مہدویت نامہ

مہدویت نامہ0%

مہدویت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مہدویت نامہ

مؤلف: مصنفین کی جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 20145
ڈاؤنلوڈ: 3007

تبصرے:

مہدویت نامہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20145 / ڈاؤنلوڈ: 3007
سائز سائز سائز
مہدویت نامہ

مہدویت نامہ

مؤلف:
اردو

نواں د رس

انتظار

مقاصد:

۱ ۔ انتظار کے صحیح معنی کی معرفت

۲ ۔ انتظار کے ضروری امور پر توجہ

فوائد:

۱ ۔ شیعہ نقطہ نظرسے انتظار کے مفہوم سے آگاہی

۲ ۔ انتظار کے معیارسے آگہی

۳ ۔ ظہور کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنی اصلاح اورتربیتی امور پر توجہ

تعلیمی مطالب:

۱ ۔ انتظار کی حقیقت

۲ ۔ امام مہدی (عج) کے انتظار کی خصوصیات

۳ ۔ ظہور کے منتظر لوگوں کے وظائف

انتظارکا معنی و مفہوم

جس وقت ظلم کے تاریک سیاہ بادلوں نے آفتاب امامت کے رُخِ انور کو چھپا دیا ہو، دشت و جنگل سورج کی قدم بوسی سے محروم ہو گئے اور درخت و گل اس آفتاب کی محبت کی دوری سے بے جان ہو گئے ہوں تو اس وقت کیا کیا جائے؟ جس وقت خلقت اور خوبیوں کا خلاصہ اور خوبصورتیوں کا آئینہ اپنے چہرہ پر غیبت کی نقاب ڈال لے اور اس کائنات میں رہنے والے اس کے فیض سے محروم ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟

چمن کے پھولوں کو انتظار ہے کہ مہربان باغباں ان کو دیکھتا رہے اور اس کے محبت بھرے ہاتھوں سے آب حیات نوش کریں، دل مشتاق اور آنکھیں بے تاب ہیں تاکہ اس کے جمال پُرنور کا دیدار کریں، اور یہیں سے ”انتظار“ کے معنی سمجھ آتے ہیں، جی ہاں! سبھی منتظر ہیں تاکہ وہ آئے اور اپنے ساتھ نشاط اور شادابی کا تحفہ لے کر آئے۔

واقعاً ”انتظار“ کس قدر خوبصورت اور شیریں ہے اگر اس کی خوبصورتی کو نظر میں رکھا جائے اور اس کی شیرینی کو دل سے چکھا جائے۔تو یہ انتہائی لطف اندوزاور مزیدار ہے۔

انتظار کی حقیقت اور اس کی عظمت

”انتظار“ کے مختلف معانی کئے گئے ہیں، لیکن اس لفظ پر غور و فکر کے ذریعہ اس کے معنی کی حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے، انتظار کے معنی کسی محبوب کے لئے اپنی آنکھیں بچھانا ہے اور یہ انتظارکی شرائط اوراس کے اسباب کے لحاظ سے اہمیت حاصل کرتا ہے جس سے بہت سے نتائج ظاہر ہوتے ہیں، انتظار صرف ایک رُوحانی اور اندرونی حالت نہیں ہے بلکہ اندر سے باہر کی طرف اس کااثر ہے جس سے انسان اپنے باطنی احساس کے مطابق عمل کرتا ہے، اسی وجہ سے روایات میں ”انتظار“ کو ایک عمل بلکہ تمام اعمال میں بہترین عمل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے، انتظار ”منتظر“ کو حیثیت عطا کرتا ہے اور اس کے کاموں اور اس کی کوششوں کو ایک خاص طرف ہدایت دیتا ہے اور انتظار وہ راستہ ہے جو اسی چیز پر جا کر ختم ہوتا ہے جس کا انسان انتظار کررہا ہوتاہے۔

لہٰذا ”انتظار“ کے معنی یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا، انتظار اسے نہیں کہتے کہ انسان دروازہ پر آنکھیں جمائے رکھے اور حسرت لئے بیٹھا رہے بلکہ درحقیقت ”انتظار‘‘ میں نشاط اور شوق و جذبہ پوشیدہ ہوتا ہے۔

جو لوگ کسی محبوب مہمان کا انتظار کررہے ہوتے ہیںتو وہ خود کواپنے اردگرد کے ماحول کو مہمان کے لئے تیار کرتے ہیں اور اس کے راستہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں۔

گفتگو اس بے نظیر واقعہ کے انتظار کے بارے میں ہے جس کی خوبصورتی اور کمال کی کوئی حد نہیں ہے، انتظار اس زمانہ کا ہے کہ جس میںخوشی اور شادابی کی مثال گذشتہ زمانوں میں نہیں ملتی اور اس دُنیا میں اب تک ایسا زمانہ نہیں آیا اور یہ وہی حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی عالمی حکومت کا انتظار ہے جس کو روایات ”انتظار فَرَج “ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اس حالت کو تمام اعمال و عبادت میں بہترین قرار دیا گیا ہے بلکہ تمام ہی اعمال قبول ہونے کا وسیلہ اسے قرار دیا گیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

”میری اُمت کا سب سے بہترین عمل ”انتظار فَرَج “ ہے۔ (بحارالانوار، جلد ۲۵ ، ص ۲۲۱)

حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

”کیا تم لوگوں کو اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس کے بغیر خداوند عالم اپنے بندوں سے کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا؟ سب نے کہا: جی ہاں! امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی وحدانیت کا اقرار پیغمبر اسلام (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت کی گواہی، خداوند عالم کی طرف سے نازل ہونے والی چیزوں کا اقرار، اور ہماری ولایت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری (یعنی مخصوصاً ہم اماموں کے دشمنوں سے بیزاری) اور آئمہ (علیہم السلام) کی اطاعت کرنا، تقویٰ و پرہیزگاری اور کوشش و بردباری اور قائم (آل محمد) علیہم السلام کا انتظار“۔ (غیبت نعمانی، باب ۱۱ ، ح ۶۱ ، ص ۷۰۲)

پس ”انتظار فَرَج “ ایسا انتظار ہے جس کی کچھ خاص خصوصیات اور منفرد امتیازات ہیں جن کو کماحقہ پہچاننا ضروری ہے تاکہ اس کے بارے میں بیان کئے جانے والے تمام فضائل اور آثار کا راز معلوم ہو سکے۔

امام زمانہ (علیہ السلام) کے انتظار کی خصوصیات

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہر قوم و ملت اور ہر دین و مذہب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ہے، لیکن انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں پایا جانے والا عام انتظار اگرچہ عظیم اور بااہمیت ہو لیکن امام مہدی علیہ السلام کے انتظار کے مقابلہ میں چھوٹا اور ناچیز ہے کیونکہ آپ کے ظہور کا انتظار خاص امتیازات رکھتا ہے۔

امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا انتظار ایک ایسا انتظار ہے جو کائنات کی ابتداءسے موجود تھا یعنی بہت قدیم زمانہ میں انبیاءعلیہم السلام اور اولیائے کرام آپ کے ظہور کی بشارت دیتے تھے اور قریبی زمانہ میں ہمارے تمام ائمہ (علیہم السلام) آپ کی حکومت کے زمانہ کی آرزو رکھتے تھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

”اگر میں ان (امام مہدی علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت کرتا“۔

امام مہدی علیہ السلام کا انتظار ایک عالمی اصلاح کرنے والے کا انتظار ہے، عالمی عادلانہ حکومت کا انتظار ہے اور تمام ہی اچھائیوں کے متحقق ہونے کا انتظار ہے۔ چنانچہ اسی انتظار میں عالم بشریت آنکھیں بچھائے ہوئے ہے اور خداداد پاک و پاکیزہ فطرت کی بنیاد پر اس کی تمنا کرتا ہے اور کسی بھی زمانہ میں مکمل طور پر اس تک نہیں پہنچ سکا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام اسی شخصیت کا نام ہے جو عدالت اور معنویت، برادری اور برابری، زمین کی آبادانی، صلح و صفا، عقل کی شکوفائی اور انسانی علوم کی ترقی کو تحفہ میں لائیں گے اور استعمار و غلامی، ظلم و ستم اور تمام اخلاقی برائیوں کا خاتمہ کرنا آپ کی حکومت کا ثمر ہو گا۔

امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا انتظار ایک ایسا انتظار ہے جس کی شکوفائی کے اسباب فراہم ہونے سے خود انتظار بھی شگوفہ ہو جائے گی اور وہ ایسا زمانہ ہے کہ جب تمام انسان آخر الزمان میں اصلاح کرنے والے اور نجات بخشنے والے کی تلاش میں ہوں گے وہ آئیں گے تاکہ اپنے ناصر و مددگاروں کے ساتھ برائیوں کے خلاف قیام کریں نہ یہ کہ صرف اپنے معجزہ سے پوری کائنات کے نظام کو بدل دیں گے۔بلکہ پیار و محبت بھرے انداز سے سارے انسانوں کے دل موہ لیں گے افتراق ختم محبت عام ہو جائے گی۔

امام مہدی علیہ السلام کا انتظار ان کے منتظرین میں ان کی نصرت و مدد کا شوق پیدا کرتا ہے اور انسان کو انسانیت اور حیات عطا کرتا ہے، نیز اس کو بے مقصد زندگی اور گمراہی سے نجات عطا کرتا ہے۔

قارئین کرام! یہ تھیں اس انتظار کی بعض خصوصیات جو تمام تاریخ کی وسعت کے برابر ہیں اور ہر انسان کی روح میں اس کی جڑیں ملتی ہیں اور کوئی دوسرا انتظار اس عظیم انتظار کی خاک و پا بھی نہیں ہو سکتا، لہٰذا مناسب ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کے انتظار کے مختلف پہلووں اور اس کے آثار و فوائد کو پہچانیں اور آپ علیہ السلام کے ظہور کے منتظریں کے فرائض اور اس کے بے نظیر ثواب کے بارے میں گفتگو کریں۔

امام علیہ السلام کی انتظار کے مختلف پہلو

خود انسان میں مختلف پہلو پائے جاتے ہیں: ایک طرف تو نظری (تھیوری) اور عملی (پریکٹیکل) پہلو اس میں موجود ہے اور دوسری طرف اس میں ذاتی اور اجتماعی پہلو بھی پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے رخ سے جسمانی پہلو کے ساتھ روحی اور نفسیاتی پہلو بھی اس میں ہوتا ہے جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ پہلووں کے لئے معین قوانین کی ضرورت ہے تاکہ ان کے تحت انسان کے لئے زندگی کا صحیح راستہ کھل جائے اور منحرف اور گمراہ کن راستہ بند ہو جائے۔

امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور کا انتظار، منتظر کے تمام پہلووں پر مو ثر ہے مثلاً انسان کے فکری اور نظری پہلو پر اثرات ڈالتا ہے کہ جو انسان کے اعمال و کردار کا بنیادی پہلو ہے اور انسانی زندگی کے بنیادی عقائد پر اپنے حصار کے ذریعہ حفاظت کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ صحیح انتظار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ منتظر اپنی اعتقادی اور فکری بنیادوں کو مضبوط کرے تاکہ گمراہ کرنے والے مذاہب کے جال میں نہ پھنس جائے یا امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہو جانے کی وجہ سے یاس و نااُمیدی کے دلدل میں نہ پھنس جائے اور گمراہ نہ ہوجائے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

”لوگوں پر ایک زمانہ وہ آئے گا کہ جب ان کا امام غائب ہو گا، خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس زمانہ میں ہمارے امر (یعنی ولایت) پر ثابت قدمی سے باقی رہے“۔ (کمال الدین، ج ۱ ، ح ۵۱ ، ص ۲۰۶) یعنی غیبت کے زمانہ میں دشمن نے مختلف شبہات کے ذریعہ یہ کوشش کی ہے کہ شیعوں کے صحیح عقائد کو ختم کر دیا جائے، لیکن ہمیں انتظار کے زمانہ میں اپنے عقائد کی سرحدوں کی حفاظت کرنا چاہیے۔

انتظار، عملی پہلو میں انسان کے اعمال اور کردار کو راستہ اور ہدف دیتا ہے، ایک حقیقی منتظر کو عمل کے میدان میں کوشش کرنا چاہیے کہ امام مہدی علیہ السلام کی حکومت حق کا راستہ فراہم ہو جائے، لہٰذا منتظر کو اس سلسلہ میں اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے کمرِ ہمت باندھنا چاہیے نیز اپنی زندگی میں اپنی رُوحانی اور نفسیاتی حیات اور اخلاقی فضائل کو کسب کرنے کی طرف مائل ہو رہے اور اپنے جسم و بدن کو مضبوط کرے تاکہ ایک کارآمد طاقت کے لحاظ سے ہدایت کے نورانی مورچہ کے لئے تیار رہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

”جو شخص امام قائم علیہ السلام کے ناصر وں اور مددگاروں میں شامل ہونا چاہتا ہے تواسے انتظار کرنا چاہیے اور انتظار کی حالت میں وہ تقویٰ و پرہیزگاری کا راستہ اپنائے اور نیک اخلاق سے خودکومزین کرے“۔ (غیبت نعمانی، باب ۱ ، ح ۶۱ ، ص ۰۲۲)

اس ”انتظار“ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو اپنی ذات سے بلند کرتا ہے اور اس کو معاشرہ کے ہر شخص سے جوڑ دیتا ہے یعنی انتظار نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی پر مو ثر ہوتا ہے بلکہ معاشرہ میں انسان کے لئے خاص منصوبہ بھی پیش کرتا ہے اور معاشرہ میں مثبت قدم اُٹھانے کی رغبت بھی دلاتا ہے اور چونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت اجتماعی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا ہر انسان اپنے لحاظ سے معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور معاشرہ میں پھیلی برائیوں کے سامے خاموش اور بے توجہ نہ رہے کیونکہ عالمی اصلاح کرنے والے کے منتظر کو فکر و عمل کے لحاظ سے اصلاح اور خیر کے راستہ کو اپنانا چاہیے۔

مختصر یہ ہے کہ ”انتظار“ ای ایسا مبارک چشمہ ہے جس کا آب حیات انسان اور معاشرہ کی رگوں میں جاری ہے اور زندگی کے تمام پہلووں میں انسان کو الٰہی رنگ اور حیات عطا کرتا ہے، پس خدائی رنگ سے بہتر اور ابدی رنگ اور کونسا ہو سکتا ہے؟

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( صِبغَةَ اللّٰهِ وَمَن اَحسَنُ مِن اللّٰهِ صِبغَةً وَنَحنُ لَهُ عَابِدُونَ ) (سورہ بقرہ، آیت ۸۳۱)

”رنگ تو صرف اﷲ کا رنگ ہے اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے اور ہم سب اسی کے عبادت گزار ہیں“۔

مذکورہ مطالب کے پیش نظر مصلح کل حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین کا فریضہ ”الٰہی رنگ اپنانے“ کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو انتظار کی برکت سے انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلووں میں جلوہ گر ہوتا ہے، جس کے پیش نظر ہمارے وہ فرائض ہمارے لئے مشکل نہیں ہوں گے بلکہ ایک خوشگوار واقعہ کے عنوان سے ہماری زندگی کے ہر پہلو میں ایک بہترین معنی و مفہوم عطا کرے گا۔ واقعاً اگر ملک کا مہربان حاکم اور امیر قافلہ ہمیں ایک شائستہ سپاہی کے لحاظ سے ایمان کے خیمہ میں بلائے اور حق و حقیقت کے مورچہ پر ہمارے آنے کا انتظار کرے تو پھر ہمیں کیسا لگے گا؟ کیا پھر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی پریشانی ہو گی کہ یہ کام کرو اور ایسا بنو، یا ہم خود چونکہ انتظار کے راستہ کو پہچان کر اپنے منتخب مقصد کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے نظر آئیں گے؟!

منتظرین کے فرائض

دینی رہبروں کے ذریعہ احادیث اور روایات میں ظہور کا انتظار کرنے والوں کے بہت سے فرائض بیان کئے گئے ہیں، ہم یہاں پر ان میں سے چند اہم فرائض کو بیان کرتے ہیں:

امام کی معرفت

راہ انتظار کو طے کرنا امام علیہ السلام کی شناخت اور معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انتظار کی وادی میں صبر و استقامات کرنا امام علیہ السلام کی صحیح شناخت سے وابستہ ہے۔ لہٰذا امام مہدی علیہ السلام کے اسم گرامی اور نسب کی شناخت کے علاوہ ان کی عظمت اور ان کے رتبہ و مقام کی کافی حد تک شناخت بھی ضروری ہے۔

”ابونصر“ جو امام حسن عسکری علیہ السلام کے خادم تھے، امام مہدی علیہ السلام کی غیبت سے پہلے امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام مہدی (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے ان سے سوال کیا: کیا مجھے پہچانتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا: جی ہاں! آپ نے میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے فرزند ہیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نہیں ہے!؟ ابو نصر نے عرض کی: آپ ہی فرمائیں کہ آپ کا مقصد کیا تھا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

”میں پیغمبر اسلام (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کا آخری جانشین ہوں، اور خداوند عالم میری (برکت کی) وجہ سے ہمارے خاندان اور ہمارے شیعوں سے بلاو ں کو دُور فرماتا ہے“۔(کمال الدین ج ۲ ، باب ۳۴ ،ح ۲۱ ،ص ۱۷۱)

اگر منتظر کو امام علیہ السلام کی معرفت حاصل ہو جائے تو پھر وہ اسی وقت سے خود کو امام علیہ السلام کے مورچہ پر دیکھے گا اور احساس کرے گا کہ اپنے امام سے تعلق ہے اور یہی تعلق اس کی نجات کا وسیلہ بن جائے گا معرفت کے بارے مزیدمعلومات کے لئے معرفت امام زمانہ علیہ السلام اور ہماری ذمہ داریاں کامطالعہ کریں۔

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جو معرفت مطلوب ہے وہ سادہ پہچان اور نسبی آگاہی سے بڑھ کر ہے، اس میں تسلیم اور اپنے امام سے ولایت و محبت اور ان کی اطاعت کو اپنے لئے واجب قرار دینا ہے اوریہ جاننا ہے کہ ان کی جانب سے کیا مجھ پر واجب ہے اور میرے مولا مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟

مثال

حضرت امام حسین علیہ السلام کو کربلا میں موجود سارے لوگ خاندانی پس منظر سے پہچانتے اور جانتے تھے لیکن آپ کو امام علیہ السلام تسلیم نہیں کرتے تھے اور آپ علیہ السلام کی اطاعت کو واجب اور فرض نہیں جانتے تھے گویا وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو رسول اللہ کا قائمقام، جانشین اور خلیفہ سمجھتے تھے،آپ کے فضائل جانتے تھے آپ کے نسب سے آگاہ تھے ، لیکن آپ کو اپنا امام ورہبر،قائد اور واجب اطاعت خلیفہ رسول نہیں جانتے تھے۔پس ایسے لوگ ہی کفر و جہالت کی موت مر گئے ۔

بالکل اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کامسئلہ ہے کہ آج رسول اللہ کے خلیفہ، وصی، قائمقام امام مہدی علیہ السلام ہیں ان کی اطات اسی طرح فرض ہے جس طرح رسول اللہ کی اطاعت فرض ہے، ایسا ایمان ہی انسان کو کفر و جاہلیت کی موت سے بچاتاہے۔

امام علیہ السلام کے ساتھ عہد و پیمان

ہر مومن کی ذمہ داری ہے کہ روزانہ اپنے امام علیہ السلام سے عہدوپیمان باندھے اور آپ سے بیعت کی تجدید کرے، اس کے لئے دعاوں اور زیارات کے پڑھنے کا حکم وارد ہوا ہے جو کہ مفاتیح الجنان اور دعاوں کی کتابوں میں موجود ہیں، اس میں دعائے عہدمشہور ہے جسے روزانہ صبح کی نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے روایت میں وارد ہواہے۔

”جو شخص چالیس دن تک ہر صبح کو اپنے خدا سے یہ عہد کرے تو خدا ان کو ہمارے قائم (علیہ السلام) کے ناصر و مددگار قرار دے گا، اور اگر امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے اس کی موت بھی آجائے تو خداوند عالم اس کو قبر سے اُٹھائے گا (تاکہ حضرت قائم علیہ السلام کی نصرت و مدد کرے)....

وحدت اور ہم دلی

قبیلہ انتظار کے ہر فرد کا شخصی فرائض اور ذمہ داری کے علاوہ انتظار کرنے والے اپنے امام(علیہ السلام) کے اہداف اور مقاصد کے سلسلہ میں خاص منصوبہ بندی کریں، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انتظار کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اس راہ میں سعی و کوشش کریں جس سے ان کا امام راضی اور خوشنود ہو۔

لہٰذا انتظار کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے امام سے کئے ہوئے عہد و پیمان پر باقی رہیں تاکہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے راستہ ہموار ہو جائے۔

امام عصر علیہ السلام اپنے بیان میں اس طرح کے افراد کے لئے یہ بشارت دیتے ہیں:

”اگر ہمارے شیعہ (کہ خداوند عالم ان کو اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے) اپنے کئے ہوئے عہد و پیمان پر ایک دل اور مصمم ہوں تو ہرگز (ہمارے) دیدار کی نعمت میں دیر نہیں ہو گی اور مکمل و حقیقی معرفت کے ساتھ ہماری ملاقات جلد ہی ہو جائے گا“۔ (احتجاج، ج ۲ ، ش ۰۶۳ ، ص ۰۰۶)

وہ عہد و پیمان وہی ہے جو نکتہ خدا اور الٰہی نمائندوں کے کلام میں بیان ہوا ہے، جن میں سے چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱ ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کرنے کی ہر ممکن کوشش، اور آئمہ علیہم السلام کے چاہنے والوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا:

”خوش نصیب ہے وہ شخص جو میری نسل کے قائم کو اس حال میں دیکھے کہ ان کے قیام سے پہلے خود ان کی اور ان سے پہلے ائمہ کی پیروی کرے اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرے، تو ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ہیں اور روز قیامت میرے نزدیک میری اُمت کے سب سے عظیم افراد ہیں“۔ (کمال الدین، ج ۱ ، باب ۵۲ ، ح ۲ ، ص ۵۳۵)۲ ۔ دین میں تحریفات، بدعتوں اور معاشرہ میں پھیلتی ہوئی برائیوں اور فحشاءکے مقابلہ میں انتظار کرنے والوں کو بے توجہ نہیں رہنا چاہیے، بلکہ نیک سنتوں اور اخلاقی اقدار کو بھلائے جانے پر ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

حضرت رسول اسلام (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

”البتہ اس امت کے آخری زمانہ (آخر الزمان) میں ایک گروہ آئے گا جس کا ثواب اسلام میں سبقت کرنے والوں کی طرح ہو گا، وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوں گے اور اہل فتنہ ( و فساد) سے جنگ (مقابلہ) کرتے ہوں گے“۔ (دلائل النبوة، ج ۶ ، ص ۳۱۵)

۳ ۔ ظہور کا انتظار کرنے والوں کا یہ فریضہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعاون اور نصرت و مدد کو اپنے منصوبوں میں پیش نظر رکھیں اور اس معاشرہ کے افراد تنگ نظری اور خود پرستی سے پرہیز کرتے ہوئے معاشرہ میں غریب اور نیازمند لوگوں پر دھیان دیں، اور ان کے سلسلہ میں لاپرواہی نہ کریں۔

شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت محمد باقر علیہ السلام سے نصیحت فرمانے کی درخواست کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

”تم میں سے صاحب حیثیت لوگ غریبوں کی مدد کریں اور مالدار افراد نیازمندوں کے ساتھ محبت و مہربانی سے پیش آئین اور تم میں سے ہر شخص دوسرے کی نسبت نیک نیتی سے کام لے“۔( بحارالانوار، ج ۲۵ ، باب ۲۲ ، ص ۳۲۱) قابل ذکر ہے کہ اس تعاون اور مدد کا دائرہ فقط ان کے اپنے علاقہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انتظار کرنے والوں کا خیر اور احسان دور دراز علاقوں میں بھی پہنچتا ہے کیونکہ انتظار کے پرچم تلے کسی طرح کی جدائی اور غیریت کا احساس نہیں ہوتا۔

۴ ۔ انتظار کرنے والے معاشرہ کے لئے ضروری ہے کہ معاشرہ میں مہدی رنگ و بو پیدا کریں، ان کے نام اور ان کی یاد کا پرچم ہر جگہ لہرائیں اور امام علیہ السام کے کلام اور کردار کو اپنی گفتگو اور عمل کے ذریعہ عام کریں اور اسی راہ میں اپنے پورے وجود کے ذریعہ کوشش کریں کہ بے شک ائمہ معصومین علیہم السلام کا لطف خاص ان کے شامل حال ہو گا۔

عبد الحمید واسطی، امام محمد باقر علیہ السلام کے صحابی آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:

”ہم نے اَم رِفَرَج (ظہور) کے انتظار میں اپنی پوری زندگی وقف کر دی، جو ہم میں سے بعض کے لئے پریشانی کا باعث ہوا!

امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:

اے عبد الحمید! کیا تم یہ گمان کرتے ہوئے کہ خداوند عالم نے اس بندہ کے لئے جس نے اپنے خداوند عالم کے لئے وقف کر دیا ہے اس کے لئے مشکلات سے نجات کے لئے کوئی راستہ نہیں قرار دیا ہے؟ خدا کی قسم! اس نے ایسے لوگوں کے لئے راہِ حل قرار دی ہے، خداوند عالم رحمت کرے اس شخص پر جو ہمارے امرِ (ولایت) کو زندہ رکھے“۔

( بحارالانوار، ج ۲۵ ، باب ۲۲ ، ح ۶۱ ، ص ۶۲۱)

آخری نکتہ یہ ہے کہ انتظار کرنے والے معاشرہ کو کوشش کرنی چاہیے کہ تمام اجتماعی پہلووں میں دوسرے معاشروں کے لئے نمونہ قرار پائے اور منجی عالم بشریت کے ظہور کے لئے تمام لازمی راستوں کو ہموار کرے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انتظار کے فوائد

بعض لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ عالمی پیمانے پر اصلاح کرنے والے (امام علیہ السلام) کا انتظار انسان کو حالت جمود اور غیر ذمہ داری میں قرر دے دیتا ہے۔ جو لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ایک عالمی سطح پر اصلاح کرنے والا آئے گا اور ظلم و جور اور برائیوں کا خاتمہ کر دے گا تو وہ برائیوں اور پستیوں کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں اور خود کوئی قدم نہ اُٹھائیں بلکہ خاموش رہیں اور ظلم و ستم کو دیکھتے رہیں!

لیکن یہ نظریہ ایک سطحی اور معمولی ہے، نیز اس میںوقت نظر سے کام نہیں لیا گیا ہے کیونکہ امام مہدی علیہ السلام کے انتظار کے سلسلہ میں بیان ہونے والے مطالب کے پیش نطر روشن ہے کہ انتظار کا مسئلہ اپنی بے مثال خصوصیات اور امام مہدی علیہ السلام کی بے مثال عظمت کے پیش نظر نہ صرف انسان میں جمود اور بے توجہی پیدا نہیں کرتا بلکہ تحریک اور شکوفائی کا بہترین وسیلہ ہے۔

انتظار، منتظر میں ایک مبارک اور بامقصد جذبہ پیدا کرتا ہے اور منتظر جتنا بھی انتظار کی حقیقت کے نزدیک ہوتا جاتا ہے مقصد کی طرف اس کی رفتار بھی اتنی ہی تیزہوتی جاتی ہے۔ انتظار کے زیر سایہ انسان خود پرستی سے آزاد ہو کر خود کو اسلامی معاشرہ کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔ لہٰذا معاشرہ کی اصلاح کے لئے حتی الامکان کوشش کرتا ہے اور جب معاشرہ ایسے افراد سے تشکیل پاتا ہو تو پھر اس معاشرہ میں فضیلت اور اقدار رائج ہونے لگتی ہیں اور معاشرہ کے سب لوگ نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں اور ایسے ماحول میں جو کہ اصلاح، کمال، اُمید اور نشاط بخش فضا اور تعاون و ہمدردی کا ماحول ہے، دینی عقائد اور مہدوی نظریہ معاشرہ کے افراد میں پیدا ہوتا ہے اور اس انتظار کی برکت سے منتظرین فساد اور برائیوں کے دلدل میں نہیں پھنستے بلکہ اپنی دینی حدود اور عقائدی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ انتطار کے زمانہ میں پیش آنے والی مشکلات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خداوند عالم کے وعدہ کے پورا ہونے کی اُمید میں ہر مصیبت اور پریشانی کو برداشت کر لیتے ہیں اور کسی بھی وقت سستی اور مایوسی کے شکار نہیں ہوتے۔

واقعاً کونسا ایسا مکتب ہو گا جس میں اس کے ماننے والوں کے لئے ایک روشن مستقبل پیش کیا گیا ہو؟ ایسا راستہ جو الٰہی نظریہ کے تحت طے کیا جاتا ہو جس کے نتیجہ میں اجر عظیم حاصل ہوتا ہو، یہ مکتب، اہل البیت علیہ السلام کا ہی ہے جس کے پیروشیعہ ہیں۔

انتظار کرنے والوں کے لئے ثواب

خوش نصیب ہے وہ شخص جو نیکیوں کے انتظار میں نظریں بچھائے ہوئے ہے۔ واقعاً کتنا عظیم ثواب ہے ان لوگوں کے لئے جو امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت کا انتظار کرتے ہیں اور کس قدر عظیم رتبہ ہے ان لوگوں کا جو قائم آل محمد علیہم السلام کے حقیقی منتظر ہیں۔ مناسب ہے کہ انتظار کی گفتگو کے آخر میں جام انتظار نوش کرنے والوں کی بے مثال فضائل اور سنان کو بیان کریں اوراس بارے معصومین علیہم السلام کے بیانات کو آپ حضرات کے سامنے پیش کریں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”ائم آل محمد کے وہ شیعہ خوش نصیب ہیںجو غیبت کے زمانہ میں ان کے ظہور کا انتظار کریں گے اور ان کے ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت اور پیروی کریںگے، یہی لوگ خداوند عالم کے محبوب ہیں جن کے لئے کوئی غم و اندوہ نہ ہو گا“۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۳۳ ، ح ۴۵ ، ص ۹۳)

واقعاً اس سے بڑھ کر ان کے لئے اور کیا فضیلت ہو گی کہ جن کے سینہ پر خداوند عالم کی دوستی کا تمغہ ہو، اور وہ کیوں کسی غم و اندوہ میں مبتلا ہوں حالانکہ ان کی زندگی اور موت دونوں کی قیمت بہت بلند و بالا ہے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:”جو شخص ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت پر قائم رہے تو خداوند عالم اس کو شہدائے بدر و اُحد کے ہزار شہیدوں کا ثواب عطا کرے گا“ ۔ ( کمال الدین، ج ۲ ، باب ۱۳ ، ح ۶ ، ص ۲۹۵)

جی ہاں! غیبت کے زمانہ میں جو لوگ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی ولایت اور اپنے امام سے کئے ہوئے عہد و پیمان پر باقی رہیں تو وہ ایسے فوجی ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ مل کر دشمنان خدا سے جنگ کی ہو اور اس کارزار میں اپنے خون میںنہائے ہوں! وہ منتظرین جو فرزندہ رسول امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار میں جان برکف کھڑے ہوئے ہیں وہ ابھی سے جنگ کے میدان میں اپننے امام کے ساتھ موجود ہیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”اگر تم (شیعوں میں) سے کوئی شخص (امام مہدی علیہ السلام) کے ظہور کے انتظار میں مر جائے تو وہ شخص گویا اپنے امام علیہ السلام کے خیمہ میں ہے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے تھوڑا صبر کرنے کے بعد فرمایا: بلکہ اس شخص کی طرح ہے جس نے امام علیہ السلام کے ساتھ مل کر جنگ میں تلوار چلائی ہو اور اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم کہ وہ اس شخص کی طرح ہے جو رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی رکاب میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوا ہو“۔ (بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۶۲۱)

یہ وہ لوگ ہیں جن کو پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے صدیوں پہلے اپنا بھائی اور دوست قرار دیا ہے اور ان سے اپنی قلبی محبت اور دوستی کا اعلان کیا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”ایک روز پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: پالنے والے! مجھے میرے بھائیوں کو دکھلا دے اور اس جملہ کو دو بار تکرار کیا، آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب نے کہا: یا رسول اﷲ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟

آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: تم لوگ میرے اصحاب ہو لیکن میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو آخر الزمان میں مجھ پر ایمان لائیں گے جبکہ اُنہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہو گا! خداوند عالم نے ان کا نام مع ولدیت مجھے بتایا ہے........ ان میں سے ہر ایک کا اپنے دین پر ثابت قدم رہنا اندھیری رات میں ”گون“ نامی درخت سے کانٹا توڑنے اور دہکتی ہوئی آگ کو ہاتھ میں لینے سے کہیں زیادہ سخت ہے، وہ ہدایت کے مشعل ہیں جن کو خداوند عالم خطرناک فتنہ و فساد سے نجات عطا کرے گا“۔(بحارالانوار، ج ۲۵ ، ص ۳۲۱)

نیز پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خوس نصیب ہے وہ شخص جو ہم اہل بیت کے قائم کو پائے، حالانکہ وہ ان کے قیام سے پہلے ان کی اقتداءکرتے ہیں، وہ لوگ ان کے دوستوں کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کرتے ہیں، نیز ان سے پہلے ہم سے محبت رکھتے ہیں، وہ میری حب اور مودّت کے مالک ہیں وہ میرے نزدیک میری اُمت کے سب سے گرامی افراد ہیں“۔ (کمال الدین، ج ۱ ، باب ۵۲ ، ح ۲ ، ص ۵۳۵)

لہٰذا جو افراد پیغمبر اکرم (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے نزدیک اتنا عظیم مرتبہ رکھتے ہیں اور وہی خداوند عالم کے خطاب سے مشرف ہوں گے اور وہ بھی ایسی آواز جو عشق و محبت ے بھری ہو گی اور جو خداوند عالم سے نہایت قربت کی عکاسی کرتی ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”ایک زمانہ وہ آئے گا کہ مومنین کا امام غائب ہو گا، پس خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس زمانہ میں ہماری ولایت پر ثابت قدم رکھے، بے شک انکی کم سے کم جزا یہ ہو گی کہ خداوند عالم ان سے خطاب فرمائے گا: اے میرے بندو! تم میرے راز (اور امام غائب) پر ایمان لائے ہو، اور تم نے اس کی تصدیق کی ہے، پس میری طرف سے بہترین جزا کی بشارت ہو، تم حقیقت میں میرے بندے ہو، تمہارے اعمال کو قبول کرتا ہوں اور تمہاری خطاو ں سے درگزر کرتا ہوں اور تمہاری (برکت کی) وجہ سے اپنے بندوں پر نازل کرتا ہوں اور بلاو ں کو دور کرتا ہوں اگر تم (لوگوں کے درمیان) نہ ہوتے تو پھر (گنہگار لوگوں پر) ضرور عذاب نازل کر دیتا “ (کمال الدین، ج ۱ ، باب ۳۲ ، ح ۵۱ ، ص ۲۰۶) لیکن ان انتظار کرنے والوں کو کسی چیز کے ذریعہ آرام اور سکون ملتا ہے اور ان کی انتظار کی گھڑیاں کب ختم ہو گی؟ کس چیز سے ان آنکھوں میں ٹھنڈک ملے گی ، اور ان کے بے قرار دلوں کو کب چین و سکون ملے گا؟ کیا جن لوگوں نے عمر بھر انتظار کے راستہ پر قدم بڑھایا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اسی راستہ پر گامزن رہے ہوںتاکہ مہدی منتظر (علیہ السلام) کے سرسبز چمن میں قدم رکھیں اور اپنے محبوب و معشوق کی ہم نشینی سے کم پر راضی نہ ہوں؟ اور واقعاً اس سے بہترین اور کیا انجام ہو سکتا ہے اور اس سے بہتر اور کونسا موقع ہو سکتا ہے؟

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

”خوش نصیب ہیں ہمارے وہ شیعہ جو ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ہماری دوسری کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور ہم سے دوستی رکھیں اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کریں، وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے، وہ ہماری امامت و رہبری پر راضی ہیں (اور ہماری امامت کو قبول کرتے ہیں) اور ہم بھی ان کے شیعہ ہونے سے راضی اور خوشنود ہیں۔ خوش نصیب ہیں! خدا کی قسم! یہ افراد روز قیامت ہمارے ساتھ ہمارے مرتبہ میں ہمارے ساتھ ہوں گے“۔ (کمال الدین، ج ۲ ، باب ۴۳ ، ح ۵ ، ص ۳۴)

درس کا خلاص:

انتظار کا معنی چشم براہ ہونا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان بے پرواہ نہ ہو بلکہ انتظار کے مقصد کے لئے کوشش کرے۔

روایات میں ظہور مہدی علیہ السلام کے انتظار کی ایک بہترین عمل کے عنوان سے توصیف کی گئی ہے۔

ظہور مہدی علیہ السلام کے انتظار کی خصوصیات ظہور کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے عزم و اشتیاق پیدا کرتی ہے بالفاظ دیگر منتظرین کی روح میں عدالت و نشاط پیدا کرتی ہیں۔

ظہور مہدی علیہ السلام کا انتظار انسان کی فردی و اجتماعی جہت میں بہت سے اثار و ثمرات رکھتا ہے۔

منتظرین کے اہم ترین وظائف امام علیہ السلام کی شناخت، ان سے اسوہ لینا، حضرت کی یاد، اور ان کے ہمقدم ہونا ہے۔

روایات کی رو سے منتظرین کا اجر شہدائے صدر اسلام کے اجر کے مساوی شمار کیا گیا ہے۔

درس کے سولات:

۱ ۔ انتظار کا معنی اور امام علیہ السلام کے انتظار کی خصوصیات بیان کریں؟

۲ ۔ انتظار کی جہات بیان کریں؟

۳ ۔ منتظرین ظہور کے اہم ترین وظائف میں سے تین موارد کی تشریح کریں؟

۴ ۔ انتظار کے فرد و معاشرتی آثار کیا ہیں؟

۵ ۔ امام سجاد علیہ السلام نے ولایت اہل بیت علیہم السلام پر ثابت قدم منتظرین کے اجر کو کس چیز کے مساوی بیان کیا ہے؟