آٹھواں درس
دیدارِ امام علیہ السلام
مقاصد:
۱ ۔ زمانہ غیبت میں شیعوں سے رابطہ کی کیفیت سے آگاہی
۲ ۔ حضرت کے ساتھ ملاقات کی اقسام (اضطراری حالت، عام حالت)
۳ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کی طولانی عمر مبارک کے دلائل
فوائد:
۱ ۔ ملاقات کے مسئلہ میں صحیح شناخت پیدا ہونا
۲ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کی طولانی عمر مبارک پر ظاہری شبہ کا دور ہون
تعلیمی مطالب:
۱ ۔ غیبت صغریٰ میں لوگوں کے حضرت کے ساتھ رابطہ کا غیبت کبریٰ کے ساتھ فرق رکھنا
۲ ۔ ملاقات کا استثنائی صورت میں انجام پانا اور حضرت کی غیبت پر تاکید
۳ ۔ ملاقات کرنے والوں کی مختلف شرائط
۴ ۔ امام زمانہ علیہ السلام سے ملاقات انجام پانے کی مثالیں
۵ ۔ امام زمانہ علیہ السلام کی طولانی عمر مبارک کے اسرار
۶ ۔ طول عمر کے تاریخی شواہد
دیدارِ امام علیہ السلام
زمانہ غیبت کی مشکلات اور تلخیوں میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ اپنے مولا و امام سے دور اور اس بے مثال فخر یوسف کے جمال کے دیدار سے محروم ہیں، زمانہ غیبت کے شروع سے ہی آپ کے ظہور کے منتظر دلوں میں ہمیشہ یہ حسرت دلوں کو بے تاب کرتی رہی ہے کہ کسی صورت میں اس بلند فضیلت کے حامل وجود کا دیدار ہو جائے وہ اس فراق میں آہ و فغاں کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ غیبت صغریٰ میں آپ کے خاص نائبین کے ذریعہ شیعہ اپنے محبوب امام سے رابطہ برقرار کئے ہوئے تھے اور ان میں بعض لوگ امام علیہ السلام کے حضور میں شرفیاب بھی ہوئے ہیں جیسا کہ اس سلسلہ میں متعدد روایات موجود ہیں، لیکن غیبت کبریٰ (جس میں امام علیہ السلام مکمل طور پر غیبت اختیار کئے ہوئے ہیں) میں وہ رابطہ ختم ہو گیا اور امام علیہ السلام سے عام طریقہ سے یا خاص حضرات کے ذریعہ ملاقات کرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔
لیکن پھر بھی بہت سے علماءکا یہ عقیدہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی اس ماہِ منیر سے ملاقات کا امکان ہے اور متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں، بہت سے عظیم الشان علماءجیسے علامہ بحر العلوم، مقدس اردبیلی اور سید اب طاو وس وغیرہ کی ملاقات کے واقعات مشہور و معروف ہیں، جن کو متعدد علماءنے نقل کیا ہے۔ (دیکھئے جنة الماویٰ اور نجم الثاقب، محدث نوری)
لیکن یہاں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ امام زمانہ (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی ملاقات کے سلسلہ میں درج ذیل نکات پر توجہ کرنا چاہیے:۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات بہت ہی زیادہ پریشانی اور بے کسی کے عالم میں ہوتی ہے اور کبھی عام حالات میں اور بغیر کسی پریشانی کی صورت میں، واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ کبھی امام علیہ السلام کی ملاقات مومنین کی نصرت اور مدد کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ بعض پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور تنہائی اور بے کسی کا احساس کرتے ہیں مثلاً مختلف مقامات پر ملاقات کے واقعات جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام علیہ السلام یا ان کے کوئی صحابی تشریف لائے اور اس کو سرگردانی سے نجات دی اور امام علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہیں۔
لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں۔ اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام علیہ السلام کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔
لہٰذا مذکورہ نکتہ مدنظر رہے کہ ہر کسی سے امام علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔اور امام علیہ السلام ہر کسی سے ملتے بھی نہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دوکان چمکانے اورشہرت حاصل کرتے کے پیچھے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں ۔ بعض دعاوں کے پڑھنے اور بعض اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کے دیدار کا وعدہ دیتے ہوئے ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں کہ ان کی محفلوں کے طور طریقوں کا دین یا امام زمان عج سے کوئی ربط نہیں ہوتا اور یوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دینے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام علیہ السلام خداوند عالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف انگشت شمار افراد ہی کے لئے امام علیہ السلام کی ملاقات ہوتی ہے کہ ان کی راہ نجات فقط اسی لطف الٰہی کے مظہر کی براہ راست عنایت پر موقوف ہوتی ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام اس ملاقات میں مصلحت دیکھیں، لہٰذا اگر کوئی مومن امام علیہ السلام کے حضور میں شرفیاب ہونے کے لئے اشتیاق اور رغبت کا اظہار کرے اور بھرپور کوشش کرے لیکن امام علیہ السلام سے ملاقات نہ ہو سکے تو پھر مایوسی اور نااُمیدی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اسے امام علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی نشانی قرار نہیں دینا چاہیے، جیسا کہ جو افراد امام علیہ السلام کی ملاقات سے فیضیاب ہوئے ہیں اس ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی نشانی قرار نہیں دینا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ امام زمانہ علیہ السلام کے جمال پرنور کی زیارت اور دلوں کے محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن ائمہ علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے چلہ کھینچیں، یا جنگلوں میں نکل جائیں بلکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہیے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کےلئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کرنا چاہیے اور ان کے عظیم مقاصد کے لئے قدم بڑھانا چاہیے تاکہ جلد از جلد آخری اُمید جہاں کے ظہور کاراستہ ہموار ہو جائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔
خود امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں:اَکثرُوا الدُّعَاءَ بِتَعجِیَلِ الفَرجِ، فَاِنَّ ذَلِکَ فَرَجُکُم
۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۵۴ ، ح ۴ ، ص ۹۳۲)
”میرے ظہور کے لئے بہت زیادہ دعائیں کیا کرو کہ اس میں تمہاری ہی آسانی (اور بھلائی) ہے“۔یہاں پر مناسب ہے کہ مرحوم حاج علی بغداری (جو اپنے زمانہ کے نیک اور صالح شخص تھے) کی دلچسپ ملاقات کو بیان کریں لیکن اختصار کی وجہ سے اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
”وہ متقی اور صالح شخص ہمیشہ بغداد سے کاظمین جایا کرتے تھے اور وہاں دو اماموں (امام موسیٰ کاظم اور امام محمد تقی علیہما السلام) کی زیارت کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: خمس اور دیگر رقوم شرعی میرے ذمہ تھی، اسی وجہ سے میں نجف اشرف گیا اور ان میں سے ۰۲ تومان عالم فقیہ شیخ انصاری (علیہ الرحمہ) کو اور ۰۲ تومان فقیہ محمد حسین کاظمی (علیہ الرحمہ) کو اور ۰۲ تومان آیت اﷲ شیخ محمد حسن شروقی (علیہ الرحمہ) کو دیئے اور ارادہ یہ کیا کہ اپنے ذمہ دوسرے ۰۲ تومان بغدا کی واپسی پر آیت اﷲ آل یاسین (علیہ الرحمہ) کو دُوںگا۔ جمعرات کے روز بغداد واپس آیا سب سے پہلے کاظمین گیا اور دونوں اماموں کی زیارت کی، اس کے بعد آیت اﷲ آل یاسین کے بیت الشرف پر گیا اور اپنے ذمہ خمس کی رقم کا ایک حصہ ان کی خدمت میں پیش کیا اور ان سے اجازت طلب کی کہ اس میں سے باقی رقم (انشاءاﷲ) بعد میں خود آپ کو یا جس کو مستحق سمجھوں ادا کردُوں گا، اُنہوں نے اس بات کا اصرار کیا کہ انہیں کے پاس رہیں لیکن میں نے اپنے ضروری کام کی وجہ سے معذرت چاہی اور خداحافظی کی اور بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب میں نے اپنا ایک تہائی سفر طے کر لیا تو راستہ میں ایک باوقار سید بزرگوار کو دیکھا، موصوف سبز عمامہ پہنے ہوئے تھے اور ان کے رخسار پر ایک کالے تِل کا نشان تھا اور موصوف زیارت کے لئے کاظمین جا رہے تھے، میرے پاس آئے اور مجھے سلام کیا اور گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے گلے لگایا اور مجھے خوش آمدید کہا اور فرمایا: خیر تو ہے کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے عرض کی: زیارت کرکے بغداد جا رہا ہوں۔ اُنہوں نے فرمایا آج شب جمعہ ہے کاظمین واپس جاو (اور آج کی رات وہیں رہو) میں نے عرض کی : میں نہیں جا سکتا، اُنہوں نے کہا: تم یہ کام کر سکتے ہو،جاو تاکہ میں گواہی دوں کہ میرے جد امیر المومنین علیہ السلام کے اور ہمارے دوستوں میں سے ہو، اور شیخ بھی گواہی دیتے ہیں۔ خداوند عالم فرماتا ہے:(
فَاستَشهِدُاوا شَهِدِینِ مِن رِجَالُکُم
)
(اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ بنا دو)۔(سورہ بقرہ، آیت ۲۸۲)
حاجی علی بغدادی کہتے ہیں: میں نے اس سے پہلے آیت اﷲ آل یاسین سے درخواست کی تھی کہ میرے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس میں اس بات کی گواہی ہو کہ میں اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں اور محبین میں سے ہوں تاکہ اس نوشتہ کو اپنے کفن میں رکھوں، میں نے سید سے سوال کیا: آپ مجھے کیسے پہچانتے ہیں اور کس طرح گواہی دیتے ہیں؟ فرمایا: انسان کس طرح اس شخص کو نہ پہچانے جو اس کا کامل حق ادا کرتا ہو؟ میں نے عرض کی: کونسا حق؟ فرمایا: وہی حق جو تم نے میرے وکیل کو دیا ہے، میں نے عرض کیا: آپ کا وکیل کون ہے؟ فرمایا: شیخ محمد حسن! میں نے عرض کی: کیا وہ آپ کے وکیل ہیں؟ فرمایا: ہاں۔
مجھے ان کی باتوں پر بہت زیادہ تعجب ہوا۔ میں نے سوچا کہ میرے اور ان کے درمیان بہت پرانی دوستی ہے جس کو میں بھول چکا ہوں کیونکہ اُنہوں نے ملاقات کے شروع میں ہی مجھے نام سے پکارا ہے اور میں نے یہ سوچا کہ موصوف چونکہ سید ہیں لہٰذا مجھ سے خمس کی رقم لینا چاہتے ہیں لہٰذا میں نے کہا: کچھ سہم سادات میرے ذمہ ہے اور میں نے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے رکھی ہے۔ موصوف مسکرائے اور کہا: جی ہاں! آپ نے ہمارے سہم کا کچھ حصہ نجف میں ہمارے وکیلوں کو ادا کر دیا ہے، میں نے سوال کیا: کیا یہ کام خداوند عالم کی بارگاہ میں قابل قبول ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: جی ہاں! میں متوجہ ہوا کہ کس طرح یہ سید بزرگوار عصرِ حاضر کے بڑے اور جید علماءکو اپنا وکیل قرار دے رہے ہیں؟ لیکن ایک بار پھر مجھے غفلت سی ہوئی اور اور میں موضوع کو بھول گیا!
میں نے کہا:اے بزرگوار! کیا یہ کہنا صحیح ہے؟ جو شخص شب جمعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے (وہ عذاب خدا سے) امان میں ہے۔ فرمایا: جی ہاں صحیح ہے! اور میں نے دیکھا کہ فوراً ہی موصوف کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئی، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہم نے اپنے آپ کو رک اور راستہ سے گزرے ہوں۔ داخل ہونے والے دروازہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ موصوف نے کہا: زیارت پڑھیں۔ میں نے کہا: بزرگوار میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکوں گا۔ فرمایا: کیا میں پڑھوں تاکہ تم بھی میرے ساتھ پڑھتے رہو؟ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ ان بزرگوار نے پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور ایک ایک امام پر سلام بھیجا، اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے نام کے بعد میری طرف رُخ کرکے فرمایا: کیا تم اپنے امام زمانہ کو پہچانتے ہو؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں پہچانوں گا؟ فرمایا: تو پھر اس پر سلام کرو! میں نے کہا:اَلسَّلَامُ عَلَیکَ یَا حُجَّةَ اللّٰهِ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ یَابنَ الحَسَنِ
وہ بزرگوار مسکرائے اور فرمایا:عَلَیکَ السَّلَامُ وَ رَحمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکَاتُه
۔ اس کے بعد حرم میں وارد ہوئے اور ضریح کا بوسہ لیا، فرمایا: زیارت پڑھیں، میں نے عرض کی: اے بزرگوار میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکتا۔ فرمایاکیا میں آپ کے لئے پڑھوں؟ میں نے عرض کی: جی ہاں! اُنہوں نے مشہور زیارت ”امین اﷲ“ پڑھی اور فرمایا: کیا میرے جد امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں آج شب جمعہ اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی شب ہے۔ اُنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی مشہور زیارت پڑھی۔ اس کے بعد نماز مغرب کا وقت ہو گیا، موصوف نے مجھ سے فرمایا: نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ اور نماز کے بعد وہ بزرگوار اچانک میری نظروں سے غائب ہو گئے، میں نے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے!!
ایک مرتبہ میں سوچنے لگا اور اپنے سے سوال کرنے لگاتو متوجہ ہوا کہ سید نے مجھے نام لے کر پکارا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ کاظمین واپس لوٹ جاوں جبکہ میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ اُنہوں نے عظیم الشان فقہاءکو اپنا وکیل قرار دیا اور آخرکار میری نظروں سے اچانک غائب ہو گئے۔ ان تمام باتوں پر غوروفکر کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ سید زادے میرے امام زمانہ علیہ السلام تھے لیکن افسوس کہ بہت دیر بعد سمجھ سکا۔
(بحارالانوار، ج ۳۵ ، ص ۵۱۳ ، النجم الثاقب، داستان ۱۳)
طولانی عمر
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زندگی سے متعلق بحثوں میں سے ایک بحث آپ علیہ السلام کی طولانی عمر کے بارے میں ہے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک انسان کی اتنی طولانی عمر ہو سکتی ہے؟ (اس وقت ۵۲۴۱ ہجری قمری ہے اور چونکہ امام زمانہ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۵۵۲ ہجری قمری ہے لہٰذا اس وقت آپ کی عمر شریف ۰۷۱۱ سال ہے۔نظر ثانی ۱۲ ذیقعدہ ۹۲۴۱ ھ میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر ۴۷۱۱ سال تین ماہ چھ دن ہے خدا انہیں کروڑوں سال زندہ رکھے(آمین))
اس سوال کا سرچشمہ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانہ میں عام طور پر ۰۸ سے ۰۰۱ سال کی عمر ہوتی ہے ( اگرچہ بعض لوگ سو سال سے زیادہ بھی عمر پاتے ہیں لیکن بہت ہی کم ایسے افراد ملتے ہیں) لہٰذا بعض لوگ ایسی عمر کو دیکھنے اور سننے کی بنا پر اتنی طولانی عمر پر یقین نہیں کرتے، ورنہ تو طولانی عمر کا مسئلہ عقل اور سائنس کے لحاظ سے بھی کوئی ناممکن بات نہیںوضہ کاظمین میں پایا، بغیر اس کے کسی سڑ ہے۔ دانشوروں نے انسانی بدن کے اعضاءکی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بہت زیادہ طولانی عمر پا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کو بڑھاپے اور ضعیفی کا احساس تک نہ ہو۔
برنارڈ شو کہتا ہے:
”بیالوجسٹ ماہرین اور ان کے دانشوروں کے مورد قبول اصولوں میں سے ہے کہ انسان کی عمر کے لئے کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی یہاں تک کہ طول عمر کے لئے بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی“۔ ( راز طول عمر امام زمان علیہ السلام، علی اکبر مہدی پور ص ۳۱)
پروفیسر ”اٹینگر“ لکھتے ہیں:”ہماری نظر میں عصر حاضر کی ترقی اور ہمارے شروع کئے کام کے پیش نظر اکیسویں صدی کے لوگ ہزاروں سال عمر کر سکتے ہیں“۔ ( سورہ صافات، آیات ۴۴۱ ، ۳۴۱) لہٰذا بڑھاپے پر غلبہ پانے اور طولانی عمر پانے کے سلسلہ میں دانشوروں کی کوششیں اور چند کامیاب نتائج سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح (طولانی عمر پانے) کا امکان پایا جاتا ہے اور اس وقت بھی دنیا میں بہت سے افراد ایسے موجود ہیں جو مناسب کھانے پینے اور آب و ہوا اور دوسری بدنی، فکری کارکردگی کی بنا پر ۰۵۱ سال یا اس سے بھی زیادہ عمر پاتے ہیں، اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں بہت سے ایسے افراد پائے گئے ہیں جنہوں نے ایک طولانی عمر پائی ہے اور آسمانی اور تاریخی کتابوں میں بہت سے ایسے افراد کا نام اور ان کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں جن کی عمر آج کل کے انسان سے کہیں زیادہ تھی۔اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں ہم ذیل میں چند نمونے بیان کرتے ہیں:
۱ ۔ قرآن کریم میں ایک ایسی آیت ہے جو نہ صرف یہ کہ انسان کی طولانی عمر کی خبر دیتی ہے بلکہ عمر جاویداں کے بارے میں خبر دے رہی ہے۔ چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:(
فَلَو لَا اَنَّهُ کَانَ مِن المُسَبِّحِینَ لَلَبِتَ فِی بَطِنِهِ اِلٰی یَومِ یُبعَثُون
)
(مجلہ دانشمند سال ۶ ، ش ۶ ، ص ۷۴۱)
”اگر وہ (جناب یونس علیہ السلام) شکم ماہی میں تسبیح نہ پڑھتے تو قیامت تک شکم ماہی میں رہتے“۔
لہٰذا مذکورہ آیہ شریفہ بہت زیادہ طولانی عمر (جناب یونس علیہ السلام کے زمانہ سے قیامت تک) کے بارے میں خبر دے رہی ہے۔ جسے دانشوروں اور ماہرین کی اصطلاح میں ”عمر جاویداں“ کہا جاتا ہے، پس انسان اور مچھلی کے بارے میں طولانی عمر کا مسئلہ ایک ممکن چیز ہے۔ ( خوش قسمتی سے مڈگاسکر کے ساحلی علاقہ میں ۰۰۴ ملین سال (پرانی عمر والی) ایک مچھلی ملی ہے جو مچھلیوں کے لئے اتنی طولانی عمر پر زندہ گوار ہے۔ (روزنامہ کہیان، ش ۳۱۴۶ ، ۲۲ ، ۸ ، ۳۴۳۱ ھ ق)
۲ ۔ قرآن کریم میں جناب نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
”بے شک ہم نے نوح کو ان کی قوم میں بھیجا، جنہوں نے ان کے درمیان ۰۵۹ سال زندگی بسر کی“۔ (سورہ عنکبوت، آیت ۴۱)
مذکورہ آیہ شریفہ میں جو مدت بیان ہوئی ہے وہ انکی نبوت اور تبلیغ کی مدت ہے، کیونکہ بعض روایات کی بنا پر جناب نوح علیہ السلام کی عمر ۰۵۴۲ سال تھی۔
( کمال الدین، ج ۲ ، باب ۶۴ ، ح ۳ ، ص ۹۰۳)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے:”امام مہدی علیہ السلام کی زندگی میں جناب نوح علیہ السلام کی سنت پائی جاتی ہے اور وہ ان کی طولانی عمر ہے“۔ (کمال الدین، ج ۱ ، باب ۱۲ ، ح ۴ ، ص ۱۹۵)
۳ ۔ اور اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
”بے شک ان کو قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کو سولی دی گئی ہے بلکہ ان کو غلط فہمی ہوئی ........، بے شک ان کو قتل نہیں کیا گیا ہے بلکہ خداوند عالم نے ان کو اپنی طرف بلا لیا ہے کہ خداوند عالم صاحب قدرت اور حکیم ہے“۔ (سورہ نسائ، آیت ۷۵۱)
تمام مسلمان قرآن و احادیث کے مطابق اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وہ آسمانوں میں رہتے ہیں، اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت آسمان سے نازل ہوں گے اور آپ کی نصرت و مدد کریں گے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:”ان صاحب امر (امام مہدی علیہ السلام) کی زندگی میں چار انبیاء(علیہم السلام) کی چار سنتیں پائی جاتی ہیں........ ان میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ ان (امام مہدی علیہ السلام) کے بارے میں (بھی) لوگ کہیں گے کہ وہ وفات پا چکے ہیں، حالانکہ وہ زندہ ہیں“۔ (بحار الانوار، ج ۱۵ ، ص ۷۱۲)
قرآن کریم کے علاوہ خود توریت اور انجیل میں بھی طولانی عمر کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی ہے جیسا کہ توریت میں بیان ہوا ہے:”........ جناب آدم کی پوری عمر نو سو تیس سال تھی جس کے بعد وہ مر گئے ”انوش“ کی عمر نو سو پانچ سال تھی، ”قینان“ کی عمر نو سو دس سال کی تھی، ”متوشالح“ کی عمر نو سو انتہر سال تھی“ ( زندہ، روزگاران، ص ۲۳۱ ، (نقل از توریت، ترجمہ فاضلل خانی، سفر پیدائش باب پنجم، آیات ۵ تا ۲۲)
اس بنا پر خود توریت میں متعدد حضرات کی طولانی عمر (نو سو سال سے بھی زیادہ) کا اعتراف کیا گیاہے۔ انجیل میں بھی کچھ ایسی تحریریں ملتی ہیں جن سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام سولی پر چڑھائے جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے اور آسمانوں میں اوپر چلے گئے ( زندہ، روزگاران، ص ۴۳۱ ، (نقل از عہد جدید، کتاب اعمال رسولان، باب اول، آیات ۱ تا ۲۱) اور ایک زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے اور اس وقت جناب عیسیٰ علیہ السلام کی عمر دو ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔
قارئین کرام! اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ”یہود و نصاریٰ“ مذہب کے ماننے والے چونکہ اپنی مقدس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا ان کے لحاظ سے بھی طولانی عمر کا عقیدہ صحیح ہے۔
ان سب کے علاوہ طولانی عمر کا مسئلہ عقل اور سائنس کے لحاظ سے قابل قبول ہے اور تاریخ میں اس کے بہت سے نمونے ملتے ہیں اور خداوند عالم کی نامحدود قدرت کے لحاظ سے بھی قابل اثبات ہے۔ تمام آسمانی ادیان کے ماننے والوں کے عقیدہ کے مطابق کائنات کا ذرہ ذرہ خداوند عالم کے اختیار میں ہے اور تمام اسباب و علل کی تاثیر بھی اسی کی ذات سے وابستہ ہے، اگر وہ نہ چاہے تو کوئی بھی سبب اور علت اثرانداز نہ ہو، نیز وہ بغیر سبب اور علت کے پیدا کر سکتا ہے۔وہ ایسا خدا ہے جو پہاڑوں کے اندر سے اونٹ نکال سکتا ہے اور بھڑکتی ہوئی آگ سے جناب ابراہیم علیہ السلام کو صحیح و سالم نکال سکتا ہے، نیز جناب موسٰی علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کے لئے دریا کو خشک کرکے راستہ بنا سکتا ہے اور وہ پانی کی دو دیواروں کے درمیان سے آرام سے دوسرے کفارے نکل سکتے ہیں۔ (یہ وہ حقائق ہیں کہ جو قرآن میں ذکر ہوئے ہیں۔ سورہ انبیاءآیت ۹۶ ، سورہ شعراءآیت ۳۶) تو کیا تمام انبیاءاور اولیاءکے خلاصہ، آخری ذخیرہ الٰہی اور تمام صالح حضرات کی تمناوں کے مرکز نیز قرآن کریم کے عظیم وعدہ کو پورا کرنے والے کو اگر طولانی عمر عطا کرے تو اس میں تعجب کیا ہے؟!
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:”خداوند عالم ان (امام مہدی علیہ السلام) کی عمر کو ان کی غیبت کے زمانہ میں طولانی کر دے گا اور پھر اپنی قدرت کے ذریعہ ان کو جوانی کے عالم میں (چالیس سال سے کم) ظاہر کرے گا تاکہ لوگوں کو یہ یقین حاصل ہو جائے کہ خداوند عالم ہر چیز پر قادر ہے“۔ (بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۹۰۱) لہٰذا ہمارے بارہویں امام حضرت مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی طولانی عمر مختلف طریقوں، عقل، سائنس اور تاریخی لحاظ سے ممکن اور قابل قبول ہے اور ان سب کے علاوہ خداوند عالم اور اس کی قدرت کے جلووں میں سے ایک جلوہ ہے۔اسی طرح سب کا انفاق ہے کہ ابلیس خلقت آدم سے پہلے تھا اور وہ ایک موجود زندہ ہے، قیامت اسے مہلت ملی ہوئی ہے۔ جب دشمن خدا کے لئے ایک طولانی عمر ہے تو اللہ کی آخری حجت، جن کے ذریعہ ابلیس ملعون کا خاتمہ ہوتا ہے ان کے واسطے طولانی عمر پر تعجب اور حیرانگی کس لئے ہے؟حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اللہ کے عبد صالح حضرت خضر علیہ السلام موجود تھے اور وہ آج تک موجود ہیں ، روایات میں ہے کہ وہ اللہ کے آخری نمائندہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تنہائیوں میں ان کے مونس و غم خوار ہیں، بہر حال طولانی عمر کا مسئلہ حل شدہ ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والے نادان ہیں۔
درس کا خلاصہ:
غیبت کبریٰ میں امام زمانہ علیہ السلام سے ملاقات کبھی پریشانی کی حالت میں اور کبھی عام حالات میں ممکن ہے۔
حضرت مہدی علیہ السلام سے ملاقات کی شرط خود حضرتعلیہ السلام کی اجازت اور اس ملاقات میں کسی مصلحت کا ہونا ہے نہ کہ محض محبت و اشتیاق۔
اگرچہ حضرت کے جمال کی زیارت نہایت ہی محبت بھرے لمحات اور دلی تمناہے لیکن غیبت کے دور میں شیعوں کا جو وظیفہ ہے وہ یہ ہے کہ کہ شرعی احکام پر عمل کریںاور امام کے ظہور کے لئے مقدمات فراہم کریں۔
طول عمر کا موضوع علمی حوالے سے قابل توجیہ ہے اس کی تاریخی مثالیں بھی ہیں اور اس پر قرآنی اور احادیثی شواہد بھی ہیں۔
درس کے سولات:
۱ ۔غیبت کبریٰ کے زمانہ میں امام زمانہ علیہ السلام سے ملاقات کی کتنی صورتیں ہیں، وضاحت کریں؟
۲ ۔ زمانہ غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام سے ملاقات کی اہم شرط کیا ہے؟
۳ ۔کیا روایات میں حضرت کی ملاقات کے لئے کوشش کرنے کو کہا گیا ہے؟ زمانہ غیبت میں شیعوں سے آئمہ علیہم السلام کی کیا خواہش تھی؟
۴ ۔ علم بیالوجی کی رو سے طویل عمر کی حد بندی نہ ہونے کی کیا وضاحت ہے؟
۵ ۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے امام زمانہ علیہ السلام کی طولانی عمر کا اصلی سبب کس چیز کو بتایا ہے؟