نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار10%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167141 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

دوسری روایت

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:چندغیرعرب ممالک کے بادشاہوں نے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں چندغلام وکنیزبطورہدیہ بھیجے تومیں نے حضرت فاطمہ زہرا سے فرمایا:تم اپنے بابارسولخدا (صلی الله علیه و آله)کے پاس جاؤاور ان سے ایک خادمہ کی درخواست کروتاکہ وہ گھرکے کاموں میں تمھاری مددکرسکے ،میری یہ بات سن کرحضرت فاطمہ زہرا اپنے باباحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچی اورآنحضرت سے ایک خادمہ کی درخواست کی ،آنحضرت نے فرمایا:

اُعطیک ماهوخیرلک من خادم ، ومن الدنیابمافیها ، تُکبّریْنَ الله بعدکلّ صلاة اربعا وثلاثین تکبیرة ، وتحمّدین الله ثلاثاوثلاثین تحمیدة ، وتسبّحین الله ثلاثاوثلاثین تسبیحة ، ثمّ تختمین ذلک بلاالٰه الّاالله ؛ وذلک خیرلک من الذی اردتَ ومن الدنیاومافیها . اے فاطمہ !میں تمھیں ایک ایسی چیزعطاکرتاہوں جوتمھارے لئے خادمہ اوردنیااور جوکچھ دنیامیں ہے سب سے بہترہے اوروہ یہ ہے کہ ہر نمازکے بعد/ ٣ ۴ مرتبہ “الله اکبر” اور/ ٣٣ مرتبہ“الحمدلله” اور/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہواوراس کے بعد“لٰااِلٰہِ الّاالله” کہو.اس کے بعدآنحضرت نے فرمایا:اے میری پارہ جٔگر! یہ کام تمھارے لئے جس کی تم نے درخواست کی ہے اوردنیااورجوکچھ دنیامیں ہے ان سب سے بھی بہترہے اس کے بعدحضرت فاطمہ زہرا ہرنمازکے بعداس تسبیح کوپڑھتی رہیں یہاں تک کہ یہ تسبیح ان کے نام سے منسوب ہوگئی۔(۱)

محمدابن عذافرسے مروی ہے :میں اپنے والدکے ہمراہ حضرت امام صادق کی خدمت میں پہنچا، میرے والدنے امام (علیه السلام)سے تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاطریقہ معلوم کیاتوامام (علیه السلام)نے فرمایا:“اَللهُ اَکْبَر”کہویہاں تک کہ اس ذکرکی تعداد / ٣٣ تک پہنچ جائے ،اس کے بعد“اَلْحَمْدُلله” کہویہاں تک کہ “اَللهُ اَکْبَر ” سمیت تعداد/ ۶ ٧ تک پہنچ جائے، اس کے بعد“سبحان الله” کہویہاں تک کہ تسبیح کی تعداد/ ١٠٠ تک پہنچ جائے،اورامام (علیه ) السلام) نے تینوں ذکرکوالگ ،الگ اپنے دستہائے مبارک پرشمارکیا۔(۲)

ابوبصیرسے مروی ہے کہ امام صادق فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ پڑھنے کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے / ٣ ۴ مرتبہ “الله اکبر” کہیں،اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله” اوراس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہیں۔(۳)

____________________

۱). دعائم الاسلام/ج ١/ص ١۶٨

۲)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۶

۳)کافی /ج ٣/ص ٣۴٢ )

۳۰۱

مفضل ابن عمرسے مروی ہے کہ امام صادق ایک طولانی حدیث میں ارشادفرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھاکروجس کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے / ٣ ۴ مرتبہ“ اَللهُ اَکْبَر ” کہواس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“اَلْحَمْدُ لله” کہواوراس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “ سُبْحَانَ الله ” کہو،خداکی قسم! اگرکوئی چیزتسبیح فاطمہ سے افضل وبرترہوتی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنی بیٹی کواسی کی تعلیم د یتے ۔(۱)

روایت میں آیاہے کہ:امام صادق کاایک صحابی آپ کی خدمت میں آیااورعرض کیا:اے فرزندرسولخدا!مجھے اپنے کانوں سے بہت ہی کم سنائی دیتاہے (پس مجھے اس کے علاج کے لئے کیاکرناچاہئے )؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: عَلَیکَ بِتسبیحِ فاطمة سلام الله علیہا.

تم تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھاکرو(ان شاء الله تمھیں صحیح آوازآنے لگے گی )اس صحابی نے امام (علیه السلام) سے کہا:آپ پر قربان جاؤں!یہ تسبیح حضرت فاطمہ کیاہے اوراس کے پڑھنے کاطریقہ کیاہے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: تسبیح حضرت فاطمہ کواس طرح پڑھناشروع کروکہ پہلے / ٣ ۴ مرتبہ “الله اکبر” اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله” کہو،اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہو۔

وہ صحابی کہتاہے کہ میں نے یہ تسبیح پڑھی ،ابھی پڑھے ہوئے کچھ دیرنہ گذری تھی ) کہ مجھے کانوں سے صاف دینے لگا ۔(۲)

دعا

لغت میں کسی کے پکارنے کودعاکہاجاتاہے اورقرآن واحادیث میں جہاں بھی لفظ دعا بصورت مصدر،ماضی ،مضارع ،امراستعمال ہواہے پکارنے میں دیتاہے جیساکہ آپ عنقریب ذکرہونے والی آیات کریمہ اوراحادیث معصومین میں ملاحظہ کریں گے لیکن اصطلاح میں کسی بلندمرتبہ ذات کی بارگاہ میں اس کی حمدوثنااورخضوع وخشوع کے ساتھ اپنی حاجتوں کے بیان کرنے اوران کے پورے ہونے کی تمناکرنے کودعاکہاجاتاہے۔

مدعو

وہ ذات کہ جسکی بارگاہ میں حاجتوں کوبیان کیاجائے اوران کے پوراہونے کی درخواست کی جائے اسے“ مدعو ”کہتے ہیں اورمدعوکو چاہئے کہ وہ ہرچیزسے بے نیازہو،کسی دوسرے کامحتاج نہ ہوبلکہ وہ تمام چیزوں کامالک ہو۔ خداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جوکسی کی محتاج نہیں ہے بلکہ وہ غنی مطلق ہے اورتمام زمین وآسمان کامالک ہے اورجوزمین وآسمان میں ہے ان سب کابھی مالک ہے جیساکہ قرآن کریم ارشادباری تعالیٰ ہے:

____________________

۱) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ۶۶

.۲)الدعوات /ص ١٩٧

۳۰۲

( لِلّٰهِ مَافِی السَّمَوَاتِ وَمَافِی الْاَرْضِ اِنّ اللهَ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْد ) (۱) جوکچھ زمین وآسمان میں ہے وہ سب الله کے لئے ہیں،بیشک الله صاحب دولت بھی ہے اورقابل حمدوثنابھی ۔

( اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ لَه مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ الله مِنْ وَّلِیٍّ وَلَانَصِیْرٍ ) (۲) کیاتم نہیں جانتے کہ زمین وآسمان کی حکومت صرف الله کے لئے ہے اوراس کے علاوہ تمھارانہ کوئی سرپرست ہے اورنہ کوئی مددگار۔

( وَاللهُ مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَهُمَا ) (۳)

خداوندعالم زمین وآسمان اورجوکچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے ان سب کامالک ہے ۔

مدعوکوچاہئے کہ وہ ہرانسان کواس کے نیک اعمال پراجروثواب عطاکرے اوران کی درخواستوں کوپوراکرے اورالله تبارک وتعالیٰ کی ذات وہ ہے جوکسی بھی شخص کے نیک عمل ضائع نہیں کرتاہے بلکہ اس پراجروثواب عطاکرتاہے اورنیک عمل کرنے والوں کی درخواست کوپورابھی کرتاہے۔

( فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَااُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثیٰ ) (۴) پُس خدانے ان کی دعاکوقبول کیاکیوں کہ میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہیں کروں گاخواہ وہ عامل مردہویاعورت ۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَمَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا ) (۵) یقیناًجولوگ ایمان لے آئے اورانھوں نے نیک اعمال کئے ،ہم ان لوگوں کے اجرکوضائع نہیں کرتے ہیں جواچھے اعمال انجام دیتے ہیں۔

( اِنَّ اللهَ لَایُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ ) (۶)

خداکسی بھی نیک عمل کرنے والے کے اجروثواب کوضائع نہیں کرتاہے ۔

____________________

. ١)سورہ لٔقمان/آیت ٢۶

. ٢)سورہ بٔقرہ/آیت ١٠٧

٣)سورہ مٔائدہ /آیت ١٧

۴)سورہ آٔل عمران/آیت ١٩۵

. ۵)سورہ کٔہف/آیت ٣٠

.۶)سورہ تٔوبہ /آیت ١٢٠

۳۰۳

اورحضرت علی دعائے کمیل میں ارشادفرماتے ہیں:ماهکذالظنُّ بِک ولا اُخبرنا بفضلک عنک یاکریمُ یاربِّ . تیرے وجودکی قسم !میں ہرگزیہ گمان نہیں کرتاہوں کہ تیری بارگاہ میں کوئی اجرضائع ہوتاہے اورکوئی بغیرکسی علت کے تیرے لطف وکرم سے محروم ہوتاہے اوراے کریم وپروردگار!ہمیں تونے اورتیرے کسی رسول نے یہ خبرنہیں دی ہے کہ تواجروثواب کوضائع کرتاہے ۔ مدعوکوچاہئے کہ جب وہ کسی کی درخواست کوپوراکرے تواس کے رحمت ونعمت کے خزانہ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہونے پائے ۔

اگرکوئی ذرہ برابربھی کارخیرانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کاثواب ضرور عطاکرتاہے ،خداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جواپنے بندوں کوعطاکرتاآرہاہے اور عطا کرتا رہے گا اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ نعمت میں نہ کوئی کمی آئی ہے اورنہ آسکتی ہے جیساکہ ہم لوگ قرآن کریم پڑھتے ہیں:

( اِنَّ هٰذَالَرِزْقُنَامَالَه مِنْ نِّفَاذٍ )

یہ ہمارارزق ہے جوختم ہونے والانہیں ہے ۔(۱)

داعی

جوشخص الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجتوں کوبیان کرتاہے اوران کے پوراہونے کی تمناکرتاہے اسے “داعی” کہتے ہیں۔

دعاکرنے کی اسی کوضرورت ہوتی ہے جومحتاج ونیازمندہو،جومشکل میں گرفتار ہو، جسے کسی چیزکے حاصل کرنے کی غرض ہواورجولطف و امداد کا خواہشمند ہو، اگردنیامیں لوگوں کی حالت پرنگاہ کی جائے تویہی معلوم ہوگاکہ دنیامیں ہرشخص امیر،غریب ،حکیم ،طبیب ،منشی ،وکیل ،شہری ،دیہاتی کاشتکار،دوکاندارکسی نہ کسی مشکل میں گرفتارہے ،کوئی اولادنہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہے ،کوئی اولادکے بگڑجانے کی وجہ سے پریشان ہے ،کسی کی ماں بیمارہے توکسی کی بیوی بیمارہے اورکسی کابچہ بیمارہے ،کسی کے پاس نوکری نہیں ہے توکسی کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ہرانسان ہروقت اپنے دل میں ایک نہ ایک آرزوساتھ لئے رکھتاہے جب اس کی ایک حاجت پوری ہوجاتی ہے تودوسری کے پوراہونے کی تمناکرتاہے گویاہرانسان ہروقت کسی چیزکا فقیرومحتاج ہے

____________________

.۱) سورہ صٔ/آیت ۵۴

۳۰۴

خداوندعالم نے انسان میں یہ فطرت پیداکی ہے وہ اپنی مشکلوں کوآسان کرنے کے لئے اوراپنی حاجتوں کے پوراہونے کے لئے کسی ایسے دروازہ پردستک دیتاہے اوراپنی حاجتوں کوبیان کرتاہے جواس کی حاجت کوپوراکرنے کی صلاحیت رکھتاہے انسان کوچاہئے کہ وہ کسی ایسے دروازہ پردستک دے کہ جسکے درسے کوئی خالی نہ لوٹتاہو،جوزمین وآسمان کامالک ہواورجوغنی مطلق ہو،اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہ آسکتی ہواورخداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جوغنی مطلق ہے اورزمین وآسمان کامالک بھی ہے اورجوکچھ زمین وآسمان میں ان سب کابھی مالک ہے

( یٰااَیُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلٰی اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدِ ) (۱)

اے لوگو!تم سب الله کی بارگاہ کے فقیرہواورالله صاحب دولت اورقابل حمدوثناہے ۔ اس آیہ مٔبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ انسان کوصرف الله کے دروازہ کابھکاری ہوناچاہئے اوراپنی حاجتوں کواسی کی بارگاہ میں بیان کرناچاہئے کیونکہ خداوندعالم کاقرآن کریم میں اپنے بندوں سے اس بات کاوعدہ ہے کہ میں تمھاری آوازکوسنتاہوں لہٰذاتم اپنی حاجتوں کومجھ سے بیان کرو

( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُمْ ) (۲)

اورتمھارے پرودگارکاارشادہے کہ مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا۔

مذکورہ آیات کریمہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ انسان کوچاہئے کہ اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے اورکسی بھی چیزکے حاصل کرنے کے لئے اپنے پروردگارکی بارگاہ میں دست دعابلندکرے ،الله کی بارگاہ میں دعاکرنے والے لوگ دنیامیں بھی کامیاب ہیں اورآخرت میں ،دنیامیں بھی صاحب عزت ہیں اورآخرت میں بھی ان کے لئے ایک بلندمقام ہے خداوندعالم اپنے تمام بندوں کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ،جب بھی کوئی بندہ اس کی بارگاہ میں دست نیازبلندسے یادکرتاہے ،اوراس سے مددطلب کرتاہے تووہ اسکی آوازپرلبیک کہتاہے اوراس پراپنی نعمتیں نازل کرتاہے اورآخرت میں اسے آتش جہنم سے نجات بھی دیتاہے

( اِذَاسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاْعِِ اِذَادَعَانَ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُو مِٔنُوْابِیْ لَعَلَّهُمْ یُرْشَدُوْنَ ) (۳)

اے پیغمبر!اگرمیرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تومیں ان سے قریب ہوں،پکارنے والے کی آوازسنتاہوں جب بھی پکارتاہے لہٰذامجھ سے طلب قبولیت کریں اورمجھ ہی پرایمان واعتقادرکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پرآجائیں۔

____________________

۱)سورہ فٔاطر/آیت ١۵

. ٢)سورہ غٔافر/آیت ۶٠.

۳)سورہ بٔقرہ/آیت ١٨۶

۳۰۵

خداوندعالم عالم غنی مطلق ہے ،تمام زمین آسمان ،اوراس میں موجوداشیاء سب کچھ الله کی ملکیت ہیں مگرانسان ضعیف وناتواں ہے ،اسے جت نامل جائے پھربھی کم سمجھتاہے اوراپنے آپ کومحتاج ونیازمندمحسوس کرتاہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ انسان دنیاوآخرت کوخداسے طلب کرے ۔

جیسا کہ خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:( وَمِنْهُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاآت نافِی الدُّنْیَاحَسَنَةً وَّفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَاعَذَاْبَ النَّاْرِ ) (۱)

ترجمہ:اوربعض کہتے ہیں کہ پروردگاراہمیں دنیامیں بھی نیکی عطافرمااورآخرت میں بھی اورہم کوعذاب جہنم سے محفوظ فرما۔

دعاکے فضائل وفوائد

قال امیرالمومنین علیه السلام:احب الاعمال الی الله عزوجل فی الارض الدعاء .(۲) دعاخداوندعالم کے نزذیک روئے زمین پرسب سے بہترین عمل ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:علیک بالدعافانه شفاء من کل داء .(۳) امام صادق فرماتے ہیں:میں تمھیں دعاکے بارے میں وصیت کرتاہوں کیونکہ دعاہرمرض کی دواہے۔

قال امیرالمومنین علیه السلام:ادفعواامواج البلاء بالدعاء قبل ورودالبلاء (۴) امام علی فرماتے ہیں :بلاو ںٔ کی موجوں کوبلاؤں کے نازل ہونے سے پہلے دعاکے ذریعہ برطرف کردیاکرو۔

قال رسول الله صلی الله علیه واله:لایردالقضاء الّاالدعاء .(۵) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:قضا کودعاکے علاوہ کسی دوسری چیزکے ذریعہ نہیں پلٹایاجاسکتاہے ۔

____________________

. ١)بقرہ/آیت ٢٠١

. ۲)مکارم الاخلاق/ص ٢۶٩

. ۳)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠

. ۴)نہج البلاغہ/کلمات قصار ١۴۶

۵)بحار/ج ٩٣ /ص ٢٩۶

۳۰۶

قال امیرالمو مٔنین علیه السلام:الدعاء مفتاح الرحمة ومصباح الظلمة (۱) حضرت علی فرماتے ہیں:دعارحمت کی کنجی ہے اور(قبرکی) تاریکی کاچراغ ہے ۔

عن الصادق علیه السلام :قال :ان الدعاء انفذ من سلاح الحدید (۲) امام صادق فرماتے ہیں:دعاتیزدھاراسلحہ سے بھی زیادہ نافذہوتاہے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں نے اپنی خدومت میں موجودلوگوں سے فرمایا:کیاتمھیں ایسی چیزکی خبرکہ جوتمھیں تمھارے دشمنوں سے بچائے اورتمھارے لئے رزق کاانبارلگائے ،سب نے کہا:یارسول الله!ضروربیان کیجئے ،پس آنحضرت نے فرمایا:اپنےپوردگارسے رات دن دعاکیاکروکیونکہ مومن کااسلحہ ہے۔(۳)

زرارہ سے مروی ہے امام صادق نے مجھ سے فرمایا:کیاتمھیں ایسی چیزکی رہنمائی کروں کہ جس کے بارے میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوبھی استثنا نہیں کیاگیاہے ؟ میں نے عرض کیا:ہاں!ضروربیان کیجئے ،امام (علیه السلام) نے فرمایا:دعااس قضاوتقدیرالٰہی بھی کوواپسکردیتی ہے جوسختی کے ساتھ محکم ہوگئی ہے ،اس کے یعدامام (علیه السلام) نے مطلب کے واضح ہونے کے لئے دونوں ہاتھ کی اپنی انگلیوں کوانگلیوں اپس میں ڈال کر مضبوطی سے جکڑااورفرمایا:چاہے وہ تقدیرکالکھااسی طرح کیوں نہ مضبوط ہو۔(۴)

قال ابوالحسن موسی علیه السلام :علیکم بالدعاء فان الدعاء لله والطلب الی الله یردالبلاء وقدقدّر وقضی ولم یبق الّاامضائه ، فاذادعی الله عزوجل وسئل صُرف البلاء صرفة .(۵) امام موسی کاظم فرماتے ہیں:تم دعائیں ضرورکیاکروکیونکہ خداوندعالم کی بارگاہ میں دعاکرنے اوراس سے طلب حاجت کرنے سے بلا ئیں ٹل جاتی ہیں وہ بلائیں کہ جوتقدیرمیں لکھی جاچکی ہیں اوران کاحکم بھی آچکاہومگرابھی نازل نہ ہوئی ہیں پس جیسے ہی الله کی بارگاہ میں دعاکی جاتی ہے اوراس سے طلب حاجت کی جاتی ہے تووہ مصیبت فوراًپلٹ جاتی ہے۔

____________________

۱)الدعوات /ص ٢٨۴

. ٢)مستدرک الوسائل/ج ۵/ص ١۶۵

. ٣)کافی /ج ٢/ص ۴۶٨.

. ۴)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠

. ۵)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠

۳۰۷

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم نے جت نے بھی نبی بھیجے ہیں ان سے فرمایاہے کہ: جب بھی تمھیں کسی کوئی رنج وغم پہنچے تومجھے پکارو،بیشک خداوندعالم نے اس نعمت( دعا) کومیری کوبھی عطاکیاہے کیونکہ قرآن کریم ارشادفرماتاہے: اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُم تم مجھ سے دعاکروتومیں قبول کروں گا۔(۱)

سیف تمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:تم دعائیں کیاکرو؛کیونکہ دعاکے مانندکوئی بھی چیزخداسے قریب نہیں کرتی ہے ،کسی بھی چھوٹی حاجت کوچھوٹی سمجھ کرترک نہ کروبلکہ اس کے لئے بھی خداکی بارگاہ میں دعاکروکیونکہ جس کے اختیارمیں چھوٹی حاجتوں کوپوراکرناہے بڑی حاجتوں کوپوراکرنابھی اسی کے اختیارمیں ہے۔(۲)

معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں امام صادق سے کہا:دوشخص ایک مسجدمیں داخل ہوئے ،دونوں نے ایک ہی وقت پرنمازپڑھی ،ایک ساتھ نمازسے فارغ ہوئے لیکن نمازکے بعدایک شخص نے قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کی اوردعابہت ہی کم کی مگردوسرے نے تلاوت کم اوردعابہت زیادہ کی ،ان دونوں میں کس کاعمل زیادہ بہترہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:دونوں کاعمل اچھااوربافضیلت ہے ،میں نے امام (علیه السلام) سے کہا:میں جانتاہوں کہ دونوں کہ کا عمل صالح ہے لیکن میں یہ جانناچاہتاہوں کہ کسکاعمل زیادہ فضیلت رکھتاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے:

( اُدْعُونِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاْخِرِیْنَ ) (۳)

ترجمہ:مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گااوریقیناًجولوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہونگے۔ اس کے بعدامام (علیه السلام)نے تین مرتبہ کہا:دعاافضل وبرترہے،دعاافضل وبرترہے ،دعاافضل وبرترہے اورفرمایا:کیادعاعبادت نہیں ہے؟اورکیادعامستحکم نہیں ہے ؟اورفرمایا:خداکی ) قسم!دعامناسب ترہے، دعااورمناسب ترہے، دعامناسب ترہے۔(۴)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٢٩٠

. ٢)کافی /ج ١/ص ۴۶٧

۳)سورہ غٔافر/آیت ۶٠

. ٢)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١٠۴

۳۰۸

دعاکے آداب وشرائط

١۔معرفت خدا

ہم جس کی بارگاہ میں دعاکے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اس کی معرفت رکھنابہت ضروری ہے اورجوخداکی جت نی معرفت رکھتاہوگاوہ اس سے اتناہی زیادہ قریب ہوگااوراس کے خزانۂ رحمت سے اتناہی زیادہ فیض حاصل کرے گااوراسی مقدارمیں اس کی دعاقبول ہوگی روایت میں آیاہے کہ کچھ لوگوں نے امام صادق سے سوال کیا:اے ہمارے مولا!ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:لانّکم تدعون من لاتعرفونه .

اس لئے کہ تم جسے پکارتے ہواسے پہچانتے نہیں ہو۔(۱)

عن النبی صلی الله علیه قال:یقول الله عزوجل :من سئلنی وهویعلم انّی اضرواَنفع استجیب له .(۲)

رسول خدا (صلی الله علیه و آله)سے منقول ہے کہ:خدائے عزوجل ارشاد فرماتاہے:جوشخص یہ سمجھتے ہوئے مجھ سے کچھ مانگے کہ نفع ونقصان سب کچھ میرے ہاتھوں میں ہے تومیں اس کی دعاقبول کروں گا۔

٢۔گناہوں سے دوری واستغفار

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان جب کسی گناہ کوانجام دیتاہے توتہہ دل سے انجام دیتاہے اورانسان جیسے ہی گناہ کامرتکب ہوتاہے تو اس کے دل پرایک کالاداغ پڑجاتاہے اوروہ داغ صرف توبہ کے ذریعہ پاک ہوسکتاہے اورجت نازیادہ گناہوں کامرتکب ہوتارہے گاتواس داغ کی مقداربھی بڑھتی رہے گی اورپھراسے دورکرنانہایت مشکل ہے گناہ ایک ایسی چیزہے جوانسان کو خیروبرکت سے محروم کردیتی ہے، لہٰذاانسان کودعاکرنے سے پہلے استغفارکرناچاہئے کیونکہ گناہ ایک ایسی چیزہے جوانسان کی دعا قبول نہ ہونے کاسبب واقع ہوتی ہے جیساکہ ہم کلام امیرالمومنین حضرت علی دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں:

اللّهمّ اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعاءفاسئلک بعزتک ان لایحجب دعائی سوءُ عملی وفعالی ۔

ترجمہ :بارالٰہا!میرے گناہوں کومعاف کردے جوکہ دعاکے مانع واقع ہوتے ہیں بارالٰہا!میں تیرے جلال وعزت کی قسم کھاتاہوں اورتجھ سے یہ چاہتاہوں کہ میری بدکرداری اوررفتاری کواپنی بارگاہ میں دعاکامانع قرارنہ دے ۔ قال علی علیہ السلام:المعصیة تمنع الاجابة. حضرت علی فرماتے ہیں:گناہ ایک چیزہے جوبارگاہ خداوندی میں دعاؤں کے قبول نہ ہونے کاسبب واقع ہوتاہے ۔(۳)

____________________

. ۱)توحید/ص ٢٨٩

. ٢)بحارالانوار/ج ٩٣ /ص ٣٠۵

۳)غررالحکم /ص ٣٢

۳۰۹

٣۔صدقہ

جب کوئی شخص کسی عظیم ذات کی بارگاہ میں کوئی حاجت لے کرجاتاہے تواس تک پہنچنے کے لئے پہلے وہاں کے ملازم اوردربانوں کوکچھ دے کرخوش کرتاہے تاکہ آسانی سے اس تک رسائی ہوسکے اوراس کی حاجتیں پوری ہوجائیں لہٰذاانسان کوچاہئے کہ مالک دوجہاں سے کچھ مانگنے کے لئے پہلے اس کے دربان( فقراء ومساکین)کوصدقہ دے اوران کی مددکرے تاکہ حاجتیں پوری ہوجائیں ۔

امام صادق فرماتے ہیں کہ :جب بھی میرے والدکوکوئی پیش آتی تھی توزوال کے وقت آفتاب کے وقت اس حاجت کوطلب کرتے تھے پس جب بھی آپ کوکوئی حاجت ہوتی تھی تودعاسے پہلے صدقہ دیاکرتے تھے اوراپنے آپ کومعطرکرتے تھے اس کے بعدمسجدروانہ ہوتے تھے اورپھرجسچیزکی بھی حاجت ہوتی تھی اسے بارگاہ خداوندی سے طلب کرتے تھے۔(۱)

۴ ۔طہارت

دعاکرنے والے کوچاہئے کہ دعاکرنے سے پہلے وضوکرے اس کے بعددورکعت نمازپڑھے اوربارگاہ خداوندی اپنی حاجتوں کوبیان کرے۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)حدیث قدسی فرماتے ہیں:حدیت قدسی شریف میں آیا ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی شخص کی وضوباطل ہو جائے اوروہ وضونہ کرے تومجھ پر جفاکرتا ہے اور اگر کوئی شخص وضو کرے اور دورکعت نماز نہ پڑھے وہ بھی مجھ پر جفا کرتا ہے اور اگر کوئی شخص دورکعت نماز پڑھے اور مجھ سے اپنی حاجتوں کوبیان کرے اورکسی چیزکی درخواست کرے اب اگرمیں اسے وہ چیزعطانہ کروں جواس نے مجھ سے اپنے دین ودنیاکے بارے میں مجھ سے طلب کی ہے تومیں اس پرجفاکرتاہوں اور میں جفا کار پر ور دگار ) نہیں ہوں ۔(۲)

۵ ۔دورکعت نماز

آپ نے گذشتہ میں ملاحظہ فرمایاکہ دعاکرنے سے پہلے وضوکی جائے اوردورکعت نمازپڑھی جائے اس کے بعدباگاہ خداوندی میں اپنی حاجتوں کوبیان کیاجائے ،اس حدیث کے علاوہ اوربھی احادیث ہیں کہ جن میں اس چیزکوبیان کیاگیاہے کہ نمازکے ذریعہ الله سے مددطلب کرواوراپنی حاجتوں کوبیان کرو۔ امام صادق سے مروی ہے کہ امام علی کے سامنے جب بھی کوئی ہوناک حادثہ ومشکل پیشآتی تھی تونمازکے ذریعہ پناہ لیتے تھے اوراس آیہ مٔبارکہ کی تلاوت کرتے تھے: )( وَاسْتَعِینُوابِالصَّبْرِوَالصَّلَاةِ ) (۳) صبراورنمازکے ذریعہ مددطلب کرو۔(۴)

____________________

.۱) عدة الداعی/ص ۴٨----۲)تہذیب الاحکام/ج ۴/ص ٣٣١ ---.۳)سورہ بٔقرہ/آیت ۴٢

.۴)کافی /ج ٣/ص ۴٨٠

۳۱۰

امام صادق فرماتے ہیں:جب بھی تمھیں دنیاوی مشکلوں میں سے کوئی مشکل پیش آئے توتم وضوکرواورمسجدمیں جاکردورکعت نمازپڑھو اورخداسے دعاکریں ،کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے:

( وَاسْتَعِینُوابِالصَّبْرِوَالصَّلَاةِ ) صبراورنمازکے ذریعہ مددطلب کرو۔(۱)

روایت میں ایاہے :ایک دن جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)ایک شب نمازمغربین حضرت علیکے ہمراہ اپنی لخت جگرکے گھرتشریف لائے توگھرمیں کھانے پینے کاکوئی انتظام نہیں تھااورجوانان جنت کے سردارامام حسن اورامام حسین +بھی دوروزسے بھوکے تھے جناب سیدہ نے باباکی زیارت کی اوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں،مصلے پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ، جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔ حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھرا ہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔

روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے باباجان!

( هُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ ) .(۲) یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:

( کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَهَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذا قَالَتْ هُوَمِنْ عِنْدِاللهِ اِنَّ اللهَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ ) .(۳)

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٢۶٣

۲)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۳)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۳۱۱

جب بھی حضزت زکریا (علیه السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔ جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواس سے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے ہیں،گھرمیں چکیاں پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردار ہوں، وہ گھرکہ جس میں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے ہیں،خداوندعالم اس گھرکے افرادکو کس طرح فاقہ میں رہنے دے سکتاہے، ہم تویہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے تھے کہ خداوندعالم اس گھرافرادکے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے لگے ۔

۶ ۔نیت وحضورقلب

انسان جس چیزکوخداسے طلب کررہاہے اس کادل میں ارادہ کرے اوردعاکرنے کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ وہ کیاکہہ رہاہے یعنی اس کے قلب کوزبان سے کہی جانے والی باتوں کی اطلاع ہونی چاہئے اورنیت میں سچائی بھی ہونی چاہئے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)حضرت علی سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: )یاعلی .لایقبل الله دعاء قلب ساهٍ .(۱) اے علی!خداوندعالم ہراس دعاکوجودل غافل اوربے توجہی کے ساتھ انجام دی جاتی ہے مستجاب نہیں کرتاہے۔قال امیرالمو مٔنین علیه السلام:لایقبل الله دعاء قلب لاه. (۲) حضرت علی فرماتے ہیں:خداوندعالم دل مضطرب وغافل کی دعاقبول نہیں کرتاہے۔ امام صادق فرماتے ہیں جب کوئی بندہ صدق نیت اوراخلاص کے ساتھ الله کو پکارے ،جیسے ہی وہ اپنے اس عہدوپیمان کووفاکرتاہے تواس کی دعامستجاب ہوجاتی ہے

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ٣۶٧

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٧٣

۳۱۲

اورجب کوئی بندہ نیت واخلاص کے بغیرالله کوپکارتاہے تواس کی دعامستجاب نہیں ہوتی ہے ،کیاتم نے قرآن کریم میں اس قول خداوندی کونہیں پڑھاہے؟کہ جسمیں وہ فرماتاہے:( اَوْفُوْا بِعَهْدِیْ اُوْفِ بِعَهْدِکُمْ ) (۱) تم ہمارے عہدکوپوراکروہم تمھارے عہدکوپوراکریں گے،اس کے بعدامام (علیه السلام) فرماتے ہیں:جس نے عہدخداکوپوراکیاخدابھی اس کے ) عہدکوپوراکرے گا ۔(۲)

سلیمان ابن عمروسے مروی ہے :میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:خداوندعالم بے توجہی کے ساتھ کی جانے والی دعاقبول نہیں کرتاہے،پس جب بھی تم دعاکروتواپنے قلب ) خداکی طرف متوجہ رکھواوریہ یقین رکھوکہ تمھاری دعاضرورقبول ہوگی۔(۳)

٧۔زبان سے

خداوندعالم ہرشخص کے حال دل سے آگاہ ہے ،وہ بغیرمانگے بھی عطاکرسکتاہے لیکن وہ اپنے بندہ کی زبان سے دعاکوسننازیادہ پسندکرتاہے،لہٰذا بہترہے کہ انسان اپنی دعاوحاجت کودل کے علاوہ زبان سے بھی اداکرے ۔عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ الله تبارک وتعالیٰ یعلم مایریدالعبداذادعاه ولکن یحبّ اَن یبث الیه الحوائج فاذادعوت فسم حاجتک ۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ دعاکرتاہے توخداوندعالم دعاکرنے والوں کی حاجتوں سے باخبررہتاہے مگراس چیزکودوست رکھتاہے کہ بندہ اپنی حاجتوں کوزبان سے بھی ذکرکرے،پسجب بھی تم دعاکرواپنی حاجتوں کوزبان سے بیان کرو۔

٨۔ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلندکرنا

مستحب ہے کہ دعاکرتے وقت دونوں ہاتھوں کوچہرہ اورسرکے سامنے تک بلندکریں اوردونوں ہتھیلیوں کوآسمان کی جانب قراردیں۔عن حسین بن علی علیهماالسلام قال:کان رسول الله صلی الله علیه وآله، یرفع یدیه اذاابتهل ودعاکمایستطعم المسکین ۔(۵)

روایت میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعااورگریہ وزاری کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کواس طرح بلندکرتے تھے جیسے کوئی مسکین وبے چارہ کسی کے سامنے کھانے کے لئے ہاتھ پھیلاتاہے ۔

____________________

۱)سورہ بٔقرہ /آیت ۴٠

۲)سفینة البحار/ج ١/ص ۴٩٩.

.۳)کافی /ج ٢/ص ۴٧٣

. ۴)کافی /ج ٢/ص ۴٧۶

.۲)مکارم الاخلاق/ص ٢۶٨

۳۱۳

امیرالمومنین فرماتے ہیں:

جب بھی تم میں کوئی شخص نمازسے فارغ ہوتواپنے دونوں ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکرے اوردعاکرے ابن سبانے عرض کیا:یاامیرالمومنین!کیاخداسب جگہ موجودنہیں ہے(پھرآسمان کی طرف ہاتھ بلندکرکے دعاکرنے کی وجہ کیاہے )؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیاتم نے اس آیہ مبارکہ نہیں پڑھی ہے:( وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَاتُوعَدُوْنَ ) اورآسمان میں تمھارارزق ہے اورجن باتوں کاتم سے وعدہ کیاگیاہے سب کچھ موجودہے(۱)

٩۔اظہارذلت وتضرع

دعاکرنے والے کوچاہئے کہ اپنے آپ کوالله کی بارگاہ میں ذلیل وحقیراورمحتاج شمارکرے اورعظمت پردگارکے سامنے اپنی حاجتوں کوناچیزشمار کرے اوردعاکرنے والے کوچاہئے کہ اپنے آپ کو اس قدریادخدامیں غرق کرے کہ جب جسم پر تضرع وگریہ کی حالت پیداہوجائے تواس وقت دعاکرے اوراپنی حاجتوں کوبیان کرے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام:اذارقّ احدکم فلیدع فانّ القلب لایرقّ حتیٰ یلخّص .(۲)

جب تمھارے جسم پررقت طاری ہوجائے تودعاکروکیونکہ دل پررقت اسی وقت طاری ہوتی ہے جب وہ خداکے لئے خالص ہواوراس کی جانب متوجہ ہوجائے

١٠ ۔ بسم الله کے ذریعہ آغاز

انسان جب بھی بارگاہ خداوندی میں دعاکے لئے ہاتھ بلندکرے اوراوراپنی حاجتوں کوبیان کرے توسب سے پہلے “بسم الله الرحمن الرحیم ”کہے اسکے بعداپنی حاجتوں کوبیان کرے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہی:جس دعاکو“بسم الله الرحمن الرحیم”کے ذریعہ شروع کیاجاتاہے تو وہ واپسنہیں ہوتی ہے بلکہ مقبول واقع ہوتی ہے ۔(۳)

____________________

.۱) سورہ ذاریات/آیت ٢٢ من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢۵

. ۲)کافی /ج ٢/ص ۴٧٧ ۔مکارم الاخلاق/ص ٢٧١

۳)بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣١٣

۳۱۴

١١ ۔ حمدوثنائے الٰہی

دعاکرنے والے کوچاہئے کہ دعاکرنے پہلے اپنے رب کوراضی وخوشنودکرے یعنی اس کی تسبیح اور حمدوثنا کرے اوراپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے بعداپنی حاجتوں کوبیان کرےحارث ابن مغیرہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:ایّاکم اذااراداحدکم ان یسئل من ربّه شیئاًمن الحوائج الدنیاوالآخرة حتی یبدء بالثناء علی الله عزوجل والمَدحَ له والصلاة علی النبی ثمّ یسئل الله حوائجه ۔(۱) تم میں جوشخص بھی حوائج دنیاوآخرت میں سے کسی چیزکوالله سے طلب کرے تواسے چاہئے کہ دعاکرنے سے پہلے خدائے عزوجل کی مدح وثناکرے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہارپردرودبھیجے اس کے بعداپنی حاجتوں کوخداکی بارگاہ میں طلب کرے ۔

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص دس مرتبہ“یاالله یالله” کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص دس مرتبہ“یارب یارب” کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔(۳)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص ایک نفس میں چندمرتبہ “یاربِّ یاالله”کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص ہرنمازواجب کے بعدحالت تورک سے خارج ہونے سے پہلے تین مرتبہ “استغفرالله الذی لااله الّاهوالحی القیوم ذوالجلال والاکرام واتوب الیه ”کہے توخداوندعالم اسے تمام گناہوں کوبخش دیتاہے خواہ اس کے گناہ سمندرکے جھاگ کے برابرہی کیوں نہ ہوں۔(۵)

____________________

.۱) کافی /ج ٢/ص ۴٨۴.

۲). کافی /ج ٢/ص ۵١٩

۳). کافی /ج ٢/ص ۵٢٠

۴). کافی /ج ٢/ص ۵٢٠

۵). کافی /ج ٢/ص ۵٢١

۳۱۵

١٢ ۔ توسل بہ معصومین

اگرکسی غلام سے کوئی خطاہوجائے تووہ اپنی خطاکومعاف کرانے کے لئے کسی ایسے شخص کاسہارالیتاہے کہ جوبادشاہ سے بہت زیادہ قریب ہواوردوست بھی ہواورخودبادشاہ بھی اسے دوست رکھتاہوکہ جس کے کہنے پربادشاہ اسے معاف کرسکتاہو ،اسی طرح اگرکوئی شخص کسی چیزکامحتاج اورضرورتمندہے توکسی بے نیازکادروازہ کھٹکھٹانے کے لئے کسی ایسی ذات کاسہارالےتاہے جواس مالدارکاقریبی دوست ہوکہ جس کے کہنے سے مرادپوری ہوجائے گی ،بس اسی طرح خداتک پہنچنے اوراس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اوراس سے اپنی حاجتوں کے پوراکرنے کے لئے ایسی ذوات مقدسہ کوسہارااوروسیلہ قرارضروری ہے جوالله تبارک وتعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہوں اوروہ انھیں اپناحبیب سمجھتاہو،الله تک پہنچنے کے لئے کسی ذات کووسیلہ قراردینے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااللهَ وَابْتَغُوْااِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ) (۱)

ترجمہ:اے ایمان والو!الله سے ڈرواوراس تک پہنچنے کاوسیلہ تلاش کرو

اس آیہ مٔبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ الله تک پہنچنے کے لئے اوراس سے کوئی چیزطلب کرنے کے لئے کسی کووسیلہ قراردیناضروری ہے کہ جن کے وسیلے سے ہماری توبہ قبول ہوجائے اوربگڑی ہوئی قسمت سنورجائے اورجسچیزکی تمناہے وہ بھی حاصل ہوجائے معصومین وہ ذوات مقدسہ ہیں جوالله تبارک وتعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہیں، پروردگار ان کی بات کونہیں ٹال سکتاہے ،یہ زمین وآسمان ،آفتاب وماہتاب،چاند اور ستارے، دریا وسمندرشب کچھ انھیں کے طفیل سے قائم ہیں گویایہ پوری دنیاانھیں کی وجہ سے قائم ہے ،اب اگرکوئی شخص الله کوراضی کرناچاہتاہے توپہلے انھیں راضی کرے جسے پروردگاراپنی مرضی فروخت کر چکاہو

اگرکوئی شخص اللھسے کسی چیزکوطلب کرناچاہتاہے تونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اورآئمہ اطہار کوواسطہ قرادیناچاہئے ،یہی وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے وسیلے سے امت نجات پاسکتی ہے ،ان کے وسیلہ کے بغیرنہ کوئی حاجت پوری ہوسکتی ہے اورنہ کسی کوروزقیامت نجات مل سکتی ہے ،یہی وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جن کے واسطے سے آدم (علیه السلام)کی توبہ قبول ہوئی ،ہابیل (علیه السلام)کی نذرقبول ہوئی ،کشتی نوح (علیه السلام)میں سوارتمام لوگوں نے نجات پائی ،یونس (علیه السلام) مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے، ابراہیم (علیه السلام)کے لئے آتش نمرودگلزارہوئی ،اسماعیل (علیه السلام)قربان ہونے سے بچ گئے ،موسیٰ (علیه السلام)کے لئے دریامیں راستہ بنا۔

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ/آیت ٣۵

۳۱۶

معصومین کووسیلہ قراردینے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے: امام حسن عسکری سے منسوب “ تفسیرامام عسکری ”میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک دن جب سلمان فارسی قوم یہودکے پاس گذرے توان سے کہا:کیامیں تمھارے پاس بیٹھ سکتاہوں اورتم سے وہ بات بتاسکتاہوں جوآج ہی میں نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی زبان مبارک سے سنی ہے؟ان لوگوں نے کہا:ضروربیان کیجیے ،سلمان فارسی اس قوم کے دین اسلام سے حرص رکھنے اوران اصرارکرنے کی وجہ سے بیٹھ گئے اورکہا: میں نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کویہ فرماتے ہوئے سناہے: خداوندعالم فرماتاہے :اے میرے بندو!کیاایسانہیں ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمھارے پاس کوئی حاجت لے کرآئے توتم اسے اس وقت پورانہیں کرتے ہوجب تک کہ وہ کسی ایسے شخص کوواسطہ قرارنہ دے جوتمھیں مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے اورشفیع وواسطہ کے ذریعہ حاجتوں کوپوراکیاجاتاہے؟

جان لو!میری مخلوق میں وہ ذات کہ جومجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اورجومیرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ہے وہ محمد (صلی الله علیه و آله) اوران بھائی علی اوران کے بعداوران کے بعدآئمہ اطہار ہیں جومجھ تک پہنچنے کاوسیلہ اورواسطہ ہیں اب تم جوشخص بھی کوئی حاجت رکھتاہے جواس کے لئے فائدہ مندہو، یا مشکل میں گرفتارہے تواس حاجت پوراہونے اوراس مشکل کے برطرف ہونے کے لئے چاہئے کہ دعاکرے اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل پاک کوواسطہ قرار دے طلب کروتاکہ میں تمھاری حاجت کوپوراکروں اورمشکل کوبرطرف کروں، یادرکھو! میری بارگاہ میں ان عظیم ذوات مقدسہ کے وسیلے سے حاجتوں کوپوراکرناان سے بہترہے جوتم اپنی حاجتوں کوپوراکرنے کے لئے اپنے محبوب ترین شخص کوواسطہ قرار دیتے ہو۔(۱)

داو دٔرقی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کوسناہے جب آپ دعاکرتے تھے تواپنی دعامیں خداکے لئے پنجت ن پاک یعنی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اورامیرالمومنین اورفاطمہ زہرااورحسن اورحسین کوواسطہ قراردیاکرتے تھے ۔(۲)

____________________

. ١)تفسیرامام حسن عسکری /ص ۶٨

. ٢)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ١١٣٩

۳۱۷

١٣ ۔ صلوات برمحمدوآل محمد

اگرکوئی بندہ اس چیزکی تمنارکھتاہے کہ اس کی بارگاہ خداوندی میں قبول ہوجائے تودعاسے پہلے اوربعدمیں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہار کوواسطہ قراردے اوران پردرودوسلام بھیجے،اوران ذوات مقدسہ پرالله تبارک وتعالیٰ بھی درودوسلام بھیجتاہے اوراس کے ملائکہ بھی ،جیساکہ قرآن میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( اِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیْ یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْاصَلُّوْاعَلَیْهِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا ) .(۱)

ترجمہ:بیشک الله اوراس کے ملائکہ رسول پرصلوات بھیجتے ہیں تواے صاحبان ایمان!تم بھی ان پرصلوات بھیجتے رہواورسلام کرتے رہو۔ امام صادق سے روایت ہے کہ :ایک دن رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے امام علیسے عرض کیا:اے علی!کیاتم نہیں چاہتے کہ میں تمھیں کوئی خوشخبری دوں؟عرض کیا:آپ پرمیرے ماں باپ پرقربان جائیں ،آپ توہمیشہ مجھے خوشخبری دیتے رہتے ہیں رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:مجھے ابھی جبرئیل نے ایک خوشخبردی ہے ،علینے عرض کیا:وہ کیاہے مجھے بھی بتائیے ؟آنحضرت نے فرمایا:مجھے خبردی گئی ہے کہ میری امت میں سے جب کوئی شخص مجھ پردرودبھیجتاہے اوراس کے ساتھ میری آل پردرودبھیجتاہے توآسمان کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اورملائکہ اس پرسترمرتبہ صلوات بھیجتے ہیں اوراگروہ گناہگارہوتاہے تواس کے گناہ درخت سے پتوں کے مانندگرجاتے ہیں اورخداوندعالم اس بندے سے کہتاہے :“لبیک یاعبدی وسعدیک”اوراپنے ملائکہ سے کہتاہے:تم میرے اس بندے پرسترصلوات بھیجو،(نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:) میں اس پرسات سومرتبہ صلوات بھیجتاہوں لیکن اگرمیرے ساتھ میری آل پرصلوات نہیں بھیجتاہے تواس کے اورآسمان کے درمیان سترحجاب واقع ہوجاتے ہیں اورخداوندعالم اس کے جواب میں کہتاہے: “لالبیک ولاسعدیک”اوراپنے ملائکہ کوحکم دیتاہے :اے میرے ملائکہ !اس کی دعااس وقت تک کوآسمان پرنہ لاناجب تک کہ یہ میرے رسول کی آل پرصلوات نہ بھیجے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: مجھ پردرودبھیجنے والاشخص جب تک میری آل پردرودوسلام نہیں بھیجتاہے اس وقت رحمت خداسے محروم رہتاہے۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:لایزالُ الدعاء محجوباً حتی یصلی علیٰ محمدوآل محمد .(۳)

امام صادق فرماتے ہیں:یہ ثابت ہے کہ جب تک محمدوآل محمدپرصلوات نہ بھیجی جائے تودعاپردہ میں رہتی ہے (اوروہ خداتک نہیں پہنچتی ہے)۔

____________________

. ۱)سورہ أحزاب/آیت ۵۶

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٩١ )

٣)امالی/ص ۶٧۶ ۔ثواب. الاعمال/ص ١۵٧

۳۱۸

١ ۴ ۔خفیہ دعاکرنا

دعاکے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ انسان جب بھی کوئی دعاکرے اوربہترہے کہ ت نہائی اورخلوت میں بے نیازکی بارگاہ میں دست نیازبلندکرے اورریاجیسی بیماری سے دوررہے ،وہ لوگ جواپنے آپ کے متقی وپرہیزگارہونے کااظہارکرتے ہیں اوران کے دل میں ریاکاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتاہے توخداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاقبول نہیں کرتاہے

عن ابی الحسن الرضاعلیه السلام قال:دعوة العبدسرّاًدعوة واحدة تعدل سبعین دعوة علانیة ۔(۱)

امام علی رضا فرماتے ہیں:بندہ کات نہائی میں ایک دعاکرناظاہری وعام طورسے کی جانے والی ستردعاؤں کے برابر ہے۔ لیکن اگرانسان کادل ریاکاری سے پاک ہے اورحقیقت میں اپنے آپ کو پروردگارکی بارگاہ میں ذلیل وحقیرشمارکرتاہے ہوتوبہترہے کہ مومنین میں سے ایک شخص دعاپڑھے اورسب لوگ “آمین” کہیں یاسب مل کرایک ساتھ دعاپڑھیں۔

١ ۵ ۔ اجتماعی طورسے دعاکرنا

مستحب ہے کہ نمازجماعت کے بعدسب لوگ ایک ساتھ مل کردعاکریں ،یاامام جماعت یاکوئی دوسراشخص دعاکرے اورسب آمین کہیں امام صادق فرماتے ہیں :ہمارے پدربزرگوارکوجب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی ) توعورتوں اوربچوں کوجمع کرکے دعاکرتے تھے اورسب آمین کہتے تھے۔(۲) امام صادق فرماتے ہیں:اگرچالیس لوگ ایک جگہ جمع ہوکردعاکریں تو یقیناًخداوندعالم ان دعاؤں کومستجاب کرتاہے ،اگرچالیس لوگ جمع نہ ہوسکیں بلکہ چارشخص جمع ہو ں توہرشخص دس مرتبہ خداوندمتعال کوکسی حاجت کے لئے پکارے توخداان کی دعاقبول کرتاہے ،اگرچارشخص جمع نہ ہوسکیں توایک ہی شخص چالیس مرتبہ الله کوپکارے(یعنی چالیس مرتبہ ) “یاالله”کہے )تویقیناًخدائے عزیزوجباراسکی دعاکومستجاب قراردے گا۔(۳)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:مااجتمع اربعة قط علیٰ امرواحد ، فدعوا(اللهالّاتفرقواعن اجابة .(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:اگرچارشخص دعاکے لئے جمع ہوں اورایک ساتھ مل کررب العزت کی بارگاہ میں کوئی دعاکریں ،اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے سے جداہوں وہ دعاقبول ہوچکی ہوتی ہے ۔

____________________

١)کافی/ج ٢/ص ۴٧۶

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧.

.۳)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧

۴)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧ )

۳۱۹

١ ۶ ۔ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے دعاکرنا

جب انسان رب کریم کی بارگاہ میں کوئی حاجت طلب کرناچاہتاہے اوراپنے رنج وغم کوبیان کرناچاہتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کے رنج وغم کوبھی یادرکھے بلکہ بہتریہ ہے کہ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے میں الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعاکرے کیونکہ جوشخص دوسروں کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اس کی دعاکوقبول کرتاہے اوراپنے فرشتوں سے کہتاہے :دیکھو!میرے اس بندے کواپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کارنج وغم بھی یادہے ،یہ خوداپنے لئے جس چیزکی تمنارکھتاہے اسے دوسروں کے لئے بھی دوست رکھتاہے لہٰذاخداوندعالم اس دعاکوقبول کرلیتاہےعن ابی عبدالله علیه السلام قال:من قدم اربعین رجلامِن اِخوانه فدعالهم ثمّ دعالنفسه استجیب له فیهم وفیه .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص چالیس مومنوں کواپنے اوپرمقدم رکھے اورپہلے ان کے لئے دعاکرے، اس کے بعداپنے لئے تواس کی دعاان کے لئے بھی اوراپنے لئے بھی مستجاب ہوگی۔

امام موسیٰ کاظمنے اپنے آباء سے نقل کیاہے کہ حضرت فاطمہ زہرا جب دعاکرتی تھیں تو تمام اہل ایمان مردوعورتوں کے لئے دعاکرتی تھیں اوراپنے لئے کوئی دعانہیں کرتی تھیں ، آپ سے پوچھا گیا:اے دختررسول خدا (صلی الله علیه و آله)!کیاوجہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے ) دعائیں کرتی ہیں مگراپنے لئے کوئی دعانہیں کرتی ہیں؟فرمایا:پہلے پڑوسی پھراپناگھر۔(۲) امام حسن فرماتے ہیں:میری والدہ حضرت فاطمہ زہرا پوری رات محراب عبادت میں پیروں پہ کھڑی رہتی تھیں اورمرتب رکوع وسجودمیں رہتی تھیں یہاں تک صبح نمودارہوجاتی تھی اورمیں اپنے کانوں سے سنتاتھاکہ آپ مومنین ومومنات کے لئے دعاکرتی اوران کانام بھی لیاکرتی تھیں اوران کے لئے کثرت سے دعائیں کرتی تھیں،ایک دن میں نے اپنی والدہ سے کہا:جسطرح آپ دوسروں کے لئے دعاکرتی ہیں اپنے لئے کیوں نہیں کرتی ہیں؟توآپ نے فرمایا:

یابنیَّ! اوّل الجارثمّ الدار.

اے میرے بیٹا!دوسرے ہم پرمقدم ہیں ؛پہلے ہمسایہ پھراپناگھر۔(۳)

____________________

.۱)من لایحضرہ ا لفقیہ/ج ٢/ص ٢١٢

.۲)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٢

. ۳)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٢

۳۲۰

امام باقر اس آیہ مٔبارکہ( وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ آمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحَات وَیَزِیْدُهُمْ مِن فَضْلِهِ ) (۱) کے بارے میں فرماتے ہیں:جومومن اپنے دینی بھائی کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے دعاکرتاہے توخدااپنے فرشتوں کوحکم دیتاہے :تم سب آمین کہو،اورخداوندعالم بھی جوکہ عزیزوجبّار ہے کہتاہے کہ :میں تجھے اسی کے مثل عطاکرتاہوں جیساتواپنے بھائیوں کے لئے دعا کرتاہے. کرتے ہیں اورخدااپنے فضل وکرم سے ان کے اجرمیں اضافہ کردیتاہے،(۲)

امام علی بن الحسین فرماتے ہیں:جب کوئی مومن اپنے مومن بھائی کے لئے غائبانہ طورسے دعاکرتاہے یااسے اچھائی سے یادکرتاہے توملائکہ اس مومن سے کہتے ہیں:تواپنے بھائی کے لئے ایک بہت اچھابھائی ہے ،جبکہ وہ تیری نظروں سے غائب ہے اورتواس کاذکرخیرکررہاہے اوراس کے حق میں دعاکررہاہے ،خداوندعالم بھی تجھے اس کادوبرابرعطاکرتاہے جوتونے اپنے بھائی کے لئے طلب کیاہے اوردوبرابراس کے بدلہ میں جوتونے اپنے بھائی کاذکرخیرکیاہے۔(۳)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ دعاء المرء لاخیه بظهرالغیب یدرّالرزق ویدفع المکروه ۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:کسی شخص کااپنے دینی بھائی کے لئے غائبانہ طورسے دعاکرنے سے اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے اوربلائیں دورہوتی ہے۔

١٧ ۔ دعامیں رکھناعمومیت

دعاکرنے والے کوچاہیے کہ اپنی دعاؤں میں عمومیت رکھے اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جسچیزکوطلب کرے اسے سب کے لئے طلب کرے اوربہترہے کہ انسان دعاؤں میں جمع کی لفظیں استعمال کرے ،خداوندعالم قرآن کریم میں اپنے بندوں کویوں تعلیم دیتاہے کہ اپنی عبادتوں،اوردعاؤں میں دوسروں کواپنے ساتھ شریک رکھو اوراس طرح دعاکرو:

( اِیّاکَ نَعْبُدُ وَاِیّاکَ نَسْتَعِیْنُ ، اِهدِنَاالصِّراطَ المُسْتَقِیْم )

پروردگارا!ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھ سے مددمانگتے ہیں،توہمیں راہ راست کی ہدایت فرما۔

____________________

١)ترجمہ:اورجولوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک اعمال کئے وہی دعوت الٰہی کوقبول (سورہ شٔوریٰ /آیت ٢۵).

۲)کافی/ج ٢/ص ۵٠٧

.۳)کافی/ج ٢/ص ۵٠٨

.۴)کافی/ج ٢/ص ۵٠٧

۳۲۱

دعاکوعمومیت قراردینے کے لئے چندروایت ذکرہیں:

قال رسول الله صلی علیه وآله وسلم:اذادعااحدکم فلیعمّ فانّه اَوجب للدعاء .(۱)

رسول خدا (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تم میں جب بھی کوئی شخص خداکی بارگاہ میں دعاکرے تواپنی دعاکو عمومیت قرار دے اورتمام مسلمانوں کیلئے دعائیں کرے کیونکہ اس طرح دعاکرنے سے خداتمھاری دعاکو بہت جلدمستجاب کرتاہے۔ امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص روزانہ پچیس مرتبہ “اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِلْمُو مِٔنِیْنِ وَالْمُو مِٔنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات ” کہتاہے خداوندعالم ہرمومن ومومنہ کے برابر جواس دنیاسے رحلت کرگئے اورقیامت آنے ہر مومن ومومنہ کے برابرایک حسنہ لکھتاہے اوراس کے نامہ أعمال سے ) گناہ کوپاک کردیتاہے اورایک درجہ اس کامقام بلندکریتاہے۔(۲)

عن صفوان بن یحییٰ عن ابی الحسن علیه السلام انه کان یقول:من دعالاخوانه من المومنین والمو مٔنات والمسلمین والمسلمات وکّل الله به عن کل ملکایدعواله .(۳)

صفوان ابن یحییٰ سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:جوشخص مومن مردوعورت اورمسلمان مردوعورت کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم ہرمومن کے بدلے میں ایک فرشتہ موکل کرتاہے تاکہ وہ اس دعاکرنے کے لئے دعاکرے ۔عن صفوان بن یحییٰعن ابی الحسن علیه السلا قال:مامن مومن یدعوللمومنین والمو مٔنات والمسلمین والمسلمات الاحیاء منهم والاموات الّاکتب الله بعدد کل مومن ومومنة حسنة منذبعث الله آدم الی یوم ان تقوم الساعة . (۴)

صفوان ابن یحییٰ سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:جوشخص مومن مردوعورت اورمسلمان مردوعورت کے لئے دعاکرتاہے چاہے وہ مردہ ہوں یازندہ توخداوندعالم حضرت ادم کے زمانہ سے روزقیامت تک پیداہونے والے ہرمومن اورمومنہ کے بدلہ میں ایک نیکی اس کے نامہ اعمال میں درج کرتاہے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ مومن جودوسرے مومن مردوعورت کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اس شخص کوہروہ چیزعطاکرتاہے جواس نے ان مومن مردوعورت کے لئے طلب کیاہے جواول دہرآج تک رحلت کرگئے ہیں اورہراس چیزکوعطاکرتاہے جواس نے ان مومن مردوعورت کے لئے طلب کیاہے جوروزقیامت تک آنے والے ہیں،روزقیامت جب اس بندہ کوجہنم کی طرف روانہ کیاجائے گاتومومن ومومنات خداوندمتعال سے کہیں گے:

____________________

. ۱)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧

. ٢)امالی(شیخ صدرق)/ص ۴۶٢

۳-۴)ثواب الاعمال/ص ١۶١

۳۲۲

اے پروردگار!یہ تووہ شخص ہے جوہمارے حق میں دعائیں کرتاتھاپس ہم تجھ سے اسے کے بارے میں شفاعت کرتے ہیں،پسخداوندعالم ان کی شفاعت کوقبول کرے اوروہ آتشجہنم سے نجات پاجائے گا۔(۱)

١٨ ۔ دعابرائے استجابت دعا

دعاکرنے کے بعداپنی دعاکے قبول ہونے کے بارے میں دعاکرناچاہئے اوریہ کہاجائے :“ربّناوتقبّل دعاء “. تمام انبیاء واولیاء کایہی طریقہ رہاہے کہ وہ اپنی دعاؤں کے بعد“ربّناوتقبّل دعاء ”کہاکرتے تھےحضرت ابراہیم بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں:( رَبِّ اجْعَلّنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ) (۲) ترجمہ: پروردگارا!مجھے اورمیری ذریت کونماز قائم کرنے والوں میں قراردے اور اے پروردگار!تومیری دعاء کوقبول کرلے۔

١٩ ۔ دعاکے قبول ہونے پریقین واعتقاد رکھنا

دعاکرنے کرنے والے کوچاہئے کہ وہ دعاپریقین واعتقادرکھتاہے اوراس کے قبول ہونے پربھی یقین رکھتاہوکا،وہ لوگ جودعاپراعتقاد نہیں رکھتے ہیں اوراپنی دعاؤں کے قبول ہونے کی کوئی امیدنہیں رکھتے ہیں یعنی یقین واعتقادکے ساتھ دعانہیں کرتے ہیں بلکہ ناامیدی کے ساتھ دعااورتوبہ کرتے ہیں اوراپنے گناہوں کے معاف ہونے کی کوئی امیدنہیں رکھتے ہیں توخداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاوتوبہ کوہرگزقبول نہیں کرتاہے ناامیدی ایک گناہ عظیم اور شیطانی وسوسہ ہے لہٰذاانسان کوچاہئے اپنے آپ کوناامیدی کی راہ سے باہرنکالے اورشیطانی وسوسہ کودورکرے بلکہ ضروری ہے کہ انسان خوش گمانی رکھے اوراپنی نمازودعااورتوبہ کے قبول ہونے کی امیدرکھے اوراس بات کااعتقادرکھے کہ پروردگارعالم میری نمازودعاکوقبول کرے گا،اگرتوبہ کروں تووہ میرے گناہوں کومعاف کردے گا،اگراسے یادکروں تووہ جواب ضروردے گا،اگرعمل خیرانجام دوں توقبول کرے گااوراجروثواب بھی عطاکرے گا۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ الله عزوجل لایستجب دعاءً یظهرمن قلب ساه ،فاذادعوت فاقبل بقلبک فظنّ حاجتک بالباب .(۳) امام صادق فرماتے ہیں:بیشک خداوندعالم اس دعاکوہرگزقبول نہیں کرتاہے جوغفلت دل کے ساتھ انجام دی جاتی ہے لہٰذاتم جب بھی دعاکروتواپنے دل کوخداکی طرف متوجہ رکھو،اس کے قبول ہونے کادل میں یقین رکھواوریہ گمان کروکہ گویا حاجت تمھارے دروازے پہ کھڑی ہے۔

____________________

.۱) کافی /ج ٢/ص ۵٠٨

۲)سورہ أبراہیم (علیه السلام) /آیت ۴٠

. ۳)مکارم الاخلاق/ص ٧٠.

۳۲۳

اوقات دعا

١۔ شب جمعہ

معصومین سے منقول روایتوں میں شب جمعہ اورروزجمعہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہیں اوراس شب میں کی جانے والی دعاقبول ومستجاب ہوتی ہے ،شب جمعہ کے بارے میں شیخ طوسی نے کتاب “تہذیب الاحکام”یہ روایت نقل کی ہے: امام محمدباقر فرماتے ہیں:بیشک خداووندعالم ہرشب جمعہ رات کے شروع سے طلوع فجرتک عرش سے آوازدیتاہے:کیاکوئی مومن بندہ نہیں ہے جو طلوع فجرسے پہلے اپنے دینی اوردنیاوی کاموں کے بارے میں مجھ سے طلب کرے تاکہ میں اسے عطاکروں؟کیاکوئی مومن بندہ نہیں ہے جو طلوع فجرسے پہلے جومجھ سے اپنے گناہوں کے لئے توبہ واستغفارکرے ،تاکہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟کیاکوئی مومن بندہ نہیں ہے کہ جس پرمیں نے (اس کے افعال وکردارکی بناپر)رزق کوت نگ کررکھاہو ،اوروہ طلوع فجرسے پہلے مجھ اپنے رزق میں زیادتی کے بارے تقاضاکرے ،تاکہ میں اس کے رزق میں زیادتی اوروسعت عطاکروں؟کیاکوئی مومن بندہ نہیں ہے جومریض ہواورطلوع فجرسے پہلے مجھ سے شفاکی دعاکرے ،میں ضروراسے شفاوعافیت دوں گا؟کیاکوئی مومن بندہ نہیں ہے جو کسی جیل میں زندان ومغموم ہواورمجھ سے اپنی آزادی کی دعاکرے تاکہ میں اسے طلوع فجرسے پہلے زندان سے رہائی دوں اوراس کے لئے راستہ کھول دوں؟کیاکوئی مومن بندہ نہیں ہے جومظلوم ہواورمجھ سے تقاضاکرے تاکہ میں طلوع فجرسے پہلے اس کے ستم کواس سے دورکروں اورمیں اس ظلم کے بارے میں جواس پرکیاگیاہے اس کی مددکروں؟امام محمدباقرشب جمعہ کے فضائل بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں:الله تبارک وتعالیٰ ہرشب جمعہ آسمان سے آوازیہ دیتارہتاہے یہاں تک فجرطلوع ہوجاتاہے ۔(۱)

٢۔ روزجمعہ

معصومین نے روزجمعہ کی جوفضیلت بیان کی ہیں ان میں ایک یہ بھی اس دن کی جانے والے دعاضرورقبول ہوتی ہے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:روزجمعہ دنوں کاسیدوسردارہے اورسب سے عظیم دن ہے ،خداوندعالم اس دن میں انجام دئے جانے والے نیک اعمال کاثواب دوبرابرکردیتاہے،نامہ اعمال سے گناہوں کوپاک کردیتاہے ،درجات کوبلندکردیتاہے ،دعاؤں کومستجاب کرتاہے رنج وغم اورمشکلوں گودورکرتاہے، بڑی حاجتوں کوقبول کرتاہے اوریہ دن وہ کہ جسے پروردگارنے رات پربرتری دی ہے کیونکہ اس دن خداوندعالم کی رحمت اپنے کے لئے کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے اوراکثرگروہوں کوآتش جہنم سے نجات دیتاہے

____________________

.۱) تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ۵

۳۲۴

،پس جوبندہ بھی اس دن خداکوپکارے اوراس کے حق ومرحمت کوپہچانے توخداوندعالم اسے آتش جہنم سے نجات دے گا،اگرکوئی شخص اس شب یاروزجمعہ میں انتقال کرجائے تووہ شہیدکی موت مرتاہے اورروزقیامت عذاب الٰہی سے محفوظ رہے گا اورجوشخص اس دن کی عظمت وحرمت کوہلکاسمجھتاہے اوراس کی نمازسے روگردانی کرتاہے یاکسی کارحرام کامرتکب ہوتاہے توخدااسے واصل جہنم کرے گامگریہ کہ وہ توبہ کرلے۔(۱)

٣۔ نمازپنجگانہ کے وقت

وہ اوقات کہ جن میں دعاکرنے کے بارے میں بہت زیادہ روایت نقل ہوئی ہیں اوران اوقات میں دعاکرنے سے قبول ہونے کی زیادہ امیدکی گئی ہے وہ یہ ہیں کہ نمازپنجگانہ کے وقت دعاکی جائے خصوصاًنمازکے بعددعاکرنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے امام صادق فرماتے ہیں:چارموقع ایسے ہیں کہ جن میں دعاقبول ہوتی ہے ،نمازشب کے قنوت میں ،نمازصبح کے بعد،نمازظہرکے بعداورنمازمغرب کے بعد۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب زوال کاوقت پہنچتاہے توآسمان اوربہشت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں اودعائیں قبول ہوتی ہیں اوریہ خوشحالی ہے ان لوگوں کے لئے کہ جن کے عمل صالح اوپرپہنچتے ہیں۔(۳)

زوال آفتاب اورظہرکے وقت کے بارے میں عبدالله ابن حمادانصاری سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:اذازالت الشمس فتحت ابواب السماء وابواب الجنان وقضیت الحوائج العظام فقلتُ:من ایّ وقتٍ؟فقال: مقدارمایصلی الرجل اربع رکعاتٍ مترسلاً . زوال آفتاب ایساوقت ہے کہ جس وقت آسمان اورجنت کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اور(چھوٹی حاجتوں کے علاوہ )بڑی ومہم حاجتیں بھی پوری ہوتی ہیں،میں نے امام (علیه السلام) سے پوچھا:اس کی وقت کی مقدارکیا ہے؟آپ نے فرمایا:زوال کے بعدجت نے وقت میں ) انسان سکون وآرام کے ساتھ چاررکعت نمازپڑھ سکے ۔(۴)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:تفتح ابواب السماء ویستجاب الدعاء فی اربعة مواطن عندالتقاء الصفوف فی سبیل الله وعندنزول الغیث ، وعنداِقامة الصلاة، وعندرو یٔة الکعبة .(۵)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:چارمواقع اوروقت ایسے ہیں کہ جب آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اوردعائیں مستجاب ہوتی ہیں: ١۔ اس وقت کہ جب راہ خدامیں جہادکرنے والے مسلمان دشمن کے مقابلہ میں صف آراہوتے ہیں ٢۔ باران رحمت کے نزول کے وقت ٣۔ نمازکے وقت ۴ ۔ کعبہ کی زیارت کے وقت۔

____________________

۱). کافی /ج ٣/ص ۴١۴ ۔تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢

.۲)کافی /ج ٢/ص ۴٧٧ --. ۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢١۴ -- .۴)فلاح السائل /ص ٩۵ --۵)نہج الفصاحة /ص ٣

۳۲۵

۴ ۔پنجگانہ نمازوں کے بعد

انسان چاہے گھرمیں نمازپڑھ رہاہویامسجدمیں ،جماعت سے پڑھ رہاہویافرادیٰ ،اس کوچاہئے کہ نمازکے پڑھنے کے فوراًبعداپنی جگہ سے بلندنہ ہو بلکہ مستحب ہے کہ کچھ دیرتک اپنی جگہ پربیٹھارہے اور،تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کے بعد اپنے پروردگارسے مناجات کرے ،اپنے گناہوں پرندامت کااظہارکرے اور طلب مغفرت کرے اوردنیاوآخرت کے بارے اس سے مددطلب کرے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ الله فرض علیکم الصلوات الخمس فی افضل الساعات فعلیکم بالدعاء فی ادبارالصلوات ۔(۱)

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے اپنے محبوب ترین اوقات میں تم لوگوں پر نمازوں کو واجب قرار دیا ہے لہٰذا اپنی حاجتوں وتمناؤں کو واجب نمازوں کے ادا کر نے کے بعد خدا کی بارگاہ میں بیان کرو ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من صلی صلاة الفریضة وعقّب الٰی اخریٰ،فهوضیف الله ،وحق علی الله ان یکرم ضیفه ۔(۲)

حضرت امام صادقفرماتے ہیں:جو شخص ایک وقت کی واجب نماز پڑھنے کے بعد دوسری نماز تک دعاو تعقیبات ومناجات میں مشغول رہتا ہے وہ خدا ئے عزوجل کا مہمان رہتا ہے اور خدا وندمتعال کا حق ہے کہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ حضرت امام محمدباقر اس آیہ مٔبارکہ( فَاِذَافَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ ) (۳) ( جب تم فارغ ہوجاؤ تو نصب کردواوراپنے پروردگارکی طرف رخ کرو)کے بارے میں فرماتے ہیں: اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ اورسلام پڑھ لوتواس سے پہلے کہ تم اپنی جگہ سے اٹھودنیااورآخرت کے بارے میں دعاکر و۔(۴)

____________________

۱)نہج الفصاحة /ص ٣.

۲)خصال/ص ٢٧

۳)سورہ شٔرح /آیت ٧۔ ٨

۴) تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠٣.

مجمع البیان/ج ١٠ /ص ٣٩١ (

۳۲۶

عن النبی صلی الله علیه وآله انّه قال:اذافرغ العبدمن الصلاة ولم یسئل الله تعالیٰ حاجته یقول الله تعالیٰ لملائکته :انظرواالیٰ عبدی فقدادّیٰ فریضتی ولم یسئل حاجته منّی کانّه قداستغنی عنّی ،خذواصلاته فاضربوابهاوجهه ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: جب کوئی بندہ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ودر خواست نہیں کرتا ہے تو خدا وند متعال اپنے ملائکہ سے کہتاہے : میرے اس بندہ کودیکھو، اس نے میرے واجب کوتو ادا کردیا ہے مگراس کے بعد مجھ سے کسی چیز کی تمنا نہیں کی ہے گویاوہ خودکومجھ سے بے نیازسمجھتاہے ،پس تم ایسا کروکہ اس کی نمازکوپکڑکر اسی کے منہ پر ماردو۔

زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے دولوگوں کے عمل بارے میں پوچھاکہ جن میں ایک شخص نے صبح تک بیٹھ کرنمازیں پڑھیں اوردوسرے شخص نے بیٹھ کردعاومناجات کی ،ان دونوں میں کسکاعمل افضل ہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: ) ”الدعاء افضلٌ ”دعاکرنابہترہے۔(۲)

۵ ۔ اذان واقامت کے درمیان

اذان واقامت کے درمیان دعاکابہترین وقت ،اس وقت کی جانے والی درنہیں کی جاتی ہے بلکہ بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:الدعابین الاذان والاقامة لایردُّ ۔(۳)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اذان واقامت کے درمیان کی جانے والی دعاواپسنہیں کی جاتی ہے بلکہ وہ بارگاہ خداوندی قبول ہوتی ہے۔

____________________

.۱)مستدرک الوسائل/ج ۵/ص ٢٩

.۲)وسائل الشیعہ/ج ١/ص ٢۶٨

.۳)جامع المقاصد/ج ٢/ص ١٨۶

۳۲۷

دعاکی جگہ

خداوندعالم سمع وعلیم ہے وہ اپنے بندوں کی تمام باتوں کوسنتابھی ہے اوران کاجواب بھی دیتاہے ،انسان جہاں اورجس جگہ بھی اس سے کوئی چیزطلب کرے اوراپنی حاجتوں کوبیان کرے تووہ اسے عطاکرتاہے لیکن دنیامیں کچھ مقامات ایسے ہیں کہ اگران جگہوں پردعاکی جائے تووہ دعاضروراوربہت جلدبارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے یااس کے قبول ہونے کابہت زیادہ امکان ہوتاہے اوروہ مقامات یہ ہیں :

١۔ خانہ کعبہ

وہ مقام کہ جس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھناواجب قراردیاگیاہے اورجس میں پہلے امام کی ولادت ہوئی ہو،جس کا طواف کرناہرحاجی پرواجب قرادریاگیاہووہ کت نابابرکت مقام ہوگا،یقینااگراس جگہ پرالله تبارک سے تعالیٰ سے کسی چیزکوطلب کیاجائے تووہ اسے خالی ہاتھ واپس نہیں کرے گا،یہ علی (علیه السلام)کی جائے ولادت کے دیدارکااثرہے کہ حاجی کی دعاقبول ہوتی ہے

روی عن الرضا علیه السلام :ماوقف احدٌبتلک الجبال الّااستجیب له فاماالمومنون فیستجاب لهم فی آخرتهم ،واماالکفارفیستجاب لهم فی دنیاهم امام علی رضا فرماتے ہیں:ہروہ شخص جواس جبال(کعبہ)پرتوقف کرے تواس کی دعابارگاہ خداوندی میں مستجاب ہوگی لیکن مومنین کی دعاان کی آخرت کے بارے میں اورکافروں کی دعاان کی دنیاکے بارے میں قبول ہوتی ہیں۔(۱)

قال ابوجعفرعلیه السلام :مایقف احدٌعلیٰ تلک الجبال برّولافاجرالّااستجاب اللهله فاماالبر فیستجاب له فی آخرته ودنیاه ،واماالفاجرفیستجاب له فی دنیاه . امام محمدباقر فرماتے ہیں:اس جبال(کعبہ)پرتوقف کرنے والے شخص کی دعابارگاہ خداوندی میں ضرورقبول ہوتی ہے،دعاکرنے والا نیکوکارہویا فاسق وفاجر،لیکن نیکوکارشخص کی اس کی دنیاوآخرت دونوں کے بارے میں دعاقبول ہوتی ہے لیکن فاسق وفاجر کی دعاصرف اس کی دنیاکے بارے میں قبول ہوتی ہے ۔(۲)

٢۔ مسجد

مسجدخانہ خٔداہے اورروئے زمین پرافضل ترین جگہ ہے اوراہل معرفت کی جائیگاہ اور محل عبادت ہے اورصدراسلام سے لے کرآج تک ایک دینی والہٰی مرکزثابت ہوئی ہے، مسجد مومنین کے دلوں کوآباداورروحوں کوشادکرتی ہے اورمسجدایک ایساراستہ ہے

____________________

۱). کافی /ج ۴/ص ٢۵۶ عدة الداعی/ص ۴٧

۲). من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص ٢١٠

۳۲۸

جوانسان کوصراط مستقیم اورہدایت وبہشت کی طرف لے جاتاہے اورمسجدایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں مانگنے والوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں ،جب کوئی شخص کسی کے گھرمہمان ہوتاہے اورصاحب خانہ سے کسی چیزکوطلب کرتاہے وہ اسے عطا کرتا ہے، الله تبارک وتعالیٰ اپنے مہمانوں کوعزیزرکھتاہے اورکسی کواپنے گھرسے کسی کوخالی ہاتھ واپسنہیں بھیجتاہے ۔ عن ابی عبدالله علیہ السلام قال : مکتوب فی الوراة:انّ بیوتی فی الارض المساجد،فطوبیٰ لعبدتطہرفی بیتہ ثمّ زارنی فی بیتی وحق المزوران یکرم الزائر. امام صادق فرماتے ہیں :کتاب توریت میں خداوندعالم فرماتاہے :بیشک مسجدیں روئے زمین پرمیراگھرہیں،خوشخبری ہے ان بندوں کے لئے کہ جوپہلے اپنے آپ کواپنے گھروں میں پاک وپاکیزہ کرے اوراس کے بعدمیرے گھرکی زیارت کرے ،اس کے بدلہ میں اب مجھ پرلازم ہے کہ اپنے گھرکی زیارت کرنے والوں کااکرام کروں(اوران کی حاجتوں کوپوراکروں)(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:کان ابی اذاطلب الحاجة طلبهاعندزوال الشمس ، فاذااردت ذلک قدم شیئافتصدق به ، وشم شیئامن الطیب ورواح الی المسجدفدعافی حاجته بماشاء .

امام صادق فرماتے ہیں:جب بھی میرے والدکوکوئی پیش آتی تھی توزوال کے وقت آفتاب کے وقت اس حاجت کوطلب کرتے تھے پس جب بھی آپ کوکئی حاجت ہوتی تھی تودعاسے پہلے صدقہ دیاکرتے تھے اوراپنے آپ کومعطرکرتے تھے اس کے بعدمسجدروانہ ہوتے تھے اورپھرجسچیزکی بھی حاجت ہوتی تھی اسے بارگاہ خداوندی سے طلب کرتے تھے۔(۲)

مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)،مسجدکوفہ ،مسجدسہلہ،مسجدحنانہ ایسی جگہیں ہیں کہ جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں

٣۔ حرم مطہرمعصومین اورامامبارگاہ

ملک عربستان کے شہرمدینہ منورہ میں ایک جگہ ہے جوکہ جنت البقیع کے نام سے مشہورہے ،جس میں الله کے پیارے نبی حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) کی لخت جگراوران کی نسل سے تین امام معصوم (حضرت حسن ، زین العابدین اورمحمدباقر )دفن ہیں ملک عراق کے شہرنجف اشرف کہ مولائے کائنات حضرت علیکاحرم مطہرواقع ہے اورکربلائے معلی کہ جہاں امام حسیناورحضرت ابوالفضل العباس واقع ہیں اوراسی ملک میں کے شہرکاظمین میں امام موسیٰ کاظم اورامام محمدتقی +کاحرم واقع ہے

____________________

۱).٢/ علل الشرائع/ج ٣١٨

۲). عدة الداعی/ص ۴٨

۳۲۹

دفن ہیں او رشہرسامرہ کہ جہاں امام علی نقی اورامام حسن +کاحرم مطہرواقع ہے ملک ایران کے شہرمشہدمقدس کہ جہاں اٹھوے امام علی ابن موسیٰ الرضا حرم مطہرواقع ہے اوراسی ملک کے شہرقم میں ان کی بہن حضرت فاطمہ معصومہ کاحرم واقع ہے یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں پرلوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں،رنج وغم دورہوتے ہیں ،یہی وہ مقامات ہیں کہ جہاں لاعلاج لوگوں کوبھی شفانصیب ہوتی ہے اوران مقامات میں سب سے بہترین مقام کہ جہاں پربہت زیادہ دعائیں قبول ہوتی ہیں وہ روضہ سٔیدالشہداء حضرت امام حسینہے خصوصا قبہ مٔنورہ کے نیچے دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ان مقامات مقدسہ پردعاکرنے کے بارے میں پوری ایک مفضل کتاب کی ضرورت کے لکھنے ضرورت ہے اوراس بارے میں کتابیں بہت زیادہ کتابیں لکھی جاتی ہیں ہم اپنی اس کتاب میں صرف معصوم سے منقول دوروایت ذکرکرہے ہیں جن کے ذریعہ حرم وحائرحضرت امام حسین کی عظمت ومنزلت معلوم ہوتی ہے۔

پہلی روایت

رویات میں آیاہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت امام جعفرصادق مریض ہوئے توآپ نے اپنے عزیزوں کوحکم دیاکہ کسی کوامام حسین کی قبرپربھیج کرمیرے لئے دعاکرائیں،جیسے ہی امام (علیه السلام) نے یہ بات کہی توسننے والوں نے کہاکہ :ایک شخص بہت جلدکرب وبلاکے لئے روانہ کیاجائے ،لہٰذا ایک شخص کوجب کربلاجانے کے لئے تلاش کیاگیااوراس سے کربلاجانے کے لئے کہاگیاتواس نے جواب دیاکہ :میں جانے کے لئے تیارہوں لیکن جس طرح امام حسین مفترض الطاعة امام ہیں حضرت امام جعفرصادق بھی مفترض الطاعة امام ہیں ، لوگوں نے اس کی اس بات کوامام صادق کے پاس آکربیان کیاتوامام (علیه السلام)نے اس جواب میں فرمایا:بات وہی صحیح ہے جواس نے کہی ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ خداوندعالم کے کچھ ) بقعے ہیں جہاں دعاقبول ہوتی ہے اورقبرحسین کابقعہ ان ہی میں سے ایک ہے ۔(۱)

دوسری روایت

جلیل القدرشیخ جعفرابن محمدابن قولویہ نے اپنی کتاب “کامل الزیارات”میں ابواہاشم جعفری سے ایک روایت نقل کی ہے کہ امام علی نقی نے اپنی بیماری کے زمانہ میں ایک شخص کومحمدابن حمزہ کے پاس بھیجا،لیکن امام (علیه السلام)کاوہ قاصدپہلے میرے پاس آیااورمجھے خبردی

____________________

۱)عدة الداعی/ص ۴٨

۳۳۰

کہ امام (علیه السلام)باربارفرمارہے تھے: “اِبْعَثُوااِلَی الْحَائِر ”کسی کوامام حسین کے روضہ پربھیجوتاکہ وہاں جاکرمیرے لئے دعاکرے ،میں نے کہا:محمدابن حمزہ سے کیوں نہیں کہا:؟میں حائرجاو ںٔ گا.اس کے بعدمیں خودامام (علیه السلام)کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیا:آپ پرقربان جاؤں میں حائرجارہاہوں،امام(علیه السلام) نے فرمایا: ذراغورفکرکرو،تم تقیہ کی حالت میں ہوکسی کوتمھاری خبرنہ ہوجائے اس کے بعدامام (علیه السلام)نے فرمایا:محمدابن حمزہ رازدارنہیں ہے وہ زیدابن علی سے تعلق رکھتاہے یہ کنایہ ہے کہ وہ شیعہ نہیں ہے ،امام (علیه السلام) نے فرمایا:مجھے پسندنہیں ہے کہ وہ اس چیزکوسنے

جعفری کہتے ہیں کہ :میں نے اس بات سے علی ابن بلال کومطلع کیاتوانھوں نے کہا: حضرت کوحائرکی کیاضرورت ہے وہ توخودہی حائرہیں،پس جب میں کربلاجاکرحائر امام حسینمیں دعاکرکے سامرہ واپس آیااورامام علی نقی سے ملاقات کے لئے ان گھرپہنچااوربیٹھ گیاجب امام (علیه السلام)تشریف لائے تومیں نے امام (علیه السلام)کے احترام میں اٹھناچاہامگرامام (علیه السلام)نے مجھے بیٹھے رہنے کاحکم دیا،جب میں نے آپ کے لطف وکرم کے آثاردیکھے توعلی ابن بلال کی بات آپ کے سامنے پیش کی، امام (علیه السلام) نے فرمایا:تم نے ان سے یہ کیوں نہیں کہہ دیاکہ رسولخدا (صلی الله علیه و آله)خانہ کعبہ کاطواف کرتے تھے اورحجراسودکوبوسہ دیتے تھے جبکہ نبی ومومن کی حرمت کعبہ کہیں زیادہ ہے اورخدانے کہاہے کہ عرفات میں جاکرتوقف کریں کیونکہ کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں ) خدااپناذکرپسندکرتاہے اورحائر(روضہ أمام حسین)ان میں سے ایک ہے۔(۱)

سفینة النجاح حضرت امام حسین اورباب الحوائج حضرت ابوالفضل العباسصرف شیعوں ہی کی مددنہیں کرتے ہیں اورصرف انھیں کی فریادنہیں سنتے ہیں کوسنتے ہیں، یہ ان کے نواسے ہیں جودنیاکے رحمت بن کرآئے ،یہ وہ ہستیاں جودکھیاروں کے دھرم ومذہب کونہیں دیکھتے ہیں بلکہ فریادی کے دل کے یقین اوراس کے سوزواخلاص کودیکھتے ہیں اوردل کایقین اثرضروردکھاتاہے،جومصیبت کامارابھی ان کی چوکھٹ پہ کھڑاہوجائے یاانھیں دورسے پکارے تووہ خداکی دی ہوئی قدرت اورشکتی سے اس کی مصیبت کی بیڑی ضرورکاٹ دیتے ہیں ،یہ ان کے گھرکی ریت نہیں کہ وہ کسی کواپنے درسے خالی ہاتھ واپس بھیج دیں،ان کی چوکھٹ پہ حاضرہونے والے اورانھیںفریادکرنے والے مایوس نہیں ہوتے ہیں بلکہ اپنی مرادیں لے کرجاتے ہیں اوران کی فریاداورآوازکربلاکی راجدھانی تک ضرورپہنچتی ہے ،دنیامیں کت نے غیرمسلم لوگ ہیں جوامام حسین(علیه السلام) اورحضرت عباس (علیه السلام)کے درسے اپنی مرادیں پاتے ہیں ،ہندوپاک اوردیگرممالک میں کت نے غیرمسلم لوگ ایسے ہیں جوہرسال ان کی یادمناتے ہیں،ان کے نام سے دنیابھرہرہوہرقوم وملت کے ہزاروں لوگ شفاپاتے ہیں اوراپنی حاجتوں کوپہنچتے ہیں ۔

____________________

.۱)کافی /ج ۴/ص ۵۶٧

۳۳۱

یہ وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جنھیں خداوندعالم نے ہرزبان کے بولنے اورسمجھنے کی قدرت عطاہے ،خواہ ان سے کوئی شخص ہندی زبان میں ان سے کسی چیزکوطلب کرے یافارسی ،یاترکی زبان ،اردومیں یاپشتو،تلگومیں یامراٹھی میں یااورکسی دوسری زبان میں ،بعض واقعات ایسے بھی ملتے ہیں کہ جن میں آپ نے اپنے ہندی زبان والے سے ہندی میں باتیں کی ہیں اورفارسی والے سے فارسی میں کلام کیاہے ۔

کن لوگوں کی دعامستجاب ہوتی ہیں

خداوندعالم اپنے تمام بندوں پررحم وکرم کرتاہے،مومن منافق ،عالم جاہل ،امیرغریب ،قہری دیہاتی سب کورزق روزی دیتاہے اوران کی دعاؤں کومستجاب کرتاہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں کہ بارے میں روایتوں میں بیان کیاگیاہے کہ ان لوگوں کی دعا ضروریابہت جلدقبول ہوتی ہے:

١۔ انبیاء ورسل اورامام عادل کی دعا

انبیاء ورسل اورمعصومین اورعادل پیشواورہنماکی دعاکوبہت جلدقبول کرتاہے اور خداوند عالم ان فریادکوبہت جلدسنتاہے ،قرآن کریم میں چندواقعات ایسے ہیں جن سے یہ صاف واضح ہے کہ خداوندعالم اپنے نیک بندوں کی دعاضرورقبول کرتاہے خداوندعالم نے ہابیل کی دعاقبول کو کیااورقابیل کوہلاک کردیا، قوم لوط پرعذاب نازل کیا،وہ لوگ کہ جو حضرت صالح کے ناقہ کوقتل کرنے میں شریک تھے اورنبی کی باتوں کونہیں مانتے تھے ان پرخدانے کس طرح کاعذاب نازل کیا،طوفان نوح (علیه السلام)کی داستان کہ جسے قرآن کریم میں اس طرح ذکرکیاگیاہے: جب حضرت نوح کواس بات یقین ہوگیاکہ اب ان چندافرادکے علاوہ کوئی اورشخص ایمان لانے والانہیں ہے توآپ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

( ربِّ لَاتَذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا ) (۱) پروردگارا!توکسی کافرکوزمین زندہ باقی نہ رکھ ۔

خداوندعالم نے حضرت نوح کوکشتی بانے کاحکم دیا،جب کشتی بن کرتیارہوگئی توت نورسے پانی ابلناشروع ہوا،حضرت نوح اپنے مومنین کے ہمراہ کشتی میں سوارہوئے اورسب جگہ پانی ہی پانی ہوگیانتیجہ یہ ہواکہ جولوگ کشتی نوح میں سوارہوئے انھوں نے نجات پائی اورجوسورانہ ہوئے وہ سب غرق وہلاک ہوگئے متقی اورعادل رہنماکے بارے میں عوف ابن مالک اشجعی سے مروی ہے کہ میں نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کویہ فرماتے سناہے:

____________________

۱). سورہ نٔوح/آیت ٢۶

۳۳۲

خیارآئمتکم الذین تحبونهم ویحبونکم وتصلون علیهم ویصلون علیکم وشرارآئمتکم الذین تبغضون ویبغضون وتلعنونهم ویلعنونکم ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تمھارابہترین امام ورہبروہ ہیں کہ جنھیں تم دوست رکھتے ہواوروہ بھی تمھیں دوست رکھتے ہیں ،تم ان کے لئے دعاکروکیونکہ وہ تمھارے لئے دعاکرتے ہیں اور تمھارے بدترین رہنماوہ ہیں جنھیں تم دشمن رکھتے ہواوروہ بھی تمھیں دشمن رکھتے ہیں،تم ان کے لئے نفرین کروکیونکہ وہ تمھارے لئے نفرین کرتے ہیں۔

٢۔ مظلوم کی دعا

جب کوئی مظلوم الله تبارک وتعالی کی بارگاہ میں دعاکرتاہے تواپنی مظلومیت کی وجہ سے اس کے جسم پرخوف خدابھی ہوتاہے اورتضرع کی حالت بھی طاری رہتی ہے اوراس دل بھی بہت رنجیدہ رہتاہے لہٰذاپروردگارعالم اس کے خلوص اوربے چارگی کودیکھ کر اس کی دعابہت جلدقبول کرتاہے ،اسی طرح اگروہ کسی کے لئے بددعابھی کرتاہے تووہ بھی بہت جلدقبول ہوتی ہے

عن ابی عبدالله علیه السلام قال رسول الله صلی الله علیه وآله :ایاکم ودعوة المظلوم فانهاترفع فوق السحاب حتی ینظرالله عزوجل الیهافیقول:اِرفعوهاحتی استجیب له ، وایاکم ودعوة الوالد ، فانهااحدُّمن السیف ۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مظلوم کی دعاسے ڈرو؛کیونکہ مظلوم کی دعابادلوں اورموانع دعاکے پردوں سے گذرکرآسمان تک پہنچتی ہے ،جب خداوندعالم مظلوم کی دعاکی طرف نگاہ کرتاہے تواپنے فرشتوں کودیناہے :اس دعاکوبہت جلداوپرلے آؤ تاکہ اسے قبول کروں،اورباپ کی نفرین سے بھی ڈرو؛کیونکہ وہ شمشیربرّاں سے بھی تیزہوتی ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:کان ابی یقول:اتقوالظلم فانّ دعوة المظلوم تصعدالی السماء. (۳)

امام باقر فرماتے ہیں:مظلوم کی دعاسے بچو،کیونکہ مظلوم کی دعاآسمان تک پہنچتی ہے ۔

ان دونوں مورد(عادل رہنمااورمظلوم کی دعا)کے بارے میں اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب خداندعالم امام عادل اورمظلوم کی کی دعاکومستجاب کرتاہے توپھرامام حسین نے کربلاکے میدان میں اپنے دشمنوں کے بددعاکیوں نہیں کی، یاحضرت امام زین العابدین اورحضرت زینب کبریٰ نے دعاکیوں نہیں کی ؟

____________________

.۱)مکارم الاخلاق/ص ٢٧۵

. ٢)الغدیر(علامہ امینی)/ج ١٣٨٧ )

۳)کافی/ج ٢/ص ۵٠٩ (

. ۴)کافی/ج ٢/ص ۵٠٩

۳۳۳

اس سوال کامختصرجواب یہ ہے کہ ،امام حسیناورامام زین العابدین اورزینب کبریٰ رحمت للعالمین سے رشتہ رکھتے تھے ،دوسروں پررحم کرم کرنا،حتی دشمن کوبھی اپنے درسے خالی ہاتھ واپس نہ بھیجنارسول اکرم (صلی الله علیه و آله)اورمولائے کائنات حضرت علی سے ورثہ میں ملاہے لہٰذاوہ کس طرح دشمن کے لئے بددعاکرسکتے تھے ، اگرامام حسین یاامام زین العابدین یازینب کبریٰ دشمنوں کی نابودی کے لئے بد دعاکردیتے توقیامت برپاہوجاتی اوردین اسلام بھی نابودہوجاتا،جب حضرت زینب نے دربارشام میں دعاکے لئے ہاتھ بلندکئے توامام سجاد (علیه السلام)نے فرمایا:اے پھوپھی امّاں بددعانہ کرناورنہ تمھارے بھائی ’حسین (علیه السلام) کی محنت بے کارہوجائے گی اوراسلام صفحہ ہستی سے نابودہوجائے ۔

٣۔ فرزندصالح کی والدین کے حق میں دعا

ہرانسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے والدین کے لئے دعاکرے خواہ والدین حیات ہوں یادنیاسے سفرکرچکے ہوں،کیونکہ والدین ان کے وجودمیں لانے کاسبب ہوتے ہیں ،والدین ان کی تربیت کرتے ہیں ،انبیاء وآئمہ ااوراولیائے خداکی یہی سیرت رہی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لئے ان کی زندگی میں بھی اوران کے مرنے کے بعدبھی دعاکرتے تھے ،والدین کی اطاعت کرنے اوران کےلئے دعاکرنے سے الله تبارک وتعالیٰ اورانبیاء وآئمہ خوش ہوتے ہیں ،والدین کے لئے دعاکرنے سے دنیاوآخرت کی سعادت اورخوشبختی نصیب ہوتی ہے اورعقل بھی اس بات کاتقاضاکرتی ہے انسان کواپنے کے لئے دعاکرنی چاہئے ،ا گرکوئی فرزنداپنے والدین کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اسبندہ کی والدین کے بارے میں دعاکوبہت جلدقبول کرتاہے۔ روایت میں آیاہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے پوچھا:یانبی الله!لوگوں کاانسان پرسب سے بڑاکونساحق ہے؟آنحضرت نے فرمایا:ماں اورباپ کاحق۔(۱) حضرت ابراہیمنے بارگاہ خداوندی میں اپنے والدین کے لئے دعاکی:

( رَبَّنَااغْفِرْلِیْ وَلِوَاْلِدَیَّ وَلِلْمُو مِٔنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَاب ) (۲) پروردگارا!مجھے اورمیرے والدین اورتمام مومنین کواس دن جس دن کے لئے بلندکیاجائے گابخشدے۔

اورحضرت نوح اپنے والدین کے لئے اس طرح دعاکرتے ہیں:( رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَاْلِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیْ مُو مِٔنًاوَّلِلْمُو مِٔنِیْنَ وَالْمُو مِٔنٰتِ وَلَاتَزِدِالظّٰلِمِیْنَ اِلّاتَبَارًا ) (۳)

پرودگارا!مجھے اورمیرے والدین کواورجوایمان کے ساتھ میرے گھرمیں داخل ہوجائیں اورتمام مومنین ومومنات کوبخش دے اورظالموں کے لئے ہلاک کے علاوہ کسی شئے میں اضافہ نہ کرنا۔

____________________

. ۱)مستدرک الوسائل /ج ١۵ /باب ٧٧ /ح ٣ -.۲)سورہ أبراہیم/آیت ۴٢ --. ۳)سورہ نٔوح/آیت ٢٨

۳۳۴

سوال یہ ہے کہ اگروالدین مسلمان نہ ہوں یاحق امامت کی معرفت نہ رکھتے ہوں کیاپھربھی ان کے لئے دعاکرنی چاہئے ؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ والدین مسلمان ہوں یاکافر،مومن یامنافق،ان لئے کے دعاکرنے سے دوری نہیں کرنی چاہیے ،ان کے لئے توبہ واستغفارکرناچاہئے ،ان کے طول عمرکی دعاکرنی چاہئے

معمرابن خلادسے مروی ہے کہ میں نے امام علی رضا سے عرض کیا:کیامجھے والدین کے لئے دعاکرنی چاہئے جبکہ وہ حق امامت کی معرفت نہیں رکھتے ہیں؟ امام(علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا:

ادع لهماوتصدق منهما،وان کان حیَّیْن لایعرفان الحق فدارِهِمافانّ رسول الله صلی الله علیه وآله قال:انّ الله بالرحمة لابالعقوق .(۱)

ہاں!ان دونوں کے لئے دعاکرواوران کی طرف سے صدقہ بھی دو،اگروہ دونوںزندہ ہوں اورحق کی معرفت نہیں رکھتے ہوں تو ان کے ساتھ اچھے تعلقات ضروررکھواوران کے ساتھ نیک برتاو کٔروکیونکہ پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کاارشادگرامی ہے :خداوندعالم نے مجھے رحمت کے ساتھ مبعوث کیاہے نہ عقوق کے ساتھ یعنی والدین کی نافرمانی مت کرواورانھیں رنجیدہ بھی نہ کروکہ جسکی وجہ سے انسان خودبخود عاق والدین ہوجاتاہے ۔

صحیفہ سٔجادیہ میں آیاہے کہ امام زین العابدین کسی بھی وقت اپنے والدین کی یادسے غافل نہیں رہتے تھے اوربارگاہ خداوندی اس طرح رازونیازکرتے تھے:اللّٰهم لات نسنی ذکرهمافی ادبارصلواتی ، وفی آن من اناء لیلی ، وفی کل ساعة من ساعات نهاری

بارالٰہا!تومجھے میرے والدین کے بارے میں ہرنمازکے بعدان کی یادسے غافل نہ ہونے دینااور پوری رات اور پورے دن کی کسی گھڑی میں مجھے والدین کی یادسے غافل نہ ہونے دینابلکہ میں ہروقت انھیں یادکرتارہوں اوران کے لئے دعائیں کرتارہوں۔(۲)

____________________

. ۱)کافی /ج ٢/ص ١۵٩

۲) صحیفہ سٔجادیہ /دعائے ١۶ /بند ٣٠

۳۳۵

۴ ۔ نیک والدین کی دعا اولادکے حق

جت نادل والدین کااپنی اولادکی فلاح وبہبودکے لئے تڑپتاہے کسی چیزکے لئے نہیں تڑپتاہے ،والدین جوکچھ کرتے ہیں اپنی اولاکی کامیابی کے لئے کام کرتے ہیں ،وہ بارگاہ خداوندی میں اپنی اولادکے لئے جب بھی دعاکرتے ہیں توخداوندعالم اسے قبول کرتاہے خدانخواستہ اگراولادنافرمان نکل آئے تووالدین کادل بہت پریشان رہتاہے ،بعض والدین تواپنی اولادکے کارناموں کودیکھ کرذہنی توازن بھی کھوبیٹھتے ہیں،اب ایسی حالت میں اگروہ اپنی اولادکے لئے بارگاہ خداوندی بددعاکردیں توخدااسے قبول کرلیتاہے والدین کی اپنے فرزندوں کے بارے میں دعاکرنے سے متعلق چندروایت ذکرہیں

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:دعاء الوالدلِولده کدعاء النبی لاُمته ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:وہ دعاجووالداپنی اولادکے لئے کرتاہے اس دعاکے مانندہے جوایک نبی اپنی امت کے لئے کرتاہے یعنی جس طرح خداوندعالم انبیائے کرام کی ان دعاؤکوجووہ اپنی کی امت کے بارے میں کرتے ہیں قبول کرتاہے اسی والدین کی اس دعاکوجواپنی اولادکے بارے میں کرتے ہیں ضرورقبول کرتاہے۔

۶ ۔ معصوم بچہ کی دعا

جب تک بچہ نے کوئی گناہ انجام نہ دیاہوتوخداوندعالم اس کی اکثردعاؤں کومستجاب کرتاہے ،اس بارے میں امام علی رضا نے اپنے آباء سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:

دعاء اطفال امّتی مستجاب مالم یقارفواالذنوب ۔(۲)

میری امت کے بچوں کی دعااس وقت تک جب تک کہ ان کے ہاتھ کسی گناہ سے آلودہ نہ ہوئے ہوں بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے ۔

____________________

۱)نہج الفصاحة /ص ۴٨٢

۲)بحارالانوار/ج ٣۵٧

۳۳۶

٧۔ روزہ دارکی دعا

اگرروزہ دارافطارسے پہلے پورے دن میں یاافطارکرتے وقت کوئی دعاکرے تووہ بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتی ہے، اس بارے میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی ایک حدث نقل کی گئی ہے جسے آپ نے حاجی اورمجاہدکے وطن واپسی تک کے موردمیں ملاحظہ کرچکے ہیں لہٰذاتکرار کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس حدیث کے علاوہ معصوم (علیه السلام)سے ایک اورحدیث نقل کی گئی ہے:

عن ابی الحسن علیه السلام قال:دعوةالصائم تستجابعدافطاره وقال علیه السلام:انّ لصائم عندافطاره دعوة لاتردّ .(۱)

حضرت ابوالحسن (ساتوے یاآٹھوے امام )فرماتے ہیں:افطارکے وقت روزہ کی دعاقبول ہوتی ہے اورفرماتے ہیں:افطارکے وقت روزہ دارکی دعاواپس نہیں ہوتی ہے ۔

٨۔ مریض کی دعاشفاپانے تک

خداوندعالم بیمارشخص پراپنارحم وکرم نازل کرتاہے،اس کے آہ ونالہ بھی سنتاہے ،اگروہ مریضی کی حالت میں پروردگارسے کسی چیزکوطلب کرتاہے تونہایت سوزدل کے ساتھ دعاکرتاہے لہٰذاخداوندعالم اس کی دعاؤں کوقبول کرتاہے،اس بارے میں ایک حدیث میں ذکرہوچکاہے جسے ہم نے “حاجی اورمجاہدکے اپنے گھرواپسی” عنوان میں ذکرکیاہے،لیکن اس حدیث کے علاوہ ایک اورحدیث قابل ذکرہے:عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من عادَمریضاً فی الله لم یسئل المریض للعائدشیئاالّااستجاب الله له ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص خداکے لئے کسی بیمارکی عیادت کرے ،اگروہ بیماران لوگوں کے لئے جواس کی عیادت کرنے آتے ہیں الله تبارک وتعالیٰ سے جس چیزکی بھی تمناکرتاکرتاہے توخداوندعالم اس کی دعاکوعیادت کرنے والے لوگوں کے ) لئے ضرورقبول کرتاہے گا۔(۲)

٩۔ مومن کی غائبانہ دعااپنے دینی بھائیوں کے لئے

جب انسان رب کریم کی بارگاہ میں کوئی حاجت طلب کرناچاہتاہے اوراپنے رنج وغم کوبیان کرناچاہتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کے رنج وغم کوبھی یادرکھے بلکہ بہتریہ ہے کہ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے میں الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعاکرے

____________________

.۱)مستدرک الوسائل /ج ٧/ص ۵٠٢

۲)من لایحضرہ افقیہ/ج ٢/ص ٢٢۶

۳۳۷

کیونکہ جوشخص دوسروں کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اس کی دعاکوقبول کرتاہے اوراپنے فرشتوں سے کہتاہے :دیکھو!میرے اس بندے کواپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کارنج وغم بھی یادہے ،یہ خوداپنے لئے جس چیزکی تمنارکھتاہے اسے دوسروں کے لئے بھی دوست رکھتاہے لہٰذاخداوندعالم اس دعاکوقبول کرلیتاہے

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من قدم اربعین رجلامِن اِخوانه فدعالهم ثمّ دعالنفسه استجیب له فیهم وفیه. (۱)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص چالیس مومنوں کواپنے اوپرمقدم رکھے اورپہلے ان کے لئے دعاکرے ،اس کے بعداپنے لئے تواس کی دعاان کے لئے بھی اوراپنے لئے بھی مستجاب ہوگی۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ دعاء المرء لاخیه بظهرالغیب یدرّالرزق ویدفع المکروه ۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:کسی شخص کااپنے دینی بھائی کے لئے غائبانہ طورسے دعاکرنے سے اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے اوربلائیں دورہوتی ہے۔

امام صادق فرماتے ہیں:میرے پدرمحترم( امام محمدباقر )فرماتے ہیں:پانچ (لوگوں کی )دعاایسی ہیں کہ جن دعاؤں کے پروردگارتک پہنچنے میں کوئی پردہ نہیں ہوتاہے اور الله تبارک وتعالیٰ کی بارگامیں قبول واقع ہوتی ہیں وہ لوگ یہ ہیں:

۱۰۔ عادل رہنمااورپیشواکی دعا

٢۔مظلوم کی دعاکہ جس بارے میں خداوندعالم فرماتاہے:میں تیرے دشمن سے ضرورانتقام لوں گاچاہے ایک مدت کے بعد. ٣۔نیک وصالح فرزندکی والدین کے حق میں دعا. ۴ ۔ نیک وصالح ماں،باپ کی اولادکے بارے میں دعا ۵ ۔مومن کی دعااپنے بھائی کے لئے جواپنے بھائی غیرموجودگی میں اس کے لئے دعاکرتاہے ،جس کے بارے میں خداوندعالم فرماتاہے تمھیں بھی اس کے لئے اسی طرح ) دعاکرنی چاہئے۔(۳)

____________________

١)من لایحضرہ ا لفقیہ/ج ٢/ص ٢١٢

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۵٠٧ )

.۳)ثواب الاعمال/ص ١٩۴

۳۳۸

قال النبی صلی الله علیه وآله:ثلاث دعواتٍ مستجاباتٍ لاشکّ فیهنّ دعوة المظلوم ودعوة المسافرودعوة المسافرودعوة الوالدلِولده .(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اس میں کوئی شک نہیں ہے تین لوگوں کی دعائیں ضرورقبول ہوتی ہیں: ١۔مظلوم کی دعا ٢۔مسافرکی دعا ٣۔باپ کی دعااولادکے حق میں۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:پانچ لوگ ایسے ہیں جن کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں:

١۔مظلوم کی دعاجب تک اس کی مددنہ ہو جائے

٢۔حاجی کی دعااسکے اپنے گھرلوٹ جانے تک ٣۔مجاہداسلام کی دعااس کے اپنے ٹھکانے پر پہنچنے تک ۴ ۔ مریض کی دعاشفاپانے تک

۵ ۔وہ دعاجوکوئی شخص اپنے دینی بھائی کے لئے اس کی غیرموجودگی میں کرتاہے کرتاہے ،آنحضرت فرماتے ہیں کہ:یہ پانچوی دعا(مومن کادینی بھائی کے لئے اس کی غیرموجودگی میں دعاکرنا)ایسی دعاہے جودوسری دعاؤں کے مقابلہ میں سب سے پہلے قبول ہوتی ہے ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:چارلوگ ایسے ہیں جن کی دعائیں واپس نہیں ہوتی ہیں ،ان کے لئے آسمان کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اورعرش الٰہی تک پہونچتی ہیں:

١۔باپ کی دعا اپنے نیک فرزندکے لئے

٢۔مظلوم کی دعااس کے لئے کہ جسنے اس پرظلم کیاہے

٣۔عمرہ کرنے والے کی دعااپنے وطن میں واپسی تک

۴ ۔روزہ دارکی دعاروزہ افطارکرنے تک۔(۳)

____________________

.۱)مکارم الاخلاق/ص ٢٧۵

.۲)کنزالعمال/ج ٢/ص ٩٨

۳). نہج الفصاجة /ص ۴٨١

۳۳۹

دعامستجاب ہوجائے توکیاکرناچاہئے؟

وہ لوگ کہ کی دعائیں بارگاہ خداوندی مستجاب واقع ہوجاتی ہیں اورخداوندعالم انھیں اپنی بے کران نعمتیں عطاکردیتاہے توانھیں چندضروری چیزوں کاخیال رکھناچاہئے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ذکرہیں:

١۔ جس شخص کی دعاپوری ہوجائے اسے چاہئے کہ اپنے اندرغروروتکبرجیسی آگ کوپیدانہ کرے اوراپنے دل یہ خیال ہرگزپیدانہ کرے کہ میں ایک اچھااورنیک انسان ہوں لہٰذا الله تبارک تعالیٰ نے میری بات سن لی ہے اورمیری دعاقبول کرلی ہے کیونکہ غروروتکبرایسی آگ ہے جوانسان کے عمل کوباطل کرنے علاوہ خودانسان کوتباہ کردیتی ہے اوراس پرشیطان غالب آجاتاہے۔

٢۔دعامستجاب ہونے شخص کوچاہئے کہ خداکاشکراداکرے بلکہ مستحب ہے کہ دعاقبول ہوجانے کی وجہ سے دورکعت نمازشکربجالائے۔

٣۔دعاکے مستجاب ہوجانے پردعاکرناترک نہ کرے بلکہ دعامستجاب ہونے کے بعدبھی خالق دوجہاں کادروازہ کھٹکھٹاتارہے کہیں ایسانہ ہووہ الله کے نزدیک ایک اجنبی بندہ بن جائے اورخداوندعالم اسے ایک مطلبی انسان شمارکرے ۔ ۴ ۔اگردعامستجاب ہوجائے تو اس میں ممکن ہے کہ شایدتمھاری آوازمبغوض تھی جس کی وجہ سے خداوندعالم نے تمھیں اپنی بارگاہ سے جلدی نکال دینے کی وجہ سے تمھاری ) دعا جلدی قبول کرلی ہو ۔(۱)

دعاکے سایہ میں تلاش وکوشش

یہ بات عقل اورشریعت کے بالکل خلاف ہے کہ انسان گھرمیں یامسجدمیں مصلے پربیٹھ جائے اورفقط دعاکادامن تھام کرالله تبارک وتعالیٰ کی طرف سے رزق وروزی کے نازل ہونے کاانتظارکرنے لگے اورروزی کی تلاش کرنابندکردے اورکہے کہ خداوندعالم نے وعدہ دیاہے اورکہاہے:

( اُدْعُونِی اَستَجِبْ لَکُم ) تم مجھ سے مانگوتومیں عطاکروں گا یادرکھو!الله تبارک تعالیٰ نے کارکوشش کے تمام دروازے کھول رکھے ہیں ،انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے روزانہ کے اخراجات کے لئے کسی کام کی تلاش میں گھرسے باہرقدم نکالے ،اوراس کام میں برکت کی دعاکرے ،اس آیہ مبارکہ سے یہ کبھی ثابت نہیں ہوسکتاہے کہ انسان کوئی کام نہ کرے اورمصلے پربیٹھ کردعاکرتارہے اورخدااسے غیب سے رزق عطاکرتارہے گابلکہ مرادیہ ہے کہ تم دعاکرواورکاروبارکی تلاش میں نکلو،اِ نشاء الله تمھیں کام مل جائے اوراس میں منافع بھی ہوگا۔

____________________

.۱)کلیدسعادت/ ١۴۶

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370