نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار21%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167225 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ابوبصیرسے مروی ہے کہ میں نے امام باقریاامام صادق +میں کسی ایک امام (علیه السلام)سے معلوم کہا: کیاخداوندعالم بیت المقدس کی سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیاتھا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:ہاں،کیاتم نے یہ آیہ مبارکہ نہیں پڑھی ہے

( وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْهَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ هُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ ) (۱)(۲)

اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کعبہ کوبہت زیادہ دوست رکھتے تھے اورمدینہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے توکعبہ کواپنے اوربیت المقدس کے درمیان کرتے تھے

حمادحلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:کیانبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے ؟فرمایا:ہاں، میں نے کہا:کیا اس وقت خانہ کٔعبہ آنحضرت کی کمرکے پیچھے رہتاتھا؟فرمایا:جسوقت آپ مکہ میں رہتے تھے توکعبہ کوکمرکے پیچھے قرارنہیں دیاکرتے تھے لیکن مدینہ ہجرت کرنے کے بعدکعبہ کی طرف قبلہ تحویل ہونے تک کعبہ کواپنی پشت میں قراردیتے تھے ۔(۳)

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣

. ٢)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ٢١۶

۳). کافی /ج ٣/ص ٢٨۶

۱۲۱

رازتحویل قبلہ

تحویل قبلہ کے بارے میں چار اہم سوال پیداہوتے ہیں: قبلہ بیت المقدس سے کعبہ طرف کب اورکیوں تحویل ہواہے اورخداوندعالم نے روزاول ہی سے کعبہ کی سمت نمازپڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا؟اوربیت المقدس کی سمت پڑھی گئی کی تکرارواجب ہے یانہیں ؟ پہلے سوال کے جواب میں تفسیرمنہج الصادقین میں لکھاہے کہ: جس دن الله کی طرف سے تغییرقبلہ کاحکم نازل ہوااس دن نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدنبی سلمہ میں تشریف رکھتے تھے اور مسلمان مردوعورتوں کے ہمراہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ظہر پڑھنے میں مشغول تھے اور دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ جبرئیل امین نے آنحضرت کے دونوں بازو پکڑ کر آپ کا چہرہ کعبہ کی سمت کردیااورجومردوعورت آپ کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے ان سب کے چہروں کوبھی کعبہ کی سمت کردیا اورمردعورتوں کی جگہ اورعورتیں ) مردوں کی جگہ پرکھڑے ہوگئے ۔(۱)

اس مسجدکو“ذوالقبلتین”دوقبلہ والی مسجدکہاجاتاہے کیونکہ یہی وہ مسجدہے کہ جس میں الله کے آخری نبی حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) نمازظہر اداکررہے تھے کہ جبرئیل نے آنحضرت کے چہرہ کارخ دونوں شانے پکڑکربیت المقدس سے کعبہ کی طرف کردیا ،پیغمبرکی یہ آخری نمازتھی جوبیت المقدس کی طرف پڑھی گئی اوریہ پہلی نمازتھی جوکعبہ کی سمت پڑھی گئی تھی ،آنحضرت نے اس نمازکودوقبلہ کی طرف انجام دیاپہلی دورکعت بیت المقدس کی طرف اوردوسری دورکعت نمازکعبہ کی سمت اداکی لہٰذایہ وہ مسجدہے کہ جس میں ایک ہی نمازکودوقبلہ کی طرف رخ کرکے پڑھاگیاہے اسی لئے اس مسجدکو “ذوالقبلتین” کہاجاتاہے ۔

قبلہ کے تحویل کرنے کی چندوجہیں بیان کی گئی ہیں :

پہلی وجہ

کتب تفاسیر میں لکھاہے: کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے جوروزاول سے یہودیوں کاقبلہ تھااوریہودی اسے اپنے قبلہ مانتے تھے لہٰذا وہ لوگ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)وان کی پیروی کرنے والوں کو طعنہ دیا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ : تم مسلمان تو ہمارے قبلہ کی رخ کرکے نماز ھتے ہیں اور ہماری پیروی کرتے ہیں، اور کہتے تھے کہ: جب تم ہمارے قبلہ کو قبول رکھتے ہو اور اسی کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے ہوتو پھرہمارے مذہب کو کیوں قبول نہیں کرلیتے ہو؟۔

____________________

. ۱)تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ٣۴١

۱۲۲

ہجرت کرنے کے بعدبھی پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)گرچہ بیت المقدس کی سمت شوق سے نماز یں پڑھتے تھے اور دل وجان سے حکم خداپرعمل کرتے تھے مگر دشمنوں کی طعنہ زنی سے رنج بھی اٹھا تے تھے اور غمگین رہتے تھے پس جب دین اسلام قدرے مستحکم ہوگیاتوایک دن آپ نے جبرئیل سے کہا :میری یہ خواہشہے کہ الله تبارک تعالیٰ ہم مسلمانوں کو قبلہ یٔہودکی طرف کھڑے ہوکرنماز پرھنے سے منع کرے اورہمارے لئے ایک مستقل قبلہ کی معرفی کرے ،جبرئیل نے عرض کیا : میں بھی آپ کی طرح ایک بندئہ خدا ہوں مگر آپ خداوندعالم کے نزدیک اولوالعزم پیغمبر ہیں لہٰذا آپ خوددعا کریں اور اپنی آرزوکو پروردگار سے بیان کریں

لیکن رسول اکرام (صلی الله علیه و آله) اپنی طرف سے کوئی تقاضا نہیں کرنا چاہتے تھے، فقط جس کام کا خدا آپ کو حکم دیتا تھا وہی انجام دیتے تھے اور جس بارے میں فرمان خدا ابلاغ نہیں ہو تا تھا اس کے انتظار میں رہتے تھے ، تبدیل قبلہ کے بارے میں بھی وحی الہٰی کے منتظر تھے، لہٰذاایک دن نمازظہرکے درمیان جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے:

( وَقَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فیِ السَّمَآءِ فَلَنُوَ لِّیَنَکَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الحَرَامِ وَحَیْثُ مَاکُنْمُ فَوَلُّوْاوَجُوهَکُمْ شَطْرَهُ ) (۱)

ترجمہ:اے رسول! ہم آپ کا آسمان کی طرف متوجہ ہونے کودیکھ رہے ہیں ،ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جسے آپ پسندکرتے ہیں لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑدیجئے اور جہان بھی رہئے اسی طرف رخ کیجئے ۔

دوسری وجہ

تبدیل قبلہ کے بارے میں جواسراربیان کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ خداوندعالم تبدیل کی وجہ سے پہچان کراناچاہتاتھا کہ کون لوگ حقیقت میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پیروی کرتے ہیں اور کون حکم خدا ورسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں جیساکہ خدا وند معتال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْهَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ هُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ )

اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ ) بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے ۔(۲)

____________________

. ١)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴۴

. ۲)سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣

۱۲۳

امام جعفرصادق فرماتے ہیں:هذابیت استعبد الله تعالی به خلقه لیختبربه طاعتهم فی اتیانه فحثهم علی تعظیمه وزیارته وجعله محل انبیائه وقبلة للمصلین له.

یہ گھراتنابلند ہے کہ الله تبارک وتعالی نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیاہے وہ اس کے واسطے سے میری عبادت کریں تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کاامتحان لے سکوں اوریہ پتہ چل جائے کہ کون اس کی عبادت کرتے ہیں اورکون عبادت کوترک کرتے ہیں اسی لئے میں نے کعبہ کی تعظیم وزیارت کاحکم دیاہے اوراسے انبیاء کرام کامحل اورنمازگزاروں کاقبلہ قراردیاہے ۔(۱)

اس آیہ مٔبارکہ اورحدیث شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)کے زمانے میں دوطرح کے مسلمان تھے ، کچھ ایسے لوگ تھے جو آسانی سے فرمان خداکو نہیں مانتے تھے اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قول وفعل پراعتراض اورچون وچراکرتے تھے ،وہ لوگ نبی کی ہربات کونہیں مانتے تھے اور خانہ کعبہ کو قبلہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔

کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یقین سے الله ورسول اور قرآن پرایمان رکھتے تھے اوراس چیزپراعتقادرکھتے تھے کہ رسول اسلام اپنی مرضی سے نہ کچھ کہتے ہیں اور نہ کرتے ہیں بلکہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جسکا م کا خدا آپ کو حکم دیتا ہے اور وہ لوگ دل و جان سے حکم الہٰی کو اجرا کرتے تھے جیسے ہی ان لوگوں تک تبدیل قبلہ کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے رخ کعبہ کی طرف کرلئے لیکن جومنافق تھے انھوں نے اعتراض شروع کردئے ۔

تیسری وجہ

علامہ ذیشان حیدرجوادی ترجمہ وتفسیر قرآن کریم میں لکھتے ہیں:تحویل قبلہ کاایک رازیہ بھی ہے کہ اس طرح یہودیوں کاوہ استدلال ختم گیاکہ مسلمان ہمارے قبلہ کی اتباع کررہے ہیں،اوریہ دلیل ہے کہ ہمارامذہب برحق ہے اوراس کے علاوہ کوئی مذہب خدائی نہیں ہے ،قرآن کریم واضح کردیاکہ بیشک بیت المقدس ایک قبلہ ہے لیکن جس خدانے اسے قبلہ بنایاہے اسے تبدیل کرنے کاحق بھی رکھتاہے ،اگریہودیوں کاایمان خداپرہے توجس طرح پہلے حکم خداکوتسلیم کیاتھااسی طرح دوسرے حکم کوبھی تسلیم کرلیں۔

روزاول ہی کعبہ کوقبلہ کیوں قرارنہیں دیا؟

اگرکوئی یہ سوال کرے :کیاوجہ ہے کہ خدا وند عالم نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی اتباع کرنے والوں کو پہلے بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی طرف نماز اداکرنے کا حکم جاری کیا اور بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے سے منع کردیا؟

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢۵٠

۱۲۴

جس وقت پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے اپنی رسالت کا اعلان کیا تو مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور مسلمان کے پاس کوئی طاقت وغیرہ نہیں تھی لیکن یہودومسیح کی تعداد بہت زیادہ تھی اور طاقت بھی انہی لوگوں کے پاس تھی اگرخداوندعالم اسی وقت کعبہ کی طرف نمازپڑھنے کاحکم جاری کردیتااور مسلمان ان کے قبلہ کی مخالفت کردیتے اور بیت المقدس کی طرف نماز نہ پڑھتے توان کے اندر غصّہ کی آگ بھڑک جاتی اور اسی وقت مسلمانوں کی قلیل جماعت کو ختم کرکے اسلام کونابودکردیتے اسی لئے خدا نے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا تاکہ قوم یہود ومسیح (جو بیت المقدس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ) مسلمانوں کو بغض وکینہ کی نگاہوں سے نہ دیکھیں اورانھیں اپنا دشمن شمار نہ کریں اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ بھی نہ بنائیں لیکن جب روز بر وزقرآن واسلام کی پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا اور مسلمان طاقتور ہوتے گئے اور رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رہبری میں ایک مستقل حکومت کے قابل ہو گئے تواس وقت خداوندعالم نے قبلہ بدلنے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ آج کے بعدتمام مسلمان مستقل ہیں اور ان کا قبلہ بھی مستقل ہو گا، قبلہ تبدیل ہونے کے بعد اگر دشمن مخالفت بھی کرتے تھے تو مسلمانوں پر کوئی اثرنہیں ہو تا تھا ۔

قبلہ اول کی سمت پڑھی گئی نمازوں کاحکم کیاہے ؟

جب حکم خداسے قبلہ تبدیل ہوگیا تومسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہواکہ ہم نے اب تک جت نی بھی نمازیں بیت المقدس کی سمت رخ کر کے پڑھی ہیں ان کا کیا حکم ہے ،ہماری وہ نماز یں صحیح ہیں یا باطل ہیں اوران کادوبارہ پڑھناواجب ہے ؟ لہٰذاکچھ لوگوں نے اس مسئلہ کو پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں مطرح کیا اور آنحضرت سے پوچھا :یانبی الله!ہم نے وہ تمام نمازیں جوبیت المقدس کی طرف رخ کرکے انجام دی ہیں کیاوہ سب قبول ہیں یاان کااعادہ کرناضروری ہے ؟جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے اورفرمایا: )( وَمَا کاَنَ الله لُِیُضْیعَ اِیْمَا نَکُمْ اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَحْیمٌ ) (۱) جان لیجئے کہ وہ نمازیں جوتم نے قبلہ اوّل (بیت المقدس) کی طرف انجام دیں ہیں وہ سب صحیح ہیں خدا تمھارے ایمان (نماز) کو ضایع نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے۔حضرت امام جعفرصادق فرماتے ہیں : اس آیہ مٔبارکہ مٔیں نماز کو ایمان کا لقب دیا گیا ہے۔(۲)

____________________

١)سورہ بقرہ /آیت ١٣٨

. ٢)نورالثقلین/ج ١/ص ١٣٧ )

۱۲۵

اذان واقامت

وہ چیزکہ جس کے ذریعہ لوگوں کونمازکاوقت پہنچنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے ونمازپڑھنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے اسے اذان کہاجاتاہے ۔ لغت قاموس میں“اذّن ،اُذان،اَذِّن ”کے معنی اعلان،دعوت اوربلانابیان کئے گئے ہیں اور “مصباح المنیر”میں اس طرح لکھاہے:“آذَنتُهُ اِیذَاناًوَتَا ذّٔنْتُ (اَعلَمتُوَا ذّٔن الموذّنُ بالصلاةا عٔلم بِها ” میں نے اعلان کیااورمو ذٔن نے اذان دی یعنی لوگوں کونمازکی طرف دعوت دی اورقرآن کریم میں بھی لفظ “اذّن واذان ”اعلان کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے

( وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ ) .اورلوگوں کے درمیان حج کااعلان کرو۔(۱) ( وَاَذَانٌ مِنَ اللهِوَرَسُوْلِهِ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرْ ) (۲)

اوراللھ ورسول کی طرف سے حج اکبرکے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے

اذان واقامت کی اہمیت

مستحب ہے کہ بلکہ سنت مو کٔدہ ہے کہ نمازگزاراپنے اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں کواذان واقامت کے ساتھ پڑھے خواہ انسان ان نمازوں کوان کے وقت میں اداکررہاہو یاان کی قضابجالارہاہو البتہ اگرنمازجماعت ہورہی ہے توجماعت کی اذان واقامت پراکتفاء کرناصحیح ہے،خواہ اس نے نمازجماعت کی اذان واقامت کوسناہویانہ سناہو،اذان واقامت کے وقت مسجدمیں حاضرہویانہ ہو۔نمازجمعہ سے پہلے بھی اذان واقامت کہناسنت مو کٔدہ ہے اور عیدالفطر و عیدالاضحی کی نمازکے لئے تین مرتبہ “الصلاة ” کہاجائے ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں اذان کامسخرہ کرنے والوں کوغیرمعقول انسان قراردیتے ہوئے ارشادفرماتا ہے:

( وَاِذَا نَا دَیْتُم اِلیٰ الصَّلوٰةِ اتَّخذوهٰا هُزُواً وَلَعِباً ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قُومٌ لَاَ یَْقْلُوِْنَ ) اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کا مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ با لکل بے عقل قوم ہیں۔(۳)

____________________

۱)سورہ حٔج آیت ٢٧

. ٢)سورہ تٔوبہ آیت ٣

. ۳)سورہ مٔائد ہ آیت ۵٨

۱۲۶

امام صادق فرماتے ہیں:مریض کوبھی چاہئے کہ جب نمازپڑھنے کاارادہ کرے تو اذان واقامت کہہ کرنمازپڑھے خواہ آہستہ اوراپنے لئے ہی کہے ،(اگراپنے بھی اذان واقامت کے کلمات کوزبان سے اداکرنے کی قدرت نہ رکھتاہوتودل سے اذان اقامت کہے)کسی نے پوچھااگرانسان بہت زیادہ مریض ہوتو کیاپھربھی اسے اذان واقامت کہناچاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:ہرحال میں اذان اقامت کہناچاہئے کیونکہ اذان واقامت کے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : من ولدله مولودفلیو ذٔن فی اذنه الیمنی باذان الصلاة والیقم فی اذنه الیسری فانّهاعصمه من الشیطان الرجیم ۔(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:کسی بھی گھرمیں جب کوئی بچہ دنیامیں آئے تو اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ بچہ شیطان رجیم کے شرسے محفوظ رہتاہے ۔

علی ابن مہزیارنے محمدابن راشدروایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام ابن ابراہیم اپنے بارے میں بتایاہے کہ میں امام علی رضا کی خدمت میں مشرف ہوئے اوراپنے مریض و بے اولادہونے کے بارے میں شکایت کی توامام(علیه السلام) نے مجھے حکم دیاکہ اے ہشام!تم اپنے گھرمیں بلندآوازسے اذان کہاکرو

ہشام کا بیان ہے کہ :میں نے امام (علیه السلام)کے فرمان کے مطابق عمل کیااورخداوندعالم نے اس عمل کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفابخشی اور کثیراولادعطا کی.

محمدابن راشدنے کہتے ہیں کہ :میں اورمیرے اہل خانہ اکثربیماررہتے تھے ،جیسے ہی میں نے ہشام سے امام (علیه السلام) کی یہ بات سنی تومیں نے بھی اس پرعمل کیاتوخداوندعالم نے مجھ اورمیرے عیال سے مریضی دورکردیا۔(۳)

امام علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں :جوشخص اذان واقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے ملائکہ کی دو صف اس کے پیچھے نمازپڑھتی ہیں کہ جن کے دونوں کنارے نظرنہیں آتے ہیں اورجوشخص فقط اقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے توایک فرشتہ اسکے پیچھے نمازپڑھتاہے ۔(۴)

____________________

.۱)استبصار/ج ١/ص ٣٠٠

. ٢)کافی /ج ۶/ص ٢۴

.۳) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ۵٩

.۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٨٧

۱۲۷

مفضل ابن عمرسے مروی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص واجب نمازوں کو اذان واقامت کے ساتھ انجام دیتا ہے ، ملا ئکہ کی دوصفیں اس کی افتداء کرتی ہیں اورجوشخص فقط اقامت کہہ کرنمازپڑھتاہے تو ملائکہ کی ایک صف اس کے پیچھے نماز پڑھتی ہے، میں نے پوچھا:اس کی مقدارکت نی ہے ؟ امام (علیه السلام) نے جواب دیا:اس مقدارحداقل مشرق ومغرب کے درمیان کی زمین ہے اورحداکثرزمین وآسمان کے درمیان ہے ۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی مسجدکی دیوارآدمی کے برابرتھی ،رسولخدابلال سے کہتے تھے :اے بلال!دیوارکے اوپرجاؤاورکھڑے ہوکر بلندآوازسے اذان کہوکیونکہ خداوندعالم نے ایک ہواکومعین کرکھاہے جواذان کی آوازکوآسمان تک پہنچاتی ہے اورجب ملائکہ اہل زمین سے اذان کی آوازسنتے ہیں توکہتے ہیں :یہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی امت کی آوازہے جوالله کی وحدانیت کانعرہ لگارہی ہے اوروہ فرشتے اللھسے امت محمدی کے لئے اس وقت تک استغفارکرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی نمازسے فارغ ہوتے ہیں۔(۲)

مو ذٔن کے فضائل

روایت میں ایاہے کہ شام سے شخص ایک امام حضرت امام صادق کی خدمت میں مشرف ہوا،آپ نے اس مرد شامی سے فرمایا : انّ اوّل من سبق الیٰ الجنة بلالٌ،قال:ولِمَ؟قال:لانّہ اوّل من اذّنَ۔ حضرت بلا ل وہ شخص ہیں جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونگے اس نے پوچھا ! کسلئے ؟ آپ نے فرمایا : کیونکہ بلال وہ شخصہیں جنھوں نے سب سے پہلے اذان کہی ہے۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: مو ذٔن اذان واقامت کے درمیان اس شہیدکاحکم رکھتاہے جوراہ خدامیں اپنے خون میں غلطاں ہوتاہے پس حضرت علی سے آنحضرتسے عرض کیا:آپ نے اذان کہنے کی ات نی بڑی فضلیت بیان کردی ہے کہ مجھے خوف ہے کہ آ پ کی امت کے لوگ اس کام کے لئے ایک دوسرے پر شمشیر چلائیں گے (اور مو ذٔن بننے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہائیں گے)، آنحضرت نے فرمایا :وہ اس کام کوضعیفوں کے کاندھوں پررکھ دیں گے (اذان کہنا اتنا زیادہ ثواب و فضیلت رکھنے کے با وجود ضعیف لو گو ں کے علاوہ دوسرے حضرات اذان کہنے کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے)اورمو ذٔن کاگوشت وہ ہے کہ جسپر جہنم کی آگ حرام ہے جواسے ہرگزنہیں جلاسکتی ہے۔(۴)

____________________

۱). ثواب الاعمال/ص ٣٣

. ۲)کافی/ج ٣/ص ٣٠٧

۳)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٨۴

. ۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/باب الاذان والاقامة/ص ٢٨٣

۱۲۸

جابرابن عبدالله سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مو ذٔن کے لئے تین باردعاکی : بارالٰہا!مو ذٔن لوگوں کوبخش دے،جابرکہتے ہیں میں نے کہا:یارسول الله!اگرمو ذٔن کایہ مقام ہے توایسالگتاہے کہ اذان کہنے کے لئے لوگوں کے درمیان تلواریں چلاکریں گی ؟آنحضرت نے فرمایا:

اے جابر!ایک وقت ایسابھی آئے گا کہ اذان کاکام بوڑھوں کے کاندھوں پرڈال دیاجائے گا (اورجوان لوگ اذان کہنااپنے لئے عیب شمارکریں گے)اورسنو!کچھ گوشت ایسے ہیں جن پرآتش جہنم حرام ہے اوروہ مو ذٔن لوگوں کاگوشت ہے۔(۱)

قال علی علیه السلام:یحشرالمو ذٔنون یوم القیامة طوال الاعناق ۔ حضرت علی فرماتے ہیں:مو ذٔن لو گ روزقیامت سرافرازاورسربلندمحشورہونگے۔(۲)

ایک یہودی نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے مو ذٔن کی فضیلت کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:میری امت کے مو ذٔن روزقیامت کے دن انبیاء وصادقین اورشہداء کے ساتھ محشورہونگے۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : خدا وندمتعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیرکسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص ٨٠ / ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں:

١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے۔(۴)

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من اذان فی مصرمن امصارالمسلمین وجبت لہ الجنة. رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص (اپنے )مسلمان بھائیوں کے کسی شہرمیں اذان کہے تواس پرجنت واجب ہے۔(۵)

____________________

. ۱)مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ٢٢

۲)بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ١۴٩

.۳) الخصال/ص ٣۵۵

۴) مستدرک الوسائل/ج ١/ص ۴٨٨

۵). ثواب الاعمال/ص ٣١

۱۲۹

اذان واقامت کے راز

فضل بن شاذان نے اذان کی حکمت کے متعلق امام علی رضا سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے کہ جس میں امام (علیه السلام) فرماتے ہیں: خداوندتبارک وتعالیٰ کی جانب سے لوگوں کواذان کاحکم دئے جانے کے بارے میں بہت زیادہ علت وحکمت پائی جاتی ہیں،جن میں چندحکمت اس طرح سے ہیں :

١۔اذان، بھول جانے والوں کے لئے یاددہانی اورغافلوں کے لئے بیداری ہے ،وہ لوگ جونمازکا وقت پہنچنے سے بے خبررہتے ہیں اوروہ نہیں جانتے ہیں کہ نمازکاوقت پہنچ گیاہے یاکسی کام میں مشغول رہتے ہیں تووہ اذان کی آوازسن کروقت نمازسے آگاہ ہوجاتے ہیں،مو ذٔن اپنی اذان کے ذریعہ لوگوں کوپروردگاریکتاکی عبادت کی دعوت دیتاہے اوران میں عبادت خداکی ترغیب وتشویق پیداکرتاہے، توحیدباری تعالی کے اقرارکرنے سے اپنے مومن ومسلمان ہونے کااظہارکرتاہے ،غافل لوگوں کووقت نمازپہنچنے کی خبردیتاہے ۔

٢۔مو ذٔن کومو ذٔن اس لئے کہاجاتاہے کہ وہ اپنی اذان کے ذریعہ نمازکااعلان کرناہے

٣۔تکبیرکے ذریعہ اذان کاآغازکیاجاتاہے اس کے بعدتسبیح وتہلیل وتحمیدہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے پہلے تکبیرکوواجب کیاہے کیونکہ اس میں پہلے لفظ “الله” آیاہے اورخداوندعالم دوست رکھتاہے کہ اس کے نام ابتدا کی جائے اوراس کایہ مقصدتسبیح (سبحان الله)اورتحمید(الحمدلله)اورتہلیل (لاالہ الاالله)میں پورانہیں ہوتاہے ان کلمات کے شروع لفظ “الله”نہیں ہے بلکہ آخرمیں میں ہے ۔

۴ ۔اذان کے ہرکلمہ کودودومرتبہ کہاجاتاہے ،اس کی وجہ یہ ہے تاکہ سننے والوں کے کانوں میں اس کی تکرارہوجائے اورعمل میں تاکیدہوجائے تاکہ اگرپہلی مرتبہ سننے میںغفلت کرجائیں تودوسری مرتبہ میں غفلت نہ کرسکیں اوردوسری وجہ یہ ہے کیونکہ دودورکعتی لہذااذان کے کلمات بھی دودوقراردئے گئے ہیں۔

۵ ۔اذان کے شروع میں تکبیرکوچارمرتبہ قرادیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان بطورناگہانی شروع ہوتی ہے ،اس سے پہلے کوئی کلام نہیں ہوتاہے کہ جوسننے والوں کوآگاہ ومت نبہ کرسکے ،پس شروع میں پہلی دوتکبیرسامعین کومت نبہ وآگاہ کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں تاکہ سامعین بعدوالے کلمات کوسننے کے لئے آمادہ ہوجائیں

۱۳۰

۶ ۔تکبیرکے بعد“شہادتین”کومعین کئے جانے کی وجہ یہ ہے :کیونکہ ایمان دوچیزوں کے ذریعہ کامل ہوتاہے:

١۔ توحیداورخداوندعالم کی وحدانیت کااقرارکرنا۔

٢۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دیناکیونکہ خداورسول کی اطاعت اورمعرفت شناخت ایک دوسرے سے مقرون ہیں یعنی خداکی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس کے رسول کی رسالت کی گواہی دیناضروری ہے کیونکہ شہادت اورگواہی اصل وحقیقت ایمان ہے اسی لئے دونوں کی شہاد ت دوشہادت قراردیاگیاہے یعنی خداکی واحدانیت کااقرابھی دومرتبہ ہوناچاہئے اوراس کے رسول کی رسالت کااقراربھی دومرتبہ ہوناچاہئے جس طرح بقیہ حقوق میں دوشاہدکے ضروری ہونے کو نظرمیں رکھاجاتاہے ،پس جیسے ہی بندہ خداوندعالم کی وحدانیت اوراس کے نبی کی رسالت کااعتراف کرتاہے توپورے ایمان کااقرارکرلیتاہے کیونکہ خدااوراس کے رسول کااقرارکرنااصل وحقیقت ایمان ہے ۔

٧۔پہلے خداورسول کا اقرارکیاجاتاہے اس کے بعدلوگوں نمازکی طرف دعوت دی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے:حقیقت میں اذان کونمازکے لئے جعل وتشریع کیاگیاہے کیونکہ اذان کے معنی یہ ہیں کہ مخلوق کونمازکی طرف دعوت دینا،اسی لئے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کواذان کے درمیان میں قرار دیاگیاہے یعنی چارکلمے اس سے پہلے ہیں اورچارکلمے اس کے بعدہیں،دعوت نمازسے پہلے کے چارکلمے یہ ہیں: دوتکبیراوردوشہادت واقرار،اوردعو ت نمازکے بعدکے چارکلمے یہ ہیں:لوگوں کوفلاح وکامیابی کی طرف دعوت دینااوراس کے بعد بہترین عمل کی طرف دعوت دیناتاکہ لوگوں میں نمازپڑھنے کی رغبت پیداہو،اس کے بعدمو ذٔن ندائے تکبیربلندکرتاہے اوراس کے بعدندائے تہلیل(لاالہ الاالله)کرتاہے،پس جس طرح دعوت نماز( حیّ علی الصلاة)سے پہلے چارکلمے کہے جاتے ہیں اسی طرح اس کے بعدبھی چارکلمے ہیں اورجس طرح مو ذٔن ذکروحمدباری تعالیٰ سے اذان کاآغازکرتاہے اسی طرح حمدوذکرباری پرختم کرتاہے ۔

٨۔اگرکوئی یہ کہے کہ :اذان کے آخرمیں تہلیل(لاالہ الاالله) کوکیوں قرادیاگیاہے اورجس طرح اذان کے شروع میں تکبیرکورکھاگیاتھاتوآخرمیں کیوں نہیں رکھاگیاہے ؟ اذان کے آخرمیں تہلیل (لاالہ الالله) کوقراردیاگیاتکبیرکونہیں اورشروع میں تکبیرکورکھاگیاہے تہلیل کونہیں،اس کی وجہ ہے کہ: خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ آغازاورانجام اس کے نام وذکر سے ہوناچاہئے، تکبیرکے شروع میں لفظ “الله”ہے اورتہلیل کے آخرمیں بھی لفظ “الله ”ہے پس اذان کاپہلالفظ بھی “الله”ہے اورآخری لفظ بھی اسی لئے اذان کے شروع میں تکبیرکواورآخرمیں تہلیل کوقراردیاگیاہے ۔(۱)

____________________

.۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٨

۱۳۱

حضرت امام حسین فرماتے ہیں کہ: ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسجدکی مینارسے مو ذٔن کی آوازبلندہوئی اوراس نے “ الله اَکبَر،اَللهُ اَ کبَر” کہا تو امیرالمو منین علی ابن ابی طالب اذان کی آواز سنتے ہی گریہ کرنے لگے ، انھیں روتے ہوئے دیکھ کر ہماری بھی آنکھوں میں آنسوں اگئے ،جیسے ہی مو ذٔن نے اذان تمام کی توامام (علیه السلام) ہمارے جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا :کیا تم جانتے ہو کہ مو ذٔن اذان میں کیاکہتا ہے اوراس کاہرکلمہ سے کیارازاورمقصدہوتاہے؟ ہم نے عرض کیا : الله اور اس کے رسول اوروصی پیغمبر ہم سے بہتر جانتے ہیں،پسآپ(علیه السلام) نے فرمایا :

لوتعلمون مایقول:لضحکتم قلیلاوَلِبَکَیْتم کثراً ۔ اگر تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ مو ذٔن اذان میں کیا کہتا ہے توپھر زندگی بھر کم ہنسیں گے اور زیادہ روئیں گے ، اس کے بعد مولا ئے کا ئنات اذان کی تفسیراوراس کے رازواسراربیا ن کرنے میں مشغول ہوگئے اورفرمایا:

”اَللّٰہُ اَکْبَر“

اس کے معنی بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں چندمعنی یہ بھی ہیں کہ جب مو ذٔن “الله اکبر” کہتاہے تووہ خداوندمتعا ل کے قدیم ، موجودازلی وابدی ، عالم ،قوی ، قادر،حلیم وکریم، صاحب جودوعطا اورکبریا ہونے کی خبردیتاہے لہٰذاجب مو ذٔن پہلی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:

خداوہ ہے کہ جوامروخلق کامالک ہے ،تمام امروخلق اس کے اختیارمیں ہیں ہرچیزاس کی مرضی وارادہ سے وجودمیں اتی ہے اوراسی کی طرف بازگشت کرتی ہے، خداوہ ہے کہ جوہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا،جوہرچیزے سے پہلے بھی تھااورہرچیزکے فناہوجانے کے بعدبھی رہے گا،اس کے علاوہ دنیاکی تمام چیزوں کے لئے فناہے وہ ہرچیزسے پہلے بھی تھااورہرچیزکے بعد بھی رہے گا، وہ ایساظاہرہے کہ جوہرشے پٔرفوقیت رکھتاہے اورکوئی اسے درک نہیں کرسکتاہے ،وہ باطن ہرشے ہے کہ جونہیں رکھتاہے پس وہ باقی ہے اوراس کے علاوہ ہرشئ کے لئے فناہے ۔

جب موذن دوسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہوتے ہیں: العلیم الخبیر ، علم بماکان ویکون قبل ان یکون یعنی خداوندعالم ہرچیزکاعلم وآگاہی رکھتاہے ،وہ ہراس چیزکاجوپہلے ہوچکی ہے اورجوکام پہلے ہوچکاہےپہلے سے علم رکھتاتھااورجوکچھ آئندہ ہونے والاہے یاوجودمیں انے والاہے اس کابھی پہلے ہی علم رکھتاہے ۔

۱۳۲

جب تیسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہیں: القادرعلی کل شئیقدرعلی مایشاء ،القوی لقدرتہ،المقتدرعلی خلقہ، القوی لذاتہ، قدرتہ قائمة علی اشیاء کلّہا،( اِذَاقَضٰی ا مْٔرًافَاِنَّمَایَقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ ) ۔ خداوہ ہے کہ جوہرشے پٔراختیاروقدرت رکھتاہے ،وہ اپنی قدرتے بل بوتے پرسب سے قوی ہے ، وہ اپنے مخلوق پرصاحب قدرت ہے ،وہ بذات خودقوی ہے اوریہ قدرت اسے کسی عطانہیں ہے ،اس قدرت تمام پرمحکم وقائم ہے ،وہ جب چاہے کسی امرکاحکم دے سکتاہے اورجیسے ہی وہ کسی امرکافیصلہ کرتاہے اوراس کے ہونے ارادہ کرتاہے تووہ صرف “کُن ”یعنی ہوجاکہتاہے اوروہ چیزہوجاتی ہے۔

جب چوتھی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے توگویاوہ یہ کہتاہے: خداوندعالم حلیم وبردبارہے اوربڑا کرامت والاہے ،وہ ایسااس طرح مددوہمراہی کرتاہے کہ انسان کواس کی جبربھی نہیں ہوتی ہے اورنہ وہ دکھائی دیتاہے ،وہ عیوب اس طرح چھپاتاہے کہ انسان اپنے آپ کوبے گناہ محسوس کرتاہے ،وہ اپنے حلم وکرم اورصفاحت کی بناپرجلدی سے عذاب بھی نازل نہیں کرتاہے۔ ” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم مہربان ہے ،عطاوبخشش کرنے والاہے اورنہایت کریم ہے ۔

” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم جلیل ہے اور جن صفات کامالک ہے صفت بیان کرنے والے بھی اس موصوف کامل صفت بیان نہیں کرسکتے ہیں اوراس کی عظمت وجلالت کی قدرکوبھی بیان نہیں کرسکتے ہیں،خداوندعالم علووکبیرہے ،صفت بیان کرنے صفات کے بیان کرنے بھی اسے درک نہیں کرسکتے ہیں پس مو ذٔن “الله اکبر”کے ذریعہ یہ بیان کرتاہے :

الله اعلیٰ وجل ، وھوالغنی عن عبادہ ، لاحاجة بہ الی اعمال خلقہ خداوندعالم اعلیٰ واجلّ ہے،سب سے بلندوبرترہے ، وہ اپنے بندوں سے بے نیازہے ،وہ بندوں کی عبادت سے بے نیاز ہے ( وہ اس چیزکامحتاج نہیں ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں ،کوئی اس کی عبادت کرے وہ جب بھی خداہے اورکوئی اس کی نہ کرے وہ تب بھی خداہے ،ہماری عبادتوں سے اس کی خدائی میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ہے اورعبادت نہ کرنے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں آسکتی ہے )۔

۱۳۳

”اشھدان لا ا لٰہ اٰلاّالله“

جب پہلی مرتبہ اس کلمہ شہادت کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ پر وردگا ر کے یکتا ویگا نہ ہونے کی گواہی دل سے معرفت وشناخت کے ساتھ ہونی چا ہئے دوسرے الفاظ میں یہ کہاجائے کہ مو ذٔن یہ کہتاہے کہ: میں یہ جانتاہوں کہ خدا ئے عزوجل کے علاوہ کوئی بھی ذات لائق عبادت نہیں ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی بھی چیزکومعبودومسجودکے درجہ دیناحرام اورباطل ہے اورمیں اپنی اس زبان سے اقرارکرتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اوراس چیزکی گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ میری کوئی پناگاہ نہیں ہے اورالله کے علاوہ کوئی بھی ذات ہمیں شریرکے شرسے اورفت نہ گرکے فت نہ سے نجات دینے والانہیں ہے ۔

جب دوسری مرتبہ “اشھدان لاالٰہ الاّالله”کہتاہے تواس کی معنی اورمرادیہ ہوتے ہیں : میں گواہی دیتاہوں کہ خدا کے علاوہ کو ئی ہدا یت کر نے والا موجود نہیں ہے اوراس کے کوئی راہنمانہیں ہے ،میں الله کوشاہدقراردیتاہوں کہ اس کے علاوہ میراکوئی معبودنہیں ہے ،میں گواہی دیتاہوں کہ تمام زمین وآسمان اورجت نے بھی ان انس وملک ان میں رہتے ہیں اوران میں تمام پہاڑ، درخت ،چوپایہ ،جانور،درندے ،اورتمام خشک وترچیزیں ان سب کاالله کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے ،اورالله کے علاوہ نہ کوئی رازق ہے اورنہ کوئی معبود،نہ کوئی نفع پہنچانے والاہے اورنہ نقصان پہنچانے والا،نہ کوئی قابض ہے نہ کوئی باسط،نہ کوئی معطی ہے اورنہ کوئی مانع ،نہ کوئی دافع ہے اورنہ کوئی ناصح ،نہ کوئی کافی ہے اورنہ کوئی شافی ،نہ کوئی مقدم ہے اورنہ کوئی مو خٔر،بس پروردگارہی صاحب امروخلق ہے اورتمام چیزوں کی بھلائی الله تبارک وتعالیٰ کے اختیارمیں ہے جودونوں جہاں کارب ہے ۔

” اشھدان محمدًا رسول الله“

جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ :میں الله کوشاہدقراردیتاہوں گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله) اس کے بندے اور اس کے رسول وپیامبر ہیں اورصفی ونجیب خداہیں،کہ جنھیں الله تبارک وتعالیٰ نے تمام لوگوں کی ہدایت کے دنیامیں بھیجاہے ،انھیں دین حق دیاہے تاکہ اسے تمام ادیان پرآشکارکریں خواہ مشرکین اس دین کوپسندنہ کریں ،اورمیں زمین وآسمان میں تمام انبیاء ومرسلین ا ورتمام انس وملک کوشاہدقراردیتاہوں کہ میں یہ گواہی دے رہاہوں کہ حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)سیدالاولین والآخرین ہیں۔

۱۳۴

جب مو ذٔن دوسری مرتبہ کلمہ“ اشھدان محمدًا رسول الله ” کوزبان جاری کرتاہے تووہ یہ کہتاہے کہ کسی کوکسی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب کوالله کی ضرورت ہے، وہ خداکہ جوواحدو قہارہے اوراپنے کسی بندے بلکہ پوری مخلوق میں کسی کامحتاج نہیں ہے ،خداوہ ہے کہ جس نے لوگوں کے درمیان ان کی ہدایت اور تبلیغ وترویج دین اسلام کے لئے حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)بشیرونذیراورروشن چراغ بنا کر بھیجا ہے، اب تم میں جو شخص بھی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی نبوت ورسالت کاانکا ر کرے اور آنحضرتپرنازل کتاب (قرآن مجید) پر ایمان نہ لائے توخدا ئے عزّوجل اسے ہمیشہ کے لئے واصل جہنم کردے گا اور وہ ہرگزناراپنے آپ کونارجہنم سے نجات دلاسکے

”حیّ علیْ الصلا ة“

جب پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو! اٹھو اور بہتر ین عمل (نماز) کی طرف دوڈو اور اپنے پرور دگا ر کی دعوت کو قبول کرو اور اپنی نجش کی خاطراپنے رب کی بارگاہ میں جلدی پہنچو،اے لوگو! اٹھواور وہ آگ جوتم نے گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے اپنے پیچھے لگائی ہے اسے نماز کے ذریعہ خاموش کرو،اوراپنے آپ کوگناہوں سے جلدی آزادکراؤ، صرف خداوندعالم تمھیں برائیوں سے پاک کر سکتاہے ،وہی تمھارے گناہوں کومعاف کرسکتاہے ،وہی تمھاری برائیوں کونیکیوں سے بدل سکتاہے کیونکہ وہ بادشاہ کریم ہے ،صاحب فضل وعظیم ہے ۔

جب دوسری مرتبہ “ حیّ علیْ الصلا ة ” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:اے لوگو!اپنے رب سے مناجات کے لئے اٹھواوراپنی حاجتوں کواپنے رب کی بارگاہ میں بیان کرو،اپنی باتوں کواس تک پہنچاؤاوراس سے شفاعت طلب کرو،اس کاکثرت سے ذکرکرو،دعائیں مانگواورخضوع وخشوع کے ساتھ رکوع وسجودکرو۔

۱۳۵

”حیّ علیْ الفلاح“

جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوکہتاہے تووہ لوگوں سے یہ کہتا ہے : اے الله کے بندو !راہ بقا کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راستے میں فنانہیں ہے اوراے لوگو!راہ نجات کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راہ میں کوئی ہلا کت وگمرا ہی نہیں ہے ،اے لوگو!راہ زندگانی کی طرف آنے میں جلدی کروکیونکہ اس راہ میں کوئی موت نہیں ہے، اے لوگو! صاحب نعمت کے پاس آجاؤکیونکہ اس کی نعمت ختم ہونے والی نہیں ہے ،اس بادشاہ کے پاس آجاؤکہ جس کی حکومت ابدی ہے جوکبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے ،خوشحالی کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی رنج وغم نہیں ہے ،نورکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی تاریکی نہیں ہے ،بے نیازکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ فقرنہیں ہے ،صحت کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی مریضی نہیں ہے ،قوت کے پاس آؤکہ جس کے ساتھ کوئی ضعف نہیں ہے اوردنیاوآخرت کی خوشحالی کی طرف قدم بڑھاؤاورنجات آخرت کاسامان کرو۔

جب دوسری “حیّ علیْ الفلاح ”کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو!آؤاوراپنے آپ کو خدا سے قریب کرو اورجس چیزکی تمھیں دعوت دی گئی ہے اس کی طرف چلنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو اور فلاح ورستگاری کے ساتھ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)(اورائمہ اطہار )کے قرب وجوارجگہ حاصل کرو ۔

”الله اکبر“

جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں پہلی مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ یہ جملہ کہہ کر اس بات کا اعلا ن کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہبلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اس بندے کے لئے کیاکیانعمت وکرامتیں ہیں جو اس کی دعوت پرلبیک کہتاہے ،اس کی پیروی کرتاہے،اس کے ہرامرکی اطاعت کرتاہے ،اس کی معرفت پیداکرتاہے ،اس کی بندگی کرتاہے ،اس کا ذکرکرتاہے ،اس سے انس ومحبت کرتاہے ،اسے اپنی پناگاہ قراردیتاہے ،اس پراطمینان کامل رکھتاہے ،اپنے دل میں اس کاخوف پیداکرتاہے اوراس کی مرضی پرراضی رہتاہے تو خدا ومتعال اس پراپنا رحم وکرم نازل کرتا ہے۔ جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں دوسری مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ اس کلمہ کے ذریعہ اس بات کااعلان کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہ بلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اپنے اولیاء اوردوستوں کے لئے کس مقدارمیں کرامتیں موجودہیں اور اپنے دشمنوں کے لئے اس کے پاس کت ناعذاب وعقوبت ہے ،جواس کی اس کے رسول کی دعوت پرلبیک کہتاہے اورحکم خداورسول کی اطاعت کرتاہے ان کے لئے اس کی عفووبخشش کت نی ہے اورکت نی نعمتیں ہیں اورشخص اس کے اوراس کے رسول کے حکم کوماننے سے انکارکرتاہے اس کے لئے کت نابڑاعذاب ہے ۔

۱۳۶

” لَااِلٰہ اِلّاالله“

جب مو ذٔن “لَااِلٰه اِلّاالله ” کہتاہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں:خدا وند عالم لوگو ں کے لئے رسول ورسالت اوردعوت وبیان کے ذریعہ ایک دلیل قاطع ہے کیونکہ اسنے لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول ورسالت کابہترین انتظام کیاہے ،پس جواس کی دعوت پرلبیک کہتاہے اس کے لئے نوروکرامت ہے اورجوانکارکرتاہے چونکہ خداوندعالم دوجہاں سے بے نیازہے لہٰذااس کاحساب کرنے میں بہت جلدی کرتاہے ۔

”قدقامت الصلاة“

جب بندہ نمازکے لئے اقامت کہتاہے اوراس میں “ قدقامت الصلاة ”کہتاہے تواس کے یہ معنی ہیں:

حان وقت الزیارة والمناجاة ، وقضاء الحوائج ، ودرک المنی والوصول الی الله عزوجل والی کرامة وغفرانه وعفوه ورضوانه

یعنی پروردگارسے مناجاتاوراس سے ملاقات کرنے ،حاجتوں کے پوراہونے ،آرزو ںٔ کے پہنچنے ،بخشش،کرامت ،خوشنودی حاصل کرنے کاوقت پہنچ گیاہے ۔ شیخ صدوق اس روایت کے بعدلکھتے ہیں: اس حدیث کے راوی نے تقیہّ میں رہنے کی وجہ سے جملہ “حیّ علیٰ خیرالعمل ” کا ذکر نہیں کیا ہے کہ حضرت علینے اس جملہ کیاتفسیرکی ہے لیکن اس جملہ کے بارے میں دوسری حدیثوں میں آیاہے:

روی فی خبرآخر:انّ الصادق علیه االسلام عن “حی علی خیرالعمل” فقال:خیرالعمل الولایة، وفی خبرآخرخیرالعمل بر فاطمة وولدها علیهم السلام.

روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام صادق سے“حیّ علیٰ خیرالعمل”کے بارے میں سوال کیا گیا ، حضرت نے فرمایا : “حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی ولایت اہل بیت ۔ اور دوسری روایت میں لکھا ہے :“حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزندں کی نیکیوںطرف آؤ۔(۱)

____________________

۱). نوحید(شیخ صدوق)/ ص ٢٣٨ .۔معانی لاخبار /ص ۴١ ۔بحارالانوار/. ٨١ /ص ١٣١

۱۳۷

عن محمدبن مروان عن ابی جعفرعلیه السلام قال:ا تٔدری ماتفسیر“حی علی خیرالعمل” قال:قلت لا، قال:دعاک الی البر، ا تٔدری برّمن؟قلت لا، قال:دعاک الی برّفاطمة وولدها علیهم السلام.

محمدابن مروان سے مروی ہے کہ امام محمدباقر نے مجھ سے فرمایا:کیاتم جانتے ہوکہ “حی علی خیرالعمل ”کے کیامعنی ہیں؟میں نے عرض کیا:نہیں اے فرزندرسول خدا،آپ نے فرمایا: مو ذٔن تمھیں خیرونیکی کی طرف دعوت دیتاہے ،کیاتم جانتے ہووہ خیرنیکی کیاہے؟میں نے عرض کیا: نہیں اے فرزندرسول خدا ، توامام (علیه السلام) نے فرمایا:وہ تمھیں حضرت فاطمہ زہرا اوران کی اولاداطہار کے ساتھ خیرونیکی کاحکم دیتاہے۔(۱)

بلال کومو ذٔن قراردینے کی وجہ

اذان واقامت میں شرط یہ ہے کہ مو ذٔن وقت شناس ہواورنمازکاوقت شروع ہونے کے بعداذان واقامت کہے ،وقت داخل ہونے سے پہلے کہی جانے والی اذان واقامت کافی نہیں ہے، اگروقت سے پہلے کہہ بھی دی جائے تووقت پہنچنے کے بعددوبارہ کہاجائے ،بلال وقت شناس تھے ،اورکبھی وقت سے پہلے اذان نہیں کہتے تھے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بلال کی اذان وآوازکودوست رکھے اسی لئے بلال کوحکم دیاکرتے تھے اورکہتے تھے: اے بلال!جیسے نمازکاوقت شروع ہوجائے تو مسجدکی دیوارپرجاؤاوربلندآوازسے اذان کہو۔

ایک اورروایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس دومو ذٔن تھے ایک بلال اوردوسرے ابن ام مکتوم ،ابن ام مکتوم نابیناتھے جوصبح ہونے سے پہلے ہی اذان کہہ دیاکرتے تھے اورحضرت بلال طلوع فجرکے وقت اذان کہاکرتے تھے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:

ان ابن مکتوم یو ذٔن بلیل، اذاسمعتم اذانه فکلواواشربواحتی تسمعوااذان بلال

. ابن مکتوم رات میں اذان کہتے ہیں لہٰذاجب تم ان کی اذان سنو تو کھانا پینا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں بلال کی اذان کی آوازآئے (لیکن اہل سنت نے پیغمبر کی اس حدیث کوپلٹ دیاہے اورکہتے ہیں کہ بلال رات میں اذان دیاکرتے تھے،اورکہتے ہیں:نبی نے فرمایاہے کہ: جب بلال کی اذان سنوتوکھاناپیناکرو)(۲)

____________________

۱). علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۶٨

۲)من لایجضرہ الفقیہ/ج ١/ص/ ٢٩٧

۱۳۸

مو ذٔن کے مرد،مسلمان اورعاقل ہونے کی وجہ

اذان واقامت کہنے والے کامردہوناچاہئے اورکسی عورت کااذان واقامت کہناصحیح نہیں ہے کیونکہ مردوں کاعورت کی اذان واقامت پراکتفاکرناصحیح نہیں ہے لیکن عورت کاعورتوں کی جماعت کے لئے اذان واقامت ذان جماعت کہناصحیح اورکافی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اذان واقامت کہنے والی عورت آوازات نی بلندرہے کہ اس کی آوازمردوں کے کانوں تک نہ پہنچے کیونکہ عورتوں کواپنی آوازکوبھی پرودہ میں رکھناچاہئے اسی لئے عورت عورت کوچاہئے کہ جہری نمازوں اگرنامحرم آوازکوسن رہاہوتوآہستہ پڑھے جیساکہ ہم رازجہرواخفات میں ذکرکریں گے۔

زاراہ سے مروی ہے کہ میں نے امام باقر سے پوچھا:کیاعورتوں کوبھی اذان کہناچاہئے ) ؟امام(علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا:ان کے لئے شہادتین کہناہی کافی ہے ۔(۱)

قال الصادق علیه السلام:لیسعلی النساء ا ذٔان ولااقامة ولاجمعة ولاجماعة. امام صادق فرماتے ہیں:عورتوں کے لئے نہ اذان ہے نہ اقامت ،اورنہ جمعہ ہے نہ جماعت۔(۲)

مو ذٔن کے لئے ضروری ہے کہ عاقل وباایمان ہواگرکوئی مجنون یاغیرمومن اذان یااقامت کہے تووہ قبول نہیں ہے کیونکہ قلم تکلیف اٹھالیاگیاہے البتہ مو ذٔن کابالغ ہوناشرط نہیں ہے بلکہ نابالغ بچہ کی اذان واقامت صحیح ہے جبکہ وہ بچہ ممیزہو۔

اذان کے کلمات کی تکرارکرنے کومستحب قراردئے جانے کی وجہ

جولوگ اذان کی آوازکوسن رہے ہیں ان کے لئے مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہہ رہاہوتو اس وقت خاموش رہیں اور اذان کے کلمات کوغورسے سنیں اورمو ذٔن کی زبان سے اداہونے والے کلموں کی تکرارکریں،یہاں تک اگرانسان بیت الخلامیں بھی اذان کی آوازسنے تواس کی تکرارکرے

قال ابوعبدالله علیه السلام :ان سمعت الاذان وانت علی الخلاء فقل مثل مایقول المو ذٔن ولاتدع ذکراالله عزوجل فی تلک الحال .

امام صادق فرماتے ہیں:اگرتم بیت الخلامیں ہواوراذان کی آوازسنوتومو ذٔن کے کلمات کی تکرارکرواوراس حال میں ذکرخداسے غفلت نہ کرو۔(۳)

____________________

۱)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۵٨

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٩٨

۳). علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨۴

۱۳۹

سلیمان ابن مقبل مدائنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام موسی کاظمسے پوچھا: حدیث میں آیاہے :مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہے تو اذان سننے والا اذان کے کلموں کی تکرارکرے خواہ اذان کوسننے والابیت الخلامیں ہی کیوں نہ بیٹھاہو ،اس کے مستحب ہونے کی کیاوجہ ہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

انّ ذلک یزیدفی الرزق

کیونکہ اذان کے کلموں کی حکایت اورتکرارکرنے سے رزق وروزی میں اضافہ ہوتاہے ۔(۱)

ایک شخص حضرت امام جعفرصادق کی خدمت میں آیاکہا:اے میرے مولامیں بہت ہی غریب ہوں اپ مجھے کوئی ایساچیز بتائیں کہ جس سے میری یہ فقیری ختم ہوجائے ،امام (علیه السلام)نے اس فرمایا :

ا ذِّٔنْ کُلّماسمعت الاذان کمایو ذّٔن المو ذّٔن ۔

جب بھی تم اذان کی آوازسنوتو اسے مو ذٔن کی طرح تکرارکرو(۲)

اذان واقامت کانقطہ آٔغاز

اذان واقامت کہ جس کی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائد اوراس کے احکام کے متعلق آپ نے ات نی زیادہ نے ملاحظہ فرمائیں ان چیزوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس نقطہ آٔغازوحی الٰہی ہے ،تمام علماء وفقہائے شیعہ اثناعشری کااس بات اتفاق وعقیدہ ہے کہ دین اسلام میں اذان واقامت کاآغازوحی الٰہی کے ذریعہ ہواہے کیونکہ ہمارے پاس کے بارے میں معتبرروایتیں موجودہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ اذان اقامت کاآغازاورمشروعیت وحی کے ذریعہ ہوئی ہے لیکن علمائے اہل سنت اکثریت اس بات پرعقیدہ رکھتی ہے کہ اذان واقامت کاعبدالله ابن زیدکے خواب کے ذریعہ ہواہے جسے حدیث رو یٔاکانام دیاگیاہے اورکہتے ہیں کہ اذان واقامت کے متعلق الله کی طرف کوئی نازل نہیں ہوئی ہے۔

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/باب الاذان والاقامة. بحارالانوار/ج ٨۴ /ص ١٧۴

.۲) مکارم الاخلاق /ص ٣۴٨

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

اوراگرفکربھی کرتے ہیں توانھیں آئندہ سال تک کے لئے تاخیرمیں ڈال دیتے ہیں،یانمازمیں اس کے آداب وشرائط کارعایت نہیں کرتے ہیں اورجلدبازی میں نمازپڑھتے ہیں وہ لوگ کافرکاحکم رکھتے ہیں،ہم یہاں پراسبارے میں چندروایتوں کوذکرکررہے ہیں:

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:مابین المسلم وبین اَنْ یکفرالااَن یترک الصلاةالفریضة متعمداًاَویتهاون بهافلایصلیها ۔(۱) حضرت امام صادق سے مروی ہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :کسی مسلمان کے کافرہوجانے میں صرف اتنافاصلہ ہے کہ وہ نمازکوعمداًترکرے یانمازپڑھنے میں سستی استعمال کرے اورنمازنہ پڑھے یہاں تک کہ قضاہوجائے ۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:من ترک الصلاة لایرجواثوابها ولایخاف عذابهافلاابالی ا یٔموت یهودیاًا ؤنصرانیاًا ؤمجوسیاً ۔( ۲)رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو ترک کرتا ہے اور نماز کے وسیلہ سے کسی اجرو ثواب کی امید نہیں ر کھتا ہے اور ترک نماز کے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتاہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایساشخص یہود ی یانصرانی یا مجوسی کی موت مرتا ہے۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : ایک شخص رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں حاضرہوااور عرض کیا :یا رسول الله آپ مجھے کو ئی نصیحت کیجئے آنحضرت نے فرمایا : نماز کو عمداً ترک نہ کرو کیو نکہ جو شخص عمداً نماز کو ترک کر تا ہے خدا اور اس کے رسول اورپوری ملت اسلا میہ اس سے بیزاررہتی ہے(اوروہ شخص کافرہے جس سے الله اوراس کے رسول ناخوش ہوں)۔(۳)

عبیدابن زرارہ سے مروی ہے: میں نے امام صادق سے سوال کیا: کن کاموں کو گناہ کبیرہ کہاجاتا ہے ؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا : کلام امیرالمومنین حضرت علی میں سات چیزیں گناہ کبیرہ ہیں:

١۔ وجودذات باری تعالیٰ کا انکار کرنا ٢۔ انسان کو قتل کرنا ٣۔ عاق والدین قرار پانا ۴ ۔ سودلینا ۵ ۔ ظلم وستم کے ساتھ یتمیوں کا مال کھانا ۶ ۔ میدان جہاد چھوڑکربھاگ جانا ٧۔ ہجرت کے بعد اعرابی ہوجانا

____________________

۱). ثواب الاعمال/ص ٢٠٧

.۲)مصباح الفلاح/ص ١٧۴

۳)جامع الاحادیث الشیعہ،ج ۴،ص ٧۴

۴)صحرانشینی کوچھوڑکررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)یا ان کے جانشین کی ( خدمت میں پہنچ کردین اسلام اختیارکرنااوراس کے احکام ومسائل سے آگاہ ہونے کوہجرت کہاجاتاہے لہٰذاجوشخص دین اسلام سے مشرف ہوکراوراس کے احکام ومسائل سے مطلع ہونے کے بعداپنی پہلی والی حالت پرواپس آجائے ےعنی دوبارہ جہالت ونادانی کی طرف پلٹ جائے اسے اعرابی کہاجاتا ہے (گناہان کبیرہ /ج ٢/ص ۵۔ ۶)

۲۸۱

میں نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا : کیا یہ چیزیں گناہ کبیرہ ہیں ؟ فرمایا: ہاں میں نے امام (علیه السلام)سے سوال کیا : یتیم کے مال سے ظلم کے ساتھ ایک درہم کھانا بڑا گناہ ہے یا نماز کا ترک کرنا ؟ امام (علیه السلام)نے جواب دیا : ترک نمازاس سے بھی بڑا گناہ ہے میں نے پو چھا : پھر آپ نے ترک نماز کوگناہ کبیر ہ میں شمار کیوں نہیں کیاہے ؟ امام (علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا : میں نے گناہ کبیرہ میں سب سے پہلے کس چیزکوذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا : کفرکو، تو امام (علیه السلام) نے فرمایا : نماز ترک کرنے والا ) شخص کافر ہے(۱)

مسعدہ ابن صدقہ سے مروی ہے کہ :کسی نے امام صادق سے سوال کیا : کیاوجہ ہے کہ آپ زانی جیسے شخص کوکافرنہیں کہتے ہیں اورتارک الصلاة کو کا فرکہتے ہیں ؟امام (علیه السلام) نے جواب دیا : کیونکہ زانی وہ شخص ہے جو شہوت نفسانی کے غالب ہوجانے کی وجہ سے زناکا مرتکب ہوتاہے ، لیکن وہ شخص جو نمازکو ترک کرتا ہے وہ اسے ہلکااورناچیز سمجھ کرترک کرتاہے

تارک الصلاة کوکافرقراردینے اورزانی کوکافرقرارنہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زانی جب اس گناہ کی طرف قدم اٹھاتاہے اورکسی نا محرم عورت کی تلاش میں نکلتاہے اوراس کے ساتھ زناکامرتکب ہوتاہے تووہ اس گناہ کو انجام دینے میں لذّت حاصل کرنے کاارادہ رکھتاہے لیکن تارک الصلاة کو ترک نماز سے ہر گز لذّت کاارا دہ نہیں رکھتاہے کیونکہ ترک نماز میں کوئی لذّت نہیں پائی جاتی ہے اسی لئے نماز کو ہلکااورنا چیز سمجھ کر ترک کرتا ہے اور نماز کو ہلکا شمار کرنے کی وجہ سے کفرحاصل ہوجاتاہے ۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں : اس حدیث میں کفرسے اس کے حقیقی معنی مرادنہیں ہیں کہ تارک الصلاة نجس ہے اور یہ بھی مراد نہیں ہے کہ تارک الصلاة سے ہاتھ سے کسی مرطوب چیزکا لیناحرام ہے وغیرہ وغیرہ تارک الصلاة منکرنماز نہیں ہے اور نہ ترک نماز کو حلال ) شمار کرتا ہے کیونکہ اسصورت میں اگر زناکار بھی زناکو حلال جانتاہے ، کافر ہے۔(۱)

قال الصادق علیه السلام:لیسمن شیعت نامن لم یصل الصلاة ۔(۲) امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکوترک کرتاہے وہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے

____________________

۱)اصول کافی(باب کفر)/ج ۴/ص ٩٧ ۔ ٩٨

. ٢)المقنہ( شیخ مفید)/ص ١١٩ )

۲۸۲

تارک الصلاة کو ہنساناگناہ عظیم ہے

دین اسلام میں بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلانا گناہ کبیرہ ہے

قال رسو ل الله صلی الله علیه وآله:من تبسم فی وجه تارک الصلاة فکانماهدم الکعبة سبعین مرة وقتل سبعین ملکا ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص کسی بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلائے گویااسنے سترمرتبہ کعبہ کومنہدم کیااورسترملائکہ کوقتل کیا۔

قال علیه السلام:من تبسم فی وجه تارک الصلاة فکانماهدم بیت المعمورسبع مرة،وکانّماقتل الف ملک من الملائکة المقربین والانبیاء المرسلین ۔(۲) امامفرماتے ہیں:جوشخص کسی بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلائے گویااس نے بیت المعمورکوسات مرتبہ منہدم کیااورگویااسنے اللھ مقرب ہزارفرشتوں اورہزارنبیوں کوقتل کیا۔

تارک الصلاة کی مددکرناحرام ہے

قال علیه السلام:من اعان تارک الصلاةبلقمة ا ؤکسوة فکانّماقتل سبعین نبیّااوّلهم آدم(عوآخرهم محمد(ص ۔(۳)

امامفرماتے ہیں:جوشخص کسی بے نمازی کی ایک لقمہ یاکسی کپڑے سے مددکی گویااس نے سترنبیوں کاقتل کیاجن میں سب سے پہلے آدم (علیه السلام)اورآخری حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)ہیں۔

قال:من اعان تارک الصلاة بلقمة کانّمااعان علی قتل الانبیاء کلّهم ۔( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جس شخص نے کسی بے نمازی کی ایک لقمہ کے ذریعہ بھی مددکی گویااس نے تمام انبیاء کے قتل میں مددکی ہے ۔(۴)

____________________

. ۱)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ١۵

. ٢)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ١۵

۳)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ۱۵

۴)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ۵١

۲۸۳

تارک الصلاة کے ساتھ کھاناپیناحرام ہے

قال صلی الله علیه وآله وسلم :من آکل مع من لایصلی کانّمازنیٰ بسبعین محصنة من بناته وامهاته وعماته وخالاته فی بیته الحرام ۔(۱) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص بے نمازی کے ساتھ کھاناکھائے ایساہے جیسے اس نے بیت الحرام میں اپنی ٧٠ /پاکدامن لڑکیوں اورماو ںٔ اورپھوپھی،خالہ اورچچی کے ساتھ زناکیاہو۔

بے نمازی کو غسل وکفن نہ دیں اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کریں

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من ترک الصلاة ثلاثة ایام فاذامات لایغسّل ولایکفّن ولایُدفنُ فی قبورالمسلمین ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص تین دن تک عمداً نمازترک کرتاہے اسے غسل وکفن نہ دیاجائے اوراسے مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن نہ کیاجائے ۔

نمازکوہلکاسمجھ کرترک یاضایع کرنے کاعذاب

وہ لو گ جونمازچندعلل واسباب(جنھیں ہم ذکرکریں گے )کی بنا پرنمازکوبہت ہی آسان اورہلکاسمجھتے ہیں اورنمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرتے ہوئے ،اس کے اداکرنے میں لاپرواہی کرتے ہیں ،نمازکی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ہیں ،اوراصلاًنمازنہیں پڑھتے ہیں یاایک دن پڑھتے ہیں اوردوسرے دن ترک کردیتے ہیں یاایک وقت پڑھتے اوردوسرے وقت کی قضاکردیتے ہیں اورقضاکی ہوئی نمازوں کوانجام دینے کی فکربھی نہیں کرتے ہیں اوراگرفکربھی کرتے ہیں توانھیں آئندہ سال تک کے لئے تاخیرمیں ڈال دیتے ہیں،یانمازکے آداب وشرائط کی رعایت نہیں کرتے ہیں ،یااہلبیت کی محبت کے بغیرنمازیں پڑھتے ہیں:

١۔ایسے لوگوں کے لئے الله کی طرف سے دنیامیں بھی عذاب ہے اورآخرت میں بھی انھیں دردناک عذاب میں مبتلاکیاجاے گااوراس کوئی نیک عمل بھی قبول نہیں کیاجائے گا۔ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:( وَکَاَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِرَبِّهَاوَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنٰهَاحِسَاباً شَدِیْدًا وَعَذَّبْنَاهَاعَذَابًانُکْرًا ) (۳) اورکت نی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے حکم خدا ورسول کی نافرمانی کی توہم نے ان کاشدیدمحاسبہ کیااورانھیں بدترین عذاب میں مبتلاکردیا۔

____________________

١)لسان المیزان /ج ٢/ص ٢۵١

۲)جامع الاخبار/ص ١٨٧

. ۳)سورہ طٔلاق /آیت ٨۔ ١٠

۲۸۴

قال رسول الله صلی الله علیه واله:من ترک الصلاة حتی تفوته من غیرعذرفقدحبط عمله ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص نمازکوبغیرکسی مجبوری کے ترک کردیتاہے اس کے تمام اعمال اس سے سلب کرلئے جاتے ہیں اوراسے اس کے بقیہ نیک کاموں پرکوئی اجرنہیں ملتاہے۔

٢۔ بے نمازی محمدوآل محمد کی شفاعت سے محروم رہے گا اوراسے حوض کوثرسے سیراب نہیں کیاجائے گا

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لیس منی من استخف بصلاتة ،لایردعلیّ الحوض لاوالله،ولیسمنی من شرب المسکراً،لایردعلیّ الحوض لاوالله (۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جواپنی نمازوں کے بارے میں بے توجہی ولاپرواہی کرتاہے اورخداکی قسم ایسا شخص میرے ساتھ حوض پرنہیں ہوگااوروہ شخص بھی میرے پاس حوض کوثرپرنہیں ہوگاجومسکرات کااستعمال کرتاہے۔

عن ابی بصیرعن ابی جعفرعلیه السلام قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاینال شفاعتی من استخف بصلاته ،لایردعلیّ الحوض لاوالله ۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جونمازکوہلکاشمارکرتاہے اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی اوروہ حوض کوثرپرمیرے پاس نہیں ہوگا۔

ابوبصیر سے مروی ہے:میں حضرت امام صادقکی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ امّ حمیدہ کی خدمت میں تسلیت پیش کرنے کیلئے پہنچا تو انھوں نے رونا شروع کردیا انھیں روتے ہوئے دیکھ کر میں بھی امام (علیه السلام)کی یاد میں رونے لگا اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا:اے ابوبصیر! اگر تم امام (علیه السلام)کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجو د ہوتے تو ایک عجیب منظر دیکھتے ، امام نے پروازروح سے قبل اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا : میرے تمام عزیزوں واقارب کومیرے پاس جمع کیا جائے ، کوئی ایساباقی نہ رہاجواس وقت نہ آیاہو،جب سب امام (علیه السلام)کی خدمت میں حاضر ہوگئے توامام صادق نے ان کی طرف نگاہ کر کے ارشاد فرمایا :انّّ شفاعت نالات نال مستخفاًبالصلاة نمازکوہلکاسمجھنے والے کوہرگزہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(۴)

____________________

.۱)بحارالانوار/ج ٧٩ /ص ٢٠٢

.۲)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

. ۳)اصول کافی/ج ۶/ص ۴۴٠

۴). من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

۲۸۵

بے نمازی دنیاوآخرت میں پندرہ مشکلوں میں گرفتارہوتاہے حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتی ہیں:ایک دن میں نے اپنے والدمحترم سیدالمرسلین حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) سے پوچھا : اے بابا جان ! ہروہ مرد اور عورت جو نمازپڑھنے میں لاپرواہی اور بے توجہّی استعمال کرتے ہیں اور نماز کو بہت آسان کام سمجھتے ہیں ان کی سزاکیاہے؟

ختم المرسلین نے جواب دیا: اے میری پارئہ جگر ! اگر کوئی مرد یا عورت نماز کو آسان کام سمجھتا ہے اوراس کے اداکرنے میں لاپرواہی استعمال کرتا ہے توایساشخص دنیا وآخرت میں ١ ۵ / مشکلوں میں گرفتار ہوتا ہے ،چھ مشکلیں دنیا میں ہی اس کودرپیش آتی ہیں اور تین مشکلوں میں مرتے وقت گرفتار ہوتا ہے اور تین مشکلیں قبر کے اندرواقع ہونگی اور تین مشکلوں میں اس وقت گرفتارہوگاجب اسے روز قیامت قبر سے بلند کیا جائے گا لیکن وہ مصبتیں جو دنیا ہی میں بے نمازی پرنازل ہوتی ہیں یہ ہیں:

یرفع الله البرکة من عمره ،یرفع الله البرکة من رزقه، یمحوالله عزوجل سیماء الصالحین من وجهه،کلّ عمل یعمله لایوج علیه،لایرتفع دعائه الی السماء، لیسله حظٌ فی دعاء الصالحین .

١۔خدااس کی عمرسے برکت کوسلب کرلےتاہے جس سے اس کس کی عمربہت کم ہوتی ہے.

٢۔خدوندعالم نمازترک والوں کے رزق سے برکت اٹھالیتاہے

٣۔( متقی اورپرہیز گارجیسے لوگوں کے چہرے شاداب ا ورنورا نی ہوتے ہیں اور)تارک الصلاة لوگوں کے چہروں پراکثراداسی رہتی ہے

۴ ۔بے نمازی کواپنے دیگر نیک اعمال پرکوئی اجروثواب نہیں ملتاہے(جس طرح کسان کواپنی زمین کی سنچائی کئے بغیرکوئی چیزدستیاب نہیں ہوتی ہے چاہے وہ اس میں کت نے ہی کام کرتارہے اسی طرح بے نمازی اس کے کسی اچھے کام پرکوئی اجرنہیں ملتاہے چاہے کت نے ہی نیک کام انجام دیتارہے

۵ ۔الله کی بارگاہ میں اس کی دعائیں مستجاب نہیں ہو تی ہیں بلکہ اس کی بارگاہ میں اسی کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں جوواجبات کواداکرتاہے۔

۶ ۔بے نمازی متقی وپر ہیز گا ر لوگوں دعاؤمیں کوئی حصہ نہیں رکھتاہے اگروہ بے نمازی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں تو خداان کی دعاؤں کوہرگزقبول نہیں کرتاہے ۔ اوروہ تین عذاب جو احتضار کے وقت بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں یہ ہیں:

۲۸۶

انّه یموت ذلیل، یموت جائعا،یموت عطشانا،فلوسقی من انهارالدنیالم یروِّعطشه .

١۔مومن اورصالح افرادعزت کی موت مرتے ہیں لیکن بے نمازی لوگ ذلّت کی موت مرتے ہیں

٢۔بھوک کے عالم میں بے نمازی کی روح قبض ہوتی ہے

٣۔مرتے وقت بے نمازی کو اس قدر پیاس لگتی ہے کہ اگرپوری دنیا کے دریا وسمندر کاپانی بھی اسے پلادیاجائے پھر بھی سیراب نہیں ہوسکتاہے۔ اور وہ تین عذاب جوعالم برزخ میں بے نمازی پرنازل ہوتے ہیں یہ ہیں:

یوکل الله به ملکاً یزعجه فی قبره ، یضیق علیه قبره ، تکون الظلمة فی قبره .

١۔ خدا وند عالم ایک فرشتہ کو اس کی قبر میں موکل کرتاہے جو اسے روزقیامت تک عذاب و شکنجہ دیتا رہے گا۔

٢۔جب تمام لوگ اسے ت نگ کوٹھری میں بند کرکے اپنے گھروں کوواپسچلے جاتے ہیں تواس کی وہ قبراوربھی زیادہ ت نگ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے نمازی فشار قبر میں مبتلا ہوتاہے ۔

٣۔اسکی قبر میں اندھیراہی اندھیراہوتاہے ۔ وہ تین عذاب جوروزمحشر قبرسے بلندہوتے وقت بے نمازی پر نازل ہونگے یہ ہیں:

ان یوکل اللهملکایسبحه علی وجهه والخلائق ینظرون الیه ، یحاسب حساباشدیداً ، لاینظرالله الیه ولایزکیه وله عذاب الیم

١۔ ایک فرشتہ حکم خدا سے بے نمازی کو زمین پر پیٹ کے بل لٹاکرکھینچ کر خدا کے سامنے لا ئے گا اور تمام مخلوق اس کا نظا رہ کرتی ہو گی۔

٢۔ اس کابہت ہی سخت حساب لیا جائے گا۔

٣۔ خدا وند متعال اسے رحمت کی نگاہوں سے ہرگزنہیں دیکھے گا اوروہ پاک نہیں ہوسکتاہے اور اس کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(۱)

آپ حضرات اس طولانی حدیث میں بے نمازی اورنمازکوہلکاسمجھنے والے اورنمازکوضایع کرنے والے لوگوں پردنیاوآخرت میں نازل ہونے عذاب سے مطلع ہوئے لیکن بے نمازی پردنیامیں نازل ہونے عذاب سے متعلق یہ دوواقعہ بھی قابل ذکر ہیں:

____________________

. ۱) فلاح السائل /ص ٢٢ ۔بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ١٢١ ۔ ١٢٢

۲۸۷

١۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں تاریخ میں ملتاہے کہ آپ ایک مرتبہ کسی دیہات میں کے قریب سے گذررہے تھے تودیکھاکہ وہ دیہات بہت ہی سبزوشاداب ہے اور اس کے پاس سے پانی کی نہریں بھی گزررہی ہیں ،وہاں کے لوگوں نے آپ کابہت اچھااستقبال کیا اوران کی بہت عمدہ مہمان نوازی کی حضرت عیسیٰ ان کے اس حسن سلوک اورخوش اخلاقی کودیکھ کربہت زیادہ متعجب ہوئے،اتفاقاًتین سال کے بعدپھردوبارہ حضرت عیسیٰ کاوہاں سے گذرہواتودیکھاکہ وہ تمام ہرے بھرے باغ ا وردرخت، پانی کی نہریں اورچشمہ سب خشک ہوچکے ہیں ،حضرت عیسیٰ اس قریہ کی یہ حالت دنگ رہ گئے اورنہایت تعجب کے ساتھ اپنے پروردگارسے کہا: بارالٰہا!ات نی کم مدت میں یہ سب کیاہوگیاہے یہ آبادی کیوں بربادہوگئی ہے ؟ وحی الٰہی نازل ہوئی :اے عیسیٰ !ٰاس قریہ کی تباہی کی وجہ یہ ہےکہ ایک بے نمازی جب اس قریہ میں پہنچااور اس نے قریہ کے چشمہ کے پانی سے اپنامنہ ہاتھ دھویاتواس بے نمازی کی نحوست سے یہ پوراگاؤں ویران ہوگیا،زمین سے چشموں پانی کانکلنابندہوگیا،دریاکی روانی رک گئی اوراے عیسیٰ سنو!جس طرح ترک نمازکی وجہ سے دین تباہ ہوجاتاہے اسی طرح ترک نماز کی وجہ سے دنےا بھی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔(۱)

٢۔ ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچااورکہا:یارسول الله!میں مالدارشخص تھالیکن میں اس وقت بہت ت نگدست ہوچکاہوں،آنحضرت نے فرمایا:کیاتم نمازنہیں پڑھتے ہو؟عرض کیا:میں پانچوں وقت کی نمازیں اپ ہی کے ساتھ اداکرتاہوں،آنحضرت نے پوچھا: کیاتم روزہ نہیں رکھتے ہو؟جواب دیا:میں سال میں تین ماہ( رجب شعبان رمضان )کے روزے رکھتاہوں،آنحضرت نے پھرسوال کیا:کیاتم امرکونہی اورنہی کوامرقراردیتے ہو؟عرض کیا:نہیں یارسول الله !.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:پھرتم ایسا کونسا گناہ انجام دیتے ہو؟ عرض کیا:اے الله کے رسول !میں کے خداو رسول کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتاہوں،یہ بات سن کرآنحضرت نہایت تعجب کے ساتھ گہری فکرمیں مبتلاہوگئے ، پروردگارکی جانب سے جبرئیل امین نازل ہوئے اورکہا:

یارسول الله! خداآپ پردرودوسلام بھیجتاہے اورفرماتاہے:اس شخص سے کہدیجئے کہ تیرے فقیروت نگدست ہوجانے کی وجہ یہ ہے کہ تیرے گھرکے برابرمیں ایک باغ ہے جس میں ایک درخت پرچڑیاکاگھونسلہ ہے اوراس گھونسلہ میں ایک بے نمازی کی ہڈی رکھی ہوئی ہے جسکی نحوست کی وجہ سے یہ شخص فقیرہوگیاہے ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے الله تبارک وتعالیٰ کے اس پیغام کواس شخص سے بیان کیا،وہ شخص باغ میں گیااور ہڈی کوگھونسلہ سے نکال کر اپنے گھرسے دورکسی جگہ پرپھینک آیااس کے بعدوہ شخص دوبارہ مالدارہوتاگیا۔(۲)

____________________

.۱)شناخت نماز/ص ١٧۵

. ٢)شناخت نماز/ص ١٧۵

۲۸۸

دنیامیں چارقسم کے مسلمان ہیں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت میں چارقسم کے لوگ ہیں: ١۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جوہمیشہ نمازپڑھتے ہیں مگراپنی نمازوں میں غفلت اورسستی کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے خداکی طرف ایک عذاب معین ہے جسکانام ویل ہے (ویل جہنّم کے ایک کنوے کانام ہے) جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:

( فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَ الَّذِ یْنَ هُمْ عَن صَلاَ تِهِمْ سٰاهُونَ ) (۱)

ویل جہنم میں ایک تباہی کی جگہ ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔

٢۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کبھی نماز پڑھتے ہیں اور کبھی ترک کردیتے ہیں ،ایسے لوگوں کواہل غی کہا جاتاہے اورغی جہنم کے کنوں میں ایک کنواں کانام ہے ،خدا وندمتعال اس گروہ کے بارے میں قرآنکریم میں ارشادفرماتا ہے:

( فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ اَضٰا عُو االصَّلٰو ةَ وَ اتَّبِعُو االشَّهَوٰ تِ فَسَوفَ یَلْقُونَ غَیا ) (۲)

پھر ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔

٣۔ دنیامیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جوہر گز نماز نہیں پڑھتے ہیں ، ایسے لوگوں کو“اہل سَِقَرْ” کہا جاتاہے ، سَقَرْ بھی جہنم کے ایک کنوے کانام ہے ، خداوند متعال بے نمازی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم ارشادفرماتاہے:

( یَتَسَائَلُونَ عَنِ اْلمُجَرَ مِیْن مٰاسَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَا لُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ) (۳) اہل سقرسوال کیاجائے تمھیں کس چیز نے سقرمیں پہنچا یا ہے ، وہ کہیں گے کہ ہم نمازنہیں پڑھتے تھے ۔

۴ ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں حضورقلب رکھتے ہیں یہ لوگ اہل بہشت ہیں جن کے مقام کے بارے میں خداوندعالم ارشادفرماتاہے:

( قَدْ اَ فْلَحَ المُومِنُونَ الَّذِ یْنَ هُمْ فِی صَلاٰ تِهِمْ خٰشِعُونَ ) (۴)

یقیناً صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع وحضورقلب رکھتے ) ہیں۔(۵)

____________________

١)سورہ ماعون /آیت ۴۔ ۵

. ٢)سورہ مٔریم/آیت ۵٩..

٣)سورہ مٔدثر/آیت ۴٢ ۔ ۴٣

۴)سورہ مٔومنون/آیت ١۔ ٢

۵)شناخت نماز/ص ٧۶

۲۸۹

گناہگار لوگ مومنین کے وجودسے زندہ ہیں

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب خداوندعالم اپنے تمام بندوں کے افعال وکردارسے بخوبی واقف ہے توپھران سب گناہگاروں کوزندہ رکھے ہوئے اورانھیں رزق وروزی کیوں عطاکرتاہے ؟

گناہگارر لوگ کیوںزندہ ہیں اورکیوں رزق وروزی پاتے ہیں مندرجہ ذیل احادیث اورواقعات سے یہ واضح ہوجائے گاکہ گناہگارلوگ مومنین کے طفیل سے رزق وروزی پاتے ہیں اورانھیں کے طفیل سے زندہ بھی ہیں اگردنیاسے مومنین کاوجودختم ہوجائے توپوری دنیاتباہ ہوجائے گیقال رسول الله صلی الله علیه وآله :ان اللهجل جلاله اذارا یٔ اهل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیهاثلاثة نفرمن المومنین ناداهم جل جلاله وتقدست اسمائه:یااهل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتهم ارضی ومساجدی والمستغفرین بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:

اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔

قال الله تعالٰی: یااهل معصیتی لولاشیوخ رکّع وشابٌ خشّعٌ وصبیان الرضع وبهائم رتّع لصببت علیکم العذاب صبّةً ۔(۲)

حدیث قدسی شریف میں آیا ہے کہ خداوند متعال فرماتا ہے : اے گنا ہگا ر انسانو ! اگر رکوع کرنے والے ضعیف لوگ نہ ہوتے اور گریہ وزاری کرنے والے جوان نہ ہوتے ، شیرخوار بچے نہ ہو تے اورعلف خوار چوپائے وغیرہ نہ ہوتے تو تمہارے گنا ہوں کی وجہ سے ضرور تم پر کوئی عذاب نازل کردیتا ۔

____________________

. ١ )علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢

۲)عرفان اسلامی/ج ۵/ص ٧٨

۲۹۰

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ اللهلیدفع بمن یصلی من شیعت ناعمّن لایصلی من شیعت ناولواجتمعواعلی ترک الصلاة لهلکوا ۔(۱)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خداوندعالم ہمارے شیعوں میں سے ایک نمازی کے طفیل سے بے نمازی شیعوں پرنازل ہونے والی بلاؤں کودورکرتاہے اور اگر تمام شیعہ نماز کو ترک کرنے میں متحدہو جائیں اور سب کے سب بے نمازی بن جائیں تو اس وقت تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔

اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ بے نمازی شیعہ بلکہ پوری دنیاکے گناہگارلوگ شیعہ نماز گزاروں کے وجود کی برکت سے زند ہ ہیں اور انھیں کے طفیل میں رزق وروزی حاصل کرتے ہیں ۔

تفسیرنورالثقلین میں لکھاہے کہ: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)-نمازجمعہ کاخطبہ پڑھ رہے تھے کہ اسی وقت ملک شام سے دحبہ کٔلبی کاایک تجارتی قافلہ بڑے سازوسنگیت کے ساتھ شہر مدینہ میں داخل ہوااورلوگوں کوخریداری کے لئے اعلان کرنے لگا،اہل مدینہ اس کارواں کے طبل کی آوازسن کر خریداری کے لئے اپنے گھروں سے باہرنکل آئے یہاں تک کہ جومسلمان مسجدمیں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے خطبہ سن رہے تھے ،بارہ افرادکے علاوہ سبھی لوگ نمازجمعہ کو چھوڑکرمال وآذوقہ اور کھانے پینے کی اشیاء وگندم وغیرہ خریدنے کے لئے دوڑپڑے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے خطبہ کے درمیان میں ارشادفرمایا: لولاہو لٔاء لسومت علیہم الحجارة من السماء اگریہ بارہ لوگ بھی نمازکوچھوڑکر مسجدسے باہرچلے جاتے توخداوندعالم نمازچھوڑکرچلے جانے والے لوگوں پرآسمان سے پتھروں کی بارش کردیتا اسی موقع پریہ آیہ مٔبارکہ نازل ہوئی:

( اِذَارَاَوْتِجَارَةً ا ؤْلَهْوًاانْفَضُّوْااِلَیْهَاتَرَکُوْکَ قَائِمًا، قُلْ مَاعِنْدَاللهِ خَیرٌ مِنَ اللَّهْوِوَمِنَ التِّجَارَةِ ،وَاللهُخَیْرٌالرَّازِقِیْنَ ) (۲)

اے پیغمبر!یہ لوگ جب تجارت یا لہوولعب کودیکھتے ہیں تواس کی طرف دوڑپڑتے ہیں اورآپ کوت نہا چھوڑکرچلے جاتے ہیں،آپ ان سے کہہ دیجئے کہ خداکے پاس جوکچھ بھی ہے وہ ) اس کھیل وتجارت سے بہرحال بہترہے اوروہ بہترین رزق دینے والاہے۔(۳)

____________________

.۱)تفسیرالمیزان /ج ٢/ص ٢٩۵

.۲)سورہ جٔمعہ/ آیت ١١

. ٢)تفسیرنورالثقلین/ج ۵/ص ٣٢٩

۲۹۱

حضرت امام علی رضاکے ایک صحابی جوکہ قم المقدس میں زندگی بسرکرتے تھے ایک دن قم سے امام (علیه السلام)کی خدمت میں پہنچے اورعرض کیا:اے فرزندرسول ! میں شہرقم کو چھوڑکرکسی دوسری جگہ جاناچاہتاہوں کیونکہ اس شہرمیں نادان اورگناہگارلوگ بہت زیادہ ہیں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:

تم ایساہرگزنہ کرناکیونکہ تمھارے احترام کی وجہ سے قم کے لوگوں سے بلائیں دورہوتی ہیں،جس طرح حضرت موسیٰ کے وجود کی خاطر اہل بغدادکے سروں سے بلائیں ) دورہوتی تھیں۔(۱)

نمازکے ترک وضائع کرنے کی اسباب

جب نمازکامقام اتنازیادہ بلندہے کہ وہ دین کاستون ہے اورہرمسلمان جانتاہے کہ الله کی طرف سے ہم پرنمازکوواجب قراردیاگیاہے اورانسان اس چیزسے اچھی طرح واقف ہے کہ نمازپڑھنے سے ہماراہی فائدہ ہے اوریہ بھی جانتے ہیں کہ نماز کثیرفضائل وکمال کی مالک ہے اورنمازکے بہت زیادہ فوائدہیں توانسان ان تمام چیزوں کوجاننے کے با وجود نمازسے دورکیوں بھاگتاہے یااسے بے اہمیت جان کرکبھی پڑھتاہے اورترک کردیتاہے یااول وقت ادانہیں کرتاہے یاوقت گزرجانے کے بعدقضاکی صورت میں پڑھتاہے؟۔

اس کے چندعلل واسباب ہیں کہ جنھیں ہم نے قرآن احادیث کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوششکی ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔لہوولعب اورکاروبارتجارت کی رغبت

دنیامیں ایسے لوگ بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جوکھیل کود،کرکٹ ،فٹبال ہاکی میچ کھیلنے یادیکھنے کی وجہ سے نمازکواہمیت نہیں دیتے ہیں اوراسے ترک کردیتے ہیں یاتاخیرسے اداکرتے ہیں اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں جوکاروبارکی تجارت اورخریدفروش کی وجہ سے نمازکواہمیت نہیں دیتے ہیں یہاں تک کہ کھیل کوداورتجارت کی وجہ سے نمازجماعت کوچھوڑکربھاگ جاتے ہیں یافرادی پڑھ کرمسجد سے خارج ہوجاتے ہیں جیساکہ آپ نے گذشتہ صفحہ پر نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے خطب ۂ نمازجمعہ کے دوران کاواقعہ ملاحظہ فرمایا کہ

____________________

. ۱)نماز،وحکایتہاوروایتہا/ص ٢٠

۲۹۲

بارہ افراد کے علاوہ سبھی لوگ نماز جمعہ چھوڑ کرمال وآذوقہ اور کھانے پےنے کی اشےاء خرےدنے کے لئے دوڑپڑے تھے اورنمازکوکوئی اہمیت نہ دی تو رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے خطبہ کے درمیان میں ارشادفرمایا:

لولاهو لٔاء لسومت علیهم الحجارة من السماء

اگریہ بارہ لوگ بھی نمازکوچھوڑکر مسجدسے باہرچلے جاتے توخداوندعالم نمازچھوڑکرچلے جانے والے لوگوں پرآسمان سے پتھروں کی بارش کردیتااور اسی وقت یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی:

( اِذَارَاَوْتِجَارَةً ا ؤْلَهْوًاانْفَضُّوااِلَیْهَاتَرَکُوْکَ قَائِمًا ) (۱)

اے پیغمبریہ لوگ جب تجارت اورلہوولعب کودیکھتے ہیں تواس کی طرف دوڑپڑتے ہیں اورآپ کوت نہاکھڑاچھوڑدیتے ہیں اپ ان سے کہہ دیجئے کہ خداکے پاس جوکچھ بھی ہے وہ اس ) کھیل اورتجارت سے بہترہے اوروہ بہترین رزق دینے والاہے۔(۲)

حضرت علیفرماتے ہیں :الله کے نزدیک کوئی بھی عمل نمازسے بہترنہیں ہے پس دنیاکاکوئی بھی کام تمھیں اول وقت نمازپڑھنے سے نہ روکے کیونکہ خداوندعالم ان لوگوں کی ملامت وسرزنشکرتے ہوئے ارشادفرماتاہے :( اَلَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ )

تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جواپنی نمازوں کواول وقت پڑھنے سے غافل رہتے ہیں۔(۳)

ایک صحابی رسول جوپنجگانہ نمازوں کونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے جماعت سے اداکرتے تھے اوربہت زیادہ ت نگدست رہتے تھے مگرجب الله کی جانب سے عطاکردہ درہم کے ذریعہ انھوں نے تجارت شروع کی تواس کاانجام کیاہواوہ آپ امام (علیه السلام) سے منقول اس حدیث میں ملاحظہ کریں:

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ایک صحابی جن کانام سعدتھا،وہ متقی وہیزگار تھے،اورآپ کا شماراصحاب صفہ ( ۴) میں ہوتاتھا، وہ روزانہ تمام پنجگانہ نمازوں کو پیغمبر کے ساتھ جماعت سے اداکرتے تھے اورکسی بھی نماز جماعت میں غائب نہیں ہوتے تھے لیکن فقیرو ت نگدست ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ غمگین رہتے تھے ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بھی سعد کی فقروت نگد ستی کو دیکھ کرغمگین رہتے تھے اور سعد سے کہتے تھے: مجھے امیدہے کہ ایک دن خداوندعالم تمھیں ہرچیزسے بے نیاز کردے گا ۔

____________________

١)سورہ جٔمعہ/ آیت ١١

. ٢)تفسیرنورالثقلین/ج ۵/ص ٣٢٩

. ٣)بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ٢١

۲۹۳

ایک دن جبر ئیل امین درہم کے دوسکہ لے کرپیغمبرپرنازل ہوئے اورکہا : اے محمد! خدائے عزوجل جانتا ہے کہ آپ سعدکی ت نگد ستی کی وجہ سے غمگین رہتے ہیں،کیا آپ اسے ت نگدستی سے بے نیاز کرنا چا ہتے ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا : ہاں ،تو جبرئیل نے کہا : یہ دو درہم لیجئے اور انھیں سعد کوعطا کر دیجئے اور کہیں کہ وہ ان دو درہم کے ذریعہ تجارت شروع کرے آنحضرت نے جبرئیل سے دو درہم لئے اور نماز ظہر کے لئے جیسے ہی گھر سے با ہر نکلے تو دیکھا کہ سعد مسجدمیں جانے کے لئے آپ کی انتظار میں کھڑے ہیں ، آنحضرت نے کہا:

اے سعد ! کیا تم تجارت کرنا چا ہتے ہو ؟ عرض کیا : ہا ں یا رسول الله! لیکن میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جسکے ذرےعہ تجارت کرسکوں

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے سعد کو دو درہم عطا کئے اور کہا : ان کے ذریعہ تجارت شروع کرو ، سعد درہم لے کر آنحضرت کے ہمراہ مسجد گئے اور نمازظہرین باجماعت اداکی ، جب نماز سے فارغ ہوگئے توآنحضرت نے فرمایا:

اے سعد !اٹھو اور کسب روزی کے لئے حرکت کرو کیونکہ میں تمھاری ت نگدستی کی وجہ سے غمگین رہتاتھا،سعد خدا کی طرف سے بھیجے گئے دو درہم کے ذریعہ کسب روزی وتجارت میں مشغول ہوگئے ،کچھ ہی دن گزرے تھے کہ سعد کی زندگی میں بہار آگئی اور آہستہ آہستہ کاروبارتجارت میں رونق آتی گئی یہاں تک کہ ایک دن سعد نے مسجد کے درواز ے کے پاس ہی اپنی دکان کا افتتا ح کیا اور خرید وفروش میں مشغول ہوگئے سعدجوکہ روزانہ نمازپڑھنے کے لئے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ہمراہ مسجدجایاکرتے تھے مگرجب سے دوکانداری میں مصروف ہوئے ہیں آہستہ آہستہ اول وقت مسجدمیں جانابندکردیا،جب نمازوقت شروع ہوتاتھاتوبلال اذان دیاکرتے تھے ،اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجد میں آتے تھے تودیکھتے تھے کہ سعد دوکانداری میں مشغول ہیں اور وضو کر کے نماز کے لئے مسجدمیں نہیں آئے ہیں لہٰذاسعد سے کہتے تھے: اے سعد ! دنیا نے تمھیں مشغول کردیا ہے اور اول وقت نماز پڑھنے سے روک دیا ہے توسعدجواب دیتے تھے : یا رسول الله! کیا کروں دوکان میں نہ میراکوئی شریک ہے اورنہ کوئی شاگردہے اور یہ ایساوقت ہے کہ جب چیزوں کی بکری زیادہ ہوتی ہے اگر ایسے موقع پردوکانداری کوچھوڑکر نمازکے لئے مسجدجاؤں تویہ سب مال اسی طرح پڑارہے گااورپھرخراب بھی ہو جائے گااور یہ شخص جومال لے کرآیاہواہے اس سے چندچیزیں خریدی ہیں اورابھی اس کوپیسہ بھی نہیں دیاہے لہٰذامیں تھوڑی دیرکے بعدنمازپڑھوں گا(سعداسی طرح روزانہ کوئی بات کہہ دیاکرتے تھے )۔

۲۹۴

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سعدکی اول وقت عبادت سے غافل ہو جا نے کی وجہ سے بہت رنجیدہ رہنے لگے ، جب سعد ت نگدست تھے تو اتنا غمگیں نہیں تھے جت نا اب اس کے نماز کو تا خیر سے اور بغیر جماعت کے پڑھنے سے رنجیدہ رہتے ہیں پس ایک دن جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا:

اے الله کے نبی! الله تمھاری افسردگی سے با خبر ہے، تم سعد کی کس طرح کی زندگی پسندکرتے ہو، فی الحال کی زندگی پسند کرتے ہو یا پہلے جیسی فقیری کی زندگی ؟ آنحضرت نے فرمایا : مجھے سعد کی پہلی والی ہی زندگی پسند ہے کیونکہ اس کی دنیا نے اس کی آخرت کو تبا ہ کردیا ہے، جبرئیل نے کہا : مال ودنیا کی محبت ایک ایسا فت نہ ہے جو انسان کو یا د خداوآخرت سے غافل کردیتی ہے پس اب جب تمھیں سعد کی پہلی والی ہی زندگی پسند ہے تو سعدسے وہ دونوں درہم واپسلے لیجئے۔ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) سعدکے پاس آئے اورکہا : اے سعد ! کیا تم وہ درہم واپس نہیں کرو گے جومیں نے تمھیں عطاکئے تھے ؟ سعد نے عرض کیا :اب میراکاروبارات نے عروج اورترقی پرہے کہ میں آپ کوان دو درہم کے ساتھ دوسو درہم اضافہ کرکے دے سکتا ہو ں، آنحضرت نے فرمایا: تم مجھے صرف وہ دودرہم واپس کردیجئے اورمیں ان کے علاوہ کوئی دورہم نہیں لیناچاہتاہوں،سعد نے دو درہم واپس کردئے، ابھی کچھ دن نہ گزرے تھے کہ سعد کے کا رو با رتجارت کی رونق ختم ہوگئی اور آہستہ آہستہ پہلے جیسی حالت واپس آگئی اور سعد پہلے ) کی طرح اذان سے پہلے مسجد میں جانے لگے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔(۱)

٢۔جنسی تمایل اورخواہشات نفسانی کی پیروی

وہ چیزیں جونمازکوضایع کرنے اورہلکاسمجھ کرترک کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں ان میں ایک جنسی تمایل اورخواہشات نفسانی کی پیروی کرناہے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ اَضَاعُواالصَّلٰوةَ وَاتَّبِعُواالشَّهَوٰتِ فَسَوفَ یَلْقُونَ غَیّاً ) (۲) پھر ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔

____________________

.۱)حیاة القلوب /ج ٢/ص ۵٧٧ ۔ ۵٧٨

۲) سورہ مٔریم/آیت ۵٩

۲۹۵

٣۔نمازکوہلکاسمجھنا

نمازکے ذریعہ الله کی طرف سے کسی رحمت ونعمت کے نازل ہونے پراعتقادنہ رکھنااوراس کی عظمت وارزش کو درک نہ کرنا،اسے حقیروناچیزشمارکرنا،نمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرنایاایک دن پڑھنااورایک دن ترک کردینا،یاایک وقت پڑھ لینااوردوسرے وقت کی ترک کردینایہ سب نمازکوترک یاضایع کرنے کے سبب واقع ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے الله کی طرف سے دنیامیں بھی عذاب نازل ہوتاہے اورآخرت میں بھی ان لوگوں کے لئے سخت عذاب معین کیاگیاہے ،اس بارے میں معصومین کی چندروایت ذکرکرچکے ہیں۔

۴ ۔گناہ کبیرہ کامرتکب ہونا

ہم نے نمازکے فضائل وفوائدبارے میں اس آیہ مبارکہ کوذکرکیاتھا:( اَقِمِ الصَّلاةَاِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰهی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُونَ ) (۱)

نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔

جس طرح نماز انسان کو فحشاء ومنکرات سے دور رکھتی ہے اس کے برعکس فحشاء ومنکرات بھی انسان کو نماز وروزہ سے دورکھتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ نماز تو انسان کو فحشاء ومنکرات سے دوررکھے اور فحشاء ومنکر ات انسان کو نماز سے نہ ر کھے ،اگر نماز انسان کو گنا ہوں سے باز رکھتی ہے تو گنا ومعصیت بھی انسا ن کو نماز سے دور رکھتے ہیں اوراگرگناہگارانسان نمازپڑھتابھی ہے تووہ نمازکوبے توجہی کے ساتھ اورفقط ایک واجب کو گر دن سے رفع کرنے کے لئے پڑھتا ہے ،ایسے شخص کو اپنی نمازوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ اسے اہل نماز کہا جاتاہے ۔

____________________

. ١)سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵

۲۹۶

گناہوں کامرتکب ہونے والاشخص گناہوں کے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتاہے اورشیطان پوری طرح اس پرغالب ہوجاتاہے جس کی وجہ سے وہ گناہوں کوانجام دیناہی اپنی زندگی سمجھتاہے اور ایسا شخص نمازپڑھنے کی فکربھی نہیں کرتاہے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوااِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَیْسَرُوَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْت نبُوهُ لَعَلَّکُم تُفْلِحُونَ، اِنَّمَایُرِیْدُالشَّیْطَانُ اَنْ یُوقَعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةوَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِوَالْمَیْسَرِوَیَصُدُّکُمْ عَنِ ) ذِکْرِاللهِوَعَنِ الصَّلٰوةِ فَهَلْٰ اَنْتُمْ مُنْتَهُونَ ) ۔(۱)

اے ایمان والو!شراب ،جوا،بت،پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذاان سے پرہیزکروتاکہ کامیابی حاصل کرسکو،شیطان توبسیہی چاہتاہے کہ شراب اورجوے کے بارے میں تمھارے درمیان بغض وعداوت پیداکردے اورتمھیں یادخدااورنمازسے روک دے توکیاتم واقعاًرک جاؤگے ۔

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:( قُلْ اَنْفِقُوْاطَوْعًااَوْکَرْهًالَنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًافَاسِقِیْنَ،وَمَامَنَعَهُمْ اَنْ یُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ اِلّااَنَّهُمْ کَفَرُوْابِاللهِ وَبِرَسُوْلِهِ وَلَایَاتُوْنَ الصَّلٰوة اِلّاوَهُمْ کُسَالٰی وَلَایُنْفِقُوْنَ اِلّاوَهُمْ کٰرِهُوْنَ ) (۲)

(اے رسول!)ان سے کہدیجئے کہ تم بخوشی خرچ کرویاجبراًتمھاراعمل قبول ہونے والانہیں ہے کیونکہ تم ایک فاسق قوم ہو اوران کے نفقات کوقبول ہونے سے صرف اس بات نے روک دیاہے کہ انھوں نے خداورسول کاانکارکیاہے اوریہ نمازکوبھی سستی اورکسلمندی کے ساتھ بجالاتے ہیں اورراہ خدامیں کراہت اورناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔

تعقیبات نماز

تسبیح حضرت فاطمہ زہرا انسان جیسے ہی نمازسے فارغ ہوتواسے محل نمازسے فوراًبلندنہیں ہوناچاہئے بلکہ اسی جگہ پر تورک کی حالت میں بیٹھے ہوئے تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھے، نمازکے بعد سب سے بہترین تعقیب تسبیح حضرت فاطمہ ہے اورروایتوں میں تسبیح حضرت فاطمہ زہرا ) کی تاکیدکی گئی ہے اور فضیلت بھی بیان کی گئی ہے:(۳)

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ/آیت ٩٠ ۔ ٩١

. ٢)سورہ تٔوبہ /آیت ۵٣ ۔ ۵۴

۳)کافی /ج ٣/ص ٣۴٢ ۔تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١٠۵

۲۹۷

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص واجب نمازوں کے بعداس سے پہلے کہ اپنے دائیں پیرکوبائیں پیرکے اوپرسے ہٹائے تسبیح حضرت فاطمہ پڑھے توخداوندعالم اس کے تمام گناہوں کوبخشدیتاہے اوراس تسبیح کوتکبیرکے ذریعہ شروع کیاجائے ۔(۱) امام محمدباقر فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ سے افضل وبہترکوئی ایسی چیزنہیں ہے کہ جس کے ذریعہ خداوندعالم کی حمدوثناکی جائے،اگرتسبیح حضرت فاطمہ سے افضل کوئی تسبیح ہوتی توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)اسی چیز کو اپنی لخت جگرکوبطورہدیہ عطا کرتے ۔

امام صادق فرماتے ہیں:اے ابوہارون!جس طرح ہم اپنے بچوں کونمازپڑھنے کاحکم دیتے ہیں اسی طرح تسبیح حضرت فاطمہ پڑھنے کابھی حکم دیتے ہیں ،تم بھی اسے پابندی کے ساتھ پڑھاکرو،حقیقت یہ ہے کہ جس بندہ نے بھی اس کی مداومت کی وہ کبھی کسی شقاوت اوربدبختی میں گرفتارنہیں ہواہے ۔(۲)

ابوخالدقماط سے مروی ہے : میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے :میرے نزدیک روزانہ ہرنمازکے بعدتسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھنا روزانہ ہزاررکعت (مستحبی)نمازیں پڑھنے سے زیادہ پسند ہے۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص خدائے عزوجل کا زیادہ ذکرکرتاہے توخدابھی اسے بہت دوست رکھتاہے اورجوشخص خداکابہت زیادہ ذکرکرتاہے اسے دوچیزوں سے نجات مل جاتی ہے ،ایک یہ کہ وہ شخص آتش جہنم سے نجات پاجاتاہےاوردوسرے یہ کہ اسے نفاق سے بھی نجات مل جاتی ہے۔(۴)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی اس حدیث میں ذکرکثیرسے کیاچیز مرادہے؟ اس بارے میں شیخ صدوق نے اپنی کتاب معانی الاخبارمیں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے امام صادق سے اس قول خداوندی یٰ( آاَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوااذْکُرُاللهَ ذِکْرًاکَثِیْرًا ) (۵) کے بارے میں معلوم کیا :آیہ مٔبارکہ میں ذکرکثیرسے مرادکیاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:من سبّح تسبیح فاطمة علیهاالسلام فقدذکرالله ذکراکثیر. جوشخص تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھتاہے وہ الله کاذکرکرتاہے وہ بھی ذکرکثیر ۔(۶) عن ابی عبدالله علیه السلام قال:تسبیح فاطمة الزهراء علیهاالسلام من الذکرالکثیرالذی قال الله عزوجل :اُذْکُرُاللهَ ذِکْرًاکَثِیْرًا امام صادق فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ زہرا اسی ذکرکثیرمیں سے ہے کہ جس کے بارے میں خداوندعالم قرآن کریم میں صاحبان ایمان کوحکم دیاہے ::اے ایمان والو!الله کاذکربہت زیادہ کیاکرو۔

____________________

.۱)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ ---.۲)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ --- .۳)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵

.۴)کافی /ج ٢/ص ۵٠٠ --.۵)سورہ أحزاب /آیت ۴٢ .-- ۶)معانی الاخبار/ص ١٩٣

۲۹۸

تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کانقطہ آغاز

تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کہ جس کے انجام دینے کے بارے میں احادیث میں ات نی زیادہ تاکیدکی گئی ہے اوراس کی فضیلت بیان کی گئی ہے ،اسے ذکرکثیرسے تعبیرکیاگیاہے اوراسے نمازکے بعدپہلی تعقیب کادرجہ دیاگیاہے ،سوال یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاآغازکب اورکیسے ہواہے ؟اوراس کے انجام دینے کاطریقہ کیاہے؟ تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاآغازکب اورکیسے ہواہے اس بارے میں ہم دوروایت نقل کررہے ہیں:

پہلی روایت

شیخ صدوق نے اپنی کتاب “ من لایحضرہ الفقیہ ”میں حضرت علی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ: امام امیرالمومینن علی ابن ابی طالب +نے قبیلہ بنی سعدکے ایک شخص سے ارشادفرمایا:کیاتم یہ چاہتے ہوکہ میں تمھیں اپنے اورحضرت فاطمہ زہرا کے بارے میں کچھ بیان کروں؟(اسنے عرض کیا:ضروربیان کیجئے)امام(علیه السلام) نے فرمایا:سنو! میری زوجہ “فاطمہ زہرا ” میرے اوراپنے والدمحترم نزدیک اپنے اہل وعیال میں سب سے زیادہ محبوب تھیں،مگرآپ نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کی لخت جگرہونے کے باوجود مشک میں اتناڈھویاہے کہ سینہ پربندمشک کے نشان پڑگئے تھے اورچکی میں اس قدراناج پیساہے کہ دستہائے مبارک میں گٹھاپڑگئی تھیں ،گھرمیں ات نی زیادہ جھاڑولگایاکرتی تھیں کہ لباس گردآلودہوجاتے تھے اوردیگ کے نیچے ات نی جلایاکرتی تھیں کہ آپ کے لباس کارنگ بدل گیاتھااوراپنے آپ کوگھرکے دیگرسخت کاموں میں بھی زحمت میں ڈالتی تھیں،ایک شب میں نے ان سے کہا:کت نااچھاہوتاکہ تم اپنے کاموں میں مددکے لئے اپنے والدمحترم کے پاس جاتی اوران سے ایک کنیزکاتقاضہ کرتی اوروہ خادمہ تمھاری مددکرتی حضرت فاطمہ زہرا اسی وقت بلندہوکراسی مقصدکی خاطر اپنے والدمحترم کے گھر پہنچی اورجیسے ہی گھرمیں داخل ہوئیں تودیکھاکہ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)کے پاس چندلوگ تشریف فرماہیں اورآنحضرت ان سے محوگفتگوہیں لہٰذاکچھ نہ کہااور اپنے گھرواپس آگئیں.

رسولخدا (صلی الله علیه و آله)کویہ محسوس ہواکہ ان کی لخت جگرکوئی حاجت لے کرآئی تھیں اورحاجت کے پوراہوئے بغیرہی واپس چلی گئی ہیں لہٰذارسول اسلام (صلی الله علیه و آله) صبح سویرے کہ ہم ابھی سورہے تھے ہمارے گھرتشریف لائے اورکہا:“السلام علیکم ” ہم آنحضرت کے سلام کوسنتے ہی بیدارہوگئے اور خاموش رہے (اوردل ہی دل میں سلام کاجواب دیا)ر

۲۹۹

سولخدا (صلی الله علیه و آله)نے دوسری مرتبہ کہا:“السلام علیکم ”ہم اس مرتبہ بھی خاموش رہے اوردل ہی دل میں سلام کاجواب دیا،جب تیسری مرتبہ سلام کیاتوہمارے دل میں یہ خوف پیداہواکہ اگراس مرتبہ ہم خاموش رہے اورکوئی جواب نہ دیاتوآنحضرتواپس چلے جائیں گے،کیونکہ آنحضرت نے تین مرتبہ سلام کیاتھالہٰذاہم نے تین بارآنحضرتکے سلام کاجواب دیااورکہا:یارسول الله!تشریف لائیے ،آنحضرت گھرمیں داخل ہوئے اورہمارے سرہانے بیٹھ گئے اورکہا:اے میری پارہ جٔگر!تم رات میں کوئی حاجت لے کرمیرے پاس آئی تھی ؟ حضرت علی کہتے ہیں کہ:میرے دل میں یہ خوف پیداہواکہ اگرہم نے الله کے منتخب شدہ رسول کے سوال کاجواب نہ دیااورنہ بتاکہ سیدہ عٔالم کسغرض سے ان کے پاس تشریف لے گئیں تھیں تووہ اٹھ کرچلے جائیں گے لہٰذامیں نے اپنے سرکوبلندکیااورعرض کیا: یارسول الله!میں آپ کو بتاؤں کہ آپ کی لخت جگرنے مشک کے ذریعہ گھرمیں اس قدرپانی لائی ہیں کہ سینہ پربندمشک کے نشان پڑگئے ہیں اورچکی میں اناج پیستے پیستے دستہائے مبارک میں گٹھاپڑگئی ہیں، گھرمیں ات نی زیادہ جھاڑولگاتی ہیں کہ لباس گردآلودہوجاتے ہیں اوردیگ کے نیچے آگ جلانے کی وجہ سے لباس کارنگ بدل گیاہے لہٰذامیں نے رات میں ان سے فرمائش کی کہ :کیابہترہوگاکہ تم اپنے باباکے پاس جاؤاورایک کنیزکی درخواست کروتاکہ وہ کنیزمشکل کاموں میں تمھاری مددکرسکے ،مولائے کائنات کی یہ بات سن کرپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:

ا فَٔلااَعلمکما ماهوخیرلکما من الخادم ؟ اذاخذتمامنامکمافسبحا ثلاثا وثلاثین ، واحمدا ثلاثا وثلاثین ، وکبّر اربع وثلاثین

یعنی کیاتم یہ چاہتے ہوکہ میں تمھیں ایک ایسی چیزبتاؤں جوتمھارے لئے خادمہ سے بھی بہترہو؟اوروہ یہ ہے کہ جب تم رات کوبسترپہ لیٹ جاؤتو/ ٣ ۴ مرتبہ ”الله اکبر” اور/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله”اور/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہو. حضرت فاطمہ زہرا نے سربلندکیااور کہا:

رضیتُ عن الله وعن رسوله ، رضیتُ عن الله وعن رسوله ، رضیتُ عن الله وعن رسوله. میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی ،میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی،میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔(۱)

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢١

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370