پندرہواں درس
مہدویت کے لئے نقصان دہ چیزوں کی پہچان
مقاصد:
۱ ۔ امام مہدیعلیہ السلام کے موضوع کو لاحق خطرات سے آگاہی
۲ ۔ انحرافات اور خطاوں سے بچنے اور ان سے مقابلہ کرنے کی روش
فوائد:
۱ ۔ خرافات سے بچنے کے معیاروں سے بیشتر آگاہی
۲ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے موضوع سے غلط لئے گئے مفاہیم کے خطرات پر توجہ
۳ ۔ ان کی نیابت کے جھوٹے دعویداروں کی تکذیب
تعلیمی مطالب:
۱ ۔ مقدمہ
الف: خطرات کو پہچاننے کا معنی
ب: امام مہدی علیہ السلام کے موضوع پر لاحق خطرات کو پہچاننے کی ضرورت
۲ ۔ موضوع مہدی علیہ السلام کے مفاہیم کی غلط تفسریں اور وضاحتیں
۳ ۔ جلد بازی سے کام لینا اور حضرت کے ظہور کا وقت معین کرنا
۴ ۔ ظہور کی علامات کو خاص افراد پر مطابقت دینا
۵ ۔ مہدیعلیہ السلام یا ان کی نیابت کے جھوٹے دعویدار
مہدویت کے لئے نقصان دہ امور کی پہچان
کسی بھی ثقافت اور معرفت کے مجموعہ کے لئے ممکن ہے کہ کچھ چیزیں نقصان دہ ہوں جو اس ثقافت کے رشد اور ترقی میں مانع ہوں، کبھی کبھی دینی ثقافت بھی آفتوں کا شکار ہو جاتی ہے جس سے اس کی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ”مہدویت کے لئے نقصان دہ امور کی پہچان“ کی بحث میں ان مشکلات کی پہچان اور ان سے مقابلہ کا طریقہ کار بیان کیا جائے گا۔ اس آخری فصل میں مناسب ہے کہ عقیدہ مہدویت کے سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات میں بیان کریں تاکہ ان کی پہچان کے بعد ان سے بچا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مہدوی ثقافت کے لئے نقصان دینے والے امور کہ اگر ان سے غفلت برتی جائے تو مومنین خصوصاً جوانوں میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود یا آپ علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلووں کی پہچان کا عقیدہ سست ہو جائے گا اور وہ کبھی بھی منحرف افراد یا منحرف فرقوں کی طرف مائل ہو جائیں گے لہٰذا ان نقصان دہ مشکلات کی پہچان امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے منتظروں کے عقیدہ و عمل میں انحراف سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہم یہاں عقیدہ مہدویت کے لئے نقصان دہ چیزوں کی الگ الگ عنوان سے بحث کرتے ہیں:
غلط نتیجہ گیری
مہدویت ثقافت کے لئے ایک اہم آفت اور مشکل، اسلامی ثقافت کے غلط معنی کرنا اور غلط نتیجہ لینا ہے۔ روایات کی غلط یا ناقص تفسیر کرنے سے نتیجہ بھی غلط حاصل ہوتا ہے جن کے چند نمونے ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
۱ ۔ ”انتظار“ کے غلط معنی کرنا اس بات کا باعث بنا کہ بعض لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ یہ دُنیا صرف حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ برائیوں سے پاک ہو سکتی ہے، لہٰذا برائیوں، فساد اور تباہیوں کے مقابلہ میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے نزدیک ہونے کے لئے معاشرہ میں برائیوں اور گناہوں کو رائج کرنا چاہئے!! یہ غلط نظریہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے نظریات کے بالکل مخالف ہے کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہر مسلمان کا مسلّم فریضہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایرن کے بانی حضرت امام خمینی اس نظریہ کی رِد میں فرماتے ہیں:
”اگر ہم اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ پوری دُنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر دیں تو یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہو گی، لیکن ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ اگرچہ حضرت امام مہدی علیہ السلام دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اورہم اپنی ذمہ داری پر عمل نہ کریں“۔ (صحیفہ نور، ج ۰۲ ، ص ۶۹۱)
اس کے بعد موصوف اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ”(کیا) ہم قرآن مجید کی تلاوت کے برخلاف قدم اُٹھائیں اور نہی عن المنکر انجام نہ دیں؟ اور امر بالمعروف نہ کریں؟ اور اس وجہ سے گناہوں میں زیادتی کریں تاکہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو جائے؟! (صحیفہ نور، ج ۰۲ ، ص ۶۹۱)
قارئین کرام! ہم نے ”انتظار“ کی بحث کے شروع میں انتظار کے صحیح معنی بیان کئے ہیں۔
کچھ لوگوں نے بعض روایات کے ظاہر سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ہونے والا ہر انقلاب غلط اور باطل ہے لہٰذا ایران کے عظیم الشان اسلامی انقلاب (جو طاغوت اور استکبار کے خلاف اور احکام الٰہی قائم کرنے کے لئے تھا) کے مقابلہ میں غلط فیصلے کئے گئے۔
جس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ بہت سے اسلامی احکام جیسے اسلامی حدود، قصاص اور دشمنوں سے جہاد نیز برائیوں سے مکمل مقابلہ صرف اسلامی حکومت کے زیر سایہ ہی ممکن ہے لہٰذا اسلامی حکومت کی تشکیل ایک پسندیدہ اور قابل قبول کام ہے، جبکہ بعض روایات میں قیام کرنے سے اس لے نہیں کی گئی تاکہ باطل اور غیر اسلامی انقلاب میں شرکت نہ کی جائے، یا ایسے انقلاب جن میں شرائط اور حالات کو پیش نظر نہ رکھا جائے، یا ایسا قیام جو ”قیام مہدی“ کے عنوان سے شروع کیا جائے نہ یہ کہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے برپا کیا جانے والا ہر انقلاب مذموم اور باطل ہو۔ (اس موضوع سے مزید آگاہی کے ئے کتاب ”دادگستر جہاں“ مولفہ ابراہیم امینی، ص ۴۵۲ تا ۰۰۳ کا مطالعہ فرمائیں)
ثقافت مہدویت سے غلط نتیجہ حاصل کرنے کا ایک نمونہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے چہرہ کو خطرناک شکل میں پیش کرنا ہے بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام شمشیر عدالت کے ذریعہ خون کا دریا بہائیں گے اور بہت سے لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالیں گے لیکن یہ تصور باکل غلط ہے کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی رحمت اور مہربانی کا مظہر ہیں اور پیغمبر اسلام (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی طرح پہلے سب لوگوں کے سامنے اسلام کے واضح دلائل پیش کریں گے جس سے لوگوں کی اکثریت اسلام قبول کرکے آپ علیہ السلام کے ہمراہ ہو جائے گی، لہٰذا امام مہدی علیہ السلام صرف اپنے ان ہٹ دھرم مخالفوں کےلئے شمشیر اور اسلحہ کا استعمال کریں گے جو حق واضح ہونے کے بعد بھی حق قبول نہیں کریں گے، وہ لوگ تلوار کی زبان کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتے ہوں گے۔
ظہور کے بارے جلد بازی
مہدوی ثقافت کے لئے ایک نقصان دہ چیز ”ظہور میں جلد بازی“ ہے، جلد بازی کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے وقت سے پہلے یا اس کے لئے راستہ ہموار ہونے سے پہلے اس کو طلب کیا جائے، جلد باز انسان نفس کی کمزوری اور کم ظرفیت کی وجہ سے اپنی سنجیدگی اور چین و سکون کو کھو بیٹھتا ہے اور کسی چیز کے شرائط اور حالات پیدا ہونے سے پہلے اس چیز کا خواہاں ہوتا ہے۔
مہدوی ثقافت کے پیش نظر ”امام غائب کے مسئلہ میں“ سب منتظرین ظہور مہدی علیہ السلام کے مشتاق ہیں اور اپنے پورے وجود کے ساتھ ظہور کا انتظار کر رہے ہیں، اور آپ کے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا کرتے ہیں لیکن پھر بھی جلد بازی سے کام نہیں لیتے، اور غیبت کا زمانہ جس قدر طولانی ہوتا جاتا ہے ان کا انتظار بھی طولانی ہوتا رہتا ہے، لیکن پھر بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیںچھوٹتا، بلکہ ظہور کے بہت مشتاق ہونے کے بعد بھی خداوند عالم کے مرضی اور اس کے ارادہ کے سامنے سر تسلیم ختم کرتے ہیں، اور ظہور کے لے لازمی شرائط پیدا کرنے اور راستہ ہموار کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔عبد الرحمن بن کثیر کہتے ہیں: میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ”مہرم“ آئے اور عرض کی: میں آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ جس چیز کے انتظار میں ہم ہیں اس انتظار کی گھڑیاں کب پوری ہوں گی؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ”مہرم“ ظہور کے لئے وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں اور جلد بازی کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں، اور (اس سلسلہ میں) تسلیم ہونے والے نجات یافتہ ہیں“۔ (اصول کافی، ج ۲ ، ص ۱۹۱)
ظہور کے سلسلہ میں جلد بازی سے ممانعت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ جلد بازی کی وجہ سے انسان میں یاس اور نااُمیدی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے سکون اور اطمینان ختم ہو جاتا ہے اور تسلیم کی حالات، شکوہ اور شکایت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ظہور میں تاخیر کی وجہ سے بےقراری پیدا ہوتی ہے اور یہ بیماری دوسروں تک بھی پہنچ جاتی ہے اور کبھی کبھی ظہور میں جلد بازی کی وجہ سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود سے انکار کر دیتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ظہور کے سلسلہ میں جلد بازی کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ نہیں جانتا کہ ظہور الٰہی سنتوں میں سے ایک ہے اور تمام سنتوں کی طرح اس کےلئے بھی شرائط اور حالات ہموار ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر ظہور کے سلسلہ میں جلد بازی کرتا ہے۔
ظہور کے لئے وقت معین کرنا
مہدوی ثقافت کے لئے نقصان دہ ایک چیز یہ ہے کہ انسان امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے وقت معین کرے جبکہ ظہور کا زمانہ لوگوں کے کے لئے مخفی ہے اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں ظہور کے لئے وقت معین کرنے سے سخت ممانعت کی گئی ہے اور وقت معین کرنے والوں کو جھوٹا شمار کیا گیا ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال ہوا کہ کیا ظہور کے لئے کوئی وقت (معین) ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:
”جو لوگ ظہور کے لئے وقت معین کریں وہ جھوٹے ہیں، (اور امام علیہ السلام نے اس جملہ کی تین بار تکرار فرمائی)“ (غیبت طوسی، ح ۱۱۴ ، ص ۶۲۴) لیکن پھر بھی بعض لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے وقت معین کرتے ہیں، جس کا کم سے کم (منفی) اثر یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے جھوٹے وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں اور جب وہ پورے نہیں ہوتے تو ان کے اندر یاس اور نااُمیدی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔
لہذا سچے منتظرین کا فریضہ ہے کہ نادان اور (خود غرض) شکاریوں کے جال سے اپنے کو محفوظ رکھیں اور ظہور کے سلسلہ میں صرف مرضی پروردگار کے منتظر رہیں۔
ظہور کی نشانیوں کو خاص مصادیق پر منطبق کرنا
متعدد روایات میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے بہت سی نشانیاں بیان ہوئی ہیں لیکن ان کی دقیق اور صحیح کیفیت نیز ان کی خصوصیات روشن نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بعض لوگ اپنے ذاتی نظریات اور احتمالات کو بروئے کار لاتے ہیں اور بعض اوقات ظہور کی نشانیوں کو خاص واقعات پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ذریعہ ظہور کے نزدیک ہونے کی خبریں دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی مہدوی ثقافت کے لئے ایک آفت ہے جس کی بنا پر (بھی) انسان یاس اور نااُمیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ”سفیانی“ نام کو کسی علاقہ کے رہنے والے پر صادق مانیں اور ”دجال“ کے بارے میں بغیر دلیل کے گفتگو کی جائے، جس کے بعد سب لوگوں کو یہ بشارت دی جائے کہ اب ظہور امام کا زمانہ نزدیک ہے اور سالوں بعد بھی امام علیہ السلام کا ظہور نہ ہوتو بہت سے لوگ غلط فہمی اور انحراف کے شکار ہو جائیں گے اور اپنے صحیح عقائد میں شک و تردید میں مبتلا ہو جائیں گے۔
غیر ضروری بحث کرنا
مہدوی ثقافت میں بہت سے معارف اور تعلیمات ایسی ہیں جن کے سلسلہ میں کوشش کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے اور یہ چیز شیعوں میں مزید علم و آگاہی کے لئے بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور غیبت کے زمانہ میں ہمارے لئے ایک اہم دستور العمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کبھی کبھی لوگ یا بعض گروہ اپنی گفتگو، مضامین، جرائد اور کانفرنسوں میں غیر ضروری بحث کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے کبھی کبھی منظرین کے ذہنوں میں بعض غلط شبہات اور سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر ”امام زمانہ (ع) سے ملاقات“ کی بحث کرنا اور لوگوں کو آپ علیہ السلام کی ملاقات کے بارے میں بہت زیادہ رغبت دلانا جس کے بہت سے غلط اثرات پیدا ہوجاتے ہیں اور نااُمیدی کا سبب اور کبھی تو امام علیہ السلام کے انکار کا باعث ہوتا ہے جبکہ روایات میں اس چیز کی تاکید ہوئی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی مرضی کے مطابق قدم بڑھایا جائے اور رفتار و کردار میں آپ علیہ السلام کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا اہم یہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں انتظار کرنے والوں کے فرائض کو بیان کیا جائے تاکہ اگر امام علیہ السلام سے ملاقات ہو جائے تو اس موقع پر امام علیہ السلام ہم سے راضی اور خوشنود ہیں۔اسی طرح امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی شادی کا مسئلہ، یا آپ کی اولاد کے بارے میں گفتگو، یا آپ کہاں رہتے ہیں وغیرہ، یہ تمام غیر ضروری بحثیں جن کی جگہ ایسی موثر اور مفید بحثوں کو بیان کرنا چاہیے جو منتظرین کے لئے مفید ثابت ہوں، اسی وجہ سے ظہور کی شرائط اور ظہور کی نشانیوں کی بحث مقدم ہے، کیونکہ امام علیہ السلام کے ظہور کے مشتاق افراد کا شرائط سے آگاہ ہونا ان شرائط کو پیدا کرنے میں ترٍغیب کا باعث بنتا ہے۔
امام مہدی علیہ السلام مہرومحبت کا پیکر نہ کہ قہر و غضب کا
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ مہدویت کی بحث میں ہر پہلو پر نظر رکھنا ضروری ہے یعنی کسی ایک موضوع پر بحث کرتے وقت مہدویت کے سلسلہ میں تمام چیزوں پر نظر رکھی جائے کیونکہ کچھ لوگ بعض روایات کے مطالعہ کے بعد غلط تفسیر کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان کی نظر دوسری روایات پر نہیںہوتی، مثال کے طور پر بعض روایات میں طولانی جنگ اور قتل و غارت کی خبر دی گئی ہے چنانچہ بعض لوگ صرف انہی روایات کی بنا پر امام مہدی علیہ السلام کی بہت خطرناک تصویر پیش کرتے ہیں اور جن روایات میں امام علیہ السلام کی محبت اور مہربانی کا ذکر ہوا ہے اور آپ علیہ السلام کے اخلاق و کردار کو رسول اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے اخلاق کی طرح بیان کیا گیا ہے، ان سے غافل رہتے ہیں ظاہر ہے کہ دونوں طرح کی روایات میں غور و فکر سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ امام علیہ السلام تمام ہی حق طلب انسانوں سے (اپنے شیعہ اور دوستوں کی بات تو الگ ہے) مہر و محبت اور رحم و کرم میں دریا دلی کا مظاہرہ کریں گے اور اس آخری ذخیرہ الٰہی کی شمشیر انتقام صرف ظالم و ستمگر اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سروں پر قہر بن کر برسے گی۔
اس گفتگو کی بنا پر مہدویت کے موضوع پر بحث کرنے کے لئے کافی علمی صلاحیت کی ضرورت ہے اور جن کے یہاں یہ صلاحیت نہ پائی جاتی ہو تو ان کو اس میدان میں نہیں کودنا چاہیے کیونکہ ان کا اس میدان میں وارد ہونا ”مہدوی ثقافت“ کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
جھوٹا دعویٰ کرنے والے
عقیدہ مہدویت کے لئے ایک نقصان دہ چیز اس سلسلہ میں ”جھوٹا دعویٰ کرنے والے“ ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں بعض لوگ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم امام علیہ السلام سے ایک خاص رابطہ رکھتے ہیں یا انکی طرف سے خاص نائب ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام اپنے چوتھے نائب (خاص) کے نام آخری خط میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں:
”چھ دن بعد آپ کی وفات ہو جائے گی، اپنے کاموں کو اچھی طرح دیکھ بھال لو، اور اپنے بعد کے لئے کسی کو وصیت نہ کرنا کیونکہ مکمل غیبت کا زمانہ شروع ہونے والا ہے........ آنے والے زمانہ میں ہمارے بعض شیعہ مجھ سے ملاقات (اور مجھ سے رابطہ کا) دعویٰ کریں گے، خبردار! کہ جو شخص سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پہلے ہمیں دیکھنے کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا ہے“۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۵۴ ، ح ۵۴ ، ص ۴۹۲)
امام علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر شیعہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امام علیہ السلام سے رابطہ رکھنے اور خاص نیابت کے سلسلہ میں دعویٰ کرنے والوں کو جھٹلائے اور اس طرح کے خود غرض اور دنیا پرست لوگوں کے نفوذ کا سدباب کریں۔
اس طرح کے بعض جھوٹا دعویٰ کرنے والوں نے ایک قدم اس سے بھی آگے بڑھایا اور امام علیہ السلام کی نیابت کے دعویٰ کے بعد ”مہدویت“ کے دعویدار بن بیٹھے اور اپنے اس باطل دعویٰ کی بنیاد پر ایک گمراہ فرقہ کی بنیاد ڈال دی اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کرنے کا راستہ ہموا کر دیا۔
( فرقہ بابیت بھی اس طرح کا ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا رہبر ”علی محمد باب“ ہے، جس نے پہلے امام مہدی علیہ السلام کی نیابت کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد مہدی موعود کا دعویٰ کر بیٹھا اور آخرکار اس نے پیغمبری کا بھی دعویٰ کیا اور اسی طرح گمراہ فرقہ نے بہائیت جیسے گمراہ فرقہ کی تشکیل کا راستہ ہموار کیا۔یہ تو ایران میں تھے اور برصغیرمیں غلام احمد قادیانی نے بھی اسی طرح کا دعویٰ کیا اپنا فرقہ بناڈالا)
چنانچہ ان گروہوں کی تاریخ کے مطالعہ کے بعد یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ استعمار کی حمایت اور اس کے اشارہ پر پیدا ہوئے ہیں اور اپنے وجود کوباقی رکھے ہوئے ہیں۔
روشن ہے کہ اس طرح کے منحرف فرقے اور گروہوں کی تشکیل اور ان کا مہدویت یا امام زمانہ علیہ السلام کی نیابت کا دعویٰ کرنے والوں پر اعتماد کرنا ان کی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہے۔
امام مہدی علیہ السلام کی معرفت کے بٍغیر آپ علیہ السلام کے دیدار کا بہت زیادہ شوق، یا آپ علیہ السلام کے سلسلہ میں کم معلومات اور اس سلسلہ میں مکاروں کے وجودسے غافل رہنا، جھوٹے دعویداروں کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔
لہٰذا انتظار کرنے والے شیعہ کو چاہیے کہ مہدوی ثقافت سے لازمی معرفت حاصل کرنے کے ذریعہ خود کو مکار اور حیلہ باز لوگوں سے محفوظ رکھے اور مومن اور متقی شیعہ علماءکی پیروی کرتے ہوئے مکتب اسلام کے روشن راستہ پر قدم بڑھاتا رہے۔
درس کا خلاصہ:
امام مہدی علیہ السلام کے معارف کو لاحق اہم خطرات میں سے اس کی غلط تشریح اور ان تعلیمات سے نادرست فہم ہے۔
مفہوم انتظار نادرست فہم، زمانہ غیبت میں قیام کو باطل سمجھنا اور امام کو ایک سخت حاکم بتانا وغیرہ........ یہ سب امام مہدی علیہ السلام کے عظیم معارف کی غلط فہم و تفسیر کی واضح مثالیں ہیں۔
ظہور کے وقت کو معین کرنا، علامات ظہور کو خود ہی خاص امور پر منطبق کرنا، حضرت سے رابطہ یا ان کی نیابت کے حوالے سے جھوٹے دعوے وغیرہ یہ سب امام مہدی علیہ السلام کے متعلقہ ابحاث کو لاحق اہم خطرات میں سے ہیں۔
درس کے سوالات:
۱ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے متعلقہ بحثوں میں غلط سوچ کی تین مثالیں بیان کریں؟
۲ ۔ وقت معین کرنے، جلد بازی کرنے،ظہور کے وقت معین کرنے سے فرق کی وضاحت کریں؟
۳ ۔ظہورکی نشانیوں کو بعض مصادیق پر منطبق کرنے کے بڑے منفی نتائج کیا ہیں؟
۴ ۔ امام زمانہ عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھ رابطے یا نیابت کے جھوٹے دعویداروں کے مدمقابل امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ الشریف کی توقیع کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعوں کی ذمہ داری کیا ہے؟