باب دوم
انسانی فطرت
ہماری بحث کے متعلق دو سوال اٹھائے گئے ہیں پہلے ہم ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں پھر اصل گفتگو کو جاری رکھیں گے:
پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن نے جو معاملات نوع انسان کی زبان سے بیان کئے ہیں کیا فطری ہیں یا نہیں؟ مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے:
و یقول الانسان اذا مامت لسوف اخرج حیا
(مریم ۶۶)
”اور انسان کہتا ہے کہ کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر جلد ہی مجھے زندہ نکال لیا جائے گا۔“
کیا اس آیت سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ قیامت پر اعتقاد فطری ہے؟
مجموعی طور پر یہ ایک اچھا سوال ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا گہری نظر سے جائزہ لیا جانا چاہئے اور یہ دیکھا جانا چاہئے کہ قرآن کریم نے نوع انسانی کی زبان سے جو کچھ نقل کیا ہے وہ انسان کے فطری امور کا ترجمان ہے یا نہیں؟ بہرحال مجموعی طور پر یہ سوال قابل بحث اور اہم ہے۔ ضروری ہے کہ اس ضمن میں آنے والی تمام آیات کو یکجا کیا جائے لیکن خاص طور پر مذکورہ آیت کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتداء میں یہ دیکھنا ہو گا کہ یقول الانسان نوع انسان کی زبان سے ہے یا پھر کسی خاص انسان کی طرف اشارہ ہے۔ مجھے اچھی طرح سے تو یاد نہیں لیکن احتمال یہ ہے کہ آیت کا شان نزول ایک خاص واقعے سے متعلق ہے۔ (صاحب مجمع البیان لکھتے ہیں کہ ”نزل قوله: ویقول الانسان
“ مذکورہ آیات ابی بن خلف جمعی اور بعض کے مطابق ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے) یعنی کسی ایک انسان نے یہ بات کی ہے۔ قرآن تعجب اور انکار کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ دیکھو یہ انسان ایسی بات کر رہا ہے! اگر یوں ہو تو پھر ایسا کہنا بنی نوع انسان کا ترجمان نہیں بلکہ کسی ایک شخص کا قول ہو گا۔ ثانیاً یہ کہ قیامت پر اعتقاد کا فطری ہونا یا نہ ہونا اس بات کے ساتھ وابستہ ہے کہ ہم قیامت پر اعتقاد کو کس صورت میں بیان کرتے ہیں؟ کبھی ہو سکتا ہے کہ ہم اس مسئلے کو اس شکل میں بیان کریں جس میں خود قرآن اپنی اکثر آیات میں بیان کرتا ہے۔ قیامت کا جو معنی اور مفہوم قرآن بیان کرتا ہے وہ اللہ کی طرف بازگشت ہےانا لله و انا الیه راجعون
اگر قیامت کا مفہوم یہ ہو تو پھر جواب مثبت ہے یعنی ہاں قیامت پر ایمان فطری ہے۔
لیکن عموماً اس امر کو ایک ناقص صورت میں بیان کیا جاتا ہے جس میں اس کا حقیقی مفہوم بیان نہیں ہوتا۔ بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح ایک کاریگر کوئی چیز بناتا ہے پھر اسے توڑ دیتا ہے یا ضائع کر دیتا ہے اور دوسری مرتبہ پھر سے بنانا چاہتا ہے اسے بھی گویا ایسے ہی کرتا ہے۔ مذکورہ آیت میں جس شخص کی بات نقل کی گئی ہے اس کا تصور بھی ایسا ہی تھا اس کے سامنے قیامت اور معاد کا حقیقی تصور نہ تھا اس نے سن رکھا تھا کہ قیامت میں لوگ دوبارہ زندہ ہوں گے مگر اس نے اس زندگی کو دنیا کی طرف بازگشت خیال کیا۔ اکثر لوگوں کا خیال ایسا ہی ہے وہ اسے خدا کی طرف بازگشت نہیں سمجھتے اگر قیامت کے بارے میں ہمارا تصور یہ ہو کہ یہ اسی دنیا کی طرف لوٹ آنے کا نام ہے تو معاد پر اعتقاد یقینی طور پر فطری نہیں لیکن قیامت کے بارے میں ہمارا تصور حقیقت میں اللہ کی طرف بازگشت ہو تو پھر یہ ایسا امر ہو گا جو خدا اور انسان کے درمیان ہر رابطے سے متعلق ہے۔ اس امر کے بارے میں متعلقہ مقام پر بحث کریں گے کہ یہ فطری ہے۔
کیا اپنے آپ میں کسی چیز کا پانا اس کے فطری ہونے کی دلیل ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کے وجود میں فطرت کی موجودگی۔
اس بات کے لئے اپنے آپ میں فطری جبلت کا پانا کافی ہے یا کسی اور استدلال کی ضرورت ہے کیونکہ پہلی صورت میں اغراض خواہشات نفسانی اور جبلتوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور اصطلاحی و لفظی فرق پر انحصار کافی نہیں ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ فطرت اور جبلت کے درمیان حد فاضل کیا ہے اور کیا یہ باہمی افہام و تفہیم کا نتیجہ ہے (مثلاً شعوری اور غیر شعوری کی صورت میں تقسیم) یا پھر کیا یہ ایک حقیقی امر ہے؟
در اصل یہ دو سوال ہیں جو ایک دوسرے کے تسلسل میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ آیا ایک امر کے فطری ہونے کے اثبات کے لئے یہ کافی ہے کہ ہم اسے اپنے وجود میں پائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہم کسی چیز کے فطری ہونے کے بارے میں بحث نہیں کر رہے نہ ہی کسی چیز ہونے کی علامات بیان کر رہے ہیں اس مسئلے کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔ دوسرے بالفرض اگر ایسا ہو بھی تو یہ کوئی عجیب چیز نہیں ہے کہ کوئی امر ہمارے نزدیک فطری ہو اور اس کے فطری ہونے پر دلیل یہ ہو کہ اس کے فطری ہونے کو ہم اپنے آپ میں محسوس کریں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ہمارے نزدیک کچھ مسلم الثبوت دعوؤں ”کلیات اولیہ“ کا ایک سلسلہ ہے جسے ہم کہتے ہیں ”کل جزو“ سے بڑا ہوتا ہے اور ”جزو“ کا اپنے ”کل“ کے برابر یا اس سے بڑا ہونا محال ہے۔ اس بات کے اثبات کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مسلم الثبوت بات ”کلیہ“ ہے اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے مسلم الثبوت ہونے پر کیا دلیل ہے؟ یعنی خود تو یہ بات مسلم الثبوت ہے لیکن اس کا مسلم الثبوت ہونا مفروضہ ہے یا دعویٰ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ کہ یہ بات مسلم الثبوت ہے بذات خود ثابت شدہ ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ اس دعوے کا مسلم الثبوت ہونا ثابت نہیں بلکہ یہ ایک مفروضہ اور قیاس ہے تو پھر اس کے لئے دلیل پیش کرنا ضروری ہے پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ خود ہماری دلیل کیسی ہے؟ مفروضہ ہے یا مسلم الثبوت دلیل ہے؟ اگر فرض کریں کہ ہماری دلیل قیاسی اور مفروضہ ہے تو پھر اس کے لئے بھی دلیل کی ضرورت ہو گی۔ اب اس دلیل کے لئے لائی جانے والی دلیل کو دیکھنا ہو گا کہ وہ مفروضہ ہے یا مسلم الثبوت ہے۔ اگر آخرکار ہم ایک ایسے دعوے پر پہنچ جائیں جو مسلم الثبوت ہو تو پھر یہ درست ہے لیکن اگر یہ اصول مسلم الثبوت نہ ہو تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے پاس نہ مفروضہ ہے نہ مسلم الثبوت دعویٰ یعنی جب کوئی بات مسلم الثبوت نہ ہو تو ہم اس کے بارے میں استدلال پیش نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورت میں ہمارا استدلال ایک قیاسی اور فرضی امر پر ہو گا یعنی اس کی بنیاد ایک مجہول ”نامعلوم“ امر پر ہو گی۔ اگر ہم چاہیں کہ ایک مجہول ”نامعلوم“ چیز کے لئے مفروضہ کو دلیل بنا کر پیش کریں یعنی امر مجہول کے لئے دلیل بھی امر مجہول ہو تو یہ ایسے ہی ہے کہ ایک صفر کے ساتھ ایک صفر کا اضافہ کر دیا جائے کہ بجائے خود لاحاصل ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
پس یہ بات عجیب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہم فطری امور کے ایک سلسلے کے حامل ہیں اور ان کے فطری ہونے کو خود اپنے آپ میں پاتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں کوئی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس مسئلے کے بارے میں بعد میں مزید وضاحت کی جائے گی۔
اس سوال کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ اس صورت میں ”جبلت“، غریزہ خواہش اور ان کے مانند دیگر امور میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
اتفاق کی بات ہے کہ ہم نے پہلے جو بحث کی تھی وہ لغوی تھی یعنی ہماری گفتگو کا محور یہ تھا کہ لفظ ”فطرت“ جو پہلے قرآن مجید میں اور پھر علماء کی اصطلاحات میں استعمال ہوا ہے اس سے کیا مراد لی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک کوئی مضائقہ نہیں کہ کوئی شخص ان مسائل فطری کا نام ”غریزہ“، ”جبلت“ رکھ دے لیکن یہ نام رکھنے سے کیا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ بحث تو اسی جبلی یا فطری امر کی ماہیت و حقیقت کے بارے میں ہے۔ اب آپ چاہے اس کا نام ”غریزہ“، ”جبلت“ رکھ لیں یا ”فطرت“۔ ہماری بحث کا محور الفاظ نہیں ہیں ہمیں اس سے سروکار نہیں ہے کہ لفظ ”فطرت“، لفظ ”غریزہ“ یا ”جبلت“ سے مختلف ہے یا نہیں۔ بحث تو اس بارے میں ہے کہ وہ چیز جسے انسانیت ( Humanity ) کا نام دیا جاتا ہے اور جسے ”انسانی خصوصیات“ کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے وہ کسبی ہے یا غیر کسبی؟ (الفاظ سے سروکار نہ ہونے سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہمارے مدعا میں الفاظ کا کوئی کردار نہیں اگرچہ ہمیں الفاظ کی بھی ضرورت ہے) اور کیا یہ خصوصیات بیرونی ہیں اور انسان پر مسلط کی گئی ہیں یا خود انسان کی ذات سے پھوٹی ہیں؟ ہماری بحث اس کے بارے میں ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات فطری ہیں یعنی انسان کی ذات سے پھوٹتی ہیں اور انسان ایک ایسا موجود ہے کہ اس کے وجود کی گہرائی میں ان خصوصیات کا بیج بویا گیا ہے اب اگر آپ اس کا نام ”غریزہ“، ”جبلت“ رکھنا چاہتے ہیں تو رکھ لیں۔ یہ پھر ایک لغوی بحث ہو جائے گی ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عام طور پر ایسے موقع پر لفظ ”غریزہ“، ”جبلت“ کا اطلاق نہیں کیا جاتا نیز عام طور پر حیوانوں کے لئے لفظ ”فطرت“ استعمال نہیں کیا جاتا لیکن اگر کوئی حیوانوں کے لئے لفظ فطرت استعمال کرنا چاہتا ہے تو کرے پس ہماری بحث کوئی لغوی بحث نہیں ہے۔
اس اعتبار سے کہ جو کہا جاتا ہے کہ انسان میں جو کچھ ہے وہ شعوری ہے اور حیوان میں جو کچھ ہے غیر شعور ہے۔ اس بارے میں کوئی بحث نہیں ہے کہ اس طرح کا فرق بھی موجود ہے پس اس بات کو ہمارے لئے اعتراض کی بنیاد نہیں بننا چاہئے۔ اب ہم اپنے موضوع سخن کے بارے میں گفتگو جاری رکھتے ہیں:
انسان پراسرار ترین موجود
کائنات کے موجودات میں سے انسان سے بڑھ کر کوئی موجود تفسیر و تشریح کا محتاج نہیں ہے۔ ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ فلسفے میں جن موضوعات پر بحث کی جاتی ہے یعنی دنیا کے تمام فلسفے جن کے بارے میں بحث کرتے ہیں وہ ”خدا“، ”کائنات“ ”انسان“ ہیں بعض ”کائنات“ کے بارے میں زیادہ تر بحث کرتے ہیں اور بعض انسان کے بارے میں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجزائے عالم میں انسان کو کیا خصوصیت اور کیا امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے کائنات اور انسان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے؟ کیا انسان کائنات سے جدا ہے؟
ہاں! انسان کائنات کا جزو ہے لیکن دیگر تمام اجزاء سے بہت مختلف ہے یا یوں کہئے اس میں ایسی ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ جو کائنات کی دیگر اکائیوں اور اجزاء سے زیادہ توحید و تفسیر کی محتاج ہیں۔ دھات بھی ایک چیز ہے لوہا سونا چاندی اور پودے کائنات کے اجزاء ہیں لیکن یہ اس قدر تفصیل و توضیح کے محتاج نہیں کہ ضروری ہو جائے کہ ان کے لئے بہت سے مفروضے قائم کرنے پڑیں اور بہت سے نظریات و آراء پیدا ہو جائیں اور ان کی شناخت کے لئے طرح طرح کے مسائل درپیش ہوں لہٰذا اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ جن کا دعویٰ ہے کہ موجودات عالم میں سے انسان پراسرار ترین موجود ہے۔
الیکسز کارل نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان اس نے ”انسان پراسرار موجود“ یا ”مجہول موجود“ (الانسان ذالک المجہول) رکھا ہے۔ خوب نام ہے کہ تعجب ہے کہ خود انسان نے بہت سی چیزوں کو پہچانا ہے اور اپنے سے بہت دور کی چیزوں کو اس نے شناخت کر لیا ہے اور اب وہ ان کے بارے میں اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے لئے اب ان چیزوں کے بارے میں کچھ مجہول نہیں ہے لیکن موجودات میں سے جو اس کے نزدیک ترین ہے یعنی خود اپنی ذات یعنی انسان کہ جو سب کو پہچاننے والا ہے اس کے بارے میں اس کے اسرار و رموز اور مجہولات بہت زیادہ ہیں۔
انسان کے بارے میں مجہولات میں سے ایک یہی ہے انسان کی فطرت کا مسئلہ ہے جس کے دو حصے ہیں ایک شناخت فہم اور دریافت سے متعلق ہے اور دوسرا خواہش اور رغبت سے متعلق ہے۔
شناخت سے متعلق انسانی فطرت
شناخت اور دریافت کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ انسان بعض فطری یعنی غیر کسبی معلومات رکھتا ہے یا نہیں؟ اس وقت ہمارے ذہن میں ہزاروں تصورات اور مصداق موجود ہیں کہ جن کے بارے میں شک نہیں کہ تقریباً تمام کسبی ہیں۔ قرآن مجید کی سورئہ مبارکہ نحل کی ایک آیت یوں ہے:
و الله اخر جکم من بطون امهاتکم لاتعلمون شیئا و جعل لکم السمع و الابصار والافئدة لعلکم تشکرون
(نحل ۷۸)
”اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں سے اس عالم میں پیدا کیا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں قوت سماعت بصارت اور دل عطا کیا تاکہ تم شکرگزار ہو جاؤ۔“
بعض نے اس آیت سے یہ معنی اخذ کرنا چاہا ہے کہ انسان کی تمام معلومات کسبی ہیں اور کوئی معلومات فطری نہیں ہیں۔ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں سے نکالا تو تم کچھ نہیں جانتے تھے یعنی تمہاری لوحِ دل پاک اور صاف تھی اور اس پر کوئی نقش موجود نہ تھا تمہیں کان اور آنکھیں دیں اور یقینا ان دو کا ذکر جو اس میں سے نمونے کے طور پر ہے نیز فرمایا اور تمہیں دل عطا کیا کہ جس سے مراد فکری صلاحیت ہے یعنی تمہاری لوحِ دل پر کچھ نہ لکھا تھا۔ یہ تو حواس کا قلم ہے کہ جو دل اور عقل کے ہاتھوں سے اس صاف و پاک لوح پر کیا کیا لکھتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے:
افلاطون کا نظریہ
ایک اور نظریہ ہے کہ جو افلاطون کا ہے جو اس نظریے کے برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ ہر چیز جانتا ہوتا ہے کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو نہ جانتا ہو انسان کی روح بدن میں آنے سے پہلے ایک اور دنیا میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے بقول وہ دنیا ”دنیائے مثل“ یا ”عالم مثال“ ہے ”مثل“ کا مفہوم اس کے نزدیک اس عالم کے موجودات کے حقائق سے عبارت ہے۔ روح انسانی نے اس دنیا میں ”مثل“ کو جانا ہے اور حقائق اشیاء تک پہنچ چکے ہیں جب اس روح کا تعلق بدن سے قائم ہوتا ہے تو اس کے اور اس کی معلومات کے درمیان ایک طرح کا حجاب حائل ہو جاتا ہے اور وہ ایک ایسے شخص کی طرح ہو جاتی ہے کہ جو کوئی چیز جانتا ہوتا ہے لیکن وقتی طور پر اسے بھول جاتا ہے۔ اس کے نظریے کے مطابق جو کوئی بھی اس دنیا میں آتا ہے تمام علوم مثلاً ریاضی وغیرہ جانتا ہوتا ہے پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تعلیم و تعلم کیا ہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ تعلیم و تعلم یاد آوری اور یاد دلانے کے لئے ہوتا ہے۔ معلم یاد دلانے والا ہے معلم اس چیز کو یاد دلانے والا ہے جو متعلم اپنے باطن میں جانتا ہوتا ہے۔ یہ اسے اس چیز کی طرف متوجہ کرتا ہے اسے وہ چیز یاد دلاتا ہے کہ جسے وہ پہلے سے جانتا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے مکتب میں تعلیم فقط ایک طرح کی یاددہانی ہے اور بس یہ نظریہ پہلے نظریے کے بالکل مدمقابل ہے۔
اسلامی حکماء کا نظریہ
تیسرا نظریہ ہے کہ انسان بعض چیزوں کو بالفطرت جانتا ہے البتہ ایسی چیزیں کم ہیں۔ انسانی فکر کے وہ اصول جو تمام انسانوں میں مشترک ہیں فطری اصول ہیں جبکہ ان بنیادوں پر اٹھنے والے افکار کی عمارت کسبی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ اصول فکر فطری ہیں اس کا مفہوم افلاطون کے اس نظریے سے مختلف ہے کہ روح انسانی نے کسی اور دنیا میں انہیں یاد کیا ہے اور یہاں آ کر انہیں فراموش کر دیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن انہیں جاننے کے لئے اسے کسی معلم کسی منطقی استدلال یا تجربے وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے یعنی انسانی فکر کی عمارت اس طرح سے ہے کہ جونہی ان امور کو دیکھتا ہے تو انہیں سمجھ لیتا ہے اور کسی استدلال یا دلیل کا محتاج نہیں ہوتا ایسا نہیں ہے کہ انسان پہلے سے انہیں جانتا ہو۔ یہ ایک اور نظریہ ہے اور عموماً حکمائے اسلامی نے بھی یہی نظریہ اختیار کیا ہے بعض خصوصیات میں اختلاف کے ساتھ ارسطو کا بھی یہی نظریہ رہا ہے۔
دور حاضر کے فلسفیوں میں بھی یہ اختلاف رائے موجود ہے لیکن شاید موجودہ دور میں کوئی بھی افلاطون کے نظریہ کا قائل نہ ہو البتہ اس دور میں بھی بعض فلاسفہ انسان کی کچھ معلومات کے فطری اور پیدائشی ہونے کے قائل ہیں اور باقی معلومات کے بعد میں حاصل کئے جانے اور ان کے تجربہ کی بنیاد پر حصول کے قائل ہیں۔ اس نظریے کا سرخیل قرن حاضر میں دنیا کا معروف عظیم فلسفی ”کانٹ“ ہے اس کی رائے کے مطابق انسان کی بعض معلومات تجربے اور حواس سے حاصل شدہ نہیں بلکہ پیدائشی ہیں یعنی ایسی معلومات جو کہ اس کے نظریے کے مطابق انسان کی ذہنی ساخت کا لازمہ ہے۔
جرمنی کے فلسفیوں میں یہ نظریہ موجود رہا ہے لیکن انگریز فلسفیوں میں سے بیشتر کہ جو حسی (تجربیون مکتبہ فکر کے فلاسفہ) ہیں ان کا نظریہ اس کے برعکس ہے ان میں سے جان لاک اور ہیوم وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی لوحِ دل پر کچھ نہیں لکھا ہوتا اور انسان سب کچھ باہر سے حاصل کرتا ہے اور ہر چیز سیکھنے کی ہے۔
جو نکتہ میں نے عرض کیا ہے وہ نہایت ہی دقیق ہے ہم نے اسے اصول فلسفہ میں بھی ذکر کیا ہے۔ اسلامی فلاسفہ اس بات کے قائل ہیں کہ تفکر انسانی کے اولین اصول آموختی اور استدلالی نہیں ہیں اور استدلال سے بے نیاز ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ان اصولوں کو انسان کی ذات کا حصہ بھی نہیں سمجھتے جبکہ افلاطون یا کانٹ انہیں انسانی ذات کا حصہ جانتے ہیں۔ حکمائے اسلامی کا کہنا ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ فکر کے ان اصولوں تک سے تہی دامن ہوتا ہے لیکن فکر کے اصول اولیہ کہ جو بعد میں پیدا ہوتے ہیں وہ تجربے کے ذریعے سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ انسان مسئلے کے دونوں پہلوؤں کو تصور کرتا ہے یعنی موضوع و محمول کو تصور کرتا ہے۔ انسانی ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ وہ فوری طور پر موضوع و محمول ”منطق کی دو اصطلاحیں“ کے درمیان رابطے کے بارے میں حتمی نتیجہ اخذ کر لیتا ہے مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ”کل جزو سے بڑا ہوتا ہے“ تو افلاطون یہ کہتا ہے کہ دیگر تمام مسائل کی طرح روحیں ازل سے جانتی ہیں اور کانٹ کہتا ہے کہ ہمارا یہ کہنا کہ ”کل جزو سے بڑا ہے“، ذہن کے فطری عناصر میں سے ہے ایسے عناصر کہ جن کا اس کی ذہنی ساخت میں عمل دخل ہے عناصر کے اس سلسلے کی کچھ مقدار باہر سے حاصل کی گئی ہے اور کچھ خود ذہن سے۔ اسلامی حکماء کہتے ہیں کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو کچھ نہیں جانتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ مسئلے کو بھی نہیں جانتا ہوتا کیونکہ ابھی تو اسے کل کا کوئی تصور ہوتا ہے نہ جزو کا لیکن جونہی اس کے لئے کل اور جزو کا تصور پیدا ہوتا ہے اور وہ ان دو کا موازنہ کرتا ہے تو پھر بغیر کسی دلیل استاد اور تجربے کے یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ ”کل جزو سے بڑا ہے“۔
اس بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ معلومات کے بارے میں کسی قدر اختلاف نظر موجود ہے۔ اختلاف اس بارے میں ہے کہ کیا ہم فطری معلومات رکھتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر رکھتے ہیں تو کیا افلاطون کے نظریے کے مطابق ہیں یا مسلم حکماء کے نظریے کے مطابق؟ اور معلومات رکھتے ہیں یا نہیں؟ یہ موضوع بہرحال قابل بحث ہے۔
قرآن کا نکتہ نظر
اب دیکھتے ہیں کہ قرآن کا نظریہ کیا ہے؟ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
والله اخرجکم من بطون امهاتکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع و الابصار و الافئدة لعلکم تشکرون
(نحل ۷۸)
گویا قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کی لوحِ دل ہر چیز سے پاک اور صاف ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن بعض مسائل کو اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ استدلال کی احتیاج نہیں رکھتے مثلاً آپ دیکھیں کہ توحید کا مسئلہ قرآن میں کس طرح سے پیش کیا گیا ہے اور یہ آیات کس طرح سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو سکتی ہیں۔ قرآن کے نزدیک مسئلہ توحید کہ جس سے متعلق آیات ہم بعد میں پیش کریں گے ایک فطری امر ہے ایسے میں یہ بات کہ لاتعلمون شیئا
”تم کچھ نہ جانتے تھے۔“
اور اس کے ساتھ یہ بات کہ تم اپنے باطن میں اور اپنے ضمیر میں ایک طرح خدا کو جانتے ہو آپس میں کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آپس میں قابل جمع ہیں اور انہیں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
پھر یہ بھی قرآن کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ ”تذکر“ اور ”یاددہانی“ کا بہت ذکر کرتا ہے۔ بہت عجیب ہے کہ ایک طرف افلاطونی نظریے کو قرآن میں شدت سے رد کیا گیا ہے اور دوسری طرف قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے ”فذکر“ یعنی ”پس“ یاد دلادیں۔ ”انما انت مذکر
“ یعنی آپ تو ہیں ہی ”توجہ دلانے اور یاددہانی کرانے والے ”لست علیهم بمصیطر
“ یعنی آپ ان پر کوئی نگران تو نہیں ہیں۔(غاشیہ ۲۱ ۔ ۲۲)
تذکر سے متعلق آیات کوئی ایک دو نہیں ہیں یہاں تک کہ خود قرآن کو ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لفظ ”ذکر“ کا اطلاق ہوا ہے:
قد انزل الله الیکم ذکرا رسولا
(طلاق ۱)
”تحقیق اللہ نے تمہاری طرف ذکر بھیجا جو کہ رسول ہے۔“
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اس کے ساتھ ساتھ بعض ایسی چیزوں کا بھی قائل ہے کہ جن کے لئے تذکر اور یاددہانی کافی ہے اور ان کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے مثلاً مندرجہ ذیل آیت میں استفہام اقراری ہے:
هل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون
(زمر ۹)
”کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں؟“
یہ آیت قرآن کی ایک خاص روش کی عکاس ہے اس روش کے مطابق قرآن مجید مسائل کو سوال کی صورت میں اٹھاتا ہے۔ اسی طرح جب ایمان اور عمل صالح کی دعوت دینا چاہتا ہے تو فرماتا ہے:
ام نجعل الذین امنوا و عملوا الصالحات کا لمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کا لفجار(ص ۲۸)
”کیا ہم اہل ایمان اور نیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والوں جیسا قرار دیں؟ کیا ہم متقیوں کو فاجروں جیسا بنا دیں؟“
یعنی ہم سوال کرتے ہیں جواب تم خود سوچو۔ (تعلیم و تربیت کے اس طریقے کو سقراطی روش کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ سقراط نے اپنی تدریس و تعلیم میں یہی طریقہ اپنایا ہے۔ وہ جب کوئی بات کسی دوسرے کے لئے ثابت کرنا چاہتا تو سلسلہ کلام واضح ترین مسائل سے شروع کرتا اور سوال کی صورت میں کہتا کیا یہ بات ایسے نہیں ہے یا ویسے نہیں ہے؟ کیونکہ مسئلہ واضح ہوتا تو مخاطب اسی بات کا انتخاب کرتا جو سقراط چاہ رہا ہوتا اور جونہی وہ بات کو دھن کے روشن صفحہ پر لے آتا تو پھر ایک نسبتاً بالاتر سوال کرتا پھر مخاطب جواب میں وہی بات انتخاب کرتا کہ جو سقراط کی خواہش ہوتی۔ جب وہ بات واضح طور پر اس کے صفحہ ذہن پر منتقل کر دیتا تو پھر ایک اور سوال کرتا اور جواب حاصل کرتا یہاں تک کہ ایک دم مخاطب متوجہ ہوتا ہے کہ اس نے خود سے سقراط کے مدعا کا اعتراف کر لیا ہے بغیر اس کے کہ سقراط نے ایک کلمہ بھی کہا ہو یعنی وہ مخاطب کے اندر سے جواب باہر نکال کے لاتا۔ چونکہ استاد فن تھا ایک عظیم ماہر نفسیات تھا وہ نفسیات اور ذہن و فکر کی حرکت کو پہچانتا تھا لہٰذا بات کو ایسے مقدمات سے شروع کرتا کہ بغیر خود سے کچھ کہے مخاطب کا ذہن قدم قدم خود آگے بڑھتا چلا جاتا۔
سقراط کی والدہ دایہ تھی۔ وہ خود کہتا ہے کہ میں اپنی ماں کی طرح دایہ کا سا کام کرتا ہوں۔ دایہ کسی بچے کو دنیا میں نہیں لاتی وہ تو زچہ ہے جو طبیعی طور پر وضع حمل کرتی ہے۔ دایہ تو صرف ماں کی رہنمائی کرتی ہے اس کا کام یہ نہیں ہے کہ اپنے ہاتھوں سے بچے کو پکڑے اور باہر نکال لے یہ تو ایک ناقص کام ہے اسے انتظار کرنا چاہئے کہ خودکار انداز میں بچہ جنم لے۔ سقراط کہا کرتا تھا کہ ایسے ہی میرا کام بھی دایہ کا سا ہے یعنی میں وہ کام کرتا ہوں کہ ذہن فکر کی تولید کرتا ہے جیسے ماں بچے کو جنم دیتی ہے۔ میں تو صرف ذہنوں کی مدد کرتا ہوں تاکہ وہ نئے افکار کو جنم دیں۔)
ایسی ہی آیات کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے:
انما یتذکر اولوا الالباب
(زمر ۹)
”صاحبان عقل خود ہی متوجہ ہو جاتے ہیں۔“
لہٰذا قرآن جن فطریات کا قائل ہے وہ افلاطونی نظریات کی سی نہیں کہ بچہ جنہیں پیدا ہونے سے پہلے جانتا ہو اور انہیں ساتھ لے کر دنیا میں آئے۔ قرآنی نظریہ یہ ہے کہ ان کی استعداد ہر کسی میں موجود ہوتی ہے اسی طرح سے کہ جونہی بچہ اس مرحلے پر پہنچتا ہے کہ ان کے بارے میں تصور کرے تو ان کی تصدیق اس کے لئے فطری ہوتی ہے۔ یہ آیت کہ
والله اخرجکم من بطون امهاتکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع و الابصار و الافئدة لعلکم تشکرون
اس امر سے کہ توحید فطری ہے اور اس مسئلے سے کہ قرآن بہت سے مسائل کو تذکر اور یاددہانی کے طور پر ذکر کرتا ہے کوئی تضاد نہیں رکھتی۔ چونکہ فطری ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کے لئے سیکھنے اور استدلال کی ضرورت نہیں اس کا یہ معنی نہیں کہ دنیا میں آنے سے پہلے انسان اسے جانتا ہو لہٰذا دونوں آیات ایک دوسرے سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں۔ یہ تھی فطریات کے بارے میں علمی گفتگو۔
منکرین کا نظریہ اور اس کا نتیجہ
جو لوگ مجموعی طور پر فطریات کے منکر ہیں کہتے ہیں کہ انسانی فکر ثابت اصولوں کے کسی ایسے سلسلے کی حامل نہیں ہے کہ جو عقل کے انداز کار کا لازمہ ہو اور ذہنی ساخت کا لازمہ نہ ہو جیسا کہ کانٹ کہتا ہے۔ اصول فکر کے سلسلے میں ان کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ تناقض محال ہے (تناقض یعنی ایک دوسرے کی ضد ہونا) یعنی دو نقیض (دو ضدیں) آپس میں جمع نہیں ہو سکتیں یعنی محال ہے کہ آنِ واحد میں (ایک حالت اور ایک ہی معنی میں) درحقیقت ایک چیز ہو بھی اور نہ بھی ہو۔ اس معنی میں کہ ایک فکر اور ایک نظریہ محال ہے کہ ایک ہی وقت میں واقع کے مطابق بھی ہو اور واقع کے مطابق نہ بھی ہو (البتہ اس مسئلے کے بارے میں فلسفہ ”ہیگل“ اور اس کے بعد ”مارکسزم“ میں کئی ایک ایسی باتیں آتی ہیں جو ہمارے موضوع بحث سے بالکل خارج ہیں اور اگر ہم ان کے بارے میں گفتگو کرنا چاہیں تو بات بہت لمبی ہو جائے گی) یا وہ کہتے ہیں دو چیزیں کہ جن میں سے ہر ایک کسی تیسری چیز کے مساوی (برابر) ہے وہ آپس میں بھی مساوی ہیں (یعنی اگر C=A اور C=B درست ہے تو B=A بھی درست ہے)۔
اسی طرح ”کل جزو“ سے بڑا ہے ”ترجیح بلامرجح محال“ ہے وغیرہ یعنی اگر ایک چیز کے بارے میں دو مخالف امکان موجود ہوں اور اس چیز کے لئے ہر دو امکان برابر ہوں تو اس چیز کا کسی ایک کی طرف جھک جانا کسی خارجی عامل کا محتاج ہے۔ اگر کسی خارجی عامل کا عمل دخل نہ ہو تو ایک امکان سے دوسری طرف ترجیح پیدا کرنا محال ہے مثلاً ہم کہتے ہیں کہ کسی بہت اچھے ترازو کے دونوں پلڑے بالکل مساوی و برابر ہیں (اب آپ یہ نہ کہئے گا کہ ایسا حساس کوئی ترازو نہیں ہو سکتا آخر انسان کی ساخت ہے اب چاہے یہ فرق ۰۰۰,۰۰۰,۱۰/۱ ہی کیوں نہ ہو ہم اس فرق کو منہا کر کے حساب کریں گے)۔
اگر کوئی عامل دخیل نہ ہو (عمل دخل نہ ہونا) تو عقل یہ کہتی ہے کہ ایک پلڑے کا جھکنا یا اٹھنا محال ہے۔ اب یہ عامل ہوا کی حرکت ہو یا کسی ایک پلڑے میں وزن ڈال دیا جائے یا کسی ایک پلڑے پر کوئی چیز لگ جائے یا مقناطیسی قوت ہو یا کسی ایسے قوی انسان کا ارادہ ہو کہ عالم طبیعت پر اثرانداز ہو سکتا ہے (مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک پلڑے میں سے کوئی چیز کم ہو جائے ایک زیادہ کہنہ ہو جائے اور اس کی وجہ سے کوئی چیز اس میں سے گر جائے اس بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ سب عوامل میں سے شمار ہوں گے)۔
ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں مثلاً ممکن نہیں ہے کہ ایک چیز جو جگہ گھیرتی ہے ایک ہی وقت میں اپنے وجود کے دوگنا یا دو برابر جگہ گھیر لے یا دو جگہ پر موجود ہو اسی طرح دو مکانی چیزیں ایک ہی وقت میں یا بیک وقت ایک مقام پر نہیں ہو سکتیں۔
یہ ایسی چیزیں ”باتیں“ ہیں کہ ان کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کوئی ایسی مجہولات ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں کہ ایسا ہے یا نہیں ہے۔
بعض چیزوں اور امور کے لئے دلیل پیش نہیں کی جا سکتی اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ چیز اس طرح سے ہے یا نہیں مثلاً ابعاد عالم (کائنات کی حدود) کے متعلق کہ یہ متناہی ہیں یا لامتناہی ہیں۔ ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے ”مجھے معلوم نہیں کہ متناہی ہیں یا لامتناہی کیونکہ اس کے لئے دلیل نہیں لائی جا سکتی“ یا ایک اور مشہور مثال یہ دی جاتی ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ اگر میں بھی بڑا ہوتا جا رہا ہوں تو میرا قد جو پہلے ۷ ء ۱ میٹر تھا اب ۸ ء ۱ میٹر کیوں نہیں ہے؟ وہ جواب میں کہے میٹر خود بھی تمہارے ہی حساب سے بڑا ہو گیا ہے۔ یہ بات کہ تمام اشیاء ایک تناسب سے بڑی ہو رہی ہیں دلیل کے ساتھ رد یا نفی نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح اگر کوئی اس کے برعکس کہے اور یہ دعویٰ کرے کہ تمام اشیاء ایک ہی تناسب سے چھوٹی ہو رہی ہیں اس بات کی بھی نفی یا اثبات ممکن نہیں۔ یہ بھی انسان کے لئے مجہول کے طور پر باقی رہتی ہے لیکن یہ بات کہ یہ جسم ایک ہی وقت میں دو مقامات پر موجود ہے اس کے لئے بھی دلیل نہیں دی جا سکتی اس لئے نہیں کہ یہ بات مجہولات میں سے ہے بلکہ ایسا ہونا جھوٹ اور محال ہے۔
وہ لوگ جو اصول فکر کے فطری ہونے کے قائل ہیں وہ ان اصولوں کو لامتغیر اور خطا و غلطی سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم جب اس عالم میں ہیں تو بھی یہ اصول درست ہیں اور اگر ہمیں اس سے نکال کر کسی اور ماحول اور حالات میں رکھا جائے مثلاً کسی اور سیارے پر لے جایا جائے تو پھر بھی یہ اصول اس طرح سے رہیں گے۔
ان کے علاوہ بھی ایسے امور ہیں جنہیں ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ثابت ہونے کے قریب تر ہیں وہ اسی طرح ہیں مثلاً ۴=۲ x ۲ دنیا میں بھی ایسے ہی ہے اور آخرت میں بھی ایسے ہی ہے اس زمانے میں بھی یہ قانون ایسے ہی ہے جب زمین آگ کا ایک گولہ تھی اور اس دنیا کی کروڑوں سال عمر گزر جائے تب بھی یہ مساوات ( ۴=۲ x ۲) درست رہے گی۔
اگر ہم فکر کے لئے ایسے اصولوں کے قائل ہو جائیں اور انہیں مان لیں تو پھر فروع کی اہمیت کو بھی مان لیں گے کیونکہ ان کے فروعات کی بنیاد یہی اصول ہیں۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ خود یہ اصول بھی کسبی ہیں اس لحاظ سے کہ ایک عامل انہیں واضح اور ثابت شدہ سمجھنے کا سبب بنا ہو اور اس عامل کی کیفیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم یوں خیال کریں ہم آئینے کی طرح ہیں جو مختلف صورتوں کے سامنے موجود ہے۔ چونکہ اس وقت ہم ان صورتوں کے سامنے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے رہے ہیں اور اب انہیں دیکھ رہے ہیں لہٰذا ایسا محسوس کر رہے ہیں اگر ان صورتوں کو ہمارے سامنے سے ہٹا دیا جائے اور دوسری صورتیں ان کی جگہ سامنے لائی جائیں تو پھر صورت حال برعکس ہو جائے گی۔ ہم یہ جو کہتے ہیں کہ ”کل جزو سے بڑا ہے“ تو یہ اس ماحول کے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ایسے کہیں ماحول تبدیل ہو جائے تو ممکن ہے کہ ہم اس کے برعکس سوچیں اور یہ کہیں کہ ”جزو اپنے کل“ سے بڑا ہے۔ فی الحال میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نتیجہ کیا ہو گا اگر ہم فکر کے لئے اصول فطری کا انکار کریں؟ تو پھر کسی ایجاد اور علم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ تمام ریاضی علوم کی بنیاد کچھ مسلمہ اصولوں پر ہے جو لوگ فطری اصولوں کے منکر ہیں ان کے نزدیک تو ریاضی کے ان (مسلمہ اصولوں) کی بھی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں اور یہ اصول ذہن کی مخصوص ساخت کی وجہ سے ہیں اور اگر ہماری ذہنی ساخت تبدیل کر دی جائے تو پھر ہم بھی کچھ اور کہیں گے۔ ان اصولوں کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم زمین پر زندگی گزار رہے ہیں اگر ہم مریخ پر رہنے لگیں تو ہماری سوچ کا انداز بھی بدل جائے گا۔ اس نظریے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کسی فلسفے کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے پس ہم ابتدائی طور پر اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں لیکن اسے ثابت نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو فکر کے لئے بنیادی اصول کے منکر ہیں وہ حتمی طور پر کسی خاص تصور کائنات کے حامل نہیں ہو سکتے وہ کسی اپنے فلسفے کے حامل نہیں ہو سکتے کہ جس کی بنیاد پر وہ یقین کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ ہم نے کائنات کو پہچان لیا ہے اور اصل بات یہی ہے۔
بہرحال ان کے نکتہ نظر کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ خود بھی اس طرف متوجہ نہ ہو سکے۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہو اور اس ٹہنی کو کاٹ رہا ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس عمل کے نتیجے میں وہ خود بھی نیچے جا گرے گا۔
اگر مادیت کے فلسفی حسی محض (حواس خمسہ سے قائل) ہوں تو ان کے پاس اس کے علاوہ چارہ ہی نہیں کہ وہ تمام افکار کو خاص بیرونی عوامل کا نتیجہ قرار دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فکر کے لئے کسی ایسے مسلم اور قطعی اصول اولیہ (بنیادی اصول) کے قائل نہیں جو اختلاف سے پاک ہو یعنی وہ سب کچھ کہ جو ہم کہتے ہیں ان کے اصول اور فروع سب بے بنیاد ہیں اور یہ معتبر نہیں ہیں۔ اگر ان کی یہ بات درست ہو تو پھر خود یہ فلسفہ بھی جس کی عمارت اسی بنیاد پر رکھی گئی ہے کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور پھر ان لوگوں کے نزدیک کسی فلسفے کی کوئی حیثیت نہیں اور ان باتوں کا نتیجہ فلسفہ شک ہے نفی علم اور نفی فلسفہ ہے۔ اس سے کسی خاص ازم (خاص مکتب فکر) کا اثبات نہیں ہو سکتا اس کا نتیجہ تو پھر یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں سب ایک خاص ماحول یا حالات اور اس کے تقاضوں کا ساختہ و پرداختہ ہے۔
یہاں تک ہماری بحث کا تعلق فطریات کے اس حصے سے تھا جس کا تعلق ایجاد و دریافت سے ہے۔ ابھی تک ہم نے مختلف نظریات بیان کئے ہیں اور ان میں سے ایک نظریے کا انتخاب کیا ہے اور یہ کہ اصول تفکر فطری ہے اور ہم نے وضاحت کی ہے کہ ہم جسے فطرہ کہتے ہیں وہ اس فطری سے مختلف ہے جو کانٹ یا افلاطون کہتے ہیں فطری سے ہماری مراد پیدائشی آگاہی نہیں ہے۔ اس بحث سے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ علم انسانی فکر انسانی اور فلسفہ انسانی کو اہمیت دینے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اصول اولیہ تفکر (فکر کے اولین اصولوں) کے فطری ہونے کو قبول کریں۔ اگر یہ اصول ہمارے پاس نہ ہوں تو ہمارے پاس شک مطلق کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہے گا لہٰذا وہ فلسفہ کہ جو اصول اولیہ تفکر (فکر کے اولین اصولوں) کے فطری ہونے کے قائل نہیں ہیں اور ساتھ یہ بھی کہنا چاہئے کہ ہم ایک فلسفے کے قائل ہیں۔ ان سے کہنا چاہئے کہ خود تمہارا یہ فلسفہ بھی ایک ایسی فکر ہے کہ جس کا کوئی اعتبار اور حیثیت نہیں ہے مثلاً جو لوگ مادیت جدلیاقت مادی علم معقول ( Dialectic Materialism ) کے قائل ہیں اور جن کے نزدیک کائنات مادہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور صرف مادہ کے قائل ہیں اور روح کے وجود کے منکر ہیں ان پر خود ان کے مفاہیم پر اعتراض کے علاوہ یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے اور ان سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے فلسفے کی جو بنیاد قرار دی ہے یہ تو کوئی بنیاد ہی نہیں اور آپ تو اس شخص کی مانند ہیں کہ جو کسی درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہوا ہو اور اسے خود درخت کی سمت سے کاٹ رہا ہو اور اس کی حالت بس ایسی ہو کہ ابھی گرا کہ گرا۔