باب پنجم
روحانی عشق
مارکسزم اور انسانی اقدار کا ثبات
پہلا سوال فطریات کے معنی کے متعلق کی گئی بحث کے بارے میں ہے۔ ان آیات کے بارے میں کہ جن میں فرمایا گیا ہے کہ
”تمہیں اس حالت میں پیدا کیا گیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔“
اور وہ کہ جنہیں ہم آیات میثاق و فطرت کے نام سے جانتے ہیں وہاں ہم نے بات کچھ اس انداز سے کی تھی کہ اسلامی فلاسفہ کا نظریہ کچھ یوں ہے کہ انسان فطری طور پر کچھ معلومات رکھتا ہے۔ ان معنی میں کہ یہ معلومات اکتسابی نہیں ہیں نا کہ ان معنی میں کہ بالفعل اور عملاً یہ معلومات اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور وہ انہیں ساتھ لے کر آیا ہوتا ہے کیونکہ اپنے ساتھ لانے اور پہلے سے کسی چیز کے حامل ہونے کا مطلب مختلف ہے جبکہ اس بات کا مطلب کہ جب اسے حاصل ہو تو اکتسابی طریقے سے نہ ہو۔ یہ ہے کہ جونہی وہ مطلب اس کے سامنے آئے اس کا ذہن بغیر کسی دلیل کی مدد کے وہ اسے پا لے اور سمجھ لے۔ اس بات کو سوال میں مسئلہ عالم ذر سے منسلک کر کے بیان کیا گیا ہے۔
پوچھا یہ گیا ہے کہ
کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارا خدائی میثاق اور عالم ذر میں ”بلٰی“ (اقرار) کہنا کیا ہے؟ جبکہ علم تصورات و تصدیقات کا مجموعہ ہے اور اگر یہ طے ہو کہ اس تصدیق اور ”بلٰی“ کے بارے میں ہمیں کچھ یاد نہیں تو پھر خدا تعالیٰ اس بات کو کس طرح شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے اور ہمیں یاددہانی کراتا ہے؟
نہیں یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ہم پہنچ نہیں پائیں گے اگر پہنچ پاتے تو ”آیہ ذر“ کا صحیح مفہوم بیان کرتے البتہ ہم آپ کو تفسیرالمیزان کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ میں نے تفسیرالمیزان کا فارسی ترجمہ تو نہیں دیکھا کہ وہاں کیا ترجمہ کیا گیا ہے لیکن المیزان جلد ۸ کے متن کو میں نے دیکھا ہے اس میں اس آیت کے بارے میں بہت عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ آج کی گفتگو میں ایسے موضوعات آئیں گے کہ جن کے ضمن میں ہم اس آیت کے متعلق زیادہ وضاحت کریں گے۔
عشق روحانی کی حقیقت کے بارے میں کچھ اور
دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ
ہر طرح کے روحانی عشق کو ہم عشق حقیقی اور ذات باری تعالیٰ سے عشق اور اس سے پھوٹنے والا کیسے قرار دے سکتے ہیں جبکہ یہ معشوق ایک عام انسان بھی ہو سکتا ہے؟ قبل ازیں ہم نے ایک نظریہ بیان کیا ہے کہ جس میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اس کے ماننے والے معتقد ہیں کہ عشق دو طرح کا ہوتا ہے ایک جسمانی عشق اور دوسرا روحانی عشق۔ یعنی بعض عشق روحانی ہوتے ہیں ہر ایک نہیں یہاں اشتباہ (غلط فہمی) نہ ہو کہ ان کے نظریے کے مطابق انسانوں کے بعض عشق روحانی ہوتے ہیں۔ اب یہ کہ انہیں کس طرح سے ذات باری تعالیٰ سے حقیقی عشق قرار دیا جا سکتا ہے؟ سوال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ وہ دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عشق روحانی میں معشوق حقیقی یہ شخص نہیں ہوتا بلکہ یہ شخص تو ایک محرک کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک مظہر کے مانند ہے اگرچہ عاشق سمجھے کہ اس کا معشوق حقیقی یہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر عرفاء عشق مجازی کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ہر طرح کے عشق کو حقیقی ہی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جمال حق کے علاوہ کوئی جمال ہی نہیں ہے اور ہر دوسرا سوال جمال اس کے جمال کا پرتو یا آئینہ ہے۔ ہر جمال جس حد تک بھی جمال ہے اتنا ہی ہے جتنا کہ اس کے پرتو کا حامل ہے اور انسان کی فطرت کہ جو کمال و جمال کی جستجو میں ہے کمال محدود اور جمال محدود کی طلبگار نہیں ہے کمال مطلق اور جمال مطلق کی متمنی ہے یعنی انسانی فطرت کی طلب تو وہ ہے لیکن مصداق میں اشتباہ کی وجہ سے وہ اس محدود جمال کے پیچھے چل پڑا ہے۔ یہ محدود جمالات جس قدر ”اس“ کا مظہر ہیں اسی قدر معشوق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جب اس تک پہنچتا ہے تو اس سے بیزار ہو جاتا ہے اور کسی دوسرے محبوب کی تلاش میں نکل پڑتا ہے وہ اپنے لاشعور میں یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ وہ نہیں ہے کہ جس کی میں تلاش میں ہوں۔ انسان کے لئے ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ انسان ان چیزوں کا اس قدر طالب کیوں ہے کہ جو اس کے پاس نہیں ہیں؟ پھر جب وہ انہیں پا لیتا ہے تو وہ گرمی (ولولہ جذبہ) اور طلب ختم (کیوں) ہو جاتی ہے دوسرے لفظوں میں اس میں ایک بے دلی (ناامیدی اکتاہٹ) کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ ایک مسئلہ ہے کہ انسان ان چیزوں کا اس قدر خواہش مند کیوں ہے اور ان کی آرزو کیوں کرتا ہے کہ جو اس کے پاس نہیں ہیں؟ اور جب انہیں پا لیتا ہے تو تدریجاً ان کی طرف میلان (رجحان) گھٹنے (کیوں) لگتا ہے۔ بالفاظ دیگر کہتے ہیں کہ انسان تنوع پسند ہے ایسا کیوں ہے؟ قاعدہ تو یہ کہتا ہے کہ جو چیز تقاضائے طبیعت ہے اور انسان اسے چاہتا ہے چونکہ اسے چاہتا ہے لہٰذا اسے پا کر اسے اطمینان حاصل کرنا چاہئے تو پھر بعد میں اسے کیوں چھوڑ دینا چاہتا ہے؟ اور تنوع پسند ہے پھر چاہتا ہے کہ کسی دوسری چیز تک جا پہنچے۔ اس معشوق کو چھوڑے اور دوسرے معشوق کی راہ لے پھر اسے بھی چھوڑے اور کسی اور کی طرف چل پڑے یہاں تک کہ یہ بات ضرب المثل بن گئی کہ انسان ہمیشہ اس چیز کی طلب میں رہتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے اور یہ بات درست بھی ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس چیز کا طالب ہے کہ جو اس کے پاس نہیں اور اس سے بیزار ہے جو اس کے پاس ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ بعض کا خیال ہے کہ یہ انسان کی ذات اور فطرت کا لازمہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں انسان کی ذات اور فطرت کا لازمہ ہے؟ سرگرداں رہنا تو انسان کی ذات کا لازمہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرگرداں رہنا ہمیشہ انسان کی ذات کا لازمہ ہے اور یہ کہ وہ دائماً اپنا مطلوب تبدیل کرتا رہے۔ اس کا صحیح تجزیہ وہی بات ہے کہ جو عرفاء نے کہی ہے کہ انسان اگر اس تک پہنچ جائے کہ جو اس کا مطلوب حقیقی ہے تو پھر آرام پا لیتا ہے۔ انسان درحقیقت اپنی ذات کے اندر سرگرداں نہیں ہے یہ سب سرگردانی اس امر سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اس حقیقت کو مبہم (لاشعوری) طور پر چاہتا ہے اور اس تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا ہے۔ کبھی ایک چیز کو پا لیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ وہی ہے لیکن جب ایک عرصہ قریب ہو کر اسے دیکھتا ہے تو اس کی طبیعت اور فطرت اسے مسترد کر دیتی ہے اور پھر کسی دوسری چیز کی جستجو میں لگ جاتا ہے یونہی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اگر اپنے مطلوب حقیقی تک جا پہنچے تو وہ حقیقی سعادت اور حقیقی آرام تک جا پہنچے گا اور حقیقی سعادت لازمی طور پر ہر چیز سے بالاتر آرام اوراطمینان کے معنی میں ہے۔ یہی ہے کہ جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:
الذین امنوا و تطمئن قلوبهم بذکر الله
”جو لوگ ایمان لائے اور وہ کہ جن کے دل ذکر الٰہی سے قرار پاتے ہیں۔“
پھر فرماتا ہے:
الا بذکر الله تطمئن القلوب
”توجہ رہے کہ ذکر الٰہی ہی سے دل قرار پاتے ہیں۔“
”الا“ حرف تنبیہ ہے تاکید اور تنبیہ کے معنی میں آتا ہے یعنی توجہ کریں خبردار ”بذکراللّٰہ“ جار و مجرور ہے اور ”تطمئن القلوب“ سے متعلق ہے اور اس پر مقدم کیا گیا ہے اور جب جار و مجرور فعل سے مقدم ہو جائے تو یہ حصر کی علامت ہے یعنی جب بھی مطلب یہ ہے کہ صرف کا مفہوم دیتا ہے۔ ”الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ یعنی صرف یاد خدا سے دلوں کو آرام ملتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسی بھی اور مطلوب کو پا لینے سے انسان کو حقیقی اطمینان نصیب نہیں ہوتا ایک وقتی سا اطمینان ہوتا ہے۔ یہ بھی اس وقت تک کہ جب تک وہ سمجھتا ہے کہ اسے مطلوب حقیقی مل گیا ہے لیکن جب کچھ عرصہ اس کی فطرت اسے قریب سے دیکھتی ہے اور اسے پہچان لیتی ہے اور صحیح طور پر اس امر کا ادراک کر لیتی ہے کہ اس کے اور اس کے درمیان ایک طرح کی عدم ہم آہنگی موجود ہے تو پھر اس کے اندر اس کے لئے ایک طرح کی بیزاری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ ایک ہی حقیقت ہے کہ انسان اگر اسے پا لے تو پھر محال ہے کہ اس سے بیزاری پیدا ہو اور وہ خداوند تعالیٰ ہے اور یہ اطمینان تبھی پیدا ہو سکتا ہے کہ جب انسان کا دل ”حقیقت“ تک ”اس“ تک اور ”توحید“ تک پہنچ جائے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بہشت کو عالم ہستی کی بدترین جگہ قرار دینا چاہئے کیونکہ بہشت میں ایک طرح کی یکسانیت ہے اور پھر ہر چیز تو بہشت میں انسان کو میسر ہے اور جب ہر چیز میسر ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کچھ بھی میسر نہ ہو۔ جب انسان کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو وہ اس کے لئے کوشش کرتا ہے اور جب پا لیتا ہے تو اسے اس سے لذت حاصل ہوتی ہے اور اگر پہلے سے ہی اسے میسر ہو تو یہ امیروں کے بچے کی طرح ہے کہ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی جس کے لئے خوشی کے سارے سامان فراہم ہوتے ہیں کوئی چیز اس کے لئے نئی نہیں ہوتی لہٰذا اس کے لئے لغت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کسی غریب کا بیٹا کہ جو ننگے پاؤں گلی میں چلتا ہو اسے اگر ایک جوڑا جوتوں کا میسر آ جائے تو اس کے لئے اس میں بڑی لذت ہے لیکن جس کے لئے پا برہنہ ہونے کا کوئی مفہوم ہی نہ ہو اور جس نے اس درد کو محسوس ہی نہ کیا ہو وہ جوتے ہونے کی لذت کو ہرگز محسوس نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ روسو اپنی کتاب ”امیل“ میں کہتا ہے کہ جن کے بچے عیش و عشرت میں پل کر بڑے ہوتے ہیں ان کے لئے لذت کا احساس کوئی معنی نہیں رکھتا (یعنی لذت آور چیزوں سے وہ کوئی لذت حاصل نہیں کرتے) جبکہ تکلیف دہ چیزوں کے بارے میں وہ بڑے حساس ہوتے ہیں اور چھوٹی سی تکلیف پر بھی تلملا اٹھتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس وہ بچے جو مصیبتوں اور سختیوں میں پل کر بڑے ہوتے ہیں انہیں درد اور تکلیف کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں یعنی سختیوں کو برداشت کرنا ان کے لئے آسان ہے بلکہ سختی کا بالکل احساس نہیں کرتے اور کوئی چھوٹی سی خوشی مل جائے تو اس سے بہت زیادہ لذت اٹھاتے ہیں۔ یہ حضرات کہتے ہیں لہٰذا بہشت کو قاعدتاً عالم ہستی کی ہر جگہ سے بڑھ کر تھکا دینے والی اور بے لذت ہونا چاہئے کیونکہ وہاں پر ہر طرح کی لذت و آسائش فراہم ہے اس جگہ کو تو ایک جیل بلکہ سب جیلوں سے بدتر ہونا چاہئے۔ قرآن ایک جگہ پر گویا اسی نکتے کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے:
لا یبغون عنہا حولا(کہف ۲۰۸) ” اہل بہشت وہاں پر تحول اور تبدیلی کی خواہش نہیں کریں گے۔“
یعنی بہشت میں ان کے لئے تھکاوٹ اور اکتاہٹ نہیں ہے (اس سلسلے میں اور بھی آیات ہیں) ہاں! ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ بہشت اگر ایک باغ کے مانند ہوتی زیادہ سے زیادہ ایک باغ جاوداں ہوتی یعنی اس کی تمام چیزیں دنیا کی مانند ہوتیں اور انسان بھی اپنی بشریت کے اعتبار سے دنیا والی کیفیت ہی کا حامل ہوتا تو معاملہ بالکل اسی طرح کا ہوتا یعنی اگر دنیا میں بہشت کو اسی دنیا کے افراد کے لئے بنایا جائے اور فرض کریں کہ وہ جاوداں (امر ہونا) بھی ہو جائے تو یہی اشکال (اعتراض غلط فہمی وجود میں آتی ہے) اس پر بھی وارد ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اہل جنت کے لئے بہشت نعمات الٰہی میں سے ایک انعام ہے یہاں تک کہ بہشت جسمانی اور لذات جسمانی بھی ان کے لئے خدا کی طرف سے ایک لطف و عنایت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کوئی انسان عرفان و معرفت کی ایک خاص حد تک نہ پہنچ جائے بہشت اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اہل جنت کے لئے لذتوں کی اساس یہی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کا مہمان ہے اور اسی کے خوان نعمت پر بیٹھا ہے یعنی وہ ایک ایسی حقیقت سے وابستہ ہو جاتا ہے کہ اس سے وابستہ و پیوستہ ہونے کے بعد پھر اکتاہٹ تبدیلی تغیر تنوع اور اس کے کوچے سے کسی اور جگہ کی طرف رخ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دوسرے الفاظ میں خدا کے علاوہ کوئی چیز بھی اللہ کے کرم اس کے لطف اس کی عنایت اور اس کے خوان نعمت کو چھوڑ کر کچھ بھی انسان کے لئے مطلوبِ جاوداں (ہمیشہ باقی رہنے والا امر ہونا) نہیں ہو سکتا فقط اللہ ہی ہے جو انسان کا مطلوبِ جاوید ہے۔ بہشت میں انسان کے لئے اکتاہٹ اور دل بھر جانے تنوع طلبی یا وہاں سے کسی اور جگہ جانے کی خواہش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہاں سے کہیں اور کا کوئی معنی ہی نہیں ہے۔ ”دوسری جگہ“ کا تصور تو ان محدود امور میں پیدا ہوتا ہے جبکہ بہشت میں ”دوسری جگہ“ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بات کہاں سے کہاں آ نکلی بات روحانی عشق کے بارے میں ہو رہی تھی کہ ہم اس طرف کھنچتے چلے آئے۔
عشق عرفاء کی نظر میں
مجھے اس جہت سے بات کرنا ہے کہ عرفاء کا ادعا ہے کہ ہر عشق عشق حقیقی ہے ۱۱۱#
عشق حقیقی است مجازی مگیر
این دم شیر است بہ بازی مگیر
عرفاء فلاسفہ کے اس نظریے کو نہیں مانتے کہ عشق دو قسم کا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مجازی معشوق بھی اسی کا پرتو ہوتا ہے عاشق اسی لئے اس پر فریفتہ ہوتا ہے چاہے اسے اس راز کی خبر نہ ہو۔ ان کے نظریے کے مطابق اصلاً محال ہے کہ انسان غیر خدا سے محبت کرے۔ محی الدین کہتے ہیں:
ما احب احد غیر خالقه
”کبھی کسی نے اپنے خالق کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کی۔“
(محی الدین ابن عربی کی ایسی ہی باتوں کی بناء پر بعض فقہاء نے انہیں برا بھلا کہا ہے) وہ مزید کہتے ہیں:
لکن احتجب عنه تفالی تحت زینب و سعاد و هندو
(شرح صحیفہ سجادیہ از سید علی خان)
”لیکن اس کا خالق ان مجازی معشوقوں کے ناموں کے پردے میں ہوتا ہے (جبکہ معشوق حقیقی خود وہی ہے)۔“
اس سلسلے میں مولانا روم کے بہت سے اشعار ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
جرعہ ای بر ریختی زان خفیہ جام
بر زمین خاک من کاس الکرام
اس میں بطور تمثیل کہا گیا ہے کہ جام عشق الٰہی کا صرف ایک گھونٹ زمین پر گرا ہے اور انسان اگر کسی موجود خاکی سے محبت کرتا ہے تو یہ اسی گھونٹ کے لحاظ سے ہی ہے کہ جو خاک میں آ ملا ہے۔
گشت بر زلف و رخ جرعہ نشان
خاک راشاھان ھمی لیسند از آن
خاک: کہنا یہ چاہتا ہے کہ اس انسان کا بدن خاک کے سوا کچھ نہیں۔
شاھان: شاہان سے شاعر کی مراد ”فی حد اعلی“ اور وہ لوگ ہیں کہ جن کا ناز زیادہ ہوتاہے۔
یہ عارف کہتا ہے کہ اگر سب خاک کو اس طرح آغوش میں لیتے ہیں اور اسے اس طرح سے پیار کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ اس گھونٹ میں سے کچھ اس میں موجود ہے۔
پھر کہتا ہے ۱۱
جرعہ خاک آمیز چون مجنوں کند
مر شمارا صاف او تا چون کند
کہتا ہے کہ اس معشوق مجازی میں اس گھونٹ میں سے ایک قطرہ مل گیا ہے اس نے تمہارا یہ حال کر دیا ہے لیکن اگر تمہیں وہ خالص شراب میسر آ جائے یعنی تم اگر اس حقیقت تک جا پہنچو تو پھر کیا ہو گا؟
لہٰذا اس میں کوئی تضاد نہیں کہ انسان کا بظاہر اس کے اپنے اپنے خیال میں معشوق ایک انسان ہو لیکن درحقیقت معشوق حقیقی وہ انسان نہ ہو بلکہ وہ ظاہر ہو کہ جس نے اس مظہر کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کیا ہو۔
کیا انسانی اقدار متغیر ہیں؟ ( Human Values )
تیسرا سوال کہ شاید جس کے بارے میں زیادہ بحث کی ضرورت ہے یہ ہے:
ایک مارکسسٹ جب انسانی اقدار کا دفاع کرتا ہے اور مادیت ( Materialism ) پر بھی یقین رکھتا ہے وہ ان دونوں کے درمیان عدم تناقض کی توجیہہ کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ ہم انسان کو ایک موجود ثابت ( Non-Contradiction ) نہیں مانتے (اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسانی اقدار بھی ثابت اور مستقل نہیں ہیں) اور ہم اجتماعی نظام کے ساتھ ساتھ اسے کمال پذیر سمجھتے ہیں لہٰذا ہر زمانے میں اخلاقی اقدار اس زمانے یا اس دور سے مختص ہوتی ہیں۔ اخلاقی جاگیرداری ( Feudral Values ) اخلاق اشتراکی سے مختلف ہے لیکن پرولتاری طبقہ (مزدور طبقہ " Proletariat ") کسی مشخص (واضح) و معین تاریخی مرحلے پر چند اشتراکی اخلاقی اقدار کی حمایتکر سکتا ہے لہٰذا کوئی تناقض ( Contradiction ) موجود نہیں ہے اور متغیر اخلاقی اقدار کو قبول کرنے سے ضروری نہیں ہو جاتا ہے کہ فطریات اور غیر مادہ کے وجود کو قبول کیا جائے۔
یاد رہے کہ ہم قبل ازیں اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ فلسفہ مادیت ( Materialistic Philosophy ) اور انسانی اقدار کے درمیان ایک طرح کا تناقض و تضاد موجود ہے۔ یہ ایک اچھا سوال ہے اس کا ہم جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ انسان ایک متغیر موجود ہے لہٰذا انسانی اقدار بھی متغیر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چونکہ انسان ثابت نہیں ہے لہٰذا لازمی طور پر انسانی اقدار بھی ثابت نہیں ہیں۔ دوسری بات اس سے یہ نکلتی ہے کہ جب انسان اور انسانی اقدار ثابت نہیں ہیں اور متغیر ہیں تو پھر کمال پذیر ہیں۔ اس پر ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اس کمال کا معیار کیا ہے؟ اس بارے میں الگ بحث کی جانی چاہئے۔ اس کے بعد کہتے ہیں:
”لہٰذا ہر زمانے میں اخلاقی اقدار اس زمانے یا اس دور سے مختص ہوتی ہیں اخلاق جاگیرداری اخلاق اشتراکی سے مختلف ہے“
یہاں دو حوالے سے بات کی گئی ہے اور شاید خلط ملط ہو گئی ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسانی اقدار ثابت نہیں ہیں اور متغیر ہیں۔ یہ بات نسبیت اخلاق سے متعلق ہے یعنی انسانی اقدار میں سے جو اخلاق سے مربوط ہیں وہ متغیر ہیں یہ مسئلہ اخلاق کے متغیر اور نسبی ہونے سے متعلق ہے۔ کیا یہ بات درست ہے کہ انسانی اقدار بشمول اخلاقی اقدار واقعاً متغیر ہیں؟ یہ چند اقدار کہ جن کا ہم نے ذکر کیا ہے کیا واقعاً متغیر و متحول ہیں؟ مثلاً ہم نے بیان کیا ہے کہ حقیقت جوئی (حقیقت کی تلاش) انسان کے لئے ایک قدر ( Value ) ہے کیا یہ قدر متغیر ہے؟ مثلاً پہلے اشتراکی (سوشلسٹ) دور میں پھر کھیتی باڑی کے زمانے میں پھر غلامی کے زمانے میں پھر جاگیرداری کے دور میں پھر سرمایہ داری کے زمانے میں اور پھر کمیونسٹ زمانے میں انسان کے لئے کیا یہ قدر تبدیل ہوتی رہی ہے یا یہ انسان کے لئے ایک ثابت اور غیر متغیر قدر رہی ہے؟ ثانیاً اگر یہ اقدار متغیر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قدر ( Value ) اپنے زمانے میں ہی صحیح ہے اور دوسرے زمانے میں ناپسندیدہ ہے مثلاً جاگیردارانہ اخلاق کو ہی لے لیں کیا ہم محض اسے جاگیردارانہ دور میں ہونے کی وجہ سے جاگیردارانہ اخلاق کہہ سکتے ہیں اور اس کی تائید کر سکتے ہیں اور اسے صحیح سمجھ سکتے ہیں؟ یعنی ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ اس دور میں کس چیز کو اخلاق سمجھتے تھے؟ اسی کی تائید کرنی چاہئے۔ اگرچہ وہ اس طرح کے افسانے کو ہی اخلاق سمجھتے تھے کہ مثلاً ضحاک ہر روز ایک جوان کو قتل کیا کرے تاکہ اپنے کندھوں پر بیٹھے سانپوں کو ان کا مغز کھلا سکے یا یہ بات نہیں بلکہ ایک طرح کے مستقل اصول کارفرما ہیں؟ فرعون کا کام اس کے زمانے میں بھی ناپسندیدہ ہے نہ یہ کہ فرعون کا کام چونکہ فرعون کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کے اپنے زمانے میں صحیح ہے اور ہم چونکہ دوسرے زمانے میں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی اقدار کو فرعون و موسیٰ ۱۱ کے زمانے پر لاگو نہیں کرنا چاہئے۔ فرعون کا تعلق چونکہ ایک دوسرے زمانے سے تھا اور اس زمانے میں جسے اخلاق سمجھتے تھے وہ ایک صحیح اخلاق تھا کیا ہم ایسی بات کہہ سکتے ہیں؟ ثالثاً اس بیان میں طبقاتی اخلاق کا سہارا لیا گیا ہے قاعدتاً ہونا بھی یونہی چاہئے یعنی مارکسزم ایسے انسانی اخلاق کا قائل نہیں ہو سکتا جو سب انسانوں کے لئے اخلاق قرار پائے۔ اس بیان کے مطابق ہمارے زمانے میں جبکہ ان سارے نظاموں کا نمونہ موجود ہے جاگیرداری سرمایہ داری اور کمیونزم ہر ایک کا نمونہ موجود ہے تو ہمیں کہنا چاہئے کہ ایک کمیونسٹ کے لئے اخلاق واقعاً ایک اور چیز ہے اور سرمایہ دار کے لئے اخلاق کوئی دوسری چیز ہے۔ ایک سرمایہ دار ایک کمیونسٹ سے کہہ سکتا ہے اور اسی طرح سے ایک کمیونسٹ ایک سرمایہ دار سے کہہ سکتا ہے کہ تم اپنا اخلاق مجھ پر نہیں ٹھونس سکتے کیونکہ تمہارے حالات اور تقاضے جدا ہیں اور ہمارے حالات اور تقاضے جدا۔ اگر میں تمہارے حالات میں ہوتا تو تمہارا اخلاق قبول کر لیتا اور اگر تم میرے حالات میں ہوتے تو میرا اخلاق قبول کر لیتے لہٰذا نہ میں تمہیں کچھ کہہ سکتا ہوں نہ تم مجھے کچھ کہہ سکتے ہو نہ ایک کمیونسٹ ایک سرمایہ دار کو اخلاقی حوالے سے برا کہہ سکتا ہے اور نہ کوئی سرمایہ دار کسی کمیونسٹ کو اخلاقی حوالے سے غلط کہہ سکتا ہے کیونکہ اس نظریے کے اعتبار سے کوئی ایسا مشترک انسانی اور فطری اخلاق نہیں ہے کہ جس کی بناء پر ایک کمیونسٹ کسی سرمایہ دار کو برا کہہ سکے اور نہ کوئی سرمایہ دار کسی کمیونسٹ کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے ایسی کوئی مشترک چیز موجود نہیں لہٰذا ہر کوئی دوسرے کو جواب میں کہہ سکتا ہے کہ میرا اخلاق مجھ سے متعلق ہے اور تمہارا اخلاق تم سے نہ تم میرا اخلاق اپنا سکتے ہو اور نہ میں تمہارا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اخلاق صرف زمانوں سے وابستہ نہیں ہے بلکہ طبقاتی خصوصیات سے بھی وابستہ ہے مثلاً دنیا کے ان سارے علاقوں میں کہ جہاں آج بھی جاگیرداری نظام کارفرما ہے ان کے لئے صحیح اخلاق وہی جاگیردارانہ اخلاق ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ انسان انسان کے اعتبار سے ایسے اخلاقیات کا حامل ہے کہ جو ابتدائی زمانے کے انسان کے لئے بھی اسی طرح سے صادق ہیں کہ جس طرح سے صنعتی تمدن کے اس دور کیلئے۔
ڈاکٹر ہشترودی کا نظریہ اور اس کا تجزیہ
اتفاق کی بات ہے کہ دو تین روز پہلے میں نے اخبار میں ایک دلچسپ بات پڑھی اور سوچ رہا تھا کہ کسی وقت آپ کو بھی سناؤں آج چونکہ ہماری بحث بھی انہی امور سے متعلق ہے لہٰذا اب آپ کو سناتا ہوں۔ ۸ جون ( ۱۹۷۶ ء) کے روزنامہ ”کیہان“ نے پروفیسر ہشترودی کا ایک انٹرویو شائع کیا تھا جس کی سرخی یہ تھی ”زمینی انسان ایک کائناتی مخلوق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے“ وہ کبھی کبھی عجیب و غریب باتیں کرتا ہے۔ اسی ضمن میں اپنے بعض نظریات کی وہ ہمیشہ تکرار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اہرام مصر کو زمین پر بسنے والے انسانوں نے تعمیر نہیں کیا بلکہ انہیں دوسرے سیاروں کے ترقی یافتہ انسانوں نے ہماری زمین پر آ کر بنایا ہے اور اس وقت زمین پر بسنے والے لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ انہیں تعمیر کر پاتے وہ اسی طرح کی دوسری باتیں بھی کرتا ہے۔ حال ہی میں اس نے اپنا ایک ”فلسفہ اخلاق“ بھی بنایا ہے یعنی اس نے بھی اپنی طرف سے ایک طرح کا ہیومن ازم ( Humanism ) گھڑا ہے۔ ڈاکٹر ہشترودی نے اپنے اس انٹرویو کی ابتداء میں ایک مقدمہ ذکر کیا ہے کہ جس میں وہ آج کے علم و تمدن کو ناپسند قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ علم و تمدن چونکہ انسان کے لئے ضرر کا موجب بنتے ہیں اس لئے ناپسندیدہ ہیں۔ اس کے بیان کے بعض حصے آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ وہ کہتا ہے:
”کوئی امر بھی مطلق(مکمل حتمی یقینی) نہیں ہے بلکہ تمام امور نسبی ہیں شاید آپ کو یہ کہا گیا ہو کہ ریاضی کے احکام مطلق ہیں میں کہتا ہوں کہ وہ بھی مطلق نہیں ہیں۔“
”کیہان“ کا نامہ نگار کہتا ہے:
”ایران کا سینئر ریاضی دان پروفیسر ہشترودی اپنی اس منطق کی بناء پر کہ کوئی امر مطلق نہیں ہے رنجشوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے اور مختلف قوموں اور قبیلوں کو محبتوں کے پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمام لوگ ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھیں۔“
اس جگہ میں نے ایک نوٹ لکھا ہے کہ اس کا یہ کہنا کہ ”کوئی بھی امر مطلق نہیں ہے“، کیا خود یہ امر مطلق ہے یا غیر مطلق؟ ایک بار ہم کہتے ہیں کہ اس امر کے علاوہ کہ ”کوئی امر مطلق (مکمل حتمی یقینی) نہیں ہے“، باقی تمام امور مطلق نہیں ہیں (یعنی صرف اس امر کو مستثنیٰ کرتے ہیں لیکن جب یہ امر مطلق ہے تو اس صورت میں استثناء کیوں ہے؟ اگر قرار یہ ہے کہ کوئی امر اور کوئی مسئلہ بھی مطلق نہ ہو تو کوئی دلیل نہیں کہ ہم اس کا استثناء کریں۔ منطقی حضرات کہتے ہیں کہ منطق کے بعض مسئلے ایسے ہیں کہ بطور عموم ان کا صادق ہونا محال ہے۔ لازمی طور پر ان میں استثناء ہوتا ہے مثلاً کوئی کہتا ہے ”میری تمام باتیں جھوٹ ہیں“۔ یہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اس مسئلے کے سارے مصادیق سچے ہوں کیونکہ اگر میری تمام باتیں جھوٹ ہوں تو خود میرا یہ کہنا بھی جھوٹ ہو گا اور اگر میرا یہ جملہ بھی جھوٹ ہو تو میری ساری باتوں کو جھوٹ نہیں ہونا چاہئے ورنہ یہ جھوٹ نہیں ہو گا۔ بہرحال من جملہ ان باتوں کے کہ جن کا صادق ہونا محال ہے ایک یہی ہے کہ کوئی امر بھی مطلق نہیں ہے اگر یہ صادق ہو تو یہ جملہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے اور اگر ایسا ہو تو خود یہ مطلق نہیں رہتا پس جب یہ مطلق نہ رہا تو ہمارے پاس ایسے امور ہونے چاہئیں جو مطلق ہوں۔ یہ ہوئی ایک بات دوسری بات یہ کہ نامہ نگار کہتا ہے کہ وہ لوگوں کو محبتوں کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمام لوگ ایک دوسرے کو بھائی بہن سمجھیں۔ ان صاحب سے یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا یہ اخلاقی دستورالعمل کہ ”لوگ ایک دوسرے کو بھائی بہن سمجھیں“، امر مطلق ہے یا حکم نسبی؟ اور کیا کسی خاص زمانے سے مربوط ہے یا تمام زمانوں کے لئے ہے؟ یعنی کیا یہ دستورالعمل ماضی حال اور مستقبل تمام زمانوں کے لئے بہتر ہے؟ اسی طرح یہ ہر جگہ اور ہر قسم کے حالات میں تمام لوگوں کے لئے صدق کرتا ہے یا فقط بعض لوگوں کیلئے؟ نامہ نگار کہتا ہے تہران یونیورسٹی کے یہ پروفیسر کہ جو ٹیکنالوجی اور علم کی ترقی کے ظلم و انسانیت کشی میں استعمال سے بہت رنجیدہ خاطر ہیں کہتے ہیں:
”قرونِ وسطیٰ کے غیر متبدل امور و احکام ہماری صدی میں ختم ہو چکے ہیں اور نہ فقط یہ کہ معتبر نہیں رہے بلکہ ان کی جگہ ایسے امور نے لے لی ہے کہ جو ہرگز مطلق نہیں ہیں۔ سقراط کی حکمت عالیہ اور کانٹ کے بلند فلسفہ اخلاق کو اس کے اس قدر رعب و دبدبے کے باوجود آج ریا جھوٹ حس اثبات نفس خود غرضی اور حب ذات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آئن سٹائن نے سائنسی نظریات کے زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہونے کو غلط ثابت کر دیا ہے تو دوسری طرف فرائڈ کے نظریہ جنس نے اس فلسفہ اخلاق کی بنیادوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا ہے کہ جسے ایک مطلق نعمت الٰہی قرار دیا جاتا ہے لہٰذا جب سارے احکام و امور نسبی ہیں تو پھر اس بنیاد پر کہ فلاں میرے نظریے کو نہیں مانتا ہمیں برادر کشی شروع کر دینی چاہئے۔ جو بات ہم قبول کرتے ہیں وہ ہمارے لئے مطلق (مکمل حتمی) ہے ہو سکتا ہے وہ دوسرے کے لئے مطلق نہ ہو۔ جب ریاضی کے احکام مطلق نہیں ہیں اور ہر چیز نسبی ہے تو پھر بعض لوگ کس طرح سے کسی امر کو مطلق قرار دے کر ٹیکنالوجی کو برادر کشی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں؟“
وہ کہتا ہے کہ یہ جنگیں قرون وسطیٰ کے مطلق احکام کی باقیات میں سے ہیں یعنی قرونِ وسطیٰ کے لوگ اپنے امور کو مطلق سمجھتے تھے۔ اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مثلاً فلاں دین کے پیروکار اپنے آپ کو حق سمجھتے تھے اور وہ بھی حق مطلق اور اپنے مخالفین کو باطل مطلق جانتے تھے۔ اسی طرح مخالفین بھی مدمقابل کو یونہی سمجھتے تھے اور یہی امر انسانیت کشی کا موجب بنتا تھا۔ ہمیں بس اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی چیز بھی مطلق نہیں ہے اگر میں کہتا ہوں کہ میں حق پر ہوں اگر یہ درست بھی ہو تو بھی بطو ر مطلق درست نہیں اور اگر دوسرے کو باطل کہتا ہوں اور واقعاً وہ باطل پر ہو تو بھی بطور مطلق باطل پر نہیں۔ میں حق نسبی پر ہوں اور باطل نسبی پر اسی طرح وہ بھی حق نسبی پر ہے اور باطل نسبی پر پس آئیں اور آپس میں بھائی بن کر رہیں۔ یہ ہے اس کے نظریے کی بنیاد اس کے بعد وہ اخلاقی امور کو ریاضی کے مسائل سے خلط ملط کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سقراط کا فلسفہ اخلاق جسے آج کل ایک طرح کی خود پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے درحقیقت جھوٹ اور ریا پر مبنی ہے۔ ان صاحب سے یہ کہنا چاہئے کہ آپ نے اپنے بیان میں ریا جھوٹ اثبات نفس اور خود پسندی کو ناپسند قرار دیا ہے البتہ یہ کہنا کہ سقراط کا فلسفہ ان چیزوں پر مشتمل ہے ایک بے بنیاد سی بات ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایک طرح کی خود پسندی ہی ہے جو اخلاق کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے فرضاً ہم اسے قبول کرتے ہیں کہ سقراط کا فلسفہ ایک طرح کی خود پسندی خود پرستی اثبات نفس کی حس تظاہر اور ریا وغیرہ پر مشتمل ہے اور اس کے اس فلسفہ اخلاق کو ناپسند قرار دیتے ہیں لیکن نتیجتاً ہم نے یہ قبول کیا ہے کہ بطور مطلق ہم نے ان کی نفی کی ہے اور بطور مطلق مخالف اخلاق قرار دیا ہے۔ کیا ریا بطور مطلق مخالف اخلاق ہے یا بطور نسبی اسی طرح جھوٹ؟ نسبی اگر یہ بطور نسبی مخالف اخلاق ہیں تو سقراط کا فلسفہ اخلاق بھی حق نسبی ہے اور مطلقاً نفی نہ ہوا۔ آپ تو یہ کہنا چاہتے تھے کہ سقراط کا فلسفہ اخلاق مجموعی طور پر منسوخ اور ختم ہو چکا ہے پس آپ نے بطور مطلق ان کا مخالف اخلاق ہونا قبول کر لیا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان فلسفہ اخلاق کا قائل ہو لیکن اس کے ساتھ اخلاق کو متغیر اور نسبی سمجھتا ہو (ہمارا نظریہ یہی ہے اور بعد میں مزید اس کے بارے میں بحث کریں گے) یعنی کم از کم ایک اصول کے لحاظ سے اخلاق ثبات اور اطلاق کے مساوی ہے۔ ہمارے ہاں ایک اصول اخلاق پایا جاتا ہے اور ایک فروع اخلاق فروع اخلاق اصول اخلاق سے مختلف ہے۔ اخلاقی اصول ثابت و استوار اور مطلق ہیں اور اگر ان سے یہ ثبوت و اطلاق جدا کر دیا جائے تو اخلاق اپنے اخلاقی حلیے (پہلو) سے خارج ہو جاتا ہے۔ ہاں ایک طرح کے آداب و رسوم اور منشور کی طرح ایک قسم کے مدون قواعد و ضوابط کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور یہ مقدس امر نہیں ہے کہ جو واقعاً خیر و فضیلت ہو۔
ہمیں افسوس ہے کہ استاد شہید کی اس تقریر کا باقی حصہ ٹیپ نہیں ہو سکا۔