انسانی اصالتوں کے ارتقاء کا مفہوم
اس مفروضہ کی بنیاد‘ جس طرح ہم پہلے کہہ چکے ہیں‘ یہ ہے کہ اس کائنات میں کوئی چیز بھی ثابت و مستقل نہیں ہے‘ بلکہ تمام چیزیں متغیر ہیں‘ لیکن اس کی بنیاد تغیر پر ہی نہیں بلکہ تغیر اور تکامل پر ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ انسانی اصالتیں ارتقاء پذیر ہیں تو اس سے ہم کون سے معنی مراد لیں کہ جو مطلق تغیر سے مختلف ہوں؟ ہر تغیر کو تو ہم ارتقاء و تکامل نہیں کہہ سکتے‘ اس لئے کہ تنزل بھی تو تغیر ہی ہے۔ ممکن ہے ایک انسان اپنی انسانیت کے اعتبار سے کامل تر ہو جائے اور اسی طرح ممکن ہے کہ اس کے برعکس ہو جائے کہ جسے ہم اخلاقی خرابی اور پستی کہتے ہیں۔ آیا اخلاقی پستی کا اصلاً کوئی مفہوم ہے بھی یا پھر اس کا کوئی معنی نہیں؟ یقینا معنی و مفہوم تو ہے‘ ممکن نہیں کہ اس کا کوئی معنی و مفہوم نہ ہو۔ اگر کہیں کہ ایک حالت کی جگہ دوسری حالت نے لے لی ہے‘ یہ تکامل و ارتقاء ہے‘ قطعاً ایسا نہیں ہے۔ ارتقاء یعنی کمال ترقی کی طرف قدم بڑھانا یعنی ارتقاء کی طرف بڑھنے والی چیز جب مختلف مراحل کو طے کر رہی ہوتی ہے تو اس میں نہ صرف عدم ثبات ہوتا ہے اور وہ ایک جگہ متوقف (جامد) نہیں ہوتی‘ بلکہ ایک چیز اور بھی اس میں پائی جاتی ہے‘ وہ یہ کہ اس کا یہ تغیر کمال کی طرف ہوتا ہے‘ یعنی ہم اس کے لئے ایک نقطہ ابتداء قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے یہ چیز کمال اور آگے کی طرف بڑھ چلی ہے‘ یعنی بعد والے مرحلے میں کہ جو نقطہ آغاز سے عالی تر مرحلہ ہے‘ یہی زیادہ حجم و مقدار کے ساتھ‘ پس اگر یہ تغیر کمال کی راہ میں انجام پذیر نہ ہو تو یہ حرکت ارتقائی حرکت نہیں ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ راہ کمال و ارتقاء کی ہو تو ہمیں چاہئے کہ ایک امر کو سامنے رکھیں اور بعد میں کہیں کہ وہ امر ابتداء سے اس چیز میں پایا جاتا ہے‘ جبکہ ہم اس امر کو کمال قرار دیں اور بعد کے مرحلے میں یہی امر اس چیز میں زیادہ مقدار میں موجود ہو۔ مثلاً سائنس اور صنعت میں تکامل کو ہی لے لیں‘ ایک معاشرہ ایک مرحلے پر سائنس اور ٹیکنالوجی اور اسرار طبیعت ( Nature ) کے کشف اور اس سے متعلق معلومات کے اعتبار سے ایک خاص مقام پر ہے‘ جبکہ دوسرے مرحلے میں تغیر کر جاتا ہے۔ یہاں کیا ہم ہر تغیر کو تکامل کہہ سکتے ہیں؟ اگر بعد کے مرحلے میں یہ لوگ پہلے سے زیادہ جاہل اور نادان ہو جائیں‘ فنی اور صنعتی طاقت کے لحاظ سے کمزور پڑ جائیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ارتقائی مرحلہ طے کیا ہے‘ اس لئے کہ پہلے کی نسبت فرق پیدا ہو چکا ہے؟ مثلاً پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کمتر ہے‘ اسی طرح عمومی معلومات کی سطح بھی پہلے کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے‘ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ پہلے مرحلے سے تغیر کر چکے ہیں‘ لہٰذا ارتقاء حاصل کر چکے ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ مطلق تغیر کو ارتقاء نہیں کہا جاتا‘ بلکہ ارتقاء اس وقت حاصل ہو گا‘ جب یہی معاشرہ بعد کے مرحلے میں کمیت (مقدار) یا کیفیت یا ہر دو اعتبار سے پہلے کی نسبت بالاتر سطح پر پہنچ جائے‘ مثلاً اگر پہلے ان پڑھ اور جاہل لوگوں کی شرح پچاس فیصد تھی اور اب مقدار کے اعتبار سے یہ ۶۰ فیصد ہو گئی ہے اور اگر پہلے علم و دانش اور معلومات کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ ایم اے کی سطح پر تھے تو اب یہ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کر چکے ہیں۔ صنعت بھی اسی طرح ہے‘ یعنی جو کچھ ان کے پاس پہلے تھا وہ اب بھی ہے‘ البتہ کچھ اضافے کے ساتھ‘ دوسرے الفاظ میں وہی چیز ان کے پاس بالاتر سطح پر موجود ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ارتقاء میں ایک نقطہ آغاز کمال کو پیش نظر رکھیں اور پھر اسی مبداء نقطہ آغاز کمال سے ایک راستے کو مدنظر قرار دیں کہ کوئی چیز اس راہ پر دوسرے مرحلے میں بالاتر سطح پر موجود ہو تو اسی کو ارتقاء کہتے ہیں۔
انسانی معاشرے کے ارتقاء کی اقسام
۱ ۔ طبیعت ( Nature ) کے ساتھ انسانی رابطے میں ارتقاء
انسانی معاشرے کی ترقی اور تکامل کئی طرح سے ہے (فلسفہ تاریخ میں ”ارتقاء“ کے باب میں اس چیز پر بحث کی جاتی ہے)‘ جب ہم کہتے ہیں کہ انسانی معاشرہ راہ ارتقاء طے کر رہا ہے تو ایک وقت ہماری مراد فنی مسائل ہوتے ہیں‘ یعنی انسان طبیعت کے حوالے سے ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے۔ انسان طبیعت سے مربوط ہے اور ہمیشہ اس سے معرکہ آرائی کی حالت میں ہے‘ وہ چاہتا ہے کہ طبیعت پر غالب آ جائے اور اس پر مسلط ہو کر اس سے اپنی خدمت لے اور اس میں شک نہیں کہ انسانی معاشرہ طبیعت کے حوالے سے تکامل (ارتقائی) کے مراحل طے کر چکا ہے اور کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ہم گزشتہ ادوار کو مدنظر رکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس چیز کو آج ہم ٹیکنالوجی‘ صنعت‘ ”کائنات میں تصرف“ یا ”طبیعت پر تسلط“ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ روز بروز ترقی کر رہی ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
۲ ۔ معاشرتی ڈھانچے کے باہمی روابط میں ارتقاء
دوسرا مسئلہ انسانوں کے باہمی روابط کا ارتقاء ہے‘ لیکن مراد مجموعی طور پر معاشرتی ڈھانچے کے باہمی روابط ہیں‘ یعنی معاشرہ انتظامی اعتبار سے ایک زندہ موجود کے مانند ہے کہ جتنا سادہ اور بسیط ہو‘ اس میں شعبوں کی تعداد جس قدر کم ہو‘ وحدت و بساطت کی حالت زیادہ ہو گی۔ جس قدر تکامل کے مراحل طے کرتا ہے‘ اتنا ہی اعضاء‘ اجزا اور شعبوں کے اعتبار سے پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے‘ جس قدر کام مختلف شعبوں میں زیادہ تقسیم ہوتا ہے‘ اسی قدر اس پیچیدگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بے شک اس لحاظ سے بھی انسانی معاشرہ ترقی کر چکا ہے‘ مثال کے طور پر آج کے اور پچاس سال پہلے کے ایرانی معاشرے کے مختلف پیشوں‘ علمی شعبوں اور مختلف دفاتری عہدوں کو مدنظر رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ پہلے یہ معاشرہ ایک نوزائیدہ حیوان کی مانند کم اعضاء پر مشتمل تھا‘ روز بروز اس کے اعضاء میں اضافہ ہوتا گیا۔ مثلاً کسب معاش کہ جو مبادلات کا ذریعہ ہے اور وسائل زندگی فراہم کرتا ہے‘ کے اعتبار سے کوئی اگر مختلف پیشوں کا شمار کرتا تو پورے تہران میں شاید دس سے زیادہ پیشے نہ تھے‘ یعنی اس وقت معاشرہ اس سے زیادہ پیشوں کا تقاضا نہیں کرتا تھا۔ دیہاتوں میں جاتے تو دیکھتے کہ ایک ہی دُکان بیک وقت سبزی‘ عطر‘ سٹیشنری اور گوشت کی دکان ہے‘ جو کچھ بھی چاہئے وہاں سے ملے گا۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ ترقی کر رہا ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ صنعتی ترقی کے باعث ایسے نئے پیشے وجود میں آ رہے ہیں اور ایجاد ہوئے ہیں کہ جو پہلے نہیں تھے‘ مثلاً میوزک سنٹر کہ جن کا پیشہ یہی ہے کہ کیسٹیں ٹیپ کر کے بیچتے ہیں‘ ان کیسٹوں میں بعض مذہبی کیسٹیں بھی ہیں‘ بعض دکانیں تو صرف مذہبی کیسٹ ہی فروخت کرتی ہیں‘ دفتری کام بھی اسی طرح ہیں۔ مختلف وزارتوں کو دیکھیں کہ (ابھی ممکن ہے کسی حد تک بعض امور مصنوعی اور بناوٹی ہوں‘ لیکن زیادہ تر ایسے ہیں کہ وہ واقعاً اجتماعی طور پر ضروری ہیں)‘ ناصرالدین شاہ کے زمانے میں زیادہ سے زیادہ ایک دو وزیر تھے جو تمام امور نمٹاتے تھے۔ آج اگر مختلف وزارتوں کے امور کو واقعاً انجام دینا چاہیں تو صرف ایک کام مثلاً پانی اور بجلی کے محکمے کا کام ناصرالدین شاہ کے زمانے کے تمام امور کے برابر ہے۔ اس لحاظ سے بھی انسانی معاشرہ تکامل (ارتقاء) حاصل کر چکا ہے اور یہ صرف ایران سے مختص نہیں ہے‘ بلکہ پوری دنیا اسی طرح ہے‘ پیشوں کے زیادہ ہونے اور کاموں کی مختلف شعبوں میں تقسیم ہونے‘ مہارت (صنعت و حرفت) کے مختلف شعبوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں یک رنگی (لوگوں کی آپس میں مشابہت) ختم ہو رہی ہے اور یہ چیز عمرانیات ( Sociology ) کے لحاظ سے بھی کافی اثر رکھتی ہے‘ کیونکہ انسان اپنے کام سے مشابہت رکھتا ہے اور اسی طرح کام انسان سے مشابہت رکھتا ہے‘ نیز کام انسان کی تعمیر میں بھی موثر ہے۔ اس زمانے میں جبکہ کام اور پیشے زیادہ نہ تھے‘ مختلف انسان ایک دوسرے سے آج کی نسبت زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ آج کل کام اتنے پھیل گئے ہیں کہ کاموں کی مختلف انواع میں زمین و آسمان کا فرق ہے‘ مثلاً ایک آدمی کہ جس کی زندگی کوئی کام کرتے ہوئے گزری‘ دوسرے آدمی سے لازمی طور پر انتہائی مختلف ہو گا کہ جس کا سروکار کسی اور کام سے ہے اور حقیقت میں یہ دو مختلف روحیں ہیں اور یہ ایک ایسی مشکل ہے کہ جو خواہ مخواہ وجود میں آئی ہے۔ اس لحاظ سے بھی تکامل (ارتقاء) مفہوم رکھتا ہے‘ یعنی اس ابتدائی دور میں‘ جب ہم کہتے ہیں کہ انسان ایک زندہ موجود کی صورت میں سامنے آیا‘ یہ ایک ایسے تقسیم شدہ اجتماع کی مانند تھا کہ جو تمام کا تمام ایک ہدف اور مقصد کے حصول کے لئے کوشاں تھا۔ اسی جہت سے انسانی معاشرہ زمانے کے ساتھ ساتھ زیادہ ترقی یافتہ ہوتا گیا‘ یعنی جو کچھ پہلے دور میں اس کے پاس تھا وہ بعد والے زمانے میں بھی اس کے پاس ہے‘ البتہ اضافے کے ساتھ‘ یعنی ہر دور میں اس اصل میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا گیا اور بعد والے زمانوں میں یہی چیز ایک بالاتر اور برتر سطح پر پہنچ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تکامل (ارتقاء) مطلق تغیر کا نام نہیں ہے‘ تکامل کے لئے معیار کا ہونا ضروری ہے‘ یعنی جو کچھ پہلے مرحلے میں اس کے پاس تھا‘ بعد کے مرحلے میں وہی چیز بیشتر‘ کامل تر اور زیادہ ہو‘ دوسرے الفاظ میں ”تکامل“ کے لئے ایک خاص مقدار اور ایک خاص راستہ ان شرائط کے ساتھ ضروری ہے۔
۳ ۔ انسانیت میں تکامل (ارتقاء)
یہاں اگر ہم انسانی اقدار کے اصول کو فطری اور مستقل مان لیں‘ تبھی تکامل (ارتقاء) کوئی معنی پیدا کرے گا‘ مثلاً جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں‘ انسانی اقدار (جستجوئے حقیقت) میں سے ایک قدر ہے۔ اگر حقیقت کی تلاش و جستجو اور طلب میں پہلا انسان ہی حقیقت جو (متلاشی حقیقت) اور حقیقت خواہ (طالب حقیقت) تھا‘ بعد کے دور میں اس نے طلب حقیقت میں ترقی کی اور پہلے سے زیادہ حقیقت سے وابستہ اور حقیقت طلب ہو گیا ہے تو اس نے تکامل (ارتقاء) حاصل کیا ہے۔ زیبائی سے محبت بھی اسی طرح ہے‘ اگر جمال اورزیبائی خود معیار ہو اور ایک معین مفہوم رکھتی ہو تو اس ضمن میں بھی تکامل (ارتقاء) بامعنی ہو گا۔ پہلا انسان زیبائی کو پسند کرتا تھا اور آج کا انسان بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ پہلا انسان اگر کسی چیز سے محبت کرتا تھا‘ تو آج کا انسان اس سے بڑھ کر اس چیز سے محبت کرتا ہے اور یہی حال ہنر ( Art ) کا ہے کہ جو تخلیق زیبائی (جمال) ہے‘ یعنی پہلا انسان تخلیق زیبائی (جمال) کرتا تھا‘ جبکہ آج کے انسان نے اسی میں ترقی کی ہے۔ خیر اور اخلاقی فضائل نیز عشق و پرستش بھی اسی طرح ہی ہیں‘ لیکن اگر تکامل (ارتقاء) کو ابتداء سے ہی تغیر محض سمجھ لیں‘ یہاں تک کہ اس کے لئے وحدت راہ ہی کے قائل نہ ہوں‘ یعنی اس کے لئے کسی معیار کے معتقد نہ ہوں‘ مثلاً یہ کہیں کہ پہلے زمانے کا انسان اپنے زمانے میں جستجوئے حقیقت کو اپنے لئے ایک قدر سمجھتا تھا اور انسانیت کا معیار حقیقت جوئی تھا‘ لیکن آج یہ معیار تبدیل ہو گیا ہے اور جستجوئے حقیقت کی جگہ کسی اور چیز نے لے لی ہے‘ اس صورت میں کس طرح آپ اس کا نام ”تکامل“ (ارتقاء) رکھیں گے؟ معیار کا ثابت و مستقل ہونا انسان کے ثابت اور مستقل ہونے سے مختلف ہے۔ ان دو کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انسانیت کے معیار کو‘ کہ جو مدار اور راہ انسانیت ہی ہے‘ ثابت و مستقل سمجھیں تو یہ یوں ہے کہ جیسے انسان کو ثابت سمجھا جائے اور اس کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے ہم کہیں کہ سورج کے اردگرد زمین کا مدار ایک معین اور ثابت مدار ہے‘ یعنی زمین جب سورج کے گرد گھومتی ہے تو ایک بیضوی شکل کے مدار میں حرکت کرتی ہے اور سورج سے اس کا فاصلہ فلاں مقدار سے کم اور فلاں مقدار سے زیادہ نہیں ہوتا‘ موسم بہار میں اس قدر فاصلہ ہوتا ہے اور خزاں میں اتنا‘ گرمیوں میں اس قدر اور سردیوں میں اتنا۔ کوئی یہ کہے کہ پس آپ تو زمین کو ثابت سمجھتے ہیں‘ نہیں ایسی بات نہیں ہے‘ زمین متحرک ہے‘ لیکن اس کی حرکت ایک ثابت اور مستقل مدار میں ہے۔ زمین کے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اس مدار میں کسی ایک جگہ پر ہی قائم ہے۔ البتہ زمین دو طرح سے متحرک ہو سکتی ہے‘ ایک یہ کہ ایک معین مدار میں حرکت کرے‘ چاہے یہ مدار خط مستقیم ہو یا خط منحنی‘ مدار بیضوی شکل کا ہو یا دائرہ کی شکل کا۔ دوسرا یہ کہ ایک اضطرابی حرکت ہو‘ کبھی اس طرف سے پلٹا کھائے‘ کبھی اس طرف اور کبھی اپنی پہلی جگہ پر لوٹ جائے‘ البتہ ایسی مکانی حرکتوں میں ایک خاص علت کی وجہ سے تکامل (ارتقاء) فرض نہیں کیا جا سکتا‘ پس حرکت کے مدار کا ثابت ہونا اور اس کے راستے کا معین و مشخص ہونا‘ اس بات سے جدا اور مختلف ہے کہ کوئی وجود اصلاً متحرک نہ ہو اور ثابت ہو۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے اگر ”اپالوون“ (اپالو اول) کا راستہ یہاں سے چاند تک معین کر دیا گیا ہے اور یہ معین شدہ راستہ پہلے کاغذ کے صفحے پر ترمیم (نقش) کیا گیا ہے‘ یہاں تک کہ یہ بھی مشخص ہے کہ مثلاً اڑتالیس گھنٹے اور اتنے منٹ اور اتنے سیکنڈ میں اس خط پر وہ کس جگہ ہو گا اور یہ بھی معلوم ہے کہ چاند پر کہاں اترے گا یا لینڈ ( Land ) کرے گا؟ تو یہ کہیں کہ پس اپالو تو ثابت ہے۔ نہیں! ایسی بات نہیں ہے‘ اس کا راستہ مشخص ہے اور راستے کا مشخص ہونا خود شے کے ساکن ہونے سے مختلف ہے۔ ساکن ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایک معین فاصلے پر رک جائے‘ نہ زمین کی طرف آئے اور نہ چاند کی طرف جائے۔
فطرت اور انسانیت کے لحاظ سے انسانی معاشرے کا تکامل (ارتقاء) وہ لوگ کہ جو انسان کے متحرک ہونے اور معیار انسانیت کے متزلزل ہونے کو ایک سمجھتے ہیں‘ وہ سخت اشتباہ (فاحش غلطی) کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم انسانی فطرت کے قائل ہوں‘ یعنی انسانیت کے معیار کو ثابت و مستقل سمجھیں کہ جس کی بنیاد فطرت انسانی ہی ہے‘ تبھی انسانیت کوئی معنی و مفہوم پیدا کرتی ہے‘ نا صرف انسانیت بلکہ تکامل (ارتقائے) انسانیت بھی اسی وقت معنی و مفہوم پیدا کرے‘ لہٰذا آج کل علماء اس بارے میں پس و پیش ہیں اور ”فلسفہ تاریخ“ میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ کیا انسان اس چیز میں کہ جسے ”انسانیت“ اور ”معنویت“ (روحانیت) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ تکامل (ارتقاء) حاصل کر چکا ہے یا نہیں؟ ”ویل ڈیورنٹ“ نے اپنی کتاب ”در سہای تاریخ“ (کتاب کے فارسی ترجمے کا نام) میں اس بحث کا عنوان یہ قرار دیا ہے‘ ”کیا ترقی حقیقت و واقعیت رکھتی ہے؟“ البتہ اس میں اسے شک و شبہ نہیں ہے کہ انسان نے صنعت میں ترقی کی ہے‘ لیکن کیا انسان نے انسانیت میں بھی ترقی کی ہے؟ یہ مسئلہ ابھی زیربحث ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان نے فن‘ ٹیکنالوجی (صنعت) اور طبیعت سے مربوط امور میں تکامل (ارتقاء) حاصل کیا ہے‘ نیز معاشرے کے انتظامی ڈھانچے کے اعتبار سے بھی تکامل حاصل کر چکا ہے‘ لیکن جس چیز میں تردد ہے وہ انسانیت میں تکامل (ارتقاء) ہے۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اصلاً اس ضمن میں لفظ " Progress " (ترقی) کو ہی ختم کر دینا چاہئے‘ کیونکہ اس نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ کتاب ”تاریخ چیست“ (تاریخ کیا ہے؟) کا مصنف خود اس نظریے کا مخالف ہے‘ وہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ انسانی پہلو کے اعتبار سے بھی ترقی ہوئی ہے‘ لیکن اس ترقی کی رفتار دوسری چیزوں میں تکامل (ارتقاء) کی رفتار سے ہم آہنگ نہ تھی اور یہ ترقی انتہائی سست رفتار تھی‘ لیکن اس ضمن میں مختلف نظریات نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ نہیں‘ انسان نے اس جہت سے کچھ ترقی نہیں کی۔
مارکسزم اور انسانی معاشرے کا انسانیت میں تکامل (ارتقاء)
مارکسزم کے ماننے والے مجبور ہیں کہ انسانیت کے لئے کسی معیار کے قائل نہ ہوں اور تکامل (ارتقاء) کو فقط ایک لفظی یا ایک امر اعتباری اور آلات پیداوار کے تکامل (ارتقاء) کا طفیلی مسئلہ قرار دیں‘ اس میں شک نہیں کہ آلات پیداوار ترقی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب بھی آلات پیداوار ایک نیا تکامل (ارتقاء حاصل) پیدا کرتے ہیں‘ ہر مرحلہ پر ایک نئے اخلاق کا تقاضا کرتے ہیں‘ چونکہ یہ نیا اخلاق آلات پیداوار کے تکامل (ارتقاء) یافتہ مرحلے کا تقاضا ہوتا ہے‘ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ اخلاق نے تکامل (ارتقاء) پیدا کیا ہے‘ جبکہ ہماری نظر میں دونوں باہم لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ اولاً ہم اسے اس طرح سے مطلق طور پر تسلیم نہیں کرتے کہ آلات پیداوار اپنے تکامل (ارتقاء) کے ہر مرحلے میں ایک خاص اخلاق کا تقاضا کرتے ہیں‘ اصول اخلاق میں ہم اس امر کو تسلیم نہیں کرتے۔ آلات پیداوار کسی بھی مرحلے میں ہوں‘ اخلاق کے اصول ایک سے رہتے ہیں۔ ان کی بات تو بالکل ایسے ہے جیسے کوئی کہے کہ کسی کے مال میں خیانت کرنا‘ اس زمانے میں خیانت کرنا برا کام تھا جب چوری کرنے کے لئے موم بتی لے کر جایا کرتے تھے یا کسی کی عزت پر حملہ کرنا اس دور میں برا تھا‘ لیکن آج جبکہ بجلی کا زمانہ ہے‘ اب بھی تم کہتے ہو کہ انسان کا چوری کرنا یا کسی کی عزت پر حملہ کرنا برا ہے‘ حالات بدل گئے ہیں‘ جبکہ ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ اس پہلو سے قطع نظر ان کی یہ بات بنیادی طور پر انسانی اصالتوں (بنیادوں) کی نفی ہے‘ اس طرح سے تو انسانی اصالتیں بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اگر ہم آلات پیداوار کے تکامل (ارتقاء) کو انسانی تکامل (ارتقاء) قرار دیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خود انسانیت کا انسانیت ہونے کے اعتبار سے کوئی تکامل (ارتقاء) نہیں ہے۔ ان کے بقول آلات پیداوار جب تکامل (ارتقاء) حاصل کرتے ہیں تو تکامل (ارتقاء) کے ہر مرحلے میں خاص انسانی روابط کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ تمام روابط قانون‘ حکومت‘ ہنر‘ زیبائی اور اخلاق کی طرح سے عمارت ہیں‘ نہ کہ بنیاد اور یہ سب آلات پیداوار کے ساختہ پرداختہ اور انہی کے تابع اور طفیلی ہیں اور کیونکہ آلات پیداوار ان کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ ان میں تکامل (ارتقاء) پیدا ہوا ہے‘ لہٰذا یہ فقط نام رکھنے کے برابر ہے‘ ورنہ ایک حقیقی چیز نہیں ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ کسی چیز میں تکامل پیدا ہوا ہے‘ بلکہ ایک چیز ختم ہوئی ہے اور اس کی جگہ ایک اور چیز آ گئی ہے۔ ایک چیز کے ختم ہونے کے بعد کوئی نئی چیز اس کی جگہ لے لے تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ تکامل (ارتقاء) پیدا ہوا ہے؟ ممکن ہے کہ اصلاً نہ تکامل (ارتقاء) ہوا ہو‘ نہ سقوط اور یہ بھی ممکن ہے کہ سقوط ہوا ہو‘ ہم کس معیار کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ تکامل (ارتقاء) حاصل ہوا ہے؟ کوئی بھی معیار نہیں ہے‘ صرف اس لئے کہ آلات پیداوار میں تکامل (ارتقاء) پیدا ہوا ہے۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ ان میں بھی تکامل (ارتقاء) پیدا ہوا ہے؟ لہٰذا اخلاق متغیر کا یہ مسئلہ اس معنی میں کہ اخلاقی اصول بھی متغیر ہیں‘ کسی اعتبار سے بھی انسانی اصالتوں کی توجیہ نہیں کرتا۔
ایگزس ٹینشلزم (نظریہ وجودیت) ( Existentialism ) اور انسانیت اصالتیں
اس سلسلے میں ایک اور نظریہ ”ایگزس ٹینشلزم“ ہے۔ اس کے حامیوں نے بھی کوشش کی ہے کہ انسانی اصالتوں کے لئے کوئی بنیاد فراہم کریں‘ مگر یوں کہ کائنات اور انسان کے مادی ہونے کے نظریے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے بھی ایک ایسی بات کی ہے کہ جو ان سے پہلے بھی کہی جا چکی ہے (ان فلسفوں کی زیادہ تر بنیاد فلسفہ ہیگل ہے‘ مارکسزم بھی اور ایگزس ٹینشلزم بھی دونوں کا ریشہ (سلسلہ) فلسفہ ہیگل سے جا ملتا ہے اور یہ بات صحیح طور پر کہی گئی ہے کہ ہیگل نے یورپ کے فلسفے کی صورت بدل کر رکھ دی ہے)۔ سب سے پہلے مسئلہ کہ جس میں ان کی راہ فلسفہ مشرق سے مختلف ہو جاتی ہے‘ یہ ہے کہ فلسفہ مشرق‘ مثلاً بو علی سینا وغیرہ کہتے ہیں کہ خیر دو طرح کی ہے (خیر یعنی ایسی خواہش جو انسان کے اندر سے پھوٹے)‘ ایک خیر محسوس اور دوسری خیر معقول۔ وہ چیزیں کہ جنہیں انسان حسی اور مادی لحاظ سے چاہتا ہے وہ خیر محسوس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلی وہ خواہشات ہیں جو انسان کی زندگی اور وجود سے وابستہ ہیں اور دوسری قسم کی خواہشات وہ ہیں کہ جنہیں روحانی پہلو سے انسان چاہتا ہے‘ وہ منفعت یا سود کے الفاظ اگر استعمال کریں تو خیر محسوس استعمال کریں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ علم خیر ہے‘ لیکن خیر معقول‘ البتہ روٹی‘ پانی خیر ہے‘ لیکن خیر محسوس اور انسان مجبور ہے کہ وہ اس چیز کی جستجو کرے جسے اس کا وجدان اپنی گہرائی کے ساتھ خیر قرار دیتا ہے‘ فطرتاً انسان اپنی قرار دی ہوئی خیر کی جستجو میں رہتا ہے۔ اگر ہم کہیں کہ خیر ہونے کا معیار کیا ہے؟ تو کہتے ہیں خیر کا معیار کمال ہے‘ یعنی اس خیر تک پہنچ کر انسانی وجود کو تقویت ملتی ہے اور وہ تکامل (ارتقاء) حاصل کرتا ہے۔ فلسفہ مزنگ کے ماننے والے چونکہ ہرگز نہیں چاہتے کہ غیر محسوس کی حقیقت و واقعیت کو قبول کریں‘ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ حقیقت وہی ہے کہ جو مادی اور محسوس ہے‘ اس کے علاوہ کچھ نہیں‘ لہٰذا وہ مجبور ہیں اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان دو طرح کی خیر کا حامل ہے۔ جو لوگ دو طرح کی خیر کے قائل ہیں وہ دو طرح کی حقیقت کے قائل ہیں‘ وہ انسان کے لئے دو طرح کی حقیقت کا نظریہ رکھتے ہیں اور عالم ہستی میں بھی دو طرح کی حقیقت کے قائل ہیں۔ انسان حقیقت محسوس کے ذریعے سے خیر محسوس کی جستجو کرتا ہے اور حقیقت معقول کے ذریعے سے خیر معقول کی جستجو کرتا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ بہرحال خیر ہی کی جستجو کرتا ہے‘ ہر دو پہلوؤں سے ایک ہی ہے۔ اگر وہ علم کی جستجو کرتا ہے تو جستجو کرتا ہے کہ جو خیر معقول ہے اور اگر دولت کی جستجو میں ہے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے اور وہ حقیقت کی جستجو میں ہے‘ البتہ یہ خیر محسوس ہے۔ ان کے کام کی بنیاد چونکہ اس پر ہے کہ حقیقت صرف محسوس اور مادی ہے‘ لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ انسان یا خیر کی جستجو میں ہے‘ یعنی مادی منفعت کی تلاش میں ہے یا ایسی چیز کی تلاش میں ہے کہ جو کوئی چیز نہیں فقط قدر ( Value ) ہے۔ یہی سود اور قدر کے الفاظ فلسفہ یورپ میں آئے ہیں اور یہ انسانی فلسفے سے کتنا بڑا انحراف ہے۔ اسی مقام پر وہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان سود اور منافع کی تلاش میں ہے اور سود یعنی ایسی چیز جس میں خیر ہے‘ عقل بھی مجبور ہے کہ کہے کہ اس کی جستجو کر کہ یہ امر منطقی بھی ہے یا پھر انسان ایسی چیزوں کی جستجو کرتا ہے کہ جن میں خیر نہیں ہے اور عقل بھی کہتی ہے کہ ان کے پیچھے نہ جا‘ لیکن انسان جاتا ہے اور اس طرح سے ایک غیر عقلی اور غیر منطقی کام انجام دیتا ہے‘ ایسے غیر عقلی اور غیر منطقی امور کے پیچھے جاتا ہے کہ منطق اور عقل جس کا ہرگز حکم نہیں دیتی۔ یوں ان لوگوں کے نزدیک وجود انسانی میں ایک طرح کا تضاد اور ایک طرح کا امر نامعقول ہے‘ چونکہ انسان ایسی چیزوں کی جستجو کرتا ہے کہ جن میں اس کے لئے کوئی خیر نہیں ہے‘ لہٰذا اس کا یہ طرز عمل عقل سے ہم آہنگ نہیں۔ کیا انسان کے سارے کام عقل سے ہم آہنگ ہیں؟ انسان غیر عاقلانہ‘ نامعقول اور غیر منطقی کام کرتا ہے۔ وہ ایسے کاموں کو انسان کے غیر منطقی کام قرار دیتے ہیں‘ لہٰذا توجیہہ کرتے ہوئے وہ مجبور ہیں کہ انہیں فقط قدر ( Value ) کا نام دیں‘ نہ کہ خیر کا۔ گویا ان چیزوں کی جستجو خیر کی جستجو نہیں ہے اور یہ امر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے‘ یہ لوگ اس مسئلے میں الجھ گئے ہیں کہ ان اقدار ( Values ) کی کس طرح سے توجیہہ کریں‘ کیونکہ ان کے نزدیک تو خیر فقط محسوس اور مادی ہے‘ جبکہ یہ اقدار صرف محسوس اور مادی نہیں ہیں۔ کیا نسیبائی انسان کے لئے ایک محسوس اور مادی چیز ہے؟ کیا یہ کوئی حجم رکھتی ہے؟ کیا فضیلت کوئی حقیقت رکھتی ہے؟ کیا حقیقت کوئی حقیقت رکھتی ہے؟ ایک طرف تو یہ لوگ ان امور کو غیر منطقی اور غیر عاقلانہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تمام امور موہوم ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس فلسفے نٹشے اور دیگر فلسفیوں کے نظریات کے لازمی نتیجے کے طور پر کہیں کہ یہ سب امور موہوم ہیں‘ حقیقت وہی ہے جو منفعت ہے‘ جو کچھ منفعت کے علاوہ ہے حقیقت نہیں ہے۔ عقل بھی کہتی ہے کہ اس کے پیچھے نہ جاؤ‘ جو لوگ جرات رکھتے تھے انہوں نے یہ کہہ دیا اور جن میں اتنی جرات نہ تھی‘ درپردہ اسی بات کو ایک اور شکل میں کہہ گئے۔ کسی نے کہا کہ اقدار تکامل حاصل کر چکی ہیں‘ تو دوسرے نے کسی اور طرح سے یہ بات کہہ دی۔ ایگزس ٹینشلسٹوں (وجودی فلسفیوں) نے ایک راہ حل نکالی اور وہ یہ کہنے لگے کہ اقدار اور خالق میں یہ فرق ہے کہ اقدار ایک طرح کے تخلیقی امور ہیں‘ نہ کہ کشف کئے جانے والے امور (ایک کتاب ہے کہ جس کا نام ”جدال با مدعی“ ہے‘ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ بات یوں ہے کہ کسی مارکسسٹ نے ایک صاحب کا انٹرویو لیا۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے انٹرویو میں تبدیلیاں کر کے شائع کیا گیا ہے‘ لہٰذا وہ مذکورہ کتاب کے مقدمے میں یہ بات لکھتے ہیں اور انٹرویو کرنے والے کو دنیا جہان کی گالیاں دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اب میں اس انٹرویو کو من و عن شائع کر رہا ہوں۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں‘ پہلے حصے میں زندگی‘ تکامل (ارتقاء) اور ایسے ہی امور کی اقدار کو زیربحث لایا گیا ہے‘ کتاب کا دوسرا حصہ جدید شاعری اور آزاد نظم کے بارے میں ہے۔ اعتراض کرنے والا عجیب طرح کے سوال کرتا ہے‘ وہ شروع میں اس فلسفے کا حامی بن جاتا ہے کہ جس کے مطابق کسی بھی چیز کی کوئی حقیقت نہیں یا کم از کم اس فلسفے کا دفاع کرتا ہے کہ ہر چیز بے معنی اور بے حقیقت ہے اور زندگی کے لئے ایک راہ حل کے علاوہ دوسری راہ نہیں اور وہ ہے خودکشی۔ وہ فلسفہ خودکشی کا پیرو ہے‘ اب وہ خود‘ خودکشی کیوں نہیں کرتا؟ یہ سوال اسی سے پوچھا جانا چاہئے۔ دوسرے صاحب چاہتے ہیں کہ اس نظریے کو رد کریں اور آہستہ آہستہ اسی مسئلہ اقدار تک پہنچ جاتے ہیں‘ یہاں پہنچ کر وہ ایگزس ٹینشلزم کی منطق کی پیروی کرتے ہیں (کیونکہ مارکسزم ان مسائل میں نارسا ہے‘ بلکہ بہت ہی نارسا ہے)‘ وہ صاحب کہتے ہیں کہ اقدار تخلیقی امور ہیں‘ نہ کہ کشف ہونے والے)۔
کشف کئے جانے والے امور سے مراد وہ امور ہیں جو حقیقت رکھتے ہیں۔ انسان علم و استدلال اور عاقلانہ (دانشمندانہ) طریقے سے‘ جو چیز بھی حقیقت رکھتی ہے‘ اس کو کشف کرتا ہے‘ لیکن اقدار ان امور میں سے ہیں کہ جنہیں انسان تخلیق کرتا ہے۔ یہ پہلے سے موجود نہیں کہ انسان انہیں کشف کر لے بلکہ انسان خود انہیں وجود میں لاتا ہے اور تخلیق کرتا ہے۔ اقدار کے بارے میں ایگزس ٹینشلسٹوں(وجودیوں) کا نظریہ بس یہی کچھ ہے‘ لہٰذا آج کل ادب میں یہ اس نظریہ کا بہت زیادہ ذکر ہو رہا ہے کہ ”انسان اقدار کی تخلیق کرتا ہے“ حالانکہ یہ بات غلط اور بے معنی ہے۔ انسان اقدار کی تخلیق کرتا ہے‘ یعنی چہ؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اپنی طبیعت میں مثلاً ایثار اور ”آثرہ“ (عربوں کے بقول) دونوں برابر ہیں‘ عدل و ظلم مساوی ہیں۔ اپنی ذات میں تو عدل و ظلم میں کوئی فرق نہیں ہے‘ لیکن انسان عدل کی قدر و اہمیت کا قائل ہے کہ جس سے عدل ظلم سے مختلف ہو جاتا ہے اور اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ قدر و اہمیت انسان سے عطا کرتا ہے جس طرح کہ انسان ہی نے ایثار کو اہمیت دی اور اسے ”آثرہ“ سے جدا کر کے قدر و اہمیت کا حامل بنا دیا۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ عدل ظلم سے بہتر ہے‘ صدق جھوٹ سے بہتر ہے اور امانت خیانت سے بہتر ہے‘ یہ سب اپنی ذات میں مساوی ہیں۔ یہ انسان ہی ہے کہ جو انہیں قدر و قیمت عطا کرتا ہے۔ ان حضرات سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ”انسان قدر ( Value ) کی تخلیق کرتا ہے“ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ ایک دفعہ اس کا معنی یوں بنتا ہے کہ انسان ایسی چیز کو‘ کہ جس کی کوئی حقیقت نہ ہو‘ حقیقت عطا کرتا ہے‘ یعنی اس سے پہلے اس کی کوئی حقیقت نہ تھی‘ انسان نے اسے حقیقت کا جامہ پہنایا اور اب اس چیز کا شمار حقیقی امور میں ہونے لگا ہے۔ واضح ہے کہ یہ کوئی ایسی اشیاء نہیں ہیں کہ انسان انہیں بنائے اور تخلیق کرے۔ انسان کی قدر تخلیق فن و صنعت میں ہے‘ وہ کسی مادہ پر کام انجام دیتا ہے اور اس کو ایک خاص شکل و صورت عطا کرتا ہے اور آپ قبول کرتے ہیں کہ یہاں شکل و صورت یا مادہ موجود ہی نہیں ہے۔ پس انسان ان کی تخلیق کرتا ہے‘ یعنی حقیقت واقعی انہیں عطا کرتا ہے‘ اس کا اصلاً کوئی معنی نہیں ہے اور اگر فرض کریں کہ حقیقت عطا کرتا ہے تو کیا معنویت (روحانیت) اصلاً کوئی حقیقت رکھتی بھی ہے یا نہیں؟ جبکہ آپ کہتے ہیں کہ معنویت (روحانیت) کی اصلاً کوئی حقیقت ہی نہیں ہے تو اس صورت میں کس طرح انسان ایک ایسی چیز کو حقیقت دے سکتا ہے جو اصلاً حقیقت پذیر نہ ہو۔ ان امور میں انسان کے تخلیق کرنے سے مراد وہی کچھ ہے کہ جسے ہم اعتباری کہتے ہیں‘ یعنی یہ حقیقی امور میں سے نہیں ہے‘ بلکہ اعتباری امر ہے‘ اعتباری یعنی وضعی اور قرار دادی۔ مثلاً آپ حضرات اس مدرسے میں باہم تعاون کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں کہ اس تعاون کے نتائج اس وقت بہتر ظاہر ہوں تو اس کے لئے چاہئے کہ کوئی تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیں اور اگر آپ تنظیم بنانا چاہیں تو پھر ضروری ہے کہ آپ اپنے میں سے مثلاً ایک مجلس منتظمہ کا انتخاب کریں‘ کوئی اجرائی کمیٹی بنائیں اور اپنے میں سے کسی کو اس مدرسے کے سربراہ کے طور پر منتخب کریں‘ ایک شخص کو اپنا سربراہ بنائیں۔ مثلاً آپ کہتے ہیں‘ جناب الف ہمارے سربراہ ہیں‘ یہاں آپ نے جناب الف کو ایک عہدہ دیا۔ اس مقام پر آپ نے خلق کیا اور کسی چیز کو وجود بخشا‘ لیکن یہ ایک قراردادی اور اعتباری چیز ہے‘ یعنی یہ حقیقت نہیں رکھتی‘ یعنی اب جناب الف وہم و ذہن میں اور اعتباری اور قراردادی طور پر اس سے مختلف ہیں کہ جو ایک گھنٹہ پہلے تھے‘ جبکہ سربراہ منتخب نہیں ہوئے تھے‘ لیکن عالم حقیقت اور نفس الامر میں وہی آدمی ہیں جو پہلے تھے۔ سربراہی عطا کرنا ایک قرارداد ہے‘ ایک اعتبار کرنا ہے اور ایک ایسی چیز ہے کہ جسے ذہنوں نے مصلحت کے طور پر قبول کر لیا ہے اور فرض کر لیا ہے‘ یعنی ایک مجازی چیز کا اعتبار کر لیا ہے۔ مختصر یہ کہ انسانی قدرت خلیق ایسے ہی امور میں ہے‘ ”لہٰذا انسان قدر کو وجود بخشتا ہے“ زیادہ سے زیادہ اس کا معنی یہ ہے کہ جن چیزوں کو ہم اقدار کہتے ہیں‘ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں‘ انسان ان کی قیمت فرض کرتا ہے (قدر سے قیمت ہی مراد ہے)‘ درحقیقت انسان کے لئے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے‘ لیکن انسان اس کے لئے قیمت قرار دیتا ہے۔ یہ بھی انسانی اصالتوں کی نفی ہے اور یہ ایک قراردادی اور موہوم چیز سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اب اہم مسئلہ یہ ہے کہ قراردادی امور میں انسان ”وسائل“ میں تو کچھ فرض کر سکتا ہے‘ ”اہداف و مقاصد“ میں نہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ کاغذ کے نوٹ کی قیمت اعتباری اور قراردادی ہے‘ جبکہ اس کے برعکس سونا کہ جو انسان کے کام آتا ہے اور بہت سے امور میں مفید ہے‘ کمیاب بھی ہے اور کارآمد بھی‘ چاہے زیب و زینت کے لحاظ سے ہو یا کسی اور اعتبار سے‘ وہ خود ذاتی اعتبار سے انسان کے لئے قدر و قیمت رکھتا ہے (جبکہ نوٹ ذاتی طور پر کوئی قیمت نہیں رکھتا)۔ نوٹ کو بعض مقاصد کے حصول کے لئے ہم سونے کی جگہ فرض کرتے ہیں تاکہ مبادلہ آسان ہو‘ اس لئے ہم اس کی قیمت قرار دیتے ہیں‘ لہٰذا نوٹ کی ذاتی قیمت کچھ بھی نہیں‘ یعنی یہ ایک کاغذ‘ مثلاً ہزار کا نوٹ اگر ہمارے ہاتھ میں ہو تو اس کی حقیقت اور ذاتی قیمت اس جیسے کسی دوسرے کاغذ سے مختلف نہیں‘ لیکن اعتباری اور قراردادی لحاظ سے یہ اس سے مختلف ہے۔ یہ بھی اس لحاظ سے کہ ہم نے بعض مقاصد کے حصول کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے‘ لہٰذا اگر ہم انسانی اصالتوں کو تخلیقی امور جانیں‘ کیونکہ تخلیق بمعنی حقیقت کوئی معنی نہیں رکھتی اور یہاں تخلیق کا معنی سوائے اعتبار کے کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب چیزیں دیگر اہداف کے وسائل کے طور پر ہیں‘ کیونکہ یہ خود بیک وقت اعتباری ہیں اور ہدف ہر دو نہیں ہو سکتے‘ اعتباری بھی ہو اور ہدف بھی ہو۔ تو یہ اس کے مانند ہے کہ انسان ہدف نہیں رکھتا‘ کسی چیز کو ہدف فرض کرتا ہے اور بعد میں یہی چیز ہدف بن جاتی ہے اور یہ بالکل عربوں کے بت پرستوں جیسا کام ہے کہ بت بناتے تھے‘ بعد میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اسی بت کی پوجا کرتے تھے:
اتعبدون ماتنحتون
”کیا جس چیز کو خود بناتے ہو‘ اسی کی طرح کرتے ہو؟“(صافات‘ ۹)
ہدف وہ چیز ہے کہ جو آپ سے بالاتر مرحلے پر ہے اور آپ کوشش کرتے ہیں کہ اس تک پہنچ جائیں اور جس چیز کو آپ خود بناتے ہیں‘ وہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اور آپ سے نیچے ہے۔
انسانی اصالتیں اور فطری امور ہیں
یہی وجہ ہے کہ چیز بھی اس مشکل کی راہ کا حل نہیں ہے‘ لہٰذا ہم نے جو پہلے نتیجہ اخذ کیا ہے‘ اسی طرف لوٹتے ہیں کہ یہ انسانی اصالتیں اس وقت معنی و مفہوم اور حقیقت پیدا کرتی ہیں کہ جب یہ انسان کے لئے ایک طرح کے فطری امور ہوں کہ ان کا سرچشمہ انسان کی فطرت ہو اور یہ ایسی حقیقتیں ہوں کہ انسان اپنی حقیقت (انسانیت) کے ساتھ ان کی طرف حرکت کرے‘ بالکل اسی طرح جیسے محسوس کارہائے خیر ”نیکیاں“ میں انسان اپنی مخصوص (یا محسوس) حقیقت کے ساتھ ان محسوس حقائق کی طرف حرکت کرتا ہے‘ انہیں بھی ایسے حقائق ہونا چاہئے کہ جن کی طرف انسان اپنی معقول حقیقت کے ساتھ حرکت کرے۔ انسان کے ارتقاء کا تصور بھی فقط اس مفروضے کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر اسے انسان سے خارج ”منہا“ کر لیا جائے تو انسانیت میں ارتقاء کا کوئی معنی نہیں رہتا‘ ہرچند کہ آلات ”اسباب“ میں ارتقاء ہو۔
لہٰذا اقدار حقیقی یا نیکی‘ خیر حقیقی ہی کا نام ہے۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ ہم ان چیزوں کو فوائد اور اقدار میں تقسیم کر دیں کہ انسان جن کا متلاشی ہے اور پھر کہیں کہ اقدار کی کوئی حیثیت نہیں‘ ان کا وجود منطقی نہیں ہے اور عقل نہیں کہتی کہ انسان ان کا متلاشی ہو‘ جبکہ انسان پر بھی ان کی جستجو کرتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک انسان جنونی اور غیر معقول کاموں کا حامل ہے‘ اگرچہ ہم ایسے کام کو خلاف عقل نہ کہیں تو بھی بہرحال عقلی نہیں ہے‘ لہٰذا ایسا کرنا دیوانگی کے برابر ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ امور ایک طرح کی لغویات یا فضولیات ہیں‘ البتہ ایسی فضولیات جو اچھی ہیں اور ضروری ہیں کہ باقی رہیں‘ جبکہ فضولیات کا اچھا اور ضروری ہوتا‘ اصولاً کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ مختصر یہ کہ اگر ان لوگوں کا نظریہ مان لیا جائے تو لامحالہ ہمیں ان امور کو انسانی فضولیات ”غیر عاقلانہ“ ماننا پڑے گا۔
اب اس بحث کو چھوڑتے ہیں اور دین کے فطری ہونے کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دین فطری ہے‘ ان کا مقصود کیا ہے؟ دین کے فطری ہونے پر ان کے پاس کیا دلیل ہے؟ یعنی دین کے فطری ہونے کا کیا مصداق ہے اور اس کی کیا علامتیں ہیں؟ اور کیا وہ مصادیق یا علامتیں دین میں موجود ہیں یا نہیں؟ یہ بات ان سوالوں کا حصہ ہے کہ جو پہلے کئے جا چکے ہیں؟ یعنی فطری ہونے کی علامتیں کیا ہیں؟ اور کیا دین فطری ہے یا نہیں ہے؟ اور دین کے نقطہ آغاز کے بارے میں کیا کیا نظریات پیش کئے ہیں کہ جن میں سے ایک نظریہ اس کے فطری ہونے کا ہے؟ خصوصاً دین کے فطری ہونے کے مقابلے میں دیگر نظریات کیا ہیں؟ جو مقالہ میں نے گزشتہ گفتگو میں پیش کیا تھا‘ وہ اسی موضوع کے حوالے سے تھا‘ یعنی دین کا نقطہ آغاز کی وجہ کے بارے میں نظریات کا جائزہ۔
تقریباً بیس سال پہلے ایک مجلہ شائع ہوتا تھا کہ جس کا نام تھا‘ ”نشریہ سالانہ مکتب تشیع“ (شیعہ مکتب فکر کا سالانہ مجلہ)‘ شاید اس کے ساتھ آٹھ شمارے سالانہ کی صورت میں شائع ہوئے‘ تین چار شمارے سہ ماہی بھی شائع ہوئے۔ ان سالانہ مجلوں میں میرا قوی گمان ہے کہ پہلے شمارے میں ایک مقالہ شائع ہوا تھا، ”دین یا بعد چہارم“ (دین یا چوتھا پہلو)۔ جناب انجینئر بپانی نے اس کا ترجمہ کیا تھا‘ جناب انجینئر بازرگان نے اس پر مقدمہ اور حرف آخر تحریر کیا تھا۔ اگر آپ کو وہ مل جائے تو پیدائش دین ”دین کا نقطہ آغاز“ کے بارے میں نظریات کے لحاظ سے بہت اچھا ہے‘ اس میں ان نظریات کو نقل کیا ہے‘ البتہ اس مقالے کا مصنف خود اس بات کا حامل ہے کہ حس دینی فطری ہے۔