نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار10%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167138 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

روایت میں آیاہے:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے کسی نے پوچھا:یارسول الله !وہ کونسی شئے ہے جس کے ذریعہ روزقیامت نجات پائی جائے گی ؟آنحضرت نے فرمایا:نجات اس چیزمیں ہے کہ آپ (دنیامیں)خداکودھوکانہ دیں،ورنہ وہ کل روزقیامت تمھیں دھوکادے گاکیونکہ جوخداکومکروفریب دیتاہے خدابھی اسے مکروفریب دے گااوراس کے دل سے ایمان کوسلب کرلے گا،اگرانسان غورفکرکرے تووہ خداکونہیں بلکہ خودکودہوکادے رہاہے

اس نے پوچھا:انسان خدا کو کیسے دھوکادے سکتاہے ؟آپ نے فرمایا: خدا کو دھوکادینایہ ہے کہ انسان اس کام کوجس کاالله نے حکم دیاہے انجام دے لیکن اس کوانجام دینے میں کسی دوسرے کاقصدکرے.میں تمھیں وصیت کرتاہوں کہ ریاکاری کرنے میں خداسے ڈرو،کیونکہ ریاکاری شرک ہے، روزقیامت ریاکارشخص کو چارنام سے پکاراجائے گا:اے کافر!،اے فاسق!،اے خائن!،اے تباہ کار!تیرے تمام اعمال حبط ہوگئے اورثواب باطل ہوگیاہے ،آج تیری رہائی ونجات کاکوئی سامان نہیں ہے ،اپنے کئے ہوئے اعمال کااجروثواب اسی سے طلب کرجس کے لئے تونے انجام دئے ہیں۔(۱)

اگرکوئی شخص لوگوں کے درمیان ترویج دین اسلام کی خاطر نمازکو اچھے اندازمیں اداکرتاہے تواسے ریاکاری نہیں کہتے ہیں،اس بارے میں عبدالله ابن بکیرنے عبیدسے رویات کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے میں نے امام صادق سے پوچھا:اس شخص کے بارے میں کیاحکم ہے جواپنی نمازکولوگوں کے درمیان اس قصدسے انجام دیتاہے تاکہ لوگ اسے نمازپڑھتے ہوئے دیکھیں اوراس کے دین کی طرف تمایل پیداکریں اوراس کے طرفدارہوجائیں ؟ امام(علیه السلام) نے فرمایا:اسے ریاکاری میں شمارنہیں کیاجاتاہے۔(۲)

____________________

.۱) امالی /ص ۶٧٧ ۔ ثواب الاعمال/ص ٧۵۵ ۔معانی الاخبار/ص ٣۴١

۲). وسائل الشیعہ /ج ١/ص ۵۶

۱۸۱

راز تکبیرة الاحرام

تکبیرکے ذریعہ نمازکاآغازکئے جانے کی وجہ

واجب ہے کہ انسان جیسے ہی نمازکی نیت کرے تواس کے فوراًبعدبغیرکسی فاصلے کےتکبیرة الاحرام یعنی “الله اکبر”کہے اوراس کے ذریعہ اپنی نمازکاآغاز کرے ۔ اگرکوئی شخص یہ سوال کرے کہ آغازنمازکے لئے تکبیرکوکیوں معین کیاگیاہے ،کیانمازکوتکبیرکے علاوہ خداوندمتعال کے کسی دوسرے نام سے ابتدا نہیں کیاجاسکتاہے ؟ روایت میں ایاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں مشرف ہوئی ان کے عالم نے آنحضرتسے چندسوال کئے جن میں ایک یہ بھی تھاکہ نمازکوتکبیرکے ذریعہ شروع کیوں جاتاہے؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: ”الله اکبر”فهی کلمة اعلی الکلمات واحبهاالی الله عزوجل یعنی لیس شی أکبرمنه، ولایفتح الصلاة الّابهالکرامته علی اللهوهواسم الاکرم ۔

”الله اکبر”کلموں میں سب سے افضل وبرترکلمہ ہے اوراس کلمہ کوخداوندعالم بہت زیادہ عزیزرکھتاہے یعنی الله کے نزدیک اس کلمہ سے بڑھ کرکوئی چیزنہیں ہے اوراس کلمہ کے علاوہ کسی دوسرے کلمہ سے نمازکی ابتداء کرناصحیح نہیں ہے کیونکہ خداصاحب کرامت ہے اوریہ کلمہ اسم اکرم ہے ۔(۱)

ناک ایک ایسی چیزہے کہ جس کی وجہ سے انسان کے چہرے کی خوبصورتی معلوم ہوتی ہے ،لیکن اگرکسی کے چہرے پرناک ہی موجودنہ تواسے لوگ کیاکہیں گے اورکیانام دیں ،نمازمیں تکبیرة الاحرام کوناک کادرجہ دیاگیاہے کہ جس کے بغیرنمازادھوری ہے جیساکہ ایک حدیث میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:

ہرشے کٔے ایک چہرہ ہوتاہے اورتمھارے دین کاچہرہ نمازہے لہٰذاتمھیں چاہئے کہ اپنے کے دین چہرہ نہ بگاڑیں اورہرچیزکی ایک ناک ہوتی ہے اورنمازکی ناک تکبیرہے (ناک سے چہرے کی خوبصورتی معلوم ہوتی ہے اگرکسی شخص کے چہرہ سے ناک کوختم کردیاجائے تووہ برامعلوم ہوتاہے اسی طرح اگرنمازسے تکبیرکونکال دیاجائے تواس کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی)۔(۲)

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ١/ص ٢۵١

. ۲) کافی/ج ٣/ص ٢٧٠

۱۸۲

اس تکبیرکوتکبیرة الاحرام کہے جانے کی وجہ

اس تکبیرکوتکبیرة الاحرام کہتے ہیں،اوراستکبیرکوتکبیرة الاحرام کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ محرم ہوجاتاہے اورکچھ چیزیں( جونمازگزارکے لئے غیرنمازکی حالت میں حلال ہوتی ہیں مثلاکسی چیزکاکھاناپینا،قبلہ سے منحرف ہونا،کسی سے کلام کرناچاہے ایک ہی حرف ہو)نمازگزارپرحرام ہوجاتی ہیں،اس بارے میں روایت میں آیاہے:قال رسول الله صلی الله علیه واله:افتتاح الصلاة الوضوء وتحریمها التکبیر وتحلیلهاالتسلیم ۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: نمازکی ابتداء وضوکے ذریعہ ہوتی ہے اورتکبیراس کی تحریم ہے اورسلام اس کی تحلیل ہے(۱)

سات تکبیرکہنے کاراز

تکبیرة الاحرام کے علاوہ جوکہ واجب ہے تکبیرة الاحرام سے پہلے یابعدمیں چھ تکبیرکہنامستحب ہے یہ مجموعاسات تکبیرہوجاتی ہیں لیکن پانچ یاتین تکبیرپربھی اکتفاء کرسکتے ہیں، ان تکبیروں کوافتتاحی تکبیرکہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ نمازکی ابتداء ہوتی ہے لیکن حقیقت میں تکبیرة الاحرام کوافتتاحی تکبیرکہاجاتاہے۔ احادیث معصومین میں نمازکے شروع میں سات افتتاحی تکبیرکہے جانے کے بارے میں چندوجہ بیان اس طرح بیان کی گئی ہیں:

١۔نمازکے شروع میں سات تکبیریں کہنے کارازیہ ہے کہ نبی اکرم نے بھی نمازکومومن کے لئے بارگارہ ملکوتی میں پروازکرنے کاایک بہترین ذریعہ قراردیاہے اورپروازکے لئے سات آسمان کے پردوں کوعبورکرناضروری ہے ،جب مومن تکبیرکہتاہے تو آسمان کاایک پردہ کھل جاتاہے لہٰذاساتوں حجاب عبورہونے کے لئے سات تکبیرکہناچاہئے تاکہ بارگاہ ملکوتی میں پروازکرسکے ۔

ہشام ابن حکم سے روایت ہے کہ امام موسیٰ بن جعفر +نے سات افتتاحی تکبیرکے یہ بیان کی ہے:

انّ النبی صلی الله علیه وآله لما اسری به الی السماء قطع سبعة حُجُبٍ، فکبّرعندکلّ حجابٍ تکبیرة فاوصله الله عزوجل بذلک الیٰ منتهی الکرامة جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے آسمانوں کی سیرکی توسات پردوں سے گزرے توہرحجاب کے نزدیک ایک تکبیرکہی اوران تکبیروں کے وسیلے سے الله تبارک وتعالیٰ نے آنحضرت کو انتہائے کرامت و بلندی پرپہنچایا۔(۲)

____________________

.۱) وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧١۵

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۵

۱۸۳

٢۔ان سات تکبیروں کارازیہ ہے کہ ان کے ذریعہ خداکے صفات ثبوتیہ اورسلبیہ کی تصدیق کی جاتی ہے۔

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ میں مولاامیرالمومنین علی ابن ابی طالب +کی خدمت میں موجودتھا،آپ نے ایک شخص کونماز پڑھتے ہوئے دیکھا،جب وہ نمازسے فارغ ہواتومولانے اس سے پوچھا:اے مرد!کیاتم نمازکی تاویل وتعبیرسے آشنائی رکھتے ہو؟اس نے جواب دیا:میں عبادت کے علاوہ نمازکی کوئی تاویل نہیں جانتاہوں،بس اتناجانتاہوں کہ نمازایک عبادت ہے ،امام (علیه السلام)نے اس سے فرمایا:

قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی الله علیه و آله)کونبوت عطاکی ،خداعالم نے جت نے بھی کام نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوبجالانے کاحکم دیاہے اس میں کوئی رازاورتعبیرضرورپائی جاتی ہے اوروہ سب کام بندگی واطاعت کی نشانی ہیں ،اس مردنے کہا:اے میرے مولا!آپ انھیں مجھے ضروربتائے وہ کیاہیں؟امام (علیه السلام)نے فرمایا: نمازکے شروع میں سا ت تکبیرکہناچاہئے ان سات تکبیرکارازیہ ہے کہ جب تم پہلی “الله اکبر” کہوتواپنے ذہن میں یہ خیال کرو کہ خداوندعالم قیام وقعودکی صفت سے پاک ومنزہ ہے ،وہ نہ کھڑاہوتاہے اورنہ بیٹھتاہے ،اورجب دوسری مرتبہ “الله اکبر” توخیال کروکہ خدانہ چلتاہے اورنہ بیٹھتاہے اورتیسری تکبیرسے یہ ارادہ کروکہ خداجسم نہیں رکھتاہے اوراسے ذہن میں تصورنہیں کیاجاسکتاہے ،چوتھی تکبیرکہنے کارازیہ ہے کہ اس میں کوئی بھی عرض حلول نہیں کرسکتاہے اوراسے کوئی مرض نہیں لگ سکتاہے اورپانچوی تکبیرکہنے کارازیہ ہے وہ جوہروعرض جیسی صفت سے منزہ ہے اورچھٹی تکبیرکہنے سے اس چیزکاارادہ کروکہ وہ نہ کسی چیزمیں حلول کرسکتاہے اورنہ کوئی چیزاس میں حلول کرسکتی ہے اورچھٹی تکبیرکہنے سے یہ خیال کروکہ خداونداعالم نہ کبھی نابودہوسکتاہے اورنہ اس میں کسی طرح کی تبدیلی آسکتی ہے وہ تغیروتبدل سے مبراء ہے اورساتوی تکبیرکہنے سے یہ خیال کروکہ اس میں کبھی بھی حواس خمسہ حلول نہیں کرسکتے ہیں۔(۱)

٣۔سات تکبیروں کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے جسے ہم معصوم کی ایک دوحدیث کے ضمن میں ذکرکررہے ہیں جسے “تہذیب الاحکام ”اور“من لایحضرہ الفقیہ”میں ذکرکیاگیاہے:حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ :ایک دن جب پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نمازکے لئے کھڑے ہوئے توامام حسین آنحضرتکے پاس کھڑے ہوئے تھے، آنحضرت نے تکبیرکہی مگرامام حسیننے تکبیرنہ کہی ،پیغمبرنے دوبارہ تکبیرکہی پھرامام حسین (علیه السلام) نے تکبیرنہ کہی ،آنحضرتاسی طرح پیوستہ تکبیرکہتے رہے اورمنتظرتھے کہ حسین (علیه السلام)کب تکبیرکہتے ہیں یہاں تک کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے سات مرتبہ تکبیرکہی،جیسے ہی ساتوی تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے تکبیرکاجواب دیا،امام صادق فرماتے ہیں :اسی لئے نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنامستحب قرارپائی ہیں ۔

____________________

. .۱) بحارالانوار/ج ٨١ /ص ٢۵٣

۲) تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۶٧

۱۸۴

امام محمدباقر فرماتے ہیں کہ:امام حسیننے کچھ دیرمیں بولناشروع کیایہاں تک کہ امام حسین -نے بولنے میں انتی دیرکی کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوامام حسینکے کی زبان اقدس میں قوت گویائی نہ رکھنے کاخوف پیداہوا، آنحضرت جب نمازکے لئے مسجدمیں ائے توامام حسین - کوبھی اپنے ہمراہ لے کر آئے اورنمازپڑھتے وقت امام حسین کواپنے دائیں جانب کھڑاکیااورنمازپڑھناشروع کی ،لوگوں نے بھی آنحضرت کے پیچھے صف میں کھڑے ہوکرشروع کی ،آنحضرت نے جیسے ہی تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے بھی تکبیرکہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے دوبارہ تکبیرکہی توحسین (علیه السلام)نے دوبارہ تکبیرکہی،یہاں تک کہ پیغمبرنے سات مرتبہ تکبیرکہی اورحسین (علیه السلام)نے آپ کی اتباع میں سات مرتبہ تکبیرکہی ،اسی لئے نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنامستحب قرارپائی ہیں۔(۱)

۴ ۔روایت میں سات افتتاحی تکبیرکی ایک اوروجہ اس طرح بیان کی گئی ہے: فضل بن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا ان سات تکبیروں کی مشروعیت کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ نمازکے شروع میں سات تکبیروں کوکیوں مشروع کیاگیاہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ ان سات تکبیروں میں ایک تکبیرواجب ہے اوربقیہ مستحب ہیں اوران استحبابی تکبیرکی وجہ یہ ہے کہ اصل میں نمازدورکعت ہے(۲) اوردورکعت نمازمیں مجموعاًسات تکبیرپائی جاتی ہیں:

١۔تکبیراستفتاح یعنی تکبیرة الاحرام ٢۔پہلی رکعت کے رکوع میں جانے کی تکبیر ٣۔ ۴ ۔ پہلی رکعت کے دونوں سجدوں میں جانے کی تکبیر ۵ ۔دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیر ۶ ۔ ٧ دوسر ی رکعت کے دونوں سجدوں کی تکبیر

نمازکے شروع میں سات تکبیرکہنے رازیہ ہے کہ اگرنمازی ان مذکورہ سات تکبیروں میں کوئی تکبیربھول ہوجائے یاکلی طورسے ان سے غافل ہوتوشروع میں کہی جانے والی تکبیریں ) اس کاتدارک کرسکتی ہیں اورنمازمیں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔(۳)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣٠۵١

۲)اوربعدمیں ظہروعصراورعشاکی نمازمیں دودورکعت کاضمیمہ کیاہے اورمغرب میں ایک ( رکعت اورنمازصبح میں کوئی اضافہ نہیں کیاہے اسے ہم پہلے حدیث کے ضمن میں“واجب نمازوں کی رکعتوں کی تعدادکت نی ہے”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں۔

.۳)علل الشرایع/ج ١/ص ٢۶١

۱۸۵

تکبیرکہتے وقت دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرنے کاراز تکبیرة الاحرام اوراس کے علاوہ نمازکی دیگرتمام تکبیرکہتے وقت دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرنامستحب ہے،اوردونوں ہاتھوں کوکانوں تک اس طرح بلندکریں کہ ہتھیلیاں قبلہ کی سمت قرارپائیں۔

عن علی علیه السلام فی قوله تعالیٰ ( فصلّ لربک وانحر ) انّ معناه ارفع یدیک الی النحرفی الصلاة ۔

حضرت علی اس آیہ مٔبارکہ( فصلّ لربک وانحر ) کے بارے میں فرماتے ہیں: اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نمازمیں (تکبیرکہتے وقت)ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرو۔(۱)

تفسیرمجمع البیان میں آیہ کٔریمہ( فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ) کی تفسیر کے ذیل میں حضرت علیسے یہ روایت نقل کی ہے:

حضرت علی فرماتے ہیں :جب یہ آیہ مٔبارکہ نازل ہوئی تونبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے جبرئیل امین سے پوچھا:یہ نحیرہ کیاچیزہے جس کامجھے حکم دیاگیاہے؟کہا: جبرئیل امین نے جواب دیا:نحیرہ سے مرادکچھ نہیں ہے مگریہ کہ پرودگارکاحکم ہے :جب تم نماز کیلئے قیام کرو توتکبیرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلندکرواوراسی طرح رکوع میں جانے سے پہلے اوررکوع میں جانے کے بعداورسجدے میں جاتے وقت اور سجدے سے سربلندکرتے ہوئے تکبیرکہواوردونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلند کروکیونکہ ہماری نمازاورساتوں اسمان میں ملائکہ کی نمازکایہی طریقہ ہے(کہ وہ تکبیرکہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کوکانوں تک بلندکرتے ہیں)کیونکہ ہرچیزکیلئے ایک زینت ہوتی ہے اورنمازکی زینت یہ ہے کہ ہر تکبیرمیں ہاتھوں کوبلندکیاجائے۔(۲)

ایک شخص امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں آیااور عرض کیا:اے خدا کی بہترین مخلوق (حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)) کے چچازادبھائی میں آپ پرقربان جاو ںٔ،تکبیرةالاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرنے کے کیامعنی اوراس کارازکیاہے ؟ امام نے فرمایا:

الله اکبرالواحدالاحدالذی لیسکمثله شی لٔایلمسبالاخماس ولایدرک بالحواس ۔

”الله اکبر”یعنی وہ ایک اوراکیلاہے ،اس کاکوئی مثل نہیں ہے ،وہ “ وحدہ لاشریک ”ہے اوراسے حواسپنجگانہ کے ذریعہ درک ومحسوسنہیں کیا جاسکتا ہے۔(۳)

____________________

۱)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧٢٨

.۲) تفسیرمجمع البیان/ج ٢٠ /ص ٣٧١

.۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۶

۱۸۶

نبی اکرمفرماتے ہیں: تکبیرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں بلند کرنا قیامت میں نامۂ اعمال لینے کے لئے ہاتھ بڑھانے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے :

( اِقْرَء کِتٰا بَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَومَ عَلَیْکَ حَسِیْباً ) (۱)

اب اپنی کتاب کو پڑھ لوآج تمھارے حساب کے لئے یہی کتاب کافی ہے۔(۲)

فضل بن شاذان سے مروی ہے امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ تکبیرکہتے وقت دونوں کوکانوں تک بلندکرنے کارازکیاہے توا سے یہ جواب دوکہ دونوں ہاتھوں کوبلندکرنا ایک نوع تضرع وزاری ہے اورغیرخداسے دوری کرناہے لہٰذاخداوندعالم دوست رکھتاہے کہ نمازی عبادت میں خضوع ،التماس اورتضرع کی کیفیت پیداکرے اوردوسری وجہ یہ ) ہے کہ ہاتھوں کوبلند کرنے سے نیت میں استمدادپایاجاتاہے اورحضورقلب پیداہوتاہے۔(۳)

عرفان اسلامی میں لکھاہے ،بعض علمائے دین کہتے ہیں : نماز کی نیت کرنے کے بعد تکیبرة الاحرام کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلندکرنے کے معنی ہیں:بارالٰہا! میں گناہوں میں غرق ہوں ،تو میر ے ان دونوں ہاتھوں کو پکڑلے اورمجھے نجات دیدے

(۴)

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١١١

٢)اسرارالصلاة (عبدالحسین تہرانی)/ص ۴١

. ۳)علل الشرایع/ج ١/ص ٢۴۶

۴) عرفان اسلامی /ج ۵/ص ٢٠٣

۱۸۷

رازقیام

جب نمازکے لئے کھڑے ہوجائیں تو نہایت اخلاص وحضورقلب کے ساتھ تکبیرة الاحرام کہیں اوربغیرکسی حرکت کے سیدھے کھڑے رہیں،بدن کوحرکت نہ دیں ،نہ ذرہ برابرکسی طرف جھکیں اورنہ کسی چیزپرٹیک لگائیں بلکہ سیدھے کھڑے ہوکرسکون وآرام کے ساتھ تکبیرة الاحرام کہیں ۔

تکبیرة الاحرام کہتے وقت قیام کرنااوررکوع میں جانے سے پہلے قیام کرناجسے قیام متصل بہ رکوع کہتے ہیں یہ دونوں قیام رکن نمازہیں اگران دونوں میں سے کوئی قیام عمداًیاسہواًترک ہوجائے تونمازکادوبارہ پڑھناواجب ہے لیکن حمدوسورہ پڑھتے وقت اورراسی طرح رکوع کے بعدبھی قیام کرناواجب ہے مگر یہ ایساقیام ہے کہ جس کے عمداًًترک کرنے سے نمازباطل ہے اورسہواًترک ہوجانے سے نمازباطل نہیں ہوتی ہے ۔مستحب ہے کہ نمازگزارقیام کی حالت میں اپنے دونوں کاندھوں کونیچے کی طرف جھکائے رکھے، دونوں ہاتھوں کو نیچے لٹکائے رکھے،دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کواپنی ران پررکھے،پیرکے انگوٹھوں کوقبلہ کی سمت رکھے،دونوں پیروں کے درمیان حداقل تین انگلیوں کے برابر اورحداکثرایک بالشت کے برابرفاصلہ رکھے،بدن کاوزن ایک ساتھ دونوں پاو ںٔ پررکھے اورالله کی بارگاہ میں خضوع وخشوع کے ساتھ قیام کریں۔

رازوجوب قیام

نمازمیں قیام کواس لئے واجب قراردیاگیاہے تاکہ نمازگزاراس کے ذریعہ اس قیام کویادکرے جب اسے قبرسے بلندکیاجائے گااورپروردگارکے سامنے حاضرکیاجائے گا، پس نمازگزار قیام نمازکے ذریعہ روزقیامت قبروں سے بلندہوکربارگاہ خداوندی میں قیام کرنے کویادکرتاہے اورقیام نمازروزقیامت کے قیام کی یادتازہ کراتی ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:( یَومَ یَقُومُ النّٰاسُ لِرَبِّ الْعٰالَمِیْن ) (١) یادکرواس دن کوکہ جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہو نگے۔

حضرت آیت الله جوادملکی تبریزی “اسرارالصلاة”میں لکھتے ہیں :نمازکی حالت میں قیام کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ انسان با رگا ہ باری تعا لیٰ میں کھڑے ہو کر اس کی بند گی کا حق اداکر ے اور الله کی نعمت و برکتوں بہرہ مند ہو اور اپنے دل میں یہ خیال پیداکرے کہ کل مجھے قیامت میں بھی اس کی بارگاہ میں قیام کرنا ہے ،قیام میں قیام کواسی لئے واجب قرادیاگیاہے تاکہ نمازگزاراس قیام کے ذریعہ روزقیامت کے قیام کویادکرے ۔(۲)

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١١١

. ۲)اسرارالصلاة /ص ٢٠۴

۱۸۸

تفسیر“کشف الاسرار” میں لکھاہے:نمازمیں کی حالت میں نماز گزارکی چار شکل وہیئت پائی جاتی ہیں قیام، رکوع،سجود قعود، اس کی حکمت و فلسفہ یہ ہے کہ مخلوقات عالم کی بھی چار صورت ہیں بعض موجودات ایسے ہیں جو ہمیشہ سیدھے کھڑا رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں (جوالله کی حمدوثنا کرتے رہتے ہیں )اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی مانندخمیدہ حالت میں رہتے ہیں جیسے چوپائے، اونٹ، گائے ،بھیڑ ،بکریاں وغیرہ اوربعض ایسے بھی جو ہمیشہ زمیں پرسجدہ کے مانندپڑے رہتے ہیں وہ حشرات اورکیڑے وغیرہ ہیں اور بعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پر بیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش و نبا تات وگل وگیا ہ وغیرہ ہیں اوریہ سب الله کی تسبیح کرتے ہیں

خدا وند عالم اپنی عبادت کے لئے انسان پرنمازمیں موجودات جہان کی ان چاروں صورتوں کوواجب قراردیاہے تاکہ انسان قیام ورکوع وسجود وقعو د کے ذریعہ ان تمام موجودات کی تسبیح کاثواب حاصل کرسکے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے خدانے انسان کوعبادت میں بھی ان سے افضل قراردینے کے لئے نمازمیں قیام وقعود،رکوع وسجودکوواجب قراردیاہے ۔(۱)

نمازمیں قیام ورکوع وسجوداورقعودکے واجب قراردئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے : دنیاکی ہرشئے الله کی عبادت وبندگی کرتی ہے ،کچھ موجودات ایسے ہیں جوزندگی بھرسیدھے کھڑے رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی طرح خمیدہ حالت میں رہتے ہیں وہ چوپائے (اونٹ گائے،بھیڑ،بکری ،گھوڑے)وغیرہ ہیں اورکچھ ایسے ہیں جومنہ کے بل زمین پر پڑے رہتے ہیں وہ حشرات وغیرہ ہیں اورکچھ ایسے بھی ہیں جوزمین پربیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش ونباتات وغیرہ ہیں اوریہ سب موجودات الله کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ،اس کی حمدونثاکرتے رہتے ہیں لہٰذاخدوندعالم نے اشرف المخلوقات کواپنی عبادت کے لئے ان سب موجودات کے طرزعبادت کویکجاجمع کردیاہے جس کے مجموعہ کونمازکہاجاتاہے تاکہ انسان موجودات عالم کی تسبیح کوانجام دے سکے ۔

____________________

.۱) تفسیرکشف الاسرار/ج ٢/ص ٣٧۶ ۔ ٣٧٧

۱۸۹

رازقرائت

نمازمیت کے علاوہ تمام دورکعتی (واجب اورمستحبی )نمازوں کی دونوں رکعتوں میں اوردورکعتی نمازوں کے علاوہ تین رکعتی (نمازمغرب)اورچاررکعتی (ظہروعصر وعشاء)نمازوں کی پہلی دونوں رکعتوں میں تکبیرة الاحرام کے فوراًبعدسورہ حٔمداورکسی ایک اورسورے کی قرائت کرناواجب ہے۔حمدکے بجائے کسی دوسرے کی قرائت کرناصحیح نہیں ہے اورکوئی شخص حمدکے بجائے کسی دوسرے سورہ کی قرئت کرے تواسکی نمازباطل ہے ۔ ابن ابی جمہوراحسائی نے اپنی کتاب“ عوالی اللئالی ”میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)سے یہ روایت کی ہے:قال صلی الله علیه وآله وسلم:لاصلاة الّابفاتحة الکتاب .

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :سورہ حٔمدکے بغیرنمازی ہی نہیں ہوتی ہے ۔(۱)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:لاصلاة لمن لم یقرا بٔامّ الکتاب فصائداً ۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جو شخص نماز میں سور ئہ حمداوراس کے علاوہ دوسرے کی قرا ئت نہیں کرتا ہے اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔(۲)

سورہ حٔمدکے بعدکسی ایک مکمل سورہ کی قرائت کرناواجب ہے ،اگرکوئی شخص دونوں سوروں سے ایک سورے کے ترک کرنے پرمجبورہوجائے میں تواس صورت میں حمدکاترک کرناجائزنہیں ہے، ایسانہیں ہوسکتاہے کہ حمدکوچھوڑکردوسرے سورہ کی قرائت پراکتفاء کرے خواہ واجبی نمازہویا مستحبی جیساکہ حدیث میں آیاہے:

عن محمدبن مسلم عن ابی عبدجعفرعلیه السلام قال : سئلته عن الذی لایقرء بفاتحة الکتاب فی صلاته ؟ قال: لاصلاة الّاا نٔ یقرء بهافی جهرا ؤاخفات، قلت:ایمااحبّ الیک اذاکان خائفاا ؤمستعجلایقرء سورة ا ؤفاتحة ؟فقال:فاتحة الکتاب .

محمدابن مسلم سے مروی ہے ،میں نے امام باقر سے پوچھا:اس شخص کی نمازکے بارے میں کیاحکم ہے جواپنی نمازمیں سورہ حٔمدکی قرائت نہیں کرتاہے ؟امام(علیه السلام) نے جواب دیا:سورہ حٔمدکے بغیرنماز(قبول)نہیں ہوتی ہے ،چاہے جہری نمازپڑھ رہاہویااخفاتی ،میں نے کہا:اگروہ شخص حالت خوف میں ہے یاکسی ضروری کام کے لئے جلدی ہے(اوراس کے پاس صرف اتناوقت ہے کہ وہ فقط ایک سورہ کی قرائت کرسکتاہے) آپ کس چیزکودوست رکھتے ہیں وہ اس صورت میں سورہ کوپڑھے یاحمدکو؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:سورۂ حمدکوپڑھے۔

____________________

۱). عوالی اللئالی/ج ١/ص ١٩۶--.۲) مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٨

. ۳)الکافی/ج ٣/ص ٣١٧

۱۹۰

قرائت کے واجب قراردئے جانے کی وجہ

بعض لوگ ایسے ہیں جواصلاً قرآن کی تلاوت نہیں کرتے ہیں یاکسی روزکرتے ہیں اورکسی روزنہیں کرتے ہیں ،نمازمیں اس لئے تلاوت کوواجب قراردیاگیاہے تاکہ قرآ ن نہ پڑھنے والے لوگ کم ازکم روزانہ پانچ مرتبہ نمازکے واسطہ سے قرآن کی تلاوت کرسکے اوراس کے ثواب سے محروم نہ رہے ۔

فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے منقول نمازمیں قرائت کے واجب قرادئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:

امرالناس بالقرائة فی الصلاة لنلایکون القرآن مهجوراًمضیعاً، ولیکن محفوظا مدرسا فلایضمحل ولایجهل.

نمازمیں قرائت قرآن کریم کواس لئے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ قرآن مجیدلوگوں کے درمیان مہجورومتروک واقع نہ ہونے پائے بلکہ (گروآلود اورضایع ہونے سے )محفوظ رہے بلکہ حفظ ومطالعہ کے دامن میں قراررہے اورتاکہ لوگ اسے نہ بھول پائیں۔(۱)

قال صلی الله علیه وآله:قراء ة القرآن فی الصلاة افضلٌ من قراء ة القرآن فی غیرالصلاة

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: نماز میں قرآن کی قرائت کرنا غیرنماز میں تلاوت کرنے سے افضل ہے۔(۲)

حضرت امام محمدباقر فرماتے ہیں:جوشخص کھڑے ہوکرنمازپڑھتاہے اوروہ نمازمیں قیام کی حالت میں قرآن کریم کی قرائت کرتاہے تو جت نے بھی حرفوں کی قرائت کرتاہے ،ہرحرف کے بدلہ اس کے نامہ اعمال میں سونیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر بیٹھ کر نمازپڑھتاہے تو ہر حرف پر پچاس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،لیکن اگرکوئی شخص غیرنمازکی حالت میں قرآن کی قرائت کرتاہے توخداوندعالم اس کے نامہ أعمال میں ہرحرف کے عوض دس نیکیاں درج کرتاہے ۔(۳)

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١٠

۲). تحف العقول/ص ۴٣

.۳) ثواب الاعمال/ص ١٠١

۱۹۱

رازاستعاذہ

سورہ حٔمدکی قرائت شروع کرنے سے پہلے مستحب ہے کہ الله تبارک وتعالی سے شیطان رجیم کے بارے میں پناہ مانگی جائے کیونکہ نمازمیں واجب ہے کہ انسان اپنی نیت کوآخرصحیح وسالم رکھے،اورنمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھے،خداکے علاوہ کسی دوسری چیزکواپنے ذہن میں نہ لائے اورانسان کاعمل جت نازیادہ مہم ہوتاہے شیطان بھی اپنی پوری قدرت کے ساتھ اس پرحملہ کرنے کوشش کرتاہے اورشیطان نمازوعبادت خداوندی کوبہت زیادہ دشمن رکھتاہے کیونکہ وہ یہ جانتاہے ہے کہ نمازوعبادت انسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے لہٰذابندہ مٔومن جب نمازکے لئے قیام ہے توشیطان اس کے دل میں وسوسہ پیداکرنا چاہتا ہے اوراسے نمازمیں اخلاص وحضورقلب رکھنے سے منحرف کرنے اور ریاکاری کی چنگاری پیداکرنے کی کوشش کرتاہے ،اورہروقت بندوں کوراہ عبادت سے چھوڑدےنے اور گناہ ومنکرات میں ملوث ہونے کی دعوت دینے کے لئے حاضرہوتاہے ۔

وسوسہ شیطانی سے بچنے اورنمازمیں اخلاص وحضورقلب پیداکرنے لئے مستحب ہے کہ نمازگزارجب نمازکے لئے قیام کرے توسورہ حٔمدسے پہلے الله سے شیطان رجیم کی پناہ مانگے اور“أعوذباللهمن الشیطان الرجیم ”کہے ۔

نمازکے شروع میں استعاذہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے اللھسے شیطان رجیم کی پناہ مانگنامسحتب ہے لہٰذانمازمیں قرآن کی قرائت کرنے سے شیطان رجیم سے پناہ مانگنامستحب ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:

( فَاِذَاقَرَا تِٔ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْبِاللهِ مِنَ الشَّیْطَاْنِ الرَّجِیْمِ،اِنّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَلیٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )

جب آپ قرآن پڑھیں توشیطان رجیم کے مقابلہ کے لئے الله سے پناہ طلب کریں،شیطان ہرگزان لوگوں پرغلبہ نہیں پاسکتاہے جوصاحبان ایمان ہیں اورجواللھپرتوکل واعتمادرکھتے ہیں۔(۱)

____________________

۱). سورہ نٔحل/آیت ٩٨ ۔ ٩٩

۱۹۲

ہرسورہ کے شروع میں“بسم الله”ہونے کی وجہ

”بسم ا لله” سورہ کاجزء ہے اس لئے سورہ کی ابتداء اسی کے ذریعہ ہونی چاہئے ،کیونکہ ہرکام کی ابتداء “ بسم ا لله الرحمن الرحیم ” کے ذریعہ ہونی چاہئے ،اگرکسی نیک کی کام ابتدا الله تبارک تعالیٰ کے نام سے ہونی چاہئے ،اگرکسی کام کی ابتدا الله کے نام سے نہ کی جائے تواس میں شیطان کے دخل ہونے کاامکان پایاجاتاہے اوراس کام کے نامکمل ہونے کابھی امکان رہتاہے اس لئے ہرنیک کی ابتداء الله کے نام کی جائے اسی لئے ہرسورہ کی ابتداء “بسم ا لله ” کے ذریعہ ہونی چاہئے اسبارے میں حدیث میں آیاہے: عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال:کلّ امرٍذی بالٍ لم یذکرفیہ باسم الله فَہوابتر. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہروہ کام جو“بسم الله ”سے شروع نہیں ہوتاہے وہ پایہ تٔکمیل کونہیں پہنچتاہے۔(۱)

راز قرائت حمد

نمازمیت کے علاوہ تمام دورکعتی (واجب اورمستحبی )نمازوں کی دونوں رکعتوں میں اوردورکعتی نمازوں کے علاوہ تین رکعتی (نمازمغرب)اورچاررکعتی (ظہروعصر وعشاء)نمازوں کی پہلی دونوں رکعتوں میں تکبیرة الاحرام کے فوراًبعدسورہ حٔمدکی قرائت کرناواجب ہے اورحمدکے بجائے کسی دوسرے کی قرائت کرناصحیح نہیں ہے اورکوئی شخص حمدکے بجائے کسی دوسرے سورہ کی قرئت کرے تواس کی نمازباطل ہے ۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:لاصلاة لمن لم یقرا بٔامّ الکتاب فصاعداً ۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جو شخص نماز میں سور ئہ حمداوراس کے علاوہ دوسرے کی قرا ئت نہیں کرتا ہے اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔(۲) سورہ حٔمدکے ذریعہ قرائت کے آغازکئے جانے ک وجہ روایتوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے:

فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے منقول نمازمیں قرائت کے واجب قرادئے جانے کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:

انمابدء بالحمددون سائر السورلانّه لیس شی مٔن القرآن والکلام جمع فیه من جوامع الخیروالحکمة ماجمع فی سورة الحمد.

قران کریم میں کوئی سورہ یاکوئی کلام ایسانہیں ہے کہ جس میں سورہ حٔمدکے برابرخیروحکمت موجودہوں اورقول“الحمدلله”ادائے شکرالٰہی ہے کہ جسے خداوندعالم نے واجب قراردیاہے ان نعمتوں کے بدلہ میں جواسنے اپنے بندوں پرنازل کی ہیں۔(۳)

____________________

۱). المیزان /ج ١/ص ١۴ ۔بحارالانوار/ج ٩٢ /ص ٢۴٢

۲). مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٨

۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١٠

۱۹۳

حدیث معراج میں آیاہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورآپ کونمازپڑھنے کاحکم دیاگیاتوآپ نمازکے لئے کھڑے ہوئے اورتکبیرکہہ نمازشروع کی تووحی پروردگارنازل ہوئی :میرانام لو!تونبی راکرم (صلی الله علیه و آله)نے “بسم الله ”اوراس طرح “بسم الله”کوہرسورہ کے شروع میں رکھاگیااوراسے سورہ کاجزء قراردیاگیااس کے بعدوحی نازل ہوئی:اے رسول !میری حمدکرو،آنحضرت نے سورہ حٔمدکی قرائت کی ۔(۱)

روایت میں آیاہے ،امام صادق سے کسی نے اس آیہ مٔبارکہ( وَلَقَدْآتَیْنَاکَ سَبْعً مِنَ الْمَثَانِی وَالْقُرآنِ الْعَظِیْمِ ) (۲) کے بارے میں پوچھاتو امام (علیه السلام)نے فرمایا:سورہ حٔمدکو سبع مثانی کہاجاتاہے کیونکہ سورہ حٔمدایساسورہ ہے جس میں سات آیتیں ہیں اوران میں سے ایک( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) بھی ہے اسی لئے سبع کہاجاتاہے اورمثانی اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ سورہ نمازکی پہلی دورکعتوں میں پڑھا جاتا ہے ۔

پہلی رکعت میں سورہ قٔدراوردوسری میں توحیدکے مستحب ہونے کی وجہ فقہاء کے درمیان مشہوریہ ہے کہ واجب نمازوں کی پہلی اوردوسری رکعت میں سورہ حمدکے بعدایک مکمل سورہ کی قرائت کرناواجب ہے لیکن مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حٔمدبعدسورہ قدراوردوسری رکعت میں سورہ تٔوحیدکی قرائت مستحب ہے ہمارے تمام آئمہ اطہار کی یہی سیرت رہی ہے وہ اپنی نمازوں کی پہلی رکعت میں سورہ حمدکے بعدسورہ قدراوردوسری رکعت میں سورہ تٔوحیدکی قرائت کرتے تھے ۔ رویات میں آیاہے کہ امام علی ابن موسی الرّضا واجب نماز وں کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورئہ قدراِنَّا اَنْزَ لْنَاهُ اور دوسری رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سورئہ توحیدقُلْ هُوَاللهُ اَحَدْ کی قرائت کرتے تھے ۔(۳)

ایک اورروایت میں آیاہے:ایک شیعہ اثنا عشری شخص نے حضرت مہدی (عجل الله تعالیٰ فرجہ شریف) کی خدمت میں خط تحریرکیااور امام (علیه السلام) سے پوچھا:اے میرے مولا!آپ پرمیری جان قربان ہو!میں آپ سے ایک چیزمعلوم کرناچاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ نماز کی پہلی اوردوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعدکس سورہ کی قرائت کرنازیادہ فضیلت رکھتاہے ؟امام (علیه السلام)نے جواب میں تحریرفرمایا:

___________________

۱). الکافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۲) مستدرک الوسائل /ج ۴/ص ١۵٧

۳). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧۶٠

۱۹۴

پہلی رکعت میں سورئہ( اِنَّااَنْرَ لْنَاهُ فی لَیْلَةاِلْقَدْر ) اور دوسری رکعت میں سورئہ( قُلْ هُوَ الله احَدْ ) اور امام (علیه السلام)نے فرمایا:تعجب ہے کہ لوگ نمازوں میں سورئہ قدر کی قرائت نہیں کرتے ہیں، کسطرح ان کی نمازیں بارگاہ ربّ العزّت میں قبول ہوتی ہیں ۔(۱)

لیکن روایت میں یہ بھی ملتاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پہلی رکعت میں حمدکے سورہ توحیداوردوسری رکعت میں سورہ قدرکی قرائت کرتے تھے اورشب معراج بھی آپ کوپروردگارنے پہلی رکعت میں حمدکے سورہ تٔوحیدپڑھنے کاحکم دیا: اے محمد!(ص)سورہ حمدکے بعداپنے پروردگارکاشناسنامہ اورنسبت کوپڑھوقُلْ ہُوَاللهُ اَحَدٌ،اَلله الصَّمَدُ،لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْ،وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًااَحَدْ

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے نماز کی پہلی رکعت میں سورئہ حمد کے بعدسورہ تٔوحید کی قرائت کی اورجب دوسری رکعت میں سورہ حٔمدپڑھاتوپروردگارکی طرف سے وحی نازل ہوئی:

اے محمد!(ص)دوسری رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد( اِنّااَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْر ) ... کی قرائت کروکیونکہ یہ سورہ روزقیامت تک تمھارااورتمھارے اہلبیت سے منسوب ہے ،یہ سورہ تمھارااورتمھارے اہلبیت کی پہچان نامہ ہے جسمیں تمھاراشجرہ موجودہے ۔(۲)

سوال یہ ہے جب سنت رسول یہ ہے کہ پہلی رکعت میں توحیداوردوسری رکعت میں قدرکی قرائت کی جائے توپھرپہلی رکعت سورہ قٔدرکی قرائت کرنازیادہ ثواب کیوں رکھتاہے؟ اس کی وجہ اوررازکیاہے؟

اس کاجواب خودحدیث معراج سے واضح ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ذات وہ ہے کہ جوالله تبارک وتعالیٰ سے اس درجہ قریب تھے کہ قاب وقوسین کی منزل تک پہنچ گئے تھے اورالله ورسول کے درمیان کوئی واسطہ نہیں تھااسی الله نے اپنے حبیب کوحکم دیا:سورہ حٔمدکے بعدتوحیدکی قرائت کرواوردوسری رکعت میں سورہ قدرپڑھوکیونکہ سورۂ توحید میراشجرہ نامہ ہے اوراس میں میری نسبت ذکر ہے اورسورہ قٔدر تمھارے اہلبیت اطہار سے ایک خاص نسبت رکھتاہے اوراس میں تمھارے اہبیت کاشجرہ نامہ ذکرہے

وہ لوگ جوالله سے قربت حاصل کرناچاہتے ہیں انھیں چاہئے کہ ان عظیم القدرذات کاسہارالے کر جوالله سے بہت زیادہ قریب ہوں اس کی بارگامیں قدم رکھیں تاکہ وہ ان کی عبادت کوان ذوات مقدسہ کے طفیل سے قبول کرلے

____________________

۱). وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ٧۶١

.۲) کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

۱۹۵

اہلبیت اطہار وہ ذوات مقدسہ ہیں جواللھسے بہت زیادہ قریب ہیں اسی لئے مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں اہلبیت سے منسوب سورہ قدرکی قرائت کی جائے اوردوسری رکعت میں خداوندعالم سے منسوب سورہ کی قرائت کی جائے لیکن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کوخدانے شب معراج پہلی رکعت میں سورہ توحید اوردوسری رکعت میں سورہ قٔدرکی قرائت کرنے حکم دیااس کی وجہ یہ ہے:

آنحضرت حبیب خداہیں اورخداورسول کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ خداوندعالم براہ راست وحی کے ذریعہ اپنے حبیب سے گفتگوکرتاہے اسلئے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کوخدانے پہلی رکعت میں اپنی ذات سے منسوب سورہ کی قرائت کاحکم دیا۔ روایت میں آیاہے :مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حٔمدکے بعد “( انّا انزلناه ) ” اوردوسری رکعت میں “( قل هوالله ) ”کی قرائت کی جائے کیونکہ سورہ قٔدرنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کے اہلبیت اطہار کاسورہ ہے لہٰذاہمیں چاہئے کہ اپنی نمازوں میں ان ذوات مقدسہ کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ قراردیں کیونکہ انھیں کے وسیلہ سے خداکی معرفت حاصل ہوتی ہے۔(۱)

سورعزائم کے قرائت نہ کرنے کی وجہ

اگرکوئی نمازی عمداًاپنی واجب نمازوں میں ان میں کسی ایک سورہ کی قرائت میں مشغول ہوجائے اورابھی سجدہ والی آیت کی قرائت نہیں کی ہے توواجب ہے کہ کسی دوسرے سورہ کی طرف منتقل ہوجائے اوراگرسجدہ ؤاجب والی آیت قرائت کرچکاہے تونمازباطل ہے کیونکہ اس آیت کی قرائت کرنے سے سجدہ کرناواجب ہے اوراس سجدہ کے کرنے سے نمازمیں ایک سجدہ کی زیادتی ہوجائے گی جوکہ نمازکے باطل ہوجانے کاسبب ہے لہٰذااس صورت میں واجب ہے کہ بیٹھ جائے اورسجدہ کرے اس کے بعدکھڑے ہوکردوبارہ نمازپڑھے ۔ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:واجب نمازوں میں قرآن کریم کے چار عزائم سوروں میں سے کسی ایک بھی سورہ کی قرائت نہ کرواوروہ چارسورے یہ ہیں سورۂ سجدہ لٔقمان ، حم سجدہ،نجم،علق،اگرکوئی شخص ان چارسورں میں سے کسی ایک سورہ کی قرائت کرے تواس پرواجب ہے کہ سجدہ کرے اوریہ دعاپڑھے:”الٰهی آمنابماکفرواوعرفناماانکروا ، واجبناک الیٰ مادعوا ، الٰهی فالعفو العفو “ اس کے بعدسجدہ سے سربلندکرے اورتکبیرکہے (اوردوبارہ نمازپڑھے)۔(۲) زرارہ نے امام باقریاامام صادق سے روایت کی ہے ،امام (علیه السلام)فرماتے ہیں:اپنی واجب نمازوں میں سجدہ والے سوروں کوقرائت نہ کروکیونکہ ان پڑھنے سے نمازمیں ایک سجدہ زیادہ ہوجائے گااور زیادتی کی وجہ سے نمازباطل ہوجائے گی ۔(۳)

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣١۵

.۲) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٠۶

۳). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٩۶

۱۹۶

رازجہراوخفات

مردوں پرواجب ہے کہ صبح اورمغرب وعشا کی نمازمیں حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھیں لیکن عوتیں بلنداورآہستہ آوازمیں پڑھ سکتی ہیں جبکہ کوئی نامحرم ان کی آوازنہ سن رہاہو،اگرکوئی نامحرم عورت کی آوازسن رہاہے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ آہستہ پڑھے اورنمازظہروعصرکی نمازمیں مردوعورت دونوں پرواجب ہے کہ حمدوسورہ کوآہستہ پڑھیں لیکن مردوں کے لئے مستحب ہے ان نمازوں میں “( بسم الله الرحمٰن الرحیم ) ” کوبلندآوازسے کہیں۔ حداخفات یہ ہے کہ نمازی خوداپنی قرائت کوسن سکتاہواورحدجہریہ ہے کہ امام جہری نمازوں میں قرائت کوات نی بلندآوازسے پڑھے کہ مامومین تک اس کی آوازپہنچ سکے اورمعمول سے زیادہ آوازبلندنہ کرے یعنی اسے چیخ نہ کہاجائے ،اگرچیخ کرپڑھے تونمازباطل ہے بلکہ معتدل طریقہ اختیارکرے یعنی آوازنہ ات نی زیادہ ہوکہ اسے چیخ کہاجائے اورنہ ات نی کم ہوکہ خودکوبھی آوازنہ آئے جیساکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( لَاتَجْهَرْبِصَلَاتِکَ وَلَاتُخَافِت بِهَا )

اے رسول!اپنی نمازمیں میانہ روی اختیارکرو،نہ زیادہ بلندآوازسے اورنہ زیادہ آہستہ سے پڑھو۔(۱)

ظہروعصرکی نمازمیں قرائت حمدوسورہ کے آہستہ پڑھنے اورنمازصبح ومغربین میں بلندآوازسے پڑھنے کاحکم کیوں دیاگیاہے ،تمام نمازوں میں حمدوسورہ کوبلندیاآہستہ پڑھنے میں کیاحرج ہے ؟

فضل بن شاذان نے امام علی رضا سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام(علیه السلام) نے اس چیزکی وجہ بیان کی ہے کہ بعض نمازوں کوبلندآوازسے اوربعض کوآہستہ کیوں پڑھناچاہئے؟

امام علی رضا فرماتے ہیں:بعض نمازوں کوبلندآوازسے پڑھنے کی وجہ یہ ہے کیونکہ یہ نمازیں اندھرے اوقات میں پڑھی جاتی ہیں لہٰذاواحب ہے کہ انھیں بلندآوازسے پڑھاجائے تاکہ راستہ گزرنے والاشخص سمجھ جائے کہ یہاں نمازجماعت ہورہی ہے اگروہ نمازپڑھناچاہتاہے توپڑھ لے کیونکہ اگروہ نمازجماعت کونہیں دیکھ سکتاہے تونمازکی آوازسن کرسمجھ سکتاہے نمازجماعت ہورہی ہے (لہٰذانمازصبح ومغربین کوبلندآوزسے پڑھناواجب قراردیاگیاہے)اوروہ دونمازیں جنھیں آہستہ پڑھنے کاحکم دیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں نمازیں دن کے اجالہ میں پڑھی جاتی ہیں اوروہاں سے گزرنے والوں کونظرآتاہے کہ نمازقائم ہے لہٰذااس میں سننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اسی لئے ان دونماز(ظہرین)کوآہستہ پڑھنے کاحکم دیاگیاہے۔(۲)

____________________

.۱) سورہ أسراء /آیت ١١٠

۲). علل الشرایع/ج ١/ص ٢۶٣

۱۹۷

محمدابن حمزہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا: کیاوجہ ہے کہ نمازجمعہ اورنمازمغرب وعشاء اورنمازصبح کوبلندآوازسے پڑھاجاتاہے اور نماز ظہر و عصر کو بلندآوازسے نہیں پڑھاجاتا ہے؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:

جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے توجمعہ کادن تھااورالله کی طرف واجب کی گئی پہلی نمازظہرکاوقت تھا(جب آنحضرت نے نمازجمعہ پڑھناشروع کی)خداوندعالم نے ملائکہ کوحکم دیاکہ وہ پیغمبر اسلام کے پیچھے جماعت سے نمازپڑھیں اورپیغمبرکوحکم دیاکہ حمدوسورہ کوبلندآوازسے قرائت کریں تاکہ انھیں اس کی فضیلت معلوم ہوجائے اس کے بعدالله نے نمازعصرکوواجب قراردیااور(جوفرشتے نمازظہرمیں حاضرتھے ان کے علاوہ) کسی فرشتہ کونمازجماعت میں اضافہ نہیں کیااورپیغمبراسلام کوحکم دیاکہ نمازعصرکوبلندآوازسے نہ پڑھیں بلکہ آہستہ پڑھیں کیونکہ اس نمازمیں آنحضرت کے پیچھے کوئی (نیافرشتہ )نہیں تھا

نمازظہروعصرکے بعدالله تعالیٰ نے نمازمغرب کوواجب قراردیااورجیسے ہی مغرب کاوقت پہنچاتوآنحضرت نمازمغرب کے لئے کھڑے ہوئے توآپ کے پیچھے نمازمغرب پڑھنے کے لئے ملائکہ حاضرہوئے ،الله نے اپنے حبیب کوحکم دیاکہ اس نمازمیں حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھوتاکہ وہ سب قرائت کوسن سکیں اوراسی طرح جب نمازعشاء کے کھڑے ہوئے توملائکہ نمازمیں حاضرہوئے توخدانے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کوحکم دیاکہ اس نمازمیں بھی حمدوسورہ کوبلندآوازسے پڑھو،اس کے بعدجب طلوع فجرکاوقت پہنچاتوالله نے نمازصبح کوواجب قراردیااوراپنے حبیب کوحکم دیاکہ اس نمازکوبھی بلندآوازسے پڑھوتاکہ جس ملائکہ پراس نمازکی فضلیت واضح کی گئی اسی طرح لوگوں کوبھی اس کی فضیلت معلوم ہوجائے۔(۱) یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئی اورانھوں نے آنحضرت سے سات سوال کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھاکہ تین نمازوں کوبلندآوازسے پڑھنے کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آنحضرت نے فرمایا:

اس کی وجہ یہ ہے انسان جت نی بلندآوازسے قرائت کرے گااورجس مقدارمیں اس کی آوازبلندہوگی اسی مقدارمیں جہنم کی آگ سے دوررہے گااورآسانی کے ساتھ پل صراط سے گزرجائے گااوروہ خوش وخرم رہے گایہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔(۲)

____________________

۱). علل الشرایع/ج ٢/ص ٣٢٢

۲). خصال(شیخ صدوق)/ص ٣۵۵

۱۹۸

روایت میں ایاہے کہ حضرت امام علی بن محمد سے قاضی یحییٰ ابن اکثم نے چندسوال کئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ نمازصبح میں قرائت کے بلندآوازسے پڑھنے کی کیاوجہ ہے ؟

امام (علیه السلام) نے فرمایا:نمازصبح اگرچہ دن کی نمازوں میں شمارہوتی ہے لیکن اس کی قرائت کورات کی نمازوں (مغرب وعشا)کی طرح بلندوآوازسے پڑھناجاتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اس نمازکی قرائت کوبلندآوازسے پڑھتے تھے اوراس لئے بلندآوازسے پڑھتے تھے کیونکہ یہ نمازشب سے قریب ہے۔(۱)

حمد کے بعدآمین کہناکیوں حرام ہے

سورہ حمدکی قرائت کے بعدآمین کہناجائزنہیں ہے بلکہ “( الحمدلله رب العالمین ) ”کہنامستحب ہے کیونکہ سنت رسول یہی ہے کہ قرائت حمدکے بعد “( الحمدلله رب العالمین ) ” کہاجائے۔حدیث معراج میں آیاہے :جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے اورخداوندعالم نے آپ کونمازپڑھنے کاحکم دیااوروحی نازل کی:

اے محمد!( بسم الله الرحمن الرحیم ) کہواورسورہ حٔمدپڑھو ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ایسا ہی کیااور“ولاالضالین ”کہنے کے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہا(آمین نہیں کہا لہٰذاسنت رسول یہ ہے کہ سورہ حمدکے بعد“( الحمدلله رب العالمین ) ”کہاجائے )۔(۲)

جمیل ابن دراج سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:جب تم جماعت سے نمازپڑھو اورامام جماعت سورہ حٔمدکی قرائت سے فارغ ہوجائے توتم“( الحمدلله رب العالمین ) ” کہواورآمین ہرگزنہ کہو۔(۳) معاویہ ابن وہب سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :میں نے امام صادقسے کہا:میں امام جماعت کے “( غیرالمغضوب علیهم ولاالضالین ) ”کہنے کے بعدآمین کہتاہوں توامام (علیه السلام)نے فرمایا:وہ لوگ یہودی اورمسیحی ہیں جوامام جماعت کے “( غیرالمغضوب علیهم ولاالضالین ) ” کے کہنے بعدآمین کہتے ہیں۔اس کے بعد امام(علیه السلام) نے کوئی جملہ نہیں کہااورامام(علیه السلام) کااس سائل کے سوال کاجواب دینے سے منہ پھیرلینااس بات کی دلیل کے ہے کہ امام(علیه السلام) قرائت کے بعد اس جملہ کہنے کوپسندنہیں کرتے تھے ۔(۴)

____________________

۱). علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٢٣

.۲) کافی/ج ٣/ص ۴٨۵

.۳) الکافی/ج ٣/ص ٣١٣

۴). تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٧۵

۱۹۹

سورہ حمدکی مختصرتفسیر

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

کچھ لوگ امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں موجودتھے کاایک شخص نے امام (علیه السلام)سے عرض کیا:اے میرے مولاآقاآپ پرہماری جان قربان ہو،ہمیں( بِسْمِ الله الرَّحمٰنِ الرّحِیْمِ ) کے معنی سے آگاہ کریں، امام (علیه السلام)نے فرمایا:سچ یہ ہے کہ جب تم لفظ “الله” کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہوتوتم خداکے افضل ترین ناموں میں سے ایک نام کا ذکرکرتے ہو ،یہ ایسانام ہے جس کے ذریعہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو اس نام سے یاد نہیں کیا جاسکتا ہے اور خداکے علاوہ کسی بھی مخلوق کواس نام سے نہیں پکارا جاسکتاہے ،دوسر ے شخص نے پوچھا: “الله”کی تفسیر کیا ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا: ”الله” وہ ذات ہے کہ دنیاکی ہر مخلوق ہرطرح کے رنج وغم ، مشکلات ،حاجتمندی اورنیاز مندی کے وقت اسی سے لولگا تی ہے،اور تم بھی اپنے ہر چھوٹے بڑے کام کو شروع کرتے وقت “بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے ہوپس تم درحقیقت یہ کہتے ہو: ہم اپنے اس کام میں اس خدا سے مدد طلب کرتے ہیں جس کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرناجائز نہیں ہے اور اس خدا سے جو رحمن ہے یعنی رزق وروزی کو وسعت کے ساتھ ہم پر نازل کرتا ہے اور وہ خدا جو رحیم ہے اوردونوں جہاں میں یعنی دنیاوآخرت میں ہم پررحم کرتاہے ۔(۱)

الحمدلله رب العالمین

ایک شخص امیرالمومنین علی بن ابی طلب +کی خدمت میں ایااورعرض کیا : یاامیرالمومنین !آپ میرے لئے “ اَلْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن”کی تفسیر بیان کیجئے ،امام علینے فرمایا : “الحمدلِلّہ”کی تفسیریہ ہے کہ خداوندعالم نے اپنی بعض نعمتوں کو اجمالی طور سے اپنے بندوں کے سامنے ان کی معرفی کی ہے اورواضح طورسے ان کی معرفی نہیں کی ہے کیونکہ بندے تمام نعمتوں کوکامل طورسے شناخت کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں اس لئے کہ خداکی عطاکی ہوئی نعمتیں ات نی زیادہ ہیں کہ انسان انھیں شمار کرنے اوران کی معرفت حاصل کرنے سے قاصرہے لہٰذا “الحمدلله”کے معنی یہ ہیں کہ تمام حمدوثناء خداسے مخصوص ہے ان نعمتو ں کی وجہ سے جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں اورامام (علیه السلام) نے فرمایا:“ربّ العالمین”یعنی خداوند عالم دونوں جہاں( دنیاوآخرت )کاپیداکرنے والاہے ،اوردونوں جہاں کا مالک وصاحب اختیار ہے یعنی حیوانات وجمادات ونباتات ،آگ،ہوا،پانی ،زمین ،آسمان ،دریا کا مالک ہے۔(۲)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٢٩ /ص ٢٣٢

۲). بحارالانوار/ ٢٩ /ص ٢۴۵

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

اگرانسان کے جسم میں جان ہے اوروہ کاروکوشش کرستاہے ،روزی کی تلاش میں نکلے تووہ اپنے روزانہ کے اخراجات کے لئے پیسہ حاصل کرسکتاہے اوروہ کسب معاش کی راہ کوچھوڑ کردعاکے لئے مصلے پربیٹھ جاتاہے کیاایسے شخص کوخداوندعالم اسے گھربیٹھے روزی عطاکرسکتاہے ،ہرگزنہیں،یادرکھواگرکسی چیزکی کنجی ہمارے ہاتھوں میں ہوتوایسے میں دعا کاکوئی اثرنہیں ہوتاہے ،مثال کے طورپراگرکسی شخص کے پاس زمین وجائدادہے اورصاحب زمین اپنے گھرمیں بیٹھ جائے، زمین میں نہ ہل چلائے اورنہ اس میں کوئی دانہ ڈالے ،نہ زمین کی آبیاری کرے اورہرروزدعاکرتے رہے اورکھیتی کے پکنے کاوقت پہنچے تواسے کاٹنے کے لئے جنگل میں جائے توکیااسے اپنے کھیتوں میں کوئی چیزنظرآئے گی ؟ہرگزنہیں کیونکہ جب محنت وزحمت ہی نہیں توپھل کیسے نصیب ہوسکتاہے ،انسان کوفقط دعاپراکتفانہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعاکاکام یہ نہیں ہے کہ تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کرگھرمیں بیٹھ جاؤاورکھیتی کے پکنے انظارکرتے رہے بلکہ انسان کوچاہئے کہ زمین میں ہل چلائے ،دانہ ڈالے ،آبیاری کرے اس کے ساتھ ساتھ دعاکرے کہ بارالٰہا!میری کھیتی کوآفت سے محفوظ رکھنااوراس میں برکت عطاکرنا،اگرہم انبیاء وآئمہ کی زندگی پرنگاہ ڈالیں تومعلوم ہوگاکہ وہ فقط دعاپراکتفانہیں کرتے تھے بلکہ کاروکوششکرتے تھے اورجہاں کام ہاتھ سے نکل جاتاتھاوہاں دعاکرتے تھے ایوب اخی ادیم سے مروی ہے کہ ہم امام صادق کی خدمت میں موجودتھے کہ علاء ابن کامل آئے اورامام (علیه السلام) کے برابرمیں بیٹھ گئے اورامام (علیه السلام) سے عرض کیا:آپ میرے دعاکردیجئے کہ خداوندعالم مجھ پرروزی کوآسان کردے ،امام (علیه السلام) نے فرمایا:میں تمھارے لئے دعانہیں کروں گابلکہ تم جاؤاورجس طرح خداوندمتعال نے تمھیں روزی حاصل کرنے حکم دیاہے تحصیل مال ومتاع کرو۔(۱)

ایک اورروایت میں آیاہے کہ ایک فقیراورمقروض شخص حضرت امام صادق کی خدمت میں آیااورعرض کیا:اے فرزندرسول خدا!آپ میرے حق میں دعاکیجئے کہ خداوندعالم مجھے وسعت عنایت کرے اورمجھے رزق وروزی عطاکرے ،کیونکہ بہت ہی زیادہ فقیروت نگدست ہوں،امام (علیه السلام)نے فرمایا:میں تیرے لئے ایسی کوئی دعاہرگزنہیں کروں گاکیونکہ خداوندعالم نے روزی حاصل کرنے کے وسیلے پیداکئے ہیں اورہمیں ان وسیلوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے کے ) لئے حکم دیاہے مگرتویہ چاہتاہے کہ اپنے گھرمیں بیٹھارہے اوردعاکے ذریعہ روٹی کھاتارہے۔(۲)

____________________

۱). کافی /ج ۵/ص ٧٨

.۲)کلیدسعادت/ص ۶۵

۳۴۱

کن چیزوں کے بارے میں دعاکی جائے

انسان کوچاہئے کہ وہ الله تبارک کی بارگاہ میں عافیت ،ت ندرستی ،سلامتی ،عاقبت بخیر،باعزت طول ،علم ومعرفت اوروسعت رزق کے لئے دعاکرے ،دعاکرے کہ الله تبارک تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے مددگاروں میں قرادے ،خداوندعالم ہمیں شیطان،منافق اورظالموں کے شرسے محفوظ رکھ ،خداوندعالم ہمیں اپنے قریب کرے ،ہمیں واجبات کے اداکرنے اورمحرمات سے بچنے کی توفیق عطاکر،ہمیں گناہ ومعصیت سے دوررکھ ،ہمیں نیک اورصالح اولادعطاکر،ہمیں امام مہدی عجل اللھفرجہ الشریف کے انصارواعوان میں قرار دے ،امام زمانہ سلامت رکھے اوربہت جلدان کاظہورکرے،ہمیں انبیاء وآئمہ معصومین اور اولیائے کرام کی سیرت طیبہ پرعمل کرنے توفیق عطاکر،ہمیں ان کی سیرت کوزندہ و قائم رکھنے کی توفیق دے ،علمائے دین کاسایہ ہمارے سروں پرقائم رکھ ،کفار و منافیقین اورظالمین کونیست ونابودکر مومنین ومومنات اورمسلمین ومسلمات زندہ ہیں یا اس دنیاسے کوچ کرگئے ان کے گناہوں گومعاف فرما،وہ مسلمان لوگ جوظالموں کے قیدوں میں نذربندہیں ان سب آزادی عطاکر،جومقروض ہیں ان کے قوضوں کواداکر،بیماران اسلام کوصحت وت ندرستی عطاکر،حاجی اورزائرین خانہ خداورعتبات عالیات کوصحیح و سالم اپنے وطن واپس کر،گمشدہ لوگوں کوان کے خاندان میں لوٹادے ،مسلمین کے درمیان اتحادعطاکر، خداوندعالم ہمیں قرآن اوراہلبیت اطہار کے سایہ میں روز محشربہشت میں واردکرےاس بارے میں ہم عنقریب قرآن کریم کی دعاؤں کوذکرکریں گے اورکسنمازکے بعدکونسی دعاپڑھی جائے ۔

کن لوگوں کی دعاقبول نہیں ہوتی ہے

کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی دعائیں بارگاہ رب العزت میں قبول نہیں ہیں اوریہ لوگ ہیں: جولوگ الله کی معرفت کے بغیراس سے کوئی حاجت طلب کرتے ہیں،وہ لوگ جوگناہوں میں آلودہ رہتے ہیں اوراپنے گناہوں کی توبہ بھی نہیں کرتے ہیں،وہ لوگ جوحرام اورناپاک غذائیں کھاتے ہیں،وہ لوگ جودوسروں پرظلم کرتے ہیں،وہ لوگ جواپنی دعاؤں میں ریاکاری کرتے ہیں،وہ لوگ جومعصومین کووسیلہ قرارنہیں دیتے ہیں،وہ لوگ جودعاپرکوئی اعتقادنہیں رکھتے ہیں اورفقط دعاکوآزمانے کے لئے دعاکرتے ہیںان تمام مواردکے بارے میں دعاکے آداب وشرائط میں احادیث نقل کرچکے ہیں لہٰذادوبارہ تکرارکی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کے علاوہ اوربھی لوگ ہیں کہ جن کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔

۳۴۲

امام صادق فرماتے ہیں :چار لوگ ایسے ہیں کہ جن کی کوئی دعااورنفرین قبول نہیں ہوتی ہے اوروہ لوگ یہ ہیں:

١۔ وہ شخص جواپنے گھرمیں ہاتھ پرہاتھ رکھے ہوئے آرام سے بیٹھاہواہے اوررزق وروزی کی تلاش میں کھرباہرقدم نہیں نکالتاہے اوربارگاہ خداوندی میں عرض کرتاہے :بارالٰہا!تومجھے رزق وروزی عطاکر (یادرکھو!)خداوندعالم ایسے شخص کی دعاہرگزقبول نہیں کرتاہے بلکہ اس دعاکرنے والے شخص سے کہتاہے:کیامیں نے تجھے کسب معاش کی تلاش میں گھرسے باہرنکلنے کاحکم نہیں دیاہے؟

٢۔ وہ شخص کہ جس کی زوجہ اسے اذیت پہنچاتی ہے اوروہ مرداس اذیت کے بدلہ میں اپنی بیوی کے لئے بددعاکرتاہے توخداوندعالم اس مردسے کہتاہے: کیاہم اس کے امرکوتیرے حوالہ نہیں کیاہے؟(یعنی کیاہم نے طلاق کو مردکے اختیارمیں قرارنہیں دیاہے ،اب تیری مرضی چاہے اسے طلاق دے یااپنے پاس رکھے مگروہ اسے طلاق نہیں دیتاہے اور بیوی کے ظلم واذیت پرتحمل کرتاہے اوراس کے لئے بددعاکرتاہے ،خداایسے شخص کی دعاکوقبول نہیں کرتاہے(.

٣۔ وہ شخص کہ جسے خداوندعالم نے مال ودولت عطاکی ہے مگروہ اپنے مال کوبیہودہ خرچ کرتاہے یہاں تک کہ اس کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رہتاہے اب جبکہ اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہتاہے توخداسے کہتاہے:بارالٰہا!تومجھے رزق وروزی عطاکر،خداوندعالم ایسے شخص سے کہتاہے :کیاہم نے تجھے میانہ روی اوراقتصادکاحکم نہیں دیاہے ؟اورکیاہم نے تجھے اصلاح مال کاحکم نہیں دیاہے ،اس کے بعدامام(علیه السلام) نے اس آیہ مٔبارکہ شاہدقراردیا:

( وَالَّذِیْنَ اِذَااَنْفَقُوْالَمْ یُسْرِفُوْاوَلَمْ یَقْتَرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا )

ترجمہ:اورجب یہ لوگ خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اورنہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوروسط درجہ کاراستہ اختیارکرتے ہیں یعنی میانہ روی اختیاری کرتے ہیں.(۱)

۴ ۔ وہ شخص کہ جس نے اپنے مال کوکسی دوسرے کو قرض دیاہواوراس پراس نے مقروض سے نہ کوئی رسیدحاصل نہ کی ہواورنہ کوئی گواہ رکھاہو،جب واپس لینے کاوقت آئے تووہ مدیون پیسہ دینے سے انکارکردے (اورکہے کہ میں نے آپ سے کوئی پیسہ قرض نہیں لیاتھا)اوراس وجہ سے ان دونوں میں جھگڑاہوجائے اس کے بعدقرض دینے والاشخص بارگاہ خداوندی میں اس کے لئے بددعاکرے توخداایسے شخص کی دعاکوقبول نہیں کرتاہے بلکہ اس سے کہتاہے:کیاہم نے تجھے حکم نہیں دیاہے کہ قرض دیتے وقت کسی کوگواہ رکھو(۲)

____________________

۱)سورہ فٔرقان/آیت ۶٧

. ٢)کافی /ج ٢/ص ۵١١

۳۴۳

١۔ نمازترک وضایع کرنے یاہلکاسمجھنے والوں کی دعا

ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں کہ جولوگ نمازضایع کرتے ہیں اوراسے اول وقت ادانہیں کرتے ہیں بلکہ تاخیرسے پڑھتے ہیں یااول وقت پڑھتے ہیں مگرنمازکوایک آسان کام سمجھتے ہیں ،خداوندعالم ایسے لوگوں کی کوئی نمازقبول نہیں کرتاہے ،اس چیزکوہم “کن لوگوں کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے”کے عنوان میں ذکرکرچکے ہیں اورایسے لوگوں کی کوئی بھی قبول نہیں ہوتی ہے ،اس عنوان سے متعلق

------

--------

۴ ۔ نافرمان اولادکی دعا

قرآن کریم اوراقوال معصومین سے معلوم ہوتاہے کہ والدین کااحترام کرنا اوران کی اطاعت کرنا،ان کے حقوق کواداکرنا،ان کے ساتھ حسن سلوک کرناواجب ہے اوران چیزوں کاترک کرناحرام وگناہ کبیرہ ہے اورجولوگ ان چیزوں کاخیال نہیں کرتے ہیں توخداوندعالم ان کسی بھی عمل کوقبول نہیں کرتاہے اورنہ ان کی کوئی دعاقبول کرتاہے ،جو شخص اپنے والدین کی اطاعت کرتاہے اوراس کے ماں باپ اس سے خوش رہتے ہوں توالله بھی اس سے خوش رہتاہے اوراس نمازودعاکوقبول کرتاہے اورجوشخص اپنے والدین کی نافرمانی کرتاہے اورانھیں رنجیدہ کرتاہے توخدابھی اس سے ناراض ہوجاتاہے اوراس کی نمازودعاکوقبول نہیں کرتاہے ۔

قال صلی الله علیه وآله:رضی الله مع رضی الوالدین، وسخط الله مع سخط الوالدین .(۱)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :الله کی رضاوخوشنودی ماں باپ کی رضاوخوشنودی کے ساتھ ہے اورالله کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی کے ساتھ ہے۔عن ابی عبدالله علیه قال:من نظرالیٰ ابویه نظرماقت وهماظالمان له لم یقبل الله له صلاته .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:ہروہ شخص جواپنے ماں باپ کی طرف غصہ اورغضب کی نگاہ کرے خواہ وہ دونوں اپنی اولادپرظلم کیوں نہ کررہے ہوں تو خداندعالم ایسے شخص نمازقبول نہیں کرتاہے ۔

____________________

. ١)بحارالانوار/ج ٧١ /ص ٨٠

. ٢)کافی /ج ٢/ص ٢٣٩

۳۴۴

۵ ۔ محبّ دنیاوریاکارکی دعا

جولوگ دنیاسے محبت کرتے ہیں اوراپنی عاقبت وآخرت کے بارے میں کوئی فکرنہیں کرتے ہیں اورمال ومتاع دنیاکے حصول کی خاطرظاہری طورسے نیک اورکارخیرکرتے ہیں اوراپنے متقی پرہیزگارہونے کااظہارکرتے ہیں مگران کاباطن بہت خراب ہوتاہے اورکبھی بھی دل سے خداکویادنہیں کرتے ہیں خداوندعالم ان لوگوں کی نمازودعاکوقبول نہیں کرتاہےقال رسول الله صلی الله علیه وآله:سیاتی علی امتی تختب فیه سرائرهم وتحسن فیه علانیتهم طمعاًفی الدنیالایریدون یه ماعندالله عزوجل یکون امرهم ریائاً لایخالطه خوفٌ یعمُّهم الله منه بعقاب فیدعونه دعاء الغریق فلایستجاب .(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری امت میں ایسے بھی لوگ ہوں گے جوحصول دنیاکی خاطرظاہری طورسے نیک کام کریں گے اوراپنے آپ کواچھااورنیک انسان دکھائیں گے مگران کاباطن بہت ہی خراب ہوگااورکبھی خداکویادنہیں کریں گے ،ان کے تمام کام ریاکاری کے محورپہ گھومتے ہونگے اورانھیں کسی طرح کاکوئی خوف نہیں ہوگا ،خداوندعالم ایسے لوگوں کوسخت عذاب میں مبتلاکرے گا،اس کے بعدوہ مشکلوں میں گھرے ہوئے لوگوں کی طرح دعاکریں گے مگرخداوندعالم ان کی دعاہرگزقبول نہیں کرے گا۔

۶ ۔ امربالمعروف ونہی عن المنکرترک کرنے والوں کی دعا

اگرکوئی شخص کسی انسان کوگناہ کرتے ہوئے دیکھتاہے یاکسی کوظلم کرتے ہوئے دیکھتاہے یاکسی کوچوری کرتے ہوئے دیکھتاہے ،کسی کوبے نمازی پاتاہے اورشرعی طورسے اس پرامربالمعروف ونہی عن المنکرواجب ہے مگرامربالمعروف ونہی عن المنکرنہیں کرتاہے توبارگاہ خداوندی میں اس کی دعاقبول نہیں ہوتی ہےعن محمدبن عمرعرفة قال:سمعت اباالحسن علیه السلام یقول:لَتامرُنَّ بالمعروفِ ولتنهونَ عن النکرِالّالَیسلّطنّ الله علیکم شرارکم فیدعواخیارکم فلایستجاب لهم ۔(۲)

محمدابن عمرعرفہ سے مروی ہے :میں نے امام ابوالحسن کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے : امربالمعروف ونہی عن المنکرکرو،اگرتم اس کام سے خودداری کرتے ہوتوان کی برائیاں اورخرابیاں تم پرمسلط ہوجائیں گی اس کے بعدتم جت نی بھی دعاکروگے وہ ہرگزقبول نہیں ہونگی ۔

____________________

۱)کافی /ج ٢/ص ٢٩۶

. ٢)کافی /ج ۵/ص ۵۶

۳۴۵

٧۔ شرابی کی دعا

جن گھروں میں ناچ گانایاشراب اورجوے کے آلات موجودہوں خواہ وہ انھیں استعمال کرتے ہوں یانہ ،خواہ خوداستعمال کرتے ہیں یاکسی کوکرائے وغیرہ پہ دیتے ہوں وغیرہ ،خداوندعالم ایسے لوگوں کی دعاؤں کومستجاب نہیں کرتاہے۔

قال ابوعبدالله علیه السلام:بیت الغناء لایو مٔن فیه الفجیعة ولایجاب فیه الدعوة ولایدخله الملائکة .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:جس گھرمیں ناچ گاناہوتاہے ،وہ گھرناگہانی بلاؤں و مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتاہے ،اس میں دعامستجاب نہیں ہوتی ہے اورفرشتہ بھی داخل نہیں ہوتاہے۔

قال علیه السلام :لاتدخل الملائکة بیتاًفیه خمرٌاودَف اَوطَنبورٌاَونردٌولاتسجاب دعا ۔(۲) معصوم فرماتے ہیں :جس گھرمیں شراب ہویاسٹّہ ،جوے یاناچ گانے کے وسائل موجودہوں توان گھروں میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے ہیں اوران اہل خانہ کی دعائیں مستجاب نہیں ہوتی ہے اوران گھروں سے برکت بھی چلی جاتی ہے ۔

مال حرام کھانے والوں کی دعا

دعاکرنے کرنے والے کوچاہئے کہ وہ اپنے رزق وروزی کی طرف نگاہ کرے اوردیکھے کہ جورزق اس کے پاس ہے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ مل کرکھارہاہے وہ حلال طریقہ سے حاصل کیاگیاہے یامال حرام کھارہاہے

دین اسلام میں مال حرام کھانے سے سخت منع کیاگیاہے اورپاک وپاکیزہ غذا کھانے اورعمل صالح انجام دینے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے

( یٰٓااَیُّهَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْاصَالِحاًاِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٍ ) (۳) ترجمہ:اے میرے رسولو!تم پاکیزہ غذائیں کھاؤاورنیک کام کروکہ میں تمھارے اعمال سے خوب باخبرہوں۔

( یَااَیُّهَاالنَّاسُکُلُوْا مِمَّافِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًاوَلَاثَعْثَوْاخطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّه لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ ) .(۴) اے انسانو! زمین میں جوکچھ حلال اورطیب وطاہرہے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کااتباع نہ کروکیونکہ وہ تمھاراکھلاہوادشمن ہے ۔

____________________

.۱)کافی/ج ۶/ص ۴٣٣

. ٢)وسائل الشیعہ/ج ١٢ /ص ٢٣۵

.۳)سورہ مٔومنون/آیت ١٩

)سورہ بٔقرہ/آیت ١۶٨

۳۴۶

عن النبی صلی الله علیه وآله:من احبّ ان یستجاب دعائه فلیطیب مطعمه ومکسبة ۔(۱)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص اپنی دعاقبول ہونے کی تمنا رکھتاہے تواسے چاہئے کہ پاک وپاکیزہ کھائے اورپہنے۔امام صادق فرماتے ہیں:تم میں جوشخص اپنے دل میں دعاکے قبول ہونے کی تمنارکھتاہے تواسے چاہئے کہ اپنے کسب معاش کوحلال وپاک کرے اورلوگوں کے مظالم سے باہرآئے کیونکہ جس انسان کے شکم میں حرام غذاہوتی ہے یااس کی گردن پردوسروں پرکئے ) گئے ظلم کابوجھ ہوتاہے تواسبندہ کی دعابارگاہ خداوندی تک پہنچائی جاتی ہے ۔(۲)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من اکل لقمة حرام لم تقبل صلاته اربعین لیلةً ولم تستجیب له دعوة اربعین صباحاًوکلّ لحم ینبته الحرام فالناراَولیٰ بهِ وانّ اللقمة الواحدة ت نبت اللحم ۔(۳)

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص ایک لقمہ بھی مال حرام کھاتاہے چالیس رات تک اس کی کوئی نمازقبول نہیں ہوتی ہے اورنہ چالیس صبح تک اس کی کوئی دعاقبول ہوتی ہے اورمال کھانے سے بدن میں جت نابھی گوشت بڑھتاہے وہ جہنم کاحصہ بن جاتاہے اوریادرہے ایک لقمہ سے بھی بدن میں گوشت بڑھتاہے ۔

دعاقبول نہ ہونے کی وجہ

کیاوجہ ہے کہ لوگ دعائیں کرتے ہیں مگررب العزت ان کی دعائیں کاکوئی جواب نہیں دیتاہے اورانھیں قبول نہیں کرتاہے ؟جبکہ خداوندعالم نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کو دعاقبول ہونے کاوعدہ دیاہے

( اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (۴) تم دعاکروتومیں قبول کرتاہوں۔

( اِذَاسَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌاُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاْعِِ اِذَادَعَانَ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُو مِٔنُوْابِیْ لَعَلَّهُمْ یُرْشَدُوْنَ ) (۵)

اے پیغمبر!اگرمیرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تومیں ان سے قریب ہوں،پکارنے والے کی آوازسنتاہوں جب بھی پکارتاہے لہٰذامجھ سے طلب قبولیت کریں اورمجھ ہی پرایمان واعتقادرکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پرآجائیں۔

____________________

۱)مستدرک سفینة البحار/ج ٣/ص ٢٨٨

. ۲)بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣٢١

۳)بحارالانوار/ج ۶٣ /ص ٣١۴

۴)سورہ غٔافر/آیت ۶٠

. ۵)سورہ بٔقرہ/آیت ١٨۶

۳۴۷

روایت میں آیاہے کہ حضرت علیجیسے ہی نمازجمعہ کے خطبہ سے فارغ ہوئے توایک شخص نے بلندہوکر مولائے کائنات سے عرض کیا:اے ہمارے مولاوآقا!الله تبارک تعالیٰ کاارشادہے :( اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) (تم دعاکروتومیں قبول کرتاہوں)پھرکیاوجہ ہے کہ ہم دعاکرتے ہیں مگروہ بارگاہ خداوندی میں درجہ مٔقبولیت تک پہنچتی ہے ؟مولائے کائنات نے اس شخص کے اس سوال کو سن کراسے بہت ہی عمدہ جواب دیااوردعاقبول نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

تمھارے دل ودماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے جن کی وجہ سے تمھاری دعاقبول نہیں ہوتی ہے اوروہ آٹھ چیزیں یہ ہیں:

١۔ تم نے خداکوپہچانتے ہومگرتم اس کے حق کواس طرح ادانہیں کرتے ہو جس طرح اس نے واجب قراردیاہے لہٰذا تمھاری معرفت تمھارے کوئی کام نہ آتی ہے اورنہ تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ہے اسی لئے تمھاری دعاقبول نہیں ہے

٢۔تم اس کے بھیجے ہوئے رسول پرایمان تولائے ہومگران کی سنت کی مخالفت کرتے ہو اوران کی شریعت کوپامال وبربادکرتے ہوپھرایسے میں تمھارے ایمان کاکیانتیجہ ہوگا ؟(بس یہی کہ پروردگارتمھاری کوئی دعاقبول نہیں کرے گا

٣۔ تم نے اس کی نازل کردہ کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو اور“سمعناواطعنا” بھی کہتے ہومگراس کے فرمان کے مطابق عمل نہیں کرتے ہوبلکہ اس کے حکم کے برخلاف عمل کرتے ہوپھر تمھاری کوئی دعاکس طرح دعاقبول ہوسکتی ہے ؟

۴ ۔ تم نے جہنم کے بارے میں یہ وعدہ کرتے اورکہتے ہوکہ :ہم خداکے عذاب سے ڈرتے ہیں حالانکہ تم گناہوں کے باعث اسی کی طرف قدم بڑھارہے ہوپھرتمھارے دل میں نارجہنم سے تمھاراخوف کہاں رہاہے؟

۵ ۔ تم کہتے ہوکہ ہم جنت کے مشتاق ہیں حالانکہ کام ایسے کرتے ہوجوتمھیں اس سے دورلے جاتے ہیں توپھرتمھارے اندرجنت کی وہ رغبت وشوق کہاں باقی ہے ؟

۶ ۔ تم اپنے مولیٰ کی نعمتیں کھاتے ہومگرشکرکاحق ادانہیں کرتے ہوتوکس طرح تمھاری دعائیں قبول ہوسکتی ہیں؟۔

٧۔ خدانے تمھیں شیطان سے عداوت ودشمنی رکھنے کاحکم دیاہے اورفرمایاہے :( اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌفَاتَّخَذُوْهُ عَدُوا ) (یقیناشیطان تمھارادشمن ہے پس تم بھی اسے دشمن رکھو)تم زبان سے شیطان سے دشمنی کادعویٰ کرتے ہوحالانکہ تم اسے اپنادوست رکھتے ہو

٨۔ تم نے دوسروں کی (غیبت اور)عیب جوئی کواپنانصب العین بنارکھاہے اوراپنے تمام عیوب بھلادئے ہیں ،تم دوسروں کی مذمت کرتے ہوجبکہ تم اس سے بھی زیادہ مذمت کے مستحق ہو

۳۴۸

جب تمھارے اندریہ سب باتیں پائی جاتی ہیں توپھرایسی حالت میں کس طرح دعاکے قبول ہونے کی امیدرکھتے ہواورکس طرح تمھاری دعائیں مستجاب ہوسکتی ہیں؟جبکہ تم نے اپنے لئے دعاقبول ہونے کے تمام دروازے بندکررکھے ہیں،پستم خداسے ڈرو اورتقویٰ وپرہیزگاری اختیارکرواوراپنے اعمال کی اصلاح کرو،اپنی نیتوں میں اخلاص پیداکرواورامربالمعروف ونہی عن المنکرکروتاکہ خدا تمھاری دعاقبول کرلے ۔(۱)

تاخیرسے دعاقبول کی وجہ

اس کی کیاوجہ کہ انسان دعاکرتاہے اورپورے شرائط کے ساتھ دعاکرتاہے مگرپھر بھی اس کی دعاقبول ہونے میں تاخیرکیوں ہوتی ہے ؟اوربعض لوگوں کی دعاجلدی کیوں پوری ہوجاتی ہے ؟

ممکن ہے ہم کسی کام کے لئے دعاکریں اوروہ کام الله کے نزدیک ہماری لئے اس وقت مصلحت نہ رکھتاہو،ہم اسے پسندکرتے ہوں مگرخدااسے ہمارے نفع کی خاطر اس وقت عطاکرنا پسندنہ کرتاہو،مثال کے طورپراگرکوئی شخص مریض ہے اوروہ اپنے ڈاکٹرسے کسی ایسی چیزکی درخواست کرے جواس وقت مریض کے لئے مصلحت نہ رکھتی ہوتووہ ڈاکٹراسے اس چیزسے انکارکردے گااوراس کی مرضی کے مطابق نسخہ ایجادنہیں کرے بلکہ مریض کے مرض کے مطابق نسخہ ایجادکرے گابساسی طرح ہم سب بندے الله کے مریض ہیں اوروہ ہمارے لئے ایک طبیب کاحکم رکھتاہے ،وہ اچھی طرح جانتتاہے ہمارے لئے اس وقت کونسی چیزبہترہے اورکون نقضان پہنچانے والی ہے

قال رسول صلی الله علیه وآله:یاعبادالله!انتم کالمرضیٰ وربّ العالمین کالطبیب فصلاح المرضی فیمایعلم الطبیب وتدبیره به لافیمایشتهیه المریض ویقترحه اَلافسلّموالله امره تکونوامن الفائزون .(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:اے الله کے بندو!تم ایک بیمارکے مانندہواورپروردگارعالم ایک تمھاراطبیب ہے ،بیمارکی خیراوربھلائی اسی چیزمیں ہے کہ جسے طبیب اپنے مریض کے لئے حکم دیتاہے نہ اس چیزمیں کہ جسے مریض پسندکرتاہے ،پس آگاہ ہوجاو أورخودکوخدائے عزوجل کے سپردکردوتاکہ تم کامیاب ہوجاؤ

____________________

. ۱)بحارالانوار/ج ٩٠ /ص ٣٧۶

. ٢)تفسیرامام حسن عسکری /ص ٩۴۵

۳۴۹

تاخیرسے دعاقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خداوندعالم اپنے اس بندہ کواتنازیادہ محبوب رکھتاہے کہ ہروقت اس آوازکوبہت زیادہ دوست رکھتاہے ،اگرمیں نے اس دعاجلدی قبول کردی توممکن ہے کہ پھریہ بندہ رازونیازمیں کمی نہ کردے اورمیں اپنے بندہ کی آوزسننے کوترسجاؤں جیساکہ حدیث میں آیاہے:

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:انّ المو مٔن لیدعوالله عزوجل فی حاجته فیقول الله عزوجل اَخّروااِجابته شوقًاالیٰ صوته ودعائه فاذاکان یوم القیامة قال الله عزوجل :عبدی دعوت نی فاَخّرتُ اجبتک وثوابک کذاوکذاوَدعوت نی فی کذاوکذافَاَخّرتُ اجابتک وثوابک کذاوکذاقال:فیتمنی المو مٔن انّه لم یستجب له دعوة فی الدنیاممایریٰ من حسن الثواب .(۱)

امام صادق فرماتے ہیں:کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ جب کوئی مومن بندہ الله تبارک تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کرتاہے ،لیکن خدااپنے فرشتوں کوحکم دیتاہے : میرے اس بندہ کی حاجت کوپوراکرنے میں تاخیرکرومجھے اس کی آوازودعاکے سننے کابہت شوق ہے ،پس جب قیامت کادن ہوگاتوخداوندعالم اپنے اس بندہ سے کہے گا:تونے مجھے پکارااوردعاکی اورتیری دعاکے قبول کرنے میں دیرکی ،لہٰذااب تیرے لئے اس کی جزایہ اوریہ ہے۔

قال ابوعبدالله علیه السلام:انّ العبدالولی یدعوالله عزوجل فی الامرینوبه فیقول للملک الوو کٔل به اِقضِ لعبدی حاجته ولاتعجلهافانی اشتهی ان اسمع ندائه وصوته وانّ العبدالعدوَّلِلّٰهِ لیدعوالله عزوجل فی الامرینوبه فیقال الملک المو کٔل به اِقضِ حاجته وعجّلهافانّی اکره ان اسمع ندائه وصوته .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:وہ بندہ جوخداکادوست ہے ،وہ اپنی مشکلوں کو خدا کی بارگاہ میں بیان کرتاہے اوردعاکرتاہے توخداوندعالم اپنے اس فرشتے سے جسے اجابت دعاکے لئے مو کٔل کیاہے کہتاہے :میرے اس بندہ کی حاجت کوپوراکردے مگراس کے اداکرنے میں جلدی نہ کرناکیونکہ میں اپنے اس بندہ کی آوازکواورزیادہ سنناچاہتاہوں اوروہ بندہ جودشمن خداہوتاہے ،جب اس کے سامنے کوئی مشکل اورحادثہ پیش آتاہے اوروہ درگاہ خداوندی میں دعاکرتاہے توخداوندعالم اپنے اس مو کٔل فرشتہ کوحکم دیتاہے :اس کی حاجت

کوپوراکرواورفوراًعطاکردوکیونکہ میں اس کی آوازبالکل نہیں سنناچاہتاہوں۔

____________________

۱)کافی /ج ٢/ص ۴٩٠

. ٢)کافی /ج ٢/ص ۴٩٠

۳۵۰

اس روایت سے یہ واضح ہوتاہے کہ مومن کی دعافوراًقبول ہوجاتی ہے مگراس تک کچھ دیرسے پہنچتی ہے کیونکہ خداوندعالم اس کی آوازکودوست رکھتاہے تاکہ حبیب و محبوب میں دیرتک گفتگوہوتی رہے مگرجن کوخدادوست نہیں رکھتاہے ان کی دعا فوراً قبول کرلیتاہے اوراسے فوراًعطاکردیتاہے کیونکہ پروردگارعالم اسسے ہمکلام ہونا پسندنہیں کرتاہے امام علی ابن ابی طالب “نہج البلاغہ ” میں اپنے فرزندامام حسن مجتبیٰ کے نام لکھے گئے ایک خط میں تاخیرسے دعاقبول ہونے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں: جن چیزوں کوطلب کرناتمھارے لئے صحیح ہے ان کے خزانوں کی کنجیاں تمھارے ہاتھوں میں دی رکھی ہے ،تم جب بھی چاہوان کنجیوں سے رحمت کے دروازے کھول سکتے ہواوررحمت کی بارش برساسکتے ہو،یادرکھو!اگرتمھاری دعاکے قبول ہونے میں تاخیرہوجائے تومایوس وناامیدنہ ہوناکیونکہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہواکرتاہے اورکبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیرکردی جاتی ہے کہ اس میں سائل کے اجرمیں اضافہ اورامیدوارکے عطیہ میں زیادتی کاامکان پایاجاتاہے اورہوسکتاہے تم کسی شئے کاسوال کرواوروہ نہ ملے لیکن اس کے بعدجلدی یادیرسے اس سے بہترمل جائے یااسے تمھاری بھلائی کے لئے روک دیاگیاہو،اس لئے اکثرایسابھی ہوتاہے کہ جس چیزکوتم نے طلب کیاہے اگر مل جائے تودین کی تباہی کاخطرہ ہے لہٰذااسی چیزکاسوال کروجس میں تمھاراحسن باقی رہے اورتم وبال سے محفوظ ) رہو،مال نہ باقی رہنے والاہے اورنہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔(۱)

____________________

. ۱)نہج البلاغہ نامہ ٣١ٔ

۳۵۱

قرآنی دعائیں

قرآن کریم کے کچھ ایسے سورے ہیں جومکمل طورسے دعاشمارہوتے ہیں جیسے سورہ حٔمد،فلق ،ناس ،توحیداورکچھ سورے ایسے ہیں جن میں ایک یااس سے زیادہ آیتیں بطوردعانازل ہوئی ہیں ،ہم ان میں چندآیتوں کوذکرکررہے ہیں:

( رَبَّنَااٰت نافِیْ الدُّنْیَاحَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَاعَذَاْبَ النَّارِ ) (۱)

ترجمہ:پروردگارا!ہمیں دنیامیں بھی نیکی عطافرمااورآخرت میں بھی اورہم کوعذاب جہنم سے محفوظ فرما۔( رَبَّنَالَاتُزِغْ قُلُوْبَنَابَعْدَاِذْهَدَیْت ناوَهَبْ لَنَامِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ) (۲) ترجمہ:پروردگا!جب تونے ہمیں ہدایت دی ہے تواب ہمارے دلوں میں کجی نہ ہونے پائے اورہمیں اپنے پاس سے رحمت عطافرماکہ توبہترین عطاکرنے والاہے۔

( رَبَّنَاآمَنَّافَاغْفِرْلَنَاذُنُوْبَنَاوَقِنَاعَذَاْبَ النَّاْرِ ) (۳) ترجمہ:پروردگارا!ہم ایمان لے لائے ،ہمارے گناہوں کوبخش دے اورہمیں آتش جہنم سے بچالے۔( رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآء ) (۴) ترجمہ:حضرت زکریانے اپنے پروردگارسے دعاکی مجھے اپنی طرف سے ایک پاکیزہ اولادعطافرماکہ توہرایک کی دعاسنے والاہے۔( رَبَّنَافَاغْفِرْلَنَاذُنُوْبَنَاوَاِسْرَاْفَنَافِیْ اَمْرِنَاوَثَبِّتْ اَقْدَاْمِنَاوَانْصُرْنَاعَلَی الْقُوْمِ الْکَافِرِیْنَ ) (۵) ترجمہ:پروردگار!ہمارے گناہوں کوبخش دے ،ہمارے امورمیں زیادتیوں کومعاف فرما،ہمارے قدموں کوثابت عطافرمااورکافروں کے مقابلہ میں ہماری مددفرما۔

( رَبَّنَااغْفِرْلِیْ وَلِوَاْلِدَیَّ وَلِلْمُو مِٔنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ. ) (۶)

ترجمہ:پروردگارا!مجھے اورمیرے والدین کواورتمام مومنین کواس دن بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا۔

( رَبِّ ارْحَمْهُمَاکَمَارَبَّیٰنِیْ صَغِیْراً. ) (۷)

ترجمہ:(والدین کے لئے اس طرح دعاکرو)پروردگارا!ان دونوں پراسی طرح رحمت نازل فرماجسطرح انھوں نے بچپنے میں مجھے پالاہے۔

( رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عَقْدَةً مِّنْ لِسَاْنِیْ ) .(۸)

ترجمہ:حضرت موسیٰ دعاکی :پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے ،میرے کام کوآسان کردے اورمیری زبان کی گرہ کوکھول دے۔

____________________

. ١)بقرہ ٢٠١ --.. ٢)آل عمران/ ٨ --٣)آل عمران/ ١۶ –۴)آل عمران/ ٣٨ --۵)آل عمران/ ١۴٧ --. ۶)ابراہیم/ ۴١ -

٧)اسراء / ٢۴ --. ٨) طٰہٰ/ ٢۵ ۔ ٢٨ )

۳۵۲

سجدہ شٔکر

تعقیبات نمازمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب انسان نماز،تسبیح اوردعاسے فارغ ہوجائے تومستحب ہے کہ فوراًسجدہ شکرکرے جس کاطریقہ یہ ہے کہ پیشانی کوزمین پررکھے اوردونوں کہنی ،سینہ اور پیٹ کوبھی زمین پرلگائے ،دائیں پیرکی پشت کوبائیں پیرکے تلوے پررکھے اورمستحب ہے کہ اس کے بعددائیں رخسارکوزمین پررکھے یعنی بائیں جانب رخ کرے ،اس کے بعدبائیں رخسارکوزمین پررکھے اسکے بعدپھردوبارہ پیشانی کوزمین پررکھے ۔ اورمستحب ہے کہ جب انسان بھی انسان کوکوئی نعمت ملے یااس کی کوئی مصیبت دورہوجائے توسجدہ شکرکیاجائے ،سجدہ شٔکرکرنے کے بارے روایتوں میں بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے

امام صادق فرماتے ہیں:ہرمسلمان پرخداکااداکرنالازم ہے کیونکہ اس کے ذریعہ تمھاری نمازمکمل ہوتی ہے اوراس ذریعہ تمھاراپروردگارتم سے راضی ہوجاتاہے اورملائکہ کے تعجب کاباعث ہوتاہے ،جب کوئی بندہ نمازپڑھتاہے اوراس کے بعدسجدہ شکرکرتاہے تو خداوندعالماپنے اس بندہ اورملائکہ کے درمیان کے حجاب کوہٹادیتاہے اوراپنے ملائکہ سے کہتاہے:اے میرے فرشتو! میرے اس بندہ کودیکھو،اس نے میرے واجب کو ادا کیا اور میرے عہدکومکمل کیااورپھران نعمتوں کے بدلے میں جومیں نے اسے عطاکی ہیں سجدہ شٔکراداکیا ،اے میرے فرشتو!تم ہی بتاؤ اس شکرگزاربندہ کی جزا کیاہے؟ تو وہ جواب میں کہتے ہیں:اے ہمارے پروردگار!تیری رحمت ،اس کے بعددوبارہ اپنے فرشتوں سے سوال کرتاہے :اس کے علاوہ اورکیاجزاہے؟ملائکہ جواب دیتے ہیں :تیری جنت، خداوند عالم پھرمعلوم کرتاہے اس کے علاوہ اورکیاجزاہے ؟ملائکہ جواب دیتے ہیں:اس کے تمام رنج ومشکل کوبرطرف کرنا،اس کے بعدخداوندعالم پھرمعلوم کرتاہے اس کے علاوہ اورکیاجزاہے؟توملائکہ جواب دیتے ہیں:اے ہمارے پرودگار!اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں جانتے ہیں،پسپروردگارکہتاہے :جسطرح اسنے میراشکراداکیاہے میں بھی اس کاشکرگزارہوں ) اورمیں اس پراپنافضل وکرم نازل کرتاہوں اورروزقیامت اسے رحمت عظیم عطاکروں گا۔(۱)

حضرت امام علی رضا فرماتے ہیں : واجب نماز پڑھنے کے بعد ایک سجدہ کر نا چاہئے کیونکہ فریضہ الہٰی کو ادا کر نے کی وجہ سے جو نعمات وکرامات خداوندمتعال ہم کو عطا کرتا ہے ، ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور سجدئہ شکر میں بس یہی کافی ہے کہ تین مرتبہ “شُکْراًلِلّٰہ”کہا جائے. راوی کہتا ہے : میں نے امام رضا سے عرض کیا : “شُکْراً لِلّٰہِ” کے کیا معنی ہیں؟ امام نے فرمایا : یعنی نماز ی یہ کہتا ہے کہ میرایہ سجدہ خداکاشکرادا کر نے کے لئے ہے اس چیزکے بدلہ میں کہ اس نے مجھے اپنی خدمت کی توفیق عطاکی یعنی اس نے مجھے ادائے واجب کی توفیق عطاکی اورشکرادا کرنا رحمت وبرکت ونعمت کی زیادتی کا سبب واقع ہو تاہے ، اور اگر نماز میں کوئی نقص پایاجاتا ہے اور نافلہ نماز کے ذریعہ وہ نقص پورا نہیں ہو پاتا ہے تو ) سجدئہ شکر اس نماز کو مکمل کردیتا ہے ۔(۲)

____________________

. ١)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١١٠ --. ٢)علل الشرائع /ج ٢/ص ٣۶٠

۳۵۳

حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں:میرے باباعلی ابن الحسین جب بھی کسی نعمت خداکاذکرکرتے تھے توسجدہ شٔکر کرتے تھے اور جب قرآن کریم تلاوت کے دوران کسی آیت سجدہ پر پہنچتے تھے تواسی و قت ایک سجدہ کرتے تھے اورجب بھی خداآپ کی راہ سے کسی ناگوارحادثہ یادشمن کے مکروفریب کودور کردیتاتھاتوسجدہ میں گرجاتے تھے اورجب بھی نمازواجب سے فارغ ہوتے تھے تو سجدہ شٔکرکرتے تھے اورجب بھی دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہوجاتے تھے تب بھی ایک سجدہ شٔکرکرتے تھے اورآپ کے جسم کی حالت یہ تھی کہ تمام اعضائے سجدہ پر گٹھا پڑگئے تھے اسی لئے آپ کو “سجاد”کے لقب ) سے یادکیاجاتاہے(۱)

مختارثقفی کے بارے میں ان کے اکثر ساتھیوں سے نقل ہوا ہے کہ جناب مختار نے اپنی ایاّم حکومت کے دوران قاتلان حضرت امام حسین سے بدلہ لیا اور سب کو سر کوب وفِی النار کرنے کے بعد شکرخداکے لئے ایک سجدہ بجا لائے ،اورنقل کیاگیاہے کہ جناب مختاراکثرایّام میں روزہ رکھتے تھے اور کہتے تھے : میرے یہ روزے شکر کے لئے ہیں،آپ اصغربے شیرکے قاتل حرملہ کو واصل جہنم کرنے کے بعدگھوڑے سے زمین پر تشریف لائے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک طولانی سجدئہ شکرادا کیا ۔(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:خداوندعالم نے حضرت موسیٰ ابن عمرانپروحی نازل کی:اے موسیٰ! کیاتم جانتے ہومیں نے اپنی مخلوق میں سے صرف تم ہی کواپنے سے ہمکلام ہونے کوکیوں منتخب کیاہے ؟حضرت موسیٰ نے کہا:اے میرے پروردگار!میں نہیں جنتاہوں(توہی بتاکہ تونے مجھے کیوں منتخب کیاہے؟) خداوندعالم نے وحی نازل کی :اے موسی! میں نے اپنے تمام بندوں کی ظاہری وباطنی حالتوں پرنگاہ ڈالی تومیں نے تمھارے علاوہ کسی کواس قدرمتواضع نہ پایاجواپنے آپ کومیری بارگاہ میں اس قدرحقیرسمجھتاہوکیونکہ جب تم نمازسے ) فارغ ہوتے ہوتواپنے دونوں رخسار کو زمین پر رکھتے ہو۔(۳)

مستحب ہے کہ سجدہ شکرمیں سومرتبہ “ شکراًلله ” کہاجائے اورتین مرتبہ بھی کافی ہے

سلیمان ابن حفص مروزی سے مروی ہے کہ میں نے امام علی رضا کی خدمت میں ایک خط لکھااور سجدہ شٔکرکے بارے میں معلوم کیاتوآپ (علیه السلام)نے میرے سوال کے جواب میں مجھے خط میں تحریرکیا: سجدہ شٔکرمیں سومرتبہ “ شکراً، شکراً ” کہویاچاہوتو“ عفواً، عفواً ”کہو۔(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ سجدہ شکرکرے اورایک سانس “یاربّ یارب”کہے توپروردگاراپنے بندے سے کہتاہے :اے میرے بندے! میں حاضرہوں تواپنی حاجت توبیان ) کر۔(۵)

____________________

۱)علل الشرائع /ج ١/ص ٢٣٣

٢)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٩٧ /ص ٣۴.

.۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٣٢.--. ۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٣٢ -- ۵)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٣٣

۳۵۴

قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب “الدعوات ”میں یہ روایت نقل ہے کہ امام موسیٰ کاظم سجدہ شکرمیں یہ دعابہت زیادہ پڑھتے اورتکرارکرتے تھے: ) ”اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الرَّاحَةَ عِنْدَالْمَوتِ وَالْعَفْوَعِنْدَالْحِسِابِ ”.(۱)

ابوبصیرسے مروی ہے :امام صادق فرماتے ہیں:اگر کوئی بندہ سجدہ میں تین مرتبہ “یاالله یاربّاہ یاسیداہ” کہے توالله تبارک وتعالیٰ جواب میں کہتاہے :اے میرے بندے!میں حاضرہوں ) تواپنی حاجت بیان کر۔(۲)

مستحب ہے کہ سجدہ شکرکے بعدہاتھ کوسجدہ گاہ پر مس کرے اورپھرہاتھ کوچہرے پراس طرح ملے کہ بائیں جانب کی پیشانی سے شروع کرے اوراسی طرف کے رخسارپرملے اس کے بعداسی طرح دائیں جانب ملے اورتین باریہ دعاپڑھے اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، لَااِلٰہَ اِلّااَنْتَ ، عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ ، اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ، اَللّٰہُمَّ اَذْہَبْ عَنِّیْ الْہَمَّ وَالْحُزْنَ وَالْغَیَرَوَالْفِت ن ، مَاظَہَرَمِنْہٰا،وَمَابَطَنَ. ترجمہ: بارالٰہا!تمام حمدوثناتیرے لئے ہیں،تیرے سواکوئی معبودنہیں ہے ،ظاہراورغیب کاعلم تیرے پاس ہے ،توہی بخشنے اوررحم کرنے والاہے ، بارالٰہا!تومیرے رنج وغم اورتعصب ودگرگونی اورفت نوں کودورکردے جوظاہروآشکارہیں اوروہ کہ جوباطن میں ہیں۔(۳)

راززیارت

تعقیبات نمازمیں سے ایک یہ بھی ہے جب نمازگزارتسبیح ودعااورسجدہ شکرے فارغ ہوجائے توکھڑے ہوکرزیارت پڑھے ،اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی آل اطہار پردرودوسلام بھیجے اورمستحب ہے کہ نمازکے بعدزیارت امام حسین،زیارت امام علی رضا ،زیارت حضرت حجت صاحب الزماں پڑھی جائے ۔ اہل بیت اطہار سے توسل کے بارے میں ہم نے نمازکے قبول ہونے کے شرائط میں کچھ باتیں اوراحادیث نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ توسل کاکیافائدہ ہے ،نمازکے بعدزیارت پڑھنابھی ایک توسل ہے ۔نمازکے بعدامام حسین کی زیارت پڑھی جائے کیونکہ انھوں نے کرب وبلامیں اپنے پوراگھر قربان کردیااورنمازکوہمیشہ کے لئے زندہ وجاویدکردیاہو،کیانمازکے بعدان پرسلام نہ بھیجائے ؟امام حسین اورامام علی رضا ایسے شہیدہیں کہ جنھیںغریب الوطنی میں نہایت ظلم وستم کے ساتھ شہیدکیاگیاہے ۔نمازکے بعدامام زمانہ کی زیارت اس پڑھتے ہیں کہ ہم ان کی سلامتی کی دعاکرتے ہیں اورباری تعالیٰ سے ان کے ظہورکی تعجیل کے لئے التجاکرہیں۔ اللٰہمّ عجّل فرجہ الشریف واجعلنامن انصارہ واعوانہ.آمین. زیارت تکمیل ایمان کی علامت ہے ،اس کے ذریعہ رزق میں برکت ہوتی ہے اورعمرطولانی ہوتی ہے رنج وغم دورہوتے ہیں،نماز یں قبول ہوتی ہیں،اوران کے طرف سلام کاجواب بھی آتاہے ،نمازی کے دل اہل بیت اطہار کی محبت میں اضافہ ہوتاہے اورعشق ومحبت اہل بیت کے خداوندعالم سے تقرب حاصل ہوتاہے ۔

____________________

. ۱)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٣٠٠ --. ٢)وسائل الشیعہ/ج ۴/ص ١١٣١ --۳)مفاتیح الجنان (شیخ عباس قمی

۳۵۵

فہرست

پیشگفتار ۴

وجہ تالیف: ۴

وجہ تسمیہ “نمازکے آداب واسرار“ ۵

رازاطاعت وبندگی ۶

١۔انسان عبادت کے لئے پیداہواہے ۶

٢۔شکرمنعم واجب ہے ۷

٣۔انسان کی فطرت میں عبادت کاجذبہ پایاجاتاہے ۱۱

۴ ۔ پروردگارکی تعظیم کرناواجب ہے ۱۲

۵ ۔ہرانسان محتاج اورنیازمندہے ۱۳

عبادت اوربندگی کاطریقہ ۱۴

رازوجوب نماز ۱۵

نمازکی اہمیت ۱۸

نمازکی اہمیت کے بارے میں معصومین سے چندروایت ذکرہیں: ۱۹

تمام انبیائے کرام نمازی تھے ۱۹

نمازاورحضرت س آدم ۲۰

نمازاورحضرت ادریس ۲۱

نمازاورحضرت نوح ۲۱

نمازاورحضرت ابراہیم ۲۲

نمازاورحضرت اسماعیل ۲۳

۳۵۶

نمازاوراسحاق ویعقوب وانبیائے ذریت ابراہیم ۲۳

نمازاورحضرت شعیب ۲۴

نمازاورحضرت موسی ۲۴

نمازاورحضرت لقمان ۲۵

نمازاورحضرت عیسیٰ ۲۵

نمازاورحضرت سلیمان ۲۵

نمازاورحضرت یونس ۲۶

نمازاورحضرت زکریا ۲۶

نمازاورحضرت یوسف ۲۶

تمام انبیاء وآئمہ نے نمازکی وصیت کی ہے ۲۷

نمازمومن کی معراج ہے ۲۹

بچوں کونمازکاحکم دیاکرو ۳۱

نمازکے آثارو فوائد ۳۳

دنیامیں نمازکے فوائد ۳۳

گناہوں سے دورزہتاہے ۳۴

گذشتہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ۳۵

چہرے پرنوربرستاہے ۳۷

بے حساب رزق ملتاہے ۳۹

رزق میں برکت ہوتی ہے ۴۱

دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۴۱

۳۵۷

رحمت خدانازل ہوتی ہے ۴۱

دل کوسکون ملتاہے اوررنج وغم دورہوتے ہیں ۴۲

عورت کی عزت آبروقائم رہتی ہے ۴۳

قرآن کریم متروک ہونے سے محفوظ رہتاہے ۴۳

قبض روح میں اسانی ہوتی ہے ۴۳

برزخ اورقیامت میں نمازکے فوائد ۴۴

روزانہ پانچ ہی نمازکیوں واجب ہیں ۴۵

ان اوقات میں نمازکے واجب ہونے کی وجہ ۴۹

پہلی روایت ۴۹

دوسری روایت ۵۲

تیسری روایت ۵۳

چوتھی روایت ۵۴

پانچوی روایت ۵۵

تعدادرکعت کے اسرار ۵۵

رازجمع بین صلاتین ۵۹

روزانہ نمازکے تکرارکی وجہ ۶۲

نمازکے آداب وشرائط ۶۳

رازطہارت ۶۳

باطنی طہارت ۶۳

ظاہری طہارت ۶۴

۳۵۸

وضوکے اسرار ۶۵

رازوجوب وضو ۶۷

رازوجوب نیت ۶۸

چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کاراز ۶۹

وضومیں تمام دھونایاتمام مسح کیوں نہیں ہے؟ ۷۱

۴ ۔خروج پیشاب ،پیخانہ اورریح سے وضوکے باطل ہونے کی وجہ ۷۵

کھانے ،پینے سے وضوکے باطل نہ ہونے کی وجہ ۷۶

آب وضوکے پاک، مباح اورمطلق ہونے اوربرت ن کے مباح ہونے کی وجہ ۷۶

۶ ۔خودوضوکرنے کی شرط کی وجہ: ۷۷

٧۔سورج کے ذریعہ گرم پانی سے وضوکرنے کی کراہیت کی وجہ: ۷۸

وضوکے آداب ۷۸

١۔وضوسے پہلے مسواک کرنا ۷۸

٢۔ وضوکرتے وقت معصوم (علیھ السلام)سے منقول ان دعاؤں کوپڑھنا ۷۹

٣۔ گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا ۸۱

۴ ۔ تین مرتبہ کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا ۸۱

۵ ۔ چہرہ اورہاتھوں پردوسری مرتبہ پانی ڈالنا ۸۲

۶۔ آنکھوں کوکھولے رکھنا ۸۴

٧۔ عورت ہاتھوں کے دھونے میں اندرکی طرف اورمردکہنی پرپانی ڈالے ۸۴

٨۔ چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونا ۸۴

٩۔ رحمت خداسے قریب ہونے اوراس مناجات کرنے کا ارادہ کرنا ۸۵

۳۵۹

١٠ ۔ پانی میں صرفہ جوئی کرنا ۸۵

وضو کے آثار وفوائد ۸۶

گھرسے باوضو ہوکرمسجد جانے کاثواب ۸۷

کسی کو وضوکے لئے پانی دینے کاثواب ۸۸

ہرنمازکے لئے جداگانہ وضو کرنے کاثواب ۸۸

کامل طورسے وضوکرنے کاثواب ۹۰

آب وضوسے ایک یہودی لڑکی شفاپاگئی ۹۱

آب وضوسے درخت بھی پھلدارہوگیا ۹۲

راز تیمم ۹۳

رازوجوب ستر ۹۵

رازمکان و لباس ۹۷

رازطہارت بدن ،لباس اورمکان ۹۷

رازاباحت لباس ومکان ۹۷

نمازی کالباس مردہ حیوان سے نہ بناہو ۹۹

حرام گوشت جانورکے اجزابنے سے لباس میں نمازکے باطل ہونے کی وجہ: ۹۹

مردکا لباس سونے اورخالصریشم کانہ ہو ۱۰۰

مسجد ۱۰۳

مسجدکی اہمیت ۱۰۳

مساجدفضیلت کے اعتبارسے ۱۰۷

مسجدالحرام میں نمازپڑھنے کاثواب ۱۰۸

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370