توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 196941
ڈاؤنلوڈ: 3915

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196941 / ڈاؤنلوڈ: 3915
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ١٩٠ ۵ اس صورت ميں کہ جب زراعت،کھجور یا انگور ميں سے اصل مال ہی حاکم شرع،مستحق یا ان کے وکيل کے حوالے کر دے تو فصل کی کٹائی یا کھجور و انگور کے خشک ہونے کا وقت آنے تک،ان چيزوں کو اپنی زمينوں پر رہنے دینے کے لئے اجرت طلب کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٠ ۶ اگر کسی شخص کے پاس چند شهروں ميں کہ جن ميں فصل پکنے کا موسم ایک دوسرے سے مختلف ہو اور ان کی زراعت اور پھل ایک ساته حاصل نہ ہوتے ہوں،گندم،جو،کھجور یا انگور ہو اور وہ سب کے سب ایک ہی سال کی فصل شمار ہو تو اگر پهلے والی چيز نصاب تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس فصل کے پکنے پر اس کی زکات دے دے اور باقی فصلوں کی زکات ان کی تياری کے وقت ادا کرے اور اگر پهلے پکنے والی چيز نصاب کے برابر نہ ہو تو صبر کرے یهاں تک کہ اس کی بقيہ فصليں پک جائيں،اب اگر ساری فصليں مجموعی طور پر نصاب تک پهنچ جائيں تو اس کی زکات واجب ہو گی اور اگر نصاب تک نہ پهنچے تو اس کی زکات واجب نہ ہو گی۔

مسئلہ ١٩٠٧ اگر انگور یا کھجور کا درخت ایک سال ميں دو مرتبہ پھل دے تو مجموعی طور پر نصاب تک پهنچنے کی صورت ميں احتياطِ واجب کی بنا پر اس کی زکات واجب ہے ۔

مسئلہ ١٩٠٨ اگر کسی کے پاس تازہ کھجور یا انگور کی اتنی مقدارہو کہ جس کی خشک شدہ مقدار نصاب تک پهنچ جاتی ہو، تو اگر زکات کی نيت سے اس تازہ مقدار ميں سے اتنی مقدار زکات کے مصرف ميں لائے جو اگر خشک ہوتی تو واجب زکات کے برابر ہوتی تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٩٠٩ اگر خشک کھجور یا کشمش کی زکات کسی پر واجب ہو تو خود پر واجب شدہ زکات کی نيت سے تازہ کھجور یا انگور نہيں دے سکتا۔ اسی طرح اگر تازہ کھجور یا انگور کی زکات اس پر واجب ہو تو خود پر واجب شدہ زکات کی نيت سے خشک کھجور یا کشمش نہيں دے سکتا۔ اسی طرح احتياطِ واجب کی بنا پر یہ بھی نہيں کر سکتا کہ ان ميں سے تازہ کی جگہ خشک اور خشک کی جگہ تازہ کو قيمت زکات کے طور پر دے دے۔

مسئلہ ١٩١٠ جو شخص مقروض ہو اور اس کے پاس ایسا مال بھی ہو جس پر زکات واجب ہو چکی ہو اگر وہ مر جائے تو ضروری ہے کہ پهلے اس کے مال سے واجب شدہ زکات کو ادا کيا جائے اس کے بعد اس کے قرض کو ادا کيا جائے۔

مسئلہ ١٩١١ جو شخص مقروض ہو اور اس کے پاس جوَ،گندم،کھجور یا انگور بھی ہو اگر وہ مر جائے اور اس سے پهلے کہ ان کی زکات واجب ہو وارث اس کے قرض کو کسی دوسرے مال سے دے دیں تو جس وارث کا حصہ حد نصاب تک پهنچے اس کے لئے زکات دینا ضروری ہے او ر اگر زکات واجب ہونے سے پهلے اس کا قرضہ نہ دیں تو اگر مرنے والے کا سارا ما ل اس کے قرض جتنا

۳۰۱

ہو تو زکات واجب نہيں ہو گی اور اگر مرنے والے کا مال اس کے قرض سے زیادہ ہو تو ضروری ہے کہ جس مال پر زکات واجب ہو اسے تمام مال کی نسبت دیکھاجائے جيسے آدهی ایک تھائی یا ایک چوتھائی وغيرہ کی نسبت اور اسی نسبت سے (قرضے کی مقدار)زکات والے مال سے نکالی جائے اور باقی وارثوں ميں تقسيم کر دیا جائے اور اس کے بعد اب جس وارث کا حصہ نصاب کی حد تک پهنچے گا اس پر زکا ت واجب ہوگی۔

مسئلہ ١٩١٢ اگر جس گندم،جو،کھجور اور کشمش پر زکات واجب ہو چکی ہو اس ميں گھٹيا اور اعلیٰ دونوں قسميں ہوں تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ اعٰلی قسم کی زکات گھٹيا قسم سے نہ دے۔

سونے اور چاندی کا نصاب

مسئلہ ١٩١٣ سونے کے دو نصاب ہيں :

١) سونے کا پهلا نصاب ٢٠ مثقال شرعی ہے کہ جس کا ہر مثقال ١٨ چنے کے برابرہے جو بنا بر مشهورصيرفی (معمولی) مثقال کا تين چوتھائی ہے ،لہٰذا جب سونے کی مقدار ٢٠ مثقال شرعی،جو ١ ۵ مثقال صيرفی ہوتا ہے ،تک پهنچ جائے تو باقی شرائط کے ہوتے ہوئے جن کا تذکرہ گزرچکا ۴ ٠ )جو ٩چنے کے برابر ہوتا ہے ،زکات کی بابت دے / ہے ،انسان پر ضروری ہو کہ چاليسواں حصہ( ١اور اگر سونا اس مقدار تک نہ پهنچے تو ا س کی زکات واجب نہيں ۔

٢) سونے کا دوسرا نصاب ۴ مثقال شرعی ہے جو تين مثقال صيرفی (معمولی)هوتاہے ،یعنی اگر پندرہ مثقال پر تين مثقال کا اضافہ ہو جائے تو پورے اٹھ ارہ مثقال کی زکات چاليسویں حصے کے اعتبار سے دینا ضروری ہے اور اگر تين مثقال سے کم کا اضافہ ہو تو صرف پندرہ مثقال کی زکات دے دے اور اس سے زیادہ پر زکات نہيں ۔ اسی طرح جس قدر اضافہ ہوتا جائے یعنی اگر پورے تين مثقال کا اضافہ ہو تو ضروری ہے کہ سارے سونے کی زکات دی جائے اور اگر اس سے کم کا اضافہ ہو تو جتنی مقدار کا اضافہ ہو اس پر زکا ت نہيں ۔

مسئلہ ١٩١ ۴ چاندی کے دو نصاب ہيں -:

١) چاندی کا پهلا نصاب ١٠ ۵ صيرفی (معمولی) مثقال ہے یعنی اگر چاندی کی مقدار ١٠ ۵ مثقال تک پهنچے اور گذشتہ باقی تما م شرائط بھی موجود ہوں تو انسان پر واجب ہے کہ اس کا چاليسواں حصہ جو دو مثقال اور پندرہ چنے کے برابر ہوتا ہے ، زکات کی بابت دے اور اگر اس مقدار تک نہ پهنچے تو اس کی زکات واجب نہيں ۔

۳۰۲

٢) چاندی کا دوسرا نصاب ٢١ مثقال ہے یعنی اگر ١٠ ۵ مثقال پر ٢١ مثقال کا اضافہ ہو جائے تو پورے ١٢ ۶ مثقال کی زکات چاليسویں حصے کے اعتبار سے دینا ضروری ہے اور اگر ٢١ مثقال سے کم کا اضافہ ہو تو صرف ١٠ ۵ مثقال کی زکا ت دینا ضروری ہے اور اس سے زیادہ پر زکات نہيں ۔ اسی طرح جس قدر اضافہ ہوتا جائے یعنی اگر پورے ٢١ مثقال کا اضافہ ہو تو ان تمام کی زکات دینا ضروری ہے اور اگر اس سے کم کا اضافہ ہو تو ٢١ مثقا ل سے کم اضافہ شدہ مقدار پر زکات نہيں ،لہٰذا انسان کے پاس جتنا سونا اور چاندی ہو تو اگر اس کا چاليسواں حصہ دے دے تو اس نے نہ صرف یہ کہ واجب شدہ زکات دے دی ہے بلکہ بعض اوقات تو واجب مقدار سے بھی زیادہ ادائيگی ہو جاتی ہے مثلاً جس شخص کے پاس ١١٠ مثقال چاندی ہو اگر وہ اس کا چاليسواں حصہ دے دے تو ١٠ ۵ مثقال کی زکات جو اس پر واجب تھی وہ تو دے ہی دی اور کچھ مقدار اس ۵ مثقال کے لئے بھی دے دی جو واجب نہيں تھی۔

مسئلہ ١٩١ ۵ جس شخص کا سونا یا چاندی نصاب کے برابر ہو اگرچہ اس نے اس کی زکات ادا کر دی ہو ليکن جب تک اس کی مقدار پهلے نصاب سے کم نہ ہو ہر سال اس کی زکات ادا کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٩١ ۶ سونے اورچاندی کی زکات اس صورت ميں واجب ہے کہ جب ان کو سکوں کی شکل ميں ڈهال دیا گيا ہو اور ان سے لين دین کرنا رائج ہو اور اگر ان کے سکے اپنی صورت کهو بھی چکے ہوں تب بھی ان کی زکات دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ١٩١٧ جو سکے دار سونا اور چاندی عورت اپنی زینت کے کام ميں لاتی ہے اس صورت ميں کہ اس سے لين دین کا رواج باقی ہو یعنی اب بھی انہيں سونے اور چاندی کا سکہ ہی سمجھا جاتا ہو توبنابر احتياط ان کی زکات واجب ہے ،ليکن اگر ان سے لين دین کا رواج باقی نہ ہو تو زکات واجب نہ ہو گی۔

مسئلہ ١٩١٨ جس شخص کے پاس سونا اور چاندی ہو ليکن ان ميں سے کوئی بھی نصاب تک نہ پهنچا ہو مثلاً ١٠ ۴ مثقال چاند ی اور ١ ۴ مثقال سونا ہو تو اس پر زکات واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ١٩١٩ جيسا کہ پهلے بھی بيان ہوا، سونے اور چاندی کی زکات اس صورت ميں واجب ہوتی ہے کہ جب انسان گيارہ مهينے مسلسل نصاب کی مقدار کا مالک ہو،لہٰذا اگر گيارہ مهينے کے دوران اس کا سونا اور چاندی پهلے نصاب سے بھی کم ہو جائے تو اس پر زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٩٢٠ اگر گيارہ مهينوں کے دوران ميں جو سونا اور چاندی اس کے پاس ہو انہيں سونے یا چاندی یا کسی اور چيز سے تبدیل کر لے یا انہيں پگهلا لے تواس پر زکات واجب نہيں ، ليکن اگر ان کاموں کوزکات سے بچنے کے لئے انجام دیا ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ زکات دے۔

۳۰۳

مسئلہ ١٩٢١ اگر بارہویں مهينے ميں سونے اور چاندی کے سکوں کو پگهلا دے تو ان کی زکات دینا ضروری ہے اور اگر پگهلانے کی وجہ سے ان کی قيمت یا وزن کم ہو جائے تو ضروری ہے کہ پگهلانے سے پهلے جو زکات اس پر واجب تھی اسے ادا کرے۔

مسئلہ ١٩٢٢ جو سونا اور چاندی اس کے پاس موجود ہو اگر اس ميں اعلیٰ اور گھٹيا دونوں قسميں ہوں تو اعلیٰ اور گھٹيا ميں سے ہر ایک کی زکا ت خود ان سے دے سکتا ہے ،ليکن بہتر یہ ہے کہ ان تمام کی زکات اعلیٰ سونے اور چاندی سے دے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ ان تمام کی زکات گھٹيا قسم سے نہ دے۔

مسئلہ ١٩٢٣ جس سونے اور چاندی کے سکوں ميں دوسری کوئی دهات معمول سے زیادہ ملی ہوئی ہو اگر انہيں سونے اور چاندی کے سکے کها جائے تو اس صورت ميں کہ جب خالص سونا اور چاندی نصاب کی حد تک پهنچ جائے اس پر زکات واجب ہو گی،اسی طرح اگر خالص سونا اور چاندی نصاب کی حد تک نہ پهنچے ليکن وہ سکے خود نصاب کی حد تک پهنچ رہے ہوں تو احتيا ط واجب یہ ہے کہ ان کی زکات ادا کی جائے،ليکن اگر انہيں سونے اور چاندی کے سکے ہی نہ کها جائے تو اگرچہ ان کی خالص مقدار نصاب کی حد تک پهنچ بھی جائے،اقویٰ یہ ہے کہ ان پر زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٩٢ ۴ سونے اور چاندی کے جو سکے انسان کے پاس ہوں اگر ان ميں دوسری دهات معمول کے مطابق ملی ہوئی ہو تو وہ یہ نہيں کر سکتا کہ ان کی زکات ایسے سونے اور چاندی کے سکوں سے دے جن ميں دوسری دهات معمول کی مقدار سے زیادہ ملی ہو ليکن اگر اس قدر دے دے کہ اسے یقين ہو جائے کہ ان سکوں ميں موجود خالص سونا اور چاندی اس پر واجب شدہ زکات کے اندازے کے برابر ہے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح اس صورت ميں کہ ان کی قيمت اس پر واجب شدہ زکات کے برابر ہو اور وہ انہيں واجب زکات کی قيمت کے اعتبار سے دے تب بھی کوئی حرج نہيں ۔

اونٹ،گائے اور بھيڑکی زکات

مسئلہ ١٩٢ ۵ اونٹ،گائے اور بھيڑ کی زکات ميں بيان شدہ شرائط کے علاوہ دو شرائط اور بھی ہيں :

١) جانورپورے سال بيکار رہا ہو،البتہ اگر پورے سال ميں ایک دو دن کام کيا بھی ہو تو اقویٰ یہ ہے کہ ان پر زکات واجب ہے ۔

٢) یہ کہ سار اسال وہ بيابان سے چارہ کھائے،لہٰذا اگر پورے سال یا ان کے کچھ حصے ميں کٹائی کيا ہوا چارہ کھائے یا اس زراعت سے ،جو اِن کے مالک یا کسی اور کی ملکيت ہو چارہ کھائے تو اس کی زکات نہيں ،البتہ اگر پورے سال کے دوران ایک دودن مالک کے چارے سے کھائے تو اقویٰ یہ ہے کہ ان پر زکات واجب ہے ۔

۳۰۴

مسئلہ ١٩٢ ۶ اگر انسان اپنے اونٹ،گائے اور بھيڑکے لئے کسی ایسی چراگاہ کو جسے کسی نے کاشت نہ کيا ہو خریدے یا کرائے پر لے تو احتياطِ واجب کی بنا پر ان کی زکا ت دے،ليکن اگر اس ميں چرانے کے لئے خراج (محصول) دینا پڑا ہو تو زکات واجب ہے ۔

اونٹ کا نصاب

مسئلہ ١٩٢٧ اونٹ کے بارہ نصاب ہيں :

۵ عدد کہ جن کی زکات ایک بھيڑ ہے اور جب تک اونٹوں کی تعداد اس مقدار تک نہ (١

پهنچے اس پر زکات نہيں ۔

١٠ عدد اور ان کی زکات ٢ بھيڑیں ہيں ۔ (٢

١ ۵ عدد اور ان کی زکات ٣ بھيڑیں ہيں ۔ (٣

٢٠ عدد اور ان کی زکات ۴ بھيڑیں ہيں ۔ ( ۴

٢ ۵ عدد اور ان کی زکات ۵ بھيڑیں ہيں ۔ ( ۵

٢ ۶ عدداور ان کی زکات ایک ایسی اونٹنی ہے جو دوسرے سال ميں داخل ہو گئی ہو۔ ( ۶

٣ ۶ عدداور ان کی زکات ایک ایسی اونٹنی ہے جو تيسرے سال ميں داخل ہو گئی ہو۔ (٧

۴۶ عدداور ان کی زکات ایک ایسی اونٹنی ہے جو چوتھے سال ميں داخل ہو گئی ہو۔ (٨

۶ ١ عدد اور ان کی زکا ت ایک ایسی اونٹنی ہے جو پانچویں سال ميں داخل ہو گئی ہو۔ (٩

٧ ۶ عدد اور ان کی زکات دو ایسی اونٹنياں ہيں جو تيسرے سال ميں داخل ہو گئی ہوں۔ (١٠

٩١ عدد اور ان کی زکات دو ایسی اونٹنياں ہيں جو چوتھے سال ميں داخل ہو گئی ہوں۔ (١١

١٢١ عدداور ان سے زیادہ کہ ان ميں ضروری ہے کہ یا چاليس چاليس ( ۴ ٠، ۴ ٠ )عدد کا (١٢

حساب کيا جائے اور ہر چاليس عدد کے لئے ایک ایسی اونٹنی دے جو تيسرے سال ميں داخل ہو گئی ہو یا پچاس پچاس( ۵ ٠، ۵ ٠ )عدد کا حساب کيا جائے اور ہر پچاس عدد کے ليے ایک ایسی اونٹنی د ے جو چوتھے سال ميں داخل ہو گئی ہو یا چاليس اور پچاس کا حساب کرے ليکن ہر صورت ميں اس طرح حساب کرنا ضروری ہے کہ کوئی چيز باقی نہ رہے یا اگر کوئی چيز باقی رہ بھی جائے تو نو( ٩)عدد سے زیادہ نہ ہو مثال کے طور پر اگر اس کے پاس ١ ۴ ٠ اونٹ ہوں تو ١٠٠ اونٹوں کے لئے دو ایسی اونٹنياں دے جو چوتھے سال ميں داخل ہو چکی ہوں،اور چاليس اونٹوںکے لئے ایک ایسی اونٹنی دے جو تيسرے سال ميں داخل ہو چکی ہو۔زکات ميں جو اونٹ دیا جائے اس کا مادہ ہونا ضروری ہے ۔

۳۰۵

مسئلہ ١٩٢٨ دونصابوں کی درميانی تعداد پر زکات واجب نہيں ہے ،لہٰذا اگر اس کے اونٹوں کی تعدادپانچ سے زیادہ ہو جائے جو کہ پهلا نصاب ہے تو جب تک یہ تعداد دس تک نہ پهنچے جو کہ دوسرا نصاب ہے ضروری ہے کہ ان ميں سے صرف پانچ اونٹوں کی زکات دے۔ بعد کے نصابوں کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

گائے کا نصاب

مسئلہ ١٩٢٩ گائے کے دو نصاب ہيں :

١) گائے کا پهلا نصاب تيس ( ٣٠ ) عدد ہے یعنی جب گائے کی تعداد ٣٠ ہو تو بيان شدہ شرائط کے موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ ایک بچهڑا جو دوسرے سال ميں داخل ہو گيا ہو زکات کے طور پر دے جو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نرہو۔ یهی حکم(احتياطِ واجب کی بنا پر بچهڑے کا نرَ ہونا)ہر اس مقام پر ہے جب ایسا بچهڑا دینا ضروری ہو جو دوسرے سال ميں داخل ہو گيا ہو مگر یہ کہ ان کی تعداد ٩٠ تک پهنچ جائے کہ بنابر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ تين مادہ بچهيا جو دوسرے سال ميں داخل ہو چکی ہوں زکات کے طور پر دی جائيں۔ -

٢) گائے کا دوسرا نصاب چاليسگائيں ہے اور ان کی زکات ایک مادہ بچهيا ہے کہ جو تيسرے سال ميں داخل ہو چکی ہو۔

تيس اور چاليس کی درميانی مقدار پر زکات واجب نہيں ۔ مثال کے طور پر جس کے پاس ٣٩ گائيں ہوں اس پر صرف ٣٠ عدد کی زکات دینا ضروری ہے ،نيز اگر اس کے پاس چاليس سے زیادہ گائيںہوں تو جب تک یہ مقدار ۶ ٠ تک نہ پهنچے ضروری ہے کہ ان ميں سے چاليس عددکی زکات دے اور جب یہ تعداد ۶ ٠ تک پهنچے تو چونکہ اب اس کے پاس پهلے نصاب کے دو برابر گائيں ہيں ، لہٰذا ضروری ہے کہ دو ایسے بچهڑے دے جو دوسرے سال ميں داخل ہو گئے ہوں اور اسی طرح جس قدر تعداد بڑھتی جائے ضروری ہے کہ ٣٠،٣٠ یا ۴ ٠، ۴ ٠ یا ٣٠ اور ۴ ٠ کاحساب کرے اور بيان کئے گئے طریقے کے مطابق ان کی زکات دے ليکن اس طرح حساب کرنا ضروری ہے کہ کوئی چيز باقی نہ رہے یا جوچيز باقی رہ جائے وہ نو( ٩) عد د سے زیادہ نہ ہو،مثلاًاگر اس کے پاس ٧٠ گائيںهو تو ضروری ہے کہ ان کی زکات ٣٠ اور ۴ ٠ کے حساب سے نکالے یعنی ٣٠ عدد کے لئے ٣٠ کی زکات اور ۴ ٠ عددکے لئے ۴ ٠ کی زکات دے اس ليے کہ اگر صرف ٣٠ عد د کے اعتبار سے حساب کرے گا تو دس عدد گائيں بغير زکات دئے رہ جائيں گی۔

بھيڑ کا نصاب

مسئلہ ١٩٣٠ بھيڑ کے پانچ نصاب ہيں :

۴ ٠ عدد اور ان کی زکات ایک بھيڑ ہے اور جب تک بھيڑیں چاليس نہ ہو جائيں ان پر (١

زکات واجب نہيں ۔

۳۰۶

١٢١ عدد اور ان کی زکات ٢بھيڑیں ہيں ۔ (٢

٢٠١ عدد اور ان کی زکات ٣ بھيڑیں ہيں ۔ (٣

٣٠١ عدد اور ان کی زکات ۴ بھيڑیں ہيں ۔ ( ۴

۴ ٠٠ یا اس سے زیادہ ہيں کہ جن کو سو سو عدد کر کے حساب کيا جائے گا اور ان ميں ( ۵

سے ہر سو عدد کے لئے ایک بھيڑ دینا ضروری ہے ۔ اور ضروری نہيں ہے کہ زکات کو خودانهی بھيڑوں ميں سے دے،بلکہ اگر کوئی دوسری بھيڑ دے دے یا اس کی قيمت کے مطابق رقم دے دے تو بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ١٩٣١ دو نصابوں کی درميانی تعداد پر زکا ت واجب نہيں ہے ،پس اگر کسی کی بھيڑوں کی تعداد پهلے نصاب سے جو کہ چاليس ہے زیادہ ہو تو جب تک دوسرے نصاب تک، جو کہ ایک سو اکيس ہے ، نہ پهنچے ان ميں سے صرف چاليس عدد کی زکات دینا اس کے لئے ضروری ہے اور ان سے زیادہ پر زکات نہيں ۔بعد کے نصابوں ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٩٣٢ نصاب کی مقدار تک پهنچنے والے اونٹ،گائے اور بھيڑ پر زکات واجب ہے خواہ وہ تمام نر ہوں یا مادہ یا کچھ نر ہوں اور کچھ مادہ۔

مسئلہ ١٩٣٣ زکات واجب ہونے ميں گائے اور بهينس ایک جنس شمار ہوتی ہيں اور عربی اور غير عربی اونٹ ایک جنس ہيں اور اسی طرح بکری،بھيڑ اور مينڈها آپسميں کوئی فرق نہيں رکھتے۔

مسئلہ ١٩٣ ۴ اگر زکات کے لئے بھيڑ دے تو بنابر احتياط ضروری ہے کہ کم ازکم دوسرے سال ميں داخل ہو گئی ہو اور اگر بکری دے تو بنا براحتياط ضروری ہے کہ تيسرے سا ل ميں داخل ہو چکی ہو۔

مسئلہ ١٩٣ ۵ جس بھيڑ کو زکات کی بابت دے رہا ہو اگر اس کی قيمت دوسری بھيڑوں کے مقابلے ميں کچھ کم ہو تو کوئی حرج نہيں ، ليکن بہتر ہے کہ ایسی بھيڑ دے جس کی قيمت اس کی تمام بھيڑوں سے زیادہ ہو۔ یهی حکم گائے اور اونٹ کے بارے ميں ہے ۔

مسئلہ ١٩٣ ۶ اگر کئی افراد آپس ميں شریک ہوں تو ان ميں سے جس کا حصہ پهلے نصاب تک پهنچ جائے ضروری ہے کہ زکات دے اور جس کا حصہ پهلے نصاب سے کم ہو اس پر زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٩٣٧ اگر ایک شخص کے پاس چند مختلف جگہوں ميں گائے، اونٹ یا بھيڑیں ہوں اور ان سب کی مقدار مل کر نصاب تک پهنچ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے۔

مسئلہ ١٩٣٨ گائے،بھيڑ یا اونٹ، جو کسی شخص کے پاس ہيں خواہ وہ بيمار یانقص والے ہوں،ان کی زکات دینا ضروری ہے ۔

۳۰۷

مسئلہ ١٩٣٩ اگر جو گائے،بھيڑ اور اونٹ اس کے پاس ہيں وہ سب بيمار یا نقص دار یا بوڑھے ہو ں تو ان کی زکات کا جانور وہ خود ان ميں سے دے سکتا ہے ،ليکن اگر سب سالم، بے عيب اور جوان ہوں تو ان کی زکات ميں بيمار یا نقص دار یا بوڑھا جانور نہيں دے سکتا،بلکہ اگر ان ميں سے کچھ سالم اور کچھ مریض،کچه نقص دار اور کچھ بے عيب اور کچھ بوڑھے اور کچھ جوان ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی زکات کے لئے سالم،بے عيب اور جوان جانور دے۔

مسئلہ ١٩ ۴ ٠ اگر گيارہواں مهينہ ختم ہونے سے پهلے موجودہ گائے،بھيڑ اور اونٹ کو کسی دوسری چيز سے تبدیل کر دے یا جو نصاب اس کے پاس ہو اسے اسی جنس کے نصاب کی مقدار سے تبدیل کرے،مثلاً چاليس بھيڑیں دے اور چاليس بھيڑ یں ہی لے لے تو ان پر زکات واجب نہيں ۔

مسئلہ ١٩ ۴ ١ جس شخص پر گائے،بھيڑ اور اونٹ کی زکات ادا کرنا ضروری ہو اگر وہ ان کی زکات کو اپنے دوسرے مال سے دے تو جب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نہ ہو ہر سال زکات دینا ضروری ہے اور اگر ان کی زکات خود ان جانوروں ميں سے دے اور وہ پهلے نصاب سے کم ہو جائيں تو اس پر زکات واجب نہيں ہو گی مثلاًجس کے پاس چاليس بھيڑیں ہوں اگر وہ اپنے دوسرے مال سے ان کی زکات دے دے تو جب تک اس کی بھيڑیں چاليس سے کم نہ ہوںضروری ہے کہ ہر سال ایک بھيڑ دے اور اگر خود ان ميں سے دے دے تو جب تک دوبارہ چاليس تک نہ پهنچ جائيں اس پر زکات واجب نہيں ہو گی۔

زکات کا مصرف

مسئلہ ١٩ ۴ ٢ زکات کو آٹھ مقامات پر استعمال کيا جا سکتا ہے :

١) فقير: فقير وہ شخص ہے کہ جس کے پاس خود اپنے اور اپنے اہل وعيال کے سال بھر کے اخراجات نہ ہوں،اور وہ شخص کہ جس کے پاس کوئی ایسی صنعت،ملکيت یا سر مایہ ہو کہ جس سے وہ اپنے سال بھر کے اخراجا ت کو چلا سکے تو وہ فقير نہيں ہے ۔

٢) مسکين : یہ وہ شخص ہے کہ جو فقير سے بھی زیادہ سخت زندگی گزار رہا ہو۔

٣) وہ شخص جو امام عليہ السلام یا نائب امام عليہ السلام کی طرف سے زکات کی جمع آوری،اس کی نگرانی،اس کے حساب کی جانچ پڑتال اور اسے امام عليہ السلام یا نائب امام عليہ السلام یا فقراء تک پهنچانے پر مامور ہو۔

۴) ایسے مسلمان جو خداوند تعالیٰ کی وحدانيت اور حضورِ اکرم(ص) کی رسالت کی گواہی دیتے ہيں ليکن راہِ اسلام ميں ثابت قدم نہيں ہيں ، تاکہ انہيں زکات دے کر ان کے ایمان کو مضبوط کيا جائے۔ البتہ جب کسی جگہ فقير ہو او ر کيفيت یہ ہو کہ زکات یا فقير کو دی جا سکتی ہو یا ایسے مسلمانوں کو تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ فقير کو دی جائے اور ساتویں مورد ميں بھی اس احتياط کا خيال رکھنا ضروری ہے ۔

۳۰۸

۵) ایسے مسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کے لئے جو سختی ميں مبتلا ہوں۔ اسی طرح اگر زکات کا کوئی مصرف نہ ہو تو ایسے غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کے لئے بھی جو سختی ميں نہ ہوں۔

۶) وہ مقروض جو اپنا قرض ادا نہ کر سکتا ہو جب کہ اسے گناہ کے کام ميں خرچ نہ کيا ہو۔

٧) فی سبيل الله یعنی وہ نيک امور کہ جن کو قصد قربت سے انجام دیا جا سکتا ہے اور احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ امور عمومی مصلحت رکھتے ہوں جيسے مسجد و دینی مدرسے بنانا،هسپتال تعمير کروانا،بوڑہوں کے لئے آسایشگاہ بنوانا اور اسی طرح کے دوسرے کام۔

٨) ابن السبيل، یعنی وہ مسافر جو سفر ميں رہ گيا ہو۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ١٩ ۴ ٣ احتياطِ واجب یہ ہے کہ فقير اور مسکين اپنے اور اپنے اہل و عيا ل کے سال بھر کے اخراجات سے زیادہ زکات نہ ليں اور اگر ان کے پاس کچھ رقم یا سامان موجود ہو تو صرف اپنے سال بھر کے کم پڑنے والے اخراجات ليں۔

مسئلہ ١٩ ۴۴ جس شخص کے پاس اپنے سال بھر کے اخراجات کے لئے مال موجود ہو اگر وہ اس ميں سے کچھ خرچ کر دے اور بعد ميں شک کرے کہ باقی ماندہ مال اس کے ایک سال کے اخراجات کے برابرہے یا نہيں تو وہ زکات نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ١٩ ۴۵ جس صنعت گر،مالک یا تاجر کی آمدنی اس کے سال بھر کے اخراجات سے کم ہو وہ اپنے کم پڑنے والے اخراجات کے لئے زکات لے سکتا ہے اور ضروری نہيں ہے کہ کام کے اوزار یا ملکيت یا اپنے سرمائے کو اپنے اخراجات ميں استعمال کرے۔

مسئلہ ١٩ ۴۶ جس فقير کے پاس اپنے سال بھر کا خرچ نہ ہو اگر اس کے پاس کوئی ایسا گھر ہو جو اس کی ملکيت ہو اور وہ اس ميں رہتا ہو یا سواری کا ذریعہ رکھتا ہو تو اگر ان کے بغير زندگی بسر نہ کر سکتا ہو،چاہے اپنی آبرو کی حفاظت کے لئے ہی سهی،وہ زکات لے سکتا ہے اور یهی حکم اس کے گھر کے سامان،برتن،گرمی و سردی کے لباس اور ضرورت کی باقی چيزوں کے بارے ميں ہے ،اور جس فقير کے پاس یہ سب کچھ نہ ہو اگر وہ ان کی احتياج رکھتا ہو توزکات سے ان چيزوں کو خرید سکتاہے۔

مسئلہ ١٩ ۴ ٧ جس فقير کے لئے هنر کا سيکهنا مشکل نہ ہو ضروری ہے کہ سيکهے اور زکات لے کر زندگی بسر نہ کرے، ليکن جب تک سيکهنے ميں مشغول ہو زکات لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۴ ٨ جو شخص پهلے فقير تھا اور کہتا ہو کہ ميں فقير ہوں جب کہ اس کے فقر کے ختم ہونے کا شک ہو تو اگرچہ اس کے کهنے سے اطمينان حاصل نہ ہو،اسے زکات دی جا سکتی ہے اور جس کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ فقير تھا یا نہيں اور وہ کهے کہ ميں فقير ہوں،اگر اس کے کهنے سے اطمينان حاصل نہ ہو تو بنا بر احتياطِ واجب اسے زکات نہيں دی جاسکتی۔

۳۰۹

مسئلہ ١٩ ۴ ٩ جو شخص فقر کا اظهار کرتا ہو جب کہ وہ پهلے فقير نہيں تھا تو اگر اس کے کهنے سے اطمينان حاصل نہ ہو تو اسے زکات نہيں دی جا سکتی۔

مسئلہ ١٩ ۵ ٠ جس شخص پر زکات واجب ہو چکی ہو اور کوئی فقير اس کا مقروض ہو،وہ قرض کی اس مقدار کو زکات کی نيت سے حساب کر سکتا ہے ،ليکن اگر جانتا ہو کہ فقير نے اس مال کو گناہ ميں خرچ کر دیا ہے تو قرض کی ادائيگی کے لئے دی جانے والی زکات سے حساب نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١٩ ۵ ١ اگر فقير مر جائے اور ا س کا مال اس کے قرض کے برابر نہ ہو تو انسان اپنے مطلوبہ قرض کی مقدار کو زکات کی بابت ميں حساب کر سکتا ہے ۔ ليکن اگر جانتا ہو کہ فقير نے اس مال کو گناہ ميں خرچ کيا ہے تو وہ اپنے مطلوبہ قرض کو قرض کی ادائيگی کے لئے دی جانے والی زکات سے حساب نہيں کر سکتا ہے ۔

اور اگر ميت کا مال اس کے قرضے کے برابر ہو اور اس کے وارث اس کا قرض نہ دیں یا کسی اور وجہ سے انسان اپنا قرضہ واپس نہ لے سکتا ہو تو بنابر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ اپنا قرضہ زکات کی بابت ميں حساب نہ کرے۔

مسئلہ ١٩ ۵ ٢ انسان زکات کے عنوان سے جو چيز فقير کودے رہا ہو ضروری نہيں ہے کہ اسے بتائے کہ یہ زکات ہے ، بلکہ اگر فقير شرم محسوس کر رہا ہو تو مستحب ہے کہ اس بات کا اظهار کئے بغير زکات کی نيت سے دے دے۔

مسئلہ ١٩ ۵ ٣ اگر کسی کو فقير سمجھتے ہوئے زکات دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ فقير نہيں تھا یامسئلہ کی لاعلمی کی بنا پر کسی ایسے شخص کو زکات دے دے جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ فقير نہيں ہے ،چنانچہ دیا گيا مال اگر باقی ہو تو ضروری ہے کہ اس سے مال واپس لے کر مستحق کو دے دے اور اگر واپس نہ لے سکے تو اس زکات کا عوض اپنے مال سے دے اور اگر دیا گيا مال ختم ہو چکا ہو تو اگر زکات لينے والا جانتا تھا کہ یہ زکات ہے تو انسان اس شخص سے عوض لے کر فقير کو دے سکتا ہے ليکن اگر وہ یہ نہيں جانتا تھاکہ یہ زکات ہے تو اس سے کوئی چيز نہيں لے سکتا بلکہ ضروری ہے کہ اس زکات کا عوض اپنے مال سے مستحق تک پهنچائے۔

مسئلہ ١٩ ۵۴ جو شخص مقروض ہواور اپنا قرض ادا نہ کر سکتا ہو اگرچہ ا س کے پاس سال بھر کے اخراجات ہوں وہ اپنے قرض کی ادائيگی کے لئے زکات لے سکتا ہے ليکن ضروری ہے کہ جو مال بطور قرضہ ليا ہو اسے معصيت ميں خرچ نہ کيا ہو۔

مسئلہ ١٩ ۵۵ اگر انسان کسی ایسے مقروض شخص کو زکات دے دے جو قرض کو ادا نہ کر سکتا ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ اس نے قرض کو معصيت ميں خرچ کيا تھا تو اگر وہ مقروض فقير ہو تو جو زکات اسے دی ہے ،اسے فقراء کو دی جانے والی زکات کی بابت حساب کر سکتا ہے ۔

۳۱۰

مسئلہ ١٩ ۵۶ جو شخص مقروض ہو اور قرض ادا نہ کر سکتا ہو اگرچہ وہ فقير نہ بھی ہو توبهی انسان اپنے مطلوبہ قرض کو زکات کی بابت حساب کر سکتا ہے ،ليکن فقير نہ ہونے کی صور ت ميں اگر جانتا ہو کہ اس نے قرضہ لئے ہوئے مال کو معصيت ميں خرچ کيا ہے تو اسے زکات کی بابت حساب نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١٩ ۵ ٧ جس مسافر کا خرچہ ختم ہو گيا ہو یا اس کی سواری بيکار ہو گئی ہو، اگر اس کا سفر معصيت کا سفر نہ ہو اور قرض لے کر یا کسی چيز کو بيچ کراپنے آپ کو منزلِ مقصود تک نہ پهنچا سکتا ہو،اگرچہ اپنے وطن ميں وہ مسافر فقير نہ ہو پھر بھی زکات لے سکتا ہے ،ليکن اگر کسی دوسرے مقام پر پهنچ کر قرضہ لے سکتا ہو یا اپنی کسی چيز کو بيچ کرزادِسفر مهيا کر سکتا ہو تو صرف اتنی مقدار ميں زکات لے سکتاہے جس سے وہ اس مقام تک پهنچ جائے۔

مسئلہ ١٩ ۵ ٨ جس مسافر نے سفر ميں رہ جانے کی وجہ سے زکات لی ہو اگر اپنے وطن پهنچنے کے بعد مالِ زکات ميں سے کوئی چيز بچ جائے تو اگر وہ مال، زکات دینے والے کو نہ لوٹا سکتا ہو یا اس تک مال پهنچانے ميں مشقت کا سامنا ہو تو ضروری ہے کہ حاکم شرع کویہ بتا کر دے دے کہ یہ مال زکات ہے ۔

مستحقين زکات کی شرائط

مسئلہ ١٩ ۵ ٩ زکات لينے والے شخص کاشيعہ اثنا عشری ہونا ضروری ہے ،لہٰذا اگر کسی کو شيعہ اثنا عشری سمجھتے ہوئے زکات دے دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ شيعہ نہيں تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ زکات دے۔

مسئلہ ١٩ ۶ ٠ اگر کوئی شيعہ اثنا عشری بچہ یا دیوانہ فقير ہو تو انسان اس کے ولی کو اس نيت سے کہ دی جانے والی چيز بچے یا دیوانے کی ملکيت ہو، زکات دے سکتا ہے اور ولی کے ليے بھی ضروری ہے کہ اسی نيت سے زکات لے۔

مسئلہ ١٩ ۶ ١ اگر بچے یا دیوانے کے ولی تک رسائی نہ رکھتا ہو تو وہ خود یا کسی امين شخص کے ذریعے زکات کو بچے یا دیوانے کے مصرف ميں لا سکتا ہے اور ضروری ہے کہ جس وقت زکات ان کے مصرف ميں لائی جا رہی ہو اس وقت زکات کی نيت کرے اور اگر بچے یا دیوانے کے ولی تک رسائی رکھتا ہو تو بنابر احتياطِ واجب ولی کے ذریعے یا اس کی اجازت سے ان کے لئے خرچ کرے۔

مسئلہ ١٩ ۶ ٢ بهيک مانگنے والے فقير کو زکات دی جاسکتی ہے ليکن جو فقير زکات کو معصيت ميں خرچ کرتا ہو اسے زکات نہيں دی جاسکتی۔

مسئلہ ١٩ ۶ ٣ کهلم کهلا گناہ کبيرہ انجام دینے والے،بے نمازی اور احتياطِ واجب کی بنا پرشرابی کو زکات نہيں دی جا سکتی۔

۳۱۱

مسئلہ ١٩ ۶۴ جو مقروض اپنے قرض کو ادا نہ کر سکتا ہو اگرچہ اس کے اخراجات انسان پر واجب ہوں،اس کے قرض کو زکات سے ادا کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۶۵ انسان ایسے افراد کے اخراجات کو جن کا خرچہ اس پر واجب ہو جيسے اولاد ،زکات سے نہيں دے سکتا ليکن اگر ان کے اخراجات نہ دے تو دوسرے انہيں زکات دے سکتے ہيں ۔

مسئلہ ١٩ ۶۶ اگر انسان اپنے بيٹے کو اس کی بيوی،نوکراور نوکرانی کا خرچہ چلانے کے لئے زکات دے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ١٩ ۶ ٧ اگر بيٹے کو دینی اور علمی کتابوں کی ضرورت ہو تو باپ ان کو زکات سے خرید کربيٹے کو استفادہ کے لئے دے سکتا ہے اور اگر سبيل الله کے حصے ميں سے خرید نا چاہے تو بنا براحتياط ضروری ہے کہ اس ميں عمومی مصلحت ہو۔

مسئلہ ١٩ ۶ ٨ باپ،شادی کی ضرورت رکھنے والے بيٹے کو شادی کرنے کے ليے اپنی زکات دے سکتا ہے ۔ بيٹے کے لئے باپ کی بہ نسبت بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ١٩ ۶ ٩ ایسی عورت کو جس کا شوہر اس کے اخراجات دیتا ہو یا نہ دیتا ہو ليکن وہ اسے اخراجات دینے پر مجبور کر سکتی ہو،زکا ت نہيں دی جا سکتی۔

مسئلہ ١٩٧٠ جس عورت نے متعہ کيا ہو اگر وہ فقير ہو تو اس کا شوهراور دوسرے افراد اسے زکات دے سکتے ہيں ،ليکن اگر اس کے شوہر نے عقد کے ضمن ميں شرط رکھ دی ہو کہ وہ اس کے اخراجات بھی برداشت کرے گا یا کسی اور وجہ سے اس عورت کے اخراجات دینا شوہر پر واجب ہو تو اگر وہ شوہر اس کے اخراجات دے رہا ہو تو اس عورت کو زکات نہيں دی جا سکتی۔

مسئلہ ١٩٧١ بيوی اپنے فقير شوہر کو زکات دے سکتی ہے اگرچہ شوہر اس زکات کو اسی کے اخراجات ميں صرف کرے۔

مسئلہ ١٩٧٢ سيد،غيرِ سيد سے زکات نہيں لے سکتا ليکن اگر خمس یا اور شرعی اموال اس کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہوں اورغير سيد کی زکات لينے پرمجبور ہو تو اپنے روزانہ کے اخراجات کے مطابق زکات لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٧٣ جس شخص کے بارے ميں معلوم نہ ہو کہ سيد ہے یا نہيں اسے زکات دی جا سکتی ہے ۔

زکات کی نيت

مسئلہ ١٩٧ ۴ ضروری ہے کہ انسان زکات کو قصدِ قربت جيسے کہ وضو کے مسائل ميں بيان کيا گيا،اور خلوص کے ساته دے اور نيت ميں معين کرے کہ جو چيز دے رہا ہے وہ مال کی زکات ہے یا فطرہ ہے ۔

۳۱۲

مسئلہ ١٩٧ ۵ جس شخص پر چند اموال کی زکات واجب ہو گئی ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ دی جانے والی زکات کے بارے ميں معين کرے کہ کس مال کی زکات ہے ،چاہے زکات کے طور پر رقم دے رہا ہو یا اس مال کی جنس سے ہی زکات دے رہا ہو۔

مسئلہ ١٩٧ ۶ اگر کوئی شخص کسی کو اپنا وکيل بنائے کہ وہ اس کے مال کی زکات نکالے تو وکيل کے لئے ضروری ہے کہ فقير کو زکات دیتے وقت مالک کی جانب سے زکات کی ادائيگی کی نيت کرے اور احتياط یہ ہے کہ اس وقت مالک بھی زکات کی ادائيگی کی نيت کئے ہوئے ہو۔

اور اگر مالک کسی کو وکيل بنائے کہ جو زکات تمہيں دے رہا ہو ں اسے فقير تک پهنچا دو تو ضروری ہے کہ مالک اس وقت نيت کرے جب وکيل فقير کو زکات دے رہا ہو اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وکيل کو زکات دیتے وقت ہی نيت کرلے اور زکات کے فقير تک پهنچنے تک اپنی نيت پر باقی رہے۔

مسئلہ ١٩٧٧ اگر قصدِ قربت کے بغير زکات فقير کو دے دے اور مال کے تلف ہونے سے پهلے زکات کی نيت کر لے تو وہ زکات شمار ہو گی۔

زکات کے متفرق مسائل

مسئلہ ١٩٧٨ انسان کے لئے ضروری ہے کہ جو اور گندم کو بهوسے سے الگ کئے جانے کے وقت اور کھجور و انگور کے خشک ہونے کے موقع پران چيزوں کی زکات فقيرکو دے دے یا اپنے مال سے جدا کرلے اورسونے، چاندی، گائے، بھيڑ اور اونٹ کی زکات گيارہواں مهينہ مکمل ہونے پر فقير کو دے دے یا اپنے مال سے الگ کر لے۔اور اگر کسی خاص فقير کا منتظر ہو یا کسی ایسے فقير کو زکات دینا چاہتا ہو جو کسی اعتبار سے دوسروں پر برتری رکھتا ہو تو وہ یہ کر سکتا ہے کہ زکات کو الگ نہ کرے،بشرطيکہ اسے لکھ کر محفوظ کرلے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ تين مهينے سے زیادہ تاخير نہ کرے۔

مسئلہ ١٩٧٩ زکات کو الگ کر لينے کے بعد فوری طور پر اسے مستحق کو دینا ضروری نہيں ،ليکن اگر کسی ایسے شخص تک دسترسی رکھتا ہو جسے زکات دی جا سکے تو احتياطِ مستحب یہ ہے کہ زکات دینے ميں تاخير نہ کرے۔

مسئلہ ١٩٨٠ جو شخص زکات کو مستحق تک پهنچا سکتا ہو اگر نہ پهنچائے اور اس کی کوتاہی کی وجہ سے زکات تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ١٩٨١ جو شخص زکات کو مستحق تک پهنچا سکتا ہو اگر نہ پهنچائے، تو اس صورت ميں کہ اس کی نگرانی ميں کوتاہی نہ کرے اور کسی شرعی مقصد کی وجہ سے زکات نہ پهنچائی ہو مثلا یہ کہ وہ کسی افضل مصرف یا کسی معين فقير کا منتظر ہو تو ضامن نہيں ہے جب کہ اس صورت کے علاوہ ضامن ہے ۔

۳۱۳

مسئلہ ١٩٨٢ اگر زکات کو مال سے جدا کر لے تو بقيہ مال ميں تصرف کر سکتا ہے اور اگر کسی دوسرے مال سے جدا کر لے تو تمام مال ميں تصرف کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٨٣ انسان جس زکات کو عليحدہ کرچکا ہو اسے اپنے لئے لے کر اس کی جگہ کوئی دوسری چيز نہيں رکھ سکتا۔

مسئلہ ١٩٨ ۴ اگر عليحدہ رکھی گئی زکات سے کوئی فائدہ حاصل ہو مثلاً جس بھيڑکو زکات کے لئے رکھا تھا وہ بچہ دے تو وہ فقير کا مال ہے ۔

مسئلہ ١٩٨ ۵ اگر زکات کو عليحدہ کرتے وقت کوئی مستحق حاضر ہو تو بہترہے کہ وہ زکات اس کو دے دے، مگر یہ کہ کوئی ایسا شخص اس کی نظر ميں ہو جسے زکات دینا کسی اعتبار سے بہتر ہو۔

مسئلہ ١٩٨ ۶ اگر حاکمِ شرع کی اجازت کے بغير زکات کے لئے عليحدہ رکھے گئے مال سے تجارت کرے اور اسے نقصان ہو جائے تو اگر اس نے ذمہ پر سودا کيا ہو اور اس مال کو مافی الذمہ کی نيت سے دے تو نقصا ن مالک کا مانا جائے گا اور وہ زکات کا ضامن ہے اور اگر سودا عينِ مال پر واقع ہو ا ہو تو سودا باطل ہے اور حاکمِ شرع کی اجازت سے بھی صحيح نہيں ہو سکتا۔

اور اگر اسے فائدہ حاصل ہو تو اگر سودا ذمہ پر ہو اور اس مال کو مافی الذمہ ادا کرنے کی نيت سے دیا ہو تو فائدہ اس کا ہے اور وہ زکات کا ضامن ہے ۔ جب کہ اگر سودا عين مال پر ہوا ہو اور حاکم شرع اس کی اجازت دے دے تو ضروری ہے کہ سارا منافع فقير کو دے۔

مسئلہ ١٩٨٧ اگر زکات واجب ہونے سے پهلے کوئی چيز زکات کی بابت فقير کو دے تو وہ زکات نہيں مانی جائے گی۔ ہاں،زکات واجب ہونے کے بعد اگر فقير کو دی گئی چيز تلف نہ ہوئی ہو اور فقير بھی اپنے فقر پر باقی ہو تو اسے دی جانے والی چيز کو زکات کی بابت حساب کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٨٨ جو فقير کسی شخص سے یہ جانتے ہوئے کہ اس پر زکات واجب نہيں ہوئی ہے زکات لے لے اور وہ زکات فقير کے پاس تلف ہو جائے تو وہ ضامن ہو گا،لہٰذا جب اس شخص پر زکات واجب ہو اور فقير اپنے فقر پر باقی ہو تو اسے دی جانے والی چيز کے عوض کو زکات کی بابت حساب کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ١٩٨٩ جو فقير نہ جانتا ہو کہ انسان پر زکات واجب نہيں ہوئی ہے اگر وہ کوئی چيز زکات کی بابت لے لے اور وہ اس کے پاس تلف ہو جائے تو وہ ضامن نہيں ہو گا اور انسان اس کے عوض کو زکات کی بابت حساب نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ١٩٩٠ مستحب ہے کہ گائے،بھيڑ اور اونٹ کی زکات آبرومند فقيروں کو دے اور زکات دینے ميں اپنے رشتے داروں کو دوسروں پر،اہل علم وکمال کو ان کے علاوہ پر اور دستِ سوال دراز نہ کرنے والوں کو ہاتھ پهيلانے والوں پر مقدم رکھے،ليکن اگر کسی فقير کو زکات دینا کسی اور اعتبار سے بہتر ہو تو مستحب ہے کہ زکات اسے دے۔

۳۱۴

مسئلہ ١٩٩١ زکات کو اعلانيہ اور مستحب صدقے کو مخفی طور پر دینا افضل ہے ۔

مسئلہ ١٩٩٢ اگر زکات دینے والے شخص کے شہر ميں نہ کوئی مستحق ہو اور نہ ہی اسے زکات کے لئے مقررہ مصارف ميں سے کسی مصرف ميں لا سکتا ہو،پس اگر اسے بعد ميں کسی مستحق کے مل جانے کی اميد بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ زکات کو دوسرے شہر ميں لے جا کر اس کے مصر ف ميں لائے اور زکات کو اس شہر تک لے جانے کے اخراجات زکات ميں سے نکال سکتا ہے اور احتياطِ واجب یہ ہے کہ حاکمِ شرع کی اجازت سے نکالے اور اگر زکات تلف ہو جائے تو اس صورت ميں کہ اس نے زکات کی حفاظت ميں کوتاہی نہ کی ہو ضامن نہيں ہو گا۔

مسئلہ ١٩٩٣ اگر اپنے شہر ميں مستحق مل جائے تب بھی زکات کو دوسرے شہر ميں لے جا سکتاہے ليکن ضروری ہے کہ دوسرے شہر تک لے جانے کے اخراجات اپنی جيب سے دے اور زکات تلف ہو جانے کی صورت ميں ضامن بھی ہو گا، مگر یہ کہ حاکمِ شرع کی اجازت سے لے گيا ہو۔

مسئلہ ١٩٩ ۴ زکات کے طور پر دی جانے والے گيہوں، جو، کشمش اور کھجور کے ناپ تول کی اجرت دیناخود مالک کی ذمہ داری ہے ۔

مسئلہ ١٩٩ ۵ جو شخص دو مثقال اور ١ ۵ چنے کے برابر یا اس سے زیادہ مقدارکی چاندی زکات کی بابت دینے کا ذمہ دار ہو احتياطِ مستحب یہ ہے کہ ایک فقير کو دو مثقال اور ١ ۵ چنے کے برابر چاندی سے کم نہ دے۔ نيزاگر اس پر چاندی کے علاوہ کوئی دوسری چيز جيسے گندم یا جو واجب ہوں اور اس کی قيمت دو مثقال اور ١ ۵ چنے چاندی کے برابر پهنچ جائے تو احتياطِ مستحب یہ ہے کہ ایک فقير کو اس مقدار سے کم نہ دے۔

مسئلہ ١٩٩ ۶ مکروہ ہے کہ انسان مستحق سے در خواست کرے کہ اس سے لی گئی زکات کو اسی کے ہاتھ فروخت کردے ليکن اگرمستحق لی جانے والی چيز کو فروخت کرنا چاہتا ہو تو قيمت لگانے کے بعد اسے زکات دینے والا اس کو خریدنے ميں دوسروں پر مقدم ہے ۔

مسئلہ ١٩٩٧ اگر انسان شک کرے کہ اس نے واجب شدہ زکات ادا کر دی ہے یا نہيں تو جس مال پر زکات واجب ہوئی تھی اگر وہ موجود ہو تو ضروری ہے کہ زکات ادا کرے خواہ اس کا شک پچهلے سالوں کی زکات کے بارے ميں ہو اور اگر وہ مال تلف ہو چکا ہو تو اس پر زکات نہيں خواہ وہ اسی سال کے بارے ميں ہو۔

مسئلہ ١٩٩٨ فقير یہ نہيں کر سکتا کہ زکات کی مقدار سے کم پر مصالحت کر لے یا کسی چيزکو مهنگی قيمت پر زکات کی بابت قبول کر لے یا زکات کو مالک سے لے کر اسے ہی بخش دے ليکن جس شخص پر زکات واجب ہو اور فقير ہو گيا ہو اور زکات نہ دے سکتا ہو اگر وہ توبہ کرنا چاہتا ہو تو فقيراس سے زکات لے کر اسی کو بخش سکتا ہے ۔

۳۱۵

مسئلہ ١٩٩٩ فقهائے کرام اعلیٰ الله مقامهم کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ انسان زکات سے کسی زمين کو وقف کر سکتا ہے یا قرآن یا دینی کتب یا دعاؤں کی کتب کو خرید کر وقف کر سکتا ہے اور اس وقف کا متولی خود کو یا اپنی اولاد کو بنا سکتا ہے ، ليکن حاکمِ شرع سے رجوع کئے بغيرمالک کا وقف اور متولی معين کرنے پر ولایت رکھنا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٠٠٠ انسا ن یہ نہيں کر سکتا کہ زکات سے کوئی ملکيت خریدے اور اپنی اولاد پر یا ان افراد پر جن کے اخراجات اس پر واجب ہيں وقف کر دے تاکہ وہ اس کی آمدنی کو اپنے اخراجات کے لئے استعمال کریں۔

مسئلہ ٢٠٠١ انسان چاہے فقير نہ ہو یا ہو اور سال بھر کے اخراجات کے لئے زکات لے چکاہو،حج و زیارات پر جانے یا ان جيسی چيزوں کے لئے سهمِ سبيل الله سے زکات لے سکتا ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر اطاعت ہونے کے علاوہ معتبر ہے کہ ان امور ميں عمومی مصلحت بھی ہو جيسے مقدساتِ دین کا احترام اور ترویج دین وغيرہ۔

مسئلہ ٢٠٠٢ اگر مالک کسی فقير کو اپنے مال کی زکات کی ادائيگی پر وکيل بنائے اور فقير احتمال دے کہ مالک کی نيت یہ تھی کہ وہ خود ا س زکات سے کچھ نہ لے تو وہ اس زکات سے خود کے لئے کچھ نہيں لے سکتا۔هاں،اگر یقين یا اطمينان رکھتا ہو کہ مالک کی نيت یہ نہيں تھی تو خود اپنے لئے بھی لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٠٠٣ اگر فقير اونٹ،گائے،بھيڑ،سونا یا چاندی زکات کی بابت لے اور زکات واجب ہونے کے مذکورہ شرائط اس مال ميں جمع ہو جائيں تو ضروری ہے کہ ان کی زکات دے۔

مسئلہ ٢٠٠ ۴ اگر دو افراد ایسے مال ميں شراکت دار ہوں جس ميں زکات واجب ہو چکی ہو اور ان ميں سے ایک اپنے حصے کی زکات دے دے اور پھر آپس ميں مال کو تقسيم کر ليں تو جو زکات ادا کر چکا ہے اس کے لئے خود کے حصے ميں تصرف کرنے ميں کوئی حرج نہيں ، چاہے جانتا ہو کہ شریک نے اپنے حصے کی زکات نہيں دی ہے ۔

مسئلہ ٢٠٠ ۵ جس شخص پر خمس یازکات واجب ہو،کفارہ،نذر یا ان جيسی چيزیں بھی اس پر واجب ہوں اور قرض دار بھی ہو اگر وہ ان تمام کو ایک ساته ادا نہ کر سکتا ہوتو جس مال پر خمس یا زکات واجب ہوئی تهی، اگر تلف نہ ہوگيا ہو تو ضروری ہے کہ خمس وزکات ادا کرے اور اگر تلف ہو گيا ہو تو بنا بر احتياطِ واجب مال کو قرض،خمس اور زکات ميں نسبت کے اعتبار سے تقسيم کردے اور ان کی ادائيگی کو کفارے اور نذر کردہ مال کی ادائيگی پر مقدم رکھے۔

مسئلہ ٢٠٠ ۶ جس شخص پر خمس یا زکات واجب ہو، حج بھی اس پر واجب ہو اور مقروض بھی ہو، اگر مرجائے اور اس کا مال ان سب کے لئے کافی نہ ہو،تو جس ما ل پر خمس یا زکات واجب ہوئے تهے اگر وہ تلف نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ زکات یا خمس کو ادا کيا جائے اور اس کے باقی مال کو حج اور قرض پر تقسيم کيا جائے۔

۳۱۶

اور اگر وہ مال کہ جس پر خمس یا زکات واجب ہو ئی تھی تلف ہو گيا ہو تو اگر وہ صرورہ تھا، یعنی پهلی مرتبہ اس کا حج پر جانا ہو اتها اور حج کے راستے ميں احرام سے پهلے ہی مر گيا، تو ضروری ہے کہ اس کے مال کو حج ميں خرچ کيا جائے اور اگر کچھ مال بچ جائے تو اسے خمس،زکات اور قرض ميں نسبت کے اعتبار سے تقسيم کر دیا جائے اور اس صورت کے علاوہ حج،خمس وزکات پر تو مقدم ہے ليکن اس کا قرض پر مقدم ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٠٠٧ اگر ایسا شخص علم حاصل کرنے ميں مصروف ہوجوعلم حاصل نہ کرنے کی صورت ميں روزی کماسکتا ہو تو اگر اس علم کا حاصل کرنا اس پر واجب عينی ہو یا واجبِ کفائی ہو ليکن کوئی دوسرااس ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے آگے نہ بڑھ رہا ہو تو فقرا کے حصے سے زکات دی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح سبيل الله کے حصے سے بھی اس کو زکات دی جا سکتی ہے ،ليکن اس صورت ميں احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس کے علم حاصل کرنے ميں عمومی مصلحت بھی ہو۔

اور اگر اس علم کا حاصل کرنا اس کے لئے مستحب ہو تو فقرا کے حصے سے اسے زکات دینا جائز نہيں ليکن سبيل الله کے حصے سے دی جا سکتی ہے اور بنا بر احتياط ضروری ہے کہ اس کے علم حاصل کرنے ميں عمومی مصلحت بھی ہو اور اگر اس کا علم حاصل کرنا نہ واجب ہو نہ مستحب ہو تو اسے زکات دینا جائزنہيں ۔

زکات فطرہ

مسئلہ ٢٠٠٨ جو شخص عيدِ فطر کی رات بوقت غروب بالغ و عاقل ہو اور فقير و غلام نہ ہو، یعنی سورج کے غروب ہونے سے پهلے، چاہے ایک لمحہ کے لئے ہی ان شرائط کے ساته ماہِ رمضان کو پالے توضروری ہے کہ اپنے اور ان افراد کے لئے جو اس کا کھانا کھاتے ہوں،فی نفر ایک صاع جو تين کلوکے قریب ہوتا ہے ، گندم، جوَ، کھجور، کشمش، چاول یا ان جيسی کوئی چيز مستحق کو دے اور احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ چيز اس کے علاقے ميں غذا کے طور پر رائج ہو۔ اگر ان ميں سے کسی ایک کی قيمت بھی دے دے توکافی ہے اور احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ عيد کی رات ميں غروب کے وقت جو شخص بے ہوش ہو وہ بھی فطرہ نکالے۔

مسئلہ ٢٠٠٩ جس شخص کے پاس اپنے اور اپنے اہل وعيا ل کے سال بھر کے اخراجات کی رقم نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا کمائی کا ذریعہ رکھتا ہو کہ اپنے اور اپنے اہل و عيال کے سال بھر کے اخراجات چلا سکے تو وہ فقير ہے اور اس پر فطرہ دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ٢٠١٠ انسان کے لئے ان تمام افراد کا فطرہ نکالنا واجب ہے جو عيدفطر کی رات ميں غروب کے وقت اس کا کھانا کھانے والے شمار ہوں،چهوٹے ہوں یا بڑے،مسلمان ہوں یا کافر،ان کا خرچ دینا اس پر واجب ہویا نہ ہو اور اس کے اپنے شہر ميں ہوں یا دوسرے شہر ميں ۔

۳۱۷

مسئلہ ٢٠١١ اگر اس شخص کو جو اس کا کھانا کهاتا ہو اور دوسرے شہر ميں ہو وکيل بنا دے کہ وہ اس کے مال سے خود کا فطرہ دے دے، تو اگر اسے اطمينان ہو کہ وہ فطرہ دے دے گا تو موکل پر اس کا فطرہ نکالنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢٠١٢ ان مهمانوں کا فطرہ جو عيد فطر کی رات کو غروب سے پهلے صاحب خانہ کی رضامندی سے آ ئے ہوں اور فطرہ واجب ہونے کے وقت اس کا کھانا کھانے والے شمار ہوتے ہوں،صاحب خانہ پر واجب ہے ۔

مسئلہ ٢٠١٣ وہ مهمان کہ جو شب عيدفطر کو غروب سے پهلے صاحب خانہ کی رضایت کے بغيرآئے ہوں اور کچھ وقت اس کے پاس رہيں تو بنا بر احتياطِ واجب ضروری ہے کہ ان کا فطرہ وہ خود بھی دیں اور ميزبان بھی دے اور اسی احتياط کا خيال رکھنا اس شخ-ص کے بارے ميں بھی ضروری ہے کہ جس کا خرچہ دینے کے لئے انسان کو مجبور کيا گيا ہو۔

مسئلہ ٢٠١ ۴ اس مهمان کا فطرہ جو عيد فطر کی رات غروب کے بعد پهنچا ہو،صاحب خانہ پر واجب نہيں اگرچہ غروب سے پهلے اس کو دعوت دی گئی ہو اور وہ افطار بھی اس کے گھر کرے۔

مسئلہ ٢٠١ ۵ جو شخص عيد فطر کی رات ميں غروب کے و قت دیوانہ ہو اس پر فطر ہ نکا لنا واجب نہيں ۔

مسئلہ ٢٠١ ۶ اگر غروب سے پهلے بچہ بالغ ہو جائے یا دیوانہ عاقل ہو جائے یا فقير غنی ہو جائے تو فطرہ واجب ہونے کے باقی شرائط کے ہوتے ہوئے فطرہ نکالنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٠١٧ جس شخص پر عيد فطر کی رات ميں غروب کے وقت فطرہ واجب نہ ہو اگر عيد کے دن ظہر سے پهلے تک فطرہ واجب ہونے کے شرائط اس ميں پيدا ہو جائيں تو احتياط مستحب یہ ہے کہ فطرہ نکالے۔

مسئلہ ٢٠١٨ جو کافر عيد فطر کی رات غروب کے بعد مسلمان ہوا ہو اس پر فطرہ واجب نہيں ليکن جو مسلمان شيعہ نہيں تھا اگر چاند دیکھنے کے بعد شيعہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ فطرہ نکالے۔

مسئلہ ٢٠١٩ جس شخص کے پاس صرف ایک صاع جو تين کلو کے قریب ہوتا ہے گندم یا اس جيسی کوئی چيز ہو،مستحب ہے کہ فطرہ دے اور اگر اہل و عيا ل والا ہو اور ان کا فطرہ بھی دینا چاہتا ہو تو وہ فطرے کی نيت سے اس ایک صاع کو اپنے اہل وعيال ميں سے کسی ایک کو دے سکتا ہے اوروہ بھی اسی نيت سے کسی دوسرے کو دے یهاں تک کے بات آخری فرد تک پهنچ جائے اور بہتر ہے کہ آخری فرد یہ چيز کسی ایسے شخص کو دے جو خود ان ميں سے نہ ہو اور اگر ان ميں سے کوئی چھوٹاہو تو احتياطِ واجب یہ ہے کہ اس کا ولی اس کو خود کے لئے قبول کر کے بچے کے لئے فطرے کی نيت سے دے دے اور اگر بچے کے لئے قبول کر لے تو پھر احتياطِ واجب یہ ہے کہ اسے کسی اور کو نہ دے۔

۳۱۸

مسئلہ ٢٠٢٠ اگر عيد فطر کی رات غروب کے بعد بچہ پيدا ہو یا کوئی اس کا کھانا کھانے والا شمار ہو تو ان کا فطرہ نکالنا واجب نہيں اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ جو افراد غروب کے بعد سے لے کر عيد کے دن ظہر سے پهلے تک اس کا کھانا کھانے والے شمار ہوں ان کا فطرہ نکالے۔

مسئلہ ٢٠٢١ اگر انسان کسی کا کھانا کهاتا ہو اورغروب سے پهلے اس کا شمار کسی اور کا کھانا کھانے والوں ميں ہو جائے تو اس کا فطرہ اس شخص پر واجب ہو گا کہ اب جس کا کھانا کھانے والا بن گيا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر لڑکی غروب سے پهلے شوہر کے گھر رخصت ہو جائے تو اس کا فطرہ شوہر پر دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٠٢٢ جس شخص کا فطرہ دینا کسی اور کی ذمہ داری ہو اس پر اپنا فطرہ دینا واجب نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٢٣ اگر انسان کا فطرہ دینا کسی اور پر واجب ہو اور وہ اس کا فطرہ نہ دے تو فطرہ واجب ہونے کے شرائط کی موجودگی ميں احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنا فطرہ خود دے۔

مسئلہ ٢٠٢ ۴ جس شخص کا فطرہ کسی دوسرے پر واجب ہو اگر وہ اپنا فطرہ خود دے دے تو جس پر فطرہ واجب تھا اس کی ذمہ داری ختم نہيں ہوتی۔

مسئلہ ٢٠٢ ۵ جس عورت کا شوہر اس کے اخراجات نہ دیتا ہو اگر وہ کسی اور کا کھانا کهاتی ہو تو اس کا فطرہ اس شخص پر واجب ہے اور اگر کسی اور کا کھانا نہ کهاتی ہو تو وجوبِ فطرہ کی شرائط کی موجودگی ميں ضروری ہے کہ خود اپنا فطرہ دے۔

مسئلہ ٢٠٢ ۶ جو شخص سيّد نہيں وہ سيّد کو اپنا فطرہ نہيں دے سکتا یهاں تک کہ اگر کوئی سيّد اس کا کھانا کهاتا ہو تب بھی وہ اس کی طرف سے نکالا ہوا فطرہ کسی دوسرے سيّد کو نہيں دے سکتا۔

مسئلہ ٢٠٢٧ اس بچے کا فطرہ جو ماں یا دایہ کا دودھ پيتا ہو اس شخص پر واجب ہے جو ماں یا دایہ کے اخراجات برداشت کرتاہو ليکن اگر ماں یا دایہ اپنے اخراجات کو بچے کے مال سے نکا لتی ہو تو بچے کا فطرہ کسی پر واجب نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٢٨ انسان اگرچہ اپنے اہل و عيال کے اخراجات مال حرام سے دیتا ہو پھر بھی ضروری ہے کہ ان کا فطرہ حلال مال سے دے۔

مسئلہ ٢٠٢٩ اگر انسان کسی کو اجير بنائے اور شرط یہ رکھی گئی ہو کہ اس کے اخراجات بھی دے اور اس شرط پر عمل بھی کرے تو ضروری ہے کہ اس کا فطرہ بھی ادا کرے، ليکن اگر شرط یہ رکھی گئی ہو کہ اس اخراجات کی مقدار اسے دے مثلاًکچه رقم اسے مخارج کے لئے دے ليکن نفقہ کے عنوان سے نہ ہو،خواہ وہ اس کے کام کی مزدوری کے حساب سے ہو یا کسی اور حساب سے،تو اس کا فطرہ دیناواجب نہيں ۔

۳۱۹

مسئلہ ٢٠٣٠ اگر کوئی شخص عيد فطر کی رات غروب کے بعد مر جائے تو ضروری ہے کہ اس کا اور اس کے اہل و عيال کا فطرہ اس کے مال سے دیا جائے، ليکن اگر غروب سے پهلے مر جائے تو اس کا اور اس کے اہل و عيال کا فطرہ اس کے مال سے دینا واجب نہيں ۔

فطرے کا مصرف

مسئلہ ٢٠٣١ علما ميں مشهور قول یہ ہے کہ فطرے کا مصرف وهی ہے جو مال کی زکات کا مصرف ہے ليکن احتياطِ واجب یہ ہے کہ فطرہ فقراء کو دیا جائے جن کا شيعہ اثنا عشری ہونا بھی ضروری ہے اورمومن نہ ملنے کی صورت ميں کسی غير ناصبی مسلمان کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٠٣٢ اگر کوئی شيعہ اثنا عشری بچہ مسئلہ نمبر” ١٩ ۶ ٠ “ اور” ١٩ ۶ ١ “ ميں بتائے گئے اعتبار سے فقير ہو تو وہ فطرے کو اس بچے کے استعمال ميں لا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٠٣٣ جس فقير کو فطرہ دیا جائے اس کا عادل ہونا ضروری نہيں ،ليکن احتياطِ واجب یہ ہے کہ شرابی،بے نمازی اور کهلم کهلا گناہ کبيرہ کرنے والے کو فطرہ نہ دیا جائے۔

مسئلہ ٢٠٣ ۴ ایسے شخص کو فطرہ نہيں دیا جاسکتا جو اسے معصيت ميں استعمال کرتا ہو۔

مسئلہ ٢٠٣ ۵ احتياطِ واجب یہ ہے کہ ایک فقير کو ایک صاع جو کہ تقریباً تين کلو ہوتا ہے ،سے کم فطرہ نہ دیا جائے۔ ہاں، چند صاع دینے ميں حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٣ ۶ جس چيز کی اعلیٰ قسم کی قيمت اس کی گھٹيا قسم سے دگنی ہومثلاجس گندم کی قيمت اس کی گھٹيا قسم سے دگنی ہو اس سے آدها صاع دینا کافی نہيں بلکہ اگر یہ آدها صاع فطرے کی قيمت کے طور پر دے تب بھی کافی نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٣٧ انسان یہ نہيں کر سکتا کہ آدها صاع ایک چيز مثلا گندم سے اور باقی آدها کسی دوسری چيز مثلا جَو سے دے اوراسے فطرے کی قيمت کے ارادے سے دینا بھی کافی نہيں ۔

مسئلہ ٢٠٣٨ مستحب ہے کہ فطرہ دینے ميں اپنے فقير رشتہ داروں کو دوسروں پر مقدم رکھے اور اس کے بعد فقير پڑوسيوں کو اور مستحب ہے کہ دین،فقہ اور عقل کے اعتبار سے برتری رکھنے والوں کو مقدم رکھے۔

مسئلہ ٢٠٣٩ اگر انسان کسی شخص کو فقير سمجھ کر فطرہ دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ فقير نہيں تھا تو اسے دیا جانے والا مال تلف نہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ واپس لے کر فقير کو دے اور اگر واپس نہ لے سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے مال سے فطرے کا عوض دے۔

۳۲۰