فطرت صبغہ حنیف
قرآن حکیم میں تین الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ قرآن نے دین کے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے انہیں ہم معنی اور مفہوم کے لحاظ سے انہیں ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا ہے یعنی تین ایسے مختلف مفہوم ہیں کہ ان کا مصداق ایک ہے۔ ان میں سے ایک یہی لفظ ”فطرت“ ہے۔
فطرة الله التی فطر الناس علیها
(روم ۳۰)
دوسرا لفظ ”صبغہ“ ہے اور تیسرا ”حنیف“ یعنی دین کے لئے ”فطرة اللہ“ بھی کہا گیا ہے ”صبغة اللہ“ بھی اور ”للدین حنیفا“ بھی۔
اب ہم کچھ ”صبغہ“ اور ”حنیفا“ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
صبغةالله ومن احسن من الله صبغة
البقرة ۱۳۸)
”اللہ کا رنگ اور اللہ کے رنگ سے بہتر کیا ہے۔“
”صبغہ“، ”فعلۃ کے وزن پر ہے۔ یہ صبغہ اور صباغ کے مادہ سے ہے۔ ”صبغہ“ کے معنی ہیں رنگ کرنا اور ”صباغ“ یعنی رنگ ریز یا رنگ کرنے والا صبغہ یعنی رنگ کرنے کی ایک خاص کیفیت خاص طرح سے رنگنا ”صبغة اللہ“ یعنی وہ خاص رنگ جو اللہ نے کائنات میں بھرا ہے یعنی الہی رنگ۔ دین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ الہی رنگ ہے یہ وہ رنگ ہے کہ جسے دست قدرت نے کائنات اور خلقت میں بھرا ہے اس نے انسان کو اس رنگ میں ڈھالا ہے۔ مفسرین نے کہ جن میں راغب بھی شامل ہیں کہا ہے کہ قرآن میں یہ تعبیر اس غسل تعمید کی طرف اشارہ ہے کہ جو عیسائی انجام دیا کرتے تھے (کہتے ہیں کہ پانی میں چونکہ وہ لوگ ”عیسائی“ عموداً نہلاتے تھے اس لئے اسے غسل تعمید کہتے ہیں۔ بعض کتابوں میں ہے کہ غسل کے لئے پانی کا کوئی خاص رنگ مثلاً زرد جیسا ہوتا تھا)۔ عیسائی غسل تعمید پر اعتقاد رکھتے تھے اور آج بھی اسے انجام دیتے ہیں جب وہ کسی کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ عیسائیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے عیسائی مذہب میں داخل کرنے کے لئے یہ غسل دیتے ہیں گویا اس طرح سے اس پر عیسائیت کا رنگ چڑھاتے ہیں اور اس نہلانے کو ایک طرح سے مسیحیت کا رنگ دینا سمجھتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”رنگ تو وہ رنگ ہے کہ اللہ نے جو خلقت کے اندر بھرا ہے۔“
ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
ما کان ابراهیم(ع)یهودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما
(آل عمران ۶۷)
”ابراہیم(ع)یہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ تو حنیف مسلمان تھے۔“
قرآن کہتا ہے کہ انسان ایک فطرت کا حامل ہے اور وہ دین ہے اور دین بھی اسلام۔ اسلام ایک حقیقت ہے آدم(ع)سے خاتم تک قرآن ادبیات کا قائل نہیں ہے ایک دین کا قائل ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں لفظ دین کی جمع استعمال نہیں ہوئی کیونکہ دین فطرت ہے راستہ ہے انسان کی سرشت میں موجود ایک حقیقت ہے۔ انسانوں کو مختلف طرح سے پیدا نہیں کیا گیا ہے جتنے بھی انبیاءآئے ان کے تمام احکام کی بنیاد فطری احساس کو بیدار کرنے زندہ کرنے اور پروان چڑھانے پر تھی۔ جو کچھ وہ پیش کرتے تھے اس فطرت انسانی کا تقاضا ہے فطرت انسانی کے تقاضے مختلف طرح کے اور الگ الگ نہیں ہوتے لہذا قرآن فرماتا ہے کہ جس چیز کے نوح حامل تھے وہ دین تھا اور اس کا نام اسلام تھا اور جس چیز کے ابراہیم(ع)حامل تھے وہ بھی دین ہی تھا کہ جس کا نام اسلام ہے۔ یہ جو نام بعد میں پیدا ہوئے اور وجود میں آئے حقیقی دین اور اس کی فطرت سے انحراف ہے یعنی درحقیقت جس چیز کے نوح موسی عیسی اور ہر نبی حامل تھا وہ دین اسلام ہی تھا۔ (بعض لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا شریعتیں بھی فطری ہیں یا نہیں؟ ہم اس سلسلے میں بعد میں بیان کریں گے کہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دین فطری ہے تو اس کی کون سی چیز فطری ہے۔ آیا اس کے اصول و معارف فطری ہیں یا احکام بھی فطری ہیں۔ یہ جزئیات ہیں ان پر بعد میں گفتگو کی جائے گی)۔
لہذا قرآن فرماتا ہے:
ما کان ابراهیم(ع)یهودیا ولا نصرانیا و لکن کان حنیفا مسلما
”ابراہیم(ع)یہودی اور نصرانی نہیں تھے بلکہ وہ تو حنیف مسلمان تھے۔“(آل عمران ۶۷)
قرآن یہ نہیں فرمانا چاہتا کہ ابراہیم(ع)رسول اللہ کے زمانے کے مسلمان کی طرح کسی پیغمبر آخرالزمان ۱ کی امت تھے بلکہ فرماتا ہے کہ یہودیت اور عیسائیت حقیقی اسلام سے انحراف ہے اور اسلام درحقیقت ایک ہی ہے۔ وہ آیت مبارکہ جو میں نے پہلے بیان کی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ اس رنگ چڑھانے کا کیا فائدہ ہے؟ غسل تعمید اور اس جیسے غسلوں کی کیا تاثیر ہے؟ کیا غسل تعمید سے کسی کو وہ کچھ بنایا جا سکتا ہے جو کچھ وہ نہیں ہے؟ رنگ بھرنا تو وہ رنگ بھرتا ہے جو دست قدرت نے خود کائنات میں بھر دیا اور سمو دیا۔ اللہ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ جو کچھ ہمارا نبی کہتا ہے وہی حقیقی اسلام ہے وہی فطرت حقیقی ہے۔ فطرت حقیقی یعنی وہ رنگ کہ جسے اللہ نے خلقت ”مخلوق“ میں بھر کر روح انسانی میں رچا دیا اور چڑھا دیا ہے۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں:
صبغةالله اشارة الی ما اوجده الله تعالی فی الناس من العقل المتمیزبه عن البهائم کا لفطرة
(البتہ وہ فطرت کو عقل میں منحصر سمجھتا ہے)۔
و کانت النصاری اذا ولد لهم ولد غمسوه فی الیوم السابع فی ماء عمودیةیزعمون ان ذلک صبغةل تعالی له ذلک من احسن من الله صبغة
یعنی قرآن کریم میں ”صبغۃاللہ“ کی عبارت اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالی نے خصوصاً انسانوں میں پیدا کی ہے یعنی ”عقل“ جو انہیں حیوانوں سے اشرف افضل اور ممتاز کرتی ہے اور یہی فطرت ہے۔ عیسائیوں کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے ساتویں دن پانی میں عموداً ڈبوتے ہیں اس سے وہ یہ خیال کرتے کہ بچہ پر عیسائیت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا:
”اللہ کے رنگ سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟“
حدیث میں ہے:
الدین الحنیف و الفطرة و صبغةالله والتعریف فی المیثاق
(معانی الاحبار بحوالہ بحارالانوار چاپ جدید ج ۳ باب ۱۱ ص ۲۷۶)
”دین حنیف اور دین فطرت اور صبغۃاللہ وہی ہے کہ جس سے اللہ نے انسان کو میثاق کے موقع پر آشنا کیا ہے۔(میثاق وہ پیمان یا عہد ہے کہ جو اللہ تعالی نے روح انسانی سے لیا ہے)۔“
یہ میثاق اسی ”چیز“ کی طرف اشارہ ہے کہ جسے عالم ذر سے تعبیر کیا جاتا ہے لہذا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مقام پر ہم عالم ذر کے مسئلہ پر گفتگو کریں اور دیکھیں کہ اس کا مفہوم اور معنی کیا ہیں۔ کیا انسان قبل ازیں اسی عالم مادہ میں چھوٹے چھوٹے جانداروں کی طرح تھے؟ اور پھر انہوں نے یہ ”موجودہ“ صورت اختیار کر لی ہے یا پھر اس کے کوئی دقیق تر معنی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ دقیق تر ہے۔
حنیف کا مفہوم
زرارہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا ”حنفاء للّہ“ سے کیا مراد ہے؟
”ما الحنیفیة؟
حنیفیت کیا ہے؟ امام(ع)نے فرمایا حنیفیت یعنی فطرت۔ گویا امام(ع)نے بھی اسے ایک تکوینی و طبیعی مسئلہ کی طرف پلٹایا ہے۔ شیخ صدوق اپنی عمدہ کتاب ”توحید“ میں فرماتے ہیں کہ زرارہ نے امام باقر(ع)سے حنفاء للہ غیر مشرکین بہ اور پھر حنیفیت کے بارے میں پوچھا تو امام(ع)نے فرمایا:
هی الفطرة التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله
”یہ ہے وہ فطرت جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی آفرینش تبدیل نہیں ہوتی۔“
امام(ع)نے مزید فرمایا کہ اللہ نے انہیں معرفت پر پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد امام(ع)نے واقعہ ذر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ نے بھی فرمایا ہے:
کل مولود یولد علی الفطرة
یعنی علی المعرفةبان الله عزوجل خالقه
”ہر کسی کی فطرت میں یہ معرفت موجود ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے۔“
ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
عروة الله الوثقی التوحید والصبغةالاسلام
”اللہ کی مضبوط رسی توحید اور رنگ اسلام ہے۔“
ابن اثیر نے مادہ ”حنف“ کے وہی معانی بیان کئے ہیں جو ہماری احادیث میں آئے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ حنفاء کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے انسانوں کو گناہوں سے پاک پیدا کیا ہے اس کے الفاظ یوں ہیں:
خلقت عبادی حنفاء ای طاهری الاعضاء من المعاصی و قیل ارادانه خلقهم حنفاء مومنین لما اخذ علیهم المیثاق: الست بربکم قالوا بلی فلا یوجد احد الا وهو مقر بان له ربا و ان اشرط به وا ختلفوا فیه والحنفاء جمع حنیف و هو المائل الی الاسلام الثابت علیه و الحنیف عند العرب من کان علی دین ابراهیم(ع)(علیه السلام) و اصل الحنف المیل
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حنیفیت یعنی حقیقت کی طرف رجحان اور میلان پس اگر ہم لفظ حنیف کی تعریف کرنا چاہیں تو وہ کچھ اس طرح سے ہو گی کہ ”مائل بہ حق“ مائل بہ حقیقت حق اور حقیقت کی جانب جھکاؤ رکھنے والا یا خدا اور توحید کی طرف میلان اور رغبت رکھنے والا۔ انسان کی فطرت میں حنیفیت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حق و حقیقت کی طرف میلان ”رجحان“ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ یہاں تک ہماری گفتگو لفظ فطرت کے لغوی مفہوم کے بارے میں تھی اور قرآن و حدیث میں اس کے بنیادی معنی کی تلاش کے لئے نیز اجمالاً جاننے کے لئے کہ اس کی بنیاد آیات قرآنی اور احادیث میں موجود ہے اور یہ کہ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے لہذا اس قدر عرض کرنا ضروری تھا۔
طبیعت غریزہ اور فطرت
اب ہم ان تین لفظوں کے مفہوم کے بارے میں کچھ گفتگو کریں گے:
طبیعت
اب ہم انسان کی فطرتیات کے بارے میں بات شروع کرتے ہیں۔ یہ گفتگو دینی مذہبی اور قرآنی حوالے سے نہیں ہو گی بلکہ اس سوال کا جائزہ لیں گے کہ کیا انسان فطریات کا حامل ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب کے لئے لامحالہ یہ دیکھنا ہو گا کہ فطریات سے کیا مراد ہے؟
ہمارے یہاں تین الفاظ استعمال ہوتے ہیں مناسب ہو گا کہ ہم ان کے درمیان تمیز کریں اور ان کا فرق بیان کریں۔ ان میں سے ایک لفظ ”طبیعت“ ہے عموماً غیر جانداروں کے لئے لفظ طبیعت یا طبع استعمال ہوتا ہے اگرچہ جانداروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر جانداروں کے لئے یہ لفظ خاص طور پر استعمال ہوتا ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ پانی کی طبیعت ”خاصیت“ ایسی ہے جب ہم بے جان موجود جس کا نام پانی ہے کے خواص میں سے کوئی خاصیت بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پانی کی طبیعت ایسی ہے (ہمارے یہاں اردو میں مادہ کے لئے خواص یا خاصیت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور عالم مادہ کے لئے طبیعت کی اصطلاح بھی مستعمل ہے) یا کہتے ہیں کہ آکسیجن کی طبیعت ”خاصیت“ ایسی ہے کہ سلگنے یا جلنے کے قابل ہے اور اس طرح سے مختلف اشیاء عناصر کے مختلف خواص کے حوالے سے ہم ان کے لئے مختلف ذاتی خصوصیات کے قائل ہوتے ہیں۔ کسی بے جان چیز کی ذاتی خصوصیت کو ہم طبیعت ”طبع“ کہتے ہیں یہ تمام انسانوں ”بنی نوع بشر“ میں موجود ایک فلسفیانہ سوچ و فکر کا نتیجہ ہے یعنی انسان اسی طرح سے سوچتا ہے کہ دو ایک سی چیزوں کے خواص مختلف نہیں ہوتے اگر خواص مختلف ہو گئے تو یہ ان چیزوں کے مختلف ہونے کی دلیل ہو گی یعنی پھر وہ دو چیزیں مختلف ہوں گی کیونکہ انسان نے چیزوں کو بعض پہلوؤں سے ایک سا پایا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ بعض چیزیں باوجود اس کے کہ وہ جسم رکھتی ہیں اور مادہ ہیں ان کے خواص مختلف ہیں۔ مثلاً انسان دیکھتا ہے کہ پانی جسم رکھتا ہے اور مادہ ہے مٹی بھی جسم رکھتی ہے اور مادہ ہے لیکن ان میں سے ہر ایک کے اپنے ایسے خواص ہیں کہ جو دوسرے میں نہیں ہیں۔ لامحالہ اس نے یہ نتیجہ نکالا اور اخذ کیا کہ اس جسم میں ایک ایسی قوت ایک ایسی توانائی اور ایک ایسی خصوصیت پوشیدہ ہے جو اس کی مخصوص خاصیت کی بنیاد ہے۔ اس طرح ایک اور خاصیت دوسری چیز میں مخفی یعنی ”پوشیدہ“ ہے کہ جو اسی سے مخصوص خواص کا سرچشمہ ہے لہذا ایک ایسی خصوصیت کہ جو کسی خاص تاثیر کی بنیاد بن جائے اس کا نام ”طبیعت“ ہے۔ آج کل ہم بھی اس لفظ کو ایسے ہی موقع کے لئے استعمال کرتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ چیری ( Cherry ) کی طبیعت یہ ہے یا فلاں درخت کی طبیعت یہ ہے کہ موسم سرما میں اس پر تر و تازگی ہوتی ہے اور گرمیوں میں نہیں اور فلاں درخت کی ”طبع“ یعنی طبیعت ایسی ہے کہ وہ گرم علاقوں میں پروان چڑھ سکتا ہے اور زندہ رہ سکتا ہے وغیرہ۔ لیکن لفظ طبیعت کو ہم بے جان کے علاوہ جانداروں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً پودوں حیوانوں اور انسانوں کے لئے بھی تاہم ان پہلوؤں سے کہ جن میں وہ ”غیر جانداروں“ کے ساتھ مشترک ہیں کیونکہ بے جان میں جو خصوصیات ہیں وہ جانداروں میں بھی ہیں لیکن جانداروں کی جو ذاتی خصوصیات ہیں وہ بے جانوں میں نہیں ہیں۔
غریزہ
دوسرا لفظ جس کے بارے میں گفتگو کرنا ہے وہ ”غریزہ“ یعنی ”جبلت“ ہے کہ جو زیادہ تر حیوانات کے لئے مستعمل ہے اور انسان کے لئے کم استعمال ہوتا ہے لیکن جمادات اور نباتات کے لئے ہرگز استعمال نہیں ہوتا۔ ابھی تک غریزہ ”جبلت“کے ماہیت واضح نہیں ہے یعنی ابھی تک کوئی شخص حیوانات میں غریزہ کے مفہوم کی صحیح وضاحت نہیں کر سکا لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ حیوانات کچھ خاص اندرونی خصوصیات کے حامل ہیں کہ جو ان کی زندگی کی رہنما ہیں اور حیوانوں میں نیم آگاہی ”نیم شعوری“ کی ایک حالت پائی جاتی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ راستے کو پہچانتے ہیں اور یہ حالت کسبی بھی نہیں ہے بلکہ ایک غیر اکستابی اور جبلی ہے۔ (استاد شہید نے اس موقع پر فارسی کا لفظ ”سرشت“ استعمال کیا ہے)۔ مثال کے طور پر اڑنے والے جانور کا بچہ اپنی پیدائش کے آغاز میں ہی بغیر تعلیم و تربیت اور بغیر کسی غیرے کے ایسے کام کرنے لگتا ہے کہ جو اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ گھوڑی کا بچہ انسان کے بچے سے مختلف ہوتا ہے انسان کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو پستان اس کے منہ میں ڈالنا پڑتا ہے اگرچہ بچہ بھی کسی حد تک اپنے ہونٹوں کو جنبش دیتا ہے اور چلاتا ہلاتا ہے اور کمزور علامت کے طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی چیز کا متلاشی ہے اور اس کی جستجو میں مصروف ہے جبکہ گھوڑی کا بچہ ”ٹٹو“ پیدا ہوتے ہی کوشش کرتا ہے کہ اٹھ کھڑا ہو چند بار زمین پر گرتا ہے لیکن آخرکار اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بغیر ماں کی رہنمائی کے اپنا سر ٹیڑھا کرتا ہے اور ماں کے شکم کے نیچے کچھ تلاش کرتا ہے یقیناً وہ ماں کے پستان کی تلاش میں ہے چنانچہ چند لمحات میں ماں کا پستان ڈھونڈ لیتا ہے اور دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ گھوڑی کے بچے کی یہ حالت اس کا اٹھ کھڑا ہونا ماں کے پستان کی جستجو کرنا اور جلدی سے اسے ڈھونڈ لینا اسے کیا کہیں گے؟ کہتے ہیں یہ حیوانی غریزہ ”جبلت“ ہے۔ حیوانوں کے غریزے بہت مختلف ہیں مثلاً چیونٹی اپنی خوراک جمع کرنے کے بارے میں ایک خاص غریزہ ”جبلت“ رکھتی ہے۔
مور گرد آورد بہ تابستان
تا فراغت بود زمستانش
”چیونٹی موسم گرما میں اپنی خوراک ذخیرہ کر لیتی ہے تاکہ سردیوں میں اسے پریشانی نہ ہو۔“
چیونٹی کی حالت تو بہت عجیب ہے یہاں تک کہ اپنی خوراک ذخیرہ کرنے کے لئے ایسے ایسے غیر معمولی اور محیرالعقول کام کرتی ہے کہ معلوم نہیں (معلوم نہیں سے مراد ہے کہ اس سلسلے میں کئی نظریات ہیں)۔ ان کا سرچشمہ اور بنیاد کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ گندم جمع کرتی ہے اور یہ جانتی ہے کہ اگر اس کے دانے سالم رہے تو پھر سے اگ پڑیں گے گویا انہیں بانجھ کر دیتی ہے یعنی دو ٹکڑے کر دیتی ہے یعنی دو ٹکڑے کر دیتی ہے تاکہ وہ پھر اگنے کے قابل نہ رہیں اسی طرح سے اور بھی بہت سے حیران کن کام کرتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں یہ غریزہ ہے نیم آگاہی ”نیم شعوری“ پر مبنی ایک کام ہے جسے آگاہی ”شعور“ بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آگاہانہ اور شعوری طور پر نہیں ہے ایک بہت ہی مبہم سی حالت ہے۔
ہمچو میل کو دکان بامادران
سر میل خود ندانند در لبان
”جیسے بچوں کا ماؤں کی طرف میلان اور رغبت ہوتی ہے لیکن وہ ماؤں کی طرف بڑھنے والا ہونٹوں کا راز نہیں جانتے۔“
ایک طرف تو اس لحاظ سے کہ یہ ایک داخلی میلان و رغبت ہے آگاہی کی حالت ہے۔ میلان یا رغبت ایک روحانی کیفیت کا نام ہے انسان اس میلان سے متعلق حضوری آگاہی رکھتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ یہ میلان و رغبت کیوں ہے۔ یہ تو اسے خبر ہے کہ اس کے اندر ایک رغبت یا رجحان ہے لیکن خود اس کے بارے میں نہیں جانتا اپنی اس آگاہی کا راز نہیں جانتا۔ اجمال اور ابہام کی بناء پر اس میں یہ رغبت پیدا ہوتی ہے لیکن وہ خود اس رغبت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا چونکہ کسی چیز سے آگاہی اور بات ہے اور اس کا حضور اور بات ہے۔
”غریزہ“ کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے ابھی تک کہیں بھی دینی یا غیر دینی اصطلاح اور محاورے میں یہ نہیں دیکھا کہ حیوانات کے لئے لفظ فطرت استعمال ہوا ہو اور اگر کسی نے استعمال کیا بھی ہو تو قصوروار گردانا نہیں جاتا (فطرت کا مفہوم اردو زبان میں موجود ہے اور استعمال کے اعتبار سے وسیع تر ہے یہاں تک کہ یہ انگریزی زبان کے لفظ Nature کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جس کا فارسی مترادف طبیعت ہے اگرچہ انسان کے لئے لفظ فطرت کا استعمال زیادہ موزوں ہے)۔
بہرحال مجھے یاد نہیں کہ حیوانات کے بارے میں جہاں پر ”غریزہ“ جبلت کا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے ”فطرت“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہو۔
فطرت
اس لفظ کا انسانوں پر اطلاق ہوتا ہے اور لفظ ”فطرت“، ”طبیعت“ اور ”غریزہ“ کی طرح ایک تکوینی مفہوم رکھتا ہے یعنی انسان کی سرشت کا ایک حصہ ہے۔ تکوینی سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ ایک اکتسابی یا کسبی نہیں ہے یہ ”غریزہ“ سے بالاتر ایک آگاہانہ چیز ہے۔ انسان جو کچھ جانتا ہے وہ اپنے اس علم کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکتا ہے یعنی انسان کچھ ”فطریات“ کا حامل ہے اور یہ جانتا ہے کہ اس میں کچھ فطریات ہیں۔
کیا انسان فطریات رکھتا ہے؟ ”فطری جبلتیں“
”فطریات“ کا ”غریزہ“ سے ایک اور فرق یہ ہے کہ غریزہ کا تعلق حیوان کی مادی زندگی سے ہے جبکہ انسان کی ”فطریات“ ایسے امور سے مربوط ہے جنہیں ہم امور استثنائی کہتے ہیں یعنی حیوانی امور سے ہٹ کر پس درحقیقت ”فطرت“ سے متعلق بحث کہ وہ امور جو خالصتاً انسانی امور ہیں اور حیوانی امور سے ہٹ کر ہیں آیا تمام کسبی ہیں اور ان کی بنیاد خود انسان کے اندر موجود نہیں ہے یا پھر یہ کہ کیا ان تمام مسائل کا سرچشمہ انسان کی ذات ہے اور یہ انسان کے لئے فطری ہیں؟ مثلاً ایک موضوع حقیقت خواہی کے نام سے ہمارے سامنے ہے جس کا اپنا ایک مفہوم ہے اور یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ”حقیقت خواہی“ سے میری مراد یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے سامنے جو حقیقتیں مخفی ہیں ان کا انکشاف کرے۔ پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان واقعی طالب حقیقت ہے؟ اس بات کا امکان ہے کہ اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے کہ انسان حقیقت کا طالب ہے اور اگر طالب حقیقت ہے بھی تو محض اپنے مفاد کی خاطر۔ یہ بحث علم کے بارے میں ہے چونکہ علم انسان کے لئے حقائق کو واضح کرتا ہے اور یہ بھی سوال ہے کہ آیا انسان خود علم کی ذاتی قدر اور اہمیت کا قائل ہے یا اسے فقط ایک وسیلے کی سی اہمیت دیتا ہے اس میں شک نہیں کہ علم انسان کے لئے ایک ذریعہ ہے۔ کہتے ہیں ”توانا بود ہر کہ دانا بود“ یعنی علم انسان کو طاقت عطا کرتا ہے جب علم اسے طاقت بخشتا ہے تو گویا یہ ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو ترقی دے سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی ہے کہ آیا علم انسان کے لئے خود سے کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ علم انسان کے لئے ذاتی اہمیت رکھتا ہے یعنی آج کا انسان حقیقت کا طالب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ حقیقت خواہی سماجی ضرورتوں کا نتیجہ ہے یا پھر انسانی سرشت کا حصہ ہے یعنی کیا انسان حقیقت خواہ ہی پیدا ہوا ہے؟
دوسری مثال اخلاق حسنہ کی ہے دور حاضر میں کچھ مفاہیم اور مطالب ایسے ہیں جنہیں ہم اخلاق حسنہ کا نام دیتے ہیں یعنی اخلاقی نکتہ نظر سے انہیں انسانی اخلاق یا اخلاق حسنہ کہتے ہیں اور ان کے برعکس مفاہیم کو اخلاق سیئہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر احسان مندی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی انسان سے اچھا سلوک کرے تو انسان اس کے جواب میں نیکی کرے اور اس کا شکرگزار ہو یہ احسان فراموشی کے مقابلے میں ایک مفہوم ہے۔ احسان مندی یعنی نیکی کے جواب میں نیکی یہ اخلاقی مسئلہ ہے بہرحال دور حاضر میں یہ بات قبول کر لی گئی ہے:
هل جزاء الاحسان الا الاحسان
(الرحمن ۷۰)
اس آیت میں سوالیہ انداز کا مقصد انسانی فطرت سے جواب حاصل کرنا ہے یعنی یہ ایک فطری امر ہے کہ احسان کا صلہ احسان ہی ہو سکتا ہے۔ گویا قرآن پوچھ رہا ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ احسان کی جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے؟ انسان جواب دیتا ہے نہیں نیکی کی جزاء نیکی ہی ہے۔
یہ اصول انسان نے کہاں سے حاصل کیا ہے؟ کیا یہ پند و نصیحت ہے جسے معاشرتی تقاضوں نے انسان پر ٹھونس دیا ہے؟ اگر یہ بات مان لی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر اجتماعی ”سماجی“ تقاضے بدل گئے تو یہ اصول بھی تبدیل ہو جائے گا اور یہ بات پھر تقابلی اخلاق ”نسبی اخلاق“ تک جا پہنچے گی یا پھر کیا یہ ایک ایسا امر ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے؟
خود دین اور عبادت کا مسئلہ انہی امور میں سے ہے اور کیا وہ حس جسے حس دینی کے نام سے جانا جاتا ہے جو بہرحال انسانوں کے اندر موجود ہے کا سرچشمہ انسان کی جبلت ہے اور انسان کی سرشت باطن کا تقاضا ہے یا یہ کہ بعض دیگر عوامل کا نتیجہ ہے۔(ایسے عوامل کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے)
لہذا فطریات انسان یا انسانی فطرت کی بحث کو ہم اس طرح سے شروع کرتے ہیں کہ کچھ امور ایسے رہے ہیں اور ہیں کہ جنہیں آج انسانیت کا نام دیا جاتا ہے کوئی ایسا مکتب فکر نہیں ہے جو آج کی اصطلاح میں کچھ نہ کچھ انسانی اقدار کا قائل نہ ہو۔
انسان اپنے مفاد اور فائدوں کی جستجو میں ہوتا ہے یہ ایک منطقی امر ہوتا ہے کیونکہ انسان اپنے جبلی تقاضوں کے پیش نظر حیات و بقاء کو پسند کرتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز کو پسند کرتا ہے جو اس کی حیات کے تسلسل میں مددگار ہو اور انسان کا اپنے فائدے کی جستجو میں رہنا ایک فطری امر ہے۔
کچھ اور چیزیں بھی ہیں جو فائدے کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں اور مفاد کی منطق سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ فرنگیوں نے غلط طور پر ان کا نام Value رکھا ہے انہیں یہ نام دینے کے باعث بھی بہت سی غلط فہمیاں وجود میں آئی ہیں۔ Values (اقدار) کی اصطلاح انہوں نے اس لحاظ سے استعمال کی ہے کہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ حقائق سے مختلف چیز ہے لیکن انسان نے باہمی سمجھوتے سے انہیں سند عطا کی ہے اور وہ چیز جسے ہم باہمی سمجھوتے اور سند کے ساتھ اہمیت دیں۔ درحقیقت کچھ بھی نہیں ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جسے ہم ایک ہزار کے نوٹ کے لئے باہمی سمجھوتے سے ایک قیمت کے قائل ہیں مثلاً اس نوٹ کو دے کر ہم دو من گندم خرید سکتے ہیں اگر اس نوٹ کی یہ سندیت ختم کر دی جائے تو اس میں اور عام سادہ کاغذ میں کوئی فرق نہ رہے نام اس کا کچھ بھی رکھ دیا جائے۔
جن چیزوں کو آج کل انسانی اقدار کہا جاتا ہے وہ کیا ہیں؟ کیا انسانی سرشت اور جبلت میں ان کی کوئی بنیاد ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ بذات خود ایک اہم موضوع ہے کیونکہ اگر کوئی چیز انسان کی سرشت میں موجود ہو تو پھر وہ کچھ اور مسائل اور حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد کچھ فطری جبلتوں پر مبنی ہیں یعنی وہ تمام چیزیں جنہیں آج امور انسانی اور ماوری حیوانی اور جن کا نام ہم اسلامی اقدار رکھتے ہیں اسلام معارف کی نظر میں ان کا سرچشمہ انسانی سرشت اور جبلت میں موجود ہے۔
ہم بعد میں بیان کریں گے کہ انسان اور انسان کی حقیقی انسانیت کی جڑ فطری جبلتوں کو قبول کرنے کا لازمہ ہے۔ یہ فضول سی بات ہے کہ ہم انسان کے لئے فطری جبلتوں کو نہ مانیں یعنی ان کے لئے انسان کی سرشت میں موجود کسی بنیاد کے قائل نہ ہوں اور Humanism اور انسان خالص کا بھی دم بھریں۔
پس ہماری بعد کی گفتگو انہی انسانی اقدار اور ان کے فطری ہونے کے بارے میں ہے۔ انہی سے ہم نتائج اخذ کریں گے اور پھر ان چیزوں کو شمار کریں گے جو انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور دیکھیں گے کہ یہ اقدار کیا ہیں؟ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ اسلامی تصانیف میں ان کے فطری ہونے کے بارے میں کیا دلائل موجود ہیں؟ ہم اس سوال کا بھی جائزہ لیں گے کہ کیا قرآن اور اسلامی تصانیف میں کوئی ایسی دلیل موجود ہے کہ اخلاق حسنہ ایسے امور کا ایک سلسلہ ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے ہم جائزہ لیں گے کہ کیا ہم اخلاقی مسائل کے بارے میں زیرنظر آیت سے فطرت کا مفہوم اخذ کرتے ہیں:
و نفس وما سواها فالهمها فجورها و تقویها
(الشمس ۸۶)
اس طرح اس آیت سے بھی یہ استفادہ کر سکتے ہیں:
هل جزاء الاحسان الا الاحسان
(رحمن ۶)
عموماً جب قرآن سوال کرتا ہے تو وہ یہ چاہتا ہے کہ جواب انسان کی فطرت سے حاصل کرے گویا وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو لوگوں کی سرشت میں موجود ہیں اور ہر کوئی انہیں جانتا ہے۔