باب چہارم
عشق اور پرستش
انسانی رجحانات کے دلائل
ہماری بحث انسان میں پائے جانے والے ان رجحانات کے بارے میں تھی کہ جو حیوان میں موجود نہیں۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ انہی رجحانات کی وجہ سے ”انسان“ تشریح و تفسیر اور فلسفے کے لئے ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ چار رجحانات کے بارے میں ہم پہلے وضاحت پیش کر چکے ہیں اب ایک اور رجحان کی جانب مختصر طور پر اشارہ کرتے ہیں۔ یہ رجحان وہی چیز ہے کہ جس کا نام ”عشق و پرستش“ رکھا جا سکتا ہے۔
اس بات کی توضیح عرض کرتا چلوں جو چیز انتہائی طور پر محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان میں ایک ایسی چیز کی صلاحیت موجود ہے کہ جسے ہم ”عشق“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ عشق محبت سے ایک بالاتر چیز کا نام ہے۔ عام طور سے جذبہ محبت ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ انسان میں کئی طرح کی محبتیں موجود ہیں مثلاً دوستوں کے درمیان باہمی محبت مرید کی اپنے مرشد پیر کی مرید سے محبت بیوی اور شوہر کے درمیان محبت والدین اور اولاد کے درمیان محبت ان کا شمار معمول کی محبتوں میں ہوتا ہے لیکن انسان میں ایک اور چیز کی صلاحیت موجود ہے کہ جسے عشق کہتے ہیں۔ عربی میں یہ لفظ ”عشقہ“ سے لیا گیا ہے ”عشقہ“ اس بیل کو کہتے ہیں کہ فارسی میں جس کا نام ”پیچک“ ہے یعنی آکاس بیل۔ یہ بیل جس چیز تک بھی پہنچتی ہے اس کے اردگرد لپٹ جاتی ہے مثلاً جب کسی درخت یا گھاس تک پہنچتی ہے تو اس طرح اس کے اردگرد لپٹ جاتی ہے کہ اسے اپنے چنگل میں جکڑ لیتی ہے اس کو مکمل طور سے اپنے قابو میں کر لیتی ہے۔ اس طرح کی ایک حالت انسان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ معمول کی محبت کے برعکس عشق انسان کو اس کی روزمرہ زندگی کے معمول سے خارج کر دیتا ہے اس کی نیند حرام کر دیتا ہے اور کھانا پینا اس سے چھوٹ جاتا ہے اس کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کا معشوق بن جاتا ہے۔ ان کے درمیان ایک طرح کی وحدت و یکتائی وجود میں آ جاتی ہے عشق اسے ہر چیز سے کاٹ دیتا ہے اور اس کی توجہ کو صرف ایک چیز کی جانب مرکوز کر دیتا ہے اس طرح کہ اس کے لئے سب کچھ معشوق کی ذات ہو جاتی ہے ایسی شدید محبت کو عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حیوانات میں اس کیفیت کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ جو احساسات اور جذبات پائے جاتے ہیں وہ اسی حد تک ہیں کہ جو والدین اولاد یا میاں بیوی کے درمیان پائے جاتے ہیں غیرت و حمیت وغیرہ جو کچھ بھی ان میں پایا جاتا ہے تھوڑا بہت حیوانات میں بھی موجود ہے لیکن یہ صورت حال اس مخصوص انداز میں صرف انسان میں ہی پائی جاتی ہے۔ عشق حقیقت میں کیا چیز ہے؟ بذات خود فلسفہ کا موضوع ہے۔ بو علی سینا نے عشق کے موضوع پر مستقل طور سے ایک کتاب تصنیف کی ہے اسی طرح ملا صدرا نے اپنی کتاب ”اسفار“ کے الٰہیات کے باب میں قریب قریب چالیس صفحات حقیقت عشق کے لئے مختص کئے ہیں کہ یہ حالت جو انسان میں پیدا ہو جاتی ہے کیا ہے؟ جس طرح کہ آج کل یہ مسئلہ نفسیات میں بھی زیربحث ہے کہ اس حالت کا تجزیہ کیا جائے کہ انسان میں پائی جانے والی یہ حالت کیا ہے؟
حقیقت عشق کے بارے میں نظریات
اس سلسلے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں بعض نے تو اسے ایک خاص قسم کی بیماری یا عارضہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک طرح کا عارضہ اور مرض ہے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عشق کو بیماری تصور کرنے والوں کے نظریے کا ابھی تک کوئی حامی نہیں ہے بلکہ نہ صرف اسے بیماری نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایک نعمت خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ مجموعی طور پر عشق صرف ایک ہی قسم کا ہے یا اس کی دو قسمیں ہیں؟ بعض نظریات کے مطابق عشق کی فقط ایک ہی قسم ہے اور وہ جنسی عشق ہے اس کی بنیاد عضوی اور حیاتیاتی ( Organic & Psychologic ) ہے اور یہی ایک قسم ہے۔ ان کے نزدیک جتنے بھی عشق اس دنیا میں موجود تھے اور موجود ہیں اپنے تمام تر اثرات اور خصوصیات کے ساتھ رومانوی عشق ہیں۔ دنیا کے ادبی شاہکار ایسی عشقیہ داستانوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن مجنوں کی داستان کے مانند یہ تمام عشق جنسی نوعیت کے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک اور گروہ ہے کہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان سے عشق کہ جو اس وقت زیربحث ہے کو بھی دو قسم کا سمجھتا ہے مثلاً بو علی سینا خواجہ نصیرالدین طوسی اور ملا صدرا عشق کی دو اقسام کے قائل ہیں۔
بعض عشق کو جنسی سمجھتے ہیں کہ اس کو عشق حقیقی کے مقابلے میں عشق مجازی سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ بعض عشق روحانی نوعیت کے ہیں اور روحانی ہیں یعنی درحقیقت دو روحوں کے درمیان ایک طرح کی کشش ( Attraction ) پائی جاتی ہے۔ جسمانی عشق میں جنسی جذبہ کارفرما ہے کہ جو معشوق تک پہنچنے اور جنسی خواہش کی تسکین کے بعد خود ہی ختم ہو جاتا ہے اس کا انجام یہی کچھ ہے کیونکہ اگر اس کی علت اور سبب پیدائش بدن میں داخلی مادہ کی تحریک ہے تو ان کے جدا ہونے سے یہ بھی ختم ہو جائے گا اس طرح وہاں سے اس کا آغاز ہوا اور یہاں پر ختم ہو گیا لیکن روحانی عشق کے قائل لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انسان بعض اوقات عشق میں ایسے مرحلے تک پہنچ جاتا ہے کہ جو ان سب چیزوں سے بالاتر ہے۔ خواجہ نصیرالدین طوسی اس مرحلے کو ”مشا کلة بین النفوس“ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی روحوں کے درمیان ایک طرح کی مشابہت پائی جاتی ہے۔
درحقیقت یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ انسانی روح میں روحانی عشق کے لئے بنیاد موجود ہے اور حقیقت میں اگر یہاں کوئی نفس پایا جاتا ہے تو وہ فقط انسان کو ہی متحرک رکھتا ہے جبکہ انسان کا حقیقی معشوق عالم طبیعت سے بالاتر ایک حقیقت ہے کہ جس سے انسان کی روح متحد ہوتی ہے اس تک پہنچتی ہے اور اسے پا لیتی ہے۔ پس حقیقت میں انسان کا حقیقی اور اصل معشوق اس کے اندر ہی پایا جاتا ہے اس ضمن میں کئی داستانیں نقل کی جاتی ہیں۔ اس نظریے کے حامل لوگ کہتے ہیں کہ عشق ایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ عاشق کو محبوب کا خیال اور اس کی یاد خود محبوب سے زیادہ عزیز ہو جاتی ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ خود محبوب اور اس کی طرف اولین تحریک کے عوامل خود انسان کے اندر موجود ہیں وہ اپنے اندر ایک نئی حقیقت سے مانوس ہو جاتا ہے کہ جو اس کی روح میں موجود معشوق کی تصویر ہی ہے لیکن درحقیقت یہ تصویر ظاہری معشوق نہیں ہے بلکہ کوئی دوسری چیز ہے۔
ان داستانوں کا فلسفی کتب میں بھی تذکرہ آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مجنوں باوجود اس کے کہ لیلیٰ کے فراق میں اور اس کے عشق میں کتنے ہی شعر اور غزلیں کہہ چکا تھا لیکن جب ایک دن جنگل میں لیلیٰ اس سے ملنے آئی اور اس نے اسے آواز دی تو مجنوں نے سر اٹھایا اور پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا میں لیلیٰ ہوں تمہاری تلاش میں آئی ہوں وہ سمجھ رہی تھی کہ مجنوں فوراً اٹھ کھڑا ہو گا اور اپنے محبوب کو جس کے فراق میں اس نے کتنی گریہ و زاری کی ہے آغوش میں لے لے گا۔ مجنوں کہنے لگا نہیں یہاں سے چلی جاؤ:
لی عنی عنک بعشقک
”میں تمہارے عشق ہی میں محو ہوں تمہارے جسم کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
اسی طرح کا ایک واقعہ میں نے اس دور کے مشہور شاعر شہر یار کی سوانح عمری میں بھی پڑھا ہے۔ شہریار جو کہ میڈیکل کالج میں سال آخر کا طالب علم تھا اور تہران میں کرائے کے ایک مکان میں رہتا تھا خود وہ تبریز کا رہنے والا تھا وہاں وہ مالک مکان کی لڑکی پر عاشق ہو گیا اور عاشق بھی شدید قسم کا۔ بہرحال انہوں نے لڑکی کا رشتہ کسی وجہ سے اسے نہ دیا اس نے بھی مجنوں کی طرح ہر کام کاج اور طالب علمی سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس کی خواہش میں محو ہو گیا۔ کئی سال بعد خاتون اپنے شوہر کے ساتھ ایک تفریحی مقام پر سیر کر رہی تھی کہ شہریار پر اس کی نظر پڑی تو خاتون اسے ملنے کے لئے قریب آئی تو وہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھا اسے کہنے لگا مجھے اب تم سے کوئی سروکار نہیں میں اپنے خیالوں سے ہی خوش ہوں اور انہی سے مانوس ہوں اگر تم اپنے شوہر سے طلاق بھی لے لو تو بھی مجھے تم سے کوئی کام نہیں اس ضمن میں اس کے اشعار بھی ہیں۔ اس خاتون کے آنے کے بعد وہ اشعار کہتا ہے اور اپنی صورت حال کی تعریف کرتا ہے کہ کس طرح وہ اس کے عشق سے مانوس ہو گیا ہے اور خود اس کی ذات کی طرف متوجہ نہیں ہے۔
ابھی مختصراً یہ بات بیان کرتا ہوں تاکہ آپ اسلام میں عرفانی کلچر ”تہذیب“ سے تھوڑے بہت آشنا ہوں کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے کہ جو بہت زیادہ قابل توجہ اور قابل تحلیل و تجزیہ ہیں اس سلسلے میں ملا صدرا نے چند اشعار نقل کئے ہیں میرے خیال میں محی الدین عربی کے ہیں۔ اگرچہ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ کسی شاعر کے نہیں ہیں صرف اتنا کہا ہے کہ کسی نے یوں کہا ہے لیکن میرا اندازہ یہی ہے کہ محی الدین کے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ وہ جب اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ بعض عشق جسمانی نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں تو ان خوبصورت اشعار میں یہ بات یوں بیان کرتا ہے:
اعانقها و النفس بعد مشوقة
الیها وهل بعد العناق تدانی
”اپنے معشوق سے گلے مل رہا ہوں لیکن پھر بھی دیکھتا ہوں کہ میرا نفس اس کے لئے بہت مشتاق اور بے قرار ہے مگر کیا گلے ملنے سے زیادہ بھی کوئی ایک دوسرے کے قریب تر آ سکتا ہے؟“
کہنا یہ چاہتا ہے کہ اگر دو جسموں کے درمیان کشش پائی جاتی ہے اور عشق اس کا نتیجہ ہے تو اب جبکہ وہ اپنی آرزو کو پہنچ چکے ہیں اور جبکہ یہ بات اپنی انتہا تک پہنچ چکی ہے تو عشق کو ختم ہو جانا چاہئے:
و الثم فاها کی نزول حرارتی
فیزداد ما القی من الهیجان
”کہتا ہے کہ میں اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیتا ہوں تاکہ میرے اندر کی حرارت اور گرمی زائل ہو جائے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ تو اور بھی سوا ہو جاتی ہے۔“
اب اس سے فلسفی جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے:
کان فوادی لیس یشفی غلیله
سوی ان یری الروحان یتحدان
”ممکن نہیں کہ میری یہ اندرونی آگ خاموش ہو جائے مگر یہ کہ دونوں روحیں آپس میں مل جائیں۔“
پس یہ نظریہ عشق کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے عشق جسمانی اور عشق روحانی یعنی وہ ایک اپنے قسم کے عشق کا قائل ہے جو سرچشمے کے اعتبار سے بھی عشق جسمانی سے مختلف ہے اور اس کا سرچشمہ جنسی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں انسان کی فطرت اور روح میں پائی جاتی ہیں۔ نیز ہدف و انتہاء کے لحاظ سے بھی جنسی عشق سے مختلف ہے کیونکہ جنسی عشق شہوت کے بجھنے سے ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ عشق یہاں پر ختم نہیں ہوتا۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہاں وہ فلسفی مباحثے اور فلسفیوں کی ان دلیلوں کو پیش کریں کہ جو انہوں نے اس طرح کے عشق کو کہ جسے افلاطونی عشق سے یاد کیا جاتا ہے ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں۔ ہم ان میں سے صرف اس حصے کو پیش کریں گے جو انتہائی آسان ہو۔
یہ بات مسلم ہے کہ انسان عشق کی تعریف کرتا ہے یعنی اسے ایک قابل ستائش چیز سمجھتا ہے جبکہ شہوتوں کے باب سے کوئی چیز بھی قابل ستائش نہیں ہے۔ مثلاً انسان میں کھانے پینے کی خواہش یا غذا کی رغبت کہ جو ایک طبیعی رجحان ہے۔ کیا یہ رجحان طبیعی رجحان ہونے کے اعتبار سے کچھ بھی قابل احترام ہے؟ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ دنیا میں ایک بھی شخص کسی غذا کی طرف اپنی رغبت کی تعریف کرتا ہو؟ عشق بھی جب تک جنسی شہوت سے مربوط ہو کھانے کی خواہش کے مانند ہے یعنی کہ ایک حیوانی جبلت ہے اور قابل احترام نہیں ہے۔ بہرحال یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا احترام کیا جاتا ہے او ر دنیا کے ادبی شاہکاروں کا ایک بہت بڑا حصہ عشق کی تقدیس اور تعریف پر مشتمل ہے۔ انفرادی اور اجتماعی نفسیات کے حوالے سے یہ امر غیر معمولی طور پر قابل توجہ ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟
عاشق کا معشوق میں فنا ہو جانا
عجیب تر تو یہ ہے کہ عاشق معشوق کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر فخر کرتا ہے اور اس کی ہستی کے سامنے اپنے آپ کو فانی اور نابود ظاہر کرتا ہے یعنی اس کے لئے یہ بات باعث سرفرازی و عظمت ہے کہ معشوق کے مقابلے میں کوئی چیز اس کی اپنی نہ ہو اور جو کچھ بھی ہو وہی ہو اسے عاشق کا معشوق میں فنا ہو جانا کہتے ہیں۔ اخلاق کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ وہ ایسی چیز ہے کہ جو نفع پسندی کی منطق سے ہم آہنگ نہیں ہے بلکہ ایک فضیلت اور نیکی ہے۔ عشق بھی اسی طرح ہے ایثار اور خود سے گزر جانے کے جذبے کی طرح ہے۔ ایثار خود غرضی سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا قربانی اور خود پرستی کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ دیکھتے ہیں کہ اخلاقی بھلائی کے حوالے سے انسان سخاوت احسان ایثار اور قربانی اور خداکاری کا احترام کرتا ہے انہیں نیکی سمجھتا ہے عظمت اور بزرگی جانتا ہے۔ اسی طرح یہاں عشق بھی خواہشات نفسانی سے مختلف ہے کیونکہ خواہشات نفسانی کے معنی تو یہ ہیں کہ انسان ہر چیز اپنے لئے چاہتا ہے۔ نفسانی خواہشات اور غیر نفسانی خواہشات میں فرق یہی ہے کہ جب مسئلہ نفسانی خواہشات کا ہو تو اس کا ہدف معشوق کو اپنا لینا اور اس کے وصال سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن عشق میں وصال سرے سے ہی مدنظر نہیں ہے بلکہ عاشق کا معشوق میں فنا ہو جانا مقصود ہے لیکن بہرحال یہ بات خود پسندی کی منطق سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
اسی لئے یہ مسئلہ اس صورت میں غیر قانونی طور پر قابل بحث و تجزیہ ہے کہ انسان میں یہ جذبہ عشق کیا چیز ہے؟ اور یہ کیسی کیفیت ہے؟ اس کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس میں انسان چاہتا ہے کہ معشوق کے سامنے تسلیم محض ہو اور اس کی اپنی ذات انا اور میں کچھ بھی باقی نہ رہے۔ اس ضمن میں مولوی نے ایسے عمدہ اشعار کہے ہیں کہ جو عارفانہ ادب میں غیر معمولی ہیں۔ کہتا ہے
عشق قہار است ومن مقہور عشق
چون قمر روشن شدم از نور عشق
”عشق قہار ہے اور میں اس کا مقہور ہوں نور عشق سے میں چاند کی طرح جگمگا گیا ہوں۔“
مسئلہ پرستش یہی ہے کہ عشق انسان کو ایسے مرحلے تک لے جاتا ہے کہ وہ اپنے معشوق کو خدا بنا لیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کا ایک بندہ سمجھتا ہے اسے ہستی مطلق سمجھتا ہے اور اپنے تئیں اس کے مقابلے میں نابود شمار کرتا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ عشق کا سرچشمہ اور اس کا ہدف جنسی ہے اور وہ جنسی جبلت کی راہ کو ہی طے کرتا ہے اور اس کا اختتام بھی اسی پر ہوتا ہے۔ دوسرا نظریہ وہی ہے کہ جس کی ہمارے فلسفی بھی تائید کرتے ہیں اور جو دو قسم کے عشق کے قائل ہیں جسمانی یا جنسی عشق اور روحانی عشق۔ وہ کہتے ہیں کہ روحانی عشق کی صلاحیت تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے۔
ایک تیسرا نظریہ یہ بھی موجود ہے کہ جس نے دو نظریوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے (یعنی فرائیڈ کے نظریے اور روحانی عشق کے نظریے کو) فرائیڈ جو ایک معروف ماہر نفسیات تھا ہر چیز کو جنسی جبلت کا نتیجہ سمجھتا تھا۔ علم دوستی نیک کام فضیلت پرستش غرضیکہ ہر چیز کو اور عشق کو بدرجہ اولیٰ جنسی تصور کرتا تھا لیکن آج کل اس نظریے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ایک اور نظریہ یہ بھی پیدا ہوا ہے اور وہ یہ کہ عشق میں بعض ایسی کیفیات پیدا ہوتی ہیں کہ جو جنسی جذبے سے مختلف ہیں یعنی جنسی کیفیات سے وابستہ نہیں ہیں اور ان کا دار و مدار جنسیات پر نہیں ہے۔ جنسی امور تو بھوک کے مانند طبعی ہیں جب جسم کی غذا کی ضرورت پڑتی ہے تو اس میں ایک طرح کی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جسے بھوک کہتے ہیں۔ اگر اس طرح سے نہ ہو تو بھوک بھی نہیں لگتی۔ جنسی احتیاج بھی ایسی ہی ہے جب یہ مادی احتیاج اور ضرورت ہو جس حد تک بدن میں ایک خاص کیفیت اور ترشحات ہوں تو یہ ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو نہیں ہوتی جبکہ ”عشق“ کی یہ خصوصیات نہیں ہیں لہٰذا اس تیسرے نظریے کے حاملین کا کہنا ہے کہ عشق کی ابتداء تو جنسی ہے لیکن انتہاء غیر جنسی ہے یعنی جنسی اعتبار سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء شہوت ہے لیکن پھر اس کی کیفیت و حالت بدل جاتی ہے اور آخرکار یہ ایک روحانی کیفیت بن جاتی ہے۔
فلسفے کے نامور مورخ ویل ڈیورنٹ نے اپنی کتاب ”نشاطِ فلسفہ“ میں جہاں عشق پر بحث کی ہے وہاں اس نے اسی نظریے کا انتخاب کیا ہے اور فرائیڈ کے نظریے پر بحث کرنے کے بعد اس کو رد کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ درحقیقت عشق بعد میں اپنی راہ و روش اور حتیٰ کہ خصوصیات و کیفیات کو بدل لیتا ہے یعنی مکمل طور سے جنسی حالت سے نکل جاتا ہے یوں ویل ڈیورنٹ فرائیڈ کے نظریے کی بنیاد کو درست نہیں سمجھتا۔ مسئلہ عشق میں ہماری نظر زیادہ تر اس رجحان پر ہے کہ عاشق چاہتا ہے کہ معشوق میں فنا ہو جائے ہم اسے پرستش کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جو مادیت سے جدا ہے۔ ولیم جیمز اپنی کتاب ”دین ور وان“ (یہ کتاب کے نام کا فارسی ترجمہ ہے انگریزی میں اس کا نام Religion & Psyche ہے) میں کہتا ہے:
”ہمارے اندر موجود بعض رجحانات ایسے ہیں کہ جو ہمیں عالم طبیعیات سے وابستہ کرتے ہیں اور بعض رجحانات ہمارے اندر ایسے ہیں کہ جو مادی اور طبیعی ”قدرتی“ حوالے سے نہیں دیکھے جا سکتے اور یہی وہ رجحانات ہیں کہ جو ہمیں ماوراء طبیعیات سے مربوط رکھتے ہیں۔“
اس کا استدلال اور اس کی تشریح وہی ہے کہ جو مسلمان حکماء کرتے ہیں ان کا نظریہ یہ ہے کہ عاشق میں جو فنا ہونے کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ درحقیقت اس کے کمال کا مرحلہ ہے یہ فنا اور نابودی نہیں ہے اگر اس کا معشوق حقیقی کوئی مادی اور جسمانی ہوتا تو فنا کی توجیہہ نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ کوئی چیز کس طرح سے فنا کی طرف مائل ہو سکتی ہے لیکن دراصل اس کا معشوق حقیقی ایک اور حقیقت ہے اور یہ (معشوق ظاہری) اس کا ایک نمونہ ہے اور مظہر ہے اور یہ حقیقت میں اپنے آپ سے کامل تر ہے اور ایک کامل تر مقام سے مل جاتا ہے اور اس طرح سے یہ نفس اپنے کمال کی حد تک جا پہنچتا ہے۔
رس کہتا ہے:
”مغرب والے ایسے عشق کو مشرقی عشق کہتے ہیں اور اس کا احترام بھی کرتے ہیں۔“
برٹرنڈرسل اپنی کتاب ”ازدواج اور اخلاق“ (یہ کتاب کے نام کا فارسی ترجمہ ہے) ( Morale & Wedding ) میں کہتا ہے:
”ہم آج کل کے لوگ ان شعراء کے جذبوں کو نہیں سمجھ سکتے جنہوں نے محبوب سے ذرہ بھی التفات کی تمنا کے بغیر اس میں اپنے فنا ہو جانے کے بارے میں شعر کہے ہیں۔“
وہ کہنا چاہتا ہے کہ جس عشق کو ہم جانتے ہیں وہ عموماً وصال کا ذریعہ اور مقدمہ سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے کہتا ہے کہ مشرقی عشق میں عشق ذریعہ نہیں ہے بلکہ بذات خود ہدف ہے۔ وہ اس عشق کا بہت احترام و تعریف بھی کرتا ہے کہتا ہے کہ یہی عشق انسان کی روح کو ایک عظمت و مقام عطا کرتا ہے۔
اب ہم اصل موضوع کی جانب واپس آتے ہیں۔ گزشتہ دو نشستوں میں جن پانچ چیزوں کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:
۱ ۔ حقیقت و دانائی
۲ ۔ فن ہنر و حسن
۳ ۔ نیکی خیر و فضیلت
۴ ۔ ایجاد و تخلیق
۵ ۔ عشق و پرستش
انہیں ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اور ان کی کس طرح سے توجیہہ ہو سکتی ہے؟ مجموعی طور پر ان کی توجیہہ کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
ایک توجیہہ یہ ہے کہ ان سب چیزوں کا سرچشمہ انسان کی فطرت ہے۔ حقیقت جوئی (حقیقت کی تلاش) ایک ایسا رجحان ہے کہ جو انسان کی سرشت (طینت) میں رکھ دیا گیا ہے۔ انسان روح و بدن سے مرکب ہے اس کی روح ایک الٰہی حقیقت ہے:
ونفخت فیه من روحی
(حجر ۲۹)
”اور اس میں ہم نے اپنی روح پھونکی۔“
انسان میں جس طرح سے طبیعی عناصر موجود ہیں اس طرح ایک غیر طبیعی عنصر بھی موجود ہے۔ طبیعی عناصر انسان کو عالم طبیعیات سے وابستہ کرتے ہیں جبکہ غیر طبیعی عنصر انسان کو غیر طبیعی اور غیر مادی امور سے منسلک کرتا ہے۔ انسان کا حقیقت کا متلاشی اور طالب ہونا اس کی روح اور سرشت روح سے وابستہ ہے۔ حسن پرستی ایک روحانی رجحان ہے اسی طرح اخلاقی فضیلت اور خلاقیت و ایجاد کی طرف رجحان بھی روحانی ہے۔ معشوق کی پرستش کا جذبہ بھی درحقیقت معشوق حقیقی کی پرستش کا پرتو ہے یعنی انسان کی معشوق حقیقی ذات باری تعالیٰ ہے۔ جب بھی انسان کو کسی دوسری چیز سے روحانی تعلق پیدا ہوتا ہے تو یہ دراصل اس عشق حقیقی ہی کے پھر سے جی اٹھنے کی علامت ہے کہ جو ذات حق سے وابستہ ہے اور اس انداز سے ظہور پذیر ہوا ہے۔
دوسرا استدلال فطرت احساس کی بنیاد پر ہے۔ اس توجیہہ اور استدلال کے مطابق یہ سب جذبے اور رجحانات فطری نہیں ہیں اور جب یہ مان لیا جائے کہ یہ فطری نہیں ہیں تو پھر ان کے استدلال کے لئے ہمیں انسان سے باہر دیکھنا ہو گا۔ اب ہم اس کے واضح ترین مصادیق کو دیکھتے ہیں مثلاً علم کی طرف انسان کا رجحان اور علم کا احترام کیا چیز ہے؟ یہ استدلال پیش کرنے والے کہتے ہیں کہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں انسان اپنی جبلت کی وجہ سے جو کچھ چاہتا ہے وہ معاشی مسائل سے ہی عبارت ہے یعنی جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو اس کی معیشت زندگی اور انہی مادی اور طبیعی مسائل سے مربوط ہیں۔ لیکن اسی معاشی زندگی اور انہی مادی ضروریات کے زیراثر انسان کو کچھ اور طرح کی ضروریات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ضرورتیں مختلف روپ دھار کر سامنے آتی ہیں مثلاً انسان کو قانون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو قانون کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس لئے کہ انسان اپنے وسائل معاشی فراہم کر سکے۔ ظاہر ہے کہ انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا انسان مجبور ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزاریں ان کے مفادات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مل جل کر رہیں۔ اب وہ جب مل جل کر زندگی گزارتے ہیں تو ان میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ حدیں اور دیواریں ہونی چاہیں۔ ناچار وہ اپنے لئے کچھ قوانین بناتے ہیں ان قوانین کو اس لئے ملحوظ رکھتے ہیں کہ ان سب کے مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان قوانین کا احترام کریں مثلاً وہ عدل و انصاف کا اصول وضع کرتے ہیں اس لئے کہ ان کے مفادات اس کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں اجتماعی زندگی کی ضرورت ہے اور یہ سماجی زندگی عدل و انصاف کے بغیر ممکن نہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک عدلیہ کے سامنے جھک جائیں۔ میں عدل و انصاف کو پسند کرتا ہوں تاکہ آپ مجھ پر زیادتی نہ کریں ظلم نہ کریں۔ آپ بھی عدالت کو پسند کرتے ہیں کہ میں آپ پر ظلم و تعدی نہ کروں مگر یہ کہ میں عدالت کو خود عدالت کی وجہ سے پسند کرتا ہوں بنیادی طور پر یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پھر انسان دیکھتا ہے کہ اس مادی زندگی میں جو شخص بھی عالم طبیعیات سے زیادہ آگاہ ہے باخبر ہے اور زیادہ معلومات رکھتا ہے وہی زیادہ کامیاب ہے۔ علم اس کی زندگی میں بہت زیادہ مددگار اور یہی علم و آگاہی مادی زندگی کے لئے بہترین ہتھیار اور ذریعہ ہے لہٰذا وہ اسے ایک احترام عطا کرتا ہے اور یوں وہ علم کے لئے ایک طرح کے احترام کو فرض سمجھتا ہے مگر یہ کہ علم ذاتی طور سے کسی احترام اور تقدس کا حامل ہے اور یہ کہ میں خود علم کو علم کی وجہ سے چاہتا ہوں یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ علم ایک ہتھیار ہے لیکن دوسرا ہتھیار انسان کی مادی اور معاشی زندگی کے لئے اس جتنا کارآمد نہیں ہے لہٰذا انسان جب دیکھتا ہے کہ علم بہترین ہتھیار ہے تو اس کے احترام کا قائل ہو جاتا ہے کبھی احترام اور تقدس کی آڑ میں فریب بھی کیا جاتا ہے۔ بعض طبقات کسی بھی طریقے سے معلومات جمع کرتے ہیں لہٰذا ان کی معلومات اور اطلاعات لازمی طور پر دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں چنانچہ وہ زیادہ ماہر زیرک اور زیادہ سمجھدار ہو جاتے ہیں لہٰذا وہ لوگوں کو فریب دے سکتے ہیں۔ دوسروں کی محنت کا پھل حاصل کرنے کے لئے وہ علم کو ایک احترام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علم ایسی عظیم چیز ہے اور عالم کا یہ مقام ہے لہٰذا ہم چونکہ عالم ہیں اس لئے تم جاؤ کام کرو اور ہمیں لا کر دو تاکہ ہم کھائیں۔ فن و ہنر اور جمالیات کے بارے میں بھی ایسے ہی دلائل پیش کرتے ہیں اور تخلیق و ایجاد کے لئے بھی اسی قسم کے استدلال دیئے جاتے ہیں چونکہ علم مادی زندگی اور معاش کے لئے ایک ذریعہ ہے لہٰذا انسان اس کے لئے ایک طرح کا احترام اپنے پر فرض کر لیتا ہے مگر خود اس کی ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی۔ جبکہ عشق اور پرستش تو بنیاد سے ہی بے معنی ہے کیونکہ یہ انسان کو اپنے آپ سے غافل کر دیتا ہے اور اسے اپنی ذات سے نکال دیتا ہے۔ اگر انسان کسی دوسری چیز کا عاشق ہو جائے اور پھر اس کی راہ میں اپنے آپ کو فنا کرنے کا اظہار کرے اور ہر چیز اس پر قربان کر دینا چاہے تو یہ کسی لحاظ سے بھی منطقی نہیں ہے۔ مذکورہ تین امور کی یہ دلیل ان سب پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے جس سے اخلاقی قدریں بے بنیاد ہو کر رہ جاتی ہیں اور وہ ناچار ہیں کہ ان اخلاقی قدروں کو بناؤٹی فرضی اور استحصالی طبقوں کی گھڑی ہوئی چیزیں تصور کریں۔ سخاوت و کریمی کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ ایثار و قربانی کیا ہے؟ یعنی وہ ان کے بارے میں دلائل پیش نہیں کر پاتے۔ بہرحال یہاں بعض ایسے مکاتب فکر بھی ہیں کہ جن میں اتنی شجاعت دلیری اور بے باکی تھی کہ وہ اپنے ہی اصول سے وہی نتائج حاصل کریں کہ جو نتائج یہ اصول فراہم کرتے ہیں لیکن بعض دیگر مکاتب فکر میں اتنی بے باکی نہ تھی۔
جرات مند اور غیر جرات مند حسی
علمی فطریات کی بحث میں ہم کہہ چکے ہیں کہ جب یورپ میں حسی فلسفے کی لہریں اٹھیں تو ایک گروہ اس کا گرویدہ ہو گیا۔ اس گروہ کے بعض افراد حقیقت میں حسی تھے اپنے آپ کے حسی ہونے پر ثابت قدم اور اس پر باقی رہنے کے بارے میں جرات مند و بے باک تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہم اپنے حواس سے محسوس و ادراک کرتے ہیں اسی پر یقین و اعتقاد رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی چیز پر یقین نہیں رکھتے البتہ ان کی نفی بھی نہیں کرتے اور وہ انہی دو اصولوں پر ثابت قدم رہے۔ ان کا کہنا ہے:
۱ ۔ جس چیز کو ہم اپنے حواس خمسہ سے محسوس نہیں کرتے نہ اس کی نفی کرتے ہیں اور نہ ہی قبول کرتے ہیں۔ ایک اچھی بات جو وہ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ حس مجھے کہتی ہے کہ میں اس کو محسوس کر رہی ہوں اور چونکہ محسوس کر رہی ہوں اس لئے یہ چیز موجود ہے۔ البتہ حس مجھے یہ نہیں کہتی کہ جو کچھ بھی میں محسوس نہیں کرتی وہ سرے سے ہی موجود نہیں ہے بلکہ اتنا کہتی ہے کہ میں اسے محسوس نہیں کرتی۔
۲ ۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ جن کو تمام ذہن قبول کرتے ہیں لیکن جب ہم نے ان کے بارے میں جستجو کی تو دیکھا کہ یہ قابل حس نہیں ہیں پس ہم انہیں قبول نہیں کرتے مثلاً علیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ علیت محسوسات میں سے نہیں ہے بلکہ جو کچھ قابل احساس ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں واقعات و حوادث یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں اور ایک طرح سے ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں لیکن جس چیز کو ہم علت کے نام سے پہچانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”الف“، ”ب“ کے لئے علت ہے اور علت سے ہماری مراد یہ ہے کہ اگر ”الف“ نہ ہو تو ”ب“ کا وجود محال ہے اور کہتے ہیں کہ ”ب“ کا وجود ”الف“ سے وابستہ ہے۔ اس چیز کو انسان محسوس نہیں کرتا بلکہ عقل نے اسے وجود بخشا ہے اور چونکہ حس اسے ثابت نہیں کرتی لہٰذا ہم اسے قبول نہیں کرتے۔
حس کے معتقدین کا یہ گروہ جرات مند اور بے باک ہے یعنی یہ لوگ اپنے مکتب فکر کے حسی ہونے پر کاربند اور ثابت قدم ہیں اور اسی وجہ سے قابل تعظیم ہیں۔
بعض دوسرے لوگ بنیادی چیزوں میں تو حسی ہیں لیکن حصول نتائج میں عقلی ہیں تمام مادی مکتب فکر کے لوگ Materialists اسی طرح ہیں۔ یہ لوگ ایک طرف تو شناخت کے باب میں حس کے معتقدین کی طرح اظہار نظر کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف فلسفیانہ مسائل میں عقل کے قائلین کے مانند اظہار خیال کرتے ہیں یعنی ایسے مسائل پر اعتماد کرتے ہیں کہ جن کے بارے میں حس خاموش ہے۔
نٹشے کے اقوال
رجحانات کے باب میں بھی یہی صورت حال ہے۔ انسان اور مادی مکتب فکر یعنی ایسا مکتب فکر کہ جو انسان کو مادی محض سمجھتا ہے کے پیروکار دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ایک وہ گروہ کہ جسے ہم مادی گروہ میں جرات مند مانتے ہیں اور دوسرا گروہ وہ غیر جرات مند مادی لوگ یا فریب کاروں کا ہے۔ نٹشے ایک مادی فلسفی ہے انسان کے بارے میں وہ روح اور اس طرح کی چیزوں کا معتقد نہیں ہے۔ انسان کے سلسلے میں حصول نتائج میں بھی وہ بعینہ اسی فلسفے کے تحت نتائج اخذ کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ جو کچھ بھی اخلاق کے نام سے مشہور ہے وہ سب لغویات ہے۔ اگر آج تک دنیا کے تمام اخلاق کے علمبرداروں نے کہا ہے کہ نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کریں تو میں کہتا ہوں کہ ان کی پیروی کریں کس لئے نہ کریں؟ اگر دنیا کے اخلاق کے تمام علمبردار کہتے ہیں کہ ضعیف کی مدد کریں اور اس قوی کے خلاف جنگ کریں کہ جس نے ضعیف یا کمزور پر حملہ کیا ہے تو میں اس کے بالکل برعکس کہتا ہوں۔ ایک شاعر کہتا ہے
چون می بینی کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینی گناہ است
”اگر دیکھ رہے ہو کہ ایک نابینا شخص ہے اور اس کے سامنے کنواں ہے تو یہاں خاموش بیٹھے رہنا گناہ ہے۔“
نٹشے کے نزدیک اگر تم نے اسے بچانا چاہا تو یہ گناہ ہے۔ اگر تم نے دیکھا کہ کوئی کنویں میں گر گیا ہے تو اوپر سے ایک پتھر تم بھی پھینک دو۔ عالم نے جس طرح ابھی تک سفر کیا ہے اور رواں دواں ہے وہی درست ہے کہ کچھ لوگ کمزور ہیں اور باقی طاقتور جو بھی کمزور ہے حکم طبیعت کے تحت اسے فنا ہونا ہے اسی طرح اخلاق کو بھی چاہئے کہ اس پر فنا کا حکم جاری کرے۔ ہیرو ہے تو چنگیز ترس اور رحم کیا ہے؟ رحم اور ترس کھانا تو کمزور کی علامت ہے۔ ایثار کیا ہے؟ بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں۔
یہ بات تمام انسانی اقدار کی نفی کرتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر ہم انسان کو سراپا مادی تصور کر لیں تو ان تمام اقدار کی نفی کے علاوہ کوئی اور چارئہ کار نہیں ہے یعنی جو کچھ بھی ہم ”انسانیت“، ”انسانی رجحانات“ اور ”انسانی اقدار“ کے نام سے یاد کرتے ہیں سب کا سب خیالی اور بے بنیاد ہے۔ ایک طرف انسانی میٹریلزم " Materialism " انسانی مادی پرستی کا قائل ہونا اور دوسری طرف انسانیت اور انسانی قدروں کا دم بھرنا ایسا تضاد ہے کہ جو قابل توجیہہ نہیں۔ انسانی اقدار انسانی فطرت سے مطابقت رکھتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی خود اپنی سرشت میں ایک انسانی مادہ موجود ہے اور یہ وہی مقدس ”پاکیزہ“ رجحانات ہیں یعنی انسان کی سرشت میں ایک تقدس ”پاکیزہ اور قابل احترام“ حقیقت موجود ہے کہ جس کی ذات میں بلندی اور کمال کی طرف رجحان پنہاں ہے۔ انسان کے اندرونی تضاد اور فرد کے اندر موجود حقیقی تضاد کو کہ جس کا حدیث میں ذکر ہے اور اس کی پیروی میں ہماری ادبیات میں بھی ہے اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔
کافی سے ایک حدیث
ایک حدیث ہے کہ جسے شیعہ و سنی دونوں نے ذکر کیا ہے اور شیعوں کی کتاب کافی میں ہے کہ
ان اللہ تعالیٰ خلق الملائکة ور کب فیہم العقل و خلق البھائم ور کب فیہم الشہوة و خلق الانسان ور کب فیہ العقل و الشہوة(علل الشرایع جلد ۱ باب ۶ ص ۴ ” تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ“)
”خدا نے ایک فرشتے کو خلق فرمایا اور اسے خالص عقل سے بنایا پھر حیوان کو خلق فرمایا اور اسے خالص شہوت سے تیار کیا اور بعد میں ان دونوں فرشتے اور حیوان کی سرشتوں کو مخلوط کر کے اس سے انسان کو خلق فرمایا۔“
مولوی بھی کہتا ہے
در حدیث آمد کہ خلاق مجید
خلق عالم را سہ گو نہ آفرید
”حدیث میں آیا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے مخلوق کو تین طرح سے خلق فرمایا۔“
اس کے بعد تین طرح کی خلقت کی اس حدیث کی بناء پر کہ جسے سنی و شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے تشریح کرتا ہے۔
حدیث کی تعبیر کے مطابق انسان کے اس طرح سے مرکب ہونے (فرشتے کی صفات کے لحاظ سے اور حیوانی پہلو کے اعتبار سے) کی وجہ سے انسان میں دو متقابل اور متضاد رجحان وجود میں آتے ہیں ایک اوپر کی طرف رجحان اور دوسرا نیچے کی طرف رجحان ایک آسمانی رجحان اور دوسرا زمینی۔ پھر خداوند عالم نے انسان کو عقل اور ارادہ عطا فرمایا ہے اور اسے ان دو راہوں کے درمیان انتخاب میں اختیار عطا فرمایا ہے:
انا هد یناه السبیل اما شاکرا و اما کفورا
(انسان ۳)
”ہم نے تو اسے راستے کی رہنمائی کر دی ہے اب چاہے شکرگزار ہو یا ناشکرگزار۔“
انسان کو ان دو راہوں کے درمیان قرار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسے ایک مطلق اور آزاد ارادہ عطا کیا گیا ہے تاکہ خود ان دو راہوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ تاریخ کے تضاد کا سرچشمہ بھی انسان کی سرشت میں موجود یہ تضادات ہی ہیں یعنی وہ انسان کہ جنہوں نے آسمانی اور عقلانی راہ انتخاب کیا ہے اہل حق اور خدائی لشکر ہیں اور وہ انسان جو حیوانیت کی پستی میں گر گئے ہیں وہ پست فطرت اہل باطل اور شیطانی لشکر ہیں۔ انسان کے تاریخی معرکے محروم طبقے کے لوگوں کی خوشحال طبقے سے جنگ صرف منافع کی خاطر نہ تھی بلکہ یہ جنگ حق جو طبقے کی مفاد پرست طبقے کے خلاف تھی۔
البتہ محروم لوگوں کے لئے ہم خرماوہم ثواب کے مصداق ہے لہٰذا وہ لازمی طور پر حق کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حق میں ان کے لئے دو خصلتیں موجود ہیں ایک تو یہ ہے کہ اس حق پسند روح کو تسکین ملتی ہے جسے قرآن میں روح حنیف سے تعبیر کیا گیا ہے (حنیف یعنی حق دوست اور حنیفیت یعنی حق دوستی) اور دوسرا یہ کہ اسی ضمن میں وہ اپنے حقوق بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
مولانا روم کی ایک مثال
پس اس مکتب فکر کے مطابق انسان کے مادی رجحانات کے برعکس انسانیت انسان کے روحانی اور ملکوتی پہلو سے پھوٹتی ہے اور پھر انسان کو ان متضاد اشیاء کے درمیان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں مولوی ایک غیر معمولی عمدہ مثال مثنوی میں بیان کرتے ہیں اور واقعاً مولوی اس طرح کے روحانی اور معنوی مسائل کی نشاندہی میں انتہائی عجیب اور منفرد ہے۔ اسی ضمن میں وہ کہتا ہے کہ انسان کی خلقت یوں ہوئی کہ وہ نصف آسمانی ہے اور نصف زمینی نصف ملکوتی اور نصف خاکی اور ہمیشہ یہ تضاد اس میں پایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی کشمکش میں رہتا ہے کبھی اس طرف جاتا ہے تو کبھی اس طرف کبھی نیچے جاتا ہے اور کبھی اوپر کی طرف رواں دواں ہے انسان کے اندر یہ تنازعہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ اس کے بعد مولوی اس کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہے اور مجنوں اور اس کی اونٹنی کہ جس نے ابھی تازہ تازہ بچہ جنا تھا کی مشہور داستان ہے۔ کہتا ہے:
”مجنوں کی اونٹنی نے تازہ تازہ بچہ جنا تھا حیوان جب تازہ تازہ بچہ جنے تو بچے سے اس کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مجنوں اس اونٹنی پر سوار ہو کر اپنی معشوقہ لیلیٰ کے گھر جانا چاہتا تھا چنانچہ وہ سوار ہوا اور اسے ہانکتے ہوئے چل پڑا۔ جب شہر سے باہر کچھ فاصلے پر پہنچا تو وہ اپنی محبوبہ کے خیالوں میں ڈوب گیا اور اونٹنی سے غافل ہو گیا آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ سست پڑ گئے اور اونٹنی کی مہار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اب وہ اونٹنی پر صرف ایک بار کے مانند پڑا تھا۔ اونٹنی نے آہستہ آہستہ جب یہ احساس کیا کہ اس کی مہار کسی کے ہاتھ میں نہیں تو اس نے اپنا رخ گھر کی طرف پلٹا دیا چونکہ اس کا بچہ گھر میں ہی تھا۔ چلتے چلتے اچانک مجنوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ معشوق کے گھر پہنچنے کی بجائے واپس اصطبل میں پہنچ گیا ہے۔ اس نے دوبارہ اونٹنی کا رخ معشوق کے گھر کی طرف کیا اور کچھ فاصلہ طے کیا اور معشوق کے خیالوں نے اسے پھر سے گھیر لیا اور اونٹنی سے بے خبر ہو گیا تو وہ بھی اپنے محبوب کہ جو اصطبل میں تھا کی طرف لوٹ گئی اور کئی مرتبہ یوں ہی ہوا“
ھمچو مجنون در تنازع با شتر
گر شتر چربید و گہ مجنون حر
یکدم ار مجنون ز خود غافل شدی
نافۃ گردیدی و واپس آمدی
”جب مجنوں کی اونٹنی سے کشمکش ہوئی تو کبھی اونٹنی جیت گئی اور کبھی مجنوں۔“
”جب مجنوں اپنے خیالوں میں گم ہو گیا تو اونٹنی واپس لوٹ آئی۔“
بعد میں کہتا ہے کہ آخرکار مجنوں نے اپنے آپ کو اونٹنی سے نیچے گرا دیا اور کہا
گفت ای ناقہ چو ھر دو عاشقیم
ما دو ضد بس ہمرہ نالا یقیم
”کہنے لگا کہ اے اونٹنی! چونکہ ہم دونوں عاشق ہیں لہٰذا ہم ایک دوسرے کی ضد ہیں اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے اہل نہیں ہیں۔“
”میں بھی عاشق ہوں اور تو بھی عاشق میں لیلیٰ کا عاشق ہوں لہٰذا اس کی طرف جانا چاہتا ہوں تو اپنے بچے کی عاشق ہے لہٰذا اصطبل کی طرف جاتی ہے اور یوں ہم ایک دوسرے کے ہمسفر نہیں بن سکتے۔“
اس کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہے
عشق مولا کی کم از لیلیٰ ستی
بندہ بودن بہر او اولا ستی
”مولا کا عشق کیا لیلیٰ کے عشق سے بھی گیا گزرا ہے؟ جبکہ اس کا بندہ ہونا اس سے کہیں بہتر ہے۔“
مطلب یہ ہے کہ اگر ہم انسان کو مطلق طور پر مادی تصور نہ کریں تو تمام انسانی خصوصیات امتیازات اقدار اور وہ تمام امور کہ جو انسان کو غیر انسان سے ممیز کرتے ہیں قابل توجیہہ ہیں اور اگر سو فیصد مادی تصور کریں تو یہ امور قابل توجیہہ نہیں ہیں۔ وہ توجیہہات کہ جو مادی ہیں خصوصاً ”مارکسسٹی“، درحقیقت وہ قابل توجیہہ نہیں ہیں دراصل وہ توجیہہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک توجیہہ موجود ہے جو کہ " Existentialist " وجودی حضرات کی ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس چیز کی ایک اور صورت میں توجیہہ کریں۔ وہ لوگ انسان کے مادی ہونے کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ چاہتے تھے کہ انسانی اقدار کو بھی قبول کر لیں۔ اس کے بارے میں انشاء اللہ اگلی نشست میں گفتگو ہو گی۔