مربوب ہے‘ تو انہیں تعجب ہوا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ میرا رب کوئی ہے تو سہی لیکن یہ نہیں‘ حیرت ہے کہ اب کے بھی مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ کہنے لگے:

لئن لم یهدنی ربی

”اگر حقیقی پروردگار میری رہنمائی نہ کرتا تو میں سخت گمراہ ہو گیا تھا۔“

سورج کو دیکھا تو بول اٹھے:

هذا ربی هذا اکبر فلما افلت

پھر وہ ان سب سے دست کش ہو گئے۔ انہوں نے سب کا حساب لگایا اور یہ ہے بھی بہت آسان سا مسئلہ‘ یہ سب کہ جنہیں دیکھ رہا ہوں‘ ایک سے ہیں۔ کہنے لگے:

سودا چینن کند خوش است کہ یکجا کند کسی

”یہ سب چیزیں متحرک اور مسخر ہیں‘ انہیں گردش دی جا رہی ہے۔“

انہیں سارا علم ایک واحد مربوب کی صورت میں نظر آیا۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ پہلے انسان کی فکر بھی یہی کہتی تھی کہ پوری کائنات ایک مربوب کی طرح ہے‘ خدا بس وہی ہے کہ جس میں ان سب کی خصوصیات نہ ہوں۔

ابراہیم کہنے لگے:

وجهت وجهی للذی فطر السموات و الارض

”میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔“(انعام‘ ۷۹)

ان حضرات سے کہا جانا چاہئے کہ انسان شناسی کیا ہے؟ اس طریقے سے درست ہے یا اس طرح سے کہ جس طرح سے تم کہتے ہو؟ تفسیر میزان کا مطالعہ کیجئے تو اس کے مطابق آیت ”ذر“ بھی اسی مسئلے کی نشان دہی کرتی ہے:

و اذ اخذ ربک من بنی آدم من ظهور هم ذریتهم و اشهد هم علی انفسهم الست بر بکم قالوا بلی (اعراف‘ ۱۷۲)

قرآن کہتا ہے کہ یہ امر تعلیم و تربیت سے مربوط نہیں ہے۔ پہلے زمانے کا‘ درمیانے زمانے کا اور آخری زمانے کا‘ گویا ہر زمانے کا انسان اس میں شامل ہے اور یہ بات انسان کی فطرت میں سے ہے:

الست بر بکم

”کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟“

یعنی انسان احساس کرتا ہے کہ وہ خود اور ہر وہ چیز جو اس کی سی خصلت و کیفیت رکھتی ہے‘ ان میں سے ہر کسی کا ایک رب ہے کہ جو مربوب نہیں ہے‘ کیونکہ اگر کوئی رب خود مربوب ہو گا تو وہ بھی دوسرے مربوبوں میں سے ہے۔

جب یہ موضوع ایک منطقی بنیاد رکھتا ہے‘ یعنی منطق اس امر کے لئے کافی ہے کہ انسان کو اس تک پہنچا دے تو یہ کیا بیماری اور عارضہ ہے کہ انسان ایسے دلائل اور ایسی تاویلات میں پڑے؟ یہ بات تو کچھ ایسی ہے جیسے کسی ہال کا دروازہ کھلا ہو اور وہاں ایک نشست کا آغاز ہو چکا ہو‘ پھر کسی آدمی کو ہم ہال کے کمرے میں دیکھیں اور کہیں کہ یہ آدمی کہاں سے آ گیا؟ کیا وہ ایئرکنڈیشن والے سوراخ میں سے آیا ہے؟ کیا وہ دیوار میں نقب لگا کر آیا ہو گا؟ یا کیا چھت پھاڑ کر آیا ہو گا؟ کہیں گے ارے بھائی‘ دروازہ کھلا ہے‘ وہاں سے آیا ہے‘ اگر دروازہ بند ہو‘ پھر کوئی اجنبی دکھائی دے تو ادھر ادھر دیکھنا چاہئے کہ کہاں سے آیا ہے؟ لیکن جب دروازہ کھلا ہو تو پھر یہ عارضہ ہی ہے کہ انسان سوچنے لگے کہ یہ کس سوراخ سے آ گیا ہے۔

قرآن کی منطق قوی ہے یا ان کی منطق؟ قرآن خاص طور پر حضرت ابراہیم کی مثال کا ذکر کرتا ہے۔ وہ ابراہیم جوسولہ ( ۱۶) برس کی عمر تک ایک ایسی جگہ پر تھے‘ جہاں سے وہ دنیا کو نہ دیکھ سکے‘ اتنا عرصہ وہ بس ایک غار ہی میں رہے۔ کہتے ہیں کہ شروع شروع کا انسان یعنی ابتدائی ترین انسان کہ جس کی فطرت بالکل بے آلائش اور ہر طرح کے خارجی اثرات سے محفوظ تھی‘ اپنی فطرت کے ذریعے اس طرح کے فیصلے پر پہنچتا ہے‘ یعنی یہ تو سادہ ترین مسائل میں سے ہے۔ یہ تو ہو گیا مسئلہ کا ایک پہلو۔

دوسرا پہلو یہ کہ کیا شروع شروع کا انسان اس کائنات میں اس حیرت انگیز نظم کو نہیں دیکھ پاتا تھا؟ کیا شروع شروع کا انسان درخت نہیں اگاتا تھا؟ جب وہ دیکھتا تھا کہ ایک سادہ سا بیج جب زمین میں بویا جاتا ہے تو وہ ایک درخت کی صورت اختیار کر لیتا ہے‘ پھر اس پر اس قدر پھول‘ پتے اور پھل نکل آتے ہیں۔ کیا یہ بات اسے ورطہ حیرت میں نہ ڈال دیتی تھی؟ کیا وہ اپنے جسم کے نظام کو نہ دیکھتا تھا؟ کیا یہی نظم و نسق انسان کو حیران نہ کر دیتا تھا کہ ہم کہہ سکیں کہ یہی امور انسان کے خدا اور مذہب کی طرف رجحان کا سبب بن گئے؟ اب آپ چاہیں تو اسے غلط کہہ لیں۔ میں کہوں گا‘ کیا یہ چیزیں انسان میں اس فکر کے پیدا کرنے کے لئے کافی نہ تھیں؟ جب فکر انسانی کے لئے یہ سب بنیادیں فراہم ہیں اور جب منطقی اور فکری دروازے کھلے ہیں تو پھر ہم کیسے ان سے آنکھیں پھیر لیں اور پھر کہیں کہ خوف انسانی فکر میں تصور خدا کی پیدائش کا سبب بنا ہے؟ (ہم کہہ چکے ہیں کہ فکر انسانی کی بنیاد یہ ہے کہ وہ غور و فکر کرے‘ چاہے غلط ہو جیسے زمین کی حرکت اور سورج ساکن ہونا)۔ کیا جہالت اور واقعات کے اسباسب کو نہ پہچاننا سبب بن گیا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے مردوں کو خواب میں دیکھا اور روحوں کی دوئی تک پہنچا؟ جب ایک سارا دروازہ کھلا ہے‘ تو پھر یہ کیا جنون ہے اور یہ کیا سبب ہے کہ انسان ایسی چیزوں کا متلاشی ہو؟ جبکہ اسے نہیں ہونا چاہئے‘ جبکہ اس کے پاس فکری اور منطقی بنیاد موجود ہے۔ اولاً ابتدائی انسان کے لئے بھی اسی قدر کافی ہے کہ خدا کا تصور اسے حاصل ہو۔ ثانیاً تاریخ شاہد ہے کہ جس دور کو یہ لوگ ماقبل تاریخ زمانہ کہتے ہیں‘ اس کے جس قدر تاریخی آثار موجود ہیں‘ ان سے بھی اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ اس دور میں بھی بہت سے مفکر لوگ موجود تھے۔ اب ہمارے بقول وہ پیغمبر تھے اور ان کے بقول وہ فلسفی تھے کہ جو اس امر کے لئے کافی تھے کہ اس سلسلے میں انسان کی رہنمائی کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ

”ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان چونکہ واقعات و امور کی بنیادوں اور اصول سے بے خبر تھا‘ لہٰذا اس جہالت و لاعلمی کی وجہ سے انسانی فکر بھٹک گئی ہے۔“

گویا ایک جہالت اور دوسرا دلالت پر فطری اعتقاد‘ کیونکہ اگر علیت پر اعتقاد نہ ہو تو فقط جہالت (کسی عقیدہ کے اختیار کرنے کیلئے) کافی نہیں ہے۔ میں نے اسے پہلا قدم اور دوسرا قدم کا نام دیا ہے۔

پہلا قدم

یہ ہے کہ انسان کہتا ہے کہ یہ واقعہ بغیر کسی علت و سبب کے نہیں ہو سکتا۔ انسانی ذہن یہاں تک کہ ایک تین یا چار سال کے بچے کا ذہن بھی جب کسی واقعہ یا مسئلہ کا سامنا کرتا ہے تو سبب اور علت کو جاننے کا خواہش مند ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک تین چار سال کا بچہ جب کہیں سے کوئی آواز سنتا ہے‘ اب آپ چاہے اسے ایک مفہوم سے دوسرے کی طرف ذہن کے سفر کا نام دیں یا کچھ اور‘ بہرحال وہ ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے۔ وہ اس کی علت اور سبب کو جاننا چاہتا ہے‘ یعنی اس کا ذہن اس بات کو نہیں مانتا کہ آواز خود بخود پیدا ہو گئی ہے‘ یعنی ابتدائی انسان ہمیشہ علت کا متلاشی رہا ہے۔

دوسرا قدم

میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ دوسرا قدم ایک انتہائی سہل و آسان قدم ہے۔ یہ کوئی ایسا قدم نہیں ہے کہ بیسویں صدی آن پہنچے‘ تب انسانی فکر اس تک رسائی حاصل کرے‘ تب وہ کہتے کہ خود علت کیسے وجود میں آئی ہے؟ اسے علت کی علت کا مسئلہ کہتے ہیں اور پھر یہ مسئلہ پیش آئے کہ کیا ایک ایسی چیز ہے کہ جو ان تمام چیزوں کی علت ہو یا ایسا کوئی وجود نہیں ہے؟ یہ سوال بہت جلد انسان کے ذہن میں ابھر آتا ہے‘ جب یہ سوال ابھرے وہی بات جو قرآن کہتا ہے یعنی جو انسانی فطرت میں ہے کہ

”جب انسان مربوبیت کے پہلو کو دیکھتا ہے‘ یعنی تغیر و تبدل کا مشاہدہ کرتا ہے‘ جب دیکھتا ہے کہ چیزیں تغیر اور تبدل کا شکار ہوتی ہیں اور اپنی خواہش کے بغیر آتی جاتی ہیں‘ تو پھر وہ تغیر و تبدل کے عامل کی جستجو کرتا ہے۔“

”ثبات صرف تغیر کو ہے زمانے میں“ وہ دیکھتا ہے کہ تمام اشیاء تغیر و تبدل کے قانون کی پابند ہیں‘ یعنی محسوس کرتا ہے کہ ان سب کی سرشت میں یہ بات سمائی ہوئی ہے‘ یعنی یہ سب تغیر پذیر چیزیں ہیں کہ جن پر کوئی ایک طاقت یا کئی قدرتیں حکم فرما ہیں اور یہ سب کسی اور کی تابع فرمان ہیں‘ محکوم بھی ہیں اور مربوب۔ اس کے ذہن میں اچانک یہ بات ابھرتی ہے کہ کیا کوئی ایسی طاقت و قدرت موجود ہے جو فقط حاکم ہو محکوم نہ ہو‘ تغیر دینے والی ہو اور خود متغیر نہ ہو؟ ایسے سوال کا ذہن میں ابھرنا مکمل طور پر ایک طبیعی اور فطری امر ہے۔

منطقی فکر سے یہاں میری یہ مراد نہیں ہے کہ منطقی فکر ہمیشہ درست ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور یہ کہ منطق نے انسان کی رہنمائی کی ہو‘ یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ منطق کبھی تو انسان کی رہنمائی کرتی ہے‘ اگرچہ وہ رہنمائی غلط ہو‘ لیکن بہرحال فکر ہے کہ جس نے انسان کی رہنمائی کی ہے‘ یعنی انسان کو خود اس کے اندر سے ہدایت ملی ہے‘ یعنی وہ اس کی قوت ادراک ہے کہ جس نے اسے یہاں تک پہنچایا ہے۔ قوت ادراک سے ماوراء کوئی عامل نہیں ہے‘ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ زمین کے ساکن ہونے اور اس کے گرد سورج کی گردش کا نظریہ ایک غلط نظریہ تھا‘ لیکن یہی انسان کے ادراک کی قوت تھی کہ جس کے باعث انسان کئی ہزار سال تک اس غلط نظریے پر قائم رہا۔ اس سے ماوراء کوئی عامل نہ تھا کہ جس کی بناء پر ہم یہ کہیں کہ چونکہ اب یہ غلط ثابت ہو گیا ہے‘ لہٰذا آئیں دیکھیں کہ کہیں اس کی علت کوئی خواب تو نہ تھا یا اس جیسی کوئی اور چیز؟ نہیں بلکہ انسان حس رکھتا ہے‘ فکر کرتا ہے‘ اپنی حس کی بنیاد پر وہ سوچتا اور فکر کرتا ہے۔ آنکھ بظاہر دیکھتی تھی کہ زمین حرکت نہیں کرتی اور سورج متحرک تھا‘ کچھ اوپر کو اٹھتا تھا اور پھر مزید اوپر کو اٹھتا تھا‘ اسے دیکھا تو انسان نے خیال کیا کہ اس کی اس حس نے کوئی غلطی نہیں کی‘ لہٰذا اس مسئلے کے ادراک اور فکر سے ماوراء کوئی علت نہیں ہے۔

لہٰذا ہم جو کہتے ہیں کہ ان مسائل کے لئے ہمیشہ منطق اور ادراک سے ماوراء کی علت کی جستجو آخر کیوں کی جاتی ہے؟ ہمیں اس صورت میں ادراک اور فکر کی قوت سے ماوراء کی علت کی کھوج میں نکلنا چاہئے کہ جب دیکھیں کہ ہم ادراک اور فکر کے حوالے سے اس کی کوئی دلیل نہیں پیش کر سکتے‘ پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہو سکتی‘ لہٰذا اس کا کوئی غیر ادراکی عامل موجود ہے‘ جسے یہ لوگ جہل کہتے ہیں‘ وہ اس جہل سے مختلف ہے کہ جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انسان کے فکر و استدلال کیا ہیں؟ لیکن وہ اپنے استدلال میں غلطی کر بیٹھا۔ یہ وہی جہل ہے کہ جس کا ایک فلسفی اپنے فلسفے میں اور ایک عالم اپنے علم میں مرتکب ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک جہل سے مراد ایسا جہل ہے کہ جو ایک وہم کے سوا کچھ نہیں۔

مثال کے طور پر انسان نے ایک خواب دیکھا‘ خواب میں اس نے اپنی دوئی کو محسوس کیا۔ پھر سوچنے لگا کہ سب چیزیں روح رکھتی ہیں‘ مثلاً اگر بارش ہوئی تو فوراً اس نے اسے کسی چیز سے منسوب کر دیا اور پھر اس کا نام خدا رکھ دیا۔

یعنی لوگ حقیقی مادی اسباب و علل سے لاعلمی کی بناء پر فوراً اسے ایک ماوراء طبیعت (فطرت یا مادیت) عامل سے منسوب کر دیتے ہیں۔

ایسا ہی نہیں ہے کہ یہ لوگ اصول دلالت کو بالکل قبول نہ کرتے ہوں‘ بلکہ کسی حد تک قبول کرتے ہیں‘ یعنی ان کے بیانات میں بھی۔ خاص طور پر اگسٹ کانٹ کے قول کے مطابق انسان نے شروع شروع میں علت دریافت کرنا چاہی‘ لیکن وہ بات کو یہیں پر چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فکر انسانی یہیں رک گئی اور توہمات کے پیچھے چل پڑی‘ یعنی فکر انسانی نے اس سے ایک قدم آگے نہ بڑھایا یا صرف اصول علیت کو قبول کر لیا اور پھر اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ گویا انسان اس سے آگے نہ سوچ سکا اور یہیں رک گیا اور چونکہ فکر انسانی اس مسئلہ کو حل نہ کر سکی‘ لہٰذا انسان نے مفروضے بنا لئے اور صرف توہمات کو اپنا لیا‘ جو کسی بھی فکر و منطق سے ہم آہنگ نہیں ہیں‘ یعنی انسان نے کوئی منطقی غلطی نہیں کی‘ بلکہ توہم اور مفروضہ کا شکار ہو گیا۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ آغاز سے انجام تک یہ انسان کی منطقی فکر تھی کہ جس نے اسے اس مقام تک پہنچایا۔ اگر فرض کریں کہ اس نے غلطی بھی کی ہو تو اس کی یہ غلطی منطقی نوعیت کی ہے۔ (شہید مطہری کی موجودہ تقریر کے آخری چند منٹ کا بیان ریکارڈ نہ ہو سکا‘ جو افسوس کا باعث ہے)