نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار10%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167163 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

الرحمن الرحیم

”رحمٰن”الله کی ایک صفت عام ہے جودنیامیں مومن اورکافردونوں کے شامل حال ہوتی ہے اورتمام بندوں پراس کی رحمت نازل ہوتی ہے ،وہ دنیامیں ہرانسان مومن ،منافق،عالم ،جاہل ،سخی ، ظالم ،حاکم کورزق عطاکرتاہے ،اورکسی بندے کواپنے دروازہ رٔحمت سے خالی نہیں لوٹاتاہے

” رحمٰن” وہ ذات ہے جواپنے تمام بندوں(مومن ،منافق کافر)کی روزی کے بارے میں شدیدطورسے متمائل رہتاہے اوران کی روزی کوقطع نہیں کرتاہے چاہے وہ کت ناہی گناہ کریں،چاہے کت نی ہی اس کی نافرمانی کریں،وہ اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ اپنے تمام بندوں کو روزی عطا کرتا ہے اور کسی کا رزق قطع نہیں کرتا ہے اب چاہے اس بندہ کامسلمان ہویاکافر،مومن ہویامنافق ،اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہوں یا نافرمانی ،لیکن یہ یادرہے کہ خداوندعالم زمین پر مومنین کے وجودکی خاطردوسروں پررحم کرتاہے اگردنیاسے مومینن کاوجودختم ہوجائے تویہ دنیاتباہ وبربادہوجائے ،اسبارے میں ہم پہلے حدیث کو ذکرکرچکے ہیں۔ ” رحیم”خداکی ایک خاص صفت ہے کہ جوآخرت میں فقط مومنین سے مخصوص ہے امام صادق رحمن ورحیم کے معنی اس طرح بیان کرتے :الله تبارک تعالیٰ ہرشئے پرقدرت رکھتاہے ،وہ (دنیامیں)اپنی تمام مخلوق پررحم کرتاہے اور(روزقیامت )فقط مومنین پررحم کرے گا۔(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:رحمن ایک اسم خاص ہے جوفقط الله تبارک تعالیٰ سے مخصوص ہے اورصفت عام ہے یعنی الله تبارک وتعالیٰ اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اوررحیم اسم عام لیکن صفت خاص ہے یعنی روزقیامت فقط ایک مخصوص گروہ پررحم کیاجائے گا۔(۲)

حضرت علی فرماتے ہیں : خدا وند عالم اپنے تمام بندوں پررحم کرتاہے اور یہ خداکی رحمت ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے ١٠٠ /رحمت پیدا کی ہیں اور ان میں سے ایک رحمت کو اپنے بندوں کے درمیان قرار دیا ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں،والداپنے اپنے فرزندپررحم کرتاہے اورحیوانات مائیں اپنے بچوں پررحم کرتی ہیں،جب قیاوت کادن آئے گاتواس ایک رحمت کی ٩٩ /قسم ہوں گی کہ جس کے ذریعہ امت محمدی پرحم کیاجائے گا۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ١/ص ١١۴

۲). تفسیرمجمع البیان /ج ١/ص ۵۴

۳). تفسیرامام حسن عسکری/ص ٣٧

۲۰۱

خداکی رحمت اس درجہ عام اوروسیع ہے کہ اس کی رحمت سے ناامیدہوناگناہ کبیرہ ہے کیونکہ وہ خودقرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( لَاتَقْنَطُوامِنْ رَحْمَةِ اللهِ،اِنَّ اللهَیَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِیْعاًاِنّهُ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (۱) الله کی رحمت سے مایوس نہ ہوناالله تمام گناہوں کامعاف کرنے والاہے اوروہ بہت زیادہ بخشنے والااورمہربان ہے۔

مالک یوم الدین

ایک دن وہ بھی آئے گاجب تمام لوگوں کوان کی قبروں سے بلندکیاجائے اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ وعدالت میں کھڑاکیاجائے گا،وہاں کسی کی نہ اولاد کام آئے گی ،نہ کسی کواس کامال کام آئے گا،لوگوں کے تمام ذریعے ،وسیلے اورامیدیں ختم ہوجائیں گی اوراس روزنہ فرعون کی حکومت ہوگی ،نہ نمرودکی ،نہ ہامان کی ،نہ شدادکی ،نہ اورکسی دوسرے شیطان صفت انسان کی بلکہ صرف خداکاکی حکومت ہوگی اوراسی کاحکم نافذہوگا، سورہ أنفطارمیں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( وَالامرُ یومَئِذٍلِلّٰهِ ) اس دن تمام امورخداکے ہاتھ میں ہونگے۔ اس روزتمام لوگوں سے یہ سوال ہوگا:( لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم ) آج حکومت کس کی ہے؟ جواب دیں گے( لِلّٰه الْوَاحِدِالْقَهّار ) اس خداکی جواکیلا ہے اورقہاربھی ہے،جسدن لوگوں یہ سوال کیاجائے گااس روزکوقیامت کہتے ہیں۔(۲)

اس روزصرف انسان کے وہ نیک اعمال کام آئیں گے جواس نے دنیامیں آل محمدکی محبت وولایت کے زیرسایہ انجام دئے ہونگے

امیرالمومنین علی ابی طالب آیہ مٔبارکہ( مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) کے بارے میں فرماتے ہیں : حقیقت یہ ہے کہ خدا وند عالم قیامت کے دن تمام مخلوق کی تقدیر کا مالک ہو گا اور جس نے دنیا میں خدا کے بارے میں شک کیاہوگا ،اس کے حکم کی نافرمانی کی ہوگی اورطغیانی وسر کشی کی ہوگی وہ ان سب کو واصل جہنم کرے گا اورجن لوگوں نے اس کی اطاعت کی ہوگی اوران میں تواضع وانکسا ری پائی جاتی ہو گی ان کو خلد بریں میں جگہ عنایت کر گا۔(۳)

____________________

۱) سورہ زٔمر/آیت ۵٣ (

۲). سورہ أنفطار/آیت ١٩

۳) ” ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”/ش ٧٧۵ /ص ٢۴٢

۲۰۲

ایاک نعبدوایاک نستعین

یہاں تک بندہ نے سورہ حٔمدکی آیتیں قرائت کی ہیں ان میں الله تبارک وتعالیٰ کی رحمت اوراس کی کرامت کااقرارکرتاہے اوراس کے مالک وخالق دونوں ہونے کی شہادت دیتاہے لیکن اب یہاں سے اس آیہ کریمہ کے ذریعہ اظہاربندگی کرتاہے اورکہتاہے :میری عبادت فقط تیرے لئے ہے ،تیرے علاوہ کسی دوسرے کوعبادت میں شریک قرارنہیں دیتاہوں یعنی میں اقرارکرتاہوں کہ میرامعبودفقط ایک ہے ۔

جوبندہ حقیقت میں الله تبارک تعالی کے رحیم وکریم اورمالک دوجہاں ہونے کااقرارکرتاہے ،اوراپنی عبادت کواسی سے مخصوص کرتاہے وہ کسی بھی مخلوق کے آگے سرنہیں جھکاتا ہے،اپنے آپ کوذات پروردگارکے علاوہ کسی دوسرے محتاج نہیں سمجھتاہے ،اب وہ لوگ جوالله تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے ہیں اوردوسروں کے آگے سربھی جھکاتے ہیں اوردوسروں کے سامنے اپنی حاجتوں کوبیان کرتے ہیں وہ لوگ فقط زبان سے خداکوایک مانتے ہیں ،اوریقین کامل کے ساتھ اسے اپنامعبودنہیں مانتے ہیں ،اس پرمکمل بھروسہ نہیں رکھتے ہیں البتہ کسی ایسی بابرکت ذات گرامی کوجوالله تبارک سے بہت زیادہ قریب ہواسے وسیلہ قراردینے کوشرک نہیں کہاجاتاہے اوروسیلہ کے بغیرکسی جگہ کوئی رسائی ممکن نہیں ہے ،وسیلہ کے بارے میں ذکرہوچکاہے لہٰذایہاں پربحث طولانی اورتکرارہوجائے گی ۔

جمع کی لفظ استعمال کئے جانے کاراز

اس آیہ مبارکہ کے بارے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ متکلم ایک شخص ہے اور وہ خدا سے کہہ رہا ہے : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں جب قرائت کرنے والا ایک شخص ہے پھروہ اپنے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کرتا ہے ؟ مندرجہ ذیل امورمیں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے ١۔دین اسلام میں نمازجماعت کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے کیونکہ الله تبارک وتعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

۲۰۳

( وَارْکَعُوا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ) (١) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ نمازجماعت کی اہمیت وفضیلت کے بارے میں روایتوں کوذکرکرچکے ہیں،جماعت میں موجودتمام بندے رکوع وسجودکرتے ہیں اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے اورنمازمیں موجودہربندہ یہ کہتاہے: بارالٰہا!میں اکیلانہیں ہوں بلکہ اس پوری جماعت کے ساتھ ہوں اورسب کی جانب سے کہتاہوں ہم تیری عبادت کرتے ہیں اورتجھ ہی سے مددطلب کرتے ہیں،جمع کی لفظ استعمال کرنے سے ایک طرح کی گواہی بھی دی جاتی ہے میرے یہ بندہ بھی تیری عبادت میں مشغول ہیں۔

شہیدمطہری فرماتے ہیں:سورہ حٔمد نماز کا قطعی جزء ہے ،ہم اس سورے میں خداسے کہتے ہیں :“ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِ یَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” (بارالٰہا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددچاہتے ہیں) یعنی خدا یا ! میں ت نہانہیں ہوں ، بلکہ میں تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوں ،میں اس جماعت کے ساتھ ہوں اسی لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہوں۔(۲)

اگرکوئی یہ اعتراض کرے ،جومومن فرادیٰ نمازپڑھتاہے تووہ جمع کاصیغہ کیوں استعمال کرتاہے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ اگرمومن ت نہائی میں بھی نمازپڑھتاہے اس لئے وہ جماعت کاحکم رکھتاہے اور جمع کاصیغہ استعمال کرتاہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:

المومن وحدہ جماعة مومن بندے کی ت نہائی میں پڑھی جانے والی نمازبھی جماعت میں شمارہوتی ہے ۔(۳)

٢۔انبیاء وآئمہ اطہار کے علاوہ کوئی بھی شخص دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتاہے کہ میرارب مجھ سے راضی ہے اورمیں نے جواس کی عبادت کی ہے وہ سچے دل سے کی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ مکمل معرفت کے ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوران کی عبادت برگاہ رب العزت میں قبول بھی ہوتی ہے اوروہ اپنے ان نورانی بندوں کی مددبھی کرتاہے،مگرہم تمام بندے خاک کے پتلے ہیں ،گناہوں میں الودہ ہیں،الله تبارک تعالیٰ کی معرفت نہیں رکھتے ہیں اوراس کی عبادت ،اطاعت اوربندگی میں ناقص ہیں اورہم اپنی حاجتوں کوالله کے علاوہ دوسروں کے آگے بھی بیان کرتے ہیں ،شایدہماری یہ عبادت بارگاہ خداوندی میں مقبولیت کادرجہ نہ رکھتی ہولہٰذاہم اپنی عبادتوں کے ساتھ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں

____________________

۱)سورہ بٔقرہ/آیت/ ۴٣

. ٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩۶۶ /ص ٢٩٨.

.۳) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۶۵

۲۰۴

تاکہ خداوندعالم ان کی عبادت کے وسیلے سے ہماری عبادت کوبھی قبول کرلے اوران کے وسیلے سے ہماری بھی مددکردے کیونکہ ہمیں اس بات کایقین ہے کہ وہ انبیاء ورسل اورآئمہ اطہار کی عبادتوں کوضرورقبول کرتاہے لہٰذاہم اپنی معیوب عبادتوں کوان صلحاء کے ساتھ بارگاخداوندی میں پیش کرتےہیں جس سے خداہماری ان معیوب عبادتوں کوقبول کرسکتاہے اورہماری مددکرسکتاہے۔

اگریہ سوال کرے کہ اگرہم اس مذکورقصدسے جمع کی لفظ استعمال کرتے ہیں توپھرخودانبیاء وآئمہ جمع کی لفظ کیوں استعمال کرتے تھے ؟

اس کاجواب یہ ہوسکتاہے کہ انبیاء وآئمہ اپنے محبوں کوہمیشہ یادرکھتے ہیں اوران ترقی وکامیابی کی دعاکرتے ہیں لہٰذابارگاہ خداوندی میں کہتے ہیں:بارالٰہا!توہماری عبادتوں کے ساتھ ہمارے محبوں کی بھی عبادت کوقبول کراورجس طرح توہماری مددکرتاہے ان بھی مددکراورروزقیامت بھی اپنے محبوں کاخاص خیال رکھیں اورانھیں اپنی شفاعت کے ذریعہ بہشت میں جگہ دلائیں گے ۔

٣۔ نمازمیں انسان کی فقط زبان ہی تسبیح وتقدیس پروردگانہیں کرتی ہے بلکہ اس کے تمام اعضاء وجوارح ،ہاتھ ،پیر،آنکھ، ناک، کان، دل اوردماغ شریک عبادت رہتے ہیں ،انسان نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھتاہے،خضوع خشوع رکھتاہے لہٰذاوہ اکیلانہیں ہے اس لئے جمع کی لفظ استعمال کرتاہے ۔

۴ ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلّالِیَعْبُدُوْنِِ ) (۱) میں نے جن وانس کونہیں پیداکیامگریہ کہ وہ میری عبادت کریں

جب خدانے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے، نمازگزارنمازمیں جمع کی لفظ سے یہ بتاناچاہتاہے چونکہ الله نے تمام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورسب اس کی حمدوثناء کرتے ہیں اورمیں بھی انھیں میں سے ہوں لہٰذاہم سب تیری ہی توعبادت کرتے ہیں۔

____________________

.۱)سورہ ذٔاریات/آیت ۶۵

۲۰۵

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.

تفسیرفاتحة الکتاب میں لکھاہے : ہم نمازمیں اس آیہ مٔبارکہ کو زبان پر جاری کرتے ہو ئے پروردگار سے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ! تو ہمیں توفیق عطاکر کہ جس طرح ہم تیری پہلے سے عبا دت کرتے آرہے ہیں آئندہ بھی تیرے مطیع وفرما نبردار بندے بنے رہیں(۱)

امیرالمومنین حضرت علی سے پوچھا گیا : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)اور تمام مسلمان نماز میں دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں:“( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ) ” پروردگارا! تو ہم کو راہ راست کی ہدایت فرما جبکہ وہ سب ہدایت یافتہ ہیں؟ امام(علیه السلام) نے جواب دیا “اِھْدَنا”سے مرادیہ ہے کہ خدایا! توہم کو راہ راست پر ثابت قدم رکھ۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:“( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ) ”یعنی پروردگارا! توہمیں ایسے راستے کی ہدایت کرتارہ جو تیری محبت ودوستی پر منتہی ہوتاہواوروہ سیدھاجنت کوپہنچتاہو اورتو ہمیں خواہشات نفسکی پیروی ( اورجہنم کے راستہ )سے دوررکھ ۔(۳)

امام صادقفرماتے ہیں:علی ابن ابی طالب صراط المستقیم هیں عن السجادعلیه السلام قال:نحن ابواب الله ونحن صراط المستقیم . حضرت امام سجاد فرماتے ہیں : ہم آئمہ طا ہرین الله کے دروازہ ہیں اورہم ہی صراط مستقیم ہیں(۴)

( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مبارکہ “( اهدناالصراط المستقیم ) ”کے بارے میں فرماتے ہیں:صرط مستقیم سے مرادوہ دین خداہے کہ جس کوخدانے جبرئیل کے ذریعہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)پرناز ل کیااوراس آیہ مٔبارکہ “( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) ”کے بارے میں فرماتے ہیں: اس آیت میںصراط سے مراد حضرت علی کے وہ شیعہ ہیں کہ جن پرخداوندعالم نے ولایت علی ابن ابی طالب +کے ذریعہ اپنی نعمتیں نازل کی ہیں،نہ ان پرکبھی اپناغضب نازل کرے گااورنہ وہ کبھی گمراہ ہوں گے۔(۵)

____________________

۱) تفسیرفاتحة الکتاب/ص ۴۵

۲). ہزارویگ نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧١٣ /ص ٢٢۵

۳)تفسیرالمیزان/ج ١/ص ٣٨

۴)معانی الاخبار/ص ٣۵ ۔

.۵) تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣

۲۰۶

امام صادق فرماتے ہیں:“( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ) ”سے حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) اوران کی ذریت مرادہے۔(۱)

امیرالمومنین حضرت علی - فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالیٰ کاانکارکرنے والے “مغضوب علیہم ”اور“ضالین”میں شمارہوتے ہیں۔(۲)

امام صادق “( غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ) ”کے بارے میںفرماتے ہیں: “مغضوب علیہم ”سے ناصبی مرادہیں اور“ضالین ” سے وہ لوگ مرادہیں جوامام کے بارے میں شک کرتے ہیں اوران کی معرفت نہیں رکھتے ہیں۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:“( المغضوب علیهم ) ”سے یہودی اور“ضالین ”سے نصاری مرادہیں(۴)

حسین دیلمی “ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز”میں لکھتے ہیں: قرآن کریم نے فرعون وقارون اور ابولہب کواورقوم عادوثموداورقوم بنی اسرائیل کوان میں شمارکیاہے جن پر خداوند عالم کا قہروغضب نازل ہو ا ہے(۵) اسی لئے ہم لوگ نماز میں روزانہ کہتے ہیں( غَیْرِالْمَفْضُوب عَلَیِْمْ وَلِاالضّٰالّیِْن ) بارالہا ! تو ہم کو ان لوگو ں میں سے قرار نہ دے جن پر تو نے اپنا غضب نازل کیا ، اور جو لوگ گمراہ ہو گئے پروردگارا! تو ہم کو اعتقاد واخلاق وعمل میں فرعون ،قارون وابو لہب اور قوم عادوثمو دو بنی اسرائیل کے مانند قرار نہ دے اور ہمارے قدموں کوان کے راستے کہ طر ف اٹھنے سے باز رکھ۔(۶)

____________________

.۱) تفسیرنورالثقلین/ج ١ج/ص ٢٣

. ۲)بحارلانوار/ج ٩٢ /ص ٣۵۶

.۳) تفسیرقمی /ج ١/ص ٢٩

۴). بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢١

۵)اعراف /آیت ٨۵ ۔ ٩٢ ۔بقرہ /آیت ۶١ کی طرف اشارہ ہے.

۶)ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٨٨٠ /ص ٢٧٣ (

۲۰۷

سورہ تٔوحیدکی مختصرتفسیر

سورہ توحیدکوتوحیدکہے جانے اوراس کے نزول کی وجہ اس سورہ کوتوحیدکہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پورے سورہ میں پہلی آیت سے آخری آیت تک توحیدباری تعالیٰ کاذکرہے اوراس سورہ کواخلاص بھی کہتے ہیں کیونکہ انسان اس سورہ کی معرفت اوراس پرایمان واعتقاد رکھنے سے شرک جیسی نجاست سے پاک وخالص ہوجاتاہے بعض کہتے ہیں:اگرکوئی اس سورہ کوتعظیم خداکوذہن میں رکھ کرقرائت کرتاہے توخداوندعالم اسے آتشجہنم سے نجات دے دیتاہے۔ کتب تفاسیرمیں اس سورہ کی شان نزول کی حدیث کے ضمن میں چندوجہ بیان کی گئی ہیں:

١۔ابی ابن کعب اورجابرسے مروی ہے کہ مشرکین نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)سے کہا:آپ ہمارے لئے اپنے خداکی معرفت بیان کریں توآنحضرت پریہ سورہ نازل ہوا۔ ٢۔ابن عباس سے مروی ہے :عامربن طفیل اوراردبن ربیعہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں آئے ،عامرنے کہا: اے محمد!تم ہمیں کس کی طرف دعوت دیتے ہو؟آنحضرت نے کہا: خداکی طرف،اس نے کہا:تم اپنے اس خداکی صفت بیان کرو،وہ سونے سے بناہے یاچاندی سے ،لوہے سے بناہے یالکڑی سے؟پسخداوندعالم نے یہ سورہ نازل کیا۔ ٣۔محمدابن مسلم نے حضرت امام صادق سے روایت کی ہے ،امام فرماتے ہیں کہ: یہودیوں نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے سوال کیااورکہا :اے محمد!تم اپنے پروردگارکی معرفت بیان کرواوراس کانسب بتاؤ(کہ وہ خدا کون ہے ، اس کا باپ کون ہے ، اس کافرزند کون ہے شایدہم ایمان لے آئیں ) آنحضرت نے تین دن ان کی بات کاجواب نہ دیااورغور وفکر کرتے رہے کیونکہ وحی پروردگا ر کے منتظر تھے ، الله کی مرضی کے بغیر کوئی بھی جملہ اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے تھے لہٰذاخدا کی طرف سے سورئہ “( قُلْ هُوَاللهُ اَحَدْ ) ” نازل ہوا۔(۱)

مرحوم کلینی نے کافی معراج النبی سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ جسوقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازکاوقت پہنچاتوخدانے آپ کووضوکرنے کاحکم دیا ،آپ نے وضوکیااورنمازکے کھڑے ہوئے ،انبیاء ملائکہ نے آپ کے پیچھے نمازجماعت کے کھڑے ہوئے ہیں خداوندعالم نے وحی نازل کی:

____________________

.۱) تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨۵

۲۰۸

اے محمد! “( بسم الله الرحمن الرحیم ) ”کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“( ولاالضالین ) ”کہنے کے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہاجائے ) خدانے کہا: اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھواوراے رسول !ان مشرکین سے کہدو( قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ، اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّهُ کُفُوًااَحَدْ ) وہ الله ایک ہے،اللھبرحق اوربے نیازہے ،اس کاکوئی عدیل ونظیرنہیں ہے کہ جواس کے مثل ہو،پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارطرف سے وحی نازل ہوئی: اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد( اِنّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر ) ... کی قرائت کروکیونکہ یہ سورئہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے یہ سورہ تمھارااورتمھارے اہلبیت کاشناسنامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔(۱)

اَحَدْکہے جانے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ خداوندعالم نے “احد”کیوں کہا“واحد”کیوں نہیں کہا؟مختصرجواب یہ کہ احداورواحددونوں میں فرق پایاجاتاہے “احد”یعنی وہ اکیلاعددکہ جس میں کسی طرح کی دوئی ،ترکیب اورتجزیہ کاامکان نہیں ہے اوروہ اپنی ذات میں تجزیہ وتقسیم کی صلاحیت نہیں رکھتاہے اوراس کے لئے ثانی اوردوئی کاوجودنہیں پایاجاتاہے لیکن “واحد”ایساعددہے جس میں تجزیہ وترکیب اورتقسیم بندی کاامکان پایاجاتاہے اوراسکاثانی موجودہوتاہے۔ امیرا لمو منین حضرت علی سے سورئہ توحید کی تفسیربیان کرنے کی فرمائش کی گئی تو آپ نے فرمایا :“قل ھوالله احد” یعنی خدا ایسااکیلاہے کہ جس کی ذات وصفات میں تعددنہیں پایاجاتاہے (اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے )“الله الصمد”یعنی خدا کی ذات ایسی ہے کہ جس کے کوئی اعضاء واجزاء نہیں ہیں اور ہر چیز سے بے نیاز ہے(یعنی خداجسم نہیں رکھتاہے )”( لَمْ یَلدِْ ) ”یعنی اس کے کوئی فرزند بھی نہیں ہے تاکہ وہ فرزند اس کی حکومت کا وارث بن سکے کیونکہ جوصاحب فرزندہوتاہے وہ جسم بھی ضرور رکھتاہے اور جو جسم رکھتا ہے اس کے فنابھی ہے اور جو مر جاتاہے اس کی حکومت وباد شاہت کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے (لیکن خدا نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی فرزند اور نہ اس کو موت آ ئے گی ، وہ ہمشیہ سے ہے اور ہمشیہ رہے گا)”( وَلَم لوُلَدْ ) ”یعنی اس کوکسی نے پیدا نہیں کیا ہے ،اگراس کے کوئی باپ ہوتاتووہ بادشاہت اورخدائی کے لئے زیادہ لائق ومستحق ہوتا اورکم ازکم وہ باپ اپنے بیٹے کا شریک ضرورہوتا۔(۲)

____________________

۱). کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۲) تفسیرمجمع البیان/ج ١٠ /ص ۴٨٩

۲۰۹

رازتسبیحات اربعہ

تین اورچاررکعتی نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں نمازی کواختیارہے چاہے ایک مرتبہ سورہ حٔمدپرھے یاتین مرتبہ تسبیحات اربعہ یعنی “سبحان الله والحمدللهولااله الّاالله والله اکبر ”کہے اورایسابھی کرسکتاہے کہ تیسری رکعت میں حمداورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ پڑھے

اس کی کیاوجہ ہے کہ تین وچاررکعتی نمازوں کی تیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھنازیادہ ثواب رکھتاہے اورسورہ حٔمدبھی پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلی ودوسری رکعت میں حمدکاپڑھناواجب ہے تسبیحات اربعہ نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ پنجگانہ نمازوں میں سے ہرنمازدورکعت تھی کیونکہ جب شب معراج الله تعالیٰ نے امت رسول پرنمازکوواجب قراردیاتوہرنمازکودورکعتی واجب قراردیاتھالیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے ظہرکی نمازمیں دورکعت ،عصرکی نمازمیں دورکعت، مغرب کی نمازمیں ایک رکعت اورعشاکی نمازمیں دورکعت کوزیادہ کیا۔ پہلی دونوں رکعتوں میں قرائت اورتیسری وچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کے ذریعہ فرق کئے کی وجہ امام علی رضا نے اس طرح بیان کی ہے:

شروع کی دونوں رکعتوں میں قرائت اورآخرکی دونوں رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کواس لئے معین کیاگیاہے تاکہ الله کی طرف سے واجب کی گئی دونوں رکعتوں اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی طرف سے واجب کی گئی آخری دونوں رکعتوں کے درمیان فرق ہوجائے (الله تعالیٰ نے دونوں رکعتوں میں قرائت کوواجب قراردیاہے اگرپیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)بھی اپنی طرف سے واجب کی گئی نمازمیں حمدکی قرائت کوواجب قراردے دیتے توالله تعالیٰ سے واجب کی گئی رکعتوں اوررسول اسلام کی طرف واجب کی گئی رکعتوں میں کوئی فرق نہ رہتا)۔(۱)

محمدابن عمران نے حضرت امام صادق سے پوچھا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ کاپڑھناقرائت کرنے سے زیادہ افضل ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ آخری دورکعتوں میں مشغول تھے کہ عظمت پرودگارکامشاہدہ کیاتوحیرت ذرہ ہوگئے اورکہا:“سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّاالله ، والله اکبر ”اسی وجہ سے تسبیح کو قرائت سے افضل قراردیاگیاہے۔(۲)

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨

۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠٨

۲۱۰

اس کی کیاوجہ ہے کہ تسبیح فقط چارہیں اسسے کم وزیادہ کیوں نہیں ہیں؟ روایت میں آیاہے کہ امام صادق سے کسی نے پوچھا:کعبہ کوکعبہ کس لئے کہاجاتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس کے چارگوشہ ہیں،پوچھا:اس کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ بیت المعمورکے مقابلہ میں ہے اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذاکعبہ کے چارگوشہ ہیں)راوی نے پوچھا:بیت المعمورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابلہ میں ہے اورعرش کے چارگوشہ ہیں اسی لئے بیت المعمورے کے بھی چارگوشہ ہیں،راوی نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟امام نے فرمایا:کیونکہ وہ کلمات کہ جن پردین اسلام کی بنیادرکھی گئی ہے چارہیں اوروہ کلمات یہ ہیں:

سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّاالله ، والله اکبر(۱)

رکوع کے راز

کسی کی تعظیم وادب کی خاطراس کے آگے اپنے سراورکمرکوخم کردینے کورکوع کہتے ہیں،رکوع ایک ایسی عبادت ہے جونمازگزارکی حالت تذلل کودوبالاکردیتی ہے اورانسان رکوع کی حالت میں اپنے آپ کوخدائے قیوم کے سامنے ذلیل وحقیرشمارکرتاہے جس سے اس کاایمان اورزیادہ پختہ ہوجاتاہے،بارگارہ خداوندی میں خضوع خشوع کے ساتھ اس کی تعظیم کے لئے سروگردن کے خم کردینے کورکوع کہاجاتاہے ،قرآن کریم اوراحادیث میں اس کی بہت زیادہ اہمیت اورفضیلت بیان کی گئی ہے۔

( وَاَقِیْمُوْالصَّلٰوة وَآتُوْالزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْامَعَ الرّٰاکِعِیْنَ ) نمازقائم کرو،زکات اداکرواوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو(۳)

( یٰامَرْیَمُ اقْنُتی لِرَبِّکِ وَاسْجُدی وَارْکَعی مَعَ الرّٰاکِعیْنَ ) اے مریم تم اپنے پروردگارکی اطاعت کرواورسجدہ اوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(۴)

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔

____________________

. ۱)علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٩٨

۲) سورہ حٔج/آیت ٧٧

۳) سورہ بٔقرہ/آیت ۴٣

۴) سورہ آٔل عمران/آیت ۴٣

۲۱۱

مرحوم طبرسی تفسیرمجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ جب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدیہ پہنچے تونوی ہجری میں اہل مدینہ گروہ درگروہ آنحضرتکے پاس رہے آتے رہے اوراللھورسول اوراس کی نازل کی ہوئی کتاب پرایمان لاتے رہے اورمسلمان ہوتے گئے اوردین اسلام کے ہرقانون کوقبول کرتے گئے ،ایک دن طائفہ ثقیف سے ایک جماعت جب آنحضرت کی خدمت میں پہنچی اورآپ نے انھیں بتوں کے بجائے الله تبارک تعالیٰ کے سامنے جھکنے اورنمازپڑھنے کاحکم دیاتواس جماعت نے جواب دیا:ہم ہرگزخم نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کام ہمارے لئے ننگ وعارہے ، پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: لاخیرفی دینٍ لیسفیہ رکوع ولاسجود

جس مذہب میں رکوع وسجود نہ ہواس میں کوئی خیر وکا میا بی نہیں پائی جاتی ہے ،خداوندعالم نے ان کے اس خیال کوباطل قراردینے کے لئے اس آیہ مبارکہ کونازل کیا: )( وَاِذَاقِیْلَ لَهُمْ ارْکَعُوالَایَرْکَعُْونَ ) (۱)

اورجب ان سے رکوع کرنے کے لئے کہاجاتاہے تورکوع نہیں کرتے ہیں۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام انّه قال:لاتعادالصلاة الّامن خمسة : الطهور ، والوقت ، والقبلة ، والرکوع ، والسجود (۳)

امام صادق فرماتے ہیں:پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر نمازباطل ہے اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :وضو وقت قبلہ رکوع سجود۔

قال ابوجعفرعلیه السلام:من اتمّ رکوعه لم یدخله وحشة القبر ۔

امام محمد باقر فرماتے ہیں:جسکارکوع مکمل ہوتاہے وہ وحشت قبرسے محفوظ رہے گا۔(۴)

____________________

.۱)سورہ مٔرسلات/آیت ۴٨

. ٢)مجمع البیان /ج ١٠ /ص ٢٣۶

.۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣٩

۴)بحارالانوار/ج ۶/ص ٢۴۴

۲۱۲

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاصلاة لمن لم یتم رکوعها وسجودها ۔

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کارکوع وسجودکامل نہ ہواس کی نمازباطل ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:انّ اسرق السراق مَن سرق مِن صلاته قیل:یارسول الله:کیف یسرق صلاته ؟قال:لایتم رکوعها ولاسجودها ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:وہ شخص سب سے بڑاچورہے جواپنی نمازکی چوری کرتاہے توآنحضرت سے پوچھاگیا:نمازکی چوری کسی طرح کی جاتی ہے؟فرمایا:رکوع وسجودکوکامل طورسے انجام نہ دینا۔(۲)

رکوع میں تسبیح کے قراردئے جانے کاراز

واجب ہے کہ ہرنمازگزاراپنی نمازکی پہلی رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت کے بعداوردوسری رکعت میں حمدوسورہ کی قرائت وقنوت کے بعداورتیسری وچوتھی رکعت میں سورہ حمدیاتسبیحات اربعہ پڑھنے کے بعدتکبیرکہے اوررکوع میں جانے کے بعد اطمینان کے ساتھ تین مرتبہ “سبحان الله”یاایک مرتبہ “سبحان ربی العظیم وبحمدہ”کہے یاتحمید(الحمدللّٰہ)یاتہلیل(لاالہ الاالله)یاتکبیر(الله اکبر)کہے یاان کے علاوہ کوئی بھی دوسراذکرکرے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ “سبحان الله”کہنے کے برابرہو،اگرکوئی شخص رکوع بطورکلی تسبیح کو ترک کردے تواس کی نمازباطل ہے ۔ رکوع وسجودمیں تسبیح ہی کوقراردیاگیاہے ،اورقرائت وغیرہ میں کیوں نہیں ہے اس میں کیارازہے؟

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:رکوع وسجودمیں تسبیح کے قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ بندہ مٔومن کے لئے ضروری ہے کہ خضوع خشوع،تعبدوتقوا،سکون واطمینان،تواضع وتذلل اورقصدقربت کے علاوہ اپنے رب کی تسبیح وتقدیس ،تعظیم وتمجیداورشکرخالق ورازق بھی کرے ،جس طرح تکبیر(الله اکبر) اورتہلیل (لاالٰہ الّا الله) کہتاہے اسی طرح تسبیح وتحمید(سبحان ربی العظیم وبحمده )بھی کہے اوراپنے دل ودماغ کوذکرخدامیں مشغول کرے تاکہ نمازی کی فکروامیداسے غیرخداکی طرف متوجہ ومبذول نہ کرسکے ۔(۳)

____________________

.۱) بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

.۲) مستدرک الوسائل /ج ١٨ /ص ١۵٠

۳). علل الشرایع /ج ١/ص ٢۶١

۲۱۳

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے رکوع وسجودکی حالت میں قرائت (قران)سے منع کیاگیاہے، رکوع میں خداوندعالم کی تعظیم کرنی چاہئے اورسجدہ میں دعازیادہ کرنی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ سجدہ کی حالت میں کی جانے والی تمھاری دعا(بارگاہ رب العزت میں )قبول ہوجائے۔(۱) حضرت علی فرماتے ہیں کہ رکوع وسجودمیں قرائت نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان دونوں میں خدائے عزوجل کی حمدثناکی جاتی ہے۔(۲)

رکوع وسجودکی تسبیح فرق رکھنے کی وجہ

ذکررکوع وسجودکی تسبیح میں فرق پایاجاتاہے یعنی رکوع میں “سبحان ربی العظیم وبحمده ” اورسجدہ میں“سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”کہاجاتاہے اس کارازکیاہے کہ رکوع میں “ربی العظیم”اورسجدہ میں“ ربی الاعلیٰ”کہاجاتاہے؟ عقبہ ابن عامرجہنی سے مروی ہے: جب آیہ مٔبارکہ( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ) نازل ہوئی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیہ مٔبارکہ( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی ) نازل ہوئی توآنحضرت نے ہمیں حکم دیاکہ اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔(۳) حسین بن ابراہیم نے محمدبن زیادسے روایت کی ہے کہ: ہشام بن حکم نے امام موسیٰ کاظم سے پوچھا:اس کی وجہ کیاہے کہ رکوع میں“ سبحان ربی العظیم وبحمدہ ” اورسجدہ میں “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ”کہاجاتاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: اے ہشام !جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھناشروع کی جب قرائت سے فارغ ہوئے توآنحضرت کے ذہن میں سات حجاب آسمانی کوعبورکرنایادآیاتوعظمت پروردگارکی خاطرگردن کی رگوں میں لرزش پیداہوگئی لہٰذااپنے دونوں ہاتھوں کوزانوں پررکھااور اس طرح تسبیح پروردگارکرنے لگے“سبحان ربی العظیم وبحمده ”( میرا پرور دگا ر جو کہ با عظمت ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں ) جب رکوع سے بلندہونے لگے توآپ کی نظروں نے اس سے بھی زیادہ بلندی دیکھی جوآپ دیکھ چکے تھے لہٰذافوراًزمین پرگرپڑے اورپیشانی مبارک کو زمین رکھنے کے بعدکہا:“سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”(میرا پر ور دگا رجو کہ سب سے بلندوبرتر ہے ہر عیب ونقص سے پاک ومنزّہ ہے اور میں اس کی حمد میں مشغول ہوں)جب آپ نے سات مرتبہ ان جملوں کی تکرارکی توآپ کے جسم سے رعب برطرف ہوااوریہ سنت قرارپایا۔(۴)

____________________

۱)معانی الاخبار/ص ٢٧٩

.۲) قرب الاسناد/ص ١۴٢

۳). تہذب الاحکام/ج ٢/ص ٣١٣

۴)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٣٢

۲۱۴

رکوع کوسجدوں سے پہلے رکھنے کی وجہ

نماز میں پہلے رکوع ہے اس کے بعد دوسجدے ہیں اگربندہ رکوع کو حقیقت کے ساتھ بجالاتا ہے تو سجدے کرنے کی لیاقت رکھتا ہے ، رکوع میں بندگی کا ادب واحترام پایاجاتاہے اور سجدے میں معبود سے قربت حاصل کی جاتی ہے اب اگر کوئی نماز گزار حقیقت میں خدا کا ادب واحترام نہیں کرتا ہے اور معرفت خدا کے ساتھ رکوع نہیں کرتا ہے وہ سجدے میں جاکر خدا سے قربت حاصل نہیں کرسکتا ہے اور رکوع کو وہی شخص عمدہ طریقہ سے انجام دے سکتا ہے جس کے دل میں خضوع وخشوع پایاجاتاہو اور وہ اپنے آپ کو خداکے سامنے ذلیل وحقیر اور محتاج سمجھتا ہو اور خوف خدا میں اپنے اعضاء وسرو گردن کو جھکا ئے رکھتا ہو ۔(۱)

گردن کوسیدھی رکھنے کاراز

مردکے لئے مستحب ہے کہ رکوع کی حالت میں زانوں کواندرکی طرف اور کمر کو ہموار اور گردن کمرکے برابرسیدھی اورکھینچ کررکھے معصومین کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ رکوع کی حکالت میں اپنی اس طرح سیدھی اورصاف رکھتے تھے کہ اگرپانی کاکوئی قطرہ آپ کی ڈالاجاتاتووہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتاتھا۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جب رکوع کرتے تھے تواپنی کمرکواس طرح ہمواررکھتے تھے کہ اگران کی کمرپرپانی ڈال دیاجاتاتووہ بھی اپنی جگہ پرثابت رہتا۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازمیں رکوع وسجود کی حالت میں اپنی کمرکوہمواراورسیدھی نہ رکھے اس نمازہی نہیں ہوتی ہے(۳)

زرارہ سے روایت ہے :امام محمدباقر فرماتے ہیں: جب تم رکوع کروتواپنے رکوع میں دونوں قدموں کے درمیان ایک بالشت کافصلہ دواوراپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورپہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیںزانوں پررکھواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھواورہاتھ کی انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھواورانگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤ،اگرتمھاری انگلیاںزانوں کے اطراف تک پہنچ رہی ہوں توکافی ہے اورمیں یہ دوست رکھتاہوں کہ ہتھیلیوں کوزانوں پررکھواورانگلیوں کوکھول کررکھونہ انھیں اپس میں نہ ملاؤاوراپنی کمرکوسیدھی رکھو،گردن کوکھینچ کررکھواوراپنے دونوں پیروں کے درمیان نگاہ کرو۔(۴)

____________________

. ۱)رسائل الشہیدالثانی /ص ١٣١

. ۲)معانی الاخبار/ص ٢٨٠

. ۳)معانی الاخبار/ص ٢٨٠

۴) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٣

۲۱۵

ایک شخص امام علیکی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق کے چچازادبھائی!رکوع میں گردن کوسیدھے رکھنے کے کیامعنی ہیں؟ آپ نے فرمایا: رکوع میں گردن کو سیدھا رکھنے کارازاورفلسفہ یہ ہے یعنی بارالٰہا!میں تجھ پرایمان رکھتاہوں،تیرے حکم کامطیع ہوں اورتیرے سامنے میری یہ گردن حاضرہے اگرچاہے توقطع کردے۔(۱)

رازطول رکوع

رکوع کوذکرودعاکے ساتھ طول دینامستحب ہے ، خصوصاً امام جماعت کے لئے اگرکوئی شخص نمازجماعت میں شامل ہوناچاہتاہے اورامام کومحسوس ہوجائے کہ کوئی شخص نمازمیں شریک ہوناچاہتاہے تورکوع کودوبرابرطول دےنامستحب ہے تاکہ وہ شخص نمازجماعت میں شریک ہوجائے ۔

ابواسامہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:میں تمھیںطول کوع وسجودکی وصیت کرتاہوں کیونکہ تم میں سے جب بھی کوئی شخص رکوع وسجودکوطول دیتاہے توشیطان اس کے پیچھے فریادبلندکرتاہے اورکہتاہے :انھوں نے خداکی اطاعت کی اوراس حکم سے کے خلاف سرکشی کی اورگناہ کیا،انھوں نے سجدہ کیااورمیں نے سجدہ کرنے سے خودداری کی۔(۲)

بریدعجلی سے مروی ہے :میں نے امام صادقسے پوچھا:نمازمیں قرآن کی زیادہ تلاوت کرنازیادہ ثواب رکھتاہے یارکوع وسجودکوطول دینا؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:رکوع وسجودکوطول دینازیادہ ثواب رکھتاہے ،کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے جس میں وہ فرماتاہے:

( فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْهُ ، وَاَقِیْمُواالصَّلاةَ ) (۳) جت ناتم سے میسرہوسکے قرآن کی تلاوت کرواورنمازکوقائم کرو،آیہ مٔبارکہ میں ) نمازقائم کرنے سے مرادیہ ہے کہ رکوع وسجودکوطول دینا۔

ہم باب رکوع میں کے آخرمیں ایک حدیث نقل کررہے ہیں کہ جس میں معصوم (علیه السلام) نے رکوع کے آداب ومستحبات کوذکرکیاہے اوروہ حدیث یہ ہے: زرارہ سے مروی ہے امام باقر فرماتے ہیں:جب تم رکوع کرنے کاارادہ کرو تو(قرائت کے بعد)سیدھے کھڑے ہوئے “الله اکبر”کہواورجاؤاسکے بعدرکوع کی حالت میں یہ کہو :

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١١

.۲) کافی /ج ٢/ص ٧٧

۳)سورہ مٔزمل/آیت ٢٠ )

۴)السرائر(ابن ادریسحلی)/ج ٣/ص ۵٩٨ )

۲۱۶

اللّهم لک رکعتُ ولکَ اسلمتُ وعلیکَ توکلتُ وانتَ ربّی خشعَ لکَ قلبی وسمعی وبصری وشعری وبشری ولحمی ودمی ومُخّی وعصبی وعظامی ومااقّلَّتْهُ قدمائی غیرمنکرٍولامستکبرٍولامستحسرٍ سبحان ربی العظیم وبحمده “ اوراس ذکرکی تین مرتبہ آرام وسکون کے ساتھ تکرارکرواوررکوع میں اپنے پیروں کو اس طرح مرتب قراردوکہ دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کافاصلہ رہے اوردونوں زانوں پرہتھیلی کواس طرح رکھو کہ پہلے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں زانوپرقراردواس کے بعدبائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں زانوں پررکھو، انگلیوں کوزانوں کے اطراف میں رکھو ،جب ہاتھوں کوزانوں پررکھوتو انگلیوں کوآپس میں نہ ملاؤبلکہ انھیں کھلارکھو،کمراورگردن کوسیدھی رکھو اوردونوں پاؤں کے درمیان نگاہ کرواور(ذکررکوع سے فارغ ہونے کے بعد)رکوع سے سربلندکرو اورسیدھے کھڑے ہوکر“سمع الله لمن حمدہ” کہواس کے بعد“الحمدلله رب العالمین اهل الجبروت والکبریاء والعظمة لله رب العالمین ”اسکے بعددونوں ہاتھوں کوبلندکرکے تکبیرکہو اورسجدہ میں جاؤ۔(۱)

رازسجدہ

سجدہ لغت میں خضوع میں استعمال ہوتاہے لیکن شرع میں خداوندعالم کی تعظیم کے لئے خضوع وخشوع کے ساتھ زمین پرپیشانی رکھ دینے کے بعداس کی تسبیح وتقدیس کرنے کوسجدہ کہاجاتاہے ۔

سجدہ ایک انتہائی خضوع ہے جس سے بڑھ کرکوئی خضوع وتواضع نہیں ہے اسی کے ذریعہ بندگی کااظہارہوتاہے، اسی لئے نمازپڑھنے کی جگہ کو مسجد کہا جاتا ہے۔ سجدہ فقط خداکے لئے ہوتاہے اوراس کے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے، قرآن کریم کی متعددآیات(۲) میں خداوندعالم کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاہے اورروایات میں بھی اس کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے

م( ُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِرُحْمٰاءُ بَیْنَهُمْ تَرٰیهُمْ رُکَّعاًسُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاًمِنَ اللهِوَرِضْوَاناًسِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ ) محمدالله کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفارکے لئے سخت ترین اورآپس میں رحمدل ہیں،تم انھیں دیکھوگے کہ وہ بارگااحدیت میں سرتسلیم خم کئے ہوئے سجدہ ریزہیں اوراپنے پروردگارسے فضل وکرم اوراس کی خوشنودی کے طلب گارہیں ،کثرت سجودکی بناپران کے پیروں پرسجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیں۔(۳)

____________________

۱). کافی /ج ٣/ص ٣١٩

۲)فصلت/آیت ٣٧ ۔ سورہ نٔجم/آیت ۶٢ ۔سورۂ حجر/آیت ٩٨ ۔سورہ عٔلق/آیت ١٩ ۔حج ٧٧

۳). سورہ فٔتح/آیت ٢٩

۲۱۷

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَآمَنُواارْکَعُواوَاسْجُدُواوَاعْبُدُوارَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) اے ایمان والو!رکوع کرو،سجدہ کرواوراپنے پروردگارکی عبادت کرواورکارخیرانجام دوکہ شایداسی طرح کامیاب ہوجاؤاورنجات حاصل کرلو۔(۱)

قال الصادق علیه السلام : اقرب مایکون العبد الی الله عزّوجل وهوساجدٌ ۔

وہ چیزجوبندہ کوخدائے عزوجل سے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے وہ سجدہ کی حالت ہے۔(۲)

روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تشجہنم سے کہے گا:

یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی ۔

اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔(۳)

سجدہ اسی وقت مفیدہے جبکہ اسے خداوندعالم کی حقیقی معرفت کے ساتھ انجام دیاجائے ،اگرسجدہ کورب دوجہاں کی معرفت کے ساتھ انجام نہ دیاجائے تووہ سجدہ بیکارہے قال الصادق علیہ السلام:ماخسروَاللھمَن اتی بحقیقة السجود ولوکان فی العمرمرة واحدة۔

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں : خدا کی قسم اگر کوئی شخص حقیقی سجد ہ کرے اسے زندگی میں کوئی مشکل نہیں آسکتی ہے اورنہ کو ئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے خواہ پوری زندگی میں ایک ہی مر تبہ ایسا سجدہ کرے ۔(۴)

العلوی علیہ السلام :سجدابلیسسجدة واحدة اربعة الٰاف عام لم یردبہازخرف الدنیا. حضرت علی فرماتے ہیں: شیطان چارہزارسال تک ایک ہی سجدے میں پڑارہااوراس کا مقصد دنیااور زینت دنیا کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔(۵)

شیطان ہرسجدہ کودشمن نہیں رکھتاہے بلکہ اسی سجدہ کودشمن کورکھتاہے جوحقیقت میں سجدہ ہوتاہے، شیطان کو امیرشام ،ولید،مروان ابن حکم ،مامون ،ہارون وغیرہ کے سجدوں سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ ان کاسجدہ حقیقی سجدہ نہیں تھا،شیطان اگرخوف ہراساں ہوتاہے توانبیاء وآئمہ اطہار اوران کے چاہئے والوں کے سجدوں سے خوف کھاتاہے کیونکہ یہ خداوندعالم کوحقیقت میں سجدہ کرتے ہیں شیطان کے ایک چیلے نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پشت مبارک پرسجدہ کی حالت اونٹ کی اوجھڑی رکھی،امام علی (علیه السلام)کے سرمبارک پرمسجدمیں حالت سجدہ میں ضربت لگائی ،امام حسین کاسرمبارک شمرملعون نے سجدہ کی حالت میں تن سے جداکیااورآج بھی اسی شیطان کے چیلے روحانی پیشواؤں پرنمازکی حالت میں گولیاں چلاکرفرارہوجاتے ہیں،محرابوں میں بم دھماکہ کرادیتے ہیں

____________________

.۱) سورہ حٔج/آیت ٧٧---۲). ثواب الاعمال/ص ٣۴---. ۳)منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧

.۴) مصباح الشریعہ /ص ٩٠

۵). مستدرک سفینة البحار/ج ۴/ص ۴۶٧

۲۱۸

آیت الله مکارم شیرازی تفسیرنمونہ میں لکھتے ہیں: ابو جہل اپنے ساتھیوں سے کہتاتھا :اگر میں نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کی حالت میں دیکھ لیا تو اپنے پیروں کے ذریعہ ان کی گردن کوتوڑ کر رکھ دوں گا، ایک دن جب رسول خدا (صلی الله علیه و آله)نماز میں مشغول تھے توابوجہل اپنے اس نا پاک ارادہ کو انجام دینے کے لئے مسجد میں داخل ہوا لیکن جیسے ہی نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قریب پہنچا تو سب نے دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کواس طرح چلارہاہے جیسے کوئی چیزاس کی طرف حملہ کررہی ہے اوروہ اپنے آپ کواس سے بچارہاہے اوراپنے ہاتھوں سے دفاع کرتے ہوئے پیچھے کی طرف ہٹ رہا ہے،اس سے پوچھاگیا:تواس طرح کیاکرہاہے اوراپنے ہاتھوں سے کس چیز کو دور کررہاہے ؟ اس نے کہا : میں اپنے اور پیغمبر کے درمیان ایک نشیب دیکھ رہا ہوں جس میں آگ روشن ہے جومجھے جلادینے کاارادہ رکھتی ہے اورمیں ایک خوفناک منظر دیکھ رہا تھا مجھے کچھ بال وپر نظر آرہے تھے ،اسی مو قع پر رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے فرمایا: قسم اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر ابوجہل ذرہ برابر بھی نز دیک ہو جاتا تو الله کے فر شتے اس کو قطعہ قطعہ کر دیتے اور اس کے جسم کے ٹکڑ ے اٹھا کر لے جا تے ۔(۱)

آدم(علیھ السلام) کواوریوسف کے سامنے سجدہ کرنے کی وجہ

سوال یہ ہے کہ جب خداکے علاوہ کسی ذات کوسجدہ کرناجائزنہیں ہے توپھرخداوندعالم نے شیطان سے آدم کوسجدہ کرنے کاحکم کیوں دیا؟اورارشادفرمایا:( قُلْنَالِلْمَلائِکَةِ اسْجُدُوالآدَمَ فَسَجُدُوااِلّااِبْلِیْسَ ) (۲) (ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو توابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا)اورجب حضرت یعقوب(علیه السلام) اوران کے فرزنددربار یوسف (علیه السلام)میں مصرپہنچے توانھوں نے اپنے والدین(۳) کوتخت پرجگہ دی( وَخَرُّوالَهُ سُجَّداً ) (۴) اورسب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گرپڑے ،حضرت یعقوب جوکہ الله کے نبی تھے انھوں نے اوران کے دوسرے فرزندوں نے غیرخداکو سجدہ کیوں کیا؟

____________________

.۱) تفسیرنمونہ/ج ٢٧ /ص ١۶۵

۲)سورہ بٔقرہ/آیت ٣۴ ۔اعراف/ ١١ ۔اسراء / ۶١ ۔کہف/ ۵٠ ۔طٰہٰ/ ١١۶ ( /آیت ١٠٠

۳)بعض کاخیال ہے کہ ابوین سے مرادباپ اورخالہ ہیں اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ خداوندعالم نے ماں کودوبارہ زندہ کیاتاکہ اپنے لال کاعروج دیکھ سکیں،ترجمہ وتفسیرعلامہ جوادی۔

۴)سورہ یٔوسف )

۲۱۹

ملائکہ نے حضرت آدم کومعبودکے عنوان سے سجدہ نہیں کیاتھابلکہ آدم (علیه السلام)بعنوان قبلہ قابل تعظیم وتکریم قراردئے گئے تھے ،پس یہ سجدہ آدم (علیه السلام)کے لئے نہیں تھابلکہ درحقیقت حضرت آدم کے طرف رخ کرکے تعظیم وتکریم پروردگارکوسجدہ کیاگیاتھاجیساکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: فرشتوں کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ آدم(علیه السلام) ان کے لئے قبلہ بنائے گئے تھے کہ جن کی طرف رخ کرکے انھوں نے خداوندعالم کوسجدہ کیااوراس سجدہ کی بناپرآدم(علیه السلام) معظم ومکرم ثابت ہوئے ،اورکسی کے لئے سزاوارنہیں ہے کہ وہ خداکے علاوہ کسی دوسرے کوسجدہ کرے اوراس کے لئے اس طرح خضوع کرے جس طرح خداکے لئے خضوع کیاجاتاہے اورسجدہ کے ذریعہ اس کی اس طرح تعظیم وتکریم کرے جیسے خداکی تعظیم وتکریم کی جاتی ہے ،اگرکسی ایک کوتعظیم وتکریم کی خاطرغیرخداکوسجدہ کرنے دیاجاتاتوحتماًہمارے ضعفائے شیعہ اورہمارے شیعوں میں سے دیگرمکلفین کویہ حکم دیاکہ وہ اپنے اس علم کے واسطہ سے علی ابن ابی طالب وصی پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوسجدہ کریں ۔(۱)

زندیق نے امام جعفر صادق سے غیرخداکے لئے سجدہ کرنے کے بارے میں پوچھا :کیا خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدہ کرناجائز ہے ؟آپ نے فرمایا :ہرگز نہیں،زندیق نے امام (علیه السلام)سے دوبارہ پوچھا :جب غیرخداکے لئے سجدہ جائزنہیں ہے توپھر خداوند متعال نے فرشتوں کو آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟آپ نے جواب دیا:

خدا کے فرمان کے مطابق کسی کے آگے سر جھکا دینے کو اس کے لئے سجدہ شمار نہیں ہو تا ہے بلکہ وہ سجدہ خدا کے لئے ہو تا ہے ۔(۲)

ملائکہ کاآدم (علیه السلام)کوسجدہ کرنے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضرت آدم کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے محمدوآل محمد کے نورکوخلق کیامگرجب آدم (علیه السلام) کوپیداکیاگیاتوالله تبارک تعالیٰ نے ان انوارمقدسہ کوصلب آدم (علیه السلام) میں قراردیالہٰذافرشتوں کوحکم دیاکہ آدم (علیه السلام) کے سامنے سجدہ کرو،ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا،درحقیقت یہ سجدہ آدم (علیه السلام) کونہیں تھابلکہ ان انوارمقدسہ کی تعظیم کاحکم تھاکہ جن کے صدقہ میں یہ پوری کائنات خلق کی گئی ہے اوروہ اس وقت صلب آدم (علیه السلام)میں موجودتھے اس لئے ملائکہ کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتھا،

____________________

.۱) تفسیرامام عسکری /ص ٣٨۶

۲). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٩۵٨

۲۲۰

اسی حقیقت کے بارے میں خودنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)ارشادفرماتے ہیں: الله تبارک وتعالیٰ نے آدم(علیه السلام) کوخلق کیااورہمیں ان کی صلب میں قراردیااورفرشتوں کوحکم دیاکہ وہ ہماری تعظیم واکرام کے لئے آدم کے سامنے سجدہ کریں(ابلیس کے علاوہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا)جن کایہ سجدہ الله کی اطاعت اوراکرام آدم کے لئے تھاکیونکہ ہم ان کی صلب میں تھے۔(۱)

یوسف (علیه السلام)کے سامنے جناب یعقوب اوران بھائیوں کاسجدہ صرف رب العالمین کاسجدہ شٔکرتھااور یوسف فقط ایک قبلہ کی حیثیت رکھتے تھے جس کے ذریعہ ان کے احترام کااظہارکیاجارہاتھا،اسبارے میں علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیرمیں یہ روایت نقل کی ہے :

موسیٰ ابن احمدنے حضرت ابوالحسن امام علی نقیکی خدمت میں چندسوال مطرح کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا : اے میرے مولاوآقا!مجھے اس قول الٰہی( وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوالَهُ سُجَّداً ) (۲) کے بارے میں آگاہ کیجئے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام)اوران کے فرزندوں نے حضرت یوسف (علیه السلام)کے سامنے کس لئے سجدہ کیاتھاجبکہ وہ الله کے نبی تھے ؟امام علی نقینے جواب دیا:

امّاسجودیعقوب وولده فانّه لم یکن لیوسف انماکان ذلک منهم طاعة للّٰه وتحیة لیوسف کماکان السجودمن الملائکة لآدم ولم یکن لآدم انماکان ذلک منهم طاعة للّٰه وتحیةلآدم وسجدیوسف معهم شکرالله ۔

حضرت یعقوب اوران کے فرزندوں کاحضرت یوسف کے آگے سجدہ کرنا،ان کو سجدہ کرنامقصودنہیں تھابلکہ وہ سجدہ الله کی اطاعت اوراحترام یوسف (علیه السلام) کی خاطرتھاجس طرح ملائکہ کاسجدہ آدم(علیه السلام) کے لئے نہیں تھابلکہ الله کی اطاعت اوراکرام آدم(علیه السلام) کی خاطرتھااورحضرت یوسف (علیه السلام) نے بھی ان کے ساتھ ) سجدہ شٔکراداکیا(۳)

منہج الصادقین میں لکھاہے :جب حضرت نوح کشتی میں سوارہوئے توشیطان بھی اس میں سوارہوا،حضرت نوح (علیه السلام)نے شیطان سے کہا:اے ابلیس !تونے تکبرکی وجہ سے اپنے آپ کوبھی اوردوسرے لوگوں کوبھی ہلاک کردیاہے ،شیطان نے کہا:میں اب کیاکروں؟نبی الله نے کہا:توبہ کرلے ،کہا:کیامیری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ حضرت نوح نے بارگاہ خدا وند ی میں عرض کیا : پروردگا ر ا! اگر ابلیس توبہ کرے ، کیا تواس کی توبہ قبول کر لے گا ؟ خطاب ہوا : اگر ابلیس اب بھی قبرآدم (علیه السلام) کو سجدہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کر لوں گا ، حضرت نوح(علیه السلام) نے جب یہ شیطان سے کہاتو ابلیسنے وہی اپنے بڑے مغرورکے ساتھ جواب دیا: جسوقت آدم زندہ تھے ، میں نے انھیں اس وقت سجدہ نہیں کیا، اب جبکہ مردہ ہوچکے ہیں کیسے سجدہ کرسکتاہوں؟(۴)

____________________

.۱) مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ۴٧٩----۲)سورہ یٔوسف /آیت ١٠٠

. ۳)تفسیرقمی /ج ١/ص ٣۶۵ ) .----۴). تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ١٧٢

۲۲۱

ہررکعت میں دوسجدے قراردئے جانے کی وجہ

ہررکعت میں ایک رکوع ہے اوردوسجدہ ہیں سوال یہ ہے کہ جس طرح ایک رکعت میں دوسجدہ ہیں تو دورکوع کیوں نہیں ہیں یاپھریہ کہ جب ہررکعت میں ایک رکوع ہے توسجدہ بھی ایک کیوں نہیں ہے ،ہررکعت میں یادورکوع ہوتے یاپھر سجدہ بھی ایک ہوتا،دونوں میں مطابقت کیوں نہیں ہے؟

رکوع وسجوددونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ نمازوہ حصہ جوبیٹھ کرانجام دیاجاتاہے نمازکے اس حصہ کاآدھاہوتاہے جو حصہ قیام کی حالت میں انجام دیاجاتاہے ،رکوع قیام کی حالت میں شمارہوتاہے اورسجدہ قعودمیں شمارہوتاہے یعنی ایک سجدہ آدھے رکوع کے برابرہوتاہے اسی لئے ایک رکعت دوسجدہ رکھے گئے ہیں تاکہ رکوع سجودمیں مطابقت رہے ،اس بارے میں روایت میں ایاہے:

عیون اخبارالرضا(علیه السلام)میں امام علی رضا فرماتے ہیں :اگرکوئی تم سے یہ سوال کرے کہ ہررکعت میں دوسجدہ کیوں ہیں تواس کاجواب یہ ہے:انّماجعلت الصلاة رکعة وسجدتین لانّ الرکوع من فعل القیام والسجودمن فعل القعودوصلاة القاعدعلی النصف من صلاة القائم فضوعفت السجودلیستوی بالرکوع فلایکون بینهماتفاوت لانّ الصلاة انّماهی رکوع وسجود ۔

نمازکی ہرایک رکعت میں ایک رکوع اوردوسجدہ قراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ رکوع کھڑے ہوکر انجام دیاجاتاہے اورسجودکوبیٹھ کر،وہ نمازکہ جوبیٹھ کرپڑھی جاتی ہے کھڑے ہوکرپڑھی جانے والی نمازکی آدھی ہوتی ہے اس لئے نمازمیں ایک سجدہ کورکوع کے دوبرابرقراردیاگیاہے تاکہ دونوں میں کوئی فرق نہ رہے کیونکہ رکوع وسجودہی اصل نماز ہیں۔(۱)

حدیث معراج میں نمازمیں دوسجدہ کے واجب قراردئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے:

جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورنمازپڑھنے کاحکم ہوا،جب نمازمیں مشغول ہوئے اوررکوع سے سربلندکیااورپروردگارکی عظمت کامشاہدہ کیاتوالله کی طرف سے وحی نازل ہوئی:اے محمد!اپنے پروردگارکے لئے سجدہ کرو،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے زمین پرسجدہ میں گرگئے ،خدائے عزوجل کی طرف سے وحی نازل ہوئی:اے رسول !کہو“ سبحان ربی الاعلیٰ ” پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس ذکرکو تین مرتبہ زبان پرجاری کیا،اس کے بعدسجدہ سے سربلندکرکے بیٹھ گئے تودوبارہ عظمت پروردگارکامشاہدہ کیالہٰذاپھردوبارہ سجدہ میں گرگئے اورپہلے سجدہ کی طرح دوسراسجدہ کیا(اوراس طرح ہرنمازکی ہررکعت میں دوسجدہ واجب قرارپائے۔(۲)

_____________________

۱). عیون اخبارالرضا(علیه السلام) /ج ١/ص ١١۵

. ۲)الکافی/ج ٣/ص ۴٨۶

۲۲۲

اسی حدیث کے مانندایک اورحدیث میں ایاہے: ابوبصیرنے امام صادق سے پوچھادورکعت نمازمیں چارسجدے کیوں قراردئے ہیں(یعنی ہررکعت میں ایک رکوع اوردوسجدہ کیوں ہیں؟) امام (علیه السلام)نے فرمایا:کھڑے ہوکرپڑھی جانے والی ایک رکعت نماز،بیٹھ کرپڑھی جانے والی دورکعت کے برابرہے (اورسجدہ بیٹھ کرکیاجاتاہے اس لئے دورکعت میں چارسجدے ہیں)اوریہ کہ رکوع میں“سبحان ربی العظیم وبحمده ” اورسجدہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”میں کیوں کہاجاتاہے اس دلیل یہ ہے کہ جب خداوندعالم نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)آیہ مٔبارکہ “( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ) ” نازل کی توآنحضرت نے لوگوں کوحکم دیاکہ تم اسے اپنی نمازکے رکوع میں قراردواورجب آیۂ مبارکہ“( فَسَبِّحْ بِاِسْمِ رَبِّکَ الْاَعْلی ) ” نازل ہوئی توآنحضرت نے حکم دیاکہ تم اسے اپنی نمازکے سجدہ میں میں قراردو۔(۱)

ایک شخص امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں ایااورکہا:اے خداکی بہترین مخلوق(حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله))کے چچازادبھائی !میں اپ سے معلوم کرناچاہتاہوں کہ پہلے سجدہ کے کیامعنی ہیں اوراس کاکیارازہے ؟ آپ نے فرمایا : سجدہ کارازیہ ہے کہ جب نمازی (ہررکعت میں)پہلے سجدے کے لئے زمین پر سر رکھتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :بارالٰہا!تونے مجھے اسی خاک سے پیدا کیاہے اورجب سجدہ أول سے سربلندکرتاہے تواس کامقصدیہ ہوتا ہے :بارالٰہا!،تونے مجھے اسی خاک سے نکالاہے اورجب دوسرے سجدے کے لئے زمین پر دوبارہ سر رکھتاہے تواس بات کی گواہی دیتاہے :ہمیں مرنے کے بعد اسی زمین میں دفن ہونا ہے اور جب سجدہ دٔوم سے سربلندکرتاہے تووہ معادکی گواہی دہتے ہوئے کہتاہے : روزمحشر ہمیں دوبارہ خاک سے بلند جائے گاجیسا کہ خداوندمتعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے :( مِنْهَا خَلَقْنَا کُمْ وَفِیْهٰا نُعِیْدُ کُمْ وَمِنْهٰا نُخرِ جُکُمْ تَارَةً اُخُریٰ ) (۲) اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اُس سے نکا ) لیں گے )۔(۳)

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣١۴

۲)سورہ طٰٔہٰ/آیت ۵۵

.۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣١۴ )

۲۲۳

رازاعضائے سجدہ

سجدہ کی حالت میں بدن کے سات اعضاء کوزمین پرٹیکناواجب ہے،جنھیں اعضاء سجدہ کانام دیاگیاہے اوروہ یہ ہیں:پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھے اورناک کے سرے کومحل سجدہ پرٹیکناسنت پیغمبر ہے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:سجدہ میں بدن کے سات اعضاء کوزمین پررکھناچاہئے : پیشانی، دونوں ہاتھ کی ہتھیلی ،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھے اورناک کوبھی زمین پررکھیں لیکن ان میں سے سات اعضاء کازمین پرٹیکناواجب ہے اورناک کازمین پررکھناسنت پیغمبرہے ۔(۱)

روایت میں آیا ہے :روز قیامت خدا وند متعا ل آ تش جہنم سے کہے گا:

یانارُانضجی، یانارُاِحرقی وامّاموضع السجودفلاتقربی ۔

اے جہنم کی آگ! توجس کو جلانا چاہتی ہے جلا دے لیکن اعضاء سجدہ کے ہر گز قریب نہ جا نا ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سجدہ کی حالت میں ان سات اعضاء کوزمین پررکھنے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

خلقتم من سبع ورزقتم من سبع فاسجدوالِلّٰهِ علی سبع ۔ خداوندعالم نے تمھیں سات چیزوں سے خلق کیاہے اورسات سے چیزوں سے رزق دیتاہے لہٰذاسات چیزوں پرخداکوسجدہ کرو۔(۳)

سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کوزمین پرقراردینے کی وجہ حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے:

قال امیرالمومنین علیه السلام:اذاسجداحدکم فلیباشربکفیه الارض لعل اللهیصرف عنه الغل یوم القیامة.

حضرت علی فرماتے ہیں:جب بھی تم میں کوئی شخص سجدہ کرے تواپنے دونوں ہاتھوں کوزمین رکھے شاید خداوندعالم روزقیامت تشنگی کے سوزش کواسسے برطرف کردے۔(۴)

____________________

۱). استبصار/ج ١/ص ٣٢٧

. ۲)منہج الصادقین،ج ٨،ص ٣٩٧

.۳) مستدک الوسائل /ج ۴/ص ۴۵۵

۴). ثواب الاعمال/ص ٣۴

۲۲۴

چورکی ہتھلیوں کوقطع نہ کئے جانے کی وجہ

شیعہ اثناعشری مذہب کے نزدیک اسلامی قانو ن یہ ہے کہ اگرکوئی شخص پہلی مرتبہ چوری کرے تواس کے دونوں ہاتھ کی چاروں انگلیاں قطع کردی جائیں اوردونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں وانگوٹھوں کوباقی رکھاجائے تاکہ چوربھی عبادت الٰہی کواس کے حق کے ساتھ اداکرسکے اورفریضہ الٰہی کواداکرنے میں کوئی دشواری نہ ہو روایت میں آیاہے کہ معصتم نے حضرت امام محمدتقی سے سوال کیاچورکے ہاتھوں کوکہاں تک واجب ہے ؟امام (علیه السلام)نے جواب دیا:اس کی چاروں انگلیوں کوقطع کیاجائے اورہتھیلی کوباقی رہنے دیاجائے ،معتصم نے سوال کیا:آپ کے پاس اس کی کوئی دلیل موجودہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایاہے کہ سجدہ میں سات اعضائے بدن: پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلی،دونوں گھٹنے ،دونوں پیرکے انگوٹھوں کازمین پرٹیکناواجب ہے اگرچورکے ہاتھوں کوگٹے یاکہنی سے قطع کیاجائے تواس کے ہاتھ ہی باقی نہیں رہے گاجسے وہ سجدہ میں زمین ٹیک سکے اورخداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:

( وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّهِ فَلَاتَدْعُوْامَعَ الله احَدًا ) (۱)

بیشک مساجدسب الله کے لئے ہیں لہٰذااس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔ اس کے بعدامام (علیه السلام) نے فرمایا:اس قول خداوندی میں “مساجد”سے وہی سات اعضاء مرادہیں کہ جن کازمین پرٹیکناواجب ہے اور“( فَلَاتَدْعُوْامَعَ الله احَدًا ) ” سے مرادیہ ہے کہ اس کے ہاتھوں کوقطع نہ کیاجائے (بلکہ فقط اس کی انگلیوں قطع کیاجائے تاکہ وہ عبادت ) الٰہی کواس کے حق کے ساتھ اداکرسکے)(۲)

____________________

.۱)سورہ جٔن /آیت ١٨

. ٢)تفسیرالمیزان /ج ۵/ص ٣٣۵ )

۲۲۵

راز ذکرسجدہ

سجدہ میں بھی رکوع کے مانندذکرخداواجب ہے ،سجدہ کاکوئی ذکرمخصوص نہیں ہے بلکہ جوذکربھی کیاجائے کافی اورصحیح ہے ،چاہے “الحمدلله ”کہے یا“لااله الّاالله ” کہے یاتکبیر“الله اکبر ”کہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ذکرتین مرتبہ“سبحان الله ”اورایک مرتبہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ”کی مقدارسے کم نہ ہوالبتہ تسبیح کرنااحتیاط کے مطابق ہے یعنی بہترہے کہ تین مرتبہ “سبحان الله ”یاایک مرتبہ “سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده ” کہاجائے اور مستحب ہے کہ “سبحان ربی الاعلیٰ و بحمده ” کو اختیارکرے اورمستحب ہے کہ اس ذکرکوتین مرتبہ کہاجائے ذکرسجدہ اوراس کے اسرارکوذکررکوع کے ساتھ ذکرکرچکے ہیں لہٰذاتکرارکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اشیائے ماکول وملبوس پرسجدہ کیوں جائزنہیں ہے واجب ہے کہ نمازگزارزمین یاوہ چیزیں جوزمین سے اگتی ہیں اورانسان کی پوشاک یاخوراک کے کام میں نہیں آتی ہیں جیسے لکڑی اوردرختوں کے پتے پرسجدہ کرے لیکن وہ چیزیں جو انسان کی خوراک وپوشاک میں استعمال ہوتی ہیں ان پرسجدہ کرناجائزنہیں ہے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مجھے پانچ ایسی چیزعطاکی گئی ہیں جومجھ سے پہلے کسی کونہیں دی گئی :زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اورپاک کرنے والی قراردیاگیاہے،میرے چہرے پردشمن کے لئے رعب وحشت عطاکرکے میری مددکی گئی ہے،مال غنیمت کومیرے لئے حلال قراردیاگیاہے،جوامع الکلام مجھے دی گئی ہیں اورمجھے شفاعت بھی عطاکی گئی ہے۔(۱)

ہشام ابن حکم سے مروی ہے میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں عرض کیا:میں اپ پرقربان جاؤں مجھے ان چیزوں کے بارے میں مجھے مطلع کیجئے کہ کن چیزوں پرسجدہ کرناصحیح ہے اورکن پرصحیح نہیں ہے؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا: زمین پراوروہ چیزیں جوزمین سے اگتی ہیں سجدہ کرناجائز ہے لیکن زمین سے اگنے والی وہ چیزیں جوکھانے یاپہننے کے کام میں اتی ہیں ان پرسجدہ کرناجائزنہیں ہے،ہشام نے کہا:میری جان آپ پرقربان جائے اس کارازہے اورکیادلیل ہے؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا:کیونکہ سجدہ خداکے لئے ایک خضوع وتواضع کاحکم رکھتاہے لہٰذا کھانے اورپہننے کی چیزوں پرسجدہ کرناسزوارنہیں ہے کیونکہ دنیاکے لوگ کھانے ،پینے اورپہننے والی اشیاء کے معبودہیں گویاان کی پوچاکرتے ہیں لیکن سجدہ کرنے والاشخص خداکی عبادت کرتاہے لہٰذااسے چاہئے کہ دنیاکے فرزندوں کے معبودپرسجدہ کے لئے اپنی پیشانی کونہ رکھے جنھوں نے اس کادھوکاکھایاہے ،اس کے بعد امام (علیه السلام)نے فرمایا:زمین پرسجدہ کرناافضل ہے کیونکہ زمین پرسررکھنے سے انسان کے دل میں خداکے لئے اورزیادہ خضوع خشوع پیداہوجاتاہے ۔(۲)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۴١

۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٧٢

۲۲۶

رازطول سجدہ

سجدہ کوطول دینامستحب ہے ،سجدہ کوجت نازیادہ طولانی کیاجائے تواس کے لئے اتناہی زیادہ فضیلت کاباعث ہوتاہے اورشیطان کی ناراضگی اورمایوسی کاسبب واقع ہوتاہے لہٰذامستحب ہے کہ سجدہ کوطول دیاجائے تاکہ شیطان کی کمرٹوٹ جائے اوروہ نمازی کے پاس بھی نہ آسکے ۔ امام صادق فرماتے ہیں: جب کوئی بندہ سجدہ کرتا ہے اور اس کو طول دیتا ہے تو شیطان بہت ہی حسرت سے فریاد کرتے ہوئے کہتا ہے : وائے ہومجھ پر ! الله کے بندوں نے اس کے فرمان کی اطاعت کی اور میں نے اس کے حکم کی خلاف ورزی کی، انھوں نے خداکی بارگاہ میں سجدہ کیااور میں نے اس سے خودداری کی ۔ وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢ ۶

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اپنے سجدوں کوطولانی کروکیونکہ شیطان کے لئے اس سے زیادہ سخت اورپریشان کردینے والاعمل کوئی نہیں ہے کہ وہ اولادآدم(علیه السلام) کوسجدہ کی حالت میں دیکھے کیونکہ شیطان کوسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاتواس نے نافرمانی کی (اورہمیشہ کے لئے لعنت کاطوق اس کے گلےمیں پڑگیا)اورانسان کوسجدہ کرنے کاحکم ملاتواسنے خداکے اس امرکی اطاعت کی (اورکامیاب ہوگیا)۔(۱) روایت میں آیاہے کہ ایک جماعت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئی اورکہا:یارسول الله!آپ ہمارے لئے اپنے پروردگارسے جنت کی ضمانت کرائیں توآنحضرت نے فرمایا:تم اس کام میں طولانی سجدوں کے ذریعہ میری مددکرو(تاکہ میں تمھارے لئے جنت کی ضمانت کروں)۔(۲)

حضرت علیسے روایت ہے ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ایااورعرض کیا:یارسول الله!مجھے کسی ایسے کام کی تعلیم دیجئے کہ جس کے واسطہ سے خدامجھے اپنادوست بنالے اوراس کی مخلوق بھی مجھے دوست رکھے ،خدامیرے مال کوزیادہ کرے ،میرے جسم میں سلامتی دے ،میری عمرکوطولانی کرے اورمجھے آپ کے ساتھ محشورکرے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:یہ چھ صفتیں چھ عمل کی محتاج ہیں اگرتو یہ چاہتاہے کہ خداتجھے دوست رکھے تواپنے دل میں خوف پیداکراورتقوااختیارکر،اوراگرتو یہ چاہتاہے کہ بندے بھی تجھے دوست رکھیں توان کے حق میں نیکی کراوروہ چیزجومخلوق کے ہاتھوں میں ہے اس سے پرہیزکر،اوراگرتو یہ چاہتاہے کہ خداتیرے مال کوزیادہ کردے توزکات اداکر،اوراگرتواپنے جسم کی ت ندرستی وسلامتی چاہتاہے توزیادہ صدقہ دیاکر،اوراگرتواپنے طول عمرکی تمناکرتاہے توصلہ رحم کرتارہ ،اورتویہ چاہتاہے کہ خداتجھے میرے ساتھ محشورکرے توبارگاہ خداوندی میں جواکیلاہے اورقہاربھی ہے اپنے سجدہ کوطول دیاکر۔(۳)

____________________

۱). علل الشرایع/ج ٢/ص ٣۴٠

۲). مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ۴٧١

.۳) مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ۴٧٢

۲۲۷

فضل بن شاذان سے مروی ہے : ایک مرتبہ جب میں عراق پہنچا تودیکھا کہ ایک شخص اپنے ایک دوست کوملامت کررہا ہے اوراس سے کہہ رہاہے : اے بھائی ! توصاحب اہل وعیال ہے ،تجھے اپنے بچوں کی معیشت کے لئے کسب وکار کی ضرورت ہے اور مجھے خوف ہے کہ اگر تو ہمارے ساتھ تجارت کے لئے سفرنہیں کرے گاتوان سجدوں کی وجہ سے تیری آنکھوں کا نور ختم ہوجا ئے گااس نے جواب دیا : وائے ہو تجھ پر، تو !مجھے سجدہ کرنے کی وجہ سے ات نی زیادہ ملامت کررہاہے ،اگر ان سجدوں کی وجہ سے کسی کی آنکھوں کا نور چلاجاتاہے توپھرمحمدابن ابی عمیرکی آنکھوں کا نور ختم ہوجانا چاہئے تھا،مجھے بتاکہ تیرا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جس نے نماز صبح کے بعد سجدہ شٔکرمیں سررکھاہواورظہرکے وقت تک بلند کیا ہو

فضل بن شاذان کہتے ہیں :میں اس شخص کی یہ بات سن کر محمدابن ابی عمیرکی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ سرسجدے میں ہے، بہت دیرکے بعد سجدے سے سراٹھایا ،میں نے ان سے طول سجدہ کے بارے میں پوچھاتوانھوں نے سجدے کو طول دینے کی فضیلت بیان کرنا شروع کی اور کہا:

اے فضل ! اگر تم جمیل ا بن درّاج کو دیکھیں گے تو کیاکہیں گے ؟ فضل کہتے ہیں کہ میں جمیل ابن درّاج کے پاس پہنچاتو انھیں بھی سجدے کی حالت میں پایا، اورواقعاًانھوں نے سجدے کو بہت زیادہ طول دیا ، جب سجدے سے بلند ہوئے تو میں نے کہا : محمد ابن ابی عمیر صحیح کہتے ہیں کہ آپ سجدے کو بہت زیادہ طول دیتے ہیں ، جمیل نے کہا : اگر تم “معروف خربوز ”کو دیکھیں گے توکیاکہیں گے ؟

دوسری حدیث میں آیاہے کہ ایک شخص نے جمیل ابن درّاج سے کہا : تعجب ہے کہ آپ سجدے میں کت نازیادہ تو قّف کرتے ہیں اور بہت طولانی سجد ہ کرتے ہیں؟ جواب دیا :اگر تم نے حضرت امام جعفر صادق کو دیکھاہوتا تو تمھیں معلوم ہوجاتا کہ ہمارے یہ سجدے ان کے مقابلہ میں کچھ بھی طولانی نہیں ہیں۔(۱)

____________________

۱). ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٨٩ /ص ٩٢

۲۲۸

سجدہ گاہ کی رسم کاآغاز

کسی پتھریاخاک کوسخت کرکے سجدہ گاہ قراردیناقدیمی رسم ہے اوراسے مذہب تشیع کی اختراع وایجادقراردینابالکل غلط ہے کیونکہ جب دین اسلام میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ اورآپ کی اتباع کرنے والے نمازمیں زمین پرسجدہ کرتے تھے لیکن جب الله ورسول اوراس کی نازل کی گئی کتاب پرایمان لانے والوں کی میں اضافہ ہوتاگیااوردین اسلام رونق افروزہوتاگیااوررسول اسلام (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرے مدینہ پہنچے توآپ نے زمین کے ایک ٹکڑے کومحل عبادت ومسجدکے عنوان سے معین کیااورزمین پرعلامت لگادی گئی کہ یہ جگہ محل عبادت ہے اورتمام مسلمان اس جگہ نمازاداکریں گے ،اس وقت اس کی کوئی چہاردیواری نہیں تھی اوراس زمین پرچھت وغیرہ بنائی گئی تھی اورنہ کسی سایہ کاانتظام کیاگیاتھا،جب یہ دیکھاگیااس زمین محل عبادت میں کوئی نجس جانوربھی چلاآتاہے تواس کی چہاردیواری کردی گئی مگراس وقت اس زمیں پرکسی چھت یاسایہ کاانتظام نہیں گیااورت نہ ہونے کی وجہ سے دوپہرکی جلتی دھوپ میں نمازپڑھنابہت مشکل کام تھااسی سردی کی ٹھنڈک میں نمازپڑھنانہایت مشکل تھالہٰذاآنحضرت سے لوگوں نے کہا:اے الله کے پیارے نبی !اس تپتی زمین پرپیشانی رکھنابہت مشکل ہے اورہماری پیشانی جلی جاتی ہیں (کیاہم زمین کے علاوہ اپنے ساتھ میں موجودکسی کپڑے پر سجدہ کرسکتے ہیں؟) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان کی بات کونہ سنااور اسی طرح زمین پرسجدہ کرنے کاحکم دیااورتمام مسلمان زمین پرسجدہ رہے ۔ بیہقی نے اپنی کتاب “سنن کبری”میں خباب ابن ارث سے روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:ہم نے زمین سجدہ کرنے بارے میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے گرمی کی شدت کی شکایت کی اورکہا:یانبی الله!نمازکی حالت میں گرم پتھریوں پرسجدہ کرنے سے ہماری پیشانی اورہتھیلیاں منفعل ہوجاتی ہیں(پس ہم کیاکریں؟)رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)ان بات پرشکایت کوئی دھیان نہیں دیااورنہ ہی کسی نئی چیزکااظہارکیابلکہ اسی طرح سجدہ کرنے کاحکم دیااورہم زمین پرسجدہ کرتے رہے۔(۱)

____________________

.۱) سنن کبروی/ج ٢/ص ١٠۵

۲۲۹

اسی زمانہ میں ایک صحابی نے نمازجواعت شروع ہونے سے قبل زمین سے ایک پتھری اٹھائی اوراسے ٹھنڈاکرلیااورنمازمیں اسی پرسجدہ کیا،اس کایہ عمل رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کرپسندآیااور آنحضرت نے اس کی تائیدکردی اس روزکے بعدلوگوں نے یہ کام شروع کردیااورنمازشروع ہونے سے قبل پتھری اٹھانے لگے اوراسی پرسجدہ کرنے لگے اوربعث اسلام ہی سے کسی ایک چیزکوسجدہ گاہ قرادینا مشروعیت ہوگیا۔ بیہقی نے اپنی کتاب “سنن کبری”میں یہ رویات نقل کی ہے: ابوولیدسے مروی ہے کہ میں نے فرزندعمرسے سوال کیا:وہ کون شخص ہے جو مسجدمیں سب سے پہلے سنگریزہ لایا؟جواب دیا:مجھے اچھی طرح یادہے کہ بارش کی رات تھی اورمیں نمازصبح کے لئے گھرسے باہرآیاتودیکھاکہ ایک مردریگ پرٹہل رہاہے ،اس نے ایک مناسب پتھری اٹھائی اوراسے اپنے کپڑے میں رکھااوراس پرسجدہ کیاجب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اسے اس کام کوکرتے دیکھاتوبہت خرسندی اورخوشحالی کے ساتھ عرض کیا:یہ تونے کت نااچھاکام کیاہے ،پس یہ پہلاشخص ہے کہ جس نے اس چیزکی ابتداء کی ہے۔(۱)

اسی واقعہ سے یہ ثابت ہے کہ کسی چیزکو سجدہ گاہ کاعنوان قراردیناصحیح ہے یہی وہ شخص ہے کہ پہلی مرتبہ کسی چیزکوبعنوان سجدہ گاہ مسجدمیں اپنی جانمازپرقراردیاہے۔ جب مسجدمیں کسی چیزکوسجدہ گاہ کے طورپرلاناصحیح قرارپاگیاتواس کے اصحاب نے شدیدگرمی کی شکایت کی اورکہا:یانبی الله!ہم پیشانی اورہتھیلیوں کے جلنے سے محفوظ ہوگئے ہیں،ہرشخص ایک پتھری کوبطورسجدہ پہلے ہی اٹھالیتاہے اوراسے ٹھنڈی کرلیتاہے مگراس جسم کے جلنے کابھی کوئی علاج کیاجائے کیونکہ دھوپ میں کھڑے ہوکرنمازپڑھنابہت ہی مشکل کام ہے پس رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)ن حکم دیاکہ مسجدکے ایک حصہ میں چھت بنادی جائے تاکہ لوگ گرمی اور سردی سے محفوظ رہ سکیں ،فرمان رسول کے مطابق مسجدکے ایک حصہ میں چھت بنادی گئی اورمسلمان سایہ میں نمازپڑھنے لگے کچھ قرائن وشواہدسے معلوم ہوتاہے کہ خلفائے راشدین کے زمانہ تک مسجد میں کسی فرش اورچٹائی وغیرہ کاکوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا بلکہ لوگ زمین ہی پر سجدہ کرتے تھے ،خلیفہ دوم نے اپنے زمانہ حکومت میں حکم دیاکہ مسجدمیں پتھریاںڈادی جائیں تاکہ نمازی لوگ اس پرسجدہ کر تے رہیں،خلفائے راشدین کے بعدصحابہ اورتابعیں کے زمانہ میں بھی یہی معمول تھا اورلوگ پتھریوں پرسجدہ کرتے تھے یاکسی چھوٹے سے پتھرکویاتھوڑی سی خاک اٹھاکرجانمازپربطورسجدہ گاہ رکھ لیاکرتے تھے اوراس پرسجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ خاک کوپانی ذریعہ گیلی کرکے سخت کرلیاکرتے اوراسے سجدہ قراردئے کرتھے اوریہ روش آج تک شیعوں کے درمیان قائم ورائج ہے پس شیعوں کاکسی پتھرکویاخاک کوسخت کرکے سجدہ گاہ قراردیناکوئی نئی ایجادنہیں ہے بلکہ یہ روش توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانہ سے شروع ہے

____________________

. ١)سنن کبروی/ج ٢/ص ۴۴٠ (

۲۳۰

خلیفہ دوم کے مسجدمیں سنگریزے ڈلوانے اوراس پرسجدہ کر نے کے بارے میں ابن سعد اپنی کتاب “الطبقات”میں یہ رویات نقل کی ہے: عبدالله ابن ابراہیم سے مروی ہے :عمرابن خطاب وہ شخص ہیں کہ جنھوں نے سب سے پہلے مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں پتھریاںڈلوائیں لیکن ان کے اس کام کی وجہ یہ تھی کہ جب لوگ نمازڑھتے تھے اورسجدہ سے سربلندکرتے تھے تواپنے ہاتھوں کوجھاڑتے تھے جوکہ گردآلوہوجاتے تھے یاپھونک مارتے تھے تاکہ گردجھڑجائے لہٰذاحضرت عمرنے حکم دیاکہ وادی عقیق سے پتھریاں اٹھاکرمسجدمیں بچھادی جائیں ۔ المصنف /ج ٨/ص ٣ ۴۵ ۔کنزالعمال/ج ١٢ /ص ۵۶ ٣ ۔الطبقات الکبری/ج ٣/ص ٢٨ ۴ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے تابعین میں سے ایک شخص جن کانام مسروق بن اجدع تھاانھوں نے خاک مدینہ سے بعنوان سجدہ گاہ ایک چھوٹی سی خشت (یعنی اینٹ)بنارکھی تھی اوروہ جب بھی کہیں سفرکرتے تھے تواسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اوراس پرسجدہ کرتے تھےاس بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب “المصنف ”میں ابن سیرین سے اس طرح روایت نقل کی ہے:

ابن سیرین سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: میں باخبراورآگاہ ہواہوں کہ مسروق ابن اجدع نے خاک مدینہ سے ایک اینٹ کوبنارکھی تھی ،جب بھی وہ کشتی میں سفرکرتے تھے تواسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اوراسی پرسجدہ کرتے تھے ۔(۱)

ابن ابی عینیہ سے مروی کہ میں نے ابن عباس کے ایک غلام “رزین”کویہ کہتے سناہے :وہ کہتے ہیں کہ علی ابن عبدالله ابن عباس نے میرے پاس ایک خط لکھااوراس میں مجھ سے فرمائش کی کہ میرے لئے “مروہ ” سے ایک صاف ستھراپتھرروانہ کردوتاکہ میں اس پرسجدہ کروں۔(۲)

ان روایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کسی چیزکوسجدہ گاہ قراردیناشیعوں سے مخصوص کرناغلط ہے بلکہ یہ توآغازاسلام ہی سے دین اسلام میں مشروعیت رکھتاہے جیساکہ پہلے ایک روایت میں و ذکرکرچک ہیں کہ ایک شخص نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے زمانہ میں نمازشروع ہونے سے پہلے ایک چھوٹاساپتھراٹھایااوراسے ٹھنڈاکرلیااورپھراس پرنمازمیں سجدہ کیااورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کے اس کام کی صحیح ہونے کی تائیدبھی کی،کیااس شخص نے اس پتھرکوسجدہ گاہ قرارنہیں دیاتھا؟کیامسروق ابن اجدع خاک مدینہ سے سجدہ گاہ نہیں بنارکھی تھی ؟اورکیاعلی ابن عبدالله ابن عباس نے رزین کے پاس خط لکھ کرمروہ سے ایک پتھرکوبعنوان سجدہ گاہ طلب نہیں کیاتھا؟۔

____________________

۱). المصنف /ج ٢/ص ١٧٢

۲). تاریخ مدینہ دمشق/ج ۴٣ /ص ۵٠ ۔المصنف /ج ١/ص ٣٠٨

۲۳۱

خاک شفاپرسجدہ کرنے کاراز

ہم اوپریہ ثابت کرچکے ہیں کہ سجدعہ گاہ بناناکوئی ایجادواختراع نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے اوائل سے ہی سے رائج ہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی تائیدکی ہے لیکن اب ہمیں یہ ثابت کرناہے کہ بعض جگہ کی خاک بہت ہی زیادہ صاحب تکریم وتفضیل ہوتی ہے اورقابل احترام ہوتی ہے

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے چچاجناب حمزہ جنگ احدمیں شہیدہوئے اورکفارومشرکین ان کے لاشہ کے ساتھ یہ سلوک کیاکہ ابوسفیان کی بیوی (مادرمعاویہ )نے جگرچاک کیااوراسے اپنے ناپاک دانتوں سے چبایا

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے حضرت حمزہ کو“سیدالشہداء ” کالقب دیا اورعملی طورسے دین اسلام کی اتباع کرنے والوں کواس خاک کے متبرک ہونے کو سمجھانے کے لئے حضرت حمزہ کی قبرسے تھوڑی سی خاک اٹھائی اوراسے اپنے ساتھ لے گئے ،صدیقہ کٔبریٰ حضرت فاطمہ زہرا نے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ابتاع کی اورآپ نے بھی حضرت حمزہ کے حرم سے خاک اٹھائی اوراس سے ایک تسبیح تیارکی

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے نواسہ حضرت امام حسیناورجوانان بنی ہاشم کو ان کے اصحاب وانصارکے ساتھ سرزمین کرب وبلاپرنہایت ظلم وبے رحمی کے ساتھ شہیدکیاتوسیدالشہداء کالقب حضرت حمزہ سے حضرت امام حسین کی طرف منتقل ہوگیااورآپ کے حرم مطہرکی خاک خاک شفاقرارپائی ،امام زین العابدیننے عملی طورسے قرآن وعترت کی اتباع کرنے والوں کواس خاک کی عظمت وبرکت کوسمجھانے کے لئے امام حسین کے مرقدمطہرسے بعنوان تبرک کچھ خاک اٹھائی اوراس سے سجدہ گاہ بنائی اوراس کے بعدجب بھی نمازپڑھتے تھے تواسی تربت پاک پرسجدہ کرتے تھے اورآپ کے شیعہ بھی اسی خاک پاک پرسجدہ کرنے لگے

امام زین العابدین کے بعددیگرآئمہ اطہار نے بھی اسی سیرت پرعمل کیااوراسے جاری رکھااوریہی سیرت آج تک ان کی اتباع کرنے والوں درمیان رائج وقائم ہے تربت کربلاکی اہمیت اوراس پرسجدہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں چندروایت مندرجہ ذیل ذکرہیں:

۲۳۲

امام صادق فرماتے ہیں:رسول خدا (صلی الله علیه و آله)ام سلمہ کے گھر موجود تھے اوران سے کہہ رہے تھے :مجھے اس وقت یہاں پرت نہائی کی ضرورت ہے (پس تم کمرے سے باہرچلی جاؤ) اوردیکھو!کوئی میرے پاس آنے نہ پائے ،اتقاقاًامام حسین آگئے، لیکن چونکہ امام حسیناس وقت بہت ہی کمسن تھے لہٰذاام سلمہ انھیں کمسنی کی وجہ سے نہ روک سکیں،جسبہانہ سے سے بھی روکناچاہاکامیاب نہ ہوسکیں اورامام حسین رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس پہنچ گئے چند لحظہ بعدام سلمہ امام حسین کے پیچھے آئیں تودیکھاکہ حسین (علیه السلام) پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے سینہ مٔبارک پہ بیٹھے ہوئے ہیں اورآنحضرتاپنے ہاتھوں میں ایک چیزلئے ہوئے ہیں جسے گھماپھراکردیکھ رہے ہیں اورگریہ کررہے ہیں(میں نے پوچھا؟ یانبی الله! یہ آپ کے ہاتھ میں کیاہے ؟تو) آنحضرت نے فرمایا: اے ام سلمہ !ابھی میرے جبرئیل آئے تھے اورانھوں نے مجھے خبردی ہے کہ تمھارایہ بچہ (حسین (علیه السلام))قتل کردیاجائے گااوریہ چیزکہ جسے میں اپنے ہاتھوں میں گھماکردیکھ رہاہوں اسی سرزمین کی خاک ہے کہ جسپریہ میرانواسہ قتل کردیاجائے گا اے ام سلمہ! (جب میرایہ نواسہ قتل کیاجائے گااس وقت میں زندہ نہ ہوں گا مگر تم اس وقت زندہ ہونگی)پس میں اس خاک کو تمھارے سپردکرتاہوں تم اس خاک کو ایک شیشی میں رکھدواوراس کی حفاظت کرتے رہنا اوریادرکھناجب یہ خاک خون ہوجائے توسمجھ لیناکہ میرایہ عزیز شہیدکردیاگیاہے

ام سلمہ نے کہا:یارسول الله!خداسے کہوکہ وہ اس عظیم مصیبت کواس بچہ سے دورکردے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:میں نے خداوندعالم سے اس مصیبت کے دفع ہوجانے کوکہا توخدانے مجھ پروحی نازل کی:یہ شہادت اس بچہ کے لئے ایک بلندمقام ہے جواس بچہ سے پہلے کسی بھی مخلوق کوعطانہیں کیاگیاہے اورخداوندعالم نے مجھ سے وحی کے ذریعہ بتایاکہ اس بچہ کی پیروی کرنے والے لوگ قابل شفاعت قرارپائیں گے اورخودبھی دوسروں کی شفاعت کریں گے

بیشک مہدی صاحب الزمان (عج ) اسی حسین (علیه السلام)کے فرزندوں میں سے ہیں،خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جوان کودوست رکھتاہوگااوربیشک روزقیامت ان ہی کے شیعہ کامیاب وسربلندہونگے ۔(۱)

____________________

۱). امالی(شیخ صدوق)/ص ٢٠٣

۲۳۳

قال الصادق علیه السلام:السجودعلی طین قبرالحسین (عینورالیٰ الارضین السبعة ،ومن کانت معه سبحة من طین قبرالحسین (عکتب مسبح اوان لم یسبح بها ۔ امام صادق فرماتے ہیں:امام حسینکی خاک قبرپرسجدہ کرناساتوں زمینوں کومنور کردیتاہے اورجوشخص تربت امام حسینکی تسبیح اپنے ہمراہ رکھتاہوچاہے اس کے دانوں پرکوئی ذکربھی نہ پڑھے پھربھی تسبیح کرنے والوں میں شمارہوگا۔(۱)

عن معاویه بن عمارقال:کان لابی عبدالله علیه السلام خریطة دیباج صفراء فیهاتربة ابی عبدالله علیه السلام فکان اذاحضرته الصلاة صبّه علی سجادته وسجدعلیه ثمّ قال(ع:انّ السجودعلی تربة ابی عبدالله الحسین علیه السلام یخرق الحجب السبع ۔ معاویہ ابن عمارسے روایت ہے کہ:امام صادق کے پاس ایک پیلے رنگ کی تھیلی تھی جس میں امام (علیه السلام)خاک شفا رکھتے تھے ،جیسے ہی نمازکاوقت پہنچتاتھا تو اس تربت کوسجادہ پرڈالتے اوراس پرسجدہ کرتے تھے ،اگرکوئی آپ سے اس بارے میں سوال کرتاتھاتوفرماتے تھے :تربت امام حسین پرسجدہ کرناسات (آسمانی )پردوں کوپارہ کردیتاہے ۔(۲)

کان الصادق علیه السلام لایسجدالّاعلیٰ تربة الحسین علیه السلام تذللا لله واستکانة الیه ۔

روایت میں آیاہے کہ امام صادق تربت امام حسینکے علاووہ کسی دوسری پرخاک سجدہ نہیں کرتے تھے اوریہ کام(یعنی خاک کربلاپرسجدہ کرنا)خضوع وخشوع خداوندمتعال میں زیادتی کے لئے انجام دیاکرتے تھے۔(۳)

___________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢ ۶ ٨

.۲) بحارالانوار/ج ٩٨ /ص ١٣ ۵

۳). وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۶ ٠٨

۲۳۴

رازتشہد

تشہدمیں چارچیزواجب ہیں: ١۔بیٹھنا ٢۔طمانینہ ٣۔شہادتین ۴ ۔محمدوآل محمد پردرودبھیجنا۔

ہردورکعتی نمازمیں ایک مرتبہ اورتین یاچاررکعتی نمازمیں دومرتبہ تشہد پڑھنا واجب ہے ۔ ہرنمازی پرواجب ہے کہ تمام دورکعتی نمازکی دوسری رکعت کے دونوں سجدے بجالانے کے بعداوراسی طرح چاررکعتی نماز(ظہروعصروعشاء)کی دوسری وچوتھی رکعت کے بعداورتین رکعتی نماز(مغرب)کی دوسری وتیسری رکعت کے دونوں سجدے بجالانے کے بعد خضوع وخشوع کے ساتھ زمین پربیٹھے اورجب بدن ساکن ہوجائے توالله کی وحدانیت اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دے اورمحمدوآل محمدپرصلوات بھیج کران کی ولایت واطاعت کاثبوت دے اورتشہدمیں صرف اتناکہناکافی ہے:

اَشْهَدُاَنْ لَااِلٰهَ اِلّاالله وَحْدَه لَاشَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه وَرَسُولُه ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّدٍ ۔

امام صادق فرماتے ہیں:پہلی دورکعتوں(کے سجدہ کرنے کے بعدبیٹھ جائیں )اوراس طرح تشہدپڑھیں:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَشْهَدُاَنْ لَااِلٰهَ اِلّاالله وَحْدَه لَاشَرِیْکَ لَه وَاَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُه وَرَسُولُه ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَآلِ مُحَمَّد، وَتَقبَّلْ شَفَاعَتَه فِیْ اُمَّتِه وَارْفَعْ دَرَجَتَه ۔(۱)

حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سات آسمانی حجاب کو عبورکرتے ہوئے “قاب قوسین اوادنیٰ ”کے مقام تک پہنچے توپروردگارنے آپ کو نماز پڑھنے کاحکم دیاجب دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ سے سر بلندکیاتوخداندعالم نے کہا:اے محمد!بیٹھ جاؤ، پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرمان الٰہی کے مطابق بیٹھ گئے ،وحی نازل ہوئی :اے محمد!میں نے تم پرجونعمتیں نازل کی ہیں اس کے بدلہ میں میرانام اپنی زبان پرجاری کرواورالہام کیاگیاکہ یہ کہو:

بِسْمِ اللهِ وَبِاللهِ وَلَااِلٰهَ اِلّاالله وَالْاَسْمَاءِ الْحُسْنیٰ کُلّهَا ۔ اس کے بعدوحی الٰہی نازل ہوئی کہ اے محمد!اپنے آپ پراوراپنے اہلبیت پردرودبھیجو،توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے کہا:صَلّی اللهُ عَلَیَّ وَعَلیٰ اَهْلِ بَیْتِیْ ۔(۲)

____________________

۱) تہذیب الاحکام / ٢/ص ٩٢

۲). الکافی/ج ٣/ص ۴٨۶

۲۳۵

حقیقت یہ ہے کہ ہرنمازی تشہدکے ذریعہ الله کی وحدانیت اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کااقرارکرتاہے ،ان دونوں گواہی کوشہادتین کانام دیاجاتاہے اور توحیدونبوت کااقرارکرنااصول دین کی مہم اصل ہیں،انسان ان دونوں کلموں کوزبان پرجاری کرنے سے دین اسلام سے مشرف ہوجاتاہے ،یہ دونوں گواہی اسلام میں داخل ہونے اورکفروشرک جیسی باطنی پلیدگی اورجسمانی نجاست سے پاک ہونے کی کنجی ہیں ۔ نمازمیں شہادتین کوتجدیدبیعت کے عنوان سے واجب قراردیاگیاہے ،ہرنمازی روزانہ ٩مرتبہ اپنی واجب نمازوں میں ان دونوں کلموں کوزبان پرجاری کرکے الله اوراس کے رسول حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی تجدیدبیعت کرتاہے اورہرروزان کلموں کی تکرارکرناانسان کے ایمان وعقیدہ کومضبوط بناتاہے ،بے نمازی لوگوں کاایمان وعقیدہ ضعیف وکمزورہوتاہے اورشیطان اسپرغالب رہتاہے ۔

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں: اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ دوسری رکعت کے بعدتشہدپڑھناکیوں واجب قراردیاگیاہے ؟ اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ جس طرح رکوع وسجودسے پہلے اذان،دعااورقرائت کولایاگیاہے اسی طرح ان دونوں کے بعد تشہد، تحمید اور دعا کو قرار دیا گیا ہے۔(۱)

راز تورک

مردکے لئے مستحب ہے کہ سجدہ سے سربلندکرنے بعداس طرح بیٹھے کہ بدن کا زوربائیں ران پررہے اوردائیں ران تھوڑاسابائیں ران کے اوپرقرارپائے اوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھے اسی طرح دونوں سجدونوں کے درمیان بیٹھنامستحب ہے، اس حالت سے بیٹھنے کو تورّک کہاجاتاہے لیکن عورت کے لئے مستحب ہے کہ اپنی رانوں کوآپس میں ملائے رکھے ۔

دائیں جانب کوحق اوربائیں جانب کوباطل کہاجاتاہے لہٰذانمازمیں تشہدپڑھتے وقت دائیں ران کواٹھاکرتھوڑاسابائیں پراوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھناباطل کونابوداورمٹادینے کی طرف اشارہ ہوتاہے اسی لئے تورّک کوتشہدمیں مستحب قراردیاگیاہے اسی مطلب کے بارے میں امام معصوم(علیه السلام) سے “من لایحضرہ الفقیہ” ایک حدیث نقل کی گئی ہے:

روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام علی ابن ابی طالب سے پوچھا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق(حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)) کے چچازادبھائی!تشہدمیں دائیں ران کوبلندرکھنااوربائیں ران کونیچے رکھناکارازوفلسفہ کیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:یعنی

____________________

.۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٢

۲۳۶

اللّٰهمّ اَمِتِ البَاطل وَاَقِمِ الْحَق ۔

بارالٰہا!باطل کونابودکردے اورحق کوسربلندوقائم رکھ،(کیونکہ داہناعضو حق اور سچائی کامظہرہوتاہے اوربایاں باطل وجھوٹ کاکنایہ ہوتاہے ،اسی لئے تشہدمیں دائیں ران اورقدم کوبائیں ران اورقدم کے اوپررکھنے کومستحب قرار دیاگیاہے تاکہ کفروباطل دب کرمرجائے ،نابودہوجائے اورحق بلندہوجائے )

اس شخص نے دوبارہ سوال کیااورکہا:امام جماعت کاسلام میں “السلام علیکم ”کہنے کاکیامقصدہوتاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:انّ الامام یترجم عن الله عزوجل ویقول فی ترجمته لاهل الجماعة ا مٔان لکم من عذاب الله یوم القیامة ۔

بیشک امام جماعت خداوندمتعال کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے ترجمانی کرتاہے جواپنے ترجمہ میں اہل جماعت سے خداکی طرف کہتاہے مومنین سے کہتاہے :تمھیں روزقیامت کے عذاب الٰہی سے امان ونجات مل گئی ہے ۔(۱)

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ میں مولاامیرالمومنین علی ابن ابی طالب کی خدمت میں موجودتھا،آپ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھاجب وہ نمازسے فارغ ہواتومولانے اس سے پوچھا:اے مرد!کیاتم نمازکی تاویل وتعبیرسے آشنائی رکھتے ہو؟اس نے جواب دیا:میں عبادت کے علاوہ نمازکی کوئی تاویل وتعبیرنہیں جانتاہوں،میں فقط اتناجانتاہوں کہ نمازایک عبادت ہے ،امام (علیه السلام)نے اسسے فرمایا: قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی الله علیه و آله)کونبوت عطاکی، خداوند عالم نے جت نے بھی کام نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوبجالانے کاحکم دیاہے اس میں کوئی رازاورتعبیرضرورپائی جاتی ہے اوروہ سب کام بندگی واطاعت کی نشانی ہیں ،اس مردنے کہا:اے میرے مولا!آپ مجھے ان سے ضرورآگاہ کیجئے اوربتائے کہ وہ کیاچیزیں ہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:تشہدپڑھتے وقت بائیں ران پربیٹھنااوردائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھنااوردائیں ران کوتھوڑاسابلندکرکے بائیں ران رکھناتاکہ وہ تھوڑی سی دب جائے (اس طرزسے بیٹھنے کو تورّک کہاجاتاہے)کامطلب یہ ہے نمازی اپنے دل میں یہ ارادہ کرے:بارالٰہا!میں نے حق کواداکیااورباطل کودفنادیاہے ہے ،تشہدیعنی تجدیدایمان اوراسلام کی طرف بازگشت اورمرنے کے بعددوبارہ زندہ ہونے کااقرارکرنااورتشہدکے یہ بھی معنی ہیں:میں الله کوان سب باتوں سے بزرگ وبرترمانتاہوں جوکفارومشرکین اس کی توصیف کرتے ہیں۔(۲)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢٠

۲). بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

۲۳۷

رازصلوات

تشہدنمازمیں صلوات کے واجب قراردئے جانے کارازیہ ہے: نمازگزارکے لئے ضروری ہے کہ اپنے دل میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے علاوہ ان کی آل اطہارکی بھی محبت رکھتاہواوران کے دشمن سے بیزاری بھی کرتاہو،نمازگزارکے لئے ضروری ہے کہ وہ تابع امامت وولایت ہونے کاثبوت دے ،اورصاحب محبت ومودت محمدآل محمدہونے کاثبوت دے اسی لئے نمازمیںصلوات واجب قراردیاگیاہے کیونکہ صلوات کے ذریعہ ولایت کاثبوت دیاجاتاہے کہ جس کے بغیرنمازہرگزقبول نہیں ہوتی ہے ،بارگاہ خداوندی میں صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوتی ہے جوآ ل محمدکی محبت ومودت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں اوراپنے دلوں میں ال رسول کی محبت کاچراغ روشن رکھتے ہیں لیکن اگران کی محبت کاچراغ دل میں روشن نہیں ہے تووہ عبادت بے کارہے اورالله کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی ہے،نمازو عبادت اسی وقت فائدہ مندواقع ہوسکتی ہے جب نمازکواہلبیت کی محبت و معرفت اوران کی اطاعت وولایت کے زیرسایہ انجام دیاجائے ،اہلبیت کی محبت وولایت کے بغیرسب نمازیں بےکارہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیه آله وسلم : من صلی صلاة ولم یصل علیّ فیهاوعلیٰ اهل بیتی لم تقبل منه ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص نماز پڑھے اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے۔

نمازمیں صلوات کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ تاکہ اس کے ذریعہ اہلبیت اطہار کی ولایت ومحبت کااقرارکیاجاتاہے اورنمازمیں محمدوآل محمدعلیہم الصلاة والسلام پردرودبھیجنانمازکے صحیح وکامل اورمقبول ہونے کاثبوت ہے لہٰذااگرکوئی شخص صلوات کوترک کردے تواس کی نمازباطل ہے

عن ابی یصیروزرارة قالا: قال ابو عبدالله علیه السلام :من تمام الصوم اعطاء الزکاة (یعنی الفطرة کماان الصلاة علی النبی صلی الله علیه وآله من تمام الصلاة ومن صام ولم یو دٔهافلاصوم له ان ترکهامتعمداً ، ومن صلی ولم یصل علی النبی صلی الله علیه وآله وترک متعمدافلاصلاة له . ابوبصیراورزرارہ سے مروی ہے :امام صادق فرماتے ہیں:روزہ زکات فطرہ کے ذریعہ مکمل(اورقبول) ہوتاہے جس طرح نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرسلام کے مکمل اورقبول ہوتی ہے ، پس اگرکوئی شخص روزہ رکھے اورعمداًزکات فطرہ دیناترک کردے تواس کاروزہ قبول نہیں ہوتاہے اورجوشخص نمازپڑھے اورعمداًمحمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودنہ بھیجے تواس نمازقبول ہوتی ہے۔

____________________

۱). الغدیر(علامہ امینی)/ج ٢/ص ٣٠۴

۲۳۸

رازسلام

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نمازکومومن کی معراج قراردیاہے اور جو شخص بارگاہ ملکوتی کی طرف پروازکرتاہے تومعنوی طورسے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتاہے لہٰذاجیسے ہی مومن سفرالٰہی اورمعراج سے واپس آتاہے تواسے چاہئے کہ سب پہلے الله کی محبوب ترین وعظیم الشان مخلوق حضرت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرسلام بھیجے اس کے بعدتمام انبیاء وصلحاء کوسلام کرے اسکے بعدتمام مومنین کوسلام کرے ۔ نمازی سلام کے ذریعہ نمازسے فارغ ہوجاتاہے اوروہ چیزیں جوتکبیرة الاحرام کہنے کے ساتھ حرام ہوجاتی ہیں مثلاکسی چیزکاکھانا ،سونا،قبلہ سے منحرف ہوناوغیرہ یہ سب سلام کے ذریعہ حلال ہوجاتی ہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:مفتاح الصلاة الطهور وَتحریمِهاالتکبیر وتحلیلهاالسّلام ولایقبل الله صلاةً بغیرالطهور.

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:طہارت نمازکی کنجی ہے اورتکبیر“الله اکبر”اس کی تحریم ہے اورسلام نمازاس کی تحلیل ہے(یعنی جوچیزیں نمازکے منافی ہیں وہ تکبیرکے ذریعہ حرام ہوجاتی ہیں اورسلام کے بعدحلال ہوجاتی ہیں)اورخداوندعالم بے طہارت لوگوں کی نمازقبول نہیں کرتاہے.(۱)

رازسلام کے بارے میں حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) معراج پرتشریف لے گئے اورآپ کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ نے نمازپڑھناشروع کی اورتشہدوصلوات کوانجام دینے کے بعدملائکہ وانبیائے کرام کونمازمیں حاضردیکھا،حکم پروردگارہوا :اے محمد!ان سب کوسلام کرو،پس آنحضرت نے کہا: ”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

پروردگاکی طرف سے وحی نازل ہوئی:

ان السلام والتحیة والرحمة والبرکات انت وانت وذریتک تم پراورتمھاری آل پرخداوندعالم کی رحمت ،برکت اورسلامت نازل ہو،اس کے بعدوحی نازل ہوئی :اے پیغمبر!اب اپنے دائیں جانب متوجہ ہوجاؤ۔(۲)

____________________

.۱) بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٢١۴

۲). کافی/ج ٣/ص ۴٨۶

۲۳۹

فضل بن شاذان سے مروی ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں :نمازمیں تکبیریاتسبیح یا کسی اوردوسری چیزکوتحلیل نمازنہیں قراردیاگیاہے بلکہ سلام کوتحلیل نماز قراردیا گیاہے اورسلام کوتحلیل نمازقراردئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ (تکبیرة الاحرام کے ذریعہ) نمازمیں داخل ہوتے ہی بندوں سے کلام وباتیں کرناحرام ہوجاتاہے اورپوری توجہ خالق کی معطوف ہوجاتی ہے ،جب انسان نمازتمام کرے اورحالت نمازسے فارغ ہونے لگے تومخلوق سے کلام کرناحلال ہوجاتاہے اورمخلوق سے باتوں کی ابتداء سلام کے ذریعہ ہونی چاہئے اسی لئے سلام کوتحلیل نمازقراردیاگیاہے۔(۱)

محمدابن سنان نے مفضل ابن عمرسے ایک طولانی روایت نقل کی ہے ،مفضل کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے پوچھا:نمازمیں سلام کے واجب قراردئے جانے کی کیاوجہ ہے ؟

امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ سلام تحلیل نمازہے میں نے عرض کیا:اس کی کیاوجہ ہے کہ نماز گزار کو سلام پڑھتے وقت اپنی دائیں جانب نگاہ کرناچاہئے اوربائیں جانب سلام نہیں دیناچاہئے ؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا : کیونکہ وہ مو کٔل فرشتہ جو انسان کی نیکیوں کو لکھتا ہے وہ دا ئیں جانب رہتا ہے اور وہ فرشتہ جوبرائیوں کو درج کرتاہے وہ بائیں جانب رہتا ہے اور(صحیح ومکمل )نمازمیں نیکیاں ہی نیکیاں پائی جاتی ہیں اوربرائی کاکوئی وجودہی نہیں ہوتاہے اس لئے مستحب ہے کہ نماز گزار سلام پڑھتے وقت اپنی دائیں جانب نگاہ کرے نہ بائیں جانب میں نے پوچھا:جب دائیں جانب ایک فرشتہ مو کٔل ہے توسلام میں واحدکاصیغہ استعمال کیوں نہیں کرتے ہیں یعنی “السلام علیک ”(سلام ہوتجھ پر)کیوں نہیں کہتے ہیں بلکہ جمع کی لفظ استعمال کرتے ہیں اس کی کیاوجہ ہے کہ سلام “ السلام علیکم ” کہتے ہیں؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا: “السلام علیکم”اس لئے کہاجاتاہے تاکہ دائیں وبائیں جانب کے دونوںفرشتوں کوسلام کیاجاسکے لیکن دائیں جانب کے فرشتہ کی فضیلت دائیں طرف اشارہ کرنے سے ثابت ہوجاتی ہے ورنہ حقیقت میں دونوںفرشتوں کوسلام کیاجاتاہے ،میں نے کہا:ماموم کوتین سلام کیوں کہنے چاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا: پہلاسلام امام جماعت کے سلام کا جواب اورامام جماعت کواورامام جماعت کے دونوںفرشتوں کو سلام کرنامقصودہوتاہے

دوسراسلام ان مومنین کے لئے ہوتاہے جواس کے دائیں جانب ہوتے ہیں اوران فرشتوں کوسلام کیاجاتاہے جو مومنین اورخود پرمو کٔل ہیں

____________________

۱). عیون اخبارالرضا(علیه السلام)/ج ١/ص ١١۵

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370