قرآن کریم اردو میں

قرآن کریم اردو میں  7%

قرآن کریم اردو میں  : مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات: متن قرآن اور ترجمہ

قرآن کریم اردو میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 82 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54289 / ڈاؤنلوڈ: 5812
سائز سائز سائز
قرآن کریم اردو میں

قرآن کریم اردو میں

اردو

1

سورہ مائدہ

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

(۱) ایمان والو اپنے عہد و پیمان اور معاملات کی پابندی کرو تمہارے لئے تمام چوپائے حلال کردیئے گئے ہیں علاوہ ان کے جوتمہیں پڑھ کر سنائے جارہے ہیں مگر حالاُ احرام میں شکار کو حلال مت سمجھ لینا بے شک اللہ جو چاہتا حکم دیتا ہے

(۲) ایمان والو !خبردار خدا کی نشانیوں کی حرمت کو ضائع نہ کرنا اور نہ محترم مہینے. قربانی کے جانور اور جن جانوروں کے گلے میں پٹےّ باندھ دیئے گئے ہیں اور جو لوگ خانہ خدا کا ارادہ کرنے والے ہیں اور فرض پروردگار اور رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں ان کی حرمت کی خلاف ورزی کرنا اور جب احرام ختم ہوجائے تو شکار کرو اور خبردار کسی قوم کی عداوت فقط اس بات پر کہ اس نے تمہیں مسجدالحرام سے روک دیا ہے تمہیں ظلم پر آمادہ نہ کردے --نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے

(۳) تمہارے اوپر حرام کردیا گیا ہے مردار -خون - سور کا گوشت اور جو جانور غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اورمنخنقہ اور موقوذہً اور متردیہ اور نطیحہ اور جس کو درندہ کھا جائے مگریہ کہ تم خود ذبح کرلو اور جو نصاب پر ذبح کیا جائے اور جس کی تیروں کے ذریعہ قرعہ اندازی کرو کہ یہ سب فسق ہے اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

(۴) پیغمبر یہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور جو کچھ تم نے شکاری کتوں کو سکھا رکھا ہے اور خدائی تعلیم میں سے کچھ ان کے حوالہ کر دیاہے تو جو کچھ وہ پکڑ کے لائیں اسے کھالو اور اس پر نام خدا ضرور لو اور اللہ سے ڈرو کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے

(۵) آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا طعام بھی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا طعام ان کے لئے حلال ہے اور اہلِ ایمان کی آزاد اور پاک دامن عورتیں یا ان کی آزاد عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے تمہارے لئے حلال ہے بشرطیکہ تم ان کی اجرت دے دو پاکیزگی کے ساتھ -نہ کھّلم کھلاّ زنا کی اجرت کے طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر دوستی کے انداز سے اور جو بھی ایمان سے انکار کرے گا اس کے اعمال یقینا برباد ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں گھاٹا اُٹھانے والوں میں ہوگا

(۶) ایمان والو جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ اور اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرو اور اگر مریض ہو یا سفر کے عالم میں ہو یا پیخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یا عورتوں کو باہم لمس کیاہے اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو -اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلو کہ خدا تمہارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا. بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے شاید تم اس طرح اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ

(۷) اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت اور اس کے اس عہد کو یاد کرو جو اس نے تم سے لیاہے جب تم نے یہ کہاکہ ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اور خبردار اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ دل کے رازوں کا بھی جاننے والا ہے

(۸) ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللرُسے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے

(۹) اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اج» عظیم ہے

(۱۰) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کی تکذیب کی وہ سب کے سب جہّنمی ہیں

(۱۱) ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب ایک قوم نے تمہاری طرف ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیاتو خدا نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ صاحبان ایمان اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں

(۱۲) اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب بھیجے اور خدا نے یہ بھی کہہ دیاکہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوِٰ ادا کی اور ہمارے رسولوں پر ایمان لے آئے اور ان کی مدد کی اور خدا کی راہ میں قرض حسنہ دیاتو ہم یقینا تمہاری برائیوں سے درگزر کریں گے اور تمہیں ان باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی -پھر جو اس کے بعد کفر کرے گا تو وہ بہت اِرے راستہ کی طرف بہک گیا ہے

(۱۳) پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہوگے علاوہ چند افراد کے لہذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے

(۱۴) اور جن لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نصرانی ہیں ہم نے ان سے بھی عہد لیا اور انہوں نے بھی ہماری نصیحت (انجیل)کے ایک حصّہ کو فراموش کردیا تو ہم نے بطور سزا ان کے درمیان عداوت اور بغض کو قیامت تک کے لئے راستہ دے دیا اور عنقریب خدا انہیں ان باتوں سے باخبر کرے گا جو وہ انجام دے رہے تھے

(۱۵) اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو اُن میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کررہا ہے جن کو تم کتاب خدا میں سے چھاَپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتا ہے تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے

(۱۶) جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے

(۱۷) یقینا وہ لوگ کافر ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ مسیح علیہ السّلام ابن مریم ہی اللہ ہیں -پیغمبر آپ ان سے کہئے کہ پھر خدا کے مقابلہ میں کون کسی امر کا صاحبِ اختیار ہوگا اگر وہ مسیح علیہ السّلام بن مریم اور ان کی ماں اور سارے اہل زمین کو مار ڈالنا چاہے اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل حکومت ہے -وہ جسے بھی چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے

(۱۸) اور یہودیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم اللہ کے فرزند اور اس کے دوست ہیں تو پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ پھر خدا تم پر تمہارے گناہوں کی بنا پر عذاب کیوں کرتا ہے بلکہ تم اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو اور وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے عذاب کرتا ہے اور اس کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل کائنات ہے اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے

(۱۹) اے اہلِ کتاب تمہارے پاس رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد ہمارا یہ رسول آیا ہے کہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا تھا تو لو یہ بشیر و نذیر آگیا ہے اور خدا ہر شے پر قادر ہے

(۲۰) اور اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم میں انبیائ قرار دئیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ سب کچھ دے دیا جو عالمین میں کسی کو نہیں دیا تھا

(۲۱) اور اے قوم اس ارعَ مقدس میں داخل ہوجاؤ جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور میدان سے اُلٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ کہ اُلٹے خسارہ والوں میں سے ہوجاؤ گے

(۲۲) ان لوگوں نے کہا کہ موسٰی علیہ السّلام وہاں تو جابروں کی قوم آباد ہے اور ہم اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں پھر اگر وہ نکل گئے تو ہم یقینا داخل ہوجائیں گے

(۲۳) مگر دو انسان جنہیں خدا کا خوف تھا اور ان پر خدا نے فضل و کرم کیا تھا انہوں نے کہا کہ ان کے دروازے سے داخل ہوجاؤ -اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو یقینا غالب آجاؤ گے اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم صاحبانِ ایمان ہو

(۲۴) ان لوگوں نے کہا کہ موسٰی علیہ السّلام ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں ہیں -آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جاکر جنگ کیجئے ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں

(۲۵) موسٰی علیہ السّلام نے کہا پروردگار میں صرف اپنی ذات اور اپنے بھائی کا اختیار رکھتا ہوں لہذا ہمارے اور اس فاسق قوم کے درمیان جدائی پیدا کردے

(۲۶) ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کردئیے گئے کہ یہ زمین میں چکرّ لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو

(۲۷) اور پیغمبر علیہ السّلام آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا ّقصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان ه تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے

(۲۸) اگر آپ میری طرف قتل کے لئے ہاتھ بڑھائیں گے بھی تو میں آپ کی طرف ہرگز ہاتھ نہ بڑھاؤں گا کہ میں عالمین کے پالنے والے خدا سے ڈرتا ہوں

(۲۹) میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اور اپنے دونوں کے گناہوں کا مرکز بن جائیے اور جہنمیوں میں شامل ہوجائیے کہ ظالمین کی یہی سزا ہے

(۳۰) پھر اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا

(۳۱) پھر خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھود رہا تھا کہ اسے دکھلائے کہ بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے گا تو اس نے کہا کہ افسوس میں اس کوّے کے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں چھاَپا دیتا اور اس طرح وہ نادمین اور پشیمان لوگوں میں شامل ہوگیا

(۳۲) اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی اور بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے

(۳۳) بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ اور پیر مختلف سمت سے قطع کردئیے جائیں یا انہیں ارض ه وطن سے نکال باہر کیا جائے .یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب هعظیم ہے

(۳۴) علاوہ ان لوگوں کے جو تمہارے قابو میں آنے سے پہلے ہی توبہ کرلیں تو سمجھ لو کہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے

(۳۵) ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ

(۳۶) یقینا جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اگر ان کے پاس ساری زمین کا سرمایہ ہو اور اتنا ہی اور شامل کردیں کہ روز هقیامت کے عذاب کا بدلہ ہوجائے تو یہ معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا

(۳۷) یہ لوگ چاہتے ہیں جہّنم سے نکل جائیں حالانکہ یہ نکلنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ایک مستقل عذاب ہے

(۳۸) چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے بدلہ اور خدا کی طرف سے ایک سزا ہے اور خدا صاحبِ عزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے

(۳۹) پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے

(۴۰) کیا تم کو نہیں معلوم کہ زمین و آسمان کا ملک صرف خدا ہی کے لئے ہے وہ جس پر چاہتا ہے عذاب کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر و مختار ہے

(۴۱) اے رسول ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں جو لوگ کفر کی طرف جلد بازی سے بڑھ رہے ہیں ان کی حرکات سے آپ رنجیدہ نہ ہوں -یہ صرف زبان سے ایمان کا نام لیتے ہیں اور ان کے دل مومن نہیں ہیں اور یہودیوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جھوٹی باتیں سنتے ہیں اور دوسری قوم والے جو آپ کے پاس حاضر نہیں ہوئے انہیں سناتے ہیں - یہ کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر پیغمبر کی طرف سے یہی دیا جائے تو لے لینا اور اگر یہ نہ دیا جائے تو پرہیز کرنا اور جس کے فتنہ کے بارے میں خدا ارادہ کرلے اس کے بارے میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے یہ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں خدا نے یہ ارادہ ہی نہیں کیا کہ زبردستی ان کے دلوں کو پاک کردے گا -ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی عذابِ عظیم ہے

(۴۲) یہ جھوٹ کے سننے والے اور حرام کے کھانے والے ہیں لہذا اگر آپ کے پاس مقدمہ لے کر آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ فیصلہ کردیں یا اعراض کرلیں کہ اگر اعراض بھی کرلیں گے تو یہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے لیکن اگر فیصلہ ہی کریں تو انصاف کے ساتھ کریں کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے

(۴۳) اور یہ کس طرح آپ سے فیصلہ کرائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میں حکهِ خدا بھی ہے اور یہ اس کے بعد بھی منہ پھیر لیتے ہیں اور پھر ایمان لانے والے نہیں ہیں

(۴۴) بیشک ہم نے توریت کو نازل کیا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبیائ یہودیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ والے اور علمائے یہود اس چیز سے فیصلہ کرتے ہیں جس کا کتاب خدا میں ان کو محافظ بنایا گیا ہے اور جس کے یہ گواہ بھی ہیں لہذا تم ان لوگوں سے نہ ڈرو صرف ہم سے ڈرو اور خبردار تھوڑی سی قیمت کے لئے ہماری آیات کا کاروبار نہ کرنا اور جو بھی ہمارے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے

(۴۵) اور ہم نے توریت میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گا اب اگر کوئی شخص معاف کردے تو یہ اس کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا اور جو بھی خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ ظالموں میں سے شمار ہوگا

(۴۶) اور ہم نے ان ہی انبیائ کے نقشِ قدم پر عیسٰی علیہ السّلام بن مریم کو چلادیا جو اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انہیں انجیل دے دی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ اپنے سامنے کی توریت کی تصدیق کرنے والی اور ہدایت تھی اور صاحبانِ تقوٰی کے لئے سامانِ نصیحت تھی

(۴۷) اہلِ انجیل کو چاہئے کہ خدا نے جو حکم نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں کہ جو بھی تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ فاسقوں میں شمار ہوگا

(۴۸) اور اے پیغمبر ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے جو اپنے پہلے کی توریت اور انجیل کی لَصدق اور محافظ ہے لہذا آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق سے الگ ہوکر ان کی خواہشات کا اتباع نہ کریں .ہم نے سب کے لئے الگ الگ شریعت اور راستہ مقرر کردیا ہے اور خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ اپنے دئیے ہوئے قانون سے تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے لہذا تم سب نیکیوں کی طرف سبقت کرو کہ تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے -وہاں وہ تمہیں ان تمام باتوں سے باخبر کرے گا جن میں تم اختلاف کررہے تھے

(۴۹) اور پیغمبر آپ ان کے درمیان تنزیلِ خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کا اتباع نہ کریں اور اس بات سے بچتے رہیں کہ یہ بعض احکام الٰہی سے منحرف کردیں -پھر اگر یہ خود منحرف ہوجائیں تو یاد رکھیں کہ خدا ان کو ان کے بعض گناہوں کی مصیبت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور انسانوں کی اکثریت فاسق اور دائرسِ اطاعت سے خارج ہے

(۵۰) کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں جب کہ صاحبانِ یقین کے لئے اللہ کے فیصلہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے

(۵۱) ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہوجائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے

(۵۲) پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جارہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے -پس عنقریب خدا اپنی طرف سے فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہوجائیں گے

(۵۳) اور صاحبان ایمان کہیں گے کہ کیا یہی لوگ ہیں جنہوں نے نام ه خدا پر سخت ترین قسمیں کھائی تھیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تو اب ان کے اعمال برباد ہوگئے اور یہ خسارہ والے ہوگئے

(۵۴) ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا ...تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحبِ عزت, راسِ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی -یہ فضلِ خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحبِ وسعت اور علیم و دانا بھی ہے

(۵۵) ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں

(۵۶) اور جو بھی اللہ ,رسول اور صاحبانِ ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو اللہ کی ہی جماعت غالب آنے والی ہے

(۵۷) ایمان والو خبردار اہل ه کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تماشہ بنالیا ہے اور دیگر کفار کو بھی اپنا ولی اور سرپرست نہ بنانا اور اللہ سے ڈرتے رہنا اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو

(۵۸) اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذا ق اور کھیل بنالیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں

(۵۹) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اے اہلِ کتاب کیا تم ہم سے صرف اس بات پر ناراض ہوکہ ہم اللہ اور اس نے جو کچھ ہماری طرف یا ہم سے پہلے نازل کیا ہے ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور تمہاری اکثریت فاسق اور نافرمان ہے

(۶۰) کیا ہم تم کو خدا کے نزدیک ایک منزل کے اعتبار سے اس سے بدتر عیب کی خبر دیں کہ جس پر خد انے لعنت اور غضب نازل کیا ہے اوران میں سے بعض کو بندر اور سور بنادیا ہے اور جس نے بھی طاغوت کی عبادت کی ہے وہ جگہ کے اعتبار سے بدترین اور سیدھے راستہ سے انتہائی بہکا ہوا ہے

(۶۱) اور یہ جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ یہ کفر ہی کے ساتھ داخل ہوئے ہیں اور اسی کو لے کر نکلے ہیں اور خدا ان سب باتوں کو خوب جانتا ہے جن کو یہ چھپائے ہوئے ہیں

(۶۲) ان میں سے بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ گناہ اور ظلم اور حرام خوری میں دوڑتے پھرتے ہیں اور یہ بدترین کام انجام دے رہے ہیں

(۶۳) آخر انہیں اللہ والے اور علمائ ان کے جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے -یہ یقینا بہت برا کررہے ہیں

(۶۴) اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جب کہ اصل میں ان ہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بنا پر ملعون ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتاہے اور جو کچھ آپ پر پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کا انکار ان میں سے بہت سوں کے کفر اور ان کی سرکشی کو اور بڑھادے گا اور ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے عداوت اور بغض پیدا کردیا ہے کہ جب بھی جنگ کی آگ بھڑکانا چاہیں گے خدا بجھا دے گا اور یہ زمین میں فساد کی کوشش کررہے ہیں اور خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا

(۶۵) اور اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور ہم سے ڈرتے رہتے تو ہم ان کے گناہوں کو معاف کردیتے اور انہیں نعمتوں کے باغات میں داخل کردیتے

(۶۶) اور اگر یہ لوگ توریت و انجیل اور جو کچھ ان کی طرف پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے سب کو قائم کرتے تو اپنے اوپر اور قدموں کے نیچے سے رزق خدا حاصل کرتے ,ان میں سے ایک قوم میانہ رو ہے اور زیادہ حصّہ لوگ بدترین اعمال انجام دے رہے ہیں

(۶۷) اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے

(۶۸) کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے جب تک توریت و انجیل اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے قائم نہ کرو اور جو کچھ آپ کے پاس پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ ان کی کثیر تعداد کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کردے گا تو آپ کافروں کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں

(۶۹) بیشک جو لوگ صاحبِ ایمان ہیں یا یہودی اور ستارہ پرست اور عیسائی ہیں ان میں سے جو بھی اللہ اور آخرت پر واقعی ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اس کے لئے نہ خوف ہے اور نہ اُسے حزن ہوگا

(۷۰) ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ہے اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے ہیں لیکن جب ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہش کے خلاف حکم لے آیا تو انہوں نے ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کردیتے ہیں

(۷۱) اور ان لوگوں نے خیال کیا کہ اس میں کوئی خرابی نہ ہوگی اسی لئے یہ حقائق سے اندھے اور بہرے ہوگئے ہیں -اس کے بعد خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی لیکن پھر بھی اکثریت اندھی بہری ہوگئی اور خدا ان کے تمام اعمال پر گہری نگاہ رکھتا ہے

(۷۲) یقینا وہ لوگ کافر ہیں جن کا کہنا ہے کہ اللہ ہی مسیح علیہ السّلام بن مریم ہیں جبکہ خود مسیح کا کہنا ہے کہ اے بنی اسرائیل اپنے اور میرے پروردگار کی عبادت کرو -جو کوئی اس کا شریک قرار دے گا اس پر خدا نے جنّت حرام کردی ہے اور اس کا انجام جہّنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا

(۷۳) یقینا وہ لوگ کافر ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنے قول سے باز نہ آئیں گے تو ان میں سے کِفر اختیار کرنے والوں پر دردناک عذاب نازل ہوجائے گا

(۷۴) یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں توبہ اور استغفار کیوں نہیں کرتے جب کہ اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

(۷۵) مسیح علیہ السّلام بن مریم کچھ نہیں ہیں صرف ہمارے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ تھیں اور وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے دیکھو ہم اپنی نشانیوں کو کس طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں اور پھر دیکھو کہ یہ لوگ کس طرح بہکے جارہے ہیں

(۷۶) پیغمبر آپ ان سے کہئے کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے لئے نفع اور نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں اور خدا سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے

(۷۷) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اے اہلِ هکتاب اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو اور اس قوم کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو پہلے سے گمراہ ہوچکی ہے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ بھی کرچکی ہے اور سیدھے راستہ سے بہک چکی ہے

(۷۸) بنی اسرائیل میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر جناب داؤد علیہ السّلام اور جناب عیسٰی علیہ السّلام کی زبان سے لعنت کی جاچکی ہے کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور ہمیشہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے

(۷۹) انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے

(۸۰) ان میں سے اکثر کو آپ دیکھیں گے کہ یہ کفار سے دوستی کرتے ہیں -انہوں نے اپنے نفس کے لئے جو سامان پہلے سے فراہم کیا ہے وہ بہت اِرا سامان ہے جس پر خدا ان سے ناراض ہے اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں

(۸۱) اگر یہ لوگ اللرُ اور نبی موسٰی علیہ السّلام اور جو کچھ ان پر نازل ہوا ہے سب پر ایمان رکھتے تو ہرگز کفاّر کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے بہت سے لوگ فاسق اور نافرمان ہیں

(۸۲) آپ دیکھیں گے کہ صاحبانِ ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں ...._ یہ اس لئے ہے کہ ان میں بہت سے قسیس اور راہب پائے جاتے ہیں اور یہ متکبر اور برائی کرنے والے نہیں ہیں

(۸۳) اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے اور کہتے ہیں کہ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہیں لہذا ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں درج کرلے

(۸۴) بھلا ہم اللہ اور اپنے پاس آنے والے حق پر کس طرح ایمان نہ لائیں گے جب کہ ہماری خواہش ہے کہ پروردگار ہمیں نیک کردار بندوں میں شامل کرلے

(۸۵) تو اس قول کی بنا پر پروردگار نے انہیں وہ باغات دے دئیے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ انہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں کہ یہی نیک کردار لوگوں کی جزا ہے

(۸۶) اور جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا اور ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو وہ لوگ جہنّمی ہیں

(۸۷) ایمان والو جن چیزوں کو خدا نے تمہارے لئے حلال کیا ہے انہیں حرام نہ بناؤ اور حد سے تجاوز نہ کرو کہ خدا تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے

(۸۸) اور جو اس نے رزق حلال و پاکیزہ دیا ہے اس کو کھاؤ اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس پر ایمان رکھنے والے ہو

(۸۹) خدا تم سے بے مقصد قسمیں کھانے پر مواخذہ نہیں کرتا ہے لیکن جن قسموں کی گرہ دل نے باندھ لی ہے ان کی مخالفت کا کفارہ دس مسکینوں کے لئے اوسط درجہ کا کھانا ہے جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کی آزادی ہے پھر اگر یہ سب ناممکن ہو تو تین روزے رکھو ...._ کہ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب بھی تم قسم کھا کر اس کی مخالفت کرو اپنی قسموں کا تحفظ کرو کہ خدا اس طرح اپنی آیات کو واضح کرکے بیان کرتا ہے کہ شاید تم اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ

(۹۰) ایمان والو !شرابً جوا ,بت ,پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو

(۹۱) شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے بارے میں تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روک دے تو کیا تم واقعا رک جاؤ گے

(۹۲) اور دیکھو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچتے رہو ورنہ اگر تم نے روگردانی کی توجان لو کہ رسول کی ذمہ داری صرف واضح پیغام کا پہنچادینا ہے

(۹۳) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے جو کچھ کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ متقی بن گئے اور ایمان لے آئے اور نیک اعمال کئے اور پرہیز کیااور ایمان لے آئے اور پھر پرہیز کیا اور نیک عمل کیا اور نیک اعمال کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے

(۹۴) ایمان والو !اللہ ان شکاروں کے ذریعہ تمہارا امتحان ضرور لے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچ جاتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھے کہ اس سے لوگوں کے غائبانہ میں بھی کون کون ڈرتا ہے پھر جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب ہے

(۹۵) ایمان والو حالاُ احرام میں شکار کو نہ مارو اور جو تم میں قصدا ایسا کرے گا اس کی سزا انہی جانوروں کے برابر ہے جنہیں قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل افراد کریں اور اس قربانی کو کعبہ تک جانا چاہئے یا مساکین کے کھانے کی شکل میں کفارہ دیا جائے یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں تاکہ اپنے کام کے انجام کا مزہ چکھیں -اللہ نے گزشتہ معاملات کو معاف کردیا ہے لیکن اب جو دوبارہ شکار کرے گا تو اس سے انتقام لے گا اور وہ سب پر غالب آنے والا اور بدلہ لینے والا ہے

(۹۶) تمہارے لئے دریائی جانور کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے کہ تمہارے لئے اور قافلوں کے لئے فائدہ کا ذریعہ ہے اور تمہارے لئے خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے جب تک حالت احرام میں رہو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے

(۹۷) اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اور محترم مہینے کو اور قربانی کے عام جانوروں کو اور جن جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال دیا گیا ہے سب کو لوگوں کے قیام و صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ تمہیں یہ معلوم رہے کہ اللہ زمین و آسمان کی ہر شے سے باخبر ہے اور وہ کائنات کی ہر شے کا جاننے والا ہے

(۹۸) یاد رکھو خدا سخت عذاب کرنے والا بھی ہے اور غفور و رحیم بھی ہے

(۹۹) اور رسول پر تبلیغ کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اللہ سے جن باتوں کا تم اظہار کرتے ہو یا چھپاتے ہو سب سے باخبر ہے

(۱۰۰) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ خبیث اور پاکیزہ برابر نہیں ہوسکتے ,چاہے خبیث کی کثرت اچھی ہی کیوں نہ لگے صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کامیاب ہوجاؤ

(۱۰۱) ایمان والو ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تم پر ظاہر ہوجائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر نزول قرآن کے وقت دریافت کرلو گے تو ظاہر بھی کردی جائیں گی اور اب تک کی باتوں کواللہ نے معاف کردیا ہے کہ وہ بڑا بخشنے والا اور برداشت کرنے والا ہے

(۱۰۲) تم سے سے پہلے والی قوموں نے بھی ایسے ہی سوالات کئے اور اس کے بعد پھر کافر ہوگئے

(۱۰۳) اللہ نے بحیرہ ,سائبہ ,وصیلہ اور ہام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں

(۱۰۴) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خد اکے نازل کئے ہوئے احکام اور اس کے رسول کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباؤ و اجداد کو پایا ہے چاہے ان کے آباؤ و اجداد نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ کسی طرح کی ہدایت کرتے ہوں

(۱۰۵) ایمان والو اپنے نفس کی فکر کرو -اگر تم ہدایت یافتہ رہے تو گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی -تم سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال سے باخبر کرے گا

(۱۰۶) ایمان والو جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو گواہی کا خیال رکھنا کہ وصیت کے وقت دو عادل گواہ تم میں سے ہوں یا پھر تمہارے غیر میں سے ہوں اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہیں موت کی مصیبت نازل ہوجائے ان دونوں کو نماز کے بعد روک کر رکھو پھر اگر تمہیں شک ہو تو یہ خدا کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی سے کسی طرح کا فائدہ نہیں چاہتے ہیں چاہے قرابتدار ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو اور نہ خدائی شہادت کو چھپاتے ہیں کہ اس طرح ہم یقینا گناہگاروں میں شمار ہوجائیں گے

(۱۰۷) پھر اگر معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں گناہ کے حقدار ہوگئے ہیں تو ان کی جگہ دو دوسرے آدمی کھڑے ہوں گے ان افراد میں سے جو میت سے قریب تر ہیں اور وہ قسم کھائیں گے کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ صحیح ہے اور ہم نے کسی طرح کی زیادتی نہیں کی ہے کہ اس طرح ظالمین میں شمار ہوجائیں گے

(۱۰۸) یہ بہترین طریقہ ہے کہ شہادت کو صحیح طریقہ سے پیش کریں یا اس بات سے ڈریں کہ کہیں ہماری گواہی دوسروں کی گواہی کے بعد رد نہ کردی جائے اوراللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی سنو کہ وہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے

(۱۰۹) جس دن خدا تمام مرسلین کو جمع کرکے سوال کرے گا کہ تمہیں قوم کی طرف سے تبلیغ کا کیا جواب ملا تو وہ کہیں گے کہ ہم کیا بتائیں تو خود ہی غیب کا جاننے والا ہے

(۱۱۰) جب عیسی بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو عطا کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری تائید کی، تم گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور تم مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت تم سے روک رکھا جب تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے

(۱۱۱) اور جب ہم نے حواریین کی طرف الہام کیا کہ ہم پر اور ہمارے رسولوں پر ایمان لے آؤ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے اور تو گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں

(۱۱۲) اور جب حواریین نے کہا کہ اے عیسٰی بن مریم کیا تمہارے رب میں یہ طاقت بھی ہے کہ ہمارے اوپر آسمان سے دسترخوان نازل کردے تو انہوں نے جواب دیا کہ تم اگر مومن ہو تو اللہ سے ڈرو

(۱۱۳) ان لوگوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں اور اطمینان قلب پیدا کریں اور یہ جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم خود بھی اس کے گواہوں میں شامل ہوجائیں

(۱۱۴) عیسٰی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار !ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے

(۱۱۵) پروردگار نے کہا کہ ہم نازل تو کررہے ہیں لیکن اس کے بعد جو تم میں سے انکار کرے گا اس پر ایسا عذاب نازل کریں گے کہ عالمین میں کسی پر نہیں کیا ہے

(۱۱۶) اور جب اللہ نے کہا کہ اے عیسٰی بن مریم کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کو مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو تو عیسٰی نے عرض کی کہ تیری ذات بے نیاز ہے میں ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور اگر میں نے کہا تھا تو تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تو میرے دل کا حال جانتا ہے اور میں تیرے اسرار نہیں جانتا ہوں -تو ,تو غیب کا جاننے والا بھی ہے

(۱۱۷) میں نے ان سے صرف وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ میری اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کا گواہ اور نگراں رہا -پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ان کا نگہبان ہے اور تو ہر شے کا گواہ اور نگراں ہے

(۱۱۸) اگر تو ان پر عذاب کرے گا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر معاف کردے گا تو صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے

(۱۱۹) اللہ نے کہا کہ یہ قیامت کا دن ہے جب صادقین کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا کہ ان کے لئے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے -خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے

(۱۲۰) اللہ کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل حکومت ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے

انتظار

سارے کے سارے مسلمان ایک ایسے "مصلح" کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:۔

(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہم یشہ کے لئے تہ کرنا۔

(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔

(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔

(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔

(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔

(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔

اس عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (عج) ہے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں ہے۔

اس کتابچے کی تالیف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جائے، کیونکہ ہر ایک خصوصیت ایسی ہے جس کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ "انتظار" کے اثرات کو دیکھا جائے اور یہ پہچانا جاسکے کہ صحیح معنوں میں منتظر کون ہے اور صرف زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، یہ انتظار کو ایک عظیم عبادت کیوں شمار کیا جاتا ہے۔؟

غلط فیصلے

سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انتطار کا عقیدہ، کیا ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یا یہ عقیدہ شکست خوردہ انسانوں کی فکر کا نتیجہ ہے۔؟ یا یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے، یا یہ عقیدہ انسانوں کے اوپر لادا گیا ہے۔؟

بعض مستشرقین کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔

بعض مغرب زدہ ذہنیتوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہودی اور عیسائی طرز فکر سے حاصل کیا گیا ہے۔

مادّہ پرست اشخاص کا کہنا ہے ک اس عقیدے کی اصل و اساس اقتصادیات سے ہے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور کمزوروں کو بہلانے کے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے ک اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے ہے اور یہ ایک خالصِ اسلامی نظریہ ہے، دوسرے نظریات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس عقیدہ کے بارے میں اظھار رائے کیا ہے، اگر ان کو متعصب اور منافع پرست نہ کہا جاسکے تو یہ بات بہر حال مانی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ محدود ہیں۔ ان محدود معلومات کی بنا پر یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنے کو اس بات کا مستحق قرار دے لیتے ہیں کہ اسلامی مسائل کے بارے میں اظھار نظر کریں، اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ محدود معلومات کی بنیادوں پر ایک آخری نظریہ قائم کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے، آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو مسئلے کے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ہو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم یں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے، ہم ارا سوال تو صرف یہ ہے کہ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس عقیدے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں وہ ہم یشہ رنج و محن کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں مصائب برداشت کرتے گذرتی ہیں ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں، فساد کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ہیں اور اس کی سعی و کوشش بھی نہیں کرتے کہ فساد ختم بھی ہوسکتا ہے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایسے عقیدے رکھنے والوں کو ایسی کوئی فکر ہی نہیں۔

اس عقیدے کی بنیاد جو بھی ہو مگر اس کے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ہیں یہ عقیدہ انسان کو اور زیادہ کاہل بنا دیتا ہے۔

اگر ایک دانش ور کسی مسئلے میں فیصلہ کرنا چاھتا ہے اور صحیح نظریہ قائم کرنا چاھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کے اطراف و جوانب کا باقاعدہ مطالعہ کرے، اس کے بعد ہی کوئی صحیح نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔

آئیے پہلے ہم خود اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کے افکار کا نتیجہ ہے؟ یا اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہے؟ یا پھر اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے؟ اس عقیدے کے اثرات مفید ہیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ہے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ہے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ہے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ہوئی ہے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ہے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ہے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ہی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ہے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں کمال نمایاں ہوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ہے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ہیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے فطری ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ہوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ہے وہی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ہے۔

کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ہے جو ہم یشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ہے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ہے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ہے۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ہو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ہو۔

اب یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی بدن کا ہر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ہوتا ہے ہم یں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ہو، ہر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ہے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ہلاکت سے بچاتی ہے اور انسان کے لئے ایک سپر ہے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے

غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ہے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ہونے سے بچا تا ہے اور فائدہ کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو کمالات کی طرف انسان کی رہبری کرتے ہیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی بناء پر وہ ہم یشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ہے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ہے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماہتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ہے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ہے۔

اسی بناء پر جب ہم یں پیاس لگتی ہے تو ہم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اسی جذبے کے تحت ہم یں اس بات کا یقین ہے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ہے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ہوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو ہرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہ ہوگی کہ پانی کا وجود نہیں ہے، پانی کا وجود ہے البتہ ہم اری سعی و کوشش ناقص ہے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ہوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رہا ہے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ہے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ہے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ہے۔

عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اور صرف مسلمانوں ہی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اقتصادیات کی پیداوار ہے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ہیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر قوم و ملّت اور ہر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ہے جب اس کا ظھور ہوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ہوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذہنیت کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ہے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ہے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ہے۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب سے اس کو اخذ کیا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ہے۔ ان لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ہے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ہے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ہے۔

اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ہے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ہے۔

یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ہی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ "اسلام شناسی" کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ہم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

ہم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ہیں، ہر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "انتظار" کا شمار ان مسائل میں ہے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے "تواتر" سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور سب ہی نے ان روایات کے "متواتر" ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ہاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ہے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ہوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ہے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ہے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ہیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم یت کا حامل ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ہیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اس ادارے کے جنرل سکریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ہے کہ وھابی فرقے کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات کو قبول کیا ہے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ہے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ہے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں: ۔۔۔۔

عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ہے۔ آپ کے والد کا نام "عبد اللہ" ہے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ہوگی۔ ہر طرف ضلالت و گمراہی کی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ہوگا۔"

رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ہوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ہیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ہے۔"

حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:۔

(۱) علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالک، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ہے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے:۔

سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔

علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم

القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی

التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی

المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی

الوہم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی

مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماہنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، ہر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ہے:۔

۱۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں

۲۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں

۳۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں

۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں

۵۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں

۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں

۷۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں

۸۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں

۹۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں

۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوہم المکنون میں

ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ہے) کے ہم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ہے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوہم المکنون تحریر کی ہے۔ یہ کتاب تقریباً ۳۰ برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ہوچکی ہے۔

حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ان تمام باتوں کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اہل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے اور ان کے عقائد میں سے ایک ہے۔

ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ہیں جو روایات سے بے خبر ہیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ہیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)"

سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی

محمد منتصر کنانی

اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے کسی بھی دوسرے مذہب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

ایک بات ضرور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہے

اس شبہ کی وجہ وہ روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "اسم ابیه اسم ابی " (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ہے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ہے، صرف نون کا نقطہ حذف ہوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی بات کو "گنجی شافعی" نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ

۱۔ یہ جملہ اہل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ہے

۲۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:اسمه اسمی اسم ابیه اسم ابنی ۔ (اس کا نام میرا نام ہے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ہے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔

۳۔ اہل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ہے۔

۴۔ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ہیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ہے۔

انتظار کے اثرات

گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ عظیم مصلح کا انتظار ایک فطری تقاضہ ہے اور انسان دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے۔ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام فرقے اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ "تواتر" کی حد تک پہونچی ہوئی ہیں۔(۱)

ھاں وہ حضرات جن کی معلومات کا دائرہ محدود ہے اور ہر بات کو مادیت اور اقتصادیات کی عینک لگاکر دیکھنا چاھتے ہیں، یہ حضرات ضرور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے، یا یہ طرز فکر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

ایک بات باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر قبول بھی کرلیا جائے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے اور خالص اسلام کے انداز فکر کا نتیجہ ہے مگر اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کرنے سے انسان کی زندگی پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔۔؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے یا لا اُبالی؟

یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش پیدا کرتا ہے یا اس کے احساسات پر مایوسی کی اوس ڈال دیتا ہے۔؟

انسانی زندگی کو ایک نیا ساز عطا کرتا ہے یا اس کی زندگی کو بے کیف بنا دیتا ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے یا انسان کو ضعیف و کمزور بنا دیتا ہے۔؟

یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ ذوق اور سلیقے کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ کئے جائیں۔ ایک آدمی ایسے نتائج برآمد کرلے جو واقعاً مفید اور کار آمد ہوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ کرے جو بے کار اور مضر ہوں۔ ایٹمی توانائی کو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے جو حیات انسانی کے لئے مفید اور ضروری ہیں اور اسی ایٹمی توانائی کو انسانیت کی ہلاکت کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے بلکہ کررہا ہے۔

یہی حال ان رواتیوں کا ہے جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جس کی بنا پر اعتراضات کی ایک دیوار قائم ہوگئی۔

انتظار کے اثرات بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند روایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظار کی اہم یت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات کو اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے فلسفۂ انتظار کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔ ان روایات کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے تاکہ آئندہ مطالب آسان ہوجائیں۔

۱) ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا۔ وہ شخص جو ائمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے: "هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطه ۔" ( وہ اس شخص کے مانند ہے جو امام کے ساتھ اس ان کے خیمے میں ہو)۔

امام نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد پھرمایا:۔ "هو کمن کان مع رسول الله "۔ وہ اس شخص کے مانند ہے جو رسول اللہ کے ہم راہ (جنگ میں) شریک رہا ہو۔(۲)

اسی مضمون کی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

۲) بعض روایات میں ہے: "بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل الله ۔" اس شخص کے ہم رتبہ ہے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رہا ہو۔(۳)

۳) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے: :کمن قارع معه بسیفه ۔"(۴) اس شخص کے مانند ہے جو رسول خدا (ص) کے ہم راہ دشمن کے سرپر تلوار لگا رہا ہو۔

۴) بعض میں یہ جملہ ملتا ہے: "بمنزلة من کان قاعداً تحت لوائه ۔" اس شخص کے مانند ہے جو حضرت مھدی علیہ السلام کے پرچم تلے ہو۔(۵)

۶) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے:۔ "بمنزلة مجاهدین بین یدی رسول الله ۔" اس شخص کے مانند ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد کر رہا ہو۔(۶)

۷) بعض دوسری روایتوں میں ہے:۔ "بمنزلة من استشهد مع رسول الله " اس شخص کے مانند ہے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ درجۂ شھادت پر فائز ہوا ہو۔(۷)

ان روایتوں میں جو سات قسم کی تشبیہات کی گئی ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے انتظار کی اہم یت کا باقاعدہ انداز ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار اور جہاد میں کس قدر ربط ہے۔ انتظار اور شھادت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

بعض دوسری روایتوں میں ملتا ہے کہ "انتظار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔" اس مضمون کی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل(۸)

ایک دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے: "افضل العبادة انتظار الفرج ۔"(۹)

یہ تمام روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انتظار اور جھاد میں کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ اس لگاؤ اور تعلق کا فلسفہ کیا ہے، ا سکے لئے ذرا صبر سے کام لیں۔

____________________

۱. تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص۲۳۱۔ ۲۳۶

۲. بحار الانوار ج ۵۲ ص۱۲۵ طبع جدید

۳. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۶

۴. بحار الانوار جلد ۵۲ ص ۱۲۶

۵. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲ طبع جدید

۶. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۷. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲

۸. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۸

۹. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۵

انتظار

سارے کے سارے مسلمان ایک ایسے "مصلح" کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:۔

(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہم یشہ کے لئے تہ کرنا۔

(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔

(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔

(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔

(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔

(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔

اس عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (عج) ہے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں ہے۔

اس کتابچے کی تالیف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جائے، کیونکہ ہر ایک خصوصیت ایسی ہے جس کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ "انتظار" کے اثرات کو دیکھا جائے اور یہ پہچانا جاسکے کہ صحیح معنوں میں منتظر کون ہے اور صرف زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، یہ انتظار کو ایک عظیم عبادت کیوں شمار کیا جاتا ہے۔؟

غلط فیصلے

سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انتطار کا عقیدہ، کیا ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یا یہ عقیدہ شکست خوردہ انسانوں کی فکر کا نتیجہ ہے۔؟ یا یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے، یا یہ عقیدہ انسانوں کے اوپر لادا گیا ہے۔؟

بعض مستشرقین کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔

بعض مغرب زدہ ذہنیتوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہودی اور عیسائی طرز فکر سے حاصل کیا گیا ہے۔

مادّہ پرست اشخاص کا کہنا ہے ک اس عقیدے کی اصل و اساس اقتصادیات سے ہے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور کمزوروں کو بہلانے کے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے ک اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے ہے اور یہ ایک خالصِ اسلامی نظریہ ہے، دوسرے نظریات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس عقیدہ کے بارے میں اظھار رائے کیا ہے، اگر ان کو متعصب اور منافع پرست نہ کہا جاسکے تو یہ بات بہر حال مانی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ محدود ہیں۔ ان محدود معلومات کی بنا پر یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنے کو اس بات کا مستحق قرار دے لیتے ہیں کہ اسلامی مسائل کے بارے میں اظھار نظر کریں، اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ محدود معلومات کی بنیادوں پر ایک آخری نظریہ قائم کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے، آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو مسئلے کے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ہو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم یں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے، ہم ارا سوال تو صرف یہ ہے کہ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس عقیدے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں وہ ہم یشہ رنج و محن کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں مصائب برداشت کرتے گذرتی ہیں ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں، فساد کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ہیں اور اس کی سعی و کوشش بھی نہیں کرتے کہ فساد ختم بھی ہوسکتا ہے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایسے عقیدے رکھنے والوں کو ایسی کوئی فکر ہی نہیں۔

اس عقیدے کی بنیاد جو بھی ہو مگر اس کے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ہیں یہ عقیدہ انسان کو اور زیادہ کاہل بنا دیتا ہے۔

اگر ایک دانش ور کسی مسئلے میں فیصلہ کرنا چاھتا ہے اور صحیح نظریہ قائم کرنا چاھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کے اطراف و جوانب کا باقاعدہ مطالعہ کرے، اس کے بعد ہی کوئی صحیح نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔

آئیے پہلے ہم خود اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کے افکار کا نتیجہ ہے؟ یا اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہے؟ یا پھر اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے؟ اس عقیدے کے اثرات مفید ہیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ہے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ہے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ہے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ہوئی ہے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ہے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ہے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ہی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ہے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں کمال نمایاں ہوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ہے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ہیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے فطری ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ہوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ہے وہی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ہے۔

کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ہے جو ہم یشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ہے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ہے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ہے۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ہو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ہو۔

اب یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی بدن کا ہر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ہوتا ہے ہم یں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ہو، ہر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ہے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ہلاکت سے بچاتی ہے اور انسان کے لئے ایک سپر ہے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے

غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ہے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ہونے سے بچا تا ہے اور فائدہ کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو کمالات کی طرف انسان کی رہبری کرتے ہیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی بناء پر وہ ہم یشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ہے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ہے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماہتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ہے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ہے۔

اسی بناء پر جب ہم یں پیاس لگتی ہے تو ہم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اسی جذبے کے تحت ہم یں اس بات کا یقین ہے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ہے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ہوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو ہرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہ ہوگی کہ پانی کا وجود نہیں ہے، پانی کا وجود ہے البتہ ہم اری سعی و کوشش ناقص ہے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ہوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رہا ہے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ہے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ہے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ہے۔

عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اور صرف مسلمانوں ہی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اقتصادیات کی پیداوار ہے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ہیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر قوم و ملّت اور ہر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ہے جب اس کا ظھور ہوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ہوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذہنیت کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ہے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ہے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ہے۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب سے اس کو اخذ کیا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ہے۔ ان لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ہے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ہے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ہے۔

اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ہے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ہے۔

یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ہی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ "اسلام شناسی" کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ہم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

ہم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ہیں، ہر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "انتظار" کا شمار ان مسائل میں ہے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے "تواتر" سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور سب ہی نے ان روایات کے "متواتر" ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ہاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ہے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ہوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ہے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ہے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ہیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم یت کا حامل ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ہیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اس ادارے کے جنرل سکریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ہے کہ وھابی فرقے کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات کو قبول کیا ہے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ہے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ہے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں: ۔۔۔۔

عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ہے۔ آپ کے والد کا نام "عبد اللہ" ہے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ہوگی۔ ہر طرف ضلالت و گمراہی کی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ہوگا۔"

رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ہوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ہیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ہے۔"

حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:۔

(۱) علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالک، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ہے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے:۔

سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔

علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم

القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی

التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی

المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی

الوہم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی

مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماہنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، ہر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ہے:۔

۱۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں

۲۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں

۳۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں

۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں

۵۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں

۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں

۷۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں

۸۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں

۹۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں

۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوہم المکنون میں

ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ہے) کے ہم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ہے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوہم المکنون تحریر کی ہے۔ یہ کتاب تقریباً ۳۰ برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ہوچکی ہے۔

حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ان تمام باتوں کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اہل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے اور ان کے عقائد میں سے ایک ہے۔

ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ہیں جو روایات سے بے خبر ہیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ہیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)"

سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی

محمد منتصر کنانی

اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے کسی بھی دوسرے مذہب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

ایک بات ضرور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہے

اس شبہ کی وجہ وہ روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "اسم ابیه اسم ابی " (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ہے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ہے، صرف نون کا نقطہ حذف ہوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی بات کو "گنجی شافعی" نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ

۱۔ یہ جملہ اہل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ہے

۲۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:اسمه اسمی اسم ابیه اسم ابنی ۔ (اس کا نام میرا نام ہے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ہے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔

۳۔ اہل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ہے۔

۴۔ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ہیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ہے۔

انتظار کے اثرات

گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ عظیم مصلح کا انتظار ایک فطری تقاضہ ہے اور انسان دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے۔ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام فرقے اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ "تواتر" کی حد تک پہونچی ہوئی ہیں۔(۱)

ھاں وہ حضرات جن کی معلومات کا دائرہ محدود ہے اور ہر بات کو مادیت اور اقتصادیات کی عینک لگاکر دیکھنا چاھتے ہیں، یہ حضرات ضرور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے، یا یہ طرز فکر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

ایک بات باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر قبول بھی کرلیا جائے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے اور خالص اسلام کے انداز فکر کا نتیجہ ہے مگر اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کرنے سے انسان کی زندگی پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔۔؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے یا لا اُبالی؟

یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش پیدا کرتا ہے یا اس کے احساسات پر مایوسی کی اوس ڈال دیتا ہے۔؟

انسانی زندگی کو ایک نیا ساز عطا کرتا ہے یا اس کی زندگی کو بے کیف بنا دیتا ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے یا انسان کو ضعیف و کمزور بنا دیتا ہے۔؟

یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ ذوق اور سلیقے کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ کئے جائیں۔ ایک آدمی ایسے نتائج برآمد کرلے جو واقعاً مفید اور کار آمد ہوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ کرے جو بے کار اور مضر ہوں۔ ایٹمی توانائی کو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے جو حیات انسانی کے لئے مفید اور ضروری ہیں اور اسی ایٹمی توانائی کو انسانیت کی ہلاکت کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے بلکہ کررہا ہے۔

یہی حال ان رواتیوں کا ہے جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جس کی بنا پر اعتراضات کی ایک دیوار قائم ہوگئی۔

انتظار کے اثرات بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند روایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظار کی اہم یت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات کو اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے فلسفۂ انتظار کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔ ان روایات کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے تاکہ آئندہ مطالب آسان ہوجائیں۔

۱) ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا۔ وہ شخص جو ائمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے: "هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطه ۔" ( وہ اس شخص کے مانند ہے جو امام کے ساتھ اس ان کے خیمے میں ہو)۔

امام نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد پھرمایا:۔ "هو کمن کان مع رسول الله "۔ وہ اس شخص کے مانند ہے جو رسول اللہ کے ہم راہ (جنگ میں) شریک رہا ہو۔(۲)

اسی مضمون کی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

۲) بعض روایات میں ہے: "بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل الله ۔" اس شخص کے ہم رتبہ ہے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رہا ہو۔(۳)

۳) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے: :کمن قارع معه بسیفه ۔"(۴) اس شخص کے مانند ہے جو رسول خدا (ص) کے ہم راہ دشمن کے سرپر تلوار لگا رہا ہو۔

۴) بعض میں یہ جملہ ملتا ہے: "بمنزلة من کان قاعداً تحت لوائه ۔" اس شخص کے مانند ہے جو حضرت مھدی علیہ السلام کے پرچم تلے ہو۔(۵)

۶) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے:۔ "بمنزلة مجاهدین بین یدی رسول الله ۔" اس شخص کے مانند ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد کر رہا ہو۔(۶)

۷) بعض دوسری روایتوں میں ہے:۔ "بمنزلة من استشهد مع رسول الله " اس شخص کے مانند ہے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ درجۂ شھادت پر فائز ہوا ہو۔(۷)

ان روایتوں میں جو سات قسم کی تشبیہات کی گئی ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے انتظار کی اہم یت کا باقاعدہ انداز ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار اور جہاد میں کس قدر ربط ہے۔ انتظار اور شھادت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

بعض دوسری روایتوں میں ملتا ہے کہ "انتظار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔" اس مضمون کی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل(۸)

ایک دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے: "افضل العبادة انتظار الفرج ۔"(۹)

یہ تمام روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انتظار اور جھاد میں کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ اس لگاؤ اور تعلق کا فلسفہ کیا ہے، ا سکے لئے ذرا صبر سے کام لیں۔

____________________

۱. تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص۲۳۱۔ ۲۳۶

۲. بحار الانوار ج ۵۲ ص۱۲۵ طبع جدید

۳. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۶

۴. بحار الانوار جلد ۵۲ ص ۱۲۶

۵. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲ طبع جدید

۶. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۷. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲

۸. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۸

۹. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۵


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38