دسواں درس
ظہور کا زمانہ
مقاصد:
۱ ۔ظہور کے اسباب کی معرفت
۲ ۔ حضرت (عج) کے ظہور کی نشانیوں سے آگاہی
فوائد:
۱ ۔ ظہور کی راہ ہموار کرنے کے لئے انسان کے رویہ اورکردار پر توجہ
۲ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی علامات کے بارے آگاہی
۳ ۔ مہدی ہونے کے جھوٹے دعویداروں کی تکذیب کرن
تعلیمی مطالب:
۱ ۔ مقدمہ
ظہور سے پہلے کی دُنیا کے حالات پر ایک نگاہ
۲ ۔ شرائط اور علامات سے مراد اور ان دونوں میں فرق
۳ ۔ ظہور کی شرائط اور اسباب (وہ چیزیں جو ظہور کے متحقق ہونے میں دخالت رکھتی ہیں)
۴ ۔ ظہور کی علامات اور نشانیاں (یقینی اور غیر یقینی نشانیاں)
دُنیا کے حالات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے
قارئین کرام! ہم نے گذشتہ ابحاث میں امام زمانہ عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت اور اس کے فلسفہ کے بارے بیان کیا ہے، کہ خدا کی آخری حجت غائب ہے یہاں تک کہ جب ان کے ظہور کا راستہ ہموار ہو جائے گا تو وہ ظہور فرمائیں گے اور دُنیا کو براہ راست ہدایت سے فیضیاب فرمائیں گے اگرچہ غیبت کے زمانہ میں بشریت اس طرح عمل کر سکتی ہے جس سے امام علیہ السلام کے ظہور کا راستہ جلد از جلد ہموار ہو جائے لیکن شیطان اور ہوائے نفس کی پیروی اور قرآن کی صحیح تربیت سے دور رہنے نیز معصومین علیہم السلام کی ولایت اور رہبری کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے غلط راستہ پر چل پڑی ہے اور ہر روز دُنیا میں ظلم و ستم کی نئی بنیاد رکھی جاتی ہے اور دُنیا بھر میں ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے، بشریت اس راستہ کے انتخاب سے ایک بہت بُرے انجام کی طرف بڑھتی جا رہی ہے، ظلم و جور سے بھری دُنیا، جس میں فساد اور تباہی، اخلاقی و نفسیاتی امن و امان سے خالی زمانہ، معنویت اور پاکیزگی سے خالی زندگی، ظلم و ستم سے لبریز معاشرہ کہ جس میں ماتحت لوگوں کے حقوق کی پامالی وغیرہ نہ ہو۔ یہ چیزیں غیبت کے زمانہ میں انسان کا نامہ اعمال ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں صدیوں پہلے معصومین علیہم السلام نے پشین گوئی فرمائی تھی اور اس زمانہ کی سیاہ تصویر پیش کی تھی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں:”جب تم دیکھو کہ ظلم و ستم عام ہو رہا ہے، قرآن کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، ہوا و ہوس کی بنا پر تفسیر کی جا رہی ہے، اہل باطل، حق پرستوں پر سبقت لے رہے ہیں، ایماندار افراد خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، رشتہ داری کے تعلقات ختم ہو رہے ہیں، چاپلوسی (خوشامدی) بڑھ رہی ہے، نیکیوں کا راستہ خالی ہو رہا ہے اور برائیوں کے راستہ پر بھیڑ دکھائی دے رہی ہے، حلال، حرام ہو رہا ہے اور حرام، حلال شمار کیا جا رہا ہے، بہت سا مال و دولت خدا کے غیظ و غضب (گناہوں اور برائیوں) میں خرچ کیا جا رہا ہے، حکومتی کارندوں میں رشوت کا بازار گرم ہے، نا درست کھیل اس قدر رائج ہو چکے ہوں کہ کوئی بھی انکی روک تھام کی جرا ت نہیں کرتا، لوگ قرآنی حقائق سننے کے لئے تیار نہیں، لیکن باطل اور فضول چیزیں سننا ان کے لئے آسان ہے، ریاکاری کےلئے خانہ خدا کا حج کیا جا رہا ہے، لوگ سنگدل ہو رہے ہیں، (محبت کا جنازہ نکل رہا ہے) اگر کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے تو اس کو نصیحت کی جاتی ہے کہ یہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے، ہر سال ایک نیا فتنہ اور نئی بدعت پیدا ہو رہی ہے، (جب تم یہ دیکھ لو کہ حالات اس طرح کے ہو رہے ہیں تو) اپنے کو محفوظ رکھنا اور اس خطرناک ماحول سے نجات کے لئے خدا کی پناہ طلب کرنا کہ ظہور کا زمانہ نزدیک ہے۔ (کافی، ج ۷ ، ص ۸۲)
البتہ ظہور سے پہلے کی یہ سیاہ تصویر اکثر لوگوں کی ہو گی، کیونکہ اس زمانہ میں بھی بعض مومنین ایسے ہوں گے جو خدا سے کئے ہوئے اپنے عہد و پیمان پر باقی ہوں گے اور اپنے دینی عقائد کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوں گے وہ زمانہ کے رنگ میں نہیں رنگے جائیں گے اور اپنی زندگی کا انجام برا نہیں کریں گے، یہ افراد خداوند عالم کے بہترین بندے اور آئمہ علیہم السلام کے سچے شیعہ ہوں گے جن کے بارے میں روایات میں مدح و تعریف ہوئی ہے، یہ لوگ خود بھی نیک ہوں گے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دیتے ہوں گے، کیونکہ وہ اس بات میں بہتری سمجھتے ہیں کہ نیکیوں اور خوبیوں کو رائج کرنے اور ایمان کے عطر سے ماحول کو خوشگوار بنانے سے نیکیوں کے امام کا ظہور جلد ہو سکتا ہے اور ان کے قیام اور حکومت کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے، کیونکہ برائیوں کا مقابلہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے کہ جب مصلح اور موعود کے ناصر و مددگار ہوں۔
اور ہمارا پیش کردہ یہ نظریہ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے جس میں برائیوں کے پھیلانا ظہور میں جلدی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ کیا واقعاً یہ بات قابل قبول ہے کہ مومنین برائیوں کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کریں تاکہ معاشرہ میں برائیاں پھیلتی رہیں اور اس طرح امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا راستہ فراہم ہو؟ کیا نیکیوں اور فضائل کا رائج کرنا امام علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل کا سبب نہیں قرار پائے گا؟امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا فرض ہے جو ہر مسلمان پر یقینی طور پر واجب ہے جس کو کسی بھی زمانہ میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل کے لئے برائیوں اور ظلم و ستم کو پھیلانا کس طرح سبب بن سکتا ہے؟جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:”اس (مسلمان) اُمت کے آخر میں ایک ایسی قوم آئے گی جن کا اجر و ثواب صدر اسلام کے مسلمانوں کے برابر ہو گا، وہ لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دیتے ہوں گے اور فتنہ و فساد اور برائیوں کا مقابلہ کرتے ہوں گے“۔ (معجم احادیث الامام المہدی علیہ السلام، ج ۱ ، ص ۹۴)
جیسا کہ متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ دُنیا ظلم و ستم سے بھر جائےگی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان ظالم بن جائیں گے بلکہ خدائی راستہ پر چلنے والے موجود ہوں گے اور مختلف معاشروں میں اخلاقی فضائل کی خوشبو دلوں کو معطر کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ لہٰذا ظہور سے قبل کا زمانہ اگرچہ ایک تلخ زمانہ ہوگا لیکن ظہور کے شیرین زمانہ پر ختم ہو گا، اگرچہ وہ ظلم و ستم اور برائیوں کا زمانہ ہو گا لیکن اس زمانہ میں پاک رہنا اور دوسروں کو نیکیوں کی دعوت دینا منتظرین کا لازمی فریضہ ہو گا، اور قائم آل محمد علیہم السلام کے ظہور میں براہ راست مو ثر ہو گا۔ اس حصہ کو حضرت امام مہدی (عج اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے کلام پر ختم کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے فرمایا:”ہمیں اپنے شیعوں سے کوئی چیز دور نہیں رکھتی مگر ان کے (برے) اعمال جو ہم تک پہنچتے ہیں اور ہم ان اعمال کو پسند نہیں کرتے اور ان کے لئے ایسا مناسب بھی نہیں سمجھتے ہیں“۔ (احتجاج، ج ۲ ، ش ۰۶۳ ، ص ۲۰۶)
ظہور کا راستہ ہموار کرنے کے اسباب اور ظہور کی نشانیاں
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی کچھ نشانیاں اور شرائط ہین جن کو ظہور کے اسباب اور ظہور کی نشانیوں کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسباب کا مہیا ہونا ظہور میں واقعی طور پر اثر رکھتا ہے اس طرح کہ ان اسباب کے ہموار کرنے سے امام علیہ السلام کا ظہور ہو جائے گا اور ان کے بغیر ظہور نہیں ہو سکتا لیکن علامات اور نشانیاں ظہور میں کوئی اثر نہیں رکھتی بلکہ صرف ظہور کی نشانی ہیں جن کے ذریعہ ظہور کے زمانہ یا ظہور کے قریب ہونے کو پہچانا جا سکتا ہے۔
مذکورہ فرق کے پیش نظر بخوبی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ظہور کی شرائط اور اسباب کا مہیا ہونا نشانیوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، لہٰذا نشانیوں کو تلاش کرنے سے پہلے ان شرائط پر توجہ کریں اور اپنی طاقت کے لحاظ سے ان شرائط کے پیدا کرنے کے لئے کو شش کریں، اسی وجہ سے ہم پہلے ظہور کے اسباب مہیا ہونے اور ظہور کی شرائط کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں اور آخر میں ظہور کی نشانیوں کو مختصر طور پر بیان کریں گے۔
ظہور کی شرائط اور اسباب
کائنات کی ہر چیز اپنی شرائط اور اپنے اسباب مہیا ہونے سے وجود میں آ جاتی ہے۔ اور ان کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آتی، ہر زمین دانہ کی پروش کی لیاقت نہیں رکھتی اور ہر طرح کی آب و ہوا ہر گل و سبزہ کی رشد و نمو کے لئے مناسب نہیں ہے، ایک کاشتکار زمین سے اسی وقت اچھی فصل کاٹنے کا منتظر ہو سکتا ہے جب اس نے فصل کاٹنے کی لازمی شرائط کو پورا کیا ہو۔
اسی بنیاد پر ہر انقلاب اور اجتماعی واقعہ بھی شرائط اور اسباب کے مہیا ہونے پر موقوف ہوتا ہے، جس طرح سے ایران کا اسلامی انقلاب بھی شرائط اور اسباب کے ہموار ہونے کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا عالمی انقلاب کہ جو دُنیا کا سب سے بڑا انقلاب ہو گا، بھی اسی قانون کے تحت ہے اور جب تک اس کے اسباب اور شرائط پورے نہ ہو جائیں اس وقت تک واقع نہیں ہو سکتا۔
اس گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ تصور نہ آئے کہ قیام اور امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا مسئلہ نظام خلقت سے الگ ہے اور آپ کی اصلاحی تحریک ہی معجزہ کی بنا پر اور اسباب و علل کے بغیر واقع ہو گی، بلکہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور سنت الٰہی یہ ہے کہ کائنات کے تمام امور عموماً اسباب و عمل کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”خداوند عالم تمام چیزوں کو فقط اسباب و علل کے تحت انجام دیتا ہے“۔ (میزان الحکمة، ج ۵ ، ح ۶۶۱۸)
ایک روایت میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ کسی شخص نے آپ کی خدمت میں عرض کیا:
”کہتے ہیں کہ جب امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا ظہور ہو گا تو تمام امور ان کی مرضی کے مطابق ہوں گے“۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہرگز ایسا نہیں ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر طے یہ ہو کہ ہر کسی کا کام خود بخود ہو جایا کرتا تو پھر ایسا رسول اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ہونا چاہیے تھا“۔ (غےبت نعمانی، باب ۵۱ ، ح ۲)
البتہ مذکورہ گفگتو کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت غیبی اور آسمانی امداد نہیں ہو گی بلکہ مقصد یہ ہے کہ غیبی امداد کے ساتھ ساتھ عام شرائط اور حالات کا ہموار ہونا بھی ضروری ہے۔
اس تمہید کے پیش نظر ضروری ہے کہ پہلے ظہور کی شرائط کو پہچانا جائے اور پھر ان کو ہموار کرنے کے لئے کوشش کریں۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے قیام اور عالمی انقلاب کی اہم ترین شرائط اور اسباب میں سے درج ذیل چار چیزیں ہیں جن کے بارے میں الگ الگ بحث کی جاتی ہے۔
الف: منصوبہ بندی
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر اصلاحی تحریک میں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
۱ ۔ معاشرہ میں موجود برائیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک مکمل منصوبہ بندی۔
۲ ۔ معاشرہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مکمل اور مناسب قوانین جو حکومت کے عادلانہ نظام میں تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق کا ضامن ہو اور اس کی بنا پر معاشرہ ترقی کرکے اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے۔ قرآن کریم کی تعلیمات اور سنت معصومین علیہم السلام کہ جو حقیقی اسلامی ہے، بہترین قانون کے عنوان سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے پاس ہو گی اور آپ اس الٰہی جاویدانہ دستور العمل کی بنیاد پر عمل کریں گے ( حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یعمل بکتاب اللّٰہ، لا یری نکرا الا انکرہ ”وہ کتاب خدا (یعنی قرآن) کے مطابق عمل کریں گے اور کسی برائی کو نہیں دیکھیں گے مگر اس کا انکار کریں (یعنی ہر برائی کا مقابلہ کریں گے)“۔ بحارالانوار، ج ۱۵ ، ۱۴۱) قرآن ایسی کتاب ہے جس کی آیات کا مجموعہ اس خداوند عالم کی طرف سے نازل ہوا جو انسان کے تمام پہلووں اور اس کی مادی و معنوی ضرورتوں سے واقف ہے، لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام کا عالمی انقلاب منصوبہ بندی اور حکومتی قوانین کے لحاظ سے بے نظیر بنیاد پر استوار ہو گا، اور کسی بھی دوسری اصلاحی تحریک سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ اس دعویٰ پر گواہ یہ ہے کہ آج کی دنیا نے تجربہ کرتے ہوئے ان بشری قوانین کے ضعیف اور کمزور ہونے کا اعتراف کیا ہے اور آہستہ آہستہ آسمانی قوانین کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتی جا رہی ہے۔
”آلوین ٹافلر“ امریکی سیاسی مشاور، عالمی معاشرہ کو بحرانی حالت سے نکالنے اور اس کی اصلاح کے لئے ”تیسری موج“ (اس کا کہنا ہے کہ اب تک زمانہ میں دو بڑے انقلاب رونما ہوئے ہیں ایک زراعتی انقلاب، اور دوسرا صنعتی انقلاب، جس نے دُنیا میں ایک عظیم انقلاب ایجاد کیا ہے۔ تیسرا انقلاب آنے ولا ہے جو الیکٹرونک اور صنعتی انقلاب سے بلند تر ہے۔) کا نظریہ پیش کرتا ہے لیکن اس سلسلہ میں حیرت انگیز باتوں کا اقرار کرتا ہے۔ہمارے (مغربی) معاشرہ میں مشکلات اور پریشانیوں کی فہرست اتنی طولانی ہے جس کی کوئی انتہاءنہیں ہے۔ مسلسل صنعتی کلچر (اور کاروباری نظام) کے متزلزل ہونے اور فساد بے کفایتی کی کشمکش کی وجہ سے اخلاقی تنزل اور برائیوں کی بومشام انسانیت کو آزار دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں غم و غصہ کا اظہار اور تبدیلی کے لئے دباو بڑھتا جا رہا ہے، چنانچہ ان دباو کے جواب میں ہزاروں ایسے منصوبہ پیش کئے جا چکے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ یہ بنیادی یا انقلابی ہیں، لیکن متعدد بار نئے قوانین اور مقرارات، منصوبے اور دستور العمل جن کو مشکلات کے حل کے لئے پیش کیا گیا ہے، ہماری مشکلات میں روز بروز اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور مایوسی اور نااُمیدی کا احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ کوئی فائدہ نہیں ہے، کسی کا کوئی اثر نہیں ہے اور یہ احساس ڈیموکریسی نظام کے لئے خطرناک ہے۔ جس کے پیش نظر مثالوں میں بیان ہونے والے ”سفید گھوڑے پر سوار مرد“ کی ضرورت کا انتظار شدت سے کیا جا رہا ہے ۔
( فصلنامہ انتظار، سال دو، ش ۳ ، ص ۸۹ ( نقل از بہ سوی تمدن جدید، ٹالفر، محمد رضا جعفری)
ب: رہبری
ہر انقلاب اور قیام میں رہبر اور قائد کی ضرورت سب سے پہلی ضرورت شمار کی جاتی ہے اور انقلاب جس قدر وسیع اور بلند مقصد کا حامل ہوتا ہے اس انقلاب کا رہبر بھی ان اغراض و مقاصد کے لحاظ سے عظیم و بلند ہونا چاہیے۔
عالمی پیمانہ پر ظلم و ستم سے مقابلہ، عدل و انصاف پر مبنی حکومت اور کرہ زمین پر مساوات برقرار کرنے کے لئے توانا، صاحب علم اور دلسوز رہبر اس انقلاب کا اصلی رکن ہے کہ جو واقعی طور پر اس انقلاب کی صحیح رہبری کر سکے۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام جو انبیاءاور اولیاء(علیہم السلام) کے ماحصل ہیں وہ اس عظیم الشان انقلاب کے رہبر کے عنوان سے زندہ اورموجود ہیں۔ صرف وہی ایک ایسے رہبر ہیں جو عالم غیب سے رابطہ کی وجہ سے کائنات کی ہر شئے اور اس کے تمام روابط سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں اور اپنے زمانہ کے سب سے عظیم عالم ہیں۔
پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:”آگاہ ہو جاو کہ مہدی علیہ السلام تمام علوم کا وارث ہو گا، اور تمام علوم پر احاطہ کئے ہو گا“۔ (نجم الثاقب، ص ۳۹۱)
وہ ایسے واحد رہبر ہیں جو ہر طرح کی قید و بند سے آزاد ہوں گے اور صرف ان کا دل پروردگار عالم کی مرضی کے تحت ہو گا۔ لہٰذا آپ علیہ السلام عالمی انقلاب اور حکومت کے رہبر اور قائد کے لحاظ سے بھی بہترین شرائط کے حامل ہوں گے۔
ج: ناصرین
امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے ضروری شرائط میں سے آپ کے شائستہ، کارآمد اور لائق انصار یا مددگاروں کا وجود ہے جو اس انقلاب کی پشت پناہی اور حکومتی عہدوں پر رہ کر امام علیہ السلام کی نصرت کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب ایسا عالمی انقلاب کہ جو آسمانی رہبر کے ذریعہ برپا ہو گا تو پھر اسی لحاظ سے ان کے ناصر و مددگار بھی ہونے چاہئیں، ایسا نہیں ہے کہ جس نے بھی نصرت کا دعویٰ کر لیا وہ ان کی نصرت کے لئے حاضر ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں درج ذیل واقعہ پر توجہ فرمائیں:
حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں ”سہل بن حسن خراسانی“ نامی شیعہ عرض کرتا ہے:
”کیا چیز مانع ہے کہ آپ اپنے مسلم حق (حکومت) کے لئے قیام نہیں کرتے، جبکہ آپ کے ایک لاکھ شیعہ، تلوار چلانے والے اور آپ کی خدمت کے لئے تیار وموجود ہیں؟ امام علیہ السلام نے حکم دیاکہ تنور روشن کیا جائے اور جب اس سے آگ کے شعلے باہر نکلنے لگے تو آپ نے سہل سے فرمایا: اے خراسانی! اُٹھو اور تنور میں کود جاو۔ سہل کا گمان تھا کہ امام علیہ السلام اس کی باتوں سے ناراض ہو گئے ہیں چنانچہ اُنہوں نے معافی طلب کرتے ہوئے عرض کیا: آقا مجھے معاف فرما دیں مجھے آگ میںڈال کر سزا نہ دیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: تم سے درگزر کرتا ہوں۔ اسی موقع پر ہارون مکی آ پہنچے جو امام علیہ السلام کے حقیقی شیعہ تھے، امام علیہ السلام کو سلام کیا، امام نے سلام کا جواب دیا اور بغیر کسی مقدمہ کے فرمایا: اس تنور میں کود جاو! ہارون مکی فوراً چوں و چرا کے اس تنور میں کود پڑے اور امام علیہ السلام اس خراسانی سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے اور خراسان کے واقعات بیان کرنے لگے جیسا کہ خود امام علیہ السلام وہاں موجود ہوں کچھ دیر بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اے خراسانی اُٹھو اور تنور کے اندر جھانک کر دیکھو! سہل اُٹھے اور تنور کے اندر ہارون کو دیکھا کہ جو آگ کے شعلوں کے درمیان چار زانو بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس موقع پر امام علیہ السلام نے ان سے سوال کیا: خراسان میں ہارون کی طرح کتنے لوگوں کو پہچانتے ہو؟ خراسانی نے جواب دیا: خدا کی قسم! میں تو ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: یاد رکھو! جب تک ہمیں پانچ ناصر و مددگار نہ مل جائیں اس وقت تک قیام نہیں کرتے ہم بہتر جانتے ہیں کہ کب قیام (اور انقلاب) کا وقت ہے!“۔
( سفینة البحار، ج ۸ ، ص ۱۸۶)
لہٰذا مناسب ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے انصار کی صفات اور خصوصیات کو روایات کی روشنی میں پہچانیں تاکہ اس ذریعے سے ہم صحیح طور پر اپنے آپ کو پہچان لیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔
۱ ۔ معرفت اور اطاعت
امام مہدی علیہ السلام کے ناصر و مددگار خداوند عالم اور اپنے امام کی عمیق شناخت رکھتے ہیں اور مکمل آگاہی کے ساتھ میدان حق میں حاضر ہوتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وہ ایسے اشخاص ہیں جو خدا کو اس طرح پہچانتے ہیں جو پہچاننے کا حق ہے“۔ (منتخب الاثر، فصل ۸ ، باب ۱ ، ح ۲ ، ص ۱۱۶)
امام کی شناخت اور امام کے بارے عقیدہ بھی ان کے وجود کی گہرائیوں میں جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور ان کے پورے وجود پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور یہ شناخت امام علیہ السلام کے نام و نشان اور نسب جاننے سے بالاتر ہے۔ معرفت یہ ہے کہ امام کے حق ولائت اور کائنات میں ان کے بلند مرتبہ کو پہچانیں اور یہ وہی معرفت ہے جس سے انکے دل میں محبت کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور ان کی اطاعت کےلئے ہمہ تن تیار رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ امام علیہ السلام کا حکم، خدا کا حکم ہے اور ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کی توصیف میں فرمایا: ”وہ لوگ اپنے امام کی اطاعت میں کوشش کرتے ہیں“۔
۲ ۔ عبادت اور استحکام
امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے یار و مددگار عبادت میں اپنے امام کو نمونہ عمل قرار دیتے ہیں اور شب و روز اپنے خدا کے کی رضایت میں گزارتے ہیں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے ان کے بارے میں فرمایا:
”رات بھر عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں “۔ (یوم الخلاص ص ۴۲۲)
اور ایک دوسرے کلام میں فرماتے ہیں: ”گھوڑوں (یا سوار ہونے والی چیز) پر سواری کی حالت میں بھی خدا کی تسبیح کرتے ہیں“۔ ( بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۸۰۳) یہی ذکر خدا ہے جس سے فولادی مرد بنتے ہیں، جس کے استحکام اور مضبوطی کو کوئی بھی چیز ختم نہیں کر سکتی۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وہ ایسے مرد ہوں گے کہ گویا ان کے دل لوہے کے ٹکڑے ہیں“۔(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۸۰۳)
۳ ۔ جانثاری اور شہادت کی تمنا
امام مہدی علیہ السلام کے انصار کی معرفت ان دلوں کو اپنے امام کے عشق سے لبریز کرتی ہے لہٰذا جنگ کے میدان میں نگینہ کی طرح آپ کو درمئیان میں لے کر اپنی جان ڈھال قرار دیتے ہیں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”امام مہدی کے ناصر و مددگار جنگ کے میدان میں آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے ہوں گے اور اپنی جان کو سپر بنا کر اپنے امام کی حفاظت کریں گے“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۸۰۳)
اور آپ علیہ السلام نے ہی فرمایا: ”وہ راہِ خدا میں شہادت پانے کی تمنا کریں گے“۔
(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۸۰۳)
۴ ۔ شجاعت اور دلیری
امام مہدی علیہ السلام کے ناصر و مددگار اپنے مولا کی طرح شجاع، بہادر اور فولادی مرد ہوں گے۔ حضرت علی السلام ان کی توصیف میں فرماتے ہیں: وہ ایسے شیر ہیں جو اپنے بن سے باہر نکل آئے ہیں اور اگر چاہیں تو پہاڑوں کو بھی ہلا سکتے ہیں“۔( یوم الخلاص، ص ۴۲۲)
۵ ۔ صبر و بردباری
واضح ہے کہ عالمی ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے اور عالمی پیمانہ پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنے میں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہو گا۔ اور امام علیہ السلام کے ناصر و مددگار اپنے امام کے عالمی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مشکلات اور پریشانیوں کو برداشت کریں گے لیکن اخلاص اور تواضع کی بنا پر اپنے کام کو معمولی اور ناچیز شمار کریں گے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”وہ ایسا گروہ ہے جو راہ خدا میں صبر اور بردباری کی وجہ سے خدا پر احسان نہیں جتائیں گے اور چونکہ اپنی جان کو حضرت حق کے حضور میں پیش کر دیں گے اپنے اوپر فخر نہیں کریں گے اور اس چیز کو اہمیت نہیں دیں گے“۔ (یوم الخلاص، ص ۴۲۲)
۶ ۔ اتحاد اور ہمدلی
حضرت علی علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کے ناصر و مددگاروں کے اتحاد اور ہمدلی کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وہ لوگ ایک دل اور ہم آہنگ (یعنی متحد) ہوں گے“۔
(یوم الخلاص، ص ۳۲۲)
اس ہمدلی اور اتحاد کا سبب یہ ہے کہ خود خواہی اور ذاتی مفاد ان کے وجود میں نہیں سمائے گا۔ وہ صحیح عقیدہ کے ساتھ ایک پرچم کے نیچے اور ایک مقصد کے تحت قیام کریں گے اور یہ خود دشمن کے مقابلہ میں ان کی کامیابی کا ایک راز ہے۔
۷ ۔ زہد و تقویٰ
حضرت علی علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کے یاد و مددگاروں کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وہ اپنے یار و مددگاروں سے بیعت لیں گے کہ سونا اور چاندی جمع نہ کریںگے اور گیہوں اور جو کا ذخیرہ نہ کریںگے“۔ ( منتخب الاثر، فصل ۶ ، باب ۱۱ ، ح ۴ ، ص ۱۸۵)
وہ بلند مقاصد رکھتے ہیں اور ایک عظیم مقصد کے لئے قیام کریں گے لہٰذا دُنیا کی مادیات ان کو اس عظیم مقصد سے دُور نہیں کر سکتی، لہٰذا جن لوگوں کی آنکھیں دُنیا کی زرق و برق دیکھ کر خیرہ ہو جاتی ہیں اور ان کا دل پانی پانی ہو جاتا ہے، تو ایسے لوگوں کے لئے امام مہدی علیہ السلام کے خاص ناصر و مددگاروں میں کوئی جگہ نہ ہو گی۔
قارئین کرام! یہاں تک امام مہدی علیہ السلام کے ناصر و مددگاروں کی کچھ خصوصیات بیان ہوتی ہیں اور انہیں صفات اور خصوصیات کی وجہ سے روایات میں ان کو احترام سے یاد کیا گیا ہے اور معصومین علیہم السلام نے اپنی لسان مبارک پر مدح و ستائش کے جملہ جاری کئے ہیں۔
پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کی توصیف میں فرمایا:
اُولَئِکَ هُم خِیَارُ الاُمَّةِ
(یوم الخلاص، ص ۴۲۲)
”وہ لوگ (میری) اُمت کے بہترین افراد ہیں“۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَبِاَبِی وَ اُمّی مِن عِدّةِ قَلِیلَةٍ اَسمَائُهُم فِی الاَرضِ مَجهُولَة
۔ (معجم الاحادیث، الامام المہدی علیہ السلام، ج ۳ ، ص ۱۰۱)
”میرے ماں باپ اس چھوٹے گروہ کے قربان جو زمین پر ناشناختہ ہیں“۔
البتہ امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ناصر و مددگار اپنی لیاقت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف درجات میں تقسیم ہوں گے۔ اور روایات میں بیان ہوا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ان خاص ۳۱۳ ناصرین (کہ جو اس انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی کہلائیں گے، ان کے علاوہ دس ہزار کا لشکر بھی ہو گا اور ان کے علاوہ انتظار کرنے والے مومنین کی ایک عظیم تعداد آپ کی مدد کے لئے دوڑ پڑے گی۔
و۔ عام طور پر تیاری،عام لام بندی
آئمہ معصومین علیہم السلام کی تاریخ میں مختلف مواقع پر اس حقیقت کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ لوگ امام کے حضور سے بہتر فائدہ اُٹھانے کے لئے لازمی تیاری نہیں رکھتے تھے، کسی بھی زمانہ میں امام معصوم علیہ السلام کے پرنور حضور کے فیض کی قدر نہیں کی گئی اور ان کے چشمہ ہدایت سے مناسب فیض حاصل نہیں کیا لہٰذا خداوند عالم نے اپنی آخری حجت کو پردہ غیب میں بھیج دیا تاکہ جب ان کو قبول کرنے کے لئے سب تیار ہو جائیں گے تو امام علیہ السلام کا ظہور ہو گا اوراس وقت الٰہی تعلیمات کے سرچشمہ سے سب سیراب ہوں گے۔ اس بنا پر امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے آمادہ اور تیار رہنا اہم شرائط میںسے ہے کیونکہ اسی تیاری کی وجہ سے امام علیہ السلام کی اصلاحی تحریک مطلوبہ مقصد تک پہنچ سکتی ہے۔
قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے بارے میں جو اپنے زمانہ کے ظالم و جابر حاکم ”جالوت“ کے ظلم و ستم سے بہت زیادہ پریشان ہو چکا تھا، اس نے اپنے زمانہ کے بنی سے درخواست کی کہ ان کے لئے ایک طاقتور سردار لشکر کا انتخاب کریں تاکہ اس کے فرمان کے تحت جالوت سے جنگ کر سکیں۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
)
۔ (سورہ بقرہ، آیت ۲۴۶ )
”کیا تم نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کو نہیں دیکھا جس نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے واسطہ ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم راہِ خدا میں جہاد کریں نبی نے فرمایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر جہاد واجب ہو جائے اور تم جہاد نہ کرو ان لوگوں نے کہا کہ ہم کیونکر جہاد نہ کریں گے جبکہ ہمیں ہمارے گھروں اور بال بچوں سے ہمیںالگ نکال باہر کر دیا گیا اس کے بعد جب جہاد واجب کر دیا گیا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب منحرف ہو گئے اور اﷲ ظالمین کو خوب جانتا ہے“۔
جنگ کے لئے سردار منتخب کرنے کی درخواست ایک طرح سے اس بات کی عکاسی کرتی تھی کہ وہ آمادہ اور تیار ہیں اگرچہ راستہ میں ایک کثیر تعداد سست پڑ گئی اور بہت کم لوگ میدان جنگ میں حاضر ہوئے۔ لہٰذا امام مہدی علیہ السلام کا ظہور بھی اسی وقت ہو گا جب سب لوگوں میں اجتماعی عدالت، ۱ خلاقی اور نفسیاتی امنیت اور معنویت کے رشد و نمو کے طلبگار پیدا ہو جائیں گے، جب لوگ ناانصافی اور قبیلہ پرستی سے تھک جائیں گے، جب ضعیف اور کمزور لوگوں کے حقوق صاحب قدرت اور صاحب مال و دولت کے ذریعہ پامال ہوتا دیکھیں گے اور مال و دولت صرف کچھ خاص لوگوں کے قبضہ میں دیکھیں گے، جبکہ اسی موقع پر کچھ لوگوں کے پاس رات میں کھانے کے لئے روٹی بھی نہ ہو گی، ایک دوسرا گروہ اپنے لئے محل بناتا ہوا نظر آتا ہو گا اور اپنی محافل میں بہت زیادہ خرچ اور ایسے ایسے کھانے اور آرام و سکون کے ایسے ایسے سامان مہیا کئے جائیں گے کہ جن کو دیکھ کر آنکھیں چکاچوند ہوتی ہوںگی، تو ایسے موقع پر عدالت طلبی کی پیاس اپنے عروج پر ہو گی۔
جب مختلف برائیاں معاشرہ میں رائج ہوتی جا رہی ہوں اور برائی انجام دینے میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہا ہو بلکہ اپنے بُرے کاموں پر فخر کیا جا رہا ہو، یا انسانی اور الٰہی اصول سے اس طرح دُوری اختیار کی جار رہی ہو کہ غفلت اور پاکدامنی کے بعض مخالف کاموں کو قانونی شکل دی جا رہی ہو جس کے نتیجہ میں گھریلو نظام درہم برہم ہو جاتا ہو، اور بے سرپرست بچے معاشرہ کے حوالہ کئے جاتے ہو تو اس موقع پر ایسے رہبر کے ظہور کا اشتیاق بہت زیادہ ہو جائے گا جس کی حکومت اخلاقی اور نفسیاتی امنیت اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے اور جس وقت انسان تمام مادی لذتوں سے ہمکنار ہو لیکن اپنی زندگی سے راضی نہ ہو اور ایسی دُنیا کی تلاش میں ہو جو معنویت سے لبریز ہو، تو ایسے موقع پر انسان لطف امام کے آبشار کا پیاسا ہو گا۔
ظاہر سی بات ہے کہ امام علیہ السلام کے حصور کو سمجھنے کا شوق اس وقت عروج پر ہو گا کہ جب بشریت اپنے ذاتی تجربہ سے مختلف انسانی حکومتوں کے کارناموں کو دیکھ کر ہی سمجھ جائے گی کہ دُنیا کو ظلم و ستم، تباہی اور برائیوں سے نجات دینے والا زمین پر الٰہی خلیفہ اور جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام ہی ہیں اور انسانیت کے لئے پاک و پاکیزہ اور بہترین زندگی عطا کرنے والا منصوبہ صرف اور صرف الٰہی قوانین میں ہے لہٰذا اس موقع پر انسانیت اپنے پورے وجود سے امام علیہ السلام کی ضرورت احساس کرے گی اور اس احساس کی وجہ سے اس کے ظہور کے لئے راستہ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی نیز اس راہ میں موجود رکاوٹوں کو دُور کرے گی اور یہ اسی وقت ہو گا جب فرج اور ظہور کا موقع پہنچ جائے گا۔
پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) آخر الزمان اور ظہور سے قبل کے زمانہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ایک زمانہ وہ آئے گا کہ مومن کو جائے پناہ نہیں ملے گی تاکہ ظلم و ستم اور تباہی سے نجات مل جائے، پس اس وقت خداوند عالم میری نسل سے ایک شخص کو بھیجے گا“۔
(عقد الدرر، ص ۳۷)
علاماتِ ظہور
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عالمی انقلاب اور قیام کے لئے کچھ نشانیاں بتائی گئی ہیں اور ان نشانیوں کی پہچان بہت سے مثبت آثار رکھتی ہیں، چونکہ یہ ”مہدی آل محمد“ علیہ السلام کے ظہور کی نشانی ہے جن میں سے ہر ایک کے ظاہر ہونے سے منتظرین کے دلوں میں اُمید کے نور میں اضافہ ہو گا اور دشمنوں اور گمراہیوں کے لئے یاد دہانی اور خطرہ کی گھنٹی ہو گی تاکہ اخدا کی نافرمانیوںاور برائیوں سے باز آجائیں۔ جس طرح انتظار کرنے والوں میں امام علیہ السلام کی ہمراہی اور نصرت کی لیاقت حاصل کرنے کے لئے ترغیب اور شوق کا سبب ہو گا ویسے بھی مستقبل میں پیش آنے ولے واقعات سے باخبر ہونا انسان کے لئے مناسب منصوبہ بندی میں مددگار ہوتا ہے اور یہ نشانیاں مہدویت کے سچے اور جھوٹے دعویداروں کے لئے بہترین معیارِ فرق میںہے، لہٰذا اگر کوئی مہدویت کا دعویٰ کرے، لیکن اس کے قیام میں یہ مخصوص نشانیاں نہ پائی جاتی ہوں تو اسکے جھوٹا ہونے کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آئمہ معصومین علیہم السلام کی روایت میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی بہت سی نشانیان ذکر ہوئی ہیں جن میں بعض طبیعی اور عام واقعات ہیں جبکہ بعض غیر طبیعی اور معجز نما ہیں۔ ہم ان نشانیوں میں سے پہلے ان برجستہ اور ممتاز نشانیوں کو بیان کرتے ہیں جو معتبر کتابوں اور معتبر روایات میں بیان ہوئی ہیں اور آخر میں کچھ دیگر نشانیاں اختصار کے طور پر بیان کریں گے۔حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت کے ضمن میں فرمایا: ”قائم علیہ السلام کے ظہور کی پانچ نشانیاں ہیں: سفیانی کا خروج، یمنی کا قیام، آسمانی آواز، نفس زکیہ کا قتل اور خسف بیداء(غیبت نعمانی، باب ۴۵۱ ، ح ۹ ، ص ، ۱۶۲)“ ( خسف بیداءکی وضاحت چند سطروں بعد ملاحظہ فرمائیں)قارئین کرام! اب ہم مذکورہ پانچوں نشانیوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں جو دوسری متعدد روایات میں بھی تکرار ہوئی ہی، اگرچہ ان واقعات سے متعلق تمام تفصیل ہمارے لئے یقینی طور پر ثابت نہیں ہے۔
الف: سفیانی کا خروج
سفیانی کا خروج متعد روایات میں بیان ہونے والی نشانیوں میں سے ہے، سفیانی، ابوسفیان کی نسل سے ہو گا جو ظہور سے کچھ مدت پہلے سرزمین شام سے خروج کرے گا، وہ ظالم و جابر ہو گا اور قتل و غارت میں کسی کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا، اور اپنے مخالفین سے بہت ہی بُرا سلوک کرے گا۔حضرت امام صادق علیہ السلام اس کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
”اگر تم سفیانی کو دیکھو گے تو تم نے (گویا) سب سے پلید اور بُرے انسان کو دیکھ لیا “۔
(کمال الدین، ج ۳ ، باب ۷۵ ، ح ۰۱ ، ص ۷۵۵)
اس کا خروج ماہ رجب سے شروع ہو گا، وہ شام اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد عراق پر حملہ کرے گا اور وہاں وسیع پیمانہ پر قتل و غارت کرے گا۔
بعض روایات کی بنا پر اس کے خروج اور اس کے قتل ہونے تک کی مدت پندرہ مہینہ ہو گی۔
(غیبت نعمانی، باب ۸۱ ، ح ۱ ، ص ۰۱۳)
ب: خسف بیدائ
خسف کے معنی پھٹنے اور گرنے کے ہیں اور ”بیدائ“ مکہ و مدینہ کے درمیان ایک علاقہ کا نام ہے۔
خسف بیداءسے مراد یہ ہے کہ جب سفیانی، امام مہدی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک لشکر مکہ کی طرف بھیجے گا اور جب یہ بیداءنامی علاقے میں پہنچے گا تو معجزہ نما صورت میں زمین پھٹ جائے گی اور وہ لشکر زمین میں دھنس جائے گا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا:”لشکر سفیانی کے سردار کو خبر ملے گی کہ (امام) مہدی (علیہ السلام) مکہ کی طرف روانہ ہیں، چنانچہ وہ ان کے پیچھے ایک لشکر روانہ کرے گا لیکن ان کو نہیں پائے گا، اور جب سفیانی کا لشکر سرزمین بیداءپر پہنچے گا تو ایک آسمانی آواز آئے گی ”اے سرزمین بیداءان کو نابود کر دے“ جس کے بعد وہ سرزمین سفیانی کے لشکر کو اپنے اندر کھینچ لے گی“۔ (غیبت نعمانی، باب ۴۱ ، ح ۷۲ ، ص ۹۸۲)
ج: یمنی کا قیام
سرزمین یمن میں ایک سردار کا قیام امام علیہ السلام کے ظہور کی ایک نشانی ہے جو آپ کے ظہور سے کچھ ہی دنوں پہلے ظاہر ہو گی، وہ ایک ایسا صالح اور مومن شخص ہو گا، جو انحرافات اور برائیوں کے خلاف قیام کرے گا اور اپنی تمام تر طاقت سے برائیوں اور فساد کا مقابلہ کرے گا البتہ اس کے قیام اور تحریک کی تفصیل ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔امام محمد باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:”امام مہدی علیہ السلام کے قیام سے پہلے بلند ہونے والے پرچموں کے درمیان یمنی کا پرچم تمام ہدایت کرنے والے پرچموں میں سب سے بہتر ہو گا کیونکہ وہ تمہارے آقا (امام مہدی علیہ السلام) کی طرف دعوت دے گا“۔ (غیبت نعمانی، باب ۴۱ ، ح ۳۱ ، ص ۴۶۲)
د: آسمانی آواز
امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے کی ایک نشانی یہ ہو گی کہ آسمان سے آواز آئے گی، یہ آسمانی آواز بعض روایات کی بنا پر جناب جبرئیل کی آواز ہو گی جو ماہ رمضان میں سنائی دے گی“۔ (غیبت نعمانی، باب ۴۱ ، ص ۲۶۲)
اور چونکہ مصلح کل کا انقلاب ایک عالمی انقلاب ہو گا، اور سب کو اس کا انتظار ہو گا، لہٰذا دُنیا بھر کے لوگوں کو اسی آسمانی آواز کے ذریعہ ظہور کی خبر دی جائے گی۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:”قائم آل محمد علیہ السلام کا ظہور اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک آسمان سے آواز نہ دی جائے جس کو تمام اہل مشرق ومغرب سن لیں گے“۔ (غیبت نعمانی، باب ۴۱ ، ح ۴۱ ، ص ۵۶۲)
اور یہ آواز جس طرح سے مومنین کےلئے باعث خوشی ہو گی اسی طرح بدکاروں کےلئے خطرہ کی گھنٹی ہو گی تاکہ ابھی بھی اپنے بُرے کاموں سے باز آجائیں اور امام علیہ السلام کے انصار میں شامل ہو جائیں۔اس آواز کی تفصیل کے بارے میں مختلف روایات بیان ہوئی ہیں مثلاً
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”آسمان سے آواز دینے والا حضرت امام مہدی علیہ السلام کو آپ کے نام اور آپ کی ولدیت کے ساتھ پکارے گا“۔ (غیبت نعمانی، باب ۰۱ ، ح ۹۲ ، ص ۷۸۱)
ج: نفس زکیہ کا قتل
نفس زکیہ کے معنی ایسے شخص کے ہیں جو رُشد و کمال کے بلند درجہ پر پہنچا ہوا ہو یا ایسا پاک و پاکیزہ اور بے گناہ انسان ہو جس نے کسی کو قتل نہ کیا ہو اور نفس زکیہ کے قتل سے مراد یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے کچھ پہلے ایک برجستہ اور ممتاز شخصیت یا ایک بے گناہ شخصیت امام علیہ السلام کے مخالفوں کے ذریعہ قتل کی جائے گی۔بعض روایات کی بنا پر یہ واقعہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے ۱۵ دن پہلے رونما ہو گا۔اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”قائم آل محمد( ص) کے ظہور اور نفس زکیہ کے قتل میں صرف ۵۱ دن کا فاصلہ ہو گا“۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۷۵ ، ح ۲ ، ص ۴۵۵)
قارئین کرام! مذکورہ نشانیوں کے علاوہ دوسری نشانیاں بھی ذکر ہوئی ہیں جن میں بعض کچھ اس طرح ہی: دجّال کا خروج، (دجال ایک ایسا مکّار اور حیلہ باز آدمی ہو گا جس نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہو گا)، ماہ مبارک رمضان میں سورج گرہن لگنا، چاند گرہن لگنا، فتنوں کا ظاہر ہونا اور خراسانی کا قیام۔قابل ذکر ہے کہ ان نشانیوں کی توضیح اور تفصیل مفصل کتابوں میں بیان ہوئی ہیں۔ (بحار الانوار، ج ۲۵ ، ص ۱۸۱ تا ۸۷۲)
درس کا خلاصہ:
ظہور سے پہلے اگرچہ دُنیا میں بیشتر ظلم و ستم اور تباہی ہو گی لیکن اس سے مراد سب لوگوں کا ظالم ہونا نہیں ہے۔
زمانہ غیبت اور ظہور کے نزدیکی دور میں لوگوں کا فریضہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے تاکہ ظہور کی شرائط پوری ہوں۔
حضرت کے قیام کے اہم اسباب و شرائط مندرجہ ذیل ہیں: منصوبہ بندی، رہبری، یار و مددگار کا ہونا اور عام طور پر تیاری۔
حضرت کے یار و انصار کی اہم ترین خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں: معرفت و اطاعت، عبادت و استحکام، شہادت کی طلب، شجاعت، صبر و بردباری، اتحاد و زہد۔ روایات کی رو سے حضرت کے ظہور کی حتمی علامات مندرجہ ذی ہیں: سفیانی کا خروج، یمنی کا قیام، خسف بیدائ، آسمانی آواز اور نفس زکیہ کا قتل۔
درس کے سوالات:
۱ ۔ یہ کہ منتظرین کا ہم وظیفہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر شمار کیا گیا ہے اس کی دلیل کی وضاحت کریں؟
۲ ۔ روایت کی رو سے ظہور کی شرائط اور علامات میں فرق بیان کریں؟
۳ ۔ عالمی عادلانہ حکومت کی تشکیل کے لیے اہم شرائط میں سے رہبری کی اہمیت کو بیان کریں؟
۴ ۔ ظہور کے تحقق کے لئے عمومی تیاری اور آمادگی کی اہمیت پر روشنی ڈالیں؟
۵ ۔ روایات میں بیان کی گئی یقینی اور حتمی علامات میں سے کوئی چار علامات کو روایات کے ساتھ بیان کریں؟