نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار15%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167226 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

تیسراسلام ان مومنین کے لئے ہوتاہے جواس کے بائیں جانب ہوتے ہیں اور ان فرشتوں کوسلام کیاجاتاہے جو مومنین اورخود پرمو کٔل ہیں اوروہ شخص کہ جس کے بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہوتوبائیں جانب سلام نہ کرے ،ہاں اگر اس کے دائیں جانب دیوارہواورکوئی نمازی دائیں طرف نہ ہواوربائیں طرف کوئی نمازی موجودہوجواس کے ہمراہ امام جماعت کے پیچھے نمازپڑھ رہاتھاتواس صورت میں بائیں طرف سلام کرے

مفضل کہتے ہیں :میں نے امام(علیه السلام) سے معلوم کیا:امام جماعت کس لئے سلام کرتاہے اورکس چیزکاقصدکرتاہے؟امام(علیه السلام) نے جواب دیا:دونوںفرشتوں اورمامومین کوسلام کرتاہے ،وہ اپنے دل میں ان دونوں فرشتوں سے کہتاہے :نمازکی صحت وسلامتی کولکھواوراسے ان چیزوں سے محفوظ رکھو جونمازکوباطل کردیتی ہیں اورمامومین سے کہتاہے تم لوگ اپنے آپ کو عذاب الٰہی سے محفوظ وسالم رکھو

فضل کہتے ہیں: میں نے امام(علیه السلام) سے کہا:سلام ہی کوکیوں تحلیل نمازکیوں قرادیاگیاہے؟(تکبیر،تسبیح یاکسی دوسری چیزکوکیوں نہیں قراردیاگیاہے؟)امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس کے ذریعہ (دونوں کاندھوں پرمو کٔل)دونوںفرشتوں کاسلام کیاجاتاہے اورنمازکااس کے پورے آداب شرائط کے ساتھ بجالانااور رکوع وسجودوسلام نمازبندہ کانارجہنم سے رہائی کاپروانہ ہے ،روزقیامت جس کی نمازقبول ہوگئی اس کے دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے ،اگرنمازصحیح وسالم ہے تودوسرے اعمال بھی صحیح واقع ہونگے اورجس کی نمازردکردی گئی اس کے دوسرے اعمال صالح بھی ردکردئے جائیں گے ۔(۱)

”معانی الاخبار”میں عبدالله ابن فضل ہاشمی سے مروی ہے میں نے امام صادق سے سلام نمازکے معنی ومقصودکوپوچھاتوامام(علیه السلام) نے فرمایا:سلام امن وسلامتی کی علامت ہے اورتحلیل نمازہے کہ جس کے ذریعہ نمازسے فارغ ہواجاتاہے ،میں نے کہا:اے میرے امام !میری جان آپ پرقربان ہومجھے آگاہ کیجئے کہ نمازمیں سلام کوواجب قراردئے جانے کی وجہ کیاہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:

____________________

.۱) علل الشرایع/ص ١٠٠۵

۲۴۱

گذشتہ زمانہ میں لوگوں کی یہ روش تھی کہ اگرآنے والاشخص لوگوں کوسلام کردیاکرتاتھاتواس کامطلب یہ ہوتاتھاکہ لوگ اسکے شرسے امان میں ہیں اوراگرآنے والے کواپنے سلام کاجواب مل جاتاتھاتواس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ وہ بھی ان لوگوں کے شرسے امان میں ہے ،لیکن اگرآنے والاشخص سلام نہیں کرتاتھا تواس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ لوگ اس کے شرسے محفوظ نہیں ہیں اوراگرآنے سلام کرتاتھامگردوسری طرف سے کوئی جواب سلام نہیں دیاجاتھاتویہ اس چیزکی پہچان تھی کہ آنے والاشخص کی خیرنہیں ہے اوروہ ان کے شرسے ا مان میں نہیں ہے اوریہ اخلاق عربوں کے درمیان رائج تھا،پس سلام نمازسے فارغ ہونے کی علامت ہے اورسلام مومنین سے کلام کرنے کے جائزہونے کی پہچان ہے ،اب بندوں سے باتیں کرناجائزہے، “سلام ”الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے کہ جسے نمازگزارخداوندعالم کی طرف معین کئے گئے دوفرشتوں سے مخاطب ہوکرانجام دیتاہے۔(۱)

فضل بن شاذان سے روایت ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:نمازمیں سلام کوتحلیل نمازاس لئے قراردیاگیاہے اوراس کے بدلہ میں تکبیر،تسبیح یااورکسی دوسری چیزکوتحلیل نماز قرارنہیں دیاگیاہے کیونکہ جب بندہ تکبیرکے ذریعہ نمازمیں داخل ہوجاتاہے تو اس کابندوں سے ہمکلام ہوناحرام ہوجاتاہے اورفقط خداکی جانب متوجہ رہناہوتاہے لاجرم نمازسے خارج ہونے میں مخلوق سے کلام حلال ہوجاتاہے اورپوری مخلوق کواپنے کلام کی ابتد اسلام کے ذریعہ کرنی چاہئے لہٰذانمازگذارجب نمازسے خارغ ہوتاہے پہلے مخلوق سے ہمکلام ہونے کوحلال کرے یعنی پہلے سلام کرے اوراس کے بعدکوئی کلام کرے اسی نمازکے آخرمیں سلام کوقراردیاگیاہے۔(۱)

روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے امام علی ابن ابی طالب +سے پوچھا:اے خداکی محبوب ترین مخلوق (حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله))کے چچازادبھائی!امام جماعت کاسلام میں “السلام علیکم ”کہنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟ تو امام (علیه السلام) نے فرمایا:

انّ الامام یترجم عن الله عزوجل ویقول فی ترجمته لاهل الجماعة ا مٔان لکم من عذاب الله یوم القیامة ۔

کیونکہ امام جماعت خداوندمتعال کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے ترجمانی کرتاہے جواپنے ترجمہ میں اہل جماعت سے کہتاہے :تمھیں روزقیامت کے الٰہی عذاب سے امان ونجات مل گئی ہے ۔(۳)

____________________

.۱) معانی الاخبار/ص ١٧۶

۲). علل الشرائع /ج ١/ص ٢۶٢ ۔عیون اخبارالرضا/ج ١/ص ١١۵

۳). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢٠

۲۴۲

مفضل ابن عمروسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا:کیاوجہ ہے کہ سلام نمازکے بعدتین مرتبہ ہاتھوں کوبلندکیاجائے اورتین مرتبہ“الله اکبر” کہاجائے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:جس وقت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مکہ فتح کیاتواپنے اصحاب کے ساتھ حجراسودکے قریب نمازظہراداکی اورسلام پڑھاتواپنے ہاتھوں کواوپرلے گئے اورتین مرتبہ تکبیرکہی اسکے بعدیہ دعاپڑھی:

لَااِلٰهَ اِلّااللهُ وَحْدَه وَحْدَه ، اَنْجَزَوَعْدَه ، وَنَصَرَعَبْدَه ، وَاَعَزَّجُنْدَه ، وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَه ، فَلَهُ الْمُلْکُ ، وَلَهُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَی قَٔدِیْرٌ.

اس کے بعداپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے ارشادفرمایا:اس تکبیراوردعاکوکسی بھی واجب نمازکے بعدترک نہ کرناکیونکہ جوشخص سلام کے بعداس دعاکوپڑھے گویااس نے اس شکرکوجواسلام وسپاہیان اسلام کاشکراس کے اوپرواجب تھااداکردیاہے۔(۱)

____________________

۱). علل الشرائع /ج ٢/ص ٣۶٠

۲۴۳

رازقنوت

لغت میں خضوع وخشوع اوراطاعت وفرمانبرداری کوقنوت کہتے ہیں اوردعا ونمازاورعبادت کوبھی قنوت کہتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم حضرت مریم کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے : ی( ٰامَرْ یَمُ اُقْت نیْ لِرَبِّکِ ) (١) (اے مریم ! تم اپنے پروردگار کی اطاعت کرو

محمدابن مسعودکی “تفسیرعیاشی ”میں امام صادق سے نقل کیاگیاہے کہ :اس قول خداوندی( قوموالله قانتین ) (۲) میں“ قانتین ” سے “مطیعین”مرادہے یعنی نمازکوخضوع وخشوع اوراطاعت خداوندی کے ساتھ بجالاو ۔ٔ

فقہا کی اصطلاح میں نمازمیں ایک مخصوص موقع پرایک خاص طریقہ سے دعاکرنے کوقنوت کہاجاتاہے اوردعاکے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھوں کوچہرے کے مقابل دونوں ہاتھوں کوآپس میں ملاکرہتھیلیوں کے رخ کوآسمان کی جانب قراردیاجائے اورہتھیلیوں پرنگاہ کھی جائے

قنوت میں کسی مخصوص ذکرکاپڑھناشرط نہیں ہے بلکہ جائزہے نمازی جس دعاوذکراورمناجات کوبھی چاہے پڑھے لیکن مستحب ہے کہ قنوت میں معصومسے منقول یہ دعاپڑھی جائے:

امام صادق فرماتے ہیں:قنوت میں یہ دعاپڑھناکافی ہے:اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا،وَارْحَمْنَا،وَعَافِنَا،وَاعْفُ عَنَّافِی الدُّنْیَاوَالآخِرَةِ ،اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیْر ۔(۳)

اورامام صادق فرماتے ہیں: نمازجمعہ کی پہلی رکعت میں قرائت کے بعد کلمات فرج کوذکرکیاجائے اوروہ یہ ہیں:

لااله الّاالله الحلیم الکریم ،لااله الّاالله العلی العظیم ، سبحان الله ربّ السموات السبع وربّ الارضین سبع ،ومافیهنّ ،ومابینهنّ، وربّ العرش العظیم، والحمدللهربّ العالمین ،اللّٰهم صلّ علی محمدوآله کماهدیت نابه ۔(۴)

____________________

.۱)آل عمران /آیت ۴٢

.۲)بقرہ /آیت ٢٣٨ تفسیرعیاشی /ج ١ج/ص ١٢٧

۳). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٨٧

۴). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ١٨

۲۴۴

رازنمازقصر

سفراورخوف کی حالت میں آٹھ شرائط کے ساتھ چاررکعتی نمازکودورکعت پڑھناواجب ہے لیکن نمازصبح اورمغرب کوپوری پڑھناواجب ہے اوراس بارے میں علمائے کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہمسافر کو قصرو اتمام کے درمیان کوئی اختیارنہیں ہے بلکہ قصرپڑھناواجب ہے۔

قال رسول صلی الله علیه وآله :ان الله عزوجل تصدق علی مرضی امتی ومسافریهابالتقصیروالافطار، وهل یسراحدکم اذاتصدق بصدقة ان تردعلیه. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:بیشک خدائے عزوجل نے میری امت کے مریضوں اورمسافروں پرنمازکے قصرہونے اورروزے کانہ رکھنے کاتصدق عطاکیاہے ،اگرتم کسی کے ساتھ کوئی اچھائی کرواوروہ تمھارے اس تصدق کوواپس کردے توکیاتمھیں اس سے کوئی خوشی ملے گی ؟۔(۱)

زرارہ اورمحمدابن مسلم سے روایت ہے: ہم دونوں نے امام محمدباقر سے عرض کیا:سفرکی حالت میں نمازپڑھنے کے بارے میں کیاحکم ہے ،اورکس طرح سے نمازپڑھنی چاہئے اورکت نی رکعت پڑھنی چاہئے ؟ اما م(علیه السلام) نے فرمایا:کیاتم نے اس آیہ مبارکہ کونہیں پڑھاہے جسمیں خداوندعالم ارشادفرمایاتاہے:

( وَاِذَاضَرَبْتُمْ فِی الاَرْضِ فَلَیْسَعَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْامِنَ الصَّلاةِ ) ترجمہ:اورجب تم زمین میں سفرکروتوتمھارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنی نمازیں قصرکرو۔(۲)

یہ آیہ مبارکہ اس چیزپردلالت کرتی ہے کہ سفرمیں نمازکوقصرپڑھناواجب ہے جس طرح حضرمیں نمازکوپوری پڑھناواجب ہے ،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام (علیه السلام) نے سے عرض کیا:خداوندعالم نے آیہ مبارکہ میں( لیس علیکم جناح ) فرمایاہے کہ جس سے وجوب کے معنی نہیں سمجھے جاتے ہیں اوراس نے “افعلوا” نہیں کہاہے کہ جس سے وجوب کے معنی سمجھ میں ائیں پس اس آیہ مبارکہ سے کس طرح ثابت کیاجاسکتاہے کہ سفرمیں نمازکوقصرپڑھناواجب ہے جس طرح حضرمیں پوری واجب ہے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: کیاخداوندعالم نے صفااورمروہ کے بارے میں ارشادنہیں فرمایاہے:

____________________

۱). کافی/ج ۴/ص ١٢٧

۲). سورہ نساء /آیت ١٠١

۲۴۵

( فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَفَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ یَطُوْفَ بِهِمَا ) جوشخص بھی حج یاعمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کادونوں پہاڑیوں کاچکرلگائے ۔(۱)

اورکیاتم نہیں جانتے ہوکہ ان دونوں کاچکرلگاناواجب ہے کیونکہ خدائے عزوجل نے اس کا اپنی کتاب میں ذکرکیاہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اسے انجام دیاہے پس اسی طرح سفرمیں نمازکوقصرپڑھنا واجب ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے سفرمیں نمازکوقصرپڑھا ہے اورخداوندعالم نے قصرکواپنی کتاب میں ذکرکیاہے،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے امام باقر سے عرض کیا: اگرکوئی شخص سفرمیں نمازکوچاررکعتی پڑھے،اسے اپنی نمازکااعادہ کرناچاہئے یانہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

اگراس کے سامنے آیہ تٔقصیرکوپڑھاگیاہے اوراسے تقصیرکے بارے میں بتایاگیاہے تواعادہ کرناواجب ہے لیکن اگرآیت کی قرائت نہیں کی گئی ہے اوراسے تقصیرسے آگاہ نہیں کیاگیاہے اوراسے تقصیرکے بارے میں تعلیم نہیں دی گئی ہے تواس کااعادہ نہیں ہے ،اس کے بعدامام (علیه السلام)نے فرمایا:

الصلوات کلهافی السفررکعتان کل صلاة الّاالمغرب فانهاثلاث لیس فیها تقصیرترکهارسول الله صلی الله علیه وآله فی السفروالحضرثلاث رکعات . نمازمغرب کے علاوہ روزانہ کی تمام نمازوں میں سے ہرنمازکوسفرمیں دورکعت پڑھناواجب ہے، نمازمغرب میں کوئی تقصیرنہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سفراورحضرمیں نمازمغرب کواسی طرح پڑھتے تھے ۔(۲)

عیون اخبارالرضا میں فضل بن شاذان سے مروی ہے: اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ : سفرمیں نمازکے قصرپڑھنے کاحکم کیوں جاری ہواہے؟تواسے اس طرح جواب دو:کیونکہ نمازاصل میں دس رکعت واجب تھی اورسات رکعت کابعدمیں(پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی فرمائش سے ) اضافہ کیاگیاہے اس کے بعدخداوندعالم نے مسافرکے لئے ان زحمت ومشقت کی وجہ سے جواسے سفرمیں اٹھانی پڑتی ہیں اورچونکہ نمازالله کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے اسی لئے اس نے نمازمغرب کے علاوہ تمام اضافی کی گئی رکعتوں کوختم کردیاہے اورنمازمغرب سے اس لئے کوئی رکعت کم نہیں کی ہے کیونکہ نمازمغرب اصل میں مقصورہ ہے ۔(۳)

____________________

. ۱)سورہ بقرہ/آیت/ ١۵٨

۲). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴٣۴

۳). عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١٠۶

۲۴۶

محمدابن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق کی محضرمبارک میں ان سے معلوم کیاکہ: سفراورحضرمیں نمازمغرب کوتین رکعت کیوں پڑھاجاتاہے اوربقیہ نمازوں کودورکعت ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)پرنمازدودورکعتی واجب کیاگیاتھااوراورآنحضرت نے تمام نمازوں میں دودورکعت کاضمیمہ کیااورپھرنمازمغرب سے ایک رکعت کوکم کردیااورسفرمیں ہرنماز میں سے دورکعت کوکم کردیالیکن نمازمغرب کوسفرمیں اسی تین رکعت کی حالت پررکھاکیونکہ اورفرمایا:نمازمغرب سے کسی رکعت کوکم کرتے ہوئے مجھے حیاآتی ہے اسی لئے نمازمغرب کوسفروحضرمیں تین رکعت ہی پڑھی جائے ۔(۱)

نمازصبح کوسفروحضرمیں اسی دورکعتی حالت پررکھاگیاہے اس بارے میں سعدنے مسیب سے منقول امام علی بن الحسین کی ایک روایت“پنچگانہ نمازوں”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں لہٰذاتکرارکی ضرورت نہیں ہے ۔

عیون اخبارالضا میںفضل بن شاذان سے مروی ہے: اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ آٹھ فرسخ کے سفرمیں ہی نمازکوکیوں قصرقراردیاگیاہے اس سے کم میں کیوں نہیں؟تواس کاجواب یہ ہے:کیو نکہ عموماً قافلہ اورحیوان بردارلوگ اوردیگرمسافروں کے لئے آٹھ فرسخ ایک دن کی سیرہے اسی لئے ایک دن کی سیرکے حساب سے نمازکوقصرقراردیاگیاہے

اوراگرکوئی یہ کہے کہ ایک دن کی سیرکی مقدارمیں نمازکوقصرکیوں رکھاگیاہے ؟اس کاجوب یہ ہے کہ اگرایک دن کی سیرمیں نمازکے قصرہونے کوواجب قرارنہ دیاجاتاتو ہزارسال کی سیرمیں بھی قصرکوواجب قرارنہ دیاجاتاکیونکہ ہروہ دن جوآج کے بعدآتاہے وہ بھی آج ہی کے مانند ہوتاہے یعنی دن سب برابرہیں اج ہویاکل،آج اورکل کے دن میں کوئی فرق نہیں ہے ،اگرایک دن کی سیرمیں نمازکوقصرنہ رکھاجاتاتواس کے نظیرمیں بھی قصرنہ رکھاجاتا اگرکوئی یہ کہے کہ سیرمیںفرق ہوتاہے اونٹ ایک دن میں اٹھ فرسخ راستہ طے کرتاہے مگرگھوڑامثلاًبیس فرسخ راستہ طے کرتاہے (اورآج کے زمانہ میں انسان ایک دن جہازکے ذریعہ نہ معلوم کت نی دورپہنچ جاتاہے)پس یہ ایک دن کی مسافت کوآٹھ فرسخ کیوں قراردیاگیاہے ؟اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ اونٹ اورقافلے والوں کی سیرغالب آٹھ فرسخ ہوتی ہے اوراونٹ اورقافلے والے لوگ غالباًاس مقدارمسافت کوایک دن میںطے کرتے ہیں۔(۲)

____________________

. ۱)بحارالانوار/ج ٨۶ /ص ۵۶

۲). عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١٠۶

۲۴۷

حیض کی حالت میں ترک شدہ نمازوں کاحکم

دین اسلام میں کسی بھی شخص کے لئے نمازکومعاف نہیں کیاگیاہے بلکہ ہرحال میں نمازواجب ہے اوروہ نمازیں جوعمداًیاسہوایاکسی مجبوری کی بناء پرترک وجاتی ہیں ان کی قضابجالاناواجب ہے البتہ عورتوں کی وہ نمازیں جوہرماہ کی عادت کے دنوں میں یانفاس کی حالت میں ترک ہوجاتی ہیں ان کے لئے دین اسلام میں رخصت دی گئی ہے اور ان کی قضابجالاناواجب نہیں ہے لیکن روزوں کی قضابجالاناواجب ہے ۔

عن ابی جعفروابی عبدالله علیهماالسلام قالا:الحائض تقضی الصیام ولاتقضی الصلاة .

امام باقراورامام صادق فرماتے ہیں:حائضہ عورت اپنے روزوں کی قضاکرے اورنمازکی قضانہیں کرے گی۔(۱)

حالت حیض میں ترک شدہ نمازوں کی قضاکیوں واجب نہیں ہے ؟ حیض ونفاس کی حالت میں ترک شدہ نمازکی قضاہے مگرروزہ کی نہیں ہے دین اسلام میں کسی بھی شخص کے لئے نمازکومعاف نہیں کیاگیاہے بلکہ ہرحال میں نمازواجب ہے اوروہ نمازیں جوعمداًیاسہوایاکسی مجبوری کی بناء پرترک ہوجاتی ہیں ان کی قضابجالاناواجب ہے البتہ عورتوں کی وہ نمازیں جوہرماہ کی عادت کے دنوں میں یانفاس کی حالت میں ترک ہوجاتی ہیں ان کے لئے دین اسلام میں رخصت دی گئی ہے اور ان کی قضابجالاناواجب نہیں ہے لیکن روزوں کی قضابجالاناواجب ہے ۔عن ابی جعفروابی عبدالله علیهماالسلام قالا:الحائض تقضی الصیام ولاتقضی الصلاة.

امام باقراورامام صادق +فرماتے ہیں:حائضہ عورت اپنے روزوں کی قضاکرے اورنمازکی قضانہیں کرے گی۔(۲)

اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ نمازروزہ سے افضل ہے ،جب حائضہ پرروزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی قضابدرجہ اولیٰ واجب ہے کیونکہ نمازروزہ سے افضل ہے ؟ اس کاجواب یہ کہ ایک چیزکوکسی دوسری چیزپرقیاس نہیں کیاجاسکتاہے لہٰذانمازکاروزہ پرقیاس کرناباطل ہے،یہی قیاس ابوحنیفہ نے کیاتھااورکہاتھا کہ جب نمازروزہ سے افضل ہے اورروزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی قضابطریق اولیٰ واجب ہے روایت میں آیاہے کہ امام صادق نے ابوحنیفہ سے پوچھا:یہ بتاؤ نمازافضل ہے یاروزہ ؟ کیانمازافضل ہے (جب حائضہ روزہ کی قضاواجب ہے تونمازکی بطریق قضاواجب ہے )آپ نے امام(علیه السلام) نے فرمایا:تم نے قیاس کیاہے پس تقوائے الٰہی اختیارکرواورقیاس نہ کرو بلکہ حکم شرعی یہ ہے حائضہ پرروزہ کی قضاواجب ہے اورنمازکی قضانہیں ہے ۔(۳)

____________________

.۱) تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١۶٠

۲). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١۶٠

۳) علل الشرائع/ج ١/ص ٨٧

۲۴۸

حیض ونفاس کی حالت میں عورت کے لئے نہ روزہ رکھناصحیح ہے اورنہ نمازپڑھنا۔ فضل بن شاذان مروی ہے امام علی فرماتے ہیں:اگرکوئی سوال کرے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہوتواس کے لئے روزہ رکھنااورنمازپڑھناکیوںصحیح نہیں ہے؟اس کاجواب یہ ہے :کیونکہ کیونکہ حیض حدّنجاست میں ہے ،لاجرم خداوندمتعال یہ چاہتاہے کہ عورت فقط طہارت کی حالت میں اس کی عبادت کرے اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس کی نمازصحیح نہ ہواورجس کےلئے اصل میں نمازکومشروع نہ کیاگیاہوتوروزہ بھی اس کے مشروعیت نہیں رکھتاہے

اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ وہ نمازیں جوعورت سے حیض کے ایام میں ترک ہوجاتی ہیں ان کی قضابجالاناکیوں واجب نہیں ہے اورروزہ کی قضابجالاناکیوں واجب ہے ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ چند(مندرجہ ذیل)وجوہات کی بناپرعورت پرنمازکی قضاواجب ہے مگرروزہ کی قضاواجب نہیں ہے:

١۔ روزہ رکھناعورت کوروزانہ کے ضروری کام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتاہے ،روزہ نہ امورخانہ داری سے منع کرتاہے ،نہ شوہرکی خدمت کرنے سے ،نہ شوہرکے فرمان کوانجام دینے سے منع کرتاہے ،نہ گھرکی صفائی کرنے اورنہ کپڑوں وغیرہ کی دھلائی کرنے سے منع کرتاہے ،روزہ کی حالت میں ان سب کاموں کوانجام دیاجاسکتاہے لیکن نمازکے لئے وقت درکارہوتاہے اورنمازکی قضاکابجالاناعورت کے لئے امورخانہ داری ،صفائی ،دھلائی وغیرہ میں مانع واقع ہوتاہے کیونکہ نمازروزانہ بطورمکررواجب ہوتی ہے اورعورت اس چیزکی قدرت نہیں رکھتی ہے کہ اپنی روزانہ کی نمازیں بھی پڑھے اورناپاکی کی حالت میں ترک کی گئی نمازوں بھی کی قضابجالائے اورگھروزندگی کے ضروری کاموں کوبھی انجام دے لیکن روزے میں ایسانہیں ہے ،عورت روزہ کی حالت میں امورخانہ داری کوانجام دے سکتی ہے ۔

٢۔ نمازپڑھنے میں رکوع وسجود،تشہدوسلام وغیرہ کے لئے اٹھنے ،بیٹھنے ، کی زحمت ہوتی ہے لیکن روزہ میں ایسانہیں ہے،بلکہ روزہ میں اپنے آپ کوکھانے پینے سے روکناپڑتاہے اورکھانے پینے سے رکنے کے لئے نہ اٹھنے کی ضرورت پڑتی ہے اورنہ بیٹھنے کی ضرورت ہوتی اورنہ کوئی حرکت کرنی پڑتی ہے ۔

٣۔ شب وروزکی مدت میں ایک وقت کے بعدجب دوسراوقت شروع ہوتاہے تواس وقت میں دوسری نمازواجب ہوجاتی ہے (نمازظہرکے بعدنمازعصرواجب ہوجاتی ہے ،نمازمغرب کے عشاکی نمازواجب ہوجاتی ہے اورجیسے ہی صبح ہوتی ہے تونمازصبح واجب ہوجاتی ہے )لیکن روزہ میں ایسانہیں ہے ،ماہ رمضان المبارک کے بعدکوئی روزہ نہیں آتاہے کہ جواس پرواجب ہوجائے لہٰذاروزہ رکھنے کاوقت خالی رہتاہے مگرنمازتووقت کے ساتھ ساتھ واجب ہوتی رہتی ہے ۔(۱)

____________________

. ۱)علل الشرائع /ج ١/ص ٢٧١

۲۴۹

قبولیت نمازکے شرائط

ہر شخص کی نمازدوحالت سے خالی نہیں ہوتی ہے یااس کی نماز بارگارب العزت میں قبول ہوتی ہے اورخداعالم اس نمازی پردنیاوآخرت میں نعمتیں نازل کرتاہے یاقبول نہیں ہوتی ہے اورخداوندعالم جس نمازکوقبول نہیں کرتاہے اسے نمازی کی طرف واپس کردیتاہے جیساکہ حدیث میں آیاہے:

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا کی جانب سے ایک فرشتہ نماز کے کا موں کے لئے مامور ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسراکام نہیں کر تاہے،جب بندہ نمازسے فارغ ہوجاتاہے تو وہ فرشتہ اس کی نماز کو آسمان پر لے جاتاہے اگر اس کی نماز قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ بارگا ہ رب ا لعزت میں قبول ہوجاتی ہے اور اگر قبول ہونے کی صلالیت نہیں رکھتی ہے تواس فرشتے کو حکم دیا جاتاہے کہ اس نماز کو صاحب نماز کی طرف واپسلوٹا دے، وہ فرشتہ نماز کو واپسلے کر زمین پر آتا ہے اور اسے صا حب نماز کے منہ پر مارکر کہتا ہے : وائے ہو تجھ پر کیونکہ تیری اس نماز نے مجھے زحمت میں ڈالاہے اور واپس لے کر آناپڑاہے۔(۱)

روزقیامت صرف انھیں لوگوں کی نمازقبول ہوگی جونمازکو پورے آداب شرائط کے ساتھ انجام دیتے ہیں،وہ لوگ جو نماز کو اس کے تمام آداب و شرائط کی رعایت کے ساتھ انجام دیتے ہیں توان کی یہ صحیح اورمکمل نماز بقیہ دوسرے انجام دئے گئے واجبات کے قبول ہونے کاسبب واقع ہوگی اوروہ لوگسعادتمند محسوب ہونگے لیکن وہ لوگ جونمازکواس کے پورے آداب وشرایط کے ساتھ انجام نہ دیتے ہیں تو وہ بدبخت اور بدنصیب شمارہونگے ۔قال صادق علیه السلام :اوّل مایحاسب به العبد،الصلاة،فاذاقبلت قبل منه سائرعمله واذاردت علیه ردعلیه سائرعمله .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:روزقیامت سب سے پہلاسوال نمازکے بارے میں کیاجائے جن لوگوں کی نمازقبول ہوگی ان کے دوسرے اعمال بھی قبول ہونگے اورجن کی نمازقبول نہیں ہوگی ان بقیہ اعمال بھی قبول نہیں ہونگے ۔

____________________

. ۱) ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٢٣٠

.۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨

۲۵۰

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لکل شی ؤجه ووجه دینکم الصلاة فلایشیئنّ احدکم وجه دینه .(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :ہر چیز کے لئے ایک چہرہ ہو تا ہے جو اس کی اصل وحقیقت کوبیان کرتا ہے اور نماز تمھارے دین کاچہرہ ہے ، ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے دین کی شکل و صورت کو نہ بگاڑےدین اسلام بھی انسان کی طرح اپنے جسم میں اعضاء جوارح رکھتاہے ،جس طرح انسان اپنے جسم میں ہاتھ ،پیر،آنکھ ناک ،کان رکھتاہے اسی طرح دین اسلام بھی رکھتاہے انسان کے جسم کاارجمندترین حصہ اس کاسرہے اورسرکابہترین حصہ انسان کاچہرہ ہے کیونکہ چہرہ میں حساس اعضاء پا ئے جاتے ہیں : جیسے آنکھ، کان ،ناک ، زبان ، دانت وغیرہ اسی طرح دین اسلام کے اعضا میں نمازمقدس ترین حصہ ہے جسے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے دین اسلام کاچہرہ قراردیاہے اورنمازکودین اسلام کاچہرہ قراردئے جانے کارازیہ ہے کہ انسان کا بدن چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے خوشنما معلوم ہو تاہے اگر کسی کا چہرہ خوبصورت نہیں ہے تو اسے حسین نہیں کہا جاتا ہے ،جس طرح بدن کی خوبصورتی چہرہ سے تعلق رکھتی ہے اسی طرح دین اسلام بھی نمازسے تعلق رکھتاہے ،اگر نماز میں حُسن وکمال پایا جا تا ہے تو دین بھی حسین وخو بصورت معلوم ہو تا ہے ۔ مثال کے طورپراگرہم خلوص کے ساتھ کسی شخص کے دیداروملاقات کے لئے اس کے گھرجاتے ہیں تو وہ پہلے ہمارے چہرہ پرنگاہ ڈالتاہے ،اگرہمارے چہرے چہرے کے تمام اعضاء صحیح و سالم ہوں ، اور دونوں اَبرو آپس میں پیوستہ ہوں ،آنکھوں میں کشش پائی جاتی ہو، ناک حالت زیبائی رکھتی ہو ،ہونٹوں پرکلیوں کی طرح مسکراہٹ ہو،دانت صدف کے ماننددرخشاں ہوں پیشانی پر نور خشاں ہو یقیناً ایساچہرہ مکمل زیبا اورباعث اشتیاق ہو گااوروہ شخص ہمارے اس چہرے کودیکھ کر خوشحال ہو جا ئے گااورعطوفت ومہربانی کااظہارکرے گا،ہمیں اپنے قریب میں جگہ دے گا،ہم سے میٹھی اورنرم باتیں کرے گا لیکن اگرہمارے چہرے بگڑے ہوئے ہوں، پیشانی کے تیورچڑھے ہوں ، چہرے پرکمال درخشندگی نہ ہو،ابروکے بال بالکل صاف ہوں ، آنکھیں غضبناک ہوں، ناک پرورم آگیا ہو ،ہو نٹ زخمی ہوں ، دانت گر چکے ہیں(یقیناًایسا چہرے کودیکھ دل میں نفرت پیداہوجاتی ہے) تو ہمیں اس طرح دیکھ کراس کے تیوربھی چڑھ جائیں گے ،اب وہ اپنے بٹھاناتو دورکی بات اپنے دربارمیں کھڑے ہونے کی مہلت بھی نہیں دے گااورہمیںفوراً اپنے دربارسے باہرنکال دے گااورسزابھی سنائے گا

____________________

. ١)کافی /ج ٣/ص ٢٧٠ ۔تہذیب الاحکام/ج ٢/ص

۲۵۱

بس اسی طرح جب قیامت میں تمام لوگوں کوقبرسے بلندکیاجائے توسب پہلاسوال

نمازکے بارے جائے گا،جن ہم سے لوگوں نے دنیامیں نمازیں نہیں پڑھی ہونگی انھیں واصل جہنم کردے گااورجن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہونگی ان کی نمازوں کودیکھاجائے گا اگرہماری وہ نمازیں اس کے معیارکے مطابق ہونگی اورپروردگار خوشنودی کا سبب واقع ہو نگی تو وہ ہم پراپنا رحم وکرم کرے گااورہمیں جنت عطاکرے گالیکن اگر خدا وندعالم ہماری نمازوں سے ناراض ہوگیا تو ہم اس کی رحمت ومغفرت سے محروم ہو جائیں گے اور ہماری بقیہ دوسری عبادتیں ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچائیں گی۔

جس طرح انسان کاچہرہ اعضاء رکھتاہے اوراعضائے چہرہ کی وجہ سے خوبصورت معلوم ہوتاہے اسی طرح نمازجودین اسلام کاچہرہ ہے اس کے بھی اعضاء ہیں وہ بھی اپنے چہرے پر آنکھ ناک ، کان ،دانت وغیرہ رکھتی ہے اگروہ سب اعضامناسب ہوں توالله تبارک تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کاسبب ہوتے ہے ،خضوع وخشوع ،حضورقلب ،ارکان نماز(نیت ،تکبیر ة الاحرام ،قیام ، قرئت ،ذکر، رکوع، سجوداور تشہدوسلام )اور مستحبات نماز اعضاء وجوارح کا حکم رکھتے ہیں، اگرنمازکاچہرہ خوبصورت ہے اوراس کے تمام اعضاء صحیح و کامل ہیں یعنی نمازکوخضوع وخشوع، حضورقلب اورارکان نمازکی رعایت کے ساتھ اداکیاہے تووہ خدا کی خوشنودی اور اس کی بارگاہ میں قبولیت کا سبب واقع ہو گی اور اگر نماز کی شکل و صورت بگڑی ہو ئی ہو اور ارکان نماز کو مکمل طور سے رعایت نہ کی گئی ہو تو یہ نماز خداکے غضبناک ہو نے کا سبب واقع ہوتی ہے اور خدا وندعالم ایسی نماز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا بلکہ ایسی نماز کو اسی نمازی کے منہ پر ماردے گا۔

یہ ممکن ہے کہ انسان کی نمازظاہری اعتبارسے بالکل صحیح ہواوراس میں کوئی کمی نہ ہو،روبقبلہ پڑھی گئی ہو،طمانینہ کی بھی رعایت کی گئی ہومگروہ بارگاہ خداوندی مقبول نہ کیونکہ ظاہری آداب کے لئے کچھ قلبی آداب بھی ہیں کہ جن کی رعایت کے سبب ہماری نمازیں بارگاہ خداوندی میں مقبول واقع ہوتی ہیں،اگرہماری نمازوں میں وہ شرائط موجودہیں توقبول واقع ہوسکتی ہیں اوران کے ذریعہ خداکا تقرب اوراس کی رضایت حاصل ہوسکتی ہے اوروہ شرائط یہ ہیں:

١۔حضورقلب

وہ الفاظ اورذکروتسبیح کہ جنھیں نمازگزار اپنے زبان سے اداکررہاہے اگرانھیں سے دل بھی کہے اوران کے معنی ومفہوم کوذہن میں رکھنے کے ساتھ زبان پرجاری کرے اوراپنی نمازسے بالکل غافل نہ ہواوراس طرح خداکی طرف متوجہ ہوگیاہوکہ وہ یہ بھی نہ جانتاہوکہ میرے برابرمیں کون ہے اورکیاکررہاہے

۲۵۲

تو اسے حضورقلب کہاجاتاہے۔ نمازی کے لئے ضروری ہے کہ نمازکی حالت میں اس کے تمام اعضاء وجوارح اور دل ودماغ سب کچھ خداکی طرف ہواس کے دل میں خداکاعشق اوراس سے ہمکلام ہونے کاشوق ہو،سستی اورکسلمندی نہ پائی جاتی ہوعبادت میں لذت محسوس کرتاہوکیونکہ جس مقدارمیں نمازی کادل خداکی طرف متوجہ رہے گااسی مقداراس کی نمازبارگاہ خداوندی میں باعث قبول ہوگی ،اگرعبادت کی حالت میں نمازی کادل دنیاکی طرف مبذول ہوتواس کی وہ عبادت کی کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے اور ہر نمازی حضو ر قلب وخوف خداکے اعتبار سے اجر وثواب حاصل کرتا ہے جو نمازی اپنے دل خت نازیادہ خوف خدا رکھتا ہے اسی مقدار میںثواب ونعمت حاصل کرتا ہے کیونکہ خدا وند متعال نمازگزار کے قلب پر نگاہ رکھتا ہے نہ اسکی ظاہری حر کتوں پر، روزقیامت صرف وہی نمازوعبادت کام آئے گی جوسچے دل سے انجام دی گئی ہو ۔( وَ لِکُلِّ دَرَ جٰا تٌ مِمَّا عَمِلوُاوَمَارَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمّایَعْمَلُونَ ) (۱) بے شک ہر ایک شخص کے لئے اسکے اعمال کے مطابق درجات ہیں اورجوکچھ تم انجام دیتے ہوتمھاراپروردگارہرگزاس سے غافل نہیں ہے( یَوْمٌ لایَنْفَعُ مَالٌ وَلابَنُونَ، اِلَّاْ مَنْ اَتَی الله بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ) (۲) روزقیامت نہ مال کام آئے اورنہ اولاد ،فقط وہی لوگ نجات پائیں گے جو قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ باری تعالیٰ میں حاضر ہوتے ہیں ۔

بعض نماز یں ایسی ہیں جو آدھی قبول ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو ایک سوم یا ایک چہارم ،ایک پنجم یا ایک دہم قبول ہوتی ہیں اور بعض نماز یں ایسی ہیں جو ایک بوسیدہ کپڑے میں لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیری نماز تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہے فقط وہی نماز تیرے کام آسکتی ہے جنھیں توحضور قلب کے ساتھ انجام دیتاہے ۔(۳)

٢۔خضوع وخشوع

( قَدْ اَ فْلَحَ المُو مِنُونَ الَّذِ یْنَ هُمْ فِی صَلاٰ تِهِمْ خٰشِعُونَ ) (۴) یقیناً صاحبانِ ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع وحضورقلب رکھتے ہیں۔

____________________

. ۱)سورہ أنعام /آیت ١٣٢

. ٢)سورہ شٔعراء /آیت ٨٨ ۔ ٨٩

۳). بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۶١

. ۴)سورہ مٔومنون/آیت ١۔ ٢

۲۵۳

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جب تم نمازپڑھوتوخضوع اور حضور قلب رکھاکروکیونکہ خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:( اَلَّذِینَ هُمْ فی صَلاتِهِمْ خَاشِعُونَ ) ۔ روزقیامت وہی لوگ نجات پائیں گے جواپنی نمازوں میں حضورقلب اورخضوع وخشوع رکھتے ہیں۔(۱)

اعضاء وجوارح اوربدن میں نشاط پائے جانے اورجسم پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونے کوخضوع خشوع کہاجاتاہے

ایک شخص نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے خشوع کے معنی معلوم کئے توآپ نے فرمایا: نمازی کوچاہئے کہ اپنے اعضاء وجوارح بھی نماز میں شامل کرے اوراپنے دائیں بائیں جانب نگاہ نہ کرے ،ہاتھ پیرنہ ہلائے ،روایت میں آیاہے کہ ایک دن رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے ایک شخص کودیکھا کہ وہ نماز پڑھتے ہو ئے اپنی ڈاڈھی سے کھیل رہا ہے ، آپ نے فرمایا:

لوخشع قلبه لخشعت جوارحه ” اگر اس نماز ی کا دل خضوع وخشوع رکھتا ہے تو اُس کے اعضاء وجوارح کو بھی خاشع و خاضع ہو نا چا ہئے ۔(۲)

خشو ع یعنی نماز میں تواضع کا استعمال کرنا اورکسی بندہ کا پورے دل اورنشاط کے ساتھ کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے کوخشوع کہاجاتاہے(۳)

فقہ الّرضا میں منقول ہے کہ امام علی رضا فرماتے ہیں : جب تم نماز کے لئے قیام کرو تو اپنے آپ کو کھیل کو داور خواب وکسالت سے دورکرلیاکرواوروقارو سکون قلب کے ساتھ نماز ادا کیا کرواورتم پرلازم ہے کہ نماز میں خضوع وخشوع کی حالت بنائے رکھو، خدا کے لئے تواضع کرو،اپنے جسم پرخوف وخشوع کی حالت طاری رکھو اور اپنی حالت ایسی بناؤ جیسے کوئی فراری اور گنا ہگا ر غلام اپنے مولا وآقا کی خدمت میں آکر کھڑاہو جاتا ہے اور اپنے دو پیروں کے درمیان (چار انگلیوں کے برابر) فاصلہ دیا کرو ، بالکل سیدھے کھڑ ے ہو اکرو ، دائیں بائیں چہرے کو نہ گھمایاکرو اور یہ سمجھوکہ گویا خدا سے ملاقات کررہے ہو ،اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہومگر وہ توتمھیں دیکھ رہا ہے۔(۴)

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ۶٨۵

۲). بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۶١

۳). مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١٠٣

۴). فقہ الرضا/ص ١٠١

۲۵۴

عن النبی صلیه الله علیه وآله :لاصلاة لمن لایتخشع فی قلبه . نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس نمازی کے دل میں خشوع نہیں پایاجاتاہے اسکی نمازقبول نہیں ہے۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس نمازی کے دل میں خشوع نہیں پایاجاتاہے اسکی نمازقبول نہیں ہے۔(۲)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا ئے عزوجل نے حضرت موسیٰپر وحی نازل کی : اے موسیٰ ! کیا تم جانتے ہو ، میں نے پوری مخلوق سے صرف تم ہی کو اپنے سے ہمکلام ہونے کے لئے کیوں منتخب کیا ہے ؟ عرض کیا : پرو درگار ا ! تو نے مجھ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے ؟ خدا نے کہا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے تمام بندوں پر نظر ڈالی لیکن تمھارے علاوہ کسی بھی بندے کو تجھ سے زیادہ متواضع نہ پایا ، کیونکہ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے چہرے کو خاک پر رکھتے ہو۔(۳)

خدا وند متعا ل نے حضرت داو دٔپروحی نازل کی :اے داو دٔ!بہت سے نماز ی ایسے ہیں جو اپنی نماز وں میں خضوع وخشوع رکھتے ہیں اورگر یہ وزاری کرتے ہیں اور رکعتوں کوطول دیتے ہیں ،ان کی یہ طولانی رکعتیں میرے نزد یک ایک فتیلہ(۴) کی بھی قیمت نہیں رکھتی ہیں کیو نکہ جب میں ان کے قلوب پر نگا ہ کر تا ہو ں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل ایسے ہیں کہ اگر نماز سے فراغت پا نے کے بعد کو ئی عورت ت نہائی میں ان سے ملاقات کر ے اوراپنے آپ کو اس نمازی کے حوالے کر دے تو وہ اس عورت پر فر یفتہ ہوجائیں گے اور گنا ہ کبیرہ کا مرتکب ہوجائیں گے اوراگرکسی مومن سے کوئی معاملہ کریں تواس کے ساتھ دھو کااورخیانت کریں گے۔(۵)

____________________

.۱) میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٢

. ۲)میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٢

۳). / من لایحضرہ الفقیہ /ج ٣٣٢

۴)لغت عرب میں فتیلہ اس باریک دھاگے کوکہاجاتاہے جوخرماکی گٹھلی کے درمیان پایاجاتاہے.

. ۵)بحارالانوار/ج ١۴ /ص ۴٣

۲۵۵

معصومین اورحضورقلب وخشوع

جب آپ حضورقلب ،خضوع وخشوع کے معنی ومفہوم اوران کی اہمیت سے آگاہ ہوگئے تواسی جگہ پران روایتوں کوبھی ذکرکردینامناسب ہے کہ جن میں معصومین کی طرزنمازاوران کے اخلاص وحضورقلب اورخضوع وخشوع کوذکرکیاگیاہے اوروہ احادیث یہ ہیں: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے بارے میں آیاہے:

کان النبی صلی الله علیه واله:اذاقام الی الصلاة تربد وجهه خوفامن الله تعالیٰ (۱) جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازکے لئے قیام کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ متغیرہوجاتاتھا۔

ان النبی صلی الله علیه واله:کان اذاقام الی الصلاة کانّه ثوب ملقی (۲) جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازمیں مشغول ہوتے تھے توایسے نظرآتے تھے جیسے گوشہ میں کوئی کپڑاپڑارہتاہے۔

امام علی بن ابی طالب +کے بارے میں روایتوں میں ملتاہے کہ آپ نمازمیں اس قدرحضورقلب اورخضوع وخشوع رکھتے تھے کہ ایک جنگ کے دوران آپ کے پائے مبارک میں تیر پیوست ہوگیا تھااور لوگوں نے تیر کو نکالنے کی کوشش کی مگر تیر ہڈّی میں اس طرح پیوست ہوگیاتھا کہ گوشت وپوست کے کاٹے بغیر تیرکانکالنامحال تھا ،لہٰذا آپ کے فرزندوں نے کہا: اگریہی صورتحال ہے تو صبرکیا جائے اورجب امام (علیه السلام)نمازمیں مشغول ہوجائیں توپائے مبارک سے آسانی سے تیر نکالاجاسکتاہے اورآپ کوخبربھی نہیں ہوگی جب امام (علیه السلام) نماز میں مشغول ہوئے ،توطبیب نے گوشت وپوست کوکاٹ کر یہاں تک کہ ہڈّی کو توڑکر تیرنکالا اورزخم پرمرہم لگاکر پٹّی باندھی ،جب امام(علیه السلام) نماز سے فارغ ہوئے توفرمایاکہ :میرے پیر میں تیرپیوست ہے مگر اسوقت پیر میں کوئی دردوتکلیف محسوس نہیں ہورہی ہے ؟سب نے کہا:نماز کی حالت میں آپ کے پیر سے گوشت وپوست کو کاٹ کر تیر نکالیا گیا، اور آپ کو محسوس بھی نہ ہوا امام (علیه السلام)نے فرمایا : جب میں ذکرویادالٰہی میں مشغول رہتاہوں اگردنیا بھی زیروزبر ہوجائے یا میرے بدن میں تیغ وتبر بھی مارے جائیں تومجھے اپنے پروردگار سے مناجات کی لذت میں کی وجہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوگی۔

____________________

. ۱)میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٣

٢)فلاح السائل/ص ١۶١

۲۵۶

فلاح السائل میں نقل کیاگیاہے کہ حضرت علیجب نمازکے لئے قیام کرتھے تو آیہ مبارکہ( اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِی لِلَّذِی فَطَرَالسَّمَوٰاتِ وَالْاَرْض وَمَااَنَامِنَ المُشْرکِین ) (۱) (میرارختمامتراس خداکی طرف ہے جس نے آسمانوں کوپیداکیاہے اورمیں باطل سے کنارہ کش ہوں اورمشرکین ) میں سے نہیں ہوںاورزمین کی تلاوت کرتے تھے اورآپ کے چہرہ کارنگ متغیرہوجاتاتھا۔(۲)

امام علیجب نمازپڑھتے تھے توآپ سیدھے ستون کی مانندنظرآتے تھے اوربالکل بھی حرکت نہیں کرتھے اوررکوع وسجودکی حالت میں آپ کے جسم پر پرندہ بھی آکربیٹھ جاتاتھااورامام علی (علیه السلام) وامام زین العابدین +کے علاوہ کوئی بھی رسول اکرم کی حالت نمازکاانعکاس نہیں کرسکتاتھا۔(۳)

امیرالمومنین حضرت علی جس وقت آپ نماز کے لئے قیام کرناچاہتے تھے توخوف خدا میں پورابدن کا نپ جاتاتھااورچہر ے کا رنگ متغیرہوجاتاتھا اور کہتے تھے : بارالٰہا! اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آگیاہے ، جس کو سات زمین وآسمان عرضہ کیاگیا اور وہ اس کے تحمل کی قوت نہیں رکھتے تھے۔(۴)

روایت میں آیاہے کہ: ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت آیااورآپ کی خدمت میں دواونٹ بطورہدیہ پیشکئے ، آنحضرت نے فرمایا: من صلی رکعتین ولم یحدث فیہما نفسہ من امورالدنیاغفراللھلہ ذنبہ. جو شخص دورکعت نماز اس طرح پڑھے کہ نماز کسی بھی دنیاوی چیز کی طرف توجہ پیدانہ کرے تو میں ان میں سے ایک اونٹ اسے عطا کردوں گا ،علی ابن ابی طالب+کے علاوہ کوئی بھی شخص آنحضرت کی اس درخواست پرعمل کرنے کوتیارنہ ہوااور رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے دونوں اونٹو ں کو حضرت علی کو عطا کر دئے۔(۵)

حضرت فاطمہ زہرا کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں روایتوں میں آیاہے:

کانت فاطمة سلام الله علیهات نهج فی الصلاة فی خیفة الله تبارک وتعالی حضرت فاطمہ زہرا نماز کی حالت میں خوف خدا میں اس طرح لرزتی تھیں کہ آپ پر ) جاں کنی کی حالت طاری ہو جاتی تھی(۶)

____________________

١)سورہ أنعام /آیت ٧٩

. ٢)فلاح السائل /ص ١٠١

۳). دعا‏‏ئم الاسلام /ج ١/ص ١۵٩

۴). میزان الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٣

۵). میزا ن الحکمة /ج ٢/ص ١۶٣٨

۶)بحارالانوار/ج ٧٠ /ص ۴٠٠

۲۵۷

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : میری لخت جگرحضرت فاطمہ دونوں جہاں گذشتہ اورآئندہ کی عورتوں کی سردار ہیں ، وہ جسوقت محراب عبادت میں اپنے پروردگارکے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تو آپ کے چہرہ سے ایک نورساطع ہوتاہے وہ نور آسمان کے ملائکہ کے لئے اسی طرح درخشاں ہو تا ہے جیسے اہل زمین کے لئے ستاروں کا نور چمکتا ہے ،جب یہ نورساطع ہوتاہے توخدا وندعالم اپنے فرشتوں سے کہتاہے : اے میرے فرشتوں!تم ذرا میرے حبیب کی لخت جگرپر نگاہ ڈالو ، میری کنیز وں کی سردار میرے پاس کھڑی ہے اور میرے خوف سے اس کے تمام اعضاء وجوارح لرزرہے ہیں اور خلوص دل سے میری عبادت کررہی ہے ، میں تم فرشتوں کو شاہد قرار دیتا ہوں کہ میں نے ان ) کے تمام شیعوں پر آتشجہنم کو حرام قرار دیتا ہوں۔(۱)

امام زین العابدین کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال مولاناالصادق علیه السلام :کان علی بن الحسین علیه السلام اذاحضرت الصلاة اِقشعرّجلده ، واصفرّلونه وارتعدکالسعفة .(۲) امام صادق فرماتے ہیں:جب علی ابن الحسین +نمازکے لئے قیام کرتے تھے تو(خوف خدامیں)بدن کے بال کھڑے ہوجاتے تھے اوررنگ پیلاہوجاتھا اورخرمے کے سوکھے ہوئے درخت کے مانندلرزتے رہتے تھے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال :کان علی بن الحسین علیه السلام صلوات الله علیهمااذ اقام فی الصلاة کانه ساق شجرة لایتحرک منه شی ألاماحرکه الریح منه .( ۳) امام صادق فرماتے ہیں:جب علی ابن الحسین +نمازکے لئے قیام کرتے تھے تو(خوف خدامیں) اس ساقہ دٔرخت کے مانندکھڑے رہتے تھے کہ جس کی کوئی چیزحرکت نہیں کرتی تھی مگروہی کہ جوہواکی وجہ سے ہلتی تھی ۔

ایک روایت میں آیاہے کہ ایک دن حضرت امام زین العابدینکے گھرمیں اگ لگ گئی اورآپ اس وقت نمازمیں اس طرح مشغول تھے کہ آپ کوگ لگنے کااحساس بھی نہ ہوا،جب نمازسے فارغ ہوئے توآپ کوگھر میں آگ لگ جانے کی اطلاع دی گئی توامام (علیه السلام)نے فرمایا:آتش جہنم کی یادنے مجھے اس دنیاوی آگ سے بالکل بے خبرکردیاتھا۔(۴)

____________________

۱)بحارالانوار/ج ٧٠ /ص ۴٠٠.

۲)مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ٩٣

۳)کافی /ج ٣٠٠.

۴). تحلیلی اززندگانی امام سجاد/ج ١/ص ٢٨٧

۲۵۸

اوردوسری روایت میں آیاہے کہ امام زین العابدین کے بچے اس انتظارمیں رہتے تھے کہ امام (علیه السلام) کب نماز شروع کرتے ہیں تاکہ ہم پورے شوروغل کے ساتھ کھیل کود کرسکیں، بچےّ آپس میں کہتے تھے کہ جب امام (علیه السلام) نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں توخداکی یاد میں اس طرح غرق ہوجا تے ہیں کہ انھیں ہماری طرف کوئی دھیان نہیں رہتا ہے ، چاہے ہم کت ناہی زیادہ شوروغل مچائیں۔(۱)

ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ : میں نے حضرت امام سجاد کو نماز کی حالت میں دیکھا کہ آپ کی عباء دوش مبارک سے نیچے گرگئی اور آپ نے کوئی تو جہ نہ کی ،جب آپ نمازسے فارغ ہوئے تومیں نے آپ سے پو چھا : نماز کی حالت میں آپ کی عبادوش سے نیچے گر گئی اور آپ نے کوئی توجہ بھی نہیں کی ؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا: اے ابوحمزہ ثمالی ! کیا تم نہیں جانتے ہو میں کس کی بارگاہ میں کھڑاتھا ؟ بے شک بندے کی نماز الله کی بارگاہ میں اسی مقدارمیں قبول ہو تی ہے جس مقدار میں نمازی کادل اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گا ۔(۲)

امام صادق کے نمازمیں حضورقلب اورخضوع وخشوع کے بارے میں روایتوں میں آیاہے: حضرت امام جعفر صادق کے ایک صحابی“حمّادبن عیسیٰ ”سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : ایک دن امام (علیه السلام) نے مجھ سے پوچھا: اے حماد!تم نمازکس طرح پڑھتے ہواورکیااسے پورے آداب وشرائط کے اداکرتے ہو؟ میں نے کہا : اے میرے مولاو آقا ! میں“ حریزبن عبدالله سجستانی ”کی لکھی ہوئی کتاب نمازپڑھتاہوں

امام (علیه السلام)نے فرمایا : یہ کافی نہیں ہے بلکہ تم ابھی اٹھواور میرے سامنے دورکعت نماز پڑھو

حمّاد کہتے ہیں :میں نے امام (علیه السلام) کی فرمائش پر عمل کیا اورامام (علیه السلام)کے حضور میں روبقبلہ کھڑے ہوکر نماز شروع کی ، رکوع وسجود کو انجام دیا اور نماز کو تمام کیا

امام (علیه السلام)نے فرمایا :اے حماد!تم نے نمازاس کے آداب وشرائط کے مطابق نہیں پڑھی ہے اور تعجب ہے کہ تمہاری عمرساٹھ یا ستّر سال ہو گئی ہے اور تم صحیح و مکمل طور سے نماز نہیں پڑھ سکتے ہو!

____________________

۱). ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢١٨ /ص ۶٨

۲) تحلیلی اززندگانی مام سجاد/ج ١/ص ٢٨٧

۲۵۹

حمّاد کہتے ہیں : میں امام (علیه السلام)کی یہ باتیں سنکر بہت ہی شرمندہ ہوا اور میں نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا : اے میرے مولا آپ پرقربان جاؤں آپ مجھے صحیح اورمکمل نماز کی تعلیم دیجئے

امام صادق اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور روبقبلہ کھڑے ہوئے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو آپس میں چسپاں کیا اور دستہائے مبارک کومرتب طریقہ سے ران پر رکھا ،دونوں کے درمیا ن چار انگلی کے برابر فاصلہ دیا اور پیروں کی انگلیوں کو روبقیلہ قرار دیا اور خضوع وخشوع کے “الله اکبر”کہہ کر نمازکاآغازکیا،سورئہ حمد و سورئہ“( قُلْ هَوَا لله اَحَد ) ”کو سکون واطمینان کے ساتھ قرائت کیا پھرایک سانس کے برابر صبر کیا اور حرکت کئے بغیر“الله اکبر”کہا ،اسکے بعد رکوع میں گئے ،

رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو زانوپر رکھا اوردونوں زانوبالکل سیدھے تھے اور کمراس طرح سیدھی تھی کہ اگر کمر پر کوئی قطرئہ آب یا روغن گر جاتا تو وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکتا تھا اور رکوع میں گردن کو سیدھا رکھا اور آنکھیں بند کر کے تین مرتبہ “سبحان الله”کہا : اسکے بعد“سبحان ربی العظیم و بحمدہ ”کہا ،پھررکوع سے بلند ہو ئے اور اطمینان کے ساتھ “سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَہ ” کہا اور دونوں ہاتھوں کو کانوں تک لاکر “الله اکبر ”کہا ،پھر سجد ے میں گئے اور دونوں زانوں کو زمین پر رکھنے سے پہلے دونوں ہا تھوں کو زمین پر رکھا اور سجدے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ بدن کا کوئی حصّہ آپس میں چسپاں نہیں تھا اور آٹھ اعضاء بدن ( پیشانی ،دونوں ہاتھ کی ہتھیلی ،دونوں زانو کے سرے ، دونوں پیرکے انگوٹھے اور ناک کی نوک) کو زمین پر رکھے ہو ئے تھے ، ناک کی نوک کو زمین پر رکھنا مستحب ہے اور بقیہ چیزیں واجب ہیں آپ نے سجدے میں تین مرتبہ “سُبَحَانَ رَبِّیَ الْاَعَلیٰ وبَحَمْدِهِ ”کہا اور سجدے سے سرکو بلند کیا “الله اکبر ”کہا اور بائیں پیرپرزور دیکر بیٹھے اور“اُسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّیْ وَاَ تُوبُ اِلَیهْ ”کہا اور “ا لله اکبر ”کہنے کے بعد دوسرے سجدے میں گئے اور پہلے سجدے کی طرح دوسرا سجدہ کیا اور سجدے میں کہنیوں کو زمین پر قرار نہیں دیا اور اسی طرح دوسری رکعت پڑھ کرنمازکو تشہدوسلام کے ساتھ تمام کیا ، اور نماز کے بعد فرمایا: اے حمّاد ! نماز پڑھنے کا یہی طریقہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ، پس نماز کی حالت میں ہاتھ، پاؤں ، ڈاڑھی و غیرہ سے کھیل نہ کرو ، اپنی انگلیوں سے بھی کھیل نہ کرو ،اپنے دائیں بائیں نگاہ نہ کرو اور قبلہ کی سمت بھی نگاہ نہ کرو کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے نماز میں خضوع وخشوع نہیں پایا جاتا ہے اورجونمازی کے حواس اڑجانے کا سبب واقع ہو تے ہیں

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

اوراگرفکربھی کرتے ہیں توانھیں آئندہ سال تک کے لئے تاخیرمیں ڈال دیتے ہیں،یانمازمیں اس کے آداب وشرائط کارعایت نہیں کرتے ہیں اورجلدبازی میں نمازپڑھتے ہیں وہ لوگ کافرکاحکم رکھتے ہیں،ہم یہاں پراسبارے میں چندروایتوں کوذکرکررہے ہیں:

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:مابین المسلم وبین اَنْ یکفرالااَن یترک الصلاةالفریضة متعمداًاَویتهاون بهافلایصلیها ۔(۱) حضرت امام صادق سے مروی ہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :کسی مسلمان کے کافرہوجانے میں صرف اتنافاصلہ ہے کہ وہ نمازکوعمداًترکرے یانمازپڑھنے میں سستی استعمال کرے اورنمازنہ پڑھے یہاں تک کہ قضاہوجائے ۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:من ترک الصلاة لایرجواثوابها ولایخاف عذابهافلاابالی ا یٔموت یهودیاًا ؤنصرانیاًا ؤمجوسیاً ۔( ۲)رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : جو شخص نماز کو ترک کرتا ہے اور نماز کے وسیلہ سے کسی اجرو ثواب کی امید نہیں ر کھتا ہے اور ترک نماز کے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتاہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایساشخص یہود ی یانصرانی یا مجوسی کی موت مرتا ہے۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : ایک شخص رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں حاضرہوااور عرض کیا :یا رسول الله آپ مجھے کو ئی نصیحت کیجئے آنحضرت نے فرمایا : نماز کو عمداً ترک نہ کرو کیو نکہ جو شخص عمداً نماز کو ترک کر تا ہے خدا اور اس کے رسول اورپوری ملت اسلا میہ اس سے بیزاررہتی ہے(اوروہ شخص کافرہے جس سے الله اوراس کے رسول ناخوش ہوں)۔(۳)

عبیدابن زرارہ سے مروی ہے: میں نے امام صادق سے سوال کیا: کن کاموں کو گناہ کبیرہ کہاجاتا ہے ؟ امام (علیه السلام)نے فرمایا : کلام امیرالمومنین حضرت علی میں سات چیزیں گناہ کبیرہ ہیں:

١۔ وجودذات باری تعالیٰ کا انکار کرنا ٢۔ انسان کو قتل کرنا ٣۔ عاق والدین قرار پانا ۴ ۔ سودلینا ۵ ۔ ظلم وستم کے ساتھ یتمیوں کا مال کھانا ۶ ۔ میدان جہاد چھوڑکربھاگ جانا ٧۔ ہجرت کے بعد اعرابی ہوجانا

____________________

۱). ثواب الاعمال/ص ٢٠٧

.۲)مصباح الفلاح/ص ١٧۴

۳)جامع الاحادیث الشیعہ،ج ۴،ص ٧۴

۴)صحرانشینی کوچھوڑکررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)یا ان کے جانشین کی ( خدمت میں پہنچ کردین اسلام اختیارکرنااوراس کے احکام ومسائل سے آگاہ ہونے کوہجرت کہاجاتاہے لہٰذاجوشخص دین اسلام سے مشرف ہوکراوراس کے احکام ومسائل سے مطلع ہونے کے بعداپنی پہلی والی حالت پرواپس آجائے ےعنی دوبارہ جہالت ونادانی کی طرف پلٹ جائے اسے اعرابی کہاجاتا ہے (گناہان کبیرہ /ج ٢/ص ۵۔ ۶)

۲۸۱

میں نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا : کیا یہ چیزیں گناہ کبیرہ ہیں ؟ فرمایا: ہاں میں نے امام (علیه السلام)سے سوال کیا : یتیم کے مال سے ظلم کے ساتھ ایک درہم کھانا بڑا گناہ ہے یا نماز کا ترک کرنا ؟ امام (علیه السلام)نے جواب دیا : ترک نمازاس سے بھی بڑا گناہ ہے میں نے پو چھا : پھر آپ نے ترک نماز کوگناہ کبیر ہ میں شمار کیوں نہیں کیاہے ؟ امام (علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا : میں نے گناہ کبیرہ میں سب سے پہلے کس چیزکوذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا : کفرکو، تو امام (علیه السلام) نے فرمایا : نماز ترک کرنے والا ) شخص کافر ہے(۱)

مسعدہ ابن صدقہ سے مروی ہے کہ :کسی نے امام صادق سے سوال کیا : کیاوجہ ہے کہ آپ زانی جیسے شخص کوکافرنہیں کہتے ہیں اورتارک الصلاة کو کا فرکہتے ہیں ؟امام (علیه السلام) نے جواب دیا : کیونکہ زانی وہ شخص ہے جو شہوت نفسانی کے غالب ہوجانے کی وجہ سے زناکا مرتکب ہوتاہے ، لیکن وہ شخص جو نمازکو ترک کرتا ہے وہ اسے ہلکااورناچیز سمجھ کرترک کرتاہے

تارک الصلاة کوکافرقراردینے اورزانی کوکافرقرارنہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زانی جب اس گناہ کی طرف قدم اٹھاتاہے اورکسی نا محرم عورت کی تلاش میں نکلتاہے اوراس کے ساتھ زناکامرتکب ہوتاہے تووہ اس گناہ کو انجام دینے میں لذّت حاصل کرنے کاارادہ رکھتاہے لیکن تارک الصلاة کو ترک نماز سے ہر گز لذّت کاارا دہ نہیں رکھتاہے کیونکہ ترک نماز میں کوئی لذّت نہیں پائی جاتی ہے اسی لئے نماز کو ہلکااورنا چیز سمجھ کر ترک کرتا ہے اور نماز کو ہلکا شمار کرنے کی وجہ سے کفرحاصل ہوجاتاہے ۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں : اس حدیث میں کفرسے اس کے حقیقی معنی مرادنہیں ہیں کہ تارک الصلاة نجس ہے اور یہ بھی مراد نہیں ہے کہ تارک الصلاة سے ہاتھ سے کسی مرطوب چیزکا لیناحرام ہے وغیرہ وغیرہ تارک الصلاة منکرنماز نہیں ہے اور نہ ترک نماز کو حلال ) شمار کرتا ہے کیونکہ اسصورت میں اگر زناکار بھی زناکو حلال جانتاہے ، کافر ہے۔(۱)

قال الصادق علیه السلام:لیسمن شیعت نامن لم یصل الصلاة ۔(۲) امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکوترک کرتاہے وہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے

____________________

۱)اصول کافی(باب کفر)/ج ۴/ص ٩٧ ۔ ٩٨

. ٢)المقنہ( شیخ مفید)/ص ١١٩ )

۲۸۲

تارک الصلاة کو ہنساناگناہ عظیم ہے

دین اسلام میں بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلانا گناہ کبیرہ ہے

قال رسو ل الله صلی الله علیه وآله:من تبسم فی وجه تارک الصلاة فکانماهدم الکعبة سبعین مرة وقتل سبعین ملکا ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص کسی بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلائے گویااسنے سترمرتبہ کعبہ کومنہدم کیااورسترملائکہ کوقتل کیا۔

قال علیه السلام:من تبسم فی وجه تارک الصلاة فکانماهدم بیت المعمورسبع مرة،وکانّماقتل الف ملک من الملائکة المقربین والانبیاء المرسلین ۔(۲) امامفرماتے ہیں:جوشخص کسی بے نمازی کے چہرے پرمسکراہٹ دلائے گویااس نے بیت المعمورکوسات مرتبہ منہدم کیااورگویااسنے اللھ مقرب ہزارفرشتوں اورہزارنبیوں کوقتل کیا۔

تارک الصلاة کی مددکرناحرام ہے

قال علیه السلام:من اعان تارک الصلاةبلقمة ا ؤکسوة فکانّماقتل سبعین نبیّااوّلهم آدم(عوآخرهم محمد(ص ۔(۳)

امامفرماتے ہیں:جوشخص کسی بے نمازی کی ایک لقمہ یاکسی کپڑے سے مددکی گویااس نے سترنبیوں کاقتل کیاجن میں سب سے پہلے آدم (علیه السلام)اورآخری حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)ہیں۔

قال:من اعان تارک الصلاة بلقمة کانّمااعان علی قتل الانبیاء کلّهم ۔( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جس شخص نے کسی بے نمازی کی ایک لقمہ کے ذریعہ بھی مددکی گویااس نے تمام انبیاء کے قتل میں مددکی ہے ۔(۴)

____________________

. ۱)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ١۵

. ٢)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ١۵

۳)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ۱۵

۴)لئالی الاخبار/ج ۴/ص ۵١

۲۸۳

تارک الصلاة کے ساتھ کھاناپیناحرام ہے

قال صلی الله علیه وآله وسلم :من آکل مع من لایصلی کانّمازنیٰ بسبعین محصنة من بناته وامهاته وعماته وخالاته فی بیته الحرام ۔(۱) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص بے نمازی کے ساتھ کھاناکھائے ایساہے جیسے اس نے بیت الحرام میں اپنی ٧٠ /پاکدامن لڑکیوں اورماو ںٔ اورپھوپھی،خالہ اورچچی کے ساتھ زناکیاہو۔

بے نمازی کو غسل وکفن نہ دیں اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کریں

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من ترک الصلاة ثلاثة ایام فاذامات لایغسّل ولایکفّن ولایُدفنُ فی قبورالمسلمین ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص تین دن تک عمداً نمازترک کرتاہے اسے غسل وکفن نہ دیاجائے اوراسے مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن نہ کیاجائے ۔

نمازکوہلکاسمجھ کرترک یاضایع کرنے کاعذاب

وہ لو گ جونمازچندعلل واسباب(جنھیں ہم ذکرکریں گے )کی بنا پرنمازکوبہت ہی آسان اورہلکاسمجھتے ہیں اورنمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرتے ہوئے ،اس کے اداکرنے میں لاپرواہی کرتے ہیں ،نمازکی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ہیں ،اوراصلاًنمازنہیں پڑھتے ہیں یاایک دن پڑھتے ہیں اوردوسرے دن ترک کردیتے ہیں یاایک وقت پڑھتے اوردوسرے وقت کی قضاکردیتے ہیں اورقضاکی ہوئی نمازوں کوانجام دینے کی فکربھی نہیں کرتے ہیں اوراگرفکربھی کرتے ہیں توانھیں آئندہ سال تک کے لئے تاخیرمیں ڈال دیتے ہیں،یانمازکے آداب وشرائط کی رعایت نہیں کرتے ہیں ،یااہلبیت کی محبت کے بغیرنمازیں پڑھتے ہیں:

١۔ایسے لوگوں کے لئے الله کی طرف سے دنیامیں بھی عذاب ہے اورآخرت میں بھی انھیں دردناک عذاب میں مبتلاکیاجاے گااوراس کوئی نیک عمل بھی قبول نہیں کیاجائے گا۔ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:( وَکَاَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِرَبِّهَاوَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنٰهَاحِسَاباً شَدِیْدًا وَعَذَّبْنَاهَاعَذَابًانُکْرًا ) (۳) اورکت نی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے حکم خدا ورسول کی نافرمانی کی توہم نے ان کاشدیدمحاسبہ کیااورانھیں بدترین عذاب میں مبتلاکردیا۔

____________________

١)لسان المیزان /ج ٢/ص ٢۵١

۲)جامع الاخبار/ص ١٨٧

. ۳)سورہ طٔلاق /آیت ٨۔ ١٠

۲۸۴

قال رسول الله صلی الله علیه واله:من ترک الصلاة حتی تفوته من غیرعذرفقدحبط عمله ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص نمازکوبغیرکسی مجبوری کے ترک کردیتاہے اس کے تمام اعمال اس سے سلب کرلئے جاتے ہیں اوراسے اس کے بقیہ نیک کاموں پرکوئی اجرنہیں ملتاہے۔

٢۔ بے نمازی محمدوآل محمد کی شفاعت سے محروم رہے گا اوراسے حوض کوثرسے سیراب نہیں کیاجائے گا

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لیس منی من استخف بصلاتة ،لایردعلیّ الحوض لاوالله،ولیسمنی من شرب المسکراً،لایردعلیّ الحوض لاوالله (۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جواپنی نمازوں کے بارے میں بے توجہی ولاپرواہی کرتاہے اورخداکی قسم ایسا شخص میرے ساتھ حوض پرنہیں ہوگااوروہ شخص بھی میرے پاس حوض کوثرپرنہیں ہوگاجومسکرات کااستعمال کرتاہے۔

عن ابی بصیرعن ابی جعفرعلیه السلام قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاینال شفاعتی من استخف بصلاته ،لایردعلیّ الحوض لاوالله ۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جونمازکوہلکاشمارکرتاہے اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی اوروہ حوض کوثرپرمیرے پاس نہیں ہوگا۔

ابوبصیر سے مروی ہے:میں حضرت امام صادقکی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ امّ حمیدہ کی خدمت میں تسلیت پیش کرنے کیلئے پہنچا تو انھوں نے رونا شروع کردیا انھیں روتے ہوئے دیکھ کر میں بھی امام (علیه السلام)کی یاد میں رونے لگا اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا:اے ابوبصیر! اگر تم امام (علیه السلام)کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجو د ہوتے تو ایک عجیب منظر دیکھتے ، امام نے پروازروح سے قبل اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا : میرے تمام عزیزوں واقارب کومیرے پاس جمع کیا جائے ، کوئی ایساباقی نہ رہاجواس وقت نہ آیاہو،جب سب امام (علیه السلام)کی خدمت میں حاضر ہوگئے توامام صادق نے ان کی طرف نگاہ کر کے ارشاد فرمایا :انّّ شفاعت نالات نال مستخفاًبالصلاة نمازکوہلکاسمجھنے والے کوہرگزہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(۴)

____________________

.۱)بحارالانوار/ج ٧٩ /ص ٢٠٢

.۲)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

. ۳)اصول کافی/ج ۶/ص ۴۴٠

۴). من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

۲۸۵

بے نمازی دنیاوآخرت میں پندرہ مشکلوں میں گرفتارہوتاہے حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتی ہیں:ایک دن میں نے اپنے والدمحترم سیدالمرسلین حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) سے پوچھا : اے بابا جان ! ہروہ مرد اور عورت جو نمازپڑھنے میں لاپرواہی اور بے توجہّی استعمال کرتے ہیں اور نماز کو بہت آسان کام سمجھتے ہیں ان کی سزاکیاہے؟

ختم المرسلین نے جواب دیا: اے میری پارئہ جگر ! اگر کوئی مرد یا عورت نماز کو آسان کام سمجھتا ہے اوراس کے اداکرنے میں لاپرواہی استعمال کرتا ہے توایساشخص دنیا وآخرت میں ١ ۵ / مشکلوں میں گرفتار ہوتا ہے ،چھ مشکلیں دنیا میں ہی اس کودرپیش آتی ہیں اور تین مشکلوں میں مرتے وقت گرفتار ہوتا ہے اور تین مشکلیں قبر کے اندرواقع ہونگی اور تین مشکلوں میں اس وقت گرفتارہوگاجب اسے روز قیامت قبر سے بلند کیا جائے گا لیکن وہ مصبتیں جو دنیا ہی میں بے نمازی پرنازل ہوتی ہیں یہ ہیں:

یرفع الله البرکة من عمره ،یرفع الله البرکة من رزقه، یمحوالله عزوجل سیماء الصالحین من وجهه،کلّ عمل یعمله لایوج علیه،لایرتفع دعائه الی السماء، لیسله حظٌ فی دعاء الصالحین .

١۔خدااس کی عمرسے برکت کوسلب کرلےتاہے جس سے اس کس کی عمربہت کم ہوتی ہے.

٢۔خدوندعالم نمازترک والوں کے رزق سے برکت اٹھالیتاہے

٣۔( متقی اورپرہیز گارجیسے لوگوں کے چہرے شاداب ا ورنورا نی ہوتے ہیں اور)تارک الصلاة لوگوں کے چہروں پراکثراداسی رہتی ہے

۴ ۔بے نمازی کواپنے دیگر نیک اعمال پرکوئی اجروثواب نہیں ملتاہے(جس طرح کسان کواپنی زمین کی سنچائی کئے بغیرکوئی چیزدستیاب نہیں ہوتی ہے چاہے وہ اس میں کت نے ہی کام کرتارہے اسی طرح بے نمازی اس کے کسی اچھے کام پرکوئی اجرنہیں ملتاہے چاہے کت نے ہی نیک کام انجام دیتارہے

۵ ۔الله کی بارگاہ میں اس کی دعائیں مستجاب نہیں ہو تی ہیں بلکہ اس کی بارگاہ میں اسی کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں جوواجبات کواداکرتاہے۔

۶ ۔بے نمازی متقی وپر ہیز گا ر لوگوں دعاؤمیں کوئی حصہ نہیں رکھتاہے اگروہ بے نمازی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں تو خداان کی دعاؤں کوہرگزقبول نہیں کرتاہے ۔ اوروہ تین عذاب جو احتضار کے وقت بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں یہ ہیں:

۲۸۶

انّه یموت ذلیل، یموت جائعا،یموت عطشانا،فلوسقی من انهارالدنیالم یروِّعطشه .

١۔مومن اورصالح افرادعزت کی موت مرتے ہیں لیکن بے نمازی لوگ ذلّت کی موت مرتے ہیں

٢۔بھوک کے عالم میں بے نمازی کی روح قبض ہوتی ہے

٣۔مرتے وقت بے نمازی کو اس قدر پیاس لگتی ہے کہ اگرپوری دنیا کے دریا وسمندر کاپانی بھی اسے پلادیاجائے پھر بھی سیراب نہیں ہوسکتاہے۔ اور وہ تین عذاب جوعالم برزخ میں بے نمازی پرنازل ہوتے ہیں یہ ہیں:

یوکل الله به ملکاً یزعجه فی قبره ، یضیق علیه قبره ، تکون الظلمة فی قبره .

١۔ خدا وند عالم ایک فرشتہ کو اس کی قبر میں موکل کرتاہے جو اسے روزقیامت تک عذاب و شکنجہ دیتا رہے گا۔

٢۔جب تمام لوگ اسے ت نگ کوٹھری میں بند کرکے اپنے گھروں کوواپسچلے جاتے ہیں تواس کی وہ قبراوربھی زیادہ ت نگ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے نمازی فشار قبر میں مبتلا ہوتاہے ۔

٣۔اسکی قبر میں اندھیراہی اندھیراہوتاہے ۔ وہ تین عذاب جوروزمحشر قبرسے بلندہوتے وقت بے نمازی پر نازل ہونگے یہ ہیں:

ان یوکل اللهملکایسبحه علی وجهه والخلائق ینظرون الیه ، یحاسب حساباشدیداً ، لاینظرالله الیه ولایزکیه وله عذاب الیم

١۔ ایک فرشتہ حکم خدا سے بے نمازی کو زمین پر پیٹ کے بل لٹاکرکھینچ کر خدا کے سامنے لا ئے گا اور تمام مخلوق اس کا نظا رہ کرتی ہو گی۔

٢۔ اس کابہت ہی سخت حساب لیا جائے گا۔

٣۔ خدا وند متعال اسے رحمت کی نگاہوں سے ہرگزنہیں دیکھے گا اوروہ پاک نہیں ہوسکتاہے اور اس کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(۱)

آپ حضرات اس طولانی حدیث میں بے نمازی اورنمازکوہلکاسمجھنے والے اورنمازکوضایع کرنے والے لوگوں پردنیاوآخرت میں نازل ہونے عذاب سے مطلع ہوئے لیکن بے نمازی پردنیامیں نازل ہونے عذاب سے متعلق یہ دوواقعہ بھی قابل ذکر ہیں:

____________________

. ۱) فلاح السائل /ص ٢٢ ۔بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ١٢١ ۔ ١٢٢

۲۸۷

١۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں تاریخ میں ملتاہے کہ آپ ایک مرتبہ کسی دیہات میں کے قریب سے گذررہے تھے تودیکھاکہ وہ دیہات بہت ہی سبزوشاداب ہے اور اس کے پاس سے پانی کی نہریں بھی گزررہی ہیں ،وہاں کے لوگوں نے آپ کابہت اچھااستقبال کیا اوران کی بہت عمدہ مہمان نوازی کی حضرت عیسیٰ ان کے اس حسن سلوک اورخوش اخلاقی کودیکھ کربہت زیادہ متعجب ہوئے،اتفاقاًتین سال کے بعدپھردوبارہ حضرت عیسیٰ کاوہاں سے گذرہواتودیکھاکہ وہ تمام ہرے بھرے باغ ا وردرخت، پانی کی نہریں اورچشمہ سب خشک ہوچکے ہیں ،حضرت عیسیٰ اس قریہ کی یہ حالت دنگ رہ گئے اورنہایت تعجب کے ساتھ اپنے پروردگارسے کہا: بارالٰہا!ات نی کم مدت میں یہ سب کیاہوگیاہے یہ آبادی کیوں بربادہوگئی ہے ؟ وحی الٰہی نازل ہوئی :اے عیسیٰ !ٰاس قریہ کی تباہی کی وجہ یہ ہےکہ ایک بے نمازی جب اس قریہ میں پہنچااور اس نے قریہ کے چشمہ کے پانی سے اپنامنہ ہاتھ دھویاتواس بے نمازی کی نحوست سے یہ پوراگاؤں ویران ہوگیا،زمین سے چشموں پانی کانکلنابندہوگیا،دریاکی روانی رک گئی اوراے عیسیٰ سنو!جس طرح ترک نمازکی وجہ سے دین تباہ ہوجاتاہے اسی طرح ترک نماز کی وجہ سے دنےا بھی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔(۱)

٢۔ ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچااورکہا:یارسول الله!میں مالدارشخص تھالیکن میں اس وقت بہت ت نگدست ہوچکاہوں،آنحضرت نے فرمایا:کیاتم نمازنہیں پڑھتے ہو؟عرض کیا:میں پانچوں وقت کی نمازیں اپ ہی کے ساتھ اداکرتاہوں،آنحضرت نے پوچھا: کیاتم روزہ نہیں رکھتے ہو؟جواب دیا:میں سال میں تین ماہ( رجب شعبان رمضان )کے روزے رکھتاہوں،آنحضرت نے پھرسوال کیا:کیاتم امرکونہی اورنہی کوامرقراردیتے ہو؟عرض کیا:نہیں یارسول الله !.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:پھرتم ایسا کونسا گناہ انجام دیتے ہو؟ عرض کیا:اے الله کے رسول !میں کے خداو رسول کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتاہوں،یہ بات سن کرآنحضرت نہایت تعجب کے ساتھ گہری فکرمیں مبتلاہوگئے ، پروردگارکی جانب سے جبرئیل امین نازل ہوئے اورکہا:

یارسول الله! خداآپ پردرودوسلام بھیجتاہے اورفرماتاہے:اس شخص سے کہدیجئے کہ تیرے فقیروت نگدست ہوجانے کی وجہ یہ ہے کہ تیرے گھرکے برابرمیں ایک باغ ہے جس میں ایک درخت پرچڑیاکاگھونسلہ ہے اوراس گھونسلہ میں ایک بے نمازی کی ہڈی رکھی ہوئی ہے جسکی نحوست کی وجہ سے یہ شخص فقیرہوگیاہے ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے الله تبارک وتعالیٰ کے اس پیغام کواس شخص سے بیان کیا،وہ شخص باغ میں گیااور ہڈی کوگھونسلہ سے نکال کر اپنے گھرسے دورکسی جگہ پرپھینک آیااس کے بعدوہ شخص دوبارہ مالدارہوتاگیا۔(۲)

____________________

.۱)شناخت نماز/ص ١٧۵

. ٢)شناخت نماز/ص ١٧۵

۲۸۸

دنیامیں چارقسم کے مسلمان ہیں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت میں چارقسم کے لوگ ہیں: ١۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جوہمیشہ نمازپڑھتے ہیں مگراپنی نمازوں میں غفلت اورسستی کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے خداکی طرف ایک عذاب معین ہے جسکانام ویل ہے (ویل جہنّم کے ایک کنوے کانام ہے) جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:

( فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَ الَّذِ یْنَ هُمْ عَن صَلاَ تِهِمْ سٰاهُونَ ) (۱)

ویل جہنم میں ایک تباہی کی جگہ ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔

٢۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کبھی نماز پڑھتے ہیں اور کبھی ترک کردیتے ہیں ،ایسے لوگوں کواہل غی کہا جاتاہے اورغی جہنم کے کنوں میں ایک کنواں کانام ہے ،خدا وندمتعال اس گروہ کے بارے میں قرآنکریم میں ارشادفرماتا ہے:

( فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ اَضٰا عُو االصَّلٰو ةَ وَ اتَّبِعُو االشَّهَوٰ تِ فَسَوفَ یَلْقُونَ غَیا ) (۲)

پھر ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔

٣۔ دنیامیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جوہر گز نماز نہیں پڑھتے ہیں ، ایسے لوگوں کو“اہل سَِقَرْ” کہا جاتاہے ، سَقَرْ بھی جہنم کے ایک کنوے کانام ہے ، خداوند متعال بے نمازی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم ارشادفرماتاہے:

( یَتَسَائَلُونَ عَنِ اْلمُجَرَ مِیْن مٰاسَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَا لُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ) (۳) اہل سقرسوال کیاجائے تمھیں کس چیز نے سقرمیں پہنچا یا ہے ، وہ کہیں گے کہ ہم نمازنہیں پڑھتے تھے ۔

۴ ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور نماز میں حضورقلب رکھتے ہیں یہ لوگ اہل بہشت ہیں جن کے مقام کے بارے میں خداوندعالم ارشادفرماتاہے:

( قَدْ اَ فْلَحَ المُومِنُونَ الَّذِ یْنَ هُمْ فِی صَلاٰ تِهِمْ خٰشِعُونَ ) (۴)

یقیناً صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع وحضورقلب رکھتے ) ہیں۔(۵)

____________________

١)سورہ ماعون /آیت ۴۔ ۵

. ٢)سورہ مٔریم/آیت ۵٩..

٣)سورہ مٔدثر/آیت ۴٢ ۔ ۴٣

۴)سورہ مٔومنون/آیت ١۔ ٢

۵)شناخت نماز/ص ٧۶

۲۸۹

گناہگار لوگ مومنین کے وجودسے زندہ ہیں

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب خداوندعالم اپنے تمام بندوں کے افعال وکردارسے بخوبی واقف ہے توپھران سب گناہگاروں کوزندہ رکھے ہوئے اورانھیں رزق وروزی کیوں عطاکرتاہے ؟

گناہگارر لوگ کیوںزندہ ہیں اورکیوں رزق وروزی پاتے ہیں مندرجہ ذیل احادیث اورواقعات سے یہ واضح ہوجائے گاکہ گناہگارلوگ مومنین کے طفیل سے رزق وروزی پاتے ہیں اورانھیں کے طفیل سے زندہ بھی ہیں اگردنیاسے مومنین کاوجودختم ہوجائے توپوری دنیاتباہ ہوجائے گیقال رسول الله صلی الله علیه وآله :ان اللهجل جلاله اذارا یٔ اهل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیهاثلاثة نفرمن المومنین ناداهم جل جلاله وتقدست اسمائه:یااهل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتهم ارضی ومساجدی والمستغفرین بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:

اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔

قال الله تعالٰی: یااهل معصیتی لولاشیوخ رکّع وشابٌ خشّعٌ وصبیان الرضع وبهائم رتّع لصببت علیکم العذاب صبّةً ۔(۲)

حدیث قدسی شریف میں آیا ہے کہ خداوند متعال فرماتا ہے : اے گنا ہگا ر انسانو ! اگر رکوع کرنے والے ضعیف لوگ نہ ہوتے اور گریہ وزاری کرنے والے جوان نہ ہوتے ، شیرخوار بچے نہ ہو تے اورعلف خوار چوپائے وغیرہ نہ ہوتے تو تمہارے گنا ہوں کی وجہ سے ضرور تم پر کوئی عذاب نازل کردیتا ۔

____________________

. ١ )علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢

۲)عرفان اسلامی/ج ۵/ص ٧٨

۲۹۰

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ اللهلیدفع بمن یصلی من شیعت ناعمّن لایصلی من شیعت ناولواجتمعواعلی ترک الصلاة لهلکوا ۔(۱)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خداوندعالم ہمارے شیعوں میں سے ایک نمازی کے طفیل سے بے نمازی شیعوں پرنازل ہونے والی بلاؤں کودورکرتاہے اور اگر تمام شیعہ نماز کو ترک کرنے میں متحدہو جائیں اور سب کے سب بے نمازی بن جائیں تو اس وقت تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔

اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ بے نمازی شیعہ بلکہ پوری دنیاکے گناہگارلوگ شیعہ نماز گزاروں کے وجود کی برکت سے زند ہ ہیں اور انھیں کے طفیل میں رزق وروزی حاصل کرتے ہیں ۔

تفسیرنورالثقلین میں لکھاہے کہ: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)-نمازجمعہ کاخطبہ پڑھ رہے تھے کہ اسی وقت ملک شام سے دحبہ کٔلبی کاایک تجارتی قافلہ بڑے سازوسنگیت کے ساتھ شہر مدینہ میں داخل ہوااورلوگوں کوخریداری کے لئے اعلان کرنے لگا،اہل مدینہ اس کارواں کے طبل کی آوازسن کر خریداری کے لئے اپنے گھروں سے باہرنکل آئے یہاں تک کہ جومسلمان مسجدمیں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے خطبہ سن رہے تھے ،بارہ افرادکے علاوہ سبھی لوگ نمازجمعہ کو چھوڑکرمال وآذوقہ اور کھانے پینے کی اشیاء وگندم وغیرہ خریدنے کے لئے دوڑپڑے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے خطبہ کے درمیان میں ارشادفرمایا: لولاہو لٔاء لسومت علیہم الحجارة من السماء اگریہ بارہ لوگ بھی نمازکوچھوڑکر مسجدسے باہرچلے جاتے توخداوندعالم نمازچھوڑکرچلے جانے والے لوگوں پرآسمان سے پتھروں کی بارش کردیتا اسی موقع پریہ آیہ مٔبارکہ نازل ہوئی:

( اِذَارَاَوْتِجَارَةً ا ؤْلَهْوًاانْفَضُّوْااِلَیْهَاتَرَکُوْکَ قَائِمًا، قُلْ مَاعِنْدَاللهِ خَیرٌ مِنَ اللَّهْوِوَمِنَ التِّجَارَةِ ،وَاللهُخَیْرٌالرَّازِقِیْنَ ) (۲)

اے پیغمبر!یہ لوگ جب تجارت یا لہوولعب کودیکھتے ہیں تواس کی طرف دوڑپڑتے ہیں اورآپ کوت نہا چھوڑکرچلے جاتے ہیں،آپ ان سے کہہ دیجئے کہ خداکے پاس جوکچھ بھی ہے وہ ) اس کھیل وتجارت سے بہرحال بہترہے اوروہ بہترین رزق دینے والاہے۔(۳)

____________________

.۱)تفسیرالمیزان /ج ٢/ص ٢٩۵

.۲)سورہ جٔمعہ/ آیت ١١

. ٢)تفسیرنورالثقلین/ج ۵/ص ٣٢٩

۲۹۱

حضرت امام علی رضاکے ایک صحابی جوکہ قم المقدس میں زندگی بسرکرتے تھے ایک دن قم سے امام (علیه السلام)کی خدمت میں پہنچے اورعرض کیا:اے فرزندرسول ! میں شہرقم کو چھوڑکرکسی دوسری جگہ جاناچاہتاہوں کیونکہ اس شہرمیں نادان اورگناہگارلوگ بہت زیادہ ہیں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:

تم ایساہرگزنہ کرناکیونکہ تمھارے احترام کی وجہ سے قم کے لوگوں سے بلائیں دورہوتی ہیں،جس طرح حضرت موسیٰ کے وجود کی خاطر اہل بغدادکے سروں سے بلائیں ) دورہوتی تھیں۔(۱)

نمازکے ترک وضائع کرنے کی اسباب

جب نمازکامقام اتنازیادہ بلندہے کہ وہ دین کاستون ہے اورہرمسلمان جانتاہے کہ الله کی طرف سے ہم پرنمازکوواجب قراردیاگیاہے اورانسان اس چیزسے اچھی طرح واقف ہے کہ نمازپڑھنے سے ہماراہی فائدہ ہے اوریہ بھی جانتے ہیں کہ نماز کثیرفضائل وکمال کی مالک ہے اورنمازکے بہت زیادہ فوائدہیں توانسان ان تمام چیزوں کوجاننے کے با وجود نمازسے دورکیوں بھاگتاہے یااسے بے اہمیت جان کرکبھی پڑھتاہے اورترک کردیتاہے یااول وقت ادانہیں کرتاہے یاوقت گزرجانے کے بعدقضاکی صورت میں پڑھتاہے؟۔

اس کے چندعلل واسباب ہیں کہ جنھیں ہم نے قرآن احادیث کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوششکی ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔لہوولعب اورکاروبارتجارت کی رغبت

دنیامیں ایسے لوگ بہت زیادہ پائے جاتے ہیں جوکھیل کود،کرکٹ ،فٹبال ہاکی میچ کھیلنے یادیکھنے کی وجہ سے نمازکواہمیت نہیں دیتے ہیں اوراسے ترک کردیتے ہیں یاتاخیرسے اداکرتے ہیں اوربعض لوگ ایسے بھی ہیں جوکاروبارکی تجارت اورخریدفروش کی وجہ سے نمازکواہمیت نہیں دیتے ہیں یہاں تک کہ کھیل کوداورتجارت کی وجہ سے نمازجماعت کوچھوڑکربھاگ جاتے ہیں یافرادی پڑھ کرمسجد سے خارج ہوجاتے ہیں جیساکہ آپ نے گذشتہ صفحہ پر نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے خطب ۂ نمازجمعہ کے دوران کاواقعہ ملاحظہ فرمایا کہ

____________________

. ۱)نماز،وحکایتہاوروایتہا/ص ٢٠

۲۹۲

بارہ افراد کے علاوہ سبھی لوگ نماز جمعہ چھوڑ کرمال وآذوقہ اور کھانے پےنے کی اشےاء خرےدنے کے لئے دوڑپڑے تھے اورنمازکوکوئی اہمیت نہ دی تو رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے خطبہ کے درمیان میں ارشادفرمایا:

لولاهو لٔاء لسومت علیهم الحجارة من السماء

اگریہ بارہ لوگ بھی نمازکوچھوڑکر مسجدسے باہرچلے جاتے توخداوندعالم نمازچھوڑکرچلے جانے والے لوگوں پرآسمان سے پتھروں کی بارش کردیتااور اسی وقت یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی:

( اِذَارَاَوْتِجَارَةً ا ؤْلَهْوًاانْفَضُّوااِلَیْهَاتَرَکُوْکَ قَائِمًا ) (۱)

اے پیغمبریہ لوگ جب تجارت اورلہوولعب کودیکھتے ہیں تواس کی طرف دوڑپڑتے ہیں اورآپ کوت نہاکھڑاچھوڑدیتے ہیں اپ ان سے کہہ دیجئے کہ خداکے پاس جوکچھ بھی ہے وہ اس ) کھیل اورتجارت سے بہترہے اوروہ بہترین رزق دینے والاہے۔(۲)

حضرت علیفرماتے ہیں :الله کے نزدیک کوئی بھی عمل نمازسے بہترنہیں ہے پس دنیاکاکوئی بھی کام تمھیں اول وقت نمازپڑھنے سے نہ روکے کیونکہ خداوندعالم ان لوگوں کی ملامت وسرزنشکرتے ہوئے ارشادفرماتاہے :( اَلَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ )

تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جواپنی نمازوں کواول وقت پڑھنے سے غافل رہتے ہیں۔(۳)

ایک صحابی رسول جوپنجگانہ نمازوں کونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے جماعت سے اداکرتے تھے اوربہت زیادہ ت نگدست رہتے تھے مگرجب الله کی جانب سے عطاکردہ درہم کے ذریعہ انھوں نے تجارت شروع کی تواس کاانجام کیاہواوہ آپ امام (علیه السلام) سے منقول اس حدیث میں ملاحظہ کریں:

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ایک صحابی جن کانام سعدتھا،وہ متقی وہیزگار تھے،اورآپ کا شماراصحاب صفہ ( ۴) میں ہوتاتھا، وہ روزانہ تمام پنجگانہ نمازوں کو پیغمبر کے ساتھ جماعت سے اداکرتے تھے اورکسی بھی نماز جماعت میں غائب نہیں ہوتے تھے لیکن فقیرو ت نگدست ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ غمگین رہتے تھے ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بھی سعد کی فقروت نگد ستی کو دیکھ کرغمگین رہتے تھے اور سعد سے کہتے تھے: مجھے امیدہے کہ ایک دن خداوندعالم تمھیں ہرچیزسے بے نیاز کردے گا ۔

____________________

١)سورہ جٔمعہ/ آیت ١١

. ٢)تفسیرنورالثقلین/ج ۵/ص ٣٢٩

. ٣)بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ٢١

۲۹۳

ایک دن جبر ئیل امین درہم کے دوسکہ لے کرپیغمبرپرنازل ہوئے اورکہا : اے محمد! خدائے عزوجل جانتا ہے کہ آپ سعدکی ت نگد ستی کی وجہ سے غمگین رہتے ہیں،کیا آپ اسے ت نگدستی سے بے نیاز کرنا چا ہتے ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا : ہاں ،تو جبرئیل نے کہا : یہ دو درہم لیجئے اور انھیں سعد کوعطا کر دیجئے اور کہیں کہ وہ ان دو درہم کے ذریعہ تجارت شروع کرے آنحضرت نے جبرئیل سے دو درہم لئے اور نماز ظہر کے لئے جیسے ہی گھر سے با ہر نکلے تو دیکھا کہ سعد مسجدمیں جانے کے لئے آپ کی انتظار میں کھڑے ہیں ، آنحضرت نے کہا:

اے سعد ! کیا تم تجارت کرنا چا ہتے ہو ؟ عرض کیا : ہا ں یا رسول الله! لیکن میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جسکے ذرےعہ تجارت کرسکوں

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے سعد کو دو درہم عطا کئے اور کہا : ان کے ذریعہ تجارت شروع کرو ، سعد درہم لے کر آنحضرت کے ہمراہ مسجد گئے اور نمازظہرین باجماعت اداکی ، جب نماز سے فارغ ہوگئے توآنحضرت نے فرمایا:

اے سعد !اٹھو اور کسب روزی کے لئے حرکت کرو کیونکہ میں تمھاری ت نگدستی کی وجہ سے غمگین رہتاتھا،سعد خدا کی طرف سے بھیجے گئے دو درہم کے ذریعہ کسب روزی وتجارت میں مشغول ہوگئے ،کچھ ہی دن گزرے تھے کہ سعد کی زندگی میں بہار آگئی اور آہستہ آہستہ کاروبارتجارت میں رونق آتی گئی یہاں تک کہ ایک دن سعد نے مسجد کے درواز ے کے پاس ہی اپنی دکان کا افتتا ح کیا اور خرید وفروش میں مشغول ہوگئے سعدجوکہ روزانہ نمازپڑھنے کے لئے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ہمراہ مسجدجایاکرتے تھے مگرجب سے دوکانداری میں مصروف ہوئے ہیں آہستہ آہستہ اول وقت مسجدمیں جانابندکردیا،جب نمازوقت شروع ہوتاتھاتوبلال اذان دیاکرتے تھے ،اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجد میں آتے تھے تودیکھتے تھے کہ سعد دوکانداری میں مشغول ہیں اور وضو کر کے نماز کے لئے مسجدمیں نہیں آئے ہیں لہٰذاسعد سے کہتے تھے: اے سعد ! دنیا نے تمھیں مشغول کردیا ہے اور اول وقت نماز پڑھنے سے روک دیا ہے توسعدجواب دیتے تھے : یا رسول الله! کیا کروں دوکان میں نہ میراکوئی شریک ہے اورنہ کوئی شاگردہے اور یہ ایساوقت ہے کہ جب چیزوں کی بکری زیادہ ہوتی ہے اگر ایسے موقع پردوکانداری کوچھوڑکر نمازکے لئے مسجدجاؤں تویہ سب مال اسی طرح پڑارہے گااورپھرخراب بھی ہو جائے گااور یہ شخص جومال لے کرآیاہواہے اس سے چندچیزیں خریدی ہیں اورابھی اس کوپیسہ بھی نہیں دیاہے لہٰذامیں تھوڑی دیرکے بعدنمازپڑھوں گا(سعداسی طرح روزانہ کوئی بات کہہ دیاکرتے تھے )۔

۲۹۴

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سعدکی اول وقت عبادت سے غافل ہو جا نے کی وجہ سے بہت رنجیدہ رہنے لگے ، جب سعد ت نگدست تھے تو اتنا غمگیں نہیں تھے جت نا اب اس کے نماز کو تا خیر سے اور بغیر جماعت کے پڑھنے سے رنجیدہ رہتے ہیں پس ایک دن جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا:

اے الله کے نبی! الله تمھاری افسردگی سے با خبر ہے، تم سعد کی کس طرح کی زندگی پسندکرتے ہو، فی الحال کی زندگی پسند کرتے ہو یا پہلے جیسی فقیری کی زندگی ؟ آنحضرت نے فرمایا : مجھے سعد کی پہلی والی ہی زندگی پسند ہے کیونکہ اس کی دنیا نے اس کی آخرت کو تبا ہ کردیا ہے، جبرئیل نے کہا : مال ودنیا کی محبت ایک ایسا فت نہ ہے جو انسان کو یا د خداوآخرت سے غافل کردیتی ہے پس اب جب تمھیں سعد کی پہلی والی ہی زندگی پسند ہے تو سعدسے وہ دونوں درہم واپسلے لیجئے۔ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) سعدکے پاس آئے اورکہا : اے سعد ! کیا تم وہ درہم واپس نہیں کرو گے جومیں نے تمھیں عطاکئے تھے ؟ سعد نے عرض کیا :اب میراکاروبارات نے عروج اورترقی پرہے کہ میں آپ کوان دو درہم کے ساتھ دوسو درہم اضافہ کرکے دے سکتا ہو ں، آنحضرت نے فرمایا: تم مجھے صرف وہ دودرہم واپس کردیجئے اورمیں ان کے علاوہ کوئی دورہم نہیں لیناچاہتاہوں،سعد نے دو درہم واپس کردئے، ابھی کچھ دن نہ گزرے تھے کہ سعد کے کا رو با رتجارت کی رونق ختم ہوگئی اور آہستہ آہستہ پہلے جیسی حالت واپس آگئی اور سعد پہلے ) کی طرح اذان سے پہلے مسجد میں جانے لگے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔(۱)

٢۔جنسی تمایل اورخواہشات نفسانی کی پیروی

وہ چیزیں جونمازکوضایع کرنے اورہلکاسمجھ کرترک کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں ان میں ایک جنسی تمایل اورخواہشات نفسانی کی پیروی کرناہے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ هِمْ خَلْفٌ اَضَاعُواالصَّلٰوةَ وَاتَّبِعُواالشَّهَوٰتِ فَسَوفَ یَلْقُونَ غَیّاً ) (۲) پھر ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنھوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔

____________________

.۱)حیاة القلوب /ج ٢/ص ۵٧٧ ۔ ۵٧٨

۲) سورہ مٔریم/آیت ۵٩

۲۹۵

٣۔نمازکوہلکاسمجھنا

نمازکے ذریعہ الله کی طرف سے کسی رحمت ونعمت کے نازل ہونے پراعتقادنہ رکھنااوراس کی عظمت وارزش کو درک نہ کرنا،اسے حقیروناچیزشمارکرنا،نمازکواپنے اوپرایک بوجھ محسوس کرنایاایک دن پڑھنااورایک دن ترک کردینا،یاایک وقت پڑھ لینااوردوسرے وقت کی ترک کردینایہ سب نمازکوترک یاضایع کرنے کے سبب واقع ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے الله کی طرف سے دنیامیں بھی عذاب نازل ہوتاہے اورآخرت میں بھی ان لوگوں کے لئے سخت عذاب معین کیاگیاہے ،اس بارے میں معصومین کی چندروایت ذکرکرچکے ہیں۔

۴ ۔گناہ کبیرہ کامرتکب ہونا

ہم نے نمازکے فضائل وفوائدبارے میں اس آیہ مبارکہ کوذکرکیاتھا:( اَقِمِ الصَّلاةَاِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰهی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُونَ ) (۱)

نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔

جس طرح نماز انسان کو فحشاء ومنکرات سے دور رکھتی ہے اس کے برعکس فحشاء ومنکرات بھی انسان کو نماز وروزہ سے دورکھتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے کہ نماز تو انسان کو فحشاء ومنکرات سے دوررکھے اور فحشاء ومنکر ات انسان کو نماز سے نہ ر کھے ،اگر نماز انسان کو گنا ہوں سے باز رکھتی ہے تو گنا ومعصیت بھی انسا ن کو نماز سے دور رکھتے ہیں اوراگرگناہگارانسان نمازپڑھتابھی ہے تووہ نمازکوبے توجہی کے ساتھ اورفقط ایک واجب کو گر دن سے رفع کرنے کے لئے پڑھتا ہے ،ایسے شخص کو اپنی نمازوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ اسے اہل نماز کہا جاتاہے ۔

____________________

. ١)سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵

۲۹۶

گناہوں کامرتکب ہونے والاشخص گناہوں کے عذاب وعقاب سے بھی نہیں ڈرتاہے اورشیطان پوری طرح اس پرغالب ہوجاتاہے جس کی وجہ سے وہ گناہوں کوانجام دیناہی اپنی زندگی سمجھتاہے اور ایسا شخص نمازپڑھنے کی فکربھی نہیں کرتاہے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوااِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَیْسَرُوَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْت نبُوهُ لَعَلَّکُم تُفْلِحُونَ، اِنَّمَایُرِیْدُالشَّیْطَانُ اَنْ یُوقَعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةوَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِوَالْمَیْسَرِوَیَصُدُّکُمْ عَنِ ) ذِکْرِاللهِوَعَنِ الصَّلٰوةِ فَهَلْٰ اَنْتُمْ مُنْتَهُونَ ) ۔(۱)

اے ایمان والو!شراب ،جوا،بت،پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذاان سے پرہیزکروتاکہ کامیابی حاصل کرسکو،شیطان توبسیہی چاہتاہے کہ شراب اورجوے کے بارے میں تمھارے درمیان بغض وعداوت پیداکردے اورتمھیں یادخدااورنمازسے روک دے توکیاتم واقعاًرک جاؤگے ۔

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:( قُلْ اَنْفِقُوْاطَوْعًااَوْکَرْهًالَنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًافَاسِقِیْنَ،وَمَامَنَعَهُمْ اَنْ یُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ اِلّااَنَّهُمْ کَفَرُوْابِاللهِ وَبِرَسُوْلِهِ وَلَایَاتُوْنَ الصَّلٰوة اِلّاوَهُمْ کُسَالٰی وَلَایُنْفِقُوْنَ اِلّاوَهُمْ کٰرِهُوْنَ ) (۲)

(اے رسول!)ان سے کہدیجئے کہ تم بخوشی خرچ کرویاجبراًتمھاراعمل قبول ہونے والانہیں ہے کیونکہ تم ایک فاسق قوم ہو اوران کے نفقات کوقبول ہونے سے صرف اس بات نے روک دیاہے کہ انھوں نے خداورسول کاانکارکیاہے اوریہ نمازکوبھی سستی اورکسلمندی کے ساتھ بجالاتے ہیں اورراہ خدامیں کراہت اورناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔

تعقیبات نماز

تسبیح حضرت فاطمہ زہرا انسان جیسے ہی نمازسے فارغ ہوتواسے محل نمازسے فوراًبلندنہیں ہوناچاہئے بلکہ اسی جگہ پر تورک کی حالت میں بیٹھے ہوئے تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھے، نمازکے بعد سب سے بہترین تعقیب تسبیح حضرت فاطمہ ہے اورروایتوں میں تسبیح حضرت فاطمہ زہرا ) کی تاکیدکی گئی ہے اور فضیلت بھی بیان کی گئی ہے:(۳)

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ/آیت ٩٠ ۔ ٩١

. ٢)سورہ تٔوبہ /آیت ۵٣ ۔ ۵۴

۳)کافی /ج ٣/ص ٣۴٢ ۔تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١٠۵

۲۹۷

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص واجب نمازوں کے بعداس سے پہلے کہ اپنے دائیں پیرکوبائیں پیرکے اوپرسے ہٹائے تسبیح حضرت فاطمہ پڑھے توخداوندعالم اس کے تمام گناہوں کوبخشدیتاہے اوراس تسبیح کوتکبیرکے ذریعہ شروع کیاجائے ۔(۱) امام محمدباقر فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ سے افضل وبہترکوئی ایسی چیزنہیں ہے کہ جس کے ذریعہ خداوندعالم کی حمدوثناکی جائے،اگرتسبیح حضرت فاطمہ سے افضل کوئی تسبیح ہوتی توپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)اسی چیز کو اپنی لخت جگرکوبطورہدیہ عطا کرتے ۔

امام صادق فرماتے ہیں:اے ابوہارون!جس طرح ہم اپنے بچوں کونمازپڑھنے کاحکم دیتے ہیں اسی طرح تسبیح حضرت فاطمہ پڑھنے کابھی حکم دیتے ہیں ،تم بھی اسے پابندی کے ساتھ پڑھاکرو،حقیقت یہ ہے کہ جس بندہ نے بھی اس کی مداومت کی وہ کبھی کسی شقاوت اوربدبختی میں گرفتارنہیں ہواہے ۔(۲)

ابوخالدقماط سے مروی ہے : میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے :میرے نزدیک روزانہ ہرنمازکے بعدتسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھنا روزانہ ہزاررکعت (مستحبی)نمازیں پڑھنے سے زیادہ پسند ہے۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص خدائے عزوجل کا زیادہ ذکرکرتاہے توخدابھی اسے بہت دوست رکھتاہے اورجوشخص خداکابہت زیادہ ذکرکرتاہے اسے دوچیزوں سے نجات مل جاتی ہے ،ایک یہ کہ وہ شخص آتش جہنم سے نجات پاجاتاہےاوردوسرے یہ کہ اسے نفاق سے بھی نجات مل جاتی ہے۔(۴)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی اس حدیث میں ذکرکثیرسے کیاچیز مرادہے؟ اس بارے میں شیخ صدوق نے اپنی کتاب معانی الاخبارمیں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے امام صادق سے اس قول خداوندی یٰ( آاَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوااذْکُرُاللهَ ذِکْرًاکَثِیْرًا ) (۵) کے بارے میں معلوم کیا :آیہ مٔبارکہ میں ذکرکثیرسے مرادکیاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:من سبّح تسبیح فاطمة علیهاالسلام فقدذکرالله ذکراکثیر. جوشخص تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھتاہے وہ الله کاذکرکرتاہے وہ بھی ذکرکثیر ۔(۶) عن ابی عبدالله علیه السلام قال:تسبیح فاطمة الزهراء علیهاالسلام من الذکرالکثیرالذی قال الله عزوجل :اُذْکُرُاللهَ ذِکْرًاکَثِیْرًا امام صادق فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ زہرا اسی ذکرکثیرمیں سے ہے کہ جس کے بارے میں خداوندعالم قرآن کریم میں صاحبان ایمان کوحکم دیاہے ::اے ایمان والو!الله کاذکربہت زیادہ کیاکرو۔

____________________

.۱)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ ---.۲)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵ --- .۳)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۵

.۴)کافی /ج ٢/ص ۵٠٠ --.۵)سورہ أحزاب /آیت ۴٢ .-- ۶)معانی الاخبار/ص ١٩٣

۲۹۸

تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کانقطہ آغاز

تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کہ جس کے انجام دینے کے بارے میں احادیث میں ات نی زیادہ تاکیدکی گئی ہے اوراس کی فضیلت بیان کی گئی ہے ،اسے ذکرکثیرسے تعبیرکیاگیاہے اوراسے نمازکے بعدپہلی تعقیب کادرجہ دیاگیاہے ،سوال یہ ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاآغازکب اورکیسے ہواہے ؟اوراس کے انجام دینے کاطریقہ کیاہے؟ تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاآغازکب اورکیسے ہواہے اس بارے میں ہم دوروایت نقل کررہے ہیں:

پہلی روایت

شیخ صدوق نے اپنی کتاب “ من لایحضرہ الفقیہ ”میں حضرت علی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ: امام امیرالمومینن علی ابن ابی طالب +نے قبیلہ بنی سعدکے ایک شخص سے ارشادفرمایا:کیاتم یہ چاہتے ہوکہ میں تمھیں اپنے اورحضرت فاطمہ زہرا کے بارے میں کچھ بیان کروں؟(اسنے عرض کیا:ضروربیان کیجئے)امام(علیه السلام) نے فرمایا:سنو! میری زوجہ “فاطمہ زہرا ” میرے اوراپنے والدمحترم نزدیک اپنے اہل وعیال میں سب سے زیادہ محبوب تھیں،مگرآپ نے رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)کی لخت جگرہونے کے باوجود مشک میں اتناڈھویاہے کہ سینہ پربندمشک کے نشان پڑگئے تھے اورچکی میں اس قدراناج پیساہے کہ دستہائے مبارک میں گٹھاپڑگئی تھیں ،گھرمیں ات نی زیادہ جھاڑولگایاکرتی تھیں کہ لباس گردآلودہوجاتے تھے اوردیگ کے نیچے ات نی جلایاکرتی تھیں کہ آپ کے لباس کارنگ بدل گیاتھااوراپنے آپ کوگھرکے دیگرسخت کاموں میں بھی زحمت میں ڈالتی تھیں،ایک شب میں نے ان سے کہا:کت نااچھاہوتاکہ تم اپنے کاموں میں مددکے لئے اپنے والدمحترم کے پاس جاتی اوران سے ایک کنیزکاتقاضہ کرتی اوروہ خادمہ تمھاری مددکرتی حضرت فاطمہ زہرا اسی وقت بلندہوکراسی مقصدکی خاطر اپنے والدمحترم کے گھر پہنچی اورجیسے ہی گھرمیں داخل ہوئیں تودیکھاکہ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)کے پاس چندلوگ تشریف فرماہیں اورآنحضرت ان سے محوگفتگوہیں لہٰذاکچھ نہ کہااور اپنے گھرواپس آگئیں.

رسولخدا (صلی الله علیه و آله)کویہ محسوس ہواکہ ان کی لخت جگرکوئی حاجت لے کرآئی تھیں اورحاجت کے پوراہوئے بغیرہی واپس چلی گئی ہیں لہٰذارسول اسلام (صلی الله علیه و آله) صبح سویرے کہ ہم ابھی سورہے تھے ہمارے گھرتشریف لائے اورکہا:“السلام علیکم ” ہم آنحضرت کے سلام کوسنتے ہی بیدارہوگئے اور خاموش رہے (اوردل ہی دل میں سلام کاجواب دیا)ر

۲۹۹

سولخدا (صلی الله علیه و آله)نے دوسری مرتبہ کہا:“السلام علیکم ”ہم اس مرتبہ بھی خاموش رہے اوردل ہی دل میں سلام کاجواب دیا،جب تیسری مرتبہ سلام کیاتوہمارے دل میں یہ خوف پیداہواکہ اگراس مرتبہ ہم خاموش رہے اورکوئی جواب نہ دیاتوآنحضرتواپس چلے جائیں گے،کیونکہ آنحضرت نے تین مرتبہ سلام کیاتھالہٰذاہم نے تین بارآنحضرتکے سلام کاجواب دیااورکہا:یارسول الله!تشریف لائیے ،آنحضرت گھرمیں داخل ہوئے اورہمارے سرہانے بیٹھ گئے اورکہا:اے میری پارہ جٔگر!تم رات میں کوئی حاجت لے کرمیرے پاس آئی تھی ؟ حضرت علی کہتے ہیں کہ:میرے دل میں یہ خوف پیداہواکہ اگرہم نے الله کے منتخب شدہ رسول کے سوال کاجواب نہ دیااورنہ بتاکہ سیدہ عٔالم کسغرض سے ان کے پاس تشریف لے گئیں تھیں تووہ اٹھ کرچلے جائیں گے لہٰذامیں نے اپنے سرکوبلندکیااورعرض کیا: یارسول الله!میں آپ کو بتاؤں کہ آپ کی لخت جگرنے مشک کے ذریعہ گھرمیں اس قدرپانی لائی ہیں کہ سینہ پربندمشک کے نشان پڑگئے ہیں اورچکی میں اناج پیستے پیستے دستہائے مبارک میں گٹھاپڑگئی ہیں، گھرمیں ات نی زیادہ جھاڑولگاتی ہیں کہ لباس گردآلودہوجاتے ہیں اوردیگ کے نیچے آگ جلانے کی وجہ سے لباس کارنگ بدل گیاہے لہٰذامیں نے رات میں ان سے فرمائش کی کہ :کیابہترہوگاکہ تم اپنے باباکے پاس جاؤاورایک کنیزکی درخواست کروتاکہ وہ کنیزمشکل کاموں میں تمھاری مددکرسکے ،مولائے کائنات کی یہ بات سن کرپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:

ا فَٔلااَعلمکما ماهوخیرلکما من الخادم ؟ اذاخذتمامنامکمافسبحا ثلاثا وثلاثین ، واحمدا ثلاثا وثلاثین ، وکبّر اربع وثلاثین

یعنی کیاتم یہ چاہتے ہوکہ میں تمھیں ایک ایسی چیزبتاؤں جوتمھارے لئے خادمہ سے بھی بہترہو؟اوروہ یہ ہے کہ جب تم رات کوبسترپہ لیٹ جاؤتو/ ٣ ۴ مرتبہ ”الله اکبر” اور/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله”اور/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہو. حضرت فاطمہ زہرا نے سربلندکیااور کہا:

رضیتُ عن الله وعن رسوله ، رضیتُ عن الله وعن رسوله ، رضیتُ عن الله وعن رسوله. میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی ،میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی،میں خدااوراس کے رسول سے راضی ہوگئی ۔(۱)

____________________

.۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢١

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370