تیسرا درس
ولادت سے امام حسن عسکریعلیہ السلام کی شہادت تک
مقاصد:
۱ ۔ اپنے فرزند ارجمند کے تعارف کے لئے امام عسکری علیہ السلام کی کوششوں پر توجہ
۲ ۔ سب سے آخری حجت خدا سے شیعوں کو آگاہ کرنے کے ذرائع سے آگاہی
فوائد:
۱ ۔ حضرت علیہ السلام کی ولادت کا ثابت ہونا
۲ ۔ بارہویں امام علیہ السلام کا تعین
۳ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ طفولیت اور مخفی دور سے آگہی
تعلیمی مطالب:
۱ ۔ امام علیہ السلام کا تعارف شیعوں کے لئے
۲ ۔ امام مہدی علیہ السلام کے معجزات اور کرامات
۳ ۔ شیعوں کے کی جانب سے بھیجے جانے والے سوالات کے جواب
۴ ۔ لوگوں کے تحائف اور شرعی وجوہات کی وصولی
۵ ۔ اپنے والد گرامی کا نماز جنازہ پڑھان
ولادت باسعادت سے امام عسکری علیہ السلام کی شہادت تک
حضرت امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی حیات طیبہ کا یہ زمانہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
شیعوں کے سامنے امام مہدی (عج اﷲ فرجہ الشریف) کا تعارف
چونکہ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت با سعادت مخفی طور پر ہوئی ہے اسی وجہ سے یہ خوف لاحق تھا کہ شیعہ آخری امام کی پہچان میں غلط فہمی یا گمراہی کا شکارنہ ہو جائیں، حضرت امام عسکری علیہ السلام کی یہ ذمہ داری تھی کہ آپ اپنے بزرگ اور قابل اعتماد شیعہ افراد کے سامنے اپنے فرزند گرامی کی شناخت کرائیں تاکہ وہ امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی ولادت کی خبر اہل بیت علیہم السلام کے دوسرے شیعوں تک پہنچا دیں اور اس صورت میں آپ کی شناخت اور پہچان بھی ہو جائے گی اور آپ کو کوئی خطرہ بھی پیش نہ آئے گا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے خالص شیعہ، ”جناب احمد بن اسحاق“ کہتے ہیں:
”میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا، اور آپ سے سوال کرنا چاہتا تھا کہ آپ کے بعد امام کون ہو گا؟ لیکن میرے کہنے سے پہلے امام علیہ السلام نے فرمایا: اے احمد! بے شک خداوند متعال نے جس وقت سے جناب آدم علیہ السلام کی خلقت کی اسی وقت سے زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑا ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا!اللہ تعالیٰ حجت کے ذریعہ اہل زمین سے بلاوں کو دُور کرتا ہے (اس کے وجود کی برکت سے) بارانِ رحمت نازل فرماتا ہے۔
میں نے عرض کی: یابن رسول اﷲ! آپ علیہ السلام کے بعد امام اور آپ علیہ السلام کا جانشین کون ہے؟
امام علیہ السلام فوراً بیت الشرف کے اندر تشریف لے گئے اور ایک تین سالہ طفل مبارک کو آغوش میں لے کر آئے جس کی صورت چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہی تھی، اور فرمایا: اے احمد بن اسحاق! اگر تم خداوند عالم اور اس کی حجتوں کے نزدیک باعظمت اور گرامی نہ ہوتے تو اپنے اس فرزند کو تمہیں نہ دکھاتا۔ بے شک ان کا نام اور کنیت، رسول اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا نام اور کنیت ہے اور یہ وہی ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے وہ بھر دیں گے جس طرح سے پہلے ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔
میں نے عرض کی: اے میرے مولا و آقا! کیا کوئی ایسی نشانی ہے جس سے میرے دل کو سکون ہو جائے؟!
(اس موقع پر) اس طفل مبارک نے لب کشائی کی اور فصیح عربی میں یوں کلام فرمایا:
اَنَا بَقِیَّةُ اللّٰہِ فِی ار ضِہِ وَال مُنتَقِم مِن اعدَائِہِ....
”میں زمین پر بقیة اﷲ ہوں اور دشمنان خدا سے انتقام لینے والا ہوں“۔ اے احمد بن اسحاق! تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اب کسی نشانی کی ضرورت نہیں!!
احمد بن اسحاق کہتے ہیں: میں (یہ کلام سننے کے بعد) خوش و خرم امام علیہ السلام کے مکان سے باہر آگیا ( کمال الدین، ج ۲ ، باب ۸۳ ، ح ۱ ، ص ۰۸)
اسی طرح محمد بن عثمان ( محمد بن عثمان امام مہدی علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کے دورے نائب خاص تھے، غیبت کی بحث میں ان کی زندگی کے حالات بیان کئے جائیں گے) چنداور بزرگ شیعہ نقل کرتے ہیں:ہم چالیس افراد جمع ہو کر امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، چنانچہ امام علیہ السلام نے اپنے فرزند کی زیارت کرائی اور فرمایا: ”میرے بعد یہی میرے جانشین اور تمہارے امام ہوں گے، تم لوگ ان کی اطاعت کرنا، اور میرے بعد اپنے دین میں تفرقہ نہ ڈالنا ورنہ ہلاک ہو جاو گے اور (جان لو کہ) آج کے بعد ان کو نہیں دیکھ پاو گے ........“(مال الدین، ج ۲ ، باب ۳۴ ، ح ۲ ، ص ۲۶۱)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نومولود بچہ کے لئے عقیقہ دینی حکم اور سنت ہے جس کی تاکید بھی کی گئی ہے کہ بھیڑ وغیرہ ذبح کرے اور بعض مومنین کو کھانا کھلائے جس کی برکت سے بچہ کی عمر طولانی ہوتی ہے۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند (امام مہدی عج اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے لئے عقیقہ کیا ( کمال الدین، ج ۲ ، باب ۲۴)
تاکہ اس بہترین سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے بہت سے شیعوں کو بارہویں امام کی ولادت سے مطلع کریں۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے بیٹے کی ولادت پر تین سو سے زائد مختلف جگہوں پر اپنے خالص شیعوں کو بھجوائے یا انہیں یہ حکم دیا کہ وہ ایسا کریں خود سامرہ میں آپ نے تین ہزار روٹی اور اتنے رطل گوشت فقراءاور مساکین میں تقسیم کیا۔
محمد بن ابراہیم کہتے ہیں:
”امام حسن عسکری علیہ السلام نے ذبح کی ہوئی بھیڑ اپنے ایک شیعہ کو بھیجی اور فرمایا: ”یہ میرے بیٹے ”محمد علیہ السلام“ کے عقیقہ کا گوشت ہے“ ( کمال الدین، ج ۲ ، باب ۳۴ ، ح ۲ ، صفحہ ۸۵۱)
معجزات اور کرامات
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک حصہ بچپن کا زمانہ ہے جس میں آپ علیہ السلام کے ذریعہ بہت سے معجزات اور کرامات رونما ہوئے ہیں، جبکہ اس آخری حجت خدا کی زندگی کے اس حصے سے ہم غافل ہیں، ہم صرف ان میں سے ایک نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ابراہیم بن احمد نیشا پوری کہتے ہیں:
جس وقت عمرو بن عوف نے (جو ایک ظالم اور ستمگر حاکم تھا اور اس نے بہت سے شیعوں کو قتل کیا غارت گری کی) اس نے مجھے قتل کرنے کا ارادہ کیا، میں بہت زیادہ خوفزدہ تھا، میرا پورا وجود خوف سے لرزہ رہا تھا، میں نے اپنے دوستوں اور کنبہ والوں سے خدا حافظی کی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بیت الشرف کی طرف روانہ ہوا تاکہ آپ سے بھی خدا حافظی کر لوں، ارادہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام سے ملاقات کے بعد کہیں بھاگ نکلوںگا، چنانچہ جب امام علیہ السلام کے مکان پر پہنچا تو امام حسن عسکری علیہ السلام کے پا س ایک طفل مبارک کو دیکھا کہ جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا، میں ان کا نور دیکھ کر حیران رہ گیا، اور قریب تھا کہ اپنے ارادہ (قتل کا خوف اور بھاگنے کا ارادہ) کو بھول جاوں۔
(اس موقع پر اس طفل مبارک نے) مجھ سے کہا: ”بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے! بہت جلد ہی خداوند عالم تمہیں اس شر سے محفوظ کر دے گا“۔
میری حیرانی میں مزید اضافہ ہوا، میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے کہا: میں آپ پر قربان! یہ طفل مبارک کون ہے جو میرے ارادوں سے باخبر ہے؟ امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا: یہ میرا فرزند اور میرے بعد جانشین ہے یعنی آپکا بارہواں امام ہے۔
ابراہیم کہتے ہیں: میں باہر نکلا، جبکہ میں خدا کے لطف و کرم کا اُمیدوار تھا، اور جو کچھ بارہویں امام سے سنا تھااس پر یقین رکھتا تھا، چنانچہ چند روز کے بعد میرے چچا نے عمرو بن عوف کے قتل ہونے کی خوشخبری دی۔ ( اثبات الھداة، ج ۳ ، ص ۰۰۷)
سوالوں کے جوابات
آسمان امامت کے آخری روشن ستارے امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ وجہ الشریف) اپنی حیات طیبہ کے آغاز سے مختلف مقامات میں شیعوں کے مختلف سوالات کا مستحکم اور قانع کنندہ جواب دیتے تھے، جن سے شیعوں کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا تھا، چنانچہ ہم یہاں پر ایک روایت نمونہ کے طور پر نقل کرتے ہیں:
سعد بن عبد اﷲ قمی (جو شیعوں میں ایک عظیم شخصیت تھے) احمد بن اسحاق قمی (امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل) کے ہمراہ کچھ سوالات لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوئے، موصوف اس ملاقات کو یوں نقل کرتے ہیں: جب میں نے سوال کرنا چاہا تو امام عسکری علیہ ا لسلام نے اپنے فرزند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے نور چشم سے سوال کرو! اس موقع پر طفل مبارک نے میری طرف رُخ کرکے فرمایا: جو کچھ بھی سوال کرنا چاہو کر لو! میں نے سوال کیا: (قرآن کے حروف مقطعات میں سے) ”کھیعص“ کا مقصد کیا ہے؟ فرمایا: یہ حروف غیب کے مسائل میں سے ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے بندہ (اور پیغمبر) زکریعلیہ السلام کو ان سے مطلع کیا، اور پھر پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے دوبارہ سنایا۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے خداوند عالم سے درخواست کی کہ مجھے پنجتن (آل عبا) کے اسمائے گرامی تعلیم کر دے، تو خداوند عالم نے جناب جبرئیل کو نازل کیا اور ان کو پنجتن کے نام تعلیم دیئے، تو جیسے ہی جناب زکریا نے (ان مقدس اسمائ) محمد (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم)، علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اﷲ علیہا، اور حسن علیہ السلام کا نام زبان پر جاری کیا تو ان کی مشکلات دور ہوگئیں اور جب امام حسین علیہ السلام کا نام زبان پر جاری کیا تو ان کاسینہ بھر آیا اور وہ مبہوت ہو کر رہ گئے، ایک روز اُنہوں نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی: بارِ الٰہا! جس وقت میں ان چار حضرات کا نام لیتا ہوں تو میری پریشانیاں اور مشکلات دُور ہو جاتی ہیں دل کو سکون ملتا ہے لیکن جب میں حسین علیہ السلام کا نام لیتا ہوں تو میرے آنسو جاری ہو جاتے ہین اور میرے رونے کی آواز بلند ہو جاتی ہے، پالنے والے اس کی وجہ کیا ہے؟ تو خداوند عالم نے ان کو حضرت امام حسین علیہ السلام کا واقعہ سنایا اور فرمایا: ”کھیعص“ (اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے) میں ”کاف“ سے مراد واقعہ کربلا، اور ”ہا“ سے ان کے خاندان کی (شہادت و) موت مراد ہے، اور ”یا“ سے ”یزید“ کے نام کی طرف اشارہ ہے جو امام حسین علیہ السلام پر ظلم و ستم کرنے والا ہے اور ”ع“ سے امام حسین علیہ السلام کی عطش اور پیاس مراد ہے ”اور ”صاد“ سے حضرت امام حسین علیہ السلام کا صبر و استقامت مراد ہے........
میں نے سوال کیا: اے میرا مولا و آقا! لوگوں کو اپنے لئے امام معین کرنے سے کیوں روکا گیا ہے؟امام علیہ السلام نے فرمایا: امام معین کرنے سے تمہاری مراد ”امام مصلح“ ہے یا امام مفسدہے؟ میں نے کہا: امام مصلح (جو معاشرہ کی اصلاح کرنے والا ہوتا ہے)، امام علیہ السلام نے فرمایا: کیونکہ کوئی بھی کسی دوسرے کے باطن سے مطلع نہیں ہے کہ وہ خیر و صلاح کے بارے میں سوچتا ہے یا فساد و برائی کے بارے میں، اس صورت میں کیا یہ احتمال نہیں پایا جاتا کہ لوگوں کا انتخاب کیا ہو امام، مفسد (فتنہ و فساد پھیلانے والا) ہونکلے؟ میں نے کہا: اس بات کا احتمال تو پایا جاتا ہے، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بس یہی وجہ ہے کہ امام مصلح کا انتخاب اللہ کی طرف سے ہے۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۳۴ ، ص ۰۹۱)( اس کلام کی وضاحت کتاب کی پہلی فصل میں ”امام کے خدا کی طرف سے منسوب ہونے“ کے عنوان کے تحت بیان ہو چکی ہے)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس روایت کے آخر میں امام زمانہ (عجل اﷲ فرجہ الشریف) نے دوسری وجوہات بھی بیان کی ہیں اور دوسرے سوالات کے جواب بھی عنایت فرمائے ہیں، ہم نے اختصار کی وجہ سے مکمل روایت بیان نہیں کی ہے۔
ہدیے اور تحفے قبول کرنا
شیعہ حضرات امام معصوم علیہ السلام کے لئے تحفے اور مالی واجبات (زکوٰة و خمس) لے جایا کرتے تھے اور امام معصوم بھی ان کو قبول فرما کر غریب اور محتاج لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ احمدابن اسحاق (امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل) کہتے ہیں:
شیعوں کی بھیجی ہوئی کچھ رقم امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی، اس موقع پر امام علیہ السلام کا ایک چھوٹا فرزند جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا امام کے پاس موجود تھا، امام حسن عسکری علیہ السلام نے ان کی طرف رُخ کرکے فرمایا: اے میرے لخت جگر! اپنے شیعوں اور دوستوں کے تحفوں کو کھولو! تو اس طفل مبارک نے کہا: اے میرے مولا و آقا! کیا یہ بات مناسب ہے کہ ان ناپاک اور پست تحفوں کی طرف (اپنے) پاک و پاکیزہ ہاتھوں کو لگاوں جو حلال و حرام سے ملے ہوئے ہیں؟! امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا: اے ابن اسحاق! ان سب کو باہر نکالو تاکہ ان میں سے حلال و حرام کو جدا کیا جائے۔ چنانچہ میں نے ایک تھیلی نکالی، اس طفل مبارک نے کہا: یہ تھیلی قم سے فلاں محلہ اور فلاں شخص کی ہے (اس کا نام اور اس کے محلہ کا نام لیا) جس میں ۲۶ اشرفی تھیں جس میں ۵۴ اشرفی ایک بنجر زمین فروخت کرکے حاصل کی گئی ہے جس کے مالک کو وہ زمین ارث میں ملی تھی اورا س میں ۴۱ دینار ۹ عدد لباس کو فروخت کرکے حاصل کئے گئے ہیں اور ۳ دینا ردکان کے کرایہ کے ہیں۔
امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے فرزند عزیز! آپ نے صحیح فرمایا، اب اس مرد کی راہنمائی کرو کہ (اس مال میں) کونسا مال حرام ہے؟ چنانچہ طفل مبارک نے بھرپور دقت کے ساتھ حرام سکّوں کو معین کیا اور ان کے حرام ہونے کی وجہ واضح طور پر بیان فرمائی! میں نے دوسری تھیلی نکالی، اس طفل مبارک نے اس کے مالک کا نام اور پتہ بتانے کے بعد فرمایا: اس تھیلی میں ۰۵ اشرفی ہیں جس کوہاتھ لگانا ہمارے لئے جائز نہیں ہے اور اس کے بعد اس تمام مال میں سے ہر ایک کے حرام ہونے کی وجہ بیان کی۔ اس موقع پر امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے لخت جگر! آپ نے صحیح فرمایا، اور پھر امام علیہ السلام نے احمد بن اسحاق کی طرف رُخ کرکے فرمایا: اب سب کو ان کے مالکوں کو واپس کر دو، اور ان سے کہنا کہ ان کو ان کے مالکوں کو واپس کر دو، ہمیں اس مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے........
( کمال الدین، ج ۲ ، باب ۳۴ ، ح ۱۲ ، ص ۰۹۱)
پدر بزرگوار کی نماز جنازہ
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت سے پہلے اور مخفی رہنے کے زمانہ کا آخری حصہ اپنے پدربزرگوار کی نماز جنازہ پڑھانا ہے۔
اس سلسلہ میں ابو الاَدیان (امام حسن عسکری علیہ السلام کے خادم) کا کہنا ہے:
”حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں مجھے کچھ خطوط دیئے اور فرمایا: ان کو مدائن شہر میں پہنچا دو، تم ۵۱/ دن کے بعد سامرہ واپس پلٹو گے، اور میرے گھر سے نالہ و شیون کی آواز سنو گے اور (میرے بدن کو) غسل کے تخت پر دیکھو گے، میں نے عرض کی: اے میرے مولا و آقا! جب یہ اتفاق پیش آئے گا تو آپ کے بعد آپ کا جانشین اور امام کون ہو گا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی تم سے خطوط کے جواب طلب کرے وہی میرے بعد امام ہو گا۔ میں نے عرض کی: اس کی کوئی دوسری نشانی بیان فرمائیں!۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بھی میری نماز جنازہ پڑھائے وہی میرے بعد امام ہو گا۔ میں نے عرض کی: کچھ اور نشانی بیان فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص یہ بتا دے کہ اس تھیلی میں کیا ہے؟ (لیکن) امام علیہ السلام کی ہیبت ایسی طاری تھی کہ میں یہ سوال نہ کر سکا کہ اس تھیلی میں کیا ہے۔
میں ان خطوط کو لے کر مدائن گیا اور ان کا جواب لے کر واپس آیا اور جیسا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا ۵۱ دن بعدمیں سامرہ پہنچا، دیکھا کہ امام عسکری علیہ السلام کے بیت الشرف سے نالہ و شیون اور گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہیں، اور امام عسکری علیہ السلام (کے بدن مبارک) کو غسل کی جگہ پر پایا اور دیکھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھائی جعفر دروازہ پر کھڑے ہیں اور بعض شیعہ اس کو بھائی کے انتقال پر تسلیت اور اس کی امامت پر مبارک کہہ رہے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا: اگر یہ (جعفر) امام ہو گئے تو امامت کا سلسلہ تباہ و برباد ہو جائے گا، کیونکہ میں اس کو پہچانتا تھا وہ شرابی اور جواری انسان تھا، (لیکن چونکہ میں نشانیوں کی تلاش میں تھا) میں بھی آگے بڑھا اور دوسروں کی طرح تسلیت اور مبارک عرض کی، لیکن اس نے مجھ سے کسی بھی چیز (منجملہ خطوں کے جوابات) کے بارے میںسوال نہ کیا، اس موقع پر ”عقید“ (امام کے گھر کا خادم) باہر آیا اور اس نے (جعفر کو خطاب) کرتے ہوئے کہا: اے میرے مولا و آقا! آپ کے برادر گرامی (امام عسکری علیہ السلام) کو کفن دیا جا چکا ہے، چلئے نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ میں بھی جعفر اور دوسرے شیعوں کے ساتھ میں امام کے بیت الشرف میں وارد ہوا، میں نے دیکھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو کفن دے کر تابوت میں رکھا جا چکا ہے، جعفر آگے بڑھے تاکہ اپنے بھائی کے جنازہ پر نماز پڑھائیں، لیکن جیسے ہی تکبیر کہنا چاہتے تھے ایک گندم گوں رنگ، گھنگریالے بال اور چمکدار اور باہم پیوستہ دانت والا ایک طفل مبارک آگے بڑھا اور جعفر کا دامن پکڑ کر فرمایا: اے چچا! آپ پیچھے ہٹیں، میں اپنے باپ کے جنازہ پر نماز پڑھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔ چنانچہ جعفر جن کے چہرہ کا رنگ بدل گیا اور وہ شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے اور وہ طفل مبارک آگے بڑھے اور اُنہوں نے امام علیہ السلام کے جنازہ پر نماز پڑھی۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا: تمہارے پاس جو خطوط کے جوابات ہیں وہ ہمیں دے دو! میں نے وہ خطوط ان کو دیئے اور اپنے دل میں کہا: یہ (اس طفل مبارک کی امامت پر) دو نشانیاں مل گئی ہیں او ر صرف تھیلی والا واقعہ باقی رہ گیا ہے، میں جعفر کے پاس گیا اور دیکھا کہ وہ آہیں بھر رہے ہیں۔ کسی ایک شیعہ نے ان سے سوال کیا: یہ طفل مبارک کون ہے؟ جعفر نے کہا: خدا کی قسم میں نے اس کو ابھی تک نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس کوپہچانتا ہوں۔ ابوالادیان مزید کہتے ہیں: ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ اہل قم آئے اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں سوال کرنے لگے اور جب ان کو معلوم ہوا کہ امام عسکری علیہ السلام کی شہادت ہو چکی ہے تو کہنے لگے کہ ہم کس کو تسلیت دیں؟ تو لوگوں نے جعفر کی طرف اشارہ کیا۔ اُنہوں نے جعفر کو سلام کیا اور تسلیت و مبارک پیش کی، اور پھر اُنہوں نے جعفر کو خطاب کرکے کہا: ہمارے پاس کچھ خطوط اور کچھ رقم ہے، آپ صرف یہ بتا دیجئے کہ خطوط کس کے ہیں اور رقم کتنی ہے؟ جعفر ناراض ہو کر اپنی جگہ سے اُٹھے اور کہا: کیا ہم علم غیب جانتے ہیں؟ اس موقع پر امام مہدی علیہ السلام کا خادم باہر نکلا اور اس نے کہا: یہ خطوط فلاں فلاں شخص کے ہیں (اور ان کے نام و پتے بیان کئے) اور تمہارے پاس ایک تھیلی ہے جس میں ہزار دینار ہیں جس میں سے دس دینار کی تصویر مٹ چکی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے وہ خطوط اور وہ رقم اس کو دی اور کہا: جس نے تمہیں یہ چیزیں لینے کے لیے بھیجا ہے وہی امام ہے....“ ( کمال الدین، ج ۲ ، ح ۵۲ ، ص ۳۲۲)
ة....ة....ة....ة....ة
درس کا خلاصہ
امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کی ولادت کے مخفی ہونے کے پیش نظر اپنے مورد اعتماد افراد اور شیعہ بزرگان کے ایک گروہ کو ان کی زیارت سے بہرہ مند کیا تاکہ لوگ اپنے آخری امام کی معرفت میں حیرت و گمراہی کا شکار نہ ہوں۔امام مہدی علیہ السلام نے زمانہ طفولیت میں ہی سعد بن عبد اﷲ کے کلامی اور عقائدی سوالوں کا جواب دیا۔حضرت نے اپنے والد گرامی کے فرمان پر احمد بن اسحاق کے ذریعے شیعوں کے بھیجے گئے تحائف وصول کئے اور ان کے بھیجنے والوں کے بارے میں بتایا، ان سے حلال اور حرام کو جدا کیا اور حرام مال کو ان کے بھیجنے والوں کی طرف پلٹا دیا۔امام عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام مہدی علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کی نماز جنازہ پڑھی۔
سوالات
۱ ۔ امام عسکری علیہ السلام نے کیوں بعض شیعوں کو اپنے فرزند ارجمند کی زیارت کروائی؟
۲ ۔ امام مہدی علیہ السلام نے آیت شریفہ ”انا بقیة اﷲ فی ارضہ“ کسے مخاطب کرتے ہوئے اور کس سوال کے جواب میں قرا ت کی؟
۳ ۔ سعد بن عبد اﷲ قمی کے جواب میں امام زمانہ علیہ السلام نے لوگوں کی طرف سے امام کے منتخب نہ ہونے کی کیا دلیل بیان کی ہے؟
۴ ۔ احمد بن اسحاق کے ذریعے امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شیعوں کے اموال اور تحائف پیش کرنے کا واقعہ تفصیل سے بیان کریں؟
۵ ۔ امام عسکری علیہ السلام نے ابوالادیان کو اپنے بعد امام کی پہچان کے لئے جو تین نشانیاں بتائیں ان کی وضاحت کریں؟