توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 196958
ڈاؤنلوڈ: 3916

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196958 / ڈاؤنلوڈ: 3916
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ١ ۶ ٣٢ اگر اس چيز کا پتہ لگانے کے لئے کہ وقت ہے یا نہيں جستجو کرے اوریہ گمان حاصل کرنے کے بعدکہ غسل کے لئے وقت ہے ، اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کرلے تو اس کا روزہ صحيح ہے ، اور اگر جستجو کئے بغير گمان کرے کہ وقت ہے اور اپنے آپ کو جنب کرلے اور بعد ميں پتہ چلے کہ وقت تنگ تھا اور تيمم کے ساته روزہ رکھ لے تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٣ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور جانتا ہو کہ اگر سوگيا تو صبح تک بيدار نہيں ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ غسل کئے بغير نہ سوئے اور اگر غسل سے پهلے سو جائے اور صبح تک بيدار نہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہوگا اور قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۴ جب بھی جنب ماہ رمضان کی کسی شب ميں بيدار ہو، اِس صورت ميں کہ اطمينان نہ رکھتا ہوکہ اذان صبح سے پهلے غسل کے لئے بيدار ہو سکے گا تو احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرنے سے پهلے نہ سوئے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۵ جو شخص ماہ رمضان کی کسی شب ميں جنب ہو اور یقين یا اطمينان رکھتا ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گا، چنانچہ پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا اور اس ارادے سے سو جائے اور اذانِ صبح تک سوتا رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣ ۶ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے علم ہو یا احتمال ہو کہ اگر سو گيا تو صبح کی اذان سے پهلے بيدار ہوجائے گا، اگر وہ اس بات سے غافل ہو کہ بيدار ہونے کے بعداس کے لئے غسل کرنا ضروری ہے ، اس صورت ميں کہ وہ سوجائے اور صبح کی اذان تک سوتا رہے، تو بنا بر احتياط ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٧ جو شخص ماہ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو اور اُسے یقين ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر سوگيا تو اذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوجائے گاليکن بيدار ہونے کے بعد وہ غسل نہ کرنا چاہتا ہو یا تردد کا شکار ہو کہ غسل کرے یا نہيں تو اس صورت ميں اگرسو جائے اور بيدار نہ ہو تواس کا روزہ باطل ہے اور قضا اور کفارہ اس پر واجب ہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٣٨ اگر جنب ماہ رمضان کی کسی رات ميں سوکر بيدار ہوجائے اور اسے معلوم ہو یا اس بات کا احتمال دے کہ اگر دوبارہ سوجائے تواذانِ صبح سے پهلے بيدار ہوگا اورمصمم ارادہ بھی رکھتا ہوکہ بيدار ہونے کے بعد غسل کرے گا، چنانچہ دوبارہ سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور اگر دوسری نيند سے بيدار ہو اور تيسری مرتبہ کے لئے سوجائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہوتوضروری ہے کہ اِس دن کے روزے کی قضا کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔

۲۶۱

مسئلہ ١ ۶ ٣٩ محتلم ہونے کی صورت ميں پهلی نيند سے مراد، وہ نيند ہے کہ جس ميں بيدار ہونے کے بعد سوجائے، یعنی وہ نيند کہ جس ميں محتلم ہوا ہے پهلی نيند شمار نہيں ہوگی۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٠ اگر روزہ دار دن ميں محتلم ہوجائے تو فوری طور پر غسل کرنا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ١ اگر ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہو گيا ہے تو اگر چہ جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا تھا، اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٢ جو شخص ماہ رمضان کے روزے کی قضا رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح تک جنب رہے خواہ جان بوجه کر نہ بھی ہو، اس کا روزہ باطل ہوگا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٣ جو شخص ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھنا چاہتا ہو، اگر وہ اذانِ صبح کے بعد بيدار ہو اور دیکھے کہ محتلم ہوگيا ہے اور جانتا ہو کہ اذان سے پهلے محتلم ہوا ہے تو بنا بر احتياط اس کا روزہ باطل ہوگا، ليکن اگر روزے کی قضا کا وقت دوسرے ماہ رمضان کے آنے تک تنگ ہو، مثال کے طور پر رمضان کے پانچ روزے قضا ہوں اور رمضان آنے ميں محض پانچ دن رہ گئے ہوں تو بنا بر احتياطِ واجب اس دن روزہ رکھے اور ایک اور روزہ ماہ رمضان کے بعدبهی رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۴ اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کے علاوہ ایسے واجب روزوں ميں جن کا وقت معين نہ ہومثلاً کفارے کے روزے، جان بوجه کر اذانِ صبح تک جنابت کی حالت ميں رہے تو اس کا روزہ صحيح ہے ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے علاوہ کسی دوسرے دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١ ۶۴۵ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور جان بوجه کر غسل نہ کرے یا اگر اُس کی ذمہ داری تيمم ہو اور جان بوجه کر تيمم نہ کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے اوراگر ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوتا اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ غسل کرلے۔

مسئلہ ١ ۶۴۶ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کے لئے وقت نہ رکھتی ہوتوضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اذان صبح تک جاگتی رہے اور جس جنب شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٧ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح کے قریب حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور غسل اور تيمم ميں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تو اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۲

مسئلہ ١ ۶۴ ٨ اگر عورت اذانِ صبح کے بعد حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے یا دن ميں کسی وقت خون حيض یا نفاس دیکھے اگر چہ مغرب کا وقت نزدیک ہو، اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۴ ٩ اگر عورت غسلِ حيض یا نفاس کرنا بھول جائے اور ایک یا کئی دنوں کے بعد اسے یاد آئے تو جو روزے اس نے رکھے ہوں وہ صحيح ہيں اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٠ اگر عورت ماہ رمضان ميں اذانِ صبح سے پهلے حيض یا نفاس سے پاک ہوجائے اور کوتاہی کرتے ہوئے اذانِ صبح تک غسل نہ کرے اُس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر کوتاہی نہ کرے مثلاً زنانہ حمام کے ميسر ہونے کا انتظار کرے تو خواہ اس مدت ميں وہ تين بار سوئے اور اذان تک غسل نہ کرے تو تيمم کر لينے کی صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے اور اگر تيمم بھی ممکن نہ ہو تو اُس کا روزہ بغير تيمم کے بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ١ جو عورت استحاضہ کثيرہ کی حالت ميں ہو اگر وہ اپنے غسلوں کو احکام استحاضہ ميں گذری ہوئی تفصيل کے مطابق انجام دے تو اُس کا روزہ صحيح ہے اور استحاضہ متوسطہ ميں اگر چہ غسل نہ کرے تب بھی اُس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٢ جس نے ميت کو مس کيا ہو یعنی اپنے بدن کا کوئی حصہ ميت کے بدن سے لگایا ہو تو وہ غسلِ مسِ ميت انجام دئے بغير روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر روزے کی حالت ميں بھی ميت کو مس کرے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا۔

٨۔ حقنہ لينا

مسئلہ ١ ۶۵ ٣ بهنے والی چيز سے انيما لينا اگرچہ مجبوری اور علاج کے لئے ہو، روزے کو باطل کردیتا ہے ۔

٩۔ قے کرنا

مسئلہ ١ ۶۵۴ اگر روزے دار عمداً قے کرے اگر چہ بيماری یا ایسی ہی کسی چيز کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، ليکن اگر بھولے سے یا بے اختيار قے کرے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۵۵ اگر رات ميں کوئی ایسی چيز کهالے کہ جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ اس کی وجہ سے دن ميں بے اختيار قے کردے گا تو اس کا روزہ باطل نہيں ہوگا اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١ ۶۵۶ اگر روزہ دار قے روک سکتا ہو تو ضرر اور مشقت نہ ہو نے کی صورت ميں ضروری ہے کہ قے کو روکے۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٧ اگر مثلاً روزے دار کے حلق ميں مکهی چلی جائے اور قے کئے بغير اُسے باہر نکالنا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ باہر نکالے اور اُس کا روزہ صحيح ہے ، ليکن اگر ممکن نہ ہو تو اگر اسے نگلنا، کھانا کها جائے تو ضروری ہے کہ اُسے باہر نکالے اگرچہ قے کے ذریعے ہو اور اس کا روزہ باطل ہے اور اگر نگلنے کو کھانا نہ کها جائے تو ضروری ہے کہ باہر نہ نکالے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

۲۶۳

مسئلہ ١ ۶۵ ٨ اگر بھولے سے کسی چيز کو نگل لے اور حلق سے گزر جائے اور پيٹ ميں پهنچنے سے پهلے اِس کو یاد آجائے کہ روزہ ہے تو اس کا باہر نکالناضروری نہيں ہے اور اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۵ ٩ اگر یقين ہو کہ ڈکار لينے کی وجہ سے کوئی چيز گلے سے باہر آجائے گی تو بنا بر احتياطِ واجب جان بوجه کر ڈکار نہ لے، ليکن اگر یقين نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٠ اگر ڈکار لينے سے کوئی چيز منہ ميں آجائے تو باہر اگل دینا ضروری ہے اور اگر بے اختيار اندر چلی جائے تو روزہ صحيح ہے ۔

روزہ باطل کر نے والی چيزوں کے احکام

مسئلہ ١ ۶۶ ١ اگر کوئی شخص جان بوجه کر اور اختيار سے روزہ باطل کر دینے والے کسی بھی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔ ہاں، اگر جان بوجه کر نہ ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر جنب سو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٢ اگر روزہ دار بھولے سے روزہ باطل کرنے والے کاموں ميں سے کوئی کام انجام دے اور اس خيال سے کہ اس کا روزہ باطل ہوگيا ہے وہ عمداًدوبارہ ان ميں سے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٣ اگر کوئی چيز زبردستی روزہ دار کے گلے ميں ڈال دی جائے تو اس کا روزہ باطل نہيں ہو گا، ليکن اگر اسے روزہ توڑنے پر مجبور کيا جائے مثلاًاس سے کها جائے:” اگر تم نے کھانا نہ کهایا تو ہم تمہيں جانی یا مالی نقصان پهنچائيں گے“ اور وہ نقصان سے بچنے کے ليے خود کوئی چيز کها لے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

مسئلہ ١ ۶۶۴ ضروری ہے کہ روزہ دار ایسی جگہ نہ جائے جس کے بارے ميں جانتا ہو یا اطمينان رکھتا ہو کہ کوئی چيز اس کے حلق ميں ڈال دی جائے گی یا اسے اپنا روزہ باطل کرنے پر مجبور کيا جائے گا لہٰذا اگر وہ چلا جائے اور کوئی چيز اس کے گلے ميں ڈال دی جائے یا وہ خود مجبوری کی بنا پر روزہ باطل کرنے والے کسی کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، بلکہ اگر صرف جانے کا ارادہ کرے اگرچہ نہ جائے اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

وہ چيزيں جو روزہ دار کے لئے مکروہ ہيں

مسئلہ ١ ۶۶۵ کچھ چيزیںروزہ دار کے لئے مکروہ ہيں جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) آنکہوں ميں دوائی ڈالنا اور سرمہ لگانا جب کہ ان کا مزہ یا بو حلق تک پهنچ جائے۔

٢) کسی بھی ایسے کا م کو انجام دینا جو کمزوری کا باعث ہو مثلاً خون نکالنا یا حمام جانا۔

۲۶۴

٣) ناس کھينچنا بشرطيکہ معلوم نہ ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی اور اگر معلوم ہو کہ حلق تک پهنچ جائے گی تو جائز نہيں ہے ۔

۴) خوشبودار جڑی بوٹيوں کوسونگهنا۔

۵) عورت کا پانی ميں بيٹھنا۔

۶) خشک چيز سے انيما کرنا۔

٧) بدن پر موجود لباس کو تر کرنا۔

٨) دانت نکالنا اور ہر وہ کا م جس کی وجہ سے منہ سے خون نکل آئے۔

٩) تر لکڑی سے مسواک کرنا۔

١٠ ) بلاوجہ پانی یا کوئی بهنے والی چيز منہ ميں ڈالنا۔

اور یہ بھی مکروہ ہے کہ انسان منی خارج کرنے کا ارادہ کئے بغير اپنی بيوی کا بوسہ لے یا اپنی شهوت کو ابهارنے والا کوئی بھی کام انجام دے اور اگر منی خارج کرنے کا ارادہ ہو تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا۔

قضا و کفارہ واجب ہونے کے مقامات مسئلہ ١ ۶۶۶ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کی کسی رات ميں جنب ہو جائے اور مسئلہ” ١ ۶ ٣ ۶ “ ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق بيدار ہو کر دوبارہ سو جائے اور اذانِ صبح تک بيدار نہ ہو تو ضروری ہے کہ صرف ا س روزے کی قضا کرے ليکن اگر روزہ دار مبطلاتِ روزہ ميں سے کوئی اور کام عمدا انجام دے جب کہ وہ جانتا ہو کہ یہ کام روزے کو باطل کر دیتا ہے تو قضا اور کفارہ دونوں اس پر واجب ہو جائيں گے۔ یهی حکم اس صورت ميں بھی ہے جب جانتا ہو کہ یہ کام حرام ہے چاہے یہ نہ جانتا ہو کہ یہ روزے کو باطل بھی کر دیتا ہے جيسے خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام ميں سے کسی پر جھوٹ باندهنا۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٧ اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے مبطلاتِ روزہ ميں سے کسی کام کو اس عقيدے کے ساته کہ یہ عمل روزے کو باطل نہيں کرتا، انجام دے تو ا س پر کفارہ واجب نہيں ۔

روزے کا کفارہ

مسئلہ ١ ۶۶ ٨ ماہِ رمضان کا روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ:

١) ایک غلام کو آزاد کرے ،یا

٢) آنے والے مسئلے ميں بيان کردہ طریقے کے مطابق دو ماہ کے روزے رکھے ،یا

٣) ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا ہر فقير کو ایک مُد، جو تقریباًساڑھے سات سو گرام بنتا ہے گندم، آٹا، روٹی، کھجور یا ان جيسی کوئی کھانے کی چيز دے۔

۲۶۵

اور اگر یہ چيزیں ممکن نہ ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر جس قدر ممکن ہو صدقہ دے اور استغفار بھی کرے اور اگر صدقہ دینا بھی ممکن نہ ہو تو استغفار کرے اگرچہ صرف ایک مرتبہ ”استغفراللّٰہ“کهے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ جب بھی ممکن ہو کفارہ بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶۶ ٩ جو شخص ماہِ رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مهينہ مکمل اور اگلے مهينے کا پهلا دن مسلسل روزے رکھے جب کہ باقی روزے اگر مسلسل نہ بھی ہوں تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٠ جو شخص رمضان کے کفارے ميں دو ماہ کے روزے رکھنا چاہتا ہو ضروری ہے کہ ایسے وقت ميں شروع نہ کرے جب جانتا ہو کہ ایک مهينے اور ایک دن کے درميان عيدِ قربان کی طرح کوئی ایسا دن بھی ہے جس کا روزہ حرام ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧١ جس کے لئے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہوں اگر درميان ميں بغير کسی عذر کے ایک دن روزہ نہ رکھے یا ایسے وقت روزے رکھنا شروع کرے جب جانتا ہو کہ درميان ميں ایک ایسا دن آرہا ہے کہ جس ميں روزہ رکھنا اس پر واجب ہے ، مثلاًوہ دن آرہا ہے جس ميں روزہ رکھنے کی نذر کر رکھی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ شروع سے روزے رکھے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٢ اگر ان دنوں ميں جب مسلسل روزے رکھنا ضروری ہيں ، بے اختيا ر کوئی عذر پيش آجائے جيسے حيض یا نفاس یا کسی بيماری ميں مبتلاہو جائے، تو عذر ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ باقی روزوں کو عذر ختم ہونے کے بعد بجا لائے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٣ اگر کسی حرام چيز سے اپنے روزے کو باطل کر دے خواہ وہ چيز بذاتِ خود حرام ہوجيسے شراب اور زنا یا کسی وجہ سے حرام ہو گئی ہو جيسے اپنی حائضہ بيوی سے مقاربت کرنا تو احتياط کی بنا پر اس پر کفارہ جمع واجب ہو جائے گا یعنی ضروری ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، دو مهينے کے روزے رکھے اور ساٹھ فقيروں کو پيٹ بھر کر کھانا بھی کهلائے یا ان ميں سے ہر ایک کو ایک مُد طعام دے۔

اور اگر یہ تينوں اس کے لئے ممکن نہ ہوں تو ضروری ہے کہ ان ميں سے جو ممکن ہو انجام دے اور بنا بر احتياطِ واجب استغفار بھی کرے۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۴ اگر روزہ دار جان بوجه کر خدا، پيغمبر(ص) یا ائمہ معصومين عليهم السلام سے جھوٹی بات منسوب کرے تو احتياط کی بنا پر کفارہ جمع اس پر واجب ہو جائے گا جس کی تفصيل گذشتہ مسئلے ميں بيان کی گئی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۵ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک ہی دن ميں کئی بار جماع یا استمنا کرے تو بنا بر احتياط اس پر ہر مرتبہ کے لئے کفارہ واجب ہو جائے گا اور اگر اس کاجماع یا استمنا حرام ہو تو بنا بر احتياط ہر مرتبہ کيلئے ایک کفارہ جمع اس پر واجب ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧ ۶ اگر روزہ دار ماہِ رمضان کے ایک دن ميں جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو چند بار انجام دے تو ان سب کے لئے ایک کفارہ کافی ہے ۔

۲۶۶

مسئلہ ١ ۶ ٧٧ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں اپنے لئے حلال عورت سے جماع یا استمنا کرے تو پهلے کام کے لئے ایک کفارہ اور جماع یا استمنا کے لئے بنا بر احتياط ایک دوسرا کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٨ اگر روزہ دار جماع اور استمنا کے علاوہ کوئی اور ایسا حلال کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاً پانی پئے پھر جماع یا استمنا کے علاوہ کوئی ایسا حرام کام جو روزے کو باطل کر دیتا ہو انجام دے مثلاًحرام کھانا کهالے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٧٩ اگر روزے دار کے ڈکار لينے سے کوئی غذا اس کے منہ ميں آجائے اور وہ اسے عمداً نگل لے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور احتياط واجب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب ڈکار لينے سے منہ ميں آنے والی چيز غذا کے مرحلے سے نکل چکی ہو اگرچہ اس صورت ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ کفارہ جمع دے اور اگر ڈکار لينے سے ایسی چيز منہ ميں آجائے کہ جس کا کھانا حرام ہے جيسے خون اور اسے عمداً نگل لے تو روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر کفارہ جمع بھی دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٠ اگر نذر کرے کہ ایک معين دن روزہ رکھے گا اور اس دن جان بوجه کر اپنا روزہ باطل کردے تو ضروری ہے کہ کفارہ دے اور نذر توڑنے کا کفارہ وهی ہے جو قسم توڑنے کا کفارہ ہے جسے مسئلہ نمبر ” ٢٧٣ ۴ “ ميں بيان کيا جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨١ اگر روز ہ د ارکسی ایسے شخص کے کهنے پر جس کا کهنا ہو کہ مغرب ہو گئی ہے جب کہ شرعاً اس شخص کی بات قابلِ اعتبار نہ ہو، افطار کرلے او ر بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب کا وقت نہيں ہوا تھا یا شک کرے کہ مغرب ہوئی تھی یا نہيں تو اس پر قضا اور کفارہ واجب ہو جائيں گے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٢ جو شخص جان بوجه کر اپنا روزہ توڑ دے اگر وہ ظہر کے بعد سفر کرے یا کفارے سے بچنے کے لئے ظہر سے پهلے سفر کرے تو اس سے کفارہ ساقط نہيں ہو گا اور ظہر سے پهلے سفر پيش آجانے پر بھی بنا بر اقویٰ یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٣ اگر جان بوجه کر اپنا روزہ توڑدے اور بعد ميں کوئی عذر جيسے حيض یا نفاس یا کوئی بيماری اسے لاحق ہو جائے تو بنا بر احتياط اس پر کفارہ واجب ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۴ اگر کسی کو یقين یا اطمينا ن ہو یا شرعی گواہی قائم ہو جائے کہ ماہِ رمضان کا پهلا دن ہے اور جان بوجه کر اپنے روزے کو باطل کر دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شعبان کا آخری دن تھا تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۵ اگر انسان شک کرے کہ رمضان کی آخری تاریخ ہے یا شوال کی پهلی اور جان بوجھ کر اپنے روزے کو باطل کردے اور بعد ميں معلوم ہو کہ شوال کی پهلی تھی تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

۲۶۷

مسئلہ ١ ۶ ٨ ۶ اگر روزہ دار رمضان ميں اپنی روزہ دار بيوی سے جماع کرے جبکہ اس نے بيوی کو جماع پر مجبور کيا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے اور بنا بر احتيا ط اپنی بيوی کے روزے کا کفارہ دے اور اگر بيوی جماع پر راضی تھی تو ہر ایک پر ایک کفارہ واجب ہو جائے گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٧ اگر عورت اپنے روزے دار شوہر کو جماع کرنے پر مجبور کرے تو اس پر شوہر کے روزے کا کفارہ دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٨ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی بيوی کو جماع پر مجبور کرے اور جماع کے دوران عورت راضی ہو جائے تو احتياطِ واجب کی بنا پر مرد دو کفارے اور عورت ایک کفارہ دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٨٩ اگر روزے دار ماہِ رمضان ميں اپنی سوئی ہوئی روزہ دار بيوی سے جماع کرے تو اس پر ایک کفارہ واجب ہو گا جب کہ بيوی کا روزہ صحيح ہے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٠ اگر مرد اپنی بيوی کو یا بيوی اپنے شوہر کو جماع کے علاوہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اور کام انجام دینے پر مجبور کرے تو ان ميں سے کسی پر کفارہ واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩١ جو شخص سفر یا بيماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ رہا ہو وہ اپنی روزے دار بيوی کو جماع پر مجبور نہيں کر سکتا، ليکن اگر مجبور کرے تو اس پر کفارہ واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٢ ضروری ہے کہ انسان کفارے کی ادائيگی ميں کوتاہی نہ کرے، البتہ اسے فوراً ادا کرنا بھی ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٣ اگر انسان پر کفارہ واجب ہوئے چند سال گذر جائيں اور کفارہ انجا م نہ دیا ہو تو اس پر کسی چيز کا اضافہ نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۴ جو شخص ایک دن کے کفارے کے لئے ساٹھ فقيروں کو کھانا کهلانا چاہتا ہو، وہ یہ نہيں کر سکتا کہ ان ميں سے ایک فقير کو دو یا اس سے زیادہ بار پيٹ بھر کر کھانا کهلائے یا انہيں ایک مُد سے زیادہ طعام دے اور زیادہ کو کفارہ ميں شمار کرے۔ ہاں، وہ یہ کر سکتا ہے کہ فقير کو اس کے اہل و عيال کے ساته پيٹ بھر کر کھانا کهلائے جو چاہے چھوٹے ہی کيوں نہ ہوں ليکن عمر کے اعتبار سے اتنے ہوں کہ انہيں کهلانے کو کھانا کهلانا کها جاسکے یا بچے کے ولی کو بچے کے لئے ایک مُد دے دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۵ جس شخص نے ماہِ رمضان کا قضا روزہ رکھا ہو اگر وہ ظہر کے بعد عمداًروزہ توڑنے والا کوئی کام انجام دے تو ضروری ہے کہ دس فقيروں کو ایک ایک مُد طعام دے اور اگر یہ نہ کر سکتا ہو تو تين دن روزے رکھے جو بنا بر احتياط مسلسل ہوں۔

۲۶۸

وہ مقامات کہ جن ميں صرف روزے کی قضا واجبہے

مسئلہ ١ ۶ ٩ ۶ چند صورتو ں ميں انسان پر روزے کی صرف قضا واجب ہے اور کفارہ واجب نہيں ہے :

١) ماہ رمضان کی رات ميں جنب ہو اور مسئلہ نمبر ” ١ ۶ ٣٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اذانِ صبح تک دوسری اور تيسری نيندسے بيدار نہ ہو۔

٢) روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو ليکن روزے کی نيت نہ کرے یا ریاکاری کرے، یا روزے سے نہ ہونے کا ارادہ کرے یا روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دینے کا ارادہ کرے اور انجام نہ دے۔

٣) ماہ رمضان ميں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور اسی حالت ميں ایک یا چند دن روزہ رکھے۔

۴) ماہ رمضان ميں یہ جستجو کئے بغير کہ صبح ہوگئی ہے یا نہيں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی۔ اسی طرح اگر جستجو کرنے کے بعد یہ گمان ہو کہ صبح ہو گئی ہے یا شک کرے کہ صبح ہو ئی یا نہيں اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی تو اس روزے کی قضا اس پر واجب ہے ۔

۵) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح نہيں ہوئی انسان روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو گئی تھی۔

۶) کسی کے یہ کهنے پر کہ صبح ہوگئی ہے یقين نہ کرتے ہوئے یا اس خيال سے کہ وہ مذاق کر رہا ہے روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہو چکی تھی۔

٧) نا بينا یا اس جيسا کوئی شخص کسی اور کے کهنے پر افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی۔

٨) مطلع صاف ہو اور تاریکی کی وجہ سے اس یقين کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تهی، ليکن اگر مطلع ابر آلود ہو اور اس گمان کے ساته کہ مغرب ہو گئی ہے افطار کر لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ مغرب نہيں ہوئی تھی تو قضا ضروری نہيں ہے ۔

٩) ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے یا بلاوجہ کلی کرے اور بے اختيار پانی منه کے اندر چلا جائے ليکن اگر بھول جائے کہ روزہ سے ہے اور پانی اندر لے جائے یا واجب نماز کے وضو کے لئے کلی کرے اور بے اختيار پانی اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ۔

١٠ ) کوئی زبردستی یا مجبوری یا تقيہ کی وجہ سے افطار کرے۔

۲۶۹

مسئلہ ١ ۶ ٩٧ اگر پانی کے علاوہ کوئی اور چيز منہ ميں ڈالے اور وہ بے اختيار اندر چلی جائے یا پانی ناک ميں ڈالے اور بے اختيار اندر چلا جائے تو اس پر قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٨ روزہ دار کے لئے زیادہ ناک ميں پانی ڈالنا یا کلی کرنا مکروہ ہے اور اگر کلی کرنے کے بعد لعاب دهن کو نگلنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ اس سے پهلے تين مرتبہ لعاب دهن کو تهوک دے۔

مسئلہ ١ ۶ ٩٩ اگر انسان جانتا ہو کہ کلی کرنے یا ناک ميں پانی ڈالنے کی وجہ سے بے اختيار یا بھولے سے پانی اس کے حلق ميں چلا جائے گا تو ضروری ہے کہ نہ کلی کرے اور نہ ناک ميں پانی ڈالے۔

مسئلہ ١٧٠٠ اگر ماہ رمضان ميں جستجو کرنے کے بعد اس یقين کے ساته کہ صبح نہيں ہوئی، روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠١ اگر انسان شک کرے کہ مغرب ہو گئی ہے یا نہيں تو وہ افطار نہيں کر سکتا ہے ، ليکن اگر شک کرے کہ صبح ہوئی ہے یا نہيں تو جستجو سے پهلے بھی وہ روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے سکتا ہے ۔

قضا روزے کے احکام

مسئلہ ١٧٠٢ اگر دیوانہ عاقل ہو جائے تو دیوانگی کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٠٣ اگر کافر مسلمان ہو جائے تو کفر کے وقت کے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ، ليکن اگر کوئی مسلمان کافر ہو جائے تو جو روزے کفر کے زمانے ميں اس نے نہيں رکھے ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اور اگر مسلمان بھی ہو جائے تو اسلام لانے کی وجہ سے اس پر سے کوئی چيز ساقط نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٧٠ ۴ جو روزہ انسان سے نشہ کی حالت ميں چھوٹ گيا ہو اس کی قضا ضروری ہے اگرچہ جس چيز کی وجہ سے اس پر نشہ طاری ہوا ہو اسے علاج کے لئے کهایا ہو۔

مسئلہ ١٧٠ ۵ اگر کسی عذر کی وجہ سے چند دن روزہ نہ رکھے اور بعد ميں شک کرے کہ اس کا عذر کس وقت ختم ہو ا تھا تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس زیادہ مقدار کے روزوں کی قضا کرے جس ميں روزے نہ رکھنے کا احتمال ہے ۔ مثلاًجس نے ماہ رمضان سے پهلے سفر کيا ہو اور نہ جانتا ہو کہ پانچویں رمضان کو پهنچا تھا یا چھٹی رمضان کو تو بنا بر احتياطِ واجب چھ روزے رکھے، ليکن جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ کس وقت عذر پيش آیا تھا تو وہ کم مقدار کی قضا کر سکتا ہے مثال کے طور پر ماہ رمضان کے آخر ی ایام ميں سفر کرے اور رمضان کے بعد لوٹے اور نہ جانتا ہو کہ پچيسویں رمضان کو سفر کيا تھا یا چھبيسویں کو تو وہ کم مقدار یعنی پانچ دن کی قضا پر اکتفا کر سکتا ہے ، اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں کی قضا کرے۔

۲۷۰

مسئلہ ١٧٠ ۶ جس پر چند رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا ہو تو کسی کی بھی قضا پهلے انجام دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، ليکن اگر آخری ماہ رمضان کے قضا روزوں کا وقت تنگ ہو مثلا آخری رمضان کے پانچ روزوںکی قضا اس پر ہو اور رمضان آنے ميں بھی پانچ دن رہ گئے ہوں تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پهلے آخری رمضان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٠٧ جس شخص پر کئی رمضان کے مهينوں کے روزوں کی قضا واجب ہو، اس کے لئے قضا کرتے وقت یہ معين کرنا ضروری نہيں ہے کہ یہ کس رمضان کے روزوں کی قضا ہے مگر یہ کہ دونوں روزوں ميں اثر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔

مسئلہ ١٧٠٨ انسان ماہِ رمضان کے قضا روزے ميں ظہر سے پهلے اپنا روزہ باطل کر سکتا ہے ، ليکن اگر قضا کرنے کا وقت تنگ ہو تو احتياطِ واجب کی بناپر اپنا روزہ باطل نہيں کر سکتا ۔

مسئلہ ١٧٠٩ جس نے کسی ميت کا قضا روزہ رکھا ہو احتياط مستحب یہ ہے کہ زوال کے بعد روزہ نہ توڑے۔

مسئلہ ١٧١٠ اگر بيماری، حيض یا نفاس کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے مکمل ہونے سے پهلے یا رمضان ختم ہونے کے بعد اور قضا پر قدرت حاصل کرنے سے پهلے مر جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧١١ جس شخص نے بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے ہو ں اور اس کی بيمار ی اگلے سال کے رمضان تک باقی رہے تو چھوڑے ہوئے روزوںکی قضا اس پر واجب نہيں ہے اور ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، ليکن اگر اس نے کسی اور عذر مثلاًسفر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور اس کا عذر اگلے رمضان تک باقی رہے تو ضروری ہے کہ چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کودے۔

مسئلہ ١٧١٢ اگر کوئی شخص بيمار ی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے اور رمضان کے بعد اس کی بيماری تو ختم ہو جائے ليکن کوئی دوسرا عذر پيش آ جائے کہ جس کی وجہ سے اگلے رمضان تک روزے کی قضا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔

اسی طرح اگر اس نے ماہ رمضان ميں بيمار ی کے علاوہ کسی اور عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے ہوں اور رمضان کے بعد اس کا عذر تو برطرف ہو جائے ليکن اگلے سال کے رمضان تک بيمار ی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے تو ضروری ہے کہ نہ رکھے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ اور دونوں صورتوں ميں احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١٣ جو شخص ماہ رمضان ميں کسی عذر کی وجہ سے روزے نہ رکھے اور رمضا ن کے بعد عذر بر طرف ہوجانے کے باوجود اگلے سال کے رمضان تک عمداً ان روزوں کی قضا نہ کر ے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

۲۷۱

مسئلہ ١٧١ ۴ اگر روزوں کی قضا کرنے ميں اتنی کوتاہی کرے کہ وقت تنگ ہوجائے اور وقت کی تنگی ميں عذر پيش آ جائے تو ضروری ہے کہ قضا روزے رکھے اور ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ اسی طرح اگر عذر کے وقت پختہ ارادہ رکھتا ہو کہ عذر کے زائل ہونے کے بعد اپنے روزوں کی قضا کرے گا ليکن اس سے پهلے کہ قضا کرے وقت کی تنگی ميں عذرپيش آجائے تو ضروری ہے کہ ان روزوں کی قضا بھی کرے اور ہر دن کے لئے احتياطِ واجب کی بنا پر ایک مدطعام بھی فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۵ اگر کسی انسان کی بيماری کئی سال تک طولانی ہوجائے تو صحت یاب ہونے کے بعد ضروری ہے کہ آخری رمضان کے روزے قضا کرے اور پچهلے سالوں کے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔

مسئلہ ١٧١ ۶ جس شخص پر ہر دن کے لئے ایک مُد طعام فقير کو دینا ضروری ہو تو و ہ چند دنوں کا کفارہ ایک ہی فقير کو بھی دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧١٧ اگر رمضان کے قضا روزوں کو چند سالوں تک انجام نہ دے تو ضروری ہے کہ قضا کرے اور پهلے سال کی تاخير کی وجہ سے ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے، البتہ بعد کے چند سالوں کی تاخير کی وجہ سے اس پر کوئی چيز واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧١٨ اگر رمضان کے روزے جان بوجه کر نہ رکھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بھی انجام دے اور ہر دن کے لئے یا ایک غلام کو آزاد کرے یا ساٹھ فقيروں کو طعام دے یا دو مهينے کے روزے رکھے اور اگر آئندہ رمضان تک ان روزوں کی قضا انجام نہ دے تو ہر دن کے لئے فقير کو ایک مد طعام بھی دے۔

مسئلہ ١٧١٩ اگر رمضان کا روزہ جان بوجه کر نہ رکھے اور دن ميں چند مرتبہ جماع یا استمنا کرے تو احتياطِ واجب کی بناپر ہر بار کے لئے کفارہ دے، ليکن اگر چند مرتبہ روزہ باطل کرنے والا کوئی اورکام انجام دے مثلاًچند مرتبہ کھانا کھائے تو ایک کفارہ کافی ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٠ باپ کے مرنے کے بعد ضروری ہے کہ اس کا بڑا بيٹا مسئلہ نمبر ” ١٣٩٨ “ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق اس کے روزوں کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧٢١ اگر باپ نے رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ مثلاًنذر کا روزہ نہ رکھا ہو تو واجب ہے کہ بڑا بيٹا اس کی بھی قضا کرے، ليکن اگر باپ کسی کے روزے رکھنے کے لئے اجير بنا ہو اور ان کو نہ رکھا ہو تو بڑے بيٹے پر اس کی قضا ضروری نہيں ۔

۲۷۲

مسافر کے روزوں کے احکام

مسئلہ ١٧٢٢ جس مسافر کی ذمہ داری ہے کہ چار رکعتی نمازوں کو سفر ميں دورکعت پڑھے، ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور جس مسافر کو اپنی نمازیں پوری پڑھنا ہيں ، مثلاًوہ شخص جس کا پيشہ ہی سفر کرنا ہو یا اس کا سفر گناہ کاسفر ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ سفر ميں روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢٣ ماہ رمضا ن ميں سفر کرنے ميں کوئی حرج نہيں ليکن مکروہ ہے ، چاہے روزے سے فرار کرنے کے لئے نہ ہو، مگر یہ کہ سفر اس کی ضرورت کی وجہ سے ہو یا جيسا کہ بعض روایتوں ميں آیا ہے حج یا عمرہ کے لئے ہو۔

مسئلہ ١٧٢ ۴ اگر ماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا معين روزہ انسان پر واجب ہو جس کا تعلق حق الناس سے ہو مثلاً یہ کہ انسان اجير بنا ہو کہ کسی معين دن ميں روزہ رکھے گا تو وہ اس دن سفر نہيں کر سکتا۔ یهی حکم احتياطِ واجب کی بنا پر نذر کے علاوہ دوسرے واجب معين روزوں جيسے اعتکاف کے تيسرے دن کے روزے کا ہے ۔ ہاں، اگر کوئی روزہ نذر کی وجہ سے معين ہوا ہو تو اقوی یہ ہے کہ وہ اس دن سفر کر کے اس کے بجائے کسی اور دن روزہ رکھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٢ ۵ اگر کوئی روزہ رکھنے کی نذر کرے ليکن معين نہ کرے کہ کس دن روزہ رکھے گا تو اس روزے کو سفر ميں انجام نہيں دے سکتا، ليکن اگر نذر کرے کہ سفر ميں کسی معين دن روزہ رکھے گا تو ضروری ہے کہ اس روزے کو سفر ميں انجام دے ۔اسی طرح اگر نذر کرے کہ فلاں دن روزہ رکھے گا خواہ سفر ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ چاہے سفر ميں ہو اس دن روزہ رکھے۔

مسئلہ ١٧٢ ۶ مسافر طلب حاجت کی غرض سے تين د ن مدینہ منورہ ميں مستحب روزے رکھ سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ وہ تين دن بده، جمعرات اور جمعہ ہوں۔

مسئلہ ١٧٢٧ جو شخص نہ جانتا ہو کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اگر وہ سفر ميں روزہ رکھ لے اور دن ميں کسی وقت اسے مسئلہ معلوم ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے ، ليکن اگر مغرب تک معلوم نہ ہو تو اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٨ اگر بھول جائے کہ وہ مسافر ہے یا بھول جائے کہ مسافر کا روزہ باطل ہے اور سفر ميں روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٢٩ اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر کرے تو ضروری ہے کہ اپنا روزہ پورا کرے اور اگر ظہر سے پهلے سفر کرے تو حد تر خص تک پهنچنے پر اس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر اس سے پهلے روز ہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس پر کفارہ واجب ہو جائے گا۔

۲۷۳

مسئلہ ١٧٣٠ اگر مسافر ماہ رمضان ميں خواہ فجرسے پهلے ہی سفر ميں ہو یا روزے سے ہو اور سفر کرے، اگرظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن رہنے کا ارادہ ہو اور اس نے روزے کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دیا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس دن روزہ رکھے اور اگر انجام دے دیا ہو تو اس دن کا روزہ باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧٣١ اگر مسافر ظہر کے بعد اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچے کہ جهاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو اس دن کا روزہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٢ مسافر اور روزہ رکھنے سے معذور افراد کے لئے ماہِ رمضان کے دن ميں جماع کرنا، ضرورت سے زیادہ کھانا اور خود کو مکمل طور پر سيراب کرنا مکروہ ہے ۔

وہ افراد جن پر روزہ رکھنا واجب نهيں

مسئلہ ١٧٣٣ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو یااس کے لئے روزہ رکھنا مشقّت کا باعث ہو تو اس پر سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ۔ ہاں، دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر روزے کے بدلے ميں فدیہ دے جو کہ ایک مد طعام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ گندم دے۔

مسئلہ ١٧٣ ۴ جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھے، اگر ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوجائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٣ ۵ اگر انسان کو ایسی بيماری ہو کہ اسے زیادہ پياس لگتی ہو اور اس کے لئے پياس کو برداشت کرنا ممکن نہ ہو یا باعث مشقت ہو تو اس سے روزے کی ذمہ داری کو اٹھ ا ليا گيا ہے ، ليکن دوسری صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے اور احتياط مستحب یہ هے کہ مجبوری سے زیادہ مقدار ميں پانی نہ پئے اور ماہ رمضان کے بعد اگر روزہ رکھنے پر قادر ہو جائے تو جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٣ ۶ جس عورت کے وضع حمل کا وقت قریب ہو اور روزہ اس کے حمل یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کا روزہ صحيح نہيں اور پهلی صورت ميں ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياط مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے ہے اور جو روزے نہيں رکھے ہيں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧٣٧ جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور اس کا دودھ کم ہو خواہ وہ بچے کی ماں ہو یا دایہ ہو، اجرت کے ساته دودھ پلائے یا بغير اجرت کے، اگر روزہ اس بچے کے لئے یا خود اس عورت کے لئے نقصان دہ ہو تو اس عورت کا روزہ صحيح نہيں ہے اور پهلی صورت ميں ضروری ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام فقير کو دے۔ یهی حکم احتياطِ مستحب کی بنا پر دوسری صورت کے لئے بھی

۲۷۴

ہے اور جو روزے نہيں رکھے ان کی قضا ضروری ہے اور یہ حکم اس وقت ہے کہ جب بچے کے دودھ کے لئے کوئی اور طریقہ ميسر نہ ہو اور اگر ميسر ہو تو واجب ہے کہ وہ عورت روزہ رکھے۔

مهينے کی پهلی تاريخ ثابت ہونے کا طريقہ

مسئلہ ١٧٣٨ مهينے کی پهلی تاریخ چند چيزوں سے ثابت ہوتی ہے :

١) انسان خود چاند دیکھے ۔

٢) اتنے لوگ جن کے کهنے پر یقين یا اطمينان آجاتا ہے ، کہيں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے ۔ اسی طرح ہر وہ چيز جس کی وجہ سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے۔

٣) دوعادل مرد کہيں کہ ہم نے ایک ہی رات ميں چاند دیکھا ہے ليکن اگر چاند کی خصوصيت ایک دوسرے سے مختلف بيان کریں تو مهينے کی پهلی تاریخ ثابت نہيں ہوتی۔ یهی حکم اس وقت ہے جب یہ دونوں تصدیق کے قابل نہ ہوں مثلاًجب مطلع صاف ہو، چاند دیکھنے والے افراد زیادہ ہو ں اور ان دو کے علاوہ باقی افراد کوشش کے باوجود نہ دیکھ پائيں۔

۴) ماہِ شعبان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے اور ماہِ رمضان کی پهلی سے تيس دن گزر جائيں جس سے شوال کی پهلی ثابت ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ١٧٣٩ مهينے کی پهلی کا حاکم شرع کے حکم سے ثابت ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٠ مهينے کی پهلی نجوميوں کی پيشن گوئی سے ثابت نہيں ہوتی، ليکن اگر انسان کو ان کے کهنے سے یقين یا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس پر عمل ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ١ چاند کا اونچاہونا یا دیر سے غروب ہونا اس بات کی دليل نہيں کہ گذشتہ رات مهينے کی پهلی رات تهی، ليکن اگر ظہر سے پهلے چاند نظر آئے تو یہ مهينے کا پهلا دن شمار ہو گا اور چاند کے گرد حلقے کے ذریعے پچهلی رات کا چاند رات ثابت ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٢ اگر کسی کے لئے ماہِ رمضان کی پهلی ثابت نہ ہو اور وہ روزہ نہ رکھے اور بعد ميں ثابت ہوجائے کہ گذشتہ رات ہی چاند رات تھی تو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٣ اگر کسی شہر ميں مهينے کی پهلی تاریخ ثابت ہوجائے تو دوسرے شهروں ميں بھی خواہ دور ہوں یا نزدیک، خواہ ان کا افق ایک ہو یا نہ ہو، رات مشترک ہونے کی صورت ميں چاند ثابت ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴۴ مهينے کی پهلی ٹيلی گرام سے ثابت نہيں ہوتی مگر یہ کہ انسان جانتا ہو کہ ٹيلی گرام، شرعی دليل کی بنياد پر کيا گيا ہے ۔

۲۷۵

مسئلہ ١٧ ۴۵ جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ رمضان کا آخری دن ہے یا شوال کا پهلا دن، ضروری ہے کہ روزہ رکھے ليکن اگر مغرب سے پهلے معلوم ہو جائے کہ شوال کی پهلی ہے تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔

مسئلہ ١٧ ۴۶ اگر قيد ميں موجود شخص کے پاس ماہِ رمضان ثابت ہونے کا کوئی طریقہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنے گمان پر عمل کرے چاہے کسی بھی طریقے سے حاصل ہوا ہو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جس مهينے کے متعلق احتمال ہو کہ ماہِ رمضان ہے ، صحيح ہے کہ روزہ رکھ لے، ليکن ضروری ہے کہ اس مهينے سے گيارہ مهينے گذرنے کے بعد دوبارہ ایک مهينہ روزہ رکھے اور اگر بعد ميں معلوم ہو جائے کہ جس چيز کا اس نے گمان کيا تھا یا جسے اختيار کيا تھا وہ ماہِ رمضان نہيں تھا تو اگر یہ معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے سے پهلے تھا تو یہ کافی ہوگا اور اگر معلوم ہو کہ ماہِ رمضان اس مهينے کے بعد تھا تو ضروری ہے کہ قضا کرے۔

حرام اور مکروہ روزے

مسئلہ ١٧ ۴ ٧ عيد فطر اور عيد قربان کے دن روزہ رکھنا حرام ہے ۔ نيز جس دن کے بارے ميں انسان کو معلوم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پهلی، اگر پهلی رمضان کی نيت سے روزہ رکھے تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٨ اگر بيوی کے مستحب روزہ رکھنے کی وجہ سے شوهرکا حق ضائع ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اوراحتياط مستحب یہ ہے کہ اگر شوہر کا حق ضائع نہ بھی ہوتب بھی شوہر کی اجازت کے بغيرمستحب روزہ نہ رکھے۔

مسئلہ ١٧ ۴ ٩ اولاد کا مستحب روزہ رکھنا اگر ماں باپ کی اذیت کا سبب ہو تو حرام ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٠ اگر اولاد باپ کی اجازت کے بغير کوئی مستحب روزہ رکھ لے اور دن ميں باپ اسے منع کرے، اگر بچے کی مخالفت کرنا باپ کی اذیت کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ افطار کر لے۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ماں اسے منع کرے اور اس کی مخالفت کرنا اذیت کا باعث ہو۔

مسئلہ ١٧ ۵ ١ جو شخص جانتا ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہيں اگرچہ ڈاکٹر کهے کہ نقصان دہ ہے ، ضروری ہے کہ روزہ رکھے اور جس شخص کو قابل ذکر ضرر کا یقين یا گمان ہو یا اس چيز کا خوف ہو جس کا خوف عقلا کے نزدیک صحيح ہوتو چاہے ڈاکٹر کهے کہ ضرر نہيں ہے ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ بھی لے تو صحيح نہيں ہے ، مگر یہ کہ روزہ اس کے لئے مضر نہ تھا او راس نے قصدِقربت کيا تھا کہ اس صورت ميں اس کا روزہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٢ اگر انسان کو احتمال ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ ذکر ضرر کا باعث ہے اور اس احتمال کی وجہ سے اسے خوف ہو جائے، اگر اس کا احتمال عقلا کی نظر ميں صحيح ہو تو ضروری ہے کہ روزہ نہ رکھے اور اگر روزہ رکھ لے تو باطل ہو گا مگر یہ کہ روزہ مضر نہ ہو اور اس نے قصدِقربت کيا ہو۔

۲۷۶

مسئلہ ١٧ ۵ ٣ جس شخص کا عقيدہ یہ ہو کہ روزہ اس کے لئے قابل توجہ ضررکا باعث نہيں اگروہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعد معلوم ہو کہ روزہ اس کے لئے قابلِ توجہ ضررکا باعث تھا تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔

مسئلہ ١٧ ۵۴ مذکورہ روزوں کے علاوہ اور حرام روزے بھی ہيں جنہيں مفصّل کتابوں ميں بيان کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵۵ عاشور کے دن کا روزہ بنا بر احتياطِ واجب جائز نہيں اور اس دن کا روزہ مکروہ ہے جس کے بارے ميں شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عيد قربان کا۔

مستحب روزے

مسئلہ ١٧ ۵۶ مذکورہ حرام اور مکروہ روزوں کے علاوہ سال کے تمام دنوں کا روزہ مستحب ہے ، جب کہ بعض ایام کے بارے ميں زیادہ تاکيد کی گئی ہے جن ميں سے بعض یہ ہيں :

١) ہر ماہ کی پهلی اور آخری جمعرات اور دسویں تاریخ کے بعد آنے والا پهلا بده اور اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تو مستحب ہے کہ قضا کرے اور اگر بالکل روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ١٢٫ ۶ ) سکہ دار چنے کے برابر چاندی فقير کو )

مستحب ہے کہ ہر دن کے لئے ایک مد طعام یا پھر ۶ ۔ ١٢دے۔

٢) ہر مهينے کی تيرہویں، چودهویں اور پندرہویں تاریخ۔

٣) رجب اور شعبان کا پورا مهينہ، اور ان دو مهينوں ميں سے کچھ دن اگرچہ ایک ہی دن ہو۔

۴) عيد نوروز کا دن۔

۵) شوال کی چوتھی تاریخ سے نویں تاریخ تک کے ایام۔

۶) ذی القعدہ کی پچيسویں اور انتيسویں کا دن۔

٧) ذی الحجہ کی پهلی تاریخ سے نویں (روزِعرفہ )تک، ليکن اگر روزے کی کمزوری کی وجہ سے روزِعرفہ کی دعائيں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ مکروہ ہے ۔

٨) عيد غدیر کا مبارک دن( ١٨ /ذی الحجہ )۔

٩) روزِمباہلہ ( ٢ ۴ / ذی الحجہ )۔

١٠ ) محرم کے پهلے، تيسرے اور ساتویں دن۔

١١ ) پيغمبر اکرم(ص) کی ولادت باسعادت کے دن ( ١٧ /ربيع الاول)۔

١٢) ١ ۵/ جمادی الاوّل کے دن۔

۲۷۷

١٣ )حضرت رسول اکرم(ص)کی بعثت کے دن ( ٢٧ /رجب)۔

اگر کوئی شخص مستحب روزہ رکھے تو اسے پورا کرنا واجب نہيں ،بلکہ اگر اس کا مومن بهائی اسے کھانے کی دعوت دے تو مستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن ميں ہی چاہے ظہر کا وقت گذر چکا ہو روزہ افطار کر لے۔

وہ صورتيں جن ميں مبطلاتِ روزہ سے پرہيز مستحبہے

مسئلہ ١٧ ۵ ٧ چند افراد کے لئے مستحب ہے کہ ماہِ رمضان ميں چاہے روزے سے نہ ہوں، روزہ باطل کرنے والے کاموں سے پرہيز کریں:

١) وہ مسافر جس نے سفر ميں روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دیا ہو اور ظہر سے پهلے اپنے وطن یا کسی ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں اس کا دس دن قيام کا ارادہ ہو۔

٢) وہ مسافر جو ظہر کے بعد اپنے وطن یا ایسی جگہ پهنچ جائے جهاں و ہ دس دن قيام کرنا چاہتا ہو۔

٣) وہ مریض جو ظہر کے بعد تندرست ہو جائے۔ یهی حکم ہے جب وہ ظهرسے پهلے تندرست ہو جائے اور روزہ باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے چکا ہو۔

۴) وہ عورت جو دن ميں کسی وقت حيض یا نفاس کے خون سے پاک ہو جائے۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٨ مستحب ہے کہ روزہ دار نمازمغرب وعشا کو افطار سے پهلے پڑھے، ليکن اگر کوئی دوسر ا شخص اس کا منتظر ہو یا وہ کھانے کی زیادہ خواہش رکھتا ہو کہ جس کی وجہ سے وہ قلبی توجہ کے ساته نمازنہ پڑھ سکتا ہو تو بہتر ہے کہ پهلے افطار کرے، ليکن جس قدر ممکن ہو نماز کو وقت فضيلت ميں پڑھے۔

اعتکاف

اعتکاف عبادات ميں سے ہے اور شرعاًاعتکاف یہ ہے کہ انسان قربة الی الله کی نيت سے مسجد ميں توقف وقيام کرے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کا قيام کسی عبادت مثلاًنمازکو انجام دینے کی نيت سے ہواور اعتکاف کے لئے کوئی خاص وقت معين نہيں ہے بلکہ جب بھی روزہ رکھنا صحيح ہے اعتکاف کرنا بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۵ ٩ اعتکا ف ميں کچھ چيزوں کا خيال رکھنا ضروری ہے :

١) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو اور مميز بچے کا اعتکاف کرنا صحيح ہے ۔

٢) قصدِقربت جيسا کہ وضو کے باب ميں بيان کيا گيا ہے ۔

٣) روزہ، لہٰذا جس شخص کا روزہ باطل ہے جيسے وہ مسافر جس نے دس دن قيام کا ارادہ نہ کيا ہو، وہ اعتکاف نہيں کر سکتا۔

۴) یہ کہ مسجدالحرام، مسجدنبوی، مسجد کوفہ، مسجد بصرہ یا جامع مسجد ميں ہو۔

۲۷۸

۵) اس فرد کی اجازت سے ہو جس کی اجازت ضروری ہے ، لہٰذا بيوی کا اعتکاف شوہر کی اجازت کے بغير جب کہ شوہر کی حق تلفی ہو رہی ہو، صحيح نہيں ہے ۔

۶) تين دن اور اُن تين دنوں کے درميان کی دو راتيں اسی مسجد ميں گزارے جس ميں اعتکاف کر رہا ہے اور بغير کسی ضروری کا م کے مسجد سے باہر نہ جائے۔ البتہ مریض کی عيادت، تشييع جنازہ اور تجهيزِميت جيسے غسلِ ميت، نماز اور دفن کے لئے مسجدسے باہر جا سکتا ہے ۔

جن صورتوں ميں مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے ، اس کا م کی انجام دهی کے وقت سے زیادہ باہر نہ ٹھ هرے اور احتياطِ واجب کی بنا پر نزدیک ترین راستے سے مسجد کو لوٹے اور مسجد سے باہر نہ بيٹھے اور اگر بيٹھنے پر مجبور ہو جائے تو ممکنہ صورت ميں سائے ميں نہ بيٹھے۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٠ اعتکاف شروع کرنے کے بعد اس کے واجب معين، مثلاًجب اس نے نذر کی ہو کہ کسی خاص وقت ميں اعتکاف کرے گا، نہ ہونے کی صورت ميں دو روز گذرنے سے پهلے وہ اعتکاف سے پلٹ سکتا ہے اور اسے توڑ سکتا ہے ، ليکن اگر نيت کے وقت ہی شرط لگا دی ہو کہ کوئی کام پيش آنے کی صورت ميں اس کو اعتکاف توڑ نے کا اختيار ہو تو دو دن گزرنے کے بعد بھی اعتکاف توڑ سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ١ اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ خود کو چند چيزوں سے بچائے اور ان چيزوں کو انجام دینے سے اعتکاف باطل ہو جاتا ہے ،ليکن جماع کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کا ترک کرنا اس صورت ميں جبکہ اعتکاف واجب معين نہ ہو احتياط کی بنا پر ہے :

١) جماع کرنا اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ استمنا، عورت کو شهوت کے ساته مس کرنے اور شهوت کے ساته بوسہ لينے سے بھی اجتناب کرے۔

٢) خوشبو لگانا۔

٣) خرید وفروخت، کہ اس سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے البتہ سودا باطل نہيں ہوتا اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر قسم کی تجارت سے، چاہے مصالحت، مضاربہ اور اجارہ یا ان جيسی چيزوں کے ذریعے ہو، اجتناب کرے اور اگر کسی چيز کی خرید وفروخت پر مجبور ہو جائے اور اس کے لئے کوئی وکيل بھی نہ مل سکے تو جائز ہے ۔

۴) کسی پر غالب ہونے اور اپنے فضل کا اظهار کرنے کے لئے ممارات یعنی جدال کرنا، چاہے دنيوی امور ميں ہو یا اخروی امور ميں ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٢ اگر واجب اعتکاف ميں جان بوجه کر جماع کرے، چاہے دن ميں ہو یا رات ميں ، اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزے رکھے یا ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلائے۔

۲۷۹

اور جماع کے علاوہ دوسرے ان امور کی ادائيگی سے جن سے بچنا ضروری ہے ، کفارہ واجب نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٣ اگر اعتکاف کرنے والا غلطی سے اعتکاف باطل کرنے والا کوئی کام انجام دے تو اس کے اعتکاف کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶۴ اگر مذکورہ بالا چيزوں ميں سے کسی کے ذریعے اعتکاف باطل کرے تو اعتکاف کے واجبِ غيرِ معين ہونے کی صورت ميں ، مثلًا جب اس نے وقت معين کئے بغير اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو، ضروری ہے کہ اسے دوبارہ انجام دے اور اگر اعتکاف واجب معين ہو مثلاًاس نے معين وقت ميں اعتکاف کرنے کی نذر کی ہو یا اعتکاف تو مستحب ہو ليکن اسے باطل کرنے والا کام دو دن گزرنے کے بعد انجام دیا ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور اگر دو دن مکمل ہونے سے پهلے اعتکاف مستحب کو باطل کيا ہو تو اس کی قضا نہيں ۔

مسئلہ ١٧ ۶۵ ایک اعتکاف سے دوسرے اعتکاف کی طرف نيت پهيرنا جائز نہيں ہے ، چاہے دونوں اعتکاف واجب ہوں، مثلاًایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعے خود پر واجب کيا ہو، یا دونوں مستحب ہوں، یا ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو، یا ایک خود کے لئے ہو اور دوسرے ميں کسی کا نائب یا اجير ہو، یا دونوںکسی کی نيابت ميں ہو ں۔

مسئلہ ١٧ ۶۶ اگر اعتکاف کرنے والا شخص غصبی قالين پر بيٹھے تو گنهگار ہے ليکن اس کا اعتکاف باطل نہيں ہوگا، ليکن اگر کوئی شخص کسی جگہ سبقت کر کے اپنی جگہ بنا چکا ہو اور اعتکاف کرنے والا اس کی رضایت کے بغير اس سے وہ جگہ لے لے تو اس جگہ اس کا اعتکاف باطل ہے ۔

مسئلہ ١٧ ۶ ٧ اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہو جائے تو اگر مسجد ميں اس غسل کی ادائيگی ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو مسجد سے نکلنا جائزنہيں ہے جيسے غسلِ مس ميت انجام دینا، ليکن اگر اس غسل کو مسجد ميں کرنے ميں کوئی رکاوٹ ہو جيسے غسل جنابت جس کا لازمی نتيجہ یہ ہے کہ انسان جنابت کے ساته مسجد ميں رہے، تو ضروری ہے کہ مسجد سے نکلے ورنہ اس کا اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

۲۸۰