توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 196930
ڈاؤنلوڈ: 3915

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196930 / ڈاؤنلوڈ: 3915
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

خمس کے احکام

مسئلہ ١٧ ۶ ٨ سات چيزوں پر خمس واجب ہوتا ہے :

١) کمانے سے حاصل ہونے والا فائدہ

٢) کان

٣) دفينہ

۴) حلال مال جو حرام مال سے مخلوط ہو جائے

۵) جواہرات جو سمندر ميں غوطہ لگانے سے حاصل ہوتے ہيں

۶) جنگ کا مالِ غنيمت

٧) وہ زمين جو کافر ذمی مسلمان سے خریدے اور ان کے احکام مندرجہ ذیل مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

١۔ کمانے سے حاصل ہونے والا منافع

مسئلہ ١٧ ۶ ٩ جب بھی انسان تجارت، صنعت یا دوسرے پيشوں سے مال حاصل کرے چاہے مثال کے طور پر وہ کسی ميّت کے لئے انجام دئے گئے نماز اور روزے کی اجرت ہی کيوں نہ ہو اور وہ مال اس کے اور اس کے اہل وعيال کے سال بھر کے اخراجات کے بعد بچ جائے تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس یعنی پانچواں حصہ، بعد ميں بيان کئے جانے والے طریقے کے مطابق ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧٠ اگر کمائے بغير کوئی مال دستياب ہو مثلاًکوئی چيز اسے بخش دی جائے اور وہ چيز لوگوں کی نگاہوں ميں قابلِ توجہ قدر و قيمت کی حامل ہو تو ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات کے بعد اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧١ عورت کے مہر اور مردکو طلاقِ خلع کے عوض ملنے والے مال پر خمس نہيں ہے ۔

اسی طرح وارث کو ملنے والی ميراث پر بھی خمس نہيں ہے ۔ ہاں، اگر مثال کے طور پر کسی شخص سے رشتہ داری رکھتا ہو ليکن اس سے ميراث ملنے کا گمان نہ ہو تو ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہونے کی صورت ميں اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٧٢ اگر ایسے شخص کی ميراث سے انسان کو کچھ مال ملے جو خمس کا اعتقاد رکھتا ہو اور انسان جانتا ہو کہ مرحوم نے خمس ادا نہيں کيا تھا تو ضروری ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے اس مال کا خمس نکالے اور اگر خود اس مال پر خمس نہ ہو ليکن وارث جانتا ہو کہ مرحوم کے ذمے خمس واجب الادا ہے تو دوسرے قرضوں کی طرح خمس بھی اُس مال ميں آجائے گا کہ جب تک اسے ادا نہ کر دے مال ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا۔ البتہ جب مال سے خمس نکالنا چاہے تو ضروری ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے۔

۲۸۱

مسئلہ ١٧٧٣ اگر کفایت شعاری کی وجہ سے سال بھر کے اخراجات ميں سے کوئی چيز بچ جائے تو اس کا خمس نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧ ۴ جس شخص کے تمام اخراجات کوئی دوسرا شخص دیتا ہو ضروری ہے کہ حاصل ہونے والے تمام مال کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٧ ۵ اگر کسی جائيداد کو معين افراد پر مثلاًاپنی اولاد پر وقف کر دے اور اس جائيداد ميں کهيتی باڑی اور شجرکاری کرے اور اس سے کوئی چيز حاصل ہو جو ان کے سال بھر کے اخراجات سے زائد ہو تو ان پر اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی اور طریقے سے بھی اس جائيداد سے کوئی منافع حاصل کریں، مثلاًاس کا کرایہ وصول کریں تو ان پر سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧ ۶ جو مال فقير نے بطورِ خمس و زکات ليا ہو اگر سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر فقير اس لئے ہوئے مال سے کوئی منافع حاصل کرے مثلاًبطور خمس لئے ہوئے درخت سے پھل حاصل ہوں اور وہ اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور کسی سے بطور صدقہ ليا جانے والا مال بھی اگر سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٧٧ جس رقم کا خمس نہ دیا گيا ہو اگر عين اس رقم سے کوئی چيز خریدے یعنی فروخت کرنے والے سے کهے کہ ”یہ چيز ميں اس رقم سے خریدتا ہوں“، تو اگر حاکم شرع اس سودے کے پانچویں حصے کی اجازت دے دے تو سودا صحيح ہو گا اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس چيز کا خمس حاکم شرع کو دے اور اگر حاکم شرع اجازت نہ دے تو اس سودے کا پانچواں حصہ باطل ہے ۔ اب اگر وہ رقم جو بيچنے والے نے لی تھی تلف نہ ہوگئی ہو تو حاکمِ شرع اس رقم سے خمس لے گا اور اگر وہ رقم تلف ہو جائے تو فروخت کرنے والے یا خریدار سے اس کے عوض کا مطالبہ کرے گا۔

مسئلہ ١٧٧٨ اگر کسی چيز کو ذمے پر خریدے او ر سودا ہو جانے کے بعد اس کی قيمت ایسی رقم سے ادا کرے جس کا خمس نہ نکالا گيا ہو تو سودا صحيح ہے جب کہ خریدار اس رقم کے پانچویں حصے کی بہ نسبت فروخت کرنے والے کا مقروض ہو گا۔ ہاں، جو رقم فروخت کرنے والے کو ملی ہے اگر وہ تلف نہ ہو گئی ہو تو حاکم شرع اسی رقم سے خمس لے گا جب کہ تلف ہو جانے کی صورت ميں خریدار یا فروخت کرنے والے سے اس کے عوض کا مطالبہ کرے گا۔

۲۸۲

مسئلہ ١٧٧٩ اگر کوئی ایسا مال کہ جس کا خمس نہ دیا گيا ہو خریدے اور حاکم شرع اس چيز کے پانچویں حصے کے سودے کی اجازت نہ دے تو اتنی مقدار کا سودا باطل ہے اور حاکم شرع اس مال کا پانچواں حصہ لے سکتا ہے اور اگر اجازت دے دے تو سودا صحيح ہے اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس مال کے عوض کا پانچواں حصہ حاکم شرع کو دے اور اگر بيچنے والے کو دے چکا ہے تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٠ انسان کوئی ایسی چيز جس کا خمس نہ دیا گيا ہو، کسی کو بخش دے تو اس چيز کا پانچواں حصہ اس تک منتقل ہی نہيں ہو تا۔

مسئلہ ١٧٨١ اگر کافر یا کسی ایسے شخص سے جو خمس دینے کا عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی مال شيعہ اثنا عشری کے ہاتھ آئے تو اس کا خمس نکالنا واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٢ تاجر، کاروباری، صنعت کار اور ان جيسے افراد جس وقت سے منافع حاصل کریں، جو کہ ان کے سال کی ابتدا ہے ، ایک سال گزرنے کے بعد ضروری ہے کہ سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دیں۔ ہاں، جو شخص کا روباری نہ ہو اگر اتفاقاًاسے منافع مل جائے تو ضروری ہے کہ نفع حاصل ہونے کے ایک سال بعد سال بھر کے اخراجات سے زائد مقدار کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٨٣ سال بھر ميں جب بھی کوئی منفعت کسی شخص کے ہاتھ آئے جو اس کے اخراجات سے زیادہ ہو تو اس کا خمس اسی وقت دے سکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ سال کے آخر تک خمس کی ادائيگی ميں تاخيرکر دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ قمری سال کو خمس کا سال قرار دے۔

مسئلہ ١٧٨ ۴ جس شخص کا تاجر اور کاروباری شخص کی طرح خمس دینے کے لئے سال مقرر ہو، اگر کوئی منفعت حاصل کرے اور دوران سال اس کا انتقال ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کے مرنے کے وقت تک کے اخراجات کو اس منفعت سے نکال کر باقی مقدار کا خمس دیا جائے۔

مسئلہ ١٧٨ ۵ اگر تجارت کی غرض سے خریدی ہوئی چيز کی قيمت بڑھ جانے کے باوجود اسے فروخت نہ کرے اور سال مکمل ہونے سے پهلے ہی اس کی قيمت گر جائے تو قيمت کی بڑھی ہوئی مقدار کا خمس اس پر واجب نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١٧٨ ۶ اگر تجارت کی غرض سے خریدی ہوئی چيز کی قيمت بڑھ جائے اور سال مکمل ہونے کے بعد تک اس اميد پر اسے فروخت نہ کرے کہ ابهی قيمت اور بڑھے گی اور اس کی قيمت گرجائے توا گر اس نے تاجروں کے درميان رائج وقت تک ہی اس چيز کو رکھا ہو تو قيمت کی بڑھی ہوئی مقدار کا خمس واجب نہيں ہے ، ليکن اگر اس سے زیادہ مدت تک کسی عذر کے بغير اس چيز کو رکھا تھا تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے۔

۲۸۳

مسئلہ ١٧٨٧ اگر مال تجارت کے علاوہ کوئی دوسرا مال اس کے پاس ہو جس پر خمس نہ ہو تو یہ مال وراثت کے ذریعے ملنے کی صورت ميں اگر اس کی قيمت بڑھ جائے تو چاہے اسے بيچ بھی دے، بڑھی ہوئی قيمت کا خمس دینا واجب نہيں ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب عوض دئے بغير کسی چيز کا مالک بن جائے چاہے اس چيز پر شروع سے خمس نہ ہو مثلاًایسا گھر اسے بخش دیا گيا ہو جس کی اسے ضرورت بھی ہو اور سال کے خرچے ميں وہ گھر استعمال بھی ہوا ہو یا اس چيز پر خمس ہو ليکن اسی مال سے اس کا خمس بھی دیا جا چکا ہو، مثلاًحيازت کے ذریعے کسی چيز کا مالک بنا ہو اور اس کا خمس بھی دے چکا ہو۔

ليکن اگر عوض دے کر مالک بنا ہو اور اس کی قيمت بڑھ جائے تو جب تک اس چيز کو فروخت نہ کرے اس کا خمس نہيں ہے اور اگر فروخت کر دے تو اخراجات کا حصہ نہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے اور اخراجات کا حصہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ بڑھی ہوئی مقدار کا خمس دے اور دونوں صورتوں ميں اگر سال کے اخراجات ميں ہی ختم ہوجائے تو اس کا خمس نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٧٨٨ اگر کوئی شخص اس ارادے سے باغ لگائے کہ قيمت بڑھنے کے بعد اسے فروخت کر دے گا تو ضروری ہے کہ پهل، درختوں کی نشوونما اور باغ کی بڑھی ہوئی قيمت کا خمس دے اور اگر اس کا ارادہ یہ ہوکہ باغ کے پهلوں سے تجارت کرے گا تو ضروری ہے کہ پھل اور درخت کی نشوونما کا خمس دے اور اگر اس کا ارادہ ان پهلوں کو اپنے ذاتی استعمال ميں لانے کا ہو تو ضروری ہے کہ استفادے سے زیادہ ہونے کی صورت ميں پهلوں کا خمس دے۔

مسئلہ ١٧٨٩ اگر بيد، چنار یا ان جيسے درخت لگائے، اگر ان کا خمس دے چکا ہو تو ضروری ہے کہ ہر سال ان کے بڑھنے کا خمس دے۔ اسی طرح اگر درخت کی ان شاخوں سے کوئی منفعت حاصل کرے جو ہر سال کاٹی جاتی ہيں اور صرف ان شاخوں کی قيمت یا دوسری آمدنيوں کے ساته مل کر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ سال کے آخر ميں ان کا خمس ادا کرے۔ ہاں، اگر اصل درختوں کا خمس ہی نہ نکالا ہوا ہو اور وہ درخت بڑھے بھی ہوں تو ضروری ہے کہ اصل درخت کا خمس، اس خمس کے حصے کے بڑھے ہوئے حصے کا خمس اور اصل درخت کے بڑھے ہوئے حصے کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٧٩٠ جس شخص کی آمدنی کے متعدد ذرائع ہوں، مثلاًجائيداد کا کرایہ ليتا ہو، خرید و فروخت اور کهيتی باڑی بھی کرتا ہو، ضروری ہے کہ سال بھر کی کمائی کے بعد اخراجات سے زائد منافع کا خمس ادا کرے اور اگر ایک پيشے سے منافع حاصل ہو، جب کہ دوسرے پيشے سے نقصان ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ منافع کا خمس نکال دے۔

مسئلہ ١٧٩١ جو اخراجات انسان فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے ، مثلاًدلالوں اور سامان اٹھ انے والے مزدوروں کا خرچہ، یہ منفعت حاصل کرنے کا خرچہ حساب ہوگا اور اسے منفعت سے نکالا جاسکتا ہے اور اتنی مقدار کا خمس واجب نہيں ۔

۲۸۴

مسئلہ ١٧٩٢ آمدنی کا جو حصہ سال بھر ميں خوراک، لباس، گهریلوسامان، مکان کی خریداری، بيٹے کی شادی، بيٹی کے جهيز، زیارات اور ان جيسی چيزوں کے لئے خرچ ہوجائے، اگر اس کی حيثيت سے زیادہ نہ ہوں تو ان پر خمس واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٧٩٣ جو مال انسان نذر اور کفارے پر خرچ کرے وہ اس کے سالانہ اخراجات کا حصہ ہے ۔ اسی طرح وہ مال بھی جو انسان کسی کو تحفے یا انعام کے طور پر دے، اگر اس کی حيثيت سے زیادہ نہ ہو تو اس کے سالانہ اخراجات ميں شمار ہوگا۔

مسئلہ ١٧٩ ۴ اگر انسان کسی ایسے شہر ميں زندگی گزارتا ہو جهاں لڑکيوں کے جهيز کے لئے معمولاًہر سال کچھ نہ کچھ تيار کيا جاتا ہے ، اگر انسان اس طریقے کے بغير لڑکی کا جهيز تيار نہ کر سکتا ہو اور جهيز نہ دینا بھی اس کی حيثيت کے منافی ہو تو دوران سال اسی سال کی آمدنی سے جهيز خریدنے پر کوئی خمس واجب نہيں ، ليکن اگر اس سال کی منفعت سے اگلے سال ميں جهيز لے تو اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٩ ۵ جو مال انسان حج وزیارات کے لئے خرچ کرتا ہے وہ اسی سال کے اخراجات ميں شمار ہوتے ہيں جس سال خرچ کر رہاہے اور اگر اس کا سفر اگلے سال تک طولانی ہوجائے تو پچهلے سال کی جتنی آمدنی اگلے سال ميں خرچ کرے، اس کا خمس نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٧٩ ۶ جو شخص اپنے پيشے یا کاروبار سے منفعت حاصل کرے اور اس کے پاس کچھ ایسا مال بھی موجود ہو جس پر خمس واجب الادا نہ ہو تو وہ اپنے سال بھر کے اخراجات کا حساب صرف اپنی آمدنی سے کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٧٩٧ جو اشيائے خورد و نوش انسان نے اپنی آمدنی سے سال بھر کے خرچ کے لئے خریدی ہوں، اگر سال کے آخر ميں اس سے کچھ بچ جائے تواس کا خمس نکالنا ضروری ہے اور اگر اس کی قيمت خمس کے طور پر دینا چاہے تو خریداری کے وقت سے قيمت بڑھ جانے کی صورت ميں ضروری ہے کہ سال کے آخر ميں جو قيمت ہو اس کے حساب سے خمس دے۔

مسئلہ ١٧٩٨ اگر خمس کی ادائيگی سے پهلے کوئی شخص اپنی آمدنی سے گھر کے لئے کوئی سامان خریدے تو جس وقت اس سامان کی ضرورت باقی نہ رہے خمس واجب نہيں ۔ یهی حکم خواتين کے زیورات کے لئے ہے جب ان کے لئے ان زیورات کو زینت کے لئے استعمال کرنے کا وقت گزر چکا ہو۔

مسئلہ ١٧٩٩ اگر کسی سال کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتو اس سال کے اخراجات کو اگلے سا ل کی آمدنی سے نہيں نکالا جا سکتا۔

مسئلہ ١٨٠٠ اگر سال کی کی ابتدا ميں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور سرمایہ استعمال کرنا پڑجائے پھر سال مکمل ہونے سے پهلے فائدہ حاصل ہوجائے تو سرمائے سے اٹھ ائی ہوئی مقدار کو فائدے سے نہيں نکالا جاسکتا۔

۲۸۵

مسئلہ ١٨٠١ اگر تجارت یا اس جيسی چيزوں ميں سرمائے کی کچھ مقدار تلف ہو جائے تو تلف سے پهلے حاصل ہونے والے منافع سے اس مقدار کو نکال سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٢ اگر کسی شخص کی سرمائے کے علاوہ کوئی ملکيت تلف ہو جائے تو حاصل ہونے والے فائدے سے اسے مهيا نہيں کرسکتا، مگر یہ کہ اسی سال ميں اس چيز کی ضرورت ہو کہ اس صورت ميں دوران سال حاصل ہونے والی آمدنی سے اسے مهيا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٣ اگر سال کی ابتدا ميں اپنے اخراجات کے لئے قرضہ لے اور سال مکمل ہونے سے پهلے کوئی منفعت حاصل ہو جائے تو اس منفعت سے قرضے کی مقدار نہيں نکال سکتا، مگر یہ کہ منفعت حاصل ہونے کے بعد قرضہ ليا گيا ہو۔ البتہ وہ دوران سال حاصل ہونے والے فائدے سے اپنا قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۴ اگر پورے سال کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اخراجات کے لئے قرضہ لينا پڑے تو اگلے سال کی آمدنی سے اس قرضے کی مقدار کو نہيں نکال سکتا۔ ہاں، دوران سال کی آمدنی سے قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۵ اگر مال ميں اضافے یا ایسی جائيداد جس کی ضرورت نہ ہو، خریدنے کے لئے قرضہ لے، تو آمدنی سے اس قرضے کو ادا نہيں کر سکتا۔ ہاں، اگر قرض ليا ہوا مال یا اس قرض سے خریدی ہوئی چيز ضائع ہو جائے تو دوران سال کی آمدنی سے یہ قرضہ ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠ ۶ انسان ہر چيز کا خمس اسی چيز سے یا واجب مقدار ميں رائج کرنسی سے دے سکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت کے بغير کسی اور چيز سے خمس نہ دے۔

مسئلہ ١٨٠٧ جس شخص کے مال پر خمس واجب ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو جب تک وہ خمس ادا نہ کر دے حاکم شرع کی اجازت کے بغير اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا چاہے اس کا خمس دینے کا ارادہ ہی ہو۔ ہاں، اپنے حصے ميں اعتباری تصرفات جيسے فروخت کرنا، صلح کرنا وغيرہ کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٠٨ جس شخص پر خمس واجب ہو وہ یہ نہيں کر سکتا کہ خمس اپنے ذمے لے لے یعنی خود کو خمس کے مستحقين کا مقروض سمجھ لے اور پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ اعتبار سے اپنے مال ميں تصرف کرے اور اگر تصر ف کرے اور وہ مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨٠٩ جس شخص پر خمس واجب ہو اگر وہ حاکم شرع سے مصالحت کر کے خمس اپنے ذمے لے لے تو اپنے مال ميں تصرف کر سکتا ہے اور مصالحت کے بعد جو فائدہ بھی اس سے حاصل ہو گا وہ اسی کا ہو گا۔

۲۸۶

مسئلہ ١٨١٠ جو شخص کسی کے ساته شریک ہو اور اپنے حصے کے فائدے سے خمس دے دے، جب کہ اس کا شریک اپنے منافع کا خمس نہ دے اور اگلے سال خمس نہ دئے ہوئے مال سے شراکت کے لئے سرمایہ دے تو دونوں ميں سے کوئی بھی اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا، مگر یہ کہ خمس نہ دینے والا شریک خمس پر عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو تو اس صورت ميں دوسرا شریک اس مال ميں تصرف کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨١١ اگر نابالغ بچہ سرمائے کا مالک ہو اور اس سے فائدہ بھی حاصل ہو تو اس پر خمس واجب ہو جاتاہے اور ولی پر اس مال کا خمس نکالنا واجب ہے اور اگر ولی نہ دے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد ادا کرے۔

مسئلہ ١٨١٢ جس شخص کو کسی سے کوئی مال ملے اور اسے یقين ہو کہ اس نے اس مال کا خمس اد انہيں کيا ہے تو اس مال ميں تصرف نہيں کر سکتا، مگر یہ کہ وہ شخص خمس پر عقيدہ ہی نہ رکھتا ہو۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت ہے جب شک ہو کہ اس نے اس مال کا خمس دیاہے یا نہيں ۔

مسئلہ ١٨١٣ اگر کوئی شخص اپنی آمدنی سے دوران سال کوئی ایسی جائيداد یا ملکيت خریدے جو اس کی سالانہ ضرورت اور اخراجات ميں شمار نہ ہو تو سال مکمل ہونے پر اس کا خمس دینا واجب ہے اور اگر خمس نہ دے اور اس کی قيمت بڑھ جائے تو ضروری ہے کہ اس کی موجودہ قيمت کا خمس دے۔یهی حکم جائيداد کے علاوہ دوسری چيزوں مثلاًقالين وغيرہ کاہے۔

مسئلہ ١٨١ ۴ اگر خمس نہ نکالے ہوئے مال سے مثلاًکوئی جائيداد خریدے اور اس کی قيمت بڑھ جائے، تو اگر اس نے اس جائيداد کو قيمت بڑھ جانے پر بيچنے کے لئے نہ خریدا ہو مثلاًکسی زمين کو زراعت کے لئے خرید ا ہو تو اس صورت ميں کہ اس نے یہ ملکيت اپنے ذمے پر خریدی ہو اور خمس نہ نکالے ہوئے مال سے اس کی قيمت ادا کی ہو، ضروری ہے کہ خریدی ہوئی قيمت سے اس کا خمس اد اکرے، ليکن اگر خمس نہ نکالی ہوئی رقم بيچنے والے کو یہ کہہ کر دی ہوکہ جائيداد ميں اس مال سے خرید رہا ہوں، تو حاکم شرع کے اس سودے کے پانچویں حصے کی اجازت دینے کی صورت ميں ضروری ہے کہ خریدا ر اس جائيداد کی موجودہ قيمت کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨١ ۵ جس شخص نے مکلف ہونے کے بعد شروع سے خمس نہ دیا ہو اگر اس نے اپنے کاروبار کے منافع سے کوئی ایسی چيز خریدی ہو جس کی اسے ضرورت نہ ہو اور اسے منفعت کمائے ایک سال گزر گيا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر اس نے گھر کا سازوسامان اور ضرورت کی چيزیں اپنی حيثيت کے مطابق خریدی ہوں اور جانتا ہو کہ اس نے یہ چيزیں سال کے دوران ہونے والے منافع سے خریدی ہيں جس سال ميں اسے فائدہ ہوا ہے تو ان پر خمس دینا ضروری نہيں ہے ، ليکن اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے یہ چيزیں سال کے دوران خریدی ہيں یا سال ختم ہونے کے بعد تو احتياط واجب کی بنا پر حاکم شرع سے مصالحت کرے۔

۲۸۷

٢۔ معدنی کانيں

مسئلہ ١٨١ ۶ اگر کوئی شخص سونے، چاندی، سيسے، تانبے، لوهے، پيٹروليم، کوئلے، فيروزے، عقيق، پهٹکری، نمک اور دوسری معدنی کانوں سے کوئی چيز نکالے اور وہ چيز نصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨١٧ کان سے نکلی ہوئی چيز کا نصاب ١ ۵ مثقال رائج سکہ دار سونا ہے ۔ یعنی اگر کان سے نکالی ہوئی کسی چيز کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس پر جو اخراجات آئے ہوں انہيں نکال کر جو باقی بچے اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨١٨ اگر کان سے نکالی ہوئی چيز کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک نہ پهنچے تو اس پر خمس دینا اس صورت ميں ضروری ہے کہ جب صرف یہ منفعت یا اس کے دوسرے کاروباری منافع سے اس منفعت کو ملاکر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔

مسئلہ ١٨١٩ چونا، جپسم، چکنی مٹی اور سرخ مٹی پر معدنی چيزوں کے حکم کا اطلاق نہيں ہوتا اور انہيں باہر نکالنے والے پر اس صورت ميں خمس دینا ضروری ہے جب صرف یہ یا اس کے دوسرے کاروباری منافع سے اس منفعت کو ملاکر، اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے۔

مسئلہ ١٨٢٠ جو شخص کان سے کوئی چيز نکالے تو ضروری ہے کہ خمس دے، خواہ وہ کان زمين کے اوپر ہو یا زمين کے اندر اور خواہ ایسی زمين ميں ہو جو اس کی ملکيت ہو یا ایسی زمين ميں ہو جس کا کوئی مالک نہ ہو۔

مسئلہ ١٨٢١ اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ جو چيز اس نے کان سے نکالی ہے اس کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے کے برابر ہے یا نہيں تو احتياط کی بنا پر اگر ممکن ہو تو وزن کر کے یا کسی اور طریقے سے اس کی قيمت معلوم کرے اور ممکن نہ ہونے کی صورت ميں اس پر خمس نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨٢٢ اگر کئی افراد مل کر کان سے کوئی چيز نکاليں اور اس کی قيمت ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے اگرچہ ان ميں سے ہر ایک کا حصہ اس مقدار سے کم ہو پھر بھی احتياط کی بنا پر ضروری ہے کہ اس پر کيا ہوا خرچہ نکالنے کے بعد اس کا خمس دیں۔

مسئلہ ١٨٢٣ اگر کوئی شخص معدنی چيز کو اس زمين سے جو دوسرے کی ملکيت ميں ہو، مالک کی اجازت کے بغير نکالے تو جو چيز نکالی جائے وہ اسی مالک کی ہے اور اگر نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ جو چيز نکالی گئی ہو، مالک اس پوری چيز کا خمس دے۔

۲۸۸

٣۔ دفينہ

مسئلہ ١٨٢ ۴ وہ مال جو زمين، درخت، پهاڑ یا دیوار ميں چھپا ہوا ہو اور کوئی اسے وہاں سے نکالے اور اس کی صورت یہ ہو کہ لوگ اسے دفينہ کہيں ۔ تو وہ اگر نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢ ۵ اگر انسان کو کسی ایسی زمين سے دفينہ ملے جو کسی کی ملکيت نہ ہو تو وہ اس کا اپنا مال ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢ ۶ دفينے کا نصاب، اگر چاندی ہو تو ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی اور اگر سونا ہو تو ١ ۵

مثقال سکہ دار سونا ہے ۔ یعنی ان دو ميں سے جو چيز ملے اگر اس کی قيمت حدنصاب کے مطابق ہو تو ضروری ہے کہ اس پر جو اخراجات آئے ہوں انہيں نکالنے کے بعد ان کا خمس دے اور اگر سونے اور چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اگرچہ ان دو کی حد تک نہ پهنچے ضروری ہے کہ اخراجات نکالنے کے بعد اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٧ اگر کسی شخص کو ایسی زمين سے دفينہ ملے جو اس نے کسی اور سے خریدی ہو اور اسے معلوم ہو کہ یہ ان لوگوں کا مال نہيں ہے جو اس سے پهلے اس زمين کے مالک تهے تو وہ خود اس کا ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔ ليکن اگر احتمال دے کہ سابقہ مالکوں ميں سے کسی ایک کا مال ہے تو احتياط کی بنا پر اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ اس کا مال نہيں ہے تو جو اس سے پهلے زمين کا مالک تھا اسے اطلاع دے اور اسی ترتيب سے ان سب کو اطلاع دے جو اس سے پهلے زمين کے مالک تهے اور اگر معلوم ہو جائے کہ ان ميں سے کسی کا مال نہيں ہے تو وہ مال خود اس کا ہو جائے گا اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٨ اگر کسی شخص کو ایسے کئی برتنوں سے مال ملے جو ایک جگہ دفن ہوں اور اس مال کی مجموعی قيمت چاندی ميں ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی یا سونے ميں ١ ۵ مثقال سکہ دار سونا ہو تو ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے، ليکن اگر مختلف مقامات سے دفينے مليں تو ان ميں سے جس دفينے کی قيمت مذکورہ مقدار تک پهنچ جائے ضروری ہے کہ اس مال کا خمس دے اور جس دفينے کی قيمت مذکورہ مقدار تک نہ پهنچے اس پر خمس نہيں ہے ۔ ہاں، اگر دفينہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز ہو تو دونوں صورتوں ميں احتياط واجب کی بنا پر نصاب کو ملاحظہ کئے بغير اس مال کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨٢٩ جب کسی دو افراد کو ایسا دفينہ ملے جو سونا یا چاندی ہو، اگر اس کی قيمت چاندی ميں ١٠ ۵ مثقال سکہ دار چاندی یا سونے ميں ١ ۵ مثقال سکہ دار سونے تک پهنچ جائے خواہ ان ميں سے ہر ایک کا حصّہ اس مقدار جتنا نہ ہو احتياطِ واجب کی بنا پر اس کا خمس دیں۔ اسی طرح جب وہ دفينہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی اور چيز ہو تو اگرچہ نصاب تک نہ پهنچے اس کا خمس دینا ضروری ہے ۔

۲۸۹

مسئلہ ١٨٣٠ اگر کوئی شخص جانور خریدے اور اس کے پيٹ سے اسے کوئی مال ملے تو اگر وہ جانور، بيچنے والے کا پالتوهو مثلاً مچهلياں جنہيں پالا جاتا ہے یا جانور جنہيں گھر یا باغ ميں چارہ دیا جاتا ہے تو واجب ہے کہ بيچنے والے کو اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ وہ مال اس کا نہيں ہے تو یہ مال خریدار کا ہوگا اور اگر اس کے سال کے مخارج ميں خرچ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اس صورت کے علاوہ مثلاً مچھلی جسے شکاری نے سمندرسے شکار کيا ہو یا جانور جسے صحرا سے شکار کيا گيا ہو اگر احتمالِ عقلائی ہو کہ بيچنے والے کا مال ہے تو احتياطِ واجب کی بنا پر اسے اطلاع دے اور اگر معلوم ہو کہ اس کا مال نہيں ہے تو یہ مال خریدار کا ہو گا اور اگر اس کے سال کے مخارج ميں خرچ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

۴ ۔حلال مال جو حرام مال ميں مخلوط ہو جائے

مسئلہ ١٨٣١ اگر حلال مال، حرام مال کے ساته اس طرح مل جائے کہ انسان انہيں ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے اور حرام مال کے مالک اور اس مال کی مقدار کا بھی علم نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ حرام مال کی مقدار خمس سے کم ہے یا زیادہ تو تمام مال کا خمس دینا ضروری ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اس خمس کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی نيت سے، خمس اور صدقہ کی نيت کے بغير، ایسی جگہ استعمال کرے جهاں خمس اور صدقہ استعمال کيا جاتا ہے اور خمس دینے کے بعد باقی مال حلال ہے ۔

مسئلہ ١٨٣٢ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور انسان حرام کی مقدار جانتا ہو ليکن اس کے مالک کو جستجو کے بعد بھی نہ پہچانے تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار اس مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے بھی اجازت لے۔

مسئلہ ١٨٣٣ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور انسان حرام کی مقدار نہ جانتا ہو ليکن اس کے مالک کو پہچانتا ہو، تو اس صورت ميں کہ ان دو مالوں کا ملناآپس ميں شراکت کا باعث بن جائے، مثلاً حلال گهی حرام گهی کے ساته مل جائے، تو ایک دوسرے کو راضی کرلينے کی صورت ميں جس بات پر راضی ہوجائيں، وهی معّين ہو جائے گی، ليکن اگر ایک دوسرے کو راضی نہ کر سکيں تو جس مقدار کا یقين ہے کہ وہ دوسرے کی ہے ضروری ہے کہ وہ مقدار اسے دے دے ۔

اور جب دو مالوں کا ملنا شراکت کا باعث نہ ہو مثلاً وہ کوئی ایسا مال ہو جس کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا ہوں تو ضروری ہے مقدار کے اعتبار سے جس مقدار کا یقين ہے اتنی مقدار اسے دے اور خصوصيت کے اعتبار سے قرعہ اندازی کے ذریعے طے کریں۔ ہاں، دونوں صورتوں ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ جس مقدار کا احتمال دے کہ اس کی ہے ، اس سے زیادہ مقدار ميں دے۔

۲۹۰

مسئلہ ١٨٣ ۴ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے اور بعد ميں اسے پتہ چلے کہ حرام کی مقدار خمس سے زیادہ تھی اور معلوم ہو جائے کہ کتنا زیادہ تھی تو ضروری ہے اسے اس کے مالک کی طرف سے اور احتياطِ واجب کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے صدقہ دے اور اگر مقدار معلوم نہ ہو تو پهلا خمس دینے کے بعد باقی بچنے والے مال ميں مسئلہ ” ١٨٣١ “ کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ١٨٣ ۵ اگر کوئی شخص حرام سے مخلوط حلال مال کا خمس دے دے یا ایسا مال جس کے مالک کو نہ پہچانتا ہو، مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے اور بعد ميں اس کا مالک مل جائے تو اسے کوئی چيز دینا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ١٨٣ ۶ اگر حلال مال، حرام مال سے مل جائے اور حرام کی مقدار معلوم ہو اور انسان جانتا ہو کہ اس کا مالک چند معلوم لوگوں ميں سے ہی کوئی ایک ہے ليکن یہ نہ جان سکے کہ کون ہے تو امکان کی صورت ميں احتياطِ واجب کی بنا پر سب کو راضی کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ مالک کا تعين قرعہ اندازی کے ذریعہ ہو۔

۵ ۔غوطہ خوری کے ذريعے حاصل ہونے والے موتی

مسئلہ ١٨٣٧ اگرغوطہ خوری کے ذریعے یعنی سمندر ميں غوطہ لگاکرموتی اور مرجان یا دوسرے جواہرات نکالے جائيں، خواہ وہ اگنے والی چيزوں سے ہوں یا معدنيات ميں سے، اگر ان کی قيمت ١٨ سکہ دار سونے کے چنوں کے برابر ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دیا جائے، اگرچہ اس پر خرچ ہونے والے اخراجات کو نکالنے کے بعد خمس دینا ہوگا۔ خواہ انہيں ایک دفعہ ميں سمندر سے نکالا گيا ہو یاایک سے زیادہ دفعہ ميں اس طرح سے کہ عرف عام ميں اسے ایک غوطہ کها جاتا ہو اور خواہ باہر نکالی جانے والی چيز ایک جنس ہو یا چند اجناس ہوں، ایک غوطہ خور باہر لایا ہو یا احتياطِ واجب کی بنا پر چند غوطہ خور باہر لائے ہوں۔

مسئلہ ١٨٣٨ اگر سمندر ميں غوطہ لگائے بغير دوسرے ذرائع سے جواہر و موتی نکالے جائيں تو احتياط کی بنا پر سابقہ مسئلے ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اس پر خمس واجب ہے ، ليکن اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے موتی حاصل کرے تو ان کا خمس اس صورت ميں دینا ضروری ہے کہ جب حاصل شدہ موتی تنها یا اس کے کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوں۔

مسئلہ ١٨٣٩ مچهليوں اور ان جيسے دوسرے جانوروں کا خمس جنہيں انسان سمندر سے حاصل کرتا ہے اس صورت ميں واجب ہوتا ہے جب ان چيزوں سے حاصل کردہ منافع تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہوجائيں۔

۲۹۱

مسئلہ ١٨ ۴ ٠ اگر انسان کسی چيز کے نکالنے کا ارادہ کئے بغير سمندر ميں غوطہ لگائے اور اتفاق سے کوئی موتی اس کے ہاتھ لگ جائے اور وہ اسے اپنی ملکيت ميں لينے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے بلکہ احتياطِ واجب یہ ہے کہ ہر حال ميں اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ١ اگر انسان سمندر ميں غوطہ لگائے اور کوئی جانور نکال لائے اور اس کے پيٹ ميں سے اسے کوئی موتی ملے جس کی قيمت ١٨ مسکوک سونے کے چنوں کی قيمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، اگر وہ جانور سيپی کی مانند ہو جس کے پيٹ ميں عموماً موتی ہوتے ہيں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر کوئی ایسا جانور ہو جس نے اتفاقاً موتی نگل ليا ہو تو اس کا خمس اسی صورت ميں واجب ہوتا ہے جب اس سے حاصل کردہ فائدہ تنها یا کاروبار کے دوسرے منافع سے مل کر اس کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٢ اگر کوئی شخص بڑے دریاؤں ميں غوطہ لگائے اور موتی نکال لائے تو اگر اس دریا ميں موتی پيدا ہوتے ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٣ اگر کوئی شخص پانی ميں غوطہ لگائے اور کچھ عنبر نکال لائے جس کی قيمت ١٨

سکہ دار سونے کے چنوں کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کا خمس دے اور اگر پانی کی سطح یا سمندر کے کنارے سے ملے ہوں، تو اگرچہ ان کی قيمت ١٨ سونے کے چنوں سے کم ہو احتياط کی بنا پر اس کا خمس دینا واجب ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴۴ جس شخص کا پيشہ غوطہ خوری، دفينہ نکالنا یا کان کنی ہو، اگر وہ ان کا خمس ادا کر دے اور پھر اس کے سال بھر کے اخراجات سے کچھ بچ جائے تو دوبارہ خمس دینا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴۵ اگر بچہ کوئی معدنی چيز نکالے یا اس کے پاس حلال مال ميں حرام مال ملا ہو یا اسے کوئی دفينہ مل جائے یا سمندر ميں غوطہ لگاکر موتی نکال لائے تو ضروری ہے کہ بچے کا ولی اس کا خمس دے اور اگر ولی خمس ادا نہ کرے تو ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد خود خمس ادا کرے۔

۶ ۔مال غنيمت

مسئلہ ١٨ ۴۶ اگر مسلمان امام عليہ السلام کے حکم سے کفار سے جنگ کریں اور کچھ چيزیں جنگ ميں ان کے ہاتھ لگيں تو انہيں غنيمت کها جاتا ہے ۔ ان ميں منتقل ہونے والی چيزوں ميں سے اس مال کی حفاظت یا حمل و نقل وغيرہ کے مصارف، جو کچھ امام عليہ السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کریں اور جو مال، خاص امام عليہ السلام کا حق ہے ، ضروری ہے کہ ان (تين چيزوں) کو عليحدہ کرنے کے بعد باقی ماندہ کا خمس ادا کيا جائے اور اگر امام عليہ السلام کی اجازت کے بغير جنگ کریں اور غنيمت ان کے ہاتھ

۲۹۲

لگے، تو اگر امام عليہ السلام کے ہوتے ہوئے ہو تو سارا مال امام عليہ السلام کا ہے اور اگر زمانہ غيبت ميں ہو تو اخراجات نکالنے کے بعداحتياط کی بنا پر اس کا خمس ادا کریں۔

٧۔ وہ زمين جو کافر ذمی کسی مسلمان سے خريدے

مسئلہ ١٨ ۴ ٧ اگر کافر ذمی مسلمان سے زمين خریدے تو ضروری ہے کہ وہ کافر اس کا خمس اسی زمين سے یا اپنے دوسرے مال سے مسئلہ ” ١٨٠ ۶ “ ميں ذکر شدہ بيان کے مطابق دے، اگرچہ اس زمين پر عمارت وغيرہ تعمير ہو مثلاً گھر اور دکان کی زمين۔ اسی طرح اگر سودا گھر ، دکان یا ان جيسی کسی چيز کا ہو تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔ یہ خمس ادا کرنے کے لئے قصد قربت ضروری نہيں ہے بلکہ حاکم شرع کے لئے بهی، جو اس سے خمس ليتا ہے ، قصد قربت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٨ اگر کافر ذمی مسلمان سے خریدی ہوئی زمين کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھوں فروخت کر دے توکافر کی گردن سے خمس ساقط نہيں ہوتا۔یهی حکم اس وقت ہے جب کافر مرجائے اور وہ زمين کسی مسلمان کو بطورِ ميراث ملے۔

مسئلہ ١٨ ۴ ٩ اگر کافر ذمی زمين خریدتے وقت شرط کرے کہ خمس نہ دے یا شرط کرے کہ بيچنے والا خمس دے تو اس کی یہ شرط فاسد ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خمس دے۔هاں، اگر شرط کرے کہ بيچنے والا، اس کی طرف سے خمس کی مقدار، خمس کے مالکوں تک پهنچائے توبيچنے والے پر واجب ہے کہ شرط پر عمل کرے ليکن جب تک بيچنے والا خمس ادا نہ کردے،ذمی خریدار سے ساقط نہيں ہوتا۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٠ اگر مسلمان زمين کوخرید و فروخت کے بغير کافر ذمی کی ملکيت بنائے اور اس کا عوض لے مثلاً اس کے ساته مصالحت کرے، تب بھی ضروری ہے کہ کافر ذمی اس کا خمس ادا کرے۔

مسئلہ ١٨ ۵ ١ اگر کافر ذمی نابالغ ہو اور اس کا ولی اس کے لئے زمين خریدے، اس پر بھی خمس واجب ہے ۔

خمس کا استعمال

مسئلہ ١٨ ۵ ٢ ضروری ہے کہ خمس دو حصّوں ميں تقسيم کيا جائے۔ اس کا ایک حصّہ سادات کا حق ہے جو ضروری ہے کہ یاکسی یتيم و فقير سيد کے ولی کو دیا جائے تاکہ اس کے اخراجات ميں صرف کرے یا کسی فقير سيد کو یا کسی ایسے سيد کوجو سفر ميں ناچار ہوگيا ہو، دیا جائے اور احتياط واجب یہ ہے کہ سهم سادات، عادل فقيہ کی اجازت سے دیا جائے۔ جبکہ خمس کا دوسرا حصّہ امام عليہ السلام کا ہے جو موجودہ زمانے ميں ضروری ہے کہ اس کے مصارف کی معرفت رکھنے والے عادل فقيہ کو دیا جائے یا کسی ایسی جگہ استعمال کيا جائے جهاں خرچ کرنے کی وہ اجازت دے اور احتياط کی بنا پر اس فقيہ عادل کا اعلم ہونا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٣ جس یتيم سيد کو خمس دیا جائے ضروری ہے کہ وہ فقير ہو، ليکن جو سيد سفر ميں ناچار ہو جائے خواہ وہ اپنے وطن ميں فقير نہ بھی ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ۔

۲۹۳

مسئلہ ١٨ ۵۴ جو سيد سفر ميں ناچار ہوگيا ہو اگر اس کا سفر گناہ کا سفر ہو تو اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵۵ جو سيد عادل نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ليکن جو سيد اثناعشری نہ ہو اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵۶ جو سيد گناہکار ہو اگر اسے خمس دینے سے گناہ کرنے ميں اس کی مدد ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے خمس نہ دیا جائے اور جو سيد اعلانيہ گناہ کرتا ہو اگرچہ اسے خمس دینے سے گناہ کرنے ميں اس کی مدد نہ ہوتی ہو احتياطِ واجب کی بنا پر اسے خمس نہيں دیا جاسکتا۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٧ جو شخص کهے کہ ميں سيد ہوں اسے خمس نہيں دیا جا سکتا، مگر یہ کہ دو عادل اس کے سيد ہونے کی تصدیق کردیں یا لوگوں کے درميان اس طرح مشهور ہو کہ انسان کو اس کے سيد ہونے کا یقين یا اطمينان ہو جائے اور بعيد نہيں ہے کہ کسی کا سيد ہونا ایک قابل اعتماد شخص کی بات سے بھی ثابت ہو جائے جب کہ اس کی کهی ہوئی بات کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٨ جو شخص اپنے شہر ميں سيد مشهور ہو اگرچہ انسان کو اس کے سيد ہونے کا یقين یا اطمينان نہ ہو اسے خمس دیا جاسکتا ہے ، بشرطيکہ اس کے برخلاف بات کا گمان نہ ہو۔

مسئلہ ١٨ ۵ ٩ اگر کسی شخص کی بيوی سيدانی ہو تو وہ اسے اپنے اخراجات پر صرف کرنے کے لئے خمس نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر کچھ اور لوگوں کی کفالت اس کی بيوی پر واجب ہو اور وہ ان کے اخراجات نہ دے سکتی ہو تو انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی بيوی کو خمس دے تاکہ وہ زیر کفالت افراد پر خرچ کرے۔ اسی طرح اپنی سيدانی بيوی کو واجب نفقہ کے علاوہ دوسرے اخراجات پر صرف کرنے کے لئے بھی خمس دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٠ اگر انسان پر کسی سيد یا ایسی سيدانی کے اخراجات واجب ہوں جو اس کی بيوی نہ ہو، تو وہ خوراک، پوشاک اور باقی واجب اخراجات اپنے خمس سے نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر خمس کی کچھ رقم اس غرض سے دے کہ وہ غير واجب اخراجات پر خرچ کریں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ١ جس فقير سيد کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب ہوں اور وہ اس سيد کے اخراجات نہ دے سکتا ہو یا دینے کی طاقت رکھتا ہو اور نہ دیتا ہو تو اس سيد کو خمس دیا جاسکتا ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٢ احتياطِ واجب یہ ہے کہ کسی ایک فقير سيد کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس نہ دیا جائے۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٣ اگر کسی شخص کے شہر ميں کوئی مستحق سيد نہ ہو اور اسے یقين یا اطمينان ہو کہ بعد ميں بھی نہيں ملے گا یا مستحق سيد کے ملنے تک خمس کی حفاظت کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ خمس دوسرے شہر لے جائے اور مستحق کو پهنچا دے اور خمس دوسرے شہر لے جانے کے اخراجات خمس ميں سے لے سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ یہ اخراجات حاکم شرع کی اجازت

۲۹۴

سے لے اور خمس تلف ہو جانے کی صورت ميں اگر اس کی نگهداشت ميں کوتاہی برتی ہو تو ضامن ہے اور اگر کوتاہی نہ برتی ہو تو ضامن نہيں ۔

مسئلہ ١٨ ۶۴ اگر کسی شخص کے شہر ميں کوئی مستحق سيد نہ ہو تو اگرچہ اسے یقين یا اطمينان ہو کہ بعد ميں مل جائے گا اور اس مستحق کے ملنے تک خمس کی حفاظت کرنا بھی ممکن ہو تب بھی وہ خمس دوسرے شہر لے جاسکتا ہے اور اگر وہ خمس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ برتے اور وہ تلف ہو جائے تو ضامن نہيں ، ليکن وہ خمس دوسری جگہ لے جانے کے اخراجات خمس ميں سے نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ١٨ ۶۵ اگر کسی شخص کے اپنے شہر ميں خمس کا مستحق مل جائے تو اس صورت ميں اسے بھی دوسرے شہر لے جایا جا سکتا ہے کہ اسے خمس دینے ميں سستی نہ کها جاسکے، اور مستحق کو پهنچائے ليکن ضروری ہے کہ اسے لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے اور اس صورت ميں اگر خمس تلف ہو جائے تو اگرچہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ برتی ہو وہ اس کا ضامن ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶۶ اگر کوئی شخص حاکم شرع کی اجازت سے خمس دوسرے شہر لے جائے اور تلف ہو جائے تو وہ ذمہ دار نہيں ہے ۔ اسی طرح اگر حاکم شرع کے وکيل یا کسی ایسے فرد کو دے دے جسے حاکم شرع نے خمس وصول کرنے کی اجازت دی ہواور وہ خمس کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٧ جيسا کہ مسئلہ ” ١٨٠ ۶ “ ميں بتایا گيا ہے کہ حاکم شرع کی اجازت کے بغير رائج کرنسی کے علاوہ کوئی دوسری جنس خمس کے بدلے دینا احتياطِ واجب کی بنا پر جائز نہيں ہے اور جائز ہونے کی صورت ميں مثلاً حاکم شرع اجازت دے دے، جائز نہيں ہے کہ کسی چيز کی قيمت اس کی اصل قيمت سے زیادہ لگا کر اسے بطور خمس دیا جائے، اگرچہ مستحق اس قيمت پر راضی ہو۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٨ جس شخص کو خمس کے مستحق سے کچھ لينا ہو احتياط کی بنا پر اپنا قرضہ خمس کی رقم سے حساب نہيں کرسکتا ليکن ایساکرسکتا ہے کہ اس مستحق کو خمس دے دے اور بعد ميں وہ مستحق اپنا قرضہ اسے چکا دے۔ یہ بھی کيا جا سکتا ہے کہ مستحق سے وکالت لے کر خود اس کی طرف سے خمس وصول کرے اور پھر اپنا قرض اس سے حساب کر لے۔

مسئلہ ١٨ ۶ ٩ مستحق خمس لے کر واپس مالک کو نہيں بخش سکتا جب کہ واپس بخشنے سے حق امام عليہ السلام اور حق سادات ضائع ہو رہا ہو۔هاں، اس صورت کے علاوہ واپس بخش دینے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، مثلاً جس شخص کے ذمے خمس کی زیادہ رقم واجب ہو اور وہ فقير ہوگيا ہو اور چاہتا ہو کہ خمس کے مستحق لوگوں کا مقروض نہ رہے تو اگر خمس کا مستحق راضی ہو جائے کہ اس سے خمس لے کر اسی کو بخش دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

۲۹۵

زکات کے احکام

مسئلہ ١٨٧٠ زکات نو چيزو ں پر واجب ہے :

(١) گيہوں

(٢) جو

(٣) کھجور

( ۴) کشمش

( ۵) سونا

( ۶) چاندی

(٧) اونٹ

(٨) گائے

(٩) بھيڑ اور جو شخص ان نو چيزوںميں سے کسی ایک کا مالک ہو تو ضروری ہے کہ بعد ميں بيان کی جانے والی شرائط کے مطابق مقررہ مقدار کو کسی ایسے مقام پر خرچ کرے کہ جن کا حکم دیا گيا ہے ۔

مسئلہ ١٨٧١ ”سلت-“جو ایک ایسا دانہ ہے کہ نرمی ميں گيہوںکی طرح ہوتا ہے اور جوَکی خاصيت رکھتا ہے اور ”علس“ جو گيہوں کی طرح ہوتا ہے ،احتياط مستحب ہے کہ ان کی زکات دی جائے۔

زکات واجب ہونے کے شرائط

مسئلہ ١٨٧٢ زکات اس صورت ميں واجب ہوتی ہے کہ جب مال مقررہ نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے،جس کا تذکرہ بعد ميں آئے گا اور اس کا مالک بالغ،عاقل اور آزاد ہو اور اپنے مال ميں تصرف کر سکتا ہو۔

مسئلہ ١٨٧٣ اگر انسان گيارہ مهينے گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک ہو تو ضروری ہے کہ بارہویں مهينے کی پهلی تاریخ کو اس کی زکات ادا کرے ليکن اگلے سال کی ابتدا کا حساب بارہواں مهينہ ختم ہونے کے بعد کرے۔

مسئلہ ١٨٧ ۴ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک سال کے دوران بالغ ہو جائے مثلاًکوئی بچہ محرم کی پهلی کو چاليس بھيڑوں کا مالک بنے اور دو مهينے گزرنے کے بعد بالغ ہو جائے تو محرم کی پهلی سے گيارہ مهينے گزرنے کے بعداس پرکوئی زکات واجب نہيں بلکہ بالغ ہونے کے گيارہ ماہ گزرنے کے بعد اس پر زکات واجب ہو گی،ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ محرم کی پهلی سے گيارہ مهينے گزرنے کے بعد اگر زکات کی باقی شرائط موجود ہوں تو ان کی زکات ادا کرے۔

۲۹۶

مسئلہ ١٨٧ ۵ گندم اور جوَ کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب انہيں گندم اور جوَ کها جا سکے اور کشمش کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب انہيں انگور کها جاسکے اور کھجور کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب عرب انہيں ”تمر“ (کھجور) کہيں ۔ گندم اور جوَ ميں زکات دینے کا وقت وہ ہے جب دانے کو بهوسے سے الگ کيا جائے اور کھجور اور کشمش ميں اس وقت ہے کہ جب وہ خشک ہو گئے ہوں اور اگر زکات ادا کرنے ميں اس وقت سے، بغير کسی سبب کے، تاخير کرے جب کہ مستحق بھی موجودهو تو وہ ضامن ہو گا۔

مسئلہ ١٨٧ ۶ گندم،جوَ،کشمش اور کھجور کی زکات واجب ہونے کے وقت،کہ جس کا تذکرہ پچهلے مسئلے ميں کيا گيا،اگر ان کا مالک بالغ،عاقل،آزاد اور اپنے مال ميں تصرف کرنے ميں صا حب اختيار ہو تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے،اگرچہ اس وقت سے پهلے تمام یا کچھ شرائط نہ رکھتا ہو اور اگر اس وقت کوئی ایک بھی شرط نہ ہو تو زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٧٧ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک پورے سال یا اس کے کچھ حصہ ميں دیوانہ رہا ہو تو اس پر زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٧٨ اگر گائے،بھيڑ،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک سال کے کچھ حصے ميں نشہ ميں یا بے ہوش رہا ہو تو اس پرسے زکات ساقط نہيں ہو گی۔ یهی حکم اس وقت ہے کہ جب گندم، جو،کھجور اورکشمش کی زکات واجب ہونے کے وقت وہ بے ہوش ہو۔

مسئلہ ١٨٧٩ جس مال کو انسان سے غصب کر ليا گيا ہو اور وہ اس ميں تصرف نہ کر سکتا ہو اس ميں زکات نہيں ، ليکن اگر غصب شدہ مال گندم یا جوَ کی زراعت،کھجور کا درخت یا انگور کی بيل ہو اور زکات واجب ہونے کے وقت غاصب کے ہاتھ ميں ہو تو جس وقت بھی مالک کو یہ مال مل جائے احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ زکات دے۔

مسئلہ ١٨٨٠ اگر سونا،چاندی یا کوئی دوسری چيز جس پر زکات واجب ہے ، قرض کے طور پر لے اور وہ ایک سال اس کے پاس رہے تو ضروری ہے کہ قرض لينے والا اس کی زکات دے،جب کہ قرض دینے والے پر زکات واجب نہيں ۔

گندم،جو،کھجور اورکشمش کی زکات

مسئلہ ١٨٨١ گندم،جو،کھجور اور کشمش کی زکات اس وقت واجب ہوتی ہے کہ جب وہ نصاب کی مقدار تک پهنچ جائيں اور ان کا نصاب ٣٠٠ صاع ہے اور ہر صاع ٢ ۵ ء ۶ ١ ۴ مثقال صيرفی ہے کہ جو تقریباً ٨ ۴ ٧ کلو گرام ہوتا ہے ۔

مسئلہ ١٨٨٢ جس انگور،کھجور،جو اور گندم پر زکات واجب ہو گئی ہو، اگر ان ميں سے زکات دینے سے پهلے خود مالک یا اس کے اہل و عيال کهائيں یا فقير کو زکات کے علاوہ کسی اور نيت سے دے تو استعمال شدہ مقدار کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۲۹۷

مسئلہ ١٨٨٣ اگر گندم،جو، کھجور اور انگور کی زکات واجب ہونے کے بعد اس کا مالک مرجائے تو ضروری ہے کہ زکات کی مقدار کو اس کے مال سے دیاجائے،ليکن اگر زکات کے واجب ہونے سے پهلے مر جائے تو ورثاء ميں سے جس وارث کاحصہ نصاب تک پهنچ جائے اس کے لئے اپنے حصے کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٨ ۴ جو شخص حاکم شرع کی جانب سے زکات کی جمع آوری پر مامور ہو وہ خرمن بنانے کے موقع پر، جب گندم اور جو کو بهوسے سے الگ کيا جاتاہے ، ا سی طرح تازہ کھجور کے خشک ہونے کے بعد اور انگور کے کشمش ہونے کے بعد زکات کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر مالک نہ دے اور جس چيز پر زکات واجب ہو گئی ہو وہ تلف ہو جائے تو اس کا عوض دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٨ ۵ اگر کھجور کے درخت،انگور کی بيل یا گندم اور جو کی زراعت پر ان کا مالک بننے کے بعد زکات واجب ہو جائے تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے۔

مسئلہ ١٨٨ ۶ اگر گندم،جو،کھجور یا انگور کی زکات کے واجب ہونے کے بعد زراعت وغيرہ کو فروخت کر دے تو فروخت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی زکات ادا کرے۔

مسئلہ ١٨٨٧ اگر انسا ن سارا گندم،جو، کھجور یا انگور خریدے اور جانتا ہو کہ فروخت کرنے والے نے اس کی زکات دے دی ہے تو اس پر زکات واجب نہيں ہے اور اگر جانتا ہے کہ اس کی زکات نہيں دی،تو اس صورت ميں کہ فروخت کرنے والا اس کی زکات ادا کر دے سودا صحيح ہے ،اسی طرح اگر خریدار زکات ادا کر دے، جسے وہ فروخت کرنے والے سے لے سکتا ہے ۔

ان دو صورتوں کے علاوہ اگر حاکم شرع واجب زکات والی مقدار کے سودے کی اجازت نہ دے تو اس مقدار کا سودا باطل ہو گا اور حا کم شرع زکات کی مقدار کو خریدار سے لے سکتا ہے اور اگر واجب زکات والی مقدار کے سودے کی اجازت دے دے تو سودا صحيح ہو گا اور خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی قيمت حاکم شرع کو دے اور جبکہ اس مقدار کی قيمت فروخت کرنے والے کو بھی دی ہو تو اس سے واپس لے سکتا ہے ۔

اور اگرخریدار شک کرے کہ بيچنے والے نے اس کی زکات ادا کی ہے یا نہيں تو فی الحا ل اس مال پر زکات واجب نہ ہونے کا حکم لگانا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ١٨٨٨ اگر گندم،جو،کھجور اور کشمش کا وزن تازہ ہونے کے وقت نصاب تک پهنچ جائے اور خشک ہو جانے کے بعد اس مقدار سے کم ہو جائے تو ان کی زکات واجب نہيں ہو گی۔

مسئلہ ١٨٨٩ اگر گندم،جو، کھجور اور انگور کو خشک ہونے سے پهلے استعمال ميں لائے، چنانچہ یہ مقدار خشک ہونے کی صورت ميں نصاب تک پهنچ رہی ہو تو ان کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۲۹۸

مسئلہ ١٨٩٠ کھجور تين قسموں پر مشتمل ہے :

١) وہ کھجور کہ جسے خشک کيا جاتا ہے اور اس کی زکات کا حکم بيان ہو چکا ہے ۔

٢) وہ کھجور کہ جسے اس کے ”رطب“(تازہ) ہو نے کی حالت ميں کهایا جاتا ہے ۔

٣) وہ کھجور کہ جسے اس کی کچی حالت ميں کهایا جاتا ہے ۔

دوسری قسم کی مقدار اگر اتنی ہو کہ خشک ہونے کی حالت ميں نصاب کی مقدار تک پهنچ جائے تو بنا بر احتياطِ واجب اس کی زکات واجب ہو گی،البتہ تيسری قسم کی کھجور ميں زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٨٩١ جس گندم، جو، کھجور اور کشمش کی زکات دے دی گئی ہو اگر وہ کئی سالبهی اس کے پاس رہيں تو اس پر دوبارہ زکات واجب نہيں ہوتی۔

مسئلہ ١٨٩٢ اگر گندم،جو ،کھجور اور انگور بارش یا نہر کے پانی سے پهلے پھوليںيا زمين کی ١٠ ) ہو گی اور اگر ڈول یا اس جيسی چيز سے / نمی سے استفادہ کریں تو ان کی زکا ت دسواں حصہ( ١

٢٠ ) ہو گی۔ / آبياری ہو تو ان کی زکات بيسواں حصہ( ١

مسئلہ ١٨٩٣ اگر گندم،جو،کھجور اور انگور کو بارش وغيرہ کا پانی بھی دیا جائے اور وہ ڈول اور اس جيسی چيز کے پانی سے بھی استفادہ کریں تو اگر اس طرح ہو کہ عرف ميں کها جائے کہ ان کی ٢٠ ) ہو گی اور اگر کها / آبياری ڈول اور اس جيسی چيز سے ہوئی ہے تو ان کی زکات بيسواں حصہ( ١

(١٠/ جائے کہ ان کی آبياری بارش اور ان جيسی چيزوں سے ہوئی ہے تو ان کی زکات دسواں حصہ( ١

۴ ٠ )واں حصہ ہو گی۔ / ہو گی اور اگر کها جائے کہ دونوں سے آبياری ہوئی ہے تو ان کی زکات ( ٣

مسئلہ ١٨٩ ۴ چنانچہ شک کرے اور نہ جانتا ہو کہ عرف کی نگاہوں ميں دونوں سے آبياری ہوئی ۴) واں حصہ دینا کافی ہے ۔ /٣ ہے یا یہ کہ مثلاً بارش سے ہوئی ہے تو اس صورت ميں ( ٠

مسئلہ ١٨٩ ۵ اگر شک کرے اور نہ جانتا ہو کہ عرف کہ نگاہوں ميں دونوں سے آبياری ہوئی ہو ٢٠ ) دینا کافی / یا یہ کہ ڈول اور اس جيسی چيز سے آبياری ہوئی ہے تو اس صورت ميں بيسواں حصہ( ١هو گا۔ اسی طرح اگر ساته ميں کوئی تيسرا احتمال بھی آجائے کہ عرف کهے کہ بارش کے پانی سے آبياری ہوئی ہے تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨٩ ۶ اگر گندم،جو،کھجور اور انگور کی آبياری بارش اور اس جيسی چيزوں سے ہوئی ہواور ڈول یا اس جيسی چيز سے آبياری کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو اس کے باوجود ڈول کا پانی بھی دیا جائے جب کہ ڈول کا پانی فصل کے زیادہ ہونے ميں مددگار ثابت نہ ہو تو ان کی زکات دسواں حصہ ١٠ ) ہو گی،اور اگر ڈول اور اس کی مانند چيز سے آبياری ہو اور بارش یااس جيسے پانی کی /١)

۲۹۹

ضرورت نہ ہو ليکن بارش یا اس کی مانند پانی سے بھی آبياری ہو اور وہ فصل کے زیادہ ہونے ميں مدد ٢٠ ) ہو گی۔ / نہ کرے تو ان کی زکات بيسواںحصہ ( ١

مسئلہ ١٨٩٧ اگر کسی زراعت کی آبياری ڈول اور اس جيسی چيزوں سے کی جائے اور اس کے برابر والی زمين ميں دوسری زراعت ہو جو پهلی زمين کی نمی سے استفادہ کر لے اور اسے آبياری کی ضرورت ہی پيش نہ آئے تو جس زراعت کی آبياری ڈول وغيرہ کے پانی سے ہوئی ہو اس کی زکات ٢٠ ) اور اس کے برابر والی زراعت اگر کسی اور مالک کی ہو تو اس کی زکات دسواں / بيسواں حصہ( ١

١٠ ) ہے اور اگر دوسری زراعت بھی پهلے مالک ہی کی ہو تو بھی احتياطِ واجب کی بنا پر یهی / حصہ( ١حکم ہے ۔

مسئلہ ١٨٩٨ نصاب کو دیکھتے وقت گندم،جو ،کھجور اور انگور پر کئے گئے اخراجات کوفصل سے نکالا نہيں جا سکتا، لہٰذا اگر ان ميں سے ایک بھی اخراجا ت کے حساب سے پهلے حدِنصاب تک پهنچ جائے تو اس کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٨٩٩ جس بيج کو زراعت کے لئے استعمال کيا گيا ہو خواہ اس کا اپنا ہو یا خریداہوا،نصاب کو دیکھتے وقت اسے فصل سے نکالا نہيں جا سکتا بلکہ جتنی فصل حاصل ہوئی ہو اسے مکمل طور پرشامل کرتے ہوئے نصاب کو دیکھا جائے گا۔

مسئلہ ١٩٠٠ جو چيز حکومت اصل مال سے ليتی ہے اس پر زکات واجب نہيں ، مثال کے طور پر اگر زراعت کا حاصل ٨ ۵ ٠ کلوگرام ہو اور حکومت ۵ ٠ کلوگرام بطور ٹيکس لے تو زکات صرف ٨٠٠کلو گرام پر واجب ہو گی۔

مسئلہ ١٩٠١ وہ اخراجات جو انسان نے زکات واجب ہونے سے پهلے کئے ہوںاحتياطِ واجب کی بنا پر زکات دیتے وقت اس بات کی اجازت نہيں ہے کہ اتنی مقدار الگ کر لے اور باقی کی زکات دے دے۔

مسئلہ ١٩٠٢ زکات واجب ہونے کے بعد جواخراجات کئے جائيں اور جو کچھ زکات کی مقدار کی نسبت خرچ کرے، حاکم شرع سے اجازت لے کر اسے زکات سے جدا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠٣ زکات واجب ہونے سے پهلے زکات دینا جائز نہيں ہے اور زکات واجب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ گندم اور جوکی فصل کاٹے جانے اور دانے وبهوسے کے جدا ہونے یا کھجور اور انگور کے خشک ہونے تک صبر کرے، بلکہ زکات واجب ہوتے ہی زکات کی مقدار کی قيمت معلوم کر کے اسے زکات کی نيت سے دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠ ۴ زکات واجب ہو جانے کے بعد اصل زراعت یا کھجور اور انگور کو فصل کی کٹائی یا چننے سے پهلے ہی مستحق،حاکم شرع یا ان کے وکيل کو بطور مشاع دے سکتا ہے اور اس کے بعد کے اخراجات ميں وہ بھی شریک ہونگے۔

۳۰۰