سورہ یوسف
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
(۱)آلر
-یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں
(۲) ہم نے اسے عربی قرآن بناکر نازل کیا ہے کہ شاید تم لوگوں کو عقل آجائے
(۳) پیغمبر ہم آپ کے سامنے ایک بہترین قصہ بیان کررہے ہیں جس کی وحی اس قرآن کے ذریعہ آپ کی طرف کی گئی ہے اگرچہ اس سے پہلے آپ اس کی طرف سے بے خبر لوگوں میں تھے
(۴) اس وقت کو یاد کرو جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ بابا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو دیکھا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ یہ سب میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں
(۵) یعقوب نے کہا کہ بیٹا خبردار اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کہ وہ لوگ الٹی سیدھی تدبیروں میں لگ جائیں گے کہ شیطان انسان کا بڑا کھلا ہوا دشمن ہے
(۶) اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا اور تمہیں باتوں کی تاویل سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی دوسری اولاد پر اپنی نعمت کو تمام کرے گا جس طرح تمہارے دادا پرداد ابراہیم اور اسحاق پر تمام کرچکا ہے بیشک تمہارا پروردگار بڑا جاننے والا ہے اور صاحب هحکمت ہے
(۷) یقینا یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں
(۸) جب ان لوگوں نے کہا کہ یوسف اور ان کے بھائی (ابن یامین)ہمارے باپ کی نگاہ میں زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہماری ایک بڑی جماعت ہے یقیناہمارے ماں باپ ایک کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں
(۹) تم لوگ یوسف کو قتل کردو یا کسی زمین میں پھینک دو تو باپ کا رخ تمہاری ہی طرف ہوجائے گا اور تم سب ان کے بعد صالح قوم بن جاؤ گے
(۱۰) ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ کسی اندھے کنویں میں ڈال دو تاکہ کوئی قافلہ اٹھالے جائے اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو
(۱۱) ان لوگوں نے یعقوب سے کہا کہ بابا کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں حالانکہ ہم ان پر شفقت کرنے والے ہیں
(۱۲) کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کچھ کھائے پئے اور کھیلے اور ہم تو اس کی حفاظت کرنے والے موجود ہی ہیں
(۱۳) یعقوب نے کہا کہ مجھے اس کالے جانا تکلیف پہنچاتا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھاجائے اور تم غافل ہی رہ جاؤ
(۱۴) اور ان لوگوں نے کہا کہ اگر اسے بھیڑیا کھاگیا اور ہم سب اس کے بھائی ہی ہیں تو ہم بڑے خسارہ والوں میں ہوجائیں گے
(۱۵) اس کے بعد جب وہ سب یوسف کو لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کردی کہ عنقریب تم ان کو اس سازش سے باخبر کرو گے اور انہیں خیال بھی نہ ہوگا
(۱۶) اور وہ لوگ رات کے وقت باپ کے پاس روتے پیٹے آئے
(۱۷) کہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو ایک بھیڑیا آکر انہیں کھاگیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں
(۱۸) اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے -یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے لہذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگارہے
(۱۹) اور وہاں ایک قافلہ آیا جس کے پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو آواز دی ارے واہ یہ تو بچہ ہے اور اسے ایک قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپالیا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے
(۲۰) اور ان لوگوں نے یوسف کو معمولی قیمت پر بیچ ڈالا چند درہم کے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بیزار تھے ہی
(۲۱) اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہاکہ اسے عزّت و احترام کے ساتھ رکھو شاید یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار دیا اور تاکہ اس طرح انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غلبہ رکھنے والا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے
(۲۲) اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں
(۲۳) اور اس نے ان سے اظہار همحبتّ کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے اور کہنے لگی لو آؤ یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے
(۲۴) اور یقینااس عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیااور وہ بھی ارادہ کربیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے
(۲۵) اور دونوں نے دروازے کی طرف سبقت کی اور اس نے ان کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا اور دونوں نے اس کے سردار کو دروازہ ہی پر دیکھ لیا -اس نے گھبرا کر فریاد کی کہ جو تمہاری عورت کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے علاوہ کیا ہے کہ اسے قیدی بنادیاجائے یا اس پر دردناک عذاب کیا جائے
(۲۶) یوسف نے کہا کہ اس نے خود مجھ سے اظہار محبت ّکیا ہے اور اس پر اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی بھی دے دی کہ اگر ان کا دامن سامنے سے پھٹا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جھوٹوں میں سے ہیں
(۲۷) اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹی ہے یہ سچوں میں سے ہیں
(۲۸) پھر جو دیکھاکہ ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے توا س نے کہا کہ یہ تم عورتوں کی مّکاری ہے تمہارا مکر بہت عظیم ہوتا ہے
(۲۹) یوسف اب تم اس سے اعراض کرو اور زلیخا تو اپنے گناہ کے لئے استغفار کر کہ تو خطاکاروں میں ہے
(۳۰) اور پھر شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کردیا کہ عزیز مصر کی عورت اپنے جوان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور اسے اس کی محبت نے مدہوش بنادیا تھا ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ عورت بالکل ہی کھلی ہوئی گمراہی میں ہے
(۳۱) پھر جب زلیخا نے ان عورتوں کی مکاری اور تشہیر کا حال سنا تو بلا بھیجا اور ان کے لئے پرتکلف دعوت کا انتطام کرکے مسند لگادی اور سب کو ایک ایک چھری دے دی اور یوسف سے کہا کہ تم ان کے سامنے سے نکل جاؤ پھر جیسے ہی ان لوگوں نے دیکھا تو بڑا حسین و جمیل پایا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور کہا کہ ماشائ اللہ یہ تو آدمی نہیں ہے بلکہ کوئی محترم فرشتہ ہے
(۳۲) زلیخا نے کہا کہ یہی وہ ہے جس کے بارے میں تم لوگوں نے میری ملامت کی ہے اور میں نے اسے کھینچنا چاہا تھا کہ یہ بچ کر نکل گیا اور جب میری بات نہیں مانی تو اب قید کیا جائے گا اور ذلیل بھی ہوگا
(۳۳) یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کے مکر کو میری طرف سے موڑ نہ دے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوسکتا ہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میں ہوسکتا ہے
(۳۴) تو ان کے پروردگار نے ان کی بات قبول کرلی اور ان عورتوں کے مکر کو پھیر دیا کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا جاننے والا ہے
(۳۵) اس کے بعد ان لوگوں کو تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی یہ خیال آگیا کہ کچھ مدّت کے لئے یوسف کو قیدی بنا دیں
(۳۶) اور قید خانہ میں ان کے ساتھ دو جوان اور داخل ہوئے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے اور دوسرے نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں لادے ہوں اور پرندے اس میں سے کھارہے ہیں -ذرا اس کی تاوہل تو بتاؤ کہ ہماری نظر میں تم نیک کردار معلوم ہوتے ہو
(۳۷) یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو دیا جاتا ہے وہ نہ آنے پائے گا اور میں تمہیں تعبیر بتادوں گا -یہ تعبیر مجھے میرے پروردگار نے بتائی ہے اور میں نے اس قوم کے راستے کو چھوڑ دیا ہے جس کا ایمان اللہ پر نہیں ہے اور وہ روز هآخرت کا بھی انکار کرنے والی ہے
(۳۸) میں اپنے باپ دادا ابراہیم -اسحاق اور یعقوب کے طریقے کا پیرو ہوں -میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں کسی چیز کو بھی خدا کا شریک بناؤں -یہ تو میرے اوپر اور تمام انسانوں پر خدا کا فضل و کرم ہے لیکن انسانوں کی اکثریت شکر خدا نہیں کرتی ہے
(۳۹) میرے قید خانے کے ساتھیو !ذرا یہ تو بتاؤ کہ متفرق قسم کے خدا بہتر ہوتے ہیں یا ایک خدائے واحدُ و قہار
(۴۰) تم اس خدا کو چھوڑ کر صرف ان ناموں کی پرستش کرتے ہو جنہیں تم نے خود رکھ لیا ہے یا تمہارے آبائ و اجداد نے -اللہ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے جب کہ حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے اور اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے کہ یہی مستحکم اور سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ہیں
(۴۱) میرے قید خانے کے ساتھیو تم سے ایک اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی پر لٹکادیا جائے گا اور پرندے اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے یہ اس بات کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم سوال کررہے ہو
(۴۲) اور پھر جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ نجات پانے والا ہے اس سے کہا کہ ذرا اپنے مالک سے میرا بھی ذکر کردینا لیکن شیطان نے اسے مالک سے ذکر کرنے کو بھلا دیا اور یوسف چند سال تک قید خانے ہی میں پڑے رہے
(۴۳) اور پھر ایک دن بادشاہ نے لوگوں سے کہا کہ میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات پتلی گائیں کھائے جارہی ہیں اور سات ہری تازی بالیاں دیکھی ہیں اور سات خشک بالیاں دیکھی ہیں تم سب میرے خواب کے بارے میں رائے دو اگر تمہیں خواب کی تعمبیر دینا آتا ہو تو
(۴۴) ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو ایک خوابِ پریشاں ہے اور ہم ایسے خوابوں کی تاویل سے باخبر نہیں ہیں
(۴۵) اور پھر دونوں قیدیوں میں سے جو بچ گیا تھا اور جسے ایک مدت کے بعد یوسف کا پیغام یاد آیا اس نے کہا کہ میں تمہیں اس کی تعبیر سے باخبر کرتا ہوں لیکن ذرا مجھے بھیج تو دو
(۴۶) یوسف اے مرد صدیق !ذرا ان سات موٹی گایوں کے بارے میں جنہیں سات دبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات ہری بالیوں اور سات خشک بالیوں کے بارے میں اپنی رائے تو بتاؤ شاید میں لوگوں کے پاس باخبر واپس جاؤں تو شاید انہیں بھی علم ہوجائے
(۴۷) یوسف نے کہا کہ تم لوگ سات برس تک مسلسل زراعت کرو گے تو جو غلہ پیدا ہو اسے بالیوں سمیت رکھ دینا علاوہ تھوڑی مقدار کے کہ جو تمہارے کھانے کے کام میں آئے
(۴۸) اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے جو تمہارے سارے ذخیرہ کو کھاجائیں گے علاوہ اس تھوڑے مال کے جو تم نے بچا کر رکھا ہے
(۴۹) اس کے بعد ایک سال آئے گاجس میں لوگوں کی فریاد رسی اور بارش ہوگی اور لوگ خوب انگورنچوڑیں گے
(۵۰) تو بادشاہ نے یہ سن کر کہا کہ ذرا اسے یہاں تو لے آؤ پس جب نمائندہ آیا تو یوسف نے کہا کہ اپنے مالک کے پاس پلٹ کر جاؤ اور پوچھو کہ ان عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے کہ میرا پروردگار ان کے مکر سے خوب باخبر ہے
(۵۱) بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا کہ آخر تمہارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف سے اظہار تعلق کیا تھا ان لوگوں نے کہا کہ ماشائ اللہ ہم نے ہرگز ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی -تو عزیز مصر کی بیوی نے کہا کہ اب حق بالکل واضح ہوگیا ہے کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں
(۵۲) یوسف نے کہا کہ یہ ساری بات اس لئے ہے کہ بادشاہ کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کی ہے اور خدا خیانت کاروں کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا
(۵۳) اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
(۵۴) اور بادشاہ نے کہا کہ ذرا انہیں لے آؤ میں اپنے ذاتی امور میں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی تو کہا کہ تم آج سے ہمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رہو گے
(۵۵) یوسف نے کہا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب هعلم بھی
(۵۶) اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں -ہم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاہتے ہیں مرتبہ دے دیتے ہیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نہیں کرتے
(۵۷) اور آخرت کا اجر تو ان لوگوں کے لئے بہترین ہے جو صاحبانِ ایمان ہیں اور خدا سے ڈرنے والے ہیں
(۵۸) اور جب یوسف کے بھائی مصر آئے اور یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے سب کو پہچان لیا اور وہ لوگ نہیں پہچان سکے
(۵۹) پھر جب ان کا سامان تیار کردیا تو ان سے کہا کہ تمہارا ایک بھائی اور بھی ہے اسے بھی لے آؤ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ میں سامان کی ناپ تول بھی برابر رکھتا ہوں اور مہمان نوازی بھی کرنے والا ہوں
(۶۰) اب اگر اسے نہ لے آئے تو آئندہ تمہیں بھی غلہ نہ دوں گا اور نہ میرے پاس آنے پاؤ گے
(۶۱) ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے باپ سے بات چیت کریں گے اور ضرور کریں گے
(۶۲) اور یوسف نے اپنے جوانوں سے کہا کہ ان کی پونجی بھی ان کے سامان میں رکھ دو شاید جب گھر پلٹ کر جائیں تو اسے پہچان لیں اور اس طرح شاید دوبارہ پلٹ کر ضرور آئیں
(۶۳) اب جو پلٹ کر باپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ بابا جان آئندہ ہمیں غلہ سے روک دیا گیا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھی بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ حاصل کرلیں اور اب ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں
(۶۴) یعقوب نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں تمہارے اوپر اسی طرح بھروسہ کریں جس طرح پہلے اس کے بھائی یوسف کے بارے میں کیا تھا -خیر خدا بہترین حفاظت کرنے والا ہے اور وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
(۶۵) پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی بضاعت (قیمت)واپس کردی گئی ہے تو کہنے لگا بابا جان اب ہم کیا چاہتے ہیں یہ ہماری پونجی بھی واپس کردی گئی ہے اب ہم اپنے گھر والوں کے لئے غلّہ ضرور لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بار اور بڑھوالیں گے کہ یہ بات اس کی موجودگی میں آسان ہے
(۶۶) یعقوب نے کہا کہ میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ خدا کی طرف سے عہد نہ کرو گے کہ اسے واپس ضرور لاؤ گے مگر یہ کہ تم ہی کو گھیر لیا جائے -اس کے بعد جب ان لوگوں نے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ اللہ ہم لوگوں کے قول و قرار کا نگراں اور ضامن ہے
(۶۷) اور پھر کہا کہ میرے فرزندو د یکھو سب ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا کہ میں خدا کی طرف سے آنے والی بلاؤں میں تمہارے کام نہیں آسکتا حکم صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسی پر سارے توکل کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہئے
(۶۸) اور جب وہ لوگ اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے والد نے کہا تھا اگرچہ وہ خدائی بلا کو ٹال نہیں سکتے تھے لیکن یہ ایک خواہش تھی جو یعقوب کے دل میں پیدا ہوئی جسے انہوں نے پورا کرلیا اور وہ ہمارے دئیے ہوئے علم کی بنا پر صاحبِ علم بھی تھے اگرچہ اکثر لوگ اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں
(۶۹) اور جب وہ لوگ یوسف کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس پناہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی «یوسف,, ہوں لہذا جو برتاؤ یہ لوگ کرتے رہے ہیں اب اس کی طرف سے رنج نہ کرنا
(۷۰) اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو
(۷۱) ان لوگوں نے مڑ کر دیکھا اور کہا کہ آخر تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے
(۷۲) ملازمین نے کہا کہ بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کا بار غلہ انعام ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں
(۷۳) ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم تمہیں تو معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں اور نہ ہم چور ہیں
(۷۴) ملازموں نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہے
(۷۵) ان لوگوں نے کہا کہ اس کی سزا خود وہ شخص ہے جس کے سامان میں سے پیالہ برآمد ہو ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو سزادیتے ہیں
(۷۶) اس کے بعد بھائی کے سامان سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی اور آخر میں بھائی کے سامان میں سے پیالہ نکال لیا اور اس طرح ہم نے یوسف کے حق میں تدبیر کی کہ وہ بادشاہ کے قانون سے اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا خود چاہے ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے درجات کو بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحب هعلم سے برتر ایک صاحب هعلم ہوتا ہے
(۷۷) ان لوگوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو کیا تعجب ہے اس کا بھائی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے -یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں حُھپالیا اور ان پر اظہار نہیں کیا کہاکہ تم بڑے برے لوگ ہو اور اللہ تمہارے بیانات کے بارے میں زیادہ بہتر جاننے والا ہے
(۷۸) ان لوگوں نے کہا کہ اے عزیز مصر اس کے والد بہت ضعیف العمر ہیں لہذا ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ پر لے لیجئے اور اسے چھوڑ دیجئے کہ ہم آپ کو احسان کرنے والا سمجھتے ہیں
(۷۹) یوسف نے کہا کہ خدا کی پناہ کہ ہم جس کے پاس اپنا سامان پائیں اس کے علاوہ کسی دوسرے کو گرفت میں لے لیں اور اس طرح ظالم ہوجائیں
(۸۰) اب جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو الگ جاکر مشورہ کرنے لگے تو سب سے بڑے نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے باپ نے تم سے خدائی عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں کوتاہی کرحُکے ہو تو اب میں تو اس سرزمین کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ والد محترم اجازت دے دیں یا خدا میرے حق میں کوئی فیصلہ کردے کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
(۸۱) ہاں تم لوگ باپ کی خدمت میں جاؤ اور عرض کرو کہ آپ کے فرزند نے چوری کی ہے اور ہم اسی بات کی گواہی دے رہے ہیں جس کا ہمیں علم ہے اور ہم غیب کی حفاظت کرنے والے نہیں ہیں
(۸۲) آپ اس بستی سے دریافت کرلیں جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھ لیں جس میں ہم آئے ہیں اور ہم بالکل سچےّ ہیں
(۸۳) یعقوب نے کہا کہ یہ تمہارے دل نے ایک نئی بات گڑھ لی ہے میں پھر بھی صبرجمیل اختیار کروں گا کہ شائد خدا ان سب کو لے آئے کہ وہ ہر شئے کا جاننے والا اور صاحب هحکمت ہے
(۸۴) ےہ کہہ کر انہوں نے سب سے منھ پھےر لیااور کہا کہ افسوس ہے یوسف کے حال پر اوراتناروئے کہ آنکھیں سفیدہو گئیں اور غم کے گھونٹ پیتے رہے
(۸۵) ان لوگوں نے کہا کہ آپ اسی طرح یوسف کویاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ بیمار ہوجائیں یا ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو جائیں
(۸۶) یعقوب نے کہا کہ میں اپنے حزن و غم اور اپنی بےقراری کی فریاد اللہ کی بارگاہ میں کر رہا ہوں اورا س کی طرف سے وہ سب جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو
(۸۷) میرے فرزندو جاؤ یوسف اور ان کے بھائی کو خوب تلاش کرو اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا ہے
(۸۸) اب جو وہ لوگ دوبارہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو بڑی تکلیف ہے اور ہم ایک حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں آپ ہمیں پورا پورا غلہ دے دیں اور ہم پر احسان کریں کہ خدا کا»خیر کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے
(۸۹) اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے جب کہ تم بالکل جاہل تھے
(۹۰) ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ?انہوں نے کہا کہ بیشک میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے -اللہ نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے اور جو کوئی بھی تقوٰی اور صبر اختیار کرتاہے اللہ نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے
(۹۱) ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم خدا نے آپ کو فضیلت اور امتیاز عطا کیا ہے اور ہم سب خطاکار تھے
(۹۲) یوسف نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے .خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے
(۹۳) جاؤ میری قمیض لے کر جاؤ اور بابا کے چہرہ پر ڈال دو کہ ان کی بصارت پلٹ آئے گی اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں کو ساتھ لے کر آنا
(۹۴) اب جو قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ان کے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں یوسف کی خوشبو محسوس کررہا ہوں اگر تم لوگ مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو
(۹۵) ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنی پرانی گمراہی میں مبتلا ہیں
(۹۶) اس کے بعد جب بشیر نے آکر قمیض کو یعقوب کے چہرہ پر ڈال دیا تو دوبارہ صاحب هبصارت ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو
(۹۷) ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے
(۹۸) انہوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
(۹۹) اس کے بعد جب وہ لوگ سب یوسف کے یہاں حاضر ہوئے تو انہوں نے ماں باپ کو اپنے پہلو میں جگہ دی اور کہا کہ آپ لوگ مصر میں انشائ اللہ بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ داخل ہوں
(۱۰۰) اور انہوں نے والدین کو بلند مقام پر تخت پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑے یوسف نے کہا کہ بابا یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا ہے اور اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے کہ مجھے قید خانہ سے نکال لیا اور آپ لوگوں کو گاؤں سے نکال کر مصر میں لے آیا جب کہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کرچکا تھا -بیشک میرا پروردگار اپنے ارادوں کی بہترین تدبیر کرنے والا اور صاحب هعلم اور صاحب هحکمت ہے
(۱۰۱) پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا -تو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دنیا وآخرت میں میرا ولی اور سرپرست ہے مجھے دنیا سے فرمانبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا
(۱۰۲) پیغمبر !سب غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچا رہے ہیں ورنہ آپ تو اس وقت نہ تھے جب وہ لوگ اپنے کام پر اتفاق کررہے تھے اور یوسف کے بارے میں بری تدبیریں کررہے تھے
(۱۰۳) اور آپ کسی قدر کیوں نہ چاہیں انسانوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے
(۱۰۴) اور آپ ان سے تبلیغ رسالت کی اجرت تو نہیں مانگتے ہیں یہ قرآن تو عالمین کے لئے ایک ذکر اور نصیحت ہے
(۱۰۵) اور زمین و آسمان میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے لوگ گزر جاتے ہیں اور کنارہ کش ہی رہتے ہیں
(۱۰۶) اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ
(۱۰۷) تو کیا یہ لوگ اس بات کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ کہیں ان پر عذاب الٰہی آکر چھاجائے یا اچانک قیامت آجائے اور یہ غافل ہی رہ جائیں
(۱۰۸) آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے اور خدا پاک و بے نیازہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں
(۱۰۹) اور ہم نے آپ سے پہلے ان ہی مذِدوں کو رسول بنایا ہے جو آبادیوں میں رہنے والے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی بھی کی ہے تو کیا یہ لوگ زمین میں سیر نہیں کرتے کہ دیکھیں کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے اور دا» آخرت صرف صاحبانِ تقوٰی کے لئے بہترین منزل ہے -کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہو
(۱۱۰) یہاں تک کہ جب ان کے انکار سے مرسلین مایوس ہونے لگے اور ان لوگوں نے سمجھ لیاکہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے تو ہماری مدد مرسلین کے پاس آگئی اور ہم نے جن لوگوں کو چاہا انہیں نجات دے دی اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پلٹایا نہیں جاسکتا ہے
(۱۱۱) یقینا ان کے واقعات میں صاحبانِ عقل کے لئے سامان هعبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبِ ایمان قوم کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہے