نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار10%

نمازکے آداب واسرار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 370

نمازکے آداب واسرار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 370 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 167213 / ڈاؤنلوڈ: 4239
سائز سائز سائز
نمازکے آداب واسرار

نمازکے آداب واسرار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

حدّثنایحیی بن یحیی قال:قراتُ علی مالکٍ عن ابی الزّبیرعن سعیدبن جُبَیرٍعن ابن عبّاس قال:صلّیٰ رسول الله صلی الله علیه وسلم الظّهرَوالعصرَجمیعاًوالمغرب والعشاء جمیعا فی غیرخوفٍ ولاسفرٍ ۔(۱)

ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے بغیرکسی خوف اور سفرکے نمازظہروعصرکویکے بعددیگرے اورنمازمغرب وعشاکوبھی یکے بعددیگرے پڑھا۔

حدّثنااحمدبن یونس وعون بن سلّٰام جمیعاًعن زُهیرقال ابن یونس: حدّثناابوالزّبیرعن سعیدبن جُبیرعن ابن عبّاس قال:صلّیٰ رسول الله صلی الله علیه وسلم الظّهرَوالعصرَجمیعاًبالمدینة فی غیرخوفٍ ولاسفرٍ.قال ابوالزّبیر:فسئلتُ سعیداًلِمَ فَعَلَ ذٰلک ؟فقال:سئلتُ ابن عبّاس کماسئلت نی فقال:اَرادَاَنْ لایُحرِجَ اَحَداًمِن امّته (۲)

ابوزبیرسے مروی ہے کہ سعیدابن جبیرنے ابن عباس سے نقل کیاہے :وہ کہتے ہیں کہ پیغمبراسلام (صلی الله علیھ و آلھ)نے مدینہ میں بغیرکسی خوف اورسفرکے نمازظہروعصرکو یکے بعددیگرے انجام دیا، ابوزبیرکہتے ہیں کہ میں نے سعیدسے پوچھا:آنحضرت نے ایساکیوں کیا؟توسعیدنے مجھے جواب دیا:جوسوال تونے مجھ سے کیاہے یہی سوال میں نے ابن عباس سے کیاتھاتوانھوں نے جواب دیاتھا: نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)یہ چاہتے تھے کہ ان کی امت میں کوئی شخص کسی تکلیف اورزحمت سے دوچارنہ ہو۔

حدّثناابوبکربن ابی شیبة وابوکریب قالا:حدّثناابومعاویة وحدّثناابوکریب وابوسعیدالاشجع واللفظ لابی کریب قالا:حدّثناوکیعٌ کلاهماعن الاعمش عن حبیب ابن ابی ثابت عن سعیدبن جبیرعن ابن عباس قال:جَمَعَ رسول الله صلی الله علیه وسلم بَینَ الظّهرِوَالعصرِوالمغربِ وَالعشاءِ بِالمدینةِ فی غیرِخوفٍ ولامطرٍ(فی حدیث وکیع قال:قلتُ لابن عباس :لِمَ فَعَلَ ذٰلک ؟قال:کی لایحرج امته(وفی حدیث ابی معاویةقیلَ لابن عباس :مااراداِلیٰ ذلک؟قال:اَرادَاَنْ لایُحرِجَ امّته (۳)

سعیدابن جبیرابن عباس سے نقل کرتے ہیں :وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے نمازظہروعصراور مغرب وعشاء کوبغیرکسی خوف وبارش کے ایک ساتھ اداکیا(وکیع کی روایت میں آیاہے)سعیدنے کہا:میں نے ابن عباس سے معلوم کیا:پیغمبراسلام (صلی الله علیھ و آلھ)نے ایساکیوں کیا؟ جواب دیا:اس لئے تاکہ آپ کی امت کسی مشقت میں نہ پڑے (ابومعاویہ کی روایت میں آیاہے) ابن عباس سے پوچھا: آنحضرت نے ایساکیوں کیا؟کہا:تاکہ آپ کی امت کوکوئی زحمت ومشقت نہ ہو۔

____________________

. ۱)صحیح مسلم /ج ٢/ص ١۵١

. ٢)صحیح مسلم /ج ٢/ص ١۵١

. ۳)صحیح مسلم /ج ٢/ص ١۵٢ (

۶۱

روزانہ نمازکے تکرارکی وجہ

اگرکوئی شخص پنجگانہ نمازوں کے بارے میں یہ سوال کرے کہ روازنہ گذشتہ نمازکی تکرارہوتی ہے جب دن بدل جاتاہے تونمازمیں تبدیلی کیوں نہیں ہوتی ہے ؟ ہرروزگذشتہ روزکی طرح صبح وشام کی بھی تکرارہوتی ہے اسی لئے نمازکی بھی تکرارہوتی ہے مگراس سوال کاحقیق جواب یہ ہے کہ انسان حضورقلب کے ساتھ جت نی زیادہ نماز یں پڑھتے جائیں گے ،اتناہی زیادہ انسان کا مرتبہ بلند ہوتا جائے گا اوراس کے اندراتناہی زیادہ خلاص پیداہوتاجائے گا،وہ الله تبارک تعالی سے اتناہی زیادہ قریب ہوتاجائے گا۔ اس مطلب کوواضح کرنے کے لئے تین بہترین مثال ذکرہیں:

١۔وہ شخص جوکسی بلندی پرجانے کے لئے زینہ کی پہلی پیڑی پرقدم رکھتاہے اس کے بعددوسری پیڑی پرقدم رکھتاہے پھر تیسری پیڑی پرقدم رکھتاہے اوراسی طرح قدم رکھنے کی تکرارکرتاجاتاہے اورجت نابلندہوتاجاتاہے ہمت ات نی زیادہ بڑھتی جاتی ہے پہاں تک کہ وہ اپنے مقصدتک پہنچ جاتاہے ،نمازبھی زینہ پرقدم رکھنے کے مانندہے ،جت نازیادہ نمازکی تکرارکی تکرارکرتے جائیں گے اتناہی ایمان میں تازگی پیداہوتی رہے اورخداسے قربت بھی حاصل ہوتی جائے ۔

٢۔وہ شخص جوپانی حاصل کرنے کے لئے کسی بیلچہ یاکسی مشینری کااستعمال کرتاہے اورزمین کوکھودناشروع کرتاہے ، کنواں کھودنے کے لئے زمین میں بیلچہ مارناظاہراً ایک تکرار ی کام ہے لیکن بیلچہ کے ذریعہ جت نازیادہ زمین کوکھودتے جائیں گے اور مٹّی باہر نکا لتے رہیں گے اسی مقدار میں پانی سے نزدیک ہوتے جا ئیں گے یہاں تک ایک روزاپنے مقصدمیں کامیاب ہوجائیں گے

ہر بیلچہ مارنے پر ایک قدم پانی سے قریب ہوتے جائیں گے اسی طرح جت نی زیادہ نماز یں پڑھتے جائیں گے اتناہی زیادہ خدا سے قریب ہوتے جائیں گے۔

٣۔اگر کوئی شخص کسی ایسے کنو یں کے اندر موجو دہے کہ اوروہ ہاتھوں سے رسی کوپکڑاوپرکی طرف آتارہے تواسے ہاتھوں کے چلانے کی تکرارکرے گااورکنویں کے کنارے سے قریب ہوتاجائے گالیکن ہاتھوں کی اس تکرارکی وجہ سے وہ جت نازیادہ قریب ہوتاجائے گااس کے دل میں خوف وہراس زیادہ پیداہوتاجائے گاکہ ہاتھ سے رسی چھٹ گئی توکنویں گرمرجائے گایاہاتھ پیرٹوٹ جائیں گے لہٰذارسی کومضبوطی سے پکڑنے کی کوشش کرے گاکیونکہ یہ رسی اس کی حیات کی ضامن ہے بس یہی حال نمازکابھی ہے جب تک اس کی روزانہ تکرارہوتی رہی گی توانسان کے ایمان میں تازگی ، دل میں خوف خدااورزیادہ پیداہوتاجائے گااوراسی مقدارمیں خداسے قریب ہوتاجائے گا۔

۶۲

نمازکے آداب وشرائط

نمازکے کچھ آداب وشرائط ایسے ہیں کہ جن کالحاظ کرنااوران کی رعایت کرناواجب ولازم ہے اورکچھ آداب ایسے ہیں کی رعایت کرناسنت مو کٔدہ ہے اورایسے ہیں جن کاترک کرنامستحب ہے اورانجام دینامکروہ ہے وہ شرائط کہ جن کی رعایت کرناواجب ہے ان میں ایک وقت ہے جس کے بارے میں ذکرکرچکے ہیں اوراس کے اسرارکوبھی بیان کرچکے ہیں،اوربقیہ شرائط کوبھی یکے بعددیگرے ذکرکررہے ہیں

رازطہارت

طہارت کی دوقسم ہیں : ١۔ظاہری طہارت ٢۔باطنی طہارت

باطنی طہارت

طہارت باطنی یہ ہے کہ جوحلال رزق وروزی اورگناہوں سے دوری کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے،یہ طہارت جہنم کی آگ کوخاموش کرنے صلاحیت رکھتی ہے اورباطنی طہارت حاصل کرنے کے کچھ شرائط ہیں جوحسب ذیل ذکرہیں:

١۔گذشتہ میں انجام دئے گئے گناہوں پرنادم ہونا۔

٢۔ تہہ دل سے توبہ کے ذریعہ اعضاء وجوارح کوشرک جیسی نجاست سے پاک کرنا جسے خدوندعالم نے ظلم عظیم سے تعبیرکیاہے:

( اِنّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ) (١) اورخداوندعالم نے مشرک کونجس قراردیاہے :( اِنّمَاالْمُشْرِکُوْنَ نَجِسٌ ) (٢) اورسورہ یٔوسف میں ارشادفرمایاکہ: اکثرلوگ ایسے ہیں جوایمان بھی لاتے ہیں توشرک کے ساتھ :( وَمَایُو مِٔنُ اَکْثَرُهُمْ بِالله الّاوَهُمْ مُشْرِکُوْنَ ) (٣) اوران لوگوں میں اکثریت ایسی ہے جوخداپرایمان بھی لاتے ہیں توشرک کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔

رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی صحبت میں بیٹھنے والے کچھ صحابی ایسے بھی تھے جوتہہ دل سے خداورسول پرایمان نہیں رکھتے تھے فقط ظاہری طورسے اللھورسول اورقرآن پرایمان رکھتے تھے اورباطنی طورسے شرک جیسی نجاست سے آلودہ تھے پس وضوکرنے والے کے لئے ضروری ہے وہ اپنی اندرونی نجاست کوبھی پاک کرے اوراپنے قلب کوغیرخداسے مکمل طورسے خالی کرے تاکہ پروردگارسے مناجات میں لذّت حاصل کرے اوریکتاپرستی کاثبوت بھی دے سکے۔

____________________

١)سورہ لٔقمان /آیت ١٣

٢)سورہ تٔوبہ /آیت ٢٨

. ٣)سورہ یٔوسف /آیت ١٠۶.

۶۳

٣۔زبان کومخلوق کی حمدوستائشسے پاک کرنا.

۴ ۔نفسکوصفات ذمیّہ سے پاک کرنا.

۵ ۔قلب کوماسوی الله کی یادسے خالی کرنا.

۶. دل سے کینہ اوربغض وحسددورکرنا.

٧۔ اپنے دل ودماغ کوعداوت اہلبیت اطہار سے اچھی طرح پاک کرنا۔

ظاہری طہارت

ظاہری وہ ہے کہ جوآب وخاک کے ذیعہ (وضووغسل وتیمم کی شکل میں)حاصل ہوتی ہے اوراسی آب وخاک کے ذریعہ حدث وخبث کی نجاست کودورکیاجاتاہے اورآب وخاک دونوں ایسی چیزیں ہیں جوآتش دنیاکو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اسی لئے خدانے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ قراردیاہے لہٰذاانسان خداکی بارگاہ میں حاضرہونے کے لئے اعضائے وضوکوپانی سے دھوئے اوراگرپانی میسرنہ ہوتوتیمم کرے ۔

نمازکی حالت میں انسان کے بدن،لباس اورمکان کاظاہری اورباطنی طورسے پاک ہوناواجب ہے یعنی لباس کاپاک ومباح ہوناواجب ہے جیساکہ ہم آئندہ ذکرکریں گے ان تینوں چیزوں کے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے: کیونکہ خدوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاک وپاکیزہ رہنے والوں کودوست بھی رکھتاہے،خداوندعالم نظیف ہے اورنظافت کودوست رکھتاہے کیونکہ وہ اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( اِنَّ اللهُ یُحِبّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ )

خداتوبہ کرنے اورپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔(۱)

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:

( وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ )

خداپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔(۲)

____________________

۱)سورہ بقرة/آیت ٢٢٣

۲)سورہ تٔوبہ/آیت ١٠٨

۶۴

وضوکے اسرار

خداوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاکیزگی کودوست رکھتاہے لہٰذااس نے اپنی بارگاہ میں حاضرہونے والوں کوحکم دیا:

( یٰااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنُوااِذَاقُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُواوُجُوهَکُم وَاَیْدِیَکُمْ اِلٰی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوابِرُو سِٔکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ اِلٰی الْکَعْبَیْنِ ) (۱)

اے ایمان والو!جب بھی تم نمازکے لئے اٹھوتوپہلے اپنے چہروں اورکہنیوں تک ہاتھوں کودھولیاکرواوراپنے سراورگٹّے تک پیروں کامسح کرو۔

اس آیہ مبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ نمازکے لئے وضوکرناواجب ہے اوراس کے بغیرپڑھنی جانے والی نمازباطل ہے اورسنت میں بھی اسکے واجب ہونے کوبیان کیاگیاہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : مفتاح الصلاة الطهور وَتحریمِها التکبیر ، وتحلیلهاالسّلام ، ولایقبل الله صلاةبغیرالطهور .(۲)

رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:طہارت نمازکی کنجی ہے اورتکبیر (الله اکبر)اس کی تحریم ہے اورسلام نمازاس کی تحلیل ہے(جوچیزیں نمازکے منافی ہیں وہ تکبیرکے ذریعہ حرام ہوجاتی ہیں اورسلام کے بعدحلال ہوجاتی ہیں)اورخداوندعالم بے طہارت لوگوں کی نمازقبول نہیں کرتاہے۔

قال امیرالمومنین علی علیه اسلام : افتتاح الصلاة الوضوء ، وتحریمها التکبیر، وتحلیله االتسلیم.

مولائے متقیان حضرت علی فرماتے ہیں:وضو نمازکی کنجی ہے اورتکبیر (الله اکبر)اس کی تحریم اورسلام اس کی تحلیل ہے۔

اسی حدیث کومرحوم شیخ کلینی نے کتاب کافی میں نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) کی زبانی نقل کیاہے(۳)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال : لاصلاة الّا بطهور .(۴) امام باقر فرماتے ہیں:وضوکے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔

____________________

١)سورہ مائدہ /آیت ۶

۲).٣١۶/ بحارالانوار/ج ٧٧

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣ ۔کافی/ج ٣/ص ۶٩

. ۴)تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١۴٠

۶۵

امام صادق فرماتے ہیں:ایک متقی وعالم شخص کوجب قبرمیں رکھ دیاگیاتوالله کی طرف سے مو کٔل فرشتوں میں ایک فرشتہ نے کہا:ہمیں تیرے جسم پر سوتازیانے لگانے کاحکم دیاگیاہے اس نے کہا:میرے جسم میں ات نے تازیانہ کھانے کی ہمت نہیں ہے ،فرشتہ نے کہا:ہم ایک تازیانہ کم کردیتے ہیں ،کہا:اب بھی زیادہ ہیں ،خداوندعالم اس وجہ سے کہ وہ اخیارلوگوں میں سے تھاتعدادکے کم کرنے قبول کرتاگیا یہاں تک کہ جب ٩٩ /تازیانے کم کردئے گئے تواس شخص نے جب آخری تازیانہ کے معافی چاہی توفرشتہ نے کہا:اس کوہرگزمعاف نہیں کیاجاسکتاہے اوریہ تازیانہ ضرورلگناہے لہٰذایہ تازیانہ توضرورکھاناپڑے گا،اس شخص نے پوچھا:آخروہ کونساگناہ ہے کہ جس کی سزا کو معاف نہیں کیاجاسکتاہے ،فرشتہ نے جو اب دیا:تونے ایک روزوضوکئے بغیرنمازپڑھی تھی اورتوایک مظلوم ضعیف کے پاس سے گزرالیکن تونے اس کی کوئی مددنہیں کی ،جیسے ہی اس کے جسم پر تازیانہ ماراگیاتوقبرسے آگ ) بھڑک اٹھی۔(۱)

وضومیں چار چیزیں واجب ہیں:

١۔نیت ٢۔چہرے کادھونا

،وضومیں چہرہ دھونے کے لئے ضروری ہے کہ لمبائی میں چہرے کوپیشانی کے اوپرسے (جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں) ٹھوڑی کے نیچے تک اورچوڑائی میں بیچ والی انگلی اورانگوٹھے کے درمیان جت ناحصہ آجائے دھوناضروری ہے اگراس بتائی گئی مقدارمیں سے تھوڑا سا بھی حصہ نہ دھویاجائے تووضوباطل ہے لیکن یہ یقین پیداکرنے کے لئے کہ چہرے کا پورا حصہ دھولیاگیاہے بہترہے کہ بتائی گئی مقدارسے تھوڑازیادہ دھویاجائے ۔

٣۔ دونوں ہاتھوں کادھونا،اورہاتھوں کواس دھویاجائے کہ انسان اپنے دائیں ہاتھ کواس طرح دھوئے کہ بائیں ہاتھ کے ذریعہ داہنے ہاتھ کی کلائی پرپانی ڈالے اوراسے اوپرسے نیچے کی طرف انگلیوں کے سرے تک ملے ،اگرکوئی اس کی خلاف ورزی کرے یعنی ہاتھوں کودھونے میں انگلیوں کی طرف سے پانی ڈالے یانیچے سے کہنی طرف ہاتھ پھیرے تواس کاوضوباطل ہے ۔

۴ ۔ہاتھوں کے دھونے کے بعدوضوکے پانی تری جوہاتھ رہ گئی ہے اسی سے سرکے اگلے حصہ کامسح کرناچاہئے اوریہ ضروری نہیں ہے کہ اوپرسے نیچے کی طرف کیابلکہ نیچے سے اوپرکی طرف بھی مسح کرناجائزہے ۔

۵ ۔سرکامسح کرنے کے بعدہاتھ میں باقیماندہ تری سے پیروں کی انگلیوں کے سرے سے پیرکی پشت کے ابھارتک مسح کرناواجب ہے

____________________

. ١) من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ۵٨

۶۶

رازوجوب وضو

امام علی رضا نے وضوکے واجب قراردئے جانے کی چندمندرجہ ذیل وجہ بیان کی ہیں :انّمااُمربِالْوُضوءِ وَبدءَ بهِ :لاَن یکون العبد طاهراًاِذاقامَ بینَ یدیِ الجبار عندَمناجاتهِ ایّاه ، مطیعاًله فیماامره ، نقیاًمن الادناس والنجاسة مع مافیه من ذهاب الکسل وطردالنعاس وتزکیة الفوادللقیام بین یدی الجبار ۔

نمازکے لئے وضوکو اس لئے واجب قرار دیاگیا ہے کہ جب بندہ خدائے جبارکی بارگاہ میں مناجات کے لئے قیام کرے تواسے پاک وپاکیزہ ہوناچاہئے ،اور چونکہ اس نے ادناس ونجاسات سے دوری کاحکم دیاہے اس لئے وضوکاحکم دیاہے تاکہ بندہ اُس کے اس حکم پرعمل کرسکے اورتاکہ اس کے ذریعہ انسان اپنے آپ سے نینداورکسالت سے دورکرسکے اورقلب کوباطنی قذورات ونجاست سے پاک کرکے خدائے جبارکی بارگاہ قیام کرے ۔(۱)

انسا ن کوچاہئے کہ بار گاہ رب العزت میں کھڑے ہو نے سے پہلے اپنے حقیقی مولاکے امرکی اطاعت کرنے اورپلیدگی ونجاست سے دورہنے کی خاطر اپنے جسم وروح سے ناپاکی وآلودگی کو برطرف کرے۔

اس حدیث یہ واضح ہے کہ وضوکے واجب ہونے کاایک رازیہ بھی ہے تاکہ نماز شروع کرنے پہلے انسان کے جسم سے کسالت دورہوجائے اور چہرہ شاداب ہوجائے تاکہ خضوع ونشاط کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکے اور باوضوہوکر بارگاہ خدا وندی میں قیام کرنے سے انسان کا دل نورانی ہوجاتاہے۔

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:انّماالوضوء حدٌّمِن حدودِالله،لیعلم الله مَن یطیعه و من یعصیه .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں: وضو خداوند متعال کی حدو د میں سے ایک حد ہے ،(جسے اللھنے اس لئے واجب قرار دیا ہے)تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ کون لوگ اس کی اطاعت وبندگی کرتے ہیں اور کون اس کے حکم کی خلاف ورزی اورسرکشی کرتے ہیں اوربیشک مومن کوئی چیزنجس نہیں کرسکتی ہے ۔

____________________

۱). علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٧

۲)کافی/ج ٣/ص ٢١

۶۷

رازوجوب نیت

انسان جس کام کوانجام دیتاہے اس کی طرف متوجہ ہونے اوراس کے مقصدسے آگاہ ہونے کونیت کہاجاتاہے یعنی اس کام کے انجام کادل میں ارادہ کرنے اوراس کے مقصدآگاہی رکھنے کونیت کہاجاتاہے اورہرکام کے انجام پرثواب وعقاب کاتعلق نیت سے ہوتاہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی جیسی نیت ہوتی ہے اسی کے مطابق اسے اجربھی دیاجاتاہے ،اگردل میں خداسے قربت حاصل کرنے کاقصدکیاہے تواسے عبادت میں لطف آئے گااورخداسے قریب ہوجائے گالیکن اگردل میں ریاکاری ،خودنمائی یاچہرہ اورہاتھوں کوٹھنڈک پہنچانے کاارادہ کیاہے تووضوباطل ہے اوراس کام پرالله سے دوری کے علاوہ کوئی اجرنہیں ملتاہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : انّماالاعمال بالنیات ولکلّ امرءٍ مانویٰ،فمن غزیٰ ابتغاء ماعندالله فقدوقع اجره علی الله،ومن غزیٰ یریدعرض الدنیاا ؤنویٰ عقالاًلم یکن له الّامانواه ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:انسان کے ہر عمل کاتعلق اس کی نیت سے ہوتاہے اور عمل کی حقیقت نیت کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اورثواب بھی نیت کے حساب دیاجاتاہے ،اس کے نصیب میں وہی ہوتاہے جس چیزکاوہ قصدکرتاہے ،پس وہ جو شخص رضای الٰہی کی خاطرجنگ کرتاہے اورکسی نیک کام خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کااجروثواب عطاکرتاہے ضروراجرعطاکرتاہے اورجوشخص متاع دنیاکوطلب کرتاہے اسے اس کے علاوہ جسچیزکی اس نے نیت کی ہے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتاہے۔

اگرکوئی شخص قصدقربت کے ساتھ کسی ریاکاری کابھی قصدرکھتاہووہ شخص مشرک ہے اورشرک حرام ہے جب شرک حرام وہ اسکاوہ عمل بھی بیکارہےعن ابی جعفرعلیه السلام قال:لوانّ عبدا عمل عملایطلب به وجه الله عزوجل والدارالآخرة فادخل فیه رضی احدمن الناس کان مشرکا .(۲)

اگرکوئی شخص کسی عمل خیرکوانجام دے اوراس میں خداسے قربت اورعاقبت بخیرکاارادہ کرے اوراس کے ساتھ کسی شخص کی رضایت حاصل کرنے کابھی قصدرکھتاہوتووہ شخص مشرک ہے ۔

____________________

١)تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٨٣ ۔ج ۴/ص ١٨۶

. ٢)تہذیب الاحکام /ج ۴/ص ١٨۶

۶۸

چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کاراز

وضو میں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

١۔روایت میں ایاہے کہ ایک دن یہودی کی ایک جماعت نبی اکرم پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں مشرف ہوئی اوران سب سے بڑے عالم نے آنحضرتسے مختلف چیزوں کے بارے میں سوالات کئے اورمتعددمسائل کی علت بھی دریافت کی،انھوں نے آنحضرت سے ایک سوال یہ بھی کیا:اے محمد!آپ ہمیں اس چیزسے مطلع کریں کہ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کارازکیاہے جبکہ یہ انسان کے بدن کے نظیف اورپاکیزہ ترین اعضا ہیں؟آنحضرت نے ان سے فرمایا:

لمّااَن وَسوَسَ الشَّیطَان اِلٰی آدَم علیه السلام دَنامِنَ الشَّجرةِ فَنَظَرَاِلَیْهَا فَذَ هَبَ ماء وَجهِهِ ،ثمّ قام ومشی الیهاوهی اوّل قدم مشت الی الخطیئة ثمّ ت ناول بیده منهامماعلیهاواَکل فطارالحلی والحل عن جسده فوضع آدم یده علی راسه وبکی فلمّاتاب الله عزّوجل فرض الله علیه وذریته تطهیرهذه الجوارح الاربع فاَمرالله تعالی لغسل الوجه لمّانظرالی الشجرة ،واَمره بغسل الیدین الی المرفقین لمّات نامنها،واَمره بمسح الراس لمّاوضع یده علی ام راسه ،واَمره بمسح القدمین لما مشی بها الی الخطیئة .

جب شیطان نے حضرت آدم (علیھ السلام)کے دل میں وسوسہ ڈالااورآپ کواس درخت سے قریب کردیاکہ جس کے قریب جانے سے منع کیاگیاتھا،جیسے ہی آدم (علیھ السلام)نے اس درخت پرنگاہ ڈالی توآپ کے چہرے کی رونق ونورانیت چلی گئی ،اس کے بعدآپ کھڑے ہوگئے اورپھر درخت کی جانب حرکت کی ،عالم ہستی میں کسی خطاکی طرف اٹھنے والا سب سے پہلاقدم تھا،پھرآپ نے ہاتھوں سے درخت سے میوہ توڑکرت ناول کیاتوآپ کے جسم سے لباس وزینت اترگئے جس کی وجہ سے آپ اپنے سرپہ ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے اورروکرتوبہ کرنے لگے،جب خداوندعالم نے آدم کی توبہ قبول کی توآپ پراورآپ کی اولادپران چاراعضا کے دضودینے کوواجب قراردیا۔خداوندعالم نے حضرت آدم(علیھ السلام) کوچہرہ دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے اس درخت کی جانب نگاہ کی تھی تواس کی وجہ سے چہرہ کی رونق چلی گئی تھی اورکہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے ہاتھوں کے ذریعہ درخت سے پھل توڑکرت ناول کیاتھااورسرکے مسح کرنے کاحکم اسلئے دیاکیونکہ جب آپ برہنہ ہوئے تواپنے سرپر ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے تھے جس کی وجہ سے خدانے سرکے مسح کرنے کاحکم دیااورچونکہ آدم (علیھ السلام) اپنے ان دونوں پیروں کے ذریعہ چل کرممنوعہ درخت کی جانب ) گئے تھے توخدانے حکم دیا:اے آدم!اپنے دونوں پاؤں کابھی مسح کرو۔(۱)

____________________

. ١ )من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵۶

۶۹

روایت میں آیاہے : رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)نماز صبح کے بعد بین الطلوعین(طلوع فجروطلوع آفتاب) مسجد میں بیٹھتے تھے اور لوگوں کے سوالوں کا جواب دے دیتے تھے کہ ایک دن دولوگوں نے اپنے سوال کوآنحضرت کی خدمت میں مطرح کر ناچاہا توجس شخص کی نوبت پہلے تھی آنحضرت نے اس سے فرمایا : اے بھائی!اگر چہ تم اپنے اس دوسرے بھائی پر مقدم ہو اگر اجازت ہو تو اپنی نوبت اس شخص کو دیدو کیونکہ اسے ایک بہت ضروری کام درپیش ہے اس شخص نے آنحضرت کی فرما ئش کو قبول کیا،اس کے بعدآپ نے فرمایا : اے بھائی! میں بتاؤ تم مجھ سے کیامعلوم کرنا چا ہتے تھے یاخودہی بتاناپسندکروگے ؟ دونوں نے عرض کیا : یارسول ا لله ! آپ ہی بیان کیجئے ، رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: تم میں ایک شخص حج کے بارے میں سوال کرناچاہتاہے اور دوسرا شخص ثواب وضو سے مطع ہونا چاہتا ہے ،پہلے آپ نے ثواب وضوسے مطلع ہونے شخص کاجواب دیاتاکہ دوسراشخص بھی اس سے مطلع ہوجائے لہٰذاآپ نے فرمایا:

وضومیں چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سروپیروں کا مسح کرنے میں ایک راز پایاجاتاہے، وضو میں چہرہ دھونے کارازیہ ہے بارالٰہا!میں تیری بارگاہ میں کھڑے ہوکر عبادت کررہا ہوں اور پاک پیشانی کے ساتھ خاک پر سررکھتاہوں ، وضو میں ہاتھوں کا دھونے کے معنی یہ ہیں: خدایا !میں ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام پانے والے گناہوں کو ترک کررہاہوں اور اب تک ان ہاتھوں کے ذریعہ جن گنا ہوں کا مرتکب ہواہوں ان سب نادم ہوں اورانھیں اپنے ان ہاتھوں سے پاک کرہا ہوں ، وضو میں سرکا مسح کرنے کامعنی ہیں: یعنی بارالٰہا ! وہ خیا ل باطل اور نا پاک ارادے جومیں نے اپنے سرمیں داخل کئے ہیں ان سب ناپاک ارادوں کو ذہن سے خارج کرتا ہوں، پیروں کا مسح کرنے کے معنی ہیں: بارلہا ! میں اپنے ان قدموں کوہر برائی کی طرف جانے سے اپنے قدموں کو محفوظ رکھوں گا اور جت نے بھی گناہ ان پیروں سے سرزدہوئے ہیں ان سب کو اپنےآپ سے دورکرتا ہوں۔(۱)

فضل بن شاذان سے روایت ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم کرے کہ چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاؤں کامسح کرناکیوں واجب ہے تواسے اس طرح جواب دو:

لانّ العبداذاقام بین یدی الجبارقائماینکشف من جوارحه ویظهرماوجب فیه الوضوء وذلک انّه بوجهه یستقبل ویسجدویخضع وبیده یسئل ویرغب ویرهب ویتبتل وبراسه یستقبل فی رکوعه وسجوده وبرجله یقوم ویقعد.

____________________

. ١)ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ١۶٧ /ص ۵٣

۲) علل الشرائع/ج ١/ص ٢۵٧

۷۰

جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں قیام کرتاہے تواپنے اعضاء وجوارح سے مانع اورحاجب کودورکرتاہے اوروہ اعضاکہ جن کووضومیں دھوناہے یامسح کرناواجب ہے ان کے ذریعہ بندگی کااظہارکرتاہے،کیونکہ نمازمیں چہرے کاقبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اوراس کے ذریعہ سجدہ کیاجاتاہے اورخضوع وخشوع کااظہارکیاجاتاہے اورہاتھوں کے ذریعہ بارگاہ ربوبیت میں سوال کیاجاتاہے ،حاجتوں کوطلب کیاجاتاہے اورغیرخداکواپنے آپ سے منقطع قراردیاجاتاہے اورہاتھوں ہی کے ذریعہ ایک حالت سے دوسری میں منتقل ہوجاتاہے اوررکوع و سجودمیں جانے کے لئے اورقیام وقعودکے بھی دونوں ہاتھوں کاسہارالیاجاتاہے ، اورسرکے ذریعہ اپنے آپ کورکوع وسجودمیں قبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اورپیروں کے ذریعہ اٹھااوربیٹھاجاتاہے اسی لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسج کرنے حکم دیاگیاہے۔

وضومیں تمام دھونایاتمام مسح کیوں نہیں ہے؟

وضومیں چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاو ںٔ کامسح کرناواجب قرار دیا گیا ہے،وضومیں نہ تمام دھوناہے اورنہ تمام کومسح کرناہے بلکہ بعض کودھویاجاتاہے اوربعض کومسح کیاجاتاہے اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وضومیں تمام اعضا کودھوناکیوں نہیں ہے یاتمام کومسح کومسح کرناکیوں نہیں ہے اس کی وجہ اوررازکیاہے؟

فضل ابن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا نے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کا دھونے اورسروپاو ںٔ کامسح کرنے کی چندوجہ بیان کی ہیں:

١۔رکوع وسجودیہ دونوں ایسی عظیم وبرترعبادت ہیں کہجنھیں چہرے اوردونوں ہاتھوں سے انجام دیاجاتاہے نہ سراوردونوں پاو ںٔ کے ذریعہ لہٰذاواجب ہے کہ وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کودھویاجائے تاکہ اس ذریعہ سے اورزیادہ طہارت اورپاکیزگی حاصل ہوجائے ۔

٢۔انسان روزانہ چندمرتبہ اپنے سراوردونوں پاو ںٔ کودھونے کی قوت نہیں رکھتاہے کیونکہ سردی گرمی،سفروحضر،صحت وبیماری ،رات اور دن وغیرہ جیسے تمام حالات میں سراورپاو ںٔ کے دھونے میں دشواری ہے لیکن سروپاو ںٔ کے دھونے کے مقابلہ میں چہرہ اورہاتھوں کاکوئی مشکل کام نہیں ہے اورسروپاؤں کے دھونے سے بہت زیادہ آسان ہے اسی لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کودھونے اورسروپاو ںٔ کے دھونے کاحکم دیاگیاہے ۔

٣۔ چہرہ اوردونوں ہاتھ غالباًکھلے رہتے ہیں لیکن سرٹوپی، عمامہ یاپگڑی سے چھپارہتاہے اورپاو ؤں بھی جوتے اورموزہ سے چھپے رہتے ہیں اس لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کودھویاجاتاہے اورسروپاو ؤں پرفقط مسح کیاجاتاہے۔(۱)

____________________

.۱)عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١

۷۱

وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کے چند علل واسباب اوربھی ذکرکئے گئے ہیں جومندرجہ ذیل ذکرہیں:

١۔ چونکہ انسان ان اعضاء کو بہت زیادہ بروئے کارلاتاہے اوران کواپنے کاموں میں بہت زیادہ استعمال کرتاہے اس لئے خدانے بعض اعضاء کے دھونے اوربعض کے مسح کرنے کاحکم دیاہے ۔

٢۔ انسان دوسرے اعضاء کے مقابلے میں ان اعضاء کے ذریعہ گناہوں کازیادہ مرتکب ہوتاہے جسکی وجہ سے یہ اعضاء آلودہ ہوجاتے ہیں۔

٣۔ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے کواس لئے واجب قرادیاگیاہے تاکہ انسان اپنے دل میں یہ خیال پیداکرے کہ جس طرح ان اعضاء کودھوناضروری ہے دل ودماغ کوگناہوں کی گندگی سے پاک کرنااس سے کہیںزیادہ ضروری ہے کیونکہ انسان دل ہی کے ذریعہ نمازمیں باری تعالیٰ کی متوجہ ہوتاہے اورخدالوگوں کے چہروں کونہیں دیکھتا بلکہ دلوں پرنگاہ ڈالتاہے کیونکہ دل تمام اعضائے بدن کابادشاہ اورفرمانرواہوتاہے اوراعضائے وضودل ہی کے حکم سے گناہوں کی طرف حرکت کرتے ہیں اورانسان کویادالٰہی سے غافل کرتے ہیں لہٰذاان اعضاء کودھونے سے پہلے قلب کودھولیناچاہئے تاکہ انسان ظاہری اورباطنی پلیدگی سے پاک ہوکرمعبودحقیقی کی عبادت کرے۔

۴ ۔ ان اعضاء دھونے کاایک رازیہ بھی ہے کہ ہاتھ اورچہرہ کے دھو نے کامقصدیہ ہے کہ ہم دنیاسے ہاتھ دھورہے ہیں اورغیرخداکی طرف ہونے سے منہ پھیررہے ہیں۔ انسان کوسعادت اورخوش بختی اسی وقت نصیب ہوسکتی ہے جب اس کے ہاتھ اورصورت دنیاوی پلیدگی میں آلودہ نہ ہوں کیونکہ دنیاوآخرت دوایسی چیزیں ہیں کہ انسان ان دونوں میں سے جس سے جت نازیادہ قریب ہوتاجائے گا دوسری سے اتناہی زیادہ دورہوتاجائے گالہٰذاانسان کوچاہئے کہ بارگاہ خداوندی میں قیام کرنے سے پہلے دنیاسے ہاتھ دھوئے اوراسسے اپنامنہ پھیرلے۔

۵ ۔ وضومیں سب سے پہلے چہرہ دھویاجاتاہے جس کاراز یہ ہے کہ ظاہری صورت باطنی صورت کاآئینہ ہوتی ہے اورچہرے پرخداکی طرف متوجہ ہونے کے آثاردوسرے اعضاء وضو کے مقابلہ میںزیادہ نمایاں ہوتے ہیں اسی لئے وضومیں چہرہ دھونے کومقدم کیاگیاہے۔

۷۲

۶ ۔وضومیں ہاتھوں کے کہنیوں سمیت دھونے کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ یہی ہاتھ ہوتے ہیں جودوسرے اعضاء کے مقابلے میں دنیاوی امورکی طرف زیادہ درازہوتے ہیں اور گناہوں میں آلودہ ہوتے ہیں لہٰذاخداوندمتعال کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے ہاتھوں کوآلودگی سے پاک کرلیناضروری ہے۔

٧۔سرکے مسح کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ دماغی طاقت اسی کے اندرواقع ہے اوردنیاوی(مادّی وشہوتی) مقاصدحاصل کرنے کاارادہ اسی کے ذریعہ شروع ہوتاہے اورمادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونامعنوی توجہ پیدانہ کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں اورمادی وشہوتی امورکی طرف سرہی کے ذریعہ متوجہ ہواجاتاہے لہٰذاسرکے مسح کرنے کامقصدیہ ہے کہ ہم مادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونے سے دوری اختیارکررہے ہیں اوراپنارخ خداکی جانب کررہے ہیں۔

٨۔ پیروں کے مسح کرنے کارازیہ ہے کہ انسان انھیں کے ذریعہ تمام دنیاوی مقاصدکی جانب بڑھتاہے اورانھیں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے لہٰذاہم سرکے اگلے حصہ پرمسح کے ذریعہ اپنی جہت کوبدل رہے ہیں اور خداکی جانب حرکت کررہے ہیں کیونکہ عبادت خداکے ذریعہ اسی وقت سعادت نصیب ہوسکتی ہے اورالله کے ذکرسے اسی وقت دل کوآرام مل سکتاہے ) جب ہم اپنی راہ کودنیاوی مقاصدسے خداکی طرف موڑدیں۔(۱)

محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں جوخط لکھے گئے ان میں ایک خط میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ وضومیں چہرہ اوراہاتھوں کے دھوے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ کیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے اس خط کے جواب میں تحریرکیااوراس طرح وجہ بیان کی: وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کوواجب قراردیاگیاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ کی بارگاہ میں قیام کرتاہے توان چاراعضاوجوارح سے اس سے ملاقات کرتاہے ،چہرے کے دھونے کواس واجب قراردیاگیاہے کیونکہ اس کے ذریعہ سجوداورخضوع کرناواجب ہے اوردونوں ہاتھوں کے دھونے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ انھیں حرکت دی جاتی ہے اوران کے ہی ذریعہ میل ورغبت ،خوف وحشت اورقطع کرناوجداکرناانجام پاتاہے لہٰذاان دونوں کے دھونے کوواجب قراردیا گیاہے اورسرودونوں پاؤں کے مسح کرنے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ یہ دونوں ظاہرومکشوف یعنی کھلے رہتے ہیں اورتمام حالات میں ان کے ذریعہ استقبال کیاجاتاہے اوروہ خضوع خشوع جوچہرے اوردونوں میں نہیں پائی جاتی ہے وہ ان دونوں میں پائی جاتی ہے ۔(۲)

____________________

. ١ )قصص الصلاة/ج ٢/ص ٢۴ ۔ ٢۶

.۲)علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٠

۷۳

مرحوم کلینی نے اپنی کتاب “الکافی” میں ایک روایت نقل کی ہے:ابن اذینہ سے مروی ہے کہ ایک دن امام صادق نے مجھ سے فرمایا:یہ ناصبی لوگ کس طرح کی روایت نقل کرتے ہیں؟میں نے کہا:آپ پرقربان جاؤں کس بارے میں؟آپ (علیھ السلام) نے فرمایا: اذان، رکوع ،سجودکے بارے میں؟ میں عرض کیا:وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کو“ابی ابن کعب” نے خواب میں دیکھاہے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:وہ جھوٹ کہتے ہیں، دین خداتو خواب میں دیکھنے سے بھی کہیں درجہ بلندوبالاہے ،راوی کہتاہے کہ اسی وقت سدیرصیرفی نے امام (علیھ السلام) سے عرض کیا:ہم آپ پرقربان جائیں !آپ ہمارے لئے اس بارے میں کچھ بیان کیجئے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)معراج پرگئے اورساتوے آسمان پرپہنچے آنحضرت سے کہاگیا:اے محمد!اپنے سرکوبلندکرواوراوپرکی طرف نگاہ کرو،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کہتے ہیں کہ :میں نے جیسے ہی سربلندکیاتودیکھاکہ آسمان کے تمام طبقے شکافتہ ہوگئے ہیں اورآسمان کے تمام پردے اٹھالئے گئے ہیں ،اسکے بعدمجھ سے کہاگیا:

اے محمد!اب نیچے کی طرف بھی دیکھو!میں نے جیسے نیچے کی طرف نگاہ ڈالی توخانہ کٔعبہ کے مانند ایک گھرنظرآیااورمسجدالحرام کے مانندایک حرم دیکھا،اگرمیں اس وقت اپنے ہاتھ سے کوئی چیزنیچے کی طرف چھوڑتاتووہ سیدھی اسی حرم میں آکرگرتی ،اس وقت مجھ سے کہاگیا:یامحمدااِنّ هذالحرم وانت الحرام ولکل مثل مثال ثمّ اوحی الله الیّ :یامحمد! ادن من “صاد”فاغسل مساجدک وطهرهاوصلّ لربّک ۔

اے محمد!یہ حرم ہے اورتومحترم اورہرایک چیزکی ایک مثالی تصویرہوتی ہے ،اس کے بعدمجھ پروحی نازل ہوئی اورمجھ سے کہا گیا :اے محمد!صاد(١) کے قریب جاؤاوراپنے اعضاء سجدہ کوپانی سے دھوؤاوراپنے پروردگارکے لئے نمازپڑھو،رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)صادکے قریب پہنچے اوردائیں ہاتھ کی چلّومیں پانی لیا ،چونکہ نبی نے دائیں ہاتھ سے پانی چلومیں لیاتو اسی لئے دائیں ہاتھ سے وضوکرناسنت قرار پایا، پھر خدا نے وحی نازل کی:اغسل وجهک فانک ت نظرالیٰ عظمتی ثمّ اغسل ذراعیک الیمنیٰ والیسریٰ فانّک تلقی بیدک کلامی ثمّ امسح راسک بفضل مابقی فی یدک من الماء ورجلیک الیٰ کعبیک ۔ اپنے چہرہ دھوؤکیونکہ تم اس کے ذریعہ میری عظمتوں کامشاہدہ کرتے ہو،اس کے بعداپنے دائیں اوربائیں ہاتھ کوکہنیوں سمیت دھوؤکیونکہ تم ان ہی ہاتھوں کے ذریعہ میرے کلام کوحاصل کرتے ہو،اس کے بعدہاتھ پرباقیماندہ پانی کی رطوبت کے ذریعہ سرکا اورپیروں کاکعبین تک مسح کروپھرمیں تمھیں ایک خوشی طعاکروں گااورتمھارے قدموں کووہاں تک پہنچادوں گاکہ ) جہان پرآج تک کسی نے قدم نہیں رکھاہے(۲)

____________________

١)کافی /ج ٣/ ص ۴٨۵

۲)صادوہ پانی ہےجوعرشکی بائیں پنڈلی سے جاری ہے

۷۴

۴ ۔خروج پیشاب ،پیخانہ اورریح سے وضوکے باطل ہونے کی وجہ

پیشاب ،پیخانہ ،ریح کے خارج ہونے اورمجنب ہوجانے سے وضوباطل ہوجاتی ہے خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:( اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنکُمْ مِنَ الْغَائِطِ اَوْلَامَسْتُمُ النِّسَاءَ ) . وضوکرو!اگرتم میں سے کسی پاخانہ نکل آئے یاعورت کولمس کرواورمنی نکل ( توطہارت کرو)۔(۱)

عن زرارة قال:قلتُ لابی جعفر،وابی عبدالله علیهماالسلام :ماینقض الوضوء ؟ فقالا:مایخرج من طرفیک الاسفلین : من الذکروالدبر ، من الغائط والبول ، ا ؤالمنی ا ؤریح ، والنوم حتی یذهب العقل .

زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر اورامام جعفرصادق +سے پوچھا:کن چیزوں کے ذریعہ وضوباطل ہوجاتاہے ؟پس دونوں امام (علیھ السلام)نے فرمایا:وہ چیزکہ جوتمھارے نیچے کے دونوں حصے آلہ ت ناسل اوردبرسے خارج ہوتی ہیں یعنی پیشاب اورپاخانہ ،منی ،ریح،ایسی نیندکہ جسکے ذریعہ عقل ضائع ہوجائے۔(۲)

امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وہ چیزیں جوطرفین سے یعنی قُبل ودُبرسے خارج ہوتی ہیں ان کے ذریعہ اورنیندکے ذریعہ وضوباطل ہو جاتی ہے کسی دوسری چیزکے ذریعہ وضوکیوں باطل نہیں ہوتی ہے ؟اس کاجواب یہ ہے: کیونکہ طرفین یعنی قُبل ودُبردوایسے راستے ہیں جن کے ذریعہ نجاست خارج ہوتی ہے اورانسان میں ان دوراستوں کے علاوہ نجاست خارج ہونے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے جوانسان سے خودبخودلگ جائے اوراسے مت نجس کردے لہٰذاجس وقت ان دوراستوں سے نجاست خارج ہوتی ہے توانسان پاک ہوتاہے اوران دوراستوں کے ذریعہ نجاست نکلتے ہیں مت نجسہوجاتاہے لہٰذاطہارت حکم دیاگیاہے ۔

لیکن نیندکہ جب وہ انسان پرغالب آجاتی ہے تواس کے ذریہ بھی وضوباطل ہوجاتی ہے کیوں نکہ جوچیزانسان میں منافذہوتی ہے وہ کھل جاتی ہیں اورسست ہوجاتی ہیں اورغالباًایسے حال میں چندچیزیں خارج ہوتی ہیں کہ جسکی وجہ سے وضوکرناواجب ہوتاہے ۔(۳)

____________________

۱)سورہ نٔساء/آیت ۴٣ ۔سورہ مٔائدہ/آیت ۶

.۲) کافی /ج ٣/ص ٣۶

۳) عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١

۷۵

کھانے ،پینے سے وضوکے باطل نہ ہونے کی وجہ

کسی چیزکے کھانے پینے سے وضوباطل نہیں ہوتی ہے ،اس کی وجہ حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے ۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : توضو أممایخرج منکم ، ولاتوضو أ ممایدخل فانه یدخل طیبایخرج خبیثا .

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:ان چیزوں کی وجہ سے باطل ہوجاتاہے کہ جوتمھارے بدن سے خارج ہوتی ہیں اوران چیزوں سے وضوباطل نہیں ہوتاہے کہ تمھارے بدن میں داخل ہوتی ہیں کیونکہ بدن میں پاک چیزجاتی ہے اوربدن سے خارج ہونے والی چیزخباثت کاحکم رکھتی ہیں۔(۱)

آب وضوکے پاک، مباح اورمطلق ہونے اوربرت ن کے مباح ہونے کی وجہ

جس پانی سے وضویاغسل کرتے ہیں اس کاپاک ،مطلق اورمباح ہوناضروری ہے ، اگرانسان عمداًیاسہواًنجس ، مضاف یاغصبی پانی سے وضویاغسل کرے تووہ وضواورغسل باطل ہے اوراس سے پڑھی جانے والی نمازیں بھی باطل ہیں،خواہ نمازکے لئے وقت باقی ہویانہ ہواورچاہے پہلے سے پانی کے نجس یاغصبی ہونے کاعلم رکھتاہویانہ کیونکہ نجس یاغصبی پانی سے وضوکرنے سے خداسے تقرب حاصل نہیں ہوسکتاہے بلکہ خداسے تقرب حاصل کرنے کے لئے طہارت شرط ہے ۔

غصبی پانی یاغصبی برت ن سے وضوکے باطل ہونے کاسبب یہ ہے کیونکہ اگرغیرمباح ظرف یاپانی سے وضوکیاجائے تواسے تصرف غصبی میں شمارہوجائے گااورتصرف غصبی حرام ہے پس جب تصرف حرام ہے توعبادت بھی باطل ہے دوسرے یہ کہ وضومیں قصدقربت شرط ہے ،غصبی پانی کے ذریعہ وضو کرنے سے قصدقربت حاصل نہیں ہوسکتی ہے پس جب قصدقربت کاوجودنہیں ہے تووضوباطل ہے ۔

قال امیرالمومنین علیه السلام : انّ الله تعالیٰ فرض الوضوء علی عباده بالماء الطاهروکذلک الغسل من الجنابة.

حضرت علی فرماتے ہیں:خداوندعالم نے اپنے بندوں پرواجب قراردیاہے کہ وضوکوپاک پانی کے ذریعہ انجام اووراسی طرح غسل جنابت کو۔

___________________

۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٢٨٢

۷۶

۶ ۔خودوضوکرنے کی شرط کی وجہ:

وضوکے شرائط میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپناوضوخودکرے یعنی اپنے چہرے، دونوں ہاتھوں کوخود دھوئے اورسروپاو ںٔ کامسح بھی خودکرے ،اگرکوئی شخص بغیرکسی مجبوری کے کسی دوسرے سے وضوکرائے یعنی کوئی دوسراشخص اس کے چہرے کویاہاتھوں کودھوئے ،سریاپیرکامسح کرے تواس کی وضوباطل ہے مگریہ کہ خودوضوکرنے کی قدرت نہیں رکھتاہواوربغیرکسی مجبوری کے کسی دوسرے سے پانی وضوکے لئے پانی ڈلوانامکروہ ہے جسکی وجہ قرآن وسنت اس طرح بیان کی گئی ہے:

( فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْالِقَاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاًصَالِحًاوَّلَایُشْرِک بِْعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَدًا ) جوبھی اپنے رب سے ملاقات کاامیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اورکسی کواپنے پروردگارکی عبادت میں شریک قرارنہ دے ۔(۱)

شیخ صدوقنے “من لایحضرہ الفقیہ”میں ایک روایت نقل کی ہے:کان امیرالمومنین علیه السلام اذاتوضا لٔم یدع یصب علیه الماء قال:لاا حٔبّان اشرک فی صلاتی احداً .

امیرالمومنین حضرت علیجب بھی وضوکرتے تھے توکسی کوپانی ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اورفرماتے تھے :میں اپنی نمازوعبادت میں کسی کوشریک کرناپسندنہیں کرتاہوں۔(۲)

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:خصلتان لااُحب ان یشارکنی فیهمااحد:وضوئی فانه من صلاتی وصدقتی فانهامن یدی الی یدالسائل فانهاتقع فی یدالرحمن . نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:دوخصلت ایسی ہیں کہ میں ان میں کسی دوسرے کوشریک کرناپسندنہیں کرتاہوں: ایک میراوضوکیونکہ وہ میری نمازکاحصہ ہے دوسرے میراصدقہ کیونکہ میرے ہاتھوں سے سائل کے ہاتھوں میں پہنچتاہے اورچونکہ وہ خدائے کے ہاتھوں میں پہنچتاہے۔(۳)

____________________

۱)سورہ کٔہف/آیت ١١٠

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴٣

۳) خصال (شیخ صدوق)ص ٣٣

۷۷

٧۔سورج کے ذریعہ گرم پانی سے وضوکرنے کی کراہیت کی وجہ:

سورج کے ذریعہ گرم شدہ پانی سے کوئی حرج نہیں ہے البتہ مکروہ ہے

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : الماء الذی تسخنه الشمس لاتتوضو أ به ، ولاتغسلوا به ولاتعجنوا به ، فانه یورث البرص .

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:وہ پانی کہ جسے سورج نے گرم کردیاہے اس سے وضونہ کرواورغسل بھی نہ کرواوراس کے ذریعہ آٹے کوخمیربھی نہ کروکیونکہ اس کے ذریعہ برص کے مرض کاخطرہ ہے ۔(۱)

وضوکے آداب

١۔وضوسے پہلے مسواک کرنا

مستحب ہے کہ جب انسان نمازکاارادہ کرے تووضوسے پہلے مسواک کرے اور پاک ومعطردہن کے ساتھ الله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قدم رکھے کیونکہ معصومین کی یہی سیرت رہی ہے کہ وہ وضوسے پہلے مسواک کرتے تھے اورمسواک کرنے کی فرمائش ونصیحت بھی کرتے تھے ۔

قال رسوللله صلی الله علیه وآله وسلّم لِعلیّ فی وصیّته:علیک بالسواک عندوضوء کلّ صلاة (۲)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)مولائے کائنات حضرت علی سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اے علی! تم ہر نماز سے وضوکرتے وقت مسواک ضرورکیاکرو۔

یاعلی !علیک بالسواک وان استطعت ان لاتقل منه فافعل فانّ کل صلاة تصلیهابالسواک تفضل علی الّتی تصلیهابغیرسواک اربعین یوما .(۳)

اے علی ! میں تم کو مسواک کے بارے میں وصیت کرتا ہوں اور اگرتم اس کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتے تو خوداسے انجام دیتے رہوکیونکہ ہر وہ نمازکہ جس سے پہلے مسواک کی جاتی ہے وہ نماز ان چالیس دن کی نماز وں سے افضل ہیں جو نماز بغیر مسواک پڑھی جاتی ہیں ۔

____________________

۱)علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨١

. ۲)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٣

. ۳)مکارم الاخلاق /ص ۵١

۷۸

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:رکعتان بالسواک افضل من سبعین رکعة بغیرسواک (۱) امام صادق فرماتے ہیں:مسواک کے ذریعہ دورکعت پڑھی جانے والی نماز بغیر مسواک کے پڑھی جانے والی سترنمازوں سے افضل ہے ۔

قال سول الله صلی الله علیه وآله وسلم : لولاان اشق علی امتی لامرتهم بالسواک مع کل صلاة (۲)

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں: اگرمیری امت پرمسواک کرناباعث مشقت نہ ہوتاتومیں انھیں ہرنمازکے ساتھ مسواک کرنے کولازم قراردیتا۔

٢۔ وضوکرتے وقت معصوم (علیھ السلام)سے منقول ان دعاؤں کوپڑھنا

امام صادق فرماتے ہیں:ایک دن امیرالمومنیناپنے فرزند“محمدابن حنفیہ ”کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا:اے محمد!میرے لئے ایک ظرف میں پانی لے کرآو تٔاکہ میں نمازکے لئے وضوکروں،محمدپانی لے کرآئے اور امام(علیھ السلام) نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پرپانی ڈالااوریہ دعاپڑھی:

بسم اللهوباللهوالحمدلله الذّی جعل الماء طهوراًولم یجعله نجساً

اس کے بعدامام(علیھ السلام) نے اسنتجاکیا اوریہ دعاپڑھی:

اللّهم حصّن فرجی وَاَعِفّه ،وَاسترعورتی وَحرّمنی علی النّار.

اس کے بعد(تین مرتبہ کلی کی )اوریہ دعاپڑھی:

اللّهم لقّنی حُجّتی یوم اَلْقاک واطلق لسانی بذکراک واجعلنی ممن ترضی عنه

اس کے بعد ناک میں پانی ڈالا اورپروردگارسے عرض کیا:

اللّهم لاتحرّم علیّ ریح الجنّة وَاجْعلنی ممّن یشمّ ریحهاوروحهاوطیبها ۔

اس کے بعدچہرہ دھویااوریہ دعاپڑھی:

اللّهم بیّض وجهی یوم تسودّفیه الوجوه ولاتسوّدوجهی یوم تبیضّ فیه الوجوه.

اس کے بعد داہناہاتھ دھوتے وقت یہ دعاپڑھی:

اللّهم اعطنی کتابی بیمینی والخلد فی الجنان بیساری وحاسبنی حساباًیسیراً.

____________________

۱)

٢)کافی /ج ٣/ص ٢٢

۷۹

بائیں ہاتھ کودھوتے وقت یہ دعاپڑھی:

اللّهم لاتعطنی کتابی بیساری ولاتجعلهامغلولة الیٰ عنقی واعوذبک(ربی من مقطعات النیران.

سرکامسح کرتے وقت بارگاہ خداوندی میں عرض کیا:

اللّهم غشنی برحمتک وبرکاتک وعفوک. دو

نوں پیرکامسح کرتے وقت یہ دعاء پڑھی:

اللّهم ثبت نی علٰی الصراط یوم تزل فیه الاقدام،واجعل سعیی فیمایرضیک عنّی یاذوالجلال والاکرام.

جب وضوسے فارغ ہوئے توسربلندکرکے“محمدابن حنفیہ ”سے مخاطب ہوکرارشادفرمایا:یامحمد !من توضّاَبمثل مَاتوضّاتُ وَقالَ مثل ماقُلتُ خلق الله من کلّ قطرة ملکاًیقدسه ویسبحه ویکبّره ویهلله ویکتب له ثواب مثل ذٰلک.

اے محمد!جوشخص میری طرح وضوکرے اوروضوکرتے وقت میری طرح ان اذکار کو زبان پرجاری کرے خداوندمتعال اس کے آب وضوکے ہرقطرے سے ایک فرشتہ خلق کرتا ہے تسبیح ) وتقدیساورتکبیرکہتارہتاہے اوراسکے لئے قیامت تک اس کاثواب لکھتا رہتا ہے(۱) زرارہ سے مروی ہے امام محمدباقرفرماتے ہیں:جب تم اپنے ہاتھ کوپانی میں قراردیں توکہیں: “بسم اللهوبالله اجعلنی من التّوابین واجعلنی من المطهّرین ”اورجب وضو سے فارغ ) ہوجاو تٔو“الحمدللّٰه ربّ العالمین ”کہیں۔(۲)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من توضا فٔذکر اسم اللهطهرجمیع جسده وکان الوضوء الی الوضوء کفّارة لمابینهما من الذنوب ومن لم یسم لم یطهرمن جسده الّا ما اصابه الماء .(۳) اگر کوئی شخص وضو کرے اور خداکا نام زبان پر جاری کرے تو اس کا پورا جسم طیب وطاہر ہوجاتا ہے اور ہر وضو بعدوالی وضو کے انجام دینے تک ان گناہوں کا کفارہ ہوتاہے جو دونوں وضوکے درمیان سرزد ہوئے ہیں اوراگرنام خدازبان پرجاری نہیں کرتاہے تواس کے بدن کا وہی حصّہ پاک ہوتاہے جسپروہ پانی ڈالتاہے۔

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ۴٢ /حدیث ٨۴

. ٢)تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٧۶

. ۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٠

۸۰

٣۔ گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا

اگرانسان نیندسے بیدارہونے ، یااسنتجاکرنے کے بعدوضوکرے تومستحب ہے پہلے ایک مرتبہ دونوں ہاتھوں کوگٹوں تک دھوئے اوراگرپاخانہ سے فارغ ہونے کے بعدوضوکرے تودومرتبہ دھوئے اوراگرمجنب ہونے کے بعدوضوکرتاہے توتین مرتبہ ہاتھوں کودھوئے

عبدالله ابن علی حلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق پوچھا:اس سے پہلے کہ انسان وضوکے لئے برت ن ہاتھ ڈالے اسے اپنے دائیں ہاتھ کوکت نی مرتبہ دھوناچاہئے ؟امام (علیھ السلام)نے فرمایا:

واحدة من حدث البول واثنتان من حدث الغائط وثلاث من الجنابة .(۱) اگرپیشاب کے بعدوضوکرے توایک مرتبہ حدث مرتبہ ،پاخانہ کے بعددومرتبہ اوراگرجنابت کے وضوکرے توتین مرتبہ دھوئے ۔

۴ ۔ تین مرتبہ کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا

دونوں ہاتھوں کوگٹوں تک دھونے کے بعدمستحب ہے کہ تین مرتبہ کلی کی جائے اس کے تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالاجائے ،اگرکوئی شخص وضومیں کلی کرنایاناک میں ڈالنابھول جائے توکوئی حرج نہیں ہے

عن ابی جعفروابی عبدالله علیهم السلام انهماقالا:المضمضة والاست نشاق لیسامن الوضوء لانّهمامن الجوف .(۲)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا(واجبات )وضومیں سے نہیں ہیں کیونکہ دودونوں باطن وضومیں محسوب ہوتے ہیں اوراعضائے وضوظاہرہوتے ہیں

____________________

. ١)استبصار/ج ١/ص ۵٠ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٣۶

۲) علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٧

۸۱

۵ ۔ چہرہ اورہاتھوں پردوسری مرتبہ پانی ڈالنا

واجب ہے کہ چہرہ اورہاتھوں پرایک مرتبہ پانی ڈالاجائے اوردوسری مرتبہ مستحب ہے لیکن تیسری مرتبہ پانی ڈالناحرام وبدعت ہے

قال ابوجعفرعلیه السلام:انّ الله تعالی وترٌ یحب الوتر فقدیجزیک من الوضوء ثلاث غرفات : واحدة للوجه ، واثنتان للذراعین ، وتمسح ببلة یمناک ناصیتک ومابقی من بلة یمناک ظهرالقدمک الیمنی ، وتمسح ببلة یسراک ظهرقدمک الیسری (۱)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:خدایکتاویگانہ ہے اوریکتائی کوپسندکرتاہے لہٰذاوضومیں تمھارے لئے تین چلوپانی کافی ہے ،ایک چلوچہرہ کے لئے ،ایک دائیں ہاتھ اورایک بائیں ہاتھ کے لئے ،اب وہ تری جوتمھارے دائیں ہاتھ میں ہے اس سے سرکے اگلے حصہ کامسح کریں،اس بعدجوتری دائیں باقی رہ گئی ہے اس سے دائیں پیرکامسح کریں اوروہ تری جوتمھارے بائیں ہاتھ پرلگی ہے اس کے ذریعہ بائیں پیرپرمسح کریں۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الوضوء واحدة فرض ، واثنتان لایوجر ، والثالث بدعة. (۲) امام صادق فرماتے ہیں:وضومیں(چہرہ وہاتھوں کا) ایک مرتبہ دھوناواجب ہے اوردوسری دھونے میں کوئی اجرنہیں ملتاہے لیکن تیسری مرتبہ دھونابدعت ہے

شدیدتقیہ کی صورت میں جبکہ جان ،مال ،عزت وآبروکاخطرہ ہوتو تین مرتبہ دھوناجائزہے بلکہ واجب ہے اسی طرح دونوں پیروں کادھوناواجب ہے

رویات میں آیاہے کہ علی ابن یقطین نے امام علی ابن موسی الرضا کے پاس ایک خط لکھاکہ اصحاب کے درمیان پیروں کے مسح کرنے کے بارے میں اختلاف پایاجاتاہے ،میں آپ سے التجاکرتاہوں کہ آپ ایک خط اپنے ہاتھ سے تحریرکیجئے اوراس میں مجھے بتائیں کہ میں کس طرح وضوکروں؟

____________________

. ١)کافی /ج ١/ص ٢۵ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٣۶٠

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ۴٠١ )

۸۲

امام (علیھ السلام)نے علی ابن بقطین کوخط کے جواب میں تحریرکیااورلکھا کہ میں سمجھ گیاہوں میں کہ اصحاب وضوکے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں لہٰذامیں تمھیں جو حکم دے رہاہوں تم اسی طرح کرنااوروہ حکم یہ ہے کہ تم اس طرح وضوکرو:

تمضمض ثلاثا ، وتست نشق ثلاثا ، وتغسل وجهک ثلاثا ، تخلل شعرلحیتک وتغسل یدیک الی المرفقیه ثلاثا ، ومسح راسک کله ، وتمسح ظاهراذنیک وباطنهما ، وتغسل رجلیک الی الکعبین ثلاثا ، ولاتخالف ذلک الی غیره

اے علی ابن یقطین !تین مرتبہ کلی کرو ،تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالو ، تین مرتبہ چہرہ دھوو ،ٔ اورپانی کواپنی ڈاڑھی کے بالوں کوجڑوں تک پہنچاؤاور تین مرتبہ ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوو ،ٔ پورے سرکااس طرح مسح کرو کہ کانوں پردونوںطرف ظاہری وباطنی حصہ پرہاتھ پھیرو ، اور اپنے دونوں پیروں کوٹخنوں تک تین مرتبہ دھوو ،ٔاوراپنے وضوکودوسروں کے وضوسے فرق میں نہ رکھواوریادرکھو!اس حکم کے خلاف نہ کرنا.

جب یہ خط علی ابن یقطین کے پاس پہنچاتواسے پڑھ کربہت تعجب کیاکہ یہ بالکل شیعوں خلاف حکم دیاہے ،لہٰذادل میں سوچا:میرے امام بہترجانتے ہیں اورحالات سے وافق ہیں لہٰذااس کے بعدعلی ابن یقطین امام (علیھ السلام)کے فرمان کے مطابق وضوکرنے لگے ہارون رشیدپاس یہ خبرپہنچی کہ علی ابن یقطین رافضی ہے اوروہ تیرامخالف ہے ،ہارون رشیدنے اپنے ایک خواص سے کہا:تم علی ابن یقطین کے بارے میں بہت باتیں بناتے ہواوراس پر رافضی ہونے کی تہمت لگاتے ہو جبکہ میں اس کی دیکھ بھال کرتاہوں،میں چندمرتبہ اس کاامتحان لے چکاہوں،یہ تہمت جوتم اس پرلگارہے ہومیں نے ایسابالکل نہیں دیکھاہے ،میں اسے وضوکرتے ہوںئے دیکھتاہوں،جھوٹاہے وہ شخص جویہ کہتاہے کہ علی ابن یقطین رافضی ہے اگرامام رضا علی ابن یقطین کواس طرح وضوکرنے کاحکم نہ دیتے توہارون رشیدکومعلوم ہوجاتاکہ یہ شخص رافضی ہے اورفوراًقتل کرادیتا

جب علی یقطین کے بارے میں ہارون رشید کے نزدیک صفائی ہوگئی تو علی ابن یقطین نے دوبارہ امام (علیھ السلام)کے پاس خط لکھااوروضوکاطریقہ معلوم کیاتوامام (علیھ السلام)نے لکھا:تم اس طرح وضوکروجسطرح خدانے وضوکرنے کاحکم دیاہے یعنی:

اغسل وجهک مرة فریضة ، واخریٰ اسباغا ، واغتسل یدیک من المرفقین کذلک وامسح بمقدم راسک وظاهرقدمیک من فضل نداوة وضوئک فقدزال ماکنانخاف علیک والسلام اے علی ابن یقطین!چہرہ کوایک مرتبہ واجبی طورسے دھوو ،ٔ اوردوسری مرتبہ اسباغی و تکمیل کی نظرسے ، اپنے دونوں ہاتھوں کہنیوں سے انگلیوں کے پوروں تک دھوو أوراسی آب وضوکی تری سے سرکے اگلے حصہ

کااورپیروں کے اوپری حصہ کامسح کرو،جس چیزکاہمیں ) خوف تھاوہ وقت تمھارے سرسے گذرگیاہے والسلام علیکم ۔(۱)

____________________

. ١)ارشاد(شیخ مفید)/ص ٣١۴

۸۳

۶۔ آنکھوں کوکھولے رکھنا

مستحب ہے کہ چہرہ دھوتے وقت آنکھوں کوبندنہ کریں بلکہ کھولے رکھیں لیکن آنکھوں کے اندرپانی کاپہنچاناواجب نہیں ہے اورآنکھوں کے کھلے ر’ہنے وجہ اس طرح بیان کی گئی ہے :

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:افتحواعیونکم عندالوضوء لعلهالاتری نارجهنم (۲) نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :وضوکرنے وقت اپنی آنکھوں کوکھولے رکھواس لئے تاکہ تم نارجہنم کونہ دیکھ پاو ۔ٔ

٧۔ عورت ہاتھوں کے دھونے میں اندرکی طرف اورمردکہنی پرپانی ڈالے

مردکے لئے مستحب ہے کہ دائیں اوربائیں ہاتھ کودھونے کے لئے جب پالی مرتبہ پانی ڈالے کہنی کی طرف پانی ڈالے اورجب دوسری مرتبہ پانی ڈالے تواندرکی طرف ڈالے اورعورت کے لئے مستحب ہے وہ مردکے برخلاف کرے یعنی جب پہلی مرتبہ اندرکی طرف پانی ڈالے اوردوسری مرتبہ باہرکی طرف ۔

عن ابی الحسن الرضاعلیه السلام قال:فرض الله علی النساء فی الوضوء للصلاة ان یبتدئن بباطن اذرعهن وفی الرجل بظاهرالذراع (۲)

جب عورت نمازکے لئے وضوکرے تواس کے لئے مستحب ہے کہ اپنی کہنی اندرکی طرف سے پانی ڈالے اورمردکے لئے مستحب ہے کہ ہاتھ باہری حصہ پرپانی ڈالے ۔

٨۔ چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں ہونا

مستحب ہے کہ انسان اپنے چہرے پرخوف خداکے آثارنمایاں کرےکان امیرالمومنین علیه السلام اذااخذت الوضوء یتغیّروجهه من خیفة الله تعالیٰ (۳) جس وقت امیر المومنین حضرت علی وضوکرتے تھے ، خوف خدامیں آپ کے چہرے کا رنگ متغیرہوجاتا تھا۔

کان حسین بن علی علیهماالسلام :اذااَخذت الوضوء یتغیرلونه ،فقیل لهُ فی ذٰلک ؟فقال:حقٌّ مَن ارادَاَنْ یدخلَ علیٰ ذی العَرْشِیتغیّرلهُ .(۴)

____________________

. ۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵٠

۲)کافی /ج ٣/ص ٢٩ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٧٧

۳) عدة الداعی /ص ١٣٨ ۔بحارالانواپر/ج ٨٠ /ص ٣۴٧

۴) الخصائص الحسینیّہ/ص ٢٣

۸۴

حضرت امام حسین کے بارے میں روایت نقل ہوئی ہے کہ : جب بھی آپ وضو کرتے تھے تو پورابدن کانپ چاتاتھا اور چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا ، جب لوگ آپ سے اس کی وجہ معلوم کرتے تھے تو امام(علیه السلام) فرماتے تھے ، حق یہی ہے کہ جسوقت بندہ مٔومن خدا ئے قہّا ر کی بار گاہ میں قیام کرے تو اس کے چہرے کا رنگ متغیّر ہو جائے اور اس کے جسم میں لرزاں پیدا ہو نا چاہئے ۔کان الحسن (عاذافرغ من وضوئه یتغیر (۱)

امام حسن جب وضوسے فارغ ہوتے تھے توآپ کے چہرے کارنگ متغیرہوتاتھا۔

٩۔ رحمت خداسے قریب ہونے اوراس مناجات کرنے کا ارادہ کرنا

قال الصادق علیه السلام :اذااردت الطهارة واالوضوء فتقدم الی الماء تقدمک الی رحمة اللهفانّ الله تعالی قدجعل الماء مفتاح قربته ومناجاته ودلیلاالٰی بساط خدمته وکماان رحمته تطهرذنوب العبادفکذٰلک نجاسات الطاهرة یطهرالماء لاغیرفطهرقلبک بالتقوی والیقین عندطهارة جوارحک ۔(۲)

حضرت امام صادق فرما تے ہیں : جب آپ وضو وطہارت کا ارادہ کر یں تو یہ سو چ کر پانی کی طرف قدم بڑ ھا ئیں کہ رحمت خدا سے قریب ہورہے ہیں کیو نکہ پانی مجھ سے تقرب ومنا جا ت حاصل کر نے کی کنجی ہے اور میرے آ ستا نے پر پہنچنے کے لئے ہدایت ہے لہٰذا اپنے بد ن وا عضا ء کو دھوتے وقت اپنے قلب کو تقویٰ ویقین سے پاک کرلیا کر یں

١٠ ۔ پانی میں صرفہ جوئی کرنا

سوال یہ ہے کہ جب ہم پاک صاف ہوکر الله کی بندگی کرتے ہیں توخداہماری دعاؤں کومستجاب کیوں نہیں کرتاہے ؟اکثرمومنین جب وضوکرتے ہیں توپانی کابہت زیادہ اسراف کرتے ہیں اوردین اسلام میں اسراف کرنے کوسختی سے منع کیاگیاہے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اسراف کومدنظر رکھتے تھے اوروضومیں اس مقدارمیں پانی خرچ کرتے تھے:عن ابی بصیرقال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن الوضوء فقال:کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یتوضا بِٔمد من ماءٍ ویغتسل بصاعٍ (۳)

____________________

. ۱)میزان الحکمة /ج ٢/ح ١٠۶٠٨

. ۲)مصباح الشریعة/ص ١٢٨

. ۳)استبصار/ج ١/ص ١٢١ ۔تہذیب الاحکام /ج ١/ص ١٣۶

۸۵

ابوبصیرسے مروی ہے :میں نے امام صادق سے آب وضوکی مقدارکے بارے پوچھاتوامام (علیه السلام)نے فرمایا: پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)ایک مدّ،پانی سے وضوکرتے اورایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے ، مدیعنی تین چلّوپانی ،صاع ،یعنی تین کلوپانی، پس آنحضرتوضومیں ایک چلّوپانی چہرے پراورایک داہنے پراورایک بائیں ہاتھ پرڈالتے تھے اورغسل میں تین کلوپانی استعمال کرتے تھے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله : الوضوء مد ، والغسل صاع وسیاتی اقوام بعدی یستقلون ذلک (۱)

رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : وضوکرنے کے لئے دس سیر اور غسل کرنے کے لئے تین کلو پانی کافی ہے لیکن آئندہ ایسے بھی لو گ پیدا ہونگے جو اس مقدا ر کو غیر کا فی سمجھیں گے( اور صرفہ جوئی کے بد لے اسراف کریں گے ) اور وہ لوگ میری روش اور سیرت کے خلاف عمل کریں گے ۔

وضو کے آثار وفوائد

رویناعن علی ، عن رسول الله صلی الله علیه وآله سلم انّه قال: یحشره الله اُمّتی یوم القیامة بین الامم ، غرّاًمُحجّلین مِن آثارالوضوء (۲)

حضرت علیسے مروی ہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم روزقیامت میری امت کودوسری امتوں کے درمیان اس طرح محشورکرے گاکہ میری امت کے چہروں پروضوکے آثارنمایاں ہونگے اورنورانی چہروں کے ساتھ واردمحشرہونگے۔

حضرت امام باقر فرماتے ہیں : ایک روز نمازصبح کے بعدسیدالمرسلین حضرت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے، طلو ع آفتاب کے بعد تمام اصحاب یکے بعد اٹھ کراپنے گھرجاتے رہے لیکن دو شخص (انصاری وثقفی)آنحضرت کے پاس بیٹھے رہ گئے ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں جانتاہوں تم مجھ سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں ، اگرتم چاہو تو میں دونوں کی حاجتوں کوبیان کرسکتا ہوں کہ تم کس کام کے لئے ٹھہرے ہوئے ہواوراگرتم چاہوتوخودہی بیان کرو ، دونوں نے نہایت انکساری سے کہا:

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣۴

٢ )دعائم الاسلام /ج ١/ص ١٠٠

۸۶

یارسول الله ! آپ ہی بیان کیجئے آنحضرت نے انصاری سے کہا:تمھاری منزل نزدیک ہے اورثقفی بدوی ہے ،انھیں بہت جلدی ہے اورکوئی ضروری کام ہے لہٰذپہلے ان کے مسئلہ کاجواب دے دوں اورتمھارے سوال کاجواب دوں گا،انصاری کہا:بہت اچھا،پس آنحضرت نے فرمایا : اے بھائی ثقفی ! تم مجھ سے اپنے وضوونمازاوران کے ثواب کے بارے میں مطلع ہوناچاہتے ہوتو جان لو:

جب تم وضوکے لئے پانی میں ہاتھ ڈالتے ہواور“بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے ہوتوتمھارے اپنے ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام دئے گئے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے چہرے کودھوتے ہوتوجوگناہ تم نے اپنی ان دونوں انکھوں کی نظروں سے اوراورمنہ کے ذریعہ بولنے سے انجام دئے ہیں سب معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے دونوں ہاتھوں کودھوتے ہوتووہ گناہ جوتمھارے اپنے دائیں وبائیں پہلوسے سرزدہوئے ہیں معاف ہوجاتے ہیں اورجب تم اپنے سروپاو ںٔ کامسح کرتے ہوتووہ تمام گناہ کہ جن طرف تم اپنے ان پیروں کے ذریعہ گئے ہوسب معاف ہوجاتے ہیں،یہ تھاتمھارے وضوکاثواب ،اسکے بعدآنحضرت نے نمازکے ثواب کاذکرکیا۔(۱)

قال امیرالمومنین علیه السلام لابی ذر:اذانزل بک امر عظیم فی دین او دنیا فتوضا وارفع یدیک وقل :یاالله سبع مرّات فانّه یستجاب لک ۔(۲) حضرت علی نے ابوذر غفاری سے فرمایا : جب بھی تمھیں دینی یا دنیاوی امور میں کوئی مشکل پیش آئے تو وضو کرو اور درگاہ الٰہی میں اپنے دونوں ہاتھو ں کو بلند کر کے سات مرتبہ“ یَا اَللهُ ” کہو! یقینًا خداوندعالم تمھاری دعامستجاب کرے گا۔

گھرسے باوضو ہوکرمسجد جانے کاثواب

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة نفربغیرحساب،ویشفع کل واحد منهم فی ثمانین الفا:المؤذّن،والامام،ورجل یتوضا ثٔمّ دخل المسجد،فیصلّی فی الجماعة (۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : پروردگارعالم کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیر کسی حساب وکتاب کے بہشت میں بھیجا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص/ ٨٠ ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا وہ تین شخص یہ ہیں:

١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے ۔

____________________

. ١)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص

. ٢ )بحارالانوار/ ٨٠ /ص ٣٢٨

۳)مستدرک الوسائل/ج ۶/ص ۴۴٩

۸۷

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:مکتوب فی التوراة انّ بیوتی فی الارض المساجد، فطوبیٰ لمن تطهرثمّ زارنی وحقّ علی الزور اَن یکرم الزائر .(۱) امام صادق فرماتے ہیں:توریت میں لکھاہے :مساجدزمین پرمیرے گھرہیں، خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئےخوشبحال ہے جواپنے گھرمیں وضوکرتے ہیں اس کے بعدمجھ سے ملاقات کے میرے گھرآئے ،مزورکاحق ہے کہ وہ اپنے زائر کااحترام واکرام کرے۔

کسی کو وضوکے لئے پانی دینے کاثواب

حضرت صادق فرماتے ہیں : روزقیامت ایک ایسے شخص کو خدا کی بار گاہ خداوندی میں حاضرکیاجائے گاکہ جس کے اعمال نامہ میں کوئی نیکی نہ ہوگی اور اس نے دنیا میں کو ئی کارخیر انجا م نہیں دیا ہوگا ،اس سے پوچھاجائے گا : اے شخص ! ذرا سو چ کر بتا کیا تیرے دنیامیں کوئی نیک کام انجام دیاہے ؟ وہ اپنے اعمال گذ شتہ پر غور وفکر سے نگاہ ڈال کر عرض کرے گا : پرور دگار ا! مجھے اپنے اعمال میں ایک چیز کے علاوہ کوئی نیک کام نظرنہیں آتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک دن تیرافلاں مومن بندہ میرے پاس سے گذررہاتھا ،اس نے وضوکے لئے مجھ سے پانی کاطلب کیا، میں نے اسے ایک ظرف میں پانی دیا اور اس نے وضو کرکے تیری نمازپڑھی ، اس بندہ کی یہ بات سن کرخدا وند عالم کہے گا:میں تجھے تیرے اس نیک کام کی وجہ سے بخش دیتاہوں اورپھرفرشتوں کو حکم دے گامیرے اس بند ے کو بہشت میں لے جاؤ ۔(۲)

ہرنمازکے لئے جداگانہ وضو کرنے کاثواب

ہرنمازکےلئے جداگانہ طورسے وضوکرنامستحب ہے اورہمارے رسول وآئمہ اطہار بھی ہرنمازکے لئے الگ وضوکرتے تھے جیساکہ روایت میں آیاہے: إنّ النبی صلی الله علیہ وآلہ : کان یجددالوضوء لکل فریضة ولکل صلاة پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)تمام فریضہ الٰہی اورنمازکوانجام کودینے کے لئے تجدید ) وضو کرتے تھے ۔(۳)

عن علی علیه السلام انّه کان یتوضا لٔکلّ صلاةٍ ویقرء: “ اذاقمتم الی الصلاة فاغسلواوجوهکم(۴)

حضرت علی ہر نماز کے لئے جداگا نہ وضو کرتے تھے اورآیہ “ٔ( یاایهاالذین آمنوا اذاقمتم الی الصلاة فاغسلوا وجوهکم ) ”کی تلاوت کرتے تھے ۔

____________________

. ۱) علل الشرائع /ج ١/ص ٣١٨

۲)بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠۶

.. ۳) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٩

. ۴)مستدرک الوسائل /ج ١/ص ٢٩٣

۸۸

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :الوضوء علی الوضوء نورٌعلیٰ نورٌ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: وضو پر وضو کرنا “نورٌ علیٰ نور ” ہے۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من جدّدوضوئه لغیرحدث جدّدالله توبته من غیراستغفار .(۲)

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکے علاوہ کسی دوسرے کام کے لئے تجدیدوضوکرتا ہے خداوندمتعال استغفارکئے بغیرہی اسکی توبہ قبول کرلیتاہے۔

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :من توضاعلی طهرکتب له عشرحسنات ۔(۳) نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص وضوپروضوکرے اس کے لئے دس لکھی جاتی ہیں۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مومن بندہ ہمیشہ باوضورہتاتھاجب وہ اس دارفانی سے کوچ کرگیاتوایک دوسرے مومن نے اسے خواب میں دیکھاکہ اس کاچہرہ نورانی ہے اوربہشت کے باغات میں سیرکررہاہے ، میں نے اس سے معلوم کیا:اے بھائی! تم دنیامیں اتنابڑے متقی وپرہیزگارتونہیں تھے پھرتم دنیامیں ایساکونسا کام کرتے تھے جس کی وجہ سے تجھ کویہ منزلت حاصل ہوئی اورتم یہ پر نورانیت کس طرح آئی؟اس نے جواب دیا:اے بھائی ! میں دنیامیں ہمیشہ باوضورہتا تھاجس کی وجہ سے خداوندمتعال نے میرے ان اعضاء کونوربخشا( وَاللهُ یُحِبُّ المُتَطَهّرِین ) (۴) اورخداپاک رہنے والوں کودوست رکھتاہے.

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:یااَنس!اکثرمن الطهوریزیده اللهفی عمرک،وان استتطعت ان تکون باللیل والنهارعلی طهارة فافعل،فانّک تکون اذامتّ علیٰ طهارةٍ شهیداً.وعنه صلی الله علیه وآله وسلم:من احدث ولم یتوضا فٔقد جفانی .(۵)

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرما تے ہیں : اے انس!اکثراوقات باوضو رہاکرو تاکہ خدا آپ کی عمرمیںزیادتی کرے اور اگر ہوسکے تو دن اوررات وضو سے رہو کیونکہ اگر تمھیں وضوکی حالت میں موت آگئی تو تمھاری موت شہیدکی موت ہوگی اورآنحضرتدوسری حدیث میں فرماتےہیں:اگر کسی شخص سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی

____________________

. ۱)محجة البیضاء/ج ١/ص ٣٠٢

۲)ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣٨

۳)وسائل الشیعہ /ج ١/ص ٢۶۴ )

۴)سورہ تٔوبة /آیت ١٠٨

.۵) نماز،حکایتہاوروایتہا/ ١۵ )

۸۹

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلّم :یقول الله تعالیٰ:من احدث ولم یتوضا فٔقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤلم یصلّ رکعتین فقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤصلّ رکعتین ودعانی ولم اَجبه فیماسئلنی من اَمردینه ودنیاه فقدجفوته ولستُ برب جافٍ .(۱)

حدیت قدسی شریف میں آیا ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی اور اگرکسی کوحدث صادرہوجائے اوروضوبھی کرلے لیکن وہ دورکعت نماز نہ پڑھے تواس نے بھی مجھ پر جفا کی، اگرکسی کوحدث صادرہوجائے اوروہ وضوبھی کرے اوردورکعت نمازبھی پڑھے اس کے بعد مجھ سے کسی چیزکاسوال کرے اورمیں اس کے سوال امر دین و دنیا کوپورانہ کروں تو گویااس شخص پرجفاکی اور میں جفا کار پر ور دگار نہیں ہوں ۔

کامل طورسے وضوکرنے کاثواب

کامل طورسے وضوکرنے سے مرادکیاہے اس چیزکوہم اسی موردکے فوراً بعد ذکر کریں گے لیکن یہاں پرفقط کامل طورسے وضوکرنے کاثواب ذکرکررہے ہیں

عن ابی الحسن العسکری علیه السلام قال:لما کلّم الله عزّوجل موسیٰ علیه السلام قال:الٰهی مَاجَزَاء مَنْ اَتَمّ الوضوء مِنْ خِشْیَتِک؟قال:اَبْعَثه یوم القیامة ولهُ نورٌبین عینیه یتلا لٔا(۱) امام حسن عسکری فرماتے ہیں :جب(کوہ طورپر) خداوندعالم حضرت موسی سے ہمکلام ہواتوحضرت موسیٰ نے بارگاہ ربّ العزت میں عرض کی : پروردگار ا ! اگر کوئی تیرے خوف میں مکمل طور سے وضوکرے اسکا اجروثواب کیاہے ؟ خداوند عالم نے فرمایا : روزقیامت اس کو قبرسے اس حال میں بلند کروں گا کہ اس کی پیشانی سے نور ساطع ہوگا ۔

فی الخبراذاطهرالعبدیخرج الله عنه کل خبث ونجاسة وانّ من توضافاحسن الوضوء خرج من ذنوبه کیوم ولدته من امه ۔(۲)

روایت میں آیاہے جب کوئی وضوکرتاہے توخداوندعالم اسے ہرنجاست وخباثت سے پاک کردیتاہے اورجوشخص مکمل طورسے وضوکرتاہے توخدااسے گناہوں سے اس طرح پاک کردیتاہے جیسے اس نے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیاہو۔

____________________

. ۱)وسائل الشیعہ/ج ١/ص ٢۶٨

۲)بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٣٠١

. ۳)مستدرک الوسائل/ج ١/ص ٣۵٨

۹۰

قال النّبی صلی الله علیه وآله وسلّم :یٰااَنس اَسبغ الوضوء تمرُّعلی الصراط مرٌالسحاب .(۱) رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : اے انس ! وضو کومکمل اوراس کے تمام آداب شرائط کے ساتھ انجام دیاکرو تا کہ تم تیز ر فتا ر با دل کے مانند پل صراط سے گزر سکو ۔

آب وضوسے ایک یہودی لڑکی شفاپاگئی

جناب نفیسہ خاتون جوکہ اسحاق بن امام جعفرصادق کی زوجہ اورحسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ کی صاحبزادی تھیں،آپ ایک عظیم و با ایمان خاتو ن تھیں اور مدینہ میں زندگی بسرکرتی تھیں،اس عظیم خاتون نے پورا قرآن مع التفسیر حفظ کررکھاتھا ، دن میں روزہ رکھتی اور راتوں کو عبادت ومناجات کرتی تھیں،آپ تیس مرتبہ حج بیت ا للھسے مشرف ہوئیں اور غالباً سفرحج کو پیدل طے کرتی تھیں جبکہ آپ بہت زیادہ صاحب ثروت تھیں لیکن اپنے مال ودولت کوبیماروں وحاجتمندوں پرخرچ کرتی تھیں

آپ کی بھتیجی “زینب بنت یحییٰ ”کہتی ہیں کہ :میں نے اپنی زندگی کے چالیسبرس اپنی پھو پھی کی خدمت میں گذارے ہیں، اس مدت کے دوران میں نے انھیں رات میں کبھی سوتے ہوئے اور دن میں کوئی چیز کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ،آپ رات میں عبادت کرنے اور دنوں میں روزہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوچکی تھیں ایک دن میں ان سے کہا: آپ اپنا علاج کیوں نہیں کرتی ہیں ؟ جواب دیا: میں اپنے نفس کا علاج کس طرح کروں ابھی تو راستہ بہت دشوار ہے اوراس راستہ سے فقط ناجی لوگ ہی گزرسکتے ہیں۔

ایک سال جب جناب نفیسہ نے اپنے شوہر (حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ) کے ہمراہ حضرت ابراہیم کی قبر کی زیارت کے لئے فلسطین کا سفر کیا اورزیارت کے بعدسفرسے واپسی کے درمیان مصرمیں قیام کیاآپ کے ہمسایہ میں ایک یہو دی رہتا تھاجس کے گھرمیں ایک نابینا لڑکی تھی ،ایک دن اس یہودی لڑکی نے نفیسہ کے وضو کے پانی کو بعنوان تبرک اپنی آنکھوں پر ڈالا توفوراً شفاپاگئی جب اس خبرکومصرکے یہودیوں نے سناتو ان میں سے اکثرنے دین اسلام قبول کیا اور وہاں کے اکثر لوگ آپ کے عقیدتمندہوگئے، جب آپ نے مدینہ واپس جا نے کا ارادہ کیا تو اہل مصرنے اصرارکیا کہ آپ یہیں پر قیام پذیرہوجائیں ،آپ نے ان کی درخواست کو منظور کر لیااوروہیں پرزندگی گذارنے لگیں ۔

____________________

۱) خصال(شیخ صدوق)/ص ١٨١

۹۱

جناب نفیسہ نے مصرمیں اپنے ہاتھوں سے ایک قبربنارکھی تھی اور سفر آخرت کا انتظا ر کرتی تھیں ، روزانہ اس قبر میں داخل ہوتی اور کھڑے ہوکر نماز پڑ ھتی تھیں اور اسی قبرمیں بیٹھ کر چھ ہزار مرتبہ اور ایک روایت کے مطابق ١٩٠ /مرتبہ قرآن ختم کیا ہے اور آپ ماہ رمضان المبارک ٢٠٨ ئھ میں روزے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے داربقاء کی طرف کوچ کر گئیں(۱)

آب وضوسے درخت بھی پھلدارہوگیا

جوادا لآ ئمہ حضرت امام محمدتقی کی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ : جس وقت آپ اپنے شیعوں کی ایک جماعت کے ہمراہ بغدادسے مدینہ کا سفر طے کررہے تھے تو غروب آفتاب کے وقت کوفہ کے قریب پہنچے اورایک جگہ پرجس کا نام“دارمسیب”ہے قیام کیا اوروہاں کی مسجد میں داخل ہوئے کہ مسجدکے صحن مسجد میں ایک درخت تھا جس پرکوئی پھل نہیں لگتاتھا

حضرت امام محمدتقی نے ایک برت ن میں پانی طلب کیا اور اس درخت کے نیچے بیٹھ کر وضوکیا اور نمازمغرب کو اوّل وقت اداکیااورلوگوں نے آپ کی اقتداء میں جماعت سے نمازپڑھی ،امام (علیه السلام)نے پہلی رکعت میں حمدکے بعد “اذاجاء نصرالله” اور دوسری رکعت میں حمدکے بعد“( قل هوالله احد ) ” کی قرائت کی اورسلام نماز کے بعد ذکرخدا اور تسبیح میں مشغول ہوگئے اس کے بعد چار رکعت نافلہ نمازپڑھی اور تعقیبات نمازپڑھ کر سجدہ شکر ادا کیا،اورنماز عشاکے لئے کھڑے ہوگئے ،جب لوگ نمازودعاسے فارغ ہونے کے بعد اٹھ کرمسجد سے باہرآنے لگے اور صحن مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ اس درخت پر پھل لگے ہوئے ہیں اس معجز ے کو دیکھ کر سب کے سب حیرت زدہ ہوگئے اور سب نے درخت سے پھل توڑکر کھاناشروع کیا تو دیکھا کہ میوہ بہت ہی زیاد ہ میٹھا ہے اور اس کے اندر کوئی گٹھلی بھی نہیں ہے اس کے بعد امام محمدتقی (علیه السلام)اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مد ینہ کی طرف ) راوانہ ہوگئے ۔(۲)

____________________

. ١)سفینة البحار/ج ٢/ص ۶٠۴ ۔ ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣۶

٢ )ارشادشیخ مفید/ص ۶٢٨ باب ٢۵

۹۲

راز تیمم

اگروضوکے لئے پانی کاملناممکن نہ ہو،یاپانی تک رسائی نہ ہو،یاپانی کااستعمال مضرہو،یاکسی نفسکے لئے خطرہ ہوتوان صورتوں میں وضوکے بجائے تیمم کرناواجب ہے قرآن کریم ارشادباری تعالی ہے:

( وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضیٰ اَوعَلٰی سَفَرٍاَوْجَاءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِطِ اَوْلَاْمَسْتُمْ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوامَآءً فَتَیَمَّمُواصَعِیْدًاطَیِّبًافَامْسَحُوابِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِنْهُ ) (۱) اگرتم مریض ہویاسفرکے عالم ہویاپاخانہ وغیرہ نکل آیاہے یاعورتوں کوباہم لمس کیاہے اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلواوربھی اس طرح سے اپنے چہرے اورہاتھوں کامسح کرلو۔

اس آیہ مبارک میں تیمم کاطریقہ یہ بیان کیاگیاہے کہ تیمم کی نیت کرکے دونوں ہاتھوں کوگرد،خاک ،ریت،ڈھیلے ،پتھرپرماریں اوراس کے بعددونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کوپوری پیشانی اوراس دونوںطرف جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں،ابرووں تک اورناک اوپرتک پھیریں،اس کے بعددائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں ہاتھ کی پشت پرگٹے سے انگلیوں کے سرے تک پھیریں،اس کے بعداسی طرح بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں ہاتھ کی پشت پرپھیریں۔ جسچیزپرتیمم کیاجائے اس کاپاک ہوناضروری ہے کیونکہ خداوندعالم نے آیہ مٔبارکہ میں “صعیداًطیباً ” کہاہے

رازتیمم یہ ہے کہ:جب آپ کووضوکے لئے پانی دستیاب نہ ہوسکے توخاک کوجوکہ پست ترین پدیدہ جٔہان ہے اپنے ہاتھ اورچہرے پر ملیں تاکہ آپ کے اندرسے غروروتکبّراورشہوت نفسانی اورشیطانی خواہشیں دور ہوجائیں اورشایدخداکوآپ کی اس تواضع وخاکساری پررحم آجائے اورراہ راست کی ہدایت کردے۔

____________________

. ١)سورہ مٔائدہ /آیت ۶

۹۳

خداوندعالم نے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ کیوں قراردیاہے اوران دونوں کووسیلہ طٔہارت قراردینے کی کیاوجہ کیاہے؟

کشف الاسرارمیں اس حکم خداکی دو حکمت اس طرح بیان کی ہیں:

١۔ خداوندعالم نے انسان کو پانی اور مٹّی سے پیدا کیا ہے ،ان دونوں نعمتوں پرخداکاشکر کرناچاہئے اسی لئے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ قراردیاہے تاکہ ہم اس مطلب کو ہمیشہ یاد رکھیں اور ان دونوں نعمتوں کودیکھ کرخداکا شکرخدا کریں

٢۔ دوسری حکمت اس طرح بیان کی جاتی ہے: خداوندعالم نے آب وخاک کو طہارت کا ذریعہ اس لئے قراردیا ہے کہ انسان اس کے ذریعہ دنیاوی آگ (آتش شہوت) اور آخرت کی آگ (نارجہنم وعقوبت)کو خاموش کرسکے کیونکہ مومن کے لئے دوآگ درپیش ہیں :

١۔دنیاوی آگ جسے شہوت نفسانی کی آگ کہاجاتاہے

٢۔ آخرت کی آگ جسے نارعقوبت و جہنم کہاجاتاہے ) اورانسان آب وخاک کے ذریعہ دنیوی اوراخروی آگ کوخاموش کرسکتاہے۔(۱)

امام محمدباقر فرماتے ہیں:سرکے بعض اورپیروں کے بھی بعض حصے کے مسح کرنے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم نے آیہ مبارکہ فلم تجدوماء فتیمموا صعیداً طیباًفامسحوابوجوہکم پانی نہ ملنے کی صورت میں دھونے کے وجوب کوساقط کردیااوراسکے بدلے میں کرناواجب کردیااورفرمایا: “فامسحوابوجوہکم” یعنی اپنے چہرے کامسح کرواوراس کے بعدفرمایا:“وایدیکم”یعنی اپنے ہاتھوں کابھی مسح کرو،ہاتھوں کے مسح کرنے کوچہرے کے مسح کرنے عطف کیااوراس کے بعد“منہ” فرمایا:یعنی پانی نہ ملنے کی صورت میں خاک پاک پرتیمم کرواوراپنے چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواب یہ جوکہاجاتاہے کہ چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم جانتاہے کہ پورے چہرے پرخاک نہیں ملی جاتی ہے کیونکہ جب ہاتھوں کوخاک پرمارتے ہیں توتھوڑی سی خاک ہاتھوں پرلگ جاتی ہے اوربقیہ تواپنی جگہ پررہتی ہے اورہاتھوں پرنہیں لگتی ہے لہٰذاجب ہاتھوں چہرے پرملتے ہیں تواس میں سے کچھ خاک چہرے پرلگ جاتی ہے نہ کہ پوری خاک، اس کے بعدخداوندعالم ارشادفرماتاہے:( مَایُرِیْدُاللهَ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ )

خداوندعالم تمھیں کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہتاہے ۔(۲)

____________________

. ١)کشف الاسرار/ج ٣/ص ۴٩ ۔ ۵٠

۲). کافی /ج ٣/ص ٣٠

۹۴

رازوجوب ستر

مردکے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنی شرمگاہ ( آگے پیچھے کاحصے)کو چھپائے چاہے اسے کوئی دیکھ رہاہویانہ، اوربہترہے کہ ناف سے زانوتک چھپائے ۔ عورت کے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنے پورے بدن کوچھپائے یہاں تک کہ اپنے بال اورسرکوبھی چھپائے ،صرف چہرہ اورگٹوں تک ہاتھ پاؤں کھلے رہ سکتے ہیں لیکن یہ یقین کرنے کے لئے کہ مقدارواجب کوچھپالیاگیاہے تھوڑاساچہرے کے اطراف اورگٹوں سے نیچے کوبھی چھپائے ۔

جب ہم کسی کی مہمانی میں جاتے ہیں توعقلمنداورصاحب عفت انسان کی عقل یہی حکم دیتی ہے کہ بہترین لباس پہن کرجائیں اوروہ بھی ایسالباس کہ جس سے لوگ ہمارے جسم کے قبائح پرنظرنہ ڈال سکے ،اگرکوئی بغیرلباس کے مہمانی میں جائے توصاحب خانہ اوروہاں پرموجودلوگ اس کے جسم پرنگاہ نہیں کریں گے؟اسی لئے نمازکی حالت میں سترکوواجب قراردیاگیاہے تاکہ اپنے رب کی مہمانی میں بغیرکسی خوف کے خضوع وخشوع کے ساتھ نمازپڑھ سکے ۔

نمازکی حالت میں بدن کے ڈھانپنے کی وجہ روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے: امام صادق فرماتے ہیں:مومنین کامزین ترین لباس تقویٰ وہیزگاری کالباس ہے اوران کالطیف ترین لباس ایمان وعقیدہ کالباس ہے جیساکہ خداوندمتعال اپنی کاتا میں ارشادفرماتاہے :

( لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ ) (۱) لباس تقویٰ بہترین لباس ہے ،لیکن لباس ظاہری خداوندعالم کی نعمتوں سے کہ جسے اولادآدم(علیه السلام) کے لئے ساترقراردیاگیاہے ،اولادآدم کوچاہئے کہ لباس کے ذریعہ اپنی عورت کوچھپائے ذریت آدم(علیه السلام) کے لئے سترعورت ایک خاص کرامت ہے جسے انسان کے علاوہ کسی بھی موجودات عطانہیں کیاگیاہے پس مومنین پرواجب ہے کہ اسے واجبات الٰہی کوانجام دینے میں ضروراستعمال کرے ،اورتمھارابہترین لباس وہ ہے کہ جوتمھیں یادخداسے غافل نہ کرے اوردوسرے کام میں مشغول نہ کرے بلکہ شکروذکراوراطاعت پروردگارسے نزدیک کرے ،پس ایسے لباس سے پرہیزکیاجائے جوانسان کویادپروردگارغافل اوردوری کاسبب بنے ،اورجان لوکہ لباس بلکہ تمام مادی امورہیں کہ جوانسان کے ذات پروردگارسے دوری اوراشتغال دنیاکاسبب واقع ہوتے ہیں اورتمھارے اس نازک سے دل میں ایک برااثرڈالتے ہیں اورریاکاری ،فخر،غرورمیں مبتلاکرتے ہیں،یہ سب دین تمھارے دین کونابودکرنے والے ہیں اوردل میں قساوت پیداکرتے ہیں

____________________

۱). سورہ اعراف /آیت ٢۶ مصباح الشریعة /ص ٣٠

۹۵

جب تم اس ظاہری لباس کواپنے ت ن پرڈالوتواس چیزکویادکروکہ خداوندمتعال اپنی رحمت کبریائی سے تمھارے گناہوں کوچھپاتاہے لیکن بہ بھی یادرہے ظاہری پہنے کے ساتھ باطنی لباس سے غفلت نہ کرو،جس طرح تم ظاہری طورسے اپنے آپ کوچھپارہے ہوباطنی طورسے بھی ملبس کرو،تمھیں چاہئے کہ جس طرح تم ظاہری طورسے کسی خوف کی بناپراپنے آپ کوملبس کرتے ہواسی باطنی میں ملبس کرواوراپنے رب کے فضل وکرم سے عبرت حاصل کروکہ اس نے تمھیںظاہری لباس عطاکیاتاکہ تم اپنے ظاہری عیوب کوپوسیدہ کرسکو،اس نے تمھارے لئے توبہ کادوروازہ کھول رکھاہے تاکہ تم اپنی باطنی شرمگاہوں کوبھی لطف گناہوں اوربرے کارناموں سے پوشیدہ کرسکو،یادرکھوکسی ایک رسوانہ کرناتاکہ تمھارپروردگارتمھیں رسوانہ کرے ،اپنے عیوب کی تلاش کروتاکہ تمھاری اصلاح ہوسکے اورچیزتمہاری اعانت نہ کرسکے اس سے صرف نظرکرو،اوراس چیزسے دوری کروکہ تم دوسروں کے عمل کی خاطراپنے آپ کوہلاکت میںڈالواوردوسرے کے اعمال کانتیجہ تمھارے نامہ اعمال میں لکھاجائے اوروہ تمھارے سرمایہ میں تجاوزکرنے لگیں اورتم اپنے آپ کوہلاک کرلو،کیونکہ انجام دئے گئے گناہوں کو بھول جانے سے ایک خداوندعالم دنیامیں اس پرایک سخت عقاب نازل کرتاہے اورآخرت میں بھی اس کے لئے دردناک عذاب ہے

جب تک انسان اپنے آپ کوحق تعالی کی اطاعت سے دوررکھتاہے اوراپنے آپ کودوسروں کے عیوب کی تلاش میں گامزن رکھتاہے اورجب تک انسان اپنے گناہوں بھولے رکھتاہے اوراندرپائے جانے والے عیوب کونہیں جانتاہے اورفقط قوت پراعتمادرکھتاہے وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتاہے۔

۹۶

رازمکان و لباس

رازطہارت بدن ،لباس اورمکان

نمازی کے بدن اورلباس کاپاک ہوناشرط صحت نمازہے،خواہ انسان واجبی نمازپڑھ رہاہویامستحبی ،اگربدن یالباس پرنجاست لگی ہوتواس کاپاک کرناواجب ہے خواہ بال یاناخن ہی نجسہوں سجدہ کرنے کی جگہ پاک ہوناچاہئے اگرسجدہ گاہ نجس ہوچاہے ہوخشک ہی کیوں نہ ہونمازباطل ہے البتہ سجدہ گاہ کے علاوہ دوسری جگہ کاپاک ہوناضروری نہیں ہے اگرنمازی کی جگہ سجدہ گاہ کے علاوہ نجس ہو تووہ ایسی ترنہ ہوکہ اس کی رطوبت بدن یالباس سے لگ جائے ورنہ نمازباطل ہے البتہ اگرنجاست کی مقدارمعاف ہونے کے برابرہے تونمازصحیح ہے ۔ نمازکی حالت میں انسان کے بدن ولباس اورمکان کاظاہری اورباطنی طورسے پاک ہوناواجب ہے یعنی لباس کاپاک ومباح ہوناواجب ہے ان تینوں چیزوں کے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے: کیونکہ خدوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاک وپاکیزہ رہنے والوں کودوست بھی رکھتاہے،خداوندعالم نظیف ہے اورنظافت کودوست رکھتاہے کیونکہ وہ اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

( اِنَّ اللهُ یُحِبّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ ) (۱)

خداتوبہ کرنے اورپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔

اورسورہ تٔوبہ میں ارشادفرماتاہے:

( وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ ) (۲)

خداپاکیزہ رہنے والوں کودوست رکھتاہے۔

رازاباحت لباس ومکان

انسان جس لباس میں اورجس جگہ پرنمازپڑھ رہاہے _ان دونوں کامباح ہوناواجب ہے ،اگردونوں میں ایک چیزبھی غصبی ہوتونمازباطل ہے اورمباح لباس ومکان میں نمازکااعادہ کرناواجب ہے کیونکہ نمازمیں بدن کاچھپاناواجب ہے اورکسی حرام چیزکے ذریعہ بدن کوچھپاناحرام ہے اورکسی حرام کام کے ذریعہ واجب کوادانہیں کیاجاستاہے کیونکہ نمازمیں نیت ضروری ہے اورنیت میں قربت ہوناضروری ہے اورحرام کام کے ذریعہ قربت کاحاصل کرناغیرممکن ہے پسقربت حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔

____________________

۱)سورہ بقرة/آیت ٢٢٣

۲) سورہ تٔوبہ/آیت ١٠٨

۹۷

چوری اورغصب حرام اورقبیح ہیں ، اورنمازمیں قربت کی نیت ضروری ہے اورقباحت وقربت ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ہیں پس نمازباطل ہے ۔

اگرکسی شخص پرخمس یازکات واجب ہے اور وہ خمس یازکات نہ نکالے اور اس خمس کے مال سے کوئی لباس یامکان خریدے اوراس میں نمازپڑھے تووہ نماز باطل ہے کیونکہ اس لباسیامکان میں دوسرے کاحق ہے جسے ادانہیں کیاگیاہے گویااسکے اس خریدے ہوئے لباس یامکان میں دوسروں کاپیسہ بھی شامل ہے جسے اس نے غصب کرلیاہے اوراس میں نمازپڑھ رہاہے لہٰذااس کی یہ نمازباطل ہے ۔

امیرالمومنین حضرت علی جناب کمیل سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یاکمیل ! انظرفی ماتصلی وعلی ماتصلی ان لم یکن من وجهه وحله فلاقبول ۔(۱) اے کمیل! تم ذرایہ دیکھاکروکہ کس لباس میں اورکس جگہ پر نمازپڑھ رہے ہو،اگروہ تمھارے لئے مباح وحلال نہیں ہے توتمھاری نمازقبول نہیں ہے ۔

عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال:المسلم اخوالمسلم لایحلّ ماله الّاعن طیب نفسه ۔(۲)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ،کسی شخص کے لئے مالک کی رضایت کے بغیراسکے مال کاستعمال کرناجائزنہیں ہے ۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ایمارجل اتی رجلافاستقرض منه مالاوفی نیته ان لایو دٔیه فذلک اللص .

امام صادق فرماتے ہیں:کت نے لوگ ایسے ہیں جوکسی دوسرے شخص کے پاس جاتے ہیں اورکوئی مال ادھارلیتے ہیں لیکن معاوضہ دینے کی نیت نہیں رکھتے ہیں،ایسے لوگ چورشمارہوتے ہیں۔(۳)

____________________

. ١)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٢٣

. ٢)مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ٣٣١

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/ص ١٨٣

۹۸

نمازی کالباس مردہ حیوان سے نہ بناہو

نمازی کالباس خون جہندہ رکھنے والے مردہ حیوان کے کسی ایسے اجزاء سے نہ ہوکہ جن میں حیات حلول کرتی ہے جیسے کھال چاہے اسے پیراستہ کردیاگیاہولیکن وہ اجزاء کہ جن میں حیات حلول نہیں کرتی ہے ان میں نمازپڑھناجائزہے جیسے بال اوراون جبکہ وہ حلال گوشتی جانورسے اخذکی گئی ہو۔نمازی کے پاس کسی مردارکے ان اجزاء میں سے کوئی چیزنہ ہوجوروح رکھتی ہیں لیکن وہ اجزاء کہ جن میں روح نہیں ہوتی ہے جیسے بال اون اگریہ نمازی کے ہمراہ ہوں ہوتوکوئی حرج نہیں ہے ۔

امام صادق سے اس قول خداوندی کے بارے میں پوچھاگیاکہ جواس نے حضرت موسیٰ (علیه السلام)سے کہا:

( یَامُوسیٰ اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِالْمُقَدَّسِ طَوًی وَاَنَااَخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لَمَایُوحیٰ اِنَّنِیْ اَنَااللهُ فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِیْ ) (۱)

اے موسیٰ!میں تمھاراپروردگارہوں لہٰذاتم اپنی جوتیوں کواتاردوکیونکہ تم طویٰ نام کی مقدس اورپاکیزہ وادی میں ہو۔

امام (علیه السلام) نے فرمایا:کانتامن جلدحمارمیت. وہ دونوں جوتیاں مردہ گدھے کی کھال سے بنی ہوئی تھیں۔(۲)

حرام گوشت جانورکے اجزابنے سے لباس میں نمازکے باطل ہونے کی وجہ:

نمازی کالباس حرام گوشت جانورکی کھال،بال ،اون وغیرہ سے نہ بناہوبلکہ اگرحرام گوشت جانورکے بال بھی نمازی کے ہمراہ ہوں تونمازباطل ہے اسی طرح حرام گوشت جانورکالعب دہن ،ناک یاکوئی دوسری رطوبت نمازی کے بدن یالباس پرلگی ہوتو نمازباطل ہے اوراسی طرح اگرحلال گوشت جانورکہ جسے غیرشرعی طورسے ذبح کیاگیاہواس کی کھال،بال،اون وغیرہ سے بھی بنائے گئے لباس میں پڑھی جانے والی نمازباطل ہے،لیکن حلال گوشت جانورکے بال،کھال ،اون وغیرہ کے لباس میں نمازپڑھناجائزہے جبکہ اسے تذکیہ کیاگیاہواسی بارے میں چنداحادیث مندرجہ ذیل ذکرہیں:

حدثناعلی بن احمدرحمه الله قال:حدثنامحمدبن عبدالله بن محمدبن اسماعیل باسنادیرفعه الیٰ ابی عبدالله علیه السلام قال:لایجوزالصلاة فی شعرووبرمالایوکل لحمه لانّ اکثرهامسوخ ۔(۳)

حرام گوشت جانورکی کھال وبال میں نمازپڑھناجائزنہیں ہے کیونکہ وہ جانورکہ جن کاگوشت کھاناحرام ہے ان میں سے اکثرجانورمسخ شدہ ہیں۔

____________________

. ١)سورہ طٰٔہٰ /آیت ١٢

. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢۴٨

. ۳)علل الشرایع /ص ٣۴٢

۹۹

مردکا لباس سونے اورخالصریشم کانہ ہو

مردکالباس سونے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کیونکہ مردوں کااپنے آپ کوسونے سے زینت دیناحرام ہے مثلاسونے کی انگوٹھی یازنجیرپہننا،گھڑی کابندسونے کاہونایہ سب نمازاورغیرنمازحالت میں حرام ہیں خواہ وہ سونے کی چیزیں ظاہرہوں یاپنہاں ہوں نمازباطل ہے لیکن عورتوں اورلڑکیوں کے لئے نمازاورغیرنمازکی حالت میں اپنے آپ کوسونے سے زینت دیناجائزہے ۔

سونے کے تاروں سے بنے ہوئے لباس مردوں کے لئے حرام ہیں،خواہ ظاہرہوں یاپنہاں ہوں ،اگرکسی کااندرونی لباس مثلابنیان وغیرہ سونے سے بناہواوروہ دکھائی نہ دیتاہوتوتب بھی نمازباطل ہے یعنی معیارسوناپہنناہے خواہ وہ دکھائی دیتاہویانہعن ابی عبدالله(ع قال:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لامیرالمومنین (ع:لاتختم بالذهب فانّه زینتک فی الآخرة ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)امیرالمومنین علی ابن ابی طالب +سے فرماتے ہیں :سونے کی انگوٹھی نہ پہنناکیونکہ یہ تمھارے لئے آخرت کی زینت ہے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:الحدید انه حلیة اهل النار ، والذهب حلیة اهل الجنة ، وجعل الله الذهب فی الدنیازینة النساء فحرم علی الرجال لبسه والصلاة فیه . امام صادق فرماتے ہیں:لوہااہل جہنم کازیورہے اور سونااہل بہشت کازیورہے اورخداوندعالم نے دنیامیں سونے کوعورت کازیورقراردیاہے اورمردکے لئے سوناپہننااوراس میں نمازپڑھنا حرام ہے ۔(۲)

نمازی کے لئے مستحب ہے کہ نمازپڑھتے وقت تحت الحنک کے ساتھ سر پر عمامہ لگائے ،دوش پرعباڈآلے خصوصاً پیش نماز،پاکیزہ اورسفیدلباس پہنے، عطر و خوشبو لگائے ،عقیق کی انگوٹھی پہنے۔

____________________

۱)کافی /ج ۶/ص ۴۶٨

۲)تہذیب الاحکام/ج ١/ص ٢٢٧

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370