توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 196850
ڈاؤنلوڈ: 3915

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196850 / ڈاؤنلوڈ: 3915
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ٢٣ ۶ ٠ فقهاء اعلی الله مقامهم کی ایک جماعت نے فرمایا ہے : ” قرض خواہ نے جو مال بطور گروی ليا ہو اگر اس کے مالک کی اجازت سے بيچ دے تو اس کا عوض گروی کے مال کی مثل ہے اور یهی حکم اس وقت ہے کہ جب اس کے مالک کی اجازت کے بغير بيچ دے اور مقروض بعد ميں اجازت دے“، ليکن يہ حکم محل اشکال ہے مگر يہ کہ عقد کے ضمن ميں ، چاہے اسی بيع ميں ، شرط رکھ

دے کہ مقروض عوض کو گروی رکھے گا، کہ اس صورت ميں اس پر واجب ہے کہ شرط پوری کرے، یا شرط رکھ دے کہ عوض بھی گروی ہوگا کہ اس صورت ميں خود شرط کی وجہ سے عوض گروی ہوجائے گی۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ١ جس وقت مقروض کو قرض ادا کردینا چاہئے اگر قرض خواہ اس وقت مطالبہ کرے اور مقروض نہ دے تو اس صورت ميں اگر قرض خواہ اسے بيچنے اور اس سے اپنا قرضہ وصول کرنے کی وکالت رکھتا ہو تو وہ گروی مال کو فروخت کرکے اپنا قرضہ وصول کرسکتا ہے ، جب کہ اگر قرض خواہ وکالت نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ مقروض سے اجازت لے اوراگر اس تک دسترسی نہ رکھتا ہو تو حاکم شرع سے اجازت لے اور اگر حاکم شرع تک بھی رسائی نہ ہو تو عادل مو مٔنین سے اجازت لے اور ہر صورت ميں اگر کوئی چيز بچ جائے تو ضروری ہے کہ وہ مقروض کو دے۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٢ اگر مقروض کے پاس اس مکان کے علاوہ جو اس کی شان کے مطابق ہو اور جس ميں وہ رہتا ہو اور گھر کا سامان اور دوسری چيزیں جن کو رکھنے پر مجبور ہو، کے سواکوئی چيز نہ ہو تو قرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہيں کرسکتا، ليکن مقروض نے جو مال بطور گروی دیا ہو اگرچہ مکان اور سامان ہی کیوں نہ ہو قرض خواہ اسے بيچ کر اپنا قرض وصول کرسکتا ہے ۔

ضمانت کے احکام

مسئلہ ٢٣ ۶ ٣ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بننا چاہے تو اس کا ضامن بننا اس وقت صحيح ہوگا جب وہ کسی لفظ سے، چاہے عربی زبان ميں نہ ہو یا کسی عمل سے قرض خواہ کو سمجھادے کہ ميں تمهارے قرض کی ادائیگی کے لئے ضامن بن گيا ہوں اور قرض خواہ اسے قبول کرلے اور مقروض کا رضامند ہونا شرط نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۶۴ ضامن اور قرض خواہ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ عاقل و بالغ ہوں اور کسی نے انہيں ناحق مجبور نہ کيا ہو اور سفيہ و دیواليہ نہ ہوں مگر سفيہ کے ولی اور قرض خواہوں کے اذن یا اجازت سے۔

مقروض ميں ان شرائط کا ہونا ضروری نہيں ہے ، لہٰذا اگر ضامن بنے کہ بچے،یا دیوانے یا سفيہ یا دیواليہ کا قرض ادا کرے گا تو صحيح ہے ۔

۳۸۱

مسئلہ ٢٣ ۶۵ جب کوئی شخص ضامن بننے کے لئے کوئی شرط رکھے مثلاً کهے: ”اگر مقروض نے تمهارا قرض ادا نہ کيا تو ميں ضامن ہوں“ تو اس کے ضامن ہونے ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۶۶ انسان جس شخص کے قرض کی ضمانت دے رہا ہے ضروری ہے کہ وہ مقروض ہو، لہٰذا اگرکوئی شخص کسی سے قرض لینا چاہتا ہو تو جب تک وہ قرض نہ لے لے اس وقت تک کوئی شخص اس کا ضامن نہيں بن سکتا۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٧ انسان اسی صورت ميں ضامن بن سکتا ہے جب قرض خواہ،مقروض اور قرض کی جنس فی الواقع معين ہوں، لہٰذا اگر دو اشخاص کسی ایک شخص کے قرض خواہ ہوں اور انسان کهے:

”ميں ضامن ہوں کہ تم ميں سے ایک کا قرض ادا کردوں گا“، تو چونکہ اس نے معين نہيں کيا کہ کس کو قرض ادا کرے گا اس لئے اس کا ضامن بننا باطل ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کو دو اشخاص سے قرض وصول کرنا ہو اور کوئی شخص کهے: ”ميں ضامن ہوں کہ ان دو ميں سے ایک کا قرض ادا کردوں گا“، تو چونکہ اس نے معين نہيں کيا کہ ان دونوں ميں سے کس کا قرض ادا کرے گااس لئے اس کا ضامن بننا باطل ہے اور اسی طرح اگر کسی نے ایک دوسرے شخص سے مثال کے طور پر دس من گندم اور دس روپے لینے ہوں اور کوئی شخص کهے: ”ميں تمهارے دونوں قرضوں ميں سے ایک کی ادائیگی کا ضامن ہوں“، اور معين نہ کرے کہ گندم کا ضامن ہے یا روپوں کے لئے تو يہ ضمانت صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٨ اگر قرض خواہ اپنا قرض ضامن کو بخش دے تو ضامن مقروض سے کوئی چيز نہيں لے سکتا اور اگر وہ قرضے کی کچھ مقدار بخش دے تو ضامن اس مقدار کا بھی مطالبہ نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣ ۶ ٩ اگر کوئی شخص کسی کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بن جائے تو پھر وہ ضامن ہونے سے انکار نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢٣٧٠ احتياط واجب کی بنا پر ضامن اور قرض خواہ يہ شرط نہيں کرسکتے کہ جس وقت چاہيں ضامن کی ضمانت منسوخ کردیں۔

مسئلہ ٢٣٧١ اگر انسان ضامن بننے کے وقت قرض خواہ کا قرضہ ادا کرنے کے قابل ہو تو خواہ وہ بعد ميں فقير ہوجائے قرض خواہ اس کی ضمانت منسوخ کرکے پهلے مقروض سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہيں کرسکتا۔ یهی حکم اس وقت ہے جب ضمانت دیتے وقت ضامن قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو ليکن قرض خواہ يہ بات جانتے ہوئے اس کے ضامن بننے پر راضی ہوجائے۔

مسئلہ ٢٣٧٢ اگر انسان ضامن بنتے وقت قرض خواہ کا قرضہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور قرض خواہ اس وقت نہ جانتا ہوا ور بعد ميں صورت حال سے واقف ہو تو اس کی ضمانت منسوخ کرسکتا ہے ، ليکن اس سے پهلے کہ قرض خواہ کی صورت حال معلوم ہو ضامن قرضے کی ادائیگی پر قادر ہوجائے، پھر اگر قرض خواہ اس کی ضمانت منسوخ کرنا چاہے تو اس ميں اشکال ہے ۔

۳۸۲

مسئلہ ٢٣٧٣ اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت کے بغير ا س کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بن جائے تو وہ مقروض سے کچھ نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢٣٧ ۴ اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت سے اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن بنے تو جس مقدار کے لئے ضامن بنا ہو اسے ادا کرنے کے بعد مقروض سے اس کا مطالبہ کرسکتا ہے ليکن جس جنس کا وہ مقروض تھا اگر اس کے بجائے کوئی اور جنس قرض خواہ کو دے تو جو چيز دی ہو اس کا مطالبہ مقروض سے نہيں کرسکتا مثلاً اگر مقروض کو دس من گندم دینے ہوں اور ضامن دس من چاول دے دے تو ضامن مقروض سے دس من چاول کا مطالبہ نہيں کرسکتا ليکن اگر مقروض خود چاول دینے پر رضا مند ہوجائے تو پھر کوئی اشکال نہيں ۔

کفالت کے احکام

مسئلہ ٢٣٧ ۵ کفالت سے مراد يہ ہے کہ انسان یہ بات اپنے ذمہ لے کہ جس وقت قرض خواہ چاہے گا وہ مقروض کو اس کے حوالے کردے گا اور جو شخص اس طرح کی ذمہ داری قبول کرے اسے کفيل کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢٣٧ ۶ کفالت اس وقت صحيح ہے جب کفيل کسی بھی الفاظ ميں خواہ عربی زبان کے نہ ہوں یا کسی عمل سے قرض خواہ کو يہ بات سمجھادے کہ ميں ذمہ ليتا ہوں کہ جس وقت تم چاہو گے ميں مقروض کو تمهارے حوالے کردوں گا اور قرض خواہ یا اس کا ولی بھی اس بات کو قبول کرلے۔

مسئلہ ٢٣٧٧ کفيل کے لئے ضروری ہے کہ عاقل و بالغ ہو، مال ميں تصرف لازم آنے کی صورت ميں ضروری ہے کہ سفيہ اور دیواليہ نہ ہو مگر سفيہ کے ولی اور قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بعد، اسے کفيل بننے پر ناحق مجبور نہ کيا گيا ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ جس کا کفيل بنے اسے حاضر کرسکے۔

مسئلہ ٢٣٧٨ ان پانچ چيزوں ميں سے کوئی ایک کفالت کو کالعدم کردیتی ہے :

١) کفيل مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کردے یا مقروض خود اپنے آپ کو قرض خواہ کے حوالے کردے،یا کوئی تيسرا شخص مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کرے اور وہ قبول کرے۔

٢) قرض خواہ کا قرضہ ادا کردیا جائے۔

٣) قرض خواہ اپنے قرضے سے دستبردار ہوجائے یا کسی دوسرے کو بےع یا صلح یا حوالہ یا اس طرح کے طریقوں سے منتقل کردے۔

۴) مقروض مرجائے۔

۳۸۳

۵) قرض خواہ کفيل کو کفالت سے بری الذمہ قرار دے دے۔

مسئلہ ٢٣٧٩ اگر کوئی شخص مقروض کو زبردستی یا مکاری سے قرض خواہ سے آزاد کرادے اور قرض خواہ کی مقروض تک پهنچ نہ ہو تو جس شخص نے اسے آزاد کرایا ہو ضروری ہے کہ وہ مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کردے اور اگر حوالے نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس کا قرض ادا کرے۔

امانت کے احکام

مسئلہ ٢٣٨٠ اگر ایک شخص کوئی مال کسی کو دے اور کهے: ”تمهارے پاس امانت رہے“، اور وہ قبول کرے یا کوئی لفظ کهے بغير صاحب مال اس شخص کو سمجھادے کہ وہ اسے مال حفاظت کے لئے دے رہا ہے اور وہ بھی حفاظت کے مقصد سے لے لے تو ضروری ہے کہ وہ آنے والے امانت کے احکام پر عمل کریں۔

مسئلہ ٢٣٨١ امانت دار اور وہ شخص جو مال بطور امانت دے دونوں کا عاقل ہونا ضروری ہے ۔

لہٰذا اگر کوئی شخص کسی مال کو دیوانے کے پاس امانت کے طور پر رکھے یا دیوانہ کوئی مال کسی کے پاس امانت کے طور پر رکھے تو صحيح نہيں ہے ۔

جو شخص اپنے مال کو امانت رکھوائے اس کا بالغ ہونا ضروری ہے اور سمجھ دار بچہ کسی دوسرے کے مال کو اس کی اجازت سے کسی کے پاس امانت رکھے تو جائز ہے اور سمجھ دار بچے کے پاس امانت رکھوانا جب کہ وہ اس کی حفاظت کرسکتا ہو اور امانت کی حفاظت کرے اور بچے کے مال ميں تصر ف لا زم نہ آتا ہو تو کوئی حرج نہيں ۔

شرط ہے کہ جو شخص اپنا مال امانت رکھوائے سفيہ اور دیواليہ نہ ہو مگر سفيہ کے ولی اور دیواليہ کے قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بعد، ليکن سفيہ اور دیواليہ کے پاس امانت رکھوانا جب کہ اس سے ان کا اپنے مال ميں تصرف لازم نہ آتا ہو کوئی حرج نہيں ہے اور لازم آنے کی صورت ميں ولی اور قرض خواہوں کے اذن یا اجازت کے بعد کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢٣٨٢ اگر کوئی شخص بچے سے کوئی چيز اس کے مالک کی اجازت کے بغير بطور امانت قبول کرلے تو ضروری ہے کہ وہ چيز اس کے مالک کو دے دے اور اگر وہ چيز خود بچے کی ہو اور ولی نے اسے کسی کے پاس امانت رکھوانے کی اجازت نہ دی ہو تو ضروری ہے کہ وہ چيز بچے کے ولی تک پهنچائے اور اگر اس مال کے پہچانے ميں کوتاہی کرے اور وہ مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے اور اگر امانت رکھوانے والا دیوانہ ہو تو اس کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢٣٨٣ جو شخص امانت کی حفاظت نہ کرسکتا ہو اگر امانت رکھوانے والا اس کی اس حالت سے باخبر نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ شخص امانت قبول نہ کرے۔

۳۸۴

مسئلہ ٢٣٨ ۴ اگر انسان صاحب مال کو سمجھائے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کے لئے تيار نہيں اور صاحب مال پھر بھی مال چھوڑ کر چلا جائے اور وہ مال تلف ہوجائے تو جس شخص نے امانت قبول نہ کی ہو وہ ذمہ دار نہيں ہے ليکن احتياط مستحب يہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس مال کی حفاظت کرے۔

مسئلہ ٢٣٨ ۵ جو شخص کسی کے پاس کوئی چيز بطور امانت رکھوائے وہ جس وقت چاہے امانت واپس لے سکتا ہے اور اسی طرح امانت لینے والا بھی جب چاہے صاحب مال کو امانت لوٹا سکتاہے۔

مسئلہ ٢٣٨ ۶ اگر کوئی شخص امانت کی نگهداشت سے منصرف ہوجائے اور امانت داری منسوخ کردے تو ضروری ہے کہ جس قدر جلدهوسکے مال اس کے مالک یا وکيل یا اس کے ولی کو پهنچادے یا انہيں اطلاع دے کہ مال کی رکھوالی کے لئے تيار نہيں ہے اور اگر بغير عذر کے مال ان تک نہ پهنچائے یا اطلاع بھی نہ دے اور مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢٣٨٧ جو شخص امانت قبول کرے اگر اس کے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کے لئے مناسب جگہ مهيا کرے اور امانت کی اس طرح رکھوالی کرے کہ لوگ يہ نہ کہيں کہ اس نے رکھوالی کرنے ميں کوتاہی کی اور اگر غیر مناسب جگہ ميں رکھے اور امانت تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢٣٨٨ جس شخص نے امانت قبول کی ہو اگرتعدّی کرے یعنی زیاہ روی کرے مثال کے طور پر جو سواری اس کے پاس امانت ہو اس کے مالک کی اجازت کے بغير اس پر سواری کرے، یا تفرےط کرے یعنی اس امانت کی رکھوالی ميں کوتاہی کرے مثال کے طور پر اسے ایسی جگہ رکھے جهاں وہ ایسی غیر محفوظ ہو کہ کوئی خبر پائے تو لے جائے، تو وہ ضامن ہے اور اگر تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض اگر مثلی ہے تو مثل اور اگر قےمی ہے تو اس کی قيمت ادا کرے اور ان دو صورتوں کے علاوہ ضامن نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٨٩ اگر صاحب مال اپنے مال کی نگهداشت کے لئے کوئی جگہ معين کرے اور جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس سے کهے کہ مال کی حفاظت حتما اسی جگہ کرنا اور اگر ضائع ہوجانے کا احتمال ہو تب بھی تم اسے کہيں اور نہ لے جانا تو اسے کسی اور جگہ لے جانا جائز نہيں ہے اور اگر لے جائے تو ضامن ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩٠ اگر صاحب مال اپنے مال کی نگهداشت کے لئے کوئی جگہ معين کرے اور امانت قبول کرنے والا يہ جانتا ہو کہ وہ جگہ صاحب مال کی نظر ميں کوئی خصوصيت نہيں رکھتی بلکہ محفوظ جگہوں ميں سے ایک ہے تو وہ اس مال کو کسی ایسی جگہ جو زیادہ محفوظ ہو یا پهلی جگہ جتنی محفوظ ہو لے جاسکتا ہے اور اگر مال وہاں تلف ہوجائے تو ضامن نہيں ہے ۔

۳۸۵

مسئلہ ٢٣٩١ اگر صاحب مال دیوانہ ہوجائے تو جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ فوراً امانت اس کے ولی کو پهنچائے یا اس کے ولی کو اطلاع دے اور اگر کسی شرعی عذر کے بغير مال اس کے ولی کو نہ پهنچائے اور اسے اطلاع دینے ميں بھی کوتاہی کرے اور مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢٣٩٢ اگر صاحب مال مرجائے تو امانت دار کے لئے ضروری ہے کہ فوراً مال اس کے وارث تک پهنچائے یا اس کے وارث کو اطلاع دے اور اگر کسی شرعی عذر کے بغير مال اس کے وارث کو نہ پهنچائے یا اس کو اطلاع دینے ميں کوتاہی کرے اور مال تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے ليکن اگریہ جاننے کے لئے کہ جو شخص کہتا ہے کہ ميں ميت کا وارث ہوں واقعاً ٹھ ےک کہتا ہے یا نہيں ،یا ميت کا کوئی اور بھی وارث ہے یا نہيں مال نہ دے اور اطلاع دینے ميں بھی کوتاہی کرے اور مال تلف ہوجائے تو وہ ذمہ دار نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩٣ اگر صاحب مال مرجائے اور اس کے کئی وارث ہوں تو جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ مال تمام ورثاء کو دے یا اس شخص کو دے جسے باقی ورثاء نے مال لینے پر ما مٔور کيا ہو لہٰذا اگر وہ دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغير تمام مال کسی ایک وارث کو دے دے تو دوسروں کے حصوں کا ذمہ دار ہے اور اگر مرنے والا مال سے متعلق وصی معين کر چکا ہو تو اس کی اجازت بھی شرط ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩ ۴ جس شخص نے امانت قبول کی ہو اگر وہ مر جائے یا دیوانہ ہوجائے تو اس کے وارث یا ولی کے لئے ضروری ہے کہ جس قدر جلد ہوسکے صاحب مال کو اطلاع دے یا امانت اس تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢٣٩ ۵ اگر امانت دار اپنے آپ ميں موت کی نشانياں دےکهے اگر اسے اطمينان ہو کہ امانت اس کے مالک تک پهنچ جائے گی مثال کے طور پر اس کا وارث امین ہو اور امانت کے بارے ميں اسے اطلاع ہوا ور اسی طرح اگر اسے اطمينان ہو کہ امانت کا مالک اس کے ورثاء کے پاس امانت کے رہنے پر راضی ہے تو ضروری نہيں کہ امانت کو اس کے مالک یا وکيل یا ولی تک پهنچائے یا وصيت کرے اگرچہ احوط يہ ہے کہ امانت کو اس کے مالک یا وکيل یا ولی تک پهنچائے اور اگر ممکن نہ ہو تو امانت حاکم شرع کو دے دے۔

اس صورت کے علاوہ جس طرح ممکن ہو حق کو اس کے مالک یا وکيل یا ولی تک ضرور پهنچائے اور اگر ممکن نہ ہو تو وصيت کرے اور گواہ بنائے اور وصی اور گواہ کو صاحب مال کا نام،مال کی جنس وخصوصيات اور جگہ بتائے۔

مسئلہ ٢٣٩ ۶ اگر امانت دار اپنے آپ ميں موت کی نشانياں دےکهے اور سابقہ مسئلے ميں بيان کی گئی ذمہ داری پر عمل نہ کرے اور وہ امانت ضائع ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے،اگرچہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ کی ہو اور صحت یاب ہوجائے یا کچھ مدت کے بعد پشےمان ہو اور وصيت کرے اور چاہے مال بھی وصيت کے بعد تلف ہوجائے۔

۳۸۶

احکام عاريہ

مسئلہ ٢٣٩٧ عاریہ یہ ہے کہ انسان اپنا مال دوسرے کو دے تا کہ وہ بغير کسی عوض کے اس سے استفادہ کرے۔

مسئلہ ٢٣٩٨ عاریہ ميں صيغہ پڑھنا ضروری نہيں ہے اور اگر مثال کے طور پر کوئی شخص عاریہ کے قصد سے کسی کو لباس دے اور وہ بھی اسی قصد سے لے تو عاریہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٣٩٩ غصبی چيز کا یا اس چيز کا بطور عاریہ دینا جو انسان کی ملکيت ميں ہو ليکن اس سے حاصل ہونے والی منفعت پر کسی اور شخص کا حق ہو یا اس کی ملکيت ميں ہو مثلاً یہ کہ اس نے وہ چيز کرایہ پر دے رکھی ہو، اسی صورت ميں صحيح ہے جب غصبی چيز کا مالک یا وہ شخص جو عاریہ دی جانے والی چيز کی منفعت کا مالک ہے یا اس پر اس کا حق ہے اس کے عاریہ دئے جانے پر راضی ہو جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٠ جس چيز کی منفعت انسان کی ملکيت ميں ہو مثلاً اس چيز کو کرائے پر لے رکھا ہو، اسے کسی ایسے شخص کو جو اس مال پر قابل اطمينان ہو یا مالک کی اجازت سے بطور عاریہ دے سکتا ہے ليکن اگر اجارہ ميں یہ شرط رکھی ہو کہ خود وہ شخص اس مال سے استفادہ کرے گا تو اسے کسی دوسرے شخص کو بطور عاریہ نہيں دے سکتاہے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠١ دیوانے اور بچے کا اپنے مال کو بطور عاریہ دینا صحيح نہيں ہے ۔ اسی طرح سفيہ اور مُفلس کا اپنے مال کو عاریہ دینا (بهی) صحيح نہيں ہے مگر یہ کہ سفيہ کا ولی اور وہ اشخاص جو مُفلس سے قرض خواہ ہوں وہ اس بات کی اجازت دے دیں اور اگر ولی اس بات ميں مصلحت سمجھتا ہو کہ جس شخص کا وہ ولی ہے اس کا مال عاریہ پر دے دے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٢ جس شخص نے کوئی چيز عاریةً لی ہو اگر وہ اس کی نگهداشت ميں کوتاہی نہ کرے اور اس سے معمول سے زیادہ استفادہ بھی نہ کرے اور اتفاقاً وہ چيز تلف ہو جائے تو وہ شخص ضامن نہيں ہے ليکن اگر فریقين آپس ميں شرط رکہيں کہ اگر وہ چيز تلف ہوجائے تو عاریہ لينے والا ذمہ دار ہوگا یا جو چيز بطور عاریہ لی گئی ہو وہ سونا یا چاندی ہو تو عاریہ لينے والے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٣ اگر کوئی شخص سونا یا چاندی بطور عاریہ لے اور یہ شرط رکھے کہ تلف ہونے کی صورت ميں وہ ذمہ دار نہيں ہوگا۔ پس اگر تلف ہو جائے تو وہ شخص ذمہ دار نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠ ۴ اگر عاریہ دینے والا مرجائے تو عاریہ لينے والے کی وهی ذمہ داری ہے جسے مسئلہ نمبر ٢٣٩٢ ميں بيان کيا گيا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠ ۵ اگر عاریہ دینے والے کی کيفيت ایسی ہو جائے کہ وہ شرعا اپنے مال ميں تصرف نہ “ کرسکتا ہو مثلاً دیوانہ ہو جائے تو عاریہ لينے والے کی ذمہ داری وهی ہے جسے مسئلہ نمبر ” ٢٣٩١ميں بيان کيا گيا ہے ۔

۳۸۷

مسئلہ ٢ ۴ ٠ ۶ عاریہ عقد جائز ہے اور عاریہ دینے اور لينے والا دونوں، کسی وقت بھی عاریہ کو ختم کرنے کا اختيار رکھتے ہيں ۔ لہذا، عاریہ دینے والا کسی بھی وقت دی ہوئی چيز واپس لے سکتا ہے مگر اس مقام پر جهاں زمين کو ميت کے دفن کرنے کی غرض سے عاریہ پر دیا گيا ہو کہ وہاں ميت کے دفن ہونے کے بعد قبر کهود کر زمين کو واپس نہيں لے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٧ ایسی چيز کا بطور عاریہ دینا باطل ہے جس سے حلال طریقے سے استفادہ نہ ہوسکتا ہو مثلاً لهو و لعب اور قمار بازی کے آلات۔ اسی طرح کھانے اور پينے کے لئے سونے یا چاندی کے برتن کا بطور عاریہ دینا، بلکہ احتياط واجب یہ ہے کہ دیگر کاموں کے لئے حتی سجاوٹ کی خاطر بھی دینا صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٨ بھيڑوں کو ان کے دودھ اور اون سے استفادہ کرنے کے لئے اور نر حيوان کو مادہ حيوان سے ملانے کے لئے عاریةً دینا صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٠٩ اگر چيز کو عاریةً لينے والا اسے اس کے مالک یا مالک کے وکيل یا ولی کو دے دے اور پھر وہ چيز تلف ہو جائے تو عاریہ لينے والا ضامن نہيں ہے ليکن اگر وہ مال کے مالک یا اس کے وکيل یا ولی کی اجازت کے بغير مال کو کسی دوسری جگہ لے جائے تو اگر چہ وہ جگہ ایسی ہو جهاں مال کا مالک عموماً اسے لے جاتا ہو مثلاً یہ کہ گهوڑے کو ایسے اصطبل ميں باندهے جو اس کے مالک نے اس کے لئے بنایا تھا، پھر بھی وہ ضامن ہے اور تلف ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٠ اگر کوئی شخص کسی نجس چيز کو ایسے کام کے لئے عاریہ دے جس ميں طهارت شرط ہو مثلاً نجس برتن بطور عاریہ دے تا کہ اس ميں کھانا کهایا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جو شخص اس چيز کو عاریہ لے رہا ہو اسے اس کے نجس ہونے کے بارے ميں بتا دے اور اگر نجس لباس کو نماز پڑھنے کے لئے بطور عاریہ دے تو ضروری نہيں ہے کہ اس کے نجس ہونے کے بارے ميں اطلاع دے مگر یہ کہ لباس کو عاریةً لينے والا چاہتا ہو کہ واقعی پاک لباس ميں نماز پڑھے کہ اس صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ لباس کے نجس ہونے کے بارے ميں اطلاع دے دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١١ جو چيز کسی شخص نے عاریةً لی ہو اسے وہ اس کے مالک کی اجازت کے بغير کسی دوسرے کو اجارے پر یا عاریةً نہيں دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٢ جو چيز کسی نے عاریةً لی ہو اگر وہ اسے مالک کی اجازت سے کسی اور شخص کو عاریةً دے دے تو اگر وہ شخص جس نے پهلے وہ چيز عاریةً لی تھی مرجائے یا پاگل ہو جائے تو دوسرا عاریہ باطل نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٣ اگر انسان جانتا ہو کہ جو مال اس نے عاریةً ليا ہے وہ غصبی ہے تو ضروری ہے کہ اسے اس کے اصل مالک تک پهنچائے اور عاریہ دینے والے کو وہ چيز واپس نہيں دے سکتا ہے ۔

۳۸۸

مسئلہ ٢ ۴ ١ ۴ اگر انسان ایسے مال کو بطور عاریہ لے جس کے بارے ميں جانتا ہو کہ وہ غصبی ہے اور اس سے فائدہ اٹھ ائے اور اس سے وہ مال تلف ہو جائے تو مالک اس مال کا عوض اور وہ فائدہ جو عاریہ لينے والے نے اٹھ ایا ہے اس کا عوض خود اس عاریہ لينے والے سے یا مال غصب کرنے والے سے طلب کرسکتا ہے اور اگر مالک عاریہ لينے والے سے عوض لے تو وہ جو کچھ مالک کو دے اس کا مطالبہ عاریہ دینے والے سے نہيں کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ١ ۵ اگر انسان نہ جانتا ہو کہ جس مال کو بطور عاریہ ليا ہوا ہے وہ غصبی ہے اور مال اس سے تلف ہو جائے تو اگر مال کا مالک اس کا عوض اس سے لے لے تو وہ بھی جو کچھ مال کے مالک کو دیا ہے اس کا مطالبہ عاریہ دینے والے سے کرسکتا ہے ليکن اگر وہ چيز جسے بطور عاریہ ليا ہو سونا یا چاندی ہو یا عاریہ دینے والے نے شرط رکھی ہو کہ اگر وہ چيز تلف ہو جائے تو اس کا عوض دے تو پھر جو کچھ اس نے مال کے مالک کو دیا ہو اس کا مطالبہ عاریہ دینے والے سے نہيں کرسکتا ہے ۔

هبہ کے احکام

هبہ یہ ہے کہ انسان کوئی عوض لئے بغير، کسی کو کسی چيز کا مالک بنا دے۔ ضروری ہے کہ جو چيز اس طرح بخشی گئی ہو وہ چاہے مشاع طور پر ہی سهی ليکن عين ہو، منفعت نہ ہو۔ اس سے فرق نہيں پڑتا کہ وہ چيز خارج ميں موجود ہو یا ذمّے پر ہو۔ ہاں، ذمّے پر موجود ہونے کی صورت ميں ضروری ہے کہ جس کے ذمّے پر ہے اس کے علاوہ کسی اور کو بخشے اور اگر اسی کو بخش دے جس کے ذمّے پر ہے تو پھر وہ بری الذمہ ہوجائے گا اور بخشنے والا دوبارہ بخشی ہوئی چيز کو واپس نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ١ ۶ هبہ ميں ایجاب و قبول ضروری ہے ، چاہے اسے الفاظ کے ذریعے انجام دیا جائے مثلاً کهے:”یہ کتاب ميں نے تمہيں بخش دی،“ اور جسے کتاب بخشی گئی ہے وہ کهے:”ميں نے اسے قبول کيا،“ اور چاہے عمل کے ذریعے اسے انجام دیا جائے مثلاً کتاب کو بخشنے کی نيت سے کسی کو دے اور وہ بھی اسے قبول کرنے کی نيت سے لے لے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٧ ضروری ہے کہ هبہ کرنے والا بالغ و عاقل ہو، اپنے ارادے سے هبہ کرے، اسے هبہ کرنے پر مجبور نہ کيا گيا ہو، سفيہ یا دیواليہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال ميں ممنوع التصرف نہ ہو چکا ہو اور جو مال بخش رہا ہے اس کا مالک ہو یا اس مال پر ولایت رکھتا ہو، ورنہ هبہ ”فضولی“کهلائے گا اور اس کے صحيح ہونے کے لئے صاحبِ اختيار فرد کی اجازت ضروری ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٨ هبہ ميں قبضہ ميں لينا ضروری ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چيز بخشے تو جب تک دوسرا شخص اسے اپنے قبضے ميں نہ لے لے هبہ محقق نہيں ہوتا۔جسے مال بخشا گيا ہو ضروری ہے کہ وہ اسے هبہ کرنے والے کی اجازت سے اپنے قبضے ميں لے، ليکن اگر مال پهلے ہی سے اس کے تصرف ميں ہو جسے بخشا جا رہا ہو تو قبضے کے لئے یهی کافی ہے ۔

۳۸۹

غير قابلِ انتقال چيزیں، مثلاً زمين اور گھر کا قبضہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ تصرف کی راہ ميں موجود رکاوٹوں کو ہٹا دے اورمال کا اختيار اس کے ہاتھ ميں دے دے جسے بخشا گيا ہے ، جب کہ قابل انتقال چيزوں ميں قبض کا مطلب یہ ہے کہ مال دوسرے کو دے دے اور دوسرا بھی اسے لے لے۔

مسئلہ ٢ ۴ ١٩ اگر مال کسی ایسے فرد کو دے جو ابهی بالغ نہ ہوا ہو یا دیوانہ ہو تو ضروری ہے کہ ان کا ولی اسے قبول کرے اور اس مال کا قبضہ لے۔ ہاں، اگر خود ولی ان کو کوئی ایسی چيز بخشے جو اس ولی کے ہاتھ ميں ہو تو قبضہ لينے کے لئے اس کا ولی کے ہاتھ ميں ہونا ہی کافی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٠ اگر اپنے ارحام یعنی رشتہ داروں ميں سے کسی کو کوئی چيز هبہ کرے تو اس کا قبضہ دے دینے کے بعد دوبارہ ان سے واپس نہيں لے سکتا۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب هبہ کرنے والا هبہ لينے والے پر کوئی شرط لگائے جس پر عمل ہو جائے یا هبہ لينے والا هبہ کے عوض ميں کوئی چيز هبہ کرنے والے کو دے دے۔

مذکورہ مقامات کے علاوہ اگر هبہ دی گئی چيز عيناً باقی ہو تو اسے واپس لے سکتا ہے ۔ ہاں، اگر وہ چيز تلف ہوچکی ہو یا اسے کسی اور کو منتقل کيا جاچکا ہو یا اس ميں کوئی تبدیلی رونما ہوچکی ہو مثلاً وہ کوئی کپڑا ہو جسے رنگا جا چکا ہوتو پھر واپس نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢١ هبہ لازم ہونے کے احکام ميں مياں اور بيوی کا شمار رشتہ داروں ميں نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٢ اگر کوئی مال کسی کو بخشے اور اس کے ضمن ميں شرط لگائے کہ وہ بھی کوئی مال اسے دے یا اس کے لئے کوئی جائز کام انجام دے تو جس شخص کے لئے شرط لگائی گئی ہو ضروری ہے کہ وہ اس شرط پر عمل کرے اور هبہ کرنے والا اس شرط پر عمل درآمد سے پهلے هبہ دینے سے پلٹ سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر جس پر شرط لگائی گئی ہو وہ شرط پر عمل نہ کرے یا نہ کرسکے تو بھی هبہ کرنے والا پلٹ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٣ اگر هبہ کرنے والا یا جسے مال هبہ کيا گيا ہے ، قبضہ لينے سے پهلے مرجائے تو هبہ باطل ہوجاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢ ۴ اگر هبہ کرنے والا قبضہ دینے کے بعد مرجائے تو اس کے وارث اس هبہ کو واپس نہيں لے سکتے۔ اسی طرح اگر وہ شخص مرجائے جسے هبہ کيا گيا ہے تو بھی هبہ کرنے والا اسے واپس نہيں لے سکتا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢ ۵ هبہ سے جس طرح الفاظ کے ذریعے پلٹا جا سکتاہے مثلاً یہ کہہ کر:”ميں اپنی کی ہوئی بخشش سے پلٹتا ہوں،“ اسی طرح عمل کے ذریعے بھی یہ بات سمجھائی جا سکتی ہے ، مثلاً پلٹنے کے ارادے سے دوسرے شخص سے هبہ کی ہوئی چيز واپس لے لے یا وهی چيز هبہ سے پلٹنے کے ارادے سے کسی اور کے حوالے کردے۔

رجوع یعنی پلٹنے کے وقوع پذیر ہونے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ جسے هبہ کيا گيا تھا اسے بھی معلوم ہو کہ هبہ دینے والا اب اپنے هبہ سے پلٹ چکاہے۔

۳۹۰

مسئلہ ٢ ۴ ٢ ۶ جو مال کسی کو بخشا جائے اور هبہ لينے والے کی ملکيت ميں اس ميں کوئی ایسا اضافہ ہو جو عليحدہ سے ہو یا عليحدہ کيا جا سکتا ہو، مثلاً بکری هبہ ميں دی ہوجو بچہ جنے یا درخت پر پھل لگ جائيں تو یہ هبہ لينے والے کا مال ہی سمجھے جائيں گے اور هبہ دینے والا اگر ان مثالوں ميں اپنے هبہ کو واپس لينا چاہے تو بکری کا بچہ یا پھل واپس نہيں لے سکتا۔

نکاح کے احکام

عقد ازدواج کے ذریعے عورت اور مرد ایک دوسرے پر حلال ہو جاتے ہيں ۔ عقد کی دو قسميں ہيں :

١) عقد دائمی ٢) عقد موقت یا غير دائمی عقد دائمی وہ عقد ہے کہ جس ميں ازدواج کے لئے کسی مدت کا تعين نہ ہو اور جس عورت سے اس قسم کا عقد کيا جائے اسے دائمہ کہتے ہيں ۔

اور عقد غير دائمی یہ ہے کہ جس ميں ازدواج کی مدت معين ہو مثلاً عورت سے ایک گهنٹے یا ایک دن یا ایک مهينہ یا ایک سال یا اس سے زیادہ مدت کے لئے عقد کيا جائے، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ عقد کی مدت عورت اور مرد کی عمر سے یا ان ميں سے کسی ایک کی عمر سے زیادہ نہ ہو اور جس عورت سے اس قسم کا عقد کيا جائے اسے متعہ کها جاتا ہے ۔

عقد کے احکام

مسئلہ ٢ ۴ ٢٧ ازدواج چاہے دائمی ہو یا غير دائمی اس ميں صيغہ پڑھنا ضروری ہے اور فقط مرد اور عورت کا راضی ہونا کافی نہيں ہے ۔ عقد کا صيغہ مرد اور عورت اگر چاہيں تو خود بھی پڑھ سکتے ہيں یا کسی اور کو وکيل بناسکتے ہيں جو ان کی طرف سے پڑھے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٨ وکيل کا مرد ہونا ضروری نہيں ہے بلکہ عورت بھی عقد کا صيغہ پڑھنے کے لئے کسی دوسرے کی جانب سے وکيل ہوسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٢٩ عورت اور مرد جب تک اس بات کا یقين یا اطمينان پيدا نہ کرليں کہ ان کے وکلاء نے صيغہ پڑھ ليا ہے اس وقت تک نکاح کے احکام اور آثار کو جاری نہيں کرسکتے ہيں اور اس بات کا گمان کہ وکيل نے صيغہ پڑھ ليا ہوگا کافی نہيں ہے اور اگر وکيل کہہ دے کہ ميں نے صيغہ پڑھ ليا ہے تو اس صورت ميں کافی ہے کہ وہ قابل بهروسہ ہواور اس کی بات کے بر خلاف بات کا گمان نہ ہویا اس کے قول سے اطمينان حاصل ہوجائے۔ ان دو مذکورہ صورتوں کے علاوہ اس کی خبر پر اکتفا کرنے ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣٠ اگر عورت کسی کو وکيل مقرر کرے اور اس سے کهے کہ تم ميرا عقد دس دن کے لئے فلاں شخص کے ساته پڑھ دو اور دس دن کی ابتدا کو معين نہ کرے تو وہ وکيل جن دس دنوں کے لئے چاہے اسے اس مرد کے عقد ميں لاسکتا ہے ، ليکن اگر وکيل کو معلوم ہو کہ عورت کا مقصد کسی خاص دن یا گهنٹے کا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ عورت کے قصد کے مطابق صيغہ پڑھے۔

۳۹۱

مسئلہ ٢ ۴ ٣١ عقد دائمی یا غير دائمی کا صيغہ پڑھنے کے لئے ایک ہی شخص دونوں کی طرف سے وکيل بن سکتا ہے اور انسان یہ بھی کرسکتا ہے کہ عورت کی طرف سے وکيل بن جائے اور اس سے خود ہی دائمی یا غير دائمی عقد کرے۔ ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ عقد دو اشخاص پڑہيں مخصوصاً اس صورت ميں جب انسان اپنے آپ سے عقد کرنے کے لئے وکيل بنا ہو۔

عقد دائمی پڑھنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۴ ٣٢ اگر عورت اور مرد خود اپنے دائمی عقد کا صيغہ پڑہيں اور پهلے عورت کهے:”زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْم ،“یعنی ميں نے معين شدہ مہر پر اپنے آپ کو تمهاری زوجہ بنایا اور اس کے بعد عرفاً بلا فاصلہ مرد کهے:”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْم،“ یعنی ميں نے معين شدہ مہر پر ازدواج کو قبول کيا یا کهے:”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ“ اور اسی ازدواج کا قصد کرے جس کا مہر معين ہوچکا ہو تو عقد صحيح ہے ۔اور اگر وہ کسی دوسرے کو وکيل مقرر کریں جو ان کی طرف سے صيغہ عقد پڑہيں تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ ہو اور عورت کا وکيل کهے:

زَوَّجْتُ مُوَکِّلَتِیْ فَاطِمَةَ مُوَکِّلَکَ اَحْمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ

اور اس کے بعد عرفی موالات کے ختم ہوئے بغير مرد کا وکيل کهے:

قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ لِمُوَکِّلِیْ اَحْمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ

تو عقد صحيح ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ عورت کا وکيل یوں کهے:

زَوَّجْتُ مُوَکِّلَکَ اَحْمَدَ مُوَکِّلَتِیْ فاَطِمَةَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ “۔

اور احتياط مستحب یہ ہے کہ مرد کے الفاظ عورت کے الفاظ کے مطابق ہوں مثلاً اگر عورت ”زَوَّجْتُ“ کهے تو مرد بھی ”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ “ کهے، اگرچہ ”قَبِلْتُ النِّکَاحَ“ کهنے ميں بھی کوئی حرج نہيں ہے ۔

عقد غير دائمی کے پڑھنے کا طريقہ

مسئلہ ٢ ۴ ٣٣ اگر خود عورت اور مرد چاہيں تو غير دائمی عقد کا صيغہ عقد کی مدت اور مہر معين کرنے کے بعد پڑھ سکتے ہيں ۔ لہٰذا اگر عورت کهے:”زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ فِی الْمُدَّةِ الْمَعْلُوْمَةِ عَلی الْمَهْرِالْمَعْلُوْمِ “ اور اس کے بعد عرفی موالات کے ختم ہوئے بغير مرد کهے:”قَبِلْتُ هٰکَذَا “ تو عقد صحيح ہے ۔

اور اگر وہ کسی اور شخص کو وکيل بنائيں اور پهلے عورت کا وکيل مرد کے وکيل سے کهے:”زَوَّجْتُ مُوَکِّلَتِیْ مُوَکِّلَکَ فِی الْمُدَّةِ الْمَعْلُوْمَةِ عَلَی الْمَهر الْمَعْلُوْمِ، “ پھر عرفی موالات کے ختم ہوئے بغير مرد کا وکيل کهے: ”قَبِلْتُ لِمُوَکِّلِیْ هٰکَذَا “ تو عقد صحيح ہوگا۔

۳۹۲

عقد کے شرائط

مسئلہ ٢ ۴ ٣ ۴ عقد ازدواج کی چند شرطيں ہيں :

١) بنا بر احتياط واجب عقد کا صيغہ، صحيح عربی ميں پڑھا جائے اور اگر خود مرد اور عورت صحيح عربی ميں صيغہ نہ پڑھ سکتے ہوں تو عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان ميں بھی پڑھ

سکتے ہيں ، مگر ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کہيں جو ”زَوَّجْتُ“ و ”قَبِلْتُ“ کے معنی کو سمجھا دیں، ا گرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کو اپنا وکيل بنائيںجو صحيح عربی پڑھ سکتا ہو ۔

٢) مرد اور عورت یا ان کے وکيل جو صيغہ پڑھ رہے ہوں وہ ١نشاء کا قصد رکھتے ہوں یعنی اگر خود مرد اور عورت صيغہ پڑھ رہے ہوں تو عورت کا”زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ“ کهنا اس قصد سے ہو کہ وہ خود کو اس مرد کی بيوی قرار دے اور مرد کا ”قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ“ کهنا اس قصد سے ہو کہ وہ اس کا اپنی بيوی بننا قبول کرے اور اگر مرد اور عورت کے وکيل صيغہ پڑھ رہے ہوں تو ”زَوَّجْتُ“ اور ”قَبِلْتُ“کهنے سے ان کا قصد یہ ہو کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے انہيں وکيل بنایا ہے ایک دوسرے کے مياں بيوی بن جائيں۔

٣) جو شخص صيغہ پڑھ رہا ہو اس کا عاقل ہونا ضروری ہے اور جو شخص بالغ نہ ہو ليکن انشاء عقد کرسکتا ہو اگر وہ ولی کے اذن یا اس کی اجازت کے بغير اپنے لئے صيغہ پڑھ لے تو یہ باطل ہے ، البتہ ولی کی اجازت کے ساته کوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، اگر کسی اور کا وکيل بن کر صيغہ پڑھے تو اس کا عقد صحيح ہے ۔

۴) اگر عورت اور مرد کے وکيل یا ولی صيغہ پڑھ رہے ہوں تو وہ عقد کے وقت عورت اور مرد کو معين کرليں مثلاً ان کے نام ليں یا ان کی طرف اشارہ کریں۔ پس جس شخص کی کئی لڑکياں ہوں اگر وہ کسی مرد سے کهے:”زَوَّجْتُکَ اِحْدیٰ بَنَاتِی“ یعنی ميں نے اپنی بيٹيوں ميں سے ایک کو تمهاری بيوی بنایا اور مرد کهے:”قَبِلْتُ“ یعنی قبول کيا تو چونکہ عقد کرتے وقت لڑکی کو معين نہيں کيا گيا لہٰذا عقد باطل ہے ۔

۵) عورت اور مرد ازدواج پر راضی ہوں اور اگر عورت ظاہر ميں ناپسندیدگی سے اجازت دے اور معلوم ہو کہ دل سے راضی ہے تو عقد صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ ۵ اگر عقد ميں ایک حرف بھی غلط پڑھا جائے اس طرح کہ اس کا مطلب بدل جائے تو عقد باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ ۶ جو شخص عربی زبان کے قواعدسے واقف نہ ہو اگر صيغہ عقد کو صحيح طرح پڑھے اور عقد ميں موجود ہر لفظ کے معنی جانتا ہو اور ہر لفظ سے اس کے معنی کا قصد کرے تو وہ عقد پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣٧ اگر کسی عورت کا عقد کسی مرد کے ساته ان کی اجازت کے بغير کر دیا جائے اور بعد ميں عورت اور مرد اس عقد کی اجازت دے دیں تو عقد صحيح ہے ۔

۳۹۳

مسئلہ ٢ ۴ ٣٨ اگر عورت اور مرد دونوں کو یا ان ميں سے کسی ایک کو ازدواج پر مجبور کيا جائے تو اس صورت ميں کہ عقد خود انہوںنے پڑھا ہو اگر عقد پڑھے جانے کے بعد راضی ہو جائيں تو عقد صحيح ہے اور اگر کسی اور نے پڑھا ہو تو اجازت دینے سے مثلاً یہ کہہ دینے سے کہ ہم اس عقد سے راضی ہيں ، عقد صحيح ہو جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣٩ باپ اور دادا اپنے نابالغ فرزند کا یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت ميں بالغ ہوا ہو عقد کرسکتے ہيں اور بچہ، بالغ ہونے کے بعد، جب کہ پاگل، عاقل ہونے کے بعد اگر اس عقد ميں جو اس کے لئے کيا گيا تھا کوئی خرابی نہ پائے تو اسے ختم نہيں کرسکتا ہے اور اگر خرابی پائے تو اسے اس عقد کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختيار ہے ۔ ہاں، اس صورت ميں کہ نابالغ لڑکے اور لڑکی کا باپ ان کا ایک دوسرے سے عقد کر دیں اور وہ بالغ ہونے کے بعد اس کی اجازت نہ دیں تو طلاق یا عقد جدید کے ذریعے احتياط ترک نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٠ جو لڑکی بالغ ہوچکی ہو اور رشيدہ ہو یعنی اپنی مصلحت کی پہچان رکھتی ہو، اگر شادی کرنا چاہے اور کنواری ہو تو احتياط واجب کی بنا پر اس کے لئے باپ یا دادا سے اجازت لينا ضروری ہے جب کہ ماں یا بهائی کی اجازت ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ١ اگر لڑکی کنواری نہ ہو یا کنواری ہو ليکن باپ یا دادا سے اجازت لينا ممکن نہ ہو یا باعث حرج ہو اور لڑکی کو شادی کی احتياج ہو تو باپ یا دادا سے اجازت لينا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٢ اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ بچے کی شادی کردیں تو لڑکے پر بالغ ہونے کے بعد اس عورت کا خرچہ دینا ضروری ہے ۔ البتہ بالغ ہونے سے پهلے کے اخراجات کے سلسلے ميں جب کہ اس زمانے ميں عورت اس کی خواہشات کے لئے حاضرہو اورلڑکا بھی لذت حاصل کر سکتا ہو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ مصالحت کر کے یا کسی اور طریقے سے اپنے بری الذمہ ہونے کا یقين حاصل کرے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٣ اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ لڑکے کی شادی کر دیں تو اگر لڑکا عقد کے وقت مال رکھتا ہو تو وہ عورت کے مہر کا مقروض ہے اور اگر وہ عقد کے وقت مال نہ رکھتا ہو تو اس کے باپ یا دادا کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کا مہر دیں۔

وہ عيوب جن کی وجہ سے عقد فسخ کيا جاسکتا ہے

مسئلہ ٢ ۴۴۴ اگر مرد کو عقد کے بعد پتہ چلے کہ عورت ميں مندرجہ ذیل عيبوں ميں سے کوئی عيب موجود ہے تو وہ عقد کو فسخ کرسکتا ہے ۔

١) پاگل پن

٢) کوڑھ پن (جذام)

۳۹۴

٣) برص (سفيد داغ)

۴) اندهاپن

۵) اپاہج ہونا یا مفلوج ہونا مگر یہ کہ اس کے کسی عضو کا مفلوج ہونا اس قسم کا ہو کہ اسے عرفاً عيب شمار نہ کيا جائے۔

۶) افضاء یعنی اس کے پيشاب اور حيض کا مخرج یا حيض اور پاخانے کا مخرج ایک ہوگيا ہو۔

٧) عورت کی شرمگاہ ميں ایسا گوشت یا ہڈی ہوجو جماع سے مانع ہو۔

مسئلہ ٢ ۴۴۵ اگر عورت کو عقد کے بعد پتہ چلے کہ اس کا شوہر عقد سے پهلے دیوانہ رہا ہے یا آلہ تناسل نہيں رکھتا ہے یا عقد کے بعد ليکن مجامعت سے پهلے آلہ تناسل کٹ جائے یا یہ جان لے کہ اسے کوئی ایسی بيماری ہے جس کی وجہ سے مجامعت پر قادر نہيں ہے گرچہ یہ مرض عقد کے بعد اور نزدیکی کرنے سے پهلے ہی لاحق ہوا ہو، ان تمام صورتوں ميں عقد کو ختم کرسکتی ہے مگر اس صورت ميں جب کہ شوہر اس سے تعلقات قائم نہيں کرسکتا ہے ضروری ہے کہ عورت حاکم شرع کی طرف رجوع کرے اور حاکم شوہر کو ایک سال کی مهلت دے گا پس اگر اس مدت ميں شوہر اس عورت سے یا کسی اور عورت سے تعلقات قائم کرنے پر قدرت پيدا نہ کرے تو اس کے بعد عورت عقد فسخ کرسکتی ہے ۔

اور اگر مرد عقد کے بعد پاگل ہو جائے، چاہے نزدیکی سے پهلے ہو یا بعد ميں ، احتياط واجب کی بنا پر عورت طلاق کے بغير عليحدگی اختيار نہيں کرسکتی ہے اور اگر مرد کا آلہ تناسل نزدیکی کرنے کے بعد کٹ جائے یا نزدیکی کے بعد کوئی ایسا مرض پيدا ہو جائے کہ اب نزدیکی نہ کرسکے تو ایسی صورت ميں عورت عقد کو فسخ کرنے کا حق نہيں رکھتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۴۶ اگر عورت کو عقد کے بعد پتہ چلے کہ اس کے شوہر کے تخم نکال دئے گئے ہيں تو اگر اس امر کو عورت پر مخفی رکھا گيا ہو اور اسے دهوکا دیا گيا ہو وہ عقد کو ختم کرسکتی ہے اور اگر اسے دهوکا نہ دیا گيا ہو اور وہ عقد کو ختم کرنا چاہے تو طلاق کے ذریعے احتياط کو ترک نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ ٧ اگر عورت اس بنا پر عقد ختم کردے کہ مرد مجامعت پر قادر نہيں تو شوہر کے لئے آدها مہر دینا ضروری ہے ليکن اگر ان کے علاوہ دوسرے مذکورہ نقائص ميں سے کسی ایک کی بنا پر مرد یا عورت عقد ختم کریں تو اگر مرد نے عورت سے مجامعت نہ کی ہو تو کوئی چيز بھی اس پر واجب نہيں ہے اور اگر تعلقات قائم کرلئے ہوں تو ضروری ہے کہ پورا مہر دے۔ ہاں، اگر خود عورت نے مرد کو دهوکا دیا ہو تو اس صورت ميں مرد پر کوئی چيز دینا واجب نہيں ہے ۔

وہ عورتيں جن سے ازدواج حرام ہے

مسئلہ ٢ ۴۴ ٨ محرم عورتوں مثلاً ماں، بهن، بيٹی، پهوپهی، خالہ، بهتيجی، بهانجی اور ساس کے ساته ازدواج حرام ہے ۔

۳۹۵

مسئلہ ٢ ۴۴ ٩ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد کرے تو خواہ اس سے مجامعت نہ بھی کرے اس عورت کی ماں، نانی اور دادی اور جتنا سلسلہ اوپر چلاجائے سب عورتيں اس مرد کی محرم ہو جاتی ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٠ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد کرے اور اس کے ساته مجامعت کرے تو پھر اس عورت کی لڑکی، نواسی، پوتی اور جتنا سلسلہ نيچے چلا جائے سب عورتيں اس مرد کی محرم ہو جاتی ہيں خواہ وہ عقد کے وقت موجود ہوں یا بعد ميں پيدا ہوں۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ١ اگر کسی مرد نے ایک عورت کے ساته عقد کيا ہو ليکن مجامعت نہ کی ہو تو جب تک وہ عورت اس کے عقد ميں ہے اس وقت تک وہ اس عورت کی بيٹی سے ازدواج نہيں کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٢ انسان کی پهوپهی اور خالہ اور اس کے باپ کی پهوپهی اور خالہ اور دادا کی پهوپهی اور خالہ اور دادی کی پهوپهی اور خالہ اور ماں کی پهوپهی اور خالہ اور نانا یا نانی کی پهوپهی اور خالہ اور جس قدر یہ سلسلہ اوپر چلا جائے سب اس کی محرم ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٣ شوہر کا باپ اور دادا اور جس قدر یہ سلسلہ اوپر چلا جائے اور شوہر کا بيٹا، پوتا اور نواسا اور جس قدر یہ سلسلہ نيچے چلا جائے خواہ وہ عقد کے وقت دنيا ميں موجود ہوں یا بعد ميں پيدا ہوں سب عورت کے محرم ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴۵۴ اگر کوئی شخص کسی عورت سے عقد کرے تو خواہ وہ عقد دائمی ہو یا غير دائمی جب تک وہ عورت اس کے عقد ميں ہے وہ اس کی بهن کے ساته عقد نہيں کرسکتا۔

مسئلہ ٢ ۴۵۵ اگر کوئی شخص اس ترتيب کے مطابق جس کا ذکر کتاب طلاق ميں کيا جائے گا اپنی بيوی کو طلاق رجعی دے تو وہ عدت کے دوران اس کی بهن سے عقد نہيں کرسکتا ہے اور اسی طرح سے جب وہ متعہ کی عدت گذار رہی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ، ليکن طلاق بائن کی عدت کے دوران اس کی بهن سے عقد کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵۶ انسان اپنی بيوی کی اجازت کے بغير اس کی بهانجی یا بهتيجی سے ازدواج نہيں کرسکتا ہے ليکن اگر وہ بيوی کی اجازت کے بغير ان سے عقد کرلے اور بعد ميں بيوی اجازت دے دے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٧ اگر بيوی کو پتہ چلے کہ اس کے شوہر نے اس کی بهانجی یا بهتيجی سے عقد کرليا ہے اور کچھ نہ کهے، جب کہ اس کی خاموشی اس کی رضامندی کی دليل نہ بنے۔ پس اگر بعد ميں راضی نہ ہو تو ان کا عقد باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٨ اگر انسان اپنی خالہ زاد بهن سے عقد کرنے سے پهلے اس کی ماںسے زنا کرے تو پھر وہ اپنی خالہ زاد بهن سے عقد نہيں کرسکتا ہے اور احتياط واجب کی بنا پر پهوپهی زاد بهن کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۵ ٩ اگر کوئی شخص اپنی پهوپهی زاد بهن یا خالہ زاد بهن سے شادی کرے اور اس سے مجامعت کرنے کے بعد اس کی ماں سے زنا کرے تو یہ کام ان کی جدائی کا سبب نہيں ہوگا، ليکن اگر اس سے مجامعت کرنے سے پهلے اس کی ماں سے زنا کرلے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسے طلاق دے کر اس سے جدا ہو جائے۔

۳۹۶

مسئلہ ٢ ۴۶ ٠ اگر کوئی شخص اپنی پهوپهی یا خالہ کے علاوہ کسی اور عورت سے زنا کرے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ اس کی بيٹی سے عقد نہ کرے اور اگر کسی عورت سے عقد کرنے کے بعد اس سے مجامعت کرنے سے پهلے اس کی ماں سے زنا کرے تو احتياط واجب یہ ہے کہ اسے طلاق دے کر اس سے جدا ہو جائے۔ ہاں، اگر اس سے مجامعت کرنے کے بعد اس کی ماں سے زنا کرے تو اس عورت سے جدائی اختيار کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ١ مسلمان عورت اپنے آپ کو کافر کے عقد ميں نہيں لاسکتی ہے اور مسلمان مرد بھی اہل کتاب کے علاوہ کافرہ عورتوں سے عقد نہيں کرسکتا ہے ، ليکن اہل کتاب عورتوں مثلاً یهود و نصاریٰ سے متعہ کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ ان سے دائمی ازدواج نہ کيا جائے ۔

اور بعض فرقے مثلاً خوارج، غُلاة اور نواصب جو اگرچہ کفّار کے حکم ميں ہيں ليکن اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہيں ، مسلمان عورتيں یا مرد ان کے ساته دائمی یا غير دائمی عقد نہيں کرسکتے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٢ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو طلاق رجعی کی عدت ميں ہو تو بنا بر احتياط وہ عورت اس شخص پر حرام ہو جاتی ہے اور اگر کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو متعہ یا طلاقِ بائن یا وفات کی عدت ميں ہو تو بعد ميں اس کے ساته عقد کرسکتا ہے ۔ طلاق رجعی، طلاق بائن، عدہ متعہ اور عدہ وفات کے معنی طلاق کے احکام ميں آئيں گے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٣ اگر انسان کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو شوہر نہ رکھتی ہو اور عدت ميں بھی نہ ہو تو بعد ميں اس عورت سے عقد کرسکتا ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ ایسی عورت سے جس کا زنا کروانا آشکار ہو،جب تک کہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس نے توبہ کرلی ہے شادی نہ کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اس عورت کے خونِ حيض آ نے تک صبر کرے اور پھر اس سے شادی کرے۔ ہاں، اگر کوئی دوسرا شخص اس عورت سے شادی کرنا چاہے تو یہ احتياط مستحب ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶۴ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے عقد کرے جو دوسرے کی عدت ميں ہو تو اگر مرد اور عورت دونوں یا ان ميں سے کوئی ایک جانتا ہو کہ عورت کی عدت ختم نہيں ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہوں کہ عدت کے دوران عورت سے عقد کرنا حرام ہے تو اگر چہ مرد نے عقد کے بعد اس عورت سے مجامعت نہ بھی کی ہو، وہ عورت ہميشہ کے لئے اس پر حرام ہوجائے گی۔

مسئلہ ٢ ۴۶۵ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے عقد کرے جو دوسرے کی عدت ميں ہو اور اس سے مجامعت کرے تو خواہ اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ عورت عدت ميں ہے یا نہ جانتا ہو کہ عدت کے دوران ميں عورت سے عقد حرام ہے ، وہ عورت ہميشہ کے لئے اس پر حرام ہو جائے گی۔

۳۹۷

مسئلہ ٢ ۴۶۶ اگر کوی شخص یہ جانتے ہوئے کہ عورت شوہر دار ہے اور اس سے عقد کرنا حرام ہے اس سے شادی کرے تو ضروری ہے کہ اس سے عليحدگی اختيار کرلے اور وہ اس پر ہميشہ کے لئے حرام ہو جائے گی اور اگر اس شخص کو علم نہ ہو کہ یہ عورت شوہر دار ہے ليکن اس نے عقد کے بعد اس سے مجامعت کی ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٧ اگر شوہر دار عورت زنا کرے تو اپنے شوہر پر حرام نہيں ہوگی۔ پس اگر وہ عورت توبہ نہ کرے اور اپنے کام پر باقی رہے تو بہتر یہ ہے کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے دے ليکن ہر صورت ميں شوہر پر مہر دینا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٨ طلاق یافتہ عورت اور وہ عورت جو متعہ ميں رہی ہو اور اس کے شوہر نے متعہ کی مدت بخش دی ہو یا مدت ختم ہوگئی ہو تو اگر وہ کچھ مدت کے بعد دوسرا شوہر کرے اور بعد ميں شک کرے کہ آیادوسرے شوہر سے عقد کے وقت پهلے شوہر کی عدت ختم ہوئی تھی یا ختم نہيں ہوئی تھی تو اگر اس حالت ميں احتمال ہو کہ عقد کے وقت وہ عدت سے غافل نہيں تھی تو یہ دوسرا عقد صحيح ہے ورنہ اس کا صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴۶ ٩ جس شخص نے کسی لڑکے کے ساته لواط کيا ہو اگر وہ لواط کرنے والا بالغ ہو تو اس لڑکے کی ماں، بهن اور بيٹی لواط کرنے والے پر حرام ہيں ۔ اسی طرح احتياط کی بنا پر اس لڑکے کی نانی اور نواسی بھی حرام ہوجاتی ہے ۔ جب کہ اگر لواط کروانے والا بالغ ہو یا لواط کرنے والا بالغ نہ ہو اور عقد ہو جائے تو احتياط واجب یہ ہے کہ عورت مرد سے طلاق کے ذریعے عليحدگی اختيار کرے۔

یهی حکم نانی یا نواسی سے کئے جانے والے عقد کے لئے ہے ۔ ہاں، اگر انسان گمان یا شک کرے کہ دخول ہوا ہے یا نہيں تو وہ عورتيں حرام نہيں ہوں گی ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٠ اگر کوئی شخص کسی لڑکے کی ماں یا بهن سے شادی کرے اور شادی کے بعد اس لڑکے سے لواط کرے تو وہ عورتيں اس پر حرام نہيں ہوں گی اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اپنی زوجہ سے طلاق کے ذریعے عليحدگی اختيار کرلے مخصوصاً جب اس کی زوجہ اس لڑکے کی بهن ہو اور اگر اغلام کرنے والا اپنی بيوی کو طلاق دے دے تو احتياط واجب یہ ہے کہ دوبارہ اس سے ازدواج نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧١ ساگر کوئی شخص احرام کی حالت ميں کسی عورت سے عقد کرے تو اس کا عقد باطل ہے اور اگر جانتا تھا کہ احرام کی حالت ميں شادی کرنا حرام ہے تو وہ عورت اس پر ہميشہ کے لئے حرام ہو جائے گی۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٢ جو عورت احرام کی حالت ميں ہو اگر وہ کسی ایسے مرد سے عقد کرے جو احرام کی حالت ميں نہ ہو تو اس کا عقد باطل ہے اور اگر عورت پهلے سے جانتی تھی کہ احرام کی حالت ميں عقد کرنا حرام ہے تو احتياط کی بنا پر وہ مرد ہميشہ کے لئے اس پر حرام ہو جائے گا۔

۳۹۸

مسئلہ ٢ ۴ ٧٣ اگر مرد طواف النساء کو جو حج اور عمرہ مفردہ کے اعمال ميں سے ایک عمل ہے بجا نہ لائے تو اس کی بيوی اوردوسری عورتيں جو احرام کے سبب اس پر حرام ہوئيں تہيں اس کے لئے حلال نہيں ہوں گی۔ اسی طرح اگر عورت طواف النساء نہ کرے تو مرد اس کے لئے حلال نہيں ہوگا، ليکن اگر یہ لوگ بعد ميں طواف النساء انجام دے دیں تو حلال ہو جائيں گے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧ ۴ جس نابالغ لڑکی سے عقد کيا گيا ہو اس کے بالغ ہونے تک اس سے مجامعت کرنا حرام ہے ، ليکن اگر کوئی شخص لڑکی کے نو سال مکمل ہونے سے پهلے اس سے مجامعت کرے تو لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اس سے مجامعت حرام نہيں ہے خواہ وہ افضاء ہوچکی ہو۔ (افضا کے معنی مسئلہ نمبر ٢ ۴۴۴ ميں بتائے جاچکے ہيں )

مسئلہ ٢ ۴ ٧ ۵ وہ آزاد عورت جسے اس کے شوہر نے تين مرتبہ طلاق دے دی ہو، اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے ليکن اگر ان شرائط کے ساته کسی دوسرے مرد سے شادی کرے جو طلاق کے احکام ميں آئيں گے تو پھر دوسرے شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد اور اس کی عدت گزر جانے کے بعد پهلا شوہر دوبارہ اس سے عقد کرسکتا ہے ۔

دائمی عقد کے احکام

مسئلہ ٢ ۴ ٧ ۶ جس عورت کا دائمی عقد ہو جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغير گھر سے باہر نہ نکلے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کی ہر جائز لذت کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے خود کوشوہر کے سامنے پيش کردے اور بغير کسی شرعی عذر کے شوہر کو مجامعت سے نہ روکے اور اگر وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو بجالائے تو اس کی غذا، لباس، رہا ئش اور اس کے علاوہ ہر وہ چيز جس کی اسے ضرورت ہے اس کا متعارف مقدار ميں مهيا کرنا شوہر پر واجب ہے اور اگر شوہر ان چيزوں کو فراہم نہ کرے تو چاہے ان چيزوں کو مهيا کرنے کی قدرت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو وہ بيوی کامقروض ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٧ اگر عورت ان کاموں ميں جن کا ذکر سابقہ مسئلے ميں ہوا ہے اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے تو وہ گنهگار ہے اور وہ غذا، لباس،رہا ئش، دیگر ضروریات اور ہم بستر ہونے کا حق نہيں رکھتی، ليکن اس کا مہر ضایع نہيں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٨ مرد کو یہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ بيوی کو گھر کے کام انجام دینے پر مجبور کرے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧٩ بيوی کے سفر کے اخراجات اگر وطن ميں رہنے کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو ان کا دینا شوہر پر واجب نہيں ہے مگر ایسا سفر ہو جس کے اخراجات عرف ميں اُس کا نفقہ شمار ہوتے ہوں مثلاً یہ کہ وہ بيمار ہو اور علاج کے لئے سفر کرنا ضروری ہو کہ اس صورت ميں سفر کے اخراجات متعارف مقدار ميں شوہر پر واجب ہوں گے۔ اسی طرح اگر شوہر بيوی کو سفر پر لے جانا چاہتا ہو تب بھی یهی حکم ہے ۔

۳۹۹

مسئلہ ٢ ۴ ٨٠ جس عورت کے اخراجات اس کے شوہر کے ذمے ہوں اور شوہر اسے خرچہ نہ دے تو مطالبہ کرنے اور شوہر کے منع کرنے کے بعد وہ اپنا خرچہ اس کی اجازت کے بغير اس کے مال سے لے سکتی ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس سلسلے ميں حاکم شرع سے اجازت لے لے اور اگر اس کے لئے شوہر کے مال سے ليناممکن نہ ہو اور امور حسبيّہ کے متولی کے ذریعے شوہر کو مجبور کرنا بھی ممکن نہ ہو، تو اگراپنی معاش کا بندوبست خود کرنے پر مجبور ہو تو جس وقت وہ اپنی معاش کا بندوبست کرنے ميں مشغول ہو اس وقت ميں شوہر کی اطاعت اس پر واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨١ احتياط واجب کی بنا پر مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر چار راتوں ميں سے ایک رات اپنی دائمی منکوحہ بيوی کے پاس رہے اور اگر دو بيویاں رکھتا ہو اور ایک کے پاس ایک رات گذاری ہے تو اس پر واجب ہے کہ چار راتوں ميں سے کوئی ایک رات دوسری کے پاس بھی گذارے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٢ مرد کے لئے جائز نہيں ہے کہ وہ اپنی دائمی جوان بيوی سے چار ماہ سے زیادہ مدت تک مجامعت نہ کرے اور احتياط واجب کی بنا پر اگر بيوی جوان نہ ہو تب بھی یهی حکم ہے مگر یہ کہ بيوی راضی ہو یا یہ کہ مرد کے لئے مجامعت ضرر یا حرج کا باعث ہو جب کہ یہ ضرر و حرج عورت کے لئے پيش آنے والے ضرر یا حرج سے ٹکرا نہ رہا ہو یا یہ کہ عورت اس کی نافرمان ہو یا یہ کہ عقد کے وقت عورت کے ساته شرط کی گئی ہو کہ مجامعت کا اختيار مرد کے پاس ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٣ اگر دائمی عقد ميں مہر معين نہ کيا جائے تو عقد صحيح ہے اور اگر مرد عورت کے ساته مجامعت کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مہر اسی جيسی عورتوں کے مہر کے مطابق دے دے، البتہ اگر متعہ ميں مہر معين نہ کيا جائے تو عقد باطل ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ۴ اگر دائمی عقد پڑھتے وقت مہر دینے کی مدت معين نہ کی جائے تو عورت مہر لينے سے پهلے شوہر کو مجامعت کرنے سے روک سکتی ہے قطع نظر اس کے کہ مرد مہر دینے پر قادر ہو یا نہ ہو ليکن اگر وہ مہر لينے سے پهلے مجامعت پر راضی ہو جائے اور شوہر اس سے مجامعت کرے تو بعد ميں وہ بغير شرعی عذر کے شوہر کو مجامعت کرنے سے نہيں روک سکتی ہے ۔

متعہ (ازدواج موقت)

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ۵ عورت کے ساته متعہ کرنا اگرچہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ بھی ہو تب بھی صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ۶ احتياط واجب یہ ہے کہ مرد نے جس عورت سے متعہ کيا ہو اس کے ساته چار مهينے سے زیادہ مجامعت ترک نہ کرے مگر یہ کہ وہ راضی ہو جائے۔

۴۰۰