توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 196890
ڈاؤنلوڈ: 3915

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196890 / ڈاؤنلوڈ: 3915
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ٢١٢٨ ایک سال کا پھل اس کے کونپل بننے سے پهلے،کسی چيز کو ساته ملا ئے بغير فروخت کرنا جائز نہيں ہے ،البتہ دو یا اس سے زیادہ سالوں کا پھل فروخت کرنایا کسی چيز کو ساته ملاتے ہوئے ایک سال کا پھل فروخت کرنا جائزهے،اور احتياط مستحب یہ ہے کہ پھل کے کونپل بن جانے کے بعد اس سے پهلے کہ پھول گرے اور پھل اپنے ابتدائی مرحلے ميں داخل ہو،بيچنے کے ليے اس کے ساته زمين سے ہی حاصل ہونے والی کوئی چيز مثلاً سبزیجات یا کوئی اور مال ملا کر بيچا جائے یا ایک سال سے زیادہ کا پھل بيچا جائے۔

مسئلہ ٢١٢٩ درخت پر لگی ہوئی کھجور اگر لال یا پيلی ہو چکی ہو تو اسے بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ،ليکن اس کی قيمت اسی درخت پر لگی ہوئی کھجور کو قرار نہيں دیا جا سکتا۔ اسی طرح احتياط واجب یہ ہے کہ کسی اور کھجور کو بھی چاہے معين ہو یا ذمے پر،اس کا عوض قرار نہ دیا جائے۔

البتہ اگر کسی شخص کے پاس ایک کھجور کا درخت کسی دوسرے کے گھر ميں ہو تو درخت کا مالک اگر ان کھجوروں کی مقدار کا اندازہ لگا کر اس گھر کے مالک کو بيچ دے اور اس کا عوض بھی کھجوریں ہی قرار دے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢١٣٠ کهيرے،بينگن اور سبزیاں جن کی سال ميں کئی فصليں اترتی ہيں ،ان کو ظاہر ونمایاں ہو جانے کے بعد یہ طے کرتے ہوئے کہ خریدار سال ميں ان کی کتنی فصليں اتارے گا،بيچنا جائز ہے ۔

مسئلہ ٢١٣١ اگر گند م او ر جوَ کے خوشے کو دانہ پڑنے کے بعد گندم اور جوَ کے علاوہ کسی اور چيز کے عوض فروخت کيا جائے تو کوئی حرج نہيں ،البتہ اسی خوشے سے حاصل ہونے والے گندم یا جوَکے عو ض ميں بيچنا جائز نہيں ۔اسی طرح احتياطِ واجب کی بنا پر اس خوشے کی جوَ یا گندم کے علاوہ کسی اور جوَ یا گندم کے عو ض بيچنا بهی،چاہے جوَ یا گندم معين ہو یا نہ ہو، جائز نہيں ہے ۔

نقد اور ادهار

مسئلہ ٢١٣٢ اگر کسی چيز کو نقد فروخت کيا جائے تو خریدار اور فروخت کرنے والا ایک دوسرے سے چيز اور رقم کا مطالبہ کر کے اپنی تحویل ميں لے سکتے ہيں ۔

اور اموال کو تحویل ميں دینا، خواہ منقول ہوں یاغير منقو ل، یہ ہے کہ دوسرے کے تصرف ميں موجود رکاوٹوں کو برطرف کر دیاجائے۔

مسئلہ ٢١٣٣ ادهار سودے ميں ضروری ہے کہ مدت مکمل طور پر معلوم ہو، لہٰذا اگر کسی چيز کو فروخت کرے کہ فصل کی کٹائی کے وقت اس کی رقم لے تو چونکہ مدت مکمل طور پر معين نہيں ہوئی لہٰذا سودا باطل ہو گا۔

۳۴۱

مسئلہ ٢١٣ ۴ اگر کسی چيز کو ادهار پر فروخت کرے تو طے شدہ مدت کے ختم ہونے سے پهلے اس کی قيمت کا خریدار سے مطالبہ نہيں کر سکتا۔ ہاں، اگر خریدار مر جائے اور اس کا اپنا مال ہو تو فروخت کرنے والامدت کے ختم ہونے سے پهلے اس کے وارثوں سے قيمت کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٣ ۵ اگر کسی چيز کو ادهار پر فروخت کرے تو طے شدہ مدت ختم ہونے کے بعد خریدار سے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے ، ليکن اگر خریدار قيمت ادا نہ کر سکے تو ضروری ہے کہ یا اسے مهلت دے اور یا پھرمعاملے کو ختم کردے اور اگر بيچی گئی چيز موجود ہو تو اسے واپس لے لے۔

مسئلہ ٢١٣ ۶ اگر کسی ایسے شخص کو ادهار بيچے جو چيز کی قيمت نہ جانتا ہو اور نہ ہی اس کی قيمت اس کو بتائے تو سودا باطل ہو گا،ليکن اگر کسی ایسے شخص کو جو چيز کی نقد قيمت کو جانتاہو ادهار دے اور مهنگی قيمت لگائے مثلاً کهے کہ اس ادهار ميں دی ہوئی چيز کی قيمت نقد قيمت سے ایک روپے پر دس پيسے کے حساب سے زیادہ لوں گا اور خریدار قبول کر لے تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢١٣٧ جس شخص نے کسی چيز کو ادهار پر فروخت کياہو اور اس کی رقم لينے کی مدت کو طے کر ليا ہو اگر مثلاًآدهی مدت گزرنے کے بعد خریدار سے کهے کہ قيمت کی اتنی مقدار مجھے نقد دے دواور باقی تمہيں معاف کرتا ہوں تو اس ميں کوئی حرج نہيں ۔

معاملہ سلف

مسئلہ ٢١٣٨ معامل ۂ سلف یہ ہے کہ خریدار نقد رقم دے کر کسی چيز کو بيچنے والے کے ذمہ پر خریدے کہ کچھ مدت کے بعد اس چيز کو بيچنے والے سے لے۔یہ سودا ادهار سودے کے بالکل برعکس ہے ۔

اور اگر خریدار کهے:” ميں یہ رقم دیتا ہوں تاکہ مثلاچھ مهينے کے بعد فلاں چيز کو لوں کہ جو تمهارے ذمہ پر ہے “ اور فروخت کرنے والا کهے:” ميں نے قبول کيا“یا فروخت کرنے والا رقم لے کر کهے:” ميں فلاں چيز کو اپنے ذمہ پر فروخت کرتا ہوں کہ چھ ماہ بعد تمہيں دوں“، تو یہ سودا صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢١٣٩ اگر سونے یا چاندی کو خواہ وہ رقم کی صورت ميں ہو یا نہ ہو بطورِ سلف فروخت کرے اور اس کی قيمت ميں سونا یا چاندی ہی لے، چاہے وہ رقم کی صورت ميں ہو یا نہ ہو ،سودا باطل ہو گا ۔ ليکن اگر کسی چيز یا ایسی رقم کو جو سونے یا چاندی کی صورت ميں نہ ہو بطور سلف فروخت کرے اور اس کی قيمت ميں کوئی چيز یا سونا چاندی لے تو خواہ وہ رقم کی صورت ميں ہو یا نہ ہو، سودا صحيح ہو گا ۔

۳۴۲

معاملہ سلف کے شرائط

مسئلہ ٢١ ۴ ٠ معامل ۂ سلف کے سات شرائط ہيں :

١) ان خصوصيا ت کو معين کيا جائے جو چيز کی قيمت پر اثر انداز ہوتی ہيں اور ان خصوصيات کا اس طرح معين کرنا کہ عرفِ عام ميں یہ کها جائے کہ اس کی خصوصيا ت معلوم ہو گئی ہيں ، کافی ہے اور ان چيز وں ميں کہ جن کی صفات اور خصوصيات دیکھے بغير معين نہيں ہو سکتی ہيں جيسے جواہرات اور اس جيسی چيزیں ، معاملہ سلف صحيح نہيں ہے ۔

٢) خریدار اور بيچنے والے کے ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پهلے خریدار مکمل قيمت بيچنے والے کو ادا کرے یا بيچنے والا قيمت کی مقدار ميں خریدار کا مقروض ہو اور اس کا قرضہ نقد رقم یا ایسے ادهار کی صورت ميں ہو جس کی مدت پوری ہو چکی ہو اور اپنے اس قرض کو چيز کی قيمت کے طور پر حساب کرے اور بيچنے والا بھی اس حساب کو قبول کرے۔

اور اگر قيمت کا کچھ ادا کرے تو صرف اس قيمت کی بہ نسبت سودا صحيح ہو گا اور بيچنے والے کو یہ اختيار ہو گا کہ سودا ختم کر دے۔

٣) مدت کو اس طرح معين کيا جائے کہ مکمل طور پر معلوم ہو ،لہٰذا اگر مثلاًکهے کہ فصل کی کٹائی کے وقت چيزکو تمهارے حوالے کروں گا تو چونکہ مدت مکمل طور پر معلوم نہيں ہوئی ہے ، لہٰذا سودا باطل ہو گا۔

۴) چيز تحویل ميں دینے کے لئے معين کيا جانے والا وقت ایسا ہو کہ بيچنے والا اس وقت چيز کو تحویل ميں دے سکے۔

۵) چيزکا قبضہ دینے کی جگہ، اس صورت ميں معين ہونا ضروری ہے کہ جب جگہوں کا مختلف ہونا قبضہ دینے ميں دشواری یا مالی نقصان کا سبب ہو، ليکن اگر قرائن سے اس کی جگہ معلوم ہو تو اس جگہ کا نام لينا ضروری نہيں ۔

۶) چيز کی مقدار کو وزن، پيمانہ، گنتی یا ان جيسی چيزوں سے معين کيا جائے اور ان چيزوں کو بھی بطورِ سلف فروخت کرنے ميں کوئی حرج نہيں جنہيں عام طور پر دیکھ کر خریدا جاتاہے ، بشرطيکہ اخروٹ اور انڈے کی بعض اقسام کی طرح اس کے افراد ميں اس قدر کم فرق ہو جسے لوگ اہميت نہيں دیتے ۔

٧) جس چيز کو فروخت کيا جارہا ہو اگر وہ ان چيزوں سے ہو کہ جنہيں وزن یا پيمانے سے فروخت کيا جاتا ہے تو اس کا عوض اسی چيز سے نہ ہو مثلاًگندم کو گندم کے عوض بطور سلف فروخت نہيں کيا جاسکتا ۔

معاملہ سلف کے احکام

مسئلہ ٢١ ۴ ١ جس چيز کو انسان نے بطور سلف خریدا ہو اسے مدت پوری ہونے سے پهلے بيچنے والے کے علاوہ کسی اور شخص کے ہاتھ نہيں بيچ سکتا ہے اور اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بيچنے والے کو بھی نہيں بيچ سکتا ہے ۔ ہاں، مدت پوری ہونے کے

۳۴۳

بعد اس چيز کو بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ، اگرچہ خریدار نے مطلوبہ چيز اپنے قبضے ميں نہ لی ہو، ليکن اگر بيچنے والے کو قيمت کی جنس سے ہی بيچے تو ضروری ہے کہ چيز کی قيمت سے زیادہ پر نہ بيچے۔ ناپ یا تول کر بيچی جانے والی اشياء کو قبضے ميں لینے سے پهلے بيچنا جائز نہيں ہے ، ليکن اگر سرمايہ سے زیادہ پر نہ بيچے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٢ اگر بيچنے والا اُس چيز کوجس کا سودا بطور سلف ہوا ہو، وقت مقررہ ميں خریدار کے سپرد کردے تو خریدار کے لئے اس کا قبول کرنا ضروری ہے اور اگر جس چيز کا سودا ہوا ہو اس سے بہتر چيز دے جس کا شمار اسی جنس سے ہو تو بھی خریدار کے لئے قبول کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٣ اگر بيچنے والا، جس چيز کا سودا ہوا ہو اس سے گھٹيا چيز دے تو خریدار کو اختيار ہے کہ وہ قبول نہ کرے۔

مسئلہ ٢١ ۴۴ اگر بيچنے والا اُس چيز کے علاوہ کوئی دوسری چيز دے جس کا سودا ہوا تھا تو خریدار کے راضی ہونے کی صورت ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴۵ جس چيز کو بطورِ سلف بيچا گيا ہو، اگر وہ اس وقت نایاب ہوجائے جب اسے خریدار کے سپرد کرنا ضروری ہو اور بيچنے والے کے لئے مهيا کرنا ممکن نہ رہے تو خریدار کو اختيار ہے کہ یا تو چيز کے دستياب ہونے تک صبر کرے یا سودا فسخ کرکے اپنی رقم واپس لے لے۔

مسئلہ ٢١ ۴۶ اگر کوئی شخص کسی چيز کو بيچے اور يہ طے پائے کہ کچھ عرصے کے بعد چيز دے گا اور رقم بھی کچھ عرصہ کے بعد لے گا تو سودا باطل ہے ۔

سونے و چاندی کی سونے و چاندی کے عوض فروخت

مسئلہ ٢١ ۴ ٧ اگر سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض بيچا جائے خواہ وہ سکّے کی صورت ميں ہو یا نہ ہو، اگر ان ميں سے ایک کا وزن دوسرے سے زیادہ ہو توسودا حرام اور باطل ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٨ اگر سونے کو چاندی کے عوض یا چاندی کو سونے کے عوض بيچا جائے تو سودا صحيح ہے اور ضروری نہيں ہے کہ دونوں کا وزن مساوی ہو۔

مسئلہ ٢١ ۴ ٩ اگر سونے یا چاندی کو سونے یا چاندی کے عوض بيچا جائے تو بيچنے والے اور خریدنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پهلے چيز اور اس کے عوض کا تبادلہ کرليں اور اگر معاملہ شدہ جنس کی کچھ مقدار کا بھی تبادلہ نہ کریں تو ایسی صورت ميں سودا باطل ہے ۔

۳۴۴

مسئلہ ٢١ ۵ ٠ اگر بيچنے والے یا خریدنے والے ميں سے کوئی ایک طے شدہ مال پورا پورا دوسرے کے سپرد کردے ليکن دوسرا کچھ مقدار حوالے کرے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائيں تو اگرچہ اتنی مقدار کی نسبت سودا صحيح ہے ، ليکن جس کو پورا مال نہ ملا ہو وہ سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵ ١ اگر کان ميں موجود چاندی کی مٹی کو خالص چاندی سے اور اسی طرح کان ميں موجود سونے کی مٹی کو خالص سونے سے بيچا جائے تو سودا باطل ہے ، مگر يہ کہ بيچنے والا جانتا ہو کہ مٹی ميں موجود سونے یا چاندی کی مقدار خالص سونے یا چاندی کے برابر ہے ۔ ہاں، چاندی کی مٹی کو سونے کے عوض اور سونے کی مٹی کو چاندی کے عوض بيچنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

وہ مقامات جهاں انسان معاملہفسخ (ختم) کر سکتاہے

مسئلہ ٢١ ۵ ٢ سودا فسخ کرنے کے حق کو ”خيار“ کہتے ہيں ۔ خریدار اور بيچنے والے کو گيارہ صورتوں ميں سودا فسخ کرنے کا اختيار ہے :

١) خریدار اور بيچنے والا سودے کے بعد ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں اگرچہ اس مقام سے باہر آگئے ہوں جهاں معاملہ طے پایا تھا۔ اس خيار کو ”خيارِ مجلس“ کها جاتا ہے ۔

٢) خریدار یا بيچنے والے کو خریدوفروخت یا اس کے علاوہ کسی چيز ميں دهوکا ہواہو۔ اس خيار کو ”خيارِ غبن“ کہتے ہيں ۔

٣) سودے ميں طے کيا جائے کہ ایک خاص مدت تک دونوں یا کسی ایک کو سودا فسخ کرنے کا اختيار ہے اور اس خيار کو ”خيارِ شرط“ کہتے ہيں ۔

۴) فریقین ميں سے کوئی اپنے مال کو اس کی اصلی حالت سے بہتر بتائے اور اس طرح پےش کرے کہ لوگوں کی نظروں ميں مال کی قيمت بڑھ جائے۔ اس خيار کو ”خيارِ تدلےس“ کہتے ہيں ۔

۵) فریقین ميں سے ایک فریق دوسرے کے ساته شرط باندهے کہ وہ ایک کام بجا لائے گا اور اس شرط پر عمل نہ ہو یا يہ شرط کی جائے کہ وہ مال چند خصوصيات کا حامل ہو اور وہ خصوصيت اس مال ميں نہ پائی جائے، ان دونوں صورتوں ميں شرط کرنے والا سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

اس خيار کو ”خيارِ تخلّف شرط“ کہتے ہيں ۔

۶) چيز یا اس کے عوض ميں عےب ہو۔ اس خيار کو ”خيارِ عےب“ کہتے ہيں ۔

٧) معلوم ہوجائے کہ فریقین نے جس چيز کا سودا کيا تھا اس کی کچھ مقدار دوسرے شخص کا مال ہے ۔اس صورت ميں اگر اس مقدار کا مالک اس سودے پر راضی نہ ہو تو خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے یا اگر اتنی مقدار کا عوض دے چکا ہو تو اسے واپس لے سکتا

۳۴۵

ہے اور اس کی دو قسميں ہيں :

١لف) وہ معين مقدار بطورِ مشاع ہو۔ یهاں ”خيارِ شرکت“ کا مقام ہے ۔

ب) وہ معين مقدار جداگانہ ہو۔ یهاں ”خيارِ تبعضِ صفقہ“ کا مقام ہے ۔

٨) مال کا بيچنے والا مال جو کہ معين ہے اور ذمہ پر نہيں ہے ، کی خصوصيات کو خریدار کے سامنے بيان کرے جب کہ خریدار نے اس مال کو نہ دےکها ہو اور بعد ميں معلوم ہو کہ چيز وےسی نہيں ہے جیسی بتلائی گئی تھی۔ اس صورت ميں خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اس خيار کو ”خيارِ رویت“کہتے ہيں ۔

٩) خریدار خریدی ہوئی چيز کی قيمت تین روز تک نہ دے جب کہ اس نے دیر سے ادائیگی کی کوئی شرط بھی نہ رکھی ہو۔ اس صورت ميں اگر بيچنے والے نے مال خریدار کے سپرد نہ کيا ہو تو سودا فسخ کرسکتا ہے ، ليکن اگر خریدی ہوئی شَے بعض ایسے پهلوں کی طرح ہو جو ایک دن پڑے رہنے سے خراب ہوجاتے ہيں تو ایسی صورت ميں اگر رات تک ادائیگی نہ کرے جب کہ شرط بھی نہ رکھی ہو کہ دیر سے قيمت ادا کرے گا تو بيچنے والا سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اسے ”خيارِ تاخیر “ کہتے ہيں ۔

١٠ ) جو شخص کوئی حیوان خریدے، تین روز تک سودا فسخ کرسکتا ہے اور اگر کسی چيز کو حيوان کے بدلے بيچا ہو تو بيچنے والا تین روز تک سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اسے ”خيار حیوان“ کہتے ہيں ۔

١١ ) بيچنے والا اس چيز کا قبضہ نہ دے سکے جسے بيچ چکا ہو، مثلاً جس گهوڑے کو بيچا ہو وہ بهاگ جائے، تو اس صورت ميں خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے ۔ اسے ”خيارِ تعذرِ تسلےم“ کہتے ہيں ۔

ان کے احکام آئندہ مسائل ميں بيان کئے جائيں گے۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٣ اگر خریدار چيز کی قيمت سے واقف نہ ہو یا سودا کرتے وقت غفلت برتے اور رائج قيمت سے زیادہ پر خریدلے، پس اگر اتنا مهنگا خریدا ہو کہ لوگ اسے اہميت دیتے ہوں اور چھوٹ نہ برتتے ہوں تو خریدار سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

اسی طرح اگر بيچنے والا قيمت سے واقف نہ ہو یا سودے کے وقت غفلت برتے اور رائج قيمت سے کم پر فروخت کردے، پس اگر لوگ اسے اہميت دیتے ہوں اور چھوٹ نہ برتتے ہوں تو بيچنے والا سودا فسخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵۴ ” بیعِ شرط“ ميں ، مثال کے طور پر ایک لاکه روپے کا مکان ۵ ٠ ،ہزار روپے ميں بيچ دیا جائے اور طے کيا جائے کہ اگر بيچنے والا مقررہ مدت تک رقم پلٹادے تو سودا فسخ کرسکتا ہے ، اگر خریدار اور بيچنے والا خریدنے اور بيچنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو سودا صحيح ہے ۔

۳۴۶

مسئلہ ٢١ ۵۵ ” بیعِ شرط“ ميں اگر بيچنے والے کو اطمينان ہو کہ خواہ وہ مقررہ مدت ميں رقم واپس نہ بھی کرے تب بھی خریدار املاک اسے واپس کردے گا تو سودا صحيح ہے ، ليکن اگر وہ مدت ختم ہونے تک رقم واپس نہ کرے تو وہ خریدار سے املاک کی واپسی کا مطالبہ نہيں کرسکتا ہے اور اگر خریدار مقررہ مدت آجانے کے بعدمرجائے تو اس کے ورثاء سے املاک کی واپسی کا مطالبہ نہيں کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵۶ اگر مثلاًاعلیٰ قسم کی چائے کو معمولی قسم کی چائے کے ساته ملادے اور اسے اعلی قسم کی چائے کے نام پر فروخت کرے اور خریدنے والا یہ بات نہ جانتاہو تو وہ سودا توڑ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٧ اگر سودا اس مال پر ہو کہ جو خارج ميں ہے ،نہ کہ ذمہ پر اور پھر خریدار کو پتہ چلے کہ اس مال ميں کوئی عيب ہے مثلا کوئی جانور خریدے اور معلوم ہوکہ اس کی ایک آنکه نہيں ہے ، تواگر وہ عيب سودے سے پهلے مال ميں تھا ليکن اسے اس بات کا علم نہيں تھا تو وہ سودا توڑ کر بيچنے والے کو وہ مال لوٹا سکتاہے اور اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو مثلاًاس مال ميں کوئی تبدیلی واقع ہوگئی ہو یا وہ مال ميں کوئی ایسا تصرف کر چکا ہو جو مال کو واپس کرنے ميں رکاوٹ ہو تو اس صورت ميں مال کی سالم اور معيوب حالتوں کی قيمت کو معين کيا جائے اور بيچنے والے کو دی جانے والی رقم سے سالم اور معيوب حالت کی قيمتوں کے فرق کی مقدار نسبت کے اعتبار سے واپس لے لے۔مثال کے طور پر جس مال کو چار روپے ميں خریدا ہو اور پتہ چلے کہ وہ معيوب ہے تو اس صورت ميں کہ اس کے سالم کی قيمت آٹھ روپے ہو اور اس کے معيوب کی قيمت چھ روپے ہو، تو چونکہ سالم اور معيوب کی قيمتوں کا ۴) یعنی ایک / ۴) ہے ، تو وہ دی ہوئی رقم کا ایک چوتھائی( ١ / فرق نسبت کے اعتبار سے ایک چو تھائی( ١روپيہ بيچنے والے سے لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٨ اگر فروخت کرنے والے کو پتہ چلے کہ اس معين خارجی ميں کہ جس کے عوض اپنا مال فروخت کيا تھا ، کوئی عيب ہے ۔ تو اگر وہ عيب سودے سے پهلے عوض ميں تھا اور وہ نہيں جانتا تھا تو وہ سودا توڑ کر یہ عوض اس کے مالک کو لوٹا سکتا ہے اور اگر تبدیلی یا ایسے تصرف کی وجہ سے جو لوٹانے ميں رکاوٹ ہو ، نہ لوٹا سکتا ہو تو وہ سالم اور معيوب کی قيمت کے فرق کی نسبت کو سابقہ مسئلے ميں بتائے گئے طریقے کے مطابق لے سکتاہے۔

مسئلہ ٢١ ۵ ٩ اگر سودا ہونے کے بعد اور مال سپرد کرنے سے پهلے اس ميں کوئی عيب پيدا ہوجائے تو خریدار سودا توڑ سکتاہے۔اسی طرح اگر مال کے عوض ميں سودا ہونے کے بعد اور قبضہ سے پهلے کوئی عيب پيدا ہوجائے تو بيچنے والا سودا توڑ سکتاہے ۔ليکن اگر قيمت کا فرق لينا چاہيں تو یہ جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٠ اگر سودے کے بعد مال کے عيب کا علم ہوجائے توفوری طور پر سودا توڑنا ضروری نہيں بلکہ بعد ميں بھی سودا توڑنے کا حق رکھتا ہے ۔ اگر چہ احوط یہ ہے کہ تاخير نہ کی جائے۔

۳۴۷

مسئلہ ٢١ ۶ ١ جب کوئی چيز خریدنے کے بعد اس کے عيب کا علم ہو تو اگرچہ بيچنے والا موجود نہ ہو وہ سودا توڑ سکتا ہے ۔ باقی خيارات ميں بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٢ چار صورتوں ميں خریدار، مال ميں موجود عيب کی وجہ سے نہ سودا توڑ سکتا ہے اور نہ ہی قيمتوں کا فرق لے سکتاہے :

١) خریدتے وقت ہی وہ مال کے عيب سے واقف ہو ۔

٢) مال کے عيب پر راضی ہوجائے۔

٣) سودے کے وقت کهے:”اگر مال ميں کوئی عيب ہوگا تو ميں واپس نہيں دوں گا اور قيمت کا فرق بھی نہيں لوں گا“۔

۴) فروخت کرنے والا سودے کے وقت کهے ”ميں اس مال کو اس ميں موجود ہر عيب کے ساته فروخت کرتا ہوں“، ليکن اگر عيب کو معين کر دے او ر کهے: ” ميں مال کو اس عيب کے ساته فروخت کرتاہوں“ اور بعد ميں معلوم ہوکہ کوئی اور عيب بھی ہے تو خریدار اس عيب کی خاطر جسے فروخت کرنے والے نے معين نہيں کيا تھا ، مال کو واپس کر سکتا ہے اور اگر واپس نہ کرسکے تو قيمت کا فرق لے لے۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٣ چند صورتوں ميں ، جس شخص کے پاس معيوب مال پهنچا ہو، معاملہ کو عيب کی وجہ سے فسخ نہيں کر سکتا بلکہ صرف قيمت کے فرق کا مطالبہ کر سکتاہے :

١) جب عين مال تلف ہو چکا ہو۔

٢) جب وہ چيزاس کی ملکيت سے نکل چکی ہو، مثلاً کسی کو وہ چيز بيچ چکا ہو یا بخش چکا ہو۔

٣) وہ مال تبدیل ہو چکا ہو، مثلاً جو کپڑا خریدا ہو اسے کاٹ چکا ہو یا اسے رنگ کروا چکا ہو۔

۴) اس صورت ميں کہ اگرچہ وہ چيز اس کی ملکيت سے باہر نہ گئی ہو ليکن اس پر کوئی معاملہ انجام پا چکا ہو مثلاً اسے کرائے پر دے چکا ہو یا گروی رکھوا چکا ہو۔

۵) قبضہ لينے کے بعد اس ميں کوئی عيب پيدا ہو چکا ہو، ليکن اگر خریدی ہوئی چيز معيوب حيوان ہو اور تين دن گزرنے سے پهلے اس ميں کوئی اور عيب پيدا ہوجائے تو چاہے اس پر قبضہ کر چکا ہو، پھر بھی خيارِحيوان کا حق رکھنے کے اعتبار سے سودا توڑ سکتا ہے ۔ یهی حکم اس صورت ميں ہے کہ جب خيارِ شرط کے اعتبار سے فسخ کا حق رکھتا ہو۔

مسئلہ ٢١ ۶۴ اگر انسان کے پاس کوئی ایسا مال ہو جسے اس نے خود نے نہ دیکھا ہو، بلکہ کسی اور نے اس کی خصوصيات اسے بتائی ہوں اور وہ وهی خصوصيات خریدنے والے کو بتا کر مال بيچ دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ اس کامال اس سے بہتر تھا تو وہ معاملہ ختم کر سکتا ہے ۔

۳۴۸

خريد و فروخت کے متفرق مسائل

مسئلہ ٢١ ۶۵ اگر بيچنے والا اپنی چيز کی قيمتِ خرید، گاہک کو بتائے تو ضروری ہے کہ ان تمام چيزوں کا تذکرہ کرے جن کی وجہ سے قيمت کم یا زیادہ ہوتی ہے ، چاہے اسی قيمت پر یا اس سے کم پر بيچے، مثلاً بتائے کہ ادهار خریدی ہے یا نقد، لہٰذا اگر بعض خصوصيات کا تذکرہ نہ کرے اور بعد ميں گاہک کو معلوم ہو تو وہ سودا ختم کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶۶ اگر انسان کسی چيز کی قيمت معين کرتے ہوئے کسی کو دے اور کهے: ”یہ چيز اس قيمت پر بيچ دو اور اس سے جتنا مهنگا بيچو وہ تمهارے کام کی اجرت ہے “۔ تو وہ شخص جتنی زیادہ قيمت پر بھی بيچے، سب کا سب اصل مالک کا مال ہے اور اجارہ باطل ہے ۔ ہاں، بيچنے والا، مشهور قول کی بنا پر، اپنے کام کی اجرت المثل اصل مالک سے لے سکتا ہے ، ليکن اگر اجرت المثل بيچنے والے کے راضی ہونے والی مقدار سے زیادہ ہو تو احتياطِ واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اضافی مقدار ميں اصل مالک کے ساته مصالحت کرے۔ ہاں، اگر بطور جعالہ معاملہ کرے اور کهے:”اگر تم نے اس سے زیادہ قيمت پر بيچ دیا تو اضافی مقدار تمهاری ہوگی“، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٧ اگر قصائی نر جانور کا گوشت بيچے اور اس کی جگہ مادہ کا گوشت دے تو گنهگار ہے اور اگر گوشت کو معين بھی کيا ہو اور کها ہو کہ ميں یہ نر جانور کا گوشت بيچ رہا ہوں تو گاہک معاملہ فسخ کر سکتا ہے ، جب کہ اگر اسے معين نہ کيا ہو تو گاہک کے اس گوشت پر راضی نہ ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اسے نر کا گوشت دے۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٨ اگر خریدار کپڑے والے سے کهے:”مجھے ایسا کپڑا چاہئے جس کا رنگ پکا ہو“، تو اگرکپڑے والا اسے کچے رنگ کا کپڑا بيچ دے تو گاہک سودا ختم کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١ ۶ ٩ سودے ميں قسم کھانا، اگر سچی ہو تو مکروہ ہے اور جھوٹ ہو تو حرام ہے ۔

شراکت کے احکام

مسئلہ ٢١٧٠ شراکت یہ ہے کہ ایک مال کے، چاہے وہ مال عين ہو یا ذمہ، مشاع طور پرنصف، ثلث یا اسی طرح کی نسبت کے اعتبار سے، دو یا دوسے زیادہ مالک ہوں۔

شراکت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہيں : غير اختيار ی وجہ جيسے وراثت۔

اختياری وجہ، چاہے وہ وجہ کوئی خارجی عمل ہو مثلاً دو افراد مل کر کوئی مال حيازت کے ذریعے اپنی ملکيت ميں ليں یا کوئی عقد، مثلاً دو افراد جو دو عليحدہ عليحدہ مال کے مالک ہوں، دونوں ميں سے ہر ایک اپنے آدهے مال کا مشاع طور پر دوسرے کے آدهے مشاع سے خرید و فروخت یا مصالحت وغيرہ کے ذریعے معاوضہ کرے۔

۳۴۹

اسی طرح دومالوں کے آپس ميں اس طرح مل جانے سے بھی کہ ان دونوں کے درميان فرق باقی نہ رہے، شراکت حاصل ہو جاتی ہے ، چاہے وہ دونوں مال ایک ہی جنس سے ہوں یا دو الگ الگ اجناس سے۔اور عقدی شراکت، جس کے احکام بيان کئے جائيں گے، یہ ہے کہ دو یا اس سے زیادہ افراد آپس ميں قرار داد طے کریں کہ مشترک مال سے معاملہ کيا جائے اور نفع و نقصان ميں سب آپس ميں شریک ہوں۔

مسئلہ ٢١٧١ اگر دو یا زیادہ افراد اپنے کام سے ملنے والی مزدوری ميں شراکت کریں، مثلا اگر چندمزدور آپس ميں طے کریں کہ ہميں جتنی بھی مزدوری ملے گی آپس ميں تقسيم کر ليں گے تو یہ شراکت صحيح نہيں ہے ۔ ہاں، اگر ان ميں سے ہر ایک آپس ميں اس بات پر مصالحت کر لے کہ ایک معينہ مدت تک اپنی آدهی کمائی اور اس کی آدهی کمائی آپس ميں بانٹ ليں اور وہ بھی اسے قبول کر لے تو وہ اپنی مزدوریوں ميں شریک ہو جائيںگے۔

اور اگر کسی عقدِ لازم کے ضمن ميں یہ شرط رکہيں کہ دونوںميں سے ہر ایک اپنی آدهی مزدوری دوسرے کو دے تو اگرچہ آپس ميں شریک نہ بنيںگے ليکن ضروری ہے کہ شرط پر عمل کریں۔یهی حکم اس وقت ہے جب عقدِ جائز کے ضمن ميں شرط رکھی ہو، البتہ اس وقت تک جب تک عقد باقی ہو۔

مسئلہ ٢١٧٢ اگر دو افراد آپس ميں اس طرح شراکت کریں کہ دونوں ميں سے ہر ایک اپنے اعتبار سے ایک چيز خریدے، ليکن اس چيز کو استعمال کرنے ميں جو دونوں نے عليحدہ عليحدہ خریدی ہے آپس ميں شریک ہوں، تو یہ صحيح نہيں ہے ۔ ہاں، اگر دونوںميں سے ہر ایک دوسرے کو وکيل بنا دے کہ جو چيز تم نقد یا ادهار ، ما فی الذمہ پر خریدوگے، اس ميں سے ایک مشاع نسبت مثلاً نصف یا ثلث، ميرے ذمّے پر خریدو اور پھر دونوں اس طرح ایک چيز اپنے اور اپنے شریک کے لئے خریدیں کہ دونوں پر اس کی قيمت ادا کرنا ضروری ہوجائے، تو شراکت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢١٧٣ شراکت کے عقد کے ذریعے شریک بننے والوںکے لئے ضروری ہے کہ عاقل و بالغ ہوں، ارادے و اختيار سے آپس ميں شراکت کریں اور اپنے مال ميں تصرف کر سکتے ہوں۔ لہٰذا سفيہ، یعنی وہ شخص جو اپنا مال بے کار کاموںميں استعمال کرتا ہے ،چونکہ اپنے مال ميں تصرف کا حق نہيں رکھتا، اگرشراکت کرے تو صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٧ ۴ اگر شراکت کی قرارداد ميں یہ شرط رکہيں کہ کام کرنے والا، زیادہ کام کرنے والا یا جس کے کام کی اہميت زیادہ ہے ، زیادہ منافع کا حقدار ہو تو ضروری ہے کہ شرط کے مطابق اسے زیادہ منافع دیا جائے، ليکن اگر شرط رکہيں کہ جو کام نہيں کرتا، یا کم کام کرتا ہے یا جس کے کام کی اہميت زیادہ نہيں ہے ، وہ زیادہ منافع لے تو یہ شرط باطل ہے ۔ ہاں، اگر یہ شرط رکہيں کہ اضافی مقدار اس کی ملکيت ميں دے دی جائے تو یہ شرط صحيح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ۔

۳۵۰

مسئلہ ٢١٧ ۵ اگر یہ طے کریں کہ سارا نفع ایک شخص کا ہو یا سارا نقصان کوئی ایک برداشت کرے تو یہ قرارداد باطل ہے اور شراکت کا صحيح ہونا بھی محل اشکال ہے ، ليکن اگر یہ شرط کریں کہ ایک فرد جتنے نفع کا مالک بنے گا سارا اپنے شریک کو دے دے گا یا سارے ضرر ميں سے جتنا حصہ شریک کا ہوگا، اپنے مال سے اس کی ملکيت ميں دے گا تو شراکت صحيح ہے اور شرط پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢١٧ ۶ اگر یہ شرط نہ رکھی گئی ہو کہ کسی ایک شریک کا زیادہ منافع ہوگا تو دونوں کا سرمایہ مساوی ہونے کی صورت ميں وہ نفع و نقصان ميں برابر کے شریک ہوں گے،جب کہ اگر ان کا سرمایہ مساوی نہ ہو تو نفع نقصان بھی سرمائے کی مقدار کے اعتبار سے ہوگا، مثلاً اگر دو افراد شراکت کریں جن ميں سے ایک کا سرمایہ دوسرے کے مقابلے ميں دگنا ہو، تو منافع یا ضرر ميں بھی اس کا حصہ دو برابر ہوگا، خواہ دونوں نے برابر کام کيا ہو یا کسی ایک نے کم کام کيا ہو یا بالکل کام نہ کيا ہو۔

مسئلہ ٢١٧٧ اگر شراکت کی قرارداد ميں شرط کریں کہ خرید و فروخت دونوں مل کر کریں گے یا دونوں عليحدہ عليحدہ معاملہ کریں گے یا دونوںميں سے صرف کوئی معاملہ کرے گا تو شرط پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢١٧٨ اگر یہ طے نہ کيا جائے کہ دونوں ميں سے کون سرمائے سے خرید و فروخت کرے گا تودونوںميں سے کوئی بھی دوسرے کی اجازت کے بغير اس سرمائے سے سودا نہيں کر سکتا۔

مسئلہ ٢١٧٩ اس شریک کے لئے، جس کے اختيار ميں شراکت کا سرمایہ ہے ، ضروری ہے کہ شراکت کی قرارداد پر عمل کرے، مثلاً اگر طے ہوا ہو کہ خریداری ادهار پر ہوگی یا ہر چيز نقد بيچی جائے گی یا یہ کہ خریداری کسی خاص جگہ سے ہوگی تو ضروری ہے کہ اسی طریقے سے عمل کرے۔ہاں، اگر اس سے کوئی بات بطور خاص طے نہ کی ہوتو ضروری ہے کہ معمول کے مطابق معاملہ کرے اور اگر سفر پر شراکت کا مال ساته لے جانے کا معمول نہ ہو یا مال کے لئے خطرے کا احتمال ہو تو ساته لے کر نہ جائے۔

مسئلہ ٢١٨٠ جو شریک شراکت کے مال سے خرید و فروخت کرتا ہو، اگر قرارداد کی خلاف ورزی کرے یا قرارداد نہ ہونے کی صورت ميں معمول کے خلاف عمل کرے، ان دوصورتوں ميں دوسرے شریک کے حصے کی بہ نسبت معاملہ فضولی ہوگا، لہٰذا اگر شریک اس کی اجازت نہ دے تووہ اپنا عين مال یا عين مال کے تلف ہوجانے کی صورت ميں اپنے مال کا عوض لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٨١ جو شرےک شرکت کے سرمائے سے معاملہ کرتا ہے اگر افراط نہ کرے اور سرمائے کی دےکه بهال ميں کوتاہی نہ کرے اور اتفاقاً سرمائے کی کچھ مقدار یا تمام کا تمام سرمايہ تلف ہوجائے تو ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٨٢ جو شرےک شرکت کے سرمائے سے معاملہ کرتا ہے اگر کهے کہ سرمايہ تلف ہوگيا ہے اور حاکم شرع کے سامنے قسم کھائے تو اس کی بات قبول کرنا ضروری ہے ۔

۳۵۱

مسئلہ ٢١٨٣ اگر تمام شرکاء جنہوں نے ایک دوسرے کو تصرف کی اجازت دی ہو اجازت واپس لے ليں تو ان شرکاء ميں سے کوئی بھی شراکت کے مال ميں تصرف نہيں کرسکتا اور اگر ان ميں سے کوئی ایک اپنی اجازت سے پلٹ جائے تو دوسرے شرےک تصرف کا حق نہيں رکھتے، ليکن جو شرےک اپنی اجازت سے پلٹ گيا ہے وہ شرکت کے مال ميں تصرف کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٨ ۴ جب بھی شرکاء ميں سے کوئی شرےک تقا ضا کرے کہ شرکت کے سرمائے کو تقسےم کردیا جائے، اگرچہ شراکت مدت والی ہو، دوسروں کے لئے ضروری ہے کہ مان ليں، سوائے اس صورت ميں کہ جب تقسےم، مشترک مال کے علاوہ کسی اور مال کے ضمےمے کی محتاج ہو، جسے ”قسمت ردّ“ کہتے ہيں یا تقسےم سے شرکاء کو قابل ذکر نقصان پهنچ رہا ہو۔

مسئلہ ٢١٨ ۵ اگر شرکاء ميں سے کوئی ایک مرجائے یا دیوانہ یا بے ہوش ہوجائے تو دوسرے شرکاء، شرا کت کے مال ميں تصرف نہيں کرسکتے۔ یهی حکم اس وقت ہے جب شرکاء ميں سے کوئی ایک سفيہ ہوجائے یعنی اپنے مال کو بے کار کاموں ميں صرف کرے یا حاکم شرع اسے دیواليہ ہونے کی وجہ سے ممنوع التصرف کردے۔

مسئلہ ٢١٨ ۶ اگر کوئی شرےک اپنے لئے کوئی چيز ادهار خریدے تو نفع اور نقصان اس کے ذمہ ہے ليکن اگر شرکت کے لئے خریدے اور شرکت کا اطلاق ادهار والے معاملات کو بھی شامل کر رہا ہو تو نفع اور نقصان ميں تمام شرکاء شرےک ہونگے۔ یهی حکم اس وقت ہے کہ جب شراکت کی قرارداد ميں ادهار معاملات شامل نہ ہوں ليکن وہ شرکت کے لئے ادهار پر خرید لے اور دوسرا شریک اس کی اجازت دے دے۔

مسئلہ ٢١٨٧ اگر شراکت کے سرمائے سے کوئی معاملہ کئے جانے کے بعد معلوم ہو کہ شرکت باطل تهی، تو اگر صورت یہ ہو کہ معاملے کی اجازت ميں شراکت کے صحيح ہونے کی قيد نہ ہو یعنی اگر شرکاء کو معلوم ہوتا کہ شرکت صحيح نہيں ہے تب بھی ایک دوسرے کے مال ميں تصرف پر راضی ہوتے تو معاملہ صحيح ہے اور اس معاملے سے حاصل ہونے والا مال سب کا ہوگا۔ ہاں، اگر ا س طرح نہ ہو تو جو لوگ دوسروں کے تصرف کرنے پرراضی نہ تهے اگر معاملے کی اجازت دیں تو معاملہ صحيح ورنہ باطل ہوگا اور هرصورت ميں فقهاء اعلی الله مقامهم کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ ”ان ميں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کوئی کام کيا ہے ، اگر بلا معاوضہ کام کرنے کے ارادے سے نہ کيا ہو تو اپنی محنت کی معمول کے مطابق اجرت دوسرے شرکاء سے اپنے کام کی نسبت کے اعتبار سے لے سکتا ہے “، ليکن ظاہر يہ ہے کہ اجازت نہ دینے کی صورت ميں اجرت کے مستحق نہ ہوں گے اور اجازت کی صورت ميں اجرت کا مستحق ہونا محل اشکال ہے اور احوط مصالحت ہے ۔

۳۵۲

مصالحت کے احکام

مسئلہ ٢١٨٨ صُلح یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کے ساته اس بات پر اتفاق کرے کہ اپنے مال یامنافع سے کچھ مقدار اس کی ملکيت ميں دے دے یا اس کے لئے مباح کردے یا اپنا قرض یا حق معاف کردے تاکہ دوسرا بھی اس کے عوض اپنے مال یا منافع کی کچھ مقدار اسے دے دے یا اس کے لئے مباح کردے یا قرض یا حق سے دستبردار ہوجائے۔ اور مذکورہ چيزوں ميں سے کسی پر کوئی عوض لئے بغير مصالحت کرنا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢١٨٩ عقد صلح ميں ضروری ہے کہ طرفين ميں سے ہر ایک عاقل و بالغ ہوں، مصالحت کا قصد رکھتے ہوں اور کسی نے انہيں مصالحت کرنے پر ناحق مجبور نہ کيا ہو۔هاں، اگر زبردستی کی گئی ہو اور بعد ميں وہ راضی ہوجائيں تو صلح نافذ ہوگی۔ اسی طرح ضروری ہے کہ سفيہ اور دیواليہ ہونے کی وجہ سے حاکم شرع کی طرف سے ممنوع التصرف نہ ہوں۔

مسئلہ ٢١٩٠ ضروری نہيں ہے کہ صلح کا صيغہ عربی زبان ميں پڑھا جائے بلکہ جن الفاظ سے بھی پتہ چلے کہ فریقین نے آپس ميں مصالحت کی ہے وہ مصالحت صحيح ہے ۔ اسی طرح معاطات، بلکہ مصالحت کے ارادے سے اگر ایک دے اور دوسرا لے لے تو مصالحت ہو جاتی ہے ۔

مسئلہ ٢١٩١ اگر کوئی شخص اپنی بھیڑ یں چرواہے کو دے تاکہ وہ مثلاً ایک سال ان کی دےکه بهال کرے اور ان کا دودھ سے استعمال کرے اور گهی کی کچھ مقدار مالک کو دے تو اگر چرواہے کی محنت اور اس گهی کے مقابلے ميں جو بھيڑوں کے دودھ سے نہ بنا ہو، وہ شخص اپنی بھيڑوں کے دودھ پر مصالحت کرلے تو کوئی حرج نہيں ہے ، بلکہ اگر بھیڑ وں کو ایک سال کے لئے چرواہے کو کرایہ پر دے تاکہ وہ ان کا دودھ استعمال کرے اور اس کے عوض گهی کی معينہ مقدار اُسے دے دے جوکرایہ دی ہوئی بھیڑ وں کے دودھ سے نہ بنا ہو تو اس ميں بھی کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٢ اگرکوئی شخص اپنے قرض یا حق کے بدلے کسی دوسرے سے مصالحت کرنا چاہے تو يہ مصالحت اس صورت ميں صحيح ہے کہ جب دوسرا اسے قبول کرلے۔ ہاں، اگر اپنے قرض یا حق سے دستبردار ہونا چاہے تو دوسرے کا قبول کرنا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢١٩٣ اگر مقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتا ہو جب کہ قرض خواہ کو اس کا علم نہ ہو تو اگر اس مقدار سے کم پر مصالحت کرے مثلاً اس کو پچاس روپے لینے ہوں اور دس روپے پر مصالحت کرے تو اضافی رقم مقروض کے لئے حلال نہيں ہے ، مگر یہ کہ اپنے قرضے کی مقدار کے متعلق قرض خواہ کو بتائے اور اسے راضی کرلے یا صورت ایسی ہو کہ اگر قرض خواہ کو قرضے کی مقدار کا علم ہو تا تب بھی وہ اس مقدار یعنی دس روپے پر مصالحت کرليتا۔

۳۵۳

مسئلہ ٢١٩ ۴ اگر دو اشخاص دو ایسی چيزوں کے سلسلے ميں جو ایک ہی جنس سے ہوں اور جن کے وزن معلوم ہوں آپس ميں مصالحت کریں تو احتياط واجب يہ ہے کہ ایک چيز کا وزن دوسری چيز سے زیادہ نہ ہواور اگر ان کا وزن معلوم نہ ہو تو اگرچہ اس بات کا احتمال ہو کہ ایک چيز کا وزن دوسری چيز سے زیادہ ہے اور وہ مصالحت کرليں تو مصالحت صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢١٩ ۵ اگر دو اشخاص کو ایک شخص سے قرضہ وصول کرنا ہو یا دو اشخاص کو دوسرے دو اشخاص سے کچھ لینا ہو اور اپنی اپنی طلب پر ایک دوسرے سے مصالحت کرنا چاہتے ہوں اور دونوں کی طلب ایک ہی جنس سے ہو اور ایک وزن ہو مثلاًدونوں کو دس من گندم لینی ہو تو ان کی مصالحت صحيح ہے ۔ یهی حکم اس وقت ہے جب طلب کی جنس ایک نہ ہو مثلاً ایک نے دس من چاول اور دوسرے نے بارہ من گندم لینی ہو تب بھی مصالحت صحيح ہے ليکن اگر ان کی طلب ایک ہی جنس کی ہو اور وہ ایسی چيز ہو جس کا سودا عموماً تول کر یا ناپ کر کيا جاتا ہے تو اگر ان کا وزن یا پےمانہ ےکساں نہ ہو تو ان کی مصالحت ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢١٩ ۶ اگر کسی شخص کو کسی دوسرے سے اپنا قرضہ کچھ مدت کے بعد واپس لینا ہو اور وہ مقروض کے ساته مقررہ مدت سے پهلے معين مقدار سے کم پر مصالحت کرے اور اس کا مقصد يہ ہو کہ اپنے قرضے کا کچھ حصہ معاف کردے اور باقی نقد لے لے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٧ اگر دو اشخاص کسی چيز پر آپس ميں مصالحت کرليں تو ایک دوسرے کی رضامندی سے اس صلح کو توڑ سکتے ہيں ۔ اسی طرح اگر صلح کے ضمن ميں دونوں کو یا کسی ایک کو معاملہ فسخ کرنے کا حق دیا گيا ہو تو جو شخص وہ حق رکھتا ہو، صلح کو فسخ کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٨ جب تک خریدار اور بيچنے والا ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں معاملہ کو فسخ کرسکتے ہيں ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایک جانور خریدے تو وہ تین دن تک معاملہ فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ اسی طرح اگر خریدار خریدی ہوئی جنس کی قيمت تین دن تک نہ دے اور جنس کا قبضہ نہ لے تو بيچنے والا معاملہفسخ کرسکتا ہے ، ليکن جو شخص کسی مال پر مصالحت کرے وہ ان تین وں صورتوں ميں مصالحت فسخ کرنے کا حق نہيں رکھتا۔ ہاں، اگر مصالحت کادوسرا فریق مصالحت کا مال دینے ميں غیر معمولی تاخیر کرے تو اس صورت ميں مصالحت فسخ کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح باقی خيارات ميں بهی، جن کا ذکر خریدوفروخت کے احکام ميں آیا ہے ، مصالحت فسخ کی جاسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢١٩٩ جو چيز بذریعہ مصالحت ملے اگر وہ عےب دار ہو تو مصالحت فسخ کی جاسکتی ہے ، ليکن اگر بے عےب اور عےب دار کے مابین قيمت کا فرق لینا چاہے تو اس ميں اشکال ہے ۔

۳۵۴

مسئلہ ٢٢٠٠ اگر کوئی شخص اپنے مال پر دوسرے سے مصالحت کرے اور اس کے ساته شرط کرے کہ جس چيز پر ميں نے تجه سے مصالحت کی ہے میر ے مرنے کے بعد مثلاً تو اسے وقف کردے گا اور دوسرا شخص بھی اس کو قبول کرے تو اس شرط پر عمل ضروری ہے ۔

کرائے کے احکام

مسئلہ ٢٢٠١ کوئی چيز کرائے پر دینے والے اور کرائے پر لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ و عاقل ہوںاور کسی نے انہيں ناحق اس پر مجبور نہ کيا ہو۔ ہاں، اگر زبردستی ہو ليکن معاملے کے بعد وہ راضی ہو جائيں تو کرائے کا معاملہ صحيح ہے ۔ يہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مال ميں حق تصرف رکھتے ہوں، لہٰذا سفيہ اور وہ شخص جو دیواليہ ہونے کی وجہ سے حاکم شرع کی طرف سے اپنے مال ميں ممنوع التصرف ہوچکا ہو، اپنے ولی یا قرض خواہوں کی اجازت کے بغير کوئی چيز نہ کرائے پر لے سکتے ہيں اور نہ کرائے پر دے سکتے ہيں ۔ ہاں، وہ شخص جو دیواليہ ہوچکا ہے اپنے آپ کو اور اپنی خدمات کو کرايہ پر دے سکتا ہے اور اس کے لئے اجازت لينے کی ضرورت نہيں ۔

مسئلہ ٢٢٠٢ انسان دوسرے کی طرف سے وکيل بن کر اس کا مال کرائے پر دے سکتا ہے یا اس کے لئے کوئی چيز کرائے پر لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠٣ اگر بچے کا ولی یا سرپرست، اس کا مال کرائے پر دے یا بچے کو کسی کا اجير مقرر کردے تو کوئی حرج نہيں ۔

اور اگر بچے کے بالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کو بھی اجارے کی مدت کا حصہ قرار دیا جائے تو بچہ بالغ ہونے کے بعد باقی ماندہ اجارہ فسخ کرسکتا ہے ، ليکن اگر بچے کے بالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کو اجارہ کی مدت کا حصہ بنانے ميں کوئی ایسی مصلحت ہو جس کا خيال رکھنا شرعا واجب ہو تو بالغ ہونے کے بعد کی مدت کے لئے بھی اجارہ نافذ ہوگا اور احتياط واجب يہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے ہو۔

مسئلہ ٢٢٠ ۴ جس نابالغ بچے کا سرپرست نہ ہو اسے عادل مجتهد کی اجازت کے بغير اجارے پر نہيں ليا جاسکتا اور جس شخص کی رسائی عادل مجتهد تک نہ ہو وہ چند عادل مومنين سے اجازت لے کر بچے کو اجارے پر لے سکتا ہے اور اگر چند نہ ہوں تو ایک عادل مومن کی اجازت بھی کافی ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠ ۵ اجارہ دینے اور لینے والے کے لئے ضروری نہيں کہ صيغہ عربی زبان ميں پڑہيں ، بلکہ اگر مالک کسی سے کهے کہ: ”ميں نے اپنا مال تمہيں اجارے پر دیا“ اور دوسرا کهے کہ:”ميں نے قبول کيا“، تو اجارہ صحيح ہے ، بلکہ اگر وہ زبان سے کچھ نہ کہيں اور مالک اپنا مال اجارے کے قصد سے مستاجر کو دے اور وہ بھی اجارے کے قصد سے لے تو اجارہ صحيح ہوگا۔

۳۵۵

مسئلہ ٢٢٠ ۶ اگر کوئی شخص چاہے کہ اجارے کا صيغہ پڑھے بغير کوئی کام کرنے کے لئے اجير بن جائے تو جےسے ہی وہ کام کرنے ميں مشغول ہوگا اجارہ صحيح ہوگا۔

مسئلہ ٢٢٠٧ جوشخص بول نہ سکتا ہو اگر وہ اشارے سے سمجھادے کہ اس نے کوئی جائيداد اجارے پر دی یا لی ہے تو اجارہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٢٠٨ اگر کوئی شخص ایک جائيداد اجارے پر لے اور اس کا مالک يہ شرط لگائے کہ صرف وهی اس سے استفادہ کرسکتا ہے اور کسی دوسرے کو منتقل نہيں کرسکتا تو مستاجر اسے کسی دوسرے کو استعمال کے لئے اجارہ پر نہيں دے سکتا۔ ہاں، اگر شرط کرے کہ منفعت سے خود فائدہ اٹھ ائے گا تو مستاجر چاہے تو کسی دوسرے کو بھی اس صورت ميں اجارہ پر دے سکتا ہے کہ خود ہی اس منفعت سے فائدہ اٹھ ائے۔

مثلاً کوئی شخص مکان کرائے پر لے اور کسی ایسے شخص کو کرائے پر دے جسے شرط یا ایسی ہی کسی چيز سے پابند کر چکا ہو کہ وہ اس کے لئے بھی رہا ئش کا بندوبست کرے گا اور پھر وہ شخص اسی گھر ميں اسے رہنے کی جگہ دے دے یا مثلاً عورت کوئی گھر کرائے پر لے ا ور پھر اپنے شوہر کو کرائے پر دے دے اور شوہر اُس عورت کو اُسی گھر ميں رکھے۔

ایسی صورت ميں جب مستاجر کے لئے وهی چيز کسی اور کو کرائے پر دینا جائز ہے ، اگر وہ مکان،دکان یا کشتی اور اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر کمرہ اور چکّی کو لی گئی مقدار سے زیادہ مقدار پر کرائے پر دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اس ميں کوئی کام مثلاً مرمت اور سفيدی وغيرہ کرادے یا اس جنس کے علاوہ کسی اور جنس کے بدلے کرائے پر دے جس پر اس نے خود اسے کرائے پر ليا ہے مثلاً اگر روپے کے بدلے کرائے پر ليا ہے تو گندم یا کسی اور چيز کے بدلے کرائے پر دے۔

مسئلہ ٢٢٠٩ اگر اجير کسی انسان سے شرط کرے کہ وہ صرف اسی کا کام کرے گا اور کسی کا کام نہيں کرے گا تو اسے کسی دوسرے شخص کو بطور اجارہ نہيں دیا جاسکتا۔ ہاں، اگر شرط کرے کہ اس کے کام سے خود فائدہ اٹھ ائے جيسا کہ پچهلے مسئلے ميں بيان کيا جا چکاہے تو اُسے دوسرے کواجا رہ پر دے سکتے ہيں ۔

اور اس صورت ميں کہ جب دوسرے کو اجارے پر دے سکتا ہے ، اگر اسی چيز پر اجارے پر دے جس پر خود اجارے پر ليا تھا تو زیادہ قيمت نہيں لے سکتا، ليکن اگر کسی اور چيز پر اجارے پر دے تو زیادہ لے سکتا ہے ۔

اور اگر کوئی شخص خود کو کسی کا اجير بنائے تو اس کام کی انجام دهی کے لئے کسی اور شخص کو کم قيمت پر اجيرنہيں بنا سکتا۔ ہاں، اگر خود کچھ کام انجام دے چکا ہو تو پھر کسی دوسرے کو کم اجرت پر اجير بنا سکتا ہے ۔

۳۵۶

مسئلہ ٢٢١٠ اگر کوئی شخص مکان، دکان، کشتی، اجير اور اسی طرح بنا بر احتياط واجب کمرے و چکّی کے علاوہ کوئی اور چيز اجارہ کرے اور مالک نے اُس سے يہ شرط نہ کی ہو کہ کسی اور کو اجارہ پر نہ دینا تو جس مقدار پر اس نے وہ چيز کرائے پر لی ہو اگر اس سے زیادہ پر کسی کو کرائے پر دے دے تو بھی کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٢١١ اگر کوئی شخص مکان یا دکان مثال کے طور پر ایک سال کے لئے سو روپے کرایہ پر لے اور اس کا آدها حصّہ خود استعمال کرے تو باقی آدها حصہ سو روپے کرائے پر دے سکتا ہے ، ليکن اگر ا س آدهے کو اس مقدار سے زیادہ کرائے پر دینا چاہے جس پر اس نے خود ليا ہے ، مثلا ١٢٠ روپے کرايہ پر دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اس ميں کوئی کام مثلاً مرمت کا کام انجام دیا ہو یا اجارے کی جنس کے علاوہ کسی اور چيز کے عوض کرائے پر دے۔

کرائے پر دئے جانے والے مال کے شرائط

مسئلہ ٢٢١٢ جو مال اجارہ پر دیا جائے اس کے چند شرائط ہيں :

١) وہ مال معين ہو، لہذااگر کوئی شخص کهے کہ ميں نے اپنے مکانات ميں سے ایک مکان تمہيں کرائے پر دیا تو يہ صحيح نہيں ہے ۔

٢) مستاجرمال کو دےکه لے یا اجارہ پر دینے والا شخص اپنے مال کی خصوصيات اس طرح بيان کرے کہ اس کے بارے ميں مکمل معلومات حاصل ہو جائيں۔

٣) اجارہ پر دئے جانے والا مال دوسرے فریق کے سپرد کرنا ممکن ہو، لہٰذا بهاگے ہوئے گهوڑے کو اجارہ پر دینا باطل ہے ، مگر یہ کہ مستاجر کے لئے اس پر تسلط حاصل کرنا ممکن ہو۔

۴) اس مال سے استفادہ کرنا اس کے ختم یا کالعدم ہوجانے پر موقوف نہ ہو، لہٰذا روٹی،پهلوں اور دوسری کھانے والی اشياء کو، جن سے فائدہ اٹھ انا ان کے ختم ہوجانے پر ہی موقو ف ہے ، اجارہ پر دینا باطل ہے ۔

۵) مال سے وہ فائدہ اٹھ انا ممکن ہو جس کے لئے کرائے پر دیا جائے، لہٰذا ایسی زمين کا زراعت کے لئے کرائے پر دینا جس کے لئے بارش کا پانی کافی نہ ہو اور دوسرے کسی پانی سے بھی اس کی سنچائی ممکن نہ ہو ، باطل ہے ۔

۶) جو چيز کرائے پر دی جارہی ہو وہ کرائے پر دینے والے کا اپنا مال ہو اوراگر کسی دوسرے کا مال کرائے پر دیا جائے تو معاملہ اس صورت ميں صحيح ہے کہ جب ا س مال کا مالک اجازت دے دے۔

مسئلہ ٢٢١٣ درخت کا اس مقصد سے کرائے پر دینا کہ اس کے پھل سے فائدہ اٹھ ایا جائے گا، جب کہ فی الحال اس ميں پھل نہ لگے ہوں، کوئی حرج نہيں ہے ۔ جانور کو اس کے دودھ کے لئے کرائے پر دینے کا بھی یهی حکم ہے ۔

۳۵۷

مسئلہ ٢٢١ ۴ عورت اس مقصد کے لئے اجير بن سکتی ہے کہ اس کے دودھ سے فائدہ اٹھ ایا جائے اور اس کے لئے شوہر سے اجازت لينا ضروری نہيں ، ليکن اگر اس کے دودھ پلانے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہو تو پھر اس کی اجازت کے بغير عورت اجير نہيں بن سکتی۔

کرائے پر دئے جانے والے مال سے فائدہ اٹھ انے کے شرائط

مسئلہ ٢٢١ ۵ جس استفادہ کے لئے مال کرائے پر دیا جاتا ہے اس کی چار شرطيں ہيں :

١) حلال ہو، لہٰذا دکان کو شراب بيچنے کے لئے کرايہ پر دینا اور اسی طرح شراب کی حمل و نقل کے لئے وسائل کرايہ پر دینا باطل ہے ۔

٢) ان کاموں کے لئے پےسہ خرچ کرنا سفاہت اور غیر عقلائی نہ ہو۔ اسی طرح وہ عمل شریعت ميں بغير کسی اجرت کے انجام دینا واجب نہ ہو، لہٰذا ميت کی تجهيز کے لئے اجير ہونا جائز نہيں ۔

٣) اگر کرايہ پر دی جانے والی چيز سے کئی فائدے اٹھ انا ممکن ہوں تو ضروری ہے کہ ان فائدوں کو جو مستاجر اٹھ ائے گا معين کریں، مثلاً حیوان جو سواری اور وزن اٹھ انے کے لئے استعمال ہوتا ہے ، معين کریں کہ فقط سواری کے لئے ہے یا فقط وزن اٹھ انے کے لئے ہے یا تمام فائدوں کے لئے۔

۴) فائدہ اٹھ انے کی مدت معين کرے۔ ہاں، اگر مدت معلوم نہ ہو ليکن تعین عمل سے جهالت دور ہوجائے تو کافی ہے ، جےسے کسی کو دس روز تک کپڑے سینے کے لئے کرائے پر بلائيں یا درزی سے طے کریں کہ معين لباس کو مخصوص طریقے سے سےئے۔

مسئلہ ٢٢١ ۶ اگر اجارہ کی مدت کی شروعات کو معين نہ کریں تواس کی ابتدا معاہدہ واقع ہونے کے بعد سے ہے ۔

مسئلہ ٢٢١٧ اگر مثلاً گھر کو ایک سال کے لئے کرائے پر دیا جائے اور اس کی شروعات کو معاہدے کے ایک ماہ بعد قرار دیا جائے تو اجارہ صحيح ہے ، اگرچہ معاہدے کے وقت گھر دوسرے کے اجارے پر ہو۔

مسئلہ ٢٢١٨ اگر مدتِ اجارہ کو طے نہ کرے اور کهے :”جب بھی گھر ميں رہو گے گھر کا کرایہ ماہانہ دس روپے ہے “، تو اجارہ صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢١٩ اگر مستاجر سے کهے : ”گہر کو ماہانہ دس روپے کرایہ پر تمہيں دیا“ یا کهے : ”گہر کو ایک مهينہ کے لئے دس روپے ميں تمہيں کرایہ پر دیا اور اس کے بعد تم جتنا بھی رہو ہر مهينے کا کرایہ د س روپے ہے “، تو اس صورت ميں کہ اجارہ کی شروعات کو معين کردیں یا (اس کی ابتداء) معلوم ہو تو پهلے مهينے کا اجارہ صحيح ہے ۔

۳۵۸

مسئلہ ٢٢٢٠ وہ گھر جهاں مثلاً زائرین و مسافرین رہتے ہيں اور معلوم نہيں کہ کتنا رہيں گے، اگر اجارہ کی صورت ميں قرارداد اس طرح رکہيں کہ مثلاً ہر روز ایک روپيہ دیں گے تو چونکہ اجارہ کی مدت طے نہيں کی، پهلی رات کے علاوہ کا اجارہ صحيح نہيں ہے اور مالک پهلی رات کے بعد جب چاہے ان کو نکال سکتا ہے ۔هاں، پهلی رات کے بعد مالک کی اجازت سے گھر کو استعمال کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

کرايہ کے مختلف مسائل

مسئلہ ٢٢٢١ جو مال مستاجر کرائے کے طور پر دے رہا ہو وہ مال معلوم ہونا چاہئے، لہٰذا اگر ایسی چيزیں ہوں جن کا لین دین تول کر کيا جاتا ہے مثلاً گندم تو ان کا وزن معلوم ہونا چاہئے اور اگر ایسی چيزیں ہوں جن کا لین دین گن کر کيا جاتا ہے مثلاً رائج الوقت سکّے تو ان کا عدد معلوم ہواور اگر وہ چيزیں گهوڑے اور بھیڑ کی طرح ہوں تو ضروری ہے کہ کرایہ پر دینے والا انہيں دےکه لے یا مستاجر ان کی خصوصيات بتادے۔

مسئلہ ٢٢٢٢ اگر زمين زراعت کے لئے اجارہ پر دی جائے اور اس کی اجرت اسی زمين یا کسی ایسی زمين کی فصل کو قرار دیا جائے جو اس وقت موجود نہ ہو تو اجارہ صحيح نہيں ہے اور اگر مال اجارہ بالفعل موجود ہو یا ما فی الذمہ پر اجارہ کيا جائے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢٢٣ جس نے کوئی چيز کرائے پر دی ہو جب تک چيز کا قبضہ نہ دے دے اجرت کے مطالبے کا حق نہيں رکھتا، سوائے اس کے کہ شرط رکھی ہو کہ قبضہ دینے سے پهلے اجارہ دیا جائے۔

اسی طرح اگر کسی کام کے لئے اجير ہوا ہو تو اس کام کے انجام دینے سے پهلے اجرت کے مطالبے کا حق نہيں رکھتا مگر يہ کہ کام سے پهلے اجرت دینے کی شرط کرلی ہو یا معمول ہی اسی طرح کا ہو جےسے حج، قضا نماز یا روزے کے لئے کسی کو اجير بنانا۔

مسئلہ ٢٢٢ ۴ جب اجارہ پر دی گئی چيز کاقبضہ دے دے، اگرچہ مستاجر قبضہ نہ لے یا قبضہ تو لے ليکن مدت کے اختتام تک فائدہ نہ اٹھ ائے تو ضروری ہے کہ کرایہ ادا کرے۔

مسئلہ ٢٢٢ ۵ اگر انسان اس طرح اجير بنے کہ معين روز ميں کوئی کام انجام دے گا اور وہ اس روز کام کرنے کے لئے حاضر ہو تو جس نے اسے اجير کيا ہے ضروری ہے کہ اس کی مزدوری اسے دے چاہے اس سے کام نہ لے مثلاً اگر درزی کو کسی خاص دن کام پر بلائے اور درزی بھی آجائے تو اگرچہ اسے سينے کے لئے کپڑا نہ دے، پھر بھی اجرت دینا ضروری ہے ، چاہے درزی بےکار بيٹھا رہے اور چاہے اپنے یا کسی دوسرے کے لئے کام کررہا ہو۔

۳۵۹

مسئلہ ٢٢٢ ۶ اگر اجارہ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد معلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تومستاجر کے لئے ضروری ہے کہ اجرت المثل دے، ليکن اگر اجرت المثل اُس مقدار سے زیادہ ہو جو اجارہ ميں معين کی گئی تھی تو اگر اجارہ دینے والا خود صاحب مال یا اُس کا وکيل ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ طے شدہ مقدار سے زائد ميں مصالحت ہو۔ اسی طرح اگر اجارہ کی کچھ مدت گزرنے کے بعد معلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تو گزری ہوئی مدت کے بارے ميں بھی یهی حکم جاری ہوگا۔

مسئلہ ٢٢٢٧ اگر کرائے پر لی ہوئی چيز تلف ہوجائے، تو اگر اس کی دےکه بهال ميں کوتاہی نہ کی ہو اور اس سے فائدہ اٹھ انے ميں افراط سے کام نہ ليا ہو تو ضامن نہيں ہے ۔ نےز مثلاً اگر کپڑے درزی کو دئے ہوں اور وہ اُس سے ضائع ہوجائيں جب کہ درزی نے افراط نہ کيا ہو اور اس کی دےکه بهال ميں بھی لاپرواہی نہ کی ہو تو ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٢٢٨ جب بھی صنعت گر کسی لی ہوئی چيز کو ضائع کرے تو ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٢٢٩ اگر قصائی حیوان کو ذبح کرے اور حرام کردے، چاہے مزدوری لی ہو یا مفت ميں ذبح کيا ہو، ضروری ہے کہ اس کی قيمت صاحب حیوان کو دے۔

مسئلہ ٢٢٣٠ اگر حیوان کرائے پر لے اور معين کرے کہ کتنا وزن اس پر رکھا جائے گا، اگر اس مقدار سے زیادہ وزن رکھا جائے اور وہ حیوان مر جائے یا معیوب ہوجائے تو ضامن ہے ۔ اسی طرح اگر وزن کی مقدار معين نہ کی ہو ليکن معمول سے زیادہ وزن لادنے سے حیوان مر جائے یا معیوب ہوجائے پھر بھی ضامن ہے اور دونوں صورتوں ميں جهاں زائد مقدار کا استعمال کيا گيا ہے اجرت المثل دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣١ اگر حیوان کو کسی ایسے سامان کے لئے اجارہ کيا جائے جو ٹوٹنے والا ہو، اگر وہ حیوان پهسل جائے یا بهاگ جائے اور سامان ٹوٹ جائے تو صاحب حیوان ضامن نہ ہوگا، ليکن اگر حیوان کو مارنے یا اس جيسی کسی دوسری وجہ سے جس کی اجازت مالک نے نہيں دی تھی کوئی ایسا کام کرے جس سے حیوان زمين پر گر جائے اورسامان توڑ دے تو ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٢٣٢ اگر کوئی شخص کسی بچے کا اس کے ولی کی اجازت سے ختنہ کرے اور اس بچہ کو ضرر پهنچے یا وہ مر جائے چنانچہ اگر معمول سے زیادہ کاٹا ہو تو ضامن ہے ۔ ہاں، اگر معمول سے زیادہ نہ کاٹا ہو، ولی کی طرف سے بچے کے لئے نقصان دہ ہونے یا نہ ہونے کی پہچان کی ذمہ داری اسے نہ سونپی گئی ہو، اپنے کام ميں مهارت بھی رکھتا ہو اور علاج ميں کوتاہی بھی نہ کی ہو تو ضرر کی صورت ميں ضامن نہ ہونا محل اشکال ہے ، سوائے اس کے کہ ولی سے اس بات کی برائت لے لی ہو، البتہ تلف کی صورت ميں اگر ولی سے برائت نہ لی ہو تو ضامن ہے ۔

۳۶۰