نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار10%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167197 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کا نام: نماز کے آداب واسرار

مولف : رجب علی حیدری

۳

پیشگفتار

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد للّٰه الّذی جعل الصلاةقربان کلّ تقی واَحد اَرکان دینه والصّلاة والسّلام علیٰ اشرف الانبیاء والمرسلین ابی القاسم محمّد الذی یقف فی الصلاة حتی ترم قدماه والسّلام علیٰ اهل بیته المعصومین لاسیّماعلیٰ علی بن ابیطالب الّذی ردّالشمس لصلاته وعلٰی الحسین الشهیدالذی قتل مظلومافی حال الصلاة وعلیٰ علی بن الحسین الذی یقال له السجادلکثرة السجود ، و علی المهدی حین یصلّی ویقنت وحین یرکع و یسجد،الّذی تصلّی المسیح ابن مریم خلفه یوم ظهوره،و علیٰ عبادالله الصّالحین( اَلَّذِینَ هُمْ فی صَلاتِهِمْ خَاشِعُون ) واللّعنةالدّائمة علٰی اعدائهم اجمعین من یومناهٰذاالٰی قیام یوم الدّین

امّابعد :

وجہ تالیف:

ہروہ شخص جو دین اسلام میں اصول وفروع دین میں سے کسی بھی موضوع کے متعلق کوئی کتاب، مقالہ ،مجلہ وغیرہ کی تالیف کرتاہے توخداوندمتعال دنیامیں اس پر اپنی نعمت وکراماتنازل کرتاہے، قبض روح میں اسانی ہوتی ہے اورآخرت میں معصومین کے قرب وجوارمیں جگہ عنایت کرتاہے ۔ جب تک لوگ اس کی کتاب سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اوراس پرعمل کرتے رہتے ہیں توکتاب کے لکھنے والے کوبھی اس کاثواب ملتارہتاہے پس صدقہ جاری کے طورسے اس کتاب کے تالیف کرنے کوشش کی ہے اورپروردگار سے دعاہے کہ وہ میری اس کوشش کوبحق محمدوآل محمد قبول فرمائے، ہمیں اس کتاب پرعمل کرنے کی توفیق عطاکرے اوراسے ہم سب کی بخششکاسامان قراردے۔قال نبی صلی الله علیه وآله:اذامات الانسان انقطع عمله الّامن ثلاث:صدقة جاریة ا ؤعلم ینتفع به ، ا ؤلدصالح یدعوله نبی اکرم (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں:جب انسان مرجاتاہے تواس کے تمام عمل منقطع ہوجاتے ہیں لیکن چیزیں ایسی ہیں جن وجہ سے اسے مرنے بعدبھی ثواب پہنچتارہتاہے

١۔صدقہ جاریہ

٢۔علم کہ جس سے لوگ استفادہ کرتے ہیں

٣۔فرزندصالح جومرنے کے : بعداپنے والدکے لئے دعائے مغفرت کرتاہے ۔ عوالی اللئالی /ج ٢/ص ۵ ٣

۴

وجہ تسمیہ “نمازکے آداب واسرار“

نماز ایک ایسی عبادت ہے جسے انبےائے کرام اورمعصومین نے اپنا سر لوحہ عٔبادت قرار دےاہے اوراپنے زمانے کے لوگوں کو اس کے بجالانے کا حکم بھی د ےا ہے انمازتمام انبیاء وآئمہ اطہار اورجملہ مومنین ومومنات کی روح وجان ہے ،ان کی آنکھوں کی روشنی ہے،معراج امت محمدی ہے ، دردمندوں کے لئے باعث شفاہے ،ضرورتمندوں کی حاجت کوپوری کرتی ہے ،انسان کوبرائیوں سے دور رکھتی ہے جس کے ذریعہ دل کوسکون واطمینان روح کوتازگی، رنج وغم سے نجات اورحیات جاودانی نصیب ہوتی ہے،لیکن یہ یادرہے صرف وہی نمازانسان کوگناہوں سے دورنہیں رکھ سکتی ہے جسے وہ اسے اس کے پورے آداب شرائط کے ساتھ اورمحمدوال محمد کی محبت اوران کی ولایت کے زیرسایہ انجام دیتاہے۔

اس کتاب کانام“نمازکے آداب واسرار”رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں تمام افعال واعمال نمازاسرارکو بیان کیاگیاہے ،مثلاًالله کی اطاعت وبندگی کارازکیاہے ، روزانہ پانچ ہی نمازیں کیوں واجب قراردی گئی ہیں اس سے کم یازیادہ کیوں نہیں ،ان ہی اوقات میں نمازکوکیوں واجب قراردیاگیاہے ،نمازکے لئے طہارت کے واجب قراردئے جانے کی وجہ کیاہے ،نمازکوتکبیرکے ذریعہ کیوں آغازکیاجاتاہے

کتاب ہذامیں احکام نمازکوذکرنہیں کیاگیاہے کیونکہ اگراحکام نمازکوذکرکیاجاتاتواس بارے میں مراجع عظام کے فتووں کے مطابق روایتوں کوذکرکیاجاتااوران کے اختلاف کوبھی ذکرکیاجاتاکہ جسکے لئے ایک مستقل استدلالی کتاب کی ضرورت ہے ۔ کتاب ہذامیں تعقیبات نمازکے آداب واسرارکوبھی ذکرکیاگیاہے مثلاتسبیح حضرت زہرا کا آغاز کب اورکیسے ہوا،دعاکرناکیوں ضروری ہے ،دعاکرنے کاطریقہ کیاہے ،کن لوگوں کی دعاقبول ہوتی ہے اورکن کی دعاقبول نہیں ہوتی ہے اورمومن کی دعاتاخیرسے کیوں قبول ہوتی ہے۔ امیدہے کہ میرے محترم قارئین اس کتاب کے ذریعہ تمام اعمال وافعال نمازکے آداب واسرارکے بارے میں کلام خداورسول وآئمہ اطہارعلیہم الصلاة والسلام نورانی کلمات سے مستفیض ہونگے اوراپنے آپ کوتحت تاثیرقرارپائیں گے اوراپنے اندرایک عجیب نورانیت محسوس کریں گے اورامید ہے کہ یہ کتاب بارگاہ خداوندی ومعصومین میں مقبولیّت کا شرف حاصل کرے گی اورناشر ومترجم اوراس کتاب سے فیضیاب ہونے والوں کے گناہوں کے لئے بخششکا سبب واقع ہوگی

۔ رجب علی حیدری

١٧ /ربیع الاول ١ ۴ ٢ ۶ مطابق ٢ ۶ / جنوری ٢٠٠ ۵

۵

رازاطاعت وبندگی

١۔انسان عبادت کے لئے پیداہواہے

الله تبارک وتعالیٰ نے دنیامیں کسی بھی مخلوق کو بے کار و بیہودہ خلق نہیں کیاہے بلکہ ان سب کی کوئی وجہ خلقت ضرورہے اوران سب چیزوں کے خلق کرنے میں کوئی راز و فلسفہ و سبب پایاجاتاہے اوروہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے جن وانس کو اس لئے پیداکیاہے کہ وہ اس کی عبادت کریں جیساکہ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:( وَمَا خَقَلْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلّا لِیَعْبُدُون ) .(١)

میں نے جن وانسکونہیں پیدا کیا مگریہ کہ وہ( میری )عبادت وبندگی کریں۔

جمیل ابن دراج سے مروی ہے میں نے امام صادق سے اس آیہ مٔبارکہ کے بارے میں سوال کیااورکہا:اے میرے مولا!آپ پرمیری جان قربان ہو،آپ مجھے اس قول خداوندی کے معنی ومفہوم سے آگاہ کیجئے ؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:یعنی خداوندعالم نے تمام جن وانس کوعبادت کے لئے پیداکیاہے ،میں کہا:خاص لوگوں یاعام لوگوں کو؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:عام لوگوں کواپنی عبادت کے لئے خلق کیاہے ۔(٢)

دنیاکی ہرشے رٔب دوجہاں کی تسبیح وتقدیسکرتی ہے بعض موجودات ایسے ہیں جو ہمیشہ قیام کے مانند کھڑا رہتے ہیں الله کی حمدوثنا کرتے رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی مانندخمیدہ حالت میں رہتے ہیں جیسے چوپائے، اونٹ، گائے ،بھیڑ، بکریاں

____________________

١)سورہ زاریات/آیت ۵۶

.۲)علل الشرائع/ج ١/ص ١۴.

۶

وغیرہ اوربعض ایسے بھی جو ہمیشہ زمیں پرسجدہ کے مانندپڑے رہتے ہیں وہ حشرات اورکیڑے وغیرہ ہیں اور بعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پر بیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش و نبا تات وگل وگیا ہ وغیرہ ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

( اَلَمْ تَرَاَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَه مَنْ فِیْ السَّمَوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرِصٰآفّٰاتٍ کُلُّ قَدْعَلِمَ صَلَاتَه وَتَسْبِیْحَه وَاللهُ عَلِیْمٌ بِمَایَفْعَلُوْنَ ) .(۱)

کیاتم نے نہیں دیکھاہے کہ الله کے لئے زمین وآسمان کی تمام مخلوقات اور فضاکے صف بستہ طائرسب تسبیح کررہے ہیں اورسب اپنی اپنی نمازوتسبیح سے باخبر ہیں اورالله بھی ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔

٢۔شکرمنعم واجب ہے

زمین وآسمان،آفتاب وماہتاب، چگمگاتے تارے ، پھول اورپودے ،پھولوں میں خوشبو، کلیوں میں مسکراہٹ ،غنچوں میں چٹخ ،چڑیوں میں چہک ،زمین میں ہرے بھرے جنگل ، میٹھےاوررسیلے پھلوں سے لدے ہوئے درخت ،یہ موج مارتے دریاوسمندر، آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے، چہکتی ہوئی چڑیاں،آسمان سے نازل ہونے والے برف وبارش کے قطرے، درختوں کے پتے ،یہ ہیرے وجواہرات، یہ سونے وچاندی اورنمک وکوئلے کی کانیں،یہ جڑی بوٹیاں اوردیگربےشماراوربے حساب نعمتیں جوالله کی طرف سے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہیں اورپوری زندگی ہرطرف سے اورہرآن میں نازل ہوتی رہتی ہیں۔

اس نے ہمیں سوچنے ،سمجھنے اورغوروفکرکرنے کے لئے عقل وشعور،علم وفہم، رنگوں اورشکلوں کی پہچان کے لئے قوت بینائی ،آوازوں کو سننے کے لئے قوت سامعہ، ذائقہ چکھنے لئے زبان،

____________________

. ١)سورہ نٔور/آیت ۴١

۷

خوشبو اور بدبوکی شناخت کے لئے قوت شامہ ،گرم و ٹھنڈا محسوس کرنے لئے قوت لامسہ عطاکی ہے اوراس نے ہمیں اس معاشرے میں عزت وشرافت ،جود وسخاوت اور مال ودولت وغیرہ جیسی نعمتیں عطاکی ہیں،کیا تمام نعمتوں پراسکاشکرادانہ کیاجائے.

اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کوایک تھیلی اشرفی عطاکردے تووہ کس قدراس کامریدبن جاتاہے ،کس قدراسے یادکرتاہے اوراس کی کت نی زیادہ تعریفیں کرتاہے لیکن جس نے ہمیں ان نعمتوں سے مالامال کیاہے اس کی ان تمام نعمتوں کودیکھ کرہماہمارافرض بنتاہے کہ اس کی عطاکی ہوئی بے کراں نعمتوں کا شکراداکریں،اس کی تعظیم واکرام کریں،اس کے ہرحکم کے آگے اپناسرتسلیم کریں،اس کی عظمت کی خاطرزمین سجدہ کے لئے پیشانی رکھدیں،اس کی حمدوثناکریں ،اس کی عبادت اورپرستش کریں،لیکن جس نے تمھیں رحم مادرمیں جگہ دی ہو اور وہاں چند اندھیرے پردوں میں تمھاری حفاظت کی ہے خداوندعالم نے قرآن کریم می ۰کرمنعم کوواجب اور کفران نعمت کوحرام قراردیاہے :

( وَاشْکُرُوْلِیْ وَلَاتَکْفُرُوْنِ ) (۱) تم میراشکر ادا کرو اورکفران نعمت نہ کرو۔

اورسورہ قٔریشمیں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرماتاہے:

( فَلْیَعْبُدُوْارَبَّ هٰذَاالْبَیْتِ الّذِیْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خُوْفٍ ) (٢)

اے رسول !اپنے زمانے کے ان لوگوں سے کہدیجئے کہ اس گھرکے مالک کی عبادت کروجسکے طفیل میں یہ تجارت قائم ہے اوریہ امن وامان کی زندگی برقرارہے۔

علامہ ذیشان حیدرجوادی “ترجمہ وتفسیرقرآن کریم”میں اس آیہ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

چھٹی صدی عیسوی میں مکہ کی آبادی تین حصوں پرمنقسم تھی ۔نصربن کنانہ کی اولادقریش ،قریش کے حلیف دوسرے عرب اورغلام ،مکہ مکرمہ میں قریش تجارت پیشہ لوگ تھے اوران کے سال میں

____________________

۱)سورہ قٔریش/آیت ٣۔ ۴

.٢)سورہ بٔقرہ/آیت ١۵٣

۸

دوسفرتجارت ہواکرتھے ، سردی میں یمن کی طرف اورگرمی میں شام کی طرف ،یہ اپنی تجارت میں لئے مضبوط اورکامیاب تھے کیونکہ مکہ کے رہنے والے تھے اورشام ویمن کے لوگ ان سے مرعوب رہاکرتے تھے اوردہشت زدہ بھی تھے ،ان کے مرعوب رہنے کی ایک وجہ تھی کہ بالآخرانہیں حج کے موسم میں مکہ جاناپڑتاہے لہٰذاقدرت نے اسی احسان کویاددلاکربتلایاکہ ہراحسان کاایک تقاضہ ہوتاہے اورہمارے احسان کاتقاضہ یہ ہے کہ اس گھرکے مالک کی عبادت کروجسکے طفیل میں یہ تجارت قائم ہے اوریہ امن وامان کی زندگی برقرارہے۔

رب العالمین نے اپنی عبادت کوشکرکرنے کاطریقہ قراردیاہے:

( بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ ) (١)

تم صرف الله کی عبادت کرواوراسکے شکرگزاربندے بن جاؤ۔

انبیائے کرام اورآئمہ اطہار سے نہ کوئی خطا سرزد ہوئی ہے اورنہ ہوسکتی ہے کیونکہ وہ سب معصوم ہیں اورمعصوم سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہوسکتاہے لیکن شکرگزاری اوربندہ نوازی کے طورسے اس قدر نمازیں پڑھتے تھے کہ ان کے پیروں پرورم کرجاتے اور پیشانی و زانوئے مبارک پرگٹھے پڑگئے تھے ۔

زہری سے مروی ہے کہ : میں علی بن الحسین کے ہمرا ہ عبدا لملک بن مروان کے پاس پہنچا توجیسے ہی عبدالملک کی نظر امام (علیھ السلام) پر پڑی تو آپ(علیھ السلام) کی پیشانی پرسجدوں کے نشا ن دیکھ کر تعجب سے کہا :

اے ابامحمد ! تمھاری پیشانی پر عبادت کے آثا ر نمایاں ہیں ،تمھیں اسقدر نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟جبکہ خداوندعالم نے تمام خیرو نیکی کوتمھارے مقدرمیں لکھ رکھاہے، تم سے نہ کوئی گناہ سرزدہواہے اورنہ ہوسکتاہے ،کیونکہ تم پیغمبر خدا کے پارہ ت ن ہو،تمھارا ان سے مضبوط ومحکم رشتہ ہے ،تم

____________________

. ١)سورہ زٔمر/آیت ۶۶

۹

اپنے خاندان اور اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک عظیم مرتبہ رکھتے ہو، وہ علم وفضیلت اورتقوی ودین جو تمھارے پاس ہے وہ تمھارے خاندان میں نہ کسی کے پاس تھا اور نہ اس وقت کسی کے پاس موجود ہے،ان تمام مراتب رکھنے کے باوجودپھربھی تم ات نی نمازیں پڑھتے ہوکہ پیشانی پرگٹھاپڑگیاہے۔

جب عبداالملک نے آپ کی اس طرح بہت زیادہ مدح سرا ئی کی تواس وقت امام سجاد -

نے فرمایا: یہ خداکے عطاکئے ہوئے تمام فضائل وکمالات جو تو نے میرے بارے میں بیان کئے ہیں کیا ان تمام نعمتوں پر شکرخدا نہ کروں ؟ اوراسکے بعدامام (علیھ السلام)نے عبدالملک سے کہا:

نبی اکرم (ص) اس قدرنمازیں پڑھتے تھے کہ پاہائے مبارک ورم کرجاتے تھے، جب آنحضرتسے کسی نے پوچھا:اے الله کے پیارے نبی! جب خدانے تمھارے اگلے پچھلے تمام گناہ(١) معاف کردئے ہیں توپھرتمھیں یہ سب زحمت اٹھانے اوراس قدرنمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟آنحضرت نے فرمایا :

اَفَلااَکُونُ عَبْداًشُکُوْراً ”کیاالله کے ان تمام احسانات پراوراس کی نازل کی ہوئی نعمتوں پراس کاشکرگزاربندہ نہ بنوں؟

اس کے بعدامام (علیھ السلام) نے عبدالملک ابن مروان سے خطاب فرمایا: تعریف کرتاہوں خداکی ہر عطا کی ہوئی نعمت پر کہ جن کے ذریعہ وہ ہماراامتحان لیتا ہے ، دنیا و آخرت میں تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں، خدا کی قسم اس کی عبادت میں اگر میرا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے،میری آنکھیں نکل کرمیرے سینہ پرگرجائیں پھربھی اس کی عطاکردہ نعمتوں میں ایک نعمت کاایک دہائی شکرنہیں اداکرسکتاہوں، دنیا میں جت نے بھی لوگ خداکی حمدوثناکرتے ہیں ان سب کی حمدوثناخداکی ایک نعمت کے برابربھی نہیں ہوسکتی ہے

____________________

١)سورہ فٔتح /آیت ٢.لیغفراللهماتقدم من ذنبک میں ذنب سے وہ گناہ مرادہیں

۱۰

جوکفارکے خیال میں نبی اکرم پرلگائے جاتے تھے ،کفارقریش آپ پرجادوگر،جنون،شاعر،کہانت اورہوس اقتدارکے الزام لگاتے تھے۔

بس میری زند گی یہی ہے کہ رات دن اور خلو ت وآشکا ر میں اس کا ذکر کر تا رہوں ،بیشک میرے اہل خانہ اور دوسرے لوگ بھی مجھ پرکچھ حقوق رکھتے ہیں( جن کااداکر نا مجھ پرلازم ہے )اگریہ حقوق میری گردن پرنہ ہوتے تو میں اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اور د ل کو خدا کی طرف متوجہ کر لیتا یہاں تک کہ میرے بدن سے روح قبض ہو جا تی اور میں ہر گزاس کی طرف سے اپنے دل اورآنکھوں کو نہ ہٹاتا اور وہ بہترین حکم کر نے والا ہے یہ کہہ کے امام سجاد رونے لگے اور عبدا لملک بھی رونے لگا۔(١)

٣۔انسان کی فطرت میں عبادت کاجذبہ پایاجاتاہے

خداوندعالم نے انسان کی طینت وفطرت میں عبادت کاجذبہ پیداکیاہے،لہٰذاانسان دنیامیں آنے کے بعدجیسے ہی عقل وشعور کی راہ میں قدم رکھتاہے تواس میں یہ فطرت پیداہوجاتی ہے کہ مجھے کسی عظیم ذات کی اطاعت وعبادت کرنی چاہئے لہٰذاجب انسان اپنی فطرت کے مطابق عبادت کی راہ قدم اٹھاتاہے تو وہ معبودحقیقی کی عبادت کرتاہے جوراہ مستقیم ہے یاپھرگمراہی کاشکارہوکرجھوٹے اورباطل خداؤں کی پوجاکرناشروع کردیتاہے۔ بت ،چاند،سورج ،دریا،پہاڑکی پرستش وعبادت کرنایہ سب باطل اورگمراہی کے نمونے ہیں کیونکہ ان سب چیزوں کوخدانے خلق کیاہے اورکسی بھی مخلوق کوخدائی کا درجہ دیناحرام اورباطل ہے ۔

( اِنَّنِی اَنَاالله لااِلٰهَ اِلّااَنَافَاعْبُدْنِی ) (٢)

میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے پستم میری عبادت کرو۔

اب جولوگ معبودحقیقی کی تلاش میں گمراہی کاشکارہوجاتے ہیں اورالله کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش کرنے لگتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے خداوندعالم نے بہترین انتظام کیاہے،اس نے ہرزمانہ میں راہ مستقیم سے ہٹ کرچلنے والے اورالله کے علاوہ کے کسی دوسرے کی عبادت کرنے والے

____________________

١)بحارالانوار/ج ۴۶ /ص ۵۶

. ٢)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١۴.

۱۱

لوگوں کوراہ حق کی ہدایت کے لئے ایک ہادی بھجتارہاہے۔

( وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلّ اُمَّةٍ رَسُوْلًااَنِِ اعْبُدُوااللهَ وَاجْت نبُواالطَّاْغُوْتَ ) (١)

ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا(تاکہ وہ تم سے کہیں کہ)الله کی عبادت کرو اور

طاغوت سے اجت ناب کرو (اورآج بھی اس کاایک ہادی پردہ غٔیب میں رہ کرہمیں ہدایت کررہاہے )۔

امیرالمومنین حضرت علینے نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کے مبعوث کئے جانے کے رازومقصدکو نہج البلاغہ میں اس طرح بیان فرمایاہے :فَبَعَثَ اللهُ مُحمّداًلِیَخرجَ عِبادَهُ مِن عبادَةِ الاَوثَانِ اِلٰی عبادته ۔(۲)

الله نے حضرت محمد (صلی الله علیھ و آلھ) کواس لئے مبعوث کیاہے تاکہ وہ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کرخداپرستی کی طرف لے آئیں۔

خداوندعالم زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنانمائندہ اوررہبربھیجتارہاہے،سب سے پہلے حضرت آدم(علیھ السلام) (علیھ السلام)کوبھیجاتاکہ اپنی اولادکوکفر سے دوررہنے کی ہدایت کریں،اسی طرح یکے بعددیگرے ہدایت کے لئے انبیاء ورسل آتے رہے اورآخری نبی کے بعدان کی نسل سے آئمہ طاہرین کا سلسلہ شروع ہوااورآج بھی الله کی طرف سے ایک ہادی موجودہے جوپردہ غٔیب سے لوگوں ہدایت کرتے رہتے ہیں لیکن اکثرلوگ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے الله کے ان بھیجے ہوئے نبیوں کی باتوں کونہیں مانتے ہیں اوردنیامیں کسی طاقتورچیزکودیکھ کراسی کی عبادت شروع کردیتے ہیں۔

۴ ۔ پروردگارکی تعظیم کرناواجب ہے

جب انسان کسی عظیم مرتبہ شخصیت سے ملاقات کرتاہے اورایک بڑے عالم وقابل شخص کادیدارکرتا ہے ، تویہ ملاقات اوردیدارانسان کوتواضع اوراس کے سامنے جھکنے پرآمادہ کرتی ہے ۔

____________________

. ١)سورہ نحل/آیت ٣۶

. ٢)نہج البلاغہ خطبہ ١۴٧

۱۲

ایک عالم وقابل شخص کادیدارانسان کواس کے ادب واحترام وتعظیم وتکریم پرمجبورکردیتا ہے اورانسان اپنے آپ کواس کی عظمت اوراس کے علم وکمال کے آگے خودکوناچیزاورکم علم شمارکرتاہے تواس کاادب وتعظیم کرنے لگتاہے ۔ خداوندعالم تمام عظمتوں اورجلالتوں کامالک ہے ،وہ سب سے بڑاہے ،سب سے بڑاعالم ہے ،حی ہے، قدیرہے،یہ تمام صفات ثبوتیہ اورسلبیہ اس کی عظیم ہونے کی واضح دلیل ہیں اوروہی سب کاحقیقی مولاوآقاہے لہٰذاہرانسان پرلازم ہے کہ اپنے حقیقی مولاوآقاکی تلاش کرے اوراس کاادب واحترام اورتعظیم کرے لہذاجب انسان حقیقی مولاکی تلاش کرتاہے تواپنے آپ کواس کی عظمت وجلالت کے آگے ناچیزاورکم علم حساب کرتاہے ،اپنے آپ کوذلیل وحقیرپاتاہے تواس کے ادب واحترام ،اس کی تعظیم وتکریم پرآمادہ ہوجاتاہے۔

۵ ۔ہرانسان محتاج اورنیازمندہے

اشرف المخلوقات انسان خواہ کت نی مال ودولت کامالک بن جائے اورکت نے ہیں عیش وآرام کاسامان جمع کرلے لیکن پھربھی اپنے آپ کوعاجزوانکسار،ضعیف وناتواں اورمحتاج وضرورتمندمحسوس کرتاہے اورکسی طرح سے اپنی غرض اورضرورت کوحاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اورانسان پرلازم ہے کہ اپنی حاجتوں کوپوری کرنے کے لئے کسی ایسی ذات کی طرف رجوع کرے جو کسی کامحتاج نہ ہو،جودینے سے انکارنہ کرے اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہ آسکے اوریہ صرف پروردگارکی ذات ہے جوہرچیزسے بے نیازاورغنی مطلق ہے،سب کی حاجت اورضرورت کوپوراکرتاہے اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ رحمت کوئی نہیں آسکتی ہے اس نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کووعدہ دیاہے کہ میں تمھاری آوازکوسنتاہوں لہٰذاتم اپنی حاجتوں کوصرف ہی سے بیان کرو اورطلب کرو( یٰااَیُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلٰی اللهِ وَاللهُ هُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدِ ) (١)

اے لوگو!تم سب الله کی بارگاہ کے فقیرہواورالله صاحب دولت اورقابل حمدوثناہے ۔

( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُمْ ) (۲)

اورتمھارے پرودگارکاارشادہے کہ مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا۔

____________________

١)سورہ فٔاطر/آیت ١۵

. ٢)سورہ غٔافر/آیت ۶٠.

۱۳

عبادت اوربندگی کاطریقہ

جب پروردگارنے جن وانس کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورطینت وفطرت انسانی میں عبادت کاجذبہ پیداکیاہے اورشکرمنعم کوواجب قراردیاہے ان تمام چیزوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ الله کی اطاعت وبندگی کرنالازم ہے مگرسوال یہ ہے کس طرح اس اطاعت وبندگی اورتعظیم کرتکریم کی جائے کس طرح اس کاادب واحترام کیاہے اگراس کی اطاعت وبندگی کرنے کاکوئی خاص طریقہ ہے تو اپنے بندوں کواس سے آگاہ کر ے خداوندعالم نے قرآن کریم کی چندمتعددآیتوں میں نمازکو شکرنعمت اوربندگی کاطریقہ قراردیاہے:

( اِنَّااَعْطَیْنَاکَ الْکُوثَرَفَصَلّ لِرَبّکَ وَالنْحَرْاِنَّاشَانِئَکَ هُوَالاَبْتَرُ ) (١)

اے رسول بر حق بےشک ہم نے تمھیں کوثر عطا کیالہٰذاتم اپنے رب کے لئے

نمازپڑھواورقربانی دو،یقیناتمھارادشمن بے اولادرہے گا۔

کتب تفاسیر میں لفظ کوثر کے متعدد معنی ذکرہوئے کئے گئے ہیں:خیرکثیر، بہشت میں ایک نہر جناب سیدة کی نسل سے اولاد کثیر، شفاعت،قرآن، اسلام، علمائے دین واصحاب ویاران باوفا ، نبوت ۔

ان مذ کو ر مواردمیں سے ہر ایک پر کوثر کا مصداق ہو تا ہے اور ممکن ہے ان سب کےمجموعہ کوکوثر کہا جاتاہولیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم نے جس قدرخیرکثیراورنعمتیں اپنے حبیب حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کوعطاکی ہیں کسی اورکونہیں دی ہیں،انتہایہ ہے کہ آنحضرت کے دشمنوں کوابتربنادیاہے اوران کی نسلوں کومنقطع کرکے اپنے حبیب کی لخت جگرسے ایک ایسی نسل پیداکی جوقیامت تک باقی رہے گی، لہٰذاخداوندعالم نے ان تمام نعمتوں کے نازل کرنے پراپنے رسول سے کہا: اے میرے حبیب تم ان نعمتوں کے نزول پر میرا اس طرح شکر اداکرو:

( فَصَلّ لِرَبّکَ وَالنْحَرْ،اِنَّاشَانِئَکَ هُوَالاَبْتَرُ )

اپنے رب کے لئے نمازپڑھواورقربانی دو،یقیناتمھارادشمن بے اولادرہے گا۔

اللھ نے اپنے حبیب سے ان تمام نعمتوں پر شکراداکرنے کے لئے نمازاورقربانی کامطالبہ کیاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ انسان کوجب بھی کوئی خیرونعمت نصیب ہوتواس کافرض بنتاہے کہ خداکاشکرخدااداکرے اورشکرخداکابہترین طریقہ یہ ہے کہ نمازقائم کرے اورراہ خدامیں قربانی دے۔

____________________

. ١)سورہ کٔوثر/آیت ١۔ ٢۔ ٣

۱۴

)( اِنَّنِی اَنَااللهُ لااِلٰهَ اِلّااَنَافَاعْبُدْنِی وَاَقِمِ الصَّلاةَلِذِکْرِی ) (١)

میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے پس تم میری عبادت کرواورمیری یادکے لئے نمازقائم کرو۔

ان مذکورہ دونوں ایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ الله کی عبادت اوربندگی کرنے کاایک خاص

طریقہ ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کے لئے نمازقائم کی جائے تاکہ نمازکے ذریعہ اس کی نعمتوں کاشکراداکیاجائے اورنعمتوں کے نزول کاسلسلہ جاری رہنے کے لئے دعاء کی جائے اورنمازکی صورت میں اس کاادب واحترام کیاجائے۔

رازوجوب نماز

اس سے پہلے کہ ہم نمازکے واجب ہونے کے رازکوذکرکریں خودنمازکے واجب ہونے کو بیان کردینامناسب سمجھتے ہیں،سورہ کوثروطٰہٰ آیت ١ ۴ کے علاوہ اوربھی آیتیں ہیں جو نماز کے واجب ہونے پردلالت کرتی ہیں جن میں سے چندآیت ذکرکررہے ہیں :

( اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُومِنِیْنَ کِتَاباًمَوقُوتاً ) (۲)

بے شک نمازکوصاحبان ایمان پرایک وقت معین کے ساتھ واجب کیاگیاہے۔

زرارہ سے مروی ہے کہ امام صادق اس قول خداوندی کے بارے میں فرماتے ہیں : موقوت ) سے مفروض مرادہے ۔( ٢

( اَقِیْمُوالصَّلٰوةَ وَاتَّقُوهُ هُوَ الَّذِیْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ) (۴)

نمازقائم کرواوراللھسے ڈروکیونکہ وہ وہی ہے جسکی بارگاہ میں حاضرکئے جاؤگے ۔

( مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَّقُوْهُ وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَوَلَاتَکُوْنَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (۵)

تم سب اپنی توجہ خداکی طرف رکھواوراس سے ڈرتے رہو،نمازقائم کرواورخبردارمشرکین میں سے نہ ہوجانا۔

( وَاقِیْمُوالصَّلٰوةَ وَاٰتُواالزَّکٰوةَ ) (۶) اورنمازقائم کرواورزکات اداکرو۔

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١۴

۲)سورہ نٔساء/آیت ١٠٣

۳)کافی/ج ٣/ص ٢٧٢.

.۴)سورہ أنعام/آیت ٧٢

. ۵)سورہ رٔوم/آیت ٣١

. ۶)سورہ بٔقرہ /آیت ١١٠ ۔مزمل /آیت ٢٠

۱۵

ان مذکورآیات کریمہ سے نمازکاواجب ہوناثابت ہے اورمعصومین سے ایسی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں واضح طورسے نمازکے واجب بیان کیاگیاہےعن عبدالله بن سنان عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ان الله فرض الزکاة کمافرض الصلاة .(١)

امام صادق فرماتے ہیں:خداوندعالم نے زکات کواسی طرح واجب قراردیاہے جس طرح نمازکوواجب قراردیاہے ۔عن الحلبی قال:قال ابوعبدالله علیه السلام فی الوترقال:انماکتب الله الخمس ولیستالوترمکتوبة ان شئت صلیتهاوترکهاقبیح .(۲)

حلبی سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے نمازشب کے بارے میں معلوم کیاتوآپ نے فرمایا:خداوندعالم نے پانچ نمازیں واجب کی ہیں اورنمازشب کوواجب قرارنہیں دیاہے، چاہوتواسے پڑھوالبتہ نمازشب کاترک کرناقبیح ہے ۔

احادیث معصومین میں نمازکے واجب قرادئے جانے کی اس طرح بیان کی گئی ہیں:

عمربن عبدالعزیزسے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام بن حکم نے بتایا کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:جب نمازوعبادت لوگوں ان کی حاجتوں اورضرورتوں کوپورا کرنے سے دور رکھتی ہے اوران کے بدن کوزحمت میںڈالتی ہے پس خداوندعالم نے نمازکوکیوں واجب قراردیا ہے؟ امام (علیھ السلام) نے فرمایا:نمازکے واجب قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن کی وضاحت اس طرح سے ہے:اگرلوگوں کو اسی طرح چھوڑدےاجاتااورانھیں نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)(اوران کی آل پاک) کے ذکرویادکے بارے میں کوئی ت نبیہ اورتذکرنہ دےاجاتااورصرف کتاب خداکوان کے ہاتھوں میں دے دیاجاتاتوان لوگوں کاوہی حال ہوتاجواس (اسلام کے قبول کرنے)سے پہلے تھایعنی وہ اپنی حالت پرباقی رہتے ،اورنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)(اوران کی آل اطہار )کہ جنھوں نے دین اسلام اپنایااورقبول کےااورکتابوں کوبھی وضع وجعل کیااورلوگوں کواپنے مذہب میں داخل کیااورانھیں اپنے مذہب کی طرف دعوت دی اورکبھی کبھی دشمنان دین سے جنگ بھی کی لیکن جب وہ دنیاسے چلے جائیں گے ان کانام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گاان کاحکم مندرس ہوجائے گااوروہ ایسے ہوجائیں کہ گویااصلاوہ اس دنیامیں موجودہی نہ تھے پس خداوندعالم نے ارادہ کیاکہ حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیھ و آلھ)کادین ومذہب اوران کاامرکوباقی رکھاجائے اور بھلایانہ جائے لہٰذاخداندعالم نے ان کی امت پرنمازکوواجب قرار دیا

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص ٣

.۲)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١١

۱۶

اسی نمازمیں پوری دنیاکے تمام مسلمان روزانہ پانچ مرتبہ بلندآوازسے اس پیغمبرکانام لیتے ہیں اور افعال نمازکوانجام دینے کے ذریعہ خداوندتبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوراس کاذکر کرتے ہیں پس اسی لئے خداوندعالم نے امت محمدی پرنمازکوواجب قراردیاتاکہ وہ آنحضرت (اوران کی آل پاک ) کے ذکرسے غافل نہ ہوسکیں اور انھیں نہ بھول سکیں اورنہ ان کاذکرمندرس نہ ہوسکے۔(١)

محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں جوخط لکھے گئے ان میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ خداوندعالم نے نمازکوکس لئے واجب قراردیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے خط کے جواب میں تحریرکیااوراس میں نمازکے واجب قرادئے جانے کی اس طرح وجہ بیان کی: نمازکے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ خداوندعزوجل کی ربوبیت کااقرارکیاجائے اورخداکوشریک جاننے سے انکارکیاجائے اورنمازکے ذریعہ خداوندجل جلالہ کی بارگاہ میں عجزوانکساری، تواضع ، خضوع اوراعتراف گناہ کااظہارکیاجائے ،نمازکے ذریعہ گذشتہ گناہوں کے بارے میں طلب بخشش کی جائے ،خداوندعالم کی عظمت کوذہن میں رکھ کراس کے سامنے روزانہ پانچ مرتبہ پیشانی کوزمین پررکھاجائے ،انسان خداکے علاوہ کسی کی تعریف نہ کرے اورطغیان وسرکشی نہ کرے ،انسان اپنے آپ کوخداکے سامنے ذلیل و حقیرمحسوس کرے اورخداسے دین ودنیاکی بھلائی کی تمناکرے،انسان شب وروزہمیشہ اپنے رب کی یادتازہ کرے اوراپنے مولاومدبراورخالق یکتاکونہ بھول سکے ،اپنے رب کاذکرکرے اوراس کی بارگاہ میں قیام کرے تاکہ گناہوں اورہرقسم کے فسق وفجورسے محفوظ رہے ۔(٢)

____________________

. ١)وسائل الشیعہ/ج ٢/ص ٣١٧

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١۴

۱۷

نمازکی اہمیت

قرآن واحادیث میں نمازکوجواہمیت دی گئی ہے وہ اس چیزسے معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں فروع واحکام دین سے متعلق جو آیات موجودہیں ان میں جت نی آیتیں نمازکے بارے میں نازل ہوئی ہیں ات نی مقدارمیںفروع دین میں سے کسی کے بارے میں موجودنہیں ہیں،

خمس کے بارے میں ایک ، روزہ کے بارے میں ٣١ / حج کے بارے میں ١٨ / اورزکات سے متعلق ٣٣ آیتیں موجود ہیں لیکن خداوندعالم نے اس عظیم عبادت (نماز) کے بارے میں ١٢٢ /یااس سے بھی زیادہ زیادہ آیتیں نازل کی ہیں کہ جن میں نماز کی اہمیت ا وراس کے اہم احکام ومسائل کو بیان کیا گیا ہے ۔

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے کہ مکتب تشیع میں فقہی روایات کا ایک تہائی حصّہ نماز اور مقد ما ت نماز سے مر بوط ہے ،کتب اربعہ اور “وسا ئل الشیعہ ” اور “ مستدرک الوسائل” کواٹھاکردیکھیں توان میں سب سے زیادہ احادیث نمازسے تعلق رکھتی ہیں،تحقیق کے مطابق “وسا ئل الشیعہ ” اور “ مستدرک الوسائل”دونوں ایسی مفصل کتا بیں ہیں کہ جن میں مکتب تشیع کی تمام قفہی احادیت وروایات درج ہیں ان دونوں کتابوں کی احا دیث کی تعداد مجموعاً ساٹھ ہزار ہے اور ان دونوں کتابوں کی ساٹھ ہزار روایتوں میں بیس ہزار احادیث نماز سے تعلق رکھتی ہیں ۔

فروع دین میں نمازکواس کی اہمیت کی بنیادپرپہلے ذکرکیاگیاہے اور اصل اسلام قراردیاگیاہے جیساکہ روایت میں آیاہے حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں:ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں ایااورعرض کیا:اے الله کے نبی!میں یہ جانناچاہتاہوں کہ دین اسلام میں کونسی چیزاصل ہے اورکون اس کی شاخ وفرع ہے اورکون اس کی چوٹی ہے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے فرمایا: نمازدین اسلام کی جڑہے، زکات اس کی فرع اورشاخ ہے اور جہاد اس کی بلند تر ین چوٹی ہے ۔(۱)

____________________

١)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢۴٢

۱۸

نمازکی اہمیت کے بارے میں معصومین سے چندروایت ذکرہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:لکل شی ؤجهة ووجه دینکم الصلاة (۱)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہرچیزکاایک چہرہ ہوتاہے اورنمازتمھارے دین کاچہرہ ہے۔

.قال علی علیه السلام:الصلاة قربان کل تقی (۲)

حضرت علیفرماتے ہیں :نمازہرپرہیزگارکاخداوندعالم سے تقرب حاصل کرنے کابہترین ذریعہ ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:الدعاء مفتاح الرحمة والوضوء مفتاح الصلاة والصلاة مفتاح الجنة .(۳)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :دعارحمت کی کنجی ہے اوروضونمازکی کنجی ہے اورنمازبہشت کی کنجی ہے۔

قال علی علیه السلام:الصلاة حصن الرحمٰن ومدحرة الشیطان .(١)

حضرت علیفرماتے ہیں:نمازخدائے مہربان کاقلعہ ہے اورشیطان کودورکرنے کابہترین وسیلہ ہے۔

تمام انبیائے کرام نمازی تھے

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے کہ تمام ادیان الٰہی میں نمازکاوجودتھا،

تمام انبیاء کی شریعت میں رائج وموجود تھی اوردنیامیں جت نے بھی نبی ورسول آئے سب الله کی عبادت کرتے تھے ، اہل نمازتھے اوراپنی امت کے لوگوں کونمازوعبادت کی دعوت بھی دیتے تھے لیکن ہرنبی کی شریعت میں نمازوعبادت کاطریقہ طریقہ یکساں نہیں تھا،جس طرح ہرنبی کے زمانے کاکلمہ یکساں نہیں تھااسی طرح نمازکاطریقہ بھی مختلف تھا ،تمام انبیاء کی شریعت میں نمازکے رائج ہونے کی سب سے یہ ہے کہ خداندعالم نے قرآن وحدیث میں اکثرانبیاء کے ساتھ نمازکاذکرکیاگیاہے اوربیان کیاگیاہے کہ تمام نبی نمازی تھے اورنمازکی دعوت بھی دیتے تھے

____________________

. ۱)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٣٨.

. ۲)نہج البلاغہ /کلمات قصار/ش ١٣۶ /ص ٣٨۶

. ۳)نہج الفصاحة /ح ١۵٨٨ /ص ٣٣١

. ۴)غررالحکم/ج ٢/ش ٢٢١٣ /ص ١۶۶

۱۹

نمازاورحضرت س آدم

حسین ابن ابی العلاء سے مروی ہے ،امام صادق فرماتے ہیں :جب خداوندعالم نے آدم(علیھ السلام) کوجنت سے نکال کردنیامیں بھیجاتوآپ کے پورے جسم پرسر سے پیروں کے تلووں تک سیاہ رنگ کے داغ پڑگئے(جسے عربی میں شامہ کہتے ہیں) جس کی وجہ سے آپ کے جسم سے بدبوآنے لگی ، حضرت آدم (علیھ السلام)اپنے جسم سے آنے والی بدبوسے پریشان ہوگئے اوربہت زیادہ غمگین رہنے لگے اوررونے وگڑگڑانے لگے ،ایک دن جبرئیل امین حضرت آدم (علیھ السلام) کے پاس آئے اورپوچھا:

اے آدم! تمھارے رونے کاسبب کیاہے ؟حضرت آدم (علیھ السلام)نے جواب دیا:ان کالے داغ اوران کے اندرپیداہونے والی بدبونے مجھے غمگین کردیاہے ،جبرئیل نے کہا:اے آدم! اٹھواورنمازپڑھو کیونکہ یہ پہلی نماز(یعنی نمازظہر)کاوقت ہے ،حضرت آدم(علیھ السلام) نے اٹھ کرنماز(ظہرپڑھی توفوراًآپ کے جسم سے سروگردن کارنگ بالکل صاف ہوگیااورجب دوسری نماز(یعنی عصر)کاوقت پہنچاتوجبرئیل نے کہا:اے آدم(علیھ السلام)!اٹھواورنمازپڑھوکیونکہ اب یہ دوسری نمازکاوقت ہے،جیسے ہی حضرت آدم(علیھ السلام) نے نمازعصرپڑھی توناف تک بدن کارنگ صاف ہوگیا

اس کے بعدجب تیسری نماز(یعنی مغرب )کاوقت پہنچاتوجبرئیل نے پھرکہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھواورنماز(مغرب)پڑھوکیونکہ اب یہ تیسری نمازکاوقت ہے، جیسے حضرت آدم(علیھ السلام) نے نماز(مغرب) پڑھی تودونوں گھٹنوں تک بدن کارنگ صاف ہوگیا،جب چوتھی نماز (یعنی عشا) کاوقت پہنچاتوکہا:اے آدم(علیھ السلام)!اٹھواورنماز(عشا)پڑھوکیونکہ اب یہ چوتھی نمازکاوقت ہے ،حضرت آدم(علیھ السلام) نے نماز (عشا) پڑھی تو پیروں تک بدن کا رنگ بالکل صاف ہوگیا جب پانچوی نماز(یعنی صبح )کاوقت پہنچاتوکہا:اے آدم(علیھ السلام)! اٹھو اور نماز (صبح) پڑھو کیونکہ اب یہ پانچوی نمازکاوقت ہے ،جیسے ہی حضرت آدم(علیھ السلام) نماز (صبح) سے فارغ ہوئے تومکمل طورسے پورے کارنگ صاف ستھراہوگیااورآپ نے خداکی حمدوثنا کی،جبرئیل نے کہا: اے آدم!تمہاری اولادکی مثال ان پنجگانہ نمازوں میں ایسی ہی ہے جس طرح تم نے نمازپنجگانہ کے ذریعہ اس شامہ سے نجات پائی ہے پس تمہاری اولادمیں جوشخص شب وروزمیں یہ پانچ نمازیں پڑھے گاوہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجائے گاجیسے تم اس شامہ سے پاک وصاف ہوئے ہو ۔(۱)

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢١۴

۲۰

نمازاورحضرت ادریس

عن الصادق علیه السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسهلة فضل فیه واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسهلة بیت ادریس النبی علیه السلام الذی کان یخیط فیه ویصلی فیه ومن دعاالله فیه بمااحبّ قضی له حوائجه ورفعه یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیه السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائه .(١)

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جس میں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھے جوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔

نمازاورحضرت نوح

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:کان شریعة نوح علیه السلام ا نٔ یعبدالله بالتوحید والاخلاص وخلع الاندادوهی الفطرة التی فطرالناس علیهاواخذمیثاقه علی نوح علیه السلام والنبیین ا نٔ یعبدوالله تبارک وتعالی ولایشرکوا به شیئاوامره بالصلاة والامروالنهی والحرام والحلال .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:حضرت نوح کااصول یہ تھاکہ آپ خدائے یکتاکی عبادت کرتے تھے اس کی بارگاہ میں اخلاص کااظہارکرتے تھے ،اسے بے مثل مانتے تھے اورآپ کی یہ وہی فطرت تھی کہ جس فطرت پرخداوندعالم نے لوگوں کوقراردیاہے پروردگارعالم نے حضرت نوح اورتمام انبیائے کرام سے عہدلیاہے کہ وہ الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کریں اورکسی بھی چیزکواس کاشریک قرارنہ دیں سے دوری کریں اورخداوندعالم نے حضرت نوح(علیھ السلام) کونمازپڑھنے ،امربالمعروف ونہی عن المنکرکرنے اورحلال وحرام کی رعایت کرنے کاحکم دیاہے۔

____________________

١)بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

. ٢) کافی /ج ٨/ص ٢٨٢

۲۱

نمازاورحضرت ابراہیم

حضرت ابرہیم اولوالعزم پیغمبر وں میں سے تھے ا ورآپ کوبت شکن ،حلیم ،صالح ، مخلص اورموحدجیسے بہترین القاب سے یادکیاجاتاہے ،آپ نے اپنی عمر کے دوسوبرس کفروشرک سے مقابلہ اور لوگوں کو تو حیدباری تعالیٰ وا طاعت خداوندی کی دعوت کرنے کی راہ میں گزارے ہیں. مکتب حضرت ابراہیم میں آپ کی پیر وی کرنے والوں کے درمیان نماز وعبادت کو ایک عمدہ واجبات میں شمارکیاجاتاتھا،جب خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے شیرخوار فرزند اسمعیل (علیھ السلام)کو ساتھ لے کر سرزمین مکہ کی طرف ہجرت کرجائیں ،آپ نے حکم خدا پر عمل کیااورشام سے مکہ میں خانہ کعبہ تک پہنچے تو آپ نے وہاں اس آپ وگیاہ سرزمین پرایک نہایت مختصرطعام اورپانی کے ساتھ زمین پراتارا. بیوی اوربچے سے خداحافظی کرکے واپسی کارادہ کیاتوجناب ہاجرہ نے ابراہیم (علیھ السلام) کادامن پکڑکرعرض کیا:ہمیں اس بے آب وگیاہ زمین پرجگہ کیوں چھوڑے جارہے ہو؟جواب دیاکہ:یہ حکم خداہے ،جیسے ہی ہاجرہ نے حکم خداکی بات سنی توخداحافظ کہااورعرض کیا:جب حکم رب ہے تواس جگہ آب وگیاہ زمین پرہماری حفاظت بھی وہی کرے گا،جب ابراہیم (علیھ السلام)چلنے لگے توبارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

( رَبَّنّااِنَّنِیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍغَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَبَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّناَلِیُقِیْمُواالَصَّلوٰةَ ) (۱)

اے ہما رے پروردگا ر!میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آ ب وگیاہ وادی میں چھوڑدیا ہے تاکہ نمازیں قائم کریں یعنی تاکہ وہ یہاں سے لوگوں کو دعوت نماز کی آواز بلند کی کریں اور نماز یں قائم کریں اور قیام نماز کو دینی ذمہ داری سمجھیں اور تو میری اس ذریت کو نہ ت نہا نماز پڑھنے والے بلکہ مقیم نماز بھی قرار دے (اور جب نماز قائم ہوئے گی تو لوگ شرک وطغنانی سے پاک ہوجائیں گے )۔ حضرت ابراہیم بارگاہ خداوندی میں بہت زیادہ دعاکرتے تھے اورآپ کی دعائیں قبول ہوتی تھی ،آپ کی دعاؤں میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ آپ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں :( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ) (۲) پروردگارا!مجھے اورمیری ذریّت کونماز قائم کرنے والوں میں قراردے اور اے پروردگارتومیری دعاء کوقبول کرلے۔ تاریخ میں یہ بھی ملتاہے کہ: جب اسماعیل (علیھ السلام)کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابراہم (علیھ السلام) آٹھ ذی الحجہ کو اپنے فرزند کو لے کر“لبّیک لاشریک لَکَ لبّیک ”ٔکہتے ہوئے منیٰ کے میدان میں پہنچے اور اپنی پیروی کرنے والوں کے ساتھ نماز ظہرین ومغربین باجماعت انجام دی اوراس وقت سے لیکر آج تک واد ی مٔنی اور صحرائے عرفات میں بڑے وقاروعظمت کے ساتھ نماز جماعت برگزار ہوتی ہے اور خدا کی وحدانیت کے نعرے بلند ہوتے ہیں ۔

____________________

١)سورہ أبراہیم /آیت ٣٧

. ۲)سورہ أبراہیم/آیت ۴٠

۲۲

عن جابربن عبدالله الانصاری قال:سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول:مااتخذالله ابراهیم خلیلا،الالاطعامه الطعام ،وصلاته باللیل والناس ینام .(١)

رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں : خدا وند متعال نے حضرت ابراہیم کو دوکام انجا م دینے کی وجہ سے اپنا خلیل منتخب کیا ہے ١۔فقیروں ومسکینوں کو کھانادینا ، ٢۔ رات میں نمازشب پڑھناکہ جب سب لوگ سوتے رہتے ہیں ۔

نمازاورحضرت اسماعیل

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( وَاذْکرْفِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْل اِنّه کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًانَّبِیًا ) (٢)

اپنی کتاب میں اسماعیل کاتذکرہ کروکیونکہ وہ وعدے کے سچے اورہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے ۔

( وَکَانَ یَاْ مُرُ اَهْلَهُ بِاالصَّلٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبّهِ مَرْ ضیّاً ) .(۳) حضرت اسمٰعیل ہمشہ اپنے گھروالو ں کو نماز وزکات کا حکم دیتے تھے اور اپنے پر وردگارکے نزدیک پسند ید ہ تھے۔

نمازاوراسحاق ویعقوب وانبیائے ذریت ابراہیم

حضرت اسحاق ،یقوب، لوط اورانبیائے ذریت ابراہیم کے بارے میں قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے:

( وَوَهَبْنَالَه اِسْحٰقَ وَیْقُوْبَ نَافِلَةً وَکُلاجَعَلْنَاصٰلِحِیْنَ وَجَعَلْناهُمْ آئمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَاوَا ؤحَیْنَا الیهم فِعْلَ الخیراتِ وَاِقَامَ الصلٰوةِ وَاِیتاءَ الزکوٰةِ وکانوالَنَا عٰبدِیْنَ ) (۴)

اورپھر ابراہیم کواسحاق اوران کے بعدیعقوب عطاکئے اورسب کوصالح اورنیک کردارقراردیا،اورہم نے ان سب کو پیشواقراردیا جوہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کا ر خیر کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی وحی کی اور یہ سب کے سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے ۔

____________________

١)علل الشرایع /ج ١/ص ٣۵

. ٢)سورہ مریم/آیت ۵٣

. ٣ )سورئہ مریم آیت ۵ ۵

۴)سورہ أنبیاء ایت ٧٣

۲۳

نمازاورحضرت شعیب

جب حضرت شعیب اپنی قوم کو غیرخدا کی عبادت،مالی فساداور کم فروشی سے منع کیا تو انھوں نے آپ سے کہا:

( یَاشُعیْبُ اَصَلٰوتُُکَ تَاْمُرُکَ ا نَْٔ نَتْرُ کَ مَا یَعْبُدُآ بَآؤُ نَا ا ؤْ ا نْٔ نَّفْعلَ فیِ ا مَْٔوَا لِنَا مَا نَشَؤ اِنَّکَ لَاَ نْتَ الحَلِیْمُ الرَّشَیْدُ ) .(۱) اے شعیب ! کیاتمھاری نمازتمھیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑدیں یااپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں ، تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو ۔

نمازاورحضرت موسی

اولوالعزم پیغمبرحضرت موسیٰ جب کوہ طوروسیناپرپہنچے توآپ نے یہ آوازسنی:

( یَامُوسیٰ اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِالْمُقَدَّسِ طَوًی وَاَنَااَخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لَمَایُوحیٰ اِنَّنِیْ اَنَااللهُ فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِیْ ) (۳)

اے موسیٰ!میں تمھاراپروردگارہوں لہٰذاتم اپنی جوتیوں کواتاردوکیونکہ تم طویٰ نام کی مقدس اورپاکیزہ وادی میں ہو،اورہم نے تم کومنتخب کرلیاہے لہٰذاجووحی جاری کی جارہی ہے اسے غورسے سنو، میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی خدانہیں ہے پس تم میری عبادت کرواوریادکے لئے نمازقائم کرو۔

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : خدا ئے عزوجل نے حضرت موسیٰپر وحی نازل کی : اے موسیٰ ! کیا تم جانتے ہو ، میں نے اپنی پوری مخلوق میں سے صرف تم ہی کو اپنے سے ہمکلام ہونے کے لئے کیوں منتخب کیا ہے ؟ عرض کیا : پرو درگار ا ! تو نے مجھ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے ؟ خدا نے کہا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے تمام بندوں پر نظر ڈالی لیکن تمھارے علاوہ کسی بھی بندے کو تم سے زیادہ متواضع نہ پایا ، کیونکہ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے چہرے کو خاک پر رکھتے ہو ۔(۳)

____________________

. ۱) سورہ ۂود/آیت ٨٧

۲)سورہ طٰٔہٰ /آیت ١٢ ۔ ١۴

۳)اصول کافی/ج ٣/ص ١٨٧

۲۴

نمازاورحضرت لقمان

قرآن کریم میں ایاہے کہ حضرت لقمان اپنے فرزندسے وصیت کرتے ہیں:

( یابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْعَلٰی مَااَصابَکَ ) (۱)

بیٹا!نمازقائم کرو،نیکیوں کاحکم دو،برائیوں سے منع کرواوراس راہ میں تم پرجومصیبت بھی پڑے اس پرصبرکرو۔

نمازاورحضرت عیسیٰ

خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے کہ:جب حضرت مریم بچے کواٹھائے ہوئے قوم کے پاس آئیں تولوگوں نے کہا:مریم!یہ تم نے بہت براکام کیاہے ،ہارون کی بہن!نہ تمھاراباپ براآدمی تھااورنہ تمھاری ماں بدکردارتھی ،پس حضرت مریم اپنے بچہ طرف اشارہ کیاکہ اس سے معلوم کرلیں، میں نے کوئی گناہ نہیں کیاہے قوم نے کہا:ہم اس سے کیسے بات کریں جوبچہ ابھی گہوارہ میں ہے ،بچے نے گہوارہ سے کلام کیا:

( اِنِّیْ عَبْدُ اللهِ اٰتٰنِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیاوَجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًااَیْنَ مَاکُنْتُ وَاَوْ صٰنِی بِالصّلٰوة وَالزّ کٰوة ماَدُمتُ حیّاً ) (۲)

میں الله کابندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی ہے اورمجھے نبی بنایاہے ،اورجہاں بھی رہوں بابرکت قراردیاہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، مجھے نماز وزکات کی وصیت کی ہے۔

نمازاورحضرت سلیمان

حضرت سلیمان غالباًراتوں کونمازمیں گذارتے تھے اورخوف خدامیں اپ کی آنکھوں سے انسوں جاری رہتے تھے اور کثرت نمازوعبادت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان کثیرا الصلاة کے نام سے مشہورتھے علامہ مجلسی “بحارالانوار”ارشاد القلوب سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: حضرت سلیمان کہ جن کے پاس حکومت وبادشاہت اورہرطرح کے وسائل موجود تھے لیکن آپ بالوں کانہایت ہی سادہ لباس پہنا کرتے تھے ، رات میں کھڑے ہوکر اپنی گردن کودونوں ہاتھوں کی انگلیوں آپس میںڈال کرباندھ لیاکرتے تھے اور پوری رات یادخدا میں کھڑے ہوکر رویا کرتے تھے حضرت سلیمان خرمے کی چھال سے ٹوکریاں بنایاکرتے تھے جس کی وجہ سے آپ نے خداسے حکومت وبادشاہت کی درخواست کی تاکہ کافروطاغوت بادشاہوں سرنگوں کر ) سکوں۔(۳)

____________________

. ۱)سورہ لٔقمان/آیت ١٧.

۲ )سورہ مٔریم آیت ٢٧ ۔ ٣١

.۳)بحارالانوار/ج ١۴ /ص ٨٣

۲۵

نمازاورحضرت یونس

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:( لَولَااَنّه کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطَنِهِ اِلٰی یَومِ یُبْعَثُونْ ) (١)

اگرحضرت یونس تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہو تے تو قیامت تک شکم ماہی میں ہی پڑے رہتے ۔

تفسیر مجمع البیان میں قتادہ سے نقل کیاگیاہے کہ تسبیح یونس سے نمازمراد ہے کیونکہ وہ نماز گزاروں میں سے تھے اور نماز ہی کی وجہ سے ان کو خدانے انھیں اس رنج ومصیبت سے نجات دی ہے۔(۲)

نمازاورحضرت زکریا

ہ( ُنَالِکَ دَعَازَکَرِیارَبَّه قَالَ هَبَْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَاءِ فَنَاْدَتْهُ الْمَلٰئِکَةُ وَهُوَقٰائِمٌ یُصَلِّیْ فِیْ الْمَحْرَاْبِ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْییٰ ) (۳)

جس وقت حضرت ذکریانے جناب مریم کے پاس محراب عبادت میں عنایت الٰہی کامشاہدہ کیااورجنت کے کھانے کودیکھاتوآپ نے اپنے پروردگارسے دعاکی کہ :مجھے ایک پاکیزہ اولادعطافرماکہ توہرایک کی دعاکاسننے والاہے تو ملائکہ نے انھیں اس وقت آوازدی کہ جب وہ محراب عبادت میں کھڑے ہوئے نمازمیں مشغول تھے کہ خدا تمھیں یحییٰ کی بشارت دے رہاہے ۔

نمازاورحضرت یوسف

حضرت یوسف کی سوانح حیات میں ملتاہے کہ آپ کو عزیز مصرنے ایک تہمت لگاکرزندان میں ڈالدیااس وقت عزیزمصرکاایک غلام اپنے آقاکو غضبناک کرنے کی وجہ سے زندان میں زندگی گزاررہاتھا، وہ غلام حضرت یوسف کے بارے میں کہتا ہے کہ: آپ ہمیشہ رات میں نماز پڑھتے اوراپنے رب کی بارگاہ میں رازونیازکرتے تھے، دن میں روزہ رکھتے تھے ، بیماروں کی عیادت کرتے تھے ، مریضوں کے لئے دوائیاں بھی مہیاکرتے تھے ، مظلوم وستم دیدہ لوگوں کوخوشیاں عطاکرتے اور تسلی دیا کرتے تھے. بعض اوقات دوسرے قیدیوں کو خداپرستی کی دعوت دیاکرتے تھے،نہایت خوشی سے زندان کے ایک گوشہ میں اپنے معبودکی راہ میں قدم آٹھاتے تھے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے تھے :( رَبِّ اسِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْ عُونَنِیْ اِلَیْهِ ) .(۴) پرودگارا! یہ قید مجھے اُس کام سے زیادہ مجبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں۔(۵)

____________________

١)سورہ صٔافات/آیت ١۴٣ ۔ ١۴۴ --. ٢)تفسیرمجمع البیان/ج ٨/ص ٣٣٣ -- ٣ )سورہ آٔل عمران آیت/ ٣٨ ۔ ٣٩

. ۴)سورہ یٔوسف/آیت ٣٣ --. ۵)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ۵۶١ /ص ١٧٧

۲۶

تمام انبیاء وآئمہ نے نمازکی وصیت کی ہے

قرانی آیات اور احادیث معصومین سے یہ ظاہرہے کہ ہرنبی کے زمانے میں نمازکاوجودتھا اورتمام انبیائے کرام اہل نمازتھے اوراپنی امت کے لوگوں کونمازوعبادت کی دعوت بھی دیتے تھے اورنمازکے بارے میں وصیت بھی کرتے تھے ۔

( وَکَانَ یَاْ مُرُ اَهْلَهُ بِاالصَّلٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبّهِ مَرْ ضیّاً ) .(۱)

حضرت اسمٰعیل ہمشہ اپنے گھروالو ں کو نماز وزکات کا حکم دیتے تھے اور اپنے پر وردگارکے نزدیک پسند ید ہ تھے۔

( یٰابُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةوَاْمُرْبِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِوَاصْبِرْعَلٰی مَااَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ ) (۲)

حضرت لقمان نے اپنے فرزندسے وصیت کرتے ہیں:اے بیٹا ! نماز قائم کرو، نیکیوں کا حکم دو ، برائیوں سے منع کرو، اورجب تم پرمصیبت پڑے صبر کرو بے شک یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔

( وَاَوْحَیْنَااِلٰی مُوسٰی وَاَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰلِقَومِکُمَابِمِصْرَبُیُوْتًاوَاجْعَلُوابُیُوْتَکُمْ قِبْلَةً وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَ وَبَشِّرِالْمُو مِٔنِیْنَ ) (۳)

اورہم نے موسی اوران کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصرمیں گھربناؤاوراپنے گھروں کوقبلہ قراردواورنمازقائم کرواورمومنین کوبشارت دیدو۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:سمعته یقول:احبّ الاعمال الی الله عزوجل الصلاة وهی آخروصایا الانبیاء (علیهم السلام .(۴)

امام صادق فرماتے ہیں:الله تبارک وتعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل نمازہے اورہرتمام انبیائے کرام نے آخری وصیت نمازکے بارے میں کی ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال: قال لقمان لابنه اذاجاء وقت الصلاة فلاتو خٔرهالشی ،ٔ صلّها و استرح منها،فانّهادین ،وصلّ فی الجماعة ولوعلی راس زجّ .(۵)

____________________

. ۱ )سورئہ مریم آیت ۵ ۵

۲ )سورئہ لقمان آیت ١٧

. ۳)سورہ یونس/آیت ٨٧

۴)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١٠

۵)عروة الوثقی / ٢/ص ۴١۶

۲۷

حضرت امام صادق -فرماتے ہیں کہ:حضرت لقماننے اپنے فرزندسے وصیّت کرتے ہوئے کہا:اے بیٹا !جب نمازکاوقت پہنچ جائے تواسے کسی دوسرے کام کی وجہ سے تاخیرمیں نہ ڈالنابلکہ اول وقت نمازاداکرنااوراس کے ذریعہ اپنی روح کوشادکرناکیونکہ نمازہمارادین ہے اورہمیشہ نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنا خواہ تم نیزے پرہی کیوں نہ ہوں۔

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی وفات کے بعدکعب نے عمرابن خطاب سے پوچھا :وہ آخری جملہ کیاہے جسے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله) نے انتقال کے وقت بیان کیا تھا ؟ عمرابن خطاب نے کہا :اس بارے میں علی (علیھ السلام)سے معلوم کرو،جب کعب نے امام علی سے پوچھاتو آپ نے فرمایا:اسندت رسول الله صلی الله علیه وآله الی صدری فوضع راسه علیٰ منکبِی، فقال:الصلاة الصلاة

جب رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے انتقال کیاتواس وقت آپ کاسرمبارک میرے شانہ پررکھاتھامیں نے رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کوان کی عمرکے آخری لمحوں میں اپنے سینے سے لگایااور آنحضرت نے اپنے سر مبارک کومیرے شانہ پر قرار دیا اورمجھ سے کہا : نماز ! نماز! ۔(۱)

جابرابن عبدالله انصاری سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)خطبہ دے رہے تھے کہ حمدوثنائے الٰہی کے بعد لوگوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

علیکم بالصلاة ،علیکم بالصلاة ،فانّهاعموددینکم ۔

تم پرنمازواجب ہے ،تم پرنمازواجب ہے کیونکہ نمازتمھارے دین کاستون ہے ۔(۲)

روایت میں ایاہے کہ امیرالمومنین حضرت علی نے شہادت کے وقت تین مر تبہ نماز کے بارے میں وصیت کی:”الصلاة الصلاة الصلاة ” نماز !نماز !نماز ! ۔(۳)

____________________

١)المراجعات/ص ٣٢٩

. ٢)مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٢٨.

٣)مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ٣٠

۲۸

ابوبصیر سے مروی ہے:میں حضرت امام صادق کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ امّ حمیدہ کی خدمت میں تسلیت پیشکرنے کیلئے پہنچا تو انھوں نے رونا شروع کردیا انھیں روتے ہوئے دیکھ کر میں بھی امام (علیھ السلام)کی یاد میں رونے لگا اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا:اے ابوبصیر! اگر تم امام (علیھ السلام)کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجو د ہوتے تو ایک عجیب منظر دیکھتے ، امام نے پروازروح سے قبل اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا : میرے تمام عزیزوں واقارب کومیرے پاس جمع کیا جائے ، کوئی ایساباقی نہ رہاجواس وقت نہ آیاہو،جب سب امام (علیھ السلام)کی خدمت میں حاضر ہوگئے توامام صادق نے ان کی طرف نگاہ کر کے ارشاد فرمایا :

انّّ شفاعت نالات نال مستخفاًبالصلاة

نمازکوہلکاسمجھنے والے کوہرگزہماری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(۱)

نمازمومن کی معراج ہے

نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے خدا وعالم نے دنیامیں جت نے بھی نبی اورپیغمبربھیجے ہیں ان میں سے ہرایک نبی کے لئے ایک خاص معراج مقرر کی ہے اور مو مٔنین کے لئے بھی ایک معراج معین کی ہے کہ جسے نمازکہتے ہیں حضرت آدم کی معراج یہ تھی کہ خداوندعالم انھیں عدم سے وجو د میں لایا اور بہشت میں جگہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا:

یٰ( آدم اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجَکَ الْجَنّة ) (۲) اے آدم ! تم اور تمہاری زوجہ ( حضرت حوا)جنت میں داخل ہوجاؤ ۔

حضرت ادریس کی معراج یہ تھی کہ آپ ایک فرشتے کے پروں پر سوار ہوئے اور اس سے کہا : کہ مجھ کو آسمان کی سیرکرائے اور بہشت میں داخل کردے ، اذن پر ور دگار سے ایساہی ہوا( وَرَفَعنَاهُ مکاناً عَلِیا ) (۳) اورہم نے ان کو بلند مقام تک پہنچا یا۔

حضرت نوح کی معراج یہ تھی کہ جب آپ میں اپنی قوم کے ظلم واذیت تحمل کرنے کی قوت باقی نہ رہی اوریہ یقین ہوگیاکہ اب صرف ان چندلوگوں کے علاوہ کوئی اورشخص ایمان لانے والانہیں ہے توخداکی بارگاہ میں دست دعابلندکئے اورکہا:بارالٰہا!اب کوئی شخص ایمان لانے والانہیں ہے لہٰذاتواس قوم پراپناعذاب نازل کردے ، خدانے آپ کوحکم دیا:

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٢٠۶

۲)سورہ بٔقرہ /آیت ٣۵

. ۳)سورہ مٔریم/آیت ۵٧

۲۹

( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَاوَوَحْیِنَا ) (۱)

اے نوح !ہماری نظارت میں ہماری وحی کے اشارے پر ایک کشتی بناو ۔ٔ

طوفان نوح (علیھ السلام)کی مختصرداستان یہ ہے کہ حضرت نوح (علیھ السلام)نے حکم خداسے ایک کشتی بنائی ،جب کشتی بن کرتیارہوگئی توت نورسے پانی نکلااورطوفان شروع ہوگیا،حضرت نوح (علیھ السلام)نے ہرقسم کے جانور،چرندوپرند اوردرندوں کاایک ایک جوڑا کشتی میں سوارکیا،جوآپ پرایمان رکھتے تھے انھیں بھی سوارکیا اورخودبھی اس میں سوار ہوئے ،جب کشتی چلنے لگی توآپ نے اس کے ذریعہ پوری دنیا کی سیرکی اورپوری دنیاکاچکرلگانے کے بعدکوہ جودی پرپہنچ کرکشتی رک گئی ،حضرت نوح (علیھ السلام) کشتی سے زمین پر آئے اورزمین کو دوبارہ آبادکیا۔معراج حضرت ابراہیم یہ تھی کہ جس وقت نمرودنے آپ کو منجنیق میں بٹھا کر آگ میں ڈالا تو وہ آگ حکم خدا سے گلزار ہو گئی( یٰانَارُکُونِی بَرْداًوَسَلَامًا ) (٢) اے آگ !تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی اور سلامت بن جا ۔

معراج حضرت اسمعیل یہ تھی کہ جسوقت آپ کا گلا باپ کے خنجر کے نیچے تھا اور وہ آپ کو را ہ خدا میں قربان کررہے تھے کہ خدا وند عالم نے جنت سے ایک دنبہ بھیجا جو ذبح ہوگیا اور اسماعیل بچ گے أور خداوند عالم نے کہا :( وَفَدَ یْنٰاهُ بَذبحٍ عظیم ) (۳) ہم نے اسمعیل کی قربانی کو ذبحِ عظیم میں تبدیل کردیا ہے ۔

حضرت موسیٰ کی معراج یہ تھی کہ جس وقت آپ مناجات کے لئے کوہ طور پر گئے تو ( آپ نے شیرین لہجے میں خداوند عالم کے کلمات کوسنا( وَکَلَّمَ الله مُو سٰی تکلیما ) (۴) اورخداوندعالم نے حضرت موسٰی سے کلام کیا ۔

خاتم الانبیا، سرورکائنات حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کی معراج یہ ہے کہ خداوندعالم نے آپ کوآسمانوں کی سیرکرائی اورارشادفرمایا:( سُبْحَانَ الّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی ) (۵) پاک وپاکیز ہ ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجدالاقصی تک۔

____________________

١)سورہ ۂود/آیت ٣٧

. ٢)سورہ أنبیاء/آیت ۶٩

. ۳)سورہ صٔافات/آیت ١٠٧

۴)سورہ نٔساء/آیت ١۶۴

۵)ُسورۂ اسراء/آیت ١

۳۰

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کے دل میں خیال آیاکہ خداوندعالم نے ہرنبی کے لئے ایک معراج معین کی ہے میں یہ چاہتاہوں کہ میری امت کے مومنین کے لئے بھی کوئی معراج ہونی چاہئے لہٰذاآپ نے نمازکومومن کی معراج قراردیااورارشادفرمایا:

الصلاةمعراج المومن (۱)

نمازمومن کی معراج ہے

اوردوسری حدیث میں فرماتے ہیں:

اَلصَّلَاةُ مِعْرَاجُ اُمَّتِی (۲)

نماز میری امت کی معراج ہے ۔

بچوں کونمازکاحکم دیاکرو

نمازکی اہمیت اس چیزسے معلوم ہوتی ہے کہ احادیث میں والدین کواس بات کی وصیت کی گئی ہے اپنے بچوں کونمازکاعادی بنائیں اورانھیں نمازکاحکم دیں،اگربچے نمازنہ پڑھیں توانھیں ڈرایااورمارابھی جاسکتاہے

قال الصادق السلام قال: انّانا مٔرصبیاننابالصلاة اذاکانوا بنی خمس سنین، فمروا صبیانکم بالصلاةاذاکانو ابنی سبع سنین ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : جب ہمارے فرزند پانچ سال کے ہو جاتے ہیں ہم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اور جب تمہارے فرزندسات سال کو پہنچ جائیں توانھیں نماز پڑھنے کا حکم دو۔

حسن ابن قارون سے مروی ہے کہ:میں نے امام علی رضا سے سوال کےا یاکسی دوسرے نے سوال کےا اورمیں سن رہاتھا کہ:ایک شخص ہے جواپنے لڑکے کوڈانٹ پھٹکارکے ساتھ نمازپڑھواتا ہے اوروہ لڑکاایک ،دودن نمازنہیں پڑھتاہے ،امام علی رضا نے پوچھا:اس کالڑکے کی عمرکت نی ہے ؟جواب دیا: اس کی عمر آٹھ سال ،یہ سن کرامام (علیھ السلام)نے تعجب سے فرمایا: سبحان الله ! وہ آٹھ سال کا بچہ ہے اور نماز کو ترک کرتا ہے،میں نے عرض کیا:وہ بچہ مریض ہے ،امام(علیھ السلام) نے فرمایا:جسصورت ممکن ہواسے اس سے نمازپڑھوائیں ۔(۴)

____________________

. ١)مستدرک سفینة البحار/ج ۶/ص ٣۴٣

. ٢)معراج المومن/ص ٢

۳)الاستبصار/ج ١/ص ۴٠٩

۴)من لایحضرہ افقیہ /ج ١/ص ٢٨٠

۳۱

عن معاویة بن وهب قال: سئلت اباعبدالله علیه السلام فی کم یو خٔذالصبی بالصلاة ؟فقال:فیمابین سبع سنین وست سنین ۔(۱)

معاویہ ابن وہب سے مروی ہے:میں نے امام صادق سے پوچھا:بچوں کوکت نی عمرسے نمازشروع کرناچاہئے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:جب بچہ چھ ،سات سال کی عمرکوپہنچ جائے ۔

اگرماں باپ نمازی ہیں توبچہ بھی نمازی بنتاہے،ماں باپ کونمازپڑھتے ہوئے دیکھ کربچہ بھی نمازکی رغبت پیداکرتاہے کسی بھی نمازی کودیکھ کریہ معلوم ہوتاہے کہ اس کے ماں باپ نمازی ہیں اورانھوں نے بچہ کی اچھی تربیت کی ہے یہ ابوطالب کی تربیت کااثرتھاکہ آج علی کو“کرم الله وجہ”(۲) کانام دیاجاتاہے۔

تاریخ کے اوراق میں لکھاہے کہ : امام حسینکی شہادت کے بعدجب ابن زیادکے سپاہیوں نے حضرت مسلم ابن عقیل کے دونوں بچوں کو گرفتارکرکے زندان میں ڈال دیا، اوررات میں د ربان نے قیدخانہ میں پرنگاہ ڈالی تودیکھاکہ دونوں بچے نمازمیں مشغول ہیں، نگہبان دونوں بچوں کو نمازوعبادت کی حالت میں دیکھ کرسمجھ گیاکہ یہ بچے کسی معصوم سے کوئی نسبت ضروررکھتے ہیں ،لہٰذابچوں کے پاس آیااورمعلوم کیاتوچلاکہ یہ مسلم ابن عقیل کے بچے ہیں پس رات کی تاریکی میں دونوبچوں کوقیدخانہ سے باہرنکال دیامگرجب ابن زیادکے سپاہیوں نے بچوں کوقیدخانہ میں نہ پایاتوانھیں جنگل میں تلاش کرکے دوبارہ گرفتار کرلیا ،ابن زیادنے جلادکودونوں بچوں کاسرقلم کردینے کاحکم دیا،جب جلادنے دونوں کا سرقلم کرناچاہا تو بچوں نے زندگی کے آخری لمحات میں نماز پڑھنے کی مہلت ما نگی ، جب نماز کی مہلت مل گئی تو دونوں بچّے نماز میں مشغول ہو گئے اور نماز کے بعد دونوں کو شہید کردیا گیا ۔

____________________

۱)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ١٣

۲)وہ ذات کہ جسنے زندگی کبھی بھی بت کے سامنے سرنہ جھکایاہو

۳۲

نمازکے آثارو فوائد

نمازپڑھنے ،روزہ رکھنے ،حج کرنے ،زکات دینے ،صدقہ دینے ، اوردیگرواجبات ومستحبات الٰہی کوانجام دینے سے خداکوکوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے اورواجبات ومستحبات کوترک کرنے سے خداکاکوئی نقصان پہنچتاہے بلکہ انجام دینے سے ہم ہی لوگوں کوفائدہ پہنچتاہے اورترک کرنے پرہماراہی نقصان ہوتاہے ہم اس کی عبادت کریں وہ تب بھی خداہے اور نہ کریں وہ تب بھی خداہے ،ہماری نمازوعبادت کے ذریعہ اس کی خدائی میں کسی چیزکااضافہ نہیں ہوتاہے اورنمازوعبادت کے ترک کردینے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ہے بلکہ اس کی عبادت کرنے سے ہم ہی لوگوں کو فائدہ پہنچتاہے ،جب ہم اس کی عبادت کریں گے توہمیں اس کااجروثواب ضرورملے گا ،خداوندعالم کاوعدہ ہے وہ کسی کے نیک کام پراس کے اجروثواب ضائع نہیں کرتاہے ۔

( وَالّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتَابِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ) (۱) اورجولوگ کتاب سے تمسک کرتے ہیں اورانھوں نے نمازقائم کی ہے توہم صالح اورنیک کردارلوگوں کے اجرکوضایع نہیں کرتے ہیں۔

( اِنّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُوْالصّٰلِحٰتِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ وَآتُواالزَّکٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَرَبِّهِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْوَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (۲)

جولوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک عمل کئے ،نمازقائم کی ،زکات اداکی ان کے لئے پروردگارکے یہاں اجرہے اوران کے لئے کسی طرح کاخوف وحزن نہیں ہے۔

دنیامیں نمازکے فوائد

دنیامیں نام زندہ رہتاہے جب کوئی بندہ کسی نیک کام کوانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس نیکی کااجروثواب دنیامیں بھی عطاکرتاہے اورآخرت میں بھی عطاکرے گادنیامیں نمازایک فائدہ یہ ہے نمازی کانام دنیامیں زندہ رہتاہے ، تقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے اکثرلوگ اسے ایک اچھے انسان کے نام سے یادکرتے ہیں ،کیونکہ خداوندعالم کاوعدہ کہ جومجھے یادکرے گامیں بھی اسے یادکروں گااوراس کانام روشن رکھوں گاجیساکہ قرآن کریم میں ارشادرب العزت ہے:

( فَاذْکُرُونِی وَاذْکُرْکُمْ ) ( ۳) تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔

____________________

١)سورہ أعراف /آیت ١٧٠

.٢)سورہ بٔقرہ/آیت ٢٧٧

۳)سورئہ بقرہ /آیت ١۵٢

۳۳

گناہوں سے دورزہتاہے

نمازکے لئے شرط ہے کہ نمازی کالباس ، بدن اورمحل سجدہ پاک ہوناچاہئے ،نمازی کے لئے باوضوہوناشرط ہے اور وضومیں شرط یہ ہے کہ وضوکا پانی اوراس کابرت ن پاک ہوناچاہئے اورنمازکی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وضوکے پانی کابرت ن اورنمازی کالباس اورنمازپڑھنے کی جگہ مباح ہونی چاہئے ان سب شرائط اورواجبات کی رعایت کرنے کایہ نتیجہ حاصل ہوگاکہ انسان مال حلال وپاک کوذہن میں رکھے گا،رزق حلال حاصل کرے گا،حلال چیزوں کامالک رہے گا،حلال کپڑاپہنے گااورگناہوں سے دوررہے گا۔

حقیقی نمازانسان کی رفتار،گفتار،کرداراوراس کے اعمال افعال پرمو ثٔرہوتی ہے لہٰذاجن کی نمازان کے اعمال وافعال،رفتاروگفتاراورکردارپرمو ثٔرہوتی ہے وہ بارگاہ میں الٰہی قبول ہوتی ہے اورجن کی نماز گناہ ومنکرات سے نہیں روکتی ہے ہرگزقبول نہیں ہوتی ہیں لہٰذاہم یہاں پران آیات وروایات کو ذکرکررہے ہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ نمازانسان کوگناہ وبرائیوں سے روکنے کی ایک بہترین درسگاہ ہے:

( اَقِمِ الصَّلاةَ ، اِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰهی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُونَ ) (۱)

نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔اوراحادیث میں بھی آیاہے کہ نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے

عَنِ النّبِی صلّی اللهُ عَلَیهِ وَآلِهِ اَنّهُ قَالَ:مَن لَم ت نهه صَلاتَهُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِلَم یَزِدْمِن اللهِ اِلّابُعداً ۔(۲)

جس شخص کی نمازاسے گناہ و منکرات سے دورنہیں رکھتی ہے ا سے اللھسے دوری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من احبّ ان یعلم اقبلت صلاته ام لم تقبل فلینظرهل صنعته صلاته من الفحشاء والمنکرمامنعته قبلت منه ۔(۳)

امام صادقفرماتے ہیں:جوشخص یہ دیکھناچاہتاہے کہ اس کی نمازبارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ہے یانہیں تووہ یہ دیکھے کہ اس کی نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دورکیاہے یانہیں،اب جس مقدارمیں نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دوررکھاہے اسی مقدارمیں اس کی نمازقبول ہوتی ہے ۔

____________________

. ١)سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵

. ٢)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢

٣)بحارالانوار/ج ١۶ /ص ٢٠۴

۳۴

عن النبی صلی الله وآله انه قال:لاصلوة لمن لم یطع الصلوة وطاعة الصلوة ان ینتهی عن الفحشاء والمنکر ۔(۱)

رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) فرماتے ہیں : جو شخص مطیع نماز نہ ہو اس کی وہ نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور اطاعت نمازیہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ اپنے آپ کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتاہے (یعنی نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے)۔

جابرابن عبدالله انصاری سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے شکایت کی گئی فلاں شخص دن بھرنمازیں پڑھتاہے اوررات میں چوری کرتاہے ،آنحضرت نے یہ بات سن کرفرمایا:

انّ صلاته لتردعه

یقینااس کی نمازاسے اس کام سے بازرکھے گی (اور پھروہ کبھی چوری نہیں کرےگا) ۔(۲)

گذشتہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں

خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:

( اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهٰارِ،وَزُلْفًامِنَ الَّیْلِ ،اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السِّیِّئاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاْکِرِیْنَ ) (۳)

(اے پیغمبر)آپ دن کے دونوں حصوں میں اوررات گئے نمازقائم کروکیونکہ نیکیاں برائیوں کوختم اورنابودکردیتی ہیں اوریہ ذکرخداکرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے ۔ روایت میں ایاہے کہ ایک دن نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنے اصحاب سے پوچھا:اگرتم میں سے کسی شخص کے گھرکے سامنے سے پاک وصاف پانی کی کوئی نہرگزررہی ہواوروہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ اپنے جسم کودھوئے کیاپھربھی اس کے جسم پرگندگی رہے گی؟سب نے کہا:ہرگزنہیں!اسکے بعد آنحضرت نے فرمایا:

نمازکی مثال اسی جاری نہرکے مانندہے ،جب انسان نمازپڑھتاہے تودونمازوں کے درمیان ) اس سے جت نے گناسرزدہوئے ہیں وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔(۴)

____________________

. ١)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶١

. ۲)تفسیرمجمع البیان/جج ٨/ص ٢٩

. ۳)سورہ ۂود/آیت ١١۴ )

۴)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ٢٣٧

۳۵

قال رسول الله صلی الله عیه وآله :اذاقام العبدالی الصلاة فکان هواه وقلبه الی الله تعالی انصرف کیوم ولدته امه ۔(۱) پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے اوراس کادل وہواخداکی طرف ہو تووہ نمازکے بعدایساہوجاتاہے جیساکہ اس نے ابھی جنم لیاہے۔ ابوعثمان سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں اور سلمان فارسی ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہو تھے جس کے پتّے خشک ہوچکے تھے، سلمان نے درخت کی شاخ کوپکڑکرہلاےااس کے خشک پتّے زمین پر گرنے لگے توسلمان نے کہا : اے ابن عباس !کیا تم درخت کوہلانے کی وجہ نہیں پوچھوگے ؟ میں نے کہا: ضروراس کی وجہ بیان کیجئے ،سلمان نے کہا: میں ایک روز نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ اسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، آنحضرت نے بھی یہی کام کیا تھا جب میں نے آنحضرت سے کہا یا رسول الله ! اس کی وجہ بیان فرمائےے ؟توآپنے فرمایا:

اِنّ العبد المسلم اذاقام الی الصلاة عنه خطایاه کماتحات ورق من الشجرة جب کو ئی مسلما ن بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے تواس کے تمام گناہ اسی طرح گرجاتے ہیں جس طرح اس درخت سے پتے گرے۔(٢)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:مامن صلاة یحضروقتهاالانادیٰ ملک بین یدی الناس ایهاالناس!قومواالی نیرانکم التی اوقدتموهاعلی ظهورکم فاطفئوهابصلاتکم (۳) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جےسے ہی نمازکاوقت شروع ہوتاہے ایک فرشتہ لوگوں کے درمیان آوازبلندکرتاہے :اے لوگو!اٹھواوروہ آگ جوتم نے اپنے پیچھے لگارکھی ہے اسے اپنی نمازکے ذریعہ خاموش کردو ۔

حضرت علی فرماتے ہیں :ہم پیغمبر اسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور نماز کے وقت کا انتظار کر ہے تھے کہ ایک مردنے کھڑے ہوکرکہا:یارسول الله! میں ایک گنا ہ کا مرتکب ہوگیا ہوں اس کے جبران کے لئے مجھے کیا کام کرنا چاہئے ؟ آنحضرت نے اس سے روگردانی کی اوراس کی بات پر کوئی توجہ نہ کی ،ےہاں تک کہ نمازکاوقت پہنچ گیااورسب نماز میں مشغول ہوگئے ، نماز ختم ہونے کے بعد پھراس شخص نے اپنے گناہ کے جبران کے بارے میں پوچھا تورسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی کےاتم نے مکمل طورسے وضونہیں کےا؟اس نے عرض کیا : ہاں ! یا رسول الله ،آنحضرت نے فرمایا : تیری یہی نماز تیرے گناہ کا کفّارہ ہے۔(۴)

____________________

. ١)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٣۶

٢)امالی شیخ صدوق/ص ١۶٧

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨

. ۴)تفسیرمجمع البیان/ج ۵/ص ٣۴۵

۳۶

حضرت علی نہج البلاغہ میں ارشادفرماتے ہیں:

وانهالتحت الذنوب حت الورق وتطلقهااطلاق الربق وشبههارسول الله بالحمة تکون علی باب الرجل فهویغتسل منهاالیوم واللیل خمسمرات فماعسی ان یبقی علیه من الدرن ۔(۱) نماز گنا ہوں کو اسی طرح پاک کردیتی ہے جیسے درخت سے پتّے صاف ہوجاتے ہیں اور انسا ن کو گناہوں سے اسی طرح آزاد کر دیتی ہے جیسے کسی کورسّی کے پھندوں سے آزادکردیاجائے اور رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے پنچگانہ نمازوں کواس گرم پانی کی نہریاچشمہ سے مثال دی ہے کہ جو کسی انسان کے گھر کے سامنے ہو ا ور وہ اس میں روزا نہ پانچ بار نہا تا ہوتو اسکے بد ن پر ذرہ برابر کثافت وگندگی باقی نہیں رہے گی ۔

چہرے پرنوربرستاہے

ا بان ابن تغلب سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا :اے فرزندرسول خدا حضرت فاطمہ کو زہرا یعنی درخشاں کیوں کہا جاتاہے ؟امام (علیھ السلام) نے فرما یا : کیونکہ جناب فاطمہ کے چہرہ مبارک سے روزانہ تےن مرتبہ اےک نورساطع ہوتا تھا:

پہلی مرتبہ اس وقت جب آپ نماز صبح کے لئے محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے وجود مبارک سے ایک سفیدنور سا طع ہوتاتھاجس کی سفیدی سے مدینہ کا ہر گھرنورانی ہو جاتاتھا،اہل مدینہ اپنے گھروں کونورانی دیکھ کر نہاےت تعجب کے ساتھ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں حاضرہوتے اور اپنے گھر وں کے منّور ہوجانے کی وجہ دریا فت کر تے تھے،آنحضرت انھیں جواب دیتے تھے:تم میری لخت جگر کے دروازہ ے پر جا ؤاوران سے اس کی وجہ دریافت کرو، جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تومعلوم ہوتاتھاکہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک نور سا طع ہے جسکی روشنی سے مدینہ کے گھر چمک رہے ہیں۔

دو سری مرتبہ اس وقت جب آپ نمازظہرین اداکر نے کے لئے محراب عبادت میں قیا م کرتی تھیں توچہرہ اقدس سے پیلے رنگ کانورظاہر ہو تاتھااوراس نورکی زردی سے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے یہاں تک کہ ان کے چہرے اورلباس کارنگ بھی زردہوجاتاتھالہٰذالوگ دوڑے ہوئے آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس وجہ معلوم کرتے تھے

____________________

. ١)نہج البلاغہ/خطبہ ١٩٩ /ص ١٧٨

۳۷

توآنحضرتانھیں اپنی کے گھرکی طربھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک زردرنگ کانور سا طع ہے اورسمجھ جاتے تھے ہمارے گھرجناب سیدہ کے نورسے چمک رہے ہیں۔

تیسری مرتبہ اس وقت کہ جب سورج غروب ہوجاتاتھااورآپ نماز مغربین میں مشغول عبادت ہوتی تھیں توچہرہ اقدس سے سرخ رنگ کانورساطع ہوتاتھااوریہ آپ کے بارگاہ رب العزت میں خوشی اورشکرگزاری کی علامت تھا،جناب سیدہ کے اس سرخ رنگ کے نورسے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے اوران کے گھروں کی دیواریں بھی سرخ ہوجاتی تھی ،پسلوگ آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس کی وجہ دریافت کرتے تھے توآپانھیں اپنی لخت جگر کے گھرطرف بھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ سیدةنساء العا لمین محراب عبادت میں تسبیح وتمجیدالٰہی میں مشغول ہیں اورسمجھ جاتے تھے ان کے نورسے ہمارے گھرنورانی ہوجاتے ہیں۔

حضرت امام صادق - فرماتے ہیں :یہ نورہرروزتین مرتبہ اسی طرح سے ان کی پیشانیٔ مبارک سے چمکتارہتاتھا اورجب امام حسین- متولدہوئے تووہ نور امام حسین- کی جبین اقدس میں منتقل ہوگیا اور پھربطور سلسلہ ایک امام سے دوسرے امام کی پیشا نی میں منتقل ہورہا ہے اور جب بھی ایک امام (علیھ السلام)نے دنیاسے رخصت ہواتوان کے بعدوالے امام (علیھ السلام)کی پیشانی ہوتاگیایہاں تک کہ جب امام زمانہ ظہور کریں گے تو ان کی پیشانی سے وہی نورساطع ) ہوگا۔(١)

____________________

. ١)علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٠

۳۸

بے حساب رزق ملتاہے

روایت میں آیاہے کہ حبیب خداحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیھ و آلھ)کی لخت جگرکے گھرمیں دودن سے میں کھانے پینے کے لئے کوئی سامان موجودنہیں تھا،جوانان جنت کے سردار حسنین رات میں کھانا کھائے بغیرہی سوجایاکرتے کرتھے ، جب تیسرادن ہوااورامام علی سے کچھ کھانے پینے کاانتظام کرسکے لہٰذاتاکہ بچوں کے سامنے شرمند نہ ہوناپڑے توشام کے وقت مسجدپہنچے اوراپنے رب سے رازونیازکرتے رہے یہاں تک کہ مغرب کی نمازکاوقت ہوگیا،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی اقتدامیں جماعت سے نمازاداکی ،نمازختم ہونے کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) نے حضرت علیسے عرض کیا :یا علی ! میں آج کی رات آپ کے گھرمہمان ہوں جبکہ امام (علیھ السلام) کے گھر کھا نے کا کچھ بھی انتظام نہیں تھا اور فاقے کی زندگی گزار رہے تھے لیکن پھربھی امام (علیھ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)سے عرض کیا : یا رسول الله !آپ کا ہمارے گھرتشریف لانا ہمارے لئے ارجمند و بز رگواری کاباعث ہو گا

نبی اورامام دونوں مسجدسے خارج ہوئے لیکن راستہ میں امام (علیھ السلام)کی حالت یہ تھی کہ جسم سے عرق کی بوندیں ٹپک رہی تھی اور سوچ رہے تھے کہ آج حبیب خداکے سامنے شرمندگی کاسامناکرناپڑے گا،لہٰذاجیسے ہی گھرپہنچے توحضرت فاطمہ زہرا سے کہا :

اے رسول خداکی لخت جگر ! آج تمھارے باباجان ہمارے گھرمہما ن ہیں اورمگر اس وقت گھرمیں کھانے کے لئے کچھ بھی موجودنہیں ہے ، جناب سیدہ نے باباکا دیدارکیااوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں اورمصلے پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ،جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔

حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھراہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔

۳۹

روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے باباجان!( هُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ ) .(١)

یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔

پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:

( کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَهَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذا قَالَتْ هُوَمِنْ عِنْدِاللهِ اِنَّ اللهَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ ) .(۲)

جب بھی حضزت زکریا (علیھ السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔

جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواسسے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے

حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے ہیں،گھرمیں چکیاں پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔

وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردارہوں،وہ گھرکہ جسمیں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے ہیں،خدااس گھرمیں کس طرح فاقہ گذارنے دے سکتاہے ،ہم تویہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے تھے خداوندعالم اس کے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے لگے ۔

____________________

. ١)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

. ٢)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370