توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) 0%

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 511

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف: آية الله العظمیٰ حاج شيخ حسين وحيد خراسانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 511
مشاہدے: 196883
ڈاؤنلوڈ: 3915

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 511 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196883 / ڈاؤنلوڈ: 3915
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

توضیح المسائل(آقائے وحيد خراسانی)

مؤلف:
اردو

مسئلہ ٢ ۴ ٨٧ جس عورت کے ساته متعہ کيا جا رہا ہو اگر وہ عقد ميں یہ شرط عائد کرے کہ شوہر اس سے مجامعت نہ کرے تو عقد اور اس کی عائد کردہ شرط صحيح ہے اور شوہر اس سے فقط دوسری لذتيں حاصل کرسکتا ہے ، ليکن اگر وہ بعد ميں راضی ہو جائے تو شوہر اس سے مجامعت کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٨ جس عورت کے ساته متعہ کيا گيا ہو خواہ وہ حاملہ بھی ہو جائے تب بھی خرچہ لينے کا حق نہيں رکھتی ہے مگر یہ کہ اس نے عقد متعہ یا کسی دوسرے لازم عقد ميں اس بات کی شرط رکھ دی ہو، اسی طرح اس وقت خرچ لينے کا حق رکھتی ہے جب کسی عقد جائز ميں شرط رکھی ہو بشرطيکہ وہ عقد جائز باقی رہے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨٩ جس عورت کے ساته متعہ کيا گيا ہو وہ ہم بستری کا حق نہيں رکھتی ہے اور شوہر سے ميراث بھی نہيں پاتی ہے اور شوہر بھی اس سے ميراث نہيں پاتا ہے مگر یہ کہ ميراث پانے کی شرط عائد کی ہو تو اس صورت ميں جس نے ایسی شرط عائد کی ہو وہ ميراث پاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٠ جس عورت سے متعہ کيا گيا ہو اگرچہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خرچ اور ہم بستری کا حق نہيں رکھتی اس کا عقد صحيح ہے اور اس وجہ سے کہ وہ ان امور سے ناواقف تھی اس کا شوہر پر کوئی حق پيدا نہيں ہوتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩١ جس عورت سے متعہ کيا گيا ہو وہ شوہر کی اجازت کے بغير گھر سے باہر نکل سکتی ہے ليکن اگر اس کے باہر نکلنے سے شوہر کا حق ضایع ہو رہا ہو تو اس کا باہر نکلنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٢ اگر کوئی عورت کسی مرد کو وکيل بنائے کہ معين مدت اور معين رقم کے عوض اس کا خود اپنے ساته متعہ پڑھے اور وہ مرد اس کا دائمی عقد اپنے ساته پڑھ لے یا معينہ مدت یا مقررہ مہر کے علاوہ پر عقد متعہ پڑھ دے تو پتہ چلنے پر اگر عورت اس کی اجازت دے دے تو عقد صحيح ہے ورنہ باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٣ اگر باپ یا دادا محرم بن جانے کی غرض سے کسی لڑکی کا عقد تهوڑی مدت کے لئے مثلاً ایک گهنٹے کے لئے اپنے ایسے بيٹے سے کر دیں جو لذت حاصل کرنے کی صلاحيت رکھتا ہو تو یہ عقد صحيح ہے اور باپ یا دادا اس بيٹے کے فائدہ و مصلحت کا خيال رکھتے ہوئے عقد کی مدت عورت کو بخش سکتے ہيں ۔ اسی طرح باپ یا دادا محرم بن جانے کی غرض سے کسی شخص کا عقد اپنی ایسی نابالغ بيٹی سے کرسکتے ہيں جس سے لذت اٹھ ائی جاسکتی ہو اور دونوں صورتوں ميں ضروری ہے کہ عقد کی وجہ سے نابالغ بچے کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پهنچے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ۴ اگر باپ یا دادا اپنی لڑکی کا عقد محرم بن جانے کی خاطر کسی سے کر دیں جب کہ وہ لڑکی دوسری جگہ پر ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرگئی ہے تو اگر وہ لڑکی عقد کی مدت ميں اس قابل ہو کہ اس سے لذت اٹھ ائی جاسکے تو ظاہراً محرم بننا حاصل ہو

۴۰۱

جائے گا۔ ہاں، اگر بعد ميں پتہ چلے کہ وہ لڑکی زندہ نہيں تھی تو عقد باطل ہے اور وہ لوگ جو عقد کی وجہ سے بظاہر محرم بن گئے تهے نامحرم ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ۵ اگر مرد غير دائمی ازدواج کی مدت عورت کو بخش دے تو اگر اس نے اس کے ساته مجامعت کی ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام چيزیں جن کا عهد کيا تھا اسے دے دے اور اگر اس نے اس کے ساته مجامعت نہ کی ہو تو ضروری ہے کہ ان چيزوں کی آدهی مقدار اسے دے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ تمام چيزیں دے دے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ۶ مرد کے لئے جائز ہے کہ جس عورت کے ساته اس نے پهلے متعہ کيا ہو اور عقد کی مدت تمام ہوگئی ہو یا اس نے مدت بخش دی ہو ليکن عدت کی مدت ابهی پوری نہ ہوئی ہو، اس سے دائمی عقد کرلے یا دوبارہ متعہ کرلے۔

نگاہ کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۴ ٩٧ مرد کے لئے نامحرم عورت کے بدن اور اس کے بال کو دیکھنا حرام ہے خواہ ایسا کرنا لذت کے قصد سے ہو یا نہ ہو اور خواہ ایسا کرنا حرام ميں پڑنے کے خوف کے ساته ہو یا نہ ہو اور مرد کے لئے اس کے چھرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جب کہ ایسا کرنا لذت کے ساته ہو یا حرام ميں پڑنے کے خوف کے ساته ہو، حرام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ قصدِ لذت اور حرام ميں پڑنے کے خوف کے بغير بھی اس کے چھرے اور کلائيوں تک ہاتھوں کو نہ دیکھے ۔ اسی طرح عورت کا نامحرم مرد کے بدن کو دیکھنا بھی حرام ہے سوائے ان مقامات کے کہ شریعت کے پيروکار اور دیندار اشخاص کی روش یہ ہو کہ وہ انہيں نہ چھپا تے ہوں جيسے سر، چہرہ ، گردن، ہاتھ اور پنڈليوں تک پاؤں، کہ ان مقامات کا دیکھنا عورت کے لئے قصدِ لذت اور حرام ميں پڑنے کے خوف کے بغير جائز ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٨ وہ عورتيں کہ جنہيں اگر نامحرم سے اپنے بدن کو نہ چھپا نے پر روکا جائے تو اُن پر کچھ اثر نہ ہو چاہے کافر ہوں یا مسلمان ان کے بدن کے ایسے حصّوں کو دیکھنا جنہيں عام طور پر چھپا نے کی عادت نہ رکھتی ہوں جب کہ یہ دیکھنا قصدِ لذت اور حرام ميں پڑنے کے خوف کے ساته نہ ہو تو جائز ہے ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٩٩ عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بال اور بدن کو نامحرم مرد سے چھپا ئے اور اس صورت ميں جب کہ عورت اپنے آپ کو دکھانا چاہتی ہو اور مرد بھی لذت کے ساته دیکھ رہا ہو اس پر چھرے اور ہاتھوں کو کلائيوں تک بھی چھپا نا واجب ہے اور اسی طرح اس صورت ميں بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے جب عورت تو دکهاوے کا قصد نہ رکھتی ہو مگر مرد لذت کے قصد سے دیکھ رہا ہو۔اور سر اور بالوں کو نابالغ لڑکے سے چھپا نا واجب نہيں ہے مگر اس صورت ميں جب کہ اس نابالغ لڑکے کی شهوت کے ابهرنے کا باعث بن رہا ہو احتياط واجب یہ ہے کہ اس سے بھی سر اور بالوں کو چھپا ئے۔

۴۰۲

مسئلہ ٢ ۵ ٠٠ کسی شخص کی شرمگاہ دیکھنا حتی مميّز بچہ جو برے بهلے کی تميز رکھتا ہو اس کی شرمگاہ دیکھنا بھی حرام ہے ، اگرچہ ایسا کرنا شيشے کے پيچهے سے یا آئينے ميں یا صاف پانی وغيرہ ميں ہی کيوں نہ ہو اور مياں اور بيوی ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠١ جو مرد اور عورت آپس ميں محرم ہوں وہ قصدِ لذت کے بغير شرمگاہ کے علاوہ ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠٢ ایک مرد کا دوسرے مرد کے بدن کو اور ایک عورت کا دوسری عورت کے بدن کو قصدِ لذت سے دیکھنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠٣ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنا جب کہ انسان اسے جانتا ہو اور وہ ان خواتين ميں سے ہو جنہيں اگر نامحرم کے سامنے دکهاوا کرنے سے روکا جائے تو قبول کرلے، بنابر احتياط جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ ۴ اگر ایک عورت کسی دوسری عورت یا اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی شرمگاہ کو دهونا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہاتھ پر کوئی چيز لپيٹ لے تا کہ اس کا ہاتھ دوسری عورت یا مرد کی شرمگاہ تک نہ پهنچے اور اگر کوئی مرد کسی دوسرے مرد یا اپنی بيوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کی شرمگاہ کو دهونا چاہے تو اس کے لئے بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ ۵ اگر عورت کسی نامحرم مرد سے علاج کروانے پر مجبور ہو اور مرد بھی علاج کرنے ميں مجبور ہو کہ اسے دیکھے اور اس کے بدن کو ہاتھ لگائے تو یہ جائز ہے ليکن اگر دیکھ کر علاج کرسکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہاتھ نہ لگائے اور اگر ہاتھ لگاکر علاج کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے نہ دیکھے اور ہر صورت ميں اگر دستانے پهن کر علاج کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ ہاتھ سے علاج نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ ۶ اگر انسان کسی سے علاج کروانے پر مجبور ہو جائے اور وہ شخص بھی علاج کرنے کے لئے اس کی شرمگاہ دیکھنے کے علاوہ کو ئی چارہ کار نہ رکھتا ہو تو بنا بر احتياط واجب اسے چاہئے کہ آئينہ ميں دیکھ کر اس کا علاج کرے، ليکن اگر شرمگاہ کو دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو یا آئينہ ميں دیکھ کر علاج کرنا مشقت کا باعث بن رہا ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

شادی کے مختلف مسائل

مسئلہ ٢ ۵ ٠٧ جو شخص بيوی کے نہ ہونے کی وجہ سے فعلِ حرام ميں مبتلا ہو جائے اس پر شادی کرنا واجب ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠٨ اگر شوہر عقد ميں یہ شرط عائد کرے کہ عورت کنواری ہو اور عقد کے بعد معلوم ہو جائے یا خود عورت اقرار کرلے یا دوعادل مردوں کی گواہی سے ثابت ہو جائے کہ عقد سے پهلے ہی کسی سے مجامعت کے سبب اس کی بکارت زائل ہوچکی تھی تو اگرچہ مرد کے لئے خيارِ فسخ کے ثابت ہونے کا احتمال موجود ہے ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ اگر عقد کو فسخ کرے تو طلاق بھی دے اور مرد کنواری اور غير کنواری عورت کے مہر کے مابين فرق کی نسبت کو دیکھتے ہوئے مقررہ مہر ميں سے اسی نسبت کے مطابق لے سکتا ہے خواہ وہ عقد فسخ کردے یا اس پر باقی رہے۔

۴۰۳

مسئلہ ٢ ۵ ٠٩ نامحرم مرد اور عورت کا کسی ایسے خلوت کے مقام پر رہنا کہ جهاں کوئی دوسرا یهاں تک کہ مميّز بچہ بھی نہ ہو، حرام کے ارتکاب کے احتمال کی صورت ميں جائز نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٠ اگر کوئی مرد عورت کا مہر عقد ميں معين کر دے اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ مہر نہيں دے گا اور عورت کا عقد پر راضی ہونا اس کے مہر دینے کے ارادے پر موقوف نہ ہو تو عقد صحيح ہے ليکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہر دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١١ وہ مسلمان جو دین اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوجائے مرتد کهلاتا ہے ۔ (کفر کے معنیٰ مسئلہ نمبر ١٠٧ ميں گذرچکے ہيں )

اور مرتد کی دو قسميں ہيں :

١) فطری ٢) ملی مرتد فطری اسے کہتے ہيں جو ایسے ماں باپ سے پيدا ہوا ہو جو دونوں یا ان ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو اور پھر یہ شخص بالغ اور عقل کے کامل ہونے کے بعد اپنے اختيار سے دین اسلام کو ترک کردے۔

اور مرتد ملّی اسے کہتے ہيں جو کافر ماں باپ سے پيدا ہوا ہو اور پھر مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ اسلام کو ترک کر دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٢ اگر عورت شادی کے بعد مرتد ہو جائے پس اگر اس کے شوہر نے اس کے ساته جماع نہ کيا ہو تو اس کا عقد باطل ہو جاتا ہے اور کوئی عدت بھی نہيں ہے اور اگر جماع کيا ہو ليکن نو سال پورے نہ ہوئے ہوں یا یہ کہ یائسہ ہو تو بھی یهی حکم ہے ۔ ہاں، اگر نو سال پورے ہوگئے ہوں اور یائسہ بھی نہ ہو (جس کے معنی مسئلہ نمبر ۴۴ ١ ميں گذر چکے ہيں ) تو ضروری ہے کہ اسی طریقے کے مطابق عدت گذارے جو طلاق کے احکام ميں بيان کيا جائے گا اور اگر عدت کے آخر تک مرتد رہے تو عقد باطل ہے اور اگر عدت کے دوران مسلمان ہو جائے تو عقد کے باقی رہنے ميں اشکال ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر مرد اس کے ساته رہنا چاہے تو دوبارہ عقد کرے اور اگر اس سے عليحدگی اختيار کرنا چاہے تو اسے طلاق دے دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٣ وہ مرد جس کے ماں باپ ميں سے کوئی ایک مسلمان ہو اگر وہ مرتد ہو جائے تو اس کی بيوی اس پر حرام ہو جاتی ہے اور ضروری ہے کہ وفات کی عدت کے برابر عدت رکھے جس کا بيان طلاق کے احکام ميں ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ ۴ وہ مرد جو غير مسلم والدین سے پيدا ہو ليکن بعد ميں مسلمان ہو گيا ہو اور شادی کے بعد مرتد ہوجائے تو اگر اس نے اپنی بيوی سے جماع نہ کيا ہو یا اس کی بيوی کے نو سال مکمل نہ ہوئے ہوں یا اس کی بيوی یائسہ ہو تو عقد باطل ہو جائے گا اور اُسے عدت رکھنے کی ضرورت نہيں اور اگر جماع کرنے کے بعد مرتد ہو جائے اور اس کی بيوی کے نو سال پورے ہوگئے ہوں اور وہ یائسہ بھی نہ ہو تو اس عورت کے لئے ضروری ہے کہ طلاق کی عدت کے برابر کہ جس کا ذکر احکام طلاق ميں آئے گا عدت رکھے اور اگر عدت تمام ہونے تک مسلمان نہ ہو تو عقد باطل ہے اور اگر عدت تمام ہونے سے پهلے مسلمان ہو جائے تو عقد کا باقی رہنا محل اشکال ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اگر بيوی کے ساته رہنا چاہتا ہو تو دوبارہ عقد کرے اور اگر عليحدگی اختيار کرنا چاہے تو طلاق دے دے۔

۴۰۴

مسئلہ ٢ ۵ ١ ۵ اگر عورت عقد ميں مرد کے ساته یہ شرط رکھے کہ وہ اسے شہر سے باہر نہيں لے جائے گا اور مرد بھی اس شرط کو قبول کرلے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے رضامندی کے بغير شہر سے باہر نہ لے جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ ۶ اگر عورت کی پهلے شوہر سے ایک بيٹی ہو تو دوسرا شوہر اس لڑکی کا عقد اپنے اس بيٹے سے کرسکتا ہے جو اس بيوی سے نہ ہو اور اگر مرد کسی لڑکی کا عقد اپنے بيٹے سے کرے تو اس لڑکی کی ماں سے خود شادی کرسکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٧ اگر کوئی عورت زنا کے سبب حاملہ ہو جائے تو اس صورت ميں جب کہ وہ عورت یا وہ مرد جس نے اس سے زنا کيا ہو یا وہ دونوں مسلمان ہوں اس عورت کے لئے بچہ گرانا جائز نہيں ہے اور اگر مسلمان نہ ہوں تو بھی احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٨ اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو نہ شوہر دار ہو اور نہ ہی کسی کی عدت ميں ہو، زنا کرے تو اگر اس طریقے کے مطابق استبرا کرنے کے بعد جس کا ذکر مسئلہ ٢ ۴۶ ٣ ميں ہوا ہے اس عورت سے عقد کرے اور پھر ان سے کوئی بچہ پيدا ہو تو اگر نہ جانتے ہوں کہ بچہ حلال نطفے سے ہے یا حرام نطفے سے تو وہ بچہ بغير اشکال کے حلال زادہ ہے ليکن اگر استبرا کرنے سے پهلے عقد کيا ہو اور پھر جماع کيا ہو تو اس ميں اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١٩ اگر مرد کو معلوم نہ ہو کہ عورت عدت ميں ہے اور وہ اس سے شادی کرلے تو اگر عورت کو بھی اس بارے ميں علم نہ ہو اور ان کا بچہ پيدا ہو تو وہ حلال زادہ ہے اور شرعاً ان دونوں کا فرزند ہوگا، ليکن اگر عورت جانتی ہو کہ وہ عدت ميں ہے تو شرعاً بچہ باپ کا فرزند ہوگا اور جو شخص عدت ميں ہونے کا یقين رکھتا ہو اور اس کے پورا ہونے کے بارے ميں مشکوک ہو وہ اسی شخص کے حکم ہے جو جانتا ہے کہ وہ عدت ميں ہے اور ہر صورت ميں ان کا عقد باطل ہے اور وہ ایک دوسرے پر حرام ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٠ اگر کوئی عورت کهے کہ ميں یائسہ ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا کهنا قبول نہ کيا جائے ليکن اگر کهے کہ ميں شوهردار نہيں ہوں تو اس کی بات قبول کی جائے گی۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢١ اگر عورت کهے کہ ميں شوهردار نہيں ہوں اور کوئی شخص اس سے شادی کرلے اور پھر بعد ميں کوئی کهے کہ اس عورت کا شوہر موجود ہے پس اگر شرعاً اس کی بات ثابت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی بات کو قبول نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٢ جب تک لڑکا یا لڑکی دو سال کے نہ ہو جائيں ان کا باپ انہيں ان کی ماں سے جدا نہيں کرسکتا ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ لڑکی کو سات سال تک اس کی ماں سے جدا نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٣ اگر شادی کی درخواست کرنے والا لڑکا دینداری اور اخلاق ميں اچھا ہو تو مستحب ہے کہ بالغ لڑکی کی شادی کرنے ميں جلدی کی جائے ۔

۴۰۵

مسئلہ ٢ ۵ ٢ ۴ اگر بيوی شوہر کے ساته اس شرط پر اپنے مہر کی مصالحت کرے کہ وہ دوسری شادی نہيں کرے گا تو بيوی بعد ميں مہر نہيں لے سکتی ہے اور شوہر پر بھی واجب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ ۵ جو شخص ولدالزنا ہو اگر وہ کسی عورت سے شادی کرلے اور اس کا بچہ پيدا ہو تو وہ حلال زادہ ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ ۶ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان المبارک کے روزوں ميں یا حيض کی حالت ميں اپنی بيوی سے مجامعت کرے تو وہ گنهگار ہے ليکن اگر اس مجامعت کے نتيجے ميں ان کا کوئی بچہ پيدا ہو تو وہ حلال زادہ ہوگا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٧ جس عورت کو یقين ہو کہ اس کا شوہر مثلاً سفر ميں مرگيا ہے اگر وہ وفات کی عدت، جس کی مقدار احکامِ طلاق ميں بتائی جائے گی، کے بعد شادی کرے و بعد ازاں اس کا پهلا شوہر سفر سے واپس آجائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے شوہر سے جدا ہو جائے اور وہ پهلے شوہر پر حلال ہوگی ليکن اگر دوسرے شوہر نے اس سے مجامعت کی ہو تو عورت پر عدت گذارنا ضروری ہے اور دوسرے شوہر پر ضروری ہے کہ اس جيسی عورتوں کے مہر کے مطابق اسے مہر ادا کرے ليکن عدت کے زمانے کا خرچہ دوسرے شوہر کے ذمے نہيں ہے ۔

رضاعت (دودھ پلانے) کے احکام

مسئلہ ٢ ۵ ٢٨ اگر کوئی عورت ایک بچے کو ان شرائط کے ساته دودھ پلائے جو مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ ميں ذکر کی جائيں گی تو وہ بچہ مندرجہ ذیل لوگوں کا محرم بن جاتا ہے :

١) خود وہ عورت اور اسے رضاعی ماں کہتے ہيں ۔

٢) عورت کا شوہر جس کی بدولت دودھ ہے اور اسے رضاعی باپ کہتے ہيں ۔

٣) اس عورت کے ماں باپ چاہے یہ سلسلہ کتنا ہی اُوپر چلا جائے اور خواہ وہ اس عورت کے رضاعی ماں باپ ہی کيوں نہ ہوں۔

۴) اس عورت کے وہ بچے جو پيدا ہوچکے ہيں یا بعد ميں پيدا ہوں۔

۵) اس عورت کے بچوں کی اولاد خواہ یہ سلسلہ کتنا ہی نيچے چلا جائے اور خواہ وہ اولاد اس کے بچوں سے وجود ميں آئی ہو یا انہوں نے دودھ پلایا ہو۔

۶) اس عورت کی بهنيں اور بهائی خواہ وہ رضاعی ہی ہوں یعنی دودھ پينے کی وجہ سے اس عورت کے بهن بهائی بن گئے ہوں۔

٧) اس عورت کا چچا اور پهوپهی خواہ وہ رضاعی ہی کيوں نہ ہوں۔

٨) اس عورت کا ماموں اور اس کی خالہ خواہ وہ رضاعی ہی کيوں نہ ہوں۔

۴۰۶

٩) اس عورت کے اس شوہر کی اولاد جس کی بدولت دودھ ہے جهاں تک بھی یہ سلسلہ نيچے چلا جائے اور اگر چہ اس کی اولاد رضاعی ہی کيوں نہ ہو۔

١٠ ) اس عورت کے اس شوہر کے ماں باپ جس کی بدولت دودھ ہے جهاں تک بھی یہ سلسلہ اُوپر چلا جائے اور اگر چہ وہ ماں باپ رضاعی ہوں۔

١١ ) اس عورت کے اس شوہر کے بهن بهائی جس کی بدولت دودھ ہے گرچہ اس کے رضاعی بهن بهائی ہی کيوں نہ ہوں۔

١٢ ) اس عورت کے اس شوہر کے چچا، پهوپهی، ماموں اور خالہ جس کی بدولت دودھ ہے جهاں تک بھی یہ سلسلہ اُوپر چلا جائے خواہ وہ رضاعی ہی ہوں۔

اور ان کے علاوہ کئی اور لوگ بھی دودھ پلانے کی وجہ سے محرم بن جاتے ہيں جن کا ذکر آئندہ مسائل ميں کيا جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢٩ اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساته دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ ميں کيا جائے گا تو اس بچے کا باپ اس عورت کی نسبی لڑکيوں سے شادی نہيں کرسکتا ہے ۔ ہاں، اس کا اس عورت کی رضاعی لڑکيوں سے شادی کرنا جائز ہے گرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اُن سے بھی شادی نہ کرے اور وہ ان لڑکيوں سے بھی شادی نہيں کرسکتا ہے جو اس عورت کے اس شوہر کی بيٹياں ہيں کہ اس عورت کا دودھ جس کی بدولت ہے ، خواہ وہ بيٹياں نسبی ہوں یا رضاعی اور ان دونوں صورتوں ميں اگر اس وقت (یعنی اس عورت کے بچے کو دودھ پلانے کے وقت) ان ميں سے کوئی عورت اس کی بيوی ہو تو اس کا عقد باطل ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٠ اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساته دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ ميں کيا جائے گا تو اس عورت کا وہ شوہر کہ دودھ جس کی بدولت ہے وہ اس بچے کی بهنوں کا محرم نہيں بنتا ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ وہ ان سے شادی نہ کرے۔ نيز شوہر کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بهائی بهنوں کے محرم نہيں بن جاتے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣١ اگر کوئی عورت ایک بچے کو دودھ پلائے تو وہ اس کے بهائيوں کی محرم نہيں بن جاتی ہے اور اس عورت کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بهائی بهنوں کے محرم نہيں بنتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٢ اگر کوئی شخص اس عورت سے جس نے کسی لڑکی کو پورا دودھ پلایا ہو، شادی کرے اور اس سے جماع کرلے تو پھر وہ اس لڑکی سے عقد نہيں کرسکتاہے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٣ اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے شادی کرلے تو پھر وہ اس عورت سے شادی نہيں کرسکتا ہے جس نے اس لڑکی کو پورا دودھ پلایا ہو۔

۴۰۷

مسئلہ ٢ ۵ ٣ ۴ انسان کسی ایسی لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا جسے اس کی ماں یا دادی نے پورا دودھ پلایا ہو۔ نيز اگر کسی شخص کی سوتيلی ماں نے اس شخص کے باپ کی بدولت موجود دودھ کسی لڑکی کو پلایا ہو تو یہ شخص اس لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی شير خوار بچی سے عقد کرے اور اس کے بعد اس کی ماں یا دادی اس شيرخوار بچی کو دودھ پلا دے یا اس کی سوتيلی ماں اس کے باپ کی بدولت موجود دودھ اس بچی کو پلا دے تو عقد باطل ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ ۵ کوئی شخص اس لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا جسے اس شخص کی بهن یا بهابهی نے جب کہ دودھ بهائی کی بدولت ہو ، پورا دودھ پلایا ہو۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب اس شخص کی بهانجی، بهتيجی یا بهن یا بهائی کی نواسی یا پوتی نے اس لڑکی کو دودھ پلایا ہو۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ ۶ اگر کوئی عورت اپنی بيٹی کے بچے یعنی اپنے نواسے یا نواسی کو پورا دودھ پلائے تو اس عورت کی بيٹی اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی اور اگر وہ عورت اُس بچے کو دودھ پلائے جو اس کی بيٹی کے شوہر کی دوسری بيوی سے پيدا ہوا ہو تب بھی یهی حکم ہے ، ليکن اگر کوئی عورت اپنے بيٹے کے بچے یعنی پوتے یا پوتی کو دودھ پلائے تو اس کی بهو جو کہ دودھ پيتے بچے کی ماں ہے ، اپنے شوہر پر حرام نہيں ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٧ اگر کسی لڑکی کی سوتيلی ماں اُس لڑکی کے شوہر کے بچے کو اس لڑکی کے باپ

کی بدولت موجود دودھ پلائے تو وہ لڑکی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے خواہ وہ بچہ اسی لڑکی کے بطن سے ہو یا کسی دوسری عورت کے بطن سے ہو۔

دودھ پلانے کے ذريعے محرم بننے کی شرائط

مسئلہ ٢ ۵ ٣٨ محرم بننے کے لئے دودھ پلانے کی آٹھ شرائط ہيں :

١) بچہ زندہ عورت کا دودھ پئے۔لہٰذا اگر بچہ مردہ عورت کے سينے سے دودھ پئے تو اس کا کوئی فائدہ نہيں ۔

٢) عورت کا دودھ ولادت کی وجہ سے ہو اور حرام کا نہ ہو۔لہٰذا اگر زنا کی وجہ سے عورت کی چھاتی ميں دودھ آجائے اور کسی بچے کو پلائے تو اس سے وہ بچہ کسی کا محرم نہيں بن سکتا۔

٣) بچہ چھاتی سے ہی دودھ پئے، لہٰذا گر دودھ صرف اس کے گلے ميں انڈیل دیا جائے تو کوئی فائدہ نہيں ۔

۴) خالص ددوه پئے جو کسی اور چيز سے ملا ہوا نہ ہو۔

۵) دودھ ایک ہی شوہر کا ہو۔لہٰذا اگر دودھ پلانے والی عورت کو طلاق دے دی جائے، پھر وہ دوسری شادی کرلے اور اس سے حاملہ ہوجائے اور زچگی سے پهلے تک پهلے شوہر والا دودھ باقی ہو اور مثلاً آٹھ مرتبہ زچگی سے پهلے، پهلے شوہر والا دودھ اور سات مرتبہ زچگی کے بعد دوسرے شوہر والا دودھ کسی بچے کو پلائے تو یہ بچہ کسی کا محرم نہيں بنے گا۔

۴۰۸

۶) بچہ دودھ کی قے نہ کردے اور اگر قے کردے تو احتياط واجب کی بنا پر وہ افراد جو دودھ

پلانے کی وجہ سے اس کے محرم بنيں گے اس سے شادی نہ کریں اور نہ ہی اس پرمحرمانہ نظر ڈاليں۔

٧) پندرہ بار یا ایک شب و روز سير ہو کر اس طرح دودھ پئے کہ جس کا ذکر اگلے مسئلے ميں آئے گا یا اتنا دودھ اسے پلائے کہ کها جائے کہ اس دودھ سے اس کی ہڈیاں مضبوط ہوئی ہيں اور اس کے بدن پر گوشت چڑھا ہے ۔ اگر دس بار اس کو دودھ پلائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ دودھ پينے کی وجہ سے جو اس کے محرم بنتے ہيں ، وہ اس سے شادی نہ کریں، اور محرمانہ نظر بھی اس پرنہ ڈاليں۔

٨) بچہ دو سال کا نہ ہو چکا ہو۔ لہٰذا اگر دو سالہ ہو جانے کے بعد کسی عورت کا دودھ پئے تو اس وجہ سے کسی کا محرم نہيں بنے گا، بلکہ اگر مثلاً دو سال مکمل ہونے سے پهلے آٹھ مرتبہ اور دوسال مکمل ہونے کے بعد سات مرتبہ دودھ پئے تو بھی کسی کا محرم نہيں بنے گا۔ ہاں، اگر دودھ پلانے والی عورت کے زچگی کے بعد سے دو سال گزر چکے ہوں اور ابهی اسے دودھ آتا ہو اور کسی بچے کو دودھ پلائے تو وہ بچہ مذکورہ افراد کامحرم بن جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣٩ ضروری ہے کہ بچہ ایک روز و شب ميں کوئی غذا نہ کھائے یا کسی اور کا دودھ

نہ پئے ۔ ہاں، اگر اتنی مختصر غذا کھائے کہ اسے درميان ميں غذا کھانا نہ کها جا سکے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح ضروری ہے کہ پندرہ مرتبہ ایک ہی عورت کا دودھ پئے اور اس پندرہ مرتبہ کے درميان کسی اور عورت کا دودھ نہ پئے۔ ہر مرتبہ ميں بغير کسی فاصلے کے مکمل سير ہو کر دودھ پئے۔

هاں، اگر درميان ميں سانس لينے کے لئے رکے یا کچھ صبر کرے ، اتنا کہ پهلی مرتبہ چھاتی منہ ميں لينے سے لے کر سير ہونے تک عرفاً یہ کها جائے کہ اس نے حقيقتاً ایک ہی بار دودھ پيا ہے ، تو کوئی حرج نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٠ اگرعورت اپنے شوہر کا دودھ کسی بچے کو پلائے، پھر دوسری شادی کرے اور دوسرے شوہر کا دودھ کسی اور بچے کو پلائے تو یہ دونوں بچے آپس ميں محرم نہيں بنتے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ آپس ميں شادی نہ کریں، ليکن ایک دوسرے کو محرمانہ نگاہوں سے نہيں دیکھ سکتے۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ١ اگر عورت ایک ہی شوہر کا دودھ چند بچوں کو پلائے تو یہ سارے بچے آپس ميں اور اس عورت اور اس کے شوہر کے محرم بن جاتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٢ اگر کسی مرد کی چند بيویاں ہوں اور ان ميں سے ہر ایک، مذکورہ شرائط کے ساته ایک ایک بچے کودودھ پلائے،تو یہ سارے بچے آپس ميں ، اس مرد اور اس کی تمام بيویوں کے محرم بن جائيں گے۔

۴۰۹

مسئلہ ٢ ۵۴ ٣ اگر کسی کی دودھ پلانے والی دو بيویاں ہوں اور ان ميں سے ایک، ایک بچے کو آٹھ مرتبہ اور دوسری سات مرتبہ دودھ پلائے تو وہ بچہ کسی کا محرم نہيں بنے گا۔

مسئلہ ٢ ۵۴۴ اگر عورت ایک شوهرکے دودھ سے ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو مکمل دودھ

پلائے تو لڑکی کے بهائی بهن ، لڑکے کے بهائی بهن کے محرم نہيں بنتے۔

مسئلہ ٢ ۵۴۵ انسان اپنی بيوی کی اجازت کے بغير اس کے رضاعی بهائی یا بهن کی بيٹی سے شادی نہيں کر سکتا۔ اسی طرح اگر مرد کسی لڑکے سے لواط کرے تواس کی رضاعی بهن، بيٹی یا ماں اور احتياط واجب کی بنا پر اس کی رضاعی دادی یا نواسی سے ازدواج نہيں کرسکتا۔ احتياط واجب کی بنا پر یهی حکم اس وقت بھی ہے جب لواط کرنے والا بالغ نہ ہو یا جس سے لواط کيا گيا ہو وہ بالغ ہو۔ اور جن مقامات پر احتياط کا تذکرہ کياگيا اگر لواط کے بعد شادی ہوئی ہو تو احتياط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ طلاق دے دے۔

مسئلہ ٢ ۵۴۶ جس عورت نے کسی کے بهائی کو دودھ پلایا ہو وہ خود اس کی محرم نہيں بنتی اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ اس سے ازدواج نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٧ انسان بيک وقت دو بهنوں سے شادی نہيں کر سکتا چاہے وہ رضاعی بهنيں ہی ہوں۔ اگر کوئی شخص دو عورتوں سے شادی کرلے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ آپس ميں بهنيں ہيں تو اگر دونوں کے ساته ایک ساته شادی کيا ہو تو اختيار ہے کہ ان ميں سے جس کو چاہے اختيار کرے اور اگر ایک وقت ميں نہ ہو تو پهلا عقد درست ہوگا اور دوسرا باطل۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٨ اگر عورت اپنے شوہر کا دودھ مندرجہ ذیل افراد ميں سے کسی کو پلائے تواس کا شوہر اس پر حرام نہيں ہوتا اگرچہ بہتر ہے کہ احتياط کرے:

١) اپنے بهائی یا بهن کو۔

٢) اپنے چچا، پهوپهی، ماموں یا خالہ کو۔

٣) اپنے چچا زاد یا ماموں زاد کو۔

۴) اپنے بهائی کے بچے کو۔

۵) اپنے دیور یا نند کو۔

۶) اپنی بهن کے بچے یا شوہر کی بهن کے بچے کو۔

٧) شوہر کے چچا، پهوپهی، ماموں یا خالہ کو۔

۴۱۰

٨) اپنے شوہر کی کسی اور بيوی کے نواسے، نواسی، پوتے یا پوتی کو۔

مسئلہ ٢ ۵۴ ٩ اگر کوئی عورت کسی شخص کی پهوپهی زاد یا خالہ زاد بهن کود وده پلائے تووہ اس شخص کی محرم نہيں بنتی، ليکن احتياط مستحب یہ ہے کہ اس سے شادی نہ کرے۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٠ جس شخص کی دو بيویاں ہوں اگر ان ميں سے ایک دوسری کے چچا زاد کو دودھ

پلائے تو جس عورت کے چچا زاد کو دودھ پلایا ہے وہ اپنے شوہر پر حرام نہيں ہوتی۔

دودھ پلانے کے آداب

مسئلہ ٢ ۵۵ ١ بچے کو دودھ پلانے کے لئے اس کی ماں سے بہتر کوئی نہيں ۔ اور سزاوار ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے اپنے شوہر سے اجرت نہ لے اور اچھا ہے کہ شوہر اجرت دے دے اور اگر ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لئے دایہ سے زیادہ اجرت طلب کرے تو شوہر اس سے بچہ لے کر دایہ کو دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٢ مستحب ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کے لئے جس دایہ کا انتخاب کيا جائے وہ اثناءعشری، صاحب عقل و عفت اور خوبصورت ہو۔ مکروہ ہے کہ دایہ کم عقل، بدصورت، بد اخلاق یا زنازادی ہو۔یہ بھی مکروہ ہے کہ کسی ایسی عورت کو دایہ بنایا جائے جس نے حرام کا بچہ جنا ہوا ہو۔

دودھ پلانے کے مختلف مسائل

مسئلہ ٢ ۵۵ ٣ احتياط مستحب یہ ہے کہ عورتيں ہر بچے کو دودھ نہ پلائيں، کيونکہ ممکن ہے کہ بعد ميں بھول جائيں کہ کس کس کو دودھ پلایا ہے اور نتيجتاً دو محرم آپس ميں شادی کر ليں۔

مسئلہ ٢ ۵۵۴ سزاوار ہے کہ جو افراد رضاعی رشتہ دار ہوں وہ ایک دوسرے کا احترام کریں ليکن یہ ایک دوسرے سے ميراثنہيں پاتے اور انسان کے اپنے رشتہ د اروں پر جو حقوق ہوتے ہيں ان کے حقدار بھی نہيں ہوتے۔

مسئلہ ٢ ۵۵۵ مستحب ہے کہ بچے کو پورے دوسال دودھ پلایا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵۵۶ اگر دودھ پلانے کی وجہ سے شوہر کا حق ضائع نہ ہورہا ہو تو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغير بھی دوسروں کے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے ۔ ہاں، کسی ایسے بچے کو دودھ پلانا جائز نہيں ہے کہ جس کو د وده پلانے کے نتيجے ميں وہ خود اپنے شوہر پر حرام ہو جائے۔

۴۱۱

البتہ مشهور علما اعلی الله مقامهم کا یہ فرمانامحل اشکال ہے کہ:”اگر شوہر نے کسی شير خوار بچی سے عقد کيا ہو توضروری ہے کہ اس کی بيوی اسے دودھ نہ پلائے کيونکہ اگر اسے دودھ پلائے گی تو خود اپنے شوہر کی ساس بن جائے گی اور نتيجتاً اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی۔“هاں، وہ شير خوار بچی اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی، چاہے دودھ اسی شوہر کا ہو یا کسی اور کا جبکہ شوہر اس سے دخول کر چکا ہو۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٧ فقهاء اعلی الله مقامهم کی ایک جماعت نے فتوی دیا ہے :”اگر کوئی چاہے کہ اس کی بهابهی اس کی محرم بن جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی شير خوار بچی سے مثلاً دو دن کے لئے متعہ کرے اور ان دنوں ميں اس کی بهابهی مسئلہ نمبر ٢ ۵ ٣٨ ميں بيان شدہ شرائط کے مطابق اس بچی کو دودھ پلائے، اس طرح وہ اس کی رضاعی ساس بن جائے گی۔“ليکن یہ فتوی اشکال سے خالی نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٨ اگر مرد کسی عورت سے عقد کرنے سے پهلے کهے کہ رضاعی ہونے کی وجہ سے یہ عورت اس پر حرام ہوچکی ہے ، مثلاًکهے:”ميں نے اس کی ماں کا دودھ پيا ہوا ہے ۔“ تو اگر اس کی بات کی تصدیق ممکن ہو تو وہ اس عورت سے شادی نہيں کر سکتا اور اگر شادی کے بعد یہ بات کهے اور عورت بھی اس کی بات کو قبول کرلے تو عقد باطل ہوگا۔ تو اگر مرد نے اس عورت سے نزدیکی نہ کی ہو یا کی ہو ليکن نزدیکی کے وقت عورت جانتی ہو کہ وہ اس مرد پر حرام ہے تو عورت مہر کی حقدار نہ ہوگی، جبکہ اگر نزدیکی کے بعد معلوم ہوکہ وہ اس مرد پر حرام تھی تو مردکے لئے ضروری ہے کہ اس عورت کو وہ مہر دے جو اس جيسی عورتوں کا ہوتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ٩ اگر عورت عقد سے پهلے کهے : ”ميں دودھ پينے کی وجہ سے فلاں مرد پر حرام ہوچکی ہوں۔“ اور اس کی تصدیق کرنا ممکن ہو تو وہ اس مرد سے شادی نہيں کر سکتی ا ور اگر عقد کے بعد یہ بات کهے تو اس کا حکم وهی ہے جو مرد کے عقد کے بعد کهنے کا تھا جس کا حکم پچهلے مسئلے ميں بيان کيا جا چکا۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٠ وہ دودھ پلانا جو محرم بننے کا سبب ہوتا ہے ، دو طریقوں سے ثابت ہوجاتا ہے :

١) یقين یا اطمينان پيدا ہوجائے۔

٢) دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتيںيا چار عادل عورتيں گواہی دیں، ليکن ضروری ہے کہ ان ميں سے ہر ایک دودھ پلانے کی شرائط کی گواہی بھی دیں، مثلاً گواہی دیں کہ ہم نے دیکھا کہ اس بچے نے ٢ ۴ گهنٹے اس عورت کی چھاتی سے دودھ پيا ہے اور درميان ميں کوئی اور چيز بھی نہيں کهائی اور اسی طرح کی باقی شرائط کی بھی تشریح کریں جن کا ذکر مسئلہ نمبر ٢ ۵ ٣٨ ميں کيا گيا۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ١ اگر شک ہو کہ بچے نے اتنا دودھ پيا ہے یا نہيں کہ جس بنا پر وہ محرم بن جائے یا گمان ہو کہ اتنا دودھ پی چکا ہے تو وہ بچہ کسی کا محرم نہيں بنتا اگرچہ بہتر یہ ہے کہ احتياط کی جائے۔

۴۱۲

طلاق کے احکام

مسئلہ ٢ ۵۶ ٢ جو مرد اپنی بیوی کو طلاق دے ضروری ہے کہ بالغ ہو اگرچہ دس سالہ لڑکے کا طلاق دینا صحتسے خالی نہيں ہے ليکن ضروری ہے کہ احتياط کی رعایت کی جائے اور(ضروری ہے کہ) عاقل ہو اور اپنے اختيار سے طلاق دے اور اگر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کيا جائے اور طلاق دے تو طلاق باطل ہے اورطلاق دینے کا ارادہ بھی ضروری ہے لہٰذا اگر طلاق کا صيغہ مزاحا کهے تو طلاق صحيح نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٣ ضروری ہے کہ عورت طلاق کے وقت حےض و نفاس کے خون سے پاک ہو اور شوہر نے اس پاکی ميں اس کے ساته نزدےکی نہ کی ہو اور ان دو شرائط کی تفصيل آئندہ مسائل ميں بيان ہوگی۔

مسئلہ ٢ ۵۶۴ عورت کو تین صورتوں ميں حےض و نفاس کی حالت ميں طلاق دینا صحيح ہے :

١) اس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے نزدےکی نہ کی ہو۔

٢) معلوم ہو کہ حاملہ ہے اور اگر معلوم نہ ہو اور اس کو اس کا شوہر حےض کی حالت ميں طلاق دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ حاملہ تھی تو احتياط واجب ہے کہ اسے دوبارہ طلاق دے۔

٣) غائب ہونے کی وجہ سے مرد معلوم نہ کرسکتا ہو کہ اس کی بیوی حےض و نفاس سے پاک ہے یا نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۶۵ اگر عورت کو خون حےض سے پاک سمجھتے ہوئے طلاق دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ طلاق دیتے وقت وہ حالت حےض ميں تھی تو اس کی طلاق باطل ہے اور اگر اسے حالت حےض ميں سمجھتے ہوئے طلاق دے اور بعد ميں معلوم ہو کہ وہ پاک تھی تو طلاق صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۶۶ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس کی بیوی حالت حےض یا نفاس ميں ہے اگر وہ غائب ہوجائے مثلاً سفر پر چلا جائے اور طلاق دینا چاہے اور اس کی حالت پر اطلاع حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ جب تک اسے اپنی بیوی کے پاک ہونے کا یقین یا اطمينان نہ ہو جائے صبر کرے اور بعد ميں اسے طلاق دے۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٧ اگر کوئی غائب شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اگر اپنی بیوی کے بارے ميں معلوم کرسکتا ہو کہ حےض یا نفاس کی حالت ميں ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ جس طریقے سے بھی اسے یقین یا اطمينان حاصل ہو اس کے ذریعے معلوم کرے اور اگر معلوم نہ کرسکتا ہو تو اپنی غيبت کے ایک مهينے بعد اسے طلاق دے سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٨ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جبکہ وہ حےض و نفاس سے پاک ہو ہم بستری کرے اور اسے طلاق دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اتنا انتظار کرے کہ وہ دوبارہ حےض دےکهنے کے بعد پاک ہوجائے ليکن وہ بیوی جو نو سال کی نہ ہوئی ہو یا معلوم ہو

۴۱۳

کہ حاملہ ہے اگر ان کو نزدےکی کرنے کے بعد طلاق دے تو اشکال نہيں ہے اور اگر یائسہ ہو تب بھی یهی حکم ہے اور یائسہ کے معنی مسئلہ نمبر ۴۴ ١ ميں بيان ہو چکے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵۶ ٩ اگر ایسی عورت سے ہم بستری کرے جو حےض و نفاس سے پاک ہو اور اس پاکی کے دوران اسے طلاق دے دے تو اگر بعد ميں معلوم ہوجائے کہ بوقت طلاق حاملہ تھی تو احتياط واجب کی بنا پر اسے دوبارہ طلاق دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٠ اگر ایسی عورت سے ہم بستری کرے جو حےض ونفاس سے پاک ہو اور پھر غائب ہوجائے مثلاً سفر کرے تو اگر سفر ميں اسے طلاق دینا چاہے اور اس کی حالت کے بارے ميں اطلاع حاصل نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ ایک مهينہ صبر کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧١ اگر مرد اپنی ایسی بیوی کو طلاق دینا چاہے جسے پيدائشی طور پر یا کسی عارضی وجہ سے حےض نہ آتا ہو تو جب سے اس نے اس عورت سے ہمبستری کی ہے تین ماہ تک اس سے ہم بستری کرنے سے اپنے آپ کو روکے رکھے اور اس کے بعد اس کو طلاق دے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٢ ضروری ہے کہ طلاق صحيح عربی صيغے اور لفظ ”طالق“ سے پڑھی جائے اور دو عادل مرد اسے سنيں اور اگر شوہر خود صيغہ طلاق جاری کرنا چاہے اور اس کی بیوی کا نام مثلا فاطمہ ہو تو یوں کهے ”زَوْجَتِیْ فَاطِمَةُ طَالِقٌ“ یعنی میر ی بیوی فاطمہ آزاد ہے اور اگر کسی دوسرے کو وکيل کرے تو وہ وکيل کهے ”زَوْجَةُ موَکِّلِی فَاطِمَةُ طَالِقٌ“ اور جب عورت معين ہو تو نام ذکر کرنا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٣ جس عورت کے ساته متعہ کيا گيا ہو مثلاً ایک ماہ یا ایک سال کے لئے اس سے عقد کيا گيا ہو تو اس کی طلاق نہيں ہے اور اس کی جدائی اس طرح ہے کہ یا مدت تمام ہوجائے یا مرد اسے مدت بخش دے مثلاً کهے ميں نے تجهے مدت بخشی اور گواہ قرار دینا اور عورت کا حےض و نفاس سے پاک ہونا لازم نہيں ہے ۔

طلاق کی عدت

مسئلہ ٢ ۵ ٧ ۴ نو سال سے کم عمر عورت اور یائسہ عورت کی کوئی عدت نہيں ہے ، یعنی اگرچہ شوہر نے اس سے ہم بستری کی ہو وہ طلاق کے فوراً بعد ہی کسی سے شادی کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧ ۵ جس عورت کی عمر نو سال ہوگئی ہو اور وہ یائسہ بھی نہ ہو اگر اس کا شوہر اس سے ہم بستری کرے اور طلاق دے دے تو طلاق کے بعد ضروری ہے کہ عدت رکھے اور ایسی آزاد عورت کی عدت جو مستقےم اور متعارف طریقے پر حےض دےکهتی ہو یعنی ایسی عورت نہيں ہے جو تین یا چار مهينے ميں ایک بار حےض دےکهتی ہے ، یہ ہے کہ جب وہ طهارت کے عالم ميں ہو اور

۴۱۴

اس پاکی کے دوران اس کے شوہر نے اس سے ہمبستری نہ کی ہو اور اس پاکی ميں ہی طلاق دے دے جب کہ وہ طلاق کے بعد بھی چاہے ایک لمحہ ہی سهی، پاک رہی ہو، تو اس کی عدت يہ ہے کہ اتنا صبر کرے کہ دوبارہ حےض دےکهنے کے بعد پاک ہوجائے اور جےسے ہی تےسرا حےض دےکهے اس عورت کی عدت تمام ہوجائے گی۔ لہٰذا اب وہ نکاح کرسکتی ہے ليکن اگر اس سے نزدےکی کئے بغير طلاق دی ہو تو عدت نہيں ہے یعنی وہ فوراً نکاح کرسکتی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧ ۶ جس عورت کو حےض نہ آتا ہو اور اس کی عمر ان عورتوں کی عمر ہو جن کو حےض آتا ہے تو اگر اس کا شوہر ہم بستری کرنے کے بعد اس کو طلاق دے تو ضروری ہے کہ طلاق سے تین مهينے تک عدت رکھے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٧ جس عورت کی عدت تین ماہ ہو اگر اسے ابتدائے ماہ ميں ہی طلاق دی جائے تو تین قمری مهينے یعنی جب سے چاند نظر آیا ہے اس وقت سے لے کر تین ماہ تک عدت رکھے اور اگر مهينے کے درميان اسے طلاق ہوئی ہو تو مهينے کے باقی ایام، اس کے بعد دو مهينے اور اس کے علاوہ جتنے دن پهلے ماہ سے کم تهے اتنے چوتھے مهينے سے گذارے اور احتياط واجب کی بنا پر چوتھے مهينے اتنے دن عدت رکھے کہ ان کامجموعہ پهلے مهينے کے ناقص دنوں کے ساته تےس ہوجائے،مثلا بےسویں دن غروب کے وقت طلاق دے اور يہ مهينہ انتےس دن کا ہو تو ضروری کہ اس ماہ کے باقی نو دن، اس کے بعد دو ماہ اور پھر چوتھے مهينے کے بےس اور احتياط واجب کی بنا پرچوتھے مهينے کے اکےس دن عدت ميں گذارے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٨ اگر حاملہ عورت کو طلاق دی جائے اور اس کا بچہ زنا سے نہ ہو تو اس کی عدت بچہ پيدا ہونا یا ساقط ہونا ہے ۔ لہٰذا اگر مثلاً طلاق کے ایک گهنٹہ بعد اس کا بچہ پيدا ہو تو اس کی عدت تمام ہوجائے گی۔

مسئلہ ٢ ۵ ٧٩ جس عورت کی عمر نو سال ہوجائے اور وہ یائسہ نہ ہو اور اس کا مثلاً ایک ماہ یا ایک سال کے لئے متعہ ہوجائے تو اگر اس کا شوہر اس سے ہم بستری کرلے اور اس کی مدت پوری ہوجائے یا شوہر اسے مدت بخش دے تو ضروری ہے کہ دو حےض کی مقدار ميں عدت رکھے اور نکاح نہ کرے اور حےض نہ آتا ہو تو پینتالےس روز عدت رکھے اور اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت يہ ہے کہ بچہ پيداہوجائے یا ساقط ہوجائے اور احتياط مستحب يہ ہے کہ بچہ جننے اور پینتالےس دن ميں سے جو زیادہ ہو اتنی مدت تک عدت ميں رہے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٠ طلاق کی عدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب طلاق کا صيغہ مکمل ہوجائے چاہے عورت کو معلوم ہو کہ اسے طلا ق ہوئی ہے یا معلوم نہ ہو۔ لہٰذا اگر عدت تمام ہونے کے بعد اسے معلوم ہو کہ اسے طلاق دے دی گئی تھی تو ضروری نہيں ہے کہ دوبارہ عدت رکھے۔

۴۱۵

اس عورت کی عدت جس کا شوهر مر گيا ہو

مسئلہ ٢ ۵ ٨١ جس عورت کا شوہر مر گيا ہو اگر حاملہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ چار مهينے دس دن عدت رکھے یعنی نکاح کرنے سے گرےز کرے چاہے اس کے شوہر نے اس سے نزدےکی کی ہو یا نہ کی ہو اور چاہے نابالغ ہو یا بالغ ہو اور چاہے یائسہ ہو یا یائسہ نہ ہو اور چاہے اس کا عقد نکاح دائمی ہو یا موقت ہو۔اور اگر حاملہ ہو تو ضروری ہے کہ بچہ متولد ہونے تک عدت رکھے، ليکن اگر چار ماہ اور دس دن گزرنے سے پهلے ہی اس کا بچہ متولد ہوجائے تو ضروری ہے کہ شوہر کی وفات سے چار مهينے دس دن تک عدت رکھے۔اور اسے وفات کی عدت کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٢ آزاد عورت جو عدہ وفات ميں ہو اس پر بدن اور لباس ميں زینت حرام ہے مثلا سرمہ لگانا،عطر استعمال کرنا اور رنگین لباس پهننا۔ البتہ یہ حکم نابالغ اور پاگل عورت پر نہيں ہے اور ولی پر انہيں روکنا واجب نہيں ہے اور جس عورت سے متعہ کيا گيا ہو اور اس کی مدت دو دن یا اس سے کم ہو اس پر زینت کرنا حرام نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٣ اگر عورت کو یقین ہو کہ شوہر مر گيا ہے اور وہ عدت پوری کرنے کے بعد نکاح کرے پھر معلوم ہو کہ اس کا شوہر بعد ميں مرا تھا تو ضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے جدا ہوجائے اور حاملہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب کی بنا پر بچہ پيدا ہونے تک جو طلاق کی عدت ہوتی ہے ، دوسرے شوہر کے لئے طلاق کی عدت رکھے اور اس کے بعد پهلے شوہر کے لئے وفات کی عدت رکھے جبکہ اگر حاملہ نہ ہو تو پهلے شوہر کے لئے عدت وفات اور بعد ميں دوسرے شوہر کے لئے وطی بالشبهہ کی عدت رکھے جو کہ طلاق کی عدت کی طرح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ۴ وفات کی عدت کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے جب عورت کو شوہر کے مرنے کی اطلاع ملے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ۵ اگر عورت کهے کہ اس کی عدت مکمل ہوگئی ہے تو اس کی بات قبول کی جائے گی بشرطیکہ طلاق یا شوہر کے مرنے کے بعد اتنا عرصہ گزرگيا ہو کہ جس عرصہ ميں عدت کا مکمل ہونا ممکن ہو۔

طلاق بائن اور طلاق رجعی

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ۶ طلاق بائن وہ طلاق ہے جس ميں مرد اپنی بيوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع کرنے کا حق نہيں رکھتا ہے یعنی اسے عقد نکاح کے بغير اپنے پاس پلٹا نہيں سکتا ہے اور اس کی پانچ قسميں ہيں :

١) اس عورت کی طلاق جس کے نو سال مکمل نہ ہوئے ہوں ٢) یائسہ عورت کی طلاق ٣) اس عورت کی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے نزدےکی نہ کی ہو ۴) اس عورت کی تےسری طلاق جسے تین دفعہ طلاق دی گئی ہو ۵) طلاق خلع و مبارات ان کے احکامات بعد ميں ذکر ہوں گے اور ان کے علاوہ طلاق رجعی ہے یعنی جب تک عورت عدت ميں ہے اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہے ۔

۴۱۶

مسئلہ ٢ ۵ ٨٧ جس نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ہو اس پر حرام ہے کہ اسے اس گھر سے نکالے جس ميں طلاق کے وقت موجود تھی ليکن بعض صورتوں ميں جےسے فحاشی اور عورت کے زنا کرنے کی صورت ميں اسے گھر سے باہر نکالنے ميں اشکال نہيں ہے اور عورت پر بھی حرام ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغير غیر ضروری کاموں کے لئے گھر سے باہر نکلے۔

رجوع کرنے کے احکام

مسئلہ ٢ ۵ ٨٨ طلاق رجعی ميں مرد دو طرح سے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرسکتا ہے :

١) کوئی ایسا لفظ کهے کہ جس سے اس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ اسے اپنی زوجيت ميں پلٹا رہا ہے نہ يہ کہ خبردے کہ اس نے اسے اپنی زوجيت ميں پلٹا ليا ہے ۔

٢) رجوع کے قصد سے کوئی ایسا کام کرے جس سے معلوم ہوجائے کہ اس نے رجوع کرليا ہے جےسے چھونا اور بوسہ لینا۔اور نزدےکی کرنے سے بھی رجوع متحقق ہوجاتا ہے اور اگر چہ قصد رجوع سے نہ ہو۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨٩ رجوع کرنے کے لئے ضروری نہيں ہے کہ مرد گواہ رکھے ليکن گواہ رکھنا افضل ہے اور اسی طرح عورت کو بھی خبر دینا ضروری نہيں ہے بلکہ اگر کسی کے علم ميں لائے بغير رجوع کرے تب بھی اس کا رجوع صحيح ہے اور اگر دعویٰ کرے کہ ميں نے رجوع کرليا ہے تو اگر عدت ميں ہو تو ثابت کرنا لازم نہيں ہے اور اگر عدت تمام ہونے کے بعد ہو تو ضروری ہے کہ ثابت کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٠ جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ہو اگر بیوی سے مال لے کر اس بات پر صلح کرلے کہ رجوع نہيں کرے گا تو واجب ہے کہ صلح کی قرارداد کے مطابق عمل کرے، ليکن اگر رجوع کرے تو رجوع صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩١ اگر آزاد عورت کو دو مرتبہ طلاق دے اور ہر مرتبہ رجوع کرے یا اسے دو مرتبہ طلاق دے کر ہر مرتبہ اس سے عقد کرے یا ایک طلاق کے بعد رجوع اور دوسری کے بعد عقد کرے تو تےسری طلاق کے بعد عورت اس پر حرام ہوجائے گی ليکن اگر تےسری طلاق کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرے تو چند شرائط کے ساته پهلا شوہر حلال ہوجائے گا یعنی اب اس سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے اور وہ شرائط درج ذیل ہيں :

١) دوسرے شوہر کے ساته عقد دائمی کرے اور اگر مدت والا عقد(متعہ) کرے مثلاً ایک مهينہ یا ایک سال کے لئے عقد کرے اور اس سے جدا ہوجائے تو پهلاشوہر اس سے عقد نہيں کرسکتا ہے ۔

٢) دوسرا شوہر اس کے ساته آگے سے نزدےکی کرے اور اس طرح دخول کرے کہ دونوں جماع کی لذت محسوس کریں۔

٣) دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا مر جائے۔

۴۱۷

۴) دوسرے شوہر کی عدت طلاق یا عدت وفات تمام ہوجائے۔

۵) احتياط واجب کی بنا پر دوسرا شوہر بالغ ہو۔

طلاق خلع

مسئلہ ٢ ۵ ٩٢ جس عورت کو اپنے شوہر سے کراہت ہو اور خوف ہو کہ وہ اس کے واجب حقوق کی رعایت نہ کرسکے گی اور حرام ميں مبتلا ہوجائے گی اور وہ اپنے شوہر کو مہر یا کوئی دوسرا مال بخشے کہ وہ اسے طلاق دے دے تو اس طلاق کو طلاق خلع کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٣ اگر شوہر خود طلاق خلع کا صيغہ پڑھنا چاہے تو مثلاً اگر اس کی بیوی کا نام فاطمہ ہو تو ما ل لینے کے بعد کهے: ”زَوْجَتِی فٰاطِمَةُ خَلَعْتُهٰا عَلٰی مٰا بَذَلَتْ “ یعنی میر ی بیوی فاطمہ کو اس مال کے بدلے جو اس نے دیا ہے طلاق خلع دیتاہوں۔

اور احتياط مستحب کی بنا پر خلع پر مشتمل جملے کے بعد ”هِیَ طَالِقٌ“ بھی کهے، البتہ بیوی معين ہونے کی صورت ميں نام لینا ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ ۴ اگر عورت کسی کو وکيل کرے کہ اس کا مہر شوہر کو بخشے اور شوہر بھی اسی کو وکيل بنائے کہ اس کی بيوی کو طلاق دے تو اگر مثلاً شوہر کا نام محمد اور بیوی کا نام فاطمہ ہو تو وکيل طلاق کا صيغہ اس طرح پڑھے: ”عَنْ مُوَکِّلَتِی فاٰطِمَةَ بَذَلَتُ مَهْرہا لِمُوَکِّلِی مُحَمَّدٍ لِےَخْلَعَهَا عَلَيہ“ اور اس کے بعد فوراً بعد احتيا ط کی بنا پر موالات عرفی ختم ہونے سے پهلے کهے: ”زَوْجَةُ مُوَکِّلِی خَلَعْتُهَا عَلیٰ مَا بَذَلَتْ“ اور اگر عورت کسی کو وکيل کرے کہ مہر کے علاوہ کوئی چيز شوہر کو بخشے تاکہ وہ طلاق دے تو ضروری ہے کہ وکيل”مَهْرہا “ کے لفظ کے بجائے اس چيز کو ذکر کرے، مثلاً اگر ہزار روپے دئے ہوں تو ضروری ہے کہ کهے: ”بَذَلْتُ اَلْفَ رُوْبِيَةٍ“

طلاق مبارات

مسئلہ ٢ ۵ ٩ ۵ اگر مياں بیوی دونوں ایک دوسرے سے کراہيت رکھتے ہوں اور بیوی مرد کو طلاق دینے کے لئے مال دے تو اس طلاق کو مبارات کہتے ہيں ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ ۶ اگر شوہر مبارات کا صيغہ جاری کرنا چاہے اور مثلاً ا س کی بیوی کا نام فاطمہ ہو تو کهے: ”بَارَا تُْٔ زَوْجَتِیْ فَاطِمَةَ عَلٰی مَا بَذَلَتْ فَهِیَ طَالِقٌ“ یعنی ميں اور میر ی بیوی فاطمہ اس مال کے بدلے ميں جو اس نے مجھے دیا ہے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہيں تو وہ آزاد ہے ، اور اگر کسی اور کو وکيل کرے تو ضروری ہے کہ وکيل کهے ”بَارَا تُْٔ زَوْجَةَ مُوَکِّلِیْ فَاطِمَةَ عَلٰی مَا بَذَلَتْ فَهِیَ طَالِقٌ “ یا کهے: ”عَنْ قِبَلِ مُوَکِّلِیْ بَارَا تُْٔ زَوْجَتَهُ فَاطِمَةَ عَلیٰ مَا بَذَلَتْ فَهِیَ طَالِقٌ “ اور ذکر کئے گئے صيغوں ميں ”فَهی طَالِقٌ“ کو ذکر کرنے کا لزوم احتياط واجب کی بنا پر ہے اور اگر ”عَلیٰ مَا بَذَلَتْ “ کے بجائے ”بِمَا بَذَلَتْ “کهے تو بھی کوئی حرج نہيں ہے ۔

۴۱۸

مسئلہ ٢ ۵ ٩٧ ضروری ہے کہ طلاق خلع و مبارات کے صيغے صحيح عربی ميں پڑھے جائيں، ليکن اگر عورت شوہر کو اپنا مال بخشنے کے لئے اردو ميں کهے: ”ميں نے طلاق حاصل کرنے کے لئے فلاں مال تمہيں بخش دیا“ تو کوئی حرج نہيں ہے اور اگر مرد عربی ميں طلاق نہ دے سکتا ہو تو احتياط واجب ہے کہ وکيل کرے اور اگر وکيل بھی نہ کرسکتا ہو تو جس لفظ سے بھی جو عربی صيغے کے مترادف ہو طلاق خلع یا مبارات دے، صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٨ اگر عورت طلاقِ خلع کی عدت کے دوران اپنا مال واپس مانگ لے تو شوہر رجوع کرسکتا ہے اور عقد کے بغير اسے دوبارہ اپنی زوجہ بنا سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩٩ شوہر جو مال طلاق مبارات کے لئے ليتا ہے ضروری ہے کہ مہر سے زیادہ نہ ہو ليکن اگر طلاق خلع ميں مهرسے زیادہ ہو تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

طلاق کے متفرق احکام

مسئلہ ٢ ۶ ٠٠ اگر نا محرم عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر اس سے نزدےکی کرے تو ضروری ہے کہ عورت عدت رکھے چاہے عورت کو معلوم ہو کہ اس کا شوہر نہيں ہے یا گمان ہو کہ اس کا شوہر ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠١ اگر ایسی عورت سے زنا کرے جس کے بارے ميں معلوم ہو کہ وہ اس کی بیوی نہيں ہے تو اس کے لئے عدت رکھنا ضروری نہيں ہے ، چاہے اسے معلوم ہو کہ يہ میر ا شوہر نہيں ہے یا گمان ہو کہ شوهرہے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٢ اگر کوئی مرد کسی عورت کو دهوکہ دے کر اپنے شوہر سے طلاق دلوائے اور وہ عورت اس کی بیوی بن جائے تو طلاق اور عقد صحيح ہيں ليکن دونوں نے گناہ عظےم کيا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٣ جب بھی عورت عقد کے ضمن ميں شوہر سے شرط کرے کہ اگر شوہر سفر پرجائے یا چھ مهينے تک اسے خرچہ نہ دے تو اس کو طلاق کا حق حاصل ہوگا تو يہ شرط باطل ہے ليکن اگر شرط کرے کہ اگر شوہر سفر پر جائے یا چھ مهينے کا خرچہ نہ دے تو اس کی جانب سے بیوی اپنی طلاق کے لئے وکيل ہوگی اور کيفيت یہ ہو کہ طلاق مشروط ہو، وکالت مشروط نہ ہو تو شرط صحيح ہے اور جب شرط حاصل ہوجائے اور خود کو طلاق دے تو طلاق صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ ۴ جس عورت کا شوہر گم ہوگيا ہو اگر وہ دوسرے شخص سے نکاح کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ عادل مجتهد کے پاس جائے اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ ۵ جو شخص دائمی پاگل ہو اس کے باپ اور دادا مصلحت کا خيال رکھتے ہوئے اس کی بیوی کو طلاق دے سکتے ہيں ۔

۴۱۹

مسئلہ ٢ ۶ ٠ ۶ باپ اور دادا اپنے نابالغ بچے کی دائمی بیوی کو طلاق نہيں دے سکتے ہيں اور اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ بچے کا کسی عورت سے متعہ کریں تو بچے کی مصلحت کا خيال رکھتے ہوئے اس عورت کی مدت بخش سکتے ہيں اگرچہ بچے کے بالغ ہونے کا کچھ زمانہ متعہ کی مدت کا ہو جےسے چودہ سالہ بچے کا کسی عورت سے دو سال کے لئے متعہ کيا گيا ہو۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٧ اگر مرد کے لئے شریعت کے معين کردہ طریقے سے دو افراد کی عدالت ثابت ہو جائے اور ان کے سامنے عورت کو طلاق دے تو جس شخص کے نزدےک ان کی عدالت ثابت نہ ہو وہ شخص بھی عدت تمام ہونے کے بعد اس عورت سے اپنا یا کسی اور کا عقد کرسکتا ہے ،اگرچہ احتياط مستحب يہ ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح نہ کرے اور نہ ہی کسی اور کے ساته اس کا نکاح کروائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٨ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بتائے بغير طلاق دے تو اگر اس کا خرچہ اسی طرح دیتا رہے جےسے اس کے بیوی ہوتے وقت دیتا تھا اور مثلاً ایک سال کے بعد کهے کہ ميں ایک سال پهلے تجهے طلاق دے چکا ہوں اور شرعاً ثابت بھی کردے تو جس عرصہ ميں وہ اس کی بیوی نہيں تهی، اس عرصہ ميں دیا ہوا نفقہ اگر عورت نے استعمال نہ کيا ہو تو اس کا مطالبہ کرسکتا ہے ليکن وہ چيزیں جو يہ استعمال کرچکی ہے ان کا مطالبہ نہيں کرسکتا۔

غصب کے احکام

غصب يہ ہے کہ انسان ظلم کرتے ہوئے کسی کے مال یا حق پر مسلط ہوجائے۔ ایسا کرنا بڑے گناہوں ميں سے ہے کہ اگر کوئی انجام دے تو قيامت کے دن سخت عذاب ميں مبتلا ہوگا۔پیغمبر اکرم(ص) سے مروی ہے کہ جو بھی کسی سے ایک بالشت زمين غصب کرے تو اس زمين کو اس کے سات طبقوں کے ساته طوق کی مانند اس کی گردن ميں ڈال دیا جائے گا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠٩ اگر انسان عام لوگوں کے لئے بنائی گئی مسجد،مدرسہ،پل اور دوسری جگہوں سے لوگوں کو استفادہ نہ کرنے دے تو اس نے ان کا حق غصب کياہے۔ یهی حکم اس وقت بھی ہے جب کوئی شخص مسجد ميں اپنے لئے کسی جگہ کا انتخاب کرے اور دوسرا شخص اسے اس جگہ سے استفادہ نہ کرنے دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١٠ جو شخص کوئی چيز قرض خواہ کے پاس گروی رکھواتا ہے ضروری ہے کہ وہ چيزاسی کے پاس رہے تاکہ قرضہ ادا نہ کرنے کی صورت ميں وہ اپنا قرضہ اس سے حاصل کرلے، لہٰذا اگر قرضہ ادا کرنے سے پهلے اس سے وہ چيز چھین لے تو اس نے اس کا حق غصب کيا ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ١١ جو مال کسی کے پاس گروی رکھا گيا ہو اگر کوئی تےسرا شخص اسے غصب کرلے تو اس چيز کا مالک اور قرض خواہ دونوں ہی غصب کرنے والے سے اس چيز کا مطالبہ کرسکتے ہيں ۔ اب اگر وہ چيز ا س سے لے ليں تو پھر بھی وہ گروی ہی رہے گی اور اگر وہ چيز تلف ہوگئی ہو اور اس کا معاوضہ ليں تو وہ معاوضہ بھی اس چيزکی طرح گروی رہے گا۔

۴۲۰