پہلی فصل
قائم مہدی علیہ السلام کا شناسنامہ
خضرت امیرالمومنین علیہ السلامنے فرمایا ہے ”مہدی علیہ السلام ہم سے ہی ایک مرد ہو گاجو فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے ہے“۔(کنزالعمال حدیث ۵۷۶۹۳)
آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا”ہمارے مہدی علیہ السلام کی آمد سے تمام دغابازیاں ختم ہو جائیں گی ہر قسم کے دلائل ٹوٹ جائیں گے اور وہی قائم الائمہ ہیں امت کا نجات دھندہ وہی ہے، نورانی سلسلہ کا اختتام ان پر ہے وہی منتہی النور ہیں۔(نہج السعادة ج ۱ ص ۲۷۴)
آپ علیہ السلام نے مزید فرمایا ہے”اس نے حکمت اور دانائی کی ڈھال کو پہن رکھا ہے اور حکمت و دانائی کو اس کی تمام شرائط سے لے رکھا ہے اللہ کی نمائندگیوں اور حجج سے آپ ہی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی آخری اورباقی نمائندگی اور حجت ہیں اور آپ اللہ کے انبیاءکے خلفاءسے آخری خلیفہ ہیں۔(شرح نہج البلاغہ الابن ابی الحدید ج ۰۱ ص ۵۲)
ارشاد شیخ مفید میں آیا ہے”امام قائم علیہ السلام جو ہیں ابومحمد علیہ السلام کے بعد آئیں گے آپ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بن حضرت امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے فرزند ہیں جن کا رسول اللہ والا نام ہے (محمد) اور رسول اللہ کی کنیت سے آپ علیہ السلام کو پکارا جائے گا(ابوالقاسم)آپ علیہ السلام کے باپ نے اپنے پیچھے آپ علیہ السلام کے علاوہ ظاہری اور پوشیدہ کوئی دوسرا بیٹا نہیں چھوڑا آپ کی ولادت ۵۱ شعبان کی رات کو ہوئی ۵۵۲ ہجری قمری کا سال تھا۔
آپ علیہ السلام کی والدہ ام ولد(کنیز) ہیں جنہیں نرجس علیہا السلام کہا جاتا تھا۔
آپ کے باپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی اللہ تعالیٰ نے اسی عمر میں آپ کو علم و حکمت عطا کیاآپ کوفیصلہ کن خطاب عطافرمایا اور تمام جہانوں کے واسطے آپ کوآیت قرار دیا جس طرح یح یٰ علیہ السلام کو بچپن میں حکمت دی اسی طرح آپ کو بھی عطا فرمائی آپ کو ظاہری بچپن میں امامت کا منصب عطا کیا جس طرح اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہ السلام کو گہوارے میں نبی بنایا۔
آپ کے لئے ، آپ کے قیام کرنے سے پہلے دو غیبتیں ہوں گی ایک غیبت دوسری غیبت سے زیادہ لمبی ہو گی جیسا کہ اس بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں۔
خایک غیبت صغریٰ ہے جس کا زمانہ آپ علیہ السلام کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور آپ کے اور آپ کے شیعوں کے درمیان سفارت کے منقطع ہونے تک رہتا ہے آپ کے آخری سفیر کی وفات پر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے آپ کی طولانی غیبت، پہلی غیبت کے اختتام سے شروع ہوتی ہے اور اس غیبت کے آخر میں آپ تلوار لے کر قیام کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے”(
وَنُرِیدُ اَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ استُضعِفُوا فِی الاَرضِ وَنَجعَلَهُم آئِمَّةً وَّنَجعَلَهُمُ الوَارِثِینَ
)
“(سورہ القصص آیت ۵)
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے ”(
وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ اَنَّ الاَرضَ یُرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ
)
“(سورہ الانبیاءآیت ۵۰۱)
حضرت رسول اللہ نے فرمایا”دن اور راتیں ختم نہ ہوں گی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا جس کا نام میرے نام جیسا ہو گا وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
(الارشاد باب ذکر الامام القائم ص ۶۴۳
قائم علیہ السلام منتظر کے اسماء
الزام الناصب میں ایک سو چھیالیس نام اور القاب آپ علیہ السلام کے ذکر کیے گئے ہیں۔ بعض کا ثبوت واضح ہے، کچھ روایات اور زیارات سے لئے گئے ہیں کچھ تورایت و انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں سے لئے گئے ہیں اور بعض اسماءایسے ہیں جو آپ علیہ السلام کے شیعوں کی جانب سے ہیں، ان القاب و اسماءمیں کچھ اس طرح ہیں۔
ابوالقاسم علیہ السلام ، ابوعبداللہ علیہ السلام ، ابوجعفر علیہ السلام ،ابومحمد علیہ السلام ، ابوابراہیم علیہ السلام ، ابوالحسن علیہ السلام ،ابوتراب علیہ السلام ، ابوصالح علیہ السلام ، الاصل علیہ السلام ، احمد علیہ السلام ، امیر الامراءعلیہ السلام ،ایدی علیہ السلام ، یہ ”ید“ کی جمع ہے جس کا معنی نعمت ہے(ایزدستاش، ایزدنشان، ایستادہ یہ نام مجوسیوں کے ہاں موجودہیں) احسان علیہ السلام ، بقیة اللہ علیہ السلام ،بقیة الانبیاءعلیہ السلام ،برہان اللہ علیہ السلام ،الباسط علیہ السلام ، بقیة الاتقیاءعلیہ السلام ،بندہ یزدان علیہ السلام ،(عبداللہ) الثالی علیہ السلام ، الثائر علیہ السلام ،الجعفر علیہ السلام ،الجابر علیہ السلام ، جنب علیہ السلام ، حجة اللہ علیہ السلام ،حجة اللہ الحقعلیہ السلام ، الجلیل علیہ السلام وغیرذلک(الزام الناصب ج ۱ ص ۶۲۴)
مترجم کہتا ہے کہ بعض محققین نے آپ علیہ السلام کے چھ سو اسماءذکر کیے ہیں اور میں نے ان اسماءاور القاب کوزیارات اور دعاوں سے یکجا بھی جمع کیا ہے۔ بہرحال آپ علیہ السلام کے اسماءکثیر تعداد میں ہیں آپ علیہ السلام کا ہر نام آپ علیہ السلام کے ایک عملی کردار پر روشنی ڈالتا ہے اور آپ علیہ السلام کی کسی نہ کسی صفت یا حالت یا عمل کو بیان کرتاہے۔(دیکھیں اسماءالقائم علیہ السلام ج ۱ تالیف جعفر الزمان، مرحوم)
حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت یا شہادت
خالکافی میں ہے آپ علیہ السلام کی ولادت ۵۱ شعبان ۵۵۲ ہجری قمری میں ہوئی اور احمد بن محمد نے کہا ہے کہ آپ علیہ السلام کی ولادت کا سال ۶۵۲ ہجری قمری ہے۔
خشیخ صدوقؒ نے اپنے استاد سے سیدہ حکیمہ بنت محمد بن علی بن موسیٰ علیہم السلام سے روایت بیان کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا”ابومحمد الحسن بن علی علیہ السلام نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: پھوپھی جان! آج رات آپ علیہ السلام کا افطار ہمارے پاس ہوگا کیونکہ آج ۵۱ شعبان کی رات ہے۔
اللہ تعالیٰ اس رات حجت کو ظاہر فرمائے گا اور وہی اللہ کی زمین میں اللہ کی حجت ہوں گے اور یہ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی ولادت کا دن جمعہ تھا اور ۶۵۲ ہجری کا سال تھا۔
خکمال الدین میں ہے:علان رازی سے نقل کیا ہے کہ اس نے بیان کیا کہ ہمارے بعض اصحاب نے ہم سے یہ بات بیان کی ہے کہ جس وقت ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکری علیہ السلام) کی جاریة(آپ علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ)کے لئے حمل ٹھہر گیا تو آپ علیہ السلام نے انہیں خبر دی آپ ایسے جلیل القدرمرد کی حامل ہیں جن کا نا محمد علیہ السلام ہے اور وہی میرے بعد قائم علیہ السلام ہیں“۔(کمال الدین ص ۸۰۴ حدیث ۴ ، کفایة الاثرص ۴۹۲)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت پر طعام تقسیم کرنا
جناب ابوجعفر العمری سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے بیان کیا :
”جس وقت السید(امام زمانہ علیہ السلام ) کی ولادت ہو چکی تو ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکریعلیہ السلام ) نے فرمایا کہ میرے پاس ابوعمرو کو لے آو، پس انہیں بلوایا گیا اور وہ آپ علیہ السلام کے پاس آ گئے تو آپ علیہ السلام نے ان سے یہ فرمایا:
”آپ دس ہزارر طل روٹی خرید کر لیں اور دس ہزاررطل( )گوشت خرید کر لیں اور اسے بنی ہاشم(سادات) میں تقسیم کر دیں اور ان کی جانب سے اتنی تعداد میں بکروں کا عقیقہ کریں۔(کمال الدین ص ۱۳۴ حدیث ۶ ، البحار ج ۱۵ ،ص ۵ حدیث ۹
جناب سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا کی حضرت امام زمانہ (عج) کی ولادت بارے روایت
البحار میں محمد بن عبداللہ المطہری سے یہ بیان نقل ہوا ہے کہ انہوں نے بتایا کہ میں سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا کے پاس ابومحمد علیہ السلام(امام حسن عسکری علیہ السلام) کے چلے جانے کے بعد حاضر ہوا تاکہ میں آپ علیہ السلام سے حجت کے بارے پوچھوں اور جس حیرانگی اور پریشانی میں اس وقت لوگ سرگرداں ہیں اس بارے جواب معلوم کرو۔
حضرت سیدہ حکیمہ خاتون سلام اللہ علیہا: ادھر بیٹھ جاو
پس میں بیٹھ گیا، پھر آپ علیہ السلام نے اس طرح مجھ سے فرمایا:
”اے محمد یہ بات جان لو، اللہ تبارک وتعالیٰ زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا یا تو حجت ناطقہ(بولنے والی) ہو گی یا حجت صامت(خاموش) ہو گی حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نمائندگی دو بھائیوں میں قرار نہیں دی، یہ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کی فضیلت ہے اوران کو باقی سے جدا کرنے کے لئے کہ پوری کائنات میں ان دوبھائیوں جیسا کوئی نہیں ہے۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی اولاد پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد کو فضیلت عطاءفرمائی( اوراپنی نمائندگی ان میں رکھ دی)جس طرح حضرت ھارون علیہ السلام کی اولاد کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد پر فضیلت و برتری عطا کی گئی اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام پر حجت تھے ۔ لیکن حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد کو قیامت تک کے لئے یہ فضیلت حاصل ہے۔
امت کے لئے حیرت قرار ہو گی سرگردانی میں وہ ضرور پڑیں گے اس میں باطل والے بھٹک جائیں گے اور حق والے چھٹکارا پالیں گے تاکہ لوگوں کی جانب سے رسولوں کے گذر جانے کے بعد ان پر کوئی حجت عذراور بہانہ موجود نہ ہو۔ ابومحمدعلیہ السلام کے گذر جانے کے بعد حیرت اور پریشانی یقینی ہوئی تھی۔
راوی: کیا حضرت امام حسن علیہ السلام کے لئے بیٹا تھا؟
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: مسکرا دیں پھر فرمایا:اگرحسن علیہ السلام کا بقیہ نہ ہوگا تو پھر آپ علیہ السلام کے بعد حجت کون ہوں گے؟اور میں نے تو تمہیں یہ بات بتا دی ہے کہ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے بعد دو بھائیوں میں حجت اور نمائندگی خدااکٹھی موجود نہ ہو گی۔
راوی: میں نے عرض کیا، میری سردار بی بیعلیہ السلام ، مجھ سے میرے مولا علیہ السلام کی ولادت اور ان کی غیبت بارے بیان کریں؟
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: جی ہاں! بیان کرتی ہوں۔
بات کچھ اس طرح سے ہے کہ میرے لئے ایک کنیز تھی جسے نرجس پکارا جاتا تھا ایک دن میرے بھائی کے بیٹے(میرے بھتیجے امام حسن علیہ السلام ) مجھ سے ملنے تشریف لے آئے تو آپ علیہ السلام نے اس کنیز کی طرف بہت ہی دلچسپی اور توجہ سے نگاہ فرمائی اور اسے غور سے دیکھا اور ان پر پیار کی نظرڈالی،تو میں نے ان سے کہا کہ اے میرے سردار علیہ السلام !آپ علیہ السلام نے اس کنیز کو لینے کا قصد کر لیا ہے؟ تو کیا میں انہیں آپ علیہ السلام کے پاس بھیج دوں؟
توآپ علیہ السلام نے میرے جواب میںفرمایا:”نہیں پھوپھی جان! لیکن مجھے اس کو دیکھ کو تعجب ہو رہا ہے “۔
میں نے پوچھاوہ کیسے ؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا”اس سے ایک کریم فرزند ہو گا جو اللہ کے نزدیک بڑی شان والا ہے، زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی“۔
میں نے پھر پوچھا تو کیا پھر میں اس کنیزکو آپ علیہ السلام کے پاس بھیج دوں؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”اس بارے میں میرے باپ سے اجازت لے لیں“۔
سیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا: میں نے اپنا لباس پہنا اور تیار ہو کر ابوالحسن علیہ السلام (امام علی نقی علیہ السلام ) کے گھر آ گئی ۔ میں نے آپ علیہ السلام کو سلام کیا اور بیٹھ گئی تو آپ علیہ السلام نے خود ہی بات کا آغاز کر دیا اور فرمایا:”اے حکیمہ علیہ السلام !تم نرجس علیہ السلام کو میرے بیٹے ابومحمد علیہ السلام (امام حسن عسکری علیہ السلام)کے پاس بھیج دو“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام : میں نے عرض کیا: میرے سردارعلیہ السلام !میں اسی ارادہ سے آپ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئی تھی کہ آپ علیہ السلام سے اس بارے اجازت لے لوں اور انہیں ابومحمد علیہ السلام کے پاس بھیج دوں۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام: اے مبارکہ! اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کو اس ثواب میں شریک کرے اور آپ علیہ السلام کے لئے اس خیروبرکت میں حصہ قرار دے“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام : میں وہاں نہ رکی اور فوراً اپنے گھر آ گئی میں نے نرجس علیہ السلام کو بتایااور اس کا ہارسنگھارکیا اور اسے ابومحمد علیہ السلام کے لئے ہدیہ کر دیااور انہیں میں نے اپنے گھر میں ہی ایک کمرہ دے دیا اور اس میں ان کے لئے آرام وسکون کا پوراپورا انتظام کردیا۔
ابومحمد علیہ السلام میرے گھر میں کچھ دن تک موجود رہے۔ اس کے بعدآپ اپنے والد کے گھر تشریف لے گئے اور نرجس علیہ السلام کو میں نے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
السیدہ حکیمہ سلام اللہ علیہا:۔ ابوالحسن علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ابومحمد علیہ السلام ان کی جگہ پر بیٹھے تو میں ان کی زیارت کے لئے اس طرح جایا کرتی تھی جس طرح میں ان کے والد کی زیارت کے لئے جایا کرتی تھی۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ نرجس علیہ السلام میرے پاس آئی اور انہوں نے میرے پاوں سے جوتے اتارنے کا ارادہ کیا اور یہ فرمایا کہ میری سردار اپنے جوتے مجھے دیں میں انہیں رکھ دیتی ہوں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے نرجس علیہ السلام سے جواب میں کہانہیں توں میری سردار ہے، توں میری مولا اور آقا ہے ، خدا کی قسم!میں اپنے پاوں تیری جانب نہیں بڑھاوں گی کہ تم میرے پاوں سے میرے جوتے اتارو اور اس بات کی اجازت بھی نہیں دوں گی کہ تم میری خدمت کرو بلکہ میں تمہیں اپنی آنکھوں پر بٹھاوں گی میں تمہاری خدمت کروں گی تم میری سردار ہو۔
سیدہ حکیمہ علیہ السلام کی اس بات کو حضرت ابومحمدعلیہ السلام (امام حسن عسکری علیہ السلام) نے سن لیا اور آپ علیہ السلام نے یہ بات سن کر فرمایا:
پھوپھی جان!اللہ آپ علیہ السلام کو جزائے خیر دے میں غروب آفتاب تک آپ کے پاس موجود رہی میں نے وہاں پر موجود ایک کنیز کو آواز دی کہ میرے کپڑے لے آو تاکہ میںاپنے گھر جاوں۔
ابومحمد علیہ السلام :۔ ابومحمد علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا:”اے پھوپھی جان!آج رات آپ علیہ السلام ہمارے پاس ٹھہریں گی، کیونکہ آج رات مولود کریم کی ولادت ہے جس کی اللہ کے ہاں شان ہے، اللہ عزوجل ان کے ذریعہ زمین کو ویرانی کے بعد آباد کردے گا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ اے میرے سردار!میں نرجس علیہ السلام میں تو حمل کا کوئی اثر نہیں دیکھتی؟
ابومحمد علیہ السلام :۔ نرجس(سلام اللہ علیہا)سے،کسی اور سے نہیں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں دوڑ کر نرجس کے پاس گئی میں نے ان کے آگے پیچھے سب دیکھا میں نے حمل کا کوئی اثر و نشان تک موجود نہ پایا۔میں واپس ابومحمد علیہ السلام کے پاس آ گئی اور ان کو اس عمل بارے بتایا جو میں نے انجام دیا۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ آپ علیہ السلام مسکرا دیے پھر میرے لئے فرمایا:جس وقت فجر کا وقت ہو گا توآپ علیہ السلام کے لئے نرجس ہی سے حمل ظاہر ہوگا، کیونکہ ان کی مثال موسیٰ علیہ السلام کی ماں جیسی ہے کہ ان کا حمل ظاہر نہ ہوااور ولادت کے وقت کسی ایک کو اس کا علم نہ ہو سکا کیونکہ فرعون ان تمام خواتین کے شکم چاک کروا دیتا تھا جن میں حمل کے آثار موجود ہوتے تھے تاکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو تلاش کر سکے اور اسے ولادت سے پہلے ہی ختم کردے۔تو اس مولود کی مثال بھی موسیٰ علیہ السلام کی جیسی ہے۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں طلوع فجر تک بڑی توجہ سے سیدہ نرجس علیہ السلام کو دیکھتی رہی اوران پر میری نظر رہی جب کہ آپ علیہ السلام آرام سے میرے سامنے سو رہی تھیں اورآپ نے اپنا پہلو تک نہ بدلا۔ جب رات کا آخری پہر ہوا اور طلوع فجر قریب ہوا تو یکدم وہ اپنی جگہ سے اُٹھ بیٹھیں خوفزدہ تھیں میں نے انہیں اپنے سینہ سے چپکا لیا اور میں نے اس پر(
بِسمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
)
پڑھا۔
ابومحمد علیہ السلام :۔ آپ علیہ السلام نے مجھے آواز دے کر فرمایا”اس(
پراِنَّا اَنزَلنٰاهُ فِی لَیلَةِ القَدرِ
)
پڑھو
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے نرجس علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ علیہ السلام کاحال کیساہے؟
سیدہ نرجس علیہ السلام :۔ وہ امر ظاہر ہو چکا ہے جس کے بارے میرے سردار نے آپ کو خبر دی تھی۔
السیدہ حکیمہعلیہ السلام :۔ جیسے مجھ سے ابومحمد علیہ السلام نے فرمایا:میں نے نرجس علیہ السلام پر ”سورہ اِنَّا اَن زَل نَاہُ فِی لَی لَةِ ال قَد رِ....“کوپڑھنا شروع کر دیاتوبچے نے نرجس علیہ السلام کے شکم سے مجھے جواب دیا جس طرح میں پڑھ رہی تھی اسی طرح اس بچے نے بھی پڑھنا شروع کر دیا اور میرے اوپر سلام بھی کیا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ جب میں نے یہ سنا تو میں گھبرا گئی۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ ابومحمد علیہ السلام نے مجھے زور سے آواز دے کر فرمایا:”اللہ عزوجل کے امر بارے حیران مت ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بچپن میں ہم سے حکمت بلواتا ہے اور بڑے ہونے پر اپنی زمین پر ہمیں حجت بنا دیتاہے۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ ابھی ابومحمد علیہ السلام کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ نرجس علیہ السلام مجھ سے غائب ہو گئیں اس طرح کہ میں ان کو نہ دیکھ سکی گویا میرے اور ان کے درمیان حجاب قرار دے دیا گیا، تو میں دوڑتی ہوئی ابومحمد علیہ السلام کے پاس آ گئی جب کہ میں چلا رہی تھی ۔
ابومحمد علیہ السلام:۔ ابومحمد علیہ السلام نے مجھے اس حالت میں دیکھ کرفرمایا: پریشان نہ ہوں واپس لوٹ جائیں ابھی آپ علیہ السلام نرجس علیہ السلام کو اپنی جگہ پرموجود پاو گی۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں واپس آ گئی تھوڑی دیر ہی گذری ہو گی کہ میرے اور نرجس علیہ السلام کے درمیان جو پردہ آ گیا تھا وہ ہٹا دیا گیا میں نے اچانک انہیں اپنے سامنے موجود پایا تو ان کے پورے وجود پرنورکااثرتھااور یہ نور اس قدر روشن تھا کہ میری آنکھوں کے نور پر چھا گیا اسی کے ساتھ ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ سجدہ کی حالت میں موجود ہے پھر اپنے دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اپنی صبابہ(انگشت شہادت) کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا”لَا اِلہٰ اِلَّا اللّٰہَ وَح دَہُ لَا شَرِی کَ لَہُ وَاَنَّ جَدِّی رَسُو لُ اللّٰہُ وَاَنَّ اَبِی اَمِی رُال مُو مِنِی نَ“اس کے بعد ایک ایک کر کے سارے اماموں کا نام لیا اور جب اپنے نام پر پہنچے تو فرمایا”اَللّٰهُمَّ اَنجِز لِی وَعدِی ، اَتمِم لِی اَمرِی وَثَبِّت وَطَاتِی
وَاملَا اَلاَرضَ بِی عَدلاً وَّقِسطاً
“
ترجمہ:۔ اے اللہ میرا وعدہ پورا کر دے، میرے امر کو پورا کر دے میری چاپ کو مضبوط بنا دے اور میرے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے۔
ابومحمد الحسن علیہ السلام :۔ آپ علیہ السلام نے بلند آواز دے کر فرمایا: اے پھوپھی جان! بچے کو اٹھا لو اور اسے میرے پاس لے آو پس میں نے بچے کو اٹھالیا اور میں اسے ابومحمد علیہ السلام کے پاس لے آئی پس جب میں آپ علیہ السلام کے باپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور آپ علیہ السلام میرے ہاتھوں میں موجود تھے، تو آپ علیہ السلام نے اپنے بابا پرسلام کیا، اس کے ساتھ ہی ابومحمد الحسن علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو مجھ سے لے لیا میں نے دیکھا کہ کچھ پرندے ہیں جو آپ علیہ السلام کے سر مبارک پرمنڈلارہے ہیں۔پس ابومحمد الحسن علیہ السلام نے ان پرندوں سے ایک کوآواز دی وہ آپ علیہ السلام کے پاس آ گیاآپ علیہ السلام نے اس پرندے سے فرمایااس کو اٹھالو اس کی حفاظت کرو اور ہر چالیس دن بعد اس بچے کو ہمارے پاس واپس لے کر آیاکرو اس پرندے نے آپ کو لیا اور آسمان کی جانب فضا میں اڑ گیا اور باقی سارے پرندے اس کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلے گئے۔میں نے یہ سنا کہ ابومحمد علیہ السلام فرما رہے تھے : میں نے تجھے اس کے سپرد کردیاہے جس کے سپرد موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے موسیٰ علیہ السلام کو کیا تھا۔
سیدہ نرجس علیہ السلام :۔ یہ دیکھ کرسیدہ نرجس علیہ السلام روپڑیں تو ابومحمد علیہ السلام نے ان سے فرمایا: خاموش رہو، روونہیں ان پر دودھ کسی اور کا حرام ہے اس نے دودھ آپ علیہ السلام کے سینہ سے ہی لینا ہے اسے تیرے پاس واپس لایا جائے گا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا گیا تھا اور اس بارے اللہ عزوجل کا یہ قول ہے ”(
فَرَدَد نَاهُ اِلیٰ اُمِّهِ کَی تَقَرَّعَی نُهَا وَلَا تَحزَن
)
“(سورہ القصص آیت ۳۱)
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے ابومحمد علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ پرندوں کا قصہ کیاہے؟ اور یہ پرندہ کون تھا؟ جس کے سپرد اس مولودکو کیا گیا ہے؟
ابومحمد علیہ السلام:۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا”یہ پرندہ روح القدس تھا جس کی ڈیوٹی آئمہ علیہ السلام کے لئے لگائی گئی ہے وہ ان تک فقہ پہنچاتا ہے علم کی غذا ان کے لئے لاتا ہے اور انہیں محفوظ رکھتا ہے ، ان کی دیکھ بھال رکھتا ہے ان کاخیال رکھتاہے؟
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ جب چالیسواں دن آیا تو اس بچے کو واپس ان کے باپ کے پاس لایا گیا تو آپ علیہ السلام نے مجھے بلوا بھیجا جب میں آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے ایک بچے کو آپ علیہ السلام کے سامنے چلتے دیکھتا۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ میں نے ابومحمد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیاکہ یہ بچہ تو دو سال کا لگ رہا ہے؟
ابومحمد علیہ السلام:۔ یہ سن کر مسکرا دیئے اور فرمایا:انبیاءعلیہ السلام اور اوصیاءعلیہ السلام کی اولاد جب کہ وہ آئمہ علیہ السلام سے ہوں تو ان کی نشوونمادوسرے افرادسے مختلف ہوتی ہے ہمارے بچوں پر جب ایک ماہ گزرتا ہے تو وہ دوسروں کی بہ نسبت ایک سال کے ہو جاتے ہیں اور ہمارے بچے جو ہیں وہ ماں کے شکم میں باتیں کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، اپنے رب کی عبادت ماں کے شکم میں کررہے ہوتے ہیں، دودھ پیتے وقت فرشتے ان کی اطاعت کررہے ہوتے ہیں اورفرشتے ان پر صبح کے وقت اور شام کے وقت اترتے ہیں۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ تو میں ہر چالیس دن بعد اس بچے کودیکھا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ میں نے آپ علیہ السلام کو مکمل جوان دیکھا اور یہ ابومحمد علیہ السلام کے جانے سے چند ہی دن قبل کی بات ہے۔ میں نے پہلے تو آپ علیہ السلام کو نہ پہچانا اور ابومحمد علیہ السلام سے پوچھ لیا یہ کون ہیں؟ جن کے سامنے آپ مجھے بیٹھنے کاحکم فرما رہے ہیں تو آپ علیہ السلام نے میرے جواب میں فرمایا:
”یہ نرجس علیہ السلام کافرزند ہے، میرے بعد میرا خلیفہ ہے، تھوڑی مدت بعد تم مجھے اپنے درمیان نہ پاو گی تو آپ علیہ السلام اس کی بات کوسننا اور ان کی اطاعت کرنا“۔
السیدہ حکیمہ علیہ السلام :۔ پس تھوڑے دنوں بعد ابومحمدعلیہ السلام گذر گئے اور لوگ متفرق ہو گئے جیسا کہ تم اس وقت دیکھ رہے ہو، خدا کی قسم! میں تو انہیں صبح بھی دیکھتی ہوں اور شام کے وقت بھی دیکھتی ہوں اور صحیح بات یہ ہے کہ تم جو کچھ مجھ سے سوال کرتے ہو وہ مجھے اس کے بارے میں جواب دیتے ہیں اور اس کی خبرپہلے ہی دے دیتے ہیں۔
خدا کی قسم! جب میں کسی بات کے بارے دریافت کرنے کاارادہ کرتی ہوں تو وہ خود سے ہی میرے سوال سے پہلے مجھے اس کا جواب دے دیتے ہیں اور جب کوئی معاملہ میرے درپیش ہوتا ہے تو فوراً اس کا جواب اسی وقت میرے پاس آجاتا ہے بغیر اس کے کہ میں ان سے سوال کروں، آپ علیہ السلام نے کل رات مجھے تمہارے آنے کی خبر دی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں حق کے بارے تمہیں آگاہ کروں۔
محمد بن عبداللہ :۔ خدا کی قسم! جناب سیدہ حکیمہ علیہ السلام نے مجھے ایسے امور کے بارے آگاہ کیا کہ جن کے متعلق اللہ کے سوا کسی کو علم نہ تھا تو میں اس سے سمجھ گیا کہ یہ اللہ کی جانب سے سچ اور عدل ہے اور اس بات کا مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان امورپر مطلع کیا ہے کہ جن کے بارے اس نے اپنی مخلوق سے کسی اورکو مطلع نہیں کیا۔
(کمال الدین ص ۹۲۴ ، مدینة المعاجزج ۸ ص ۸۶ ، البحار ج ۱۵ ص ۲۱ حدیث ۴۱
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کرنے والی تاریخ اسلام کی بعض معروف شخصیات
شیعہ کے علاوہ مسلمانوں کی تاریخ میں بعض بہت ہی معروف شخصیات ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے۔ ان میں چند ایک ذیل میں ہیں:
پہلی شخصیت:ابوسالم کمال الدین محمد بن طلحہ بن محمد بن الحسن الفرش النصیبی
کوئی ایک بھی اہل السنت سے ایسا ہم نہیں پاتے جو اس عالم کی شخصیت کامنکر ہو یا ان کی کتاب ”مطالب السول“کا انکار کرے اس کتاب کا بارہواں باب ہے”الباب الثانی عشر فی ابی القاسم”محمد بن الحسن علیه السلام الخالص بن علی المتوکل بن محمد القانع بن علی الرضا بن موسیٰ الکاظم علیه السلام بن جعفر الصادق
علیه السلام بن محمد الباقر علیه السلام بن علی علیه السلام زین العابدین علیه السلام بن الحسین علیه السلام الزکی بن علی المرتضیٰ
علیه السلام امیرالمومنین علیه السلام بن ابی طالب علیه السلام، المهدی الحجة الخلف الصالح المنتظر عجل الله تعالیٰ فرجه ورحمة الله وبرکاته
“
اس عنوان میں امام مہدی علیہ السلامکا نام آپ علیہ السلام کا پورا نسب نامہ اور آپ علیہ السلام کے القاب کا ذکر کیا ہے اس کے بعد مصنف کتاب ” مطالب السول“ عربی میں امام مہدی علیہ السلام کی مدح میں قصیدہ لکھا ہے جو اس طرح ہے۔
فهذا الخلفه الحجة قدایده الله
هدانا منهج الحق واناه سجایاه
واعلاه ذری العلیا و بالتایید رقاه
وآتاه حلی فضل عظیم فتحلاه
وقد قال رسول الله قول قدرویناه
وذوالعلم بماقال اذا ادرکت معناه
یری الاخبار فی المهدی جات بمساه
وقد ابداه بانسبة والوصف وسماه
ویکفی قوله: منی لاشراق محیاه
ومن بضعته الزهراءمجراه ومرسهاه
ولن یبلغ ما اوتیه امثال واشباه
فان قالوا هوا ماما توابماخاها
اس کے بعد وہ لکھتاہے:
آپ کی ولادت کی جگہ: آپ علیہ السلام کی ولادت کی جگہ سرمن رائے ہے اور آپ ۳۲ رمضان ۵۸۲ ہجری قمری کے ہاں پیدا ہوئے آپ کا باپ اور ماں کی جانب سے نسب نامہ آپ کے بارے الحسن الخالص ہیں جو علی المتوکل کے بیٹے ہیں اوروہ محمد النافع کے اور اسی طرح اسنے آپ کے آباءکوشمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ امیرالمومنین بن ابی طالب علیہ السلام کے بیٹے ہیں آپ کا نام محمد علیہ السلام ہے آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے آپ کا لقب، الحجت، الخلف الصالح ہے اور منتظر بھی کہا گیا ہے۔(مطالب السول باب ۲۱ کشف الغمہ ج ۳ ص ۳۳۲)
دوسری شخصیت: ابوعبداللہ محمد بن یوسف الکنجی الشافعی
جسے ابن الصباغ المالکی نے اپنی کتاب الفصول المہمہ میں لکھا ہے”آپ علیہ السلام امام ہیں حافظ ہیں سارے علماءنے ان کی تجلیل و بزرگی کو بیان کیا ہے اور انہیںبااعتماد قرار دیاہے۔ اہل السنة والجماعة میں اس کا معارض و مخالف کوئی ایک بھی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”کفایة الطالب“ میں ابومحمد علیہ السلام کی تاریخ ولادت اور آپ علیہ السلام کی تاریخ وفات لکھنے کے بعد بیان کیا کہ انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیٹا چھوڑا جو کہ امام منتظر ہے۔(کفایة الطالب ص ۸۵۴ آٹھویں باب کے ذیل میں)
تیسری شخصیت: نور الدین علی بن محمد بن الصباغ المالکی
بہت سارے بزرگ علماءنے ان کی توثیق کی ہے ان کی بزرگی کو بیان کیا ہے ان علماءمیںبھی ایک محمد بن عبدالرحمن السخاوی البصری ہیں جو حافظ بن حجر العسقلانی کے شاگرد ہیں، ابن الصباغ المالکی نے اپنی کتاب الفصول المھمہ میں لکھا ہے، بارہویں فصل ابوالقاسم الحجة الخلف الصالح بن ابی عہد الحسن الخالص کے متعلق ہے اور وہی بارہویں امام ہیں اور اسی فصل میں ان کی ولادت کی تاریخ اور ان کی امامت کے دلائل تحریر کئے ہیں۔(الفصول المہمہ ذکرالمہدی)
چوتھی شخصیت: شمس الدین یوسف بن قزعلی بن عبداللہ البغدادی الحنفی
یہ عالم، واعظ، ابوالفرج عبدالرحمن بن الجوزی کے نواسے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب تذکرة الخواص الامة میں حضرت العسکری علیہ السلام کے حالات زندگی کے بعد ان کی اولاد کے ذکر میں لکھتے ہیں:”م ح م دہیں جو کہ امام علیہ السلام ہیں پھر فرمایا: ”م ح م د“حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام بن جعفر علیہ السلام بن محمد علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں آپ علیہ السلام کی کنیت ابوعبداللہ اور ابوالقاسم ہے اور وہی الخلف، الحجة، صاحب الزمان، القائم، المنتظر ہیں اور وہ آخرالائمہ ہیں۔(تذکرة الخواص ص ۵۲۳ فصل فی ذکر المہدی علیہ السلام)
پانچویں شخصیت:الشیخ الاکبر محی الدین العربی
انہوں نے اپنی کتاب الفتوحات کے باب ۶۶۳ میں لکھا ہے یہ بات تم سب لوگ جان لو کہ مہدی علیہ السلام کا خروج ضروری ہے لیکن وہ اس وقت تک خروج نہیں کریں گے مگر یہ کہ زمین ظلم و جور سے مکمل طور پر بھر جائے گی۔
پس آپ آ کر اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے، اگر دنیا سے سوائے ایک دن کچھ باقی نہ بچے تو اللہ اس دن کو طولانی کر دے گا، یہاں تک کہ خدا اس خلیفہ کو ولایت دے گا وہ رسول اللہ کی عترت سے ہیں فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد سے ہیں ان کے جد حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں، ان کے والد الحسن العسکری علیہ السلام بن الامام علی النقی علیہ السلام بن الامام محمد التقیعلیہ السلام بن الامام علی الرضعلیہ السلام بن الامام موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن الامام جعفر الصادقعلیہ السلام بن الامام محمد الباقر علیہ السلام بن الامام علی زین العابدین علیہ السلام بن الامام الحسین علیہ السلام بن الامام علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ان کا نام رسول اللہ کے نام جیسا ہے مسلمان، رکن اور مقام کے درمیان ان کی بیعت کریں گے آپ علیہ السلام شکل و صورت یعنی خلقت میں رسول اللہ سے مشابہ ہوں گے اخلاق میں ان سے کم درجہ پرہوں گے کیونکہ رسول اللہ کے اخلاق میں کوئی ایک بھی ان جیسا نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”(
اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ
)
“(سورةالقلم آیت ۴)
بتحقیق بلا شک و شبہ تو تو یقینی طور پر خلق عظیم پر ہے۔ آپ کی آنکھیں کھلی ابھری ہوئی چوڑی پیشانی ہوگی باریک بینی والے ہوں گے ۔کوفہ والے سب سے زیادہ ان کے وسیلہ سے سعادت مند ہوں گے مال کو برابر تقسیم کریں گے رعیت میں عدل قائم کریں گے حضرت خضر علیہ السلام آپ کے آگے چلیں گے آپ پانچ یا سات یا نو سال زندگی کریں گے رسول اللہ کے نشانات پر چلیں گے ان کے لئے ایک فرشتہ ہوگاجو ان کی تائید کرے گا جودیکھا نہ جا سکے گا۔یعنی ایک فرشتہ ان کی راہنمائی کے لئے موجود ہوگا جو ان کی حفاظت پر مامور ہوگا رومی اس شہر کو سترہزار مسلمانوں کے ہمراہ ایک تکبیرسے فتح کریں گے اللہ ان کے وسیلہ سے اسلام کو عزت دےگا جب کہ ان سے پہلے اسلام ذلیل ہو چکا ہوگا اسلام مرچکا ہوگا اسے آپ زندہ کریں گے جزیہ ختم کر دیں گے اللہ کی طرف تلوار کے ذریعہ دعوت دیں گے جو انکار کرے گا اسے قتل کر دیں گے جو بھی اس سے جھگڑے گا وہ رسوا ہو گا ہر قسم کی برائی سے پاک دین خالص کی حکومت قائم کریں گے(آخر تک اس گفتگو کو انہوں نے جاری رکھاہے)(الفتوحات المکیہ ج ۳ ص ۹۱۴ یا ۶۶۳ طبع بولاق مصری، الیواقبت والجواہرص ۲۲۴،۳۲۴)
چھٹی شخصیت:الشیخ العارف عبدالوھاب بن احمد بن علی الشعرانی
اپنی کتاب الیواقیت کی ج ۲ میں بحث نمبر ۵۶ میں تحریر کیاہے”تمام وہ شرائط جن کو شارع مقدس(رسول اکرم) نے بیان کیا ہے وہ سب برحق ہیں اور قیامت کے بپا ہونے سے پہلے وہ سب کی سب پوری ہوں گی اور اس طرح سے ہے کہ مہدی علیہ السلام کا خروج ہونا پھر دجال کا آنا پھر عیسیٰ علیہ السلام کا نزول....اس کے بعد تحریر کرتا ہے وہ ہزار سال تک کے واقعات لکھتا ہے پھر تحریر کرتا ہے دین مٹ جائے گا، دین غریب ہو جائے گا اور یہ گیارہویں صدی ہجری سے تیس سال گذر جانے کے بعد سے ہوگا۔
اس وقت مہدی علیہ السلام کے خروج کا بڑی شدت سے انتظار ہوگا اور آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ علیہ السلام کی ولادت ۵۱ شعبان ۵۵۲ ہجری قمری کے سال میں ہوئی ہے اور وہ اب تک باقی اور موجود ہیں یہاں تک کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہ السلام کے ساتھ اکٹھے ہوں گے اور ان کی عمر اس وقت( ۵۸۹ ہجری قمری میں)سات سوتین سال ہے۔
(الیواقبت والجواہرص ۲۲۴ بحث ۵۶)
ساتویں شخصیت:نورالدین عبدالرحمن بن قوام الدین الاشتی الجامی الحنفی
شواہدالنبوة میں لکھا ہے(مقدمہ غیبة النعمانی ص ۴۱)
آٹھویں شخصیت: الحافظ ابوالفتح محمد بن ابی الفوارس
انہوں نے اپنی کتاب اربعین میں لکھاہے۔(منتخب الاثرص ۲۱)
نویں شخصیت :ابوالمجدعبدالحق الدھلوی البخاری
انہوں نے اپنے کتابچہ المناقب میں لکھا ہے: ابومحمد العسکری علیہ السلام کا بیٹا(م ح م د)ہے جس کے بارے ان کے معتمدین اور خاص اصحاب کو معلوم تھا(کشف الغمہ ج ۲ ص ۸۹۴)
دسویں شخصیت: السید جمال الدین عطاءاللہ بن السیدغیاث الدین فضل اللہ بن السید عبدالرحمن
مشہور محدث جس کی کتاب فارسی روضة الاحباب مشہور ہے اس میں وہ لکھتاہے:
بارہویں امام ”م ح م د“ہیں حسن علیہ السلام کے بیٹے ہیں آپ کا مبارک و مسعود تولد ۵۱ شعبان ۵۵۲ ہجری قمری کے سال میں سامرہ کے اندر ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کا تولد ۳۲ رمضان المبارک ۸۵۲ ہجری قمری کے سال ہوا آپ گوہر نایاب کی والدہ ام ولد(کنیز)تھیں جس کا نام صیقل یا سوسن تھا۔
(غیبت مقدمہ نعمانی ص ۴۱ ، مقتضب الاثرص ۲۱)
گیارہویں شخصیت:الشیخ العالم الادیب الدولہ
ابومحمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن الحشاب
انہوں نے صدقہ بن موسی سے اس بات کو نقل کیاہے
(تاریخ موالیدالائمہ لابن الخشاب ص ۵۴ ، کشف الغمہ ج ۳ ص ۵۶۲)
بارھویں شخصیت: عبداللہ بن محمد المطری
انہوں نے امام جمال الدین السیوطی کے حوالے سے احیاءالمیت بفضائل اہل البیت علیہ السلام، رسالہ میں بیان کیا ہے حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کی اولاد سے مہدی علیہ السلام ہیں جو آخری زمانہ میں مبعوث ہوںگے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں ان کے گیارہویں فرزندمحمد القائم المہدی علیہ السلام ہیں اور ان کے بارے میں نبی اکرم کا واضح بیان گذر چکا ہے کہ ملت اسلام میں مہدی علیہ السلام ہوں گے جو صاحب السیف ہوں گے قائم منتظر ہوں گے(سیوطی کا رسالہ احیاءالمیت الاتحاف بحب الاشراف کتاب کے حاشیہ پر چھپا ہوا موجود ہے لیکن اس میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے کلام موجود نہیں ہے۔یہ نقطہ قابل غور ہے....مصنف) مترجم کہتا ہے ہو سکتا ہے عبداللہ بن محمد الطبری نے اس کو مخطوط رسالہ سے پڑھا ہو لیکن بعد میں چھاپنے والوں نے اس بیان کو نکال دیا ہو)
تیرہویں شخصیت : شہاب الدین
یہ ملک العلماءشمس الدین کے نام سے معروف ہیں، ابن عمرالہندی، البحرالمواج تفسیر کے مصنف ہیں انہوں نے اپنی کتاب ”ہدایة السعدائ“ میں جابر بن عبداللہ انصاری سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جابر کہتے ہیں میں سیدہ فاطمةالزہراءعلیہ السلام بنت رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوا ان کے سامنے تختیاں موجود تھیں جن میں ان کی اولاد سے آئمہ کے نام درج تھے ان میں پہلے زین العابدین علیہ السلام تھے یعنی حسین علیہ السلام سے نو امام جو ہیں ان میں پہلے، دوسرے امام محمدباقرعلیہ السلام ہیں پھر ترتیب وار لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں نویں امام حجت قائم امام مہدی علیہ السلام ان کے بیٹے ہیں، وہ غائب ہیں، ان کی لمبی عمر ہے، جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام مومنین سے اور کافروں سے دجال اور سامری ہیں۔(غیبت نعمانی کے مقدمہ میں اس کانام شہاب الدین آبادی لکھا ہے ص ۵۱ اسی طرح الغدیر میں ج ۶ ص ۶۳۱ حدیث ۲۳۴)
حدیث اللوح کو بہت سارے علماءنے ذکر کیا ہے دیکھیں کشف الغمہ ج ۳ ص ۶۴۲ ، فرائدالسمطین ج ۲ ص ۶۳۱ حدیث ۲۳۴)
چودہویں شخصیت:مشہور عالم فضل بن روزبھان
انہوں نے الشمائل للترمذی کی شرح لکھی ہے آئمہ کی شان میں اس کا منظوم کلام ہے(مترجم کہتا ہے کہ انہوں نے بارہ آئمہ علیہ السلام کے نام بنام صلوات بھی لکھی ہے جس کا ترجمہ ماہنامہ پیام زینب علیہ السلام میں شائع ہواہے)
منظوم کلام، آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عقیدت
سلام علی المصطفیٰ المجتبیٰ
سلام علی السیدالمرتضیٰ علیه السلام
سلام علی ستا فاطمه علیها السلام
من اختارها الله خیرالنسائ
سلام من المکه الفاسه
علی الحسن الالمعی الرض علیه السلام
سلام علی الاورعی الحسین علیه السلام
شهید بری جسیمه کربلا
سلام علی سیدالعابدین علیه السلام
علی بن الحسین المجتبیٰ علیه السلام
سلام علی الباقر علیه السلام المهتدی
سلام علی الصادق علیه السلام المقتدی
سلام علی الکاظم علیه السلام الممتحن
رضی السیجایا امام التقی علیه السلام
سلام علی التامن الموتمن
علی الرضا علیه السلام سید الاصفیائ
سلام علی المتقی التقی علیه السلام
محمد الطیب المرتجی
سلام علی الاریحی النقی علیه السلام
علی المکرم هادی انوری
سلام علی السید العسکری علیه السلام
امام یجهز جیش الصفا
سلام علی القائم علیه السلام المنتظر
ابی القاسم العرم نور الهدیٰ
لیطلع کاشمس فی عاسق
ینجیه من سیفه المنتقی
قوی یملاءالارض من عدله
کما ملئت جوراهل الهوی
سلام علیه و آبائه
وانصاره ما تدوم السمائ
(کتاب چہاردہ معصوم کے مقدمہ میں ص ۱۳)
پندرھویں شخصیت: العالم العابدالعارف الاورع الباع الالمی الشیخ سلیمان بن خواجہ کلان الحسین القندوزی البلخی
صاحب کتاب ینابیع المودة، اس نے بہت زیادہ اس بات پر زور دیا ہے اور اسے ثابت کیا ہے اپنے ذرائع سے، کہ مہدی علیہ السلام موعود وہی حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں، بہت سارے ابواب میں جس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
(ینابیع المودة ج ۱ ص ۹۸ باب ۳۷)
سولہویں شخصیت: العارف المشہدی شیخ الاسلام احمد الجامی
انہوں نے بیان کیا ہے کہ عبدالرحمن الجامی نے اس بارے میں اپنی کتاب النفحات میں لکھاہے۔(ینابیع المودة ج ۳ ص ۹۴۳ ، نفحات الانس ۷۵۳ حاشیہ پر)
سترہویں شخصیت: ابن خلکان
انہوں نے اپنی تاریخ میں دیا ہے کہ ابن الازرق نے مبافارقین کی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ یہ حجت مذکورہ کی ولادت ۹ ربیع الاول ۸۵۲ ہجری قمری کے سال میں ہوئی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت ۸ شعبان ۶۵۲ ھجری میں ہوئی ہے دوسرا قول زیادہ صھیح ہے اور یہ کہ جس وقت آپ سرداب میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر چار سال تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی عمر پانچ سال تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام سرداب میں ۵۷۲ ہجری قمری کے سال میں گئے، اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر ۷۱ سال تھی اللہ ہی بہترجانتا ہے کہ کیا تھا، اللہ کا ان پر سلام ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔
(الصواعق المحرقہ ص ۴۱۳ ،ص ۷۴۲،۲۱)
اٹھارہویں شخصیت: الشیخ شمس الدین محمد بن یوسف الزیدی
انہوں سے مواج الاصول الی معرفة فضل آل الرسول میں نقل کیا ہے ۔
بارہویںامام مشہور کرامات والے ہیں ان کی منزلت علم کے ذریعے بلند ہے حق کی پیروی میں اور قیام کرنے کے حوالے سے وہ بلندمرتبے والے ہیں جیسا کہ شیعوں نے بیان کیا ہے ان کی ولادت ۵۱ شعبان شب جمعہ ۵۵۲ ہجری قمری کے سال ہے۔ وہ قائم بالحق، الداعی الی منہج الحق، الامام ابوالقاسم محمد بن الحسن ہیں۔ آپ المعتمد کے زمانہ میں سرمن رائے میں موجود تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ نرجس بنت قیصر اور رومیہ ہیں اور ام ولد تھیں۔
انیسویں شخصیت: الشیخ محمد بن المحمود الحافظ البخاری
ان سے ان کی کتاب میں یہ بیان نقل ہوا ہے ابومحمدالحسن العسکری کے بیٹے محمد ہیں اور یہ بات ان کے خاص اصحاب کے لئے معلوم تھی۔(ینابیع المودة ج ۳ ص ۴۰۳)
بیسویں شخصیت: الشیخ عبداللہ بن محمد المطہری الشافعی
ان سے الریاض الزاہرہ فی فضل آل بیت النبی و عترتہ الطاہرہ میں نقل ہوا ہے ابوالقاسم محمد الحجة بن الحسن الخالص کی ولادت سرمن رائے میں ۵۱ شعبان کی رات ۵۵۲ ہجری قمری کے سال ہوئی۔
الحائری نے اس پورے بیان کو الزام الناصب میں نقل کیا ہے اور الشیخ النوری نے النجم الثاقب میں بھی اسی طرح کا بیان نقل کیا ہے یعنی ان تمام شخصیات کا تذکرہ ان دونوں کتابوں میں موجود ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بقاءکا مسئلہ
لمبا زمانہ گزر جانے کے باوجود حضرت امام مہدی علیہ السلام کا موجود ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور نہ ہی یہ کوئی ان ہونا امر ہے۔کیونکہ یہ بات اللہ کی قدرت سے باہر نہیں اور کسی بھی وجہ سے ایسا ہو سکتاہے اور وہ سبب ابلیس کی بقاءسے زیادہ برا تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جس کی بقاءمیں عالمین کے لئے گمراہی ہے مگر یہ کہ جنہیں اللہ تعالیٰ بچالے۔
اس کے علاوہ روایات و اخبار نے بیان کر دیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے غیب ہونے کی مصلحت ہدایت مطلقہ ہے اور یہ کہ ظلم اور تاریکیوں کا بالکل ختم کیا جا سکے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بقاءپر دلیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت الیاسعلیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی بقاءاولیاءاللہ سے ہے اور اللہ کے دشمنوں میں ابلیس اور دجال کی بقاءہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”(
وَاِن مِّن اَهلِ الکِتَابِ اِلَّا لِیُو مِنَنَّ بِه قَبلَ مَوتِه
)
“(النساءآیت ۹۵۱)
ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ اہل کتاب ان کی موت سے پہلے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے)ان پر ایمان لے آئیں گے اور ابھی تک سب اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے پس ضروری ہے کہ ایسا آخری زمانہ میں ہو۔
ابونعیم الطبری اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام(السیع) زندہ اور باقی ہیں اور یہ کہ دونوں اللہ کی زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔(البیان الکنجی الشافعی ۹۴۱ ، الباب الخامس والعشرون، الطبری سے دلائل النبوة ج ۲ ص ۹۴۵ ، الفضل ص ۳ طبع ہند، دکن، الفردوس ج ۲ ص ۲۰۲ حدیث ۰۰۳ ، طبع دارالکتب العلمیہ اور ص ۰۲۳ حدیث ۲۲۸۲ ، المطالب العالیہ ج ۳ ص ۸۷۲ ص ۴۷۴۳)
الزمحشری نے لکھا ہے: انبیاءسے چار زندہ ہیں دو آسمانوں پر ہیں ،عیسیٰ علیہ السلام اور ادریس علیہ السلام دو زمین پر ہیں الیاس علیہ السلام اور خضر علیہ السلام (ربیع الابرار ج ۱ ص ۷۹۳ ، مشارق الانوار ص ۱۲ فصل نمبر ۳ باب ۱)
اشعار اس بارے ملاحظہ ہوں۔
منظوم کلام، آئمہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام عقیدت
والمرتضی قول الحیاة فکم له
حجج تجل الدهر عن احصائ
خضر و الیاس بارض مثل ما
عیسیٰ و ادریس بقوا بسمائ
هذا جواب ابن السیوطی
یرجومن الرحمن خیر جزائ
ابونعیم نے عامر بن الفھر اور العلاءبن الحضرمی کے بارے بیان کیا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی مانند انہیں آسمان پر ااٹھا لیا گیاہے۔( ۲)
بہرحال دجال کی بقاءکا مسئلہ تو اس پر سب کا اتفاق ہے اور اس بارے بہت ساری روایات موجود ہیں۔( ۳)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ الایر میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کنوئیں میں موجود ہے۔( ۴)
ابلیس کی بقاءپر تو قرآن کی نص ہے ”(
وَقَالَ اَنظِرنِی اِلیٰ یَو مِ یُبعَثُونَ قَالَ: اِنَّکَ مِنَ المُنظَرِینَ
)
“(الاعراف ۵۱)
یاجوج اور ماجوج کی بقاءبھی بعید از قیاس نہیں ہے۔( ۶)
مزید برآں جو کچھ انبیاءکی عمروں اور ان کی لمبی زندگی بارے بیان موجودہے۔( ۷) اس کے علاوہ بھی ہر زمانہ میں اس زمین پر لمبی عمر رکھنے والے لوگ موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں کبھی کبھار ان کا تذکرہ ہو جاتا ہے ان کی عمر ہی عام انسانوں کی عمر سے زیادہ اور لمبی ہوتی ہیں۔( ۸)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بقاءکے دلائل
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حجة الوداع کے موقع پر:
”ان الحمدلله نحمده ونستعینه
....“اس کے بعد پورا خطبہ ہے جس میں آپ نے فرمایا....کیا میں نے تمہیں یہ سب کچھ پہنچا دیا، اے اللہ تو گواہ رہنا! تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کی گردنوں کو نہ کاٹنا، بتحقیق میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر تم نے ان کو لے لیا اور ان سے مربوط رہے تو میرے بعد گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب ہے اور میرے اہل البیت علیہ السلام ہیں، اے اللہ تو گواہ رہنا! اور بتحقیق لطیف و خبیر نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں اکٹھے میرے پاس حوض پر آئیں گے پس تم ان دونوں پر تقدم نہ کرنا وگرنہ تم سب ہلاک ہو جاو گے اور نہ ہی ان کے حق میں کوتاہی کرنا کیونکہ ایسا کرنے سے بھی تم ہلاک ہو جاو گے اور تم ان کو کچھ تعلیم نہ دینا کیونکہ یہ دونوں تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔(مجمع الزوائد ج ۹ ص ۳۶۱،۴۶۱ ، البغیہ ج ۹ ص ۸۵۲ حدیث ۳۶۹۴۱) السیوطی نے اس روایت کو ابن اخطب سے اخراج کیا ہے(احیاءالمیت ص ۰۴۲) اور ایفاءنے المختارہ میں اور ابن عقدہ نے حذیفہ سے اسے روایت کیا ہے(ینابیع المودة ص ۷۳ طبع اسلامبول، ج ۱ ص ۱۴ طبع نجف، جواہرالعقدین باب رابع ص ۵۳۲)
ابونعیم اور ابن عقدہ نے ابوالطفیل سے نقل کیا ہے(ینابیع المودة ص ۷۳ طبع اسلامبول، ج ۱ ص ۱۴ طبع نجف، جواہرالعقدین باب رابع ص ۵۳۲) ابن عقدہ نے عامر بن ابی ضمرہ سے اور ام سلمہ سے، جابر سے، ابی رافع سے نقل کیا ہے(ینابیع المودة ص ۷۳ طبع اسلامبول، ج ۱ ص ۱۴ طبع نجف، جواہرالعقدین باب رابع ص ۵۳۲) ابرار نے اپنی مسند میں اور ابن عقدہ نے ام ھانی سے اسی کو امام زید نے علی سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس وقت رسول اللہ کی مرض شدید ہو گئی اورآپ کاحجرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا میرے پاس حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کو لے آو....ان دونوں کے لئے میرے بعد تکلیف ہو گی، پھر آپ نے فرمایا اے لوگو! آگاہ رہو میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب، اپنی سنت اور اپنی عترت اہل بیت علیہ السلام کو پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہوں جس نے اللہ کی کتاب کو ضائع کردیا تو اس نے میری سنت کو ضائع کر دیا اور جس نے میری سنت کو ضائع کر دیا تو اس نے میری عترت کو ضائع کر دیا آگاہ رہو کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میں ان سے حوض پر ملاقات کروں گا۔(مسندالامام زیدص ۶۳ باب فضل العلمائ)
اس کا اخراج ابن عقدہ نے جناب فاطمة الزہراءعلیہ السلام سے کیا ہے(ینابیع المودة ص ۰۴ طبع اسلامبول، ج ۱ ص ۴۴ طبع نجف)
اس حدیث کو حدیث الثقلین کہا جاتا ہے اور یہ حدیث مشہور احادیث سے ہے اور احادیث متواترہ سے ہے اسے بہت سارے حفاظ احادیث نے اپنی اپنی کتب میں روایت کیاہے(سابقہ حوالے کے علاوہ دیکھیں کنزالعمال ج ۱ ص ۶۸۱ ص ۰۵۹ اور ۳۵۹ ، ترجمة الامیرمن تاریخ دمشق ج ۲ ص ۶۳،۶۴ حدیث ۶۳۵،۷۴۵ ، الفصول المھمہ ص ۰۴ ، مصابیح السنہ ج ۴ ص ۵۸۱ حدیث ۰۰۸۴ ، المستدرک ج ۳ ص ۳۵ ، کتاب المغازی)
حدیث ثقلین کی امام مہدی علیہ السلام کی بقاءپر دلالت
المسعودی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ثقلین کا لغوی معنی تحریر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ طے شدہ امر ہے کہ قرآن مجید اور عترت طاہرہ دونوں دینی علوم کا مصداق و منبع ہیں اور شریعت کے نفائس کا خزانہ ہیں، شرعی رازوں کاخزینہ ہیں، شریعت کی باریکیوں کا مرکز ہیں اور اس سے شریعت کے دقیق نقطوں کا اخراج کرنے کا منبع ہیں، رسول اللہ نے ان دونوں پرثقلین کا لفظ بولا ہے(الرشفة الصادی رشفة ۸۲۱) ( مترجم: ثقل وزنی شئے،قیمتی شئے اہمیت والی چیز،قدرت شان والی چیزثقلین کا لفظ دونوں جہانوں پر بھی بولا گیا۔اس حدیث میں پہلا معنی مرادلیا گیا ہے۔اس معنی کو لغث میں بیان کیا گیا ہے۔رسول اللہ نے امت کو یہ راہنمائی دی اوراس پرتاکیدفرمائی اورانھیں شوق بھی دلایا کہ وہ ان دونوں سے علم حاصل کریں یہ دونوں ہدایت کا مرکز ہیں ۔انکی پیروی کریں اوران دونوں سے تمسک رکھیں۔
امام احمد کی حدیث میں آیا ہے ”الحمدالله الذی جعل فیناالحکمة اهل البیت علیه السلام
،،تمام حمداللہ کے لیے ہے کہ جس نے ہم اہل البیت میں حکمت ودانائی کو قراردیا ہے۔(فضائل الصحابہ لاحمدج ۲ ص ۴۵۶ حدیث ۳۱۱۱ ذخائرالعقبی صفحہ ۰۲،۰۸) اس کے بعدیہ حدیث بھی پڑھیں گے کہ اہل البیت علیہ السلام امت کے لیے امان ہیں۔(الصواعق المحرقہ میں ابن حجر کی گفتگو اس امر سے شباہت رکھتی ہے اس میں دیکھیں ص ۱۵۱ طبع مصر ص ۱۳۲،۲۳۲ طبع بیروت)
اس کے بعد المسعودی کہتاہے: اس سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ ایسی شخصیت اہل البیت علیہ السلام سے قیامت کی آمد تک موجود رہے گی جو اس بات کی اہلیت رکھتی ہو کہ اس سے تمسک کیا جائے اور اس سے ہدایت لی جائے اور وہ تاکید کرتا ہے کہ ان سے تمسک کیا جائے جس طرح قرآن کریم بھی اسی طرح ہے اسی لئے یہ دونوں امت کے لئے امان ہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔اگر یہ دونوں چلے گئے تو پھر زمین ہی نہ رہے گی۔
(جواہر العقدین ۵۴۲،۳۴۲،۷۵۲،۲۶۲ باب الرابع، ینابیع المودة ص ۳۷۲ طبع استمبول اور طبع النجف ص ۷۲۳ باب ۷۵)
الخوارزمی نے اللہ تعالیٰ کے قول کو لوامع الصادقین کے ضمن میں اس بات کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ ذات علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں(مناقب الخوارزمی ص ۰۸۲ ،حدیث ۳۷۲۱ فصل ۷۱)
جناب رفاعی، ابن حجر، الخفاجی جیسے معروف مورخین نے بھی اسی طرح کی بات انہی کتابوں میں لکھی ہے(دیکھیں المشروع الروی: ج ۱ ص ۰۲،۱۲ ۔ الصواعق ص ۱۵۱ طبع مصر ، طبع بیروت ص ۰۳۲،۱۳۲ ، آیت مودة کی تفسیر میں)
توفیق ابوعلم نے لکھا ہے اس حدیث کے مختلف اسناد کو بیان کرنے کے بعد یہ بات طبعی اور واضح ہے کہ کوئی اقدام جو دینی احکام کے مخالف ہو گا وہ کتاب سے جدائی تصور کیا جائے گا اور نبی پاک نے فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک اکٹھے حوض پر وارد ہوں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل بیت علیہ السلام سے کوئی عمل ایسا سرزد نہ ہو گا جودینی احکام کے مخالف ہو، اسی طرح یہ حدیث اہل البیت علیہ السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے اور یہ بڑی واضح اور روشن ہے۔(دیکھیں، الاعتصام ج ۳ ص ۴۵۱)
نبی اکرم نے اس حدیث کا متعدد جگہوں پر تکرار فرمایا ہے جس سے آپ یہ چاہتے تھے کہ امت انحراف سے بچی رہے اور صحیح راستہ پر قائم رہے عقائدی اور دینی احکام کے میدانوں میں منحرف نہ ہو۔ اسی لئے بار بار تاکید کی گئی کہ اگر تم قرآن اور اہل بیت علیہ السلام سے میرے بعد تمسک رکھو گے تو پھر تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔
اس کے بعد وہ لکھتاہے: اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ اہل البیت علیہ السلام سے ہر زمانہ میں کوئی فرد ضرور موجود رہے گااگر کوئی ایک زمانہ بھی اہل البیت علیہ السلام سے خالی ہو گیا تو اس کے نتیجہ میں اہل البیت علیہ السلام کی قرآن مجید سے جدائی ثابت ہو جائے گی جب کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں گے ساتھ ساتھ ہوں گے، قرآن مجید موجود ہے تو اہل البیت علیہ السلام کے فرد بھی جو قرآن کے ہم پلہ ہیں وہ بھی موجود ہیں دونوں نے اکٹھے حوض کوثر پر وارد ہونا ہے(اہل البیت علیہ السلام لتوفیق ص ۸۷،۹۷)
ابن ابی شیبہ نے زین بن حارث سے روایت بیان کی ہے ”انی تارک فیکم الثقلین من بعد کتاب الله وعترتی اهل بیتی وانهمالن یفترقا حتی یردا علی الحوض
“
بتحقیق میں تمہارے میں دو خلیفے چھوڑ کر جا رہا ہوں، اپنے بعد، اللہ کی کتاب ہے اور میری عترت اہل البیت علیہ السلام ہے اور یہ کہ دونوں ہرگزایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں اکٹھے میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔
(المصنف ج ۶ ص ۳۱۳ حدیث ۰۷۶۱۳ کتاب الفضائل باب مااعطی اللہ محمداور جواہرالعقدین ص ۶۳۲ الباب الرابع المعجم الکبیرج ۵ ص ۳۵۱ حدیث ۱۲۹۴ ، مسند احمد ج ۵ ص ۲۸۱ ، طبع مصر اور طبع بیروت ج ۶ ص ۲۳۲ حدیث ۸۶۰۱۲،۵۴۱۱۲)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اس حدیث کا معنی کیاہے؟”اور عترت سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا میں خود حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد سے آئمہ علیہ السلام کہ ان کا نواں مہدی علیہ السلام ہو گا یہ سب کتاب اللہ سے جدا نہیں ہوں گے اور کتاب اللہ ان سے جدا نہیں ہوگی یہاں تک کہ دونوں رسول اللہ کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔(النجم الثاقب ج ۱ ص ۹۰۵)
ان سب بیانات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی اکرم کا ہدف یہ تھا کہ آپ امت کو قرآن اور عترت کی فضیلت و عظمت ان کے واسطے بیان کر دیں اور یہ کہ امت ان کے اقوال کو لے ان سے دستورات حاصل کرے، اپنے تمام معاملات میں انہیں مقدم قرار دے، خاص کر الٰہی خلافت کے جو معاملات ہیں، اللہ کی زمین میں کہ خلافت الٰہی کے منصب کے لئے شرط یہ ہے کہ اس منصب پر ایسا شخص ہو جس سے غلطی نہ ہو، بھول چوک سے وہ مبرا ہو، تاکہ امت صحیح راستہ پر باقی رہے اور اسے استحکام ملے، رسول اللہ نے وضاحت کر دی کہ اس صفت کے حاملین فقط قرآن اور اہل بیت علیہ السلام ہیں اور یہ دونوں اکٹھے حجت ہیں ، معصوم ہیں، ہر زمانہ میں یہ دونوں ہوں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ حدیث جو صحیح ہے، متواتر ہے، مسلم ہے، اس کا معنی اور مفہوم صحیح نہیں بنتا مگر اس صورت میں جب ہم اس بات پر ایمان لے آئیں اور یقین کر لیں کہ قرآن کا ہم وزن اور ہم پلہ اس زمانہ میں بھی موجود ہے اور وہ عترت سے ہے اور وہی امام مہدی علیہ السلام ہیں قرآن مجید کی طرح معصوم ہیں اور غلطی سے پاک ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح باقی رہے گا۔ان دونوں کی ذمہ داری مشترکہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر دور میں اسلام کی حمایت کرنا، اسلام کی برتری کوثابت کرنا، اسلام کو تحریف سے محفوظ رکھنا اور وہ ذات سوائے امام مہدی علیہ السلام محمد بن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف علیہ وآلہ وآبائہ الاف التحیة والسلام کے کوئی اور نہیں ہے (مترجم:امام مہدی علیہ السلام کے موجود ہونے پر حدیث معرفت امام زمانہ علیہ السلام بھی دلالت کرتی ہے، حدیث متواتر سے ہے کہ آپ نے فرمایا بتحقیق جواس حالت میں مر جائے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا ہو تو وہ کفر کی موت مرا، یا ہر مسلمان پر ایک امام کی بیعت فرض ہے۔
اسی مضمون کی بہت ساری احادیث ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرے اس کی بیعت کا طوق اپنی گردن میں ڈالے ،اس کے پیچھے چلے، اس کی پیروی کرے یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ہر دور میں امت اپنے لئے امام کا انتخاب کرے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ امام کی معرفت حاصل کرے، معرفت اس کی حاصل کی جاتی ہے جو موجود ہو اور پھر امت کو اس کی پیروی کے لئے حکم دیا گیا ہے پیروی اس کی واجب ہو گی جو معصوم ہو۔
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آسانی سے آ جاتی ہے کہ اس دور میں بھی امام علیہ السلام موجود ہیں اور وہ معصوم ہیں ان کی معرفت ہر مسلمان پر واجب ہے اگر معرفت حاصل نہ کریں گے تو کفر کی موت مریں گے ۔یہ مفہوم اور معنی اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب اس بارے ایمان لائیں اور یقین کر لیں کہ اس دور کے امام حضرت امام مہدی علیہ السلام بن الحسن العسکری علیہ وعلی آبائہ الاف التحیة والسلام و عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں ، ان کی معرفت حاصل کرنا سب پر واجب ہے اور وہی صاحب الزمان علیہ السلام ہیں، حجت ہیں خلیفة اللہ ہیں، بقیة اللہ ہیں، صاحب العصر ہیں، ولی اللہ ہیں، خاتم الائمہ ہیں، خاتم الخلفاءہیں، سید ہیں۔حدیث معرفت امام، حدیث بیعت اولی الامر، تمام کتب احادیث میں موجود ہے۔مترجم
غیبت کیوں اور کس لئے؟
اس جگہ ایک سوال سامنے آتا ہے کہ امام علیہ السلام اپنے وقت سے پہلے خروج کیوں نہیں کریں گے؟ اور غیبت کا مقصد کیا ہے؟
ہم اس جگہ غیبت کے بارے عملی بحث نہیں چھیڑنا چاہتے بلکہ اس جگہ کچھ اور واقعات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر جواب دینا چاہتے ہیں ۔
غیبت کے جواز کے لئے چند امور پیش کئے جا سکتے ہیں۔
۱ ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت جس نے پورے عالم پر حکم چلانا ہے اس کے پورے کارندے اور اسے چلانے والی شخصیات کے مکمل ہو جانے کی خاطر غیبت اختیار کی گئی جو ابھی مردوں کی پشتوں میں موجود تھے جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے، مومنوں کی امانتیں کافر اقوام کی صلبوں میں موجود ہیں اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام ہرگز ظہور نہ فرمائیں گے مگر یہ کہ کافروں کی پشتوں میں اور ان کی صلبوں میں جتنے بھی مومنین ہیں وہ سب وجود میں آ جائیں۔ جب تک ایک مومن بھی کسی کافر کی پشت میں موجود ہے اس وقت تک امام تشریف نہ لائیں گے۔ اللہ کی امانتیں جو کافروں کی پشتوں میں رکھ دی گئی ہیں ان سب کا وجود میں آجاناضروری ہے پس جب یہ سب کافروں کی پشتوں سے نکل آئیں گے تو اس وقت آپ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور سارے کافروں کو قتل کر دیں گے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے، آپ کی آمد سے قبل سب پر حجت تمام ہو چکی ہو گی (کمال الدین ص ۱۴۶ ، بحارالانوار ج ۲۵ ص ۷۹ حدیث ۹۱ ۔ علل الشرائع ص ۷۴۱،۲۲۱ حدیث ۲)
اس کے لئے ایک لمبے زمانہ کی ضرورت ہے۔
۲ ۔ امت کی چھان پھٹک، انسان اپنی زندگی میں جتنی مشکلات اور پریشانیوں سے گزرتا ہے ان میں گذرکر ایمان پر قائم رہے، اس امت کو بہت ساری آزمائشوں سے گذرنا ہے یہ مصائب کی بھٹی میں کندن ہو کر نکلے اور اس میں یہ صلاحیت سامنے آ جائے کہ وہ عادلانہ حکومت کا استقبال کر سکتی ہے اور عادلانہ حکومت کے سربراہ کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو چکی ہے کیونکہ جب وہ آئیں گے تو انہیں عدل مطلق کو نافذ کرنا ہے جس کی مثال اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے امت کی تربیت، اس کی آزمائش، اس کی پرکھ ضروری ہے؟
حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں انہیں اس دھرتی پر اس طرح توڑا جائے گا جس طرح سونے کو توڑا جاتا ہے یعنی جیسے خالص سونے کو ناخالص سونے سے جدا کرنے کے لئے اسے آگ میں ڈالا جاتا ہے اسی طرح اس امت کے سامنے بھی کیا جائے گا تاکہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف پلٹ آئے۔
(مختصر البصائر ص ۸۲ ص ۳۳۱ ، البحارج ۳۵ ص ۴۴)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”(
یَومَ هُم عَلَی النَّارِ یُفتَنُونَ
)
“وہ ایسا دن ہو گا کہ انہیں آگ پر آزمایا جائے گا، آگ کی بھٹی میں ڈال کر ان کی آزمائش ہوگی، انہیں پرکھا جائے گا(الذاریات آیت ۳۱)
”(
اَحَسِبَ النَّاسُ اَن یُّترَ کُوا اَن یَّقُولُوا اَمَنَّا وَهُم لَا یُفتَنُو نَ
)
“ ”کیا لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ انہیں اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور پھر انہیں آزمائش میں نہیں ڈالاجائے گا۔(سورہ العنکبوت آیت ۲)
اس کے ضمن میں بیان ہوا ہے انہیں اس طرح صاف و شفاف کیا جائے گا جس طرح سونے کو صاف و شفاف و چمکیلا اور خالص بنایا جاتاہے....امام نے اس کے بعد مزید فرمایا انہیں اس طرح خالص کیا جائے گاجس طرح سونے کو ملاوٹ سے خالص کیاجاتاہے۔(غیبت نعمانی ص ۰۱۲ ،حدیث ۲)
پرکھنا،چیک کرنا،چھان پھٹک کرنا جس طرح ایک فرد کی ہو گی اسی طرح پوری امت کی بھی من حیث المجموع ہو گی؟ اور وہ کیسے ہوگی؟ امت کی تمحیص کا مطلب امت کی پرکھ نسل درنسل مختلف اداروں، دفتروں، سرکاری ذمہ داریوں اور حکومتی عہدوں، حکومتوں کی تشکیل میں شرکت اور اس میں کام کرنے اور اس کی حمایت یا عدم حمایت کرنے کے ذریعہ ہو گی تاکہ اس لمبی مدت میں جو نقائص سامنے آتے جائیں گے ان کے متبادل سامنے آتے جائیں گے اور نظام احسن اور اجمل اکمل کی طرف امت بڑھتی جائے گی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
۳ ۔ افکار کا کامل ہونا، ذہنی ارتقاءہونافکری ارتقاع حاصل ہوجانا، انسانی علوم کا اتنی ترقی کو پانا کہ وہ عادلانہ اور سائنسی و علمی بنیادوں پر قائم حکومت کی حقیقت کا ادراک کر سکیں اور یہ سائنسی اور علمی اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تبدیلی اور ترقی کرنے سے ہی ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ انہیں یہ ساری صلاحیتیں دے گا، ترقی کے اسباب ان لوگوں کے لئے مہیا ہوں گے، خفیہ رازوں سے پردے اٹھیں گے کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت میں رہنے والوں کے لئے آپ کی غیبت اس طرح ہو جائے گی جس طرح وہ لوگ ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے بعد میں ذکر ہوگا۔
۴ ۔ تمام سیاسی اور اجتماعی منصوبہ جات انسان کی مشکلات حل کرنے کے لئے آزما لئے جائیں، کوئی بھی پلان انسانی فکر اور سوچ میں باقی نہ رہ جائے کہ جس کے متعلق وہ انسان یہ کہہ سکے کہ اگر فلاں شکل یا نظام اپنایا جانا تھا تو انسانی مشکلات کو حل کیا جا سکتا تھا یہ اس لئے تاکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد پر ان کی قیادت بارے کسی کے لئے کوئی اعتراض باقی نہ رہے جیسا کہ حدیث میں اشارہ ملتا ہے۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں”ہماری حکومت آخری حکومت اپنی نوع کے لحاظ سے ہو گی کوئی بھی ایسا خاندان، قبیلہ، گھرانہ ، قوم و ملت اس روئے زمین پر نہ رہے گا مگر یہ کہ ان کی حکومت قائم ہو چکی ہو گی اور وہ سب ہمارے سے پہلے اپنے نظاموں کو اپنا چکے ہوں گے تاکہ جب وہ لوگ ہمارے نظام حکومت کو دیکھیں اور حکومتی معاملات میں ہماری روش کا مشاہدہ کریں تو وہ یہ نہ کہیں کہ اگر ہمیں حکومت ملی ہوتی تو ہم بھی ایسا ہی نظام اپناتے اور اس طرح حکومت چلاتے، یعنی جو بھی اس روئے زمین پر حکومت کر سکیں گے وہ ہم سے پہلے حکومت کر لیں گے ہماری حکومت سب کے لئے نئی ہو گی اور اس کی مثال پہلے موجود نہ ہو گی اور کوئی بھی اس قسم کے دعویٰ کرنے والا موجود نہ ہو گا کہ وہ یہ کہہ دے کہ ہمیں حکومت ملتی تو ہم بھی ایسا کرتے سارے اپنا اپنا دور پور کر چکے ہوں گے۔(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۲۳۲ ،حدیث ۸۵) اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔
امام حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے دیدار کا امکان
فرقہ امامیہ کے ہاں یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ امام غیب کو دیکھنا ممکن ہے غیبت صغریٰ میں تو اجماع ہے اور غیبت کبریٰ کے بارے بھی مشہور نظریہ یہی ہے۔
پہلا دیدار
بظاہر پہلا دیدار جو غیبت صغریٰ میں حاصل رہاوہ آپ کے چار سفراءرحمھم اللہ تھے اسی طرح کچھ اورافراد کو بھی یہ سعادت حاصل ہوتی رہی ۔
جب کہ دوسری قسم کا دیدار تو یہ کسی ایک فرد کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر شخص آپ سے ملاقات کر سکتا ہے لیکن یہ دیدار اورملاقات اس صورت میں حاصل ہو گی جب وہ ساری شرائط موجود ہوں جو امام غائب سے ملاقات کے لئے ضروری ہیں۔
امام غائب سے ملاقات اور آپ کے دیدار کی شرائط
پہلی شرط
آپ علیہ السلام کا دیدار کرنے والا شخص آپ علیہ السلام کے خاص موالیوں سے ہو جیسا حضرت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:”قائم کے لئے دو غیبتیں ہیں ایک دوسری سے مختصر اور چھوٹی ہو گی اور دوسری لمبی غیبت ہو گی، پہلی غیبت میں آپ علیہ السلام کی رہائش کے بارے کسی کو آگہی نہیں ہو گی مگر آپ علیہ السلام کے خاص شیعوں کو معلوم ہو گاکہ آپ کس جگہ رہائش پذیر ہیں جب کہ دوسری غیبت میں آپ علیہ السلام کے خاص موالیوں(موالیوں کا مقام و درجہ اس روایت کے مطابق آپ علیہ السلام کے خاص شیعوں سے زیادہ ہے اور موالیوں میں سے بھی سب سے زیادہ قرب والے افراد جو بہت ہی خاص ہوں گے ان کے لئے یہ سعادت حاصل ہو گی)کے سوا کوئی بھی آپ علیہ السلام کی رہائش سے آگاہ نہ ہوگا۔
(اصول الکافی ج ۱ ص ۰۴۳ حدیث ۹۱ ، باب الغیبة الغیبت نعمانی ص ۹۸)
دوسری شرط
کوئی مصلحت موجود ہو کہ جس کا حصول ملاقات کے بغیر ممکن نہ ہو، جیسے اسلام کی حیثیت خطرہ سے دوچار ہویاکوئی ایسا واقعہ درپیش ہو جس میں مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کا خطرہ ہو یا کوئی اور اہم مسئلہ ہو کہ جس کی حقیقت کو واضح کرنا اسلام کی حقانیت،حیثیت اور شان بچانے کے واسطے ضروری ہو۔
جب ہم ان لوگوں کے حالات پڑھتے ہیں کہ جنہوں نے امام غائب علیہ السلام سے ملاقات کی ہے تو اس سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی لوگوں کی زندگی بچانے کا مسئلہ درپیش ہوا جیسے بحرین کے شیعوں کا واقعہ ہے یا کوئی شرعی مسئلہ تھا یا اسی سطح کے کچھ اور امور تو اس میں امام علیہ السلام نے ملاقات فرمائی اور وہ اس خاص مصلحت کی خاطر جس کا حصول ضروری سمجھا گیاایسی ملاقات ہوئی۔
تیسری شرط
بعض لوگوں کی حاجت روائی کے حوالے سے ملاقات کا ہونا، کسی شخص کو اپنی ذات کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش رہا یا کسی اور کوکوئی مسئلہ درپیش تھا اور وہ شخص امام علیہ السلام سے اس کا حل چاہتا ہے کہ امام علیہ السلام سے ملاقات کے بغیر اس حاجت کے پورے ہونے کا امکان نہ ہو تو پھر دیدار ہوتا ہے اور ایسے واقعات بھی تاریخ کے اوراق میں موجودہیں۔
چوتھی شرط
غیبت کے زمانہ میں دیدار اور ملاقات کرنے والاشخص اس بات کا پابندہو کہ اس نے اس ملاقات کا اعلان نہیں کرنا نہ ہی اس واقعہ کو مشہور کرنا ہے، یہ بات اس تحریر سے ثابت ہوتی ہے جو امام علیہ السلام نے شیخ مفیدؒ کو لکھی ہے جس میں آپ علیہ السلام کا یہ فرمان موجود ہے”اس بات کو محفوظ کر لو اور کسی کو ہمارا یہ خط مت دکھاو جو ہم نے تحریر کیاہے جو کچھ اس خط میں موجود ہے اور جس کی ہم نے کسی ایک کے لئے ضمانت اس خط میں دی ہے“۔(الزام الناصب میں لفظ بمالہ کی جگہ بمافیہ ہے، دیکھیں بحارالانوار ج ۳۵ ص ۶۷)
(مترجم:اس شرط سے مراد یہ ہے کہ دیدار کرنے والا اپنی زندگی میں ایسا نہ کرے کیونکہ امام علیہ السلام نے اپنے آخری نائب کے ذریعہ تمام شیعوں کے لئے یہ حکم دے دیا ہے کہ میری غیبت کے زمانہ میں اگر کوئی شخص مشاہدہ اور دیدار کا دعویٰ کرے تو اس کو جھٹلا دو، اس طرح دعویٰ کرنے والے کی توہین ہو گی اگرچہ وہ سچ بول رہا ہوگا، دوسرا امراس قسم کے اعلان میں اور بہت ساری خرابیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے امام علیہ السلامنے منع فرما دیا البتہ اس شخصیت کی وفات کے بعد اس کی تحریروں سے اس واقعہ کا ثابت ہو جانا اس بات پر دلیل ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سے منع نہیں کیا)
ایک سوال: اس جگہ یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ شرط شیخ مفیدؒ کے زمانہ کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن یہ ہمارے زمانہ کے لئے شاید ایسا نہ ہو، ہمارے زمانہ میں یہ پوچھا جا سکتا ہے امام علیہ السلام کے خط کو دیکھنا یا اس خط سے کسی رائے کولینا خاص امورکے بارے میں تو اس بارے کیا مانع اور کون سی رکاوٹ ہے یہ درست ہے کہ شیخ مفیدؒ کے زمانہ کے بعد ان کے پاس جو خطوط آئے اس سے کسی رائے کو اخذ کرنا اور اس سے استفادہ تو اس میں مانع نہیں ہے۔
جی ہاں! یہ بات معین مصلحت کے مطابق ہو گی اور دقیق اہم خصوصیات کی روشنی میں جو زیارت کرنے والے کو حاصل ہیں ہر ایک کے لئے ایسا نہیں ہے۔
پانچویں شرط
علامہ طباطبائی نے شیخ مفیدؒ کے حالات زندگی میں جو کچھ لکھا ہے اس سے جو استفادہ ہوتا ہے۔ آپ نے شیخ مفیدؒ کے لئے جو توقیعات جاری فرمائی ہیں ان کو ذکر کرنے کے بعد علامہ کی بات سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ دیدار کرنے والاشخص جس وقت امام علیہ السلام سے ملاقات کر رہا ہوتا ہے تو اس حالت میں وہ اس ملاقات کا اعلان نہ کرے(البتہ ملاقات ختم ہو جانے کے بعداور امام علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد اگر اس ملاقات بارے بیان کرے تو اس سے ممانعت موجود نہیں ہے)
بعد والے صفحات میں ایسی روایات بیان ہوں گی کہ جن سے ان پانچ شرائط کو سمجھا جا سکتاہے۔ البتہ یہ پانچ شرائط علت تامہ کے عنوان سے نہیں ہیں اور نہ ہی اس لحاظ سے ہیں کہ یہ پانچ شرائط علت نامہ کے اجزاءہیں جب سارے پورے ہو جائیں تودیدار ہوجانا ہے اور یہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ کچھ ایسے معیار ہمارے پاس موجود ہوں کہ جن کی روشنی میں جو شخص امام علیہ السلام سے ملاقات کا دعویٰ کر رہا ہے اسے پرکھا جا سکے کیونکہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بے وزن اور بے حیثیت بات ہے کہ ہرایک جب چاہے اس قسم کا دعویٰ کر دے اگر ملاقات کا مسئلہ اتنا آسان اور مکمل ہوتا اور ہر ایک کی دسترس میں یہ بات ہوئی تو پھر غیبت کی حکمت ہی ختم ہو جاتی ہے بلکہ امام علیہ السلام کا دیدارایک لطف الٰہی ہے جس کسی کو یہ نصیب ہو اور یہ توآئینہ دل کی پاکیزگی اور ثقافیت کو سامنے رکھ کر تقویٰ کی منزلوں کو طے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندگان میں سے بھی جس پر اپنا لطف و کرم فرما دے اورپھر اس شخص کواپنے امام علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو جائے۔(مترجم۔۔اللهم ارزقنا رویته وزیارته و دعائه، اللهم ارنا الطلعة الرشیده والفرة الحمیده
)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دیدار واسطے شرعی ذرائع
جو شرائط زیارت اور دیدار کے لئے بیان کی ہیں ان کے علاوہ بعض ایسے وسائل اوراعمال اہل البیت علیہم السلام کی زیارت اور دیدار کے لئے آئمہ اہل البیت علیہم السلام سے وارد ہوئے ہیں کہ جو شخص ان اعمال کو باقاعدگی سے انجام دے تو اس کےلئے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا دیدار اور آپ کی زیارت ممکن ہو جائے گی اور باقی آئمہ علیہم السلام کی زیارت بھی ممکن ہو گی مزید استفادہ کے لئے ان وسائل اوراعمال کوبیان کرتے ہیں جن کے ذریعہ آئمہ اطہار علیہم السلام کے چلے جانے کے بعد یا ان کی غیبت کے زمانہ میںزیارت اورملاقات کا امکان حاصل ہو جاتا ہے ممکن ہو جاتاہے۔
پہلا طریقہ:
اہل البیت علیہم السلام کی زیارت کے لئے
یہ روایت ہے جسے شیخ مفیدؒ نے اپنی کتاب ”الاختصاص میں ابوالمصری کے ذریعہ سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت کیا ہے ۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے جس شخص کے لئے اللہ کی جناب میں کوئی حاجت ہو اور وہ ہمارا دیدار چاہتا ہو اور یہ کہ وہ اپنی جگہ اور مقام جاننا چاہے تو اس پر ہے کہ وہ مسلسل تین رات غسل کرے اور ہمارے وسیلہ سے مناجات کرے تو وہ ہمیں دیکھے گا، ہماری زیارت اسے ہو گی اور ہمارے وسیلہ سے اسے بخش دیا جائے گا اور اس پر اس کا مقام پوشیدہ نہ ہوگا۔(الاختصاص ص ۰۹)
دوسرا راستہ:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:جو شخص ہر فریضہ کے بعد حسب ذیل دعا کو باقاعدگی سے پڑھے گا تو وہ حضرت امام محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام کی زیارت سے شرفیاب ہوگا بیداری میں اور خواب میں بھی وہ دعا یہ ہے:
”بسم الله الرحمن الرحیم اللهم بلغ مولاناصاحب الزمان اینما کان وحیثما کان، من مشارق الارض و مغاربها سهلها و جبلها عنی وعن والدی واخوانی التحیة والسلام، عددخلق الله وزنة عرش الله و مااحصاه کتابه و احاط علمه، اللهم انی اجد فی صبیحة یومی هذا الیوم وما عشت فیه من ایام حیاتی، عهدا وعقدا و بیعة له فی عنقی، لا احول عنها ولا ازول، اللهم اجعلنی من انصاره والذابین عنه، والممتثلین لاوامره و نواهیه فی یامه، و من المستشهدین بین یدیه، اللهم ان حال بینی وبینه الموت الذی جعلته علی عبادک حتما مقضیا، فاخرجنی من قبری موتز راکفنی، شاهرا سیفی، مجرد اقناتی، دعوة الداعی فی الحاضر و البادی، اللهم ارنی الطلعة الرشیده، والغرة الحمیدة، واکحل بصری بننظرة الیه، وعجل فرجه، وسهل مخرجه، اللهم اشدد ازره وقوه ظهره، وطوّل عمره، اللهم اعمر به بلادک، واح ¸ به عبادک فانک قلت و قولک الحق ظهر الفساد فی البرو البحر بما کسبت ایدی الناس، فاظهر اللهم لناولیک، وابن بنت نبیک، المسمی باسم رسولک، صلواتک علیه وآله حتیٰ لا یظهر بشی من الباطل الامزّقه، ویحق الله الحق بکلماته و یحققه اللهم اکشف هذه اکفمه عن هذه الغمة بظهوره، انهم یرونه بعید او نراه قریباً وصلی الله علی محمدوآله
“۔(بحارالانوار ج ۶۸ ص ۱۶ ص ۹۶ ، ابن الباقی کی کتاب سے نقل کیا ہے، باب سائرہ مایستحب عقیب کل صلاة)
تیسرا طریقہ
اسے جنتة الواقعیہ میں شیخ ابراہیم الکفعمی نے نقل کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے اپنے اصحاب کی بعض کتابوں میں یہ پڑھا ہے کہ جو شخص انبیاءعلیہم السلام سے کسی ایک کو یا اپنے والدین کو نیند میں ملنا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ ”سورہ والشمس، القدر، الحجہ، الاخلاص، المعوذتین“ کو پڑھے اس کے بعد سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور محمد وآل محمد پر صلوات سو مرتبہ پڑھے۔وضو کی حالت میں دائیں جانب سو جائے تو وہ جسے چاہتا ہے اس کا دیدار کرے گا اللہ تعالیٰ اور ان سے جو بھی سوال کرنا چاہتا ہے ۔ بات چیت اور گفتگو بھی کر سکے گا اور سوالات کے جوابات بھی لے سکے گا۔
(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۹۲۳)
چوتھا طریقہ:
یہ وہی تیسرا طریقہ ہی ہے لیکن اس میں اضافہ یہ موجود ہے کہ اس عمل جواوپر بیان ہوا ہے سات رات انجام دے لیکن ان اعمال کو اس دعا کے بعد انجام دے گا، وہ دعا یہ ہے۔
”اللهم اتت الح ¸ الذی لا یوصف والایمان یعرف منه، منک بدئت الاشیاءوالیک تعود، فما اقبل منها کنت ملجاه ومنجاه، وما ادیر منها لم یکن له ملجا ولا منجاءمنک الاالیک، فاسالک، بسم الله الرحمن الرحیم و بحق حبیبک محمد و بحق علی خیرالوصیین علیهمالسلام و بحق فاطمه سیدة نساءالعالمین سلام الله علیها، و بحق الحسن علیه السلام و الحسین علیهما السلام اللذین جعلتهما سیداشباب اهل الجنة اجمعین، ان تصلی علی محمد وآله واهل بیته وان ترینی میتی
“(اس جگہ اپنے مرحوم کا تصور کرے جس سے ملاقات چاہتا ہے یا پھر میتی کی جگہ جس نبی کی یا امام کی زیارت چاہتا ہے اس کا نام لے مترجم)
اس دعا کو علی بن طاووس نے فلاح السائل میں یہ کہتے ہوئے نقل کیا ہے کہ جس وقت تم اپنے میت کی ملاقات کا ارادہ کرو تو باوضواور طہارت کے ساتھ سوو۔ اور اپنی دائیں جانب لیٹ جاو اور بی بی زہراءسلام اللہ علیہا کی تسبیح پڑھو۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۹۲۳)
پانچواں طریقہ:
شیخ الکفعمیؒ نے اپنی کتاب جنة الماوی میں بیان کیا ہے، سونے سے پہلے دعاءالمجیر کو سات دن مسلسل روزے رکھنے کے بعد ہر رات سات مرتبہ با طہارت ہو کر پڑھنے سے زیارت نصیب ہو گی۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۰۳۳)
چھٹا طریقہ:
روایت کی گئی ہے کہ جو شخص جمعہ کی شب، شام کی نماز پڑھنے کے بعد(با نماز تہجد کے بعد.... از مترجم)سورہ الکوثر کو ہزار مرتبہ پڑھے اور ہزار مرتبہ درود شریف پڑھ لے تو نیند کی حالت میں نبی اکرم کی زیارت کرے گا۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۱۳۳)
ساتواں طریقہ:
فلاح السائل میں ابن طاووس نے امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت نیند کی حالت میں کرنے کے لئے روایت کیا ہے، جب تم اس بات کا قصد کر لو تو سونے کے لئے آمادہ ہو جانے پر یہ پڑھو۔
”اللهم انی اسئلک یا من لطفه خف ¸، و ایادیه باسطة لا تنقضی، اسالک بلطفک الخفی، الذی ما لطفت به احدا الاکفی، ان ترینی مولا ¸ علی بن ابی طالب علیه السلام
“
آٹھواں طریقہ :
اسے مجمع الدعوات میں بیان کیا گیا ہے، جو شخص یہ چاہے کہ خواب میں نبی اکرم کی زیارت کرے تو وہ شب جمعہ نماز مغرب پڑھے اور اس کے بعد مسلسل درود کو ورد کرتا رہے یہاں تک کہ نماز عشاءکا وقت ہو جائے اور وہ نماز عشاءپڑھے اور کسی سے بات نہ کرے۔ پھر دو رکعت نماز ادا کرے، ہر رکعت میں سورہ الحمد ایک مرتبہ اورسورہ اخلاص تین مرتبہ پڑھے، جب نماز سے فارغ ہو جائے تو اٹھ جائے پھر دو رکعت نماز پڑھے ۔ان میں سورہ فاتحہ پڑھے ایک دفعہ اور سورہ قل ھواللہ احد سات مرتبہ پڑھے۔ سلام کے بعد سجدہ کرے اور سات مرتبہ درود شریف پڑھے اور یہ تسبیحات اربعہ کو پڑھے۔”سبحان الله والحمدلله ولا اله الا الله والله اکبر ولاحول ولاقوة الا بالله
“
ان کلمات کو سات مرتبہ پڑھے، پھر سجدہ سے سر اٹھا لے اور سیدھا بیٹھ جائے اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کرے اور پڑھے:
”یاحی یا قیوم یا ذوالجلال والاکرم یا اله الاولین والاخرین یا رحمان الدنیا والآخرة ورحیمها، یا رب یا رب
“
پھر کھڑا ہو جائے اور دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دے اور یہ دعا پڑھے:
یارب، یا رب، یا رب، یاعظیم الجلال، یا عظیم الجلال، یا عظیم الجلال، یا بدیع الکمال، یا کریم الفعال، یا کثیرالنوال، یا دائم الافضال ، یا کبیر یا متعال، یا اول بلامثال، یا قیوم بغیر زوال، یا واحد بلا انتقال، یا شدیدالمحال، یا رازق الخلائق علی کل حال، ارنی حبیبی و حبیبک محمد صلی الله علیه وآله وسلم فی منامی، یا ذوالجلال والاکرام
“
پھر اپنے بستر پر جا کر سو جائے قبلہ رخ ہو، دائیں پہلوسوئے، مسلسل درود شریف کا ورد جاری رکھے، یہاں تک کہ اسے نیند آ جائے۔
(بحارالانوار ج ۱۹ ، ص ۰۸۳ ، حدیث ۳ باب الصلاة و الدعاءعندالنوم)
نواںطریقہ:
بحار میں ہے(ج ۸۶ ص ۷۷ باب ۹۳ حدیث ۱۱) جنة الاماں سے نقل کیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص صبح اور ظہر کی نماز کے بعد یہ پڑھے”اللهم صل علی محمدوآل محمدو عجل فرجهم
“باقاعدگی کے ساتھ تو قائم آل علیہ السلام محمد کو پا کر مرے گا یعنی اسے زیارت نصیب ہو گی۔
دسواں طریقہ:
الشیخ الجلیل الحسن بن الفضل الطبرسیؒ نے روایت بیان کی ہے مکارم الاخلاق میں ہر فریضہ نماز کے بعد اس دعا کو پڑھے اور اس میں باقاعدگی کرے زندگی بھر کا ورد بنائے تو اسے صاحب الامر علیہ السلام کی زیارت نصیب ہو گی۔
اللهم صل علی محمدوآله محمد اللهم ان رسولک الصادق المصدق
....آخر تک دعا (مکارم الاخلاق ص ۹۴۱ )
گیارہواں طریقہ:
بحارالانوار ج ۶ ص ۱۶ باب ۸۳ ، حدیث ۹۶ ، از ادالمعاد ص ۳۸۴ میں بیان ہوا ہے اور کتابوں میں بھی آیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے انوار النعمانیہ کی روایت ہے۔
اسی دعا کوچالیس صبح پڑھا جائے تو وہ شخص حضرت قائم علیہ السلام کے انصار سے ہوگا اگر پہلے مرگیا تو اسے دوبارہ زندہ کیاجائے گا امام علیہ السلام کے ساتھ مل کر دشمنوں کے خلاف جہاد کرے گا۔
ہر کلمہ کے بدلے ایک ہزار نیکی درج ہو گی اور ایک ہزار گناہ معاف ہوں گی یہ دعا معروف دعا ہے اور دعائے عہد کے نام سے پڑھی جاتی ہے جو کہ مفاتیح الجنان میں حضرت امام زمان (عج)کے بارے زیارات اور دعاوں کے باب میں موجود ہے”یارب النور العظیم....“سے شروع ہوتی ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات آپ کے دیدار کی کیفیت کے حوالے سے تحقیقی بحث
یہ بات تو گذر چکی کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کادیدار ممکن ہے لیکن اس دیدار اور ملاقات کی کیفیت کیا ہو گی؟کیا یہ ملاقات نیند کی حالت میں ہو گی یا بیداری کی حالت میں یا دونوں حالتوں میں، دونوں صورتیں ممکن ہیں، پھر کیا یہ امر امام مہدی علیہ السلام اور باقی آئمہ علیہ السلام اور انبیاءکرام کے حوالے سے ایک ہی ہے یا اس میں فرق موجود ہے؟اس بارے کافی ساری صورتیں ہیں جن بارے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بارے تفصیلی بحث شروع کرنے سے پہلے دیدار کے متعلق بعض دلائل کا ذکر کرنا ضروری ہے اور یہ کہ ان سے کیا استفادہ ہوتاہے؟!
پہلی دلیل:
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دیدار اور آپ سے ملاقات کے حوالے سے جو دلیل ہے وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ فرمان ہے ”قائم علیہ السلام کے واسطے دو غیبتیں ہیں ایک غیبت چھوٹی اور مختصر ہے دوسری غیبت طولانی ،لمبی ہے پہلی غیبت میں آپکی رہائش کا علم نہ ہو گا مگر آپکے خاص شیعوں کو، اور دوسری غیبت میں آپکی رہائش اور ٹھہرنے کی جگہ کا علم نہیں ہو گامگر آپ کے خاص موالیوں کو(اصول الکافی ج ۱ ص ۴۳ حدیث ۹۱)
دوسری دلیل:
ابوبصیر کی روایت ہے کہ حضرت ابوعبداللہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا” اس امر کے صاحب کے لئے ایک غیبت ضروری ہے اور اس غیبت میں تنہائی کا ہونا بھی ضروری ہے، بہترین جگہ ان کے لئے طیبہ ہے(طیبہ سے مراد مدینہ ہے لیکن میں نے ایک روایت دیکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبہ امام صادق علیہ السلام کی ایک زمین(زرعی زمین) کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھی ہو سکتا ہے وہ جگہ مرادہو۔مترجم)(البصائر ۴۲۲۱ ، باب فی ان الامام یرای ملک الموت و جبرئیل)
اور تیس افراد میں رہنے سے کوئی وحشت اور پریشانی نہیں ۔
(اصول الکافی ج ۱ ص ۴۲ حدیث ۶۱ باب الغیبة)
آپ کے اس قول کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ تیس افراد کے ساتھ رہنے میں کوئی وحشت و ڈر نہیں تو اس سے مراد یہ لی جا سکتی ہے کہ تیس افراد آپ سے رابطہ میں ہوں گے کیونکہ لوگوں کی عمریں تو اتنی طولانی نہیں ہوں گی تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مختلف زمانوں میں سے ہر زمانہ میں آپ کے ساتھ تیس افراد سے ملاقات رہے گی اور تیس افراد آپ سے رابطہ میں ہوں گے۔
تیسری دلیل:
یہ روایت ہے جسے شیخ صدوقؒ نے اپنی کتاب کمال الدین میں اس جوان کے حوالے سے نقل کیا ہے جس نے کعبہ کے دروازے کے پاس امام علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔
امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
اے ابوالحسن! تم کیا چاہتے ہو؟
جوان کہتا ہے: اس امام کو چاہتا ہوں جو اس عالم میں محبوب ہے اور پردہ میں ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ تم سے محجوب نہیں ہے لیکن تمہارے اعمال نے انہیں تمہیں سے محجوب کر رکھا ہے اوروہ پردے کے پیچھے ہیں۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۱۲۳)
چوتھی دلیل:
جو شرعی اعمال اور ذرائع امام کی روایت اور دیدار واسطے بیان کیے گئے ہیں تو یہ سب آپ کی زیارت کے امکان پر دلالت کرتے ہیں اور ان کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
پانچویں دلیل:
علماءکرام کے آپ کی زیارت کے ممکن ہونے پر اقوال و بیانات ہیں۔ شیخ الطوسیؒ نے فرمایا ”ہم اس بات پر یقین نہیںرکھتے کہ آپ اپنے سارے اولیاءسے پردہ میں ہیں، بلکہ یہ بات درست ہے کہ آپ اپنے اولیاءمیں سے بہت ساروں کے واسطے ظاہر ہوںگے اور ہر شخص اس کو نہیں جان سکتا مگر ہر ایک کو خود اپنے بارے پتہ ہے۔
(کتاب غیبت ص ۵۷)
علامہ السید مرتضیٰ نے اپنی کتاب تنزیہ الانبیاءمیں فرمایا ہے: یہ بات ممتع نہیں ہے کہ امام علیہ السلام اپنے بعض اولیاءکے لئے ظاہر ہوں گے جس سے ملاقات کرنے میں وہ خوف اور ڈر موجود نہ ہو جس کی بناءپر غیبت اختیار کی گئی ہے اور اس ملاقات میں دین کے لئے کوئی خطرہ بھی نہ ہو اور نہ ہی آپ کی اپنی جان کواس سے کوئی خطرہ ہو۔
ابن طاووس نے اپنی کتاب ”کشف الحجة ، عن ثمرة المحجة“ میں لکھا ہے غیبت آئمہعلیہ السلام کے لئے دلیل اور حجت ہے اور آپ کے جو مخالفین ہیں ان پر آپ کی حقانیت پر بھی دلیل ہے اور آپ کی امامت کاعقیدہ نبوت پر دلیل ہے اور آپ کی غیبت کے صحیح ہونے پر بھی دلیل ہے، جب کہ آپ اللہ تعالیٰ عزوجل کی مشیت سے حاضر اور موجود ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ وہ تو غائب ہیں ان لوگوں سے جو ان کی غیبت کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ ایسے افراد رب العالمین کی پیروی اور اتباع کرنے سے خود غائب ہیں۔
آپ کی یہ گفتگوبہت ہی متین اور دقیق ہے اور بہت بڑی بات آپ نے کی ہے؟یہ بات حق اور سچ ہے اور بالکل درست ہے ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام غائب نہیں ہیں ولادت کے وقت سے لے کر اب تک وہ تو موجود ہیں ہم ان کی خصوصیات اور اور حضوری سے غائب ہیں۔ ہم غائب ہیں وہ تو موجود اور حاضر ہیں، ہمیں ہمارے برے اعمال نے ان سے غائب کیا ہے ہماری بری عادتوں نے ہمیں ان کی حضوری سے محروم رکھا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت اور رحمانیت والی رحمت کے صدقہ میں ہماری فریاد سن لے اور ہمیں اپنے سردار، امام، آقا، امام مہدی روحی و ارواح العالمین لہ الغداءعجل اللہ فرجہ الشریف، کی زیارت کا شرف عطا فرمائے۔
(مترجم....آپ ایک آئینہ فرض کریں، جو زنگ آلودہو اس کے سامنے آپ کھڑے ہوں تو اس میں آپ نظر نہیں آئیں، اگر اسپر گرد پڑی ہے تو پہلے اس گردکو آپ صاف کریں تب اس میں اپنا چہرہ دیکھ سکیں گے، اسی طرح ہمارے دل کا حال ہے دل آئینہ کی مانند ہے اور دل رحمان کا گھر ہے، دل رحمان کے نمائندوں کا گھرہے، دل اہل البیت علیہ السلام کے لئے ہے ان کے اغیار کے لئے نہیں ہے، لیکن اگر دل تزکیہ شدہ نہ ہو، صاف شفاف نہ ہو،تواس دل میں رب رحمان ملے گا نہ ہی اس کا نمائندہ صاحب الزمان ملے گا، ظاہری آنکھوں سے دیدار کا تعلق دل کی صفائی سے ہے، گناہوں کی وجہ سے جب انسان کا آئینہ دل کثیف اور زنگ آلود ہو جائے تو اس میں امام کا نورانی چہرہ نہیں دیکھا جا سکتا، امام تو حاضر اور موجود ہیں اور ہر وقت موجود ہیں، ان کے لئے کائنات کاعلمی احاطہ ہے اللہ تعالیٰ کے اذن و ارادہ سے پوری کائنات پر ان کا تسلط ہے اور احاطی علم بھی پوری کائنات پر ان کاہے۔ہمارے دل کی سکرین پر ان کی آمداس وقت ہو گی جب شرط پوری ہو گی دنیا کے کسی کونے میں ایک واقعہ ہوتا ہے تو وہ حالت اور واقعہ وہ فضاءمیں موجود ہے کیمروں کی آنکھوں نے اسے محفوظ بھی کر لیاہے۔
ممکن ہے میرے گھر سے ہزاروں میل دور کا فاصلہ ہو میں گھر میں بیٹھ کر ٹی وی کی سکرین پر اسے دیکھ سکتا ہوں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ میرے پاس ٹی وی موجود ہو، بجلی ہو، اس چینل کوکیچ کرنے والی ڈش موجود ہو پھر بٹن اور سوئچ آن کرنے کا طریقہ آتا ہو اور پھر سوئچ آن بھی کرے اور اس خاص نمبر پر لگائے تو وہ پورا واقعہ جو ہزاروں میل دور ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے اسی طرح امام جو مرکز و محور کائنات ہیں تو اللہ رب العالمین ان کے لئے غیب نہیں بلکہ اللہ ان کے لئے حاضر وموجود ہیں وہ جلی ہیں، روشن ہیں،تووہ پاکیزہ دل میں آتے ہیں،دل صاف کر لیں، ارادہ کر لیں اپنے اندر دیدار کی ساری شرائط پوری کر لیں تو پھر ہر آن زیارت اور ملاقات ہو سکتی ہے یہ امر نہ عجیب ہے اور نہ ہی ممنوع ہے شرعاً اس کے جواز پر دلائل موجود ہیں عقلی کوئی قباحت موجودنہیں۔ خرابی دیکھنے والے میں ہے جیسے وہ خرابی دور ہو گی اور جو بھی اس خرابی کو دور کر لے گا جو دیدار کے لئے رکاوٹ ہے تو پھر دیدارہوناممکن ہی نہیں بلکہ بالفعل ہو بھی جائے گ
اعتراض اور جواب
ان روایات اور اقوال اور بیانات کے بعد جو اوپر ذکر ہوئے ہیں ان بیانات کی حیثیت نہیں رہتی جو امام مہدی علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کے عدم جواز پر ہیں شاید ان سب دلائل میں سب سے اہم دلیل وہ بیان ہے جسے شیخ الطوسی نے اپنی کتاب غیبت میں اور علامہ الطبرسی نے اپنی کتاب احتجاج میں نقل کیا ہے کہ:
جو توقیع ناحیہ مقدسہ سے آپ کے آخری نائب جناب ابی الحسن السمری کے نام جاری ہوئی اس میں امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا”یا علی بن محمد السمری، یہ بات غور سے سن لو، کہ تیرے حوالے سے جو مصیبت تیرے بھائیوں پر آنے والی ہے اللہ تعالیٰ اس کا انہیں بڑا اجر عطا فرمائے، کیونکہ بتحقیق تم نے مرنا ہے چھ دن کے اندر اندر تیری موت واقع ہو گی۔
تم اپنے معاملے کو مخفی رکھو اور کسی کو وصیت نہ کرو جو تمہارا قائم مقام بنے کیونکہ اب سے مکمل غیبت شروع ہو گئی ہے اب ظہور نہیں ہو گا مگر اللہ تعالیٰ کے اذن ملنے کے بعد اور اس لمبی مدت گزرنے کے بعد دلوں کے سخت ہو جانے کے بعدعنقریب میرے شیعوں سے کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو یہ دعویٰ کریں گے کہ انہوں نے میرے ساتھ حضوری میں ملاقات کی ہے، تو آگاہ رہو جو شخص بھی سفیانی کے خروج سے پہلے اور آسمانی آواز آنے سے پہلے مشاہدہ اور حضوری ملاقات کا دعویٰ کرے تو وہ شخص بڑا جھوٹا ہے اور افتراءپرداز ہے۔”ولاحول ولاقوة الا بالله العلی العظیم
“
(غیبت شیخ طوسی ۷۵۲ ، کمال الدین ج ۲ ص ۲۹۱)
تبصرہ
یہ روایت میری کوتاہ علمی کے باوجود اس موضوع سے غیر متعلق ہے جس کی ہم اوپر بات کر آئے ہیں کیونکہ اس میں اس قسم کے دیدار اور ملاقات کی نفی کی جا رہی ہے جو غیبت صغریٰ میں بعض خاص شیعوں کے لئے حاصل رہی اور باقاعدگی سے نمائندگی کا ایک سلسلہ تھا اور اس شخص کا امام علیہ السلام سے رابطہ تھا اور لوگ اس کے ذریعہ اپنے مسائل امام علیہ السلام تک پہنچاتے اور ان کا جواب دیتے تھے کیونکہ اس تحریر کے ذریعہ اس خصوصی سفارت اور نیابت کا سلسلہ بند کیا جا رہا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ کچھ شیعوں سے ایسے لوگ ہوں گے جو اس قسم کا دعویٰ کریں گے کہ وہ امام علیہ السلام سے رابطہ میں ہیں اور خود کو امام کا نمائندہ خصوصی ظاہر کریں گے تو ایسے شخص کو جھٹلایا جائے وہ افتراءپرداز ہے کیونکہ اس کے بعد آپ کااس قسم کا رابطہ کسی سے نہ ہو گا خصوصی نمائندگی کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس بیان سے کسی بھی طرح امام علیہ السلام کی زیارت یا آپ کے دیدار کی غیبت کبریٰ میں نفی نہیں کی جا رہی اور نہ دور و نزدیک سے اس تحریر سے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ امام علیہ السلام کا دیدارناممکن ہے۔ جس دیدار اور زیارت کے امکان اور جواز کے بارے اوپر دلائل دیے گئے ہیں اوروہ بھی ٹھوس شرائط اور قواعد کی روشنی میں تو اس بیان میں اس بارے کوئی بات موجود نہیں ہے اس روایت شریفہ کے مضمون بارے دو احتمال موجود ہیں۔
پہلا احتمال
امام علیہ السلام اس قسم کی ملاقات کی نفی فرما رہے ہیں جو چار نائبین کو یکے بعد دیگر غیبت صغریٰ کے زمانہ میں حاصل رہی تو اس کی روشنی میں اس کا معنی اس طرح ہوگا۔اے ابوالحسن علی بن محمد سمری، تیرے بعد جو کوئی اس طرح کے مشاہدہ کا دعویٰ کرے جیسا کہ تجھے حاصل تھا تو ایسا شخص بڑا جھوٹا ہے اور افتراءپرداز ہے( ساتھ امام علیہ السلام نے یہ خبر بھی دے دی کہ شیعوں سے کچھ ایسا کریںگے)اس قسم کی ملاقات اور مشاہدہ کاوجودنہیں ہے۔
یہ ممنوع اور حرام ہے اس قسم کے مشاہدہ میں عمومی اور خصوصی احکام تھے جو شخص چاہتا تھا وہ اپنے امام علیہ السلام سے خط و کتابت کرتا تھا۔ امام علیہ السلام اسے جواب دیتے تھے اور وہ شخص جو درمیان میں واسطہ بنتا تھا لوگ اس کے بارے آگاہ تھے یہ معلوم تھا کہ امام علیہ السلام اپنے سفراءاورخصوصی نمائندگان سے ملاقات فرماتے تھے اور ان کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے میری جان اپنے امام پر فدا ہو جائے اس تحریر میںامام علیہ السلام اس قسم کی ملاقات کی نفی فرما رہے ہیں۔
یعنی کوئی بھی خصوصی نیابت اور سفارت کا دعویٰ کرے تو وہ بڑا جھوٹا ہے، افتراءپرداز ہے اس کی بات قبول نہ کی جائے لیکن امام علیہ السلام اپنے خالص اولیاءسے کسی بھی مصلحت یا دینی مقصد کی خاطر یا اس خاص ولی کے کسی اپنے مسئلہ کی خاطر آپ سے ملاقات کا شرف دیناتو اس کی نفی نہیں کی گئی البتہ اس کے لئے خاص شرائط ہیں جن کا ذکر کیا جا چکا، ایسے دیدار کی نفی نہیں کی گئی اسی لئے امام علیہ السلام نے اس روایت میں یہ بھی فرمایا کہ تم اپنے بعد کسی کے لئے وصیت نہ کرو جو آپ کا قائم مقام آپ کی وفات کے بعدہو، کیونکہ اب مکمل غیبت شروع ہو چکی ہے اب ظہور نہ ہو گا مگر اللہ تعالیٰ کے اذن سے، پس آپ ایسے شخص کی نفی فرما رہے ہیں جو آپ کے چوتھے نائب کے بعد ہو اور اس کی جگہ لے اور اسی طرح کا نمائندہ ہو اوراسی قسم کے کاموں کو انجام دے۔
دوسرا احتمال
امام علیہ السلام نے روایت اور زیارت کی جو نفی فرمائی ہے تو یہ ایسے مشاہدہ کی نفی کی ہے کہ جو مکمل ظہور کے وقت ہوتا ہے اس کا معنی یہ ہو گا کہ جب آسمانی آواز سے پہلے ظہور کا دعویٰ کر دے اور اعلان کر دے کہ میں نے امام علیہ السلام سے ملاقات کر لی ہے اور ظہور ہو گیا تو یہ شخص بڑا جھوٹا ہے۔
میری جان آپ علیہ السلام پر قربان جائے‘ آپ علیہ السلام اس ظہور کی نفی فرما رہے ہیں اس بات پر خود اس روایت میں جو بات موجود ہے وہی دلیل ہے آپ نے فرمایا ہے عنقریب کچھ لوگ آئیںگے جو مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے تو آگاہ رہو جو بھی مشاہدہ کا دعویٰ سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پہلے کرے تو وہ بڑا، جھوٹا اور افتراءپرداز ہے“۔
تو آپ اس طرح اس مشاہدہ کی نفی کر رہے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ آسمانی آواز سے پہلے یہ خبر دینا کہ ظہور ہو گیااور کہنے والا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے امام علیہ السلام کا مشاہدہ کیا ہے تو ایسا کہنے والا بڑا جھوٹا ہے اورافتراءپرداز ہے۔
اس بات پر دو قرینے موجود ہیں۔
پہلا قرینہ :۔ آپ علیہ السلام نے پہلے فرمایا ہے ”فلا ظہور“مکمل غیبت شروع ہو گئی ہے اب ظہور نہیں ہوگا آپ اپنے ظہور کی نفی کے بعد فرما رہے ہیں کہ کچھ لوگ میرے شیعوں سے ایسے آئیں گے جو مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے ظاہر ہے کہ اس مشاہدہ سے آپ کے ظہور کی اطلاع دینے والا مشاہدہ مراد لے رہے ہیں، پھر آگے فرماتے ہیں ایسی خبر دینے والا بڑا جھوٹا ہے ، افتراءپرداز ہے کیونکہ سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پہلے مشاہدہ کا دعویٰ غلط ہے یہ دونوں حتمی علامات سے بھی ان علامات کے بعد ظہور ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس جگہ مشاہدہ سے مراد وہ روایت اوردیدار نہیں جسے ہم بیان کر رہے ہیں اورجس کو ثابت کرنے کے درپے ہیں بلکہ یہ ایسا مشاہدہ ہے جو ظہور امام علیہ السلام کے ساتھ منسلک ہے۔
خاص موالیوں کے لئے امام علیہ السلام کی ملاقات
لیکن آپ کا دیدار خاص موالیوں کے لئے ہونا شرعی ضوابط کے تحت تو آپ اس کی نفی نہیں فرما رہے، ان دونوں احتمالات سے جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام ایسے مشاہدہ کی نفی کر رہے ہیں جو ظہور سے ملا ہوا ہے۔ آپ اس دیدار کی نفی نہیں فرما رہے جو ظہور کے دعویٰ سے خالی ہو، یا ایسا مشاہدہ جس میں امام کے ظہور کی خبر نہ ہو، تو ان دو حالتوں میں فرق بڑا واضح ہے ایسا مشاہدہ جو ظہور کے مساوی ہے اور ایسا دیدار اورزیارت جس میں ظہور کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ ہماری جانب سے دومفاہیم کے درمیانی خلط ملط کر دیا گیاہے اور اگر روایت اس روئت اور دیدار کی نفی میں ہے کہ جسے ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں تو سابقہ بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس روایت کے ظاہر کو لے کر اور جو کچھ دعاوں اور شرعی اعمال سے ملتا ہے تو پھر ہم کو اس روایت کی تاویل اور توجیہ کرتا ہوگی کیونکہ اس روایت سے اس مفہوم کو اسی طرح سابقہ روایات جو معصومین علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نہیں لے سکتے یعنی اگر ہم اس روایت کے ظاہری معنی کو اس طرح لیں کہ غیبت کے دوران امام علیہ السلام کے دیدار اور ملاقات اور زیارت کی بالکل نفی کر دی ہے تو اس کے مقابلہ میں وہ بہت ساری روایات اور عقلی دلائل اور مشاہداتی بیانات ہیں جو ملاقات اور دیدار کو ثابت کر رہے ہیں تو پھر ہمیں اس روایت کے ظاہری معنی کی توجیہ پیش کرنا ہو گی ، ایسی توجیہ جو باقی روایات کے مفہوم و مضمون سے نہ ٹکرائے۔
تو ہم اس کی توجیہ میں چند امور اس جگہ بیان کرتے ہیں تاکہ اگر اس روایت سے عام دیدار اور روایت کی نفی مراد لیں تو سابقہ روایات کو بھی سامنے رکھیں تو پھر اس کی توجیہ حسب ذیل کی جائے گی۔
پہلی توجیہ:۔ جس ملاقات اور دیدار کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ زیارت سے مشرف ہونے والا شخص اس کی شہرت کرے اور لوگوں میں جا کر بیان کرے اس بات کو امام علیہ السلام کی ایسے شخص پر لعنت بھیجنے سے اخذ کی جا سکتی ہے کیونکہ اس وجہ سے لوگوں میں انتشار اور پریشانی پھیل جائے گی اور وہ حکمت منتفی ہو جائے گی جس کی بنا پر امام علیہ السلام غائب ہو گئے اسی لئے امام علیہ السلام نے ملاقات اور دیدار کا دعویٰ کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
دوسری توجیہ:۔ اس روایت سے امام علیہ السلام کی ذات کا مشاہدہ مراد ہودیکھنے والا امام علیہ السلام کے نور کو دیکھ سکتا ہے امام علیہ السلام کی آواز کو سن سکتا ہے اس کی نفی روایت سے نہیں سمجھی جا سکتی۔
تیسری توجیہ:۔ اس روایت و دیدار کی نفی جو بیداری کی حالت میں ہو لیکن روایت اس دیدار کی نفی نہیں کرتی جو نیند کی حالت میں ہو یہ وجہ اس بنا پر ہے کہ دونوں روایتوں اور دیداروں میں فرق ہے امام علیہ السلام اور اہل البیت علیہم السلام سے خواب کی حالت میں ملاقات اور ہے اور بیداری کے عالم میں ملاقات اور ہے اس کی تفصیل بعد میں آئے گی۔
چوتھی توجیہ:۔ جسے علامہ مجلسی نے بیان کیا ہے کہ جس دیدار کی نفی کی گئی ہے وہ ایسا دیدار جس میں امام علیہ السلام کی نمائندگی اور نیابت کا عنوان شامل ہو۔
پانچویں توجیہ:۔ علامہ طباطبائی نے شیخ مفید کے حالات زندگی میں بیان کیا ہے کہ دیدار اور زیارت کے دوران امام علیہ السلام کو پہچان لینااور ان سے امام علیہ السلام سمجھ کر ملاقات کرنا تو اس قسم کے مشاہدہ کی نفی کی گئی ہے۔ ملاقات ہو جانے کے بعدآثار اور قرائن سے یہ جان لینا کہ جن سے شرف ملاقات ہورہے تھے اور جنہوں نے میرے مسائل حل کئے یا مجھے ہدایات دیں وہ تو میرے امام زمانہ(عج)تھے تویہ ٹھیک ہے۔
چھٹی توجیہ:۔ ایسی ملاقات کہ جس میں امام علیہ السلام کے حالات بارے آگہی ہو جائے اور اس کی رہائش کا پتہ چل جائے تو ایسی ملاقات کی نفی کی گئی ہے ایسی ملاقات کا دعویٰ کرنے والالعنتی ہے اورجھوٹاہے۔
ملاقات کے احتمالات کا جائزہ
ہم نے بیان کیا ہے کہ دیدار اور ملاقات کے بارے چند احتمالات دیئے جا سکتے ہیں۔
۱ ۔ کہ امامعلیہ السلام کا دیدار جو ہے خواب کی حالت میں ہو بیداری کی حالت میں نہ ہو
۲ ۔ مقامات کی مناسبت سے امام علیہ السلام کا دیدار اور آپ علیہ السلام کی ملاقات بیداری اور نیند دونوں حالتوں میں ہو، یہ تینوں احتمالات اس صورت میں ہیں جب خواب کی حالت میں ہونے والی ملاقات بیداری میں ہونے والی ملاقات سے مختلف ہو، لیکن اگر دونوں ایک ہی ہوں مفہوم میں یا مصداق میں تو پھر یہ احتمالات درست نہیں ہیں۔
جی ہاں!حضرت امام مہدی علیہ السلام اور باقی آئمہ علیہم السلام کی زیارت اور روئت کے درمیان فرق موجود ہے یہ اس صورت میں ہے کہ ہم ان احادیث کو صحیح تسلیم کریں جن میں بیان ہوا ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام نے فرمایا ”وہ شخص جھوٹا ہے جو غیبت کبریٰ کے زمانے میں یہ دعویٰ کرے کہ اس نے ہم سے ملاقات کی اورہمارا دیدار کیا ہے“ اور اسی طرح اس مضمون کی احادیث کو بھی صحیح قرار دیا جائے جن میں ہے کہ جس نے خواب میں ہمیں دیکھا تو اس نے ہمیں ہی دیکھا کیونکہ شیطان ہماری صورت میں نہیں آ سکتا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت سے شرفیاب ہونا
جس وقت ہم سابقہ بیان شدہ روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کچھ روایات میں امام علیہ السلام کی زیارت کو بیداری کی حالت میں جائز قرار دے رہی ہیں جیسا کہ امام علیہ السلام سے ملاقات کے لئے دوسرے شرعی طریقہ میں بیان ہوا ہے ۔
مزیدبرآں کہ خواب کی حالت میں بھی زیارت کے بارے میں خود اسی حدیث میں بیان ہوا ہے اسی بنا پر حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات بیداری اور خواب دونوں حالت میں ہو سکتی ہے اس صورت میںہے جب ہم یہ کہیں کہ خواب اور بیداری میں زیارت اور ملاقات کرنے کا مفہوم اور معنی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
البتہ اس اعتبار سے کہ بیداری کی حالت میں شرف ملاقات اشرف اور افضل ہے تو بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ مقام اور منزلت کے اعتبار سے اور امام حجت سے قربت کے لحاظ سے دونوں حالتوں میں زیارت اور ملاقات کا جواز موجود ہے ۔
البتہ باقی اہل البیت علیہم السلام کی زیارت کے متعلق تو سابقہ روایات اس بارے خاموش ہیں ان سے یہ بات بالکل نہیں سمجھی جاتی کہ بیداری کی حالت میں ملاقات ہو گی سب روایات خواب کی حالت میں ملاقات کو بیان کر رہی ہیں۔
حضرت آئمہ اہل البیت علیہم السلام سے حالت خواب میں ملاقات کرنا
بہرحال یہ حدیث کہ جس کسی نے خواب میں ہمیں دیکھا تو اس نے ہمیں ہی دیکھا ہماری صورت میں شیطان نہیں آ سکتا تو اس حدیث بارے چند احتمالات ہیں:۔
پہلا احتمال:۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس نے ہمیں خواب میں دیکھا تو گویا اس نے حقیقت میں ہمیں ہی دیکھا ہے جیسا کہ کوئی بیداری کی حالت میں دیکھے، اس بناءپر یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ اہل البیت علیہم السلام کو بیداری کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے اور خواب کی حالت کو دیکھنے والے کے لئے بیداری کی طرح قراردیا جائے۔
دوسرا احتمال:۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ جس نے ہمیں نیند کی حالت میں دیکھا تو اس کی یہ نیندحقیقی ہے یہ خواب حقیقت پر مبنی ہوگا شیطانی وسوسہ یا خیال نہ ہوگا کیونکہ شیطان ہماری تصویر بن کر نہیں آ سکتا اس احتمال کی بنا پر اور جو حدیث کی ساخت اور انداز بیان سے بھی موافق ہے روایت اور زیارت جو ہے خواب کی صورت میں ہو گی ظاہری اور بیداری میں نہیں اور احادیث میں یہ ہے کہ جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے غیبت کبریٰ کے زمانہ میں ہمیں دیکھا ہے ، ہم سے ملاقات کی ہے ،تو اس نے جھوٹ بولاہے تو اس سے مراد بھی یہ ہے کہ جو یہ کہے کہ میں نے بیداری کی حالت میں آئمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک سے ملاقات کی ہے۔انہیں دیکھا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فقط حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دیدار کے ساتھ مختص ہو باقی آئمہ علیہم السلام کے لئے نہ ہو تو تاویل کی جو پہلے وجوہ بیان کی گئی ہیں ان سے رجوع کیا جائے گا اس پر نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت خواب کی حالت میں اور بیداری کی صورت میں، دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے البتہ باقی آئمہ اہل البیت علیہم السلام کی ملاقات اور زیارت خواب اور نیند میں ہو سکتی ہے بیداری میں نہیں۔
تیسرا احتمال :۔ اس سے مراد یہ ہوا کہ جو شخص ہمیں بیداری کے عالم میں دیکھے تو پھر اس نے خود ہم ہی کو دیکھا ہے کیونکہ شیطان ہماری شکل میں ظاہر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں تاویل کی صورت باقی نہیں رہتی بس امام علیہ السلام کے دیدار کا امکان نیند کی حالت میں بھی اور بیداری کی حالت میں بھی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔
چوتھا احتمال:۔ یہ مراد ہو کہ خواب میں جو دیکھا جائے گا اور نیند میں جو زیارت ہو گی تو وہ ایسے ہے جیسے بیداری کی حالت میں زیارت کی گئی ہویہ تشبیہ ہے بنابرایں آئمہ اطہار علیہم السلام کو دیکھنا یہ ڈھکوسلا نہیں اور نہ ہی ابلیسی خیالات ہیں اور نہ ہی ایسی تصاویر شیطان کی ہو سکتی ہیں کیونکہ شیطان کسی بھی حالت میں آئمہ اہل البیت علیہم السلام کی شکل نہیں اپنا سکتا یہ طے ہے لیکن اس صورت میں آئمہ علیہم السلام کا دیدار فقط نیند کی حالت ہی میں منحصر ہو گا بیداری میں نہیں لیکن اس نیند کی حالت کو بیداری کے قائمقام سمجھا جائے گا ۔
دیدار کی صورت میں امام علیہ السلامکے اوامر کی حیثیت
جس کسی نے ایک امام کو خواب میں دیکھا یا بیداری کی حالت میں دیکھا تو امام علیہ السلام نے اسے کوئی خاص کام کرنے کا حکم دیا تو اس حکم کی تعمیل کے حوالے سے کیا حکم ہے؟ تو اس بارے کچھ اس طرح کی تفصیل ہے:
اگر تو اس نے امام علیہ السلام کو بیداری اور ظاہر بظاہر دیکھا تو اس صورت میں واجب ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے تمام اوامر اور احکامات پر عمل کرے ۔اگر اس نے حضرت امام مہدی علیہ السلام یا ائمہ اہل البیت علیہ السلام سے کسی کو خواب کی حالت میں دیکھااور اس میں اسے حکم دیا گیا تو اگر امام علیہ السلام کسی کام کرنے کے بارے حکم فرمائیں یا کسی کام کے بارے میں کہیںنہیں کہ اسے کرنا تم پر واجب ہے تو اس صورت میں معاملہ آسان ہے۔
لیکن اگر امام علیہ السلام اسے کسی حرام کام کرنے کا حکم دیں تو اگر یہ حرام کام اس طرح کا ہو کہ امام علیہ السلام فرمائیں تم نماز نہ پڑھو تو اس صورت میں اصل امام سے ملاقات ہی مشکوک ہو جائے گی کیونکہ اس قسم کا حکم امام نہیں دے سکتے تو اس وقت اس خواب کو اس شخص کا اپنا خیال قرار دیا جائے گا اور یہ حقیقی دیدار نہ ہو گا اور اگر خواب میں کسی مسلمان انسان کے قتل کا حکم دیا گیا ہو تو جیسے کہ ہمارے زمانہ میں بعض معتمد افراد سے نقل ہوا ہے تو اس میں توقف اور احتیاط لازمی ہے لیکن سب سے بہتر بات اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب اس قسم کی صورت پیش آئے تو خواب دیکھنے والا شخص اس بارے میں باخبر افراد علماءعاملین سے رابطہ کرلے اور خود سے کچھ اقدام نہ کرے ۔
لوگوں کے حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے اسباب
بعض دفعہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ غیبت کے زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کا کیا معنی ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے کیونکہ غیبت کا معنی تو یہ ہے کہ وہ غائب ہیں اور نظر نہیں آتے جب غائب ہیں تو غیبت کے زمانہ میں ملاقات کیسی؟ اور یہ دیدار کیسا؟اور کس لئے؟
اس سوال کے جواب میں چند امور کو بالترتیب بیان کرتے ہیں جو غیبت کے زمانہ میں دیدار کا محور بن سکتے ہیں اور اس دیدار کے فوائد ہو سکتے ہیں اور یہ دیدار غیبت کے منافی بھی نہ ہوگا۔
۱ ۔ امام علیہ السلام کے وجود کا براہ راست اثبات کہ آپ زندہ موجود ہیں اور روزی لے
رہے ہیں۔
۲ ۔ امام علیہ السلام کے خروج کو یاد دلانا تاکہ لوگوں کو اس واسطے تیاری کرلیں۔
۳ ۔ حاجت مندوں کی حاجات کو پورا کرنا ان کے بیماروں کو شفاءدینا۔
۴ ۔ اپنے چاہنے والوں سے رابطہ برقرار رکھنااور ان کے استحکام کے لئے ایسا کرنا۔
۵ ۔ علماءکو خطا سے بچانا تاکہ امت کی صحیح راہنمائی ہو۔
۶ ۔ لوگوں کو مناجات، دعاوں اور اذکار کی تعلیم دینا۔
۷ ۔ دشمنوں کی سازشوں، ان کی مکاریوں کو طشت از بام کرنا، ان کی سیاسی
چالوں کا توڑ کرنا(جیسا کہ امام علیہ السام کے ان خطوط سے واضح ہوتا ہے جو آپ نے شیخ مفید کی طرف غیبت کبریٰ میں بھیجے.... (دیکھیں،تاریخ ما بعد الظہور ج ۲ ص ۱۴۱)
اس کتاب میں ایسے مطالب بیان ہوں گے جن سے ایسے امور کی مزید وضاحت ہو گی۔
(مترجم....جب ہم کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام غائب ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ اس طرح غائب ہیں کہ انہیں دیکھا نہ جا سکے، ان کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن دیکھنے والے انہیں پہچانتے نہیں ہیں اور امام علیہ السلام کو اس بات کا اذن نہیں ہوتا یا وہ خود مصلحت نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی پہچان کروائیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربارمیں موجود تھے ان کی قوم ظلم کی چکی میں پس رہی تھی وہ موسیٰ علیہ السلام کوفرعون کے دربار میں دیکھتے تھے وہ کوڑوں کی ضربوں کے نیچے چیختے چلاتے موسیعلیہ السلام کی آمد کی دعا بھی کرتے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام کو دیکھنے کے باوجود نہ پہچانتے تھے موسیٰ علیہ السلام کو اس کی اجازت نہ تھی اور موسیٰ علیہ السلام نے اس زمانہ میں کچھ علماءسے ملاقات بھی کی اور انہیں اپنی آمد کے لئے خصوصی دعا کرنے کا حکم دیا اس طرح محتاجوں کی مدد بھی کرتے تھے اور بازار میں اپنی قوم کے آدمی کو فرعونی کے شر سے بھی بچایا لیکن خدا کے اذن ملنے تک وہ ایسی حالت میں رہے اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کا مصر میں اپنے سگے بھائیوں سے معاملہ تھا وہ سب یوسف علیہ السلام سے بات کر رہے تھے معاملہ کر رہے تھے مدد لے رہے تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خود ہی یوسف علیہ السلام ہیں اور ان کے بھائی ہیں۔ لیکن جب یوسف علیہ السلام نے اپنی پہچان کروا دی تو پھر حیرانگی سے وہ سب بول اٹھے تو اچھا آپ علیہ السلام ہی یقینی طور پر یوسف علیہ السلام ہیں؟(دیکھیں سورہ قصص ، سورہ یوسف)
امام زمانہ علیہ السلام کا معاملہ بھی اسی طرح ہے مصنف جس دیدار کی بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا امام علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں اپنے موالیوں کو شیعوں کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں بیداری کی حالت میں یا خواب کی حالت میں تو مصنف نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ جی ہاں! بالکل شرف ملاقات ہوتا ہے کیونکہ ملاقات آپ کی غیبت کے تب منافی ہو جب اس کا علان عام ہو اور پھر ملاقات کرنے والے کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ اس کا چرچا کرے یا ملاقات کرنے والے شخص کو آپ کے اصلی ٹھکانا اور رہائش بارے علم ہوتو ایسی کوئی بات نہیں ہے اب یہ ملاقات کس لئے ہو گی؟ امام علیہ السلام کیوں ملیںگے؟ تو اس بارے سات پوائنٹ اور نقاط بیان کیے گئے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام اللہ کے اذن سے کسی مصلحت اور فائدہ کے لئے اپنے خاص موالیوں کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں یہ فوائد بعض شخصی ہوتے ہیں اور بعض اجتماعی ہوتے ہیںبعض دفعہ دین کی بقاءکا معاملہ درپیش ہوتا ہے اور بعض دفعہ اپنے خاص موالیوں کے اطمینان قلب واسطے ایسا ہوتا ہے بہرحال ملاقات کا امکان بھی ہے اورآپ اپنے خاص موالیوں سے ملتے بھی ہیں اور یہ غیبت کبریٰ کے طولانی زمانوں میں ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے لیکن وہ خواص کون ہیں؟ان کا علم نہیں ہے، وہ بھی ان ہی عوام میں چھپے ہوئے ہیں اور وہی امام علیہ السلام کے کارندے بھی ہیں اور امام علیہ السلام کی خاص عنایات انہیں حاصل ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے خاص موالیوں سے محبت کرنے والا بنائے اور ان کی پہچان کی توفیق دے اور ہمیں بھی ان کے ذریعہ یہ توفیق ملے کہ ہم بھی اپنے امام علیہ السلام کے قدموں کے نشانات کا بوسہ لے سکیں اور ان کے قدموں کی مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرما بنا سکیں
”اللهم ارنی الطلعة الرشیدة والعزة الحمیدة لنکحل ناظرنا برویته
“