بارہواں درس
حکومتی منصوبے
مقاصد:
۱ ۔ حضرت علیہ السلام کے پروگراموں سے آشنائی
۲ ۔ حضرت کے اصلاحی پروگراموں سے الہام لین
فوائد:
۱ ۔ دُنیا کے مستقبل کے بارے معرفت بڑھانا
۲ ۔ شخصی زندگی کو زمانہ ظہور سے ہم آہنگ کرن
تعلیمی مطالب:
۱ ۔ حضرت کے ثقافتی پروگرامز (الٰہی سنت کا احیائ، اخلاق، علم کی وسعت....)
۲ ۔ حضرت کے اقتصادی پروگرامز (قدرتی منابع، تقسیم، آبادانی........)
۳ ۔ حضرت کے معاشرتی پروگرامز (امر بالمعروف کا احیاءکرنا، الٰہی حدود کا اجراء....)
حکومتی منصوبے
حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی عدل و انصاف کی حکومت کے اہداف و مقاصد سے آگاہی کے بعد اس حکومت کے منصوبوں اور پروگراموں کے بارے بیان کیا جاتا ہے تاکہ ظہور کے زمانہ میں فعالیت اور کارکردگی کے طریقہ کار کی شناخت کے ساتھ ساتھ ظہور سے پہلے کے لئے دستور العمل طے کیا جائے کہ اس سے عظیم منجی عالم بشریت کے انتظار میں رہنے والے افراد امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے طریقہ کار اور منصبوبوں سے آگاہ ہو جائیں جن کے پیش نطر وہ خود اور معاشرہ کو اس راہ پر چلنے کے لئے ہدایت کریں۔ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے سلسلہ میں بیان ہونے والی متعدد روایات میں آپؑ کے حکومت کے لئے تین اصلی محور ذکر ہوئے ہیں: ثقافتی منصوبے، اجتماعی منصوبے اور اقتصادی منصوبے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسانی معاشرہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے دُورہونے کی وجہ سے ثقافتی میدان میں بحران کا شکار ہو گیا ہے، لہٰذا اس کو ایک عظیم الشان ثقافتی انقلاب کی صورت میں قرآن و عترت کی طرف پلٹانا ضروری ہے۔جس طرح اس وقت ثقافتی یلغار ہے اور غیر الٰہی ثقافت ہر جگہ سایہ فگن ہے اسے تبدیل کر کے صحیح انسانی اور الٰہی ثقافت کو رائج کیا جائے گا۔
اس کے ایک ”اجتماعی جامع منصوبہ“ کا بھی ہونا ضروری ہے کیونکہ انسانی معاشرہ میں مختلف قسم کے زخم موجود ہیں لہٰذا ایک ایسے صحیح منصوبہ کی ضرورت ہے جو معاشرہ کی واقعی حیات کا ضامن ہو، جس میں تمام انسانوں کے انسانی اور الٰہی حقوق کا خیال رکھا جائے اور ظالمانہ طریقہ کار کو ختم کیا جائے کہ جس نے معاشرہ میں افراتفری اور ظلم و فساد پیدا کر دیا ہے، نیز کمزور اور غریبوں کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں لہٰذا ایسے ماحول میں ایک صحیح اور انصاف کی بنیاد پر بنائے جانے والے منصوبہ کی ضرورت ہے۔
ثقافتی ترقی اور اجتماعی رشد و نمو کا راستہ ہموار ہونے کے لئے اقتصادی دستور العمل بھی ضروری ہے تاکہ زمین پر موجود تمام مادی امکانات سے سب لوگ عادلانہ طور پر فیضیاب ہو سکیں اور ہر جگہ اور ہر طبقہ کے لئے معاش زندگی حاصل کرنا ممکن ہو۔
امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے منصوبوں سے مختصر آگاہی کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں بیان ہونے والی تفصیل کو بیان کرتے ہیں اور ہرایک پہلو بارے اہم منصوبوں کو بیان کرتے ہیں:
(الف) ثقافتی پروگرام
امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت میں تمام ثقافتی پروگرامز لوگوں کی علمی اور عملی رشد و نمو اور ترقی کے لئے ہوں گے اور ہر لحاظ سے جہل و نادانی کا مقابلہ کیا جائے گا۔
حکومتِ حق میں ثقافتی جہاد کے اہم محور کچھ اس طرح ہوں گے:۔
۱ ۔کتاب و سنت کو زندہ کرنا
قرآن کریم ہر زمانہ میں غریب اور بالائے طاق رہا ہے اور انسانی زندگی میں اس کو بھلا دیا گیا ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں قرآن کریم کی حیات بخش تعلیمات پر انسانی زندگی میں عمل درآمد ہو گا اور معصومین علیہم السلام کی سنت زندگی کے ہر موڑ پر انسانی حیات کے لئے نمونہ عمل قرار پائے گی اور سب کے اعمال قرآن و عترت کے پاک و پاکیزہ معیار کے ترازو میں تولے جائیں گے۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے عظیم الشان کلام میں امام مہدی علیہ السلام کی قرآنی حکومت کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اس زمانہ میں کہ جب انسان کی ہوائے نفس (انسان پر) حکومت کرے گی، امام مہدی (علیہ السلام) ظہور فرمائیں گے اور ہوائے نفس کی جگہ ہدایت اور فلاح کی حکومت قرار پائے گی اور جس زمانہ میں اپنی ذاتی رائے قرآن پر مقدم ہو چکی ہو گی اس موقع پر افکار قرآن کی طرف متوجہ ہوں گے اور معاشرہ میں قرآن ہی کی حکومت ہو گی“۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ۸۳۱)
نیز ایک دوسری جگہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں انسانی معاشرہ میں قرآن پر عمل درآمد ہونے کے سلسلہ میں یہ بشارت دیتے ہیں:
”گویا میں اسی وقت اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں جو مسجد کوفہ میں خیمہ لگائے بیٹھے ہیں اور قرآن جس طرح سے نازل ہوا بالکل اسی طرح لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں........“۔(غیبت نعمانی، باب ۱۲ ، ح ۳ ، صفحہ ۳۳۳)
اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنا اور اس کی تعلیم دینا، قرآنی ثقافت کے رائج ہونے دراصل انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن و اسلامی احکام کی حکمرانی کا نقطہ آغاز ہے۔
۲ ۔ معرفت اور اخلاقیات میں وسعت
قرآن کریم اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات میں انسان کے اخلاقی رشد اور معنویت کی طرف بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کیونکہ انسانی خلقت کے بلند و بالا مقصد کے رشد و کمال کی سب سے بڑی وجہ اخلاق حسنہ ہے۔ خود پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ۔ (پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:انما بعثتم لاتمم مکارم الاخلاق۔ بے شک میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔
(میزان الحکمة، مترجم، ج ۴ ، ص ۰۳۵۱)
اور قرآن کریم نے بھی آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کو مومنین کے لئے بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ (قرآن کریم کے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۱۲ کی طرف اشارہ ہے: لقد کان فی رسول اللّٰہ اسوة حسنة، بے شک رسول خد (ص) تمہارے لے اسوہ حسنہ ہیں)
لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ انسان کے قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی ہدایت اور ارشادات سے دُوری کی وجہ سے معاشرہ خصوصاً مسلمانی معاشرہ برائیوں اور پستیوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اخلاقی اقدار سے یہی انحراف انسان کی انفرادی اور اجتماعی حیات کی تباہی کا باعث بنا ہے۔
حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حکومت جو کہ الٰہی حکومت اور الٰہی اقدار کی حکومت ہو گی اس میں اخلاقی اقدار کے رواج منصوبہ سب سے اہم قرار دیا جائے گا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اِذَا قَامَ قَائِمُنَا وَضَعَ یَدَهُ عَلٰی رُووسِ العِبَادِ فَجَمَعَ بِهِ عَقُو لُهُم وَاَکمَلَ بِهَ اَخلَاقُهُم
۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۶۳۳)
”جب ہمارا قائم (علیہ السلام) قیام کرے گا تو مومنین کے سروں پر اپنا ہاتھ رکھیں گے جس سے ان کی عقل جمع ہو جائے گی اور ان کا اخلاق کامل ہو جائے گا“۔
یہ اشارہ اور کنایہ پر مشتمل بہترین جملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کہ جو اخلاق اور معنویت کی حکومت ہوگی، عقلی کمال اور انسانی اخلاق کی تکمیل کا راستہ فراہم کرے گی کیونکہ انسان میں برائیاں اس کی کم عقلی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور جب انسان کی عقل کامل ہو جائے گی تو پھر انسان میں اخلاق حسنہ پیدا ہو جائے گا۔
دوسری طرف قرآن اور سنت الٰہی کی ہدایت سے لبریز ماحول انسان کو نیکی اور اچھائی کی طرف ے جائے گا، لہٰذا ظاہر و باطن دونوں طرف سے انسان میں اخلاقی فضائل کی طرف قدم بڑھانے کی کشش پائی جائے گی، چنانچہ اس طرح دُنیا بھر میں انسان اور الٰہی اقدار نافذ ہو جائیں گی۔
۳ ۔ علم کی ترقی
امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا ایک ثقافی پروگرام ”علم کی ترقی اور انسانی دانش کی عظیم پیشرفت ہے“ اور یہ حکومت بذات خود علوم کا مرکز اور اس زمانہ کے علماءکی سرمشق ہو گی۔
جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے امام مہدی علیہ السلام کے آنے کی بشارت دی تو اسی موقع پر آپ نے اس موضوع کی طرف اشارہ فرمایا: (امام حسین علیہ السلام کی نسل سے) نویں امام (حضرت) قائم ہیں، جن کے دست مبارک سے دُنیا میں نور اور روشنی پھیل جائے گی، جبکہ اس سے پہلے ظلمت و تاریکی میں گرفتار ہو گی اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھری ہو گی اور پوری دُنیا کو علم و دانش کی دولت سے مالامال کر دے گا جیسا کہ جہل و نادانی سے بھری ہو گی....“ (حضرت علی علیہ السلام نے امام مہدی علیہ السلام کی توصیف میں فرمایا: کہ ان کا علم، دانش تم سب سے زیادہ ہو گی، (غیبت نعمانی، باب ۳۱ ، ح ۱) اور یہ علمی اور فکری تحریک معاشرہ کے ہر طبقہ کے لئے ہو گی۔ اس ترقی اور شکوفائی میں عورت و مرد میں کوئی فرق نہیں ہو گا بلکہ عورتیں بھی علم اور دینی معرفت میں بلند مقام پر پہنچ جائیں گی۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
”امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں تمہیں حکمت (اور علم) عطا ہو گا، یہاں تک کہ عورتیں اپنے گھروں میں کتاب خدا اور سنت رسول( صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے مطابق فیصلہ کیا کریں گی‘۔ ( نعمانی، ص ۹۳۲ ، بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۲۵۳)
یہ چیز لوگوں کو قرآنی آیات اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سے نہایت ہی عمیق اور معرفت و شناخت کی طرف اشارہ دیتی ہیں۔
۴ ۔ بدعتوں سے مقابلہ
بدعت ”سنت“ کے مقابلہ ہوتی ہے جس کے معنی دین میں کسی نئی چیز کو داخل کرنے اور اپنی ذاتی رائے اور نظریات کو دین اور دینداری میں شامل کرنے کے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام بدعت ایجاد کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ”بدعت ایجاد کرنے والے وہ لوگ ہیں جو حکم خدا اور کتاب خدا نیز پیغمبر خدا (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں، اور اپنے نفس کی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں، اگرچہ ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو“۔ (میزان الحکمة، ح ۳۲۶۱)
لہٰذا بدعت کے معنی خدا، اس کی کتاب اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے اور ہوائے نفسانی کو نافذ کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق عمل کرنے کے ہیں اور یہ چیز اس کے علاوہ ہے جو الٰہی معیار کی بنیاد اور قرآن و سنت سے الہام لیتے ہوئے کوئی نئی تحقیق کے عنوان سے پیش کی جائے، چنانچہ بدعت ایک ایسی چیز ہے جو حکم خدا و سنت رسول کو ختم کر دیتی ہے حالانکہ دین کےلئے اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
مَا هَدَمَ الدِّینَ مِثل البِدَعِ
(بحارالانوار، ج ۷۸ ، ص ۱۹)
”بدعت کی طرح کسی بھی چیز نے دین کو تباہ و برباد نہیں کیا ہے“۔
اور اسی دلیل کی وجہ سے بدعت گزاروں کے مقابلہ کرنے کے لئے سنت پر عمل کرنے والوں کو قیام کرنا چاہیے اور ان کی سازشوں اور دھوکہ بازیوں سے پردہ اُٹھا دینا چاہیے اور ان کے غلط راستہ کو لوگوں کے سامنے واضح کر دینا چاہیے اور اس طرح سے لوگوں کو گمراہی سے نجات دینا چاہیے۔
پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
”جب میری اُمت میں بدعتیں ظاہر ہونے لگیں تو علماءکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علم و دانش کے ذریعہ میدان میں آئیں (اور ان بدعتوں کا مقابلہ کریں) اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اس پر خدا کی لعنت اور نفرین ہو!“۔ (میزان الحکمة، ح ۹۴۶۱)
لیکن افسوس کہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد اسلام میں کیا کیا بدعتیں ایجاد نہیں کی گئیں، اور دینداری کے راستہ میں کیا کیا انحرافات نہیں کئے گئے اور کتنے ہی لوگوں کو گمراہ نہیں کیا گیا ہے اور اس طرح دین کا مقدس چہرہ اُلٹا کر پیش کیا گیا ہے اور دین کی خوبصورت تصویر کو ہوائے نفس اور ذاتی طور و طریقہ کے بادلوں سے ڈھک دیا گیا ہے۔ اگرچہ ائمہ معصومین علیہم السلام جو دین کے جاننے والے تھے اُنہوں نے بے انتہاءکوشش کی لیکن بدعت کا راستہ اور سنت نبوی کی نابودی اسی طرح جاری رہی اور غیبت کے زمانہ میں اس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اور اب دُنیا انتظار میں ہے کہ صاحب مکتب اور منجی بشریت اور قرآنی موعود (حضرت امام مہدی علیہ السلام) تشریف لائیں اور ان کی حکومت کے زیر سایہ سنت نبوی زندہ ہو اور بدعتوں کا بستر لپیٹ دیا جائے۔ بے شک امام علیہ السلام کی حکومت کا ایک اہم منصوبہ بدعت اور گمراہی سے مقابلہ تاکہ ہدایت اور انسانی رشد و ترقی کا راستہ ہموار ہو جائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، حضرت امام مہدی علیہ السلام کی توصیف کرتے ہوئے ایک طویل حدیث کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:وَ لَایَتر کُ بِدَعَةً اِلاَّ اَزَالَهَا وَ لَا سُنَّةً اِلاِّ اَقَامَهَا
........ (بحارالانوار، ج ۸۵ ، ح ۱۱ ، ص ۱۱)
”کوئی بھی بدعت ایسی نہیں ہو گی جس کو جڑ سے اکھاڑ نہ پھنکیں گے اور کوئی بھی سنت ایسی نہ ہو گی جس کو قائم نہ کریں گے“۔
ب۔ اقتصادی منصوبہ
ایک صحیح و کامل معاشرہ کی پہچان صحیح اقتصاد ہے۔ اگر معاشرہ میں مال و دولت سے صحیح فائدہ نہ اُٹھایا جائے اور اس کو لوگوں تک پہنچانے کے ذرائع کسی خاص گروہ کے اختیار میں نہ ہوں بلکہ حکومت معاشرہ کے ہر فرد پر توجہ رکھے سب کے لئے ذریعہ معاش فراہم ہو تو ایسے معاشرہ میں انسان کے لئے معنوی ترقی اور رشد کا راستہ مزید ہموار ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کی روایات میں بھی اقتصادی پہلو اور لوگوں کے معاشی نظام پر توجہ کی گئی ہے۔ اس بنا پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قرآنی حکومت اور عالمی اقتصاد اور عوام الناس کے لئے خاص منصوبہ ہو گا جس کی بنیاد پر زراعتی، طبیعی اور خدادادی نعمتوں سے بہتر طور پر فائدہ اُٹھایا جائے گااور اس سے حاصل ہونے والے سرمایہ کو عدل و انصاف کے مطابق معاشرہ کے ہر طبقہ میں تقسیم کیا جائے گا۔ مناسب ہے کہ ہم ان روایات کا مختصر جائزہ لیں تاکہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں اقتصادی منصوبہ بندی کے بارے میں جان سکیں۔
۱ ۔ طبیعی منابع سے مستفید ہونا
اقتصادی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ خداداد نعمتوں سے صحیح اور بجا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا ہے نہ تو زمین کی تمام خوبیوں سے صحیح فائدہ اُٹھایا جاتا ہے اور نہ ہی پانی سے زمین کی آبادکاری کے لئے صحیح فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اور حکومت حق کی برکت سے آسمان سخی ہو کر بارش برسائے گا اور زمین بغیر چون و چرا کے فصل اُگائے گی۔
جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
وَ لَو قَد قَامَ قَائِمُنَا لَاَنزَلَتِ السَّمَاءُ قَطرَهَا، وَ لَاَخرَجَتِ الاَرضَ نَبَاتَهٰا
۔۔۔۔۔ (بحارالانوار، ج ۰۱ ، ص ۴۰۱ ، خصال شیخ صدوق، ص ۶۲۶)
”اور جب قائم آل محمد علیہ السلام قیام کریں گے تو آسمان سے بارشیں ہوں گی اور زمین دانہ اُگائے گی........“۔
آخری حجت حق کی حکومت کے زمانہ میں زمین اور اس کے ذرائع امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے اختیار میں ہوں گے تاکہ مکمل اقتصاد کے لئے ایک عظیم سرمایہ جمع ہو جائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:تقویٰ له الارض و تظهرله الکنوز
........ ( کمال الدین، ج ۱ ، باب ۲۳ ، ح ۶۱ ، ص ۳۰۶)
”زمین ان کے لئے سمٹ جایا کرے گی، (اور وہ پل بھر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائیں گے) اور تمام خزانے ان کے لئے ظاہر ہو جائیں گے“۔
۲ ۔ دولت کی عادلانہ تقسیم
نادرست اقتصاد کی سب سے اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ دولت ایک خاص گروہ کے قبضہ میں جمع ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتارہا ہے کہ بعض افراد یا بعض گروہ جو اپنے لئے ( کسی بھی دلیل کے تحت) خاص امتیاز کے قائل تھے اُنہوں نے عمومی مال و دولت پر قبضہ کر لیا اور اس کو ذاتی مفاد یا کسی خاص گروہ کے لئے استعمال کرتے رہے۔ امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) ایسے لوگوں سے مقابلہ کریں گے اور عمومی مال و دولت کو عام لوگوں کے اختیار میں دیں گے اور ”عدالت علوی“ سب کے سامنے پیش کریں گے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:اِذَا قَامَ قَائِمُنَا اَهلَ البَیتِ قَسَّمَ بِالسَّوِیَّةِ وَ عَدَلَ فِی الرَّعیَةِ
(نعمانی، باب ۳۱ ، ح ۶۲ ، ص ۲۴۳)
”جب ہم اہل بیت کا قائم قیام کرے گا تو (مال و دولت کو) برابر تقسیم کرے گا اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لے گا“۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں مساوات اور برابری کے قانون کو نافذ کیا جائے گا اور سب کو انسانی اور الٰہی حقوق دیئے جائیں گے۔اور مال و دولت کی عادلانہ تقسیم ہو گی۔
حضرت پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
”میں تم کو مہدی (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ہوں جو میری اُمت میں قیام کرے گا وہ مال و دولت کو صحیح تقسیم کرے گا، کسی نے سوال کیا: اس کا کیا مقصد ہے؟ تو فرمایا: یعنی لوگوں کے درمیان مساوات قائم کرے گا“۔ (بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۱۸)
اور معاشرہ میں اس مساوات کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی بھی فقیر یا محتاج نہیں ملے گا اور طبقاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
”تمہارے درمیان امام مہدی علیہ السلام ایسی مساوات قائم کریں گے کہ کوئی بھی زکوٰة کا مستحق نہیں مل پائے گا“۔ (بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۰۹۳)
۳ ۔ ویرانوں کی آبادکاری
آج کل کی حکومتوں میں صرف انہی لوگوں کی زمین آباد ہوتی ہے جو حکام اور ان کے گرد و نواح والوں اور ان کے ہم فکر لوگ یا بڑے صاحب قدرت لوگ ہوتے ہیں لیکن دوسروں طبقوں کو بھلا دیا جاتا ہے لیکن امام مہدی علیہ السلام کی کو حکومت میں چونکہ پیداوار اور تقسیم کا مسئلہ حل ہو جائے گا لہٰذا ہر جگہ نعمتیں اور آبادکاری ہو گی اور سب کی زندگی خوشحالی ہوگی سب کے لئے زمین آباد ہوں گی۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہی:فلا یبقیٰ فی الارض خزاب الا عمَّ
........ (کمال الدین، ج ۱ ، باب ۲۳ ، ح ۶۱ ، ص ۳۰۶)
”پوری زمین میں کوئی ویرانہ نہیں ملے گا مگر یہ کہ اس کو آباد کر دیا جائے گا“۔
ج۔ معاشرتی منصوبہ بندی
انسانی معاشرہ کی اصلاح کا ایک پہلو صحیح معاشرتی منصوبہ بندی ہے۔ دُنیا کے سب سے بڑے منصف کی حکومت میں معاشرہ کو صحیح ڈگر پر لگانے کے لئے قرآن اور سنت اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق منصوبہ بندی کی جائے گی جس کے نافذ ہونے سے انسانی زندگی میں رشد و نمو اور بلند مقام تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ حکومت الٰہی کے تحت اس دُنیا میں نیکیوں کو رائج کیا جائے گا اور برائیوں سے روکا جائے گا اور بدکاروں کے ساتھ قانونی مقابلہ کیا جائے گا، نیز لوگوں کے معاشرتی حقوق مساوات اور عدالت کی بنیاد سے دیئے جائیں گے اور اجتماعی عدالت حقیقی طور پر قائم کی جائے گی۔
قارئین کرام! یہاں پر مناسب ہے کہ ایک نظر ان روایات پر ڈالیں جن میں اس حسین دُنیا کے جلوو ں کا اچھی طرح نظارہ ہو سکے۔
۱ ۔ وسیع پیمانہ پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی عالمی حکومت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر بہت وسیع پیمانہ پر عمل ہو گا جس کے بارے میں قرآن کریم نے بھی بہت زیادہ تاکید کی ہے اور اسی بنا پر اُمت اسلامیہ کو منتخب اُمت کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ (سورہ آل عمران آیت ۰۱۱) جس کے ذریعہ تمام واجبات الٰہی پر عمل ہوںا ہے (اس اہم واجب کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: ان الامر بالمعروف و النہی عن المنکر.... فریضة عظیمة بہا تقام الفرائض، (امر بالعمروف اور نہی عن المنکر ایسے واجبات ہیں کہ جن کے سبب تمام واجبات کا قیام ہے)۔ (میزن الحکمة مترجم، ج ۸ ، ص ۴۰۷۳) اور اس کا ترک کرنا ہلاکت کا بنیادی رکن، نیکیوں کی نابودی اور معاشرہ میں برائیوں کا پھیلنے کا اصلی سبب ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بہترین اور بلند ترین مرتبہ یہ ہے کہ حکومت کا رئیس اور اس کے عہدے دار نیکیوں کی ہدایت کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہوں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
اَلمَهدِیَ وَ اَصحَابُهُ.... یَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَیَنهَونَ عَنِ المُنکِر
(بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۷۴)
”امام مہدی علیہ السلام اور آپ کے ناصر و مددگار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے ہوں گے“۔
۲ ۔ برائیوں کا مقابلہ کرنا
برائیوں سے روکنا جو الٰہی حکومت کا ایک امتیاز ہے صرف زبانی طور پر نہیں ہو گا بلکہ برائیوں سے عملی طور پر مقابلہ ہو گا یہاں تک کہ برائی اور اخلاقی پستی کا معاشرہ میں کوئی وجود نہ ہو گا اور انسانی زندگی برائیوں سے پاک ہو جائے گی۔
جیسا کہ دُعائے ندبہ میں بیان ہوا ہے کہ جو محبوب غائب کے فراق کا درِ دل ہے:
اَینَ قَاطِع حَبَائِلِ الکِذبِ وَالاَفتَرَاءِ، اَینَ طَامِس آثَارِ الزَّیغِ وَالاَهَوَاءِ
۔(مفاتیح الجنان، دُعائے ندبہ)
”کہاں ہے وہ جو جھوٹ اور بہتان کی رسیوں کا کاٹنے والا ہے؟ اور کہاں ہے جو گمراہی اور ہوا و ہوس کے آثار کو نابود کرنے والا ہے؟“۔
۳ ۔ حدود الٰہی کا نفاذ
معاشرہ کے شرپسند اور مفسد لوگوں سے مقابلہ کے لئے مختلف راستے اپنائے جاتے ہیں۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت میں ایک طرف تو فاسقوں اور شرپسندوں کو ثقافتی پروگرام کے تحت اور تعلیمات الٰہی کے ذریعہ عقائد اور ایمان کی طرف پلٹا دیا جائے گا اور دوسری طرف ان کی زندگی کی جائز اور معقول ضرورتوں کو پورا کرنے اور اجتماعی عدالت نافذ کرنے سے ان کےلئے برائی اور فساد کے راستہ کوبند کر دیا جائے گا لیکن جو لوگ اس کے باوجود بھی دوسروں کے حقوق اور احکام الٰہی کو پامال کر دیں گے اور قوانین کی رعایت نہیں کریں گے تو ان سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے گا تاکہ ان کے راستے بند ہو جائیں اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام ہو سکے جیسا کہ مفسدوں کی سزا کے بارے میں اسلام کے جزائی قوانین میں بیان ہوا ہے۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت نقل ہوئی ہے جس میں آنحضرت (ص) نے امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات بیان کی ہیں، فرماتے ہیں:
”وہ الٰہی حدود کو قائم (اور ان کو نافذ) کریں گے“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، باب ۷۲ ، ح ۴)
۴ ۔ منصفانہ فیصلے
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا ایک ایسا اہم پروگرام معاشرہ کے ہر پہلو میں عدالت کو نافذ کرنا ہو گا، اور آپ ہی کے ذریعہ پوری دُنیا عدالت اور انصاف سے بھر جائے گی جیسا کہ ظلم و ستم سے بھری ہو گی۔ قضاوت اور فیصلوں میں عدالت کا نافذ ہونا ایک حیاتی ضرورت ہے کیونکہ اسی سلسلہ میں سب سے زیادہ ظلم اور حق تلفی ہوتی ہے کسی کا مال کسی اورکو مل جاتا ہے اور ناحق خون بہانے والے ظالم کو سزا نہیں ملتی، بے گناہ لوگوں کی عزت و آبرو پامال ہوتی ہے ۔ دُنیا بھر کی عدالتوں میں سے سب سے زیادہ ظلم معاشرہ کے کمزور لوگوں پر ہوا ہے اور صاحبان قدرت اور ظالم حکمرانوں کے زیر اثر ان عدالتی فیصلوں میں بہت سے لوگوں کی جان و مال پر ظلم ہوا ہے۔ دُنیا پرست ججوں نے اپنے ذاتی مفاد اور قوم و قبیلہ پرستی کی بنا پر بہت سے غیر منصفانہ فیصلہ کئے ہیں اور ان کو نافذ کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کتنے ایسے بے گناہ لوگ ہوں گے جن کو سولی پر لٹکا دیا گیا اور کتنے ایسے مجرم اور فسادی لوگ ہوں گے جن کے بارے میں قانون جاری نہیں ہوا ہے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عادل حکومت، تمام ظلم و ستم اور ہر حق تلفی کا خاتمہ کر دے گی۔ آپ کی ذات گرامی جو عدالت پروردگار کی مظہر ہے انصاف کے محکمے قائم کرے گی اور اپنی عدلیہ میں اپنے نیک و صالح قاضی مقرر کرے گی کہ جو خوف خدا رکھنے والے نیز دقیق طور پر حکم نافذ کرنے والے ہوں گے تاکہ دُنیا کے کسی گوشہ میں کسی پر ذرا بھی ظلم نہ کیاجائے۔حضرت امام رضا علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے سنہرے موقع کی توصیف میں ایک طولانی روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
فَاِذَا خَرَجَ اَشرَقَتِ ال اَر ضِ بِنُورِ رَبَّهَا،وَ وَضَعَ مِیزَانَ العَدلِ بَینَ النَّاسِ فَلَا یَظلِم اَحَد اَحَداً
(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۱۲۳)
جب وہ ظہور کریں گے تو زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی اور وہ لوگوں کے درمیان حق و عدالت کی میزان قائم کریں گے، پس وہ (ایسی عدالت جاری کریں گے کہ) کوئی کسی دوسرے ر ذرّہ بھی ظلم و ستم نہیں کرے گا“۔
قارئین کرام! اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حکومت میں محکمہ عدل و انصاف مکمل طور پر نافذ ہو گا جس سے ظالم اور خودغرض انسانوں کے لئے راستے بند ہو جائیں گے اور ظلم و ستم کی تکرار اور دوسرے کے حقوق پر تجاوز کرنے سے روک تھام کی جائے گی۔
درس کا خلاصہ:
امام مہدی علیہ السلام کے اہم ترین ثقافتی پروگرامز مندرجہ ذیل ہیں:
کتاب و سنت کا احیائ، اسلامی اخلاق کا پھیلاو، علم و دانش کی شگوفائی، بدعتوں کا مقابلہ۔
اقتصادی اعتبار سے امام کا پروگرام یہ ہے کہ قدرتی ذخائر سے مکمل فائدہ اُٹھایا جائے گا اور الٰہی رزق و نعمات لوگوں میں تقسیم کی جائیں گی اور دُنیا کی آبادانی کو وسعت دی جائے گی۔ویرانوں کو آباد کیا جائے گا۔
معاشرتی امور میں حضرت کا حکومتی پروگرام یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا احیاءاور الٰہی حدود کا اجرا کیا جائے۔
درس کے سوالات
۱ ۔ زمانہ ظہور میں حضرت کے ذریعے قرآن و سنت کے احیاءسے کیا مراد ہے؟
۲ ۔ زمام باقر علیہ السلام کی حدیث مبارک میں جملہ ”وضع یدہ علی رو س العباد....“ سے کیا مراد ہے؟
۳ ۔ جمہ ”تطوی لہ الارض و تظہر لہ الکنوز“ کا معنی بیان کریں؟
۴ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اقتصادی پروگرامز کی ان کے موارد کے تذکرہ کے ساتھ وضاحت کریں؟
۵ ۔ امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ الشریف اہم ترین اصلاحی اور معاشرتی پروگرامز میں سے تین کی مثالیں بیان کریں؟