تیسری فصل
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہماری ذمہ داری اور آپ علیہ السلام کی حکومت بارے ہمارا موقف
ابتدائیہ:ضروری بات
سب سے اہم بات جو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہمارے ساتھ مربوط ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی معرفت ہونی چاہئے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے سلسلہ میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے آپ علیہ السلام کی حکومت کے قیام بارے، آپ علیہ السلام کے ذریعہ جو فتوحات ہوں گی اس بارے،حکومت کے قیام کے لئے مقدمات فراہم کرنا، آپ علیہ السلام کے خروج و قیام کی تعجیل کے واسطے کام کرنے کے حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟
ان سوالات کے جواب کی ہماری سرگرمیوںکے واسطے بہت ہی تاثیر ہوگی۔
یہ فصل ان سوالات کا جواب کسی حد تک ضرور دے گی، جب کہ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ جس طرح ان امور کے بارے جواب ہونا چاہیئے اسے میں پیش نہ کر سکا، لیکن اس مقولہ کے پیش نظر کہ اگرپورا مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو تو جو کچھ حاصل ہو رہا ہے اسے تو نہ چھوڑا جائے، ہم نے یہ سطور قلمبند کر دی ہیں اس کے علاوہ یہ بات بھی یہاں پر کرنا ضروری ہے کہ اس سے پہلے کسی نے اس بارے بحث نہیں کی تاکہ اس سے استفادہ کیا جاتا۔
اگر بحث میں وارد ہونے کی نیت سوائے اس کے کہ قاری اس تحریر سے کچھ باتیں اخذ کر سکے یا کچھ مطالب اسے مل سکیںکچھ اور نہیں ہے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ بہت سارے مصنفین جو امام مہدی علیہ السلام کے بارے مقالات، کتابیں تحریر کرتے ہیں وہ ان موضوعات کو چھوڑ دیتے ہیں یا پھر کچھ اور موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں جن کی اہمیت کمتر ہے بلکہ بعض ایسے مطالب بیان کیے جاتے ہیں کہ جن کا بیان کرنا ظہور کی تحریک کے معاملات کے لئے نقصان دہ بھی ہے، جیسے ان ظہور کی تفصیلی یا اجمالی علامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے یا ظہور کی شرائط کو بیان کیا جاتا ہے ان امور کے بیان کرنے کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے انسان ان سے متاثر نہیں ہوتا سوائے چند امور کے جنہیں ہم آٹھویں فصل میں بیان کریں گے۔
وہ معاملہ جو تیاری سے مربوط ہے ہم اسے اس جگہ بیان کریں گے اسی طرح حضرت قائم علیہ السلام کے بعض اصحاب پربھی روشنی ڈالنے کا قصہ جیسے خراسانی اور یمانی“ اللہ ان دونوں کی حفاظت فرمائے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے فتوحات کوجلدلے آئے۔کے حوالے سے تفصیلات میں جانا یہ بھی زیادہ مفید نہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا امر ہے جس سے کوئی عملی فائدہ نہیں ہے مگر یہ کہ اس شخصیت سے ایک قسم کاجذباتی لگاو پیدا ہوجاتا ہے جن کے بارے یہ کہا جائے کہ یہی خراسانی اور یمانی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں پھر بعض قائدین اور رہبروں کے لئے ان ناموں کا دے دینا اس میں چند خرابیاں ہیں، نقصانات ہیں جیسے:
۱: ۔ یہ تعین کرنا کہ عصر ظہور میں ہماری ذمہ داری اور شرعی تکلیف کیا ہے اور مجھے اب کیا کرنا ہے تو اس قسم کے بیان میں نہ تو آگے بڑھاجا سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے رہا جا سکتا ہے جب تک خراسانی اور یمانی خود اس امر کی اپنی جانب دعوت نہ دیںاور خود یہ اعلان نہ کردیں۔
۲: ۔ جن کوہم خراسانی یا یمانی کا نام دیں گے ان کی زندگی کے لئے بھی خطرہ ہو گا کیونکہ منکرین اپنی پوری قوت کو اس پر جھونک دیں گی کہ ہر وہ ہستی جس نے مستضعفین کو منکرین سے نجات دلانی ہے اس کی آمد میں رکاوٹ ڈالی جائے اور جو بھی ان کے عنوان سے سامنے آئے گا تواس کا خاتمہ کردیا جائے گاخاص کر اگر بعض تجزیے سچے ہوں کہ منکریں آخری جنگ چھیڑنے کی تیاری کر رہے ہیں یا جسے وہ ہرمجدون(اس بارے ہماری دوسری کتاب کا مطالعہ کریں....مترجم)کی لڑائی قرار دے رہے ہیں، وہ اس میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیںاس لحاظ سے بعض موجودہ اسلامی قائدین کی جانب یہ اشارہ دینا کہ وہ خراسانی ہے یا یمانی ہے یا ....شعیب بن صالح ہے تو اس میں منکرین کو ان کے خلاف جنگ بھڑکانے اوران کے خلاف مخالفین کواکسانے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔
۳: ۔ بعض شخصیات کو اس قسم کے القاب دینے سے موجودہ زمانہ میں بعض دوسری شخصیات کے تحفظات ہوں گے اگرچہ وہ منکرین سے نہ بھی ہوں، نسلی ، مذہبی، قومی، خاندانی قبائلی جیسے عناصر درمیان آجائیں گے خاص کر یہ ایک ایسا امر ہے جس کا عملی فائدہ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ جس وحدت اور یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہے اس کو اس قسم کے بیانات سے دھچکا ضرور لگے گا۔
اس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام جو کہ بشریت کےلئے نجات دہندہ ہیں، ان کے حوالے سے سوچ اور نظریہ کو نقصان ہوگا ہم اس بارے بعد میں کچھ بیان کریں گے۔
۴: ۔ پھر بعض شخصیات کو معین کر دینا کہ وہ ہی امام مہدی علیہ السلام کے خواص ہیں اور ان کے نائبین ہیں خود ان شخصیات کے لئے نقصان دہ ہے ان کے وجود کی نفی کرنا ہو گی اور اگر یہ بات خدا نہ کرے سچ نہ ہوئی جیسا کہ سابقہ ادوار میں ہوتا رہا ہے کہ جب کچھ لوگ کسی خاص شخصیت سے محبت کر رہے تھے کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کے خواص ہیں یا جو لوگ امام خمینیؒ کے حوالے سے یہ عقیدہ بنا بیٹھے تھے کہ آپ ہی پرچم اسلام کو امام مہدی علیہ السلام کے سپرد کریں گے پھر ایسا نہ ہوا جس پرآپ کی وفات کے بعد کچھ نے ان خیالات پر حاشیہ چڑھایا، کچھ کا ایمان کمزور ہوا اور کچھ نے اس نظریہ کا مذاق اڑایا۔
اسی طرح آج اگر ایک اور شخصیت کے واسطے اسی قسم کی بات مشہور کر دی جائے کہ وہ اس پرچم کو امام زمانہ علیہ السلام کے سپرد کریں گے تو پہلی بات جو ہے کہ اس سے بعض لوگ ذاتی مفاد اٹھائیں گے اور بعض شک کریں گے دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کی شخصیت کا انکار کر دیا جائے گا ، اگر یہ نام اور عنوان سچ نہ ہوا اس طرح سے نظریہ مہدویت کے لئے یہ اقدام نقصان دہ ہوگا۔
۵: ۔ سابقہ بات میں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے بعض شخصیات جو امام مہدی علیہ السلام کی منتظر تھیں اور ان کے بارے خیال تھا کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی آمد تک زندہ رہیں گے جب یہ خیال جھوٹا ہو گیا، غلط ثابت ہوا، تو پھر اس سے مہدویت کا نظریہ بھی مشکوک ہو جائے گا اوراس سے بعض مفاد پرست اپنے مذموم ارادے پورے کریں گے اور اس بات کو اپنے باطل نظریات کی تقویت کاذریعہ بنائیں گے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مومن انسان پر لازم ہے کہ وہ اس بات پر پوری توجہ دے کہ اس کی شرعی تکلیف کیا ہے، جذباتی کیفیات، اندرونی احساسات اور بعض شخصیات سے انس اور محبت ،ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی اسلامی خدمات کے حوالے سے جذبات کے اظہار جیسے امور کو ایک طرف رکھ دیا جائے اپنی جانب سے اس قسم کے خیالات کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں امام مہدی علیہ السلام کے خاص ہیں اور فلاں خراسانی ہیں یا یمانی ہیں تاکہ وہ وقت آجائے جس کا انتظار ہے۔
خاص کر ان آخری ایام میں(یہ کتاب ۸۲۴۱ ہجری میں لکھی گئی اور حزب اللہ کی اسرائیل پر فتح حاصل کرنے کے بعد تحریر کی گئی ہے، اس کامیابی کے بعد بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے جس کی طرف مصنف کا اشارہ ہے....مترجم)
جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور فرسودہ خیالات کو عام کیا جا رہا ہے ، خواب سنائے جا رہے ہیں، امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں، امام العصر علیہ السلام کے اصحاب کے بارے میں، امام العصر علیہ السلام کے لشکر کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں یا جو یہ کہا جا رہا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کو چاند میں دیکھا گیا ہے یا ان کے نائبین کو دیکھا گیا ہے یا بعض تحریریں جو چھپ چکی ہیں جو واقعات کی بنیاد بتاتی جا رہی ہیں یا ان جیسے واقعات کی تائید کر رہی ہیں یہ یسا امر ہے جس سے عوام سے بہت سارے لوگ متاثر ہورہے ہیں اورمزیدانہیں ایسے حالات میں پہنچایاجارہاہے یا وہ اپنے اوپر کچھ ایسے حالات کو ٹھونس رہے ہیں کہ جن کی کوئی ضرورت نہ ہے۔
علاوہ ازیں اس قسم کے امور خود امام مہدی علیہ السلام کے مسئلہ کو مشکوک بنا رہے ہیں اور لوگوں کو امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری سے بھی روک رہے ہیں اس مبارک حکومت کے واسطے جو ضروری کام کرنے ہیں وہ اس طرح ادھورے رہ جائیں گے اور یہ بہت ہی نقصان دہ ہے، ہم اس جگہ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو بیان کریں گے جو ہماری دانست میں ہے کہ ایک فرد کی کیا ذمہ داری ہے؟ ایک معاشرہ کی کیا ذمہ داری ہے اور ایک حکومت کی کیا ذمہ داری ہے، یہ ذمہ داریاں دو طرح کی ہیں۔
۱: ۔ وہ ذمہ داریاں ہیں جو آپ علیہ السلام کی غیبت کے دورانیے سے متعلق ہیں اور آپ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کی ہے۔
۲: ۔ آپ علیہ السلام کے ظہور کے وقت ، آپ علیہ السلام کے قیام کے وقت جو ذمہ داریاں عائد ہوں گی یا اس کے بعد جو ذمہ داریاں آئیں گی۔
دوسرا مرحلہ ایسا نہیں کہ اس میں امام زمانہ علیہ السلام پر کوئی ذمہ داری لازم کی جا رہی ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کے قیام کے ساتھ ہی ساری ذمہ داریاں، فرائض اور واجبات ختم ہو جائیں، وہی فرض اور واجب ہو گا جس کا آپ علیہ السلام حکم دیں گے لیکن ان امور کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
روایات میںجو آیا ہے کہ جب حضرت کا ظہور مبارک ہو جائے تو اس وقت ہمیں کیا کرنا ہے اور ظہور کے بعد کیا کرنا ہے ان روایات میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت مومنین اپنے امام علیہ السلام کا دیدار کریں گے اور آپ علیہ السلام کی آواز کو سنیں گے تو اس وقت عوام کو کیاکرنا چاہئے؟ یہ سب روایات میں بیان ہوا ہے، اسے ہم یہاں پر ذکر کریں گے۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں
دعائے ندبہ میں یہ جملہ موجود ہے اے اللہ! ہماری مدد فرما کہ ہم ان کے حقوق جو ہمارے اوپر ہیں ان کوہم وہ پورا کریں اور ان کی اطاعت کرنے کے لئے پوری کوشش کریں اور ان کی نافرمانی سے دوری اختیارکریں۔
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حوالے سے کچھ حقوق ہیں کچھ ذمہ داریاں ہیں،فرائض ہیں کچھ آپ کی ذات کے حوالے سے اور کچھ آپ علیہ السلام کی حکومت کے حوالے سے، ان سب کو ادا کرنا ہمارے اوپرواجب ہے ہم ان میں سے کچھ کا تذکرہ ترتیب وار کررہے ہیں۔
پہلی ذمہ داری: حضرت امام مہدی علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا
یہ سب سے پہلی ذمہ داری ہے اور اہم واجبات سے ہے۔باقی تمام ذمہ داریاں اسی پہلی ذمہ داری پر مرتب ہوتی ہیں۔
جناب عثمان بن سعید العمری سے روایت ہے وہ کہتا ہے کہ:حضرت ابومحمد الحسن العسکری علیہ السلام سے سوال کیا گیا اور میں اس وقت آپ علیہ السلام کے پاس موجود تھا، سوال میںاس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ علیہ السلام کے آباءعلیہم السلام سے یہ حدیث بیان ہوئی ہے کہ:”اللہ کی زمین اللہ کی حجت(نمائندگی) سے خالی نہ ہوگی وہ حجت اللہ کی مخلوق پر ہوں گے اور یہ قیامت تک سلسلہ جاری رہے گااور اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کی معرفت اسے نہ ہو تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مر گیا“
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:
”یہ بات اسی طرح برحق اور صحیح ہے جس طرح اس روشن دن کاوجود“
سوال کیا گیایابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ علیہ السلام کے بعد حجت اور امام کون ہیں؟
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام: میرے بیٹے محمد علیہ السلام ہیں، وہ امام ہیں، وہ ہی میرے بعد حجت ہیں، جو اس امر اور اپنے اس امام کی معرفت کے بغیر مرا تو وہ شخص جاہلیت اور کفر کی موت مر گیا، البتہ ان کے لئے ایک ایسی غیبت ہے کہ جس میں جاہل لوگ حیران ہوں گے اور باطل پر چلنے والے لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور ان کی آمد کا وقت معین کرنے والے جھوٹے ہوں گے پھر وہ خروج فرمائیں گے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے سر پر سفید رنگ کے پرچم لہرا رہے ہیں اور وہ کوفہ کے اوپر نجف میں موجودہےں“۔
(کمال الدین ج ۲ ص ۹۰۴ ،باب ۸۳ ، ذیل ۹ ۔ الوسائل ج ۱۱ ص ۱۹۴ باب ۳۳ حدیث ۳۲)
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث مروی ہے آپ نے فرمایا:
”جس نے میری اولاد سے قائم کے وجود کا انکار کر دیا تو اس نے خود میرے وجود کا انکار کیا“۔(کمال الدین ج ۴ ص ۲۱۴ باب ۹۳ حدیث ۸۲)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے آباءعلیہم السلام سے نقل فرمایاہے:
”جو شخص رات کو اس حالت میں سو گیا کہ اسے اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہ تھی تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا“۔(غیبت نعمانی ص ۲۶ ، باب من بات لیلة)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے آباءعلیہ السلام سے اور انہوں نے رسول اللہ سے بیان کیا:
”جس شخص نے میری اولاد سے قائم علیہ السلام کا انکار ان کی غیبت کے زمانہ میں کر دیا تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا“(الکافی ج ۲ ص ۲۱۲ باب ۹۳ ،حدیث ۲۱)
حضرت ابوعبداللہ صادق علیہ السلام سے حدیث صحیح میں آیاہے
راوی: میں نے پوچھا کہ رسول اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہ رکھتا تو وہ کفر کی موت مرا۔ کیا یہ حدیث ہے؟۔
امام علیہ السلام: جی ہاں! ایسے ہی ہے۔
راوی: جاہلوں والی جاہلیت یا ایسی جاہلیت کہ جس میں وہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہیں رکھتا ہو۔
امام علیہ السلام: کفر و نفاق اورگمراہی کی جاہلیت(الکافی ج ۱ ص ۷۷۳ ، باب من مات خبر ۳)
(از مترجم....ان احادیث سے واضح ہو گیا ہے کہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کی جائے اور اس معرفت سے مراد آپ علیہ السلام کا نسب اور فضائل سے آگہی مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ جانتا ہو اور مانتا ہو کہ اس کے زمانہ کا امام علیہ السلام کون ہے؟ اوروہ کس کی رعیت ہے اور اس نے کس کی اطاعت کرنی ہے؟مزید تفصیل کے لئے مترجم کی کتاب”معرفت امام زمانہ علیہ السلام اور ہماری ذمہ داریاں“دیکھیں)
دوسری ذمہ داری: فقہاءاور مجتہدین سے مربوط رہنا
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت سے مربوط اور اس معرفت کا عملی نتیجہ یہ دوسری ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے پتہ ہو کہ اس کے زمانہ کے جو امام علیہ السلام ہیں جن کی اطاعت اس پر فرض ہے جن کی رضایت اسے اپنے سارے اعمال میں حاصل کرنا ہے، کیونکہ سارے عبادتی اعمال کی قبولیت ان کے ذریعہ ہونی ہے اور جب تک اس کی طرف سے اعمال پر مہر رضایت ثبت نہ ہوگی کوئی عمل بھی قبول نہ ہوگا تواس کے لئے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ میرے زمانہ کے امام علیہ السلام کے اوامر کیا ہیں؟ نواہی کیا ہے؟ میرا امام مجھ سے کیا چاہتاہے؟اور کیا نہیں چاہتا؟ اور منہج اہل البیت علیہم السلام سے تمسک یہی ہے اہل بیت علیہم السلام کے منہج اور طریقہ کو سوائے ان کے اور کوئی نہیں جانتا جو سب سے زیادہ اپنے زمانہ کے امام کے قریب ہوں اور وہ ہردور اور ہر زمانہ میں علماءاور فقہاءہیں جو خود کو گناہوں کی آلودگیوں سے بچا کر رکھتے ہیں، ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کو بیان کرتے ہیں جو اس میں مخلوق میں ایسے علماءاور فقہاءکے سواکون اور ہوسکتا ہے جو ان ذوات مقدسہ کے سب سے زیادہ قریب ہو؟ اسی بات کو امام زمانہ(عج) نے اپنی تحریر میں اس طرح بیان فرمایاہے۔
خبہرحال جو بھی نئے واقعات اور حالات پیش آئیں اور اس حوالے سے مسائل پیدا ہوں تو ان کے لئے حل معلوم کرنے کے واسطے ہماری حدیث بیان کرنے والوں کی طرف تم سب رجوع کرو کیونکہ وہ میری جانب سے تمہارے اوپرحجت ہیں تمہارے اوپر ان کی اطاعت فرض ہے اور میں خود ان پر حجت ہوں وہ میری اطاعت میں ہیں اور میں ان پراللہ کی حجت ہوں۔(کمال الدین ج ۲ ص ۴۸۴)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”علماءانبیاءعلیہ السلام کے خلفاءہیں“۔(مجمع الزوائد ج ۱ ص ۶۲۱ ، العفاوین الفقھیہ ج ۲ ص ۶۶۵)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”اللهم ارحم خلفائی
“ اے اللہ میرے خلفاءپر رحمت نازل فرما“۔
راوی: یا رسول اللہ آپ کے خلفاءکون ہیں؟
حضرت رسول اللہ:میرے خلفاءوہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے وہ میری حدیث اور میری سنت کو روایت کریں گے اور بیان میں ہے وہ ہیں جو میری سنت کو زندہ کریں گے اور میری سنت کو اللہ کے بندگان کے لئے تعلیم دیں گے۔(عیون اخبارالرضا ج ۲ ص ۷۳ ، من لایحضرہ الفقیہ ج ۴ ص ۲۰۳ ، امالی الصدوق ص ۷۴۲ حدیث ۶۶۲ ، معانی الاخبارص ۵۷۳ ،کنزالعمال ج ۱ ص ۱۳۲ ،حدیث ۷۶۱۹۲ ، المہود المجدیہ ص ۷۲)
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
”تمام معاملات کے انجام پانے کے مراکز اور احکام کو جاری کرنے کے ذرائع علماءباللہ ہیں، علماءہی نے یہ سب کچھ انجام دینا ہے، علماءہی تو ہیں جو اللہ کے حلال اور حرام پر امین ہیں اور تم ایسے لوگ ہو جنہوں نے علماءکے اس مرتبہ کو چھین لیا ہے جو کام علماءکا تھا وہ کام ان لوگوں سے تم نے لے لیا ہے اور تم عوام علماءسے محروم ہو گئے ہو، اس میں خود تمہارا قصور ہے کہ تم اپنے تفرقہ کی وجہ سے اس سے محروم ہو گئے ہو، حق کو تم نے چھوڑا ہے ،تم نے حق سے انحراف کیا ہے جس کے نتیجہ میں تمہاری باگ ڈور اور تمہاری زندگی کے معاملات غیر علماءنے سنبھال لئے ہیں۔
(تحف العقول ص ۸۲۲ ، مستدرک الوسائل ج ۷۱ ص ۶۱۳ ، حدیث ۴۵۴۱۲ ، البحار ج ۷۹ ص ۰۸)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”بہرحال ایسے فقہاءکہ جنہوں نے اپنے نفس کو بچا رکھا اپنے دین کی حفاظت کر رکھی ہو، اپنی خواہشات کے مخالف ہوں، اپنے مولا کے فرمان کی اطاعت کرنے والے ہوں تو عوام پر قرض ہے کہ وہ ایسے فقہاءکی تقلید کریں ان کی پیروی کریں“
(الاحتجاج ج ۲ ص ۳۶۲ ،وسائل الشیعہ ج ۸۱ ص ۵۹ حدیث ۸۳۳۳ ،البحارج ۲ ص ۸۸)
یہ فریضہ عوام کے لئے غیبت کے زمانہ سے مخصوص ہے جو بڑا ہی واضح ہے۔
(ازمترجم....ایک قانون ہے جس پر پوری انسانیت کے تمام کاروبار زندگی کا دارومدار ہے اور وہ قانون یہ ہے کہ جاہل عالم سے رجوع کرے یہ فطرت ہے، کبھی جاہل جاہل سے جا کر اپنا پرابلم حل نہیں کرائے گا، ایک ان پڑھ دیہاتی بھی جب کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے جب اسے کسی قسم کا مسئلہ اپنی کھیتی باڑی بارے، اپنے بچوں کی بیماری بارے، اپنے حیوانات کی بیماری بارے، اپنی زراعت کی بیماری بارے ہو تو وہ ایسے کے پاس جاتا ہے جو اس مشکل کو حل کرنے کی قابلیت رکھتا ہو، وہ ایسا کرنے کے لئے کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث کی تلاش میں نہیں نکلتا کہ وہ کہے کہ میں تو زراعت کے عالم کے پاس اپنا زرعی مسئلہ حل کرانے نہیں جاتا مجھے کوئی حدیث لا کر دکھاو کوئی قرآن کی آیت دکھاو جب وہ مریض ہوتا ہے تو اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے کسی حدیث کا سہارا نہیں لیتا، اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے کسی ان پڑھ سے مشورہ لینے کی بجائے اپنے علاقہ کے پڑھے لکھے آدمی کے پاس جانے کے لئے کبھی اس نے کسی قرآن کی آیت یاحدیث کا سہارا نہیں ڈھونڈا، کیونکہ فطرت الٰہی ہے کہ جاہل نے عالم سے رجوع کرنا ہے، اس قانون پر رہتے ہوئے ہر مسلمان کو، ہر صاحب ایمان کو، دین اسلام کے احکام جاننے کے لئے ان سے رجوع کرنا ہوتا ہے جو دین کے بارے آگاہ ہیں اور ان ہی کو علماءدین اور فقہاءکا نام دیا جاتا ہے اور جاہل کے عالم کے پاس جا کراپنی مشکل حل کرانے کا نام تقلید ہے۔
مقام افسوس ہے کہ ہمارے پاکستان میں عوام کو اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے دور کرنے کے لئے یہ فکر عام کر دی گئی ہے کہ ہمارے ہاں تقلید نہیں ہے، تقلید کے لئے قرآن کی آیت یاحدیث لاو اورسادہ عوام ان اجتہاد کے مخالفوں اور باطل خیالات میں پھنس کر خودکو اپنے زمانہ کے قفہاءو مجتہدین اورمراجع تقلید سے دور کر لیتے ہیں جو اس دور میں اسے اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے مربوط کرنے کا تنہا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ، علماءرسول اللہ کے خلفاءہیں، علماءدین پر امین ہیں، علماءآل محمد کے یتیموں(شیعوں) کو بھٹکنے سے بچانے والے ہیں، علماءاہل بیت علیہ السلام کی منہاج اور طریقہ کے نگہبان ہیں،ان سے جا کر اہل بیت علیہ السلام کے احکام وصول کرنا اور امام زمانہ علیہ السلام کے اوامر و نواہی کو ان سے جا کر معلوم کرنا ہے، یہ غیبت کے زمانہ کا اہم فریضہ ہے اور اس بارے فقہاءاور علماءسے رجوع کرنا اور ان کی تقلید کے بارے احادیث بھی نقل کر دی گئی ہیں جو ایک فطری حکم کی تاکید مزید کرنے کاسبب ہیں۔
لہٰذا مومنین کرام کو ٹھگ بازوں سے بچنا چاہیئے، دین کے سوداگروں کے چنگل میں نہیں پھنسنا چاہئے، امریکیوں کو یہ پتہ چل گیا ہے اور اس کی سی آئی اے کا سربراہ اپنی خودنوشت میں لکھتا ہے کہ شیعوں پر اگر غلبہ حاصل کرنا ہے تو انہیں فقہاءو مجتہدین کی تقلید سے برگشتہ کرنا ہو گا کیونکہ علماءاور فقہاءکی تقلید کا نظریہ انہیں ایک زندہ اور موجود امام علیہ السلام سے مربوط کردیتا ہے جس کی اطاعت وہ اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں....بہرحال جو بھی فقہاءسے تمسک اور ان سے مربوط رہنے اور ان کی تقلید کی مخالفت کرتا ہے وہ امام زمانہ(عج)کا مخالف ہے وہ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پرامریکی لابی سے ہے، یہودیوں کا ایجنٹ ہے اسے ان سے ہوشیار رہنے کی ضروت ہے....ازمترجم)
تیسری ذمہ داری:آپ علیہ السلام کے نام مبارک کے حوالے سے ذمہ داری
یہ بات آپ علیہ السلام کے زمانہ غیبت کے متعلق ہے لیکن جب آپ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو پھر اس بارے جو آپ علیہ السلام کے ارشادات ہوں گے اس پر عمل کیا جائے گا” کنزالخواطر“ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام سے یہ سوال کیا گیا کہ جب آپ کا نام ”قائم“لیا جاتا ہے تو اس وقت احترام کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے، ایسا کس لئے ہے؟
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: کیونکہ آپ علیہ السلام کے لئے ایک بہت لمبی غیبت ہے، آپ علیہ السلام اس قدر اپنے چاہنے والوں اور محبت کرنے والوں پر مہربان ہیں کہ جب بھی آپ علیہ السلام کے چاہنے والوں سے کوئی آپ علیہ السلام کا یہ نام لیتا ہے جس میں آپ علیہ السلام کی حکومت کا اشارہ ہے، آپ علیہ السلام کی غربت کوبیان کرتا ہے، آپ علیہ السلام کی تنہائی کا ذکر کرتاہے، آپ علیہ السلام کی تعظیم کے لئے ایک عبد، غلام اپنے آقا کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ جب ایک غلام اپنے آقا کو سامنے دیکھتا ہے تو فوراً اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے اسی طرح جب لفظ ”قائم“زبان پر جاری ہو تو احترام میں اپنے امام کی تعظیم بجالاتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور اللہ عزوجل سے یہ طلب کرے کہ وہ اس کے مولا علیہ السلام کے قیام کے وقت میں جلدی انتظام کر دے، وہ اسباب جلد پورے ہو جائیں جن کے پورے ہونے سے مولعلیہ السلام آجائیں گے“۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے:آپ علیہ السلام خراسان میں ایک مجلس میں تشریف فرما تھے جب آپ علیہ السلام کے سامنے لفظ ”قائم “بولا گیا تو آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ دیا اور فوراً کھڑے ہو گئے اور فرمایا”اللھم عجل فرجہ وسھل مخرجہ“اے اللہ! ان کے لئے جلد کشادگی فرما دے، ان کے خروج کو آسان کر دے، ان کی حکومت کا زمانہ جلد لے آ اورپھر آ پ نے ان کی حکومت کی خصوصیات کو آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا۔(الزام الناصب ج ۱ ص ۹۴۲)
محدث نوری نے اپنی کتاب ”نجم ثاقب “میں اس بارے جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے، مصنف نے عربی میں ترجمہ کیا ہے اور ہم عربی سے اردو میں دے رہے ہیں:امام زمانہ(عج)کو یاد کرنے کے وقت بالخصوص جب لفظ ”قائم“زبان پر آجائے، اس حالت میں قیام کرنا اور تعظیم کے لئے اٹھ کھڑا ہونا عرب،عجم، فارس، ہند، ترک،دیلم غرض دنیا کے ہرکونے میں بسنے والے شیعوں میں عام ہے اور ان کی سیرت کا حصہ ہے بلکہ اہل السنة والجماعة کے ہاں بھی یہ عمل رائج ہے۔
(النجم الثاقب ص ۵۰۶ باب ۹ فارسی نسخہ)(اعانة الطالبین ج ۳ ص ۴۱۳ ،السیرة الجلبیہ ج ۱ ص ۷۳۱)
جلیل القدر عالم جناب عبداللہ علامہ الجزائری مرحوم کے نواسے ہیں انہوں نے اس روش کو حضرت امام جعفر صادق علیہ اسللام سے روایت کیا ہے اور یہ کہ اہل سنت کے ہاں بھی ایسا رواج ہے۔
روایت نقل ہوئی ہے کہ”امام انسکی کے پاس ان کے زمانہ کے علماءکی ایک بڑی تعداد موجود تھی کسی نے ان اشعار کو پڑھا
قلیل لمدح المصطفی الخط الذهب....علی ورق من خط احسن من کتب
وان لفعن الاشراف عندسماعه....قیاما صقوقا اوجثیا علی الرکب
سارے یہ سن کر تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔(النجم الثاقب ص ۶۰۶)
(از مترجم....امام زمانہ (عج) سے عشق اور محبت کا اظہار اس میں ہے کہ جب بھی ان کا نام لیا جائے تو بڑے احترام سے لیا جائے، ان کے نام کے ساتھ جہاں ”علیہ السلام،علیہ الصلوة والسلام“بولا جائے وہاں پر دعائیہ جملے”اللهم عجل فرجه وسهل مخرجه
“ کہے جائیں اور احترام کے لئے کھڑا ہوا جائے یا کم از کم نام سنتے ہی ایسی حالت میں آ جائے کہ محسوس ہو کہ اس نے اپنے امام علیہ السلام کا احترام بجالایاہے)
آپ علیہ السلام کو قائم کیوں کہا جاتاہے؟
علل الشرائع میں ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا گیا:
یابن رسول اللہ!کیا آپ علیہ السلام سب قائمین بالحق ، حق کی خاطر قیام کرنے والے نہیں ہیں؟
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: جی ہاں!
راوی: تو پھر (امام مہدی علیہ السلام)کو فقط قائم کیوں کہا گیا ہے ، یہ نام ان سے کیوں مخصوص ہے؟
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام: جس وقت میرے جدحضرت امام حسین علیہ السلام قتل ہو گئے تو اللہ کے حضور فرشتے چیخے چلائے، بہت روئے اور عرض کی اے ہمارے اللہ!اے ہمارے سردار!کیا تیری ذات اس سے غافل تونہیں ہے کہ تیرے منتخب بندوں، تیرے منتخب بندوں کے فرزندوں اور تیری مخلوق میں جو بہترین ہیں انہیں قتل کر دیا گیاہے؟فرشتوں نے تعجب اور حیرانگی کے عالم میں روتے ہوئے، چیختے چلاتے ہوئے غمناک حالت میں یہ عرض داشت پیش کی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو وحی فرمائی جس میں یہ ارشاد فرمایا:
”میرے فرشتو!آرام کرو، مجھے میری عزت کی قسم ہے، مجھے اپنے جلال کی قسم ہے، میں ان سب(قاتلوں) سے ضرور بالضرورانتقام لوں گا، اگرچہ یہ انتقام کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو،پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے اولاد سے آئمہ علیہ السلام کا فرشتو کو مشاہدہ کرایا پس فرشتے یہ دیکھ کر خوش ہو گئے کہ ان میں ایک قائم تھے جو نماز پڑھ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس قائم کے ذریعہ ان سب سے انتقام لوں گا۔(علل الشرائع ص ۰۶۱ ، باب العلمہ علی امیرالمومنین علیہ السلام باب ۸۴۱ حدیث ۱)
چوتھی ذمہ داری: امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت اور مدد کرنا
یہ مدد اس وقت پہنچانا ہو گی جس وقت آپ علیہ السلام قیام فرمائیں گے اور آپ علیہ السلام کے ظہور کا اعلان ہو جائے گا اس وقت ہر ایک پرواجب ہو گا کہ وہ امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہے جہاں ہو، جس حال میں ہو، جو وقت ہو ۔
روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آسمان سے نداءدیں گے اور سب لوگوں کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مدد کرنے کی دعوت دیں گے اور یہ کہ سب لوگ آپ علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوجائیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ آپ علیہ السلام کی نصرت اور مدد کرنے کاآغاز اس وقت ہو گا جس وقت آسمان سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی نداءکو سنا جائے گا۔ جیسا کہ روایات میں بیان ہوا ہے، آپ علیہ السلام کے جو موالی اور چاہنے والے ہیں ان سب پر آپ علیہ السلام کی نصرت کرنا شرعی طور پر واجب ہے اورآپ علیہ السلام کی عالمی اصلاحی تحریک میں جو حضرات قیادتی کردار ادا کریں ان پر یہ واجب تاکیدی ہے اور وہی آپ علیہ السلام کے خاص اصحاب ہوں گے۔
غیبت نعمانی ص ۴۳۱ ، علائم الظہور کے باب میں ہے کہ حضرت امام ابوجعفر محمدباقرعلیہ السلام سے روایت ہے:
”یہ خاص نداءماہ رمضان میں آئے گی، اس کے علاوہ کوئی دوسرا مہینہ نہ ہوگا رمضان جو کہ ”شہراللّٰہ “(اللہ کا مہینہ)ہے یہ آواز جبرئیل علیہ السلام کی ہوگی اور یہ نداءمخلوق خدا کے لئے ہو گی گویا یہ ایک قسم کا اعلان ہوگا“
پھر فرمایا:”آسمان سے آواز دینے والا قائم علیہ السلام کا نام لے کر اعلان کرے گا جسے اہل مشرق، اہل مغرب سب سنیں گے، کوئی سویا ہوا نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس آواز سے اٹھ جائے گا،کھڑا ہوا شخص یکدم بیٹھ جائے گا ،بیٹھا ہوا شخص خوف کے مارے کھڑا ہو جائے گا، پس اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے جو اس آواز کو معتبر قرار دے کر اس پر مثبت جواب دے، کیونکہ یہ آواز جبرئیل علیہ السلام امین کی آواز ہو گی“
پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا:”یہ آواز ۳۲ رمضان المبارک کو ہوگی اور وہ شب، شب جمعہ ہوگی اس آواز میں شک نہ کرنا، اس کی پیروی کرنا اس آواز پر لبیک کہنا، اس کو تسلیم کر لینا کیونکہ جس رات کے پچھلے حصہ میں جبرئیل امین علیہ السلام آواز دے گا اور حضرت قائم علیہ السلام کا نام بھی لے گا اور مخلوق کو ان کی اطاعت کرنے کاکہے گا تو اس سے اگلے دن ابلیس ملعون اعلان کرے گاجسے سب لوگ سنیں گے کہ فلاں شخص() مظلوم مارا گیا ہے اس کے لئے جمع ہو جاو تاکہ اس کے خون کا بدلہ لیا جائے اس طرح وہ انہیں گمراہ کرے گا“۔
جناب ابوبصیرحضرت ابوعبداللہ الصادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:
راوی: میں نے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاوں،قائم علیہ السلام کا خروج کب ہوگا؟
حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام:اے ابامحمد!ہم اہل بیت علیہ السلام اس وقت کو متعین نہیں کرتے،آپ نے فرمایا کہ وقت مقرر کر دینے والے جھوٹے ہیں، لیکن اے ابومحمد قائم کے خروج سے پہلے پانچ کام ہوں گے ۔
۱ ۔ ماہ رمضان میں آسمان سے نداءآئے گی۔
۲ ۔ سفیانی کاخروج ہوگا۔
۳ ۔ خراسانی کا خروج ہوگا۔
۴ ۔ نفس ذکیہ کاقتل ہوگا۔
۵ ۔ بیداءمیں زمین دھنس جائے گی۔
راوی: میں نے پوچھا کس طرح نداءآئے گی؟
امام علیہ السلام:حضرت قائم علیہ السلام کا نام اور آپ کے باپ کے نام کےساتھ لیا جائے گا اور اسی طرح اعلان ہوگا۔
فلاں کا فلاں بیٹا قائم آل محمد علیہم السلام ہیں، ان کی بات کو سنو اور ان کی اطاعت کرو، اللہ کی کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں بچے گی کہ جس میں روح ہے مگر یہ کہ وہ اس آواز کو سنے گی سویا ہوا اس آواز سے جاگ جائے گا اور اپنے گھر کے صحن میں دوڑ کر آ جائے گا اور پردہ والی عورت اپنے پردے سے باہر نکل آئے گی، قائم علیہ السلامیہ آواز سن کر خروج فرمائیں گے یہ آوازجبرئیل علیہ السلام کی ہوگی۔(بحارالانوارج ۲۵ ص ۹۱۱ ص ۸۴)
زرارة:میں نے حضرت امام ابوعبداللہ جعفرالصادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا آوازکا آسمان سے آنابرحق ہے؟
امام علیہ السلام: جی ہاں! خدا کی قسم!آواز کا آنا برحق ہے ہر قوم اپنی اپنی زبان میں اس آواز کو سن کر اس کے معنی کو سمجھے گی۔
عبداللہ بن سنان: میں حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام کے پاس موجود تھاکہ میں نے ہمدان کے ایک آدمی کی بات سنی کہ وہ امام کی خدمت میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ لوگ(ہمارے مخالفین) ہمیں طعنے دیتے ہیں اور ہمارے اوپراعتراض کرتے ہیں اور ہمارا مذاق اڑاتے ہیں کہ تمہارا خیال ہے کہ آسمان سے آواز آئے گی جوصاحب الامر علیہ السلام کے نام کی آوازدے گاوہ جبرئیل علیہ السلامامام علیہ السلام تکیہ کی ٹیک لگا کر بیٹھے تھے آپ یہ سن کر غضب ناک ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔
امام علیہ السلام: یہ حدیث مجھ سے روایت نہ کرو میرے باپ سے روایت کرنا، اس میں تمہارے اوپر کوئی مانع نہیں ہے، میں یہ گواہی دے کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنے باپ سے یہ بات اسی طرح سے سنی کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
خدا کی قسم! یہ آسمانی نداءوالی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں واضح بیان ہوئی ہے جہاں اللہ فرماتاہے ”(
فَظَلَّت اَعنَاقُهُم لَهَا خَاضِعِینَ
)
“(سورہ الشعراءآیت ۴)
اور اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایک ایسی نشانی اتاریں کہ جس کے آنے پر ان سب کی گردنیں اس نشانی کے سامنے جھک جائیں گی ، اس دن زمین پر کوئی بھی نہیں بچے گا مگر یہ کہ اس نشانی کے آگے جھک جائے گا، ان کی گردنیں اس آواز کے سامنے ذلیل نظر آئیں گی زمین والے جب آسمان سے نداءسنیں گے تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: جو لوگ ایمان لائے ہیں تو اللہ انہیں حق بات پر ثابت رکھے گا....اور جن کے دلوں میں بیماری ہے تو وہ اس دن شک میں پڑ جائیں گے اور دلوں کی بیماری خدا کی قسم! ہماری دشمنی کا عنوان ہے اس میں وہ لوگ ہم سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور صاحبان ایمان ہمارا دامن پکڑیں گے....
پھر ابوعبداللہ علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی”(
وَاِن یَّرَو ا آیَةً یُّعرِضُو ا وَیَقُو لُو ا سِحر مُّس تَمِرّ
)
(سورہ القمر آیت ۲)
اس ذمہ داری کی ادائیگی کا وقت امام علیہ السلام کا ظہور ہے ۔
پانچویں ذمہ داری: امام علیہ السلام کی بیعت کرنا
بیعت دو قسم کی ہے۔
( ۱) ایک بیعت غیبت کے زمانہ میں ہے اور وہ اس طرح ہے کہ ہر صبح آپ علیہ السلام سے تجدید بیعت کرنا ہے اور یہ عمل مستحبات سے ہے۔
( ۲) بیعت کبریٰ ہے اور یہ آپ علیہ السلام کے ظہور اور خروج کے وقت ہو گی جس شخص نے امام زمانہ(عج) کی بیعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی”(
اِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُو نَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰهُ یَدُواللّٰهِ فَوقَ اَیدِی هِم فَمَن نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنکُثُ عَلیٰ نَفسِه وَمَن اَو فیٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَیهُ اللّٰهَ فَسَیُئوتِیهِ اَجراً عَظِیماً
)
“(سورہ الفتح آیت ۰۱)
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے بیعت کرنے کی شرط یہ ہے کہ اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرنا کہ امام علیہ السلام کی خاطر ہر قیمتی سے قیمتی چیز کو قربانی دے گا اور اس عزیز ترین متاع کو امام علیہ السلام کے لئے دے دے گاامام علیہ السلام کی نصرت کے لئے اپنی کسی شئی کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اِنَّ اللّٰهَ اشتَریٰ مِنَ المُو مِنِینَ اَنفُسَهُم وَ اَموَالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ
“(سورہ التوبہ آیت ۱۱۱)
توطین النفس:۔ اپنے آپ کو آمادہ کرنا، دل سے ارادہ اور فیصلہ کر لینا کہ اپنے امام علیہ السلام کا ساتھ دینا ہے اور عملی میدان میں جو مولا چاہے اور جس کا حکم دیں اس کے مطابق اقدام کرنا ہے۔
باقی آئمہ علیہ السلام اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت سے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ بیعت دو حوالوں سے مختلف ہے۔
۱ ۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعوت کا اسلوب، طریقہ کار، آپ کے اہداف، آپ سے پہلے جو معصومین علیہم السلام گزرے ہیں ان سے مختلف ہوگا جیسا کہ بعد میں بیان ہوگاکیفیت اور انداز کا فرق ہوگا۔
۲ ۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی واقعیت اصلیت ہر شئی کی جس طرح ہو گی آپ اسی کے مطابق اس بارے حکم کریں گے ظاہری کیفیت اور حالت پر حکم جاری نہیں ہوگاہر فیصلہ حقیقت پر مبنی ہوگا اور ہر حکم باطن اور اصلیت کے مطابق ہوگا۔
یہ ایساامر ہوگا جسے بعض شیعہ برداشت نہ کر پائیں گے ، آپ علیہ السلام کے ظہور کے وقت ایسے مناظر دیکھنے میں آئیں گے کہ آپ علیہ السلام کے اقدامات کو دیکھ کر بعض ایسے افراد جو آپ علیہ السلام کے ساتھ ہوں گے یا آپ علیہ السلام کے شیعہ ہونے کا دم بھرتے رہے ہوں گے وہ آپ علیہ السلام کے اقدامات کو دیکھ کر کہہ دیں گے کہ ہمیں اولاد فاطمہ علیہم السلام کی ضرورت نہیں ہے۔چہ جائکہ وہ لوگ جو آپ کے ہمراہ نہ ہوں گے یہ بہت ہی سخت مرحلہ ہوگا۔
(بحارالانوارج ۲۵ ص ۸۳۳ حدیث ۱۸)
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے عجیب و غریب فیصلے
یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جب وہ لوگ آپ علیہ السلام کی عدالت کا مشاہدہ کریں گے اور یہ کہ آپ علیہ السلام حقائق اور اصل واقعات کے مطابق فیصلے دے رہے ہیں، ظاہری صورتحال سے مختلف فیصلے آپ علیہ السلام کے ہوں گے مثال کے طور پر جب ہم سے امام علیہ السلام یہ فرمائیں گے کہ جو زمین تمہارے اختیار میں ہے ان سب کو چھوڑ دو، ہمارے گھروں کو خالی کر دو جن میں تم رہائش پذیر ہو، تمہارے جوبینکوں میں سرمایہ پڑاہے اس سے تم فارغ ہو اور نہ کہ ہم اپنی توجیہ کا اعلان کریں کیونکہ یہ ساری کمائی غلط وراثت کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی یا ہمارے اجداد سے کسی نے مال غصب کیا تھا جو ہم تک آگیا وغیرہ توسوچیے کیا ہم آمادہ ہو جائیں گے اور فوراً امام علیہ السلام کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں گے اور دل میں کسی قسم کا فاسد خیال نہ لائیں گے۔
اگر ہمیں امام علیہ السلام یہ فرمائیں گے کہ یہ تمہاری بیوی درحقیقت تمہاری نہیں ہے تمہارا اس سے ازدواجی رشتہ حرام ہے یہ تمہاری رضاعی بہن بنتی ہے تو کیا ہم فوراً اس بیوی سے ہاتھ اٹھالیں گے اسے چھوڑ دیں گے(یا جب امام علیہ السلام یہ فرمائیں گے کہ تمہاری بیوی فلاں وجہ سے تمہارے اوپر حرام ہے فوراً اس سے الگ ہو جاو تو کیا ایسا بغیر کسی چون و چرا کے کریںگے)اسی اطاعت محض کو قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
”(
فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُو مِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِی مَا شَجَرَبَینَهُم ثُمَّ لَا یَجِدُو ا فِی اَنفُسِهِم حَرَجاً مِمَّا قَضَیتَ وَیُسَلِّمُوا تَسلِیماً
)
“(سورہ نساءآیت ۵۶)
عبرت کے لئے ایک حکایت
یہ بات بیان کی گئی ہے کہ گذشتہ زمانوں کی بات ہے کہ بحرین کے شیعہ ظالموں کے ظلم و ستم سے اس قدر تنگ آ گئے کہ انہوں نے اپنے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی تمنا کی کہ آپ علیہ السلام تلوار لے کر آئیں اور پورے عالم کا نقشہ بدل کررکھ دیں تاکہ پورے عالم سے ظلم و ستم کی جڑیں اکھاڑ دی جائیں اورفقط ان کے شہروں میں امن و سکون نہ ہو بلکہ پورے عالم میں ایسا ہو۔ انہوں نے اپنے درمیان سے انتہائی نیک، پارسا، متقی اور عبادت گزاروں کی جماعت کا انتخاب کیا جو تقویٰ، علم، میں سب سے بہتر تھے پھر انہوں نے اپنے میں سے تین افراد کا انتخاب کیا اور انہوں نے پھر اپنے میں سے ایک کو چن لیا جسے وہ اپنے سے تقویٰ و فضل میں بہتر سمجھتے تھے۔
یہ منتخب آدمی صحرا میں چلا گیا اور اللہ کی عبادت شروع کر دی اور امام زمانہ علیہ السلام سے توسل کرنے میں مصروف ہو گیا کہ حضرت تشریف لائیں اور تلوار لے کر قیام کریں ظلم کا خاتمہ کریں، عدل و انصاف رائج کردیں جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہے، اس کے لئے اس نے شب و روز گریہ وزاری، عجزوانکساری، دعا و مناجات میں گزار دیئے۔
جب آخری رات ہوئی تو ایک شخصیت تشریف لے آئی اور انہوں نے اس منتخب آدمی سے کہا کہ میں تمہارا امام مہدی علیہ السلام ہوں جس کے تم منتظر ہو، تمہارا مطالبہ منظور کر لیا گیا ہے تم کس لئے آئے ہو اور کیا چاہتے ہو؟
منتخب آدمی: آپ کے موالی ، آپ سے عشق و محبت کرنے والے شدت سے آپ کے ظہور کی انتظار میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ قیام فرمائیں ، ظلم کے خاتمہ کے لئے اقدام کریں۔
امام مہدی علیہ السلام: تم کل فلاں جگہ پر کچھ بکرے لے کر پہنچ جاو، اس مکان کی دوسری منزل پر ان بکروں کو لا کر باندھ دو یہ کام صبح شروع کردو اور پھر لوگوں میں یہ اعلان کرو کہ امام مہدی فلاں وقت میں تشریف لائیں گے اور یہ کہ سب اس مکان کے سامنے آجائیں، امام نے اس شخص سے یہ بھی فرمایا کہ میں اس معین وقت میں چھت پرموجود ہوں گا۔
اس آدمی نے امام کے فرمان کے مطابق عمل کیا، معین شدہ وقت پر آن پہنچا، اس معین جگہ پر لوگوں کا جم غفیر موجود تھا، امام مہدی اس آدمی کے ہمراہ چھت پر موجود تھے اور بکرے بھی چھت پر موجود تھے۔
اس جگہ پر امام مہدی نے ایک شخص کا نام لیا اور اس آدمی سے کہا کہ اجتماع میں آواز دو اور اس شخص کو چھت پربلاو اس نے اس ادمی کے نام کی آوازدی اور اسے چھت پر بلا لیا وہ آدمی چھت پر آ گیا اس کے چھت پر آتے ہی امام مہدی نے اس شخص سے کہا کہ فوراًایک بکرے کو پرناے(میزاب) کے سامنے ذبح کرو۔
جب لوگوں نے میزاب سے گاڑھا خون گرتے دیکھا تو لوگوں نے سمجھا کہ امام مہدی نے اس آدمی کے ذبح کرنے کا حکم دیاہے۔
اس کے بعد دوسرے آدمی کو اجتماع سے بلایا وہ بہت ہی نیک افراد سے تھا وہ اپنے کو قربانی کے لئے تیار کر کے چھت پر آگیا اس کے ذہن میں تھا کہ امام اسے میزاب کے سامنے ذبح کر دیں گے جیسے وہ چھت پر گیا تو میزاب سے پھر دوسرے بکرے کا خون بہنے لگا پھر اجتماع سے پہلے دو کی طرح تیسرے شخص کو بلایا گیا اس کے چھت پر آنے کے ساتھ پھر میزاب سے خون جاری ہو گیا پھر چوتھے کو بلایا گیا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے چھت پر جانے سے انکار کر دیا اور انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ جو بھی چھت پر جائے گا اس کا خون بہا دیا جائے گا وہ ذبح کر دیا جائے گا۔
اس طرح انہوں نے امام کے حکم کے سامنے اپنی زندگی کو مقدم جانااور میدان سے آہستہ سے فرار شروع کر دیایہ منظر دیکھ کر امام مہدی علیہ السلام نے اس شخص کو سمجھایا کہ ظہور میں رکاوٹ یہ امر ہے جس کا تم نے مشاہدہ کیا ہے جب تک لوگوں کی حالت یہی رہے گی تو ظہورنہیںہوگا۔(تاریخ الغیبة ج ۲ ص ۸۱۱ ،ص ۹۱۱)
(یہ ایک حکایت ہے اس میں عبرت کے لئے بہت کچھ ہے اور ایسے واقعات آئمہ علیہ السلام کے ادوار میں ہی ملتے ہیں کہ ان میں ہارون مکی کا واقعہ مشہور ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام کے پاس خراسان کے شیعوں کا وفد آیا اور انہوں نے آپ علیہ السلام سے شیعوں کی تعداد کے بہت ہو جانے کی بات کی اور یہ درخواست کی کہ اتنے سارے شیعوں کی موجودگی میں آپ علیہ السلام قیام کیوں نہیں فرماتے؟
تو آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تم ان ہی شیعوں سے ہو جو خراسان میں ہیں تو انہوں نے جواب دیا جی ہاں!تو آپ علیہ السلام نے ان میں سے ایک کو آگ کے جلتے ہوئے تنور میں کود جانے کا حکم دیاتووہ پریشان ہو گیا اور معافی مانگنے لگا کہ مجھے نہ جلائیں ، کیا مجھ سے کوئی گستاخی ہوگئی ہے؟....اتنے میں ہارون آ گیا آپ علیہ السلام نے اسے یہ حکم دیا تو وہ فوراً تنور میں کود گیا اور آگ اس کے لئے گلزار بن گئی....
امام علیہ السلام نے پوچھا اس قسم کے کتنے ہیں تو خراسانی شیعہ نے جواب دیا ایک بھی نہیں....تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ظالموں کے خلاف قیام نہ کرنے کی وجہ یہ ہے ۔ بات خالص شیعہ کی موجودگی ہے جو ابھی تک حاصل نہیں۔مترجم)
دعائے عہد اور دعائے بیعت
صبح کی نماز کے بعد روزانہ مستحب ہے کہ یہ دعا برائے تجدید بیعت امام زمانہ(عج) پڑھی جائے جو اس طرح ہے:
”اللهم بلغ مولای صاحب الزمان
(
عج
)
عن جمیع المومنین والمومنات فی مشارق الارض و مغاربها وبرها وبحرها سهلها وجبلها هیهم ومیتهم وعن والدی وولدی وعنی من الصلوات والتحیات زنة عرش الله ومداد کلماته ومنتهی رضاه وعدد مآ احصاهُ کتابهُ و احاط به علمه اللهم انی اجدد لهُ فی هذا الیوم وفی کل یوم عهدا وعقدا وبیعة فی رقبتی اللهم کما شرفتنی بهذا التشریف وفضلتنی بهذا الفضیلة
وخصصتنی بهذه النعمة فصل علی مولای وسیدی صاحب الزمان واجعلنی من انصاره واشیاعه والذآبین عنه واجعلنی من المستشهدین بین یدیه طائعا غیر مکره فی اصف الذی نعت اهله فی کتابک فقلت صفا کانهم بنیان مرصوص علی طاعتک وطاعة رسولک وآله علیهم السلام اللهم هذه بیعة له فی عنقی الی یوم القیامة“
ترجمہ:۔ ”اے معبود!میرے آقا امام زمانہ علیہ السلام کو ان پر خدا کی رحمتیں ہوں تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی طرف سے جو زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں ہیں خشکیوں اور سمندروں میں میدانوں اور پہاڑوں میں ہیں زندہ اور مردہ اور میرے والدین اور میری اولاد اور میری طرف سے بہت درود اور بہت سلام ہو ہم وزن ہو عرش الٰہی کے اور اس کے کلمات کی روشنی اور اس کی پوری رضا کی اس تعداد میں جو اس کی کتاب میں ہے اور جو اس کے علم میں ہے اے معبود میں تازہ کرتا ہوں آج کے دن میں اور ہر دن میں یہ پیمان یہ بندھن اور بیعت جو میری گردن پر ہے ۔ اے معبود!جیسے عزت دی تو نے مجھے اس عزت کے ساتھ بڑائی دی تو نے مجھے اس بڑائی کے ساتھ اور خصوصیت دی ہے اس نعمت کے ساتھ پس میرے مولا علیہ السلام میرے سردار امام زمان علیہ السلام پر رحمت کر اور مجھ کو ان کے مددگاروں ان کے ساتھیوں اور ان کا دفاع کرنے والوں میں قرار دے اور مجھے ان میں رکھ جو شہید ہوں گے ان کے روبرو فرمانبرداری سے نہ زبردستی سے اس صف میں جس صف والوں کی تو نے کتاب میں مدح کی پس فرمایا ایسی صف جیسے سیسہ پلائی دیوار ہو میرا یہ عمل تیری اطاعت تیرے رسول اور ان کی آل علیہ السلام کی اطاعت میں ہو ان سب پر سلام ہوں اے معبود! ان کی یہ بیعت روز قیامت تک میری گردن پر ہے“۔
علامہ مجلسیؒ نے اس دعا کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں نے بعض قدیمی کتابوں میں دیکھا ہے کہ اس دعا کو پڑھنے کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر مارے۔
اس دعا کے علاوہ ایک اور دعا بھی ہے جو اس سے زیادہ لمبی ہے اور دعاوں کی کتابوں میں موجودہے۔(البحار ج ۲۰۱ ،باب ۰۱۱،۱۱۱ ، مکیال المکارم ج ۳۲۲،۲۲۲ حدیث ۶۱۴)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہر نماز کے بعد امام زمانہ علیہ السلام سے بیعت کرنے کااستحباب وارد ہوا ہے البحار میں السیدالباقی کی کتاب الاختیار سے نقل کیا ہے امام صادقعلیہ السلام نے فرمایا جو شخص اس دعا کوہر واجب نماز کے بعد پڑھے گا تو وہ حضرت امام ”م،ح،م،د“
کی بیداری یا نیند کی حالت میں زیارت کرے گا۔دعا یہ ہے:
”بسم الله الرحمن الرحیم، اللهم بلغ مولانا صاحب الزمان“
اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے، اے اللہ ہمارے مولانا صاحب الزمان علیہ السلام کوجلد بھیج“
”اینما کان وحیثما کان من مشارق الارض و مغاربهاسهلهاو جبلها“
جہاں پر وہ ہوں اور جس وقت میں ہو، زمین کے مشارق اور مغارب زمین کے میدانوں میں ہوں، زمین کے پہاڑوں میں ہوں۔
”عنی وعن والدی وعن ولدی واخوانی التحیة والسلام“
”اپنی طرف سے، میرے والدین کی طرف سے، میری اولاد کی طرف سے، میرے بھائیوں کی طرف سے، ان کی خدمت میں تحیت اورسلام ہو“
”عددخلق الله، وزنة عرش الله، وما احصاه کتابه وماحاط به علمه
یہ تحیت و سلام اللہ کی مخلوق کی تعداد برابر، اللہ کے عرش کے وزن برابر اور اس کے برابر جسے اللہ کی کتاب نے شمار کررکھا ہے اور جسے اللہ کے علم نے احاطہ کر رکھاہے
اللهم انی اجددله فی صبیحة هذا الیوم وماعشت
اے اللہ! بتحقیق میں صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے آج دن کی صبح میں اور اپنی زندگی
فیه من ایام حیاتی عهدا و عقدا و بیعة له فی
جو دن میں گزاروںاس میں تجدید کرتا ہوں، عہد، بیعت،معاہدہ کی
عنقی لاحول عنها ولاازول ابدا
صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے میری گردن میں یہ بیعت ہے کہ میں اس سے کبھی پھروں گا نہیں اور نہ کبھی اسے اپنی گردن سے الگ کروںگا یہ پکا وعدہ ہے۔
اللهم اجعلنی من انصاره والذابین عنه والممتثلین
اے اللہ! مجھے صاحب الزمان علیہ السلام کے انصار سے قرار دے اور ا نکا دفاع کرنے والا بنا دے
لاوامره ونواهیه فی ایامه واالمتشهد بین یدیه
اور ان کے احکام کو پورا کرنے والا بنا، ان کے نواہی کو چھوڑنے والا بنااور ان کے ساتھ شہادت طلبی کے لئے پیش ہونے والا قرار دے۔
اللهم فان حال بینی وبینه الموت الذی جعلته
اے اللہ! اگر میرے اور صاحب الزمان علیہ السلام کے درمیان موت آجائے جسے تو نے اپنے
علی عباده حتما مقضیا فاخر جنی من قبری موتزاراکفنی
بندگان پر حتمی فیصلہ قرار دے رکھا ہے تو اے اللہ تومجھے میری قبر سے باہر نکال لانا اس حالت میں کہ
شاهراًسیفی، مجرداقناتی، ملبیادعوة الداعی فی الحاضروالباد
کہ کفن میں لپٹا ہوا ہووں، اپنی تلوار کو نیام سے نکال رکھا ہو، اپنے نیزے کو کمان میں لگا رکھا ہو، دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہہ رہا ہووںآبادیوں میں یا دیہاتوں میں۔
اللهم ارنی الطلعة الرشیده والغرة الحمیده واکحل
اے اللہ! مجھے طلعہ رشیدہ اور غرہ حمیدہ(امام زمانہ علیہ السلام)کادیدار کرا دے
بصری بنظرة منی الیه وعجل فرجه وسهل مخرجه
اور میری آنکھ کو ان کے دیدار کا سرمہ لگا دے اور ان کی آمد، ان کی حکومت، انکے خروج، ان کے ایام کو جلد لے آ
اللهم اشدد ازره وقوظهره، وطول عمره
اے اللہ! ان کے دامن کو مضبوط بنا دے، ان کی کمر کو طاقتور بنا اور انہیں لمبی عمر عطا فرما
واعمراللهم به بلادک واحی به عبادک فانک
اے اللہ!صاحب الزمان علیہ السلام کے وسیلہ سے اپنے شہروں کو آباد کر دے اور اپنے
قلت وقوله الحق اظهرالفساد فی البرو البحر
بندگان کو خوشحال زندگی عطا فرما کیونکہ تیرا فرمان ہے اور تیرا فرمان برحق ہے
بماکسبت ایدی الناس لیذیقهم بعض الذی عملوالعلهم یرجعون
زمین میں فساد ظاہر ہو چکا بوجہ ان اعمال کے جو لوگوں نے انجام دیئے ہیںیہ اس لئے تاکہ لوگ اس عمل کا مزہ چکھیں جس کاانہوں نے ارتکاب کیا تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں
فاظهراللهم لنادینک، وابن بنت نبیک المسمی باسم
اے اللہ! ہمارے واسطے اپنے ولی کو ظاہر فرما دے جو تیرے نبی کی بیٹی کا
رسولک حتی لایظفر بشی من الباطل
فرزند ہے اور تیرے رسول کاہمنام ہے اس طرح ظاہر ہوں کہ کسی باطل کو نہ پائیں مگر یہ کہ
الامزقه ویحق الله الحق بکلماته ویحققه
اس کا صفایا کر دیں اور اللہ ان کے بیان سے حق کو قائم کر دے
اللهم اکشف هذه الغمه عن هذا الامة بظهوره انهم
اے اللہ! اس غم و اندوہ کو اس امت سے صاحب الزمان علیہ السلام کے ظہور کے ذریعہ
یرونه بعیدا ونریه قریبا
دور کر دے وہ لوگ(تیرے مخالفین)اس بات کو دورکی بات خیال کرتے ہیں اور ہم تو اس امر کے ہو جانے کو قریب سمجھتے ہیں
وصلی الله علی محمدوآله
اور اے اللہ محمد و آل محمد پر صلوات بھیج
ایک روایت یہ بھی موجود ہے کہ ہر جمعہ کو تجدید بیعت کی جائے(مکیال المکارم ج ۲ ص ۵۲۲)
روزانہ صبح کی نماز کے بعد دعائے عہدپڑھنے کا حکم ہے یہ دعا معروف ہے پاکستان میں اس کا ترجمہ مولانا اسدعالم فاضل قم اور محمد جعفر الزمانؒ نے کیا اور دونوں ترجمے چھپے ہوئے ہیں یہ دعاءمفاتیح الجنان میں موجود ہے علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور علامہ ذیشان حیدرجوادی صاحب والا ترجمہ بھی ساتھ دیا ہے ۔
اَللّهُمَّ رَبَّ الْنُّورِ العَظیمِ وَرَبَّ الكُرْسِیّ الرَّفِیعِ وَرَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ومُنْزِلَ التَّوْریةِ وَالْأنْجِیلِ وَالزَّبُورِ وَرَبَّ الظِّلِّ وَالْحَروُرِ وَمُنْزِلَ الْقُرْآنِ الْعَظیمِ وَرَبَّ الْمَلائِكَةِ الْمُقَرَّبِینَ وَالْأنْبیاءِ وَالْمُرْسَلِینَ اَللّهُمَّ إِنّی اسْأَلُكَ بِوَجْهِكَ الْكَرِیمِ وَبِنُورِ وَجْهِكَ الْمُنِیرِ وَمُلْكِكَ الْقَدیمِ یاحَیُّ یاقَیُّومُ أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذی اَشْرَقَتْ بِهِ السَّمواتُ وَالْأرضُونَ وَبِإسْمِكَ الَّذی یَصْلَحُ بِهِ الأَوّلوُنَ والآخِروُنَ یاحَیّاً قَبْلَ كُلَّ حَیٍّ وَیا حَیّاً بَعْدَ كُلِّ حَیٍّ وَیاحیّاً حینَ لاحَیَّ یامُحْیِیَ الْمَوْتى وَمُمیتَ الْأَحیاءِ یاحَیُّ لا إِلهَ إِلاّ أَنْتَ اَللّهُمَّ بَلِّغْ مَوْلانا اَلإمامَ الهادِیَ الْمَهْدِیَّ الْقائِمَ بِأمْرِكَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَیْهِ وَعَلى آبائِهِ الطّاهِریِنَ عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ فی مَشارقِ الْأرْضِ وَمَغارِبها سَهْلِها وَجَبَلِها وَبَرِّها وَبَحْرِها وَعَنّی وَعَنْ وَالِدَیَّ مِنَ الصَّلَواتِ زِنَةَ عَرْشِ اللّهِ وَمِدادَ كَلِماتِهِ وَما اَحْصاهُ عِلْمُهُ وَأَحاطَ بِهِ كِتابُهُ اَللّهُمَّ إنّی اُجَدِّدُ لَهُ فی صَبِیحَةِ یَوْمی هذا وَما عِشْتُ مِنْ اَیّامی عَهْداً وَعقْداً وَبَیْعةً لَهُ فی عُنُقی لا اَحُولُ عَنْها وَلا أَزُولُ أبَداً اَللّهُمَّ اجْعَلْنی مِنْ اَنصارِهِ وَاَعْوانِهِ وَالذَّابّینَ عَنْهُ وَالْمُسارِعینَ إِلَیْهِ فی قَضاءِ حَوائِجِهِ والْمُمْتَثِلینَ لأوامِرِهِ وَالْمُحامِینَ عَنْهُ وَالسّابِقینَ اِلى إِرادَتِهِ وَالْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ اللّهُمَّ إنْ حالَ بَیْنی وبَیْنَهُ الْمَوْتُ الَّذی جَعَلْتَهُ عَلى عِبادِكَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَأَخْرِجْنی مِنْ قَبْری مُؤْتَزِراً كَفَنی شاهِراً سَیْفی مُجَرِّداً قَناتی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدّاعی فی الْحاضِرِ وَالْبادی اَللّهُمَّ اَرِنِی الطَّلْعَةَ الرَّشیدَةَ والْغُرَّةَ الْحَمِیدَةَ واكْحُلْ ناظِری بِنظْرَةٍ مِنّی إلَیهِ وَعَجِّلْ فَرَجَهُ وَسَهِّلْ مَخْرَجَهُ وَاَوُسِعْ مَنْهَجهُ وَاسْلُكْ بی مَحَجَّتَهُ وَاَنْفِذْ اَمْرَهُ وَاشْدُدْ اَزْرَهُ واعْمُرِ اللّهُمَّ بهِ بِلادَكَ وَاَحْی بِهِ عبادَكَ فَإنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ ظَهَرَ الْفَسادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِما كَسَبَتْ أَیْدِی النّاسِ فَاظْهِرِ اللّهُمَّ لَنا وَلِیَّكَ وَاَبْنَ بِنْتِ نَبِیِّكَ الْمُسَمّى بِاسْمِ رَسْولِكَ صَلّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلّمَ حَتّى لایَظْفَرَ بِشْیءٍ مِنَ الْباطِلِ إِلاّ مَزَّقَهُ وَیُحِقَّ الْحَقَّ ویُحَقّقَهُ وَاجْعَلْهُ اللّهُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلوُمِ عِبادِكَ وَنَاصِراً لِمَنْ لایَجِدُ لَهُ ناصِراً غَیْركَ وَمُجدِّداً لِما عُطِّلَ مِنْ أَحْكامِ كِتابِكَ وَمُشَیّداً لِما وَرَدَ مِنْ أَعْلامِ دِینِكَ وَسُنَنِ نَبِیّكَ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَاجْعَلْهُ اللّهُمَّ مِمِّنْ حَصَّنْتَهُ مِنْ بَأْسِ الْمُعْتَدینَ اَللّهُمَّ وَسُرَّ نَبِیّك مُحَمَّداً صَلّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِرُؤْیَتِهِ وَمَنْ تَبِعَهُ عَلى دَعْوَتِهِ وَارْحَمِ اسْتِكانَتَنا بَعْدَهُ الَلّهُمَّ اكْشِفْ هذِهِ الْغُمَّةَ عَنْ هِذهِ الْاُمَّةِ بِحُضُورِهِ وَعجِّلْ لَنا ظُهُورَهُ إِنَّهُمْ یَرَوْنَهُ بَعیداً وَنَراهُ قریباً بِرَحْمَتِكَ یا اَرْحَمَ الرّاحِمین
پهر تین بار دائیں ران پر هاته مارے اور هر بار کهے
اَلعَجَلَ العَجَلَ یَا مَو لایَ یَاصاحِبَ الزَّمانِ
ترجمہ:۔اے معبود!اے عظیم نور کے پروردگار اے بلند کرسی کے پروردگار اے موجیں مارتے سمندر کے پروردگار اور اے توریت اور انجیل اور زبور کے نازل کرنے والے اور اے سایہ اور دھوپ کے پروردگار! اے قرآن عظیم کے نازل کرنے والے! اے مقرب فرشتوں اور فرستادہ نبیوں اور رسولوں کے پروردگار! اے معبود بے شک میں سوال کرتا ہوں تیری ذات کریم کے واسطے سے تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے اے زندہ اے پائندہ تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین و آخرین نے بھلائی پائی ۔ اے زندہ ہر زندہ سے پہلے اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے اے زندوں کو موت دینے والے اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اے معبود! ہمارے مولا امام ہادی مہدی علیہ السلام کو جو تیرے حکم سے قائم ہیں ان پر اور ان کے پاک بزرگان پر خدا کی رحمتیں ہوں اور تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی طرف سے جو زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں ہیں۔ میدانوں اور پہاڑوں اور خشکیوں اور سمندروں میں میری طرف سے میرے والدین کی طرف سے بہت درود پہنچا دے جو ہم وزن ہو عرش اور اس کے کلمات کی روشنائی کے اور جو چیزیں اس کے علم میں ہیں اور اس کی کتاب میں درج ہیں۔ اے معبود!میں تازہ کرتا ہوں ان کے لیے آج کے دن کی صبح کو اور جب تک زندہ ہوں باقی ہے یہ پیمان یہ بندھن اور ان کی بیعت جو میری گردن پر ہے نہ اس سے مکروں گا نہ کبھی ترک کروں گا ۔ اے معبود! مجھے ان کے مددگاروں ان کے ساتھیوں اور ان کا دفاع کرنے والوں سے قرار دے میں حاجت برآوری کے لئے ان کی طرف بڑھنے والوں ان کے احکام پر عمل کرنے والوں ان کی طرف سے دعوت دینے والوں ان کے ارادوں کو جلد پورا کرنے والوں اور ان کے سامنے شہید ہونے والوں میں قرار دے۔ اے معبود!اگر میرے اور میرے امام علیہ السلام کے درمیان موت حائل ہو جائے جو تو نے اپنے بندوں کے لیے آمادہ کر رکھی ہے تو پھر مجھے قبر سے اس طرح نکالنا کہ کفن میرا لباس ہو میری تلوار بے نیام ہو میرا نیزہ بلند ہو داعی حق کی دعوت پر لبیک کہوں۔ شہر اور گاوں میں اے معبود مجھے حضرت کارخ زیبا آپ کی درخشاں پیشانی دکھا ان کے دیدار کو میری آنکھوں کا سرمہ بنا ان کی کشائش میں جلدی فرما ان کے ظہور کو آسان بنا ان کا راستہ وسیع کر دے اور مجھ کو ان کی راہ پر چلا ان کا حکم جاری فرما ان کی قوت کو بڑھا اور اے معبود! ان کے ذریعے اپنے شہر آباد کر اور اپنے بندوں کو عزت کی زندگی دے کیونکہ تو نے فرمایا اور تیرا قول حق ہے کہ ظاہر ہوا فساد خشکی اور سمندر میں یہ نتیجہ ہے لوگوں کے غلط اعمال وافعال کا پس اے معبود! ظہور کر ہمارے لیے اپنے ولی علیہ السلام اور اپنے نبی کی دختر علیہ السلام کے فرزند کا جن کا نام تیرے رسول کے نام پر ہے یہاں تک کہ وہ باطل کا نام نشان مٹا ڈالیں حق کو حق کہیں اور اسے قائم کریں ۔ اے معبود!قرار دے ان کو اپنے مظلوم بندوں کے لئے جائے پناہ اوران کے مددگار جن کا تیرے سوا کوئی مددگار نہیں بنا ان کو اپنی کتاب کے ان احکام کے زندہ کرنے والا جو بھلا دیئے گئے ان کو اپنے دین کے خاص احکام اور اپنے نبی کے طریقوں کو راسخ کرنے والا بنا ان پر اور ان کی آل علیہ السلام پر خدا کی رحمت ہو اور اے معبود! انہیں ان لوگوں میں رکھ جن کوتو نے ظالموں کے حملے سے بچایا ۔ اے معبود!خوشنود کر اپنے نبی محمد مصطفی کو ان کے دیدار سے اور جنہوں نے ان کی دعوت میں ان کا ساتھ دیا اور ان کے بعد ہماری حالت زار پر رحم فرما۔ اے معبود!ان کے ظہور سے امت کی اس مشکل اور مصیبت کو دور کر دے اور ہمارے لیے جلد ان کا ظہور فرما کہ لوگ ان کو دور اور ہم انہیں نزدیک سمجھتے ہیں تیری رحمت کا واسطہ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔ جلد آئیے ، جلد آئیے اے میرے آقا اے زمانہ حاضر کے امام علیہ السلام “
کیا ظہور سے پہلے غیر امام کی بیعت جائز ہے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے مفضل سے فرمایا اے مفضل!ہر بیعت جو قائم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے لی جائے گی وہ کفر اور منافقت کی بیعت ہو گی دھوکہ دیہی کی بیعت ہو گی ایسی بیعت لینے والے پر لعنت ہے اور ایسی بیعت کرنے والے پر بھی لعنت ہے یعنی امام زمانہ(عج)کے ظہور سے پہلے بیعت لینے والا اور بیعت کرنے والا دونوں لعنتی ہیں۔(بحارالانوار ج ۳۵ ص ۸)
اسی حوالے سے بعض شیعہ علماءنے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ نبی اعظم اور آئمہ اطہارعلیہ السلام کے علاوہ دوسروں کی بیعت ٹھیک نہیں ہے۔(مکیال المکارم ج ۲ ص ۸۲۲)
بعض شیعہ علماءکا نظریہ ہے کہ فقہاءکی بیعت کرنا مستحب ہے۔(مکیال المکارم ج ۲ ص ۸۲۲)
میرا خیال یہ ہے اللہ ہی بہترآگاہ ہے کہ جو بات شیعہ علماءکے بیانات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اس بیعت سے مراد ریاست مطلقہ اور ولایت مطلقہ کی بیعت ہے ظاہر ہے اس زمین پر ریاست مطلقہ اورولایت مطلقہ فقط امام زمانہ علیہ السلام حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے آج کے دور میں کسی اور کے لئے ایسانہیں تو اسی حوالے سے ایسی بیعت امام زمانہ علیہ السلام کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔
بیعت سے مراد
نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی بیعت جس کا مفاد یہ ہو کہ جس کی بیعت کی جا رہی ہے اس کے لئے ریاست مطلقہ ہے اورولایت عامہ ہے ہر لحاظ سے حکومت اور اقتدار ان کے لئے ہے بیعت کرنے والے شخص پر بھی اور دوسروں پر بھی تو ایسی بیعت کسی غیر امام کے لئے انجام دینا کفر ہے یہ بیعت جائز نہیں ہے، البتہ ایسی بیعت کرنا جو معاہدہ کے معنی میں ہو کہ مخصوص شرائط کے تحت بیعت کرنے والا شخص بیعت لینے والے سے معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اس کی پابندی کرے گا تو ایسی بیعت کو مشروط بیعت کہا جائے یہ بیعت غیر امام کی ہو سکتی ہے، ایسی بیعت میں بیعت کرنے والے کے اختیارات سلب نہیں ہوتے اور نہ ہی امام زمانہ(عج)والے اختیارات بیعت لینے والے کے لئے قبول کئے جا رہے ہیں ایسی بیعت اگر شرعی موازین اور ضوابط کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ بات اسی طرح ہے جیسا کہ روایات میں آیا ہے”ان کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصاحبھا طاغوت یعبد من دون اللہ تعالیٰ“
ہر پرچم جو قائم کے قیام سے پہلے بلند کیا جائے گا تو اس پرچم والا شخص طاغوت ہو گا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو اپنا معبود بنائے گا“(الکافی ج ۸ ص ۵۹۲ حدیث ۲۵۳)
علماءشیعہ نے اس بارے بات کی ہے کہ اس سے ہر وہ پرچم ہے(ہروہ تحریک ہے) جس میں امام مہدی علیہ السلام کے لئے دعوت نہ دی گئی ہو، بلکہ اپنی ذات کی طرف دعوت ہو تو ایسی تحریک طاغوتی تحریک ہے اور ایسا پرچم طاغوت کا پرچم ہے، لیکن جس پرچم تلے حضرت قائم علیہ السلام کے لئے دعوت دی جا رہی ہو ان کی حکومت کے لئے مقدمات فراہم کرنے کے لئے اورحضرت قائم علیہ السلام کی پیروی کی دعوت دی جا رہی ہو اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میںتو پھر ایسے پرچم کو بلند کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ایسی تحریک طاغوت کی تحریک نہ ہوگی۔
(بیعت اس معنی میں جس میں رسول اللہ کی تھی کہ ہر مسلمان اپنا سب کچھ اور سارے اختیارات رسول اللہ کے سپرد کرتا تھا جان، مال،عزت وناموس، سب کچھ رسول اللہ کے لئے یہ بیعت درحقیقت اللہ کے لئے بیعت ہے کہ اللہ کے سامنے بندے کا کوئی اختیار نہیں اسی طرح رسول اللہ کے سامنے بھی بندے کا کوئی اختیار نہیں سارے اختیارات رسول اللہ کے ہیں رسول اللہمومنین کے نفوس پر خود ان سے زیادہ اختیارات رکھتے ہیں،ان ہی اختیارات کا حوالہ رسول اللہ نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے جب بیعت لی تھی اور فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی علیہ السلام مولا ہے۔اور پھر یہی بیعت باقی آئمہ علیہ السلام کے لئے ہے اور اسی طرح یہ بیعت حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے واسطے بھی ہے یہ بیعت کسی اور کے لئے نہیں ہے ، دوسرے کسی بھی شخص کے ساتھ شرعی حدود میں رہتے ہوئے معاہدے ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے معاہدات کو بیعت کا نام نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی بیعت اس قسم کے معاہدات کے معنی میں لے تو پھر امام زمانہ علیہ السلام کے علاوہ بیعت ہو سکے گی وگرنہ اس معنی میں کہ ریاست مطلقہ اور ولایت عامہ کے معنی میں بیعت فقط اور فقط آج کے دورمیں امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے۔یہ بیعت اور عہد ہمیں غیبت کے زمانہ میں کرنا ہے جس کا معنی بیان ہو چکا اور جب آپ علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو اس وقت یہ بیعت اپنے پورے معنی اور مضمون سے عملی شکل میں سامنے آئے گی....ازمترجم)
یہ چوتھی ذمہ داری ہے روزانہ تجدید بیعت کرنے کا حکم ہے، گویا کہ روزانہ اپنے امام علیہ السلام سے انسان یہ عہد دہراتا ہے کہ وہ ان کی اتباع اور پیروی میں رہے گا۔
زمانہ ظہور کے لئے بھی یہی بیعت ہے اب ایسا کرنا روزانہ واجب ہوگا یا ایک دفعہ واجب ہوگا اورروزانہ ایسا عمل مستحب ہے تو اس کا معاملہ حضرت صاحب الزمان(عج) سے مربوط ہو گا کہ وہ ظہور کے بعد روزانہ بیعت چاہیں گے یا ایک ہی دفعہ کافی ہو گا بہرحال غیبت کے زمانہ میں روزانہ اس عمل کے دہرانے کااستحباب یقینی طور پر ثابت ہے۔
چھٹی ذمہ داری:امام زمانہ علیہ السلام کی لوگوں کے دلوں میں محبت ڈالنا
روضتہ الکافی میں ہے، انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوعبداللہ صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:آپ علیہ السلام نے فرمایا:اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے لوگوں میں ہمیں محبوب بنایااور لوگوں میں ہمیں مبغوض نہیں بنایا یعنی لوگوں کے درمیان ہمیں اس طرح متعارف کروایا کہ وہ ہم سے محبت کرنے لگے اور اس طرح متعارف نہیں کروایا کہ وہ ہم سے بغض اور دشمنی شروع کریں، کیونکہ خدا کی قسم!ایسا ہے کہ اگر لوگوں کو ہماری گفتگو اور بیانات کی خوبیوں کا علم ہو جائے اور وہ جان لیں کہ ہم نے ان کے مفادات کے لئے کیا کچھ بیان کیا ہے تووہ ہر ایک سے زیادہ ہم سے تعلق و وابستگی قائم کر لیں اور اسے اپنے لئے عزیزو قیمتی جانیں اور کوئی ایک بھی کسی قسم کا حاشیہ ان پر نہ چڑھائے اور کسی قسم کا اعتراض نہ کرے لوگ ہمارے گرویدہ ہوجائیں۔
لیکن ان میں جب کوئی ایک آدھ جملہ سنتا ہے(وہ بھی ادھوراجملہ)توپھر اس پر دسیوں جملے اور جڑدیتے ہیںتو اس طرح معاملات بگر جاتے ہیں۔
(الکافی ج ۸ ص ۹۲۲ حدیث ۳۹۲ ، امالی شیخ الصدوقؒ ص ۱۶)
خشیخ صدوقؒ نے اپنی سند سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ اس بندے پر رحم کرے جو لوگوں کی محبت اور مودت کو ہماری جانب کھینچ کر لے آئے اور ان سے ایسی گفتگو کرے جسے وہ جانتے ہیں جس کی انہیں معرفت ہے ان سے ایسی باتیں مت کرے جس کے وہ انکاری ہیں۔
(الکافی ج ۸ ص ۹۲۲ حدیث ۳۹۲ ، امالی شیخ الصدوقؒ ص ۱۶)
یہ بات فقط حضرت امام مہدی علیہ السلام سے خاص نہیں ہے بلکہ سارے آئمہ اطہار علیہم السلام سے متعلق ہے لیکن حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے اس کی زیادہ تاکید ہوئی ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں۔
۱ ۔ اس لحاظ سے کہ وہ ہمارے زمانہ کے امام ہیں اور جو اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی معرفت نہیں رکھتا تو وہ شخص کفر اور جاہلیت کی موت مرا۔
(الکافی ج ۸ ص ۹۲۲ حدیث ۳۹۲ ، امالی شیخ الصدوقؒ ص ۱۶)
معرفت سے مراد
یہ بات واضح ہے کہ امام زمانہ کی معرفت سے مراد فقط ان کے نام سے واقفیت حاصل کر لینانہیں ہے بلکہ ان کی صفات، ان کے اوصاف ان کی موالات، ان کی بیعت، ان کی خصوصیات سب کے بارے معرفت حاصل کرنا ضروری ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب ایک شخص امام علیہ السلام کی خوبصورت صفات کا تذکرہ کرے گاآپ کے وجود کی برکات بیان کرے گا، آپ کی وجہ سے لوگوں کوجو خیروبرکت مل رہی ہے اس کا ذکر کرے گا اور آپ کی آمد پر جو خوشحالی سب کو نصیب ہو گی اسے بیان کرے گا آپ جس طرح لوگوں سے محبت سے پیش آئیںگے جس طرح لوگوںکی مدد کریں گے جس طرح یتیموں، بیوگان کا سہارا بنیں گے جس طرح محروم طبقات کی فلاح اور ترقی کا سبب بنیں گے جس طرح غریبوں کو لٹیروں سے نجات دلائیں گے تو امام صاحب الزمان علیہ السلام کی ان صفات اور ایسے حالات کو جان کر یقینا لوگ آپ سے نہ فقط محبت کریں گے بلکہ چاہیں گے کہ آپ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیں بنا برایں امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کے وجوب سے ہی لوگوں کو آپ کے قریب کرنے اور آپ علیہ السلام کا محبوب بنانے کا وجوب بھی ثابت ہو جاتاہے۔
۲: ۔ جن حالات میں امام زمانہ (عج)خروج فرمائیں گے آپ علیہ السلام کے راستہ پر ثابت قدم رہنے میں جو مشکلات وصعوبات درپیش ہوں گی ان کے چاہنے والوں، ان کے پیروکاروںپر آپ کے ظہور سے پہلے جو ظلم و ستم ہو گا اور جس طرح زیادتیاں ہوں گی کہ ان حالات بارے بعض روایات میں ہے ایسے حالات ہوں گے ان میں دین پر باقی رہنا اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا کہ انسان آگ دہکتے انگارے کواپنی ہتھیلی پر رکھے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں حضرت امام زمانہ(عج)کے بارے لوگوں کو اس طرح متعارف کروائیں کہ لوگ آپ کے عاشق بن جائیں اپنی ہرعزیز ترین متاع سے زیادہ امام زمانہ(عج) سے محبت کرتے ہوں اور ان کی خاطر سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہوں یہ اس لئے ضروری ہے کہ لوگ غیبت کے زمانہ میں دین پر باقی رہیں، امام زمانہ(عج)سے اپنے موالات کو برقرار رکھیں اور امام علیہ السلام کے ظہور کی شدت سے انتظار کریں اور غیبت کے زمانہ میں دین اور ایمان پر ثابت قدم رہیں ہر قسم کی مشکلات اور مصائب کو برداشت کرنے سے نہ گھبرائیں(افسوس ہے کہ ہمارے ہاںبعض اوقات امام زمانہ(عج) کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ آپ نے آ کر قتل کرنا ہے آپ نے خون کی ندیاں بہانا ہیںآپ کو ایک بے رحم انسان بنا کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ امام کا نام ہی رحمت ہے آپ روف ہیں آپ شفیق ہیں آپ رفیق ہیں ، آپ لطیف ہیں، آپ جمیل ہیں آپ حسین ہیں، آپ فریاد رس ہیں آپ محروموں کے ہمدرد ہیں، آپ مظلوموں کے ساتھی ہیں آپ موسم بہارہیں، آپ خوشحال ہیں، آپ عدل ہیں، آپ پیارے ہیں، آپ کودیکھنے والے آپ سے اس قدر متاثر ہوں گے کہ آپ کے گرویدہ ہو جائیں گے، آپ کو عالمین کے لئے رحمت زمین کو آباد کرنے والے،شہروں کو خوشحال بنانے والے قرار دیا گیا ہے، آپ اللہ کی تمام صفات جمالیہ و جلالیہ کے مظہر ہیں، آپ نے ظالموں سے محروم طبقات کو نجات دلانا ہے، آپ رحیم ہیں ، روف ہیں، جمیل ہیں، منتقم بھی ہیں لیکن انتقام خدا کے منکروں سے خدا کے دشمنوں کے لئے سخت ہیں، آل محمد کے دشمنوں کے لئے آپ سخت ہیں محروم طبقات کے لئے آپ خیروبرکت ہیں آپ اتمام حجت کے بعد کسی کو قتل کریں گے عفوودرگذر آپ کی خاندانی روایت ہے البتہ اپنے آباءواجداد سے آپ کی عملی سیرت میں فقط اتنا فرق ہوگا کہ آپ کے دربار میں منافقوں کے لئے جگہ نہ ہوگی اور نہ ہی آپ کے دور حکومت میں روئے زمین پر کوئی کافر،ملحداور مشرک اور منکر خدا رہ سکے گا۔ آپ کی حکومت میں سب اللہ والے ہوں گے سب ایک دوسرے کے ہمدرد ہوں گے ایک مدینہ قاضلہ ہوگا جس میں امن ہو گا، سکون ہوگا، خوشحالی ہو گی سکھ و چین ہوگا، اللہ اللہ ہوگا، اہل بیت علیہ السلام کے شان کے قصیدے عام ہوں گے ہر ایک کی زبان پر سلامتی کے بول ہوں گے، اللہ کی زمین اسی دنیا میں حقیقت میںجنت نظیربن جائے گی، خداوند وہ وقت جلد لائے ”اَللّٰهُمَّ عَجِّل فَرَجَهُ وَسَهِّل مَخ رَجَهُ
“....ازمترجم)
روایات کی روشنی میں لوگوں کو آپ علیہ السلام کو محبوب بنانے کا طریقہ
حدیث میں ہے کہ امام علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کی گفتگو کی تفسیر فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کیا:
”اے موسیٰ علیہ السلام! مجھے لوگوں کا محبوب اور پیارا بناو اور مخلوق کو میرا محبوب اور پیارا بناو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام: یا رب! یہ کام کس طرح انجام دوں؟
اللہ کا فرمان:ان کے پاس میری پوشیدہ اور ظاہری نعمات کا ذکرکرو، انہیں میری ساری نعمتیں یاد دلاو۔(بحارالانوار ج ۸۲ ص ۷۴ حدیث ۹)
دارالسلام میں ہے قصص الانبیاءعلیہ السلام سے، اپنی سند سے نبی اکرم سے:
اللہ کا فرمان داود کے نام: اے داود تم مجھ سے پیار کرو اور مجھے میری مخلوق کا محبوب بناو کہ وہ مجھ سے پیار کریں۔
داود: اے اللہ! میں تو تجھ سے محبت کرتاہوں، میں کیا کروں کہ تیری مخلوق تجھ سے محبت کرے۔
اللہ کا فرمان : میری جو نعمات ان کے پاس ہیں وہ انہیں یاد دلاو کیونکہ اگر تم انہیں ان نعمتوں کو یاد دلاو گے جو میں نے انہیں دے رکھی ہیں تو وہ یہ جان کر مجھ سے محبت کریں گے ۔
شیخ صدوق نے اپنی سند سے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے۔
ابن عباسؓ: رسول اللہ نے فرمایا: تم سب اللہ سے اس وجہ سے محبت کرو کہ وہ تمہیں اپنی نعمتوں سے غذادیتا ہے اور مجھ سے محبت اس لئے کرو کہ میں اللہ کا محبوب ہوں، اللہ سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میرے اہل بیت علیہ السلام سے محبت اس لئے کرو کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو، میری محبت کی وجہ سے تم میرے اہل بیت علیہ السلام سے محبت کرو۔
(امالی الصدوق ص ۹۱۳ ،ص ۶۴۴)
پہلے بیان ہو چکا ہے اور بعد میں بھی ذکر ہو گا کہ جتنی اللہ کی نعمات ہیں جن میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور جن نعمتوں کی برکات ہم کو مل رہی ہیں اتنی زیادہ نعمتیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں یہ سب کچھ مولا صاحب الزمان (عج) کے وجود کی برکات سے ہے اور آپ کے واسطہ سے یہ سب کچھ ہمیں مل رہا ہے یہ ذمہ داری جس طرح زمانہ غیبت کے لئے ہے اسی طرح یہ فریضہ ظہور کے بعد کے زمانہ میں بھی جاری رہے گا۔
اس جگہ چند امور کو بیان کرتے ہیں جو اس مقصد کو پورا کرنے میں مدد دیں گے جس کا ذکر ہوا ہے ان امور کو اس مقصد کے حصول کے لئے انجام دینا ضروری ہے۔
۱ ۔ امام زمانہ(عج) کی صفات کو بیان کرنا چاہئے۔
۲ ۔ امام زمانہ(عج) کی عدالت اور آپ کے انصاف کو بیان کرنا چاہئے۔
۳ ۔ جو آپ علیہ السلام کادیدار کریں گے جو آپ کی مدد کریں گے جو آپ کے لئے شہادت دیں گے جو آپ کے پرچم تلے جنگ کریںایسے لوگوںکوکیااجراورثواب ملے گااور ان کے واسطے اس عمل کا ثواب اور اجر بیان کرنا چاہیے۔
۴ ۔ امام زمانہ(عج) کی حکومت اور آپ کی عدالت کی بدنما تصویر اور خوفناک شکل پیش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسے خوبصورت بنا کر پیش کیا جائے، اس کو اس طرح بیان کیا جائے کہ ہر شخص اس حکومت کے قیام کی شدت سے انتظار کرنے لگ جائے اور اس کے قیام کے لئے اپنا سب کچھ خرچ کرنے پر آمادہ ہو جائے اور اس کے قیام کے لئے ساری تکالیف برداشت کرنے پر آمادہ نظر آئے۔
۵ ۔ جو کچھ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے مربوط ہے جیسے یمانی کا وجود یا خراسانی کا وجود، تو ان دو ہستیوں کو اس انداز سے پیش نہ کیا جائے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے نظریہ پرشک ہو اور آپ کی حکومت اور آپ کے عادلانہ نظام کے قیام کا نظریہ زیر سوال آجائے۔
(ازمترجم....حضرت امام زمانہ (عج)کے وسیلہ سے، آپ کا توسل کرنے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں، عبادات قبول ہوتی ہیں، اس توسل کے جودنیا میں فائدے حاصل ہوتے ہیں اسے بیان کیا جائے )
۷ ۔ حضرت امام زمانہ (عج)نے اپنی غیبت کے دوران جس طرح پریشان حال لوگوں کی مدد کی ہے اور کرتے ہیں اور جس طرح بھٹکے ہوئے قافلوں کی راہنمائی کی ہے جس طرح ہلاکت سے بعض کو بچایا ہے، جس طرح فریاد کرنے والے کی فریاد کو سنا ہے اور آپ علیہ السلام سے ملاقات کرنے والوں سے آپ نے جس پیارومحبت کا اظہار فرمایا ہے ان سب کو بیان کیاجائے
حضرت امام زمانہ (عج) کے لئے دعا کرنا
آپ علیہ السلام کی تحریر میں یہ بات آئی ہے ”واکثروالدعاءلتعجیل الفرج فان فی ذلک فرحکم“(الاحتجاج ج ۲ ص ۳۲۳)
تم سب فرج(کشادگی، فتح و نصرت، ظہور، حکومت کے قیام) کی دعاءبہت زیادہ کیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری ساری مشکلات کا حل ہے، اسی میں تمہارے لئے فَرَج ہے۔ابومحمد ہارون نے ابوعلی محمد بن الحسین بن محمد بن جمہورالقمی سے اس نے اپنے باپ محمد بن خمہور سے اس نے احمد بن الحسین السری اس نے عباد بن محمدالمداینی سے روایت نقل کی ہے۔
راوی: میں امام ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مدینہ میں حاضرہوا میں نے یہ دیکھا اور خود سنا کہ جب آپ فریضہ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ علیہ السلام نے آسمان کی جانب اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور اس طرح دعا مانگنا شروع کی۔
وہ دعا یہ ہے:
اے سامع کل صوت، اے جامع کل فوت، اے ہر آواز کو سننے والے، اے ہر چلے جانے والے کو اکٹھا کرنے والے، اے باری کل نفس بعدالموت، اے باعث، اے وارث، موت کے بعدہرنفس کو پیدا کرنے والے، اے مبعوث کرنے والے ، اے وارث، اے سیدالسادات، اے لاالہ الااللہ، اے جبار الجبابرہ، اے سرداروں کے سردار، اے معبودوں کے الہ، اے جابروں پر زبردست جابر، اے مالک الدنیاوالآخرہ، اے رب الارباب، اے مالک، اے آخرت اور دنیا کے مالک، اے سارے ارباب کے رب، اے ملک الملوک، اے ذالبطش الشدید، اے بادشاہوں کے بادشاہ، اے سخت گرفت اور پکڑ والے، اے فعال لمایرید،اے محصی عدد الانفایس، اے اپنے ارادوں کو انجام دینے والے، اے سانسوں کی تعداد کا شمار کرنے والے ، اے نقل الاقدام، اے من السرعندہ اعلانیہ، اے قدموں کی چاپ کو شمار کرنے والے، اے وہ جس کے پاس رات ظاہر ہے، اے مبدی ، اے معید، اے آغاز والے، اے واپس لوٹانے والے، اے پلٹانے والے،
اسالک بحقک علی خیرتک من خلقک
میں تجھ سے تیرے اس حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنی مخلوق میں سے اپنے منتخب کےلئے قرار دیاہے۔
وبحقهم الذی اوجبت لهم علی نفسک ان تصلی علی محمدواهل بیته
اور ان کے اس حق کا واسطہ جس کو تو نے ان کی خاطر اپنے اوپر لازم قرار دے رکھا ہے کہ اے اللہ تو محمد اور اہل بیت علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج
وان تمن علی الساعة بفکاک رقبتی من النار
اور یہ کہ تو اسی گھڑی میں میری گردن کو آتش جہنم سے آزاد قرار دے
وانجزلولیک وابن نبیک الداعی الیک باذنک
اور اپنے ولی کے لئے اپنے نبی کے بیٹے کے لئے جو تیری جانب تیرے اذن سے دعوت دینے والا ہے اس کے اپنا وعدہ پورا کردے
امینک علی خلقک وعینک فی عبادک
لہٰذا وہ ولی جو تیری مخلوق میں تیرا امین ہے اور تیرے بندگان میں تیری آنکھ ہے
وحجتک علی خلقک علیه صلواتک وبرکاتک وعنده
اور وہ تیری حجت ہے تیری مخلوق پر اس پر تیری صلوات اور برکات ہوں
اللهم ایده ینصرک وانصر عبدک
اے اللہ اپنی نصرت سے اس کی تائید فرما، اپنے بندے کی مدد فرما
وقواصحابه وحیرهم وافتح
اس کے اصحاب کو طاقتور بنا اور انہیں صبر عطا فرما اور تو
لهم من لدنک سلطانا نصیراً
اس کے لئے اپنی جناب سے کامیاب سلطانی کے راستے کھول دے
وعجل فرجه، وامکنه من اعدائک
اس کے ظہورمیں جلدی فرما دے اور انہیں اپنے دشمنوں سے آگہی دے اور ان پر رسائی دے دے۔
واعداءرسولک، یاارحم الراحمین
وہ جو تیرے رسول کے دشمن ہیں، اے ارحم الراحمین
راوی: میں نے سوال کیا کہ آپ نے اس دعا میں اپنے لئے دعا نہیں مانگی میں آپ پر قربان جاوں ۔
امام علیہ السلام: میں نے نور آل علیہ السلام محمد کے لئے دعا کی ہے جو ان پر سبقت لے جانے والا ہے اور اللہ کے امر سے ان کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے۔
راوی:ان کا خروج کب ہوگا اللہ مجھے آپ پرقربان کردے۔
امام علیہ السلام: جس وقت اس ذات کی مرضی ہوگی جس کے قبضہ میںحق ہے امر ہے۔
راوی: کیا ان کے خروج سے پہلے کوئی علامت اور نشانی بھی ہے۔
امام علیہ السلام: بہت ساری متفرق نشانیاں ہیں۔
راوی: مثال کے طور پر کچھ بیان کریں، کس قسم کی؟
امام علیہ السلام:مشرق سے پرچم کا خروج اور مغرب سے پرچم کا خروج، ایسا فتنہ جو اہل زورائ(بغداد) کو گمراہ کر دے گا، یمن سے میرے چچازید کی اولاد سے ایک کا خروج، کعبہ کے غلام کا لوٹا جانا اور اللہ کی جو مشیت ہوتی ہے اسی نے ہوناہے....
(النجم الثاقب ج ۲ ص ۸۵۴)( بحارالانوار ج ۶۸ ص ۲۶)
فلاح السائل میں سیدالاجل جناب علی بن طاووس ؒ نے بیان کیا ہے ”نماز عصر کے بعد اہم دعا عروہ ہے جسے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پڑھتے تھے کہ ہم اپنے مولانا حضرت امام زمانہ(عج) کے لئے اس دعا کو پڑھاکریں۔
راوی: میں بغداد میں حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا، اس وقت آپ علیہ السلام نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب پھیلا دیا میں نے سنا کہ آپ علیہ السلام یہ کلمات پڑھ رہے تھے
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السام کی نماز عصر کے بعد امام زمانہ کے لئے دعا
انت لا اله الاانت الاول والآخر
تو اللہ ہے تو لاالہ الا توں ہے، اول بھی توں ہے آخر بھی توں ہے
والظاهر والباطن، وانت الله لااله الاانت
ظاہر بھی توں ہے باطن بھی توں ہے اور تو اللہ ہے ،سوائے تیرے کوئی اور الہ نہیں
الیک زیادة الاشیاءونقصانها، وانت الله لااله انت
چیزوں کا بڑھنا بھی تجھ سے ہے ان کا گھٹنا بھی تجھ سے ہے اور تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں
خلقت خلقک بغیر معونة من غیرک ولاحاجة الیهم
تو نے اپنی مخلوق کو بغیر اپنے غیر سے مدد لئے خلق فرمایا ہے مخلوق سے تیری کوئی حاجت نہیں ہے
وانت الله لا اله الاانت منک المشیة والیک البدائ
اور توں اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے، تجھ سے مشیت ہے اور تجھ سے واپسی ہے، مشیت بھی تیری اور مشیت سے واپسی بھی تیری ہے
انت الله لااله الاانت
تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے
بعدالبعد خالق البعد
تو بعد کے بعد ہے اور ہر بعد اور بعد کا خالق ہے
انت الله لا اله الا انت
توں اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے
تمحوماتشاءوتثبت وعندک ام الکتاب
تو جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جسے چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے تیرے پاس ام الکتاب ہے
انت الله لا اله الا انت
توں اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے
غایة کل شئی و وارثه
تو ہر چیز کی غایت ....ہے اور ہر چیز کا وارث ہے
انت الله لا اله الا انت
توں اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے
لایعزب عنک الدقیق والجلیل
تجھ سے نہ کوئی باریک چیز چھوٹتی ہے اور نہ ہی بڑی چیز
انت الله لا اله انت
تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے
لاتخفی علیک اللغات ولاتشابه عنک الاصوات
مختلف زبانیں تجھ سے پوشیدہ نہیں اور مختلف آواز میں نشابہ نہیں ہوتا
کل یوم انت فی شان لاتشغلک شان عن شان
ہر روز تو ایک ہی شان میں ہے اور کوئی حالت دوسری حالت سے تجھے مصروف نہیں کرتی
عالم الغیب واحفی
غیب اور مخفی ترین چیز کا توں عالم ہے
دیان یوم الدین
یوم حساب میں حساب لینے والا ہے
مدیر الامور
تمام امور کی تدبیر کرنے والا تو ہے
باعث من فی القبور
جو قبروں میں ہیں انہیں تو ہی اٹھانے والا ہے
مجی العظام وهی رمیم
ہڈیاں جب کہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی ان کو زندہ کرنے والا توں ہے
اسالک ان تصلی علی محمدوآل محمد وان تعجل فرج
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمدوآل محمد پر صلوات بھیج اور یہ کہ اس کے ظہور
المنتقم من اعدائک وانجزله ماوعدته یاذالجلال والاکرام
میں جلدی فرما دے جو تیرے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے اور تو نے اس سے جو وعدہ فرمایا ہوا ہے اسے توجلد پورا کر دے اے ذوالجلال والاکرام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: آپ علیہ السلام نے اس کے بعد یہ جملے فرمائے۔
راوی:میں نے سوال کیا کہ آپ نے یہ دعا کس کے لئے کی ہے آپ کا مقصد کون تھے؟
امام علیہ السلام: مہدی آل محمدعلیہم السلام وعجل فرجہ و سھل مخرجہ ،مقصود تھے۔
اس کے بعد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے یہ جملے ارشاد فرمائے:
بابی المنتدح البطن المقرون الحاجبین اخمشی الساقین، بعید مابین المنکبین، سمراللون یعتوره مع سمرته صفرة من سهراللیل، بابی من لیله یرعی النجوم ساجدا وراکعا، بابی من لایاخذه فی الله لومة لائم، مصباح الدجی، بابی القائم بامرالله
۔(فلاح السائل ص ۹۹۱)
ترجمہ:۔ میرے باپ قربان اس پر جو کشادہ بطن والے، دونوں ملے ہوئے حاجبوں والے، پتلی پنڈلیوں والے، جن کے دونوں کاندھوں کے درمیان فیصلہ ہے، بھورے، گندمی رنگ والے کہ بھوری رنگت کے ساتھ زرد چھائی ہے جو شب بیداری کی وجہ سے ہے میرے باپ اس پر قربان جائیں جس کی رات اس طرح گزرتی ہے کہ رات کے تارے انہیں سجدے اور رکوع کرتے ہوئے دھیان سے نظارہ کرتے ہیں میرے باپ ان پر قربان جنہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کٹھکا نہ ہوگااور نہ ہی پرواہ ہو گی ،تاریکیوں کے لئے چراغ، میرے باپ قربان قائم بامراللہ پر۔
خعلامہ مجلسیؒ نے المقیاس میں صبح کی نماز کے بعد ایک سو مرتبہ اس صلوات کو پڑھنے کا لکھا ہے ، وہ صلوات یہ ہے کسی سے گفتگو کئے بغیر یہ صلوات پڑھے۔
یارب صل علی محمد وآل محمد وعجل فرج آل محمد واعتق رقبتی من النار
اے رب!محمد وآل محمد پر صلوات بھیج اور آل محمد کے ظہور میں جلدی فرمااور میری گردن کو آگ سے آزاد کردے
خالبحار میں ایک لمبی دعا علامہ مجلسیؒ نے ذکر کی ہے جسے ہم نے اپنی کتاب ابواب الفات فی آداب، الجہات میں تحریر کیا ہے یہ دعا بہت ہی عمدہ مطالب پر مشتمل ہے اسے باقاعدہ پڑھنا چاہئے اس دعا میں درج ذیل جملے قابل توجہ ہیں
اللهم کن لولیک فی خلقک ولیا و حافظاوقائدا وناصراً حتی تسکنه ارضک طوعا وتمتعه منها(
فیها)
طویلا وتجعله وذ ریته فیها الائمة الوارثین واجمع شمله واکمل له امره والح له رعیته وثبت رکنه وافر النصر(
البصر)
منک علیه حتی ینتقم فیشتفی ویشفی حزازات نغلة وحرارات صدور وغرة وحسرات انفس ترجة، من دماءمسبغوله وارحام مقطوعة، وطاعة مجهول قد احسنت الیه ووسعت علیه الا لاءواتممت علیه النعماءفی حسن الحفظ منک له
اللهم آنقه هول عدوه و انسهم ذکره و اردمن الاده، وکدمن کاده، وامکربمن مکربه، واجعل دائرة السوءعلیهم
....دعا کے آخر تک
حضرت امام ابوالحسن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے ہے کہ آپ نے حضرت حجت صاحب الزمان علیہ السلام کے لئے درج ذیل دعا پڑھنے کا حکم دیا اور آپ خود اس دعا کو حضرت صاحب الزمان (عج)کے لئے پڑھتے تھے۔
دعا اس طرح ہے:
”اللهم صل علی محمد وآل محمد وادفع عن ولیک وخلیفتک
اے اللہ محمد وآل محمد پر صلوات بھیج اور توں اپنے ولی، اپنے خلیفہ
وحجتک علی خلقک، ولسانک المعبرعنک
اور وہ جو تیری مخلوق پر تیری حجت ہے اور تیری ترجمان زبان ہے
الناطق بحکمتک وعینک الناظره فی بریتک
جو تیری حکمت کو بیان کرنے والے ہیں اور جو تیری مخلوق کو دیکھنے والی تیری آنکھ ہیں
وشاهدک علی عبادک،الحججاج المجاهد المجتهد
اور تیرے بندگان پر تیراگواہ ہے، جو بہت ہی بڑے، محنت کرنے والے مجاہد ہیں
عبدک، العائذبک، العابد عندک(
وادفع عنه)
واعذه
تیرا بندہ ہے، جو تیری پناہ میں ہے، جو تیری جناب میں عابد ہے تو اپنے اس ولی سے دور کر دے اور اپنے اس ولی کو اپنی پناہ میں لے لے
من شرما خلقت وذرات و برات صورت
ہر اس شر سے جسے تو نے خلق کیا، جسے تو نے پیدا کیا، جسے تو نے بنایا، جسے تو نے قراردیا جس کی تو نے تصویر بنائی شر کی تمام اقسام کو اس سے دور کردے
واحفظه من بین یدیه ومن خلقه
اے اللہ! اس کی اس کے سامنے سے حفاظت فرما، اس کی پیچھے سے حفاظت فرما
وعن یمینه، وعن شماله
اس کی دائیں جانب سے حفاظت فرما، اس کی بائیں جانب سے حفاظت فرما
ومن فوقه ومن تحته
اور اس کی اوپر سے حفاظت فرما اس کی نیچے سے حفاظت فرمایعنی ہرشش جہات سے تواے اللہ! ان کی حفاظت فرما
حفظک الذی لایضیع من حفظه
اپنی اس قسم کی حفاظت کے ذریعہ کہ تو نے اس طرح جس کی حفاظت کی وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا
واحفظ فیه رسولک
اور اس کی حفاظت سے اپنے رسول کی حفاظت فرما
ووصی رسولک وآبائه آئمتک ودعائم دینک
اور ان کی حفاظت سے اپنے رسول کے وصی علیہ السلام اور اس کے آباءجو کہ تیرے آئمہ علیہ السلام ہیں اور تیرے دین کے ستون ہیں ان سب کی حفاظت فرما
صلواتک علیه وعلیهم اجمعین
تیری صلوات اس پرہو اور ان سب پرہو
واجعله فی ودیعتک الوثیق الذی لایخذل
اور انہیں اپنی اس مضبوط امان گاہ میں قرار دے دے کہ جس سے کوئی اسے رسوا نہ کرے
من امنته به واجعله فی کنفک الذی
کیونکہ وہ امان جس کو ملے وہ رسوائی سے محفوظ رہا اور اے اللہ اسے اپنی اس مضبوط غار میںاورٹھکانہ میں
لایضام من کان فیه والضره بنصرالعزیز
قرار دے دے کہ جو اس میں موجود ہو تو اس پر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا اور اے اللہ اپنی اس
وابده بجندک الغالب وقوه بقوتک
غلبہ والی مدد سے ان کی مدد کر دے کہ جس میں شکست نہیں اور اپنے اس غالب اور
واردفه بملائکتک
کامیاب لشکر سے اس کی تائید فرما اور اپنی طاقت سے اسے قدرت مند بنا اوراپنے فرشتوں کو اس کے ساتھ قرار دے دے
اللهم وال من والاه و عاد من عاداه
اے اللہ! اس سے موالات رکھ جو اسے دوست رکھے جواس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ
البسه ورعک الحصینه
اور اسے اپنی مضبوط و مستحکم زرہ پہنا دے
وحفه بالملائکة حقًا
اور سارے فرشتوں کو اس کے گرداگرد قرار دے دے
اللهم وبلغه افضل مابلفت القائمین بالقسط
اے اللہ! اس کو ایسی بہتر حالت میں پہنچا دے کہ جس پر عدالت کے
من اتباع البنین
کے نفاذ کرنے والوں کو تو نے پہنچایا کہ وہ سارے نبیوں کی پیروی کرنے والے ہیں
اللهم اشعب به الصدع وارتق به الفتق
اے اللہ! ان کے وسیلہ سے فراغ کو بھر دے اور سازشوں کا ان کے ذریعہ سے توڑ کر دے
وامت به الجور
ان کے ذریعہ ظلم کو مار ڈال اوراس کا خاتمہ کر دے
واظهر به العدل
ان کے وسیلہ سے عدالت کا اظہار فرما دے
وزین بطول بقائه الارض
ان کی لمبی بقاءسے زمین کوزینت عطا فرمایا، اسے بارونق فرما
وابده بالنصر، وانصره بالرعب
ان کی اپنی نصرت سے تائید فرما، رعب کے وسیلہ سے ان کی مدد فرما
وافتح له فتحا یسیرا
اس کے لئے آسان سی فتح قرار دے
واجعل له من لدنک سلطانا نصیرا
ان کے لئے اپنی جناب سے فتح و کامیابی و کامرانی عطا فرما دے
اللهم اجعله القائم المنتظر
اے اللہ!اسے قائم منتظر قرار دے
والامام الذی به تنتصر
اور وہ امام قرار دے جس کے ذریعہ تیری کامیابی ہو گی
وابده ینصر عزیر
اپنی غلبہ والی نصرت سے اس کی تائید فرما
و فتح قریب
اور نزدیکی فتح سے ان کی تائید فرما
وورثه مشارق الارض و مغاربها
اور انہیں زمین کے مشارق و مغارب کا وارث بنا دے
والارض التی بارکت فیها
وہ زمینیں جن کو تو نے بابرکت بنایا ہے
واحی به ستة نبیک صلواتک علیه وآله
ان کے وسیلہ سے اپنے نبی کی سنت کو زندہ کر دے محمدوآل محمد پر صلوات ہو
حتی لایخفی شئی من الحق مخالفة احد من الخلق
ایسا ہو جائے کہ حق کا کچھ بھی پوشیدہ نہ رہے مخلوق میں کسی کے ڈر کی وجہ سے یعنی سارا حق سامنے آجائے حق کسی کے ڈر سے مخفی نہ رہے
وقوناصربیه واخذل جاذبیه
اس کے ناصروں کو طاقتور بنا، اس سے بے وفائی کرنے والوں کو رسوا کر دے
علی من نصب له
اور جو ان کی دشمنی کرے ان پر خون کی بارش برسا دے
ودمر علی من غشه
اور جو ان سے دھوکہ کرے اسے برباد کر دے
اللهم واقتل به جبابرة الکفر وعمده ودعامه واقصم به
اے اللہ! ان کے وسیلہ سے کفر کے بڑے بڑے جابروں اور ان کے بڑے سپوتوں کو قتل کر دے ان کے لئے جو مضبوط سہارے ہیں انہیں برباد کر دے
واجتثث رووس الضلالة
اور ان کے وسیلہ سے گمراہی کے سروں کو رگڑ دے انہیں توڑ دے
وشارعة البدع وممیتة السنة و مقویة الباطل
اور وہ جنہوں نے بدعت شروع کی سنت کا خاتمہ کیا اور باطل کو مضبوط کیا
واذلل به الجبارین
ان کے ذریعہ سارے جابروں کو ذلیل و رسوا کر دے
وابربه الکافرین والمنافقین وجمیع الملحدین
ان کے ذریعہ سارے کافروں کو، سارے منافقوں کو، سارے ملحدوں کو
حیث کانوا واین کانوا، من مشارق الارض
مار ڈال وہ جہاں بھی ہیں جس وقت میں ہوں زمین کے مشارق
ومغاربها، برها و بحرها،سهلها وجبلها
مغارب سے ہوں خشکی و تری سے ہوں میدانوں اور پہاڑوں سے ہوں، ان کا صفایا کر دے
حتی لاتدع منهم دیارا
یہاں تک کہ ان سے کوئی بھی گھر باقی نہ رہے
ولاتبقی لهم اثاراً
اور ان کے نشانات سے کچھ باقی نہ رہے
اللهم طهرمنهم بلادک
اے اللہ! ان کے منحوس وجود سے اپنے شہروں کو پاک کر دے
واشف منهم عبادک
اپنے بندگان کو ان کے شر سے نجات دے دے
واعزبه المومنین واحی سنن المرسلین
انکے ذریعہ مومنوں کو عزت دار بنا دے اور انکے وسیلہ سے رسول کی سنتوں کو مضبوط کر دے
ودارس حکم النبین ،وجددبه ما امتححی من
اور نبیوں کے حکم کو جاری کر دے اور ان کے ذریعہ اس چیزکی تجدید فرما دے جو تیرے دین سے محو ہو چکی ہیں
دینک، وبدل من حکمک
اور جو تیرے حکم میں تبدیلی آچکی ہے اس کی دوبارہ تجدید ہو جائے گی
حتی تعیددینک به وعلی یدیه غضاجدید اصحیحیامحضاً
تاکہ تو اپنے دین کو ان کے ذریعہ دوبارہ اصلی شکل میں لے آئے
لاعوج فیه ولابدعة معة
اس طرح کہ دین تروتازہ ہو، اس میں کوئی خرابی نہ ہو، ٹیڑھا پن نہ ہو کوئی بدعت باقی نہ رہے، خالص دین، صاف ستھرا دین، نیا اور تازہ دین، اصل دین ہو
حتی تنیز بعدله ظلم الجور،وتطفی به نیزان
تاکہ ان کے عدل سے ظلم اورتاریکیوں کو روشن کر دے اور ان کے
الکفر و توضیح به معاقد الحق به ومجهول العدل
وسیلہ سے کفر کی بھڑکتی آگ کو بجھا دے اور ان کی وجہ سے حق کے مراکز
وتحل مشکلات الحکم
کو ظاہر اور روشن کر دے اور نامعلوم عدل کو غلبہ دے دے بھولا عدل واپس لے آاور فیصلہ کرنے کی مشکلات ان کے ذریعہ حل کر دے
اللهم وانه عبدک الذی استخلصته لنفسک
اے اللہ وہ تو تیرا بندہ ہے جسے تو نے اپنی ذات کے لئے خالص کر لیا ہے
واصطفیته من خلقک، واصطفیته علی عبادک
اور اپنی مخلوق سے اسے چن لیا ہے اور انہیں اپنے بندوں پر مصطفی بنایا ہے
وامنته علی غیبک
اور تونے اسے اپنے غیب پر امین قرار دیا ہے
وعصمته من الذنوب
اسے تو نے گناہوں سے معصوم بنایا ہے
وبرائة من العیوب
اسے تو نے عیبوں سے پاک بنایا ہے
وطهرته من الرجس
اور اسے ہر قسم کی ظاہری اور باطنی پلیدگی سے پاک بنایا ہے
وصرفته عن وسلمته من الانس
اور اس سے کثافت اور غلاظت کو دور رکھا ہے اور انہیں ہر پلیدگی سے ہر نقص سے صحیح وسالم بنایا ہے
وسلمته من الریب
اور اسے ہرشک سے محفوظ رکھا ہے
اللهم انا نشهدله یوم القیامة یوم حلول الطامه
اے اللہ!ہم قیامت کے دن یہ گواہی دیں گے جو کہ بڑا دن ہوگا
انه لم یذنب ذنباولم یات حوبا
کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیااور کسی بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کیا
ولم یرتکب لک معصیة
اور یہ کہ اس نے تیری بالکل نافرمانی نہیں کی
ولم یضیع لک طاعة
اور اس نے تیری اطاعت کو ضائع نہیں کیا
ولم یهتک لک حرمة
اور تیرے کسی محترم کی ہتک اس نے نہیں کی
ولم یبدل لک فریضة ولم یغیریک شریعة
اور اس نے نہ تو تیرے کسی فریضہ کو بدلا ہے اور نہ ہی تیری شریعت کوتبدیل کیاہے
وانه الامام التقی الهادی المهتدی الطاهر النقی الوفی الرضی الزکی
اور یہ کہ وہ امام ہیں، جو نقی ہیں، ھادی ہیں،خود ہدایت یافتہ ہیں، طاہر ہیں، نقی ہیں، وعدہ وفاکرنے والے ہیں، پسندیدہ ہیں، زکی اورپاکیزہ ہیں
اللهم صل علی محمد وعلیٰ آبائه
اے اللہ!اس پر اور ان کے آباءپرصلوات بھیج
واعطه فی نفسه وولده واهله وذریته وامته
اے اللہ اسے اپنی ذات کے حوالے سے،بیٹوں کے حوالے سے ،اپنے خاندان
وجمیع رعیته ماتقربه عینه وتسره به
کے حوالے سے اپنی ذریت کے حوالے سے اپنی امت اور رعیت کے حوالے وہ کچھ عطا کر دے جس سے انہیں سکون ملے، ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان حالات سے انہیں مسرت اور خوشحالی ملے
وتجمع له الملکات کلها
اے اللہ!ساری مملکتیں ان کے لئے اکٹھی کر دے
قریبها وبعیدها عزیز ها وذلیلها
جو قریب ہیں وہ بھی، جو دور ہیں وہ بھی، جو طاقتور ہیں وہ بھی، جو کمزور ہیں وہ بھی
حتی یجری حکمه علی کل حکم
تاکہ وہ اپنے حکم سارے احکام فوقیت دے دے اور سب پر حاوی کر دے
ویغلب بحقه علی کل باطل
اور اپنے حق کو ہر باطل پر غلبہ دے دے
اللهم اسلک بنا علی یدیه منهاج الهدیٰ
اے اللہ!ان کے ہاتھوں پر ہمیں ہدایت کے راستہ پر چلا
الحجة العظمی والطریقة الوسطی الٰهی یرجع الیها
ہمیں حق کی بڑی شاہرہ پر چلا دے اور اس وسطانی راستہ پر لگا دے
المعالی ویلحق بها التالی
کہ آگے بڑھ جانے والے اس پر پلٹ آئیں اور پیچھے رہ جانے والے بھی اس پر آئیں
اللهم وقونا علی طاعته
اے اللہ! ہمیں ان کی اطاعت کی طاقت عطا فرما
وثبتنا علی مشایعته
اور ہمیں اس کی پیروی پر ثابت اور مستحکم رکھ
وامنن علینا بمتابعته
اور ہمارے اوپر ان کی اتباع کرنے کا احسان کر دے
واجعلنا فی حزبه
ہمیں ان کی پارٹی سے قرار دے
القوامین بامره
ان میں سے بنا جو ان کے حکم کو نافذ کرنے والے ہوں
الصابرین معه
ان کے ساتھ صبر کرنے والوں سے بنا
والطالبین رضاک بمناصحة
اور ان سے بنا جو تیری رضا کو ان کی خیرخواہی کے وسیلہ سے حاصل کرنے والے ہیں
حتیٰ یحشرنا یوم القیمة من انصاره واعوانه ومقوبه سلطانه
تاکہ توں قیامت کے دن ہمیں ان کے ناصران سے قرار دے ان کے معاونت کاروں سے اور ان کی سلطنت کو مضبوط کرنے والوں سے قرار دے
اللهم صل علی محمد وآل محمد
اے اللہ! محمد و آل محمد پر صلوات بھیج
اللهمواجعل ذلک لناخالصا من کل شک وشبهة وریاءوسمعة
اور یہ سب کچھ ہمارے ہر قسم کے شک و شبہ، ریاکاری،شہرت کاروںسے خالص اور پاک عمل قرار دے
حتی لاتعتمدبه غیرک
تاکہ ہم ان کے ذریعہ پھر تیرے غیرپر اعتماد نہ کریں
ولایطلب به الاوجهک
اور ان کے واسطے سے ہم تیری جناب تک رسائی کے لئے جائیں
حتی تحلنا محله وتجعلنا فی الجنة
تاکہ تو ہمیں ان کا قائم مقام بنا دے اور تو جنت میں ہمیں
معه ولا تجعلناا فی امره بالسا مة والکسل
ان کے ساتھ قرار دے اور توں ہمیں ان کے معاملہ میں سستی، کاہلی، بے رخی، بے توجہی، نالائقی اور
والفترة والغفلة
کمزوری جیسے امور میں مبتلا مت فرما
واجعلنا ممن تنتصربه لدینک
اور تم ہمیں ان سے قرار دے جن کے ذریعہ تو اپنے دین کی مدد کرے گا
وتعزبه نصرولیک
اور جن کے ذریعہ توں اپنے ولی کی نصرت کو مضبوط کرے گا
ولا تستبدل بنا غیرنا فان استبدالک بناغیرنا
اے اللہ! ہماری جگہ کسی اور کو قرار نہ دے کیونکہ ایسی تبدیلی تیرے لئے معمولی ہے
علیک یسیروهوعلینا کثیر، انک علی کل شی قدیر
جب کہ ہمارے واسطے یہ بڑی بات ہو گی اور توں تو ہرچیز پر قادر ہے
اللهم صل علی ولاة عهده
اے اللہ! ان کے زمانہ کے والیوں پر صلوات بھیج
وبلغهم آمالهم وزدفی آحالهم وانصرهم
اے اللہ! ان کی ساری امیدوں کو پورا کر دے، ان کی عمریں بڑھا دے
وتمم لهم مااسندت الیهم من امر دینک
ان کی مدد کر اور اپنے دین کے معاملہ میںجو تونے ان کے سپرد کیا ہے تو وہ سب کچھ ان کے لئے پورا کر دے
واجعلنا لهم اعوانا و علی دینک انصارا وصل
اور ہمیں ان کے لئے اعوان بنا اور اپنے دین کے ناصر قرار دے اور
علی آبائه الطاهرین الآئمة الراشدین
ان کے آباءپرجو طاہرین ہیں ، آئمہ ہیں، راشدین ہیں صلوات بھیج
اللهم فانهم معادن کلماتک وخزان علمک
اے اللہ! وہ تو سب تیرے کلمات کے معادن ہیں تیرے علم کے خزانہ دار ہیں
وولاة امرک وخالصتک من عبادک
تیرے امر کے اولیاءہیں اور تیرے بندگان سے خالص ہیں اور
خیرتک من خلقک واولیائک وسلائل اولیائک
تیری مخلوق سے منتخب شدہ ہیں اور تیرے اولیاءہیں اور بڑے اولیاءکی نسل سے ہیں
وصفوتک واولاد اصفیائک
تیرے خالص چنے ہوئے ہیں تیرے اصفیاءکی اولاد سے ہیں
صلواتک و رحمتک وبرکاتک علیهم اجمعین
تیری صلوات ، تیری رحمت اور تیری برکات ان سب پر ہوں
اللهم وشرکائه فی امره
اے اللہ! اور وہ افراد جو ان کے امر حکومت میں ان کے شریک ہیں
ومعاونیه علی طاعتک
اور تیری اطاعت میں اس کے معاونین ہیں
الذین جعلتهم حصنه وسلاحه ومفزعه وخیرالوسیله
جن کو تو نے اس کے واسطے مضبوط ڈھال بنایا اس کا اسلحہ قرار دیا ہے اس کی پناہ بنایا ہے اور اس کے خیرکا وسیلہ بنایا ہے
الذین سلواعن الاهل والاوالاد
جنہوں نے اپنے خاندان اور بچوں کو چھوڑ دیا
تجافوا الوطن وعطلوا الوتر من المهاد
جنہوں نے وطن کو چھوڑدیا اپنے آرام کو خیرباد کہہ دیا
قدر فضوا تجار اتهم واضروا بمعالیشهم
جنہوں نے اپنی تجارتیں ، کاروبار،سب کو داو پر لگا دیا
فقد و امن اندیتهم بغیرغیبة عن معدهم
وہ کلبوں سے غائب رہے باوجودیکہ شہروں میں موجود تھے جب کہ وہ اپنے مرکز سے غائب نہ رہے
وحالفوا البعیدمن عاضدهم علی امرهم
انہوں نے نئے دور والوں سے تعاون کا پیمان باندھاجن کے بارے انہوں نے دیکھا کہ وہ اس کے لئے مضبوط سہارا ان کے پروگرام میں رہیں گے
خالفوا القریب ممن صدعن وجهتهم
انہوں نے اپنے قریبی مکی مخالفت کی اس وجہ سے کہ وہ انہیں ان کے مشن سے روکتے تھے
وابتلغوا بعدالندا بروالتقاطع فی دهرهم
انہیں اپنے زمانہ میں آگے پیچھے ہونا پڑاروابط جوڑنے اور توڑنے پڑے اس کے بعد ہی وہ یکجا ہو سکے
وقطعوا الاسباب المتصله بعاجل حطام الدنیا
دنیا سے متصل رکھنے والے اسباب ووسائل کو انہوں نے کاٹ ڈالا
فاجعلهم اللهم فی حرزک و فی ظل کنفک
اے اللہ!انہیں اپنی امان میں رکھ اور اپنی پناہ کے سایہ میں رکھ
وردعنهم با س من قصدالیهم بالعداوة من خلقک
اور تیری مخلوق سے جو بھی ان سے دشمنی کا ارادہ رکھتا ہے اس کی سختی کو، اس کی سازش کو ان سے دور رکھ
واجزل لهم من دعوتک من کفایتک ومعونتک
اے اللہ! تیری جانب جو وہ دعوت دے رہے ہیں اس میں تیری مدد ان کے
لهم وتائیدک ونصرک ایاهم ما تکفیهم به
لئے کافی ہے اور تیری تائید، تیری مدد، فراوان ان کے لئے جاری رہے
علی طاعتک
کہ تو اس طرح اپنی اطاعت کے لئے ان کی مدد فرمائے
وازهق بحقهم باطل من اراداطفاءنورک
وہ باطل جو تیرے نور کو بجھانے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے حق کے وسیلہ سے اس باطل کو برباد کردے
وصل علی محمدوآل محمد، وآملاءبهم کل افق
محمد وآل محمد پر صلوات بھیج اور ان کے ذریعہ تمام آفاق میں
من الافاق و قطر من الاقطار قسطا وعدلاومرحمة وفضلا،
سارے خطوں میں عدل اور انصاف سے بھر دے اپنی رحمت اورفضل وکرم کا راج کر دے
واشکرلهم علی حبیب کرمک وجودک ومامننت به
اپنے کرم وجود کے مطابق اور جو کچھ تو نے اپنے بندگان میں سے انصاف
علی العالمین بالقسط من عبادک
نافذ کرنے والوں پر احسان کیا ہے ایسا ہی ان کے لئے کر دے
وادخرلهم من لوائک ماترفع لهم به الدرجات
اور ان کے لئے اس ثواب کو ذخیرہ کر دے جس کے ذریعہ تونے انہیں
انک تفعل ماتشاءوتحکم ماتریدا آمین رب العالمین
ان درجات تک پہنچایا کہ جس کے لئے توں چاہتا ہے ایسا کرتا ہے اور جو تیرا ارادہ ہوتا ہے اس کے مطابق حکم دیتا ہے خدایا یہ دعا قبول فرما۔(مکیال المکارم ج ۲ ص ۱۱،۵۱،۸۳)
حضرت امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لئے دعا مانگنے کا طریقہ
(علامہ الاصفہانی نے اپنی بہت ہی نفیس اور قیمتی کتاب جو انہوںنے خواب میں امام زمانہ علیہ السلام کی ہدایت ملنے پر تحریر کی اور یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ساری کتاب دعا کے بارے میں ہے کہ امام زمانہ (عج) کے لئے دعا مانگنا کیوں ضروری ہے؟ اس کا کیا فائدہ ہے؟ دعا کا انداز کیا ہونا چاہیے اور کون سی دعائیںپڑھی جائیں حروف تہجی کے لحاظ سے احادیث روایات، اقوال علماءسے نقل کئے ہیںاس بحث کو بہت ہی تفصیل سے بیان کیا ہے یہ کتاب عربی میں ہے....ازمترجم)
علامہ اصفہانی صاحب امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا مانگنے کی کیفیت کے بارے میں چند نقاط اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
۱ ۔ اللہ تعالیٰ سے واضح بیان کے ساتھ سوال کرے۔ فارسی میں،عربی میں یا کسی اور زبان میں اس طرح کہے ”اللھم عجل فرج مولانا صاحب الزمان “اے اللہ! ہمارے مولا صاحب الزمان علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما یاعجل اللہ تعالیٰ فرجہ وظہورہ
۲ ۔ اللہ تعالیٰ سے آل محمدعلیہم السلام کے ظہور کا سوال کرے کیونکہ آل محمد کے ظہور کا وسیلہ امام زمانہ علیہ السلام کاظہورہے جیسا کہ دعاوں اور مناجات میں آیا ہے۔
۳ ۔ سارے مومنین اور ساری مومنات یا سارے اولیاءکے کشائش کے لئے اللہ سے سوال کرے کیونکہ امام زمانہ (عج) کے ظہورسے ہی سب کی کشائش ہو گی۔جیسا کہ روایت میں ہے ۔
۴ ۔ جو بھی امام زمانہ(عج) کے لئے دعا کرے تواس دعا کوسننے والا آمین کہے اے اس دعا کو اللہ قبول فرما، لفظ آمین بھی دعا ہے اس میں دعا مانگنے والا اور دعا کی قبولیت کے لئے سوال کرنے والا دونوں دعا میں شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ روایت میں ہے۔
۵ ۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے، اے اللہ جو امام زمانہ(عج) کے ظہور کی تعجیل واسطے دعائیں کر رہے ہیں ان کی دعائیں قبول فرما، یہ سوال کرنے میں ضروری نہیں کہ انسان دعا پڑھنے والوں کی دعا سن رہا ہواور اس میں فرق یہ ہے کہ آمین وہاں بولا جائے گا جہاں پر انسان دعا پڑھنے والے کے ساتھ موجود ہو اور دعا کو سن رہا ہوں جب کہ دوسری صورت میں ایسا نہیں ہے۔
۶ ۔ اللہ سے سوال کرے اے اللہ!ان اسباب کو پورا کر دے جس سے ظہور میں جلدی ہو سکے۔
۷ ۔ اللہ سے ان رکاوٹوں کے دور کرنے کا سوال کرے جو آپ علیہ السلام کے ظہور میں حائل ہیں۔
۸ ۔ ان گناہوں کی معافی خدا سے طلب کرے جو گناہ دعاءمانگنے والے یا اہل ایمان سے سرزد ہوتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔
۹ ۔ اللہ سے سوا ل کرے کہ اللہ مجھے ایسے گناہوں سے بچا کر رکھ جو ظہور میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔
۰۱ ۔ امام زمانہ(عج) کے دشمنوں کی ہلاکت کا سوال کرے کہ جن کا وجود امام زمانہ (عج)کے ظہور میں تعجیل کے لئے رکاوٹ ہے۔
۱۱ ۔ اللہ سے سوال کرے کہ ظالموں کا ہاتھ مومنوں سے کاٹ دے، مومنوں کو ان کے شر سے بچائے کیونکہ یہ ان کے امام منتظر کے ظہور کی برکت سے ہی ہوگا۔
۲۱ ۔ زمین کے مشارق و مغارب میں عدالت عام ہو جانے کا اللہ سے سوال کرے کیونکہ یہ اسی وقت ہو گا جب حضرت صاحب الزمان (عج)کا ظہور ہوگا۔
۳۱ ۔ سوال کرے، اے اللہ!ہمیں سرور،خوشی،خوشحالی اور ہریالی دکھا دے“ یہ نیت رکھے کہ ایسا اسی وقت ہو گا جب حضرت کا ظہور ہو گا کیونکہ مکمل خوشحالی، ہر قسم کی ہریالی امن اور سکون مومن کے لئے حاصل نہ ہوگا مگر جب حضرت قائم آل محمد(عج) کا ظہور ہوگا۔
۴۱ ۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے کہ اے اللہ! میرے اعمال کا اجر اور ثواب میرے زمانہ کے امام کے ظہور کی تعجیل کو قرار دے۔
۵۱ ۔ اس دعا کی توفیق خداوند سے مانگے یعنی اپنے مولا صاحب الزمان (عج) اور ان کے ظہور کی تعجیل کے وسیلہ سے مومنین کی مشکلات کے حل کی دعا کیونکہ سارے مومنوں کا اس پر انفاق ہو کہ ظہور کے لئے جو مطلوبہ مقدمات ہیں ان کو آسان بنا دے گا اور وہ اس مطلوب کے حصول کے لئے حسب رغبت سعی کرنے والا ہوگا۔
۶۱ ۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے کہ اے اللہ! دین کو سب پر غلبہ دے دے، اہل ایمان کو غالب کر دے ، اسلام کو تمام ادیان پر نصرت دے دے اور یہ اسی وقت حاصل ہو گا جب حضرت صاحب الزمان (عج) کا ظہور ہوگا،اسی اللہ کا وعدہ ہے، جیسا کہ روایات میں آیا ہے جو سورہ توبہ آیت ۳۳ کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں(البرھان ج ۲ ص ۱۲۱)
۷۱ ۔ اللہ سے سوال کرے کہ وہ دین کے دشمنوں سے انتقام لینے والوں سے ہو، اہل البیت علیہم السلام پرظلم کرنے والوں اور ان کے حقوق غصب کرنے والوں سے انتقام لینے والوں میں شامل ہو اور یہ اس وقت حاصل ہو گا جب حضرت امام منتظر علیہ السلام غائب عن الانظار کا ظہور ہوگا۔
۸۱ ۔ امام زمانہ(عج) پر صلوات پڑھے ان کے وسیلہ سے اللہ کی خاص رحمت طلب کرے کہ جس کی وجہ سے امام زمانہ(عج) کے لئے کشائش اور آپ کا ظہور جلدی ہو
کامل الزیارات میں جو صلوات آپ کے لئے روایت ہوئی ہے ان سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے باب میں ہے۔
آئمہ اطہار علیہم السلام میں سے ہر ایک پر صلوات پڑھنے کے بعد امام زمانہ(عج) کے لئے آیا ہے۔
اللهم صل علی حجتک وولیک القائم فی خلقک
اے اللہ! اپنی حجت پر اپنے ولی پر، جو تیری مخلوق میں قائم ہے ایسی
صلاة تامة نامیة تعجل بهافرجه
صلوات بھیج جوپوری ہو بڑھنے والی ہو ایسی صلوات کے جس کی وجہ سے
تضیره بها وتجعلنا معه فی الدنیا والآخرة
تو ان کے ظہورمیں تعجیل فرما دے اور تو ان کی مغفرت فرما دے اور اے اللہ توں ہمیں دنیا اور آخرت سب میں ان کے ساتھ قرار دے۔
۹۱ ۔ یہ سوال کرے کہ اے اللہ امام زمانہ(عج) سے کرب، پریشانی، رنج و غم کو دور کر دے ان کے قلب مبارک کو خوش کر دے انہیں سرور نصیب فرما دے کیونکہ ایسا اس وقت ہو گا جب آپ سارے ظالموں پر غالب آئیں گے اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کریں گے۔
۰۲ ۔ اللہ تعالیٰ سے سوال کرے کہ سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کے خون ناحق کا بدلہ چکانے کے ایام جلد لے یہ درحقیقت امام زمانہ(عج)کے ظہور پر نور سے ہی حاصل ہو گا آپ ہی خون حسین علیہ السلام کے انتقام کا نعرہ لے کر قیام کریں۔
(مکیال المکارم ج ۲ ص ۳۶،۴۶)
(دعا مانگنے کے لئے انسان کااپنے شخصی حقوق اور اپنے امام سے عشق اور محبت کی نوعیت اور آپ کے حالات سے آگہی اور آپ کی صفات اور خصوصیات کی معرفت سے ہے آپ نے تمام ظالموں سے بدلا لینا ہے ابتدائے انسانیت سے لے کر ظہور کے وقت تک جو بھی روئے زمین پرخون ناحق گرا ہے آپ نے اس کا بدلہ لینا ہے خاص کر آپ نے اپنی دادی زہراءسلام اللہ علیہا کو اذیت دینے والوں اور مظلوم محسن علیہ السلام شہید کے خون ناحق کا بدلہ بھی لینا ہے لہٰذا دعا میں اس کا بھی سوال کیا جائے۔
دعا جتنی تفصیل سے مانگی جائے گی اتنی ہی انسان کی اصلاح ہو رہی ہو گی کیونکہ دعا کے الفاظ اور جو کچھ دعا میں اللہ سے طلب کیا جا رہا ہو گا اس کے تناظر میں دعا مانگنے والا اپنے بارے بھی جائزہ لے گا جہاں وہ یہ دعا مانگے کہ بی بی زہراء علیہ السلام کا خمس کھا جانے والوں کو سزا دینے کے ایام اے اللہ قریب لے آ۔تو اگر وہ خود خمس نہیں دیتا تو یہی دعا اسے خمس کا پابند بنا دے گی، جب ظلم کے خاتمہ اور ظالموں سے انتقام کی دعا مانگے گا تو پھر اگر اس کے اپنے اندر یہ مذموم صفت موجود ہے تو اسے اپنے سے دور کرے گا بہرحال دعا میں بہت سارے قریبی فوائد ہیں اس لئے اس امر کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔(مترجم)
ساتویں ذمہ داری :امام زمانہ (عج) کا قرب حاصل کرنا
دعائیں جو ذکر ہوئی ہیں یہ خود امام زمانہ (عج) سے قریب ہونے کا وسیلہ ہیں ان کے علاوہ کچھ اور اعمال بھی ہیں جو حضرت سے قرب کا ذریعہ بنتے ہیں انہیں انجام دینا چاہیے ان میں ایک دعادعائے توسل ہے، اسی طرح مخصوص زیارات ہیں جو کہ دعاوں اور زیارات کی کتابوں میں درج ہیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہوئی ہے بہرحال جو شخصیت حجت ہے تو اس سے تیرا تعلق اس طرح کا ہونا چاہیے کہ جیسے تلوار تیری گردن پر ذبح کے لئے رکھ دی گئی ہو تو تو اس حجت کو پکارے تو وہ تیری فریاد کو آئے۔
حجت زمانہ(امام صاحب العصر والزمان علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے)آپ ہی پریشان حال کے لئے مضبوط سہاراہیں اور جو بھی آپ کو پکارے آپ اس کی فریاد رسی کرتے ہیں۔(بکیال المکارم ج ۲ ص ۳۶،۵۶)
ان اعمال میں سے جو آپ کے قرب کا ذریعہ بنتے ہیںچند ایک حسب ذیل ہیں۔
۱ ۔ آپ کی نیابت میں حج کرنا یا کسی کو آپ کی نیابت میں حج پر بھیجنا، اسی طرح عمرہ کے لئے بھیجنا یا خود کرنا۔
۲ ۔ آپ کی سلامتی کے لئے صدقہ دیناآپ کی سلامتی کے لئے دعا کرنا۔
۳ ۔ آپ کے ناموں کا ورد کرنا۔
۴ ۔ آپ کے نام سے محافل و مجالس کا انعقاد کرنا۔
۵ ۔ آپ کے نام پر ادارے ، کمیٹیاں بنانا۔
۶ ۔ اپنے بچوں کے ناموں کو آپ کے القاب سے موسوم کرنا۔
۷ ۔ آپ کی نیابت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا یا کسی کو زیارت کے لئے بھیجنا۔
۸ ۔ آپ کے نام پر خیراتی ادارے بنانا۔
۹ ۔ آپ کے نام پر تعلیمی ادارے، دینی مدارس قائم کرنا۔
۰۱ ۔ امام زمانہ(عج) کے شیعوں کی مشکلات حل کرنا، ایسے نیک کام انجام دینے، جس سے امام زمانہ(عج) کا قلب مبارک مسرور ہو۔
۱۱ ۔ غیبت کے زمانہ میں مومنین کی شرعی مسائل کے حوالے سے راہنمائی کرنا اور انہیں بھٹکنے سے بچانا۔
۲۱ ۔ مذہب حقہ اہل البیت علیہم السلام کے خلاف اعتراضات کا جواب دینا اور شیعوں کے عقائد کو مضبوط کرنا، انہیں دشمن کے جال میں پھنسنے سے بچانا۔
۳۱ ۔ اچھائی کے کاموں کا حکم دینا، امربالمعروف
۴۱ ۔ برائی کے کاموں سے منع کرنا، نہی عن المنکریہ سارے اعمال اور اسی طرح کے اور اعمال ایسے ہیں جو ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہیں اور ہمارے جو ولی نعمت ہیں وقت کے امام ہیں حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بھی قریب کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں۔
یہ ذمہ داری زمانہ غیبت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد بھی ایسے اعمال انجام دینے ہوں گے جس سے امام علیہ السلام کا قرب حاصل ہو۔
جب بھی کسی مجلس یا محفل میں بیٹھیں تو اس میں امام زمانہ(عج)کا ذکر ضروری کیا جائے اور امام زمانہ(عج) کی برکات سے دوسروں کو آگاہ کیا جائے اور اپنے اندر امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں رہنے کا جذبہ بیدار کیا جائے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں اور ہمارے لئے بہت بڑا درس چھوڑتے ہیں ، آپ علیہ السلام امام زمانہ (عج) کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”انی لوادرکته لخدمته ایام حیاتی
“اگر میں انہیں پالوں تو اپنی زندگی کے سارے ایام ان کی خدمت میں گزاردوں۔(غیبت نعمانی ص ۴۵۲)
جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس طرح کے جذبات ہوں تو ہمارے کیسے جذبات ہونے چاہیں اس کاہر ایک اپنے بارے خود فیصلہ کر لے۔
اہل البیت علیہ السلام کی ولایت کا واجب ہونا
بہت ساری حدیثیں موجود ہیں جن میں اہل البیت علیہ السلام کی ولایت کو واجب قرار دیا گیا ہے آپ حضرات کی رہبریت فرض ہے، اہل البیت علیہم السلام کا آخری فرد حضرت صاحب الزمان (عج) ہیں لہٰذا اس دور میں امام مہدی علیہ السلام کی ولایت رکھنا فرض ہے ، آپ سے ولایت اس بات کی نشانی ہو گا کہ ہم اہل البیت علیہم السلام کی ولایت کو قبول کرتے ہیں ان کا تولا ہمارے دلوں میں ہے اہل البیت علیہ السلام سے تولا اور ان کی ولایت کا اثر زیارت جامعہ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ”بموالاتکم علمنا اللہ معالم دیننا واصلح مافسد من دنیا“اور تمہاری ولایت اور موالات کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے دین کے معالم بیان کئے اور ہمیں دین کی آگہی دی ہے اور ہماری دنیا کے جو امور خراب ہو رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان امور کو آپ کی ولایت و رہبریت کے ذریعہ درست کر دیا ہے۔
(معانی الاخبار ص ۸۰۱ ، باب معنی الامانة التی عرفت ص ۲۲۱ ، باب آل یٰسین ج ۱ ، المختصر للجلی ص ۰۲۲)
یہ ذمہ داری عام ہے زمانہ غیبت میں بھی اور زمانہ ظہور میں بھی بلکہ اس پر دین کی بنیاد قائم ہے۔آپ کی ولایت عامہ ہے اس سے کوئی ایک بھی مستثنیٰ نہیں ہے آپ ولی اعظم ہیں، ابن عربی نے اس حوالے سے بہت عمدہ اور دقیق کلام لکھی ہے اپنے مخصوص طریقہ پر ان کی کتاب سے پڑھیں(الفتوحات المکیہ ج ۴ ص ۵۷ یا ۶۶۳ ایک چھاپ میں ج ۱ ص ۶۲۳ باب ۶۶۳)
آٹھویں ذمہ داری:امام زمانہ(عج) کی قیادت اور ولایت کو تسلیم کرنا
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مفصل حدیث آئمہ اطہار علیہم السلام کے ناموں کے متعلق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مروی ہے اور آپ سے آپ کے فرزندوں اور اس طرح حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اس حدیث میں امام زمانہ(عج) کے ذکر پر رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ”ومن احب ان یلقی الله وقدکمل ایمانه وحسن اسلامه فلیتول الحجة صاحب الزمان المنتظر
“
جو شخص پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ اس کا ایمان کامل ہو اس کا اسلام ٹھیک ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ حجت صاحب الزمان المنتظر علیہ السلام کو اپنا ولی قرار دے، ان کی ولایت میں ہو، اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: فھولاءمصابیح الدجی، وآئمة الہدیٰ، واعلام التقیٰ، ومن احبھم وتولاھم کنت ضامنالہ علی اللہ تعالیٰ بالجنة(البحارج ۶۳ ،باب ۱۴،۶۹۲ ص ۵۲۱)
پس یہ حضرات ہیںتاریکیوں کے چراغ اور یہ ہیں ہدایت کے آئمہ، تقویٰ کی علامات اور جو کوئی بھی ان سے محبت کرے گا اور ان سے تولا رکھے گاتو میں اللہ کے پاس اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
نویں ذمہ داری: حضرت امام زمانہ (عج) کے لئے محبت
(سابقہ عنوان اور اس عنوان میں فرق یہ ہے کہ ولایت موالات، تولا کا معنی ہوتا ہے کسی کو اپنی مرضی سے اپنا سرپرست، رہبر، قائد ولی نعمت قرار دینا، اس معنی میں امام زمانہ علیہ السلام کی ولایت پر ایمان اہم فرائض سے ہے اور اسے بیان کیا گیاہے جبکہ اس عنوان میں محبت کے حوالے سے بات ہونی ہے درحقیقت وہ عنوان قیادت، رہبریت کے حوالے سے ہے جب کہ یہ عنوان پیار، عشق، محبت کے بارے ہے جو کہ عام مفہوم ہے ان الفاظ کے معنی سب کو معلوم ہیں....ازمترجم)
حضرت رسول خدا کا فرمان ہے کہ کوئی بندہ ایمان نہیں لائے گااور مومن نہیں بن سکتا مگریہ کہ میں اس کے لئے خود اس کی اپنی جان سے زیادہ محبوب ہوں اور میری عترت اس کے لئے اس کی اپنی اولاد سے زیادہ محبوب ہو اور میرے اہل البیت علیہ السلام اس کے لئے اپنے خاندان سے زیادہ اس کے نزدیک محبوب ہوں اور میری ذات جوہے اس کے لئے اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب ہو، اسی طرح دین کی بنیاد محبت اہل بیت علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے۔حضرت رسول اللہ کا فرمان ہے: ہرچیز کی اساس اور بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیادہم اہل البیت علیہ السلام کی محبت ہے، محبت کو ایمان کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور قرآن مجید میںاجر رسالت کو محبت اہل البیت علیہم السلام قرار دیا گیا ہے امام صاحب الزمان علیہ السلام اہل البیت علیہ السلام کی آخری فرد ہیں جس طرح آپ علیہ السلام کی ولایت ، قیادت، رہبریت یعنی آپ علیہ السلام کی اطاعت سب پر فرض ہے اسی طرح اطاعت کے ساتھ ساتھ آپ کی قیادت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ سے محبت بھی فرض ہے اور دین کی بنیاد ہے۔
غیبت کے زمانہ میں بھی اور ظہور کے زماہ میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے زمانہ کے امام سے محبت کرنے والوں سے قرار دے، ان کی نصرت کرنے والا بنائے اور ان کی رہبریت اور ولایت پر ثابت قدم رکھے ان کے خط پر ہمیں باقی رکھے ہمیں انحراف سے بچائے(آمین)(علل الشرائع باب ۷۱۱ ، ص ۰۴۱ حدیث ۳)
دسویں ذمہ داری:انحراف سے امام مہدی علیہ السلام کے نظریہ کا دفاع کرنا
یہ مقالہ رہبر اسلام السید علی الخامنہ ای حفظہ اللہ کا ہے جس کا عنوان ہے ”نظریہ مہدویت کے سامراج پر اثرات“حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے ہمارایہ نظریہ مشکلات حل کرنے کی بہت بڑی طاقت سے بہرہ ور ہے جو لوگ اس عقیدہ والے ہیں اور اس عقیدہ کی طاقت اور صلاحیت سے برخوردار ہیں، دشمنوں نے کوشش کی ہے اور بعض نادان دوستوں نے بھی بعض اوقات اس میں کردار ادا کیا ہے کہ اس عقیدہ کو اس کے اصل مضمون اور معنی سے خالی کر دیں اس نظریہ کی جان نکال لیںاور یہ عقیدہ خالی ایک مقدس عنوان رہ جائے۔
بعض اوقات جو نقصان ایک نادان دوست سے پہنچتا ہے وہ عقلمند دشمن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے لیکن اس وقت ہم اپنی گفتگو کا دائرہ اس عقلمند دشمن تک محدود رکھیں گے جو اس عقیدہ کو بے اثر بنانا چاہتا ہے میں نے ایک دستاویز کا مطالبہ کیا جس کا تعلق دسیوں سال پہلے سے ہے یہ وہ زمانہ ہے جب شمالی افریقہ میں سامراج، استعماری طاقتیں، نئی نئی وارد ہو رہی تھیں اس علاقہ پر انہوں نے خصوصی توجہ اس لئے دی کہ اس خطہ کے لوگ اہل البیت علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے قطع نظر اس بات کے کہ اسلامی فرقوں میں ان کا کس فرقہ سے تعلق تھا اور اس لحاظ سے کہ مہدویت کا نظریہ بہت ہی واضح شکل میں وہاں پر موجود ہے جیسے سوڈان، مغرب جیسے ممالک ہیں جب گذشتہ صدی میں استعمار اس خطہ میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ مہدویت کا نظریہ اس خطہ میں موجود ہے جو اس کے نفوذ میں رکاوٹ بنے گا اس مضمون میں استعماری قیادت کی طرف سے اس نقطہ پر زور دیا جاتا ہے کہ تدریجی طور پر نظریہ مہدویت کا اس خطہ سے خاتمہ کیا جائے اور لوگوں کے اذہان کے لئے تصور مہدی علیہ السلام محو کر دیا جائے اس وقت فرانسیسی اور انگریزی استعمار اس خطہ میں چھایا ہوا تھا استعمار تو استعمار ہی ہوتا ہے جس کی جانب سے ہواور جس شکل و عنوان سے ہو۔اجنبی سامراجیوں نے یہ بات سمجھ لی کہ جب تک اس خطہ میں نظریہ مہدویت کی جڑیں مضبوط رہیں گی اور اس علاقہ کی عوام کے اذہان میں یہ عقیدہ راسخ رہے گا تو ان اقوام پر اس طرح تسلط اور غلبہ ممکن نہیں ہے جس طرح ان کی خواہش ہے، انہوں نے مہدویت کے عقیدہ کی اہمیت کو جان لیا اور انہوں نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ جو لوگ فکری وسعت، دین میں جدت کی تحریک چلا رہے ہیں وہ کتنی بڑی غلطی پر ہیں کہ بغیر سمجھ و آگہی اور جس کام کو وہ کر رہے ہیں اس بارے مکمل جائزہ لئے بغیر وہ خود ہی اسلامی عقائد کے بارے شکوک وشبہات پھیلائے جانے کے عنوان میں پھنستے جا رہے ہیں اور یہ لوگ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو دشمن کی غرض تھی اس لحاظ سے انہیں ان مجددین، کھلی فکراور وسیع النظری کے عنوان سے اسلامی عقائد سے محبت کرنے والوں کو اپنے مقصد کے لئے بہترین معاون اور مددگار پایا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ استعمار کے سامنے چٹان ہے
اس لئے استعماری منصوبوں میں اور ان کے ایجنٹوں کی ذمہ داریوں میں یہ بات بطور اصل شامل ہے کہ روشن کل کی امید اور جدوجہد کے عقیدہ کو ان سے چھین لیا جائے امت کے دلوں سے اس نظریہ کو باہر نکال دیا جائے اس نور کو بجھانے کے لئے انہوں نے بہت زیادہ کام کیا۔
لیکن انہوں نے اپنے ان تمام منصوبہ جات سے سوائے رسوائی اور ناکامی کے کچھ حاصل نہ کر پائے ہمیں یہ علم ہے کہ استعماراپنے مقاصد کے لئے زیادہ کوششیں کرتا ہے اور کتنا وقت لگاناہے اور کس قدر اموال خرچ کرنا ہیں وہ فقط ایران میں نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں ایسا ہی کر رہا ہے تاکہ وہ اس نور کی بجھا دے اور امام مہدی علیہ السلام کا نظریہ مسلمانوں سے چھین لے کیونکہ وہ اسی نظریہ کو اپنے اہداف تک جانے کے لئے سب سے بڑی چٹان اور رکاوٹ سمجھتا ہے۔
اس بیان سے جسے کئی سال گزر چکے ہیں یہ بات روشن ہوتی ہے کہ شمالی افریقہ میں یورپ سے آنے والے تبلیغی وفود(مشنری وفود)نے کس طرح استعمار کے لئے راستہ ہموار کیا تاکہ وہ آ کر اس خطہ پر اپنا قبضہ جمائیں ان امور میں سے ایک امر اور بات جو دین دار طبقہ کو تکالیف پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیحی حکومتوں نے مسیحیت کی تبلیغ کے وسیلہ سے استعمار کی گاڑی کے پہیہ کو حرکت دی ہے، تبشیری وفود جو ہیں وہ استعمار کے لئے راستہ ہموار کرتے ہیں، تبشیری وفود کو بظاہر یہ مقصد دے کر بھیجا جاتا کہ وہ مسیحی مذہب کی تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی اور وہ یہ تھی کہ یورپ سے مسیحیت کی تبلیغ کے لئے ان علاقوں میں آنے والی جماعتوں کے وسیلہ سے استعمار کے لئے ان علاقوں میں قدم جمانے کے لئے راستہ ہموار کرتا تھا کہ وہ اسلامی سرزمینوں پر داخل ہو سکیں اور اسلامی ممالک میں سیاسی اقتدار پر کنٹرول حاصل کر سکیں اور یہ پوری دنیا کے مختلف حصوں میں انجام پایا اور وہ اپنے اس پروگرام میں کامیاب ہوئے بہت ہی افسوس ہے کہ انہیں اپنی اس منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے بہت سارے اسلامی خطوں میں کامیابی نصیب ہوگئی۔
جس بیان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس میں شمالی افریقہ کی طرف مسیحیت کی تبلیغ کے لئے بھیجے گے مشنوں کے موضوع کوچھیڑاگیا ہے۔
اس بیان میں کاتب لکھتا ہے وہ رکاوٹیں جن کا مسیحت کے لئے تبلیغی جماعتوں کو سامنے اور شمالی افریقہ میں استعمار کی پیش قدمی میں مشکلات ہیں ان میں ایک بڑی رکاوٹ شمالی افریقہ اورمغرب میںرہنے والوں کا مہدی موعود بارے یہ عقیدہ ہے کہ انہوں نے تشریف لانا ہے اور وہ ایک دن ضرور آئیں گے اور آ کر اسلام کی بات کو سربلند کردیں گے اسلام کوسب نظاموںپر غلبہ دلائیں گے ۔
(آقای خامنہ ای کا خطاب بمناسبت ۵۱ شعبان ۸۱۴۱ ھ طھان)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہدی موعود کا عقیدہ ہی استعمار کے راستہ کی ایک بڑی رکاوٹ ہے جب کہ معلوم ہے کہ اس مسئلہ کے بارے ان علاقوں میں بسنے والے ہمارے بھائیوں کا عقیدہ ایسی وضاحت موجودنہیں جس کے آج ہم مالک ہیں، بلکہ ان برادران کے عقیدہ میں بہت سارے ابہامات موجود ہیں اوران پر اس کی جزئیات واضح نہیں ہیں اور اس مسئلہ میں کون مراد ہیں؟ ان کے لئے واضح نہیں، نام سے اور دوسری خصوصیات سے وہ واقف نہیں لیکن حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ بارے تمام تر ابہامات، جو اس خطہ کے عوام میں موجود تھے پھر بھی استعمار اس نظریہ سے خوفزدہ نظر آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کی تفصیلات سے قطع نظر، استعمار کواس عقیدہ سے بہت زیادہ خوف لاحق ہے اور وہ اس کے سادہ سے عنوان کو بھی اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ہمارے اپنے ملک کی بات ہے جسے میرے لئے بزرگ علماءسے ایک نے بیان کیا ہے جو اس وقت زندہ ہیں اور ان کے وجود کی برکات سے ہماری عوام فیض یاب ہو رہے ہیں کہ رضا شاہ بہلوی کے اقتدار میں آنے کے ابتدائی ایام کی بات ہے جاہل، خودسر، ہر قسم کی مقبولیت اور معرفت سے فارغ شخص رضا شاہ نے درباری ملاں کو بلایا اور اس سے دریافت کیا کہ امام صاحب الزمان علیہ السلام کا قصہ کیا ہے جس نے ہمارے لئے یہ ساری مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں؟
اس درباری ملاں نے اسے ایسا جواب دیا جو شاہ کے لئے پسندیدہ تھا اور اس کی جاہلیت کا آئینہ داربھی تھا پھر اسے شاہ کہتا ہے تم جاو اور اس قصہ کو تمام کر دو اور لوگوں کے دلوں سے اس عقیدہ کو باہر نکال پھینکو۔
درباری ملاں یہ سن کر اسے کہتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس کام میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ہمارے اوپر لازم ہے اگر ایسا کرنا ہے تو اس کے لئے مقدمات کو فراہم کریں اور تدریجاً اس پر کام کریںچنانچہ اس غرض سے ان مقدمات کو اس زمانہ میں مہیا کیا گیا اور اس پر کام بھی ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور علماءربانی، بیدار اور آگاہ مفکرین ،مجتہدین کی کوششوںسے وہ سارے مقدمات طشت ازبام ہوئے اور ناکام ہوئے اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں استعماری طاقتوں نے ایک خودسر غاصب شخص کو ہمارے ملک کا اقتدارتودے دیااوراسے ایران پر مسلط کیا اور اس ملک کی ساری ثروات اس کے قبضہ میں دے دیں اور پھر یہ تھا کہ وہ سب کچھ اپنے استعماری آقاوں کے سپرد کرے اس ملک کی عوام پر مکمل تسلط اور غلبہ کے لئے جو وسائل استعمال کیے جا رہے تھے ان میں ایک وسیلہ یہ تھا کہ امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کو لوگوں سے چھین لیا جائے اور لوگوں کے اذہان سے امام مہدی علیہ السلام موعود کا عقیدہ اور نظریہ محو ہو جائے۔(خطاب ۵۱ شعبان ۶۱۴۱ تہران)
(ہماری ذمہ داریوں میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کیا جائے اس عقیدہ بارے شکوک و شبہات دور کئے جائیں اس کی خصوصیت اور اصلیت سے لوگوں کو آگاہ رکھا جائے اور اس عقیدہ میں انحرافی رجحانات کو دور کیا جائے اور استعماری سازشیں جو اس عقیدہ بارے سابقہ ادوار میں ہوتی رہی ہیں اور جو آج بھی ہو رہی ہیں اس سے لوگوں کو آگاہ رکھا جائے اور اس کا توڑ کیاجائے....ازمترجم)
گیارہویں ذمہ داری۔ بامقصد انتظار
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے انتظار اہم ذمہ داری ہے یعنی ہم ہر وقت ظہور کے لئے تیار رہیں اور اس وقت کے لئے اپنے کو تیار رکھیں ہر آن ظہور کی توقع ہو۔
حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: ایک بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوگا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے سب سے زیادہ راضی ہوگا جب وہ لوگ اللہ کی حجت کو اپنے درمیان موجود نہ پائیں اور حجت خدا ان کے لئے ظاہر نہ ہو، حجت خدا ان سے حجاب میں ہو، وہ لوگ حجت خدا کی رہائش گاہ سے واقف نہ ہوں اور وہ اس دوران یہ یقین رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حُجج(دلائل اور اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کاسلسلہ) باطل نہیں ہوگا، ختم نہ ہوگااور نہ ہی خدا کی نشانیاں ختم ہوں گی تو وہ اس یقین کے ساتھ صبح، شام ظہور کی توقع رکھتے ہوں۔(ایسا شخص اللہ کے زیادہ قریب اور اللہ اس سے زیادہ راضی ہے)
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے دشمنوں پر سخت ترین غضب اس وقت ہو گا جب خدا اپنی حجت کو ان سے غائب کر دے گا یعنی حجت کی غیبت خدا کے دشمنوں پر خدا کے شدید غضب کی علامت ہے اور ان کے لئے خدا اپنی حجت کو ظاہر نہیں کرے گا جب کہ خدا کو یہ علم ہے کہ جو اولیاءاللہ ہیں جو خدا کے ہیں وہ شک نہیں کریں گے اگر اللہ تعالیٰ کو یہ علم ہوتا کہ اس کے اولیاءشک میں پڑ جائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اپنی حجت کو غائب نہ فرماتا یہ نہیں ہوگا مگر لوگوں میں بدترین حاکم ان کے سرپرہوگا شرپسندوں سے غیبت ہے۔(کمال الدین ج ۲ ص ۹۳۳ باب ۳۳ حدیث ۷۱)
حضرات اہل البیت علیہم السلام سے یہ روایت ہوئی ہے ”پس تم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کا عمل بجالائے جو عمل اسے ہماری محبت کے قریب کر دے اور ایسے عمل سے دوری اختیار کرے جو عمل اسے ہم سے دور کر دے “۔(الزام الناصب ج ۱ ص ۸۰۴)
انتظار کا ثواب
جناب عمار الساباطی سے ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے عرض کیا:
راوی: کون سی عبادت افضل ہے؟ وہ عبادت جو تمہارے میں سے جب امام پوشیدہ ہو، باطل کی حکومت ہو اور تمہارے لئے باطل حکومت خوف اور خطرہ ہو یا وہ عبادت افضل ہے جب امام حق ظاہر ہو، حق کی حکومت ہو؟
امام علیہ السلام:۔ اے عمار مخفیانہ صدقہ خدا کی قسم اعلانیہ صدقہ سے افضل ہے،اسی طرح خدا کی قسم! تمہاری عبادت مخفیانہ بجا لانا، جب کہ تمہاراامام باطل حکومت سے پوشیدہ ہو اور تمہیں باطل حکومت میں اپنے دشمن کا خوف لاحق ہو، صلح اور آرام اور سکون موجود نہ ہو تویہ عبادت افضل ہے اس عبادت سے کہ جب حق کا ظہور ہو جائے امام حق کے ہمراہ عبادت خدا انجام دی جائے حق کی حکومت ہو جو عبادت باطل حکومت میں خوف کی حالت میں انجام دی جاتی ہے وہ عبادت اس عبادت کی مانند نہیں ہے جو حکومت حقہ میں امن کی حالت میں انجام دی جائے۔(الکافی ج ۱ ص ۳۳۳ ،باب نادر فی حال الغیبة حدیث ۲)
ابن عباس سے روایت ہے کہ اس نے بیان کیا ہے :
ابن عباس: رسول اللہ نے فرمایا کہ: علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام میری امت کے امام ہیں اور میرے بعد میری امت پر خلیفہ ہیں اور علی علیہ السلام کی اولاد سے قائم منتظر علیہ السلام ہیں جن کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ زمین کو عدالت سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے کہ جو لوگ اس کی غیبت کے زمانہ میں اس کی امامت پر ثابت اور قائم رہیں گے تو وہ کبریت احمر سے زیادہ قدروقیمت والے ہوں گے۔
(فرائدالسمطین ج ۲ ص ۵۳۳،۶۳۳ ، کمال الدین ص ۸۸۴ حدیث ۷)
بارہویں ذمہ داری:حضرت امام مہدی علیہ السلام کےلئے تیاری اور مقدمات
یہ سب سے زیادہ اہم ہے تمام واجبات سے برتر ہے بلکہ یہ ذمہ داری باقی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے والی ہے خاص کر اس زمانہ میں جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں جس میں انسان محسوس کر رہا ہے کہ وہ عصر ظہور کے بہت زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے جس قدر انسان عصر ظہور کے نزدیک ہوتا جائے گا تو وہ یہ محسوس کرے گا کہ تمہید اور تیاری کے لئے اس کے پاس وقت تنگ ہو گیا ہے یہ جدید زمانہ عجیب و غریب دور، منفرد زمانہ، بے مثال دور، ٹیکنالوجی کا زمانہ ایک مومن انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے جو اس کے پاس وقت ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے کیونکہ وقت کی مثال تلوار جیسی ہے اگر تو اسے نہیں توڑے گا تو وہ تجھے کاٹ دے گی جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایاتھا۔
اعتراض اور جواب
روایات میں ایک لمبے اور مہم مرحلے بارے بات کی گئی ہے جیسا کہ آپ بعد میں پڑھیں گے لیکن ان روایات میں جانے سے پہلے ایسی روایات کو ہم اس جگہ لاتے ہیں جن سے بعض لوگوں نے غیبت کے زمانہ میں رہنے یا مقدمات فراہم نہ کرنے یا آپ علیہ السلام کے ظہور سے تمہید اور تیاری نہ کرنے کا نظریہ اختیارکر رکھا ہے جوکہ غلط ہے۔
قائم علیہ السلامکے قیام سے پہلے ہر پرچم اور اس پرچم کو اٹھانے والا طاغوت ہے اس روایت کی مانند اور روایات کے مضامین سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نظریہ اختیار کر لیاگیا کہ آپ علیہ السلام کے ظہور کے لئے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت نہیں ہے بعض روایات سے اس قسم کا معنی سمجھنا خطاءاور غلطی ہے، اشتباہ ہے، ان روایات سے ۔
۱ ۔ عیص بن قاسم کی روایت صحیحہ اباابوعبداللہ سے ہے۔
۲ ۔ مرفوعہ ربعی کی روایت حضرت علی علیہ السلام ابن الحسین علیہ السلام سے ہے(مقدمہ صحیفہ سجادیہ)
۳ ۔ عمر بن متوکل الثقفی کی روایت امام ابوعبداللہ سے ہے۔
۴ ۔ صحیفہ ابوبصیر ہے۔(الوسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۶۳،۶۳،۷۳ ، باب بارہ جدید ۱،۲۲)
علماءنے ان روایات سے غلط استفادہ کرنے والوں کو جواب دیا ہے کہ یہ روایات ہماری بحث سے اجنبی اور غیر متعلق ہیں ہم بھی اس جگہ علماءکے جوابات کو اس جگہ اجمالی طور پر ذکر کرتے ہیں ان کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے صحیحہ العیص میں جس جملہ کا سہارا لیا گیا ہے وہ یہ ہے ”فالخارج مناالیوم الی ای شی یدعوکم؟الی الرضا آل محمد، فنحن شهدکم انا لاترضی به وهو یعصینا الیوم ولیس معه احدوهو اذکانت الرایات والا لویة اجدر الا یسمع منا الامن اجتمعت بنوفاطمة معه فوالله ماصالیکم الا من اجنتمعوا علیه
“
ترجمہ:۔تو آج جو شخص ہمارے میں سے خروج کر رہا ہے تو وہ تمہیں کس کی طرف دعوت دے رہا ہے؟ آل محمد کی رضا کی جانب تو ہم آپ کو گواہ بنا کر یہ بات کہتے ہیں کہ ہم اس خروج سے راضی نہیں ہیں وہ آج ہماری نافرمانی کر رہا ہے جب کہ اس کے ہمراہ کوئی بھی نہیں ہے، اگر بہت سارے پرچم اور جھنڈے موجود ہوتے تو اس قسم کے خروج کرنے کے لئے زیادہ لائق اور مناسب تھا تو کیا وہ ہم سے یہ بات سنتا نہیں ہے مگر اس کے ساتھ تو وہی ہیں جو بنو فاطمہ سے اکٹھے ہوئے ہیں تو خدا کی قسم تمہارا صاحب نہیں ہوگا مگر وہ جس پر وہ سب اکٹھے ہوں گے“۔
یہ گفتگو خروج کی مطلق اوراس حوالے سے حرمت اور ناجائز ہونے پر دلیل نہیں ہے جی ہان!خروج اس وقت حرام ہے جب انقلاب کے لئے ضروری شرائط موجود نہ ہوں امام علیہ السلام نے اس بات کی طرف اشارہ دے دیا ”ولیس معہ احد؟“ اور اس کے ساتھ تو کوئی ایک بھی نہیں ہے ناصر کی کمی اور نتیجہ کی ضمانت موجود نہ ہونے کی صورت میں خروج حرام ہے۔
اسی طرح آپ نے جو یہ فرمایا ہے ”وماصاحبکم الا من اجتمعوا علیہ“ کہ یہ تمہارا صاحب نہیں مگر وہ جس پر وہ سب اکٹھے ہوں تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے آپ نے ناصروں کی کثرت کی تائید فرمائی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے روایت نے اس بات کو سمجھایا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام سے پہلے انقلاب لانا اور خروج کرنا اگر آل محمد کی رضا کے لئے ہو جیسا کہ بنی عباس کی حکومت کے شروع میں تھا جائز نہیں ہے، لیکن اگر انقلاب، تحریک، قیام اور حکومت اس لئے ہو کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے زمین ہموار کرے مقدمات فراہم کرے تو ایسا خروج اور قیام حرام نہیں روایت اسے منع نہیںکررہی۔
حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام سے جو مرفوعہ بھی ہے تو اس میں ہے”والله لایخرج احد مناقبل، خروج القائم الاکان مثله کمثل فرج طارمن وکره قبل ان یستوی جناحاه فاخذه العبیان فعبثوا به
“
خدا کی قسم! قائم کے خروج اور قیام سے پہلے کوئی بھی ہم میں سے قیام نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کی مثال پرندے کے اس بچے کی ہو گی جو اپنے دونوں پَر مضبوط ہونے سے پہلے خود کو اپنے گھونسلے سے باہر نکال دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں اور اسے نقصان دیتے ہیں۔
اس روایت کی سند کو صحیح تسلیم کر لینے کی صورت میں یہ ہماری بحث اور گفتگوسے اجنبی ہے اس کا تعلق غیبت کے زمانہ میں خروج سے نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کے بعد بیان ہوئی ہے جو ایک ایسا شرعی اور طے شدہ خروج تھا اس کے اثرات کو آج تک ہم محسوس کر رہے ہیں یہ روایت حضرت قائم (عج) کے خروج سے متعلق نہیں ہے اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ خروج حرام ہے جو امام مہدی علیہ السلام کے خروج کے مقابل میں ہو امام مہدی علیہ السلام کا خروج حق کی حکومت، انبیاءکی حکومت قائم کرنے کے لئے ہوگا جس کا اللہ نے آخری زمانہ میں قیام کا وعدہ دیا ہے پس جو شخص بھی امام مہدی علیہ السلام سے پہلے ان کے خروج اور قیام کا اعلان کرے گااور ان والا کردار ادا کرنے کے لئے قیام کرے تو ایسا قیام باطل ہے۔
دوسری بات اس روایت میں یہ ہے کہ ”لایخرج منا
“ یعنی ہم اہل بیت علیہ السلام سے کوئی خروج نہیں کرے گا“
درحقیقت یہ ایک سوال کا جواب ہے کہ جس نے آپ کے دور میں یہ سوال کیاکہ آپ اوراسی طرح باقی آئمہ خروج کریں گے تو آپ نے جواب دیا کہ قائم سے پہلے ہم میں سے کوئی بھی قیام نہیں کرے گاسارے ظالموں کے خلاف انقلاب لانا اور حکومت انبیاءکا قیام، حکومت حقہ کا قیام تو یہ حضرت قائم امام مہدی علیہ السلام کے وسیلے سے انجام پانا ہے، تو یہ بات اس سے اجنبی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے واسطے مقدمات فراہم کئے جائیں اس کے لئے تیاری کی جائے، صھیفہ سجادیہ کی روایت میں جو آیا ہے۔
”ما خرج ولا یخرج منا اهل البیت علیه السلام الی قیام قائمنا، احد لیدفع ظلما اوینعش حقا الا اصطلمته البلیة وکان قیامه زیادة فی مکروهنا وخیعتا
“
ہمارے قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے اگر کسی ایک نے خروج کیا تاکہ وہ ظلم کو رد کرے اور حق کو تازہ کرے تو ایسے شخص کو مصیبت گھیر لے گی اور اس کا قیام ہماری تکالیف اور ہمارے شیعوں کے مصائب میں اضافہ کرے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کا راوی مجہول ہے اس میں متوکل بن ھارون ہے جس کے بارے معلوم نہیں وہ کیسا شخص ہے اس وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں محمد بن عبداللہ بن المطلب الشعبانی ہے اس کا ضعیف ہونابھی معلوم ہے اس لحاظ سے یہ روایت اعتبار سے ساقط ہے
(معجم رجال الحدیث ج ۵۸ ،رجال النجاشی ۶۹۳ فہرست الطوسی ص ۶۱۲ نمبر ۹۰۶ ۔رجال الطوسی ص ۷۴۴)
دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث بھی اس بحث سے اجنبی ہے جس میں ہم ہیں بلکہ پچھلی مرفوع سے زیادہ واضح بیان ہے کہ ہم اہل بیت علیہ السلام سے کوئی خروج نہیں کرے گامگروہ کامیاب نہ ہوگاتو اس روایت میں کسی کے سوال کا جواب دیاگیا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص ہم آئمہ اہل البیت علیہ السلام سے حضرت قائم علیہ السلام کے قیام سے پہلے اگرخروج کرے گا تو اس کا نتیجہ سوائے ناکامی اور شیعوں کے مصائب میں اضافہ کے اور کچھ نہ ہوگا۔
تیسری بات اس میں یہ ہے کہ اس میں آیا ہے ”فَرَج “یعنی ہم اہل البیت علیہ السلام سے سابقہ زمانہ میں جس کسی نے خروج کیااور پھر ہے ”یخرج“ اور خروج کرے گا تو یہ جملہ امام حسین علیہ السلام اور حضرت زید کے انقلاب کو شامل ہے اس لحاظ سے اعتبار سے ساقط ہے۔
باقی رہ گئی صحیحہ ابوبصیر تو اس میں ہے ”کل رایة ترفع قبل قیام القائم (عج) فصاجھا طاغوت “
”کہ ہر وہ پرچم جو قائم کے قیام سے پہلے اٹھے گا تو اس پرچم والا طاغوت ہے“۔
”یعبد من دون اللہ“ وہ اللہ کے غیر کی عبادت کرتا ہے اس کا معبود غیر اللہ ہے۔تو یہ روایت بھی ہماری بحث سے اجنبی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنا، ظلم سے دفاع کرنا، تو غیرخدا کی عبادت نہیں ہو سکتا کیونکہ روایت کہہ رہی ہے کہ اس پرچم والا طاغوت ہے اور اس کا معبود غیر اللہ ہے تو یہ اس تحریک چلانے والے کی صفت ہے جو امام مہدی علیہ السلام کے مدمقابل پرچم لا کھڑا کرے گا اور جس کا پرچم لوگوں کو امام مہدی علیہ السلام سے دور کرنے کے لئے ہوگا، گمراہی کا وسیلہ ہوگا۔
لیکن ایسا انقلاب جو امام مہدی علیہ السلام کے لئے تمہید کا کام دے ان کے پرچم کی تائید میں ہواور اس پرچم والا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دینی احکام سے تمسک اللہ کے نبی کی سنت کو اپنائے اہل بیت علیہ السلام کی سیرت پرچلنے کے لئے ہو اور جو یہ چاہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور کلمہ طاغوت سرنگوں ہو تو پھر ایسا پرچم والا طاغوت نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا معبود غیر اللہ ہوگا۔
ایران میں اسلامی حکومت
اسلامی حکومت اس بات کی بہترین دلیل ہے ، یہ اسلامی پرچم ہے، اللہ تعالیٰ کے شعائر، اہل البیت علیہ السلام کے شعائر کی سربلندی کے لئے ہے تاکہ دولت حقہ کے لئے حالات بنائے اور اس انقلاب کو لانے والی ہستی عبدصالح تھا جس نے رضائے آل محمد علیہم السلام کی دعوت دی ، قرآنی احکام کے نفاذ کی بات کی اور پورے عالم کے لئے یہ بات ثابت کر دی کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور قرآنی دستور کو نافذ کیا جا سکتا ہے ولایت فقیہ کی بنیاد پر مذہب اہل البیت علیہ السلام کے مطابق اسلامی حکومت قائم کی جا سکتی ہے جس کی بشارت امام ابوالحسن اول موسیٰ کاظم علیہ السلام نے دی تھی۔
”رجل من اهل قم یدعوالناس الی الحق یجتمع معه فوم کنزیر الحدید لاتزلهم الریاح العواصف، ولا یملون من الحرب ولا یجبنون وعلی الله یتوکلون والعاقبة للمسقین
“(بحارالانوار ج ۰۶ ص ۶۱۲)
اہل قم سے ایک مرد ہو گا جو لوگوں کو حق کی دعوت دے گا ان کے ساتھ ایک قوم اکٹھی ہو جائے گی جو فولاد کے ٹکڑوں کی مانند مضبوط ہوں گے انہیں تندوتیز جکھڑ اپنی جگہ سے ہلائیں گے نہیں اور نہ ہی وہ جنگ سے اکتائیں گے اور نہ ہی وہ بزدل پڑیں گے وہ اللہ پر توکل رکھیں گے اور عاقبت متقین کے واسطے ہے۔
اس انقلاب کے نتیجہ میں ایسا ہوا ہے کہ اس مذہب کو بھی اسی طرح پڑھا جا رہا ہے جس طرح اسلام کے باقی چار مذاہب(حنفی،حنبلی،شافعی،مالکی)کو پڑھاجاتا ہے یہ سب کچھ اس انقلاب کے بعد ہوا جب امام خمینیؒ نے کلی طور پر ثابت کر دیا کہ فقہ جعفری معاشرہ اورسول سوسائٹی کی سیاسی اقتصادی قیادت کر سکتی ہے اور انہیں کمال اور عروج پر لے جا سکتی ہے۔
اگر اس اسلامی حکومت نے اس کے سوا اور کچھ نہ کیا ہوتا تو یہی کافی تھااس انقلاب کی حقانیت کے لئے جب کہ اس حکومت کے قیام کے تو بہت زیادہ اثرات اور فوائدحاصل ہوئے ہیں جن کو بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام سے پہلے کسی قسم کی تحریک اور انقلابی عمل کی مخالفت کرنے والوں نے جن روایات کا سہارا لیا ہے وہ یہی تھیں البتہ چند اور روایات بھی ہیں جو اس مضمون کے قریب قریب معنی رکھتی ہیںجن کا سہارا بھی لیا گیا ہے ملاحظہ ہو۔
۱ ۔ ”ہمارے قائم کے خروج سے پہلے جس نے تقیہ کو چھوڑ دیا تو وہ شخص ہم سے نہیں ہے ۔(الوسائل الشیعہ ج ۵۱ ص ۱۱۲ ،باب وجوب التقیہ، کمال الدین ص ۱۷۳ ، کفایة الاثرص ۴۷۲)
۲ ۔ زمین گیر ہو جاو، ہاتھ پاوں کو مت ہلانا، یہاں تک کہ تمہارے لئے وہ علامات جو میں بیان کرتا ہوں وہ ظاہر ہو جائیں۔
(الوسائل ج ۵۱ ص ۶۵ ، باب جہاد العدد، غیبة النعمانی ص ۹۷۲)
اسی طرح کی اور روایات میں ہے ان سے بھی جنہوں نے غلط معانی لئے ہیں ان کا جواب علماءنے دیا ہے جو اوپر بیان ہو چکا اسی سے ان روایات کا حال بھی روشن ہو جاتا ہے۔ (دیکھئے المرجعیة والقیادہ السیدالحائری ص ۹۸،۹۸۱)
یہ روایات جو ہیں ان میں بعض کا تعلق امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ غیبت سے بالکل نہیں ہے مثلاً یہ جو کہا گیا ہے کہ لوگوں سے دور ہو جاو، گھر میں بیٹھ جاو، زمین گیر ہو جاو تو یہ اس تناظر میں ہے کہ انسان بعض حالات میں اپنے شرعی واجبات کو ادا نہیں کر سکتے جس جگہ موجود ہوتے ہیںوہاں ان کے لئے حالات مساعد نہیں ہوئے کہ باہر نکلے تو اس کے لئے خطرہ ہے اسے اپنی جان و مال کا خطرہ ہے، عزت اور ناموس کا خطرہ ہے تو ایسی صورتحال میں اسے اپنی روش بدلنی ہوگی بعض لوگ گھربیٹھ کر ، بعض اس علاقہ کو چھوڑ کر، بعض دفعہ کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرکے، تقیہ بھی ان حالات کے حوالے سے ہے جیسا کہ نبی اکرم کی دعوت کے آغاز میں ہوا یا حضور پاک کی رحلت کے بعد والے حالات جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے درست ہے یا جو حالت باقی آئمہ علیہ السلام کے زمانوں میں موجود رہی، اسی طرح زمانہ غیبت بارے ہے یہ ایک عام بات ہے اس کا تعلق حالات سے ہے اس میں کوئی بھی عقلمند شک نہیں کر سکتا اگر انسان اپنی ذمہ داری اور واجب کو اس طرح ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو جس طرح اس کی ادائیگی کا حکم ہے تو اسے کسی بھی حالت میں پیچھے نہیں ہٹنا ہوگااگرچہ اس راستہ میں قابل برداشت کچھ تکالیف کا سامنا بھی ہو، اگر ایسا نہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعطیل لازم آئے گی اللہ تعالیٰ کی حدود کو مھمل چھوڑنے کی بات ہو گی۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کا ترک لازم آئے گا۔
ظہورکے مقدمات سے حکومت کا قیام
سورہ آل عمران آیت ۴۰۱”(
وَلتَکُن مِّنكم اُمَّة یَّد عُونَ اِلَی الخَیرِ وَیَا مُرُون بِالمَعرُوفِ
)
آپ میں سے ایک امت ایسی ہو جو خیر کی دعوت دے معروف کا حکم دے، منکر سے روکے اور ایسے لوگ ہی فلاح پا جانے والے ہیں“۔
چور اور چوری دونوں کے ہاتھ کاٹ دو”(
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقطَعُوا اَیدِیَهُمَا
)
(سورہ مائدہ آیت ۸۳)
سورہ مائدہ آیت ۳۳”(
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ
)
، وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے، اللہ تعالیٰ کے رسول سے جنگ کرتے ہیں زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا انہیں پھانسی چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھوں اور پاوں کو کاٹ دیا جائے....یا انہیں زمین سے نکال دیا جائے۔(شہدبدر، ملک بدر)
سورہ حجرات آیت ۹”(
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ
)
، اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو تم ان کے درمیان صلح کراو اور ان دو میں سے جو بغاوت پر اتر آئے، جارحیت کرے تو پھر تم سب اس سے جنگ کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف وہ واپس آجائیں۔
سورہ بقرہ آیت ۰۹۱”(
وَقَاتِلُو ا فِی سَبِیلِ اللّٰهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُو نَکُم وَلَا تَعتَدُوا
)
“ میں ہے اور تم ان سے جنگ کر واللہ کی راہ میں جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور تم زیادتی مت کرو۔
پس جو شخص زمین میں فساد پھیلاناچاہتا ہے دوسروں کو قتل کرتا ہے ، چوری کرتا ہے ڈاکہ مارتا ہے ظلم کرتا ہے تو ان کے خلاف اقدام کرنا چاہیے جو اعتراض کر تاہے اس سے سوال ہے کہ ان سارے امور کو کون انجام دے گا ۔اس حکم کو کون سی سرکار نافذ کر ے گی ؟ جب کہ جنگ کرنے صلح کرنے، شہر بد ر کرنے کے طریقہ کا تعین کون کرے گا؟ بغاوت اور عدم بغاوت کا فیصلہ کون کرے گا؟ جنگ کے مقدمات کی فراہمی کے لئے اموال کون اکٹھے کرے گا؟موجودہ زمانوں مین جنگ کے جدید ترین طریقوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کون کرے گا؟ان سارے امور کی انجام دہی کے لئے حکومت کا قیام ضروری ہے اور جو اس کا انکار کرتے ہیں وہ اس کے مرتکب ہوں گے اللہ کی حدود اسی طرح معطل رہیں اور اللہ کے احکام کا نفاذ نہ ہو۔
بہرحال جو روایات امام مہدی علیہ السلام سے پہلے پرچم اٹھانے یا پارٹیاں بنانے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنے سے منع کرتی ہیں تو یہ اس پرچم سے روکتی ہیں جو گمراہی کا پرچم ہو، جو امام مہدی علیہ السلام سے تو....ہٹانے کے لئے ہو، جو پارٹی بنانے والوں کی اپنی ذاتی اغراض کے لئے ہو۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کو معطل کرنے کا ذریعہ بنیں، کہیں وہ پرچم، ایسی جماعت جو حق کی دعوت دے اسلامی تعلیمات پر چلنے کی خاطر ہو، اہل البیت علیہ السلام کے خطہ پر رہنے کی تائید کرے تو ایسا پرچم اور ایسی جماعت گمراہ جماعت نہیں اور نہ ہی وہ پرچم طاغوت کا پرچم ہے بلکہ یہ حق کا پرچم ہے جو حق کی طرف دعوت دیتا ہے اور حق کا منتظر ہے۔
خاص کر آج کے دور میں انسان ایک کونے میں لگ کر نہیں ٹھہر سکتا اور نہ ہی لاتعلق رہ سکتا ہے۔یا تو اقتصادی مسائل کی وجہ سے یا امیت کے لئے خطرات کی خاطر، انسان پر لازم ہے کہ وہ زندگی کے معاملات میں مداخلت کرے، ایسا کردار ادا کرے اپنے لئے ایک موقف بنائے۔
پس جو شخص اس پرچم کے ساتھ نہیں آنا چاہتا جو حق کاپرچم ہے تو پھر اس مدمقابل دوسرے پرچم تلے چلا جائے جو باطل اور طاغوت کا پرچم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے کہ ہم طاغوت کی طرف میلان رکھیں۔ کیا تم نے ان کی جانب نہیں دیکھا کہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ تیرے اوپر اور ان پر جو تجھ سے پہلے تھے۔پھر وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کے فیصلوں کوپہنچائیں جب کہ ان کو حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں”(
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا
)
“۔(سورہ نساءآیت ۶۰ )
تمہید کی اہمیت اور ضرورت
رہبر اسلام السید علی خامنہ ای نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا ہے،اس کاعنوان ہے” انبیاءعلیہ السلام اور اوصیاءعلیہ السلام کا پورے عالم کو پاک نہ کر سکنے کے اسباب “
اس کا کیا سبب ہے کہ انبیاءعلیہ السلام کی بہت بڑی تعداد جن میں اولوالعزم پیغمبر بھی شامل ہیں عالم(دنیا) کو فساد، کمینگی سے پاک نہ کر سکے؟
اس کاسبب یہ ہے کہ اس وقت حالات سازگار نہ تھے ۔حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے زمانہ میں فساد کی جڑوں کا صفایا کیوں نہ کر سکے باوجودیکہ آپ ربانی طاقت کے مالک تھے اور حکمت الٰہی سے متصل علم آپ کے پاس تھا ارادہ کی پختگی، فیصلہ کی جرات آپ کے اہم اوصاف سے تھا اتنے سارے مناقب و فضائل کے آپ مالک تھے اتنی زیادہ رسول اکرم نے آپ کے حق میں سفارشات کیں؟ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود آپ عالم کو فساد سے پاک کیوںنہ کر سکے؟
بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوا بالآخر آپ کو راستہ سے ہٹا دیا گیا۔ آپ اپنے محراب عبادت میں شہادت پاتے ہیں آپ علیہ السلام اپنی عدالت میں سخت ہونے کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے یہ اس وجہ سے کہ اس زمانہ کے حالات اور وہ ماحول سازگار نہ تھا، مخالفین نے حالات آپ کے خلاف بنا دیئے ،ان کے لئے دنیاوی محبت کے راستہ کو ہموار کیاگیا اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے مدمقابل راستہ کا انتخاب کیا ۔وہ لوگ جو امیرالمومنین علیہ السلام کے مدمقابل صف آراءہوئے آغاز میں یا درمیانے دور میں یا آخری ایام میں تو سب وہ تھے جن میں دین سے لگاو کی بنیاد کمزور تھی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر حالات سازگار نہ ہوں، ماحول مناسب نہ ہو تو اس طرح کے مصائب اور مشکلات آتے ہیں جن کا سامنا امیرالمومنین علیہ السلام کو کرنا پڑا۔
اگر حضرت امام زمانہ (عج) ایسے حالات میں ظہور فرمائیں کہ لوگوںمیںآمادگی موجود نہ ہو، ماحول سازگار نہ ہو تو پھر وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی آمد کے لئے تمہید ضروری ہے، حالات سازگار بنانا ضروری ہیں۔
لیکن یہ تمہید کیسے ہوگی؟
یہ اسی طرح ہی ہو گی جیسا کہ آپ اس کی مثالیں اپنے معاشرہ میں ایران کی اسلامی حکومت میں دیکھ رہے ہیں آج ایک معنوی رجحان موجودہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور حصہ میں نہیں پائی جاتی ان جوخبریں اور اطلاعات ہم تک پہنچتی ہیں ان کی روشنی میں جہاں تک ہمارا علم ہے اورجو کچھ پورے عالم میں ہو رہا ہے ہم اس سے غافل نہیں ہیں
آپ اس عالم میں کس جگہ ایسا پاتے ہیں کہ ایک نوجوان اپنی مادی خواہشات کو پاوں تلے رگڑ دے اور معنوی آفاق میں سیر کرنے لگ جائے۔
جی ہاں!وہاں کچھ ایسے جوان موجود ہیں جو اس قاعدہ کلی سے مستثنیٰ ہیں یہ پورے عالم کی ایک ظاہری اور طبعی صورتحال ہے اتنی بڑی تعداد اور وہ بھی ان صفات کے ساتھ آراستہ و پیراستہ ایک نسل سے؟ اس کی مثال موجود نہیں ہے اس پوری روئے زمین پر اس پورے عالم میں اتنی بڑی تعداد میں اس معنوی رجحان کے ساتھ ایک سرزمین پر ایک ہی نسل و قوم کے جوان کسی اور جگہ موجود نہیں ہیں۔جیسا کہ اس وقت بعض اسلامی خطوں میں ہے جیسے لبنان۔
بعض کا خیال تھا کہ یہ حالت فقط جنگ کے زمانہ میں تھی اور اسی زمانہ سے مخصوص تھی یہ بات درست ہے کہ جنگ کے ایام میں اس رجحان کے لئے بہت زیادہ مساعد اور مددگار تھے اور اس پہلو سے باہر آنے والے جوانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن یہ حالت ایام جنگ سے مختص نہیں بلکہ اسے آج بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔نیک، خیرخواہ، مومن، عبادت گزار حزب اللہ کے فرزندوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو پاوں تلے روند کر رکھ دیا ہے مال اور ثروت کی لالچ سے باہر نکل آئے ہیں اگرچہ بعض ایسے بھی موجود ہیں جو ان کودھوکہ دینے والے زرق برق کے ظاہری مناظر میں پھنسے ہوتے ہیں لیکن فرزندان حزب اللہ پورے ورع کے ساتھ، گناہوں کو خیرباد کہتے ہوئے، تقویٰ، زہد کو اپناتے ہوئے پوری ہمت اور قوت کے ساتھ بغیر کسی ملال اور اکتاہٹ اور دنیا کی تنگیوں اور مادی لذات سے دل اچاٹ کئے معنویات کے بے کراں سمندر میں غوطہ زن ہیں تو ان حالات کے سایہ میں بہتری کی طرف ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھانے کے امکانات پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔
خواتین میں معنویت کا رجحان مردوں سے کم نہیں
یہی صورتحال خواتین میں بھی پائی جاتی ہے ہمارے ملک میں عورت سیاسی عمل میں موجود ہے اجتماعی اور سیاسی سرگرمیاں اس کے لیے موجود ہیں ، وہ تنظیمی کاموں میں حصہ لے رہی ہیں اور جب جہاد کا وقت ہوتا ہے تو مائیں اپنے جگر گوشوں کو جنگ کے محاذ پر خود تیار کر کے روانہ کرتی ہیں اور پھر امورخانہ داری اور تربیت اولاد کے معاملات سے بھی غافل نہیں اس قسم کے مظاہر اور اس جیسے حالات کا وجود عمومی طور پر دنیا کے دیگر ممالک میں تائید ہے اس بات کی بڑی اہمیت ہے اور یہ سب کچھ صحیح اسلامی تربیت کے نتیجہ میں ہوا ہے اور یہی حالت جو دلوں میں امید کی کرن روشن کرتی ہے اور اس نے ان نتائج تک پہنچا دیا جس کا آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس پر ہم نے ہمیشہ زور دیا ہے اور تاکید بھی کی ہے اور آج ہماری ایرانی عوام تدریجی طور پر ہماری عزت اور وقار کو پورے عالم میں مشاہدہ کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ اسلام کی پابندی کرنے اور اسلامی تعلیمات کو اپنانے کے نتیجہ میں ہے اور جو قوم بھی اسلام کی پیروی کرے گی اسے یہی کچھ حاصل ہو گا جو ایرانی قوم کو اسلام کے قوانین پر عمل پیرا ہو کرملا ہے اور جو لبنانی مسلمانوں کے لئے موجود تھے۔
لہٰذا اوضاع، حالات کوسازگار بنانا ممکن ہے اللہ کے اذن سے جس وقت اس قسم کے حالات بنیں گے اور پورے عالم میں اس قسم کی آمادگی ہو جائے گی تو حضرت بقیة اللہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے بھی حالات سازگارہوجائیںگے اوراس وقت یہ دیرینہ خواہش پوری ہو جائے گی جو مدتوں سے انسانوں کے اذہان میں بالعموم اور مسلمانوں کے اذہان بالخصوص جولان مار رہی تھی کہ کوئی ایسی صورتحال ہے کہ ہر طرف عدل ہو، امن ہو، خوشحالی ہو۔
تمہید:۔ دولت حق کے لئے بعض روایات
حضرت امام صاحب الزمان(عج) کی حکومت کے قیام کے لئے حالات بنانے ہیں، ماحول سازگار کرنا ، عمومی آمادگی پیدا کرنے کے لئے کوششیں کرنی ہیں اس کے لئے روایات میں تاکید ہوئی ہے اس جگہ چند روایات ملاحظہ ہوں۔
۱ ۔ ابوالحسن بن ھلال بن عمیر میں نے یہ بات حضرت علی علیہ السلام سے سنی کہ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے ”وراءنھر“سے ایک مرد خروج کرے گا اسے حرث(حارث بن حراث)کہا جائے گااس کے پیش ایک مرد ہو گا جسے منصور کہا جاتا ہو گا وہ حالات بتائے گا یا قدرت پیدا کرے گا حضرات آل محمد علیہم السلام کے اقتدار میں آنے کے لئے جس طرح قریش نے حضرت رسول اللہ کے لئے حالات پیدا کئے ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ اس کی نصرت کرے یا یہ فرمایا کہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔(سنن ابی داودج ۲ ص ۱۱۳ ،ح ۰۹۲۳)
۲ ۔ کتاب الفتن میں آیا ہے کہ عبداللہ بن مروان نے ھیثم بن عبدالرحمن سے اس نے حضرت علی علیہ السلام سے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”مہدی علیہ السلام سے پہلے ایک مرد اٹھے گا جو آپ کے اہل بیت سے ہوگا اور مشرق کی سرزمین سے اس کا تعلق ہوگا وہ آٹھ ماہ تک تلوار اپنے کاندھے پر اٹھائے رکھے گا، قتل کرے گا، ٹکڑے ٹکڑے کرے گا اور وہ بیت المقدس کا رخ کرے گا تو وہ اس جگہ نہ پہنچ سکے گا کہ وہ مارا جائے گا“۔(کتاب الفتن نعیم بن حماد المروزی ص ۸۹۱)
۳ ۔ المستدرک میں ابوالعباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی ہے، ان سے حسن بن علی بن عفان العامری نے ،ان سے عمروبن محمد العنقری نے حدیث بیان کی ان سے یونس بن اسحق نے یہ کہا کہ مجھے خبر دی ہے عمار دھنی نے ابوالطفیل سے اور اس نے محمد بن الحنفیہ سے یہ بیان نقل کیا ہے کہ” ہم حضرت علی علیہ السلام کے پاس تھے کہ کسی نے آپ علیہ السلام سے مہدی علیہ السلام کے بارے سوال کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ھیھات یہ بات دور کی ہے، پھر اپنے ہاتھ سے سات گرہیں بنائیں پھر فرمایا: وہ آخری زمانہ میں خروج کرے گا۔ اس آدمی نے سوال دہرایا کہ اگر وہ قتل کر دیئے گئے تو(لمحات النہج الصبان ص ۲۰۱) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک قوم کو اکٹھا کرے گا اس طرح جمع ہوں گے جس طرح بادل کی ٹکڑیاں جمع ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اکٹھا کر دے گا کسی ایک سے انہیں وحشت نہ ہو گی اور نہ ہی کسی ایک سے انہیں خوشی ہو گی ان میں اصحاب بدر کی تعداد برابر، افراد وارد ہوں گے اولین نے ان پرسبقت نہیں کی اور نہ ہی آخرین ان کا ادراک کریں گے طالوت کے اصحاب کی تعداد میں ہوں گے جنہوں نے اس کے ہمراہ نہر کو عبور کیا تھا۔
ابوالفضل:۔ ابن الحنفیہ نے کہا کیا تم اسے جانتے ہو؟
ابوالطفیل:۔ جی ہاں!
ابن حنیفہ:۔ وہ ان دو ٹکڑیوں کے درمیان سے خروج کریں گے۔
ابوالطفیل:۔ کوئی حرج نہیں، اللہ ان دونوں کومجھے نہ دکھائے مگر یہ کہ میں مر جاوں پس وہ مکہ میں مر گیا ، اللہ مکہ کی حفاظت فرمائے۔(المستدرک الحاکم نیشاپوری ج ۴ ص ۴۵۵)
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور ان دونوں نے اس حدیث کا اخراج نہیں کیا۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: امر سارا ان کے لئے ہو گا یہاں تک کہ وہ ان کے مقتول کو قتل کریں گے اور آپس میں مقابلہ کریں گے جب ایسا ہو گا تو اللہ تعالیٰ مشرق سے ان پر ایسی اقوام بھیجے گاجو انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے اور انہیں شمار کر کے ماریں گے خدا کی قسم وہ ایک سال کے مالک نہ بنیں گے مگر ہم دو سال کے مالک بنیں گے وہ دو سال کا اقتدار نہ لیں گے مگر یہ کہ ہم چار سال کا اقتدار لیں گے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ہے: میں اسباط سے سبط ہوں، حق پر میں جنگ کروں گا تاکہ میں حق قائم کروں لیکن حق ہرگز قائم نہ ہوگا اور اَمر اُن کے واسطے رہے گا پس جب وہ بہت ہو جائیں گے تو آپس میں مقابلہ پر اترآئیں گے تو وہ ان کے قتیل کو بھی مکمل کریں گے اللہ تعالیٰ ان پر اہل مشرق سے اقوام بھیجے گا تو وہ انہیں منتشر کر کے ماریں گے اور ان کی تعداد کا انہیں شمار ہوگا خدا کی قسم!وہ ایک سال اقتدار حاصل نہ کریں گے مگر یہ کہ ہم دو سال اقتدار لیں گے۔(الشریف بالمتن ج ۴۸ ص ۰۳،۹۳۳،۸۴۴)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون آج عرب کے ایسے امر کو ضروربالضرور بیان کر دیا جائے گا جسے وہ چھپاتے رہے۔
راوی کہتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سخت غضب کی حالت میں تھے ۔
آپ نے فرمایا مجھے ان ضیاطرہ( ) کے بارے گفتگو کرنے سے کون معذور قرار دیتا ہے ان کا ایک جو ہے وہ اس حشایا( )پر چھٹا پڑا ہے ، پس وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اسے بھگا دوں اور میں ظالموں سے قرار پاوں جس نے دانا شگافتہ کیا اور نفس کو پیدا کیا،میں نے یہ بات جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی کہ آپ فرماتے تھے خدا کی قسم کہ وہ تمہیں دین پر واپس لانے کے لئے مارے گا جس طرح تم نے اسے شروع میں دین پر لانے کے لئے مارا ہے۔(نہج السعادة ج ۲ ص ۳۰۷)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے ہے: میں عجمیوں کو دیکھ رہا ہوں ان کے مجمعے مسجد کوفہ میں لگے ہوئے ہیں وہ قرآن کو اس طرح تعلیم دے رہے ہیں جس طرح قرآن اترا ہے۔(الغیبة نعمانی ص ۸۳)
الطبرانی نے ابن حیان سے اس نے معاویہ بن قرہ سے اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے جس وقت ملاحم واقع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ موالیوں کی جماعت بھیجے گا وہ عربوں میں زیادہ کریم ہوں گے سواری کے اعتبار سے اور اسلحہ کے اعتبار سے زیادہ سخی ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے وسیلہ سے دین کی تائید فرمائے گا۔
ابی الحسن الربعی المالکی نے اپنی سند سے حدیث بیان کی ہے حضرت رسول اللہ نے فرمایا: جب ملاحم واقع ہوں گی اللہ تعالیٰ دمشق سے ایک گروہ کو اٹھائے گا جو موالی(غیرعرب)سے ہوں گے سواری کے لحاظ سے تمام عربوں سے زیادہ کریم ہوں گے اور اسلحہ کے لحاظ سے ان سے زیادہ اٹے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ دین کی تائید فرمائے گا جب خلیفہ کو عراق میں قتل کر دیا گیا تو ایک مربوع(چارشانوں والا مرد خروج کرے گا)(معجم احادیث المہدی ج ۱ ص ۳۸۲ ، بحارالانوار ج ۷۵ ج ۶ ص ۶۱۲ ص ۶۱۲)
مصنف کہتا ہے کہ یہ روایات اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں ان کے مضامین سے جو بات اجمالی طور پر سمجھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے کام کیا جائے گا اور آپ علیہ السلام کی حکومت کے لئے حالات بنانے کے واسطے کوششیں ہوں گے۔(مصنف نے ان روایات سے اجمالی یہ مطلب ا خذ کیا ہے البتہ ان سے زیادہ وضاحت والی احادیث کا انتخاب کیا جاتا تو بہترتھا۔ مصنف بتانا یہ چاہتے ہیں کہ آخری زمانہ میں فتنے ہوں گے اسلام کے احیاءکے لئے تحریک اٹھے گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے لوگ اسلام کے لئے قیام کریں گے کچھ ناکام ہوں گے اور یہ سلسلہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور تک جاری رہے گا مصنف نے یہ ساری روایات اہل سنت سے لی ہیں اس موضوع پر مزید جاننے کے لئے ہماری ترجمہ شدی کتاب”عصر ظہور“کا مطالعہ کریں....مترجم)
سیاہ جھنڈے اور اہل قم
۱ ۔ حضرت امام ابوالحسن اول کے حوالے سے حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے جس میں اہل قم سے ایک مرد کے قیام کی بات کہی گئی ہے۔
۲ ۔ حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ قم کو کیوں قم کا نام دیا گیاہے؟
راوی : میں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول اور آپ علیہ السلام بہتر جانتے ہیں۔
امام ابوعبداللہ علیہ السلام: قُم کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اھل قُم قائم آل محمد علیہم السلام کے ساتھ اکٹھے ہوں گے ان کے ساتھ قیام کریں گے ان کے ہمراہ مستحکم رہیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔(البحار ج ۶ ص ۶۱۶ ،ص ۸۳)
۳ ۔ ابوعبداللہ علیہ السلام: عنقریب کوفہ مومنوں سے خالی ہو جائے گا اور وہاں سے علم اس طرح غائب ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنی بل میں غائب ہو جاتا ہے، پھر علم ایک ایسے شہر میں ظاہر ہو گا جسے قم کہا جاتا ہو گا قُم علم و فضل کا مرکز بن جائے گا، یہاں تک کہ رُوئے زمین پر کوئی شخص دین کے حوالہ سے مستضف نہیں ہوگا حتیٰ کہ خواتین جو پردہ دار ہیں ان تک بھی پہنچے گا جیسا کہ آج خواتین میں علم دین کے حصول کا شوق اور لگاو عام ہے....مترجم) اور یہ ہمارے قائم علیہ السلام کے ظہور کے قریب ہو گا اور اللہ تعالیٰ قُم اور اہل قُم کو حجت کے قائم مقام قرار دے گا اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جاتی اور زمین پر حجت اور دلیل باقی نہ رہتی پس وہاں سے علم سارے شہروں کوپہنچے گا مشرق اور مغرب میں یہ علم جائے گا اس طرح مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہو جائے گی کوئی روئے زمین پر ایسا نہ بچے گا مگر یہ کہ اس تک دین اور علم پہنچ جائے گا اس کے بعد قائم ظہور فرمائیں گے آپ علیہ السلام اللہ کا عذاب بن کر آئیں گے اور اللہ کی ناراضگی کا اظہار ہوں گے بندگان پر کیونکہ اللہ تعالیٰ بندگان سے انتقام نہیں لیتا مگر اس وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کی حجت کا انکار کر دیتے ہیں۔(البحارج ۰۶ ص ۶۱۲،۶۳ ص ۸۳)
۴ ۔ ابوعبداللہ علیہ السلام:اللہ تعالیٰ نے کوفہ کے توسط سے سارے شہروں پر احتجاج کیا اور کوفہ میں رہنے والے مومنین کے ذریعہ ان پر احتجاج کیا جو دوسرے شہروں میں رہنے والے ہیں اور قُم شہر کے ذریعہ باقی شہروں پر احتجاج کیا اور قُم والوں کے ذریعہ مشرق اور مغرب میں رہنے والے سارے جنات اور انسانوں پر احتجاج کیا اللہ تعالیٰ نے قُم اور اہل قُم کوکمزورنہیں چھوڑا بلکہ انہیں توفیق دی اور ان کی تائید فرمائی پھر فرمایا: دین اور اہل دین قُم میں ذلیل ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو تیزی سے اس طرف آتے اور قُم ویران ہوجاتااور اہل قُم ختم ہو جاتے ہیں پھر سارے شہروں حجت و دلیل نہ رہتی اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر زمین اور آسمان مستقرنہیں رہ سکتے اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی ان کی جانب نگاہ نہ کی جائے مصائب قُم اور اہل قُم سے دور ہیں ایک زمانہ عنقریب آئے گا کہ قُم اور اہل قُم تمام خلائق پر حجت ہوں گے اور یہ ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ہو گا کوئی بھی ان کی جانب برا ارادہ نہ کرے گا مگر یہ کہ فاصیم الحیارین انہیں توڑ کر رکھ دے گا اور انہیں کسی مصیبت اور ہلاکت میں تباہ و برباد کر دے گا یا کسی دشمن سے ان کا پالا پڑے گا ان جابروں کے ذہن سے قُم اور اہل قُم کی یاد کو بھلا دے گا جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھول چکے ہیں۔
(البحارج ۶ ،ص ۲۱۲،۳۱۳ ، باب ۶۳ حدیث ۲۲ ، منتخب الاثرص ۳۶۲،۴۶۳ ، باب ۷۲ حدیث ۱۲)
امام علیہ السلام: اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے زیادہ بلند، کرامت والی، شان والی، عظمت والی ہستی ہے کہ وہ زمین کو بغیر عادل امام علیہ السلام کے چھوڑ دے ایسا کرنا اس کی شان، عظمت و جلالت کے منافی ہے۔
راوی:۔ میں آپ پر قربان جاوں کس طرح میں آرام و اطمینان حاصل کروں۔
امام علیہ السلام:۔ اے ابا محمد! امت محمد کبھی بھی راحت کو نہ پا سکیں گے جب تک فلاں کی اولاد ان پر حاکم ہے یہاں تک کہ ان کا ملک اور اقتدار ختم ہو جائے، جب ان کا اقتدار ختم ہو گا تو اللہ تعالیٰ امت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اہل البیت علیہ السلام سے ایک آدمی(مرد)عطا کرے گا جو انہیں تقویٰ اختیار کرنے کا کہے گا اور ہدایت پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ کے حکم میں رشوت نہ لے گا خدا کی قسم میں اس کا نام اور اس کے باپ کا نام جانتا ہوں پھر ہمارے پاس ایک موٹے جسم والا چھوٹے قد والا غلیظ القصرہ، آئے گا خال والا ہوگا، شامتین( )اس کے ہوں گے۔ قائم قیام کرنے والا ہوگا، عادل ہوگا، جو اسے سپرد کیا گیا ہے اس کی حفاظت کرنے والا ہوگا زمین کو عدل اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہے۔
(اقبال الاعمال ص ۹۹۵،۰۰۶ اثبات الہداہ ج ۳ ص ۱۸۵،۲۸۵ ، فصل ۹۵ حدیث ۶۶۷ ، البحارج ۲۵ ص ۹۶۲،۵۲ ،حدیث ۸۵۱)
۵ ۔ ابن اعثم الکوفی نے الفتوح میں بیان کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
طالقان کے کیا ہی کہنے، اللہ تعالیٰ کے اس میں خزانے ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں لیکن اس میں ایسے مرد ہیں جو مومن ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اس طرح رکھتے ہیں جیسے ہونی چاہئے اور وہ آخری زمانہ میں مہدی علیہ السلام کے انصار بھی ہیں۔(البحار ج ۱۵ ص ۷۸ ، مستدرک سفینة البحار ج ۶ ص ۷۵ ، الماوی للسیوطی ج ۲ ص ۲۸ ، کنزالعمال ج ۷ ص ۲۶۶ ، آخری دو حوالے اہل سنت سے ہیں)
طالِقان سے مراد
لام پر زیر پڑھنی ہے ، دو شہروں پر بولا جاتا ہے ( ۱) خراسان میں ہے جو مروالروذ اور بلخ کے درمیان واقع ہے اس کے ارامروالروذ کے درمیان تین مراحل فاصلہ ہے اور الاصطخری نے بیان کیا ہے طخارستان کا سب سے بڑا شہر طالِقان ہے اور یہ ایسا شہر ہے جو سطح زمین کے برابر ہے شہر اور پہاڑ کے درمیان ایک تیرکے چلانے کا فاصلہ ہے ان میں بڑا دریا ہے اور باغات اس میں ہیں طالِقان بلخ کا ایک تہائی ہے اس کے بعد جو شہر ہے وہ زوالین ہے بڑے ہونے کے لحاظ سے ۔(معجم البلدان الحموی ج ۴ ص ۶)
(از مترجم....مصنف نے طالِقان کے بارے یہی بات لکھی ہے پھر یہ کہ دو جگہوں پر بولا جاتا ہے اس کی بھی پوری وضاحت نہیں ہے کہ دوسری جگہ کون سی ہے؟ جہاں تک میری معلومات ہیں تہران سے متصل کوہ ابرز کے علاقہ پر طالِقان کا لفظ بولا جاتا ہے اس نام کا کوئی خاص شہر آباد نہیں ہے۔عصر الظہور میں اس کے بارے تفصیل موجودہے)
مصنف کا بیان ہے کہ طالِقان کے جو خزانے ہیں اس سے مراد وہ افراد ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ نکلیں گے جیسا کہ روایت میں ہے ان کی تعداد بارہ ہزار ہوگی۔
عام طور پر اس لفظ کو اہل خراسان پر اس طرح سے نہیں بولا جاتا جس طرح اہل فارس اور اہل قُم کا لفظ ہے۔ اس کا استعمال اس انداز سے نہیں (مصنف نے طالقان کا تعین نہیں کیا کہ یہ کس علاقہ پر بولا جاتا ہے اور اس سے کون مراد ہیں)
حضرت ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اللہ کے فرمان ”ماختلف الاحزاب من بینھم “ بارے پوچھا گیا۔
امیرالمومنین علیہ السلام: تین میںظہورکی انتظار کرو۔
سائل: یا امیرالمومنین علیہ السلام وہ تین کون سے ہیں؟
امیرالمومنین علیہ السلام: شام والوں کا آپس میں اختلاف ہونا،خراسان سے سیاہ جھنڈوں کا نمودارہونا، ماہ رمضان میں فزعة کا ہونا ۔
سائل: اس فَزَعة سے کیا مرادہے؟
امیرالمومنین علیہ السلام: کیا تم نے قرآن مجیدمیں اللہ عزوجل کا یہ فرمان نہیں پڑھا ”(
إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ
)
“(الشعراءآیت ۴)
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اتاریں کہ اس نشانی کے آگے ساروں کی گردنیں جھک جائیں گی یہ ایک خوفناک دہلا دینے والی آسمان سے آواز ہو گی کہ جوان لڑکی اپنے پردہ سے باہر دوڑ آئے گی، سوئے ہوئے کو جگا دے گی اور بیدار جو ہے ڈر جائے گا۔(کتاب الغیبة باب علامات قبل قیام القائم علیہ السلام ص ۱۵۲ ، اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۲۴)
پھر کوفہ سے ایک لاکھ نکلیں گے جو مشرک اور منافق ملے ہوں گے وہ پڑاو دمشق میں ڈالیں گے کوئی روکنے والا انہیں منع نہیں کرے گا اور یہ ارم ذات العماد ہیں مشرقی سرزمین سے پرچم آئیں گے روئی، اون، ریشم کے نہیں ہوں گے نیزوں کے سروں پر السیدالاکرکی مہر سے نشان لگے ہوں گے آل محمد علیہم السلام کا ایک آدمی انہیں جلا رہا ہو گا جس دن وہ پرچم مشرق میں اڑے گا تو اس کی ہوا مغرب کو پہنچے گی مشک اذفر کی مانند، اس کے آگے رعب اور دبدبہ ایک ماہ کے فاصلہ سے چلے گا یعنی اس پرچم سے اتنا رعب ہوگا کہ ایک ماہ کی مسافت والے علاقہ جات پرچم کے پہنچنے سے پہلے ہی مرعوب ہو جائیں گے۔
(البحار ج ۳۵ ص ۷۷ حدیث ۲۲ ، الایقاط من الحجة ص ۹۸۲ ج ۰۰۱،۱۱۱)
۸ ۔ غیبت نعمانی میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے : پلان بنایا جا چکا ہے، فیصلہ ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بنی امیہ سے ظاہری تلوار سے اقتدار کو لے اور فلاں کا اقتدار لینا اچانک ہوگا۔امیرالمومنین علیہ السلام: اس چکی نے ضروری گھومنا ہے، جب وہ کہ اپنے قطب اور مرکز پر آگئی اور اپنی بنیاد پر برقرار ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک عبد عسف کومسلط کرے گا جس کی اصل ہو گی بھیجے گا،مدد اس کے ساتھ ہو گی اس کے اصحاب کے بال لمبے ہوں گے وہ اصحاب السبال( )ہوں گے ان کے لباس سیاہ ہوں گے وہ سیاہ جھنڈوں والے ہوں گے ان کے واسطے تباہی ہوگی جو ان کا مقابلہ کرے گا وہ بدامنی کے ساتھ قتل کریں گے خدا کی قسم!میں انہیں دیکھ رہا ہوں ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہوں ان کے فاجروں سے جو کچھ ہو گا اور عراب سے جو کچھ ہوگا ، ظلم ہو گا، زیادتی ہو گی ، اللہ ان پر بے رحم کو مسلط کر دے گا وہ انہیں بدامنی سے قتل کر دے گا ان کے شہر میں فرات کے کنارے پر، تری اور خشکی میں یہ بدلہ ہو گا اس عمل کا جو انہوں نے انجام دیا ہوگا اور تیرا رب ظلم کرنے والا نہیں ہے۔(الزام الناصب ج ۲ ص ۶۳۱ ، غیبت نعمانی ص ۷۵۲۱ ج ۴۱ حدیث ۴۱)
۹ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف منسوب باتوں سے یہ بھی ہے کہ سیاہ پرچم والوں کی جماعتوں میں ہیجان بپا ہو گا، بڑی آگ نصب کریں گے ، جسے سیارخ(عربی میں صاروخ، صارخ میزائل کو کہاجاتاہے)صارخ نام دیا جائے گا اور اللہ کے دشمنوں کو بہت ساری معدنیات سے دھمکائیں گے، دائرہ کی مانندمخلوط ہوں گے اور دوسری بہت ساری شکلیں ہوں گی، پہاڑوں کی لمبائی جیسے تیر ہوں گے ان تیروں کے دل میں بھڑکتی آگ ہو گی جو زمین کو پھاڑ کر رکھ دیں گے پانی اور ہوا کوفاسد کر دیں گے کسی کو زندہ نہ چھوڑیں گے مگر اسے چٹ کر دیں گے وہ حمحمہ جیسا اگر چھوڑے گا راکھ ہو جائے گا ہوا میں ذرات اڑ جائیں گے، اگر اسے دفن نہیں کرو گے، یہودی عورتیں شوہرمانگیں گی ان کو شوہر نہ ملیں گے مگر یہود سے باہر کی نسل سے بیس عورتوں کا ایک نگران ہوگایعنی یہود میں مرد کم پڑجائیں گے۔
وہ سب زمین کے ایک حصہ میں اکٹھے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کرے گا ان پر اھانت، بیچارگی، رسوائی لکھ دی جائے گی ان کا کوئی پر بھڑکتا ہوا نہیں اٹھے گا مگر یہ کہ نیزے کی مانند وہ دجال کی انتظار کریں گے اور وہ جوشر غالب ہے وہ انتظار اس کی کریں گے ان میں سے ہزاروں ایمان لائیں گے ان کے لئے عقل اور دین ہوگا وہ دن اور رات مہدی علیہ السلام کے اقتدار میں بسر کریں گے۔(المناجاة لمحمد عیسی بن داود ص ۱۰۶)
۰۱ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلامکی طرف منسوب ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا،قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیاہے، ایک پرچم ہے کہ اس کے ساتھ اور بہت سارے پرچم ہیں، وہ پرچم ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے جس دن سے لہرایا گیا تو اسے ابھی لپیٹا نہیں گیا اور ایسے مرد ہیں کہ ان کے دل فولاد سے زیادہ سخت ، مضبوط اور ٹھوس ہیں اگر وہ پہاڑوں پر حملہ کردیں تو انہیں اپنی جگہ سے ہٹا دیں وہ یہودیوں کے کسی بھی شہر کا اپنے جھنڈوں اور اسلحہ کے ساتھ رخ نہ کریں گے مگر یہ کہ اسے ویران کر دیں گے گویا ان کی سواریوں کے اوپر عقبان ہیں جو اڑ رہے ہیں وہ مہدی علیہ السلام کو اپنی جانوں سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے اصحاب محبت رکھتے تھے وہ مہدی علیہ السلام کو گھیرے رکھیں گے اور اپنی جانوں کے ذریعہ ان کی حفاظت کریں گے انہیں اس بات کا یقین ہو گا کہ اللہ ان کے لئے فتح دے گا اور جو مہدی علیہ السلام نے ارادہ کر لیا ہے اللہ اس کے لئے المفاجاة لمحمدعیسیٰ فتح دے دے گا۔
(المغاجاءلمحمد عیسیٰ بن داودص ۱۰۶)
حضرت رسول اللہ: جس وقت تم خراسان سے سیاہ پرچموں کو آتے دیکھ لو تو پھر ان کی مدد کے لئے آگے بڑھنا، اگرچہ تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل بھی چل کر کیوں نہ آنا پڑے کیونکہ ان میں خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام موجود ہے۔(بحارالانوار ج ۷۴ ص ۲۸ ج ۷۳)
حضرت رسول اللہ : ہم اہل البیت علیہ السلام ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن کے لئے آخرت کو ان کی دنیا پر منتخب کر لیا ہے میرے اہل بیت علیہ السلام میرے بعد بہت تکالیف دیکھیں گے انہیں بھگایا جائے گا دربدر پھرایا جائے گا، یہاں تک کہ مشرق سرزمین سے ایک قوم آئے گی ان کے ہمراہ سیاہ پرچم ہوں گے تو وہ حق کے متعلق سوال کریں گے تو انہیں وہ حق نہیں دیا جائے تو وہ اس حق کو لینے کے لئے جنگ کریں گے اور وہ کامیاب ہو جائیں گے انہیں ان کا حق دیا جائے گاجو وہ چاہتے تھے لیکن وہ اس صورت میں اتنے پر اکتفا نہ کریں گے یہاں تک کہ وہ اس پرچم کو میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک کے حوالے کریں گے جو آکر زمین کو عدل اور انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم اورجور سے بھرچکی ہو گی پس تم میں جس سے ہو سکے وہ اس کی مدد کے لئے آئے اگرچہ اسے برف پر گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ آناپڑے۔(سابقہ حوالہ)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: تمہارے خزانے کے پاس جنگ ہو گی اور تین افراد جنگ کریں گے سارے خلیفہ کے بیٹے ہوں گے پھر نتیجہ ان میں سے کسی ایک کے حق میں نہ جائے گا پھر مشرق سے سیاہ پرچم نمودار ہوں گے تو وہ ان سے جنگ کریں گے ایسی جنگ کہ اس سے پہلے اس طرح کی جنگ نہ ہوئی ہو گی پھر رسول اللہ نے کوئی بات ارشاد فرمائی جو مجھے یاد نہیں ۔
پھر فرمایا: پس جب تم ان کے امیر کو دیکھو تو تم سب ان کی بیعت کرنا اگرچہ تمہیں اس تک جانے کے لئے برف پر گھٹنے کے بل چل کر کیوں نہ جانا پڑے کیونکہ وہی خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام ہیںاسی روایت کو حافظ ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے ۔(کفایة الطالب ص ۹۸۴)
ایک اور روایت میں اس پر اضافہ ہے، پھر خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے پس جب تم اس کے متعلق سنوتو اس کے پاس آنا اور اس کی بیعت کرنا کیونکہ وہی خلیفة اللہ المہدی علیہ السلام ہے۔(بحارالانوار ج ۷۴ ص ۳۸ حدیث ۷۳)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے سیاہ پرچم آئیں گے گویا ان کے دل لوہے کے ہیں پس جو ان کے بارے سنے تو وہ ان کے پاس آ جائے اور ان کی بیعت کرے اگرچہ برف پر گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ آنا پڑے۔
(سابقہ حوالہ، ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۰۴)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مشرق سے کچھ لوگ نکلیں گے جو مہدی علیہ السلام کے لئے زمین ہموار کریں گے یعنی مہدی علیہ السلام کے اقتدار اور ان کی سلطنت کے لئے راستہ بنائیں گے یہ حدیث صحیح ہے اسے ثقہ اور ثابت راویوں نے روایت کیا ہے اس کا اخراج حافظ ابوعبداللہ ماجہ القزوینی نے کیا ہے ابن سنن میں(کفایة الطالب ص ۰۹۴)
مصنف کہتے ہیں: یہ روایتوںکا ایک گروپ ہے جس میں مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈوں کی بات کی گئی ہے۔
پہلا مشرق ہی میں قُم، خُراسان، طالِقان، فارس آتے ہیں تو یہ ساری روایات جمہوریہ اسلامیہ ایران کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ جہاں کوفہ سے علم یا نجف سے علم منتقل ہوا تاکہ زمین کی ساری اطراف میں مبلغین کے توسط سے پہنچے جو ہر سال مختلف شہروں میں تشریف لے جاتے ہیں عدالت، دین، قیام کے رائج ہونے کے لیے نکلتے ہیں، عدالت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں یہ کشف کرتا ہے کہ یہ جھنڈے مقدمہ اورتمہیدہیں اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے ہیں۔
تمہید و مقدمات کی انواع
یہ وہ احادیث ہیں جو ایسے واقعات اور حالات پر اجمالی طور پر روشنی ڈال رہی ہیں کہ کچھ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے اور کوئی ظہور کے ہمراہ اور کچھ ظہور کے بعد کو بیان کر رہی ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ حالات ہیں جو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے مقدمات کو فراہم کرنے سے متعلق ہیں امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے حوالہ سے تمہید کے معانی حیات کے حوالہ سے مختلف ذکر ہوئے ہیں۔
افراد کی تیاری
افراد کی تیاری یہ ہے کہ منکرات اور انحرافات عقائدی لحاظ سے یا عبادتی لحاظ سے ہوں ان کو اپنے وجود سے دور کیا جائے بدعملی اور انحرافات کے مراکز سے خود کو دور رکھا جائے اپنی اصلاح پر توجہ دی جائے اسلامی تعلیم پر عمل کیا جائے خود کو صالح اور نیک بنایا جائے۔
ادارہ جات کی سطح پر تیاری
ادارہ جات کی بنیاد پر تیاری کی جائے اجتماعی، ثقافتی، تبلیغی، خدماتی میدانوں میں کام کیا جائے اگر ایک آدمی امام مہدی علیہ السلام کے لئے تیاری کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے ایسے ادارہ جات بنانے ہوں گے کہ جن کے ذریعہ معاشرہ کے اندر جو بگاڑہے، خرابیاں ہیں، ان کا خاتمہ کیا جائے، اجتماعی مفاسد اور منکرات کے خاتمہ کے لئے کام کیا جائے، افراد کے درمیان پیار ، محبت کی فضاءقائم کی جائے، ہر وہ عمل جو معروف کے عنوان میں درج ہوتا ہے اسے انجام دیا جائے معاشرہ کے کمزور طبقات کے لئے کام کیا جائے، فکری انحطاط کو دور کیا جائے۔
اگر آپ نے کوئی تربیتی ادارہ اس کے لئے بنایا ہے تو ان میں بچوں کی صحیح اسلامی تربتیت پر خصوصی توجہ دی جائے انہیں ایسے منکرات سے بچایا جائے جو ان کی روحانی اور معنوی حالت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جیسے حرام غذاکھانے سے روکاجائے، نجس غذا، نجس پانی پینے سے روکا جائے۔
اسی طرح بچے کو اسلامی آداب سکھائے جائیں اور ایسے کام اس کے ذمہ لگائے جائیں جس سے وہ شجاع بنے، بااخلاق بنے، بردبار بنے، سخی بنے،سنجیدہ بنے۔
اسی طرح ماحول اور خاندان کے اندر کام کرنے بارے ہے، اس کی کوشش ہو کہ خاندانی روابط کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں استوار کرے، خاندان پر بوجھ نہ بنے، ماحول کو آلودہ کرنے والی عادات سے بچے جیسے سگریٹ نوشی، ایسے کھانوں سے پرہیز جو صحت کے لئے نقصان دہ ہوں ، زراعت پر زور دے، شجرکاری مہم میں حصہ لے ہر وہ کام کرے جس سے فضاءاور ماحول سے آلودگی کا خاتمہ ہو، یہ ایسا امر ہے جو ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میں مددگار ہوگا انسان خود کو ایسے کاموں کے لئے فارغ پائے گا اور ماحول کو نقصان بھی نہ دے گا۔
اجتماعی اور اخلاقی ادارہ جات اور تنظیموں کے لئے ایسے امور کی انجام دہی بارے زیادہ تاکید ہے اس پر لازم ہے کہ ایسے عمل سے روکے جو اخلاقی مفاسد کو وجود میں لانے کا سبب ہیں جیسے چوری، زنا، جنسی بے راہ روی، مردوزن کا اختلاط، رشوت، فحاشی، ان کے خاتمہ کے لئے ایسے پروگرام بنائے جائیں جس سے بے راہ روی انحرافی رجحانات کا خاتمہ ہو۔فکری اور عملی طور پر پاکدامنی، شرافت، شرعی طریقہ پرجنسی روابط استوار کرنے اور گھرانے کی اسلامی اصولوں پر تشکیل جیسے امور پر زور دیا جائے اور اس کے لئے اجتماعی انداز سے کام کیاجائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اجتماعی اداروں، دینی بنیادوں پر قائم انجمنوں، فلاحی ٹرسٹوں، رفاہی اداروں، تعلیمی اداروں کو چاہیئے کہ وہ اپنے عمل میں اپنے پروگراموں میںبامقصد ہوں، ان کی ساری سرگرمیوں کا محور اور مقصد ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ہو، فرد کی سطح پر اور اجتماع اور سوسائٹی کی سطح پر، اگر ایک ادارہ اجتماعی وضع اور حالات کو پر سکون بنانے، مفیدقراردینے،گھرانوں، خاندانوں، یا افراد کے اندر کردار سازی کے عمل میں کامیابی حاصل کرلے تو گویا ایسے اداروں نے اسلامی ماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور یہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کےلئے مقدمات فراہم کرنے اور حالات بنانے میں اپنی ذمہ داری کو نبھاتا ہے(یہ انتہائی اہم ہے اسی ضمن میں اسلامی تعلیمات کےلئے دینی مدارس کا قیام، مستند کتابوں، ماہنامہ، ہفت روزوں کی اشاعت، راہنمائی کےلئے مراکز، جوانوں کی تربیت کے لئے ورزش گاہیں، تعلیم یافتہ طبقہ تیار کرنے اور جاہلیت کے خاتمہ کے لئے سکولوں و کالجوں، یونیورسٹیوں کا قیام، اخلاقی تربیت کےلئے دینی تربیت کے مراکز عبادت کےلئے مساجد، امام بارگاہوں کی تعمیر، دینی احکام کی تعلیم کےلئے مبلغین اور مبلغات کی تربیت، ہنرمند بنانے کے لئے فنی مراکز، معاشی ترقی کےلئے تجارتی مراکز، اقتصادی منصوبہ جات، سیاسی شعور اجاگر کرنے کےلئے لٹریچر، خصوصی لیکچروں کا اہتمام، سیاسی عمل کےلئے سیاسی جماعت کی تشکیل غرض ایک الٰہی، صالح، ترقی یافتہ، پیارومحبت پر مبنی، تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ، معاشرہ تشکیل دینے کےلئے اور وہ بھی الٰہی نظریہ کی بنیاد پر عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر جو کام اور جو عمل ضروری ہے اسے انجام دینا ہوگااور ایسا کرنا حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کےلئے حالات کو سازگار بنانا ہے اور ایسے عمل انجام دینے والے امام زمانہ علیہ السلام کے ناصران کہلائیں گے اور انکے معاونین سے شمار ہوں گے اور ایسے افراد ہی حقیقی منتظرین ہیں، کیونکہ انتظار جو سب سے افضل عبادت ہے، اللہ کے قرب کا وسیلہ ہے، امام مہدی علیہ السلام سے تعلق کا ذریعہ ہے اور کثیر ثواب والا عمل ہے، تو اس معنی میں یہ ہے کہ خود کو امام زمانہ (عج) کےلئے تیارکرنا تو یہ تیاری دو طرح کی ہے۔
انفرادی اور شخصی تیاری
اس میں انسان کو اسلامی احکام سیکھناہوں گے، قرآن پڑھناہوگا،اپنے اخلاق پر توجہ دینا ہوگی، خود کو اسلامی احکام کا پابند بنانا ہوگا، یہ خودسازی کی منزل ہے ، اسلام جس طرح کا انسان چاہتا ہے ویسا بننا ہوگا، واجبات ادا کرنا، محرمات سے بچنا۔
اجتماعی اور معاشرتی سطح پر
اس میں اجتماع سے متعلق معاشرہ اور سوسائٹی کے حوالے سے جتنے بھی کام ہیں وہ سب شامل ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے صالح معاشرہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کام کرنا....ازمترجم)
حکومتوں کی سطح پر تیاری
یہ تیاری انتہائی اہم ہے، اس کا اثر دوسرے کاموں سے زیادہ ہے کیونکہ حکومتوں کے پاس مادی اور معنوی صلاحیات اور اختیارات وقدرات زیادہ ہوتی ہیں ان اختیارات کے استعمال سے وہ ان تمام اہداف کو پورا کرتے ہیں جن کا ہم نے اجتماعی تیاری میں اشارہ کیا ہے یہ اختیارات ، ادارہ جات، انجمنوں اور تنظیموں کے پاس موجود نہیں ہوتے جو کچھ ہم نے تعلیمی، ثقافتی، تبلیغی، خدماتی ،رفاہی ادارہ جات کے لئے مثالیں دی ہیں اور ان کے کاموں کو بیان کیا ہے تو حکومتی سطح پر ان سب امور کو منظم انداز سے انجام دیا جا سکتا ہے اور اس میں نتائج کا حصول بھی یقینی ہوگا بلکہ حکومت ان ادارہ جات کے لئے میدان فراہم کرتی ہے اور ان کے عمل کو تقویت دیتی ہے اور اس کی کامیابیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتی ہے، کیونکہ حکومتیں ایسے قوانین وضع کر سکتی ہیں جو اخلاق سدھارنے اوراجتماعی بگاڑ سے بچنے اور تربیتی امور کو منظم انداز سے انجام دینے میں مددگار ہوتے ہیں ان قوانین کے ذریعہ منکرات فحاشی،مفاسد اور آوارہ گردی کا خاتمہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی امربالمعروف انجام پاتا ہے واجبات کی ادائیگی پرزور دیا جاتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
حکومتوں میں ہی عسکری تربیت ہو سکتی ہے کیونکہ حکومتیں فوج کوتربیت دیں گے، اسلحہ تیار کریں گی، اسلحہ سازی کے لئے ضروری اقدامات کریں گی، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اگر ایسی حکومت موجود ہو جو اسلامی اور قرآنی تعلیمات کی پابند ہو اور نبی اکرم کی سیرت اخلاقی اور سنت کو حکومتی اور انفرادی سطح پر لاگو کر دے گی تو ایسی حکومت اجتماعی اور اخلاقی قوانین کو عظمت اورقدر دے دے گی اور اس کے بہت ہی زیادہ اثرات ہوں گے یہ ایسا کام ہے جسے افراد اور پرائیویٹ ادارے، تنظیمات اور انجمنیں انجام نہیں دے سکتیں ایسی حکومت ماحول بنائے گی، حالات سازگار کرے گی، امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کے لئے جورکاوٹیں ہیں انہیں دور کرے گی اور امام مہدی علیہ السلام کے لئے فورس اور فوج کو تربیت دے گی ۔
حضرت امام زمانہ(عج) کی حکومت کی تیاری میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ عالمی سطح پر اخلاقی اور اجتماعی فساد ہے، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے، یہ فحاشی امیر ممالک سے غریب ملک میں داخل ہو چکی ہے، پوری دنیا کے اکثر گھروں پر اخلاقی فساد ٹیلی وژن، ریڈیو، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویب سائیٹس کے ذریعہ پہنچ چکا ہے اس طرح پورے عالم میں اس وقت بڑی تیزی سے فساد پھیل گیا ہے فحاشی کے مناظر عام ہو چکے ہیں جو ایک فرد پر بھی اسی طرح اثر انداز ہیں جس طرح ایک سوسائٹی اور اجتماع پر ہے ۔ اس حالت سے تہذیبی انحطاط کو جنم دیا ہے، اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں، انسان کی انسانیت اور صالح معاشرہ کا وجود نا پید ہوتا جا رہا ہے اس کے لئے حکومتوں کو منصوبہ بندی کرنی ہو گی جو اسلامی ممالک کے حکمران ہیں ان کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ عالمی سطح پر اخلاقی فساد کا مقابلہ کریں اور اسلام کے اعلیٰ اخلاق کو پورے عالم کے لئے معاشرے میں متعارف کرائیں اور ان کے لئے متبادل طریقے پیش کریں اس عمل سے وہ اس الٰہی فریضہ کو ادا کریں گے جو ان کی گردن پر ہے کہ پورے عالم میں امن کے قیام اور عدالت الٰہی کے نفاذ اور معاشی بحران کے خاتمہ اور اجتماعی اور انفرادی خوشحالی کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے حالات سازگار کئے جائیں اور ضروری مقدمات فراہم کیے جائیں اس ذمہ داری کوایک فرد ادا نہیں کرسکتا۔اسلام کا اپنا نظام ہے اپنا طریقہ کار ہے، اس پر عمل کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور اس میں مسلمان حکمرانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے ۔
تیاری
اس بات کے بیان کر دینے کے بعد کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے فکری، عملی، شخصی، اجتماعی، معاشرتی طور پر افراد کی سطح اور حکومتی سطح پر نجی اداروں کی سطح پر کس طرح کرنا اور کیا کرنا ہے ہم نے اس بارے امام مہدی علیہ السلام کے لئے تیاری کرنے والی جماعتوں اور پرچموں اور افراد کا بھی روایات کی روشنی میں ذکر کر دیا ہے اب یہ مرحلہ آن پہنچا ہے کہ ہم کس طرح تیاری کریں اور اس تیاری کی انواع و اقسام کیا ہیں اور اس کی کیفیت کیا ہوگی۔
تیاری کا ثواب
علی بن ابراہیم القمی نے اپنی سند سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے صحیح روایت اس آیت سورہ آل عمران آیت ۰۰۲ کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ ”اصبرو“تم سب صبرکرو، علی المصائب، مصائب پر، صابروا علی الفرائض، فرائض کی ادائیگی پر قائم رہو، رابطوالائمة، آئمہ سے رابطہ میں رہو۔
البرھان اور دوسری تفاسیر میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ہے ”یا ایھاالذین امنوا اصبروا وصابروا ورابطوا“ تم فرائض ادا کرنے پر جو تکالیف کا سامنا کرو تو اس پر صبرکرو، اپنے دشمن کے مقابلہ میں ڈٹ جاو اور سختیوں کو برداشت کرو اور اپنے امام منتظر سے رابط میں رہو۔(تفسیر القمی ج ۱ ص ۸۱۱ ۔ البرھان ج ۱ ج ۱۴۳۴)
روضة الکافی کتاب الدواجن میں ابن ابی الطیفور المطیب سے روایت ہے :
امام ابوالحسن علیہ السلام: تم کس چیز پر سواری کرتے ہو؟
ابن ابی الطیفور: گدھے پر
امام علیہ السلام: کتنے میں خرید کیا ہے؟
ابن ابی الطیفور:تیرہ دینار میں۔
امام علیہ السلام: بتحقیق یہ اسراف ہے توتیرہ دینار میں گدھا خرید کرتا ہے اور خچر کو چھوڑ دیتاہے۔
راوی: میرے سردار! خچرکا خرچہ گدھے کے خرچہ سے زیادہ ہے۔
امام علیہ السلام:جو ذات گدھے کا خرچہ پورا کردیتی ہے وہ ذات خچر کا خرچہ بھی پورا کر دے گی کیا تم اس بات کو نہیں جانتے ہو کہ جو شخص جانور کو اس نیت سے باندھے اور اپنے ہاں رکھے کہ اس کے ذریعہ وہ ہمارے امر کو انجام دے گا اور ہمارے دشمن کو اس کے ذریعہ ناراض کرے گا تو وہ ہماری طرف منسوب ہو جاتا ہے اور اس کا رزق فراوانی سے لے آتا ہے، اس کے سینہ کو کشادہ کردیتا ہے اور وہ شخص اپنی امیدکوپالیتاہے۔
تیاری میں عمومیت
ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے کہ مہدویت کا نظریہ، ایک نجات دھندہ کا تصور آخر زمان کے لئے کسی خاص مذہب کا نہیں اور نہ ہی کسی خاص فرقہ کا ہے بلکہ کسی دین سے بھی مخصوص نہیں بلکہ سب کا اس پر ایمان ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ایک شخص خروج کرے گا جو انسانیت کی تمنا اور آرزو پر مبنی حقیقی عدالت کا نفاذ کرے گا، عدلیہ کو بالا دستی ہو گی، ظلم کا خاتمہ ہوگا تو وہی نجات دہندہ ہو گا وہ اس آرزو کوپورا کرے گا یہ آرزو اور طلب دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت عالمی سطح پر اس تصور نے مختلف شکلیں اختیار کر لی ہیں بنابرایں جیسا کہ مثل مشہور ہے جس کا ریوڑ ہے تو خرچہ بھی اس کا ہے، تمہید اور تیاری اپنی تمام انواع اور اقسام سمیت اور متفرق شکلوں اور صورتوں میں ضروری ہے کہ تمام فرقوں، تمام مذاہب اور تمام ادیان جو اس پر ایمان رکھتے ہیں میں اس کے لئے تیاری اور آمادگی پیداکی جائے۔
ہم اس نجات دہندہ کی تیاری کے لئے اور اس کی آمد کے واسطے ماحول بنانے اور حالات کو سازگار کرنے کے لئے جو کچھ پیش کرتے ہیں تو اس میں ہمارے مخاطب تمام وہ گروہ، جماعتیں، فرقے، مذاہب، ادیان ہیں جو ایک نجات دہندہ کی انتظار میں ہیں جس نے انسان کی اس تمنا کو پورا کر دینا ہے کہ پورے عالم میں عدل کی حکومت ہو، عدلیہ بالادست ہو، امت قائم ہو، ظلم ختم ہو خاص کر وہ جن پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے جہاں پر ستم گر زیادہ طاقت میں ہیں تو وہ اس بیان سے زیادہ مراد ہیں کہ وہ انسانی تعلیمات کی پابندی کریں کہ جن انسانی تعلیمات سے کوئی فرد جو ہے خالی نہیں انسانی تعلیمات کہتی ہیں کہ ہر حق دار کو اس کا حق ملنا چاہیئے اور انسان کو انفرادی اور اجتماعی خرابیوں سے پاک ہونا چاہیئے۔ انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح میں جو خرابیاں ہیں، معاشی بگاڑ ہے، اخلاقی بے راہ روی ہے، ہر عقلمند اس کا خاتمہ چاہتا ہے اور ہر انسان عدلیہ کی بالادستی امن کے قیام اور دولت کی عادلانہ تقسیم، طبقاتی رجحانات کا خاتمہ ایک متوازن ماحول کا خواہاں ہے اس کے لئے سب سے بہترین عبادت یہی ہے جو قرآن نے بیان کی ہے خاص کرمحروم طبقات کے لئے یہ پیغام ہے کہ:
”(
اِنَّ اللّٰهَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنفُسِهِم
)
“(الرعد آیت ۱۱)
”بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو تبدیل نہیں کرتا جب تک خود اس قوم کے لوگ اپنی حالت کو خود تبدیل نہ کریں“۔
فساد کے خاتمہ کےلئے سب سے پہلے اپنی ذات سے پھر اپنے گھر سے ،پھر اپنے خاندان سے، پھر اپنے قبیلہ سے اور پھر اپنے ملک سے آغاز کرنا ہوگا اور ایسا کرنا ہی خود کو اس عالمی نجات دہندہ کی مدد کےلئے آمادہ اور تیار کرنا ہے پس یہ خطاب عام ہے جو بھی انسان زندگی کو اس کی حقیقت اور فطرت کے عین مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مفاسد اور فتن کے تمام مظاہر کو ہر سطح پر ختم کرنے کےلئے جدوجہد کرنا ہو گی اور اپنی ذات سے ان کا آغاز کرنا ہوگا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس زمانہ میں تبلیغ کا انداز ایک نئی صورت اختیار کرے اس کی سابقہ شکل بدلنا ہوگی خاص کر اس شخصیت کے بارے تبلیغی عمل جس سے پورے عالم کا مستقبل وابستہ ہے، جس نے معاشرہ اجتماع، سوسائٹی، نفسیاتی اور انفرادی، سماجی، آلام و مصائب کو آ کر کم کرنا ہے، اس میں ایک جگہ اور دوسری جگہ میں فرق نہیں ایک قوم اور دوسری قوم میں فرق نہیں ایک دین اور دوسرے دین میں فرق نہیں، ایک ملک اور دوسرے ملک میں فرق نہیں، ایک خطبہ اور دوسرے خطبہ میں فرق نہیں یہ عالمی معاملہ ہے اور یہ سب کے لئے ہے، پھر یہ آمادگی اس فرق میں نہیں ہے کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے، اس شخصیت سے واقف ہیں یا نہیں جو اس کے ولادت کے قائل ہیں یا وہ جو اس کی ولادت کے منتظر ہیں کیونکہ اس وقت ہم آخری زمانہ میں ہیں، اسی زمانہ میں منجی بشریت کا ظہور متوقع ہے، کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، اس اعتبار سے ابھی سے تیاری کرنا واجب ہوگا ان پر بھی تیاری واجب ہے جو آپ کی ولادت کے قائل ہیں اور ان کے وجود کو سابقہ زمانہ سے نہیں سمجھتے۔
تیاری کی شرائط
تیاری کی جتنی اقسام ہیں جیسا کہ بعد میں بیان ہوگا، اسے ایک دائرہ میں اور کچھ شرائط کے تحت ہونا ہوگا اس کے لئے ضوابط اور قوانین ہیں جو مل کر مطلوبہ ہدف کو حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان امور میں اشارہ ممنوع ہے کیونکہ ایسی حکومت کے قیام کی بات کر رہے ہیں۔جس میں ظلم نہیں ہو گا جس میں رشوت نہیں ملے گی، جس میں دھوکہ نہیں ہوگا، جس میں بغض، کینہ،حسد نہیں ہوگا۔
ضروری ہے کہ جو تیاری کے مرحلہ سے گزرنا چاہتا ہے وہ ایسے صفات سے خالی ہو کہ تیاری کے مرحلہ میں یا پروگراموں کی ترتیب دینے میں کہیں بھی کوئی خطا ہو گئی تو وہ اس حکومت کے قیام پر اثر انداز ہو گی یا اس کے قیام کو دور کر دے گی جب کہ بعض خیال کر رہے ہوں گے کہ اس کی تشکیل قریب ہے۔
یہ معلوم نہیں کہ آدھے راستہ میں پہنچ کر آغاز میں جن غلطیوں کا ارتکاب کیا جا چکا ہو ان کا ازالہ کرنا ممکن ہوگا؟نتیجہ یہ ہوا کہ جو افراد، شخصیات، ادارہ جات ، حکومتیں مختلف میدانوں میں تیاری کے مراحل سے گزر رہے ہیں وہ کسی بھی قانون کو وضع کرنے یا کسی حکم کو لاگو کرنے یا کسی قسم کی ہدایت دینے سے پہلے اچھی طرح اس کے بارے جائزہ لے لیں، اس کا مطالعہ کر لیں اور اس کی جو شرائط ہیں انہیں دیکھ لیں تاکہ بعد کے نقصان سے بچا جا سکے تیاری کے مراحل کی شرائط حسب ذیل ہیں۔
پہلی شرط:۔ عزم اور اخلاص
عزم، پختہ ارادہ پہلا قدم ہے ۔ ہر عمل کے لئے یہ امر بڑا واضح ہے جب انسان یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ اس نے عدالت اور پاکیزگی پر مبنی حکومت کی طرف بڑھنا ہے تو اسے یہ معلوم ہو کہ یہ ہدف بہت ہی عمدہ اور شریف ہدف ہے تو اس مقصد کے حصول میں اخلاص ضروری ہے۔ لیکن ہر قسم کی دورنگی سے پاک ہو یہ کہ انسان نیت کرے جس وقت وہ مختلف امور سے کسی بھی امر کی تیاری کے لئے یا کریمہ حکومت، عادلانہ حکومت کے حالات کے لئے کسی بھی جماعت کے لئے تیاری کی صورت میں اسے تقرب الی اللہ کی نیت کرے تاکہ حق کا کلمہ بلند ہو اور باطل کا کلمہ ختم ہو جائے اور باطل سے متعلقات کا خاتمہ، یعنی الٰہی عدالت کے نفاذ کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے خود کو آمادہ کرے اور قربت الی اللہ کی نیت کرے، اس میں ریائ، دکھاوا نہ ہو، کسی ذاتی مفاد کے لئے نہ ہو، اس مرحلہ پر ریاءکاری درست نہیں کیونکہ یہ بات بہت ہی جلدی کھل جائے گی کہ حضرت امام زمانہ(عج)کی حکومت کے عنوان سے جس تیاری میں لگا ہوا ہے یہ دکھاوا ہے ، ریاءکاری ہے اس میں رضائے الٰہی نہیں ہے، تقرب آل محمد نہیں ہے، پس جو شخص نیت میں اخلاص پیدا نہیں کرسکتا تو اسے چاہیے کہ پیچھے ہٹ جائے اور پہلے اپنی ذات کو ریاءکاری سے پاک کرے۔
دوسری شرط:۔ عمل میں تسلسل
ایک مشکل یہ ہے کہ عمل اور ہدف کے لئے جدوجہد میں ابتداءہی میں رک جاتے ہیں اور عمل کو جاری نہیں رکھتے یا کسی حد تک عمل کو جاری رکھتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد جب اس منصوبہ کا انچارج بدل جاتا ہے یا وہ انچارج مر جائے یا کوئی مخصوص تبدیلی رونما ہو جائے تو کچھ اس سلسلہ کو وہیں چھوڑ کر اپنے لئے الگ راستہ اپنا لیتے ہیں، شروع کیے ہوئے عمل کو ترک کردیا جاتا ہے اس کی جگہ دوسرے منصوبہ کا آغاز کر دیا جاتا ہے اس بارے پہلے والے تجربات اور اس بارے حاصل شدہ معلومات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے یہی حالت اس کے لئے بھی جو بعد میں آتا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ اور ہدف کا حصول مو خر ہو جاتا ہے۔
پس جو شخص حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیاری کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اداروں کی اہمیت کو قبول کرے ، افراد اور شخصیات سے خود کو وابستہ نہ کرے اس کے لئے وہ ہدف معین کرے اور سب مل کر اس ہدف کے لئے کام کریں اس میں فرق نہیں کہ وہ کام موجودہ نسل کے ذریعہ پورا ہو یا بعد والی نسل اسے پورا کرے، موجودہ افراد اس میں کامیاب ہوںگے یا بعد والے شخصیت پرستی سے اسے باہر آنا ہوگا، ہدف کو اہمیت دینا ہوگی۔
یہ اس صورت میں ہے جب تیاری اس کی اجتماعی انداز میں علمی لحاظ سے اور سیاسی عنوان سے ہواسی طرح ہے اگر عبادتی عمل ہو کیونکہ ایک طے شدہ عمل میں تسلسل عبادت گذار کے روح پر مناسب اثرات چھوڑنا ہے اور ہدف الٰہی تک پہنچنے میں اس مخصوص عبادتی عمل تک پہنچنے کے لئے جلد کامیابی حاصل کر سکتا ہے، خلاصہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تیاری کے عمل میں تسلسل ہونا چاہیئے۔
تیسری شرط :۔ کسی مناسب شخص کا بطور راہنما انتخاب
ترقی کے راستے پر چلنے اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے، عمومی ہدایت کے واسطے لائق اور قابل افراد کا انتخاب کرنا ہوگا اور ان لائق افراد کو دوسروں پر ترجیح دینا ہوگی اداروں کی تقویت کے لئے، تنظیمات کی کامیابی کے واسطے اور کسی بھی منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائق اور قابل افراد کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طالوت کے قصہ میں بیان فرمایا ہے:
ان کے لئے ان کے نبی نے فرمایا کہ بتحقیق تمہارے لئے طالوت کورہبرکمانڈربنایا ہے انہوں نے جواب میں کہا اس کے لئے ہمارے اوپر اختیار اور اقتدار کیسے ہوگا ہم اس اقتدار کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اس کے پاس تو اتنا مال اور ثروت نہیں ہے۔ نبی نے بیان کی اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے اوپر چن لیا ہے اور اسے علم دیا ہے، جسمانی طور پر مضبوط بنایا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اقتدار دیتاہے اور اللہ تعالیٰ تو واسع اور علیم ہے۔(سورہ بقرہ آیت ۶۴۲،۷۴۲)
اللہ تعالیٰ نے طالوت کو مقدم کیا باوجودیکہ وہ مالی طور پر کمزور تھے، جس وجہ سے عوام میں ان کا کوئی مقام نہ تھا جو مالداروں کا ہوتا ہے، لیکن وہ قابل شخصیت تھے علمی لحاظ سے، عقل اور شعور کے اعتبار سے، پس جو شخص اپنے ہدف کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسے افراد کو آگے کرے جو علمی، سیاسی، سماجی، اجتماعی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہوں کسی کی مالی پوزیشن یا کسی اور وجہ سے معاشرہ میں نام اور مقام کو سامنے نہ رکھا جائے اور انسان یہ بھی نہ سوچے کہ سب کام خود کرے گا جو شخص حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے لئے حالات سازگار بنانا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ باصلاحیت افراد کو سامنے لائے اور باصلاحیت افراد کے ذریعہ اس بڑے ہدف کے حصول کے واسطے کام کرے اور اس میں اگر کوئی ایک فرد لائق اور قابل مل جائے تو اسے بعنوان راہنما لے لیں اور اپنے ہدف کے لئے اس کی ہدایات کے مطابق کام شروع کر دیں جب ہدف الٰہی ہے اور امام زمانہ (عج) کی حکومت کے قیام کے لئے ہے تو باصلاحیت افراد کو مقدم کیا جائے اور کم صلاحیت والے افراد خود ہی پیچھے ہوجائیں جس شخص میں اس بڑی ذمہ داری کو نبھانے کی قابلیت نہیں ہے تو وہ اس کام کو دوسرے کے حوالے کر دے کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خاطر قائم تحریک کوئی تجارتی عمل نہیں ہے اور نہ ہی مال وصول کرنے کی کمیٹی ہے بلکہ یہ ایک الٰہی تحریک ہے اسے بہت سارے مشکل اور کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑے گا،پیچیدہ حالات اور واقعات سے گزرنا ہو گا ، پوری دقت سے اور کم ترین نقصانات پر ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔
شیخ الطوسیؒ سے حدیث روایت ہوئی ہے انہوں نے اپنی سند سے اس حدیث کو ابوبصیر سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام: قائم علیہ السلام کے خروج کے لئے تم جلد بازی کیوں کر رہے ہو؟ خدا کی قسم اس کا لباس موٹا، چھوٹا ہوگا اس کا کھانا چھلکے واے جو سے بنا ہو گا اور وہ نہیں آئیں گے مگر تلوار کے ہمراہ اور تلوار کے سایہ تلے موت ہو گی۔
(بحارالانوار ج ۲۵ ص ۴۵۳ باب ۷۲ ذیل ۵۱۱)
چوتھی شرط:۔ خفیہ کاری اور رازداری
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اپنی حاجات کے پورا ہونے کےلئے خفیہ کاری، بات کو پوشیدہ رکھنے کے وسیلہ سے مدد حاصل کرو۔(الرواشح السماویہ ص ۳۱۳)
امیرالمومنین علیہ السلام:عقل مند کا سینہ راز کا صندوق ہوتاہے۔(نہج البلاغہ ج ۴ فرمان ۴)
امیرالمومنین علیہ السلام: جس نے اپنے راز کو چھپائے رکھا تو اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں ہوگا۔(نہج البلاغہ فرمان ۱۴)
امیرالمومنین علیہ السلام: اپنے امور اور معاملات کے لئے پوشیدہ کاری اور رازداری سے مدد لو کیونکہ جس کے پاس کوئی نعمت ہوتی ہے تو اسی سے حسد کیا جاتا ہے۔
(تحف العقول ص ۸۴)
اہل البیت علیہم السلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم جو کام انجام دیں اس میں رازداری کا لحاظ رکھیں اسے مکمل ہونے سے پہلے تشہیر نہ کریں اسے اس کے وقت سے پہلے عام نہ کریں تاکہ حسد کاشکار نہ ہو جائیں، مقابلہ بازی نہ شروع ہو جائے، سازشیں کامیاب نہ ہو جائیں ، انحراف نہ آجائے، یہ بات تو عام کاموں، منصوبہ جات اور پروگرام سے متعلق ہے۔
مولا علی علیہ السلام فرمان یہ بھی ہے کہ کسی منصوبہ کو اس کے مستحکم ہونے سے پہلے کھول دینا اس منصوبہ کو ناکام بنانے اور اسے فاسد کرنے کا سبب بنے گا لیکن وہ پروگرام اور منصوبہ جات جن کا تعلق حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی اسلامی الٰہی حکومت بارے ہیں تو اس کے لئے رازداری زیادہ ضروری ہے اس کے دشمن تاک میں بیٹھے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ چوکنے ہیں وہ بھی اس بات کا تعین رکھتے ہیں اس دنیا کی چکی اسی طرح نہیں چلے گی اس کا اختتام ایک دن ہونا ہے اور آخری زمانہ میں عدل اور ظلم کے درمیاں فیصلہ کن معرکہ لڑاجانا ہے اور بعض نے اس آخری جنگ کو”ہرمجدون“ کی جنگ قرار دیا ہے جسے بڑی عالمی جنگ اور ملحمہ گیری کا نام بھی دیا گیا ہے اور ہمارا دشمن اس جنگ کی تیاری میں ہے اس جنگ کا میدان مقبوضہ فلسطین کی سرزمین ہے جس پر اسرائیل کی حکمرانی ہے۔(دیکھیں ہرمجدون کی لڑائی، جمال الدین احمدامین مصری اردوترجمہ)
ادارہ جات، شخصیات اور افراد پر سب سے پہلی بات یہ لازم ہے کہ وہ خفیہ کاری سے تیاری کے بارے ایسے قوانین وضع کر دیں تو اس تیاری کے عمل کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور سارا عمل رازداری سے انجام دیجئے یعنی عمل زیادہ اور ڈھنڈورا کم اور پھر ان کی طرف سے عملی تعاون بھی ہو، یعنی جتنے ادارے، افراد اس مقصد کے لئے کام کر رہے ہوں وہ خود عملی طور پر ان امور کی پابندی کریں کہ انہوں نے سب کاموں کو پوری رازداری کو دقت سے انجام دیناہے۔
پانچویں شرط:۔ عمل میں پختگی
یہ شرط تیسری شرط سے مختلف ہے وہ شرط لیڈر، لائق افراد ، عملی بنیادوں پر پروگراموں کی تشکیل اور ان پر عملدرآمد سے لائق افراد کا انتخاب تھا اس شرط سے یہ مراد ہے کہ ان باصلاحیت افراد اور لیڈر سے جن افراد نے استفادہ کرنا ہے یعنی جو متعلمین ہیں، ان کا باصلاحیت افراد سے جوہدایات لینے والے افراد ہیں جو اس وقت سیکھنے کے مرحلہ میں ہیں اور بعد میں وہ بھی قیادت کے مرحلہ میں آملیں گے آج کے متعلمین کل کے قائدین
عمل میں پختگی کا معنی یہ ہے کہ جو نظریہ پیش کیا جائے جو پروگرام دیا جائے اس میں پوری دقت کی جائے اس میں انسان کی یہ کوشش نہ ہو کہ نچلی سطح پر پاسنگ مارکس لے لے بلکہ اعلیٰ درجہ کے حصول کی کوشش ہو، سند لینے کی بجائے اپنی قابلیت بنانے پر توجہ دی جائے، بعض علوم اور فنون میں طلباءغیر معمولی نمبروں پر اکتفاءکر لیتے ہیں ،بعض تحقیقی مواد پر درمیانی پوزیشن لینے پر اکتفاءکی جاتی ہے لیکن جس کا تعلق عادلانہ حکومت کے قیام سے ہے جس سے عدل کا خواب پورا ہوگا ایسا امرجس میں ....اللہ تعالیٰ سے معاملہ پیدا ہو جاتا ہے ایک ایسے امر کے بارے جوسخت ترین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مو خر کر رکھا ہے آخری زمانہ کے لئے جس نے امام منتظر مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں پورا ہونا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی صداقت پوری ہوگی ”(
اِنِّی جَاعِل فِی ال اَر ضِ خَلِی فَة
)
“ زمین کا حاکم خلیفہ بتحقیق بنا رہا ہوں۔(بقرہ ۰۳)
زمانہ کے شروع میں یہ خطاب حضرت آدم علیہ السلام سے تھا مگر اس وقت سے لے کر آج تک روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں آیا جس نے پوری زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت اور حکومت کو قائم کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کو یقینی بنایا ہو اللہ تعالیٰ کے احکام کی نفاذ پوری زمین پر کیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ جو انسان اس حکومت کی تشکیل میں شراکت دار بننا چاہتا ہے تو اسے ظاہری طور پر معمولی سطح کی سند حاصل نہیں کرنا بلکہ اس پرلازم ہے کہ اپنی پڑھائی پر، بلکہ اپنے پروگراموں کے بارے اپنے تمام کاموں میں جو بھی ہوں پوری دقت سے اور مکمل مضبوطی اور استحکام کے ساتھ محنت کرتے ہوئے اس مسئلہ کے ساتھ جو مناسب ہے ویسے قیام کرے عمل میں پختگی اور دقت پوری توجہ اہم شرط ہے۔
چھٹی شرط:۔ عمل سے پہلے منصوبہ بندی، پلاننگ قبل از وقت
اس امر پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، ماہر افراد کے ذریعہ پلاننگ کرنا ہو گی بغیر منصوبہ بندی کے جو کام کیا جائے گا اس کے لئے بعد میں پشیمان ہونا پڑے گا۔
مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سال ۰۵۰۲ ءمیں کچھ ممالک اور مناطق پانیوں میں ڈوب جائیں گے جیسے مصر کا اسکندریہ شہر، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بعض ریاستیں، چین کے کچھ علاقے بالکل پانی ان پر چھا جائے گااوریہ سارے شہر پانی کے نیچے چلے جائیں گے کیونکہ سمندروں کا پانی زیادہ ہو جائے گا اور ان شہروں کے اردگرد کے جو حالات ہیں وہ انہیں پانی میں ڈبو دیں گے۔
اس طرح ماحول کی آلودگی کا مسئلہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماحول اور فضاءکی آلودگی زندگی کے امکانات ختم کر دے گی۔
اگر ۰۵۰۲ میں پیش آنے والے خطرات کا پیشگی انتظام نہ کیا گیا اور یہ حادثہ رونما ہو گیا یا ایسا شروع ہو گیا تو پھر اس حالت میں اس کا حل ممکن نہ ہوگا۔
لیکن اگر اس کا حل ابھی سے تلاش کرنا شروع کر دیا جائے اگرچہ تیس سال پہلے سے ہی اس پر کام شروع کیا جائے تو بہت سارے حادثات اور سانحات سے بچا جا سکے گا حل میں دیر کرنا، یا اس خطرہ کو نظرانداز کر دینا بعض ذاتی مفادات کی وجہ سے تو یہ بہت سارے منصوبہ جات اور اہم پروگراموں کو برباد کر دینے کا سبب ہوگا۔
اس بات کو تمام معاملات میں دیکھنا ہوگا بلکہ اخلاقی امور میں بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا فساد کی بعض اقسام کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر شروع میں یا ان کے وقوع سے پہلے سوچ لیا جائے تو پھر ان اخلاقی فسادات سے بچنا ممکن ہو سکتاہے(پاکستان اس وقت دہشت گردی، خودکش حملوں کی زد میں ہے اگر اس فتنہ کے شروع ہونے سے پہلے جس وقت اس کے آثار نمودار ہو رہے تھے اس کے لئے دقیق منصوبہ بندی کر لی جاتی تو آج پاکستانی حکومت، پاکستانی عوام اور پاکستانی فورسز جن مشکلات سے دوچار ہیں یہ صورتحال پیش نہ آتی اب نقصان بھی جانی و مالی بہت زیادہ ہو رہا ہے اور اس کا حل بھی نظر نہیں آ رہا ہے اور اسے سامنے رکھ کر پلاننگ کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے اسی تناظر میں آپ بجلی کے بحران کو دیکھ سکتے ہیں ہمارے ہمسایہ ملک نے دریاوں پر کتنے ڈیم بنا لئے ہیں اور بڑے منصوبہ جات بھی رکھتا ہے جب کہ ہماری پلاننگ اس قدر بھی نہ تھی کہ ہم مستقبل کے خطرات اور اپنی ضروریات کا اندازہ لگا سکتے اسی طرح سرکاری اثاثہ جات کو بیچنے کی بات ہے اس میں بھی بغیر پلاننگ کے کام کیا جا رہا ہے جس کے خطرناک نتائج اب سامنے آ چکے ہیں کوئی ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر بغیر پلاننگ اور منصوبہ بندی سے اپنے مسائل اور مشکلاب پر قابو نہیں پا سکتا اسی طرح باقی امور میں ایک چھوٹے سے گھر کے امور کو چلانے سے شروع کریں اور ایک بڑے ملک کے معاملات کو لیں ایک چھوٹی سے تنظیم سے شروع کریں اور ایک بڑی جماعت کو لیں، ایک چھوٹے سے سکول سے لیں اور یونیورسٹی تک جائیں، چھوٹے سے کاروبار سے بڑی تجارتی مراکز تک ہر جگہ پلاننگ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور کام سے پہلے منصوبہ بندی اور مکمل جائزہ لے کر منصوبہ بندی کامیابی کی ضمانت ہے....ازمترجم)
اجتماعی معاملات، خاندانی مسائل، ازدواجی زندگی کے حوالے سے اگر آغاز میں منصوبہ بندی موجود ہو تو بہت ساری خرابیوں اور ناکامیوں سے بچا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تمہیدی کاموں میں پہلے سے پلاننگ اور اچھی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اگر ہم نے تیاری کے عمل کو دسیوں سال پہلے شروع کیا ہوتا تو وہ اس سے بہتر ہوتا کہ جو آج ہم شروع کر رہے ہیں اور اگر آج ہم کام شروع کر دیں تو یہ بہتر ہے اس سے کہ ہم اسے کئی سال گزرنے کے بعد شروع کریں دست تنگ ہو رہا ہے فساد عام ہو رہا ہے اور نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اور فساد اور بے راہ روی کے مظاہر مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، ان حالات میں منصوبہ بندی ضروری ہے اور اس کام میں جلدی کرنا بھی ضروری ہے، وقت گزر رہا ہے، جو افراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں انہیں منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہیئے اور فساد، ظلم، جبر، استبداد، بدامنی کا خاتمہ کرنے کے لئے تیزی سے مناسب حل پیش کرنا ہوں گے، اس کا توڑ دینا ہوگا اور عملی اقدامات میں تیزی دکھانا ہو گی سست روی سے باہر آنا ہو گا۔ ڈھنگ ٹپاو پالیسیوں سے گریز کرنا ہوگا، باہدف، بامقصد اور لمبی مدت کے لئے اصلاحی پالیسیاں تیارکرنا ہوں گی اور ان پر عمل کرنے کے لئے لیڈر سازی کے واسطے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
ساتویں شرط:۔ رقابت
رقابت سے مراد نگرانی اور چیکنگ کا عمل ہے، دفتری انداز سے کام کرنا ہوگا، جو کام شروع کر رکھے ہیں ان پر چیک بھی رکھنا ہوگا کسی بھی عمل، تحریک اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے چیک اینڈبیلنس اور نگرانی کا عمل بہت ہی ضروری ہے۔ عملی اقدام کے وقت جو خرابیاں سامنے آئیں یا کام کرنے کے دوران جو انحرافات ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھنا ہو گی اور ضروری تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ یہ عمل اس لئے ضروری ہے کہ اس کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔جو ابتداءمیں غلطیاں سرزد ہوں ان کا ازالہ کر دیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیاں نمودار نہ ہوں۔
متبادل کی تیاری
یہ اس لئے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ اور وقت معلوم نہیں ہے بلکہ ہم انتظار کر رہے ہیں اسی لئے تو اس حکومت کے قیام کے لئے تیاری ضروری ہے اور یہ تیاری ہر زمانہ کے حالات سے مناسبت رکھتی ہو، کیونکہ اس سے ناواقف ہیں کہ کون سے افراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام میں ان کے کمانڈر ہوں گے اور انہیں قیادتی اور رہبری کا کردار سونپا جائے گا۔
لہٰذا موجودہ قائدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بعد کے لئے قائدین کی تربیت کریں، اپنی جگہ پر نئے افراد کو لانے کے لئے تیاری کے عمل سے گزریں، متبادل افراد کی موجودگی ضروری ہے جو اس کی عدم موجودگی میں ان کی ذمہ داریوں کو نبھائیں گے ان کی وفات کی صورت میں یا ان کی عدم موجودگی میں قیادت اور رہبری کا خلا پیدا نہ ہو۔ یعنی لیڈرسازی اور لائق اور باصلاحیت افراد کی تیاری کا عمل مسلسل جاری رہے(جس طرح نظام مرجیعتی میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت صغریٰ میں نئے نائب خاص بننے کے لئے ایک نہیں چند لائق افراد تربیت وارموجود ہوتے تھے اور امام علیہ السلام ان میں سے جو سب سے زیادہ لائق ہوتا اسے یہ منصب دے دیتے اور آخری نائب علی محمد سمری کو منع کر دیا کہ اب غیبت کبریٰ شروع ہو رہی ہے کسی کو متعین نہ کیا جائے بلکہ اب نیا انداز ہو گا اور وہ فقہاءکے ذریعہ اسلام کے احکام سمجھنے ہوں گے اور فقہاءہی مخصوص صفات کے مالک، امام زمانہ (عج) کی عمومی نیابت کا منصب سنبھالیں گے۔
تو اس وقت سے لے کر ہر دور کی مرجعیت اپنے بعد کے لئے ایک نہیں بلکہ سینکڑوں فقھاءاور مجتہدین کی تربیت کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک منقطع نہیں ہوا اور مرجعیت کے میدان میں خلاءپیدا نہیں ہوا یہ بھی درحقیقت ایک پہلو سے امام زمانہ (عج) کے قیام کے لئے قیادت فراہم کرنے کا فورم بھی ہے آپ کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری کے عمل اس کا خاص خیال رکھنا ہوگا....ازمترجم)
یہ جائز نہیں ہے کہ اس وقت جن کے ہاتھ میں معاملات ہیں، زمام امور ہے وہ اپنے تجربات، اپنی معلومات اپنی نئی ایجادات کو مخفی رکھیں اور اگلی نسل کے لئے اسے منتقل نہ کریں ان افراد کو ہر بات بتانا ہو گی اور انہیں وہ سب کچھ سمجھایا اور بڑھانا ہو جس کی ضرورت ایک قائد ، ایک رہبر کے لئے ضروری ہے علمی ترقی کا عمل جاری رہے، کسی مرحلہ پر جمود نہ آئے۔
اجتہاد میں تطور اور ترقی کے لئے زمان اور مکان کے عنصر کو بڑی اہمیت ہے کیونکہ جگہوں اور وقت کے بدلنے سے تقاضے بدل جاتے ہیں، جو افراد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے تیاری کے عمل سے گزر رہے ہیں تو وہ اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے اگلی نسل تک وہ سب کچھ منتقل کرنے کا انتظام کریں جس کی انہیں ضرورت ہو گی۔
تیاری اور آمادگی کی اقسام
عدالت پر مبنی حکومت کے قیام کی علیہ السلام کسی خاص قسم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ظہور کے زمانہ سے زندگی کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تمام میدانوں میں علیہ السلام کرنا ہوگی چاہے وہ عسکری ہوں، ثقافتی ہوں، امنیت کے حوالے سے ہوں، سلامتی کے امور ہوں، امن عامہ کے مسائل ہوں، صحت عامہ کے مسائل ہوں، اقتصادی مسائل ہوں سب میدانوں میں علیہ السلام کرنا ہوگی۔
۱ ۔ عسکری میدانوں میں تیاری
نعمانی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام: حضرت قائم علیہ السلام کے ظہور کے لئے تم میں سے ہر ایک کو علیہ السلام ضروری کرنا ہو گی اگرچہ ایک تیر لے کر رکھنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو اس کی نیت کا علم ہو کہ اس نے یہ ایک تیر اس غرض سے خرید کررکھا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر کو بڑھا دے گا۔(غیبة نعمانی ص ۳۷۱ ، باب ماجاءفی ذکرالشیعہ)
الکافی میں ہے ابوعبداللہ الجعفی سے روایت ہے:
ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام: تمہارے پاس کتنی رباط( گھوڑے کا بند)موجود ہیں؟
راوی: میں نے کہا چالیس
امام علیہ السلام: لیکن ہمارے ساتھ ربط جوڑنے اور ہمارے مرکز سے اپنی رستی باندھنے کے لئے تو ہم پورے دھر کا سلسلہ رکھتے ہیں ہمارے رباط( )تو پورے دھر کے رباط میں جس نے ہماری خاطر ایک چوپائے(سواری) کو باندھ رکھا تو اس کے لئے ا س سواری کا وزن ہوگا اور اس کا وزن بھی اس کے لئے ہوگا جب تک وہ اس کے پاس ہو گا جس شخص نے ہماری نصرت کے لئے اسلحہ باندھ کر رکھا تو اس کے لئے جو کچھ اس کے پاس ہے، اس کا وزن ہوگا تم ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ، چار دفعہ سے گھبراو نہیں ہماری مثال تو بنی اسرائیل کے اس نبی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے اسے وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کی علیہ السلام کے لئے بلاو تو میں تمہاری مدد کروں گا اس نبی نے پہاڑوں کی چوٹیوں سے اور دوسری جگہوں سے اپنی قوم کو جنگ کی خاطر اکٹھا کیا لیکن انہوں نے نہ تلوار چلائی اور نہ نیزہ پھینکا اور شکست سے دوچار ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس نبی علیہ السلام کو وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کے لئے بلاو تو میں تمہاری مدد کروں گا تو اس نے قوم کو بلایا لیکن انہوں نے اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پہلے بلایا اور ہم سے مدد کا وعدہ کیا لیکن ہماری مدد نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی دو ہی راستے ہیں یا جنگ وگرنہ جہنم۔
نبی علیہ السلام: اے رب جنگ کرنا میرے نزدیک آتش جہنم سے زیادہ محبوب ہے۔
نبی علیہ السلام:نبی علیہ السلام نے قوم کو جنگ کے لئے دعوت دی تین سو تیرہ آدمی بدر میں اصحاب کی تعداد کے برابر جمع ہوئے ان کو ساتھ لے کر جنگ کے لئے نبی علیہ السلام نکل کھڑے ہوئے لیکن انہوں نے نہ تلوار چلائی اور نہ ہی نیزہ مارا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتح دے دی۔(اصول الکافی ص ۱۸۳ ج ۶۷۵)
علامہ مجلسیؒ: امام علیہ السلام نے فرمایا:رباطنا رباط الدھر، ہماری ربط تو دھر کی رباط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو امام برحق کی اطاعت پر قائم رکھیں اپنی گردنوں کو امام برحق کی اطاعت سے باندھ دیں، امام حق کی انتظار میں رہیں اور ان کی مدد کرنے کے لئے مسلسل علیہ السلام میں رہیں۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ اس کے لئے اس پوری کے وزن برابر ہے اور جتنے دن اس کے پاس ہو گا تو اس کے وزن برابر ہے، تو ان سے مراد یہ ہے کہ اس جانور، سواری یا اسلحہ کا جو وزن ہے اس کے برابر سونا اور چاندی اگر وہ صدقہ اور خیرات کرے تو اس کا جتنا ثواب اسے ملے گا تو ہماری خاطر سواری کو تیار رکھنے والے شخص کے لئے بھی اتنا ثواب ہے اسی طرح جو ہماری خاطر اپنا اسلحہ تیار رکھے گا اس کے لئے اسی طرح کا ثواب ہے، ثواب کو ایک محسوس شئی سے تشبیہ دی گئی ہے)
(اس روایت میں بہت ساری تربیتی باتیں موجود ہیں ایک بات یہ ہے کہ علیہ السلام کے مرحلہ میں فکر مند نہ ہوں کہ دیر کیوں ہو رہی ہے؟ہر دور میں رہنے والے شیعہ پر ہے کہ وہ اپنے امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے خود کو تیار رکھے، اب عملی طور پر میدان میں اس سے یہ کام لیا جانا ہے یا نہیں تو وہ اس کی پرواہ نہ کرے اسے ثواب ملتا رہے گا۔
بعض روایات میں ہے کہ جو اس نیت سے تیار رہے گا تو اگر اسے امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے موت آ گئی تو امام علیہ السلام اسے قبر سے اٹھائیں گے اور وہ امام علیہ السلام کی فوج میں شامل ہو کر جہاد میں حصہ لے گا، اسی حوالے سے ورزش کرنا، اپنی صحت کا خیال رکھنا، خود کو بیماریوں سے بچا کر رکھنا اور ہر قسم کی تربیت لینا، عسکری تیاری میں رہنا، البتہ علیہ السلام کا حکم ہے نہ کہ بے گناہوں کے خلاف چڑھائی کرنے کا یا ازخود میدان جنگ میں کود جانے کا یا ماحول کو خراب کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ انسان شخصی طور پر خود کو امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے ہر لحاظ سے اور اسلحہ کے اعتبار سے تیار رکھے تاکہ امام علیہ السلام کے ظہور کے وقت امام علیہ السلام کا ساتھ دے سکے، ضروری نہیں کہ اس وقت اس کے اس اسلحہ کی ضرورت ہو جیسا کہ نبی علیہ السلام کے ساتھ جو لوگ آئے اپنا اسلحہ لے کر آئے لیکن انہیں اسلحہ استعمال کئے بغیر فتح مل گئی تو ساری بات نیت کی ہے، نیت کے مطابق اجروثواب ملے گا....ازمترجم)
مسلح ہونا، اس کا ثواب ، اس کی اہمیت اور ضرورت
روایات میں ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا عسکری تیاری کے سلسلہ میں ایک قسم کو بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے خود کو مسلح رکھنا(جہاں پر بغیر لائسنس کے اسلحہ رکھنے کی سرکاری طور پر اجازت نہیں ہے تو وہاں پر اسلحہ کا لائسنس بنوانا بھی اسی عنوان میں شامل ہوگا....ازمترجم)اور اس زمانہ میں جو اسلحہ استعمال ہوتا تھا اور جس قسم کی سواری درکار تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے یہ بطور نمونہ ہے اس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ زمانہ کی حکومت کے لئے اپنے انداز کی فوج اور اپنے انداز کا اسلحہ ہے۔
اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلحہ رکھنے کا حکم حکومتوں کی سطح پر نہیں ہے بلکہ یہ افراد کو بھی شامل ہے کیوں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کو حضرت قائم علیہ السلام کے خروج کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہیئے اگر ایک تیر کے رکھنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو(ہمارے پاکستان میں جب ایٹم بن بنا لیا گیا تو پوری دنیا کے مسلمان خوش ہوئے کہ یہ ایٹم بم اسلامی ایٹم بم ہے اسلام کے مفاد کے لئے ہے یہ اس دور کا تقاضا تھا اور جو پاکستان کے حصہ میں آیا، آخری زمانہ میں پوری دنیا پر اسلام کی عادلانہ حکومت ہو گی اور اسلامی نظام ہی پوری دنیا میں امن دے گا اس عالمی اسلامی حکومت کے لئے حکومتوں نے بھی علیہ السلام کرنا ہے اصل بات نیت کی ہے یہ ہمارے ملک کا ایٹم بم بھی اسلام کے لئے ہے اور پورے عالم میں امن قائم کرنے کے لئے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام میں مدد بننے کے لئے ہے....ازمترجم)
اس جگہ یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ افراد اسلحہ کی نمائش کریں، خاص کر موجودہ زمانوں میں، ہر ملک کے قوانین میں اسلحہ کی نمائش سے اجتماعی خطرات جنم لے سکتے ہیں بدامنی پھیل سکتی ہے اس سے مراد علیہ السلام ہے ، آمادگی ہے اور اپنے پاس محفوظ رکھنا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اسلحہ لے کر رکھنا چاہیئے ہو سکتا ہے کہ ایسا وقت آ جائے جب اسلحہ لینا ممکن نہ ہو اور امام علیہ السلام کے ظہور کا اعلان ہو جائے اور اس وقت یہ شخص خالی ہاتھ ہو(اسی ضمن میں اسلحہ رکھنے کے لئے لائسنس بنوانا ہے انسان کو اپنی شخصی حفاظت، نجی املاک کی حفاظت کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے اور ہر وقت اسلحہ کے لائسنس جاری نہیں ہوتے تو جب ایسا ممکن ہو اس کے لئے فوری اقدام کر لینا چاہیئے یہی احتیاط کا تقاضا ہے، اسی ضمن میں عسکری تربیت بھی ہر شخص کو لینی چاہیئے اکثر ممالک میں آج بھی ہر شہری کے لئے عسکری ٹریننگ لینا لازمی ہے اور جس جوان نے عسکری ٹریننگ نہیں لی ہوتی اسے سرکاری محکموں میں ملازمت نہیں ملتی اور بھی بہت ساری مراعات سے وہ محروم رہ جاتا ہے تو جو افراد امام زمانہ (عج) کی نصرت کے لئے علیہ السلام کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت پورے عالم میں امن کے لئے امام علیہ السلام کا ساتھ دے سکیں تو انہیں عسکری ٹریننگ لینی چاہیئے اور اسلحہ کی انواع اور اقسام سے اس کی آگاہی ہو اور وہ ہر قسم کا اسلحہ چلانا بھی جانتا ہو وگرنہ وہ شخص علیہ السلام کرنے والوں سے شمار نہ ہوگا، خاص کر عسکری میدانوں میں....ازمترجم)
امام علیہ السلام کے بیان میں ”لیعدن“ اس میں آپ اس شخص کو خطاب کر رہے ہیں جو ایک تیر یا اس جیسا جنگی ہتھیار رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے تو اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ ضرور تیار رہے، کیونکہ اس امر کے لئے سینکڑوں سال بھی لگ سکتے ہیں، خاص کر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے علم امامت سے اس بات سے آگاہ تھے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اس صدی میں تو ہرگز قیام نہیں کریں گے جو صدی اس حدیث کے بعد والی ہے تو پھر اس روایت کا مفہوم اسلحہ آمادہ رکھنا بنتا ہے اور یہ کہ اپنے قریب ترین افراد سے بھی اس بات کو پوشیدہ رکھا جائے ۔تیر لے کر رکھنے کو بطور مثال فرمایا ہے ہر دور کے لحاظ سے اسلحہ کی نوعیت بھی بدل جائے گی اور اسے محفوظ رکھنا خاص کر آج کے زمانوں میں جدید ترین اسلحہ آ گیا ہے، پرانے ہتھیاروں کو تلف کر دیا جاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہر زمانہ کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو پھر ہتھیاروں کی مناسبت سے تبدیلی لائی جائے گی اور پرانے ہتھیاروں کی جگہ نئے ہتھیار رکھنا ہوں گے یہ اس لئے تاکہ وہ اپنے امام علیہ السلام سے ملاقات کے لئے خود کو تیار اور آمادہ رکھے۔،
اس روایت کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فقط ہتھیار محفوظ کرنے کی بات نہیں فرمائی بلکہ اس کے لئے حو صلہ بھی بندوایا ہے اور شوق دلایا ہے کہ جو اس کام کو انجام دے گا اس کی عمر بڑھ جائے گی ظاہر ہے ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو تو لمبی عمر پانے کا ایک نسخہ اپنے زمانہ کے امام کی نصرت کے لئے خود کو تیار کرنا ہے اور ان کی مدد کے لئے ہتھیار لے کر رکھنا ہیں، مومن اس سے خوش ہوتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لمبی عمر نصیب ہو، لمبی عمر ایک مومن، متدین بھی چاہتا ہے اور ایک بے عمل اور کمزور عمل والا بھی چاہتا ہے، غیر مومن بھی چاہتا ہے کیونکہ وہ بھی بقاءچاہتاہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس کی یہ خواہش ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا سپاہی ہو ان کے خادموں سے ہو تووہ ایسا عمل کرنے یعنی امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے ہتھیار لے کر رکھے ظاہر ہے ہر مومن چاہتا ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے لشکر سے ہو تو وہ اسی شوق میں اس کام کو انجام دے گا۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہتھیار لے کر رکھنے کے فوائد میں لمبی عمر پانا اور امام زمانہ (عج) کے قاصدوں اور ان کی فوج میں شمولیت کو ملا کر بیان کیا ہے اس سے شوق دیا ہے۔
دوسری روایت جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ہے اس میں ایک اور نکتہ ہے وہ یہ بات ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مایوس نہ ہو ایک دفعہ یا دو دفعہ یا تین دفعہ جو شخص اسلحہ تیار رکھتا ہے ہو سکتا ہے کہ فتح حاصل ہو لیکن اسلحہ استعمال ہی نہ کرنا پڑے اس حدیث میں ایک خود کو مسلح رکھنے اور دوسرا ہتھیاروں کو آمادہ و تیار رکھنے کا حکم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس میں تسلسل رہے، مایوسی نہ ہو، اس حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نبی نے پہاڑوں کی چوٹیوں سے لوگوں کو اکٹھا کیا اب معلوم نہیں کہ ان کو اکٹھا کرنے میں اس نبی نے زور لگایاہوگا پھر جب جنگ میں شکست ہوئی، غیبی مدد نہ ہوئی تو اس پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ لوگوں کو جمع کرنے میں کتنا فاصلہ تھا اور اس زمانہ میں نقل و انتقال اور آنے جانے کے ذرائع بھی یقیناصرف ہوں گے لیکن دوسری مرتبہ ساری علیہ السلام کر لی گئی لیکن اسلحہ کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی اور فتح حاصل ہو گئی ۔ابوبصیر کی روایت سے ہے کہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب اسلحہ لینا مشکل ہو گاتو پہلے سے ہی علیہ السلام رکھنی چاہیے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ان جھنڈوں میں یمانی کے جھنڈے سے زیادہ ہدایت والا جھنڈا نہ ہو گا یمانی کا جھنڈا ہدایت پر مبنی جھنڈا ہے کیونکہ اس پرچم والے تمہارے صاحب(امام مہدی علیہ السلام)کے لئے دعوت دیں گے پس جس وقت یمانی کا خروج ہو گا تو پھر لوگوں پر اسلحہ فروخت کرنا حرام ہو گا اور ہر مسلمان پر بھی جب یمانی خروج کرے تو تم اٹھ کھڑے ہونا اور اس کی حمایت میں جانا کیونکہ اس کا پرچم ہدایت کا پرچم ہے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس کے پرچم کو سرنگوں کرے جو بھی ایسا کرے گا تو وہ جہنمی ہوگا کیونکہ یمانی حق کی طرف دعوت دے گا اور صراط مستقیم کی جانب دعوت دے گا۔(غیبت نمانی ص ۶۵۲)
اسلحہ کی ٹریننگ لینا
عسکری تیاری اسلحہ لینے سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک حالت ہے اسی کے ضمن میں اسلحہ چلانا بھی ہے عقل کا حکم ہے کہ جب روایات میں اسلحہ لے کر رکھنے کی بات ہوتی ہے تو اسی کے ضمن میں یہ بھی آ جاتی ہے کہ اسلحہ کی پہچان اور اسلحہ چلانے کا طریقہ اسے محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی آتا ہو، اس کی صفائی کرنا بھی سیکھے، کیونکہ علیہ السلام سے مراد اسے استعمال میں لانا بھی ہے فقط اسلحہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں مزید برآں کہ روایات میں یہ بھی تو آیا ہے کہ گھوڑسواری، تیرچلانا اور تیراکی سیکھی جائے۔
(الکافی ج ۶ ص ۷۴ حدیث ۴ ۔ مستدرک الوسائل ج ۴۱ ص ۷۷ حدیث ۴۱۶۱)
یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ علیہ السلام میں فنون حرب کو سیکھنا بھی ضروری ہے اور جنگی ہتھیاروں کے بارے آگہی اور ان کے چلانے کی ٹریننگ بھی ضروری ہے اور اس میں ڈرائیونگ بھی شامل ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ تیر چلانا سیکھنے کا حکم نمونہ کے طور پر ہے، ہرزمانہ میں اسلحہ کی نوعیت کے مطابق تربیت لینا ہو گی ، سکھلائی ہرزمانہ کے ہتھیاروں کی مناسبت سے ہوگی۔ آج کے دور میں ٹریننگ ایک نئے انداز سے ہو گی علمی اعتبار سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی اس کی ڈیوٹی اس فن کے ماہرین پر ہے۔
اسلحہ کی ایجاد، اسلحہ سازی
عسکری تیاری میں اسلحہ کی تجدید اور نئی ایجادات پر بھی توجہ دینا ہو گی ،عسکری تعلیمی ادارہ جات اس کام کو انجام دیا جانا ہوگا، مختلف حکومتوں میں یہ کام انجام دیا جانا چاہیئے، اسلامی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میدان میں مناسب اقدام کریں اور اسلحہ کے میدان میں ترقی کی راہیں اپنائیں جس طرح ہمارے معاشرہ کے لئے ڈاکٹروں، انجینیئروں، سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔
ہمارا معاشرہ ، ہمارا اجتماع اس کا متقاضی ہے کہ ہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عدالت کے قیام کے لئے علیہ السلام کے عمل میں شریک ہوں، افراد سے زیادہ اسلامی حکومتوں کا کام ہے اسلحہ کی علیہ السلام، جدید ہتھیار بنانا ، بین الاقومی طور پر اسلحہ کی جو دوڑ ہے اس میںخود کو شامل رکھنا تاکہ ضرورت پڑنے پر اسلامی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے اور اسلام کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کیا جا سکے اس کا احساس دلاتا اور حکومتوں کو متوجہ کرنا بھی اسی علیہ السلام کا حصہ ہے، سب سے اہم بات اسلامی ممالک کے سربراہان کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کا مفاد اسلام میں ہے اور ان کا تحفظ اور عزت اسلامی مملکت کے قیام میں ہے اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میں ہوگا اس کے لئے وہ اپنا کردار ادا کریں۔
افواج کی تیاری
عسکری آمادگی میں لشکر تیار کرنا، فوج بنانا بھی شامل ہے تاکہ وہ امام زمانہ علیہ السلام(عج) کی خدمت میں ہوں۔اس امر میں جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ ایک قانون وضع کرنا ہوگا جس کے تابع یہ افواج ہوں گی اور جس کی بنیاد پر یہ لشکر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے ہوگا ہماری مراد قانون سے عسکری قوانین ہیں یہ بات اس کتاب کے موضوع سے باہر ہے اور میں اس سے آگاہ بھی نہیں ہوں بلکہ اس قانون سے مراد دینی، اخلاقی سیرت و کردار، عملی زندگی، معاشرتی آداب کے حوالے سے ہے جو اس شخص کی نجی زندگی پر اپنے اثرات چھوڑے اور ایک ایمانی روح اس میں ایجاد کرے اور وہ ایمانی قوت ہو گی جو اسے بڑے بڑے معرکوں میں بے جگری سے لڑنے پر آمادہ کرے گی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس قانون کو وضع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس فوج کو افراد کے اعتبار سے بھی اور ایک مجموعہ کے لحاظ سے بھی، تمام شرعی احکام اور اسلامی تعلیمات کا پابند بنانا ہو گا اور ہر قسم کے حرام سے دور رہنا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ مستحبات اور شرعی آداب کا بھی پابند ہو اور مکروہات سے خود کو دور رکھے، محرمات اور واجبات سے حوالے سے یہ بات بڑی واضح ہے جو بھی امام مہدی علیہ السلام کا لشکری بننا چاہتا ہے اس کی پہلی شرط بھی یہی ہے کہ تمام واجبات کو انجام دیتا ہو اور تمام محرمات سے دوررہتاہو۔
جوبات اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ وہ مستحبات کو بجا لاتا ہو، اسلامی آداب کا پابند ہو، مکروہات سے دور ہو، مروت کے منافی کاموں سے دور رہے، اعلیٰ قدریں اس کے لئے اہمیت رکھتی ہیں ان کا وہ عامل ہو ۔
یہ امور اگرچہ اس کتاب کے موضوع سے باہر ہیں لیکن چند باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ کچھ اس طرح ہیں۔
۱ ۔ نماز پنجگانہ کے جو مستحب اعمال ہیں ان کو انجام دیتا ہو، جیسے باجماعت اور اول وقت میں نماز، پنجگانہ نمازوں کے نوافل ، مسجد میں نمازپڑھنا، نماز کی تعقیبات، تسبیح جناب سیدہ فاطمة الزہراءسلام اللہ علیہاہر فریضہ نماز کے بعد پڑھنا، اذان اور اقامت ۔
۲ ۔ قرآن سے کچھ آیات کی باقاعدگی سے روزانہ تلاوت کرنا ، ہرفریضہ کے بعد صدقہ دینا اگرچہ مختصر ہی کیوں نہ ہوہرشب جمعہ اور ہر روز جمعہ ۔
جمعہ کے دن غسل کی پابندی کرنا، خمیس اور جمعہ کو ناخن اتارنا ، باوضورہنا خاص کر جب گھر سے باہر جائے، ہر جمعہ کی صبح دعائے ندبہ پڑھنا، دعائے عہد پڑھنا، دعائے بیعت روزانہ پڑھنا، جنابت کا غسل کرنے میں جلدی کرنا، جنابت کے بعد کچھ نہ کھانا اور جنابت کی حالت میں نہ سونا، مگر یہ کہ پہلے وضو کر لے یادونوں ہاتھوں کوتین مرتبہ دھو لے، اسی طرح تین مرتبہ کلی کرنا اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، اسی طرح کے مستحبات ہیں جو دعاوں اور زیارات کی کتابوں میں درج ہیں۔
عسکری تیاری کا مقصد
کیا اس عسکری تیاری کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے انتقام لینا ہے، ان پر سخن کرنا ہے، یا عدالت کا عام کرنا ہے، جو کچھ روایات اور قرآنی آیات سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ کرنااصل ہدف نہیں ہے بلکہ ہدف کے حصول کے لئے وسیلہ ہے ۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعوت کو عام کرنا چاہتے تھے اس کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جنگیں کی گئی ہیں لہٰذا حضورپاک کی اللہ کے دشمنوں کے خلاف تقریباً ساری جنگ میں سوائے ایک ....کے دفاعی ہیں۔
”(
وَقَاتِلُوا المُشرِکِینَ کَافَةً کَمَا یُقَاتِلُونَکُم کَافَةً
)
“(التوبہ آیت ۶۳)
ترجمہ:۔”اور تم سارے مشرکین کے خلاف جنگ کرو جس طرح وہ تمہارے ساتھ جنگ کر رہے ہیں“۔
جہاد، جنگ ،اسلام کی حمایت اور اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے شروع ہوئے، اسے ہم چوتھی فصل میں بیان کریں گے۔
لہٰذا عسکری تیاری عدالت عام کرنے اور روئے زمین پر امن کا قیام ہے اور جو اس ہدف کے سامنے رکاوٹ بنیں گے تو پھر ان کے خلاف جنگ بھی کی جائے گی۔
سختی کے بارے اسلام کا نظریہ
یہ مضمون رہبر اسلام حضرت آیت اللہ السید علی خامنہ کے خطاب سے لیا گیا ہے:
اسلام کی سختی کے بارے بڑی واضح اور روشن رائے ہے اسلام اصولی طرح پر سختی کو اپنے عمل کی بنیاد نہیں بناتا لیکن سختی کرنے کی نفی بھی نہیں کرتا جہاں پر قانون کے اندر رہتے ہوئے سختی کی ضرورت پیش آئے تو اس کی اجازت دی ہے۔
قانونی سختی اور غیر قانونی سختی
ہمارے ہاں سختی کی دو اقسام ہیں ( ۱) قانونی ( ۲) غیرقانونی
قانون ضرورت کے وقت سختی کرتا ہے مثلاً حکم دیتا ہے کہ اگر فلاں شخص فلاں جرم کا ارتکاب کرے تو اسے جیل میں ڈالا جائے ، فلاں جرم کرے تو اسے یہ سزا دی جائے تو یہ سختی جو ہے بری نہیں ہے کیونکہ یہ چیز انسانی حقوق کو پامال نہیں ہونے دیتی۔مجرموں کی کارروائیوں کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ اگر مجرموں کے ساتھ قانون سختی نہ کرے تو پھر جرائم بڑھ جائیں گے اور معاشرہ بے امن ہو جائے گا ایسی حالت میں سختی ضرور ہو جاتی ہے۔
دوسری سختی غیر قانونی ہے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے جب کہ اس کا دل چاہے اور بغیر وجہ اور بغیر دلیل اپنی من مانی کرے قانون اور دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا اقدام اٹھائے، ایک خودسر شخص اپنی مرضی سے لوگوں پر سختی کرتا ہے ان سے زیادتی کرتا ہے اور اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتا ہے تو واضح ہے کہ اس قسم کی سختی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
اسلام کا یہ پہلو ہمہ جہتی دین ہے اس میں آفاقیت ہے اسلام میں یکطرفہ سوچ غالب نہیں جس وقت اسلامی حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ طاقت، زیادتی، دھونس، دھاندلی، قانون کی خلاف ورزی کے سامنے کھڑی ہو تو اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہے، واضح موقف جاننے بلاخوف و خطر اور کسی مصلحت کو دیکھے بغیر کسی خاص جہت کا لحاظ رکھے بغیر اپنی بات کہے اور اس پر عمل کرے، حکومت جب عوام سے سامنا کرے یعنی افراد کی بات ہے تو اس کا رویہ نرم ہو رعیت سے پیار و محبت کا رویہ اپنائے نرمی ، پیار، شفقت کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ کے لئے فرمان ہے کہ”(
عَزِیز عَلَیهِ مَا عَنِتُّم حَرِیص عَلَیکُم بِالمُومِنِینَ رَووف رَّحِیم
)
“(التوبہ آیت ۸۲۱)
ترجمہ:۔”نرمی کا حکم ہے حضورپاک کی صفت سے کہ وہ مومنوں کی بھلائی پر حریص ہیں ان پر رووف مہربان ہے“۔
قانونی سختی اتنی مقدار میں ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے یہ کام فقط اچھا ہی نہیں بلکہ بہت ضروری بھی ہے۔غیر قانونی سختی تو جرم ہے فقط ایک برائی نہیں، اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس رویہ کو کچلنا ہوگا، یہ اسلام کی رائے ہے۔ اس میں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی اس قسم کا جھگڑا ہے۔ بعض بغیر آگہی رکھے کرتے ہیں اور اسلام کی بنیادی سیاسی ہر بات کرتے ہیں جب کہ انہیں معاملات کی حقیقت بارے علم نہ ہے بعض اخبارات کے صفحات کو انہوں نے بے مغز عناوین پر بعض اشتعال انگیز عناوین سے بھر رکھاہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ دین کے دشمنوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ اسلامی میدانوں میں بحث و جدل کو کھینچ کر لے آئیں ان کے مقاصد کچھ اور ہیں یہ سختی کو ایک کلی عنوان دے کر پیش کرتے ہیں۔ وہ قانونی اور غیر قانونی سختی کے درمیان فرق نہیں کرتے وہ قانونی سختی کے موافق نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی گروہ تہران کی سڑکوں پر ماحول خراب کرے توڑ پھوڑ کرے ،فتنہ ایجاد کرے، لوگوں کا سکون برباد کرے ، ان کے اموال کو ضائع کرے، ان کے فرزندوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈالے، وہ کہتے ہیں کہ ان کو کچھ نہ کہا جائے ان سے سختی کرنا ٹھیک نہیں ہے جب کہ پورے عالم میں وہ پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں، اپنے مخالفین کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور تشدد کی متعدد اقسام کو استعمال میں لاتے ہیں صیہونی حکومت جس کی خبررساں ایجنسیاں تشدد اور سختی کے خلاف تحریک میں پیش پیش ہیں اسے فلسطین میں عوام ان کی پرتشدد کاروائیاں نظر نہیں آتی جنوبی لبنان پر بچوں، عورتوں اور شہریوں کا قتل عام نظر نہیں آتا۔ جنوبی لبنان کی فضاءسے آگ کے گولے برستے انہیں دکھائی نہیں دیتے اور یہ عمل ان کے نزدیک سختی نہیں ہے اسی طرح ایک دوسرے کے رفقاءپورے عالم میں اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا ہی کر رہے ہیں اور بھی لوگ عالمی نشریاتی اداروں پر مسلط ہیں اور اپنی مرضی سے قانونی تشدد اور سختی کو مذموم قرار دیتے ہیں اور انہیں خود اپنا غیر قانونی تشدد نظر نہیں آتا۔(خطاب ۹ محرم ۱۲۴۱ ہجری قمری ۔طہران)
ثقافتی تیاری
ثقافت کے متعلق جب بات ہوتی ہے توبعض دفعہ کتابی ثقافت کی جاتی ہے بعض دفعہ کپڑے سازی کی ثقافت ، بعض معاشرہ میں رسومات و رواج و عادات کی ثقافت ۔ آج کل کتابی ثقافت کمزور پڑ گئی ہے۔ اس کا اثر کم ہے کیونکہ کتاب کے قاری کم ہو گئے ہیں اس کے کافی سارے اسباب ہیں ۔ان میں ٹیلی کمیونیکیشن کا جدید نظام، ویڈیو، انٹرنیٹ، ویب سائٹس، کمپیوٹر ان کے روزگار میں اس قدر مصروف رہتا ہے کہ کتاب پڑھنے کا وقت نہیں بچتا یا پھر اتنی پیچیدہ بیماریاں آ چکی ہیں کہ ان کے علاج میں لگا رہتاہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف وسائل اور ذرائع سے کتاب کے مطالعہ کا شوق دلایا جائے، اسلامی کتب کی معاشرہ میں طلب بڑھائی جائے، جدید طرز تحریر،دلچسپ تحریریں، زندہ موضوعات پر تحریریں، طباعت کی عمدگی، اختصار، بہر حال کتاب خوانی کا عمل معاشرہ میں ختم نہ ہونے دیا جائے۔
رائٹرز حضرات سے گزارش ہے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھیں کہ کتاب قاریوں کی تعداد کم ہے ، تالیف اور تصنیف کے انداز میں تبدیلیاں لے آئیں ایسا انداز اپنائیں کہ وہ قاری کو کتاب کی اہمیت کا قائل کر دے، موضوعات میں اختصار پیش نظر رکھا جائے، علمی مطالب بیان کرتے وقت ایسی حکایات درج کی جائیں جن سے قاری کی دلچسپی بڑھ جائے۔ ایسے موضوعات کو چھیڑا جائے جو لوگوں کے روزہ مرہ مسائل سے مربوط ہیں یا ایسے موضوعات زیر بحث لائے جائیں جن سے بیماریوں کو کو دور کر دیں انہیں خطرات سے بچائیں یا ان کے لئے معاشی مسائل کا حل پیش کریں۔
ایسے مطالب جو اسلامی عقیدہ کو مضبوط بنا دیں اور اہل البیت علیہ السلام سے مودت و محبت کو مستحکم کریں اسی طرح علمی اور سائنسی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جو انسان کے ذہن کی تقویت میں معاون ہوں اور سائنسی میدانوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے آگہی ہو مختلف میدانوں میں سائنس نے انسان کی فلاح کے لئے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اس سے آگہی حاصل کرے۔خاص کر ایسے مقالات جن سے علیہ السلام میں مدد ملے ان کا مطالعہ کیا جائے نئی ایجادات سے آگہی لی جائے ایسے امور سے آگہی حاصل کی جائے جو معاشرہ کی اصلاح اور تربیت میں خلل ڈالتے ہیں معاشرہ اور اجتماع میں فضاءاور ماحول کو آلودہ کرنے والے لٹریچر سے آگہی حاصل کی جائے اور اس کا توڑ کیا جائے تاکہ اس صاف ستھرے انسانی ماحول کو بنایا جاسکے۔
اس جگہ حضرت قائم علیہ السلام کی حکومت کے لئے ثقافتی علیہ السلام کی بات ہو رہی ہے وہ حکومت جو پورے کرہ ارض پر ہوگی مختلف تہذیبوں، تمدنوں اور مختلف زبانوں، مختلف خطوں میں قائم ایک ہی حکومت ہو گی ایک سائنس دان جو ایٹمی رازوں سے واقف ہے اور دوسرا عام جاہل ان پڑھ ہے ان دونوں کے درمیان میں لمبا فاصلہ ہے ذہنی دوری ہے اور دونوں انتہاوں کے درمیان مختلف اذہان رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے، اس وجہ سے ہم اس وقت نہیں جانتے کہ اس حکومت میں کیا موقعیت بنے گی اور اس تجارت کا خاتمہ کیسے ہوگا اور اس حکومت میں ہر فرد کی کیا ذمہ داری ہو گی پھر یہ ذمہ داری ثقافتی ہو گی، عسکری ہو گی، سیاسی ہو گی، لیکن ایک بات ضروری ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو چلانے والے ہوں گے جو انسان ہو وہ خیالی رول ادا کر رہے ہوں گے ان کے لئے کوشاںرہے کہ وہ اسلامی ثقافت سے آراستہ ہوں اور پھر یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے اور اس کے آثار نمایاں ہیں کہ حضرت کے ظہور سے پہلے ثقافتی جنگ ہو گی جو عسکری جنگ سے زیادہ خطرناک ہے تہذیبوں کا ٹکراو ہونا ہے اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ہر تہذیب کی خوبیاں اور مختلف تہذیبوں میں خامیوں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے اگر خوبیاں لے لی جائیں اور خامیوں کو نکال دیا جائے تو ایک بہترین انسانی تہذیب تسلسل پا جائے گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا خاصہ یہی ہوگا کہ اس میں انسانی قدریں پروان چڑھیں انسانی ثقافت کو عروج ہو، غیر انسانی ثقافتی شو ختم ہو جائے عدالت کا نفاذ اس حکومت میں ہونا ہے، عدالت کی نشرو اشاعت ثقافت کے وسیلہ سے ہی ہو گی ایسی قوم میں عدالت کا نفاذ کہ جس کی کوئی ثقافت نہیں ہے جاہل اجڈ ہیں، ان کا استحصال ہی ہو گا اقوام پر جبر ہو گا ایسے احکام اور قوانین ان پر لاگو کر دینا کہ جن سے وہ آشنا ہی نہیں ان کے صحیح اور غلط ہونے سے وہ واقف نہیں خاص کر ایسے علاقوں میں جو اسلامی تہذیب سے کوسوں دور ہیں انہوں نے اسلامی ثقافت کا کچھ دیکھا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی آداب اور تعلیمات سے واقف ہیں اور اس خطہ میں امام علیہ السلام اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے وارد ہوں گے تو یہ کیسے ہوگا؟ ظاہر ہے کہ امام علیہ السلام کی آمد سے پہلے دنیا بھر کی تہذیب کو قریب کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اسلامی تہذیب کو دوسری تہذیبوں کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور پھر اس کی نشرواشاعت بھی کرنا ہوگی تاکہ امام علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے پہلے انسانی ذہن اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب کی خوبیوں سے آگاہ ہو چکا ہو اور اس کو اپنانے کے لئے اس میں آمادگی موجود ہو یہ بہت ہی اہم کام ہے اس حوالے سے ہمارے لئے لازم آتا ہے کہ ہم اس موضوع کی مناسبت سے کتابوں کا مطالعہ کریں جو ہمیں اس قابل بنا دیں کہ ہم ثقافتی میدانوں میں علیہ السلام کر سکیں۔
قیادت کرنے والے لیڈر کی ثقافت
یہ علیہ السلام آخری اور مطلوب ہدف نہیں ہے جیسا کہ معاشرتی ثقافت کے حوالے سے بات ہو گی بلکہ یہ علیہ السلام کا ایک مرحلہ ہے اور ثقافت کی نشرواشاعت کے لئے ایک قدم ہے ہماری مراد یہ ہے کہ افراد میں سے ایک ایسی تعداد موجود ہونی چاہئے جس میں تمام ثقافتی اور علمی صلاحیات موجودہوں جو انہیں مستقبل میں بننے والی حکومت میں ذمہ داریاں ادا کریں گے یہ علیہ السلام بغیر پلاننگ اور منصوبہ بندی کے نہ ہو بلکہ اس میں افراد کا چناو کیا جائے اور انہیں مختلف ذمہ داریوں کی تربیت اور ٹریننگ لینی چاہیئے۔
جیسے ایک ایڈمنسٹریشن میں مہارت حاصل کرے تو ایک میدان میں اعلیٰ ڈگری رکھتا ہو تو ایک انتظامیہ میں بڑی ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس طرح ہر حکومت میں مختلف ادارہ جات کے لئے مختلف پوسٹیں مختص کی جاتی ہیں اور پھر ان پوسٹوں کے لئے افراد کو خاص شرائط کے تحت تربیت کیا جاتا ہے تو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو بھی اس سب کی ضرورت ہو گی تو اس حکومت کے کام کرنے کے لئے جہاں پر مخصوص ذمہ داری کے لئے یہ ضروری ہے اس کے ساتھ اس کی اسلامی ثقافت کے لحاظ سے بھی تربیت ہو گی وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اس کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
افراد کی سطح پر بھی اور حکومتی سطح پر بھی یہ کام آسان بھی نہیں ہے اس کا دائرہ وسیع بھی ہے اور اس کا تربیتی مرحلہ سخت بھی ہے اس لیڈر سازی کا عمل ظہور کے مرحلہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ان سے معاشرہ کو تہذیب ....اور ان کے اندر اسلامی شعور پیدا کرنے اور انہیں اسلامی تہذیب و تمدن سے آگہی دینے کے لئے بھی کام لیا جائے گا۔
اس سے مراد یہ بھی نہیں کہ ہمیں کوئی خاص جگہ مختص کر دیں اور اس میں کیڈٹ کالج بنا کر یہ کام شروع کریں بلکہ اس کام کو معاشرہ کے اندر رہ کر کرنا اس کے لئے کوئی الگ سے سلسلہ بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بات ہدف کے حصول میں رکاوٹ ہو گی بات یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں حکومتی اداروں کو چلانے کے لئے ....سے لے کر ایک یونین کونسل کی سطح تک ہر جگہ دفاتر ہیں ، عملہ ہے، مدیر ہیں، افسر ہیں ، کلرک ہیں ایک ضلع کو لے لیں تو جو افراد خود کو امام زمانہ (عج) کی حکومت کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے تو وہ مخلف مراحل میں اور مختلف پوسٹوں کے لئے اپنے اندر قابلیت پیدا کریں اور جس معاشرہ میں رہتے ہیں اور جن چیزوں میں کام کرتے ہیں ان میں موجود رہیں اور اپنی اخلاقی خوبیاں اجاگر کریں معاشرہ سازی میں اور اچھا ماحول بنانے میں کردار ادا کریں کیونکہ معاشرہ کی اصلاح ہی اہم مرحلہ ہے اس عالمی اسلامی حکومت یعنی جب امام علیہ السلام کاظہور ہوگا تو ہر شخص کواس کی قابلیت، مہارت، کی مناسبت سے اس ذمہ داری پوسٹ پر بٹھایاجائے گا اس کے لئے علیہ السلام پہلے کرناہے اور جو اس نیت سے علیہ السلام کرتا ہے ایک اچھا ٹیچر، اچھا ایڈمنسٹریٹر، اچھا پروفیسر،اچھا ڈائریکٹر،اچھا سیکرٹری، اچھاکمپوزر، اچھا ویب سائیٹ ڈیزائنرہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کام کرنے کے لئے اپنے اندر ساری صلاحیات پیدا کرنا ہیں اور اس انتظار میں رہنا ہے کہ اگر اسے موت آجاتی ہے تو اسے اس کا اجر ملے گا اور جس شدت سے اس کی انتظار ہو گی اس کی نیت کے مطابق اسے قبر سے دوبارہ اٹھایا جائے گا جب کہ روایات میں آیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت چلانے والے جو بڑے افراد ہوں گے جنہوں نے روئے زمین کے مختلف خطوں میں جا کر ذمہ داریاں لینا ہیں ان کی تعداد ۳۱۳ ہو گی اور وہ سب ایک جگہ سے نہیں ہوں گے، آسمانی آواز پر وہ سب مکہ میں اکٹھے ہو جائیں گے اور وہی پہلا گروپ ہو گا جو امام زمانہ علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرے گا یہی امام علیہ السلام کی سینٹ ہو گی آپ کے خاصان ہوں گی۔
جی ہاں! اس جگہ جو مشکل امر ہے وہ یہ ہے کہ ان باصلاحیت افراد کی تربیت کی ذمہ داری ان پر ہے جو ہم بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر معاشرہ ، زمین کے تمام خطوں کے اندر اس بارے کام ہونا چاہئے ہر ملک میں، ہر شہر میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو اس ذمہ داری کو نبھائے اور اس ثقافت کو کچھ افراد میں عام کریں کہ وہ اس ہدف کو پا سکیں اللہ تعالیٰ ان کا مدد گار ہے جو ایمان لے آئے ہیں اللہ کی ذات پاک ہے۔
معاشرہ، قوم، اجتماع کی ثقافت
کسی بھی قوم کی ثقافت، سوسائٹی کی ثقافت بہت اہم ہے اور قومی ثقافت ہی ہمارے امام پر ہزاروں جانیں قربان کرنے کی تمنا اور آرزو ہے پورے عالم میں عدالت پھیلانے میں اس کا بنیادی کردار ہے اور یہی اصلی شرط ہے کیونکہ وہ حکومت عدل کی حکومت، علم کی حکومت، ثقافت کی حکومت ہو گی ، تہذیب و تمدن کی حکومت ہو گی ایسی حکومت ہو گی جس میں حقیقی علم پھیلایا جائے گا۔ ہمارے امام منتظر علیہ السلام کے وسیلہ سے، بعد میں امام علیہ السلام کے علم اور آپ علیہ السلام کے اصھاب کے علم بارے بات آئے گی۔
امام علیہ السلام سے یہ علم سب لوگوں کی طرف منتقل ہو گا مرد اور عورت کی تفریق نہ ہو گی بوڑھے اور جوان کا فرق نہ ہو گا یہ بات اس نظریہ کو تقویت دیتی ہے کہ ثقافت کسی ایک معین گروہ اور طائفہ کی نہیں ہوتی اور نہ ہی چند افراد کو ثقافت کی تعلیم دی جائے بلکہ تمام لوگوںکو تعلیم یافتہ کیا جائے، جہالت کا خاتمہ کیا جائے سب کو تہذیب سکھائی جائے سب کو متمدن شہری بنایا جائے معاشرہ کے تمام طائفہ اور گروہوں سے جہالت کا خاتمہ کیا جائے۔اگر ہم ایک بستی میں داخل ہوں اور اس میں آدھے بچوں کی تربیت کریں، انہیں تعلیم دیں اور باقی کو ہم نے ایک سال کے لئے چھوڑ دیا تو ہم نے اس بستی میں جن بچوں کو تعلیم دی جنہیں تربیت دی ، آداب زندگی تعلیم دیئے، اچھی عادات سکھائیں وہ بچے گھر میں گلیوں میں کوچوں میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں گے تو ان بچوں کی جو بری عادات ہیں وہ ان میں سرایت کر جائیں گی اس طرح ہم اس بستی میں جو عملی اور ثقافتی انقلاب لانا چاہتے تھے اس میں ناکام ہو جائیں گے لہٰذا ہم سب کے بچوں کے لئے مساوی تعلیم کا نظام اپنا کر سب کو تہذیب یافتہ بنائیں سب کومثقف بنائیں سب کو تعلیم دیں اس میں فرق نہ کریں۔
جو شخص اپنے بچوں کی اچھی تربیت چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ کے بچوں کی تربیت کا بھی انتظام کرے اگر ہم لیدڑ اور قیادی افراد کی تربیت کر رہپے ہیں، مردوں میں کام کر رہے ہیں پھر ایک تربیت یافتہ کی شادی ایک غیر تعلیم یافتہ لڑکی سے کرتے ہیں تو ظاہر ہے اس کے ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیونکہ جوعورت اس کے گھر میں آئی ہے اور وہ اسلامی تعلیمات سے واقف نہیں ہے اسلامی آداب سے آراستہ نہیں ہے تو وہ ایک مثالی گھرانہ نہیں بنا سکتی اور نہ ہی اولاد کی اچھی تربیت کر سکتی ہے آپ اگر اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ کو اس بارے بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔
اس عورت نے یہ سیکھا نہیں کہ وہ شوہر کے ساتھ کیسے رویہ اپنائے اور اس کے حقوق کیا ہیں اور شوہر کے حقوق کیا ہیں اسے اس کا علم ہی نہیں اولاد کے حوالے سے ذمہ داریاں کیا ہیں اسے کچھ پتہ ہی نہیں تو وہ عورت تربیت یافتہ لیڈر اور قیادتی افراد پر منفی اثراب چھوڑے گی۔
یہ بات ہمارے اوپر اس امر کو روشن کر دیتی ہے کہ اسلامی ثقافت کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ اسے عام ہونا ہے اور معاشرہ کے ہر فرد کو تعلیم یافتہ بنانا ہو گا سب کو تہذیب یافتہ کرنا ہوگا سب افراد پر کام کرنا ہوگا تب ہی ان میں اعلیٰ صفات کے حامل افراد بڑی ذمہ داریوں کے لئے تیار ہو کر باہر آئیں گے ایسے افراد جو ایک زمین پر رہائش پذیر ہیں اور ایک آسمان تلے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، ایک دوسرے سے واقف ہیں، اللہ تعالیٰ کاسورہ حجرات آیت ۳۱ کا فرمان اسی طرف اشارہ ہے ”(
وَ جَعَلنا کُم شُعُوباً وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اکرَمَکُم عِندَاللّٰهِ اَتقَاکُم“
)
”ہم نے تمہیں اقوام، قبائل میں قرار دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو اور تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہوگا“۔
تعارف معرفت سے ہے اور یہ ایک دوسرے سے رابطہ میں رہنا ہے ایک دوسرے سے آگاہ ہونا ہے ہر ایک اپنی ثقافتی ، تہذیبی، اجتماعی، سیاسی، علمی معلومات دوسرے تک پہنچائے، ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں تمام میدانوں میں کرامت اور بزرگی تقویٰ کے مصادر پر ہے جتنا تقویٰ زیادہ ہوگا اتنا ہی اس تہذیب و تمدن کا مقام زیادہ ہوگا۔
معاشرہ کو مثقف بنانے کا طریقہ
ہم معاشرہ کے تمام گروہوں اور اقوام بارے ایک خاص پروگرام تربیت اور ثقافت کے حوالے سے دے سکیں ایک تو یہ بات ہے کہ لوگوں کی علمی اور ذہنی و فکری پہنچ مختلف ہوتی ہے یا فراغت کے اوقات مختلف ہیں کوئی صبح کو فارغ ہے تو کوئی دوپہر کو، کوئی دوپہر کو فارغ نہیں شام کو فارغ ہے کوئی شام کو فارغ نہیں رات کو فارغ ہے ۔ہر کسی کے پاس وقت کم ہے اور کسی کے پاس ثقافتی طریقہ کار مختلف ہیں کسی کو ایک رویہ پسند ہے کسی کو دوسرا طریقہ پسند ہے، تبلیغ کے انداز مختلف ہیں، کوئی قرآنی آیتوں کو پسند کرتا ہے، کوئی ناول کے انداز کو چاہتا ہے، کوئی اختصار چاہتا ہے کوئی تفصیل مانگتا ہے جو حضرات ان کاموں کے درپے ہیں ان پر ہے کہ وہ اس کا جائزہ لے کر اپنے تعلیمی، تربیتی ،تبلیغی ، ثقافتی پروگرام تربیت دیں کچھ دروس رات کو ہوں تو کچھ دن کو ہوں چھٹیوں کے ایام میں ہو، ہر گروہ کو ان کی پسند کے اوقات اور پسند کے انداز سے تربیت کا اہتمام کیا جائے گھرانوں اور خاندانوں کے پاس ملاقات کے لئے جانے والے اساتذہ کرام ، علماءعظام کے تجربات میں بات آئی ہے اور طریقہ انتہائی موثر اور مفید رہا ہے کہ جب کسی گھر میں ایک عالم دین یا ایک اخلاق کا مربی جاتا ہے ان سے پہلے ہم آہنگی کر کے جائے اچانک نہ جائے ۔
پہلے تو باپ، بیٹے، بیٹی، بیوی کو گھرانے کے افراد سے تعارف ہوتا ہے پھر ان کے مادی اور روزگار کے بارے سوال کرے پھر ان کی صھت کا پوچھے پھر ثقافتی امور کی جانب سوالات بڑھا دے ان میں اہم کو پہلے نمبر پر لے آئے جیسے پاک دامنی کے بارے سوال کرے ،پردہ کے بارے سوال کرے پھر اہم واجبات کی پابندی بارے نماز پڑھنے کے بارے، روزہ رکھنے، اسی طرح آداب کے بارے، مستحبات کا سوال کرے، سلام کرنا، مریض کی عیادت کے لئے جانا، رشتہ داروں کی ملاقات کے لئے جانا، ہمسایوں کے بارے خیال رکھنا نماز باجماعت دعا زیارت ۔
اسی طرح شروع میں بچوں کی تعلیم بارے ،تعلیم میں ان کے درجات اگر ہو سکے تو اس ملاقات میں ایسا وقت رکھے کہ تعارفی پروگرام کے بعد نماز باجماعت ان کے گھر میں ادا کرے تجربہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب ایک عمامہ پوش شخص کسی گھر میں وارد ہوتا ہے توصاحب عمامہ بچوں کو اپنے قریب بٹھائے اور ان سے علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے سوال کرے اور وہ سوال کریں تو ان کا بڑے پیارے انداز سے بچوں کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر جواب دے ایک گھر کے اندر جا کر ان سے جس اپنائیت کے عالم میں ایک عالم بیٹھا ہوتا ہے اور ا س سے سوال و جواب ہوتا ہے اور اس کے مثبت اثراب اس گھرانے کے سارے افراد پر پڑتے ہیں یہ کام مسجد اور امام بارگاہ میں نہیں ہو سکتا اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سارے لوگ امام بارگاہ میں آتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں بلکہ آنے والوں کی تعداد کیا ہوگی مثلا ایک بستی میں بارہ ہزار افراد ہیں تو دو سو افراد مسجد یا امام بارگاہ میں آجائیں گے مجالس عزاءمیں پانچ سو آجائیں گے ایک ہزار آجائیں گے۔
یہ معاملہ بہت ہی خطرناک ہے، جو لوگ امام بارگاہ میں آتے ہیں اگر اس میں سوفیصد شریک ہو تو پھر بھی وہاں سے جس قدر تربیت لیتے ہیں تو اس کی پیش رفت بہت کم ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح ہے کہ جو فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس پر عمل پیرا کتنے ہوتے ہیں تو ان کی تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے جب کہ ایک گھر میں جا کر اس پیغام کو دینا تو ا سکے اثرات بہت ہی مختلف ہیں پھر مسجد اور امام بارگاہ میں آنے والے ایک قسم کے یا دوتین قسم کے سوالات کا جواب حاصل کر پاتے ہیں ایک آدھ بات تربیت کے حوالے سے لیتے ہیں جیسے وہ قاری، خطیب ، ذاکر، مولوی پیش کرتا ہے اور وہ مختصر وقت میں جو آدھ گھنٹہ ہوگا یا کچھ اس سے زیادہ۔
جب کہ گھروں میں جا کر یہ کام کرنا اگر منصوبہ بندی کے ساتھ ہو تو اس میں ایک موضوع محدود نہیں ہوتا وقت بھی محدود نہیں ہوتا بعض دو دو گھنٹے بغیر کسی اکتاہٹ کے جاری رہتا ہے۔جی ہاں! گھروں میں جا کر تبلیغی عمل کو انجام دینے کے بعد جو طریقہ موثر اور مفید ہے وہ شب بیداریاں ہیں خاص کر گھروں کے اندر جو شب بیداریاں منعقد ہوتی ہیں جن میں بہت سارے رشتہ داروں کو اس گھر والے بلالیتے ہیں تو اس موقع پر بھی فائدہ اٹھایا جا سکتاہے۔
(اس بیان کا ماحصل یہ ہے کہ امام زمانہ(عج) کی حکومت کے لئے ہر میدان میں افراد کی علیہ السلام کرنا ہے، اس کے لئے اسلامی تعلیمات، اسلامی آداب، اسلامی تہذیب عام کرنا ہوگی اس کے لئے مبلغین ، علمائ، ذاکرین، معلمین تربیت دینے والے افراد بہت کام کر سکتے ہیں اس کام کے دو طریقے ہیں ایک طریقہ مجلس کا ہے، مجلس میں درس کا ہے۔ دوسرا طریقہ کسی گھر میں، بیٹھک پر کھلی مجلس منعقد کرنے کا ہے مجلس کے بعد جو عالم دین کسی گھر میں ایک رات ٹھہر جاتا ہے تو اس کے ساتھ جو لوگوں کی نسبت ہوتی ہے سوال و جواب مختلف حوالوں سے ہوتے ہیں تو یہ اندازتبلیغ میں انتہائی ہے اور بہت اچھاہے یہ بات خود ہمارے تجربہ میں بھی آئی ہے اور خاص مناسبتوں میں اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اسی طرح گھر میں دعا ئے توسل، حدیث کساءکی نسبت بھی انتہائی موثر ہے کہ اس کے بعد لوگوں کو قریب سے عالم کے پاس بیٹھ کر بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے اسی طرح عالم دین اپنے علاقہ میں مریضوں کی عیادت کے لئے جائے، اس کی خوشی غمی میں شریک ہو، جن کی میت ہوئی ہے ان کے گھر پرسہ کے لئے پہنچے پھر یہ پیغام ہدایت پہنچانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ۔ خلاصہ تبلیغ کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور ہر انداز اپنایا جائے یہ آج کے دور کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے....ازمترجم)
ثقافت پرعورتوں کے اثرات
البحار میں النعمانی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوجعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں تمہارے اس دین کو دیکھ رہا ہوں پس ماندگی کا انتظار رہے گا، خونی مصر کے ہوں گے، یہاں تک کہ ہم اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد آئے گا جو اس دین کو دوبارہ تمہارے لئے لائے گا ان کے اقتدار میں سال میں دو بونس ملیں گے، مہینہ میں دو دفعہ تنخواہیں ملیں گی ان کے زمانہ میں تمہیں حکمت دی جائے گی یہاں تک کہ ایک عورت گھر میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے دے گی۔
(غیبة نعمانی ص ۲۱ بحارالانوارج ۲۵ ص ۲۵۳ ، باب ۷۲ ذیل ۶۰۱)
اس بات پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ تبلیغ اور ثقافت کی نشرواشاعت میں بہت زیادہ عورت کا کردار ہے کیونکہ اس کے گھروں اور خاندانوں میں رفت و آمد آسان ہوتی ہے اور وہ مردوں سے زیادہ وقت دے سکتی ہے۔عورت کے لئے بھی مرد کی طرح تعلیم یافتہ، مہذب ہونا، تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے، اس پر بھی واجب ہے کہ وہ تعلیم کے لئے ، تربیت کے لئے وقت دے۔ شرعی احکام جو خواتین کے کام کے بارے ہیں ان کا لحاظ رکھتے ہوئے خواتین میں بھی قابل عنصر کی تربیت اور لیڈرسازی کی ضرورت ہے، اس کی پاک دامنی ، حجاب، شوہر یا باپ سے اجازت لینا، اس کے کام کرنے میں شرط ہے اور یہ کہ تبلیغی عمل کی وجہ سے گھر کے مسائل اور اپنی اولاد کی تربیت میں خلل واقع نہ ہو، بعض ثقافتی امور فقط خواتین سے مخصوص ہیں جیسے اولاد کی تربیت کی ثقافت، گھر سے معاملات چلانے کی ثقافت، شوہر کے ساتھ برتاو کی کیفیت کی ثقافت یہ وہ امور ہیں جن پر توجہ دی جاتی ہے ان میں بنیاد عورت ہے پس اس کی تربیت کرنا ضروری ہے اسے بعینہ آگہی دینا ضروری ہے تاکہ معاشرہ کی تربیت اور اس کے سنوارنے اور مہذب بنانے میں عورت اپنا کردار ادا کر سکے یہ امور جو عورت سے مخصوص ہیں یہ ایک معاشرہ کے لئے بنیادی ستون ہیں ان امور میں جو اولاد کی تربیت کے متعلق ہیں وہ سب پر مقدم ہیں۔ عورت نے ایک اچھی نسل تربیت کر کے معاشرہ کودینی ہے۔
امت کے لئے مستقبل کی قیادت عورت کی گود سے پروان چڑھتی ہے، پس اس امر پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے پروگرام تربیت دینا ہوں گے۔
بعض تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سارے مواقع پر جو ازدواجی زندگی میں خلل واقع ہوتا ہے اس کا سبب عورت کا غیر تربیت یافتہ ہونا ہوتا ہے ازدواجی زندگی کے بارے عورت اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب سے بے بہرہ ہوتی ہے اور بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں کہ معاملہ طلاق تک جا پہنچتا ہے اور ہم نے اپنی کتاب فاطمہ علیہ السلام بنت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ”قدوة النسائ‘ میں تفصیل دی ہے۔
مغربی ثقافت سے خبرداررہنا
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا بنیادی کردار یہ ہو گا کہ اس میں اسلامی ثقافت واپس لوٹ آئے گی استعماری ثقافت کا خاتمہ ہو جائے گا اسلامی تعلیمات کی دشمن استعماری و سامراجی طاقتیں غیر انسانی استعماری ثقافت کو اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا میں پھیلانے پر لگے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”(
یَاَیُّهَالَّذِینَ اَمَنُوا ستَجِیبُواللّٰهِ وَلِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحیِیکُم“
()
سورہ انفال آیت ۴۲) اے وہ لوگ جو ایمان لا چکے تم اللہ اور اللہ کے رسول کے اس پروگرام کو قبول کرو کہ جس پر عمل کرنے میں تمہاری زندگی ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاءعلیہ السلام اور رسولوں علیہ السلام کو اس لئے بھیجا تاکہ وہ انسانوں اور اقوام عالم کو زندگی دیں انہیں مُردگی سے باہر نکالیں جو انبیاءعلیہ السلام لے کر آئے وہ عوام الناس کے ساتھ مربوط تھا ایسی تعلیمات لے آئے کہ انسان کا تعلق اس کے مجمع اور سوسائٹی سے اور اس کا تعلق اپنے بھائی سے، اپنے بیوی سے، اپنے باپ سے، اپنی ماں سے، اپنی بہن سے، اپنی بیٹی سے، اپنے بیٹے سے، اپنے دوست سے، اپنے ہمسایے سے، اپنے استاد سے، اپنے شاگرد سے، اپنے قائد سے کیسا ہونا چاہئے؟وہ ان روابط کو اچھا اور خوبصورت دیکھنا چاہتاہے اور ان روابط کی بنیاد کو وہ محبت کی بنیاد پر استوارکرتاہے۔
اسلام کے شرعی احکام، اسلامی آداب، فضائل، اچھائیاں ، نیکیاں یہ سب کچھ انسان کے ضمیر اور وجدان کو جگانے کے لئے ہے اور دنیا اور آخرت میں بہترین زندگی حاصل کرنے کے لئے ہیں دنیا دارالعمل ہے اور دارالاخرة جو ہے وہ دارالثواب ہے دارالاجر ہے۔اسلام نے یہ حکم جس کا تعلق انسان کی سعادت سے ہے چاہیئے وہ قانون ہو ، ادب کی بات ہو، جو انسان کی زندگی اور اس کے حالات سے متعلق ہے اس سب کو بیان کیا ہے اور اسے بہترین اسلوب، بہترین انداز اور پوری دقت اور باریک بینی سے بیان کیا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ خود اس انسان کے لئے ، اس کی ذات کے لئے ، اسکے اہل و عیال کے لئے یا اس کے معاشرہ اور اس کی سوسائٹی کے لئے ہے۔
قرآن کریم ، نبی اکرم، اہل البیت علیہ السلام نے ہمارے لئے بہت ہی ثروت مند ثقافت دی ہے، ایسی عادات ہیں جن کو اپنانے سے ہمارے نفوس زندہ ہو جاتے ہیں اس کے لئے یہ ثقافت ایک نور سے جس کی روشنی میں یہ انسان چلتا ہے لوگوں کے درمیان اس مشعل کے سہارے زندہ ہے،اس تہذیب کی کوئی زندگی نہیں جس کی اپنی ثقافت نہیں وہ مردہ ہے، چلتی پھرتی لاش ہے ۔
اسلام نے بیان کر دیا ہے یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان اصولوں پر عمل کرے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کے امور کو منظم کرے لیکن انسانیت دشمن اور ہر زمانہ کے سرکش و خودسر حکمرانوں نے انسانیت دشمن ثقافتیں متعارف کروائی ہیں اور بری عادات اور روایات کو عام کیا ہے اور ان غیر انسانی اخلاقیات کو اسلامی ممالک میں لے آئے ہیں تاکہ قرآن، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اہل بیت علیہ السلام کی سیرت کے مدمقابل انسان دشمن ثقافتوں کو متعارف کروائیں اور عوام میں اسے لاگو کروائیں۔
بہت سارے لوگ ان کے ساتھ چل پڑے ہیں وہی گندی عادات اور حیوانی لغزشیں اپنا لی ہیں اور اس بڑی مصیبت کے عام کرنے میں دشمن کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا ہے حالت ہماری یہ ہے کہ جب ہم کوئی خوبصورت چیز دیکھتے ہیں یا غیر معمولی حالت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے لکڑی خام لکڑی لے آئے ہیں تاکہ ہم اس پر کام کریں اور اسلامی ثقافت کو ہم چھوڑ دیتے ہیں جو ثقافت ہماری یہ تربیت کرتی ہے کہ پڑھو”اللھم صل علی محمد وآل محمد“ جو ہمیں کہتی ہے کہو ماشاءاللہ، سبحان اللہ، اللہ اکبر۔
اسلام نے جو ثقافت اور تہذیب انسان پر لازم قرار دی ہے تو وہ ثقافت ایک دوسرے کے کام آنے ایک دوسرے کی ہمدردی کرنے کی ثقافت ہے اچھا برتاو کرنا، ایک دوسرے کی ملاقات کے لئے جانا، جب ملنا تو پہلے سلام کرنا، مصافحہ کرنا ایک دوسرے کی بھلائی چاہنا ایک دوسرے کی مشکلات حل کرنا، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا،لیکن اس کے مقابل میں انحرافی ثقافت لائیں جس کی بنیاد ہے کہ سب سے پہلے اپنے بارے سوچ کرو، اس تہذیب کی بنیاد خود پسندی ہے، اپنی ذات کے گرد سب امور گھومتے ہیں، مغربی انحرافی عادات اپنا لی جاتی ہیں جس میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مفادات کے گرد گھومنا شروع کر دیتا ہے، شوہر بیوی ، اولاد والدین، ہمسایے، دوست، احباب، رشتہ دار، حاکم، محکوم غرض تمام تر تعلقات کا مرکزی نقطہ انسان کی اپنی ذات بن جاتی ہے۔ سلام کا رواج ختم ہو رہا ہے، ہمسایہ کی احوال پرسی ختم ہو رہی ہے بلکہ ہمسایہ کا یہ تک نہیں پتہ کہ میرا ہمسایہ کون ہے؟ماں باپ بوڑھے ہو گئے ان کی خدمت کی بجائے انہیں اولڈ گھر پہنچا دیا جاتا ہے اور کرایہ کے خدمت گذار ان کے لئے مقرر کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ باپ بیٹے کا اختلاف، بھائی سے بھائی کا اختلاف، شوہر بیوی کا اختلاف ، چچا بھتیجے کا اختلاف، پھر یہ اختلافات ایسے وسیع ہو جاتے ہیں کہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتے یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے انسانی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے شاگرد، استاد کا احترام نہیں کرتے یہ سب کچھ ہمارے معاشرہ میں ہو رہا ہے۔ اورہمارے ماحول میں یہ آگیا ہے، اس نے ہمارے نفوس پر اپنے اثراب چھوڑے ہیں، جس وجہ سے ہم بہت ساری نعمتوں سے محروم ہو چکے ہیں، کیونکہ جونعمتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لئے رکھی ہیں ان سے ہم محروم ہو جاتے ہیں۔
اے انسانو! ہم ہیں جنہیں یہ دعوت دی گئی ہے کہ انسان کی انسانیت کو زندہ کرو اپنی زندگی کو اخلاق محمدیہ اور فضائل اسلامیہ سے آراستہ کریں ان سے بھی ہمارے نفوس زندہ ہوں گے مُردگی ختم ہو گی ہمارے لئے یہ دعوت ہے کہ ہم کافروں کی عادات کو چھوڑ دیں کافروں کی ثقافت، کافروں کا لباس، کافروں جیسی شکل نہ اپنائیں۔ اسے خداوند نے ناپسند فرمایا ہے ،ناراض ہوجاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ کاروبار کرنا ان کی مصنوعات کو خرید کرنا جس سے ان کا اقتصاد مضبوط ہو یہ ہمارے لئے جائز نہیں ہے اس سے اسلام کمزور ہوتاہے۔اے مسلمانو! اسلام کا سر بلند رہنا ہے اس نے سرنگوں نہیں ہونا اسلام اللہ کے نزدیک محترم سے مکرم سے معزز ہے پھر ہم کیونکر کافروں کے رعب تلے آ جاتے ہیں، ان کی عادات اور ان کی تہذیبوں کو کیوں اپناتے ہیں ان کی مصنوعات کے دلدادہ کیوں ہیں؟ خود کیوں نہیں کرتے، اپنی ثقافت کو عام کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنی تہذیب مغربی دنیا میں کیوں نہیں پہنچاتے ہماری ثقافت، خالص انسان کی تربیت دی ہوئی ہے اس میں کشش موجود ہے اس میں عالمی ہونے کی قابلیت ہے یہ کام ہم نے کرنا ہے اسے متعارف ہم نے کروانا ہے یہ وہ کام ہے جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے پہلے ہمیں کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ذلیل بنایا ہے ان کے لئے عزت نہیں ہے کیونکہ ان کے دلوں میں انسانیت کے لئے بغض ہے نفرت ہے،کینہ ہے وہ انسانی قدروں کے دشمن ہیں جو کچھ ان کے پاس ہے اقوام عالم کو غلام بنانے اور انہیں نقصان پہنچانے کے لئے ہے۔
ہمارے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انبیاءعلیہ السلام سے ایک نبی علیہ السلام کو وحی فرمائی: مومنوسے کہہ دو کہ وہ میرے دشمنوں کا ترتیب دیا ہوا لباس نہ پہنیں اور نہ ہی میرے دشمن کی تیار کردہ غذا تناول کریں اور نہ ہی میرے دشمنوں کے بنائے ہوئے راستوں کو اپنائیں اگر ایسا کرو گے تو تم بھی ان کی طرح میرے دشمن قرار پاو گے۔(مفاتیح الجنان ص ۶۳۸)
خفیہ کاری (انٹیلی جنٹس)
اس امر بارے میری تحقیق نہیں ہے ہم نے اس کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی علیہ السلام کے لئے جو امور ضروری ہیں ان کی فہرست پوری کرنے کے لئے اسے دیا ہے۔
ہم نے اس امر میں خفیہ کاری، رازداری کو بیان کیا ہے اور اس کی اہمیت کو بھی بیان کیا ہے، کسی بھی حکومت کو چلانے کے لئے جتنی راز داری ضروری ہے، اتنا ہی آگہی اور معلومات رکھنا بھی ضروری ہے ، مملکت میں کیا ہو رہا ہے؟ دشمن کیا کر رہا ہے؟ فتنہ فساد پھیلانے والوں کے منصوبہ جات کیا ہیں اس بارے اطلاعات کا ہونا بہت ضروری ہے تب ہی مملکت میں امن قائم کیا جا سکتا ہے جس حکومت نے پورے عالم پر قائم ہونا ہے تو اس کے لئے بھی اس محکمہ کی اشد ضرورت ہے اس کی علیہ السلام کے لئے بھی اس کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوں کی سرگرمیوں اور ان کے طریقہ کار کا علم ہو پھر اسی تناظر میں علیہ السلام کی جائے آج کی اصطلاح میں اطلاعات کا محکمہ انٹیلی جینٹس کا محکمہ ،مخبری کا محکمہ یا جاسوسی کا محکمہ کہا جاتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث میں ہے:
اپنے پروگراموں اور منصوبہ جات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے انہیں پوشیدہ رکھنا ضروری ہے۔(الراسخ السماویہ ج ۴)
اپنے پراگراموں اور منصوبہ جات کے لئے رازداری سے مدد لو کیونکہ یہ نعمت رکھنے والا محسود ہوتا ہے اس کے لئے حسد کیا جاتاہے۔(تحف العقول ص ۸۴)
جس نے اپنے راز کو چھپائے رکھا تو اختیار اس کے اپنے پاس موجوود رہا۔(نہج البلاغہ ج ۴)
اس نقطہ کی اہمیت ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتاجب حاجات کے لئے رازداری کی اہمیت ہے تو وہ معاملات جو تقدیر ساز ہیں جن سے انسان کا مستقبل وابستہ ہے داخلی اور خارجی مفادات جن امور سے وابستہ ہوں ان کی اہمیت سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔خاص کر جن امور کا تعلق حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام سے ہے ان کے لئے معاونین بنانے ہیں، ان کے لیڈر کی تربیت کرنی ہے، ایسی حکومت جس نے پورے عالم میں امن قائم کرنا ہے ، عدالت کا نظام لانا ہے ، ظلم کا خاتمہ کرنا ہے تو اس کے لئے رازداری کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر شعبہ اطلاعات رسانی ہے کیونکہ ایسے سازشی عناصر بھی ہو سکتے ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کی تمہید میں خلل ڈال دیں گے اس کے لئے رکاوٹیں کھڑی کریں تو ایسے عناصر سے آگہی اور ان کا توڑ اہم ذمہ داریوں میں سے ہے۔اب اس کا طریقہ کار کیا ہے تو جو اس فیلڈ کے افراد ہیں وہی اس بارے رائے دے سکتے ہیں ہم نے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور یہ کہ اس چیز کی ضرورت ہے۔
۴ ۔ اخلاقی علیہ السلام
اس کا تعلق ثقافتی تربیت سے ہے، بلکہ یہ اس کا ہی ایک حصہ ہے اس سے جدا نہیں ہے۔ ہم نے اخلاق کی اہمیت کے پیش نظر اسے الگ عنوان دیا ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بعثت کا مقصد اخلاق قرار دیتے ہیں۔
”بعثت لاتمہم مکارم الاخلاق“(بحارالانوار ج ۶ ص ۰۱۲)
اس حدیث کے مضمون سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ حضورپاک نے اپنی بعثت کے نتیجہ میں اخلاقیات کی تمام خوبیوں کی تکمیل کردی، اخلاقیات کو ان کی آخری حد تک پہنچا دیا، آداب انسانی کو عروج پر لے گئے، کسی ایک کے لئے اس بات کی گنجائش نہیں رکھی کہ وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقتدار اور پیروی میں ہچکچاہٹ کرے، مکارم اخلاق کی نظری موقعیت اور ان سے آگہی کہ مکارم اخلاق ہیں کیا؟ اور پھر انہیں عملی زندگی میں لے آنا حضورپاک نے ایسا ہی کیا آپ کی پوری زندگی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھی آپ کا ہر پہلو اخلاق کا آئینہ دارہے۔
معاشرہ و مجمع میں عمومی اخلاقیات کی اہمیت
السید الخامنہ ای فرماتے ہیں:
اخلاقی شکل ہی درحقیقت کسی سوسائٹی کی پہچان ہے، کسی بھی مجمع اور سوسائٹی کا وزن اس کے اخلاقی قطب پر قائم ہوتا ہے باقی سارے معاملات اسی اخلاقی مرکز کے گرد گھومتے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اخلاقی امور کو اہمیت دیں اور ان کی پوری سرپرستی کی جائے، ذرائع ابلاغ، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، تمام وسائل کو اخلاقی فضائل کی اشاعت اور مکارم اخلاق کی تعلیم اور انہیں بیان کرنے کے لئے استعمال میں لایا جائے معاشرہ کے افراد کی روش، ان کے رویوں بارے اخلاقی ضابطے، اجتماعی ذمہ داریاں، نظم، منصوبہ بندی، اجتماعی آداب، خاندان کی اہمیت، دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنا، انسان کا احترام اور اس کی کرامت کا لحاظ ، ذمہ داری کا احساس، اپنے اوپر اعتماد اور بھروسہ، ذاتی شجاعت، قومی شجاعت، قناعت یہ وہ اہم اخلاقی فضائل ہیں جن سے ایک معاشرہ کو بہرہ ور ہونا چاہیے۔
اگر ہم اس وقت مختلف زندگی کے میدانوں میں خرابیوں کے بارے گفتگو کریں تو سب کا بنیادی سبب اچھے اخلاق کا فقدان اور اچھے عادات کو چھوڑنا ہے۔
اسی طرح امانت، درستگی، خیر،اصلاح، حق کا ساتھ دینا ، خوبصورتی کو چاہنا، اپنے لئے خوبصورت زندگی چاہنا، ظاہری اور باطنی دونوں حوالوں سے خوبصورت زندگی، ....زندگی سے گریز، فضول خرچی سے گریز، پاکدامن، ماں باپ کا احترام ، استاد کا احترام اخلاقی فضائل سے ہیں۔
ہمارے ہاں اخلاقی فضائ، اسلام نے ان سب پر زور دیا ہے اہل البیت علیہ السلام نے اس کی تشویش فرمائی ہے، علماءاعلام، فلمگاروں پرلازم ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے تمام پروگراموں میں اخلاقی فضائل کا لحاظ رکھیں جو مکالمے ہوتے ہیں جو ڈڑامے پیش کیے جاتے ہیں جو خبریں نشر کی جاتی ہیں ، ٹیلیفونک گفتگو ہوتی ہے، خطاب ہوتا ہے، مکالمہ ہوتا ہے سب میں اخلاقی فضائل کا لحاظ رکھا جائے تاکہ ہر قسم کے نقص سے پروگرام پاک رہے۔
الٰہی اخلاقیات اور اخلاق مکارم کی وضاحت اور تعلیمات کو شریعت اسلامی میں بیان کیا گیا ہے چاہے وہ امور جن کا تعلق انسان کی ذات سے ہے جیسے صبر، شکر، اخلاق، یا وہ امور جن کا دوسروں سے ہے جیسے درگذر کرنا، معاف کر دینا، تواضع، عاجزی، قربانی، انسانوں کا احترام کرنا یا وہ جن کا تعلق عمومی معاشرہ اور سوسائٹی سے ہے۔
اسلامی اخلاقیات کا میدان بہت ہی وسیع ہے یہی وہ امور ہیں جن پر انبیاءعلیہ السلام اور رسولوںکی تبلیغ کا زورتھا، ادیان الٰہی کی بڑی شخصیات، اولیاءاللہ نے اسی نقطہ پر اپنی تمام مساعی اور جمہور کو مرکز رکھا، اسی طرح اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی سارے محنتیں و مشقتیں اسی پر تھیں معلوم رہے کہ ان امور کو ظالم حکومتوں کے زیر سایہ حاصل نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہ انسان بہت زیادہ مشقت کر کے ان فضائل کو اپنا سکتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
ہمارے اوپر واجب ہے، خطباءپر لازم ہے، تہذیب یافتہ طبقہ کی ذمہ داری ہے، گریجوایٹ افراد پر فرض ہے، رائٹرز، تجزیہ نگاروں، اخبارات کے مالکان، ٹی وی چینلز کے مالکان ، پروگرام ترتیب دینے والوں سب پرلازم ہے کہ اخلاق کی تعلیم دیں اور اخلاق کو عام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی مدد کرے، حضرت امام زمانہ صاحب الزمان (عج) کا دل خوش ہو آپ علیہ السلام سے بھی اور ہم سے بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہدایت الٰہی ہمارے نصیب ہو، اس طرح ہم اپنے عظیم رہبر حضرت روح اللہ الخمینیؒ کی روح کو بھی شاد کریں اپنی اس اخلاقی تحریک سے فیضان الٰہی حاصل کریں برکات کو سمیٹیں۔
(خطاب ۷۱ شوال ۵۲۴۱ ہجری قمری، دوسرا خطاب ۷۲ رجب ۷۱۴۲ ہجری قمری ۔تہران)
خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے علیہ السلام میں اخلاقی فضائل کی تعلیم لینا اور دوسروں کو تعلیم دینا اسی طرح اخلاقی فضائل کو اپنے وجود پر لاگو کرنا اور دوسروں کو اس پر جلانا اہم ذمہ داریوں سے ہے۔(ازمترجم)
نظریاتی لحاظ سے اخلاق کی تعلیم
اخلاقی تیاری کے لئے آغاز نظری اخلاق سے ہوگا، اصول اخلاق، اصول آداب کو بیان کرنے کے لئے باقاعدہ پروگرام اور منصوبہ سازی کرنا ہوگی جیسا کہ ہم نے ثقافتی تربیت کے بیان میں کہا ہے۔پروگرام اور منصوبہ سازی کے بعد اور اس کو پڑھنے اور پڑھانے کے بعد اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا ان اصولوں کو لوگوں کے لئے تعلیم دینا ہوگا اور معاشرہ میں اس کی تعلیم عام کرنے کے لئے اخلاقیات کا درس دینے والے معلمین تربیت کرنا ہوں گے، اخلاقی اصولوں سے آگہی کے لئے مختلف کورسز کا اجراءکرنا ہوگا نظریاتی طور پر اخلاقی بنیادوں کو مستحکم طریقہ سے پیش کرنا ہوگا اور اس کی تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا اسے ہم اخلاقی میدان میں نظریاتی تیاری کا عنوان دیتے ہیں۔
اخلاقیات کی عملی تیاری
اخلاقیات کے اصول بیان کردینا، اخلاقی فضائل کی بنیادوں کی تعلیم دے دینے سے ایسا معاشرہ تشکیل نہیں پاجاتا جو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ ہو اور اخلاقی فضائل کا نمونہ ہو، بلکہ اس کے بعد اگلا قدم اٹھانا ہوگا اور وہ ہے ان اخلاقی اصولوں اور ضوابط کو نافذ کرنا ہے اور عملی طور پر لاگو کرنا ہے۔
یہ امر جو ہے مطالعہ چاہتا ہے جائزہ لینا ہوگا کہ کس طرح ان اصولوں پر عمل کروایا جائے اس کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی تجربہ گواہ ہے کہ جس نے اخلاقی فضائل کے اصول پڑھ لئے ہیں تو ان فضائل کی تعلیم دینے اور نافذ کرنے کے مرحلہ میں مشکل سے دوچار ہوتے ہیں یا تو ان کو پڑھنے کے بعد بھول جاتے ہیں یا خود بھلا دیتے ہیں یا پھر ان کو عمل کرنے کے لئے اشتباہ میں پڑجاتے ہیں اس لئے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو عملی میدان میں لانے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی درکار ہے تاکہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔
اخلاقی تعلیمات کے نفاذ کی ضمانت
جیسا کہ میری معلومات ہیں اس پروگرام کے لئے علمی نظریات نہیں بلکہ یہ اجتماعی تجربات ہیں کیونکہ یہ امر ایک معاشرہ میں کچھ۔ اور دوسرے میں کچھ ہوگا۔ ایک گھرانہ میں کچھ، اور دوسرے میں کچھ ہوگا پروگرام سے مراد یہ ہے کہ عملی طور پر ایسا رویہ اپنایا جائے جو فرد اور معاشرہ کے لئے مفید ہو فرد کو ان اخلاقی خوبیوں کو اپنانے کا شوق دلایا جائے اور معاشرہ میں ان اخلاقی اصولوں کی پاسداری کا احساس اجاگر کیا جائے کہ شرعی آداب، مستحبات کی پابندی کریں، رذائل اور پست صفات کو اپنے سے دور کریں
جی ہاں!یہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد ہوگا اورآگہی کے بعد ہوگا پہلا مرحلہ آگہی ہے اور دوسرا مرحلہ عمل ہے، ثقافتی اور تہذیبی تربیت ہی اس کو عمل کے میدان میں لائے گی فرد اور مجتمع دونوں کو اعلیٰ اخلاقیات، اخلاقی فضائل کے فوائد سے واقف ہو اور بیری عادات سے برے اخلاق کے نقصانات کاعلم ہو۔ہم اس امر کی صعوبت اور مشکل سے آگاہ ہیں یہ کام ہم آسان نہیں سمجھے اس میں مشقت ہے، دقت کرنا ہوگی، اخلاق حسنہ اور اخلاق رذیلہ کے سارے معادین کو بیک وقت حاصل کرنا اور اخلاق رذیلہ کو بیک وقت چھوڑ دینا ممکن نہیں ہے یہ تدریجی عمل ہے۔
مثال: جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ معصومین علیہم السلام کے کی مزارات کی زیارت کے یہ فوائد ہیں انتا ثواب ہے تو پھر اس کے لئے پروگرام ترتیب دینے ، قافلہ زیارات کے لئے تیار کرتے ہیں ایک دوسرے کو آمادہ کرتے ہیں اور زیارت کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں اسی طرح باقی مستحبات ہیں جیسے ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا، ہر نعمت کے بعد الحمدللہ کہنا، کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا کھانے کے بعد شکراللہ کہنا، پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا،غسل سے پہلے بسم اللہ پڑھنا، گھر داخل ہوتے وقت بسم اللہ پڑھنا، لباس پہنتے وقت بسم اللہ پڑھنا، جب فردایسا کرے گا تویہ عمل پورے معاشرہ میں جاری ہو جائے گا اسی طرح سلام کرنا ہے یا جمعرات کو ناخن کاٹنا ہے، جمعہ کی صبح دعائے ندبہ پڑھنا ہے، شب جمعہ زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا ہے، زیارت عاشورا پڑھنا ہے، صبح کی نماز کے بعد دعا ئے عہد پڑھنا ہے، مریض کی عیادت کے لئے جانا ہے، جمعہ کا غسل کرنا ہے، جمعہ کے دن اچھا لباس پہننا ہے، دوستوں سے ملاقات کرنا ہے، ہمسایوں کی احوال پرسی کرنا ہے، یہ سارے امور افراد انجام دیں گے اور معاشرہ اور سماج خودبخود اس پر عمل پیرا ہوجائے گا۔ان امور کی انجام دہی کے لئے ایک دوسرے کو آمادہ کرنا اور یاد دلانا ہوگا۔
تبلیغ کے ذرائع جو بیان کئے ان سے استفادہ کر سکتے ہیں کسی گھر میں جاتے ہیں، شب جمعہ کا انتخاب کرتے ہیں، نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، زیارت عاشورا پڑھتے ہیں، امام زمانہ(عج) کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں، زیارت آل یٰسین پڑھتے ہیں، باپ، ماں، اولاد سب مل کر نماز ادا کرتے ہیں، مل کر کھانا کھاتے ہیں، اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہیں تو اس سے اخلاقی تعلیمات پر عمل شروع ہو جاتا ہے۔
جب لوگ یہ سنیں گے کہ دوستوں، بھائیوں کی خدمت کا ثواب ہے تو ہم رفاہی اور خیراتی جمعیات اور ادارے بنائیں گے اور اسلامی طریقہ پر ان میں کام شروع کر دیں گے اور ان تنظیموں کے ذریعہ اسلامی اخلاق اور اسلامی آداب کو بھی عام کریں گے ان تنظیموں کے ذریعہ جہاں فقراءمساکین کی مدد ہو گی ان پڑھوں کو تعلیم دی جائے گی دشمنوں کی سرپرستی ہو گی تو وہاں انہیں اخلاقیات اور اسلامی آداب کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ دی جائے ، اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر بجا لانے کو بیان کیا جائے گا۔
بہرحال خیراتی ادارہ،خدماتی تنظیموں کا قیام، اعلیٰ اخلاقیات کی تبلیغ اور اخلاقی فضائل کو عملی جامہ پہنانے میں بہت ہی موثر ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کر آئے ہیں اس میدان میں بھی خواتین سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے، مردوں سے زیادہ خواتین خدماتی اور رفاہی میدانوں میں کام کر سکتی ہیں، اسلامی آداب بجالانے، مستحبات پر عمل کرنے، دعاوں اور زیارات کے باب سے فائدہ اٹھانا ان کا اہم کام کردار ہے خود خواتین نماز جماعت بھی اپنے لئے اقامت کر سکتی ہیں اس میں کوئی شرعی اشکال نہیں ہے۔
اخلاقی فضائل کی نطیق اور عملی میدانوں میں ان کے نفاذ کے لئے مقابلوں کا انعقاد بھی مقید ہے، انعامات رکھے جائیں، اس میں علمی فائدہ بھی ہوگا اور عملی فائدہ بھی ہوگا مثلاً تین دن وضو کے ساتھ رہنے والے کے لئے انعام، ایک ماہ باقاعدہ نماز جماعت میں شرکت کرنے والے کے لئے انعام، چالیس دن باقاعدہ زیارت عاشورا پڑھنے والے کے لئے انعام، دس فقیروں کی مدد کرنے والوں کے لئے انعام، دس بچوں کو وضو سکھانے والوں کے لئے انعام، گھر کی گلی صاف کرنے والوں کے لئے انعام، صاف ستھرا لباس پہننے والے کے لئے انعام، جمعرات اور جمعہ کے دن ناخن باقاعدگی سے تراشنے والے کے لئے انعام، جمعہ کے دن غسل کرنے والے کے لئے انعام، کسی بھٹکے ہوئے کو رستہ دکھانے والے کے لئے انعام، اخلاقی فضائل بیان کرنے والے کے لئے انعام، اخلاق رذیلہ بتانے والے کے لئے انعام، غرض انعامات کے مقابلے منعقد کئے جائیں مختلف مناسبات میں ایسا کیا جائے ان کے ذریعہ اخلاقی فضائل کو رواج دینے میں مدد ملے گی۔
ایک عارف کا قول ہے کہ ہر شئی کی زکات ہے اور جس کے پاس اپنی گاڑی ہے اس کی زکات یہ ہے کہ وہ پیدل چلنے والے کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسے منزل مقصود تک پہنچا دے خاص کر اس وقت جب اس کے پاس جگہ اور اس کا راستہ بھی اسی جگہ سے گزرتا ہو جہاں اس پیدل چلنے والے نے جانا ہے ہم نے اس کی تفصیلات کو اپنی کتاب ”معاجز الصدقہ وآثارہا“میں بیان کیا ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت اوراخلاق کی اہمیت
اجتماعی زندگی میں اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت ہے، ہم اس جگہ اس کے بیان کرنے کے درپے نہیں ہیں، یہ کتاب اس کے لئے مخصوص نہیں ہے، ہم اس جگہ ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں اخلاق کی اہمیت اور اس کے اثرات کیا ہیں؟
اخلاقیات چند عملی، قولی اور سلوکی الزامات اور پابندیوں کا نام ہے لوگوں کی جانب سے، تو یہ ناچار معاشرہ کے اندر انجام پانے والے تمام اعمال اور کاموں پر مثبت اور منفی اثرات چھوڑے خاص کر جو الٰہی اعمال ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ اخلاقیات کا عادلانہ اور پاکیزہ حکومت کے قیام میں بہت بڑا کردار ہے۔
اس دولت کریمہ میں رہنے والوں اور اس کی پیروی میں کام کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ انبیاءعلیہم السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے اخلاق سے آراستہ ہوں اور اپنی سیرت اور کردارکے دور میں اخلاقی فضائل کو اپنائیں اور ان پر پابند ہوں تاکہ وہ چیز جلدی اور مختصر وقت میں اپنے ہدف اور مقصد تک پہنچا دے اس حکومت کی خواہش رکھنے والوں کو اپنے اخلاقیات کو صحیح کرنا ہوگا اور اخلاقی فضائل سے خود کو رنگنا ہوگا۔
صحت اور ماحول کی درستگی
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان خود کو صحت مند بنائے رکھے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکے اور عبادات کے علاوہ اس سے جو کام چاہے گئے ہیں انہیں انجام دے سکے۔
عبادتی امورمیں سے ہے جسے ہم بیان کر رہے ہیں اور وہ ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے لئے خود کو تیار کرنا۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو چاہنے والے شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ خود کو صحت مند رکھے اور بیماریوں سے بچائے(البتہ انہی امتحان کے تحت جو بیماری آ جاتی ہے تو وہ اس جگہ مراد نہیں ہے اس جگہ مراد یہ ہے کہ خود کو بیماری میں ڈالنے کے اسباب اپنے لئے مہیا نہ کرے)یہ ایک اہم واجب کی ادائیگی کے لئے مقدمہ ہے۔
جی ہاں! صحت کی بڑی اہمیت ہے اس حکومت کے علاوہ بھی اولاد کی تربیت کے لئے ، خاندان کے لئے، کاروبار کے لئے، محنت مزدوری کے لئے، روزگار کے لئے صحت کی ضرورت ہے۔صحت مند جسم مین صحت مند عقل ہوتا ہے عقلمندوں کی حضرت امام مہدی علیہ السلام کو ضرورت ہے ، صحت مندوں کی ضرورت ہے بیمارتو معاشرہ پر بوجھ ہوتے ہیں۔ایک ذمہ دار اور بامقصد زندگی گزارنے والے انسان پر لازم ہے کہ وہ اس حکومت کی انتظار میں ہو اس حکومت کے مقاصد پر اس کا ایمان ہو، وہ اپنے مادی جسم کی حفاظت کرے اور ایسی چیزوں کے استعمال سے گریز کرے جو اس کے مادی جسم کو بیمار بنا دیتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، ایسی چیز کھانا جو نقصان دہ ہو، ایسا کام انجام دینا جو بدن کو نقصان دے، جیسے تیز گاڑی چلانا، تیز سائیکل چلانا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ کام جو اس کے بدن کو نقصان دے یا نقصان میں اضافہ کا سبب ہے، اذیت کا سبب ہو، جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے تو ایسے امور اس مبارک حکومت تک پہنچنے کے لئے رکاوٹ بنیں گے۔
جو بھی امام علیہ السلام کے منتظرین سے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اس بات کو اہمیت دیں کیونکہ یہ امر بہت سارے مسائل پر اثر چھوڑے گا، بیماری بہت ساری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے گی، مریض آدمی اجتماعی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی، اخلاقی حسن ، عباداتی ذمہ داریوں کو کیسے نبھا سکتا ہے۔یہ چیز ہمارے لئے صحت کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صحت اور امنیت دو ایسی نعمتیں ہیں جو غیر معروف(مجھول)ہیں۔(مسند الرضاءص ۰۲۱)
خلاصہ یہ ہے کہ انسان صحت کا خیال رکھے اور اجتماعی بیماریوں سے بچاو کی تدابیر کرے، ایسی بیماری جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے قیام کی تیاری کے لئے رکاوٹ بنے یہ بات تو ایک فرد کی صحت کے حوالے سے تھی۔
صحت مند ماحول، صحت افزاءفضا ایک معاشرہ کے لئے تو اس کی بھی بڑی اہمیت ہے یہ کتاب اس بارے بحث کے لئے نہیں ہے ہم اس جگہ اتنی بات کریں گے جو تیاری کے عمل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے مثلاًماحول کی آلودگی حد سے بڑھ جائے تو یہ بہت سارے کاموں کی انجام دہی کے لئےءرکاوٹ ہے جیسا کہ صحت بدنی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، ماحول کی آلودگی ایک فرد کی صحت پر اثرات چھوڑتی ہے اسے بیماربنا دیتی ہے اور بیماری کام سے رکاوٹ کا سبب ہے۔
بعض دفعہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ماحول کی آلودگی براہ راست فرد کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتی اگرچہ اس نظریہ پہ بات کہی جائے کہ فوری اس کے برے اثر فرد کی صحت پر مرتب نہیں ہوتے ۔تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے جو ہماری کتاب کا موضوع ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے لئے تمہیدی کاموں کو انجام دینا ہے اس حکومت میں ظلم اور جور نہ ہو گا ماحول کی آلودگی عوام کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے کچھ چیزیں تو ظلم اور جور سے پیدا ہوں گی مثلاً کیمیائی مواد کے اخراج سے، زہریلی گیسوں کی بہتات سے، جنگ کی تباہ کاری،اسی طرح طبیعی فضاءکو خراب کرنے والے استحصالی اقدامات، شہری فضاءکو خراب کرنے کے لئے آبادیوں کے قریب فیکٹریاں یہ سب صحت کو خراب کرنے کا ذریعہ ہیں ان کی اجازت نہیں ہے۔صحت افزاءمقامات کا خاتمہ، درختوں اور جنگلات کا خاتمہ یہ بھی صحت کے لئے نقصان دہ ہے، ہر وہ عمل جو ماحول کو آلودہ کردے، فضاءکو خراب کرے اس کی اجازت نہیں ہے، شرعاً حرام ہے، اس میں دھوئیں چھوڑنے والی گاریاں ہیں، گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر ہیں، صفائی کے انتظامات نہ ہونا، اس حکومت کی تیاری کے لئے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرنا ہو گا جو اس کے قیام میں تاخیر کا سبب ہوں ظلم اور جور کے تمام مظاہر کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی اور اس کے لئے ذہنی آمادگی پیدا کرنا ہوگی۔حضرت امام مہدی علیہ السلام نے ظلم کا خاتمہ کرنا ہے ان مظالم میں ایک ظلم کی شکل ماحول کو آلودہ کرنے کے اقدامات بھی ہیں اسے بھی ختم کر دیں گے ۔
جو شخص اس حکومت پر ایمان رکھتا ہے اس کے اہداف پر اسکا ایمان ہے تو اس پر لازم ہے کہ انفرادی طور پر کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھنے اور اجتماعی حوالے سے، ماحول و فضاءکے حوالے سے وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسروں کی صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہو، وہ اپنے گھر کے ماحول کو صحت افزاءبنائے اس میں بچوں کی صحت کے لئے ضروری اقدامات کریں، درخت لگائیں،پھلواری بنانے، کھیل کود کے میدان بنانے، ماحول کو صاف ستھرا رکھے۔
جب ہر شخص اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھے گا اور کوئی ایسا کام نہ کرے گا جس سے ماحول آلودہ ہو تو اس طرح وہ پورے معاشرہ اور سوسائٹی کو صحت مند بنانے میں کردارادا کرے گا ایک گھر کا کوڑا کرکٹ پھینک دینا، بچوں کو نالیوں پر پاخانہ کروانا، گندی نالیوں پر ڈھکنے نہ دینا، گٹروں کو کھلے چھوڑ دینا، بدبو کے خاتمہ کے لئے ضروری کیمیکل کا استعمال نہ کرنا، یہ سب گناہ ہے اور ایک مومن کو ایسانہیں کرنا چاہیئے۔
ماحول کو آلودگیوں سے بچانے کے لئے بلدیہ، حکومتی اداروں، رفاہی تنظیموں، این جی او،کا کام ہی نہیں بلکہ معاشرہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، زمین کو خراب کرنے سے محفوظ رکھنا، شجرکاری اور ہر وہ کام جو ماحول کو صحت افزاءبنائے اور اسے آلودگی سے بچائے اسے انجام دینا انتہائی ضروری ہے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عاشق خودبخود صاف ستھرے رہتے ہیں، صحت مند ہوتے ہیں، اپنا ماحول صاف ستھراءرکھتے ہیں، دوسروں کی صحت کا خیال رکھتے ہیں، پورے ماحول کو آلودگی سے بچاتے ہیں اور صحت افزاءماحول بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔