پہلا درس
مہدویت پر بحث کی ضرورت
مقاصد:
( ۱) امام مہدی (عج) پر بحث کی ضرورت و اہمیت۔
( ۲) امام مہدی (عج) پر بحث کی ضرورت کے مختلف پہلووں سے آگاہی۔
( ۳) دینی فکر میں امامت اور امام مہدی (عج) کے موضوع کے مقام کی شناخت۔
فوائد:
( ۱) امام مہدی (عج) کے موضوع کی اہمیت پر توجہ اور اس کے مختلف پہلووں پر تحقیق کی ضرورت۔
( ۲) امام کی ضرورت او ر ان سے وابستہ ہونے کا احساس۔
( ۳) امام کے اوصاف کی شناخت۔
تعلیمی مطالب:
( ۱) امام مہدی پر بحث کرنے کی ضرورت۔
( ۲) ان ابحاث کو پیش کرنے کی ضرورت کے ان مندرجہ ذیل پہلووں سے آگاہی:
( ۱ لف) عقائدی(ب) معاشرتی(ج) سیاسی(د) تاریخی(ھ) ثقافتی
( ۳) انسان کے لئے امام کی ضرورت کے دلائل
( ۴) امام کی خصوصیات
(الف) امام کا علم(ب) عصمت امام(ج) امام کی معاشرہ پر حکومت(د) امام کے اخلاقی کمالات(ھ) امام کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے منسوب ہونا۔امام رضا علیہ السلام کا خوبصورت اور جامع فرمان
مہدویت پر بحث کی ضرورت
شاید بعض لوگ یہ سوچیں کہ دیگر عقائدی اور نظریاتی موضوعات میں بنیادی ضرورت کے باوجود حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے سلسلہ میں بحث و گفتگو کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس سلسلہ میں کافی مقدار میں بحث نہیں ہو چکی ہے اور بہت ساری کتابیں اور مضامین نہیں لکھے گئے ہیں؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ مہدویت کی بحث و گفتگو ایک ایسا موضوع ہے جو انسان کی زندگی میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور مختلف پہلووں سے انسانی زندگی پر اثرانداز ہو تا ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں کی گئی بہت سی کاوشوں کے باوجود بھی اس موضوع پر بہت کچھ کہنے کے لئے باقی ہے، اور مناسب ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور صاحبان نظر حضرت اس سلسلہ میں بہت زیادہ کوشش کریں۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ میں بحث و گفتگو کی ضرورت کو واضح کرنے کے لیے یہاں چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
( ۱) حضرت امام مہدی (عجل اﷲ فرجہ الشریف) کا موضوع، امامت کے بنیادی مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے کہ جو شیعوں کے عقائدی اصول میں سے ہے، جس کی قرآن کریم اور اسلامی روایات میں بہت زیادہ اہمیت بتادی گئی ہے اور اس پر تاکید ہوئی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت نے پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے:
مَن مَاتَ وَ لَم یَعرِف اِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مَیتَةً جَاهِلِیَةً
۔ ( بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۰۶۱)
”جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اپنے امام زمانہ (علیہ السلام) کو نہ پہچانتا ہو تو اس کی موت جاہلیت (کفر) کی موت ہو گی (گویا اس نے اسلام سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا ہے)“۔
یقینا یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس سے انسان کی معنوی حیات وابستہ ہے لہٰذا اس مسئلہ پر خاص توجہ اور عنایت کرنی چاہیے؟!
( ۲) حضرت امام مہدی علیہ السلام، ۱ مامت کے پاکیزہ سلسلہ کی بارہویں کڑی ہیں، وہی امامت جو پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی دو نشانیوں میں سے ایک ہے، جیسا کہ شیعہ اور اہل سنت نے پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے:
اِنِّی تَارِک فِی کُم الثَّقَلَینِ کِتَابَ اللّٰهِ وَ عِتَرَتِی ، مَا اِن تَمَسَّکتم بِهِمَا لَن تَضِلُّوا بَعدی اَبَداً
.... (بحارالانوار، ج ۲ ، ص ۰۰۱)
”بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت، جب تک تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے ہرگز میرے بعد گمراہ نہیں ہوں گے“۔
اس بنا پر قرآن کریم کے بعد جو کہ کلام خدا ہے، کونسا راستہ امام علیہ السلام کے راستہ سے زیادہ روشن اور ہدایت بخش ہے؟ اور کیا بنیادی طور پر قرآن کریم اور کلام خدا کو پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے (حقیقی) جانشین کے علاوہ کوئی اور اس کامعنی اور تفسیر کر سکتا ہے؟!
( ۳) حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) زندہ اور حاضر و ناظر ہیں اور آپ کے سلسلہ میں بہت سے سوالات (خصوصا نوجوانوں اور جوانوں کے درمیان) پائے جاتے ہیں، اگرچہ گذشتہ علماءکی کتابوں میں بہت سے سوالات کا جواب دیا گیا ہے، لیکن پھر بھی بہت سے شکوک و شبہات باقی ہیں اور بعض گذشتہ جوابات آج کل کے لحاظ سے مناسب نہیں ہیں۔
( ۴) امامت کی اہمیت اور اس کی مرکزی حیثیت کے پیش نظر دشمنوں نے ہمیشہ شیعوں کو فکری اور عملی لحاظ سے نشانہ بنایا ہے تاکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ میں شبہات اور اعتراضات بیان کرکے ان کے ماننے والوں کو شک و تردید میں مبتلا کر دیا جائے، جیسا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں شک و تردید پیدا کرنا، یا آپ کی طولانی عمر کے مسئلہ کو ایک محال اور غیر عقلی مسئلہ قرار دینا، یا آپ کی غیبت کو غیر منطقی چیز قرار دینا اور اسی طرح کے بہت سے اعتراضات، اس کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے بعض ناواقف برادران مہدویت کے سلسلہ میں کچھ غلط اور بے بنیاد چیزیں بیان کردیتے ہیں، جن سے کچھ لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں یا ان کو گمراہ کر دیا جاتا ہے، مثال کے طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کا انتظار، آپ کا مسلحانہ قیام، آپ کی غیبت کے زمانہ میں آپ سے ملاقات کے امکان وغیرہ کے سلسلہ میں بہت سے غلط اور خلاف حدیث مطالب بیان کئے جاتے ہیں، لہٰذا مہدویت کے سلسلہ میں اس طرح کی غلط باتوں کی صحیح تحقیق کی جائے اور ان اعتراضات کا منطقی اور معقول جواب دیا جائے۔ انہیں چیزوں کی بنا پر اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی نورانی زندگی کے مختلف پہلووں کو بیان کرتے ہوئے آپ کے سلسلہ میں جوانوں کے ذہنوں میں موجودہ سوالات اور آپ کے زمانہ سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیا جائے، نیز عقیدہ مہدویت کے لئے نقصان دہ چیزوں اور بعض غلط افکار کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں تاکہ آخری حجت الٰہی حضرت امام مہدی (عج اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی صحیح اور عمیق معرفت کی راہ میں ایک قدم اٹھا سکیں۔
امامت
پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی معاشرہ میں آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی اور خلافت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم تھا۔ ایک گروہ نے بعض اصحاب پیغمبر کے کہنے پر حضرت ابوبکر کو بعنوان خلیفہ رسول چُن لیا، لیکن دوسرا گروہ آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا معتقد رہا۔ ایک مدت بعد پہلا گروہ اہل سنت و الجماعت اور دوسرا گروہ شیعہ کے نام سے مشہور ہوا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف صرف پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ دونوں کے نقطہ نظر سے ”امام“ کے معنی و مفہوم میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جس کی بنا پر دونوں مذہب ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ ہم اس موضوع کی وضاحت کے لئے ”امام اور امامت“ کے معنی کی تحقیق کرتے ہیں تاکہ دونوں کے نظریات واضح ہو جائیں۔ لغوی اعتبار سے ”امامت“ کے معنی پیشوائی اور رہبری کے ہیں اور ایک معین راہ میں کسی گروہ کی قیادت اور رہبری کرنے والے ذمہ دار فرد کو ”امام“ کہا جاتا ہے۔
دینی اصطلاح میں امامت کے مختلف معنی بیان کئے گئے ہیں: اہل سنت کے نظریہ کے مطابق ”امامت“ دنیوی حکمرانی کا نام ہے (نہ کہ الٰہی منصب کا) کہ جس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی سرپرستی کی جاتی ہے اور جس طرح ہر معاشرہ کو رہبر اور قائد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسلامی معاشرہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد اپنے لیے ایک ہادی اور رہبر کا انتخاب کرے اور چونکہ اس انتخاب کے لئے دین اسلام میں کوئی خاص طریقہ متعین نہیں کیا گیا تو پھر پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی کے لئے مختلف طریقوں کو اپنایاجا سکتا ہے مثلاً عوام الناس یا بزرگوں کی اکثریت کے نظریہ یا گذشتہ جانشین کی وصیت کے مطابق یا بغاوت اور فوجی طاقت کے بل بوتے زبردستی حاکم بننے والا شخص خلیفہ یا امام کہلایا جا سکتا ہے۔
لیکن شیعہ امامت کو نبوت کا استمرار اور امام کو مخلوق کے درمیان حجت خدا اور فیض الٰہی کا واسطہ مانتے ہیں لہٰذا شیعہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”امام“ کو صرف خدا معین فرماتا ہے جس کا پیغمبر یا وحی کا پیغام لانے والے کے ذریعہ تعارف کرواتا ہے اور نظریہ امامت کی اس عظمت اور بلند مقام کے پیش نظر شیعہ طرزِ تفکر میں یہ ہے کہ وہ امام کو نہ صرف اسلامی معاشرہ کا سرپرست اور حاکم مانتے ہیں بلکہ احکام الٰہی کا بیان کرنے والا، مفسر قرآن اور راہ سعادت کی ہدایت کرنے والا مانتے ہیں بلکہ شیعہ ثقافت میں امام عوام کے دینی اور دُنیاوی مسائل کو حل کرنے والے کی ذات کا نام ہے، نہ اس طرح کہ جس طرح اہل سنت معتقد ہیں کہ خلیفہ کی ذمہ داری صرف دُنیاوی معاملات میں حکومت کرنا ہے!۔
امام کی ضرورت
مذکورہ نظریات واضح ہونے کے بعد اس سوال کا جواب دینا مناسب ہے کہ قرآن کریم اور سنت پیغمبر (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے باوجود امام اور دینی رہبر کی کیا ضرورت ہے؟(جیسا کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے)
امام کی ضرورت کے لئے بہت سے دلائل بیان ہوئے ہیں لیکن ہم ان میں سے ایک کو اپنے سادہ بیان میں پیش کرتے ہیں:
جس دلیل کے تحت انبیاءعلیہم السلام کی ضرورت ہے، وہی دلیل ”امام“ کی ضرورت کو بھی ثابت کرتی ہے، کیونکہ ایک طرف سے اسلام آخری دین اور حضرت محمد مصطفی (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) خدا کی طرف سے آخری پیغمبر ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اسلام قیامت تک انسانی ضرورتوں کا جواب رکھتا ہو، دوسری طرف قرآن کریم میں اصول، احکام اور الٰہی تعلیمات عام اور کلی صورت میں ہیں جن کی وضاحت اور تفسیر پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے ذمہ ہے۔
( یہ بات عرض کر دینا مناسب ہے کہ امام معصوم کے ذریعہ ”حکومت تشکیل دینا“ راستہ ہموار ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ لیکن دوسرے تمام فرائض یہاں تک کہ غیبت کے زمانہ میں بھی انجام دینا ضروری ہے، اگرچہ امام علیہ السلام کے ظہور اور لوگوں کے درمیان ظاہر بظاہر ہونے کی صورت میں یہ بات سب پر ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس حصہ میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس میں لوگوں کی معنوی زندگی میں امام کی ضروری ہے لیکن تمام دنیا کو ”وجود امام“ کی ضرورت ہے اس مطلب کو ”امام غائب کے فوائد“ کی بحث میں بیان کیا جائے گا)
لیکن یہ بات روشن ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے مسلمانوں کے ہادی اور رہبر کے عنوان سے اپنے زمانہ کے اسلامی معاشرہ کی ضروریات کے مطابق آیات الٰہی کی تفسیر کو بیان فرمایا، اور اپنے بعد کے لئے ضروری ہے کہ آپ ایک ایسا بلافصل لائق جانشین چھوڑیں جو خداوند عالم کے لامحدود علم کے دریا سے متصل ہوتا کہ جن چیزوں کو پیغمبر اکرم(صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے عام لوگوں کے سامنے بیان نہ کر سکے اور اپنے بعد میں آنے جانے والے جانشین کو ان تمام امور کا علم دے گئے ، ان کو بیان کرے اور ہر زمانہ میں اسلامی معاشرہ کو درپیش مسائل کا جواب پیش کر سکے۔
اسی طرح ائمہ علیہم السلام پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی چھوڑی ہوئی میراث کے محافظ ہیں اور قرآن کریم کے حقیقی مفسر اور اس کے صحیح معنی کرنے والے ہیں تاکہ دینِ خدا خود غرض دشمنوں کے ذریعہ تحریف کا شکار نہ ہو جائے، نیز امامت کا یہ پاک و پاکیزہ سلسلہ قیامت تک باقی رہے گایہ شیعہ نقطہ نظرہے۔
اس کے علاوہ ”امام“ انسان کامل کے عنوان سے انسان کے تمام پہلووں میںانسانی زندگی کے اعلیٰ نمونہ عمل ہے، کیونکہ انسانیت کو ایسے نمونہ کی سخت ضرورت ہے جس کی مدد اور ہدیت کے ذریعہ وہ تربیت پا سکے، نیز ان آسمانی رہبروں کے زیر سایہ انحراف اور اپنے سرکش نفس کے جال اور بیرونی شیاطین سے محفوظ رہ سکے۔
گذشتہ مطالب سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ عوام الناس کے لئے امام کی سخت ضرورت ہے اور امام کے فرائض اور ذمہ داریوں میں بعض اس طرح ہیں:
ة اجتماعی اور سماجی مسائل کا ادارہ کرنا (حکومت کی تشکیل)۔
ة دین خدا کو تحریف سے بچانا اور قرآن کے صحیح معنی بیان کرنا۔
ة لوگوں کے دلوں کا تزکیہ اور ان کی ہدایت و راہنمائی کرنااورتمام پہلووں میں انسان کے لئے عملی نمونہ بننا۔
امام کی خصوصیات
پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا جانشین، دین کو حیات بخشنے کا ضامن اور انسانی معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے، امام وہ ممتاز شخصیت ہے جو پیشوائی اور رہبری کے عظیم الشان مقام کی بنا پر کچھ خصوصیات رکھتی ہیں جن میں سے چند اہم یہ ہیں:
امام، صاحب تقویٰ و پرہیز گار اور صاحب عصمت ہوتا ہے، جس کی بنا پر اس سے ایک معمولی سا گناہ بھی سرزدنہیں ہو تا۔
امام کے علم کا سرچشمہ پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا علم ہوتا ہے اوران کاعلم علم الٰہی سے متصل ہوتا ہے، لہٰذا مادی اور معنوی، دینی اور دنیاوی تمام مسائل کا ذمہ دارامام ہوتا ہے۔امام اللہ کے علم کا مرکز اور ظرف ہوتاہے۔
تمام فضائل سے آراستہ اور اخلاقی بلند درجات پر فائز ہوتا ہے۔
دینی بنیاد پر انسانی معاشرہ کو صحیح طریقہ پر چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ظاہر ہے کہ مذکورہ صفات کے پیش نظر امام کا انتخاب عوام الناس کے بس سے باہر ہے، صرف خداوند عالم ہی اپنے لامحدود علم کی بنیاد پر پیغمبر اکرم (دُنیاوی تمام مسائل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔) کے جانشین کا انتخاب کر سکتا ہے، لہٰذا امام کی اہم خصوصیات میں سے سب سے بڑی خصوصیت ”خداوند عالم کی طرف سے منسوب ہونا“ ہے۔
قارئین کرام! ان خصوصیات کی اہمیت کے پیش نظر ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ وضاحت کرتے ہیں:
علمِ امام
امام (جس پر لوگوں کی ہدایت اور رہبری کی ذمہ داری ہوتی ہے) کے لئے ضروری ہے کہ دین کے تمام پہلووں کو پہچانتا ہوں، اور اس کے قوانین اور تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہی رکھتا ہو، نیز قرآن کریم کی تفسیر کو جانتے ہوئے سنت پیغمبر (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ الٰہی معارف اور دینی تعلیمات کو واضح طور پر بیان کرسکے اور عوام کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کاجواب دے سکے، اور ان کی بہترین طریقہ سے رہنمائی کرے ،ظاہر ہے کہ ایک ایسی ہی علمی شخصیت پر لوگوں کا اعتماد ہو سکتا ہے، اور ایسی علمی پشت پناہی صرف خداوند عالم کے لامحدود عالم سے متصل ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے ، اسی وجہ سے شیعہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام اور پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے جانشین کا علم خدا کے لامحدود علم سے اخذ ہوتا ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کسی سے علم نہیں لیتے، ہر امام اپنے سے پہلے امام سے علم لیتا ہے اسی طرح یہ سلسلہ حضرت علی علیہ السلام تک پہنچتا ہے اور انہوں نے سارا علم رسول اللہ سے لیا ہے اور اس کے علاوہ بھی اللہ کی طرف سے براہ راست ہر امام کو اس کے اپنے زمانہ کے علم میں اضافہ ہوتاہے۔
حضرت امام علی علیہ السلام، امام برحق کی نشانیوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
”امام، حلال خدا، حرام خدا اوران کے متعلق احکام خدا کے امر و نہی اور لوگوں کی ضروریات کے بارے سب سے زیادہ جاننے والا ہوتا ہے“۔(میزان الحکمة، ج ۱ ، ح ۱۶۷)
عصمت امام
امام کی اہم صفات اور امامت کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط ”عصمت“ ہے اور وہ ایک ایسی راسخ حالت یا طبیعت ہے کہ جو حقائق کے علم اور مضبوط ارادہ سے وجود میں آتی ہے اور چونکہ امام میں یہ دو چیزیں پائی جاتی ہیں تو وہ ہر گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ہے، امام بھی دینی معارف اور تعلیمات کی پہچان اور ان کے بیان کرنے نیز ان پر عمل کرنے اور اسلامی معاشرہ میں اچھائیوں اور برائیوں کی تشخیص اور پہچان کی بنا پر خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے۔اسی بنیاد پر آپ کی اطاعت کو دوسروں پر واجب قرار دیا گیاہے۔
امام کی عصمت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و سنت اور عقل سے بہت سے دلائل پیش کئے گئے ہیں، ان میں سے کچھ اہم دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
الف: دین اور دینداری کی حفاظت امام کی عصمت پر موقوف ہے، کیوکہ امام پر دین کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور دین کے بارے ہدایت دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے نیز امام کا کلام، ان کی رفتار اور ان کا کردار اور دوسرے شخص کے عمل کی تائید یا تائید نہ کرنا معاشرہ کے لئے اہم اثرات کے حامل ہوتے ہیں، لہٰذا امام کو فہم دین اور اس پر عمل کرنے میں ہر لغزش و خطا سے محفوظ ہونا چاہیے تاکہ اپنے ماننے والوں کو صحیح طریقہ سے ہدایت کر سکے اورلوگوں کو اطمینان کامل سے ان کی پیروی کرنے میں خدا کی رضا سمجھیں۔
ب: معاشرہ کو امام کی ضرورت کی ایک دلیل یہ ہے کہ عوام دینی شناخت، دینی احکام اور شرعی قوانین کے نافذ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ نہیں ہیں اور اگر ان کا رہبر اور ہادی بھی اسی طرح ہو تو پھر امام پر کس طرح سے مکمل اعتماد کیا جا سکتا ہے!؟ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ اگر امام معصوم نہ ہو تو عوام اس کی پیروی اور اس کے حکم پر عمل کرنے میں شک و تردید میں مبتلا ہو جائیں گے۔
امام کی عصمت پر قرآن کریم کی آیات بھی دلالت کرتی ہیں جن میں سورہ بقرہ کی ۴۲۱ ویں آیت ہے، اس آیہ شریفہ میں بیان ہوا ہے کہ خداوند عالم نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو مقام نبوت عطا کرنے کے بعد امامت کے بلند درجہ پر فائز فرمایا ہے، اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوند عالم کی بارگاہ میں درخواست کی کہ یہ مقام امامت میری نسل میں بھی قرار دے، تو خداوند عالم نے فرمایا: ” یہ میرا عہدہ (امامت) ظالموں اور ستمگروں تک نہیں پہنچ سکتا“، یعنی منصب امامت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں ان حضرات تک پہنچے گا جو ظالم نہ ہوں گے۔
حالانکہ قرآن کریم نے خداوند عالم کے ساتھ شرک کو عظیم ظلم قرار دیا ہے، اور حکم خدا سے اپنے نفس پر تجاوز کوکبھی ظلم سے شمار کیا ہے (جو کہ گناہ ہے)، یعنی جو شخص اپنی زندگی کے کسی بھی حصہ میں گناہ کا مرتکب ہوا ہے تو وہ ظالم ہے اور وہ مقام امامت کے لئے شائستہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے ”امامت“ کو اپنی ذریت اور نسل میں سے ان لوگوں کے لئے نہیں مانگا تھا جن کی پوری عمر گناہوں میں گزرے یا پہلے نیک ہوں لیکن بعد میں بدکار ہو جائیں، اس بنا پر صرف دو قسم کے افراد باقی رہتے ہیں:
۱ ۔ جو لوگ شروع میں گناہگار تھے لیکن بعد میں توبہ کرکے نیک ہو گئے۔
۲ ۔ جن افراد نے اپنی پوری زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
خداوند عالم نے اپنے کلام میں پہلی قسم کو الگ کر دیا، (یعنی پہلے گروہ کو امامت نہیں ملے گی)، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقام ”امامت“ صرف دوسرے گروہ سے مخصوص ہے،(یعنی جن افراد نے اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ہو)۔
امام ہی انسانی معاشرہ کا حاکم ہے
چونکہ انسان ایک سماجی شخصیت کا حامل ہے اور معاشرہ اس کے دل و جان اور رفتار و گفتار میں بہت زیادہ اثرات ڈالتا ہے، اس کی صحیح تربیت اور قربِ الٰہی کی طرف بڑھنے کے لئے اجتماعی راستہ ہموار ہونا چاہیے اور یہ چیز الٰہی اور دینی حکومت کے زیرِ سایہ ہی ممکن ہو سکتی ہے، لہٰذا لوگوں کا ہادی اور رہبر معاشرہ کے نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی کا سہارا لیتے ہوئے بہترین طریقہ سے اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالے۔
امام اخلاقی کمالات سے آراستہ ہوتا ہے
امام چونکہ معاشرہ کا ہادی اور رہبر ہوتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ تمام برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے پاک ہو اور اخلاقی کمالات کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو، کیونکہ وہ اپنے ماننے والوں کے لئے انسان کامل کا بہترین نمونہ شمار ہوتا ہے۔
حضرت امام رضا علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:”امام کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں: ( ۱) وہ سب سے زیادہ عالم، ( ۲) سب سے زیادہ متقی اورپرہیز گار، ( ۳) سب سے زیادہ حلیم، ( ۴) سب سے زیادہ شجاع، ( ۵) سب سے زیادہ سخی، ( ۶) سب سے زیادہ عبادت کرنے والا ہوتا ہے۔ ( معانی الاخبار، ج ۴ ، ص ۲۰۱)
اس علاوہ امام، پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا جانشین ہوتا ہے لہٰذا وہ انسانوں کی تعلیم و تربیت کی ہمہ وقت کوشش کرتا ہے، لہٰذا اسے دیگر لوگوں سے زیادہ الٰہی اخلاق سے آراستہ ہونا چاہیے۔حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:”جو شخص (حکم خدا سے) خود کو لوگوں کا امام قرار دے تو اس کےلئے ضروری ہے کہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے خود اپنی تعلیم کےلئے کوشش کرے اور اپنی رفتار و کردار سے دوسروں کی تربیت کرے، قبل اس کے کہ اپنے کلام سے تربیت کرے“۔ ( میزان الحکمة، باب ۷۴۱ ، ح ۰۵۸)
یہ تو عام راہنماوں کی بات ہے اور جو رسول اللہ کے جانشین ہیں اور ہدایت کا مرکزہیں وہ کس طرح اپنی زندگی کے کسی بھی حصہ میں بچپن سے لے کر آخر عمر تک خطا کار ہو سکتے ہیں۔ اللہ کی جانب سے جو ہدایت کے لئے متعین ہوتے ہیں تو خدا کی طرف سے ان کی عصمت و پاکیزگی اور طہارت کی ضمانت ہوتی ہے۔
امام کو خدا کی طرف سے منسوب ہونا چاہیے
شیعہ نقطہ نگاہ سے امام اور جانشین پیغمبر صرف حکم خدا اور اسی کے انتخاب سے معین ہوتا ہے اور پیغمبر حکم خدا کی بنا پر امام کا تعارف کرواتا ہے، لہٰذا کوئی بھی شخص یا کوئی بھی گروہ اس مسئلہ میں دخالت کا حق نہیں رکھتا۔
امام کے خدا کی طرف سے منسوب ہونے کی ضرورت پر متعدد دلائل ہیں، مثلاً:
الف: قرآن کریم کے فرمان کے مطابق خداوند عالم تمام چیزوں پر حاکم مطلق ہے اور سب پر اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، ظاہر ہے کہ یہ حاکمیت خدوند عالم کی طرف سے (صلاحیت اور شائستگی رکھنے والے) کسی بھی شخص کو عطا ہو سکتی ہے، لہٰذا جس طرح نبی اور پیغمبر خدا کی طرف سے منتخب ہوتا ہے، اسی طرح امام کو بھی خدا متعین کرتا ہے اور وہ لوگوں پر ولایت رکھتا ہے۔یعنی لوگوں کا سرپرست و ولی ہوتاہے۔
ب: اس سے پہلے امام کے لئے کچھ خاص خصوصیات بیان کی گئی ہیں جیسے عصمت، علم وغیرہ، اور یہ بات واضح ہے کہ ان صفات کے حامل شخص کی شناخت اور پہچان صرف خداوند عالم ہی کرا سکتا ہے کیونکہ وہی انسان کے ظاہر و باطن سے آگاہ ہے، جیسا کہ خدوندا عالم قرآن میں جناب ابراہیم علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
”ہم نے تم کو لوگوں کا امام قرار دیا“۔
جامع اور رساتر کلام
گفتگو کے اس آخری حصہ میں ضروری ہے کہ امام ہشتم حضرت علی رضا علیہ السلام کے عظیم کلام کا کچھ حصہ بیان کر دیںجس میں آپ نے امام کی خصوصیات بیان فرمائیں ہیں:
”(جنہوں نے امامت کے مسئلہ میں اختلاف کیا اور یہ گمان کر بیٹھے کہ امامت ایک انتخابی مسئلہ ہے) ان لوگوں نے جہالت کا ثبوت دیا.... کیا عوام الناس اُمت کے درمیان امامت کے مقام و منزلت کو جانتے ہیں تاکہ وہ مل بیٹھ کر امام کا انتخاب کرلیں؟! بے شک امامت کی قدر و منزلت اتنی بلند و بالا، اس کی شان اتنی عظیم المرتبہ، اس کا مقام اتنا عالی، اس کا رتبہ اتنا بلند و رفیع اور اس کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ لوگوں کی عقل کی رسائی اس تک نہیں اور نہ ہی وہ یا اپنی رائے کے ذریعہ اس تک نہیں پہنچ سکتے۔
بے شک امام کی امامت وہ مقام ہے کہ خداوند عالم نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو مقام نبوت و خلت عطا کرنے کے بعد تیسرے مرتبہ میں مقام امامت عطا کیا ہے.... امامت، خلافت خدا اور رسول (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم)، مقام امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام کی میراث ہے، واقعاً امامت دین کی باگ ڈور، نظام مسلمین کی بنیاد اور مومنین کی عزت اور دنیا کی خیر و بھلائی کا سبب ہے........ نماز، روزہ، حج، جہاد کے کامل ہونے کا سبب ہے، نیز امام کے ذریعہ (اس کی ولایت کے قبول کرنے کی صورت میں) سرحدوں کی حفاظت ہے۔
امام، حلالِ خدا کو حلال اور حرام ِ خداکو حرام کرتا ہے (اور خداوند عالم کے حقیقی حکم کے مطابق عمل کرتا ہے)، حدود الٰہی قائم کرتا ہے، خدا کے دین کی حمایت کرتا ہے اور حکمت و موعظہ نیز بہترین دلیل کے ذریعہ خدا کی طرف لوگوں کودعوت دیتا ہے۔
امام آفتاب کی طرح طلوع ہوتا ہے جس کا نور پوری دُنیا کو منور کر دیتا ہے اور وہ خود اُفق میں اس طرح سے ہے کہ اس تک ہاتھ اور آنکھوں کی رسائی نہیں ہو سکتی، امام چمکتا ہوا چاند، روشن چرغ، نور درخشان اور بھرپور اندھیروں، نیز شہروں جنگلوں اور دریاوں کے راستہ میں راہنمائی کرنے والا ستارہ ہے (اور فتنہ فساد) اور جہالت سے نجات دینے والا ہے............
امام، مونس ساتھی، مہربان باپ، حقیقی بھائی، اپنے چھوٹے بچوں کی نسبت نیک و مہربان ماں اور بڑی بڑی مصیبتوں میں لوگوں کے لئے پناہ گاہ ہے۔ امام، گناہوں اور برائیوں سے پاک کرنے والا ہے، وہ مخصوص بردباری اور حلم کی نشانی رکھتا ہے امام اپنے زمانہ کا واحد شخص ہوتا ہے اور ایسا شخص ہوتا ہے جس (کی عظمت)سے کوئی قریب نہیں بھٹک سکتا، اور کوئی بھی دانشور اس کی برابری نہیں کر سکتا، نہ کوئی اس کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اسکا مثل و نظر مل سکتا ہے........
لہٰذا امام کی شناخت اور پہچان کون کر سکتا ہے،یا کون امام کا انتخاب کر سکتا ہے، ھیھات ھیھات! یہاں پر عقل و خرد حیران ہو جاتی ہے، (یہاں پر) آنکھیں بے نور، بڑے چھوٹے حکماءانگشت بدندان، اور خطباءعاجز ہو جاتے ہیں اور ان میں امام کے بافضیلت کاموں کی توصیف کرنے کی طاقت نہیں ہوتی اور یہ سبھی اپنی عجز و ناتوانی کا اقرار کرتے ہیں!!........( اصول کافی، ج ۱ ، باب ۵۱ ، ص ۵۲۲)
درس کا خلاصہ
امام مہدی عجل اﷲ فرجہ الشریف کے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس بحث کے معارف کا بیان اور اس کی مختلف جہات کا تجزیہ ایک اہم کام اور ضروری امر ہے۔
حدیث، من مات........ کی طرف نظر عنایت کی صورت میں امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت واجب ہے۔
حدیث ثقلین کے معنی و مفہوم کے مطابق قرآن و عترت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور ان کا آپس میں جدا ہونا ناممکن ہے۔
امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بعنوان ایک امام حی و حاضر کا عقیدہ ایک مستحکم اور ناقابل اشکال عقیدہ ہے۔
امام مہدی عجل اﷲ فرجہ الشریف کے موضوع کے متعلق شبہات پر توجہ ضروری ہے اور ان کا جواب آج کے دور کے مطابق دینا ہوگا۔
امامت کے حوالہ ے شیعہ و سنی نظریات میں اساسی فرق یہ ہے کہ شیعہ عقائد میں امامت ایک الٰہی منصب ہے جو اصول دین کا جز ہے جبکہ اہل سنت امامت کو ایک دُنیاوی منصب سمجھتے ہیں کہ جس کا اختیار لوگوں کے پاس ہے۔
امام علیہ السلام علم وعصمت اور حاکمیت کے کمالات اور دیگر عالی انسانی صفات سے آراستہ ہوتاہے۔
درس کے سوالات
۱ ۔ موضوع مہدویت کو بیان کرنے کی ضرورت بارے مختلف جہات کو واضح کریں؟
۲ ۔ کیاامامت و خلافت کے بارے میں شیعہ و سنی نظریہ میں بنیادی اختلاف ہے؟واضح کریں؟
۳ ۔ انسان کے لئے امام کی ضرورت کیوں اور کس لئے اس کے فلسفہ و حکمت کو واضح کریں؟
۴ ۔ مقام امامت کی خصوصیات کے پیش نظر امام کے من جانب اﷲ ہونے کی ضرورت پر کیا دلیل ہے؟
۵ ۔ ملکہ عصمت کا سرچشمہ کیا ہے اور امام علیہ السلام کی عصمت کو ثابت کرنے کے دلائل دیں؟