نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار15%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167199 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

پھران کے بعدان کی جگہ پروہ لوگ آئے جنھوں نے نمازکوبربادکردیااورخواہشات کااتباع کرلیاپسیہ عنقریب اپنی گمراہی سے جاملیں گے۔

”غی” جہنم میں ایک وادی ہے کہ جس کی آگ سب سے زیادہ تیزاورعذاب سب سے زیادہ سخت ہوگا۔

تفسیرمنہج الصادقین میں لکھاہے کہ:آیت میں نمازکے ضائع کرنے اورخواہشات نفس کی اتباع کرنے والوں سے امت محمدی کے یہودی اورفاسق وگنہگارلوگ مرادہیں۔(۱)

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلم :لاتضیعواصلاتکم فانّ من ضیع صلاته حشره الله مع قارون وفرعون وهامان (لعنهم الله واخزلهم وکان حقاًعلی الله ان یدخله النارمع المنافقین والویل لمن لم یحافظ صلاته ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :اپنی نمازوں کوضایع نہ کرو، جو شخص اپنی نمازوں کوضایع کرتاہے خداوندعالم اسے قارون،فرعون اورہامان (خداان پر لعنت کرے اوررسواکرے)کے ساتھ محشورکرے گااورخداوندمتعال کوحق ہے کہ نمازکے ضایع کرنے والوں کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے اورویل ہے ان لوگوں کے لئے جواوقات نمازکی محافظت نہیں کرتے ہیں۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :لایزال الشیطان دعراًمن المومن ماحافظ علی الصلوات الخمس فاذاضیعن تجارا عٔلیه وا ؤقعه فی العظائم ۔(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:بیشک شیطان ہراس مومن سے خوف کھاتاہے جواپنی پنجگانہ نمازوں کواول وقت پاپندی سے اداکرتا رہتا ہے لیکن جب وہ اپنی نمازوں کونمازوں ضایع کرتاہے توشیطان اس پرقابض ہوجاتاہے اوراسے گناہ کبیرہ میں ڈال دیتاہے۔

قال علی علیه السلام:من ضیع صلاته ضیع عمله غیره ۔(۴)

امام علی فرماتے ہیں:جس نے اپنی نماز کو تبا ہ وبر با د کر دیا اس کے دوسر ے اعمال اس سے زیادہ تبا ہ وبر با د ہو جا ئیں گے ۔

____________________

.۱)سورہ مٔاعون/آیت ۴۔ ۵

. ۲)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠٢

. ۳)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠٢

. ۴)مستدک الوسائل/ج ١/ص ١٧٢

۱۶۱

عن امیرالمومنین علیه السلام انّه قال:علیکم بالمحافظة علی اوقات الصلاة فلیس منی من ضیع الصلاة .(۱)

امام المتقین حضرت علی فرماتے ہیں : اوقات نماز کی حفاظت کرنا تم پر واجب ہے جو شخص نماز کو ضایع کرتاہے وہ ہم سے نہیں ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : من صلی الصلاة لغیروقتهارفعت له سوداء مظلمة تقول ضیعت نی ضیعک الله کماضیعت نی (۲)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص نمازکواس کے غیروقت میں پرھتاہے تواس وہ نمازسیاہ اورتاریک ہوکرروانہ ہوتی ہے اورصاحب نمازسے کہتی ہے:تونے مجھے ضائع کیاہے خداتجھے بھی اسی طرح ضائع وبربادکرے جس طرح تونے مجھے ضائع وبربادکیاہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : لاینال شفاعتی غدا من اخرالصلاة المفروضة بعدوقتها ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:کل روزقیامت اسے میری ہرگزشفاعت نصیب نہ ہوگی جواپنی واجب نمازوں کوان کے وقت سے تاخیرمیںڈالتے ہیں۔(۳)

____________________

. ۱)مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٨۴

.۲) ثواب الاعمال/ص ٢٢٩

.۳) امالی (شیخ صدوق)/ص ۴٨٣

۱۶۲

نمازجماعت

نمازجماعت کی اہمیت

وہ لوگ جومسجدکے پڑوسی ہیں یامسجدسے اذان کی آوازسنتے ہیں ان کے لئے مستحب ہے بلکہ سنت مو کٔدہ ہے کہ اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں جماعت کےساتھ اداکریں،بالخصوص نمازصبح اورمغرب وعشاء کی نماز کوجماعت کے ساتھ اداکریں اورنمازجمعہ اورعیدین کے کوبھی جماعت سے پڑھاجائے ۔

نمازجماعت اہمیت کے لئے چنداحادیث ذکرہیں:

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے پنجگانہ نمازوں میں سے ایک بھی نمازکوجماعت کے بغیرادانہیں کیاہے اوراسلام کے آغازسے نمازجماعت قائم کرتے تھے اورحضرت علیاورجناب خدیجہ کے ساتھ نمازجماعت برگذارکرتے تھے یہاں تک کہ آپ نے رحلت کے وقت بھی نمازجماعت قائم کی۔

مرحوم شیخ عباس قمی “منتہی الاعمال” میں نقل کرتے ہیں:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کواس قدراہمیت دیاکرتے تھے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخر ی لمحات میں بھی نمازجماعت کادامن نہیں چھوڑااورشدیدبیمار ہونے کے باوجود اپنے دستہا ئے مبارک کوامام علی (علیه السلام)اور فضل ابن عباس کے شانوں پررکھا اور ا ن کا سہا رالے کرنہایت مشکل سے مسجد میں تشریف لائے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکیا۔(۱)

حضرت امام صادقفرماتے ہیں:ایک مرتبہ جب پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان لوگوں کے گھروں کوجلادینے کاحکم جاری کیا جو(منافقین)لوگ اپنے گھروں میں نمازپڑھتے تھے اورنمازجماعت میں حاضرنہیں ہوتے تھے ،ایک نابینا شخص آنحضرت کی خدمت میں ایا اورعرض کیا:اے الله کے پیارے نبی ! میں ایک نابیناشخص ہوں،جب اذان کی آوازبلند ہو تی ہے تومجھے کو ئی شخص ایسا نہیں ملتا ہے جو میری راہنمائی کرے تاکہ میں مسجدمیں پہنچ سکوں اور آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر جماعت سے پڑھوں ؟ رسول خدا (صلی الله علیه و آله) نے اس نابیناکی بات سن کرارشادفرمایا :

شدّمن منزلک الی المسجدحبل واحضرالجماعة

تم اپنے گھر سے لے کر مسجد تک ایک رسی کو وسیلہ قرار دو اور اس کی مددسے اپنے آپ کو نماز جماعت کے لئے مسجد تک پہنچایا کرو ۔(۲)

____________________

.۱) منتہی الاعمال/ج ١/ص ١٠٣

۲). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۶۶

۱۶۳

امام صادق فرماتے ہیں:کوفہ میں امام المتقین حضرت علی کوخبردی گئی کہ مسجد کے ہمسایوں میں کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو نماز جماعت میں حاضرنہیں ہوتے ہیں توآپ نے فرمایا:

لیحضرون معناصلات ناجماعة ،اولَتحولن عنّاولایجاورناولانجاورهم ۔

ان لوگوں کو چاہئے کہ ہمارے ساتھ نمازجماعت میں شرکت کیاکریں یاپھروہ ایساکریں یہاں سے دورچلے جائیں تا کہ انھیں مسجد کا ہمسایہ نہ کہاجاسکے اور ہم بھی ان کے ہمسایہ نہ کہلا ئیں۔(۱)

دین اسلام میں نمازجماعت کو ات نی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اوراس کے بارے میں ات نی زیادہ تاکیدکی گئی ہے کہ اگرکوئی شخص اجتماع سے پرہیزکرنے کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہویاجماعت سے بے اعت نائی کرے اوربغیرعذرکے جماعت میں شریک نہ ہوتواس کی نمازباطل ہے ۔

زرارہ اور فضیل سے روایت ہے کہ ہم دونوں نے (امام صادق )سے معلوم کیا:کیانمازکو جماعت سے پڑھناواجب واجب ہے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:الصلوات فریضة ولیس الاجتماع بمفروض فی الصلوات کلهاولکنهاسنة من ترکهاسنة رغبة عنهاوعن جماعة المسلمین من غیرعلة فلاصلاة له.

نمازواجب ہے لیکن کسی بھی نمازکوجماعت سے پڑھناواجب نہیں ہے بلکہ سنت مو کٔدہ ہے اورجوشخص اس سنت سے دوری اورجماعت مسلمین سے دوری کرنے کی بناپربغیرکسی مجبوری کے نمازجماعت کوترک کرے تواس کی نمازہی نہیں ہوتی ہے ۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:من ترک الجماعة رغبة عنهاوعن جماعة المسلمین من غیرعلة فلاصلاة له ۔

امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص نمازجماعت سے اورمسلمانوں کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوجانے سے دوری اختیارکرنے کی بناپربغیرکسی مجبوری کے نمازجماعت کوکرترک کرتاہے تو اس کی نمازہی نہیں ہوتی ہے ۔(۳)

قال امیرالمومنین علیه السلام:من سمع النداء فلم یجبه من غیرعلة فلاصلاةله ۔

امیرالمو منین حضرت علی فرماتے ہیں :جو شخص اذان کی آواز سنے اور اسپر لبیک نہ کہے اور بغیر کسی مجبوری کے نماز جماعت میں شرکت نہ کرے (اورفرادیٰ نمازڑھے) گویا اس نے نماز ہی نہیں پڑھی ہے۔(۴)

____________________

. ۱)امالی (شیخ صدوق)/ص ۶٩۶

۲)تہذیب الاحکام/ ٣/ص ٢۴

.۳) امالی/ص ۵٧٣

۳). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۴

۱۶۴

عن ابی جعفرعلیه السلام انّه قال:لاصلاة لمن لایشهدالصلاة من جیران المسجد الّامریض ا ؤمشغول ۔

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں : جو شخص مسجد کا ہمسایہ ہے اور نمازجماعت میں شرکت نہیں کرتاہے ، اس کی نمازہی نہیں ہے مگر یہ کہ وہ شخص مریض ہو یاکوئی عذررکھتاہو۔(۱)

عن الصادق علیه السلام :شکت المساجدالی الذین لایشهدونهامن جیرانها ، فاوحی الله عزوجل الیها:وعزتی وجلالی لااقبلت لهم صلاة واحدة ولااظهرت لهم فی الناس عدالة ولانالتهم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے بارگاہ خداوندی میں ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی عذر کے نماز کے لئے مسجد میں حاضرنہیں ہو تے ہیں شکایت کی توخداوندعالم نے مسجدوں پروحی نازل کی :میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں: میں ان لوگوں میں سے کسی ایک شخص کی بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں ،(میں دنیامیں ان لوگوں کو)ان کے معاشرے میں اچھے اور نیک آدمی کے نام سے نہیں شناخت نہیں کراتاہوں(اور تمام لوگ انھیں برابھلا کہتے ہیں اورآخرت میں ان انجام یہ ہوگاکہ) انھیں میری رحمت نصیب نہ ہو گی اور بہشت میں میرے قرب وجوار میں جگہ نہیں پائیں گے۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:قال لقمان لابنه :صلّ فی الجماعة ولوعلی راسٔ زجّ ۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں:حضرت لقماننے اپنے فرزندسے وصیّت کی : اے بیٹا! ہمیشہ نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنا خواہ تم نیزے پرہی کیوں نہ ہو۔

جماعت کی فضیلت وفوائد

جب دین اسلام نمازجماعت کی ات نی زیادہ تاکیدکی گئی اوراس قدرکی اہمیت بیان کی گئی ہے یقیناًنمازجماعت کے لئے بہت زیادہ ثواب معین کیاگیاہوگااوربہت زیادہ فضائل بیان کئے ہوگے ۔

دین اسلام میں معصومین کی زبانی نمازجماعت فضائل کے جوفضائل وفوائد ذکرگئے ہیں ہم ان میں سے چنداحادیث کوذکرکررہے ہیں:

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶

.۲) سفینة البحار/ج ١/ص ۶۶٠

۳) من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢٩٧

۱۶۵

امیرالمومنین حضرت علی فرماتے ہیں : خدا وندعالم نے جت نے بھی فرشتے خلق کئے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جوہمیشہ صف میں سیدھے کھڑے رہتے ہیں اورکسی بھی وقت حالت قیام سے باہرنہیں آتے ہیں اور بعض فرشتے ایسے جوہمیشہ رکوع کی حالت میں رہتے ہیں اور کسی بھی وقت حالت رکوع سے باہرنہیں آتے ہیں اور بعض فرشتے ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پرسجد ے میں رہتے ہیں اور کسی بھی وقت سجدے سے سربلندنہیں کرتے ہیں ،پس جولوگ اپنی نمازوں کوجماعت کے ساتھ اداکرتے ہیں تووہ قیام،رکوع اورسجود کی حالت میں ان فرشتوں کے مشابہ ہیں اب اگر کوئی شخص ان تمام فرشتوں کے ثواب سے بہرہ مندہوناچاہتاہے ان سب کے برابرثواب حاصل کرناچاہتاہے تواسے چاہئے کہ نماز جماعت کو ترک نہ کرے۔(۱)

محمدبن عمارہ سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا سے ایک خط کے ذزیعہ معلوم کیا:کسی شخص کانمازواجب کومسجدکوفہ میںفرادیٰ پڑھناافضل ہے یااسے جماعت پڑھنا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:

الصلافی جماعة افضل.

جماعت سے پڑھناافضل ہے۔(۲)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:من حافظ علی الجماعة حیث ماکان مرّعلی الصراط کالبرق اللامع فی اول زمرة مع السابقین ووجهه ا ضٔوءُ من القمرلیلة البدر،وکان له بکل یوم ولیلة یحافظ علیهاثواب شهید.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ شخص جونمازجماعت کا پابند رہتا ہے وہ روزقیامت سب سے پہلے پل صراط سے بجلی کے مانند تیزی سے گذرجائے گا اوراس کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بھی زیادہ چمکدارہوگا،پس وہ شخص جو شب وروزکی پنچگانہ نمازوں کے اوقات کی محافظت کرتاہے اورنمازکوجماعت سے اداکرتاہے تواسے ایک شہیدکادرجہ وثواب عطاکیاجاتاہے ۔(۳)

____________________

. ۱)مناہج الشارعین /ص ٢١٢ ۔ ٢١٣

۲)تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵

۳) ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٢٩١

۱۶۶

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة نفربغیرحساب،ویشفع کل واحد منهم فی ثمانین الفا:المؤذّن،والامام،ورجل یتوضا ثٔمّ دخل المسجد،فیصلّی فی الجماعة.

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : خدا وندمتعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیرکسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص ٨٠ / ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں : ١۔مو ذٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔وہ شخص جو اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے(۱)

قال النبی صلی الله علیه واله:صفوف الجماعة کصفوف الملائکة والرکعة فی الجماعة،اربعةوعشرون رکعة،کلّ رکعة احب الی اللهمن عبادة اربعین سنة ۔

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت کی نمازجماعت کی صفیں آسماں پر ملائکہ کی صفوں کے مانندہیں ،خداوند عالم نمازجماعت کی ہررکعت کو چالیس برس کی عبادتوں سے بھی زیادہ دوست رکھتاہے۔(۲)

قال رسول الله صلی علیه وآله:من مشیٰ الیٰ المسجد یطلب فیه الجماعة کان له بکل خطوة سبعون الف حسنة ویرفع له من الدرجات مثل ذٰلک فان مات وهوعلیٰ ذٰلک وکّل الله به سبعین الف ملک یعودونه فی قبره ویبشرونه ویو نٔسونه فی وحدته ویستغفرون له حتی یبعث ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص نمازجماعت میں شریک ہونے کی غرض سے مسجدکی جانب قدم بڑھائے تواس کے ہرقدم پرسترہزارنیکیاں لکھی جاتی ہیں اوراسی مقدارمیں اس کامقام بلندہوتاہے ،اگروہ اس حالت میں انتقال کرجائے توخداوندعالم سترہزارملائکہ کو اسے قبرمیں اتارنے کے لئے روانہ کرتاہے ،وہ فرشتے اسے خوشخبری دیتے ہیں اورقبرکی ت نہائی(اورتاریکی) اس کی مددکرتے ہیں اورجب تک وہ فرشتے اس کی قبرمیں رہتے ہیں اس کے لئے استغفارکرتے رہتے ہیں۔(۳)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الصلاة فی جماعة تفضل علی کلّ صلاة الفردباربعة وعشرین درجة تکون خمسة وعشرین صلاة.

امام صادق فرماتے ہیں:نمازجماعت فرادیٰ نمازپرچوبیس درجہ فضیلت رکھتی ہے کہ ایک نمازپچیس نمازوں کاثواب رکھتی ہے(۴)

____________________

۱) مستدرک الوسائل /ج ۶/ص ۴۴٩

۲) الاختصاص (شیخ مفید) ٣٩

۳) من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ١٧

۴). تہذب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵

۱۶۷

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : ایک دن نمازظہرکے بعد جبرئیل امین سترہزارفرشتوں کے ہمراہ نازل ہوئے اور مجھ سے کہا : اے محمد ! تمہاراپروردگاتم پر درودو سلام بھیجتا ہے اوراس نے تمہارے لئے دوتحفے بھیجے ہیں جو تم سے پہلے کسی بھی نبی کوہدیہ نہیں کئے گئے ہیں،میں نے جبرئیل سے پوچھا: وہ دوہدیہ کیا ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کیا :تین رکعت نمازوتراورپانچ وقت نمازجماعت ،میں نے کہا :اے جبرئیل !الله تبارک تعالیٰ نے میری امت کے لئے نمازجماعت میں کیااجرو ثواب معین کیا ہے ؟ جبرئیل نے جواب دیا: اگر جماعت میں دوشخص(ایک امام اوردوسراماموم) ہوں تو خداوند عالم ہرشخص کے نامہ أعمال میں ہر رکعت کے عوض ایکسو پچاس نمازوں کا ثواب درج کرتاہے اور اگر تین شخص ہوں توہر ایک شخص کے لئے ہر رکعت کے عوض چھ سو نمازوں کا ثواب درج کرتاہے اور اگر چار آدمی ہوں توہرایک کے لئے ہر رکعت کے عوض بارہ سونمازوں کا ثواب لکھتاہے ،اگرپانچ آدمی ہیں توہرایک کے لئے دس ہزارچارسونمازوں کاثواب لکھتاہے،اگرچھ آدمی ہیں توہرایک کے لئے چارہزارآٹھ سونمازوں کاثواب لکھتاہے ،اگرسات آدمی ہیں توہرایک کے لئے نوہزارچھ سونمازیں لکھی جاتی ہیں،اگرآٹھ آدمی ہوں توہرایک کے لئے ١٩٢٠٠ /نمازیں لکھی جاتی ہیں اسی طرح اگر جماعت میں نو شخص موجود ہوں توتب بھی یہی ثواب لکھاجاتا ہے اورجب نمازجماعت میں حاضرہونے والوں کی تعداددس تک پہنچ جاتی ہے تواگرتمام آسمان کاغذ، تما م دریاوسمندرروشنائی،تمام درخت قلم اور تمام جن وملک اورانسان کا تب بن جائیں تب بھی ان دس لوگوں کی ایک رکعت کا ثواب نہیں لکھ سکتے ہیں.اس کے بعدجبرئیل نے مجھ سے عرض کیا:اے محمد!کسی مومن کا امام جماعت کی ایک تکبیرکودرک کرلیناساٹھ ہزارحج وعمرہ سے بہترہے اوردنیاومال دنیاسے سترہزاردرجہ افضل ہے اورکسی مومن کا امام (علیه السلام)کے پیچھے ایک رکعت نمازپڑھنافقیروں اورحاجتمندوں پرایک لاکھ دینارخرچ کرنے سے افضل ہے اورکسی مومن کاامام (علیه السلام)کے ساتھ ایک سجدہ کرناراہ خدامیں سوغلام آزادکرنے سے افضل ہے ۔(۱)

ایک روایت میں آیاہے کہ ایک دن عبدالله ابن مسعود ات نی تاخیر سے نمازجماعت میں پہنچے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پیغمبر افتتاحی تکبیر (یعنی تکبیرةالاحرام)کہہ چکے تھے اورابن مسعوداس تکبیرکوحاصل نہ کرسکے تواس کے عوض ایک بندہ آزاد کیا ،اس کے بعد پیغمبراسلام کی خدمت میں ائے اورعرض کیا:یانبی الله!کیاایک غلام کے آزادکردینے سے مجھے جماعت کی اس تکبیرکاثواب حاصل ہوگیاہے جسے میں درک نہیں کرپایاتھا؟رسول خدا (صلی الله علیه و آله)نے جواب دیا:ہرگزنہیں،یہ جواب سن کرعبدالله ابن مسعودنے عرض کیا:اگرمیں ایک اورغلام آزادکردوں؟ آنحضرت نے فرمایا:اے ابن مسعود!اگرتم جوکچھ زمین وآسمان میں ہے اس کو راہ خدا میں انفاق کردوپھربھی اس تکبیرکاثواب حاصل نہیں کرسکتے ہو۔(۲)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٨۵ /ص ١۴ ۔ ١۵

.۲) جامع الاخبار/ص ٩١ ۔ ٩٢

۱۶۸

صف اول کی فضیلت

مستحب ہے کہ انسان نمازجماعت کی پہلی صف میں خصوصاامام جماعت کے پیچھے حاصل کرے لیکن یہ بھی مستحب ہے کہ بزرگ وافضل ومتقی لوگ امام کے پیچھے کھڑے ہوں،پہلی صف میں کھڑے ہوکرنمازپڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے ،اس بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال ابوالحسن موسی الجعفرعلیهماالسلام :ان الصلاة فی صف الاول کالجهادفی سبیل الله عزوجل ۔

حضرت امام موسیٰ بن جعفر فرماتے ہیں : صف ا ول میں کھڑ ے ہو کر جماعت کے ساتھ پڑھنا راہ خدا میں جہا د کرنے کے مانندہے ۔(۱)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:افضل الصفوف اوّلهاوافضل اوّلهادنامن الامام

امام محمدباقر فرماتے ہیں:سب سے افضل وبرترپہلی صف ہے اورپہلی صف میں امام کے قریب والی جگہ سب سے افضل ہوتی ہے۔(۲)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:من حافظ علی الصف الاول والتکبیر الاولی لایوذی مسلما اعطاه اللهمن الاجر مایعطی المو ذٔن فی الدنیاوالآخرة ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص پہلی صف میں نمازپڑھتاہے اورپہلی تکبیرکودرک کرلیتاہے کوئی بھی مسلمان اسے اذیت نہیں پہنچاسکتاہے اورخداوندعالم اسے وہی اجروثواب عطاکرتاہے جوایک مو ذٔن کودنیاوآخرت میں عطاکرتاہے ۔(۳)

نمازجماعت کانقطہ آغاز

اس میں کوئی شک نہیں ہے اورکتب تواریخ میں بھی یہی ملتاہے کہ جس وقت سے خداوندعالم نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)درجہ رسالت مبعوث کیا اورآپ کوپہلے آپ کواپنے اقرباء کے لئے تلیغ دین کاحکم ملااوراس کے بعدکھلی کوئی تبلیغ کرنے کے لئے حکم خداملاتوسب سے پہلے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ایمان لائے اس کے بعدحضرت خدیجہ ایمان دین اسلام سے مشرف ہوئیں اورجیسے ہی پروردگارنے آنحضرت کونماز پڑھنے کاحکم دیاتو آپ نے امام علی (علیه السلام)اورخدیجہ کے ساتھ نمازجماعت قائم کی اورزندگی میں کبھی بھی جماعت کے بغیرنمازادانہیں کی ۔

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٨۵

.۲) وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٣٨٧

۳). من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ١٨

۱۶۹

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)وہ ذات گرامی ہیں کہ جنھوں نے زندگی میں کبھی فرادیٰ نمازنہیں پڑھی ہے بلکہ ہمیشہ اپنی واجب نمازوں کوجماعت سے پڑھے تھے اورآغازاسلام کے بعدسے چھ مہینہ تک صرف تین شخص نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)،حضرت علی اورجناب خدیجہ کے درمیان نمازجماعت قائک ہوتھی ۔

اسماعیل ابن ایاس ابن عفیف کندی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ: میں ایک تاجرآدمی تھا،جب میں تجارت کے لئے زمانہ جٔاہلیت میں شہرمکہ میں داخل ہو ا اورتجارت کاسامان خریدنے کے لئے عباس ابن عبدالمطلب کے پاس پہنچاکیونکہ وہ بھی ایک تاجرشخص تھے ، ہم دونوں (خانہ کعبہ کے نزدیک کھڑے ہوئے )ناگہاں میں نے کعبہ کے قریب ایک خیمہ سے ایک جوان نکلتے ہوئے دیکھا،وہ جوان کعبہ قریب آئے ،میری نگاہوں نے اتناحسین چہرہ آج تک کبھی نہیں دیکھاتھا،وہ جوان کعبہ کے مقابل آکر کھڑے ہو ئے اورسورج کس طرف دیکھا(کہ نمازکے وقت ہوگیاہے یانہیں )اس کے بعدوہ جوان نمازکے لئے کھڑے ہوگئے ،اسی وقت ایک بچہ اورایک عورت خیمہ سے باہرنکلے وہ بچہ آکر دائیں جانب کھڑا ہوگیااوروہ عورت ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی ،ہماری نگاہوں نے دیکھا کہ وہ بچہ اور عورت اپنے آگے کھڑے ہونے کی شخص کی اتباع کررہے ہیں، اگر وہ رکوع میں جاتے ہیں تو یہ دونوں ان کے ساتھ رکوع میں کرتے ہیں اور اگر وہ سجد ہ کرتے ہیں تو یہ دونوں بھی ان کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں ، اس بے سابقہ منظرکودیکھ کرمیرے جسم پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی ،اور میرے اندر ہیجان پیدا ہوگیا لہٰذا میں نے نہایت تعجب کے ساتھ عباس ابن عبدالمطلب سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس نے جواب دیا:

وہ شخص جوآگے کھڑے ہوئے ہیں محمد ابن عبدالله (صلی الله علیه و آله)ہیں اور وہ بچہّ عبدالله کے بھائی عمران کے فرزند علی ابن ابی طالبہیں اور وہ عورت جو پیچھے کھڑی ہو ئی ہیں وہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی ہمسر خدیجہ ہیں، اس کے بعد عباس ابن مطلب نے کہا:

میرے چچازاد بھائی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں: ایک دن وہ بھی آئے گا کہ جب قیصروکسریٰ کا پورا خزانہ ہمارے اختیار میں ہو گا ، لیکن خدا کی قسم اس وقت پوری کائنات میں اس مذہب کی پیروی کرنے والے صرف یہی تین لوگ ہیں،اس کے بعد راوی کہتاہے :اے کاش !خداوندعالم مجھے ات نی توفیق دیتاکہ آنحضرت کے پیچھے اس وقت ) نمازپڑھنے والوں علی (علیه السلام) کے بعددوسراآدمی ہوتا۔(۱)

____________________

.۱)مناقب امیر المومنین /ج ١/ص ٢۶١ ۔ینابیع المو دٔة /ج ٢/ص ١۴٧ (

۱۷۰

امام علی ابن طالب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے نمازپڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

اناعبدالله ، واخورسول الله ، واناالصدیق الاکبر، لایقولهابعدی الّاکاذب مفتری ولقدصلیت مع رسول الله (صقبل الناس بسبع سنین وانااوّل من صلی معه

میں بندہ خداہوں اوررسول خدا (صلی الله علیه و آله)کابھائی ہوں اورمیں ہی صدیق اکبرہوں اورمیرے بعد صدیق اکبرہونے کادعویٰ کرنے والاشخص خالصتاًجھوٹ بولتاہے اورجن لوگوں نے سب سے پہلے رسول خدا (صلی الله علیه و آله) کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کی ہے میں نے ان لوگوں سے سات سال پہلے آنحضرت کے پیچھے نمازیں پڑھناشروع کردی تھی اورمیں ہی پہلا وہ شخص ہوں جسنے آنحضرت کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔(۱)

مرحوم ثقة الاسلام شیخ ابوجعفرکلینی کتاب “کافی ”میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں:

عن ابی جعفر علیه السلام قال:لمااسریٰ برسول الله صلی الله علیه وآله الی السماء فبلغ البیت المعموروحضرت الصلاة فاذن جبرئیل واقام فتقدم رسول صلی الله علیه وآله وصف الملائکة والنبیون خلف محمدصلی الله علیه وآله .

حضرت امام باقر فرماتے ہیں:جب شب معراج پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کو آسمان پرلے جایاگیاتو آنحضرتبیت المعمورمیں پہنچے ،جیسی ہی نمازکاوقت پہنچاتوالله کی طرف سے جبرئیل امین (علیه السلام)نازل ہوئے اوراذان واقامت کہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کے لئے آگے کھڑے ہوئے اورانبیا(علیه السلام)وملائکہ نے آنحضرتکے پیچھے صف میں کھڑے ہوکرجماعت سے نمازپڑھی ۔(۲)

روایت میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)شدید گرمی کے ایام میں بھی نمازظہر وعصرکے لئے جماعت قائم کرتے تھے لیکن منافقین کاایک گروہ جومومنین کی صفوں میں تفرقہ ایجادکرنے کے لئے گرم ہواکوبہانہ قراردیتے تھے اورنمازجماعت میں شرکت نہیں ہوتے تھے بلکہ دوسرے ل

____________________

١)الغدیر/ج ٣/ص ٢٢١ ۔سنن کبروی /ج ۵/ص ١٠٧

۲). کافی (باب بدء الاذان والاقامة)ج ٣/ص ٣٠٢

۱۷۱

وگوں کونمازجماعت میں شریک ہونے سے منع کرتے تھے ،ان کے اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے نمازجماعت میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی اوریہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی:

( حَاْفِظُواعَلَی الصّلَوٰت وَالصَّلٰوةِالْوُسْطیٰ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْن ) تم اپنی نمازوں بالخصوص نمازوسطیٰ نمازظہرکی محافظت اورپابندی کرو اورالله کی بارگاہ میں خضوع وخشوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔(۱)

ان مذکورہ احادیث سے یہ واضح ہوتاہے کہ اجیسے ہی نمازکے وجوب کاحکم نازل ہواتواسی وقت پہلی ہی نمازمیں جماعت کی بنیادرکھ دی گئی تھی اورآغازسلام ہی سے نمازجماعت کاآغازہوچکاتھااورشب معراج ایک عظیم نمازجماعت برگذارہوئی کہ جبرئیل امین نے اذان واقامت کہی اوراس کے بعدانبیائے الٰہی اورتمام ملائکہ نے آنحضرت کے پیچھے نمازجماعت پڑھ کراپنے لئے فخرومباہات کیا۔

روئے زمین پرایک اورنمازبڑے عظمت وقارکے ساتھ برگذارہوگی کہ جب ہمارے آخری امام ظہورفرمائیں گے اور آسمان سے عیسیٰ (علیه السلام)بھی آکراس نمازمیں شرکت کریں گے ،خداوندعالم سے دعاہے کہ بہت جلدامام زمانہ کرے اورہمیں ان کے اصحاب وانصاراوران کے مامومین سے قراردے(آمین بارب العالمین)۔

____________________

. ۱)سورہ بٔقرة /آیت ٢٣٨ تفسیرنمونہ /ج ٢/ص ١۴۶

۱۷۲

رازجماعت

دین اسلام میں نمازجماعت کے قائم کرنے کی چندوجہ بیان کی گئی ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ نمازکے ذریعہ کے مسلمانوں کے درمیان اتحادقائم ہوتاہے ،مومنین کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے ،احوال پرسی ہوتی ہے ،سب ایک دوسرے کی خبررکھتے ہیں۔ امام علی بن موسی الرضا +فرماتے ہیں:دین اسلام میں نمازجماعت کواس لئے قراردیاگیاہے تاکہ اس کے ذریعہ اخلاص،توحید،اسلام اورعبادت خداندی ظاہری طورسے بھی اظہارہوجائے کیونکہ نمازجماعت کے اظہارکے ذریعہ عالم شرق وغرب کے لئے خداوندعالم کے بارے میں ایک دلیل قائم ہوجاتی ہے اورنمازجماعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ منافق لوگ جونمازہلکااورآسان کام شمارکرتے ہیں وہ اس چیزپرمجبورہوجائیں جس چیزکاظاہر ی طورسے اقرارکرتے ہیں اس کاسب لوگوں کے سامنے اقرارکرے اوراس چیزکے پابندجائیں جووہ اپنی زبان سے اسلام کے بارے میں اظہارکرتے ہیں اورنمازجماعت کے قراردئے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نمازجماعت میں حاضرہونے والے لوگ ایک دوسرے کے مسلمان اورمتقی وپرہیزگارہونے کی گواہی دے سکیں۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال : انماجعلت الجماعة والاجتماع الی الصلاة لکی یعرف من یصلی ممن لایصلی ، ومن یحفظ مواقیت الصلاة ممن یضیع .

امام صادق فرماتے ہیں :دین اسلام میں نمازجماعت کواس لئے قراردیاگیاہے تاکہ اس کے ذریعہ نمازپڑھنے والوں کی نمازنہ پڑھنے والوں سے پہچان ہوسکے اوریہ معلوم ہوجائے کہ کون لوگ اوقات نمازکی پابندی کرتے ہیں اورکون نمازکوضایع کرتے ہیں ۔(۲)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نمازجماعت کے وجہ مومینن ومسلمین کے درمیان اتحادبرقرار ہوتاہے مومنین صبح ،دوپہراورشام میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں،احوال پرسی کرتے ہیں، دین اسلام میں نمازجماعت کواسی لئے مقررکیا گیاہے کہ تاکہ صبح سویرے مومن بھائی ایک دوسرے سے ملاقات کریں ایک دوسرے کی احوال پرسی کریں اورپھردوبارہ ظہرمیں ملاقات کریں

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ١/ص ٢۶٢

. ۲)وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٣٧٧

۱۷۳

اوررات میں بھی ملاقات کریں اورنمازجماعت کواس لئے مقررکیاگیاہے تاکہ بستی کے لوگ آپس میں متحدرہیں اورکوئی ان کے خلاف کسی طرح کاپروپیگنڈہ نہ پھیلائے لیکن اس طرح بھی دیکھنے میں آتاہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی وجہ سے امام جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں اورپیش نمازپرمختلف طریقہ سے اعتراض کرتے ہیں یہاں کہ اسلام کالباس پہن کرمسجدمیں حاضرہوتے ہیں اوریہ نبی کے زمانے میں ہوتاتھااورمنافقین لوگ مسلمانوں درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے گرمی یاسردی کوبہانہ قرادیتے تھے اورکہتے تھے اس گرمی میں کس نماپڑھیں اورپیغمبرکی باتوں پراعتراض بھی کرتے تھے ۔

مسٹر ہمفر(جو حکومت برطا نیہ لئے مسلمانوں کی جاسوسی کرتاتھا) لکھتا ہے کہ :مسلمانوں کے درمیان اتحادوہماہنگی کوختم کرنے کاصرف ایک ہی راستہ ہے اوروہ یہ کہ ہے نماز جماعت کوختم کیاجائے اوراسے ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ امام جمعہ وجماعت کے خلاف غلط خبریں شایع کی جائیں ،ان پرطرح طرح کی تہمتیں لگائی جائیں ،ان کے خلاف پروپیگنڈ ہ پھیلا جائے اور لوگوں کو علما ء دین وآئمہ جماعات سے بدظن کیاجا ئے اور لوگوں کوان کا استقبا ل کم کرنا چاہئے بالخصوص ضروری ہے کہ امام جماعت کے فاسق وفاجر ہونے پر دلیلیں قائم کی جا ئیں تاکہ لوگ ان سے بدطن ہوجائیں اور اس سوء ظن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ ان کے دشمن ہو جائیں اور پھر ان کے پیچھے کوئی نماز نہیں پڑھے گا اور علماء وامام جماعت کالوگوں سے رابط ختم ہوجائے۔(۱)

”ہرس لیف” کہتاہے : میں نے زندگی میں بہت زیادہ کلیساومعبدکادیدارکیاہے کہ جن میں کسی طرح کی کوئی مساوات نہیں پائی جاتی ہے اورمسلمانوں کے بارے میں بھی میرایہی خیال تھاکہ ان کی عبادتگاہوں میں بھی کوئی اخوت ومساوات نہیں پائی جاتی ہوگی لہٰذاخیال یقین میں بدلنے کے لئے عیدالفطرکے دن ان کی مسجدوں کانظارہ کرنے کے لئے شہرمیں گھومنے نکلا ،جب لندن کی “وو کنج ” مسجد کانظارہ کیاتومیری نگاہوں میں ایک عجیب منظردیکھنے میں آیااور میرے دل نے مجھ سے کہا :عالیترین مساوات تومسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے ۔

وہ کہتاہے کہ: میں نے مسجدمیں دیکھاکہ مختلف قسم کے لوگ ، گورے ،کالے ،عالی ، دانی ، شہری دیہاتی امیروغریب سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور سب اخوت وبھائی چارہ کے ساتھ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہیں اوراسی طرح کامنظرممباساشہرکی نوبیا مسجد کے دیکھنے پیش آیاوہاں بھی میری نگاہوں دیکھاکہ کسان،مزدور اور سیاستمدار لوگ نہایت خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگارہے ہیں ،ہاتھ میں ہاتھ دے رہے ہیں ،مصافحہ کررہے اورسب ایک دوسرے کوعیدکی مبارکبادپیش کررہے ہیں ،

____________________

۱). ہزارویک نکتہ دوربارہ نٔماز.ش ١۵۵ /ص ۴٩

۱۷۴

منصب دار لوگ نماز میں کسی دوسرے کے پاس کھڑے ہونے میں کوئی حماقت محسوس نہیں کر رہے ہیں ، وہاں پر کسی کو اپنی بزرگی کا خیال نہیں ہے بلکہ سب خدا کی بار گاہ میں برابرکا درجہ رکھتے ہیں ، کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر برتری نہیں رکھتا ہے، جسوقت میں نے امام جماعت سے ملاقات کی (جوزندگی میں کسی مذہبی رہنماسے پہلی ملاقات تھی )انھوں نے مجھ سے کہا : مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ تما م انبیاء برحق ہیں اور جوکتاب خدانے ان پر نازل کی ہیں وہ بھی برحق ہیں ، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ تمام باتیں جو میں نے مسلمانوں کے خلاف سنی تھیں وہ سب غلط ثابت ہورہی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین اسلام صلاحیت رکھتا ہے کہ پورے دنیا کے لوگ اسے قبول کریں۔(۱)

شیخ الرئیس ابوعلی سینا نے ایک خط ابوسعید ابی الخیرکی خدمت میں ارسال کیا اور لکھا : جس جگہ الله کی عبادت کریں گھر میں یامسجد میں یاصحرا میں اور اس سے کوئی چیزطلب کریں وہ جواب ضروردیتا ہے اورتمناؤں کو پوری کرتا ہے پھرکیاضروری ہے انسان مسجد میں جائے اور نمازکوجماعت سے اداکرے جبکہ خداوند متعال رشہ رگ سے بھی زیادہ انسان سے قریب ہے چاہے ؟ ابوسعید نے ابوعلی سینا کے خط کا جواب دیا اور اس میں ایک بہت عمدہ مثال لکھی:

اگر کسی مکان میں متعدد چراغ روشن ہو ں اور ان میں سے ایک چراغ خاموش ہو جائے تو روشنی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہو گی کیونکہ ابھی دوسرے چراغ روشن ہیں اس لئے اندھیراہو نے کا امکان نہیں ہے لیکن اگر وہ تمام چراغ جداجداکمرے میں روشن ہوں تو جس کمرے کا بھی چراغ خاموش ہو جائے گا اس میں اندھیرا چھاجائے گا انسان بھی ان چراغوں کے مانند ہیں کیونکہ جولوگ گناہوں میں الودہ ہیں اگر وہ گھرمیں (یامسجدمیں)فرادیٰ نماز پڑھتے ہیں تو اس خاموش چراغ کے مانند ہیں جسمیں ہرگزنورنہیں پایاجاتاہے اورایسے لوگوں کی نماز ان کو بہت ہی کم فائدہ پہنچا تی ہے ،بلکہ ممکن ہے ایسے لوگ رحمت وبرکات الہٰی سے بھی محروم ہوجائیں

مسجدمیں نیک وصالح لوگ بھی نمازمیں شریک ہوتے ہیں لہٰذااگرتمام لوگ مسجد میں آکر جماعت سے نمازیں پڑھیں توشاید خداوندعالم ان نیک وصالح لوگوں کے حاضرہو نے کی وجہ سے ان گناہگا رلوگوں کی بھی قسمت بیدار ہو جائے اور خدا کی رحمت وبرکاتنازل ہو نے لگیں۔(۲)

____________________

.۱) ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز.ش ۶۴۴ /ص ٢٠۶

۲). ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۵٧٣ .ص ١٨١

۱۷۵

واجبات نمازکے اسرار

واجبات نمازگیارہ ہیں:

١۔نیت ٢۔تکبیرة الاحرام ٣۔قیام ۴ ۔قرائت ۵ ۔ذکر ۶ ۔رکوع ٧۔سجود ٨۔تشہد ٩۔سلام ١٠ ۔ترتیب ١١ ۔موالات.

١۔نیت ٢۔تکبیرة الاحرام ٣۔قیام متصل بہ رکوع یعنی رکوع سے پہلے کھڑ ے ہونااورتکبیرة الاحرام کہتے وقت اوررکوع میں جانے سے پہلے قیام کرنا ۴ ۔رکوع ۵ ۔دوسجدے اب ہم ان واجبات نمازکے رازاوروجوہات کویکے یعددیگرے بالترتیت ذکرکررہے ہیں:

رازنیت

انسان جس کام کوانجام دیتاہے اس کی طرف متوجہ ہونے اوراس کے مقصدسے آگاہ ہونے کونیت کہاجاتاہے اورہرکام کے انجام پرثواب وعقاب نیت پرموقوف ہوتاہے ،اگر عمل کو آگاہی وارادہ کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ باعث قبول ہوتاہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : انّماالاعمال بالنیات ولکلّ امرءٍ مانویٰ،فمن غزیٰ ابتغاء ماعندالله فقدوقع اجره علی الله،ومن غزیٰ یریدعرض الدنیاا ؤنویٰ عقالاًلم یکن له الّامانواه ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:انسان کے ہر عمل کاتعلق اس کی نیت سے ہوتاہے اور عمل کی حقیقت نیت کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اورثواب بھی نیت کے حساب دیاجاتاہے ،اس کے نصیب میں وہی ہوتاہے جس چیزکاوہ قصدکرتاہے ،پس وہ جو شخص رضای الٰہی کی خاطرجنگ کرتاہے اورکسی نیک کام خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کااجروثواب عطاکرتاہے ضروراجرعطاکرتاہے اورجوشخص متاع دنیاکوطلب کرتاہے اسے اس کے علاوہ جسچیزکی اس نے نیت کی ہے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔(۱) قال رسول الله صلی الله علیه وآله:لاقول الّابعمل ولاقول ولاعمل الّابنیة ،ولاقول ولاعمل ولانیة الّاباِصابة السنة : نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:عمل کے بغیرکوئی قول نہیں ہوتاہے اورکوئی قول وعمل نیت کے بغیرکے بغیرنہیں ہوتاہے اورکوئی قول وعمل اورنیت سنت کے بغیرنہیں ہوتاہے۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ الله یحشرالناس علیٰ نیاتهم یوم القیامة ۔ امام صادق فرماتے ہیں:خداوندعالم روزقیامت انسان کوان کی نیت کے اعتبارسے محشورکرے گا۔(۳)

____________________

. ١(تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٨٣ (

۲). کافی/ج ١/ص ٧٠

۳). تہذیب الاحکام/ج ۶/ص ١٣۵

۱۷۶

رازاخلاص وقصدقربت

جس طرح انسان ظاہری طور سے ذکرخداکرتاہے اسی طرح باطنی اعتبارسے اپنی نمازوعبادت کوصرف پروردگارعالم سے قربت حاصل کرنے اوراس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے لئے انجام دے،نمازی کوچاہئے کہ اپنے دل میں حکم وفرمان الٰہی کوانجام دینے کا ارادہ کرے اورخالصتاًخداکے لئے انجام دے، اگردل میں تھوڑاسابھی غیرخداکاارادہ ہوتووہ عمل باطل ہے ،عمل وہی قیمتی ہے جس عمل پرالٰہی رنگ چڑھاہواورجت نازیادہ رنگ چڑھاہواتناہی زیادہ قیمتی ہوتاہے

عمل کوصرف خداکے لئے انجام دینا،کسی دوسرے کوعبادت میں شریک نہ بنانے اوردل میں خوف خدارکھنے کواخلاص اورصدق نیت کہاجاتاہے ،خداوندعالم کثرت عمل اور طولانی رکوع وسجودکونہیں دیکھتاہے بلکہ حُسن نیت اوراخلاص کی طرف نگاہ کرتاہے عمل میں اخلاص کودیکھتاہے،عمل میں اخلاص پیداکرناہرانسان کے بس کی بات نہیں ہے،اگرنیت خالص ہوتوتھوڑاکام بھی بہت زیادہ ہے اوراخلاص کے ساتھ انجام دیاجانے والاچھوٹاکام بھی باعث عظمت ہوجاتاہے،اگر عمل میں اخلاص ہوتوایک ضربت بھی ثقلین کی عبادت پربھاری ہوسکتی ہے اوریہ مقام مولائے کائنات علی ابن ابی طالب +ہی کوحاصل ہواہے ۔ نمازگزاراپنی نمازوں کوفقط الله کے لئے انجام دے اوراس میں کسی دوسرے کاقصدنہ کرے اگرعمل میں اخلاص نہیں ہے تواس عمل کاکوئی فائدہ نہیں ہے اوروہ قبول ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتاہے ،خداندعالم نیت کے اعتبارسے عمل کوقبول کرتاہے اگرنیت صحیح ہے توانجام بھی اچھاہوتاہے لیکن اگرمیں خرابی اورریاکاری پائی جاتی ہے تووہ عمل ہرگزقبول نہیں ہوتاہے ۔

اگرکوئی شخص نمازوعبادت کوظاہری کے علاوہ باطنی طورسے بھی ماں باپ ، یاکسی رئیس وسرپرست کے خوف سے یالوگوں کودکھانے کی غرض سے انجام دے اوردل میں نمازی ،متقی ،پرہیزگاراورایک نیک انسان کہلائے جانے کاارادہ کرے ،مثلا یہ قصدکرے کہ اگرمیں نے نمازنہ پڑھی تومیرے والدین یاکوئی دوسراشخص مجھے ضرب لگائے یامجھے ت نبیہ کریں گے یاخوف ہوکہ نمازنہ پڑھنے کی وجہ سے مجھے محفل میں شرمندہ ہوناپڑے گایامجھے کسی کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اوراس کے علاوہ جت نی بھی چیزیں ریاکاری میں شمارہوتی ہیں ان کاقصدکرے تووہ نمازالله کی بارگاہ میں مقبولیت کادرجہ نہیں رکھتی ہے ریاکاری سے مرادیہ ہے کہ انسان ظاہروباطن یکسان نہ ہو، دوسرے لوگوں کی موجودگی میں نماز پڑھتے وقت خضوع وخشوع کا اظہار کرتا ہوتا کہ وہ لوگ اسے متقی وپرہیز گار شمار کریں لیکن جب ت نہائی میں نماز پڑھے تو اس کی نماز میں کوئی خضوع وخشوع نہ پایاجاتا ہو ا وربہت جلدبازی میں نماز پڑھتا ہو

۱۷۷

حضرت امام خمینی کی تو ضیح المسائل میں لکھا ہے : انسان کو چاہئے کہ فقط حکمِ خدا انجام دینے کے لئے نماز پڑھے پس جو شخص نماز میں ریاکاری کرتا ہے اور لوگوں کو دکھا نے کی غرض سے نماز پڑھتا ہے تا کہ لوگ اس کومتقی وپر ہیز گا ر کے نام سے یاد کریں ، اسکی نماز باطل ہے خواہ وہ نماز کو فقط لوگوں کو دکھا نے کے لئے پڑھتا ہو یا خدا اور لوگوں کو دکھا نے کے لئے پڑھتا ہویعنی دل میں خدا کا قصد کرے اور ریاکاری کا بھی خیال رکھے اور دوسرے مسلٔہ میں لکھاہے کہ: اگرانسان نماز کا کچھ حصّہ غیرخدا کے لئے انجام دے پھر بھی نماز باطل ہے خواہ وہ حصّہ جو غیر خدا کے لئے انجام دیا گیا ہے نماز کا واجبی جزء ہو جیسے حمد وسورہ کی قرائت یا مستحبی جزء ہو جیسے قنوت ، بلکہ اگرانسان نماز کو خدا کے لئے انجام دے لیکن لوگوں کو دکھا نے کے لئے کسی مخصوص جگہ میں مثلاً مسجد میں ، یا ایک مخصوص وقت میں مثلاً اوّلِ وقت ، یا ایک مخصوص طریقہ سے مثلاً جماعت سے نماز پڑھے ، اسکی نماز باطل ہے۔(۱)

( صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنَ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُوْنَ ) ۔(۲) رنگ توصرف الله کارنگ ہے اوراس سے بہترکس کارنگ ہوسکتاہے اورہم سب اسی کے عبادت گذارہیں۔

( وَمَااُمِرُوْااِلّالِیَعْبُدُوااللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفٰاءَ وَیُقِیْمُواالصَّلَاةَ وَیُوتُوالزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ ) ۔(۳)

اورانھیں صرف اس بات کاحکم دیاگیاتھاکہ خداکی عبادت کریں اوراس عبادت کواسی کے لئے خالص رکھیں اورنمازقائم کریں اورزکات اداکریں اوریہی سچااورمستحکم دین ہے۔

( مَن کَانَ یَرجُوالِقَاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاصَالِحا وَلَایُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَداً ) (۴)

ہروہ شخص جواپنے پروردگارسے ملاقات کاامیدوارہے اسے چاہئے خداکی عبادت میں کسی بھی ذات کوشریک قرارنہ دو۔

( قُلْ اِنَّ صَلَاْ تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ ومَمَا تِی للهِ رَبِّ الْعاَ لَمِیْن ) (۵)

اے رسول! کہدیجئے کہ میری نماز ، عبادت ،زند گی ، موت سب الله کے لئے ہیں جو عالمین کا پالنے والا ہے ۔

____________________

.۱) توضیح المسائل (امام خمینی )مسئلہ ٩۴۶ ۔ ٩۴٧

٢)سورہ بٔقرہ /آیت ١٣٨

. ۳)سورہ بٔیّنہ/آیت ۵ )

۴)سورہ کٔہف /آیت ١١٠

۵) سورئہ انعام آیت ١۶٢

۱۷۸

( قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلیٰ شاکِلَةٍ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَاَهْدیٰ سَبِیْلاً ) (۱)

)اے رسول!)کہدیجئے کہ ہرایک اپنے طریقہ پرعمل کرتاہے توتمھاراپردوگاربھی خوب جانتاہے کہ کون سب سے زیادہ سیدھے رستے پرہے۔

امام صادق فرماتے ہیں:اہل جہنم کے ہمیشہ آگ میں رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دنیامیں یہ نیت تھی کہ اگرہم ہمیشہ کے لئے بھی دنیامیں رہیں گے توہمیشہ معصیت خداوندی کوانجام دیتے رہیں گے اوراہل بہشت کے جنت میں ہمیشہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دنیامیں یہ نیت تھی کہ اگرہم دنیامیں بھی باقی رہے توہمیشہ اطاعت باری تعالیٰ کوانجام دیتے رہیں گے،یہ صرف نیت ہی کاانجام ہے کہ یہ گروہ ہمیشہ کے لئے جنت میں اوروہ گروہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہے گااس کے بعدامام(علیه السلام) نے آیہ کٔریمہ( قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلیٰ شَاکِلَة ) کی تلاوت کی :اورفرمایا:“علٰی شاکلته ”سے“ علٰی نیّتہ ”مرادہے۔(۲)

امام صادق ایک اورحدیث میں آیہ مٔبارکہ( لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ) (۳) کے بارے میں فرماتے ہیں: آیت میں خداکامقصدیہ نہیں ہے کہ عمل کوطول دیاجائے بلکہ مرادیہ ہے کہ تم میں کس کاعمل سب سے زیادہ صحیح ہے اورعمل وہی صحیح ہوتاہے جوخوف خدااورنیک وسچّی نیت کے ساتھ انجام دیاجاتاہے،خداوندعالم طولانی رکوع وسجودکونہیں دیکھتاہے بلکہ عمل میں اخلاص کودیکھتاہے اورعمل کو اخلاص کے ساتھ انجام دیناخودعمل سے زیادہ سخت ہوتاہے اورعمل خالص یہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کی حمدوثناء کادل میں ارادہ نہ کرنا،اس کے علاوہ کسی کواپنی عبادت میں شریک نہ بنانااورنیت عمل سے افضل ہوتی ہے بلکہ عمل ہی کونیت کہاجاتاہے ،اس بعدامام (علیه السلام)نے اس آیہ مٔبارکہ کی ) تلاوت کی :( قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلیٰ شَاکِلَة ) اورفرمایا:“علٰی شاکلتہ”سے“ علٰی نیّتہ ”مرادہے۔(۴)

____________________

١)سورہ أسراء/آیت ٨۴

۲). کافی/ج ٢/ص ٨۵

۳)اس نے مووت وحیات کواس لئے پیداکیاہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں ( حُسن نیت کے اعتبارسے سب سے بہترکون ہے ،سورہ مٔلک /آیت ٢

. ۴)کافی/ج ٢/ص ١۶

۱۷۹

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: ریاکارشخص کی تین پہچان بیان کی ہیں:

١۔ جب ت نہائی میں ہوتاہے توعمل کوسستی اورلاپرواہی کے ساتھ انجام دیتاہے

٢۔ جب اپنے پاس لوگوں کودیکھتاہے (اوران کی موجوگی میں نمازپڑھتاہے )تواپنے عمل میں طول ونشاط بڑھادیتاہے

٣۔ اوراسچیزکوبہت زیادہ دوست رکھتاہے ہرکام میں اس کی تعریف کی جائے ۔(۱)

عن النبی صلی الله علیه وآله قال:انّ الله تعالی لایقبل عملافیه مثقال ذرّة من ریاءٍ ۔

نبی اکرمفرماتے ہیں:خداوندعالم انسان کے ہراس عمل کوکہ جس میں ذرہ برابربھی ریاکاری کی بوپائی جاتی ہے ہرگز قبول نہیں کرتاہے ۔(۲)

قالابو عبدالله علیه السلام:کل ریاء شرک انّه من عمل للناس کان ثوابه علی الناس ومن عمل لله کان ثوابه علی الله ۔

امام صادقفرماتے ہیں ہرطرح کی ریاکاری شرک ہے ،جوشخص کسی کام کولوگوں کے دکھانے کے لئے انجام دیتاہے اس کاثواب لوگوں کی طرف جاتاہے اورجوشخص خداکے لئے انجام دیتاہے اس کاثواب الله کی طرف جاتاہے۔(۳)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال : لوانّ عبداًعمل عملاًیطلب به وجه الله عزوجل والدارالآخرةوفادخل فیه رضااحد مّن الناس کان مشرکاً ۔

اما م باقر فرماتے ہیں:اگرکوئی بندہ کسی کام کوالله کی خوشنودی اورعاقبت خیرکے لئے انجام دے لیکن اس میں کسی شخص کی خوشنودی بھی شامل حال ہوتووہ مشرک ہے ۔(۴)

____________________

.۱) قرب الاسناد/ص ٢٨

.۲) مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٢

.۳) کافی /ج ٢/ص ٢٩٣

.۴) ثواب الاعمال/ص ٢۴٢

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

دوسری روایت

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:چندغیرعرب ممالک کے بادشاہوں نے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں چندغلام وکنیزبطورہدیہ بھیجے تومیں نے حضرت فاطمہ زہرا سے فرمایا:تم اپنے بابارسولخدا (صلی الله علیه و آله)کے پاس جاؤاور ان سے ایک خادمہ کی درخواست کروتاکہ وہ گھرکے کاموں میں تمھاری مددکرسکے ،میری یہ بات سن کرحضرت فاطمہ زہرا اپنے باباحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچی اورآنحضرت سے ایک خادمہ کی درخواست کی ،آنحضرت نے فرمایا:

اُعطیک ماهوخیرلک من خادم ، ومن الدنیابمافیها ، تُکبّریْنَ الله بعدکلّ صلاة اربعا وثلاثین تکبیرة ، وتحمّدین الله ثلاثاوثلاثین تحمیدة ، وتسبّحین الله ثلاثاوثلاثین تسبیحة ، ثمّ تختمین ذلک بلاالٰه الّاالله ؛ وذلک خیرلک من الذی اردتَ ومن الدنیاومافیها . اے فاطمہ !میں تمھیں ایک ایسی چیزعطاکرتاہوں جوتمھارے لئے خادمہ اوردنیااور جوکچھ دنیامیں ہے سب سے بہترہے اوروہ یہ ہے کہ ہر نمازکے بعد/ ٣ ۴ مرتبہ “الله اکبر” اور/ ٣٣ مرتبہ“الحمدلله” اور/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہواوراس کے بعد“لٰااِلٰہِ الّاالله” کہو.اس کے بعدآنحضرت نے فرمایا:اے میری پارہ جٔگر! یہ کام تمھارے لئے جس کی تم نے درخواست کی ہے اوردنیااورجوکچھ دنیامیں ہے ان سب سے بھی بہترہے اس کے بعدحضرت فاطمہ زہرا ہرنمازکے بعداس تسبیح کوپڑھتی رہیں یہاں تک کہ یہ تسبیح ان کے نام سے منسوب ہوگئی۔(۱)

محمدابن عذافرسے مروی ہے :میں اپنے والدکے ہمراہ حضرت امام صادق کی خدمت میں پہنچا، میرے والدنے امام (علیه السلام)سے تسبیح حضرت فاطمہ زہرا کاطریقہ معلوم کیاتوامام (علیه السلام)نے فرمایا:“اَللهُ اَکْبَر”کہویہاں تک کہ اس ذکرکی تعداد / ٣٣ تک پہنچ جائے ،اس کے بعد“اَلْحَمْدُلله” کہویہاں تک کہ “اَللهُ اَکْبَر ” سمیت تعداد/ ۶ ٧ تک پہنچ جائے، اس کے بعد“سبحان الله” کہویہاں تک کہ تسبیح کی تعداد/ ١٠٠ تک پہنچ جائے،اورامام (علیه ) السلام) نے تینوں ذکرکوالگ ،الگ اپنے دستہائے مبارک پرشمارکیا۔(۲)

ابوبصیرسے مروی ہے کہ امام صادق فرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ پڑھنے کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے / ٣ ۴ مرتبہ “الله اکبر” کہیں،اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله” اوراس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہیں۔(۳)

____________________

۱). دعائم الاسلام/ج ١/ص ١۶٨

۲)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١٠۶

۳)کافی /ج ٣/ص ٣۴٢ )

۳۰۱

مفضل ابن عمرسے مروی ہے کہ امام صادق ایک طولانی حدیث میں ارشادفرماتے ہیں:تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھاکروجس کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے / ٣ ۴ مرتبہ“ اَللهُ اَکْبَر ” کہواس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“اَلْحَمْدُ لله” کہواوراس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “ سُبْحَانَ الله ” کہو،خداکی قسم! اگرکوئی چیزتسبیح فاطمہ سے افضل وبرترہوتی تورسول اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنی بیٹی کواسی کی تعلیم د یتے ۔(۱)

روایت میں آیاہے کہ:امام صادق کاایک صحابی آپ کی خدمت میں آیااورعرض کیا:اے فرزندرسولخدا!مجھے اپنے کانوں سے بہت ہی کم سنائی دیتاہے (پس مجھے اس کے علاج کے لئے کیاکرناچاہئے )؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: عَلَیکَ بِتسبیحِ فاطمة سلام الله علیہا.

تم تسبیح حضرت فاطمہ زہرا پڑھاکرو(ان شاء الله تمھیں صحیح آوازآنے لگے گی )اس صحابی نے امام (علیه السلام) سے کہا:آپ پر قربان جاؤں!یہ تسبیح حضرت فاطمہ کیاہے اوراس کے پڑھنے کاطریقہ کیاہے؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: تسبیح حضرت فاطمہ کواس طرح پڑھناشروع کروکہ پہلے / ٣ ۴ مرتبہ “الله اکبر” اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ “الحمدلله” کہو،اس کے بعد/ ٣٣ مرتبہ“سبحان الله” کہو۔

وہ صحابی کہتاہے کہ میں نے یہ تسبیح پڑھی ،ابھی پڑھے ہوئے کچھ دیرنہ گذری تھی ) کہ مجھے کانوں سے صاف دینے لگا ۔(۲)

دعا

لغت میں کسی کے پکارنے کودعاکہاجاتاہے اورقرآن واحادیث میں جہاں بھی لفظ دعا بصورت مصدر،ماضی ،مضارع ،امراستعمال ہواہے پکارنے میں دیتاہے جیساکہ آپ عنقریب ذکرہونے والی آیات کریمہ اوراحادیث معصومین میں ملاحظہ کریں گے لیکن اصطلاح میں کسی بلندمرتبہ ذات کی بارگاہ میں اس کی حمدوثنااورخضوع وخشوع کے ساتھ اپنی حاجتوں کے بیان کرنے اوران کے پورے ہونے کی تمناکرنے کودعاکہاجاتاہے۔

مدعو

وہ ذات کہ جسکی بارگاہ میں حاجتوں کوبیان کیاجائے اوران کے پوراہونے کی درخواست کی جائے اسے“ مدعو ”کہتے ہیں اورمدعوکو چاہئے کہ وہ ہرچیزسے بے نیازہو،کسی دوسرے کامحتاج نہ ہوبلکہ وہ تمام چیزوں کامالک ہو۔ خداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جوکسی کی محتاج نہیں ہے بلکہ وہ غنی مطلق ہے اورتمام زمین وآسمان کامالک ہے اورجوزمین وآسمان میں ہے ان سب کابھی مالک ہے جیساکہ قرآن کریم ارشادباری تعالیٰ ہے:

____________________

۱) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ۶۶

.۲)الدعوات /ص ١٩٧

۳۰۲

( لِلّٰهِ مَافِی السَّمَوَاتِ وَمَافِی الْاَرْضِ اِنّ اللهَ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْد ) (۱) جوکچھ زمین وآسمان میں ہے وہ سب الله کے لئے ہیں،بیشک الله صاحب دولت بھی ہے اورقابل حمدوثنابھی ۔

( اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ لَه مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ الله مِنْ وَّلِیٍّ وَلَانَصِیْرٍ ) (۲) کیاتم نہیں جانتے کہ زمین وآسمان کی حکومت صرف الله کے لئے ہے اوراس کے علاوہ تمھارانہ کوئی سرپرست ہے اورنہ کوئی مددگار۔

( وَاللهُ مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَهُمَا ) (۳)

خداوندعالم زمین وآسمان اورجوکچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے ان سب کامالک ہے ۔

مدعوکوچاہئے کہ وہ ہرانسان کواس کے نیک اعمال پراجروثواب عطاکرے اوران کی درخواستوں کوپوراکرے اورالله تبارک وتعالیٰ کی ذات وہ ہے جوکسی بھی شخص کے نیک عمل ضائع نہیں کرتاہے بلکہ اس پراجروثواب عطاکرتاہے اورنیک عمل کرنے والوں کی درخواست کوپورابھی کرتاہے۔

( فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَااُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثیٰ ) (۴) پُس خدانے ان کی دعاکوقبول کیاکیوں کہ میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہیں کروں گاخواہ وہ عامل مردہویاعورت ۔

( اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَمَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا ) (۵) یقیناًجولوگ ایمان لے آئے اورانھوں نے نیک اعمال کئے ،ہم ان لوگوں کے اجرکوضائع نہیں کرتے ہیں جواچھے اعمال انجام دیتے ہیں۔

( اِنَّ اللهَ لَایُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ ) (۶)

خداکسی بھی نیک عمل کرنے والے کے اجروثواب کوضائع نہیں کرتاہے ۔

____________________

. ١)سورہ لٔقمان/آیت ٢۶

. ٢)سورہ بٔقرہ/آیت ١٠٧

٣)سورہ مٔائدہ /آیت ١٧

۴)سورہ آٔل عمران/آیت ١٩۵

. ۵)سورہ کٔہف/آیت ٣٠

.۶)سورہ تٔوبہ /آیت ١٢٠

۳۰۳

اورحضرت علی دعائے کمیل میں ارشادفرماتے ہیں:ماهکذالظنُّ بِک ولا اُخبرنا بفضلک عنک یاکریمُ یاربِّ . تیرے وجودکی قسم !میں ہرگزیہ گمان نہیں کرتاہوں کہ تیری بارگاہ میں کوئی اجرضائع ہوتاہے اورکوئی بغیرکسی علت کے تیرے لطف وکرم سے محروم ہوتاہے اوراے کریم وپروردگار!ہمیں تونے اورتیرے کسی رسول نے یہ خبرنہیں دی ہے کہ تواجروثواب کوضائع کرتاہے ۔ مدعوکوچاہئے کہ جب وہ کسی کی درخواست کوپوراکرے تواس کے رحمت ونعمت کے خزانہ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہونے پائے ۔

اگرکوئی ذرہ برابربھی کارخیرانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کاثواب ضرور عطاکرتاہے ،خداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جواپنے بندوں کوعطاکرتاآرہاہے اور عطا کرتا رہے گا اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ نعمت میں نہ کوئی کمی آئی ہے اورنہ آسکتی ہے جیساکہ ہم لوگ قرآن کریم پڑھتے ہیں:

( اِنَّ هٰذَالَرِزْقُنَامَالَه مِنْ نِّفَاذٍ )

یہ ہمارارزق ہے جوختم ہونے والانہیں ہے ۔(۱)

داعی

جوشخص الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجتوں کوبیان کرتاہے اوران کے پوراہونے کی تمناکرتاہے اسے “داعی” کہتے ہیں۔

دعاکرنے کی اسی کوضرورت ہوتی ہے جومحتاج ونیازمندہو،جومشکل میں گرفتار ہو، جسے کسی چیزکے حاصل کرنے کی غرض ہواورجولطف و امداد کا خواہشمند ہو، اگردنیامیں لوگوں کی حالت پرنگاہ کی جائے تویہی معلوم ہوگاکہ دنیامیں ہرشخص امیر،غریب ،حکیم ،طبیب ،منشی ،وکیل ،شہری ،دیہاتی کاشتکار،دوکاندارکسی نہ کسی مشکل میں گرفتارہے ،کوئی اولادنہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہے ،کوئی اولادکے بگڑجانے کی وجہ سے پریشان ہے ،کسی کی ماں بیمارہے توکسی کی بیوی بیمارہے اورکسی کابچہ بیمارہے ،کسی کے پاس نوکری نہیں ہے توکسی کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ہرانسان ہروقت اپنے دل میں ایک نہ ایک آرزوساتھ لئے رکھتاہے جب اس کی ایک حاجت پوری ہوجاتی ہے تودوسری کے پوراہونے کی تمناکرتاہے گویاہرانسان ہروقت کسی چیزکا فقیرومحتاج ہے

____________________

.۱) سورہ صٔ/آیت ۵۴

۳۰۴

خداوندعالم نے انسان میں یہ فطرت پیداکی ہے وہ اپنی مشکلوں کوآسان کرنے کے لئے اوراپنی حاجتوں کے پوراہونے کے لئے کسی ایسے دروازہ پردستک دیتاہے اوراپنی حاجتوں کوبیان کرتاہے جواس کی حاجت کوپوراکرنے کی صلاحیت رکھتاہے انسان کوچاہئے کہ وہ کسی ایسے دروازہ پردستک دے کہ جسکے درسے کوئی خالی نہ لوٹتاہو،جوزمین وآسمان کامالک ہواورجوغنی مطلق ہو،اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہ آسکتی ہواورخداوندعالم کی ذات وہ ہے کہ جوغنی مطلق ہے اورزمین وآسمان کامالک بھی ہے اورجوکچھ زمین وآسمان میں ان سب کابھی مالک ہے

( یٰااَیُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلٰی اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدِ ) (۱)

اے لوگو!تم سب الله کی بارگاہ کے فقیرہواورالله صاحب دولت اورقابل حمدوثناہے ۔ اس آیہ مٔبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ انسان کوصرف الله کے دروازہ کابھکاری ہوناچاہئے اوراپنی حاجتوں کواسی کی بارگاہ میں بیان کرناچاہئے کیونکہ خداوندعالم کاقرآن کریم میں اپنے بندوں سے اس بات کاوعدہ ہے کہ میں تمھاری آوازکوسنتاہوں لہٰذاتم اپنی حاجتوں کومجھ سے بیان کرو

( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُمْ ) (۲)

اورتمھارے پرودگارکاارشادہے کہ مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا۔

مذکورہ آیات کریمہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ انسان کوچاہئے کہ اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے اورکسی بھی چیزکے حاصل کرنے کے لئے اپنے پروردگارکی بارگاہ میں دست دعابلندکرے ،الله کی بارگاہ میں دعاکرنے والے لوگ دنیامیں بھی کامیاب ہیں اورآخرت میں ،دنیامیں بھی صاحب عزت ہیں اورآخرت میں بھی ان کے لئے ایک بلندمقام ہے خداوندعالم اپنے تمام بندوں کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ،جب بھی کوئی بندہ اس کی بارگاہ میں دست نیازبلندسے یادکرتاہے ،اوراس سے مددطلب کرتاہے تووہ اسکی آوازپرلبیک کہتاہے اوراس پراپنی نعمتیں نازل کرتاہے اورآخرت میں اسے آتش جہنم سے نجات بھی دیتاہے

( اِذَاسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاْعِِ اِذَادَعَانَ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُو مِٔنُوْابِیْ لَعَلَّهُمْ یُرْشَدُوْنَ ) (۳)

اے پیغمبر!اگرمیرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تومیں ان سے قریب ہوں،پکارنے والے کی آوازسنتاہوں جب بھی پکارتاہے لہٰذامجھ سے طلب قبولیت کریں اورمجھ ہی پرایمان واعتقادرکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پرآجائیں۔

____________________

۱)سورہ فٔاطر/آیت ١۵

. ٢)سورہ غٔافر/آیت ۶٠.

۳)سورہ بٔقرہ/آیت ١٨۶

۳۰۵

خداوندعالم عالم غنی مطلق ہے ،تمام زمین آسمان ،اوراس میں موجوداشیاء سب کچھ الله کی ملکیت ہیں مگرانسان ضعیف وناتواں ہے ،اسے جت نامل جائے پھربھی کم سمجھتاہے اوراپنے آپ کومحتاج ونیازمندمحسوس کرتاہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ انسان دنیاوآخرت کوخداسے طلب کرے ۔

جیسا کہ خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:( وَمِنْهُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاآت نافِی الدُّنْیَاحَسَنَةً وَّفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَاعَذَاْبَ النَّاْرِ ) (۱)

ترجمہ:اوربعض کہتے ہیں کہ پروردگاراہمیں دنیامیں بھی نیکی عطافرمااورآخرت میں بھی اورہم کوعذاب جہنم سے محفوظ فرما۔

دعاکے فضائل وفوائد

قال امیرالمومنین علیه السلام:احب الاعمال الی الله عزوجل فی الارض الدعاء .(۲) دعاخداوندعالم کے نزذیک روئے زمین پرسب سے بہترین عمل ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:علیک بالدعافانه شفاء من کل داء .(۳) امام صادق فرماتے ہیں:میں تمھیں دعاکے بارے میں وصیت کرتاہوں کیونکہ دعاہرمرض کی دواہے۔

قال امیرالمومنین علیه السلام:ادفعواامواج البلاء بالدعاء قبل ورودالبلاء (۴) امام علی فرماتے ہیں :بلاو ںٔ کی موجوں کوبلاؤں کے نازل ہونے سے پہلے دعاکے ذریعہ برطرف کردیاکرو۔

قال رسول الله صلی الله علیه واله:لایردالقضاء الّاالدعاء .(۵) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:قضا کودعاکے علاوہ کسی دوسری چیزکے ذریعہ نہیں پلٹایاجاسکتاہے ۔

____________________

. ١)بقرہ/آیت ٢٠١

. ۲)مکارم الاخلاق/ص ٢۶٩

. ۳)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠

. ۴)نہج البلاغہ/کلمات قصار ١۴۶

۵)بحار/ج ٩٣ /ص ٢٩۶

۳۰۶

قال امیرالمو مٔنین علیه السلام:الدعاء مفتاح الرحمة ومصباح الظلمة (۱) حضرت علی فرماتے ہیں:دعارحمت کی کنجی ہے اور(قبرکی) تاریکی کاچراغ ہے ۔

عن الصادق علیه السلام :قال :ان الدعاء انفذ من سلاح الحدید (۲) امام صادق فرماتے ہیں:دعاتیزدھاراسلحہ سے بھی زیادہ نافذہوتاہے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں نے اپنی خدومت میں موجودلوگوں سے فرمایا:کیاتمھیں ایسی چیزکی خبرکہ جوتمھیں تمھارے دشمنوں سے بچائے اورتمھارے لئے رزق کاانبارلگائے ،سب نے کہا:یارسول الله!ضروربیان کیجئے ،پس آنحضرت نے فرمایا:اپنےپوردگارسے رات دن دعاکیاکروکیونکہ مومن کااسلحہ ہے۔(۳)

زرارہ سے مروی ہے امام صادق نے مجھ سے فرمایا:کیاتمھیں ایسی چیزکی رہنمائی کروں کہ جس کے بارے میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوبھی استثنا نہیں کیاگیاہے ؟ میں نے عرض کیا:ہاں!ضروربیان کیجئے ،امام (علیه السلام) نے فرمایا:دعااس قضاوتقدیرالٰہی بھی کوواپسکردیتی ہے جوسختی کے ساتھ محکم ہوگئی ہے ،اس کے یعدامام (علیه السلام) نے مطلب کے واضح ہونے کے لئے دونوں ہاتھ کی اپنی انگلیوں کوانگلیوں اپس میں ڈال کر مضبوطی سے جکڑااورفرمایا:چاہے وہ تقدیرکالکھااسی طرح کیوں نہ مضبوط ہو۔(۴)

قال ابوالحسن موسی علیه السلام :علیکم بالدعاء فان الدعاء لله والطلب الی الله یردالبلاء وقدقدّر وقضی ولم یبق الّاامضائه ، فاذادعی الله عزوجل وسئل صُرف البلاء صرفة .(۵) امام موسی کاظم فرماتے ہیں:تم دعائیں ضرورکیاکروکیونکہ خداوندعالم کی بارگاہ میں دعاکرنے اوراس سے طلب حاجت کرنے سے بلا ئیں ٹل جاتی ہیں وہ بلائیں کہ جوتقدیرمیں لکھی جاچکی ہیں اوران کاحکم بھی آچکاہومگرابھی نازل نہ ہوئی ہیں پس جیسے ہی الله کی بارگاہ میں دعاکی جاتی ہے اوراس سے طلب حاجت کی جاتی ہے تووہ مصیبت فوراًپلٹ جاتی ہے۔

____________________

۱)الدعوات /ص ٢٨۴

. ٢)مستدرک الوسائل/ج ۵/ص ١۶۵

. ٣)کافی /ج ٢/ص ۴۶٨.

. ۴)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠

. ۵)کافی /ج ٢/ص ۴٧٠

۳۰۷

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم نے جت نے بھی نبی بھیجے ہیں ان سے فرمایاہے کہ: جب بھی تمھیں کسی کوئی رنج وغم پہنچے تومجھے پکارو،بیشک خداوندعالم نے اس نعمت( دعا) کومیری کوبھی عطاکیاہے کیونکہ قرآن کریم ارشادفرماتاہے: اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُم تم مجھ سے دعاکروتومیں قبول کروں گا۔(۱)

سیف تمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:تم دعائیں کیاکرو؛کیونکہ دعاکے مانندکوئی بھی چیزخداسے قریب نہیں کرتی ہے ،کسی بھی چھوٹی حاجت کوچھوٹی سمجھ کرترک نہ کروبلکہ اس کے لئے بھی خداکی بارگاہ میں دعاکروکیونکہ جس کے اختیارمیں چھوٹی حاجتوں کوپوراکرناہے بڑی حاجتوں کوپوراکرنابھی اسی کے اختیارمیں ہے۔(۲)

معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں امام صادق سے کہا:دوشخص ایک مسجدمیں داخل ہوئے ،دونوں نے ایک ہی وقت پرنمازپڑھی ،ایک ساتھ نمازسے فارغ ہوئے لیکن نمازکے بعدایک شخص نے قرآن کریم کی بہت زیادہ تلاوت کی اوردعابہت ہی کم کی مگردوسرے نے تلاوت کم اوردعابہت زیادہ کی ،ان دونوں میں کس کاعمل زیادہ بہترہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:دونوں کاعمل اچھااوربافضیلت ہے ،میں نے امام (علیه السلام) سے کہا:میں جانتاہوں کہ دونوں کہ کا عمل صالح ہے لیکن میں یہ جانناچاہتاہوں کہ کسکاعمل زیادہ فضیلت رکھتاہے؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے:

( اُدْعُونِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاْخِرِیْنَ ) (۳)

ترجمہ:مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گااوریقیناًجولوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہونگے۔ اس کے بعدامام (علیه السلام)نے تین مرتبہ کہا:دعاافضل وبرترہے،دعاافضل وبرترہے ،دعاافضل وبرترہے اورفرمایا:کیادعاعبادت نہیں ہے؟اورکیادعامستحکم نہیں ہے ؟اورفرمایا:خداکی ) قسم!دعامناسب ترہے، دعااورمناسب ترہے، دعامناسب ترہے۔(۴)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٢٩٠

. ٢)کافی /ج ١/ص ۴۶٧

۳)سورہ غٔافر/آیت ۶٠

. ٢)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١٠۴

۳۰۸

دعاکے آداب وشرائط

١۔معرفت خدا

ہم جس کی بارگاہ میں دعاکے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اس کی معرفت رکھنابہت ضروری ہے اورجوخداکی جت نی معرفت رکھتاہوگاوہ اس سے اتناہی زیادہ قریب ہوگااوراس کے خزانۂ رحمت سے اتناہی زیادہ فیض حاصل کرے گااوراسی مقدارمیں اس کی دعاقبول ہوگی روایت میں آیاہے کہ کچھ لوگوں نے امام صادق سے سوال کیا:اے ہمارے مولا!ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:لانّکم تدعون من لاتعرفونه .

اس لئے کہ تم جسے پکارتے ہواسے پہچانتے نہیں ہو۔(۱)

عن النبی صلی الله علیه قال:یقول الله عزوجل :من سئلنی وهویعلم انّی اضرواَنفع استجیب له .(۲)

رسول خدا (صلی الله علیه و آله)سے منقول ہے کہ:خدائے عزوجل ارشاد فرماتاہے:جوشخص یہ سمجھتے ہوئے مجھ سے کچھ مانگے کہ نفع ونقصان سب کچھ میرے ہاتھوں میں ہے تومیں اس کی دعاقبول کروں گا۔

٢۔گناہوں سے دوری واستغفار

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان جب کسی گناہ کوانجام دیتاہے توتہہ دل سے انجام دیتاہے اورانسان جیسے ہی گناہ کامرتکب ہوتاہے تو اس کے دل پرایک کالاداغ پڑجاتاہے اوروہ داغ صرف توبہ کے ذریعہ پاک ہوسکتاہے اورجت نازیادہ گناہوں کامرتکب ہوتارہے گاتواس داغ کی مقداربھی بڑھتی رہے گی اورپھراسے دورکرنانہایت مشکل ہے گناہ ایک ایسی چیزہے جوانسان کو خیروبرکت سے محروم کردیتی ہے، لہٰذاانسان کودعاکرنے سے پہلے استغفارکرناچاہئے کیونکہ گناہ ایک ایسی چیزہے جوانسان کی دعا قبول نہ ہونے کاسبب واقع ہوتی ہے جیساکہ ہم کلام امیرالمومنین حضرت علی دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں:

اللّهمّ اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعاءفاسئلک بعزتک ان لایحجب دعائی سوءُ عملی وفعالی ۔

ترجمہ :بارالٰہا!میرے گناہوں کومعاف کردے جوکہ دعاکے مانع واقع ہوتے ہیں بارالٰہا!میں تیرے جلال وعزت کی قسم کھاتاہوں اورتجھ سے یہ چاہتاہوں کہ میری بدکرداری اوررفتاری کواپنی بارگاہ میں دعاکامانع قرارنہ دے ۔ قال علی علیہ السلام:المعصیة تمنع الاجابة. حضرت علی فرماتے ہیں:گناہ ایک چیزہے جوبارگاہ خداوندی میں دعاؤں کے قبول نہ ہونے کاسبب واقع ہوتاہے ۔(۳)

____________________

. ۱)توحید/ص ٢٨٩

. ٢)بحارالانوار/ج ٩٣ /ص ٣٠۵

۳)غررالحکم /ص ٣٢

۳۰۹

٣۔صدقہ

جب کوئی شخص کسی عظیم ذات کی بارگاہ میں کوئی حاجت لے کرجاتاہے تواس تک پہنچنے کے لئے پہلے وہاں کے ملازم اوردربانوں کوکچھ دے کرخوش کرتاہے تاکہ آسانی سے اس تک رسائی ہوسکے اوراس کی حاجتیں پوری ہوجائیں لہٰذاانسان کوچاہئے کہ مالک دوجہاں سے کچھ مانگنے کے لئے پہلے اس کے دربان( فقراء ومساکین)کوصدقہ دے اوران کی مددکرے تاکہ حاجتیں پوری ہوجائیں ۔

امام صادق فرماتے ہیں کہ :جب بھی میرے والدکوکوئی پیش آتی تھی توزوال کے وقت آفتاب کے وقت اس حاجت کوطلب کرتے تھے پس جب بھی آپ کوکوئی حاجت ہوتی تھی تودعاسے پہلے صدقہ دیاکرتے تھے اوراپنے آپ کومعطرکرتے تھے اس کے بعدمسجدروانہ ہوتے تھے اورپھرجسچیزکی بھی حاجت ہوتی تھی اسے بارگاہ خداوندی سے طلب کرتے تھے۔(۱)

۴ ۔طہارت

دعاکرنے والے کوچاہئے کہ دعاکرنے سے پہلے وضوکرے اس کے بعددورکعت نمازپڑھے اوربارگاہ خداوندی اپنی حاجتوں کوبیان کرے۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)حدیث قدسی فرماتے ہیں:حدیت قدسی شریف میں آیا ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی شخص کی وضوباطل ہو جائے اوروہ وضونہ کرے تومجھ پر جفاکرتا ہے اور اگر کوئی شخص وضو کرے اور دورکعت نماز نہ پڑھے وہ بھی مجھ پر جفا کرتا ہے اور اگر کوئی شخص دورکعت نماز پڑھے اور مجھ سے اپنی حاجتوں کوبیان کرے اورکسی چیزکی درخواست کرے اب اگرمیں اسے وہ چیزعطانہ کروں جواس نے مجھ سے اپنے دین ودنیاکے بارے میں مجھ سے طلب کی ہے تومیں اس پرجفاکرتاہوں اور میں جفا کار پر ور دگار ) نہیں ہوں ۔(۲)

۵ ۔دورکعت نماز

آپ نے گذشتہ میں ملاحظہ فرمایاکہ دعاکرنے سے پہلے وضوکی جائے اوردورکعت نمازپڑھی جائے اس کے بعدباگاہ خداوندی میں اپنی حاجتوں کوبیان کیاجائے ،اس حدیث کے علاوہ اوربھی احادیث ہیں کہ جن میں اس چیزکوبیان کیاگیاہے کہ نمازکے ذریعہ الله سے مددطلب کرواوراپنی حاجتوں کوبیان کرو۔ امام صادق سے مروی ہے کہ امام علی کے سامنے جب بھی کوئی ہوناک حادثہ ومشکل پیشآتی تھی تونمازکے ذریعہ پناہ لیتے تھے اوراس آیہ مٔبارکہ کی تلاوت کرتے تھے: )( وَاسْتَعِینُوابِالصَّبْرِوَالصَّلَاةِ ) (۳) صبراورنمازکے ذریعہ مددطلب کرو۔(۴)

____________________

.۱) عدة الداعی/ص ۴٨----۲)تہذیب الاحکام/ج ۴/ص ٣٣١ ---.۳)سورہ بٔقرہ/آیت ۴٢

.۴)کافی /ج ٣/ص ۴٨٠

۳۱۰

امام صادق فرماتے ہیں:جب بھی تمھیں دنیاوی مشکلوں میں سے کوئی مشکل پیش آئے توتم وضوکرواورمسجدمیں جاکردورکعت نمازپڑھو اورخداسے دعاکریں ،کیاتم نے اس قول خداوندی کونہیں سناہے:

( وَاسْتَعِینُوابِالصَّبْرِوَالصَّلَاةِ ) صبراورنمازکے ذریعہ مددطلب کرو۔(۱)

روایت میں ایاہے :ایک دن جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)ایک شب نمازمغربین حضرت علیکے ہمراہ اپنی لخت جگرکے گھرتشریف لائے توگھرمیں کھانے پینے کاکوئی انتظام نہیں تھااورجوانان جنت کے سردارامام حسن اورامام حسین +بھی دوروزسے بھوکے تھے جناب سیدہ نے باباکی زیارت کی اوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں،مصلے پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ، جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔ حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھرا ہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔

روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے باباجان!

( هُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ ) .(۲) یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:

( کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَهَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذا قَالَتْ هُوَمِنْ عِنْدِاللهِ اِنَّ اللهَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ ) .(۳)

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ۵/ص ٢۶٣

۲)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۳)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۳۱۱

جب بھی حضزت زکریا (علیه السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔ جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواس سے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے ہیں،گھرمیں چکیاں پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردار ہوں، وہ گھرکہ جس میں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے ہیں،خداوندعالم اس گھرکے افرادکو کس طرح فاقہ میں رہنے دے سکتاہے، ہم تویہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے تھے کہ خداوندعالم اس گھرافرادکے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے لگے ۔

۶ ۔نیت وحضورقلب

انسان جس چیزکوخداسے طلب کررہاہے اس کادل میں ارادہ کرے اوردعاکرنے کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ وہ کیاکہہ رہاہے یعنی اس کے قلب کوزبان سے کہی جانے والی باتوں کی اطلاع ہونی چاہئے اورنیت میں سچائی بھی ہونی چاہئے ۔ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)حضرت علی سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: )یاعلی .لایقبل الله دعاء قلب ساهٍ .(۱) اے علی!خداوندعالم ہراس دعاکوجودل غافل اوربے توجہی کے ساتھ انجام دی جاتی ہے مستجاب نہیں کرتاہے۔قال امیرالمو مٔنین علیه السلام:لایقبل الله دعاء قلب لاه. (۲) حضرت علی فرماتے ہیں:خداوندعالم دل مضطرب وغافل کی دعاقبول نہیں کرتاہے۔ امام صادق فرماتے ہیں جب کوئی بندہ صدق نیت اوراخلاص کے ساتھ الله کو پکارے ،جیسے ہی وہ اپنے اس عہدوپیمان کووفاکرتاہے تواس کی دعامستجاب ہوجاتی ہے

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ /ج ۴/ص ٣۶٧

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٧٣

۳۱۲

اورجب کوئی بندہ نیت واخلاص کے بغیرالله کوپکارتاہے تواس کی دعامستجاب نہیں ہوتی ہے ،کیاتم نے قرآن کریم میں اس قول خداوندی کونہیں پڑھاہے؟کہ جسمیں وہ فرماتاہے:( اَوْفُوْا بِعَهْدِیْ اُوْفِ بِعَهْدِکُمْ ) (۱) تم ہمارے عہدکوپوراکروہم تمھارے عہدکوپوراکریں گے،اس کے بعدامام (علیه السلام) فرماتے ہیں:جس نے عہدخداکوپوراکیاخدابھی اس کے ) عہدکوپوراکرے گا ۔(۲)

سلیمان ابن عمروسے مروی ہے :میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:خداوندعالم بے توجہی کے ساتھ کی جانے والی دعاقبول نہیں کرتاہے،پس جب بھی تم دعاکروتواپنے قلب ) خداکی طرف متوجہ رکھواوریہ یقین رکھوکہ تمھاری دعاضرورقبول ہوگی۔(۳)

٧۔زبان سے

خداوندعالم ہرشخص کے حال دل سے آگاہ ہے ،وہ بغیرمانگے بھی عطاکرسکتاہے لیکن وہ اپنے بندہ کی زبان سے دعاکوسننازیادہ پسندکرتاہے،لہٰذا بہترہے کہ انسان اپنی دعاوحاجت کودل کے علاوہ زبان سے بھی اداکرے ۔عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ الله تبارک وتعالیٰ یعلم مایریدالعبداذادعاه ولکن یحبّ اَن یبث الیه الحوائج فاذادعوت فسم حاجتک ۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ دعاکرتاہے توخداوندعالم دعاکرنے والوں کی حاجتوں سے باخبررہتاہے مگراس چیزکودوست رکھتاہے کہ بندہ اپنی حاجتوں کوزبان سے بھی ذکرکرے،پسجب بھی تم دعاکرواپنی حاجتوں کوزبان سے بیان کرو۔

٨۔ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلندکرنا

مستحب ہے کہ دعاکرتے وقت دونوں ہاتھوں کوچہرہ اورسرکے سامنے تک بلندکریں اوردونوں ہتھیلیوں کوآسمان کی جانب قراردیں۔عن حسین بن علی علیهماالسلام قال:کان رسول الله صلی الله علیه وآله، یرفع یدیه اذاابتهل ودعاکمایستطعم المسکین ۔(۵)

روایت میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعااورگریہ وزاری کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کواس طرح بلندکرتے تھے جیسے کوئی مسکین وبے چارہ کسی کے سامنے کھانے کے لئے ہاتھ پھیلاتاہے ۔

____________________

۱)سورہ بٔقرہ /آیت ۴٠

۲)سفینة البحار/ج ١/ص ۴٩٩.

.۳)کافی /ج ٢/ص ۴٧٣

. ۴)کافی /ج ٢/ص ۴٧۶

.۲)مکارم الاخلاق/ص ٢۶٨

۳۱۳

امیرالمومنین فرماتے ہیں:

جب بھی تم میں کوئی شخص نمازسے فارغ ہوتواپنے دونوں ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکرے اوردعاکرے ابن سبانے عرض کیا:یاامیرالمومنین!کیاخداسب جگہ موجودنہیں ہے(پھرآسمان کی طرف ہاتھ بلندکرکے دعاکرنے کی وجہ کیاہے )؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:کیاتم نے اس آیہ مبارکہ نہیں پڑھی ہے:( وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَاتُوعَدُوْنَ ) اورآسمان میں تمھارارزق ہے اورجن باتوں کاتم سے وعدہ کیاگیاہے سب کچھ موجودہے(۱)

٩۔اظہارذلت وتضرع

دعاکرنے والے کوچاہئے کہ اپنے آپ کوالله کی بارگاہ میں ذلیل وحقیراورمحتاج شمارکرے اورعظمت پردگارکے سامنے اپنی حاجتوں کوناچیزشمار کرے اوردعاکرنے والے کوچاہئے کہ اپنے آپ کو اس قدریادخدامیں غرق کرے کہ جب جسم پر تضرع وگریہ کی حالت پیداہوجائے تواس وقت دعاکرے اوراپنی حاجتوں کوبیان کرے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام:اذارقّ احدکم فلیدع فانّ القلب لایرقّ حتیٰ یلخّص .(۲)

جب تمھارے جسم پررقت طاری ہوجائے تودعاکروکیونکہ دل پررقت اسی وقت طاری ہوتی ہے جب وہ خداکے لئے خالص ہواوراس کی جانب متوجہ ہوجائے

١٠ ۔ بسم الله کے ذریعہ آغاز

انسان جب بھی بارگاہ خداوندی میں دعاکے لئے ہاتھ بلندکرے اوراوراپنی حاجتوں کوبیان کرے توسب سے پہلے “بسم الله الرحمن الرحیم ”کہے اسکے بعداپنی حاجتوں کوبیان کرے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہی:جس دعاکو“بسم الله الرحمن الرحیم”کے ذریعہ شروع کیاجاتاہے تو وہ واپسنہیں ہوتی ہے بلکہ مقبول واقع ہوتی ہے ۔(۳)

____________________

.۱) سورہ ذاریات/آیت ٢٢ من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٢۵

. ۲)کافی /ج ٢/ص ۴٧٧ ۔مکارم الاخلاق/ص ٢٧١

۳)بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣١٣

۳۱۴

١١ ۔ حمدوثنائے الٰہی

دعاکرنے والے کوچاہئے کہ دعاکرنے پہلے اپنے رب کوراضی وخوشنودکرے یعنی اس کی تسبیح اور حمدوثنا کرے اوراپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے بعداپنی حاجتوں کوبیان کرےحارث ابن مغیرہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے:ایّاکم اذااراداحدکم ان یسئل من ربّه شیئاًمن الحوائج الدنیاوالآخرة حتی یبدء بالثناء علی الله عزوجل والمَدحَ له والصلاة علی النبی ثمّ یسئل الله حوائجه ۔(۱) تم میں جوشخص بھی حوائج دنیاوآخرت میں سے کسی چیزکوالله سے طلب کرے تواسے چاہئے کہ دعاکرنے سے پہلے خدائے عزوجل کی مدح وثناکرے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہارپردرودبھیجے اس کے بعداپنی حاجتوں کوخداکی بارگاہ میں طلب کرے ۔

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص دس مرتبہ“یاالله یالله” کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص دس مرتبہ“یارب یارب” کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔(۳)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص ایک نفس میں چندمرتبہ “یاربِّ یاالله”کہتاہے توخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہتاہے :اے میرے بندے !میں حاضرہوں ،تواپنی حاجت تومجھ سے بیان کر۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص ہرنمازواجب کے بعدحالت تورک سے خارج ہونے سے پہلے تین مرتبہ “استغفرالله الذی لااله الّاهوالحی القیوم ذوالجلال والاکرام واتوب الیه ”کہے توخداوندعالم اسے تمام گناہوں کوبخش دیتاہے خواہ اس کے گناہ سمندرکے جھاگ کے برابرہی کیوں نہ ہوں۔(۵)

____________________

.۱) کافی /ج ٢/ص ۴٨۴.

۲). کافی /ج ٢/ص ۵١٩

۳). کافی /ج ٢/ص ۵٢٠

۴). کافی /ج ٢/ص ۵٢٠

۵). کافی /ج ٢/ص ۵٢١

۳۱۵

١٢ ۔ توسل بہ معصومین

اگرکسی غلام سے کوئی خطاہوجائے تووہ اپنی خطاکومعاف کرانے کے لئے کسی ایسے شخص کاسہارالیتاہے کہ جوبادشاہ سے بہت زیادہ قریب ہواوردوست بھی ہواورخودبادشاہ بھی اسے دوست رکھتاہوکہ جس کے کہنے پربادشاہ اسے معاف کرسکتاہو ،اسی طرح اگرکوئی شخص کسی چیزکامحتاج اورضرورتمندہے توکسی بے نیازکادروازہ کھٹکھٹانے کے لئے کسی ایسی ذات کاسہارالےتاہے جواس مالدارکاقریبی دوست ہوکہ جس کے کہنے سے مرادپوری ہوجائے گی ،بس اسی طرح خداتک پہنچنے اوراس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اوراس سے اپنی حاجتوں کے پوراکرنے کے لئے ایسی ذوات مقدسہ کوسہارااوروسیلہ قرارضروری ہے جوالله تبارک وتعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہوں اوروہ انھیں اپناحبیب سمجھتاہو،الله تک پہنچنے کے لئے کسی ذات کووسیلہ قراردینے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااللهَ وَابْتَغُوْااِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ) (۱)

ترجمہ:اے ایمان والو!الله سے ڈرواوراس تک پہنچنے کاوسیلہ تلاش کرو

اس آیہ مٔبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ الله تک پہنچنے کے لئے اوراس سے کوئی چیزطلب کرنے کے لئے کسی کووسیلہ قراردیناضروری ہے کہ جن کے وسیلے سے ہماری توبہ قبول ہوجائے اوربگڑی ہوئی قسمت سنورجائے اورجسچیزکی تمناہے وہ بھی حاصل ہوجائے معصومین وہ ذوات مقدسہ ہیں جوالله تبارک وتعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہیں، پروردگار ان کی بات کونہیں ٹال سکتاہے ،یہ زمین وآسمان ،آفتاب وماہتاب،چاند اور ستارے، دریا وسمندرشب کچھ انھیں کے طفیل سے قائم ہیں گویایہ پوری دنیاانھیں کی وجہ سے قائم ہے ،اب اگرکوئی شخص الله کوراضی کرناچاہتاہے توپہلے انھیں راضی کرے جسے پروردگاراپنی مرضی فروخت کر چکاہو

اگرکوئی شخص اللھسے کسی چیزکوطلب کرناچاہتاہے تونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اورآئمہ اطہار کوواسطہ قرادیناچاہئے ،یہی وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے وسیلے سے امت نجات پاسکتی ہے ،ان کے وسیلہ کے بغیرنہ کوئی حاجت پوری ہوسکتی ہے اورنہ کسی کوروزقیامت نجات مل سکتی ہے ،یہی وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جن کے واسطے سے آدم (علیه السلام)کی توبہ قبول ہوئی ،ہابیل (علیه السلام)کی نذرقبول ہوئی ،کشتی نوح (علیه السلام)میں سوارتمام لوگوں نے نجات پائی ،یونس (علیه السلام) مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے، ابراہیم (علیه السلام)کے لئے آتش نمرودگلزارہوئی ،اسماعیل (علیه السلام)قربان ہونے سے بچ گئے ،موسیٰ (علیه السلام)کے لئے دریامیں راستہ بنا۔

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ/آیت ٣۵

۳۱۶

معصومین کووسیلہ قراردینے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے: امام حسن عسکری سے منسوب “ تفسیرامام عسکری ”میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک دن جب سلمان فارسی قوم یہودکے پاس گذرے توان سے کہا:کیامیں تمھارے پاس بیٹھ سکتاہوں اورتم سے وہ بات بتاسکتاہوں جوآج ہی میں نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی زبان مبارک سے سنی ہے؟ان لوگوں نے کہا:ضروربیان کیجیے ،سلمان فارسی اس قوم کے دین اسلام سے حرص رکھنے اوران اصرارکرنے کی وجہ سے بیٹھ گئے اورکہا: میں نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کویہ فرماتے ہوئے سناہے: خداوندعالم فرماتاہے :اے میرے بندو!کیاایسانہیں ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمھارے پاس کوئی حاجت لے کرآئے توتم اسے اس وقت پورانہیں کرتے ہوجب تک کہ وہ کسی ایسے شخص کوواسطہ قرارنہ دے جوتمھیں مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے اورشفیع وواسطہ کے ذریعہ حاجتوں کوپوراکیاجاتاہے؟

جان لو!میری مخلوق میں وہ ذات کہ جومجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اورجومیرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ہے وہ محمد (صلی الله علیه و آله) اوران بھائی علی اوران کے بعداوران کے بعدآئمہ اطہار ہیں جومجھ تک پہنچنے کاوسیلہ اورواسطہ ہیں اب تم جوشخص بھی کوئی حاجت رکھتاہے جواس کے لئے فائدہ مندہو، یا مشکل میں گرفتارہے تواس حاجت پوراہونے اوراس مشکل کے برطرف ہونے کے لئے چاہئے کہ دعاکرے اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل پاک کوواسطہ قرار دے طلب کروتاکہ میں تمھاری حاجت کوپوراکروں اورمشکل کوبرطرف کروں، یادرکھو! میری بارگاہ میں ان عظیم ذوات مقدسہ کے وسیلے سے حاجتوں کوپوراکرناان سے بہترہے جوتم اپنی حاجتوں کوپوراکرنے کے لئے اپنے محبوب ترین شخص کوواسطہ قرار دیتے ہو۔(۱)

داو دٔرقی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کوسناہے جب آپ دعاکرتے تھے تواپنی دعامیں خداکے لئے پنجت ن پاک یعنی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اورامیرالمومنین اورفاطمہ زہرااورحسن اورحسین کوواسطہ قراردیاکرتے تھے ۔(۲)

____________________

. ١)تفسیرامام حسن عسکری /ص ۶٨

. ٢)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ١١٣٩

۳۱۷

١٣ ۔ صلوات برمحمدوآل محمد

اگرکوئی بندہ اس چیزکی تمنارکھتاہے کہ اس کی بارگاہ خداوندی میں قبول ہوجائے تودعاسے پہلے اوربعدمیں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہار کوواسطہ قراردے اوران پردرودوسلام بھیجے،اوران ذوات مقدسہ پرالله تبارک وتعالیٰ بھی درودوسلام بھیجتاہے اوراس کے ملائکہ بھی ،جیساکہ قرآن میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( اِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیْ یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوْاصَلُّوْاعَلَیْهِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا ) .(۱)

ترجمہ:بیشک الله اوراس کے ملائکہ رسول پرصلوات بھیجتے ہیں تواے صاحبان ایمان!تم بھی ان پرصلوات بھیجتے رہواورسلام کرتے رہو۔ امام صادق سے روایت ہے کہ :ایک دن رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے امام علیسے عرض کیا:اے علی!کیاتم نہیں چاہتے کہ میں تمھیں کوئی خوشخبری دوں؟عرض کیا:آپ پرمیرے ماں باپ پرقربان جائیں ،آپ توہمیشہ مجھے خوشخبری دیتے رہتے ہیں رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:مجھے ابھی جبرئیل نے ایک خوشخبردی ہے ،علینے عرض کیا:وہ کیاہے مجھے بھی بتائیے ؟آنحضرت نے فرمایا:مجھے خبردی گئی ہے کہ میری امت میں سے جب کوئی شخص مجھ پردرودبھیجتاہے اوراس کے ساتھ میری آل پردرودبھیجتاہے توآسمان کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اورملائکہ اس پرسترمرتبہ صلوات بھیجتے ہیں اوراگروہ گناہگارہوتاہے تواس کے گناہ درخت سے پتوں کے مانندگرجاتے ہیں اورخداوندعالم اس بندے سے کہتاہے :“لبیک یاعبدی وسعدیک”اوراپنے ملائکہ سے کہتاہے:تم میرے اس بندے پرسترصلوات بھیجو،(نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:) میں اس پرسات سومرتبہ صلوات بھیجتاہوں لیکن اگرمیرے ساتھ میری آل پرصلوات نہیں بھیجتاہے تواس کے اورآسمان کے درمیان سترحجاب واقع ہوجاتے ہیں اورخداوندعالم اس کے جواب میں کہتاہے: “لالبیک ولاسعدیک”اوراپنے ملائکہ کوحکم دیتاہے :اے میرے ملائکہ !اس کی دعااس وقت تک کوآسمان پرنہ لاناجب تک کہ یہ میرے رسول کی آل پرصلوات نہ بھیجے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: مجھ پردرودبھیجنے والاشخص جب تک میری آل پردرودوسلام نہیں بھیجتاہے اس وقت رحمت خداسے محروم رہتاہے۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:لایزالُ الدعاء محجوباً حتی یصلی علیٰ محمدوآل محمد .(۳)

امام صادق فرماتے ہیں:یہ ثابت ہے کہ جب تک محمدوآل محمدپرصلوات نہ بھیجی جائے تودعاپردہ میں رہتی ہے (اوروہ خداتک نہیں پہنچتی ہے)۔

____________________

. ۱)سورہ أحزاب/آیت ۵۶

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٩١ )

٣)امالی/ص ۶٧۶ ۔ثواب. الاعمال/ص ١۵٧

۳۱۸

١ ۴ ۔خفیہ دعاکرنا

دعاکے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ انسان جب بھی کوئی دعاکرے اوربہترہے کہ ت نہائی اورخلوت میں بے نیازکی بارگاہ میں دست نیازبلندکرے اورریاجیسی بیماری سے دوررہے ،وہ لوگ جواپنے آپ کے متقی وپرہیزگارہونے کااظہارکرتے ہیں اوران کے دل میں ریاکاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتاہے توخداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاقبول نہیں کرتاہے

عن ابی الحسن الرضاعلیه السلام قال:دعوة العبدسرّاًدعوة واحدة تعدل سبعین دعوة علانیة ۔(۱)

امام علی رضا فرماتے ہیں:بندہ کات نہائی میں ایک دعاکرناظاہری وعام طورسے کی جانے والی ستردعاؤں کے برابر ہے۔ لیکن اگرانسان کادل ریاکاری سے پاک ہے اورحقیقت میں اپنے آپ کو پروردگارکی بارگاہ میں ذلیل وحقیرشمارکرتاہے ہوتوبہترہے کہ مومنین میں سے ایک شخص دعاپڑھے اورسب لوگ “آمین” کہیں یاسب مل کرایک ساتھ دعاپڑھیں۔

١ ۵ ۔ اجتماعی طورسے دعاکرنا

مستحب ہے کہ نمازجماعت کے بعدسب لوگ ایک ساتھ مل کردعاکریں ،یاامام جماعت یاکوئی دوسراشخص دعاکرے اورسب آمین کہیں امام صادق فرماتے ہیں :ہمارے پدربزرگوارکوجب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی ) توعورتوں اوربچوں کوجمع کرکے دعاکرتے تھے اورسب آمین کہتے تھے۔(۲) امام صادق فرماتے ہیں:اگرچالیس لوگ ایک جگہ جمع ہوکردعاکریں تو یقیناًخداوندعالم ان دعاؤں کومستجاب کرتاہے ،اگرچالیس لوگ جمع نہ ہوسکیں بلکہ چارشخص جمع ہو ں توہرشخص دس مرتبہ خداوندمتعال کوکسی حاجت کے لئے پکارے توخداان کی دعاقبول کرتاہے ،اگرچارشخص جمع نہ ہوسکیں توایک ہی شخص چالیس مرتبہ الله کوپکارے(یعنی چالیس مرتبہ ) “یاالله”کہے )تویقیناًخدائے عزیزوجباراسکی دعاکومستجاب قراردے گا۔(۳)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:مااجتمع اربعة قط علیٰ امرواحد ، فدعوا(اللهالّاتفرقواعن اجابة .(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:اگرچارشخص دعاکے لئے جمع ہوں اورایک ساتھ مل کررب العزت کی بارگاہ میں کوئی دعاکریں ،اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے سے جداہوں وہ دعاقبول ہوچکی ہوتی ہے ۔

____________________

١)کافی/ج ٢/ص ۴٧۶

. ٢)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧.

.۳)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧

۴)کافی/ج ٢/ص ۴٨٧ )

۳۱۹

١ ۶ ۔ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے دعاکرنا

جب انسان رب کریم کی بارگاہ میں کوئی حاجت طلب کرناچاہتاہے اوراپنے رنج وغم کوبیان کرناچاہتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کے رنج وغم کوبھی یادرکھے بلکہ بہتریہ ہے کہ پہلے اپنے دینی بھائیوں کے لئے میں الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعاکرے کیونکہ جوشخص دوسروں کے لئے دعاکرتاہے توخداوندعالم اس کی دعاکوقبول کرتاہے اوراپنے فرشتوں سے کہتاہے :دیکھو!میرے اس بندے کواپنے رنج وغم کے ساتھ دوسروں کارنج وغم بھی یادہے ،یہ خوداپنے لئے جس چیزکی تمنارکھتاہے اسے دوسروں کے لئے بھی دوست رکھتاہے لہٰذاخداوندعالم اس دعاکوقبول کرلیتاہےعن ابی عبدالله علیه السلام قال:من قدم اربعین رجلامِن اِخوانه فدعالهم ثمّ دعالنفسه استجیب له فیهم وفیه .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص چالیس مومنوں کواپنے اوپرمقدم رکھے اورپہلے ان کے لئے دعاکرے، اس کے بعداپنے لئے تواس کی دعاان کے لئے بھی اوراپنے لئے بھی مستجاب ہوگی۔

امام موسیٰ کاظمنے اپنے آباء سے نقل کیاہے کہ حضرت فاطمہ زہرا جب دعاکرتی تھیں تو تمام اہل ایمان مردوعورتوں کے لئے دعاکرتی تھیں اوراپنے لئے کوئی دعانہیں کرتی تھیں ، آپ سے پوچھا گیا:اے دختررسول خدا (صلی الله علیه و آله)!کیاوجہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے ) دعائیں کرتی ہیں مگراپنے لئے کوئی دعانہیں کرتی ہیں؟فرمایا:پہلے پڑوسی پھراپناگھر۔(۲) امام حسن فرماتے ہیں:میری والدہ حضرت فاطمہ زہرا پوری رات محراب عبادت میں پیروں پہ کھڑی رہتی تھیں اورمرتب رکوع وسجودمیں رہتی تھیں یہاں تک صبح نمودارہوجاتی تھی اورمیں اپنے کانوں سے سنتاتھاکہ آپ مومنین ومومنات کے لئے دعاکرتی اوران کانام بھی لیاکرتی تھیں اوران کے لئے کثرت سے دعائیں کرتی تھیں،ایک دن میں نے اپنی والدہ سے کہا:جسطرح آپ دوسروں کے لئے دعاکرتی ہیں اپنے لئے کیوں نہیں کرتی ہیں؟توآپ نے فرمایا:

یابنیَّ! اوّل الجارثمّ الدار.

اے میرے بیٹا!دوسرے ہم پرمقدم ہیں ؛پہلے ہمسایہ پھراپناگھر۔(۳)

____________________

.۱)من لایحضرہ ا لفقیہ/ج ٢/ص ٢١٢

.۲)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٢

. ۳)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٢

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370