فطرت

فطرت 0%

فطرت مؤلف:
زمرہ جات: فلسفہ

فطرت

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات:

مشاہدے: 21275
ڈاؤنلوڈ: 4077

تبصرے:

فطرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21275 / ڈاؤنلوڈ: 4077
سائز سائز سائز
فطرت

فطرت

مؤلف:
اردو

باب دہم

دین کی پیدائش کے بارے میں قرآنی نظریہ

متعدد نشستوں میں ہم نے اس سلسلے میں گفتگو کی ہے کہ مذہبی عمرانیات کے لحاظ سے انسان کے دین و مذہب کی طرف رجحان یا دین و مذہب کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات کیا ہیں؟ خاص طور پر ان حضرات کی باتوں کی روشنی میں ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ جس نے بھی جو کچھ کہا ہے وہ چند مفروضوں کے علاوہ کچھ نہیں یعنی ان میں سے ہر ایک کی علمی لحاظ سے حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک مفروضے کی ہے۔

کسی ایسے نظریے کی حیثیت نہیں کہ جو ایک مفروضے کے بعد ثابت ہو چکا ہو۔ نظریے اور مفروضے میں فرق ہے کبھی انسان کسی چیز کے بارے میں ایک فرض کرتا ہے یعنی اسے اس کا احتمال ہوتا ہے یہ احتمال پہلے مرحلے میں ایک عنوان کے طور پر ہوتا ہے تاکہ بعدازاں ہم دیکھیں کہ کیا دلائل اس کی تائید کرتے ہیں یا نہیں لیکن نظریہ جب ہوتا ہے کہ دلائل بھی اس کی تائید کریں بذات خود مفروضوں کا مختلف ہونا اس امر پر دلیل ہے کہ یہ نظریہ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے دیکھا ہے کہ کسی نے بھی اپنی بات کی تائید میں کوئی دلیل ذکر نہیں کی جس کا یہ کہنا ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایک طرح کی دوگانگی رکھتا ہے۔ ایک اس کا وجود عالی و متعالی ہے اور ایک وجود دنی و پست آہستہ آہستہ وہ اپنے عالی وجود سے غافل ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس کے لئے اپنے آپ میں ہوتا ہے اسے اپنے سے غیر کی طرف نسبت دیتا ہے۔ اس نظریے کے حامل سے ہم کہتے ہیں کہ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ اس کی حیثیت ایک مفروضے سے بڑھ کر کچھ نہیں بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ دلیل اس کے برخلاف موجود ہے۔ ہماری ایک دلیل کہ جس سے ہم ہمیشہ استثناء کرتے ہیں یہ ہے کہ دین کے طرفدار و حامی یعنی دین کی طرف رجحان رکھنے والے کن گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا یہ ایسے لوگ ہیں طبیعتاً ابتدائی ساخت سرشت آپ اس کا جو بھی نام رکھیں کے لحاظ سے نحیف و شریف ہیں؟ یا کیا ایسے لوگ کہ جو اپنی بزرگی اور مقام کا احساس رکھتے ہیں وہ دین کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے صرف وہ لوگ جو اپنی حیثیت و مقام گنوا چکے ہیں اور فراموش کر چکے ہیں دین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض یہ اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض بھی ایک بات ہی ہے کہ آپ جنہیں دیکھتے ہیں کہ وہ ”مومن“ ہیں۔ یہ اس قدر پاک لوگ ہیں کہ دین نے انہیں یوں پاکیزہ نہیں بنایا یہ تو پہلے ہی پاک تھے بعد میں دین کی طرف آئے ہیں۔ اگر کوئی اس طرح سے اعتراض کرے تو قبولیت سے کچھ نزدیک تر ہے اس صورت کے مقابلے میں کہ کہا جائے کہ جو افراد پاکیزگی مقام و شرافت اور دیگر تمام خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں فراموش کر دیتے ہیں اور چونکہ انہیں گنوا بیٹھتے ہیں ان بزرگیوں اور خوبیوں کو کسی اور طرف منسوب کر دیتے کہ جسے خدا کہتے ہیں۔ لہٰذا آپ دیکھیں کہ قرآن کے لطیف نکات کیسے ہیں ایک مسئلہ زیر سوال ہے۔ زیادہ تر کہتے ہیں کہ قرآن ایسا کیوں کہتا ہے کہ

ذلک الکتاب لا ریب فیه هدی للمتقین

”یہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔“

اور ایسی آیات قرآن میں بے شمار ہیں یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ اس جگہ پر فرض کیا گیا ہے پہلے لوگ متقی ہیں بعد میں قرآن متقیوں کو ہدایت کرتا ہے۔

یا سورئہ مبارکہ ”یس“ میں ہے:

یس والقرآن الحکیم انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم تنزیل العزیز الرحیم لتنذره فوما ما انذر آباؤ هم فهم غافلون انما تنذر من اتبع الذکر وحشی الرحمن بالغیب (یس ۱ ۔ ۱۱)

میرا مقصود آخری آیت ہے اس کا جواب دیا گیا ہے:

”تم تو بس اس شخص کو ڈرا سکتے ہو جو نصیحت مانے اور بے دیکھے خدا کا خوف رکھے۔“

میرا خیال ہے کہ تفسیرالمیزان میں بھی یہ بات ہے کہ انسانوں کے لئے دو طرح کی ہدایت ہے ہدایت فطری اور ہدایت اکتسابی۔ قرآن کہنا چاہتا ہے کہ جب تک کسی کی ہدایت فطری کی قندیل روشن نہ ہو تو ہدایت اکتسابی کا اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا مطلب درحقیقت یہی ہے کہ جب تک کسی شخص کی فطری انسانیت موجود نہ ہو (انبیاء کی تعلیمات کا اس کیلئے) کوئی فائدہ نہیں یعنی انبیاء کی تعلیمات مسخ شدہ افراد اور اپنی انسانیت گنوائے بیٹھے لوگوں کے لئے مفید نہیں۔ یہ بات ان کے نظریے کے بالکل برعکس ہے تجربے اور واقعیت نے بھی یہی بات ثابت کی ہے۔ مثلاً سورئہ ماعون سے میں نے اخذ کیا:

ار ایت الذی یکذب بالدین (الماعون ۱)

”کیا تو نے اس شخص کو دیکھا کہ جو دین کو جھٹلاتا ہے۔“

پہلے تو تعجب کی صورت میں بات کی گئی ہے کہ انسان انسان ہو اور دین کو جھٹلائے؟ اس کے بعد اس کی علامات بیان کی گئی ہیں کہ چونکہ یہ شخص انسانیت سے نکل گیا ہے اس لئے دین کی تکذیب کرتا ہے:

فذ لک الذی یدع الیتیم (الماعون ۲)

”یہی وہ شخص ہے کہ جو یتیم کو دھتکارتا ہے۔“

یعنی یہ امر انسانیت کی شرط ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان کو یتیم سے ہمدردی ہو:

ولا یحض علی طعام المسکین (الماعون ۳)

”یہی وہ شخص ہے کہ جو مسکین کو کھلانے اور بھوکوں کو سیر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔“

اس میں تاکید و ترغیب نہیں ہے یعنی اس نے پہلے اپنی انسانیت گنوا دی ہے اور جو شخص اپنی انسانیت گنوا بیٹھے لازمی طور پر اپنی اسلامیت بھی پہلے ہی گنوا بیٹھا ہے یعنی اب وہ ایک معمول کا انسان نہیں ہے ایک مسخ شدہ انسان ہے۔ ہم اصل موضوع سے ایک بار پھر دور ہو گئے ہیں میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی باتیں نہ صرف بے دلیل مفروضے ہیں بلکہ ایسے مفروضے ہیں کہ دلیل ہمیشہ ان کے خلاف ہوتی ہے۔ کمیونسٹوں کا مفروضہ کہ ”دین استعماری طبقے کی ایجاد ہے“ مکمل طور پر تصورات پر مبنی ایک مفروضہ ہے۔ اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے تاریخی اور موجودہ حقائق اس کی مکمل طور پر نفی کرتے ہیں اور سب دلیلیں اس کے خلاف ہیں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی اساس اور بنیاد کے بارے میں قرآن کا نظریہ کیا ہے؟ کبھی ہم دین کو اس حوالے سے دیکھتے ہیں کہ یہ انبیاء کی طرف سے عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے؟ واضح ہے کہ اس کی اساس اور سرچشمہ وحی ہے لیکن کیا اس وحی کی اساس اور سرچشمہ بھی انسانوں کے اندر موجود ہے؟ جبکہ یہ وحی کچھ معارف کو معارف دین کے طور پر پیش کرتی ہے اخلاق اور نظام تربیت کو پیش کرتی ہے قانون اور قاعدے کو پیش کرتی ہے اور مجموعی طور پر یہی وحی انسانی فکر و عمل کے ایک راستے کا تعین کرتی ہے۔

قرآن کی خصوصی تعلیمات سے قطع نظر یہ امر طبیعت دین کے خلاف نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ دین فقط ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ نے وحی کے ذریعے انسان کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے پیش کئے جانے سے پہلے انسان دین اور لادینی کے بارے میں ایک لاپرواہی اور لاتعلقی کی حالت میں تھا۔

ہم کہہ چکے ہیں کہ اس صورت میں انسان کی مثال ایک دیوار کی سی ہو جائے گی جیسے ایک سفید صفحہ اور ایک کورے کاغذ کا تعلق ان نقوش سے ہوتا ہے کہ جو اس پر کھینچے جاتے ہیں اس لحاظ سے کہ اس کاغذ کی حالت ایک قابلیت و امکان کی ہے گویا وہ لاتعلق ہوتا ہے۔ اس کاغذ میں یہ استعداد اور قابلیت ہے کہ کچھ اس پر لکھا جائے یا اس پر کچھ نہ لکھا جائے یعنی لکھا جانا اور نہ لکھا جانا اس کے لئے برابر ہے۔ اب جو کچھ دیکھا جائے چاہے وہ قرآنی آیت یا خلاف قرآن کوئی چیز ہو کاغذ کے لئے مساوی ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ کہے کہ انسان اپنی سرشت کے اعتبار سے دین کے لئے صرف ایک امکانی حالت اور ایک لاتعلقی کی کیفیت کا حامل ہے۔

اللہ نے صرف انبیاء کو مبعوث کیا وہ آئے اور انہوں نے اس دین کی لوگوں کو دعوت دی کہ جس کے بارے میں وہ لاتعلقی کی کیفیت کے حامل تھے اگر کوئی یہ بات کرے تو اس کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ منکر ادیان ہو گیا ہے یہ بھی ایک بحث ہے۔

لیکن دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انبیاء نے جو کچھ پیش کیا ہے ایسی چیز نہیں کہ جس کے بارے میں انسان لاتعلقی کی حالت میں تھا اور ایک مساوی کیفیت کا حامل تھا بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی آرزو انسان کی سرشت اور ذات کے اندر موجود ہے یعنی اس کی طلب اس کی خواہش اور اس کی جستجو انسانی طبیعت اور سرشت میں موجود ہے۔ اس صورت میں انبیاء کی حیثیت ایک باغبان کی سی ہو جائے گی کہ جو کسی پھول یا پودے کی پرورش کرتا ہے کہ خود اس پودے یا پھول میں ایک صلاحیت یعنی ایک خاص چیز کی طلب موجود ہے۔ اگر خوبانی کی گُٹھلیکو زمین میں بویا جائے تو یہ کھجور خوبانی یا آلوبخارا بننے سے لاتعلق نہیں ہوتی۔ باغبان کے ہاتھ میں اختیار نہیں ہے کہ آ کر خوبانی یا آلوبخارا یا کھجور بنا لے ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ جو کچھ چاہے بنا لے۔

انسان کے اندر بھی خواہش اور آرزو اور طلب کے معنی میں ایک فطرت موجود ہے انبیاء کی مبعث ایسی ضرورت کا جواب ہے کہ جو انسانی سرشت میں موجود ہے۔ درحقیقت انسان اپنی سرشت کے لحاظ سے جس چیز کی جستجو میں تھا اور ہے اور رہے گا وہی چیز انبیاء نے اس کے سامنے پیش کر دی ہے اور پیش کرتے ہیں یہی فطرت کا معنی ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا معارف اسلامی میں مسئلہ فطرت کی طرف کوئی صراحت یا اشارہ موجود ہے یا نہیں؟ اس میں شک نہیں کہ اسلام میں فطرت کا مسئلہ بڑے شد و مد سے ذکر کیا گیا ہے البتہ فطرت کی تعبیر میں ممکن ہے کہ علماء کے استنباطات مختلف اور متعدد ہوں مگر اس اصل نظریے میں علماء اسلام میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی کوئی اختلاف نہیں کہ فطرت کا کہ جسے فطرت دین فطرت اسلامیت فطرت توحید غرض مختلف ناموں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے انسانی سرشت میں موجود نہیں۔ اب ہم اس کی طرف کچھ اشارہ کرتے ہیں:

ان میں سے ایک وہی سورئہ مبارکہ روم کی مشہور آیت فطرت ہے:

فاقم و جهک للدین حنیفا

”اپنا رخ مضبوطی سے دین کی طرف کر لے۔“

یعنی دین کو مضبوط رکھ اسے پائیدار رکھ اپنی توجہ اس کی طرف رکھ ”حنیفاً“ یعنی حنیف ہونے کی حالت میں ہم کہہ چکے ہیں کہ شاید ”حنیف“ کا نزدیک ترین ترجمہ ہے ”حق کی طرف رجحان رکھنے والا“ یعنی اس حالت میں کہ تو مائل بہ حق اور مائل بہ حقیقت ہو:

فطرة الله التی فطر الناس علیها

یعنی تجھے فطرت الٰہی عطا کی گئی ہے یعنی یہی دین تجھے دیا گیا ہے کہ جو فطرت الٰہی ہے۔ یہ خلقت (ہم کہہ چکے ہیں کہ فطرت سے مراد ایک خاص طرح کی خلقت ہے) یہ دین تخلیق کی وہ خاص نوعیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو جس پر پیدا کیا ہے:

لا تبدیل لخلق الله

اس میں ثبات اور استقلال ہے اور تغیر اور تبدل سے بالاتر ہے انسانی سرشت کا حصہ ہے جب تک انسان دنیا میں ہے اور جب تک انسان انسان ہے جو بھی انسان پیدا ہوتا ہے اسی سرشت پر پیدا ہوتا ہے یعنی انسانوں کی سرشت کو نہیں بدلا جا سکتا اسے کسی دوسری چیز میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا:

ذلک الدین القیم (روم ۳۰)

”یہ ہے صحیح دین غیر معمولی طور پر درست اور مستقیم۔“

یہ آیت کمال صراحت سے دین کو سب انسانوں کے لئے ”فطرة اللہ“ قرار دے رہی ہے۔ اگر ضروری ہوا تو ہم بعدازاں اس مسئلے پر مزید گفتگو کریں گے۔

اسی طرح سورئہ مبارکہ یٰسین میں فرمایا گیا ہے:

الم اعهد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انه لکم عدو مبین و ان اعبدونی هذا صراط مستقیم و لقد اضل منکم جبلا کثیرا افلم تکونوا تعقلون (یٰسین ۷۰-۷۲)

ان آیات میں ایک عہد و پیمان ہے: اے بنی آدم! اے اولاد آدم (یہاں کسی ایک شخص دو شخص ایک امت یا دو امتوں کا ذکر نہیں) کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا؟ کہتا ہے کہ کیا میں نے اور تم نے پہلے ایک دوسرے سے عہد نہیں کیا ہے اور پیمان نہیں باندھا کہ تم شیطان کی پوجا نہ کرو گے؟ یہاں شیطان کی پرستش سے مراد یہ نہیں کہ ایک محراب میں چلے جائیں شیطان کا مجسمہ دیت بنائیں بلکہ مراد شیطان کی پیروی ہے ”و ان اعبدونی“ ہم نے ایک دوسرے سے پیمان باندھا ہے (سمجھوتہ کیا ہے) کہ تم شیطان کی پوجا نہ کرو گے بلکہ میری عبادت کرو گے۔ ”ھذا صراط مستقیم“ تمہارے لئے راستہ کہ جو تمہیں کمال و سعادت تک پہنچا دے یہی ہے۔

ایک اور آیت بھی ہے کہ جو ”آیہ ذر“ کے نام سے مشہور ہے:

واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظهور هم ذریتهم و اشهد هم علی انفسهم الست بربکم قالوا بلی شهدنا ان تقولوا یوم القیمة انا کنا عن هذا غافلین او تقولوا انما اشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریة من بعد هم افتهلکنا بما فعل المبطلون (اعراف ۱۷۲ ۱۷۳)

یہ ایک عجیب آیت ہے اس کی تفصیل رہنے دیجئے۔ دو تین حصے دیگر بیان کر لوں پھر اس آیت کی مفصل تر تفسیر کروں گا۔ کچھ اور بھی آیتیں قرآن میں ہیں لیکن شاید اتنی صراحت نہ ہو اگرچہ ان میں سے بعض کی صراحت کم بھی نہیں ہے جیسے یہ آیت:

افی الله شک فاطرالسموات و الارض (ابراہیم ۱۰)

”آیا اللہ میں شک ہے؟ وہ اللہ کہ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔“

یعنی انسان اور اللہ کے رابطے کی صورت ایسی ہے کہ شک و تردد کی گنجائش ہی نہیں۔ گویا مسئلہ استدلالی و نظری نہیں کہ کوئی ایک نظریہ اپنا لے اور کوئی دوسرا بلکہ مسئلہ اگر اپنی صحیح صورت میں پیش کیا جائے تو کوئی شخص شک نہ کرے لہٰذا اگر کوئی شک کرے تو مسئلہ اس کے لئے صحیح صورت میں سامنے ہی نہیں آیا اسے دراصل غیر اللہ کے بارے میں شک ہوا ہے کہ جس کا نام اس نے ”اللہ“ رکھ دیا ہے یا پھر اسے شک نہیں ہے بلکہ عناد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے۔ اس آیت کو بھی ہم آیات فطرت میں سے شمار کر سکتے ہیں۔

ایک اور بھی آیت ہے کہ جس کے بارے میں کچھ زیادہ ہے۔ اس آیت میں موضوع کو کنایہ اور اشارے کی صورت میں " Symbolic " بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

انا عرضنا الامانة علی السموات و الارض و الجبال فا بین ان یحملنها و اشفقن منها و حملها الانسان انه کان ظلوما جهولا (احزاب ۷۲)

”ہم نے وہ امانت (کہ جس کا قرآن نام نہیں لیتا) سب موجودات کو پیش کی۔ آسمان زمین پہاڑ (گویا بڑی بڑی چیزوں کے نام لیتا ہے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کو پیش کیا) سب نے اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا (ایک موجود نے اسے اٹھانا قبول کر لیا) اور وہ انسان تھا (اس کے بعد فرماتا ہے) یہ انسان ظلوم و جہول تھا۔“

اس آیت کے بارے میں کافی بحث ہے۔ اب اس بارے میں بھی بحث ہے کہ کیا یہ آیت مسئلہ فطرت سے مربوط ہے یا نہیں؟ مجھے بس اتنا ہی اشارہ کرنا تھا۔

قرآن میں کچھ اور بھی آیات کہ جو اس قدر صریح نہیں ہیں لیکن بعض مفسرین نے ان کے لحاظ سے تفسیر کی ہے جیسے یہ آیت:

ولئن سئلتهم من خلق السموات و الارض لیقولن الله (لقمان ۲۰)

”اگر آپ ان لوگوں (کافروں اور مشرکوں) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو کہیں گے اللہ نے۔“

اس آیت کی دو طرح سے تعبیر کی گئی ہے بعض کہتے ہیں کہ مقصود قرآن یہ ہے کہ خالقیت الٰہی پر ان کا کامل ایمان ہے یعنی یہ اللہ کو خالق سمجھتے ہیں اور بتوں کو خالق اور خالقیت الٰہی میں شریک نہیں سمجھتے۔ خرابی ان میں یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ اللہ کو خالق مطلق جانتے ہیں پھر بھی عبادت میں غیر خالق قرار دیتے ہیں اگر ایسا ہو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کا متعارف اور مروج اعتقاد تھا۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے پست عقائد کے اعتبار سے نہیں کہ شرک پر ان کا اعتقاد ہے بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے غور تک نہیں کیا لیکن اگر آپ ان سے یہ پوچھیں گے کہ خالق کون ہے؟ تو ان کی فطرت جواب دے گی ”اللہ“۔

یہ آیات بھی اس حوالے سے ذکر کی گئی ہیں لیکن فی الحال آیات کا ذکر رہنے دیتے ہیں۔ تین جملے میں آپ کے لئے نقل کرتا ہوں ایک حضرت رسول اللہ سے ایک نہج البلاغہ سے اور ایک صحیفہ سجادیہ سے۔ البتہ ان کا ذکر میں نمونے کے طور پر کر رہا ہوں وگرنہ فطرت کے بارے میں ہمارے پاس ان سے زیادہ احادیث و روایات ہیں۔ رسول اللہ سے منقول حدیث معروف (اس حدیث کو زیادہ تر اہل سنت نے روایت کیا ہے البتہ شیعوں نے بھی اسے نقل کیا ہے ان کے ہاں متعدد ہیں جبکہ شیعوں کے ہاں میں نے ایک جگہ سے زیادہ یہ حدیث نہیں دیکھی) یہ ہے:

کل مولود یولد علی الفطرة فابواه یهودانه او ینصرانه او یمجسانه

”جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ فطرت الٰہی اور فطرت اسلامی پر دنیا میں آتا ہے اس کے ماں باپ (واضح رہے کہ ان کا ذکر خارجی عوامل کے نمونے کے طور پر کیا گیا ہے) اسے بدل دیتے ہیں۔ اگر وہ یہودی ہوں تو اسے یہودی بنا دیتے ہیں عیسائی ہوں تو اسے بھی عیسائی کر دیتے ہیں اور خود مجوسی ہوتے ہوں تو اسے بھی مجوسی بنا دیتے ہیں۔“

(صحیح بخاری کتاب الجنائز ابواب ۸۰ و ۹۳)

گویا وہ جس گروہ سے ہوں اسے اس گروہ میں لے جاتے ہیں۔

یہ حدیث اہل سنت کے ہاں صحیح بخاری میں ہے اور شیعوں کے ہاں ”کافی“ میں البتہ میں نے قبل ازیں اسے بحار میں دیکھا تھا لیکن بحار میں موجود احادیث (جو اس مضمون کی ہیں) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ سب اہل تسنن کے مآخذ سے تھیں۔ کبھی میرا یہ خیال تھا کہ شیعوں نے اپنی معتبر کتب میں یہ حدیث نقل نہیں کی چونکہ بحار نے بھی اسے ابن ابی جمہور احسائی کی کتاب غوالی اللیالی سے نقل کیا ہے کہ جو حدیث کی معتبر کتاب ہرگز نہیں ہے لیکن بعد میں تفسیرالمیزان میں نظر پڑی کہ اسے ”کافی“ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ اس وقت مجھے یاد نہیں کہ میں نے اسے ”کافی“ میں خود بھی دیکھا ہے یا نہیں البتہ تفسیر المیزان میں اسے اسی آیت ”فاقهم و جهک للدین حنیفاً “ کے ذیل میں ”کافی“ سے نقل کیا گیا ہے۔

اہل تسنن کے ہاں منقول اس حدیث کے ذیل میں بھی ایک بات ہے وہ یہ کہ رسول اکرم نے یہ جملہ کہنے کے بعد ایک مثال ذکر فرمائی یہ مثال بھی اہم ہے۔ آپ نے فرمایا:

”کیا کبھی آپ نے کسی ایسی گوسفند کو دیکھا ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے کان کٹی پیدا ہو؟ یا یہ کہ گوسفند ماں کے پیٹ سے سالم کان کے ساتھ دنیا میں آتی ہے بعد میں انسان حیوان کے کان کاٹ دیتے ہیں۔“

اسلامی فطرت کی مثال آپ نے سالم کان سے دی ہے اور یہی انسانی سرشت و طبیعت کا متقاضی ہے اور غیر اسلام کو آپ نے کٹے کان سے تشبیہ دی ہے کہ جسے ایک خارجی عامل کسی چاقو چھری سے کاٹ دیتا ہے یہ تو ہوئی ایک حدیث۔

نہج البلاغہ کے خطبہ اول میں عالم اور آدم کی خلقت کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد بعثت رسل کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے:

فبعث فیهم رسله

”اللہ نے لوگوں کے درمیان اپنے رسولوں کو مبعوث کیا۔“

وواتر الیهم انبیاء ه

”اور اس کے یکے بعد دیگرے اپنے نبیوں کو بھیجا۔“

یعنی اس نے ایک ہی پر اکتفا نہ کی بلکہ ایک کے بعد دوسرے کو بھیجا۔ اس طرح سے کہ جو بھی آیا اس نے پہلے کی تائید و تاکید کی۔ کیوں؟

لیستا دوهم میثاق فطرته و یذکروهم منسی نعمته و یحتجوا علیهم بالتبلیغ و یثیروا لهم دفائن العقول

فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے انبیاء کو یکے بعد دیگرے بھیجا (یہاں وہ دو نظریے واضح ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ کیا انبیاء اس لئے آئے ہیں کہ ایسی چیز لوگوں کو دیں جس کا پہلے کچھ نام و نشان نہیں یا پھر وہ اس لئے آئے ہیں کہ جس چیز کا پیمان ان کی سرشت میں موجود ہے وہ انہیں یاد دلائیں؟) ”لیستا دوھم میثاق فطرتہ“ تاکہ لوگ سے کہیں کہ جو عہد تمہاری فطرت میں ہے اسے وفا کرو۔ وہ آئے تاکہ لوگوں سے کہیں کہ اے انسان! تیری فطرت کی گہرائی میں اپنے خدا سے تیرا باندھا ہوا پیمان موجود ہے ہم آئے ہیں تاکہ تجھ سے اس عہد کے ایفاء کا تقاضا کریں یعنی بغیر کسی بنیاد کے ابتداء نہیں ہے ایک چیز موجود ہے۔ انبیاء آئے ہیں تاکہ اسے عملی شکل دیں جیسے کبھی یہ صورت ہے کہ آپ بعض افراد سے کسی کام کے لئے قول لیں اور آپ کہیں کہ ہم آئے ہیں تاکہ تم سے اس قول کے پورا کرنے کا تقاضا کریں۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انبیاء اس لئے آئے تاکہ لوگوں سے اس عہد کے ایفاء کا تقاضا کریں جو ان کی فطرت کے اندر موجود ہے۔

و یذکر وهم منسی نعمته

”انہیں وہ نعمتیں یاد دلائیں کہ جن سے وہ غافل ہو چکے ہیں۔“

یعنی انبیاء متوجہ کرنے والے اور یاد دلانے والے ہیں۔ ان کا کام ہے کہ بشر کو وہ چیز یاد دلائیں جس سے وہ غافل ہو چکا ہے یعنی وہ مذکر (یاد دلانے والے اور تذکر دینے والے) یہاں معلم نہیں کہا البتہ انبیاء معلم بھی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن میں نبی کو ”مذکر“ بھی کہا گیا ہے اور ”معلم“ بھی جو چیز لوگوں کی فطرت سے مربوط ہے اس کے لئے نبی ”مذکر“ ہے یعنی یاد دلانے والا۔

ویحتجوا علیهم بالتبلیغ

انبیاء لوگوں کے لئے مذکر ہیں۔ عوام کو تبلیغ کرتے ہیں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح سے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہیں لوگوں کے لئے دلیل لاتے ہیں لوگوں کو مطمئن اور قانع کرتے ہیں اور لوگو ں کا عذر ختم کر دیتے ہیں۔

بعد کی تعبیر ان سب سے عمیق تر ہے۔

ویثیروا لهم دفائن العقول

”دفائن“ یعنی ”خزانے“، ”دفینے“، ”گنجینے“۔ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں خزانے کو زیر زمین دفن کر دیتے تھے اس لئے نہیں کہ خراب نہ ہو جائے بلکہ اس لئے کہ کسی کو اس کا پتہ نہ چل جائے لہٰذا لازماً اس پر مٹی ڈال دیتے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو کہ یہاں خزانہ ہے۔ جو کوئی بھی اس پر سے گزرتا اسے پتہ نہ چلتا کہ اس کے زیرپا کوئی خزانہ ہے۔ انبیاء آئے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ تمہاری روح کی گہرائی میں تمہاری عقول کی تہوں میں اور تمہارے ضمیر باطن کے نہاں خانوں میں خزانے موجود ہیں اور تم ان سے غافل ہو۔ وہ آئے ہیں کہ خزانوں کے اوپر جو کچھ پڑا ہے اسے ہٹا دیں تاکہ انسان حیرت سے دیکھے کہ اس قدر خزانہ میرے اندر موجود تھا اور میں بے خبر تھا ۱۱

سالہا دل طلب جام جام ازما می کرد

آنچہ خود داشت زبیگانہ تمنا می کرد

بی دلی در ہمہ احوال خدا با او بود

او نمی دیدش و از دور خدایا می کرد

”سال ہا سال دل ہم سے جام جم کا تقاضا کرتا رہا جو چیز خود اس کے اپنے پاس موجود تھی اس کی دوسرے سے تمنا کرتا رہا یقیناً سب حالتوں میں خدا اس کے ہمراہ تھا وہ اسے دیکھ نہیں پاتا تھا اور ”خدایا خدایا“ پکارتا رہا تھا۔“

یہی وجہ ہے کہ قرآن میں ہمیں دو طرح کی آیات نظر آتی ہیں آیات آفاقی اور آیاتی انفسی۔ آیات آفاقی یعنی جو انسانی وجود سے باہر ہیں دیگر انسانوں کی خلقیت آسمان زمین ستارے پہاڑ سمندر نباتات حیوانات وغیرہ۔ لیکن آیات انفسی یعنی جو خود وجود انسانی میں موجود ہیں۔ قرآن کے نزدیک آیات انفسی کی اہمیت آیات آفاقی سے زیادہ ہے نیز آفات و انفس کی اصطلاح بھی خود قرآن سے حاصل کی گئی ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:

سنر یهم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق (حم سجدہ ۵۳)

اور جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ بعدازاں یہ جو آفاق و انفس کی اصطلاح علماء اسلام نے استعمال کی ہے اس کا مآخذ قرآن ہی ہے۔

آپ دیکھیں کہ اسلام انسان کے لئے کس قدر اصالت کا قائل ہے۔ انسان ایک فطری ضمیر یا باطن کا قائل ہے۔

و یثیروا لھم دفائن العقول

اور قرآن حکیم میں ہے:

وفی الارض آیات للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون (الذریت ۲۰-۲۱)

”اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں اور خود ان کے نفوس میں نشانیاں ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ اور کیوں دیکھتے نہیں ہو؟“

یہ تو ہو گئی نہج البلاغہ میں موجود ایک جملے کے بارے میں گفتگو۔ ایک جملہ صحیفہ سجادیہ میں ہے اتفاق کی بات ہے کہ جملہ بھی صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا میں ہے کہ جو ساری کی ساری حمد ہے۔ اس کے ابتداء میں چند جملے ہیں:

ابتدع بقدرته الخلق ابتداعا

”اس نے اپنی قدرت سے خلقت کی تخلیق کی۔“

ہم کہہ چکے ہیں کہ ”ابداع“ کا معنی ہے ایسی تخلیق کہ جو پہلے سے موجود کسی مثال اور تقلید کی بناء پر نہ ہو۔ نیز ہم عرض کر چکے ہیں کہ انسان بھی اپنے عالم میں ایک طرح کی تخلیق کا حامل ہے لیکن انسانی تخلیق کا نام اگرچہ ”ابداع“ رکھ لیں تاہم وہ طبیعت و خلقت کی مثال کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کہ جو خالق کائنات ہے اس سے پہلے کوئی چیز ہی نہ تھی کہ جسے وہ دیکھ کر تخلیق کی منصوبہ بندی کرتا (لہٰذا صحیفہ سجادیہ میں بعد کا جملہ یوں ہے

و اخترعهم علی مشیته اختراعا

”اس نے انہیں اپنی مشیت کے مطابق اختراع کیا۔“

”اختراع“ کے معنی بھی ”ابداع“ والے ہی ہیں یعنی صرف اللہ کی طرف سے اختراع ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے ٹیپ ریکارڈ کو اختراع ”ایجاد“ کیا۔ اس کے بعد اسے لوگوں نے بنایا تو اسے اختراع نہیں کہا جا سکتا۔ (اس کے بعد ہے

ثم سلک بهم طریق ارادته وبعثهم فی سبیل محبته (”سلک“ سلوک کرنا یعنی راہ چلنا اور حرکت کرنا جب سلک باء سے متعدی ہو تو اس کا مطلب ہے راہ چلنا)

”ان کی تخلیق کے بعد انہیں اس نے اپنے ارادے کے راستے پر چلایا۔“

بعد کے جملے کو قرینہ قرار دیا جائے تو اس کا معنی یہ ہو گا جس راستے میں اس نے خلق کیا اس کا ارادہ کریں اس راستے میں نہیں کہ جس کا اس نے ارادہ کیا۔ جس راستے میں وہ اسے چاہیں انہیں اس پر ڈال دیا اور اس پر انہیں حرکت دی۔ بعد کا جملہ مطلب کو زیادہ واضح کرتا ہے:

و عثهم فی سبیل محبته

”اس نے مخلوق کو اپنی محبت کے راستے میں اٹھایا۔“

یہ جملہ بہت عجیب ہے یعنی اصلاً مخلوق کی یہ تمام تر حرکتیں اور جنبشیں چاہے خود کوئی سمجھے یا نہ سمجھے محبت خدا کے راستے پر ہیں۔ مسئلہ عشق میں ہم نے کچھ بحث کی ہے ہم نے وہاں کہا ہے کہ حتیٰ کہ جو غیر خدا کی تلاش میں ہے اس کا محرک حقیقی اللہ تعالیٰ کی جستجو ہی ہے اس نے مصداق کی شناخت میں دھوکہ کھایا ہے۔ اب جملے کی ابتداء میں جو لفظ ”خلق“ آیا ہے ”ابتدع بقدرتہ الخلق“ ہو سکتا ہے اس کا مقصود مطلق خلق و آفرینش ہو کہ لازمی طور پر انسان بھی جس میں شامل ہو جاتا ہے اس صورت میں جملے کا معنی یہ ہو گا کہ ہر موجود محبت الٰہی کے راستے پر رواں دواں ہے۔ یہ نباتات کہ جو حرکت کرتے ہیں ان کی اس حرکت میں عشق الٰہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پتھر بھی کہ جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں قوت ثقل کی وجہ سے حرکت کرتا ہے درحقیقت ذات حق کی جستجو میں ہے اور اس کی ذات میں اس کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس ضمن میں آیات بھی ہیں:

و ان من شی الا یسبح بحمده و لکن لا تفقهون تسبیحهم (بنی اسرائیل ۴۴)

”اور کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی حمد (ثنا) کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔“

نیز یہ کہ

افغیر دین الله یبغون وله اسلم من فی السموات والارض (آل عمران ۸۳)

”تو کیا یہ لوگ خدا کے دین کے سوا کوئی اور دین ڈھونڈتے ہیں حالانکہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں خوشی یا زبردستی سے خدا کے فرمانبردار ہیں۔“

نیز یہ کہ

ولله یسجد من فی السموات و الارض (رعد ۱۵)

”اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی سے یا زبردستی سے خدا کے آگے سجدہ کرتی ہیں۔“

یا یہ کہ

سبح لله ما فی السموات والارض (حدید ۱)

”جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔“

نیز یہ بھی:

سبح لله ما فی السموات وما فی الارض (حشر ۱)

”جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں سب خدا کی تسبیح کرتی ہیں۔“

ان آیات کی روشنی میں تو دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے یعنی قرآن ہمیں ایک نہایت عجیب اور وسیع تصور کائنات دیتا ہے۔ عارف مسلک شعراء نے اس ضمن میں بہت کچھ کہا ہے مثلاً مشہور اشعار کہ جو ظاہراً نظامی کے ہیں:

خبرداری کہ سیاحان افلاک

چرا گردند گرد مرکز خاک

چہ می خواہند از این منزل بریدن

کہ می جو یند از این محمل کشیدن

در این محراب گہ معبود شان کیست

از این آمد شدن مقصود شان چیست

”یعنی کیا تجھے خبر ہے کہ افلاک کے سیاح اور گردش کرنے والے مرکز خاک (زمین) کے گرد کیوں گردش کناں ہیں؟ اس منزل سے وہ کیا لے جانا چاہتے ہیں کہ اس محمل سے جسے وہ نکال لانا چاہتے ہیں؟ اس مقام محراب میں ان کا معبود کون ہے؟ اس رفت و آمد سے ان کا مقصود کیا ہے؟“

اس کے بعد کہتا ہے:

ھمہ ہستند سرگردان چو پرگار

پدید آرندہ خود را طلب کار

”یہ سب کے سب پرکار کی مانند اپنے خالق کے متلاشی ہیں۔“

اسی طرح حافظ کا وہ معروف شعر جو اس مشہور غزل میں ہے کہ جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے ۱۱

مادر این در نہ پی حشمت و جاہ آمدہ ایم

از بد حادثہ انیجا بہ پناہ آمدہ ایم

”ہم یہاں پر جاہ و جلال قائم کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ ایک افتاد کے نتیجے میں یہاں پناہ لی ہے۔“

اس کے بعد کہتا ہے ۱۱

رہرو منزل عشقیم ز سرحد عدم

تابہ اقلیم وجود این ہمہ راہ آمدہ ایم

”ہم ملک عدم سے عشق کی منزل کے راہی ہیں اور ہم اسی نتیجے میں چلتے چلتے عالم وجود میں آ گئے ہیں یعنی راز آفرینش محبت ہے۔“ (بہت عمدہ غزل ہے)

آبرو می رود ای ابر خطا شوی ببار

کہ بہ دیوان عمل نامہ سیاہ آمدہ ایم

”اے خطاؤں کے دھونے والے! بادل تو مینہ برسا کیونکہ ہمارا نامہ اعمال سیاہ کارناموں سے پُر ہے اور منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔“

اس ضمن میں حافظ نے بہت کچھ کہا ہے کوئی ایک دو شعر نہیں ہیں اس کی جو غزل کچھ واضح تر ہے اس کا میں ذکر کرتا ہوں ۱۱

روشن از پرتوی رویت نظری نیست کہ نیست

منت خاک درت یر بصری نیست کہ نیست

”کہنا چاہتا ہے کہ کوئی نہیں یہاں تک جو منکر بھی ہے کہ جس کی نظر تیرے رخ کے پرتو سے روشن نہ ہو لیکن خود نہیں جانتا اور نہیں سمجھتا۔“

(پہلی بات کی تاکید اس انداز سے کر رہا ہے)

ناظر روی تو صاحب نظران آری

سر گیسوی تو در ہیچ سری نیست کہ نیست

”کچھ صاحبان نظر ایسے ہیں کہ جو تجھے دیکھتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ تجھے دیکھ رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ دیکھ تو رہے ہیں لیکن خود نہیں جانتے کہ دیکھ رہے ہیں۔“

مصلحت نیست کہ از پردہ برون افتد راز

ورنہ در مجلس رندان خبری نیست کہ نیست

”یہ کہ راز سے پردہ اٹھایا جائے مناسب نہیں ہے اور خلاف مصلحت ہے وگرنہ رندوں کی محفل میں (عرفاء) نہ جاننے اور نہ سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہر چیز واضح اور عیاں ہے۔“

جناب سبزواری صاحب کتاب منظومہ حکیم فلسفی عارف اور ایک غیر معمولی متقی شخص ہیں اگرچہ ان کی شہرت علم کی وجہ سے ہے لیکن ان کا مقام عمل ان کے مقام علم سے بالاتر ہے۔ شعر بھی کہتے ہیں فارسی میں بھی اور عربی میں بھی البتہ ان کا شمار صف اول کے شعراء میں نہیں ہوتا تاہم ان کے اچھے شعر بھی بہت ہیں ان کے بعض اشعار واقعاً بہت عمدہ ہیں۔ حافظ کی اس غزل کا انہوں نے استقبال کیا ہے ایک دو شعر اس میں ایسے ہیں کہ تقریباً حافظ کے پائے کے ہیں اور انہوں نے شہرت بھی بہت پائی ہے۔ کہتے ہیں ۱۱

شورش عشق تو در ہیچ سری نیست کہ نیست

منظر روی تو زیب نظری نیست کہ نیست

”تیرے عشق کا چرچا برپا ہے اور تیرے چہرے کا پرتو ہر نگاہ و نظر میں ہے لیکن کوئی جانتا اور سمجھتا نہیں ہے۔“

وہی حافظ کی بات کو اس انداز سے کہتے ہیں ۱۱

نیست یک مرغ دلی کش نفکندی بہ قفس

تیر بیداد تو تا پر بہ پری نیست کہ نیست

نہ ھمیں از غم او سینہ ما صد چاک است

داغ او لالہ صفت بر جگری نیست کہ نیست

وہ شعر جو بہت مشہور ہے اور جو حاصل غزل ہے یہ ہے ۱۱

موسیٰ ای نیست کہ دعوی انا الحق شنود

ورنہ این زمزمہ اندر شجری نیست کہ نیست

چشم ما دیدئہ خفاش بود ورنہ تو را

پر تو حسن بہ دیوار ودری نیست کہ نیست

گوش اسرار شنو نیست وگر نہ اسرار

برش از عالم معنا خبری نیست کہ نیست

(اسرار جناب سبزواری کا تخلص ہے)۔

بہرحال صحیفہ سجادیہ کا یہ جملہ غیر معمولی طور پر عجیب اور پرمعنی ہے۔ اب اگر ہم ”ابتداع بقدرتہ الخلق“ میں ”خلق“ مطلق خلقت کے معنی میں لے لیں تو پھر یہ جملے تمام تر خلقت کے لئے ایک عمومی فلسفے کی حکایت کرتے ہیں کہ جس میں انسان بھی شامل ہے اور اگر ”خلق“ سے مراد صرف انسان لیں تب بھی واضح ہے کہ انسان تو شامل ہی ہیں۔

یہ وہ چیزیں تھیں کہ جنہیں میں مدارک اسلامی میں موجود ایسے موضوعات کے نمونے کے طور پر عرض کرنا چاہتا تھا۔ اب ایک بات کو مقدمتاً عرض کرنے کے بعد آیت فطرت اور آیت ذر کی شرح کروں گا۔

فطرت دو طرح کی ہو سکتی ہے اور یہ دونوں باہم مانعة الجمع نہیں ہیں (یعنی ایسی نہیں کہ آپس میں جمع نہ ہو سکیں) بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ایک فطرت ادراکی ہے اور دوسری فطرت احساس احساس سے مراد وہی ہے جس کی جمع ہم محسوسات کرتے ہیں۔ فطرت ادراکی سے مراد یہ ہے کہ دین یا خاص طور پر توحید ادراک کی نظر سے یعنی فکری حوالے سے انسان کے لئے فطری ہے۔ دین یا خاص طور پر توحید کے حوالے سے ہم ”فاقم و جھک للدین حنیفا“ پر گفتگو کے ضمن میں کچھ کہیں گے۔ فطرت ادراکی یعنی ایک ایسی فکر ہے کہ عقل انسانی فطرتی طور پر اسے قبول کرتی ہے اور اسے قبول کرنے کے لئے اسے تعلیم و تعلم اور مدرسے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جسے ہم ادراک کی نظر سے فطری کہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اسے دلیل کی ضرورت نہیں یا وہ ایک کلیہ ہے یا اس کا تعلق ایسے امور سے ہے کہ جنہیں اگر دلیل کی ضرورت ہو بھی تو ان کی دلیل ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتی ہے ”قضایا قیاساتها معها “ یعنی وہ امور جن کے دلائل ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔

چونکہ ان کی دلیل ہمیشہ ان کے ہمراہ ہوتی ہے لہٰذا ان کے لئے بھی کسی ایسے معلم کی ضرورت نہیں کہ جو انسان کو مدرسے میں ان کی تعلیم دے اسے ہم ادراک فطری کہتے ہیں کہ جو فکر ادراک اور عقل کی دنیا سے مربوط ہے۔

اب ہم اس کے لئے بھی حدیث سے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں:

تفسیر صافی میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک مفصل حدیث نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کی سند اگرچہ بالکل معتبر نہیں ہے لیکن اس کے معانی کچھ ایسے ہیں کہ شیخ انصاری کہتے ہیں کہ اس کے مطالب سے اس کی درستی اور صحت کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں حدیث ہے بھی بہت جاذب فکر۔ یہ حدیث اس آیت کے ذیل میں ہے:

و منهم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی (بقرہ ۲۸)

”ان میں سے ایک گروہ امی اور ان پڑھ لوگوں کا بھی ہے کہ آرزوؤں اور تصورات کے علاوہ تورات کی کچھ خبر نہیں۔“

جیسے آج کے مسلمان عوام ہیں۔ یہ امی لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ تورات ہے لیکن اگر آپ پوچھیں کہ تورات کیا ہے؟ تو انہیں کچھ پتہ نہیں۔ بعض چیزوں کے بارے میں ممکن ہے خیال کریں کہ یہ تورات میں ہیں کہ جو تورات میں نہ ہوں اور جو چیزیں تورات میں ہیں ان کا انہیں علم نہیں یہ ایسے بے خبر ہیں۔ مذکورہ حدیث کچھ یوں ہے:

”ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ عوام کا کیا قصور ہے خود قرآن تسلیم کرتا ہے کہ یہ لوگ تو جاہل ہیں اور بے معرفت ہیں جو کچھ بھی انہیں نصیب ہوا وہ تو علماء کا کیا دھرا تھا لہٰذا سب مذمتوں کا رخ علماء کی طرف ہونا چاہئے۔ عام لوگوں کا تو کوئی قصور نہیں انہیں تو عنداللہ معذور ہونا چاہئے قرآن ان پر کیوں تنقید کرتا ہے؟“

اس سوال کے جواب میں امام نے تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ اس حدیث کا تقریباً پندرہ برس قبل ایک تقریر میں ذکر کر چکا ہوں جب ماہانہ دینی اجتماعات میں تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا (مذکورہ تقریر کتاب ”دہ گفتار“ میں ”اصل اجتہاد در اسلام“ کے زیرعنوان درج کی گئی ہے) اس میں میں نے حدیث کے بہت سے حصے ذکر کئے تھے۔ اس میں امام نے ایک نہایت عمدہ موضوع اٹھایا ہے آپ نے علماء کی تقسیم بندی کی ہے کہ وہ کیسے کیسے ہیں اور کیسے نہیں ہیں اور یہ کہ علماء سوء ایسے ہوتے ہیں اور علماء غیر سو ایسے اور جو علماء برے ہوتے ہیں ان کا ضرر و نقصان اسلام کے لئے یزید بن معاویہ کے اس لشکر سے زیادہ ہے کہ جو حسین بن علی علیہ السلام پر حملہ آور ہوا۔

غرض امام گفتگو کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتے ہیں رہی بات عام لوگوں کی امام باقر ۱ فرماتے ہیں:

”نہیں ایسا نہیں ہے بعض مسائل ایسے ہیں کہ جن کے لئے حصول تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم کہیں کہ چونکہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی لہٰذا ان کا عذر قابل قبول ہے۔ بعض مسائل میں عوام کا عذر قابل قبول ہے بعض ایسے مسائل ہیں کہ جن کے لئے حصول علم ضروری ہے انہوں نے اگر ان کے لئے تعلیم حاصل نہیں کی کیونکہ بعض لوگ ان کے حصول علم میں حائل ہو گئے ہیں تو یقینا ان کا عذر قابل قبول ہے لیکن بعض مسائل ایسے ہیں کہ جن کے لئے حصول تعلیم کی ضرورت نہیں انسان کا دل انہیں معارف فطری ہونے کی وجہ سے خود سے مجبوراً سمجھ لیتا ہے۔“

اس کے بعد امام مثال ذکر کرتے ہیں کتنی عمدہ مثال ہے فرماتے ہیں:

”یہودی عوام یہودی علماء کو دیکھتے تھے کہ وہ انہیں تقویٰ اور پاکیزگی کا حکم دیتے ہیں انہیں سئور نہ کھانے کا حکم دیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے بلکہ اس کے برخلاف عمل کرتے ہیں عوام اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے تھے۔“

اس کے بعد فرماتے ہیں:

و قد اضطروا بمعارف قلوبهم

”انسان خود سرشت و قلب کے معارف کے زیر حکم سمجھتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک حکم دے اور خود عمل اس کے برخلاف کرے تو اس کی بات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور ٹھکرا دینا چاہئے اس کے لئے حصول تعلیم کی ضرورت نہیں کہ کہا جائے کہ کس یونیورسٹی نے عوام کو یہ بات سکھائی ہے کہ اگر تم نے دیکھا کہ کوئی عالم تمہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس میں تقویٰ نہیں ہے تو اس کی پیروی نہ کرنا اس کے لئے کسی یونیورسٹی یا مدرسے میں جانے کی ضرورت نہیں ہر کسی کی فطرت اتنی بات سمجھ لیتی ہے۔“

انہیں ہم ابتدائی فطری ادراکات کہتے ہیں کہ اگر ان کی کوئی شخص بھی انسان کو تعلیم نہ دے تو بھی انسان فطری طور پر سمجھ لیتا ہے۔

لہٰذا فطرت کا ایک معنی فطرت ادراکی ہے ”دین فطری ہے“، اس معنی میں ہے ”توحید فطری ہے“ کا یہ مطلب ہے یعنی ادراک کی نظر سے فطری ہے

(جیسا کہ استاد شہید مطہری کی اپنی عبارت سے واضح ہے بحث فطرت بالخصوص آیات قرآنی کے حوالے سے ابھی جاری تھی لیکن ظاہراً یہ نشستیں یہیں پر تمام ہو گئیں اور مزید جاری نہ رہ سکیں۔”ناشر فارسی“)

دوسری فطرت احساس ہے یعنی اللہ کی طرف توجہ بلکہ یہاں تک کہ دینی احکام کی طرف توجہ سے یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے کہ انسان کے احساسات اسے اللہ اور دین کی طرف کھینچتے ہیں یہ دو جدا جدا باتیں ہیں۔ کبھی ہم کہتے ہیں کہ انسان فطرتاً اللہ کو سمجھتا ہے اور کبھی ہم کہتے ہیں کہ انسان فطری طور پر اللہ کی طرف رجحان رکھتا ہے اس کی طرف کھینچتا ہے اور جذب ہو جاتا ہے۔

اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ قرآن نہج البلاغہ صحیفہ سجادیہ اور آئمہ اطہار کے کلمات و اقوال میں جو کچھ دین کے فطری ہونے اور مجموعی طور پر توحید کے بارے میں آیا ہے کیا مقصود یہ ہے کہ دین و توحید ادراکی حوالے سے فطری ہیں ادراک فطری صورت میں موجود ہیں یا مقصود یہ ہے کہ یہ ایک فطری رجحان اور فطری کشش کی صورت میں انسان میں موجود ہیں یا پھر یہ دونوں باتیں ہیں؟ آئندہ نشست سے کہ جب ہم آیات کے بارے میں گفتگو کریں گے اس بارے میں بحث کریں گے اور شاید لازمی طور پر انہی عبارتوں کی مزید تفصیل کی طرف پلٹ آئیں۔ ہم اس موضوع پر بحث کریں گے کہ کیا دین یا توحید فطری ہے؟ بذات خود یہ مسئلہ بھی قابل بحث ہے کہ کیا دین مجموعی طور پر فطری ہے؟ یا خاص طور پر توحید ہی فطری ہے کہ جو ا ۸ صول دین کی بنیاد ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا دین یا توحید انسان میں ایک ادراک فطری کی حیثیت سے ہے یا ایک فطری احساس اور رجحان کی صورت میں؟