باب سوم
مقدس (پاکیزہ) رجحانات
اب ہم دو سوالوں کے بارے میں گفتگو کریں گے کیونکہ دونوں سوال ہماری بحث کا موضوع ہیں لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا وقت ان کے جواب میں صرف نہ کریں۔ اجمالاً اتنا عرض کرتا ہوں کہ کچھ اس طرح کے سوالات ہیں ایک سوال تو خدا کے بارے میں جستجو کے فطری ہونے کے معنی سے متعلق ہے اس سوال میں جو ڈاکٹر بہشتی کی کتاب ”خدا از دیدگاہ قرآن“ (خدا قرآن کی نظر میں) سے نقل کیا گیا ہے۔ یہ بات کہی گئی ہے کہ انسان جب طبیعی مظاہر کو دیکھتے ہیں تو ان کی علت کی جستجو کرتے ہیں اور جب ایک علت کو پا لیتے ہیں تو پھر اس علت کی علت کو تلاش کرتے ہیں اسی بات کو انسان نے آخرکار اس حد تک پہنچایا کہ علتوں کے اس سلسلے کا کسی جگہ اختتام ہونا چاہئے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ہر مظہر خود ہی کسی دوسرے مظہر کا معلول ہو یعنی دوسرے مظہر کے وجود میں آنے کی علت یا سبب ہو تو وہ دوسری چیز بھی تو اسی کے مانند ہے۔ مثلاً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ارتقاء فکر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یوں تسلسل پیش آتا ہے کہ جو کہ محال ہے انجام کار ان کی فکر یہاں تک پہنچی کہ کوئی مرکزی نقطہ ہونا چاہئے جو ”علت العلل“ ہو اور ہر علت وہیں سے جنم لینی چاہئے۔ یہ بات مذکورہ کتاب سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ لہٰذا اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ خارجی ”بیرونی مظاہر انسان کو تخلیق کے نقطہ آغاز کی جستجو پر ابھارتے ہیں۔ تو پھر آپ نے اصول فلسفہ کی جلد پنجم میں جو یہ کہا ہے کہ خدا کے بارے میں بحث فطری ہے اس کی آپ کیسے توجیہہ کریں گے؟ (کس طرح درست ثابت کریں گے؟) جبکہ بیرونی مظاہر انسان کو خدا کی جستجو پر ابھارتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کیا ہم خود اس بات کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں کہ بیرونی مظاہر انسان کو خدا کے وجود کی جستجو کی طرف متوجہ کرتے ہیں تاکہ انسانی وجود کے اندر سے کوئی عامل اسے اس کے لئے ابھارتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ آپ نے اصول فلسفہ کا بھی غور سے مطالعہ کیا ہو تو اس کا جواب وہاں موجود ہے جتنا مجھے اجمالاً یاد ہے کہ علت عامہ کے حوالے سے ایک بات ہم نے وہاں کہی ہے یعنی یہ کہ انسان جو اللہ کی جستجو کرتا ہے اس کی علت یہی ہے کہ اصول علت اس کی روح پر حکم فرما ہے یعنی انسان علتوں کی جستجو میں ہے اور علتوں کی اسی جستجو نے اسے ”علت العلل“ (بنیادی علت) تک پہنچایا ہے اور اس کا بالکل یہی مطلب ہے کہ عامل وجود انسانی کے اندر موجود ہے یعنی اگر یہ الہامی کیفیت انسان کے اندر موجود نہ ہوتی کہ وہ علتوں کو تلاش کر کے علتوں کے سرچشمہ تک جا پہنچے تو پھر بیرونی مظاہر کو دیکھ کر وہ ان کے پاس سے بغیر کوئی توجہ کئے گزر جاتا۔ بحث یہ ہے کہ انسان جب بیرونی مظاہر کو دیکھتا ہے تو اسے کوئی سی چیز اس پر ابھارتی ہے کہ وہ ان کی علتوں کی جستجو کرے۔ جب بیرونی مظاہر جیسا اپنے آپ کو انسان کے سامنے پیش کرتے ہیں ویسا ہی حیوانوں کے سامنے بھی کرتے ہیں یعنی جو کچھ انسان دیکھتا ہے حیوان بھی وہی کچھ دیکھتے ہیں لیکن جو چیز ان بیرونی مظاہر کے دیکھنے کے بعد انسان کو ان کی علتوں کی جستجو پر ابھارتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایسی حس انسان کے اندر موجود ہے جو اسے کہتی ہے کہ ہر مظہر اور ہر چیز کا وجود ایک علت کا محتاج ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ اگر وہ علت بھی کسی مظہر کی طرح کوئی اور کا مظہر ہو اور اسی چیز کی طرح کوئی اور چیز ہو اور وہ خود بھی کسی علت کی محتاج ہو تو انسان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہو گی کہ کیا سب علتوں کا کوئی ایک سرچشمہ بھی ہے؟ ایسا سرچشمہ کہ جو اپنی علت خود ہو جو ایسی وقوع پذیر ہونے والی نہ ہو اور بالکل یہی فطری ہونے کا معنی ہے۔ یہ بات نہ صرف اس امر کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کی تائید کرتی ہے اس کی تفسیر بعد کے لئے رہنے دیتے ہیں۔
دوسرا سوال فطری ہونے کی علامات کے بارے میں ہے۔ پہلے بھی ہم عرض کر چکے ہیں کہ اس سلسلے میں ہم آئندہ بحث کریں گے کہ کسی خصلت کے فطری ہونے کی کیا علامات ہیں؟ ہم کہاں سے یہ بات سمجھتے ہیں کہ انسان کی فلاں صفت یا فلاں خصلت فطری ہے یا بعض صفات سماجی یا انفرادی بیرونی عوامل کا نتیجہ ہیں؟
ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں اور اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں کہ انسان ان تمام دیگر موجودات سے کہ جنہیں ہم جانتے ہیں یہ فرق رکھتا ہے ”اس فرق کے ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی دوسرے فرق کی نفی کریں“ کہ یہ ایک ایسا موجود ہے جو کائنات کا ادراک کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کائنات کے بارے میں سوچتا ہے مزید برآں یہ ایک ایسا موجود ہے کہ جو سوچتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے۔ موجودہ دور کی تعبیر میں یہ ایک آگاہ اور باشعور موجود ہے خود سے بھی آگاہ ہے اور کائنات سے بھی۔ انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے کائنات کے بارے میں کچھ معلومات رکھتا ہے کہ جنہیں ہم ادراک کہتے ہیں اور یہ کیا عمدہ لفظ ہے جو قدیم زمانے سے انتخاب شدہ ہے ادراک یعنی ”پا لینا اور پہنچنا“ فلسفیوں نے بھی اس لفظ کے لغوی بنیاد سے کام لیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کی جستجو میں ہو اور اس تک جا پہنچے تو عربی زبان میں کہتے ہیں ادرک ہو“ ”پا لیا“، مثلاً اگر کوئی شخص کسی آدمی کا پیچھا کر رہا ہو اور وہ بھاگ جائے تو اور یہ بھی اس کے پیچھے دوڑے تو یا تو اسے پا لیتا ہے یا اس تک نہیں پہنچ پاتا اگر اس تک جا پہنچے تو کہتے ہیں ”ادرک ہو“ ”پا لیا“۔
کائنات کے بارے میں انسان کی دریافت اور ادراک انسان اور کائنات کے درمیان ایک طرح کا استعمال اور رابطہ ہے اس طرح سے کہ گویا انسان جب تک جاہل ہے اس کے اور کائنات کے درمیان پردہ یا رکاوٹ موجود ہے اور جس قدر وہ کائنات سے آگاہ ہو گا اسی قدر وہ کائنات کو پا لے گا اور اس تک پہنچ جائے گا تو یہ ایک طرح کا پہنچنا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس لحاظ سے جمادات نبادات اور حیوانات میں سے کوئی بھی انسان کا شریک نہیں۔ حیوانات کائنات کے بارے میں ایک طرح کی مبہم ”غیر واضح“ آگاہی رکھتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ آگاہی انسانی آگاہی کے برابر نہیں ہے کم از کم یہ ہے کہ وہ غور و فکر نہیں کرتے کیونکہ فکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی موجود حاصل شدہ معلومات کے ذریعے ایک نئی آگاہی حاصل کرے یعنی وہ جو کچھ جانتا ہے اس کے ذریعے مجہولات ”غیر شناخت شدہ“ کو منکشف کرے۔ آپ جب کسی موضوع کے بارے میں غور و فکر کرنے بیٹھتے ہیں مثلاً کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ یہ فکر کرنا کون سا عمل ہے؟ یہ عمل یوں ہے کہ آپ اپنے پاس موجود معلومات کو آپس میں اس طرح سے مرکوز کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے مجہول معلوم میں بدل جائے یعنی ایک نئی راہِ حل تلاش کرتے ہیں۔ یہ عمل بالکل عالم مادہ اور عالم جسم توالد و تناسل کے مانند ہے کہ جس میں دو موجود ”مذکر اور مونث“ ایک دوسرے سے ازدواج کرتے ہیں اور ان کے اس ازدواج سے نیا مولود جنم لیتا ہے۔ انسان جب فکر کرتا ہے تو پہلے سے موجود معلومات کے سرمائے کی آپس میں پیوند کاری ہوتی ہے اور اس پیوند کاری اور جفت بندی سے ان کے درمیان رابطہ وجود میں آتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک نئی سوچ اور ایک نئی راہِ حل پیدا ہو جاتی ہے۔ حیوانوں میں یہ بات نہیں ہے حیوان فقط حس رکھتا ہے اور سطحی سا مشاہدہ کرتا ہے مثلاً ہم بھی رنگوں کو دیکھتے ہیں اور حیوان بھی دیکھتے ہیں ہم بھی حرارت کا احساس کرتے ہیں اور وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ فکر کرنا انسان کی خصوصیت ہے۔
انسانی خصوصیات
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انسان بعض رجحانات کے لحاظ سے غیر انسان سے مختلف ہے ان رجحانات کو ایک لحاظ سے مقدس رجحانات (پاکیزہ رجحانات) کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے لحاظ سے یہ ایسے رجحانات ہیں جو خود ”محوری“ پر مبنی نہیں ہیں یعنی انسان ایسے رجحانات رکھتا جو ”خود محوری“ سے بالاتر ہے۔ یہ خود محوری کیا ہے؟ ایسے رجحانات جو انجام کار صرف انقلابی ہوں ایسے رجحانات حیوانات میں ہوتے ہیں اور انسان میں بھی۔ حیوان بھی غذا کی خواہش رکھتا ہے لیکن غذا کی خواہش کا رجحان اور تعلق خود اسی سے ہوتا ہے یعنی رغبت اپنے لئے حصول غذا کی خاطر۔ انسان میں بھی خود محوری پر مبنی بعض رجحانات ہیں کیونکہ یہ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حیوان بھی ہے بلکہ پہلے حیوان ہے بعد میں انسان لہٰذا ایسے رجحانات انسان میں بھی ہیں۔
بہرحال انسان میں کچھ رجحانات ایسے ہیں جو اولاً تو خود محوری کی اساس (بنیاد) پر نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ انسان اپنے خمیر میں ان رجحانات کے لئے ایک طرح کی قدامت کے احترام کا قائل ہے یعنی ان کے لئے ایک طرح کے بلند مرتبے اور برتری کا قائل ہے۔ اس طرح جو انسان جس قدر بھی ان رجحانات کا عامل ہو گا اس انسان کو اتنا ہی عالی تر سمجھا جائے گا۔ حیوان کے رجحانات یا تو محض خود محوری پر مبنی ہیں مثلاً نیند اور غذا وغیرہ کی طرف رغبت یا اگر کچھ خود پروری پر مبنی تر بھی ہوں تو بھی اس کی حد بقاء نوع تک ہی ہو گی یعنی توالد اور تناسل اور تولد افزائش نسل کی حد تک اور وہ بھی جبلت اور تحریک حیوانی (انگریزی میں اسے " Instinct " سے تعبیر کیا جاتا ہے) کے دائرے میں۔ پھر ہم جبلت کی تاریخ میں آ پہنچتے ہیں یعنی حدود کے اندر یہ ایک آگاہ دانا شعوری آزادانہ اور منتخب عمل ہے اور یہ بہت زیادہ محسوس اور مشہور ہے مثلاً ہم گھوڑی کو دیکھیں جب اس کا بچہ پیدا ہونے والا ہوتا ہے اور جوں جوں بچے کی پیدائش کا مرحلہ قریب آتا ہے تو بچے کے لئے اس کی خواہش اتنی شدید ہوتی جاتی ہے کہ خدا ہی جانتا ہے۔ جب یہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے اور آپ اس گھوڑی پر سوار ہوتے ہیں تو وہ حرکت نہیں کرنا چاہتی اسے اپنے بچے کی فکر ہوتی ہے اور اگر آپ اسے دو قدم دور کر دیں تو اپنا رخ موڑ موڑ کر بچے ہی کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اس کی طرف بھاگتی ہے۔ اس بچے کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ بچے کی ماں کی طرف رغبت کم ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ جوان ہو جاتا ہے تو پھر گھوڑی کی طرف اس کا کوئی رجحان نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی گھوڑی سات سال کی ہو اور اس کا بچہ دو سال کا ہو اور جب ماں اسے دیکھے تو بچے کے جوان ہونے کی وجہ سے اسے ایک طرح کی لذت محسوس کرنا چاہئے جبکہ وہ اس کی طرف کوئی رغبت نہیں رکھتی اور اگر وہ اس کے قریب آئے تو وہ اسے دولتی مارتی ہے اور اسے ٹھکرا دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ (معلوم نہیں کہ فردوسی کے زمانے کے گھوڑے اور مرد کس طرح کے تھے کہ اس نے لکھا ہے:
”سہ پنچ سال اسب وسہ دہ سالہ مرد“
اب تو ۴۰ سال کے مرد بوڑھے ہوتے ہیں اور ۳۰ سال کے گھوڑوں کا تو سرے سے ہی وجود ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جبلت صرف اس بچے کی حفاظت کے لئے تھی یعنی صرف اس لئے کہ نسل جاری رہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تھی۔ اب جبکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے اور اپنی ماں کی طرح کا ہو گیا ہے تو اب ماں کی نظر میں اس میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رہا۔
حیوانات کی بھی سماجی زندگی ہوتی ہے لیکن ان کا عمل آزادی انتخاب کے ذریعے نہیں ہے بلکہ انتصابی ”منصبی“ ہے یعنی طبیعت کی طرف سے وہ اس کام کے لئے منتخب ہوئے ہیں اور اپنا کام جبری طور پر انجام دیتے ہیں اس لئے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ مثلاً شہد کی مکھیاں یا بعض چیونٹیاں سماجی زندگی رکھنے والے جانوروں میں شمار ہوتی ہیں اس طرح ہرن بھی کسی حد تک سماجی زندگی ( Social Life ) بسر کرتا ہے البتہ اس کا عمل بھی جبلی ہوتا ہے یعنی خود بخود اور نیم شعوری کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے تاکہ ان کے اپنے انتخاب کے ذریعے یعنی شروع ہی سے ان کی طبیعت میں یہ سب کچھ موجود ہے اور یہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے یہ کیفیت ہے حیوانات کے رجحانات کی۔
لیکن انسان جو رجحانات رکھتا ہے اولاً تو ”خود محوری“ کے ساتھ ہی ہم آہنگ نہیں ہیں اور اگر اس حوالے سے ان کی توجیہہ ”وضاحت“ کی جائے تو یہ تمام تر پہلو محل بحث اور ناقص ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ یہ ایک انتخابی شکل اور آگاہانہ شعوری صورت ہو گی بہرحال یہ ایسے امور ہیں کہ جو انسانیت کے معیار اور امتیاز کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آج بھی دنیا کے تمام مکاتب فکر چاہے وہ الٰہی ہوں مادی ہوں یا ”سوفسطائی“، شکاک ”شک پر مبنی فلسفہ“ یا کوئی اور " Sceptic " ”دہریہ“ سب انسان کے بارے میں ایسے امور کا ذکر کرتے ہیں کہ جو ”مافوق الحیوانی“ نفوذ ہوتے ہیں۔ پہلے ہم ان امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اس کے بعد اس امر کا جائزہ لیں گے کہ کیا یہ امور انسان کے لئے فطری ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی دیکھیں گے کہ اگر یہ فطری نہ ہوں تو نتیجہ کیا ہو گا اور فطری ہوں تو پھر کیا نتیجہ ہو گا؟ بعدازاں ان کے فطری ہونے یا نہ ہونے کے دلائل کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
محسوسی فطریات
۱ ۔ حقیقت کی تلاش
یہ رجحانات کہ جنہیں کبھی ”مقدسات“ (قابل ادب و احترام) بھی کہا جاتا ہے اجمالاً پانچ قسم کے ہیں یا کم از کم ہم ابھی ان کی پانچ اقسام کو جانتے ہیں۔ ان میں سے ایک ”حقیقت“ ہے ”حقیقت“ کی اصطلاح کو ہم ”دانائی“ یا ”دریافت حقیقت کائنات“ بھی کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان میں ایک ایسا رجحان موجود ہے کہ حقائق جیسے کہ وہ ہیں ان کے کشف کرنے کا رجحان حقائق اشیاء کا ادراک ”کما ھی علیہا“ یعنی جیسے وہ حقیقت میں ہیں یہ کہ انسان ”حیات ہستی“، ”عالم وجود“ اور اشیاء کو ان کی حقیقی ماہیت کے مطابق دریافت کرے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منسوب دعاؤں میں سے ایک میں آپ ۱ فرمایا کرتے تھے:
اللهم ارنا الاشیاء کما هی
”یااللہ! ہمیں اشیاء کو ویسا ہی دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔“
جسے حکمت اور فلسفہ کہتے ہیں بنیادی طور پر اس کا ہدف یہی ہے۔ انسان جو فلسفہ کی طرف آیا ہے تو اصولی طور پر اس کی بنیاد یہی حس ہے کہ وہ حقیقت اور حقائق اشیاء کو جاننا چاہتا ہے اس حس کا نام ہم ”حس فلسفی“ بھی رکھ سکتے ہیں چاہے ہم اسے حقیقت جوئی کہیں یا مقولہ حقیقت کا نام دیں یا عنوان فلسفی کے تحت دیکھیں یا اسے دانائی کے زمرے میں قرار دیں۔ ایک جملہ ہے کہ جو بو علی سینا نے استعمال کیا ہے اور یہ تعبیر استعمال کرنے والا وہ قدیم ترین شخص ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ اس سے پہلے ایسی تعبیر کا وجود تھا یا نہیں البتہ بعد میں شیخ اشراق اور دیگر افراد نے اسے استعمال کیا ہے۔ فلسفے کے مقصد اور ہدف و غایت کے نتیجے کے اعتبار سے فلسفے کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:
صیرورة الانسان عالما عقلیا مضاهیا للعالم العینی
یعنی فلسفی بننے کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اس عالمِ مادی و ظاہری ہی کی مانند ایک ”عالم عقلی“ بن جائے یعنی اس ”عالم عینی“ اور مادی کو اس طرح سمجھے اور دریافت کرے کہ جس طرح وہ حقیقت میں ہے اور بعد میں وہ خود ایک کائنات بن جائے لیکن وہ عالم بیرون عالم عینی سے خارج ہو گا اگرچہ یہ عالم جدید وہی جہان عینی ”عالم مادی“ ہے البتہ یہ اس کی عقلی صورت ہے۔
یہ حقیقت اور حقیقت جوئی فلاسفہ کی نظر میں انسان کا کمال فطری ہی ہے انسان جبلی اور فطری طور پر کمال فطری کا طالب ہے یعنی حقائق جہان کو جاننے کا متلاشی ہے۔ اس طرح کے رجحانات انسان میں حقیقت عالم تک رسائی کے لئے موجود ہیں۔
علم نفسیات میں بھی اس پر حسی حقیقت جوئی یا حسی جستجو کے نام سے بحث کی جاتی ہے۔ جب کسی مسئلے کو ایک وسیع سطح پر پیش کیا جاتا ہے تو اس کا نام ”حس کاوش“ یا ”حس جستجو“ رکھا جاتا ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جو دو یا تین سال کے بچوں تک میں موجود ہوتی ہے البتہ مختلف بچوں میں مختلف سطح کی ہوتی ہے۔ بچہ جب تین سال کا ہوتا ہے تو طرح طرح کے سوال پوچھتا رہتا ہے تعلیم و تربیت میں ماں باپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے بچوں کے سوالوں کا جواب دیں اور انہیں جھڑک نہ دیں۔ نادان اور بے توجہ ماں باپ جب دیکھتے ہیں کہ ان کا تین چار سالہ بچہ ہمیشہ سوال ہی کرتا رہتا ہے تو وہ اسے ایک فضول حرکت تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں ”خاموش ہو جاؤ کیا فضول سوال جواب کر رہے ہو“ البتہ ایسا طرز عمل غلط ہوتا ہے۔ یہ حس سوال ہے تلاشِ حقیقت کی حس ہے حس حقیقت جوئی ہے جو اس میں ابھی اٹھی اور بپا ہوئی ہے اور وہ پوچھتا ہے اور حق رکھتا ہے کہ پوچھے یہاں تک کہ اگر وہ ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھے کہ جس کا آپ جواب نہ دے سکیں یا جس کا جواب وہ سمجھ نہ سکے تب بھی اسے ڈانٹنا جھڑک دینا یا اس کی اس حس کو دبا دینا درست نہیں ہے اور اس کا یہ جواب نہیں کہ خاموش ہو جاؤ جس قدر ممکن ہو اس کا جواب دینا چاہئے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ بچے کی بہت سی شرارتیں اسی حس کی وجہ سے ہیں کیونکہ بچے کا شرارتی ہونا بھی ایک مسئلہ ہے جس چیز تک بھی پہنچتا ہے اس کو چھیڑتا ہے کبھی اس چیز کو اس پر مارتا ہے کبھی اس کو اس پر گراتا ہے کیا انسان فطرتاً شرارتی ہے؟ جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو کیا اس کی اصلاح ہو جاتی ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ یہ اس حس ”حقیقت شناسی“ کا نتیجہ ہے وہ چاہتا ہے کہ اسے یعنی کسی چیز کو اس پر مار کر دیکھے کیا ہوتا ہے؟ اب ہم جو ایسا نہیں کرتے ہیں تو یہ اس لئے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ہم بارہا تجربہ کر چکے ہیں لہٰذا ہمارے لئے مسئلہ حل شدہ ہے لیکن اس کے لئے یہ مسئلہ ابھی واضح نہیں ہے۔ انسان کے اندر سوال پیدا ہونا اپنی جگہ ایک اہم مسئلہ ہے فلاسفہ اس کو ایک بالاتر سطح پر پیش کرتے ہیں ماہرین نفسیات اس کو عمومیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بچے کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں بہرحال انسان حقیقت اور حقائق کو جاننے کا رجحان رکھتا ہے۔ ابو ریحان بیرونی کا ایک معروف واقعہ ہے جو شاید آپ نے سنا ہو۔ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے ان کا ایک ہمسایہ فقیہ تھا وہ ابو ریحان کی عیادت کے لئے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بستر پر پڑے ہیں اور روبہ قبلہ لیٹے ہوئے ہیں اور زندگی کے آخری سانس لے رہے ہیں۔ ابو ریحان نے اپنے اس ہمسائے سے وراثت کا ایک شرعی مسئلہ پوچھا۔ اس فقیہ کو تعجب ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کون سا وقت ہے مسئلہ پوچھنے کا؟ ابو ریحان کہنے لگے مجھے معلوم ہے کہ میں مر رہا ہوں لیکن آپ سے یہ مسئلہ پوچھ رہا ہوں اگر میں اس مسئلہ کا جواب جان کر مر جاؤں تو بہتر ہے یا نہ جانتے ہوئے مر جاؤں تو بہتر ہے؟ واضح ہے کہ جان کر مرنا بہتر ہے ابو ریحان کہنے لگا پھر اس کا جواب بتائیں؟ تو اس نے جواب دیا اس فقیہ کا کہنا ہے کہ میں ابھی واپس اپنے گھر نہ پہنچا تھا کہ ابو ریحان کے گھر سے عورتوں کے رونے کی آواز آنے لگی۔ بہرحال یہ انسان میں موجود ایک حس ہے جنہوں نے اپنی اس حس سے کام لیا ہے اور اسے زندہ رکھا ہے وہ اس مرحلے تک جا پہنچتے ہیں کہ کشف حقیقت کی لذت ان کے لئے ہر دوسری لذت سے بڑھ کر ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں لذت علم ان کے لئے ہر لذت سے بالاتر ہوتی ہے (اس کی وضاحت اس لئے زیادہ کر رہا ہوں تاکہ آپ جان لیں کہ یہ انسان کے بارے میں ایک حقیقت ہے اور اس کا تحلیل و تجزیہ بہت ضروری ہے۔ میں قبل ازیں یہ کہہ چکا ہوں کہ انسان کا موضوع دوسرے ہر موضوع سے زیادہ توضیح و تفسیر کا محتاج ہے)۔
حجۃ الاسلام سید محمد باقر شفتی اصفہانی مرحوم کے بارے میں بھی ایک واقعہ ہمارے قدماء نے نقل کیا ہے اور بالکل ایسا ہی واقعہ پاسچر کے بارے میں بھی ہے۔ جناب سید باقر مرحوم کی شب زفاف تھی جب دلہن کا ہاتھ دلہا کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے اور پھر عام طور پر عورتیں دلہن کو حجلہ عروسی (وہ خاص کمرہ جو دلہن کے لئے آراستہ کیا جاتا ہے) میں لے جاتی ہیں اس وقت جناب سید محمد باقر کسی دوسرے کمرے میں چلے گئے تاکہ جب عورتیں چلی جائیں تو پھر دلہن کے پاس جائیں تو انہوں نے سوچا کہ موقعے سے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے اور مطالعہ کیا جائے انہوں نے مطالعہ شروع کر دیا۔ عورتیں چلی گئیں دلہن بیچاری تنہا بیٹھی رہی بہت انتظار کیا کہ دولہا میاں آ جائیں مگر وہ نہ آئے۔ سید محمد باقر جب متوجہ ہوئے تو وقت سحر تھا یعنی علم کی کشش نے انہیں اس طرح سے جذب کر لیا کہ وہ سہاگ رات کو اپنی دلہن کو بھول گئے۔
پاسچر کے بارے میں بھی ایسا ہی واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہتے ہیں کہ اس کی بھی شب عروسی تھی ایک گھنٹہ دلہن کے پاس جانے میں باقی تھا اسے موقع مل گیا اور وہ اپنی لیبارٹری میں چلا گیا اور ایسا مصروف ہوا کہ صبح تک وہیں کام میں مگن رہا اور بھول گیا کہ یہ تو اس کی سہاگ رات تھی۔
اب یہ کیا ہے؟ یہ حقائق ہیں یہ حس کم و بیش سب انسانوں میں موجود ہوتی ہے البتہ دیگر حسوں کی طرح کسی میں زیادہ کسی میں کم۔ نیز یہ بات اس امر سے مربوط ہے کہ انسان نے اسے کس حد تک پروان چڑھایا ہے لہٰذا انسان کو علم اور جاننے کی وجہ سے غیر انسان پر ترجیح دی جاتی ہے۔
انگلستان کا مشہور اور ہر دلعزیز فلسفی اسٹوارٹ کہتا ہے:
”اگر انسان دانا ہو اور مفلس ہو تو وہ اس احمق سے بہتر ہے کہ جو خوشحال ہو ایک رنجیدہ و بے حال سقراط کو ایک موٹے سئور پر ترجیح حاصل ہے۔“
ایسی سب باتیں انسان کے حقیقت کے متلاشی ہونے کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں کیونکہ دانائی کا آخرکار کیا معنی ہے؟ یہی آگاہی کائنات کی تہہ تک پہنچنا دنیا کو سمجھنا اور جاننا۔
۲ ۔ نیکی و فضیلت کی طرف رجحان
انسان میں ایک اور بھی رجحان ہے کہ جسے نیکی و فضیلت کی طرف رجحان کہا جا سکتا ہے۔ یہ رجحان اخلاقی پہلو کا حامل ہے یہ وہی ہے کہ جسے ہم اپنی اصطلاح اور روزمرہ میں اخلاق کہتے ہیں۔ انسان بہت سی چیزوں کی جانب رغبت رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اس کے لئے فائدہ مند اور منافع بخش ہیں۔ انسان دولت سے رغبت رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اس کے لئے منافع بخش ہے اس کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے یہ ایک ذریعہ ہے۔ اپنے فائدے اور منافع کی طرف انسان کی رغبت خود محوری اور خود خواہی ہے یعنی انسان ایک چیز کی طرف رجحان رکھتا ہے کہ جسے وہ اپنے لئے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے سلسلہ حیات کو جاری و ساری رکھ سکے (البتہ ایک زندہ موجود کا اپنی زندگی کی بقاء کی طرف رجحان کیا ہے؟ اور اس میں کیا راز ہے؟ یہ اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے)۔ اس سطح تک تو اس بات کا تجزیہ کسی حد تک آسان ہے لیکن بعض امور ایسے ہیں کہ انسان ان کی طرف رجحان رکھتا ہے اس لئے نہیں کہ یہ اس کے لئے فائدہ مند ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ عقلی اعتبار سے فضیلت و نیکی کے زمرے میں آتے ہیں۔ خیرخواہی حسی ہے جبکہ فضیلت غیر عقلی ہے فضیلت مثلاً انسان کا سچائی کی طرف رجحان اس لحاظ سے کہ وہ سچائی ہے اس کے مقابلے میں جھوٹ سے نفرت اسی طرح انسان کا تقویٰ اور پاکیزگی کی طرف رجحان۔ مجموعی طور پر وہ تمام رجحانات جن کا شمار فضیلت میں ہوتا ہے دو قسم کے ہیں بعض انفرادی ہیں اور بعض سماجی انفرادی مثلاً ذاتی نظم و ضبط نفس پر قابو رکھنا اور اسی طرح اور بہت سے انفرادی اخلاقی کے مفاہیم یہاں تک کہ شجاعت بھی کہ جو بزدلی کے مقابلے میں ہوتی ہے اس سے مراد زورِ بازو نہیں کیونکہ وہ اخلاق کی تعریف سے باہر ہے۔ سماجی رجحانات مثلاً دوسروں کے ساتھ تعاون اور ان کی مدد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کسی معاشرتی یا سماجی کام کی انجام دہی۔ احسان اور نیکی کی طرف رغبت اور قربانی کا رجحان ذاتی مفاد کے مفہوم میں نہیں آتا کیونکہ قربانی کا جذبہ یعنی اپنے آپ کو قربان کر دینا یہاں تک کہ اپنی جان سے گزر جانا۔ اسی طرح ایثار کی طرف رحجان:
و یو ثرون علی انفسهم و لو کان بهم خصاصة
”وہ ایثار کرتے ہوئے اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے جبکہ وہ خود ضرورت مند ہیں۔“(حشر ۹)
و یطعمون الطعام علی حبه مسکینا و یتیما و اسیرا انما نطعمکم لوجه الله لا نرید منکم جزاء ولا شکورا
”وہ اللہ کی محبت میں مسکین یتیم کو کھانا کھلا دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تمہیں اللہ کے لئے کھلایا ہے اور ہم تم سے کسی جزا (بدلہ) اور شکریہ کے خواہش مند نہیں ہیں۔“(انسان ۸ ۹)
۳ ۔ حسن و جمال کی طرف رجحان
انسان میں حسن و جمال کی طرف رجحان موجود ہے۔ اب یہ چاہے حسن پسندی کے لحاظ سے ہو چاہے تخلیق حسن کے حوالے سے کہ جس کا نام فن و ہنر ( Art ) ہے۔ یہ بھی انسان کے اندر موجود ایک رجحان ہے اور کوئی شخص بھی اس احساس سے عاری نہیں ہے۔ انسان اگر لباس بھی پہنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ تاحد امکان وہ اسے اچھا لگے۔
جب انسان ایک عمارت تعمیر کرتا ہے پہلے مرحلے میں تو گرمی و سردی سے بچنے کے لئے اسی طرح سے چور وغیرہ سے حفاظت کے لئے بناتا ہے لیکن ہمیشہ اس کی تعمیر میں اپنی حس حسن پسندی کو آمیختہ کر لیتا ہے۔ اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ عمارت دیکھنے میں بھلی لگے فرنیچر اچھا ہو کمروں میں قالین خوبصورت ہوں۔ یہ تمام تر زیبائی اور حسن کی طرف رجحان انسان کے اندر موجود ہے۔ انسان خوبصورت قدرتی مناظر کو پسند کرتا ہے جب صاف و شفاف پانی کو دیکھتا ہے یا جب کسی آبشار پر اس کی نظر پڑتی ہے یا کسی دریا کو دیکھتا ہے تو وہ لطف اندوز ہوتا ہے چنانچہ وہ قدرت کے خوبصورت مناظر سے محظوظ ہوتا ہے۔ آسمان کی طرف اس کی نظر اٹھتی ہے افق کو دیکھتا ہے پہاڑوں کا نظارہ کرتا ہے تو ان سب چیزوں سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے یہ چیزیں اسے بھلی لگتی ہیں۔ اسی طرح سے فن و ہنر ( Art ) کا مسئلہ ہے اور یہ وہ حسن ہے کہ جو انسان خود تخلیق کرتا ہے۔ وہ چیزیں کہ جنہیں قدیم زمانے سے فنونِ لطیفہ کہا جاتا ہے جیسے خطاطی ہے جو بہت قدیم فن ہے۔ بہت خوبصورت خطاطی کی انسان کے لئے غیر معمولی اہمیت ہے اسے وہ محفوظ رکھتا ہے کسی نہایت دیدہ زیب خط میں لکھا گیا قرآن اگر انسان نے دس مرتبہ بھی دیکھا ہو تو گیارہویں دفعہ بلکہ سینکڑوں مرتبہ بھی دیکھنے کی خواہش اس کے دل میں رہتی ہے۔
ہمارے والد مرحوم رضوان اللہ علیہ کہ جن کا اپنا خط بھی خوب تھا انہیں خطاطی سے بہت لگاؤ تھا کہا کرتے تھے کہ بہت خوبصورت خط میں کوئی قرآنی نسخہ میرے ہاتھ میں ہو تو میں اس کی تلاوت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے خط اور حسن میں ایسا کھو جاتا ہوں کہ پڑھ نہیں پاتا۔ روضہ امام رضا علیہ السلام میں ایوان مقصورہ کے باہر ایک کتبہ لکھا ہے دیدہ زیب خط کا یہ ایک فن پارہ ہے۔ یہ ایک بڑا سا کتبہ ہے جو ایوان کی پیشانی پر لگا ہے اسے بالیسنفز نے جو گوہر شاد کا بیٹا تھا لکھا ہے۔ اس نے خود اسے کتبے کے آخر میں لکھا ہے:
کتبہ بایسنقر بن شاہ رخ بن امیر تیمور گورکان گوہر شاد شاہ رخ کی بیوی تھی بایسنقر اس کا بیٹا تھا۔ اس کا یہ کتبہ خط ثلث میں ہے۔ بایسنقر کا خط بے مثال ہے نہ اس سے پہلے کسی نے خط ثلث میں ایسی تحریر پیش کی ہے نہ اس کے بعد کوئی اس جیسا لکھ سکا ہے حالانکہ علی رضا عباسی ایک ایسا خطاط گزرا ہے کہ جو شاہ عباس کے زمانے میں تھا اور غیر معمولی طور پر اچھا خطاط تھا اس کے خطاطی کے فن پارے آج بھی اصفہان یا پھر قم (ایران کے دو اہم شہر) میں شاہ عباس کے مقبرے میں موجود ہیں کہ جو نہایت دیدہ زیب ہیں لیکن اس کے باوجود بایسنقر کے پائے تک نہیں پہنچ سکتے۔ قرآن بذات خود الٰہی نشانیوں میں سے ایک ہے اس کا اپنا ہی حسن ہے یعنی فصاحت و بلاغت ہے اور قرآن کو عالمگیر کرنے کے عظیم ترین اسباب میں سے ایک ہے اس کا عامل زیبائی یعنی فصاحت و بلاغت معجزنما ہے۔
غرضیکہ حسن کی طرف رجحان اور خوبصورتی کے مظاہر کی طرف کشش بھی انسان کے رجحانات میں سے ہے۔
۴ ۔ تخلیق اور ایجاد کا رجحان
چوتھے نمبر پر تخلیق و ایجاد کا رجحان ہے انسان میں چیزوں کو ایجاد کرنے کا رجحان موجود ہے۔ ایسی اشیاء جو وجود نہیں رکھتیں انسان چاہتا ہے کہ انہیں وجود میں لائے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ انسان نے اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صنعت و حرفت اور ایجاد و ابداع کا کام کیا ہے لیکن جس طرح علم انسان کے لئے زندگی اور معاش کا ذریعہ بھی ہے اور بذات خود مطلوب و مقصود بھی ہے ایجاد و تخلیق کی بھی یہی صورت ہے۔ آج کل اس مسئلے پر بہت بحث کی جاتی ہے کہ آیا علم برائے علم ہے یا علم برائے زندگی ہے؟ جواب یہ ہے کہ دونوں مطلوب ہیں یعنی علم انسان کے لئے مطلوب بالذات بھی ہے اور مطلوب بالغیر بھی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ علم بالذات بھی مطلوب ہے اور انسانی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر بھی۔ اس اعتبار سے کہ علم دریافت اور کشف ایک حقیقت ہے مطلوب بالذات ہے اور اس لحاظ سے کہ یہ ایک طاقت و توانائی ہے۔ بقول
توانا بود ہر کہ دانا بود
”جو صاحب علم ہے وہ طاقتور ہوتا ہے۔“
زندگی کی مشکلات حل کرنے کا ذریعہ ہے مطلوب بالغیر ہے تخلیق و ابداع بھی اسی طرح ہے۔ آپ نے طلبہ کے بارے میں مشاہدہ کیا ہو گا اور جانتے ہوں گے کہ جب ایک طالب علم کوئی چیز تخلیق یا ایجاد کرتا ہے تو وہ کتنا خوش ہوتا ہے اور اپنے آپ میں ایک خاص حیثیت کا احساس کرتا ہے۔ جب آپ اسے کوئی دستکاری کا کام کرنے کے لئے دیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس سے ایک نئی چیز تخلیق کرے مجموعی طور پر ابداع و ایجاد جس شعبے میں بھی ہو ایک قسم کی تخلیق ہے۔ بعض افراد کو آپ کہتے ہیں کہ وہ تخلیقی امتیاز و صلاحیت رکھتا ہے یعنی طرز تدریس میں اس کا امتیازی اور بے مثال اسلوب ہے۔ دیگر اشخاص ممکن ہے فقط دوسروں کی روش اور اسلوب کی پیروی کریں لیکن اس کے برعکس بعض افراد یہ صلاحیت ملکہ اور طاقت رکھتے ہیں کہ ایک نئی روش تخلیق کریں۔ مجموعی طور پر اجتماعی پروگراموں مملکت کو چلانے کے طور طریقوں شہری منصوبہ بندی اور وہ امور جن میں بلدیہ کے لئے منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح کتب کی تالیف و تصنیف میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ موجود اور نوآورد ”خلاق“ جبکہ بعض دیگر محض پسرانی روش کی تقلید کرتے ہیں بالخصوص کتابوں میں یہ تقلیدی پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ مشہور ضرب المثل ہے کہ ”چھپی ہوئی کتابوں کو پھر سے کتابت کرتے ہیں اور کتابت شدہ کو پھر چھاپ دیتے ہیں“ یعنی چھپی ہوئی کتابوں میں سے بعض باتیں اخذ کرتے ہیں اور تدوین کر لیتے ہیں اور اس کو دوبارہ چھاپ دیتے ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ کام تخلیقی نہیں ہے لیکن بعض افراد کی کتابیں تخلیقی ہیں اور انسان میں یہ رجحان موجود ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ تخلیق کار ہو۔ نظریات میں معاملہ اس سے بالاتر ہے کوئی شخص ایک نظریہ کی تخلیق کرتا ہے بعد میں اسے ثابت کرتا ہے دوسرے لوگ اس کے نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ یہ خود اپنی جگہ پر ایک طرح کی قدرت اور صلاحیت ہے مثلاً وہ شخص کہ جس نے ”جوہری حرکت“ کے نظریے کی تخلیق کی بعد میں اس کو ثابت کیا اور اب دوسرے اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ البتہ بعض اوقات یہ دو تین رجحان آپس میں مل جاتے ہیں مثلاً جب کوئی حافظ کی طرح اشعار کی صورت میں ایک نئی چیز تخلیق کرتا ہے تو اس نے ایک ہی وقت میں دو کام سرانجام دیئے ہیں ایک یہ کہ وہ ایک نئی چیز کو وجود میں لایا ہے اور تخلیقی حس کی تشنگی کو بجھایا ہے اور دوسرا یہ کہ چونکہ ایک خوبصورت اور حسن چیز کو یعنی خوبصورت شعر کو معرض وجود میں لایا ہے اپنی ”حس زیبائی“ کے شوق کو بھی اس نے سیراب کیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کی ”تلاش حقیقت“ کی حس کو بھی تسکین حاصل ہوئی ہو۔
۵ ۔ عشق و عبادت
پانچویں چیز کا نام ہم نے عشق و عبادت رکھا ہے البتہ ہم ابھی اپنی پہلی بات کی طرف آتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ اس کائنات میں کوئی موجود بھی ایسا نہیں ہے جو انسان سے زیادہ تشریح و توضیح کا محتاج ہو۔ چونکہ انسان میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو غیر انسان میں موجود نہیں اور اس میں ایسی پیچیدگیاں بھی پائی جاتی ہیں جن کی تشریح آسان کام نہیں بلکہ انتہائی دشوار ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو ”عالم صغیر“ یعنی ”چھوٹی کائنات“ سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی انسان بذات خود ایک کائنات ہے۔ عرفاء ”عارف باللہ“ اس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ انسان ”عالم صغیر“ ہے وہ کہتے ہیں کہ کائنات عالم صغیر ہے جبکہ خود انسان ایک مکمل کائنات ”عالم اکبر“ ہے۔ مولوی کہتا ہے:
چیست اندر خانہ کا اندر شہر نیست
چیست اندر جوئی کا اندر نھر نیست
”گھر شہر کا جز ہے جو کچھ بھی گھر میں ہے یقینا شہر میں پایا جاتا ہے لیکن ممکن ہے کہ شہر میں بعض چیزیں ایسی ہوں جو گھر میں نہ پائی جاتی ہوں۔“
”اس طرح جو کچھ ایک چھوٹی سی ندی میں ہے دریا میں یقینا وہ پایا جاتا ہے۔“
اس کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہے:
ین جہان جوی است دل چون نھر آب
این جہان خانہ است دل شہری عجاب
”یہ جہان ”کائنات“ چھوٹی سی ندی کے مانند ہے اور دل دریا ہے۔ یہ جہان ”کائنات“ گھر کی طرح ہے اور دل عجائبات کے شہر کی مانند۔“
یعنی اس کے برعکس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دل گھر کی مانند ہے اور کائنات ایک شہر کی طرح۔
میرا مقصد انسان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے کہ انسان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تشریح کی محتاج ہیں اور انسان کو غیر پیچیدہ اور مخلوق اور سادہ سمجھنا غلط فہمی ہے جبکہ بہت سے اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں فی الحال وہ موضوع کہ شاید جس کی وضاحت زیادہ ضروری ہے ”عشق و عبادت“ ہے اور درحقیقت خود ”عشق“ ہی تشریح طلب ہے۔ انسان میں عشق کا ظہور خود ایک عجیب و غریب اور دشوار مسئلہ ہے کہ جو بہت زیادہ تشریح کا محتاج ہے۔ بعض لوگ ”عشق“ کو ایک طرح کی شہوت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عشق جنسی جبلت کی ہیجانی کیفیت کا نام ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں یعنی اس کی ابتداء جنسی جذبہ ہے اور انتہاء بھی یہی ہے۔ دوسرے نظریے کے قائل لوگ کہتے ہیں کہ عشق جنسی جذبے سے شروع ہوتا ہے اور بعد میں لطیف احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جنسی جذبہ ختم ہو کر ایک روحانی کیفیت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک اور نظریہ یہ بھی ہے کہ جو بنیادی طور پر دو قسم کے عشق کا قائل ہے ایک جسمانی عشق کہ جس کی ابتداء بھی جسمانی اور انتہاء بھی جسمانی ہے اور دوسرا روحانی عشق جس کی ابتداء بھی روحانی ہے اور انتہاء بھی روحانی ہے۔
عشق خصوصاً جہاں عبادت و پرستش کے ہمراہ ہو بلکہ ہر وہ شخص جو حقیقی عشق کے مرحلے تک پہنچ جائے پرستش کے مرحلے تک پہنچ جاتا ہے یعنی یہ دونوں حقیقت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے اور آپس میں لازم و ملزوم ہیں بہرحال انسان میں عشق و پرستش کا مسئلہ بہت زیادہ تشریح تجزیہ اور توضیح کا محتاج ہے۔ تحقیق کرنی چاہئے کہ واقعاً اس کے کیا عوامل ہیں؟ آیا قدیم زمانے سے یہ بات جو افلاطون سے منسوب کی گئی ہے اور آج کل بھی عشق افلاطونی کے نام سے جانی جاتی ہے درست ہے یا نہیں؟ کیا واقعاً انسان میں عشق کے لئے کوئی غیر مادی اور غیر جسمانی عوامل موجود ہیں؟ آیا انسان میں عشق روحانی بھی پایا جاتا ہے اور اگر ہے تو وہ کونسا جذبہ ہے؟