حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں0%

حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف: علامہ سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)
زمرہ جات:

مشاہدے: 27385
ڈاؤنلوڈ: 5273

حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27385 / ڈاؤنلوڈ: 5273
سائز سائز سائز
حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

حکومت مہدی (علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

نوٹ: اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت ڈاؤنلوڈ لنک http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=205&view=download&format=pdf

نیز اپنےمفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

 

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

حکومت مہدی(علیہ السلام وعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)

تقاضے۔امتیازات۔ ذمہ داریاں

تالیف: علامہ سید عاشورعلی( جبل عامل لبنان)

مترجم: السید افتخار حسین نقوی النجفی

ناشر : شریکة الحسین پبلی کیشنز

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نام کتاب : حکومت امام مہدی علیہ السلام

مولف : علامہ سیدعاشور علی (جبل عامل لبنان)

مترجم : السید افتخار حسین نقوی النجفی

ٹائٹل : ملک مشتاق حسین

کمپوزنگ : وسیم عباس اقدس،محمدتنویرحسین

ایڈیشن : اول

سال اشاعت : ۲۰۱۰ئ

تعداد :

قیمت :

ناشر : شریکة الحسین پبلی کیشنز

طابع : الاعتماد پرنٹرز،لاہور

اسٹاکسٹ

ض.... ایلیاءبکس مکان نمبر۸۵۳،مین فیض آباد روڈ I.۱۰.۴ اسلام آباد

(فون:۰۵۱-۴۴۴۹۳۴۲)

ض.... المصطفی پبلی کیشنز لاہور

بِسمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمط

اَللّٰهُمَّ کُن لِوَلِیِّکَ الحُجَّةِ بنِ الحَسَنِ

اے اﷲ تو اپنے ولی حضرت حجت ابن حسن عسکری

صَلَوَاتُکَ عَلَیهِ وَعَلٰی اٰبَائِه

(تیری صلوات ان پر اور ان کے آباءواجداد پر صبح و شام اور ہر آن ہو)

فِی هٰذِه السَّاعَةِ وَفِی کُلِ سَاعَةٍ

کا اس گھڑی میں اور ہر آن میں سرپرست و نگہبان

وَلِیّاً وّحَافِظاً وّقَائِدًا وّنَاصِراً وّدَلِیلاً وّعَیناً

حامی راہنما مددگار دیکھنے والی آنکھ اور سرپرست

حَتّٰی تُسکِنَه اَرضَکَ طَوعاً وّتُمَتِّعَهُ فِیهَا َطوِیلاً

بنا رہے یہانتک کہ تو اسے اپنی زمین میں اختیار کے ساتھ سکونت عطاء فرما اور یہ کہ تو اسے اپنی زمین میںلمبی مدت تک فائدہ پہنچا

نوٹ: یہ دعاءامام زمانہ(عجل) کی سلامتی کی نیت سے روزانہ پڑھیں۔

صلوات کاملہ

یاَرَبَّ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ

اے محمد وآل محمد کے ربّ جلیل

صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ

محمد اور آل محمد پر صلوات بھیج

وَعَجِّل فَرَجَ آلِ مَحَمَّدٍ

اور آل محمد کی گشائش (حکومت کے قیام) میں جلدی فرم

نوٹ

بعض عاملین کا تجربہ ہے کہ جو شخص روزانہ اس صلوات کو ۳۱۳ مرتبہ پڑھے گا

اسے امام زمانہ عج کی زیارت نصیب ہوگی

یہ صلوات حضرت جبرائیل نے جناب یوسف علیہ السلام کو

زندان میں تعلیم دی اور حضرت یوسف علیہ السلام

اس کا ورد کرتے تھے

حرف مترجم

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ِط

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَّعَجِّل فَرَجَهُم وَالعَن اَعدَائِهِم

میں اس کتاب کے اردو ترجمہ کو اس طاہرہ بی بی علیہ السلام کے نام ہدیہ کر رہا ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری حجت بقیة اللہ کی اماں ہونے کا شرف بخشا۔ اس آرزو کے ساتھ کہ آپ معصومہ بی بی علیہ السلام مجھ خطاکار کے لئے اپنے عظیم بیٹے ولی اللہ الاعظم منجی بشریت کے حضور سفارش فرمائیں گی کہ مولا مجھ حقیر پر تقصیر کو اپنی نصرت کرنے والوں میں شامل رکھیں اور میرے لئے ایسے لمحات نصیب ہوں کہ میں آپ علیہ السلام کی عالمی عادلانہ الٰہی حکومت دیکھ سکوں اور ایسی حکومت کے قیام کے لئے جو میرے اوپر واجب ہے میں اسے ادا کر سکوں۔

اسی طرح میرے ماں باپ اور ہر وہ جسے اللہ تعالیٰ نے میرے وجود کے لئے وسیلہ بنایا اور ان کا خاتمہ ولایت اہل البیت علیہم السلام پر ہوا ان کی بخشش اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے سامان ہو جائے۔(آمین)

طالب دعا

احقر العباد

منتظرامام قائم(عج)

سیدافتخارحسین نقوی النجفی

۳۱ جنوری ۰۱۰۲ بمطابق ۶۲ محرم الحرام ۱۳۴۱ ھ

ابتدائیہ

بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِه الطَّیِبِیّنَ الطَّاهرِی نَال مَعصُو مِینَ

مہدوی تحریک کا عالمی ہونا

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مسئلہ کوئی خاص قسم سے نہیں ہے اور نہ ہی اس مسئلہ کا تعلق کسی خاص دین سے ہے اور نہ ہی کسی محدود فکر اور سوچ کی پیداوار ہے۔ مہدویت کا نظریہ عمومی ہے جس میں سارے انسان شریک ہیں اور تمام آسمانی ادیان کا اس پر ایمان ہے، اگرچہ صفات، شمائل، اسماءمیں اختلافات موجود ہیں، سب ادیان، مذاہب اور اقوام میں زمانی اور مکانی تبدیلیوں اور تغیرات کے متعلق اعلانات پائے جاتے ہیں، اسی بنیاد پر مہدوی تحریک عالمی تحریک ہے کسی ایک سے مخصوص نہیں ہے۔

مہدوی تحریک کا عالمی ہونا اس لحاظ سے نہیں کہ اس کی بنیاد پر سب کا اعتقاد ہے بلکہ یہ تحریک ابتداءسے انتہاءتک بنیادی عقیدہ سے لے کر اس کے ثمرات تک عالمی ہے یہ ایسی تحریک ہے جو کسی ایک جگہ سے خاص نہیں ہے بلکہ اس کی عدالت پورے کرہ ارضی اور تمام کے تمام چھ سات براعظموں کو مختلف اقوام و مال، مختلف زبانوں، مختلف تہذیبوں،مختلف عادات، بیداری اور عدم بیداری کے مختلف درجات ہر لحاظ سے سب کو امام مہدی علیہ السلام کی عدالت عنقریب اپنے سایے میں لے لے گی۔

مہدوی سوچ اور مہدوی نظریہ کا تعلق الٰہی عدالت کے نظریہ سے ہے اور یہ کہ شر جو ہے وہ خیر سے زیادہ طاقتوار نہیں ہے اور نہ ہی ظلم کو عدالت سے زیادہ بقاءاور دوام ہے اور نہ ہی بربادی آبادی سے افضل ہے۔عام انسان جو پڑھے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ایک عدالت کا مکمل فہم ہے، عمومی طور پر انسان یہ دیکھتا اور جانتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مطلق عدل کا مالک ہے ، ظلم و زیادتی نہیں کرتا، وہ ایسا ہے جو مہلت تو دیتا ہے لیکن چھوڑتا نہیں ہے یہ عمومی سوچ ہے اگرچہ وہ انسان آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اخروی اور برزخی ثواب و عتاب کا قائل نہ بھی ہو تو بھی اس کی اللہ کے بارے یہی سوچ ہے۔

حضرت اماممہدی علیہ السلام پر ایمان فطرت کا تقاضا ہے

اسی بنیاد پر مہدوی فکر اور نظریہ پر ایمان فطری امر ہے کیونکہ ہر انسان جب اپنے اندر رجوع کرے تو وہ اپنے اندر خیر اور نور کے نقطہ کو موجودپاتا ہے اور یہ امید کی کرن ہے انسانیت کے وجود میں جن سے وہ باقی رہتا ہے۔

یہ نور جو ہر انسان کے اندرموجود ہے یہ نور الانوار(رب ذوالجلال و الاکرام)کی مخلوق ہے اگر اسے غذا دی جائے اور اس پر کام کیا جائے تو یہ ضرور بڑا ہوگا اور پھیلے گا اور ہر انسان کے اندر جو تاریکی موجود ہے اس پرچھا جائے گا اور انسان کے دل کو گھیر لے گا اس طرح وہ پاکیزہ دل والا، طاہر باطن والا بن جائے گا، وہی ذات ہے جو اسے تاریکیوں سے نکال کر نور میں لے آتی ہے اور یہ اس قانون کو پوری انسانیت پر اور سارے انسانوں پر لاگو کریں تو یہ امر ممکن ہے اور بات یہ ہے عدل کا قانون پورے عالم کو اپنے گھیرے میں لے لے گا اور یہ قانون اسلامی اور غیر اسلامی تمام ممالک میں پھیل جائے گا اور اس کا نفاذ ہو۔

انسانیت کے نجات دہندہ امام مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ہاتھوں سے اور ان کی قیادت میںہونا ہے اور یہ ضرورہو کررہے گا، ایسا ضرور ہوگا، ایساہوجانا ممکن ہے ناممکن نہیں ہے، عدل مطلق کا نفاذ جس کے بارے ہمیں وعدہ دیا گیا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ عملی جامہ پہنے گا ایک امر ممکن ہے اور اسکے عملی ہوجانے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے ہر انسان کے دل میں جو نورانی نقطہ موجود ہے اوراس کے اندر جو خیر کا عنصر پایا جاتا ہے اور یہ ہر انسان میں ہے اس لئے ایساعمل ہونا ممکن ہے بس اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اس پر کام کیا جائے، اسے غذا دی جائے اسے پروان چڑھایا جائے تاکہ جو ظلم عام ہو چکا ہے اور جو تاریکی چھا گئی ہے چھٹ جائے گی اور نور عدل اس پر غالب آجائے گا۔

کائنات کی خلقت

کائنات کو عدل مطلق کی خاطر خلق کیا گیا ہے جو انسان کو اللہ کی کامل عبادت تک پہنچا دے گا سورة الذاریات آیت ۶۵ کہ:

( وَمَاخَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُونَ )

”جنات اور انسانوں کی خلقت اللہ کی عبادت کی غرض سے ہوئی ہے“ اور عبادت ہی ہے جو انسان کو مطلق سعادت تک پہنچا دے گی۔

جس طرح اللہ تعالیٰ سورہ الانفال آیت ۴۲ میں فرماتا ہے:

( یَااَیُّهَالَّذِینَ اَمَنُوا استَجِیبُو اِللّٰهِ وَلِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم یُحیِیکُم )

” اے وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہو، اللہ اور اللہ کے رسول کی بات کا جواب دو، جس سے وہ تمہیں ایسی بات کی دعوت دیں جو تمہیں زندہ کر دے گی توان کی اس بات کو مان لو، اس پر عمل کرو“۔

اور سورہ طہٰ کی آیت ۴۲۱ میں فرمایا:

( وَمَن اَعرَضَ عَنذِکرِی فَاِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَّنَحشُرُهُ یَومَ القِیٰمَةِ اَعمیٰ )

”اور جس نے میرے ذکر سے پہلو تہی کیا تو اس کے لئے تنگ روزگار ہے اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا محشور کریں گے“۔

سورہ النحل آیت ۷۹ میں فرمان ہے:

( وَمَن عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَکَرٍ مِن ذَکَرٍ اَو اُنثیٰ وَهُوَ مُومِن فَلَنُحیِیَنَّهُ حَیٰوةً طَیِّبَةً )

”اور جس شخص نے عمل صالح انجام دیا مرد ہویا عورت، جب کہ وہ مومن بھی ہو تو ہم اسے طیب اور پاکیزہ زندگی دیں گے“۔

عبادتی واجبات اور ذمہ داریاں ہی ہیں جو انسان کو زندگی دیتی ہیں تاکہ وہ اسے انسانی کمال تک پہنچا دیں اور سعادت دارین اس کے لئے حاصل ہو۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام انبیاء علیہ السلام کے عمل کی تکمیل ہیں

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اس عمل کو مکمل اور پورا کرنے والے ہیں جس کا آغاز انبیاءعلیہم السلام نے فرمایا، سورہ القصص آیت ۵ میں ہے :

( وَنُرِیدُ اَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ استُضعِفُوا فِی الاَر ضِ وَنَجعَلَهُم آئِمَّةً وَّنَجعَلَهُمُ الوَارِثِینَ )

”اور ہم نے یہ ارادہ کررکھا ہے کہ ان پر احسان کریں جنہیں کمزور بنادیا گیا ہے زمین میں، اور ہم ان کمزوروں کو زمین کا امام بنا دیں اور وارث بنائیں یعنی زمین پر ان کا حکم چلے اور وہی زمین کا صاحب اختیار و قدرت ہو“۔

حضرات انبیاءعلیم السلام کا کردار یہ رہا کہ وہ اقوام کو ظلم ، زیادتی، محرومیت کے گڑھوں سے باہر نکالیں اور انہیں ہلاکت سے بچائیں اور امام علیہ السلام اپنے زمانہ میں انبیاء علیہ السلام کے اسی ہدف کو عملی شکل دیں گے۔

ہم دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں:

این معزالاولیاءومذل الاعدائ، این جامع الکلم علی التقوی این باب الله الذی منه یوتی این وجه الله الذی الیه توجه الاولیاءاین السبب المتصل بین الارض والسماءاین صاحب یوم الفتح وناشررایات الهدی این مولف شمل الصلاح والرضا این الطالب بذحول االانبیاءوابنا الانبیاء، این الطالب بدم المقتول بکربلائ

اولیاءکو عزت دینے والا اور سارے دشمنوں کو خوف سے دوچار کرنے والا کہاں ہے؟ تقویٰ کی بنیاد پر سب کو اکٹھا کرنے والا کہاں ہے؟اللہ تک جانے والا وہ دروازہ کہاں ہے جس سے خدا کے پاس جایا جاتا ہے؟ اللہ کا وہ وجہ اور رخ کریم کدھر ہے کہ جس کی جانب سارے اولیاءرخ کرتے ہیں؟ اور اسے اللہ تک جانے کا اپنا وسیلہ بناتے ہیں۔

زمین اور آسمان کے درمیان جووصل کرنے والا اور ربط اور تعلق دینے والا سبب ووسیلہ کہاں ہے؟فتح کے دن کا مالک کہاں ہے؟ ہدایت کے پرچموں کو پھیلانے والا کہاں ہے؟ اچھائی، خوشی اور بہتری کے تمام حالات کو یکجا کردینے والا کہاں ہے؟ انبیاء علیہ السلام اور فرزندان انبیاء علیہ السلام کے بہائے گئے خون ناحق کا بدلہ چکانے والا کہاں ہے؟

کربلا کے مقتول کے خون ناحق کا بدلہ لینے والاکہاں ہے، میری جان آپ علیہ السلام پر فدا ہو، آپ علیہ السلام انبیاء علیہ السلام ، آئمہ علیہ السلام اور اولیاءکی روش اور عمل کا تسلسل ہیں تاکہ عبادت تک پہنچا جا سکے۔

نظریہ مہدویت کا اثر

یہ مقالہ رہبر اسلام السید علی خامنہ کاہے جسے صاحب کتاب نے عنوان”الاعتقاد بالمہدی والتکامل المعنوی“سے لیاہے اس میں دو محور پر بات ہوئی۔

روحانی ارتباط اور تعلق جو ہے وہ کمال عطا کرتا ہے، پہلا محور اور نقطہ یہ ہے کہ ایک فرد کا تکامل انسان میںکیسے حاصل ہوتاہے؟ پس جوشخص مہدی علیہ السلام پر ایمان لے آتاہے تو وہ روحانی کمال کے لئے جو وسائل درکار ہیں ان پر زیادہ دسترس حاصل کرلیتا ہے اللہ کے تقرب کےلئے اس کے پاس زیادہ ذرائع آجاتے ہیں کیونکہ وہ اس عقیدہ کی برکت سے روحانی طور پر الٰہی الطاف اور مہربانیوں اور کرم نوازیوں کے محور سے زیادہ مرتبط ہوگا۔باری تعالیٰ کی رحمت اترنے کے مرکز سے اس کا زیادہ تعلق ہوجاتاہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کوموجود پاتے ہیں جو معنوی اور روحانی مقامات طے کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے مناجات میںاور اپنے معنوی توسلات میں، اس عظیم امام سے توسل کرتے ہیں انہیں وسیلہ بناتے ہیں، اس امام کے ساتھ خودقلبی رابطہ اور روحانی توجہ ہی باری تعالیٰ کے عدل، قدرت اور رحمت کے لئے مظہر قرار پاتی ہے اور یہی چیز انسان کو روحانی کمال دے رہی ہے اوریہ سلسلہ اس کے روحانی ارتقاءکا وسیلہ اور سبب بن جاتا ہے۔یہ مسئلہ جو ہے بہت ہی وسیع افق رکھتا ہے کیونکہ جو شخص بھی اپنی روح اورقلب کے ذریعہ اس امام سے رابطہ رکھتا ہے تو وہ اس تعلق کے نتیجہ میں ضرور اپناحصہ پا لے گا ضروری بات یہ ہے کہ اس کا یہ ارتباط حقیقی ہو، زبانی جمع خرچ نہ ہو،جو ایسے مقام پر کوئی فائدہ نہیں دیتا اگر ایک انسان اپنے روح سے متوجہ ہو اور اپنے نفس کے اندر اس میدان کی پوری معرفت مہیا کرے تو وہ اپنا نصیب اس سے ضرور پا لے گا جیسا کہ بیان کیا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ یہ محور اور پہلو فردی میدان کی مثال ہے انسان کے شخصی اور فردی معنوی پہلو کا رخ ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے اعتقاد اقوام کا ذخیرہ ہے

دوسرا محور

عمومی اجتماعی زندگی کا میدان اور جو کچھ انسان کے لئے ضرورت ہے، اقوام وملل کا انجام جس سے مربوط ہے اس کا میدان کون سا ہے یہ دوسرا نقطہ ہے اس میدان میں بھی مہدی علیہ السلام موعود کا عقیدہ آپ کے ظہور کا موضوع، آپ کی انتظار، آپ کے ذریعہ فتح،فرج یہ سب افکار اقوام وملل اور ساری عوام کے لئے قیمتی سرمایہ ہے اس سے بہت کچھ لیا جائے اور اس چشمہ سے سیراب ہواجائے۔

نجات کی امید اور ناامیدی کا اثر

آپ فرض کریں کہ سمندر میں ایک بیڑا ہے جسے بپھری ہوئی سمندری موجوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے اور سواریوں کا عقیدہ ساحل بارے نہیں ہے کسی کے خیال میں نہیں کہ امان کے لئے اس سمندر کا کوئی کنارہ موجود ہے ہزاروں میلوں کے فاصلہ پر اس قسم کے ساحل بارے کوئی تصور تک نہیں تھوڑے سے فاصلہ تک کے لئے غذا پانی موجود ہے بیڑے کو چلانے کے لئے بہت ہی تھوڑاسا،سامان بچ گیا ہے اور ایندھن ختم ہونے والا ہے، تو اس کشتی میں سواروں کا موقف کیا ہوگا؟ کیونکہ وہ یہ سوچیں گے کہ اس کشتی کو آگے لے جانے کے لئے سعی و کوشش کریں؟ ہرگز نہیں، کیونکہ جب یہ محسوس کر لیتا ہے کہ اس کی ہلاکت یقینی ہے تو پھر وہ کسی قسم کی کوشش اور سعی کو بے فائدہ سمجھے گاکیونکہ اس حالت میں وہ ہر قسمی امید سے فارغ ہو چکا ہوتا ہے۔

ہاں: ایک بات جو اس قسم کے سواروں کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ کشتی میں سوار ہر ایک شخص اپنی ذات میں گم ہو جائے خود کو مصروف کر لے، جو موت کو سکون سے نہیں چاہتا وہ آرام سے لیٹ جائے گا اور جو دوسروں پر زیادتی کرنے کا عادی ہے تو وہ دوسرے سے مال چھینے گا تاکہ زیادہ دیر تک زندہ رہ سکے اور اسی طرح کے اور مسائل میں وہ خود کو مصروف کر لیں گے۔

ایسی کشتی کے سواروں کے لئے ایک دوسری تصویر بھی ہے وہ یہ ہے کہ جس کشتی کے سواروں کو یقین ہے کہ نزدیک یادور ساحل آنے والاہے اور اس تک وہ پہنچ سکتے ہیں یہ ان کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اس ساحل تک جانے کے لئے انہیں کتنی مشقت کرنا پڑے گی لیکن ان کو یہ یقین ضرور ہے کہ ساحل موجود ہے اور اس تک پہنچنے کا امکان بھی موجود ہے۔

تو اس صورت میں کشتی میں سوار افراد کیا کریں گے؟ ظاہر ہے جو کچھ ان کے پاس طاقت ہے وہ اسے خرچ کریں گے پوری قوت اور طاقت کا استعمال کریں گے تاکہ پر امن کنارے تک پہنچ جائیں اگر اس کے لئے انہیں کچھ وقت انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ وہ نجات کےلئے ایک دوسرے کی مدد کریں گے، سعی و کوشش میں لگ جائیں گے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے، فکری طور پر جسمانی طور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ایک ہدف کے لئے کہ وہ ساحل مراد تک پہنچ جائیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ امیدکی کرن اگر موجود ہو گی تو اسی مقدار سے موت اپنا اثر وہاں سے اٹھائے گی اور وہ دل زندہ رہے گا، اس امید کے سہارے کیونکہ امید ہی تو ہے جو انسان کو حرکت دیتی ہے ، بلاتی ہے، اسے چست بناتی ہے، محنت و مشقت اس سے کرواتی ہے۔

اور وہ اس امید کے سہارے محنت کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے زندگی کی کشتی امید کے سہارا پر چل رہی ہوتی ہے آپ فرض کریں کہ ایک قوم ہے جو ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اور اس کے سامنے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کلی طور پر نجات کے راستہ سے ناامید ہے تو ایسی قوم ظلم کے سامنے سر جھکا دے گی اور ایسے کاموں میں لگ جائے گی جو بے مقصد ہوں گے، بغیر ہدف کے ہوں گے اوربے نتیجہ ہوں گے۔

لیکن اگر اس قوم کے دل میں امید کی کرن موجود ہو اور وہ یقین رکھے کہ اس کے سامنے ایک روشن مستقبل موجود ہے تو پھر یہ قوم کیا کرے گی؟طبیعی امر ہے کہ ایسی قوم جہاد کرے گی، عمل کرے گی، محنت کرے گی، اپنی جدو جہد کو منظم کرے گی، اپنی تحریک کے سامنے کی رکاوٹوں کو دور کرے گی ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود بارے عقیدہ کا حیات بخش اثر

ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کی لمبی تاریخ ہے انسان نے اپنی اجتماعی زندگی میں اس لمبی تاریخ میں بہت ظلم سہے ہیں، مظلوموں پر ظالموں کا تسلط اور غلبہ رہا ہے، انسان کے راستہ پر ظالموں، ستمگروں نے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، ظلم و ستم کی تندوتیز آندھیوں نے اس انسان کو تھپیڑے مار مار کے ادھ موا کر دیا ہے، اس کی مثال اس سمندری طوفان میں گھری ہوئی کشتی کی طرح ہے کہ جس میں سوار پریشان ہیں کہ سمندر کی تیز لہریں ان کی کشتی حیات کو ہر آن غرق کرنے پر تلی ہیں۔ لیکن انہیں ساحل پر پہنچنے کی امید ہے وہ ان ظالم لہروں کا مقابلہ کرتے ہیں جو اپنی تمام کوششوں کو مجتمع کرتے ہیں اور نجات کے ساحل تک پہنچنے کی ٹھان لیتے ہیں اورپھر آخرکار کامیاب ہوجاتے ہیں، اس امید پر کہ وہ کشتی میں زندہ رہتے ہیں یہ امید انسان کو زندہ رکھتی ہے جب آپ سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم سب انتظار کرو، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جن حالات میں آپ لوگ اس وقت گھرے ہوئے ہیں اور جو تکلیف دہ صورتحال اس وقت تمہارے لئے حاصل ہے جس سے تم سب دوچار ہو ظلم و ستم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے جنہوںنے تمہارے اوپرڈیرے ڈال رکھے ہیں یہ ہمیشہ اسی طرح نہیں رہیں گے بلکہ ایک دن ان سب کا خاتمہ ہوگا عدالت کی نورانی صبح طلوع ہو گی سارے ظالموں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔

مظلوموں کو ان کا حق ملے گا، تو آپ دیکھیں کہ اس انسان میں کس قدر جوش و ولولہ آتا ہے کس قدر اس میں آمادگی پیدا ہونی ہے اور وہ نجات کے دن کی خاطر جدوجہد کرتا ہے سارے رنج و الام کو بھول جاتا ہے اسی فکر اور سوچ سے اسے زندگی مل جاتی ہے یہ وہ اثر ہے جو امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے یہی وہ عقیدہ ہے امام حجت کے بارے مہدی موعود کے بارے کہ جس کی بنیاد پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد یکے بعد دیگرے ساری رکاوٹوں کو پھلانگتے چلے جا رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں عجیب و غریب موڑ آتے ہیں انسان کی فکر جواب دے جاتی ہے لیکن امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے انسان کے سامنے سارے چیلنجوں کا توڑ موجود ہے وہ ایک روشن مستقبل کے لئے سب کچھ کرنے پر تلا ہوا ہے وہ اس راہ میں مر مٹنے کے لئے تیار ہے اور اس راستہ کی ہر رکاوٹ کو وہ ہٹا دینا چاہتا ہے پس جہاں بھی یہ عقیدہ ہو گا یہ امید ہوگی اور اس نجات کی امید ہی سے زندگی کی کشتی جاری و ساری ہے اور ہر ظلم کے مقابلہ کے لئے جدوجہد کی جا رہی ہے۔(خطاب ۵۱ شعبان ۶۱۴۱)

اس کتاب کے مطالب اور اس کا اسلوب و روش

اس تمہید سے بات سامنے آ ہی گئی کہ بعد والی فصول اور باندھے گئے ابواب میں جو مطالب ذکر ہوں گے ان کا محور و مرکز یہی امور ہوں گے جن کی طرف اجمالی اشارہ کیا گیاہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کا نظریہ فطری ہے

یہ اصول عالمی ہے اور اس فکر کی آخری حد مہدی علیہ السلام ہیں اور مہدویت کا نظریہ اور عقیدہ فطری ہے اس نظریہ کی عالمیت اورفطری ہونا ہی ہمیں ایسی ابحاث میںوارد کر دے گا جوان امور سے مربوط ہیں کیونکہ مہدوی تحریک کا عالمی ہونا ہمارے لئے یہ دروازہ کھول دے گا کہ ہم ان اہداف و اغراض کی وسعت بارے بات کریں جن کا انتظام امام مہدی علیہ السلام فرما رہے ہیں بلکہ اس بارے جو مشکلات ہیں، رکاوٹیں ہیں ان کے بارے بھی بات کی جائے وہ اس طرح کہ جب ہم تمام براعظموں پر ایک عالمی حکومت کے قیام کی بات کرتے ہیں جو فکر میں، زبان میں، ثقافت میں، سوچ میں، اہداف میں، علوم میں، تہذیب میں،مختلف ہیں تو یہ کیسے ہوگا؟یہ ایک ایسا کام ہے کہ جو انبیاءمیں سے کسی ایک نبی کی گردن میں نہ ڈالا گیا۔

دوسری جہت اس کی یہ ہے کہ وہ کون سا اسلوب اور طریقہ ہوگا جسے امام مہدی علیہ السلام اپنائیں گے کیونکہ سابقہ انبیاء علیہ السلام کا اسلوب اسی طرح آئمہ معصومین علیہم السلام کا جو اسلوب اور طریقہ تھا وہ آپ علیہ السلام کے زمانہ میں کارآمد نہ ہو گا کیونکہ یہ زمانہ سائنسی ترقی کا زمانہ ہے، یہ وہ زمانہ ہے جس میں ساری جدوجہد نئی ایجادات اور نت نئے علمی نظریات پر لگائی جا رہی ہے جو کہ اس وقت معلوم و واضح ہے جس کے بارے تفصیل بعد میں آئے گی کہ امام علیہ السلام جو ہے اس کا قیاس عصری علوم سے اور دوسرے لوگوں کے پاس جو علم موجود ہے اس سے نہیں کیا جا سکتا نہ کیفیت میں اور نہ ہی کمیت میں اور یہ وہ بات ہو گی جو امام علیہ السلام کے اسلوب میں موثر ہو گی اور آپ علیہ السلام کی دعوت کا اسلوب جو ہے وہ ترقی یافتہ دنیا اور سائنسی دنیا پر اتنا اثر چھوڑے گاکہ سب علمی ترقیاں ان کے سامنے ماندپڑجائیںگی کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میںایک ایسا علمی انقلاب آئے گا کہ جس کا مشاہدہ علمی دنیا میں اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہوگا جو شخصیت اللہ کی کائنات کے بارے ۷۲ حروف کا علم رکھتا ہو گا جب کہ پورے عالم کے پاس اول سے لے کر آپ کے دور تک جتنے علوم ہیں وہ ۷۲ کے مقابلہ میں ایک حرف کے علوم ہوں گے یا دو حرف برابر علوم ہوں گے تو ایک ایسا علمی انقلاب ہو گا کہ جس کے بارے نہ کسی نے سوچا ہو گااور نہ کسی نے دیکھا ہو گا۔

سائنسی اور علمی ترقی کا توڑ

یہی بات اس کا جواب ہو گی کہ اس کائنات میں اتنے سارے ظالموں،ستمگروں کی موجودگی میں اور ان کے جدید ترین ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے کسی طور پوری زمین اور زمین کے سارے مشارق اور مغارب پر عدل الٰہی کی حکومت قائم کریں گے مزید برآں کہ امام معصوم ہیں اور آپ کے سامنے وہ سارے تجربات مختلف حکومتوں کے عروج و زوال ان کی ترقی و تنزلی بارے موجود ہوں گے جو آپ کو ان دو غیبتوں کے دوران حاصل ہوئے ہوں گے کیونکہ آپ اسی زمین اور ان لوگوں کے درمیان ہی اتنا عرصہ غیبت کے پردہ میں رہ رہے ہوں گے اور اس دوران میں آپ کا ان سب کے بارے علم آپ کی کامیابی کا ضامن ہوگا۔

نئے ابواب، نئے عنوان آپ کے سامنے آئیں گے جو مختلف ہوں گے جو آپ کو امام کی حکومت سے محبت، امام کے عدل سے عشق اور امام کے علم کا انتظارکرنے والابنا دیں